Sunday, November 3, 2019

’چوہدری شجاعت حسین، پنجابی زبان کی سیاسی پہچان‘  ایکسپریس اردو

اکبر بگٹی کی موت کے گزشتہ روز جنرل پرویزمشرف نے مری میں ایک اعلیٰ سطح کی میٹنگ طلب کی۔ ایک  صاحب نے شرکا کو بتایا کہ اکبر بگٹی کی موت پر کوئٹہ میں لوگ بہت خوش ہیں اور مٹھائیاں بانٹ رہے ہیں ، لہٰذا ان کے جنازے پر بھی لوگ نہیں آئیں گے۔چوہدری شجاعت کہتے ہیں کہ مجھ سے ضبط نہ ہوا اور میں نے کہا، اب جو میں  پنجابی شعر آپ کو سنانے لگا ہوں ، اس کا ترجمہ آپ جنرل صاحب کو بتا دیں ۔انھوں نے میاں محمد بخش کا یہ مصرع پڑھا    ؎

دشمن مرے تے خوشی نہ کریے، سجناں وی مرجاناں

چوہدری شجاعت حسین پنجاب کے واحد سیاست دان ہیں، جوصرف عوام میں نہیں، خواص میں بھی بلاتکلف اور بغیر کسی احساس کہتری کے، پنجابی بولتے ہیں، بلکہ پنجابی ان کی سیاسی پہچان بن چکی ہے۔ ان سے منسوب بعض پنجابی جملے زبان زدِ خاص وعام ہو چکے ہیں۔ چوہدری صاحب اپنے ٹھیٹھ پنجابی لب ولہجہ سے پنجابی کی وہ خدمت کر رہے ہیں، جو اس کی ترقی وترویج کے لیے لکھی جانے والی بھاری بھرکم کتابوں پر بھی بھاری ہے۔

اس طرح چوہدری پرویزالٰہی نے اپنی وزارت اعلیٰ میں پنجابی زبان وادب کی ترقی کے لیے پنجابی انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈکلچر کے نام سے ایک مستقل ادارہ قائم کر دیا۔ پنجابی سے چوہدری شجاعت حسین کو یہ محبت ورثہ میں ملی ہے۔ان کے پردادا چوہدری حیات محمد خاں علم دوست زمیندار تھے۔ پنجابی زبان وادب کے ساتھ تصوف سے بھی لگاو رکھتے تھا۔ مقامی شاعر میاں محمد قادری نے ان کی فرمایش پر ہی تصوف کے رنگ میں ’’مرزا صاحباں‘‘ لکھی تھی۔

چوہدری حیات محمد خاں کے بعدان کے بیٹے چوہدری سردارمحمد خاں کو بھی پنجابی سے لگاو تھا۔ والد کے جمع کردہ پنجابی ذخیرہ کتب کو انھوں نے بہت سنبھال کر رکھا، لیکن جب گائوں دریا کے کٹاو کی زد میں آیا تو اس کی دست برد سے ’’مرزا صاحباں‘‘ کا یہ قصہ ہی محفوظ رہ سکا۔ چوہدری شجاعت حسین کی فرمایش پر پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر نے2007 میں اسے از سر نو شایع کیا۔ چوہدری ظہورالٰہی تو پنجابی زبان کے دلدادہ تھے۔

میاں محمد بخش کا بے شمار کلام ان کو زبانی یاد تھا۔ والد سے یہ محبت چوہدری شجاعت حسین کو منتقل ہوئی۔ ان کو شعر تو یاد نہیں رہتے، لیکن پنجابی محاوروں اور اصطلاحات کا بڑا برمحل اور پرلطف استعمال کرتے ہیں۔2007میں جب سپریم کورٹ نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کر دیا اور جنرل مشرف نے چوہدری شجاعت حسین سے مشورہ مانگا کہ اب کیا کریں تو چوہدری صاحب نے بے ساختہ کہا، ابھی گاڑی نکالیں، چیف جسٹس کے گھر جائیں اور ان کو ’’جپھا‘‘ ڈال لیں۔

یہ جپھا کیا ہوتا ہے، جنرل مشرف نے پوچھا۔ گلے لگانے کو کہتے ہیں، چوہدری صاحب نے کہا۔ پنجابی شاعر استاد دامن کی چوہدری ظہورالٰہی سے بڑی دوستی تھی۔ ان کے بعد شجاعت حسین اور پرویزالٰہی بھی ان کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ آزادی کے کچھ عرصہ بعد استاد دامن بھارت ایک مشاعرہ میں شرکت کے لیے گئے۔ وہاں وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو بھی موجود تھے۔ استاد دامن کی نظم نے حاضرین کو رلا دیا

لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے

روئے تسی و ی او روئے اسی وی آں

’’ایوب خان دور میں پنڈت نہرو لاہور آئے تو انھوں نے گورنر اختر حسین سے کہا، میں استاد دامن سے ملنا چاہتا ہوں۔ گورنر نے کہا، وہ کون ہیں۔ نہرو بڑے حیران ہوئے۔ گورنر کے اے ڈی سی استاد دامن کو جانتے تھے۔ انھوں نے کہا، میں پنڈت صاحب کی استاد دامن سے ملاقات کا بندوبست کرتا ہوں۔ استاد دامن کو معلوم ہوا کہ پنڈت نہروان سے ملنا چاہتے ہیں تو وہ بہت خوش ہوئے۔ لیکن اس دوران جب کہ استاد دامن تیار ہو رہے تھے، اے ڈی سی کے منہ سے نکل گیا، گورنر صاحب تو آپ کو جانتے نہیں تھے، پھر میں نے ان کو آپ کے بارے میں بتایا۔ استاد نے وہیں تیاری روک دی اور کہا کہ جہاں اختر حسین جیسا شخص بیٹھا ہو گا، میں وہاں نہیں جا سکتا۔ آپ پنڈت صاحب کو کہہ دیں کہ میں ان سے کہیں اور مل لوں گا۔ شالا مار باغ میں پنڈت نہروکے اعزاز میں تقریب تھی۔

استاد کو معلوم ہوا تو وہ بھی پہنچ گئے۔ بکل مار رکھی تھی۔ جیسے ہی پنڈت نہرو گاڑی سے اترے، استاد دامن جھٹ سے آگے بڑھے، ان کے گلے میں ہار ڈالا اور اس سے پہلے کہ پولیس ان تک پہنچتی، وہاںسے دوڑ لگا دی۔ پنڈت نہرو بھی یہ منظردیکھ بڑے محظوظ ہوئے۔‘‘ چوہدری شجاعت حسین لحظہ بھر کو رکے اور پھر بولے، ’’یہ واقعہ بھی خود انھی کی زبانی سنا کہ ایک روز صبح چار بجے ایک آدمی ان کے کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے اپنا چہرہ ڈھانپ رکھا تھا۔ جب اس نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا تو معلوم ہوا کہ وہ سکھ ہے۔ کہنے لگا، میں غیر قانونی طور پر بارڈر پار کر کے آیا ہوں۔ میں نے یہ کتاب لکھی ہے، آپ ابھی اس کا دیباچہ لکھ دیں۔ میں نے دن چڑھنے سے پہلے واپس پہنچنا ہے ۔استاد دامن نے کہا، لکھو

چھڈ دے سارے  چمبڑ چیڑے

کردے بند کتاباں

سوجھ بوجھ دی ایسی تیسی

گھٹ گھٹ کرکے پی

استاد نے پوچھا، تمھارا نام؟ سکھ نے کہا، لہنا سنگھ۔ اس نے جاتے جاتے پوچھا، استاد جی، تخلص کیا رکھوں؟ استاد دامن نے بے ساختہ کہا، لہنا سنگھ دھت۔‘‘

چوہدری شجاعت حسین نے ایک بار بتایا کہ ’’والد صاحب کی شہادت کے بعد میں اور پرویزالٰہی تقریباً ہر مہینے استاد دامن سے ملنے ٹکسالی گیٹ ان کے گھر جایا کرتے تھے۔ جب ہم ان سے ملنے جاتے تو ہمارے لیے اپنے ہاتھوں سے یہ پلاوبناتے تھے، ایک بار میرے والد نے ان کو کسی نہ کسی طرح راضی کر لیا کہ راوی روڈ کے ساتھ ہماری فیکٹری کے ساتھ جو خالی جگہ ہے، اس پر ان کے لیے دو صاف ستھرے کمرے بنا دیے جائیں۔کمروں کی تعمیر شروع ہو گئی۔ استاد دامن روزانہ اسی راستے سے دریائے  راوی کی سیر کے لیے جاتے تھے۔ واپسی پر وہ مستریوں مزدوروں کو ہدایات بھی دیتے جاتے تھے ۔ جب دونوں کمرے تیار ہو گئے، بلکہ سفیدی کا کام بھی مکمل ہو گیا تو استاد دامن نے وہاں رہنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ مجھے نہرو نے بھی عیش کی زندگی گزارنے کی پیش کش کی، میں نے ان کو بھی انکار کر دیا تھا۔ میرا فیصلہ اب بھی یہی ہے کہ میں اسی کٹیا میں مروں گا ، جہاں میں نے اپنی زندگی گزاری ہے۔‘‘

جب کبھی قذافی اسٹیڈیم سے پاس سے گزرے ہوئے پنجابی انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج ، آرٹ اینڈ کلچر کی پرشکوہ عمارت کو دیکھتا ہوں تو اس سے جڑی ہوئی پنجابی سے محبت کی یہ کہانی جو چوہدری حیات محمد خان سے لے کر چوہدری شجاعت حسین تک پھیلی ہوئی ذہن میں تازہ ہو جاتی ہے۔ پیر فضل گجراتی نے کہا تھا

’سخن ور‘ ہر دور وچ کوئی نہ کوئی

رب بخشدا رہیا گجراتیاں نوں

The post ’چوہدری شجاعت حسین، پنجابی زبان کی سیاسی پہچان‘  appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2JLWbME
via IFTTT

No comments:

Post a Comment