گریتا تونبرگ سولہ برس پہلے تین جنوری دو ہزار تین کو سویڈش صحافی باپ اور اوپرا گلوکارہ ماں سے پیدا ہوئی۔دو ہزار چودہ میں گیارہ سالہ گریتا نے پہلی بار عالمی ماحولیاتی بحران کی اصطلاح سنی اور جب اس نے اس بارے میں پڑھنا شروع کیا تو پہلا سوال یہ ذہن میں آیا کہ اگر یہ اتنا ہی سنگین بحران ہے تو اس دنیا کے عاقل بالغ لوگ اب تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے کیوں بیٹھے ہیں ؟گریتا نے چار برس مزید انتظار کیا اور پھر وہ اگست دو ہزار اٹھارہ میں ایک پلے کارڈ لے کر سویڈش پارلیمنٹ کے سامنے کھڑی ہو گئی۔اس پلے کارڈ پر درج تھا ’’ تم تو چلے جاؤ گے ہمارا کیا ہوگا‘‘۔
یہاں سے اسکول کلائمٹ اسٹرائیک موومنٹ کی بنیاد پڑی اور اس کے تحت ’’فرائیڈے فار فیوچر‘‘کی تحریک شروع ہوئی۔گریتا کے ہم نوا بچوں نے ہر جمعہ کو اسکول جانے کے بجائے پارلیمنٹ کے سامنے خاموش مظاہرے میں حصہ لینا شروع کیا۔ گریتا پچھلے ایک برس میں کل وقتی ماحولیاتی ایکٹوسٹ بن گئی ہے۔اس کا اسکول اس کا بھرپور ساتھ دے رہا ہے۔وہ پورا ہوم ورک کرتی ہے مگر اسکول آنے سے مستثنیٰ کر دی گئی ہے۔
پچھلے ایک برس میں گریتا کی آواز دنیا کے لگ بھگ ڈیڑھ سو ممالک کے بچوں تک پہنچی اور انھوں نے بھی ’’فرائیڈے فار فیوچر‘‘کے تحت ماحولیاتی آگہی کی مہم میں حصہ لینا شروع کر دیا۔اس تحریک کا نقطہِ عروج بیس تا ستائیس ستمبر ’’ عالمی کلائمٹ اسٹرائیک ویک‘‘ کی صورت میں نکلا جب دنیا کے طول و عرض میں تین ملین بچے کرہِ ارض کو بچاؤ کے نعرے کے تحت ریلیوں میں شرکت کر رہے ہیں۔
گریتا پچھلے ایک برس میں یورپئین،برطانوی و اطالوی پارلیمانوں اور ڈیوس اکنامک فورم سمیت کئی بین الاقوامی اداروں میں جا کر اونگھتے سیاستدانوں اور کارپوریٹ دنیا کے آقاؤں کو جگانے کی کوشش کر چکی ہیں۔
گزشتہ روز گریتا تونبرگ نے نیویارک میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کی دعوت پر عالمی ماحولیات بچاؤ کانفرنس سے بحیثیت مہمان مقرر خطاب کیا۔ گریتانے اس کانفرنس میں شرکت کے لیے برطانوی بندرگاہ پلائی متھ سے نیویارک تک ڈھائی ہزار ناٹیکل میل کا دو ہفتے کا سفر شمسی توانائی سے چلنے والی ایک کشتی میں اپنے والد اور چند ساتھیوں کے ہمراہ طے کیا۔
گریتا ہوائی جہاز سے سفر نہیں کرتیں کیونکہ ان کے خیال میں طیارہ سب سے زیادہ کاربن خارج کرنے والی مشینوں میں سے ایک ہے۔جب کہ اقوامِ متحدہ نے وارننگ دی ہے کہ اگر دو ہزار تیس میں سب ملکوں نے کرہِ ارض کے درجہ حرارت کو تیزی سے بڑھانے والی کاربن گیس میں پچاس فیصد اور دو ہزار پچاس تک سو فیصد کمی نہ کی تو پھر کرہِ ارض کی بقا کے لیے کوئی بھی کرتب کام نہ آ سکے گا۔
ایک جانب توگریتاہوائی جہازسے سفر نہیں کرتی۔ دوسری طرف بے حسی کا یہ عالم ہے کہ ابھی دو ماہ قبل جولائی میں گوگل کے تحت سسلی میں جو ماحولیات بچاؤ کانفرنس ہوئی اس میں دنیا کی مشہور اور بااثر کاروباری شخصیات کو مدعو کیا گیا۔یہ شخصیات ایک سو پچیس ذاتی طیاروںاور پٹرول کھانے والی لگژری کشتیوں میں سسلی کے تفریحی مقام وردورا تشریف لائیں۔
