Monday, March 1, 2021

ایک قیمتی سوال ایکسپریس اردو

چارلس ٹی میٹکلف (Charles T. Metcalfe) 1785ء میں کلکتہ میں پیدا ہوا تھا‘ والد ایسٹ انڈیا کمپنی میں ڈائریکٹر تھا اور کلکتہ میں تعینات تھا‘ چارلس نے لندن سے تعلیم حاصل کی اور 1801ء میں واپس آ کر کمپنی کی نوکری کر لی‘ وہ بنگال کے گورنر جنرل لارڈ ویسلے (Lord Wellesley) کا پرائیویٹ سیکریٹری تھا‘ برطانیہ اس وقت نپولین بونا پارٹ سے لڑ رہا تھا‘ نپولین ہندوستان پر بھی حملہ کرنا چاہتا تھا چناں چہ اس نے مہاراجوں کے ساتھ تعلقات بڑھا نا شروع کر دیے تھے‘ فرنچ جرنیلوں نے سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان کی فوجوں کو بھی ٹریننگ دی تھی اور یہ اب پنجاب میں اثرورسوخ بڑھا رہے تھے۔

پنجاب اس وقت ہندوستان کی مضبوط ترین ریاست تھی‘ رنجیت سنگھ کی ریاست ستلج کے کناروں سے شروع ہو کر خیر پور اور کشمیر سے جلال آباد تک پھیلی تھی اگر نپولین مہاراجہ کے ساتھ جڑ جاتا توانگریزوں کے لیے ہندوستان پر قبضہ مشکل ہو جاتاچناں چہ کمپنی سرکار مہاراجہ اور نپولین کے درمیان ہر صورت معاہدہ رکوانا چاہتی تھی‘ گورنر جنرل نے 1808ء میں میٹکلف کوایلچی بنا کر پنجاب بھجوا دیا‘ یہ امرتسر اور لاہور آیا اور پنجاب کا سسٹم دیکھ کر حیران رہ گیا‘  میٹکلف نے گورنر جنرل کو لکھا ’’ہمیں اصل خطرہ نپولین سے نہیں رنجیت سنگھ سے ہے‘‘ اس کا کہنا تھا’’ پنجاب کے ہر گاؤں میں اسکول ہے اور مرد‘ عورت اور بچوں سب کے لیے تعلیم لازم ہے۔

پنجاب حکومت اس وقت تک کسی مسجد‘ مندر اور دھرم شالا (گوردوارہ) کی اجازت نہیں دیتی جب تک لوگ اس کے ساتھ اسکول بنانے کا وعدہ نہیں کرتے چناں چہ پنجاب میں جہاں بھی دھرم شالا‘ مندر یا مسجد ہے وہاں اسکول موجود ہے‘ دوسرا پورے پنجاب میں دھوپ گھڑیاں نصب ہیں‘ یہ گھڑیاں رات کے وقت بھی ٹائم بتا دیتی ہیں اور مندروں اور گوردواروں میں اتنی گھنٹیاں بجا دی جاتی ہیں‘ یہ لوگ وقت کے انتہائی پابند ہیں‘ ان کے چار ہمیشہ چار بجے بجتے ہیں اور پنجاب میں تمام لوگوں کے لیے عسکری تربیت اور اسلحہ لازم ہے۔

ہر گاؤں کی اپنی فوج ہے‘ یہ فوج گاؤں کی حفاظت بھی کرتی ہے اور جب مہاراجہ کو ضرورت پڑتی ہے تو یہ ذاتی گھوڑوں پر سوار ہو کر اپنا اسلحہ لے کر لاہور پہنچ جاتی ہے‘ پنجاب میں جتنے لوگ ہیں اتنے ہی سپاہی ہیں لہٰذا ہمیں ان کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا‘‘ میں آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں میٹکلف وہ شخص تھا جس نے ہندوستان میں میڈیا (پریس) کی بنیاد رکھی تھی اور انگریزی کو سرکاری زبان کا درجہ دیا تھا‘ آپ یہ جان کر بھی حیران ہوں گے برطانیہ میں اس وقت تک بنیادی تعلیم لازمی نہیں تھی‘ برطانوی پارلیمنٹ نے 1870ء میں پہلا ایلیمنٹری ایجوکیشن ایکٹ منظور کیا تھا جس کے بعد انگلینڈ میں بنیادی تعلیم لازم ہوئی تھی۔

راجہ رنجیت سنگھ 1839ء میں فوت ہو گیا‘اس کے بعد تخت لاہور کم زور پڑ گیا اور انگریز نے 1849ء میں پنجاب پر قبضہ کر لیا‘ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے اس وقت پنجاب میں تعلیم سو فیصد تھی‘رنجیت سنگھ نے 1830ء تک پنجاب کے ہر شخص کو پڑھا اور لکھا دیا تھا‘ انگریز اس تعلیم کو خطرناک سمجھتا تھا چناں چہ یہ لوگ کنگز کالج لندن کے ایک نوجوان پروفیسر گوٹلیب ولیم لیٹنر (Gottlieb Wilhelm Leitner) کو لاہور لے آئے‘ لیٹنر بھی ایک عجیب وغریب کردار تھا۔

یہ 50 زبانیں جانتا تھا‘ عربی‘ ترکی اور فارسی مقامی لوگوں کی طرح بولتا تھا‘ کچھ عرصہ ’’مسلمان‘‘ بھی رہا تھا‘ اس نے داڑھی بڑھا کر اپنا نام عبدالرشید سیاح رکھا اور تمام اسلامی ملکوں کی سیاحت کی‘ وہ مسجدوں میں نماز تک پڑھ لیتا تھا‘ وائسرائے نے اسے ہندوستان بلایا اور اسے پنجاب کا نظام تعلیم بدلنے کی ذمے داری سونپ دی‘ لیٹنر نے پنجاب کا دورہ کیا اور وائسرائے کو لکھا‘ مجھے پڑھے لکھے پنجاب کو جاہل بنانے کے لیے 50سال درکار ہوں گے‘ وائسرائے نے اسے 50سال دے دیے۔

اسے انسپکٹر جنرل آف اسکولز پنجاب بنا دیاتھا‘ لیٹنر کو گورنمنٹ کالج لاہورکا پرنسپل بنا دیا گیا‘ اس نے آگے چل کر پنجاب یونیورسٹی کی بنیاد بھی رکھی‘ یہ ان دونوں اداروں کا ابتدائی سربراہ تھا‘ انگریز نے پنجابیوں کو غیر مسلح اور ان پڑھ بنانے کے لیے پنجاب میں ’’ہتھیار جمع کرائیں اور حکومت سے تین آنے لے لیں اور عربی‘ سنسکرت اور گورمکھی کی کتاب دیں اور چھ آنے وصول کر لیں‘‘ جیسی اسکیم بھی متعارف کرا ئی اور پورے پنجاب سے کتابیں اور اسلحہ جمع کر لیا ‘ انگریز نے اس کے بعد انگریزی زبان کو سرکاری اور دفتری زبان بنا دیا اورا سکولوں کو عبادت گاہوں سے الگ کر دیا ