آج عالمی سرمایہ داری اتنے گہرے بحران کا شکار ہے کہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی ہے۔ یہاں تک کہ مختلف بڑے بڑے ممالک کے سربراہان مذہب، فرقہ، نسل، رنگ اور علاقائی تنگ نظری کو چارے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اس عمل میں سامراجی سرغنہ امریکی سامراج نمبر لے گیا ہے۔
صدر ٹرمپ نسلی بنیاد پر ایک بار جیت چکے اب پھر وہی حربے استعمال کر رہے ہیں۔ برطانیہ، آسٹریلیا، فرانس، ہندوستان وغیرہ انھی نام نہاد اصولوں پر گامزن ہیں۔ آذربائیجان اور آرمینیا کی جنگ بھی نگورنوکاراباغ کی ملکیت پر ہو رہی ہے۔ نگورنوکاراباغ میں آرمینیائی لسان کے لوگ زیادہ رہتے ہیں لیکن آذربائیجان اسے اپنا علاقہ قرار دیتا ہے۔
ہرچند کہ یوکرائن سامراجی آلہ کار بنا ہوا ہے لیکن اس کا ایک خطہ کریمیا جہاں روسی زبان کے لوگ زیادہ بستے ہیں نے روس سے الحاق کرلیا ہے۔ ادھر اسرائیل یہودی نسلی بنیاد پر عرب علاقوں پر قابض ہے اور یہودیوں کی بستی تعمیر کیے جا رہا ہے جب کہ یورپ اس کے مخالف ہے۔
ترکی اور یونان، قبرص کے مسئلے پر تقسیم ہیں نتیجہ یہ نکلا کہ قبرص بھی لسانی بنیادوں پر تقسیم ہے۔ ادھر ہندوستان کی سرمایہ دار حکومت مذہبی تنگ نظری کو بنیاد بنا کر آسام میں ہندو بنگالیوں کو شہریت دینے پر آمادہ جب کہ مسلمان بنگالیوں کو نہیں۔ اور پھر پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے شہریوں کو بھارت میں شہریت دینے کے خلاف آئین میں ترمیم ہوگی۔
افغانستان میں شمال اور جنوب یعنی فارسی اور پشتو بولنے والوں کو نفرت میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ امریکا میں جس طرح سیاہ فام مسلمان اور لاطینیوں کو پسماندہ ہونے کے ناطے کریمنل کہا جاتا ہے ۔ یہی صورتحال فرانس، برطانیہ، آسٹریلیا اور جرمنی کی ہے۔ جو جمہوری آزادی کی بات تو کرتے ہیں مگر اندر سے نسل پرستی اور مذہبی تنگ نظری رکھتے ہیں۔
عالمی سرمایہ داری انتہائی انحطاط پذیری کا شکار ہے۔ افراط زر، بے روزگاری، مہنگائی اور طبقاتی تفریق اتنی بڑھتی جا رہی ہے اور معاشی نابرابری و گراوٹ بڑھ رہی ہے اور اب وہ اسے چھپانے کے لیے نسل پرستی، مذہبی تنگ نظری، فرقہ واریت اور تہذیبوں کا تصادم کا نام دے رہے ہیں۔ اس وقت جاپان کی شرح نمو منفی ہے، جرمنی سمیت یورپ کی اوسط شرح نمو 2 فیصد پر آگئی ہے۔
امریکا کی 2.5 فیصد جب کہ BRICS کی اوسطاً شرح نمو1.5 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔ اسی لیے عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ عراق، روس، چلی، تھائی لینڈ، بیلاروس، کرغسزستان، ہندوستان، برازیل اور پاکستان سمیت یہاں کے عوام سراپا احتجاج ہیں۔ فرانس کی پیلی جیکٹ تحریک اور امریکا کی سیاہ فام تحریک نے اپنے مطالبات بھی منوائے ہیں۔ تھائی لینڈ، بیلاروس اور چلی کے عوام نے بھی اپنے مطالبات منوائے ہیں۔ پاکستان کی اپوزیشن پارٹیاں اپنے مطالبات کے لیے جلسے کر رہی ہیں۔
گجرانوالہ، کراچی اور کوئٹہ کے جلسے کامیاب رہے۔ اب پشاور میں جلسہ ہوگا، ایک جانب حکومت اپوزیشن کے مطالبات پر کان نہیں دھر رہی ہے بلکہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے جب کہ اپوزیشن پارٹیاں بہت ساری اچھی باتیں اور مطالبات تو کر رہی ہیں لیکن یہ نہیں کہہ رہی ہیں کہ اگر ہم اقتدار میں آگئے تو آٹا، دال، چاول، تیل، دودھ، گوشت اور چینی وغیرہ کی قیمتوں میں کس حد تک کمی کریں گے۔