جو طیارے سسلی میں اترے ان میں گلوبل جیٹ ، گلف اسٹریم اور ذاتی بوئنگ سات سو سینتیس ساختہ طیارے شامل تھے۔ایک بوئنگ سات سو سینتیس میں پچیس ہزار لیٹر تیل بھرا جاتا ہے۔اس سے خارج ہونے والی توانائی ایک اوسط درجے کے افریقی قصبے کی سال بھر کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔
ماحولیاتی تباہی کو ایک افسانہ سمجھنے والے ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنے ذاتی بوئنگ سات سو سینتیس میں فخریہ سفر کرتے ہیں۔اور کیوں نہ کریں۔امریکا کو ماحولیاتی درجہِ حرارت میں کمی سے متعلق دو ہزار پندرہ کی پیرس کانفرنس کے وعدوں سے دستبردار کرنے اور امریکی تیل کمپنیوں کو سالانہ سات سو ارب ڈالر کی سبسڈی دینے والے ٹرمپ کا حق بنتا ہے کہ وہ کرہِ ارض کے درجہِ حرارت میں اضافے کے موجب اپنے ذاتی طیارے میں بن داس دندناتے گھومیں۔
اب سے چھ دن پہلے ( اٹھارہ ستمبر ) گریتا تونبرگ نے واشنگٹن میں امریکی کانگریس کی ماحولیاتی کمیٹی سے خطاب کیا۔اس خطاب کو سن کے ہم سب کو شرم سے منہ چھپا لینا چاہیے۔میں اس خطاب کو پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔
’’ معزز ارکانِ کانگریس، میرا نام گریتا تونبرگ ہے، میری عمر سولہ سال اور تعلق سویڈن سے ہے جس کا شمار کاربن پیدا کرنے والے دس چوٹی کے ممالک میں ہوتا ہے۔آپ کے امریکا کو خوابوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔میرا بھی ایک خواب ہے کہ حکومتیں،سیاستدان،کثیرالقومی کارپوریشنز اور میڈیا تمام تر باہمی اختلافات کے باوجود موسمیاتی تبدیلیوں کو ایک بقائی ایمرجنسی کے طور پر قبول کریں اور اس کرہِ ارض پر باوقار طریقے سے انسانوں کے زندہ رہنے کے حق کے تحفظ میں اپنا ہر ممکن کردار نبھائیں۔
میرے جیسے بہت سے بچے دوبارہ اسکول اور گھر جانا چاہتے ہیں۔مگر یہ سوچ کر نہیں جا رہے کہ ایسی تعلیم کا کیا فائدہ جو دنیا کو ہی نہ بچا سکے۔جو ہم میں یہ بنیادی سمجھ ہی نہ جگا سکے کہ جس گھر کو آگ لگ جائے اسے دور کھڑے دیکھنا نہیں بلکہ بچانا ہے۔میں بھی بہت سے خواب دیکھنا چاہتی ہوں مگر دو ہزار انیس خواب دیکھنے کا نہیں جاگنے کا سال ہے۔یہ آنکھیں پوری طرح کھلی رکھنے کا تاریخی لمحہ ہے۔سچ ہے کہ ہم خوابوں کے بغیر نہیں رہ سکتے مگر ہر بات کا ایک موقع محل بھی تو ہوتا ہے۔
میں اب تک جہاں جہاں گئی، جس جس سے ملی اس نے مجھے دل لبھانے والی کہانیاں سنائیں۔کاروباری لوگ اور سیاستداں مجھے بتاتے ہیں کہ ہم کس طرح اپنے مسائل ایک دن حل کر لیں گے اور دنیا پھر سے خوبصورت ہو جائے گی۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ہم ایک بہتر دنیا کا تصور کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔لیکن یہ وقت جاگنے کا ہے، تلخ حقائق کا سامنا کرنے کا ہے اور سائنس کے ہم قدم چلنے کا ہے۔یہ درپیش مصیبت کو انسانی بقا کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھ کر اس پر یقین کرنے کا وقت ہے۔مزید باتیں بنانے کا کوئی فائدہ نہیں، اگر ہم اپنی عادتیں بدلنے کی کوشش نہ کریں۔
