یہ باتیں اور مناظر کم ازکم میری نسل کے لیے بالکل بھی نئے نہیں لہذا اس پر بات کیسی اور پھر ایسی باتوں پے حیرت کیسی۔جب گھر کا مرد کام پر اور بچے اسکول روانہ ہو جاتے تو عورتیں برتن اور کام کاج سمیٹ سبزی ترکاری خریدنے کاٹنے کے بعد وقت گذاری کے لیے پچھلی گلی میں کھلنے والے اپنے اپنے دروازے پر کھڑی ہو جاتیں اور پھر باتیں شروع ہو جاتیں۔
اپنے اپنے مردوں کی اچھائی برائی، بچوں کی بیماری آزاری ، مہنگائی ، فلانی کا فلانے سے آنکھ مٹکا، ماسٹر جی کی لونڈیا کے لچھن اور پر کٹی بھنگن کے نخروں سے ہوتی ہواتی غیبت کے چراغ جلاتی ایک دوسرے پر طعنہ زنی اور بعض اوقات رنڈی چھنال ، اپنی شکل دیکھی ہے تو نے کمینی، جوتا مار دوں گی منہ پر جو ایک لفظ بھی اور اس منحوس منہ سے نکالا ، اے ہے ذرا ایک قدم آگے تو آ جھونٹے پکڑ کے اسی گلی میں نہ گھسیٹ دیا تو نام عرق النسا نہیں وغیرہ وغیرہ تک آن پہنچتی اور پھر دو چار کواڑ دھڑ سے بند ہونے یا کھلنے کی آوازیں آتیں اور دوپہر کا سکوت چھا جاتا۔
ذرا دیر بعد بچے اسکول سے واپس آنے شروع ہو جاتے۔ان کی کھلائی پلائی ہوتی ، چھوٹے بچے سو جاتے اور بڑے بچے سائے لمبے ہونے کے ساتھ ہی یا تو ٹیوشن پر یا پھر ساتھ والے میدان میں کھیلنے چلے جاتے۔چنانچہ پچھلی گلی میں کھلنے والے کواڑوں پر دوپہر کو جو پارلیمانی سیشن بدمزگی کے ساتھ ختم ہوا تھا وہ دوبارہ شروع ہو جاتا۔کوئی عورت کسی سے نہیں پوچھتی تھی کہ دوپہر کو بدمزگی کیوں ہوئی تھی۔
پھر سے وہی گفتگو جو صبح کے سیشن کی طرح دھیمے خوشگوار سروں میں ہنسی مذاق کے ساتھ شروع ہوتی اور پھر گالم گلوچ کی سیڑھی پر چڑھتی جاتی تاآنکہ ملازمت پیشہ اور کام کاج پر گئے گھر کے مردوں کی واپسی شروع ہو جاتی اور خالو سلام ، چچا آداب، بھائی صاحب کیسے ہیں، جیتی رہو ، جیتے رہو کے ساتھ ساتھ پچھلی گلی کے پٹ بند ہوتے چلے جاتے۔
مغرب کے بعد کبھی کبھار کسی گھر کے اندر سے مردانہ گالیوں کی آوازیں ، کبھی تھپڑ یا لات مکی اور اس کے ساتھ ہی کوئی روتی ہوئی مسلسل باریک سی آواز، کبھی دیوار سے سر ٹکرانے کی دھمک یا کبھی بلند ہوتے قہقہے اور کبھی ایک ساتھ سب بچوں بڑوں کی گفتگو کا شور آس پڑوس کو بھر دیتا۔ جوں جوں اندھیرا چھانے لگتا توں توں آوازوں کا دائرہ سمٹنے لگتا اور پھر ریڈیو یا ٹی وی یا پڑوس کی مسجد میں ہونے والی کسی محفل کی آواز محلے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی اور پھر بھیگتی رات کا سکوت تمام آوازوں کو فجر تک کمبل اوڑھا دیتا۔
اسی سے ملتا جلتا دوسرا منظر ان گھروں کا تھا جن میں آج کل کی زبان میں کمبائنڈ فیملی سسٹم تھا۔اس سسٹم کا مرکزی کردار نگاہ سے اوجھل ہوا نہیں کہ از قسمِ ساس ، بہو ، نند ، بڑا لڑکا یا دوسرے محلے سے آئی ہوئی کوئی خالہ پھوپھی، یا چھوٹے بچوں میں کسی کی بھی چھوٹی سی بات کو لے کر بحثم بحثی نکل پڑتی، پرانے گلے شکوے، اسکینڈل، گنوارو طعنے حسبِ معمول و طریقہ پہلے ایک یا دو سازوں کی صورت چھڑتے اور پھر کسی مغربی سمفنی آرکسٹرا کی طرح اس میں دوسرے ساز ملتے چلے جاتے۔