کس حد تک بے روزگاری میں کمی لائیں گے، آئی ایم ایف سے قرضے لیتے رہیں گے یا بند کردیں گے، دفاعی اور غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی کرکے صحت، تعلیم اور پیداواری اخراجات میں اضافہ کریں گے؟ اپوزیشن یہ بھی نہیں کہہ رہی ہے کہ جاگیرداری ختم کرکے زمین بے زمین کسانوں میں بانٹ دیں گی۔ سامراجی استحصال اور معاہدات کا خاتمہ کریں گی یا نہیں، اس پر بھی خاموش ہے۔ پھر یہ کیا کریں گے۔کیا صرف عمران خان کے ہٹنے سے بے روزگاری، مہنگائی اور افراط زر کا خاتمہ ہو جائے گا؟ جی نہیں۔ چہرے تو تبدیل ہو جائیں گے مگر نظام نہیں بدلے گا۔ نظام ہے سرمایہ داری اس سرمایہ داری کا اصول عوام کی بھلائی نہیں بلکہ اپنے منافع میں اضافہ کرنا ہے۔
آج کل جماعت اسلامی بھی اپنے آپ کو اپوزیشن کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ کل تک وہ تحریک انصاف کی اتحادی تھی اور حکومت میں شامل تھی۔ وہ بھی سامراجی معاہدات سے علیحدگی، جاگیرداری کا خاتمہ کرکے زمین کسانوں میں تقسیم کرنے اور غیر پیداواری اخراجات میں کمی کرکے صحت اور تعلیم پر رقم لگانے کی بات نہیں کر رہی ہے۔
ہمارے حکمران طبقات خواہ وہ حزب اقتدار کے ہوں یا حزب اختلاف کے سارا ملبہ ہندوستان پر ڈال کر طبقاتی لڑائی سے اپنے آپ کو دور رکھنا چاہتے ہیں۔ جب کہ ہندوستان میں دسہرے کے روز کسانوں نے راون کا پتلا جلانے کے بجائے نریندر مودی کا پتلا جلایا، ہندوستانی پنجاب میں بھی کسانوں نے احتجاج کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کا راون مودی ہے۔ ادھر فرانس میں ان کا کہنا ہے کہ پیغمبر اسلام کے گستاخانہ خاکے بنائے جانے پر فرانسیسی صدر کے اظہار رائے کی آزادی اور چند لاکھ مسلمانوں کا فرانس کو یرغمال بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جب کہ یہ مسلمان فرانس کے شہری ہیں۔
انقلاب فرانس کے بعد اپنے اعلامیے میں کہا گیا تھا ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی ہے مگر ایسی اظہار رائے نہیں ہوگی جس سے دوسروں کے جذبات مجروح ہوتے ہوں۔ اس پر فرانس کی بورژوا حکومت عمل تو نہیں کروا پائی لیکن 1871 کی ’’پیرس کمیون‘‘ جسے انارکسٹوں نے قائم کیا تھا نے کر دکھایا۔
سرمایہ داری نے نام نہاد ترقی کے جن کو بوتل سے نکال تو لیا ہے لیکن اب وہ اس سے سنبھالے نہیں سنبھل رہا ۔ اس وقت دنیا کی ساڑھے سات ارب کی آبادی میں ڈیڑھ ارب بے روزگار اور 5 ارب غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس کرہ ارض میں صرف بھوک سے روزانہ 75 ہزار انسان مر رہے ہیں جب کہ دنیا کی آدھی دولت کے مالک صرف دس افراد ہیں۔
سرمایہ دارانہ ترقی صرف 10فیصد لوگوں تک محدود ہے۔ آج دنیا بھر میں روزانہ جتنے اسلحے بنائے یا بیچے اور استعمال کیے جا رہے ہیں اس کا 10 فیصد غذا، رہائش اور ماحولیات پر خرچ نہیں کیا جا رہا ہے۔ ایک جنگی جہاز پر کروڑوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔
اس دنیا میں ہزاروں ایٹم بم بنا کر رکھے گئے ہیں لیکن کینسر، ایچ آئی وی ایڈز اور دیگر مہلک بیماریوں کے علاج سب کے لیے میسر نہیں۔ کورونا کی ویکسین نہیں بنائی گئی، اسلحے کی ترقی کی وجہ سے فاتحین پیدا ہوتے ہیں اور وہ قتل و غارت گری کرتے ہیں، ریپ کرتے ہیں اور لوٹ مار کرتے ہیں۔ صرف امریکا کے 68 اور چین کے 12 بحری جنگی بیڑے سمندروں میں آپریشنل حالت میں موجود ہیں۔ جنگوں کی وجہ سے کروڑوں انسانوں کا قتل ہوچکا ہے۔
اب یہ سرمایہ دارانہ نظام منہ کے بل گرنے والا ہے۔ یہ انتہائی بحران کا شکار ہے۔ اس لیے وہ عوام کے ذہنوں سے اسے ہٹانے کے لیے رنگ، نسل، مذہب اور فرقہ پرستی کو پروان چڑھانے کا سہارا ڈھونڈ رہا ہے۔ اس کا متبادل صرف امداد باہمی کے آزاد معاشرے کے قیام میں مضمر ہے۔
The post عالمی سرمایہ داری بوکھلاہٹ کا شکار appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/383360U
via IFTTT
No comments:
Post a Comment