ہمارے پاس صرف بارہ برس باقی ہیں،کاربن ڈائی اکسائیڈ کا اخراج پچاس فیصد کم کرنے کے لیے۔اس کے بعد بھی ماہرین کہتے ہیں کہ صرف پچاس فیصد امکان ہے کہ ہم بچ سکیں۔ پچاس فیصد امکان سوچنے میں بہت لگتا ہے۔مگر کیا آپ کسی ایسے طیارے میں سفر کرنا پسند کریں گے جس کا پائلٹ یہ اعلان کرے کہ اس طیارے کے منزل پر پہنچنے کے امکانات پچاس فیصد ہیں یا آپ اپنے بچوں کو ایسے کسی طیارے میں بٹھانا چاہیں گے ؟
اس وقت پوری دنیاسالانہ بیالیس گیگا ٹن کاربن ڈائی اکسائیڈ خارج کر رہی ہے۔اقوامِ متحدہ کی تازہ ترین ماحولیاتی رپورٹ میں صاف صاف خبردار کیا گیا ہے کہ اب دنیا کے پاس صرف چار سو بیس گیگا ٹن کاربن خارج کرنے کی اضافی گنجائش باقی ہے۔اس کے بعد ایک گیگا ٹن کاربن کا اخراج بھی اجتماعی خود کشی کے گیس چیمبر میں داخل ہونے جیسا ہوگا۔ اس اعتبار سے اب ہمارے پاس اضافی کاربن کے اخراج کے لیے صرف ساڑھے آٹھ برس کا کوٹہ بچا ہے۔ یہ میری ذاتی رائے نہیں بلکہ وہ ٹھوس سائنسی سچ ہے جسے اقوامِ متحدہ نے بالاتفاق تسلیم کیا ہے۔
امریکا اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ تیل اور سب سے زیادہ کاربن پیدا کرنے والا ملک ہے۔اس کے باوجود آپ نے ( ٹرمپ ) پیرس کے عالمی ماحولیاتی سمجھوتے سے یہ کہہ کر علیحدگی اختیار کر لی کیونکہ آپ کے خیال میں یہ ’’امریکی مفادات کے لیے ایک برا سمجھوتہ‘‘ ہے۔ ہم کیسے وہ مسئلہ حل کر سکتے ہیں جس کے بارے میں ہم پوری طرح جاننے سے ہی انکار کر دیں۔ہم پوری تصویر دیکھے بغیر کیسے کسی تصویر کے بارے میں حتمی رائے دے سکتے ہیں ؟ یہ تو بہت ہی خطرناک رویہ ہے۔
ہماری کوئی بھی سوچ ہو، کسی بھی طرح کا سیاسی پس منظر ہو، دونوں صورتوں میں ہم کیسے کسی بقائی مسئلے کو محض سیاست کی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں ؟ یہ وہ بحران ہے جو کسی بھی سیاست یا نظرئیے سے بالا ہے۔ہمارا فوری دشمن اس وقت کوئی سیاسی حریف نہیںبلکہ فزکس ہے۔کیا ہم فزکس سے ثابت حقائق سے بھی سودے بازی کر سکتے ہیں؟ یہ کوئی سیاسی لڑائی نہیں جسے ہارنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔یہ تمہارے بچوں کی بقا کا سوال ہے۔لہٰذا خواب دیکھنا اور دکھانا بند کرو اور سائنسی حقائق کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔
امریکا نے کب ناممکن کو ممکن نہیں کر دکھایا ؟ بھلے وہ دوسری عالمی جنگ میں نارمنڈی کے ساحل پر اترنے کا ناممکن کام ہو یا ساٹھ کے عشرے میں چاند پر اترنے کا کارنامہ۔ کیا تم ایسی شاندار روایات کے امین ہونے کے باوجود ماحولیاتی ناممکن کو ممکن بنانے کی لڑائی سے پیچھے ہٹ سکتے ہو؟آپ سب کا بہت شکریہ ‘‘۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
The post تم تو چلے جاؤ گے ہمارا کیا ہوگا ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2mjVGjS
via IFTTT
No comments:
Post a Comment