یوں آہنگ بلند ہوتا ہوتا آسمان چھونے لگتا کہ اچانک کسی ابا ، دادا یا سسر کی آواز گونجتی یہ کیا ہو رہا ہے ، شرم نہیں آتی جانوروں کی طرح لڑتے ہوئے، محلے والے کیا سوچ رہے ہوں گے ، ذرا سا موقع کیا ملتا ہے تم لوگ جاہلوں میں تبدیل ہو جاتے ہو ، جاؤ تم اپنے کمرے میں ، اور تم کیا دیدے پھاڑ پھاڑ کے دیکھ رہے ہو دفعان ہو جاؤ کہیں ، اور تم ابھی تک یہیں کھڑی ہو چھٹیا ، کوئی کام نہیں ہے تمہیں۔یہ میلے کپڑوں کا ڈھیر کون دھوئے گا۔اور پھر کچھ دیر کے لیے اس گھر پر قبرستان کا سا سکوت طاری ہو جاتا۔اور گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے بعد پھر ایک یا دو ساز بجنے شروع ہو جاتے ایک اور نئی جھگڑالو سمفنی اٹھانے کے لیے۔
یہ ہے وہ ماحول کہ جس کے خمیر سے ہماری اٹھان ہوتی ہے اور پھر پختہ ہوتی چلی جاتی ہے۔شائد ہم سب ایک ’’کنٹرولڈ کیاس ’’ یعنی منظم افراتفری کے وال کلاک میں لگی سوئیاں ہیں جو روزانہ بارہ بارہ گھنٹے کا دائرہ مکمل کرنے کے سوا نہ کچھ سوچ سکتی ہیں نہ کر سکتی ہیں۔
اور ہم سے ہی تشکیل پانے والی سیاسی جماعتیں دراصل مکان نمبروں کے فرق کے ساتھ پچھلی گلی میں کھلنے والے کواڑوں پر کھڑے وہ کردار ہیں کہ جن کی سوچ ، ڈھب ، زبان ، خیالات ، عمل اور ردِ عمل سمیت ایک ایک حرکت طے شدہ ہے۔ایسے میں ان سے کسی تازہ کاری یا نئے پن یا برسوں سے بچھائی گئی ذہنی پٹڑی سے اتر کر سوچنے کی توقع ایسے ہی ہے جیسے کسی بطخ سے اڑنے کی آس۔
یہ جماعتیں یا گروہ دراصل ان لڑکے لڑکیوں کی طرح ہیں جو جوانی کی ترنگ میں جانے کیا کیا خواب دیکھتے اور برملا بیان کرتے ہیں۔اگر فلاں سے شادی نہ ہوئی یا اگر فلاں نہ ملا تو میں کبھی کسی سے شادی نہیں کروں گی یا کروں گا۔میں زہر کھا لوں گا مگر ابا کی یہ بات ہرگز ہرگز نہیں مانوں گا۔ اور پھر ایک روز جب کوئی باپ یا بڑا بھائی یا ماں کہتے ہیںکہ تم کچھ بھی بکواس کرتے رہو تمہیں ڈاکٹر ہی بننا ہے یا ہم نے تمہارا رشتہ فلاں خاندان میں طے کر دیا ہے۔اب زبان دے دی ہے تو تمہیں ہمارا مان رکھنا ہی ہوگا۔
چنانچہ یہی لڑکا یا لڑکی جن کے باغیانہ خیالات ایک روز پہلے تک آسمان چھو رہے تھے منمنانے یا تھوڑے بہت ہاتھ پاؤں چلانے یا ٹسوے بہانے کے بعد جیسا ابا اماں یا بزرگ کہتے ہیں دستخط کر دیتے ہیں یا سر جھکا کے کندھے سے لگ جاتے ہیں۔
ہاں ان میں سے چند سرپھرے اپنی مرضی بھی چلاتے ہیں اور نافرمان و بد نسلے کہلاتے ہیں یا گھر سے بھاگ جاتے ہیں یا چھپ کے شادی کر لیتے ہیں۔مگر جب پکڑے جاتے ہیں تو سرپنچ انھیں کڑی سے کڑی سزا دیتا ہے تاکہ باقی نسل اور آنے والی نسل یاد رکھے اور سسٹم چلتا رہے۔
اور سرپنچ جس پنچایت کے نام پر یہ فیصلہ کرتا ہے ان میں سے بیشتر وہ ہوتے ہیں جنھوں نے کبھی نہ کبھی جوانی میں وہی کرنے کو سوچا تھا جو آج ان کے سامنے پیش ہونے والا لڑکا یا لڑکی کرنا چاہ رہے ہیں۔
محنت کی لوٹ سب سے خطرناک نہیں ہوتی
پولیس کی مار سب سے خطرناک نہیں ہوتی
غداری اور لوبھ کی مٹھی سب سے خطرناک نہیں ہوتی
بیٹھے بٹھائے پکڑے جانا برا تو ہے
سہمی سی چپ میں جکڑے جانا برا تو ہے
پر سب سے خطرناک نہیں ہوتا
کپٹ کے شور میں صحیح ہوتے ہوئے بھی دب جانا برا تو ہے
مٹھیاں بھینچ کے بس وقت نکال دینا برا تو ہے
پر سب سے خطرناک نہیں
سب سے خطرناک ہوتا ہے مردہ شانتی سے بھر جانا
تڑپ کا نہ ہونا ، سب سہن ( برداشت ) کر جانا
گھر سے نکلنا کام پر اور کام سے لوٹ کر گھر آنا
سب سے خطرناک ہوتا ہے ہمارے سپنوں کا مرجانا
(اوتار سنگھ پاش )
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
The post سب سے خطرناک ہے سپنوں کا مر جانا appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/36pmyBf
via IFTTT
No comments:
Post a Comment