تحریر کے عنوان سے بلاول بھٹو زرداری کی یاد تو ضرور آئی ہوگی؟ ایک سال کا عرصہ گزرا ہے جب موصوف نے بیان دیا تھا ’’جب بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے اور جب زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے‘‘۔
بلاول صاحب کا یہ بیان معلوماتی نوعیت کا تھا۔ گماں یہ ہے کہ شاید بلاول سمجھتے ہوں پاکستانیوں کو بالعموم اور کراچی کے لوگوں کو بالخصوص اس بنیادی بات کا علم ہی نہیں کہ بارش ہو تو پانی آتا ہے۔ اسی سادگی پہ غالب نے کہا تھا
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
یہ علمی بات بلاول صاحب کی یاد دہانی کے بعد راز نہیں رہی بلکہ زبان زدِ عام ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی مون سون آیا، بارش لایا، چہار سو پانی آیا، سندھ حکومت کو کچھ سمجھ نہ آیا۔
جاوید چوہدری نے اپنے کسی پرانے کالم میں لکھ رکھا ہے کہ ہم وہ بدنصیب قوم ہیں جو آدھا سال پانی سے مرتے ہیں اور آدھا سال بغیر پانی کے۔ موصوف کا یہ تجزیہ یقیناً مشاہداتی ہے اور درست بھی۔
ہم میں سے اکثر لوگوں نے گلی محلے کی مساجد میں آئمہ کرام کو بارش کےلیے دعا مانگتے سنا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اللہ رب العزت اپنے نیک بندوں کی پکار ہر وقت رد نہیں کرتا۔ دعا کی قبولیت کے بعد جب بارش برسے اور خوب برسے تو پھر ہمارے آئمہ کرام بارش روکنے کےلیے دعا مانگ رہے ہوتے ہیں کہ اے اللہ اس بارش کو اپنے بندوں کےلیے رحمت بنا، اسے باعثِ زحمت مت بنا۔ کیونکہ بارش کے بعد اکثر شہروں میں نکاسی آب کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے اور بارانِ رحمت انسان کےلیے آزمائش بن جاتی ہے۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم کرتا ہے؟ ایسا ہرگز نہیں کہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرے۔ بارش کا برسنا کافر کےلیے تو ہر روز زحمت نہیں بنتا، یہاں کافر سے مراد وہ ترقی یافتہ ممالک ہیں جن کی اکثریت غیر مسلم ہیں۔ نقطہ یہاں سمجھنے لائق یہ ہے کہ موسموں کا ادل بدل ایک فطری عمل ہے۔ بارشیں ہر سال کافر ملکوں میں بھی ہوتی ہیں، گرمی بھی خوب پڑتی ہے، کئی ممالک میں کڑاکے دار سردی بھی پڑتی ہے اور برف بھی۔ مگر معمولات زندگی زیادہ متاثر نہیں ہوتے۔
موسمیاتی تغیرات میں جینا انسان کےلیے ہمیشہ ہی سے ایک مسئلہ رہا ہے۔ مسائل کا سامنا کرنے کےلیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل سلیم عطا کی ہے، علم کی دولت سے بھی مزین فرمایا ہے۔ فہم و فراست بھی آدم ذات کو سب سے زیادہ عطا کیا ہے۔ تو پھر موسمیاتی تغیرات سے مقابلہ نہ کرسکنا ہمارا ہی نکما پن ہے۔
چین کا شہر شنگھائی گزشتہ چھ سال سے راقم کا مسکن ہے۔ بارش اس شہر کی زندگی کا معمول ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا مہینہ گزرتا ہو جب یہاں بارش نہ ہو۔ جتنی بارش یہاں ایک ماہ میں ہوتی ہے، شاید کراچی میں سارا سال اتنی بارش نہیں ہوتی ہو۔ شدید بارشوں کے باوجود شنگھائی میں معمولاتِ زندگی بہت کم متاثر ہوتے ہیں۔ وجہ کیا ہے؟ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک نکاسی آب کا موثر نظام (Effective Sanitation System) اور دوسرا مضبوط انتظامی ڈھانچہ (Strong Administrative Infrastructure)۔ بد قسمتی سے کراچی ان دونوں چیزوں سے محروم ہے۔
بارہ برس گزرتے ہیں کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی مستحکم حکومت موجود ہے۔ صوبائی خودمختاری کے نام پر کی گئی نام نہاد اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم، صحت، امن و عامہ، پولیس، ٹرانسپورٹ، بلدیات سے لے کر ہر قسم کا اختیار صوبائی حکومت کے پاس ہے۔ تمام تر اختیارات کے بعد بھی یہ جماعت بارہ برس میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے مسائل حل نہیں کرسکی۔
سونے پہ سہاگہ ہر بدانتظامی کا ملبہ صوبائی حکومت وفاق پر ڈال دیتی ہے۔ پچھلے سال میٹرک کے سالانہ امتحانات میں جب سرعام طلبا نقل کر رہے تھے، تو سندھ کے وزیر تعلیم نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہا کہ کیونکہ وفاق نے فنڈز نہیں دیے اس لیے ہم امتحانی مراکز میں موبائل جیمرز نہیں لگا سکے اور دیگر انتظامات نہیں کرسکے۔ اب کی بار ایک نیا بہانہ گھڑا ہے، اور وہ یہ کہ پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی نے ترقیاتی کاموں کی غرض سے سڑکیں کھود ڈالیں، اس لیے بارش کے باعث تباہی آئی۔ الامان والحفیظ۔
اس ساری صورت حال میں وزیراعظم نے این ڈی ایم اے سے کہا ہے کہ فوج نکاسی آب کا کام بھی کرے اور کراچی کا کچرا بھی ٹھکانے لگائے۔ واہ بھئ واہ۔ کیا کہنے۔
اگر سب کام فوج نے ہی کرنے ہیں تو سول اداروں پر اربوں روپے برباد کرنے کی کیا ضرورت؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سول حکومتوں کی بھی کیا ضرورت؟ کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے۔
فوج کام بھی کرے اور سیاسی اشرافیہ کا یہ طعنہ بھی سنے کہ فوج ہر کام میں مداخلت کرتی ہے۔ سوال یہ ہے جب سیاستدان نکمے اور نااہل ہوں، سول ادارے ناقص ہوں۔ تو مملکتِ خداداد کا نظام کوئی نہ کوئی تو چلائے گا۔ کیونکہ خلا نہیں رہتا۔ یہ قانونِ فطرت ہے۔
رہی بات موسمیاتی تغیرات کی، تو یہ کبھی کم ہوں گے تو کبھی زیادہ۔ یہ بھی قانون فطرت ہے۔ اس کے ساتھ زندہ رہنا ہی زندگی کی خوبصورتی ہے۔ بارش کا پانی محفوظ بنانے کےلیے ڈیمز اور ریزروائرز پاکستان کی اشد ضرورت ہیں۔ ورنہ بقول جاوید چوہدری ہم آدھا سال پانی سے مرتے رہیں گے اور آدھا سال بغیر پانی کے۔
رہا سوال کراچی کا؟ اس کا سادہ سا حل ہے۔
چین کے شہر شنگھائی کی سرحدیں چین کے کئی صوبوں کو لگتی ہیں۔ اس کے باوجود شنگھائی کسی صوبے کا حصہ نہیں اور ایک خودمختار انتظامی حیثیت رکھتا ہے۔ جو درحقیقیت ایک صوبے جیسا ہی معاملہ ہے۔
کراچی کا صوبہ بننا کئی عناصر کو منظور نہیں۔ وجوہات چاہے جو بھی ہوں۔ شہر قائد کو بے شک صوبہ نہ بنائیے لیکن اسے انتظامی خودمختاری (Administrative Independence) تو دیجئے۔ اس شہر کو ایک موثر اور بااختیار مقامی حکومت کا قانون دیجئے۔ یہی مسئلے کا حل ہے۔ بصورت دیگر مون سون میں عوام مرتی رہے گی اور بھٹو زندہ رہے گا۔
’زیادہ بارش میں زیادہ پانی آتا ہے‘ عوام کو معلوم ہے۔ آپ نے زیادہ پانی کے نکاس کا بندوبست کرنا ہے بلاول صاحب۔ کیونکہ اختیار آپ کی حکومت کا ہے۔ وقت نکالیے اور اپنی کی ہوئی آئینی ترامیم پڑھ لیجئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post جب زیادہ بارش آتا ہے… appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3i0oNjP
via IFTTT
No comments:
Post a Comment