Wednesday, December 2, 2020

بلین ٹری سونامی یا قومی المیہ ایکسپریس اردو

سپریم کورٹ نے بلین ٹری سونامی منصوبے کا نوٹس لیتے ہوئے شجرکاری کے نام پر ہونے والے میگا سرکاری ڈرامے پر چشم کشا ریمارکس دیے اور تمام ریکارڈ اور سیٹلائٹ تصاویر طلب کر لیں۔ چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ جہاں درخت لگوائے گئے وہاں اپنے مجسٹریٹ بھجوا کر رپورٹس منگوائیں گے۔

اسلام آباد انتظامیہ نے سارے درخت بنی گالہ میں ہی لگائے ہوں گے۔ عدالت عظمیٰ نے در حقیقت ایک درد انگیز شجر آشوب کیس کی سماعت میں ملکی تاریخ میں درخت کاٹنے اور شجرکاری کے ناقابل یقین افسانوں اور روایتی سرکاری رپورٹوں، وضاحتوں اور موقف کی قلعی کھول دی جب کہ بیوروکریسی کی کارکردگی کو بے نقاب کرتے ہوئے قوم کو یہ آگہی دی کہ ملکی ماحولیات کے ساتھ افسر شاہی بیدردی سے کیسا ظالمانہ کھلواڑ کر رہی ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ نے دریاؤں نہروں کے کناروں پر شجرکاری سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی کو فوری طلب کر لیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بلین ٹری منصوبے کا سارا ریکارڈ لیکر آئیں۔ بعد ازاں سیکریٹری موسمیاتی تبدیلی عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ منصوبے کے پہلے سال تو حکومت نے نرسریوں میں پودوں کی افزائش کی، تاہم کل دو برسوں کے دوران 430 ملین درخت لگائے جا چکے۔ آدھے فنڈز وفاقی حکومت اور آدھے فنڈزصوبوں کو لگانا ہیں، مانیٹرنگ کے لیے سیٹلائٹ فوٹیج کے ساتھ ساتھ تیسری پارٹی سے چیکنگ بھی جاری ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ نے 430 ملین درخت لگے دیکھے ہیں؟ سیکریٹری نے کہا کہ تمام درخت لگے ہوئے دیکھنا ممکن نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دس ارب درخت لگنا ناقابل یقین بات ہے۔ اتنے درخت لگ گئے تو ملک کی قسمت بدل جائے گی۔

شجر کاری بلاشبہ ہماری قومی زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہے، جس میں مجرمانہ کردار نہ صرف محکمہ جاتی، سرکاری اور بیوروکریسی کا ہے بلکہ من حیث القوم بھی ہم فطرت دشمنی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے، ہمارے بارے میں اکثرکہا جاتا ہے کہ ہم ہر خوبصورت چیز میں بدصورتی کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور تلاش کرتے ہیں، درخت، پودے، گھاس، اور سبزے کا انسانی تہذیب و تمدن سے گہرا رشتہ ہے اس کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں مگر طرز حکمرانی  میں کسی بھی دور میں شجر کاری کی عمومیت اور گراس روٹ لیول پر اس بات پر زور نہیں دیا گیا کہ درخت، خوشنما پھول، سبزہ اور پھلوں سے لدے پھندے باغات شہروں کی زیب و زینت بڑھاتے ہیں، درخت آکسیجن، صحت بخش آب و ہوا کا ذریعہ ہیں، قدرت کا عطیہ ہیں اور ماحولیاتی آلودگی کا جو جہنم انسان نے اپنے اردگرد پیدا کیا ہے اس سے بچاؤ میں شجر کاری کا بنیادی کردار ہے۔ تمام بڑے شہر تیزی سے سبزے سے خالی ہوتے جا رہے ہیں، پروین شاکرنے کہا تھا:

کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے

چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے

پاکستان میں زیادہ تر جنگلات گلگت بلتستان، خیبر پختون خوا اورکشمیر کے پہاڑی علاقوں میں پائے جاتے ہیں جب کہ گلگت بلتستان میں 70 فیصد جنگلات صرف ضلع دیامر میں پائے جاتے ہیں۔ اس ضلع کی سرحدیں خیبر پختونخوا سے ملتی ہے۔ دیامر میں بیشتر جنگلات مقامی لوگوں کی ملکیت ہیں اور شاید اسی کا فائدہ اٹھاکر ٹمبر مافیا یہاں بیدریغ کٹائی کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ چلاس اور دیگر شہری علاقوں میں جگہ جگہ سڑک کے کنارے درختوں کے ڈھیر نظر آتے ہیں جہاں ان کی کھلے عام خرید و فروخت بھی جاری ہے۔

بعض مقامات پر کٹے ہوئے درختوں کی مارکیٹ تک رسائی بھی آسان ہے اور ان کی نقل و حمل پر کوئی روک ٹوک بھی نہیں جس سے ملکی قوانین اور حکومتی اداروں کے کردار پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ گلگت بلتستان میں بھی جنگلات کے کاٹنے سے نہ صرف لوگوں کی ذاتی زندگی متاثر ہو رہی ہے بلکہ اس سے مجموعی طور پر سماج پر بھی اثرات پڑ رہے ہیں۔

پاکستان میں جنگلات کا تیزی سے خاتمہ ایک انتہائی اہم اور سنگین معاملہ ہے لیکن یہ مسئلہ جتنا اہم ہے اتنی سنجیدگی حکومتی ایوانوں میں نظر نہیں آتی۔ تاہم بیشتر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جب تک دور دراز پہاڑی علاقوں میں مقامی آبادی کو روزگار اور توانائی کے متبادل ذرائع فراہم نہیں کیے جاتے اس وقت تک جنگلات کی غیرقانونی کٹائی روکنا ممکن نہیں۔

پاکستان میں جنگلات کی شرح چار فیصد سے کم ہوتے ہوتے اب دو فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔ حالانکہ عالمی معیار کے مطابق کسی بھی ملک کے کم از کم 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے۔ ہماری معیشت و معاشرت پانی اور درختوں کی کمی کی وجہ سے شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ بے دریغ درخت کاٹنے کی وجہ سے فضا میں موجودOzone  کی تہہ کمزور پڑتی جا رہی ہے جس سے کینسر جیسے مہلک امراض میں ہولناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور اسی وجہ سے سال 2015ء میں کراچی میں قیامت خیز گرمی کی لہر (Heat Wave) آئی جس سے ایک ہزار سے زائد قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔

جنگلات کے فائدے بے شمار ہیں جس میں اولین تو آکسیجن کا پیدا کرنا ہے جو سانس لینے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے علاوہ درخت زرعی زمین کے کٹاؤ کو روکتے ہیں سیلاب سے بچاؤ کا سبب بنتے ہیں۔ انسانوں کے استعمال کے لیے فرنیچر اور جلانے کی لکڑی کا ذریعہ ہیں۔ حیواناتی اور نباتاتی زندگی کی پناہ گاہیں ہیں۔ بیشتر دلکش تفریح گاہیں جنگلات کی وجہ سے ہی عام و خاص کی توجہ کا مرکز ہوتی ہیں۔

خدائے بزرگ و برتر نے بھی اخروی زندگی میں انعام کے طور پر جنت یعنی باغات کی بشارت دی ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ سیرت النبیؐ بھی اس باب میں ہدایات سے خالی نہیں ہے جس کی رو سے جنگ کے دوران بھی درختوں کو کاٹنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ دنیا میں آج بھی ہزاروں سال پرانے درخت موجود ہیں۔ پاکستان میں زیارت (صوبہ بلوچستان) کے مقام پر صنوبر کے خوبصورت اور نایاب جنگلات کا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ موجود ہے جسے UNESCOکی طرف سے عالمی ماحولیاتی اثاثہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

یہ جنگل تقریباً ایک لاکھ ہیکٹر رقبے پر پھیلا اور ہزاروں سال پرانی تاریخ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ کراچی میں ساحل سمندر کے ساتھ تمر کے جنگلات بھی اہم جنگلاتی اثاثے میں شمار ہوتے ہیں۔ لاہور میں قیام پاکستان سے قبل سرکاری طور پر شمار کردہ چالیس سے زائد جنگلاتی خطے موجود تھے جن کی تعداد اب نصف سے بھی کم رہ گئی ہے۔ دیہاتی علاقوں میں نہروں کے کنارے محض چند ٹکوں کی خاطر درختوں کا بے دریغ قتل عام کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔

شاعر نے کہا تھا:

لگ رہا ہے شہر کے آثار سے

آ لگا جنگل در و دیوار سے

بظاہر تو یہ شعر شہروں میں پھیلی ہوئی بے ترتیبی اور نفسا نفسی کو بیان کرتا ہے لیکن طبعی اعتبار سے بھی درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ شہر وسیع تر ہوتے ہوئے جنگلوں سے جا ملے ہیں اور جنگل عنقا ہوتے جا رہے ہیں۔ اس قسم کی صورت حال میں پرندے اور فطرت کی عکاسی کرتے خوبصورت باغات اور ہرے بھرے میدان دور سے دور تر ہوتے جا رہے ہیں اور محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً تتلیاں اور جگنو شہروں سے دور جا کر پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں ماہرین کے مطابق گزشتہ چند سال میں جنگلات کی غیر قانونی کٹائی عروج پر رہی جس سے مجموعی طور پر ملک بھر میں جنگلات کا رقبہ تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کا شمار اب دنیا کے ان ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔

پاکستان فارسٹ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ملک میں 90ء کی دہائی میں 35 لاکھ 90 ہزار ہیکٹر رقبہ جنگلات پر مشتمل تھا جو دو ہزار کی دہائی میں کم ہو کر 33 لاکھ 20 ہزار ہیکٹر تک رہ گیا ہے۔ ادارے کے مطابق 2002میں جنگلات کا رقبہ بڑھ کر 45 لاکھ ہیکٹر تک پہنچا یعنی مجموعی طور پر ملک میں پانچ اعشاریہ ایک فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے تاہم جنگلات پر کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے ایف اے او اور دیگر اہم غیر ملکی ادارے ان اعداد و شمار کو درست نہیں مانتے۔ ان کے مطابق پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے مسلسل ہر سال جنگلات کا رقبہ کم ہوتا جا رہا ہے۔

عدالت نے بلین ٹری سونامی کی تمام تفصیلات طلب کر تے ہوئے قرار دیا ہے کہ آگاہ کیا جائے کہ منصوبے پر اب تک کتنے فنڈز خرچ ہوئے۔ کتنے درخت کہاں لگے۔ فنڈز خرچ ہونے کا جواز بمعہ ریکارڈ اور دیگر تفصیلات تصاویر سمیت فراہم کیا جائے۔ عدالت نے وزارت موسمیاتی تبدیلی سے سیٹلائٹ تصاویر بھی منگوا لیں جب کہ کلرکہار کے پہاڑوں پر تمام تعمیرات اور کمرشل سرگرمیاں روکنے اور درخت لگانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے سیکریٹری پلاننگ، چاروں صوبوںکے سیکریٹری جنگلات کو طلب کرتے ہوئے مزید سماعت ایک ماہ تک ملتوی کر دی ہے۔

سپریم کورٹ کے فکر انگیز خیالات کے روشنی میں یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر ہم اپنے ماحول کی بقا کے لیے اٹھ کھڑے نہ ہوئے تو ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل معدوم ہو جائے گا۔ سرکاری سطح پر عوام میں یہ شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے ماحول کو زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر محفوظ بنائیں گے۔ پانی اور دیگر فطری نعمتوں کے ضرورت کے مطابق استعمال کو یقینی بنائیں گے اور جب ایک زندہ قوم مصمم ارادہ کر لے تو وہ یقیناً تمام اہداف حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

The post بلین ٹری سونامی یا قومی المیہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3g1NVHe
via IFTTT

No comments:

Post a Comment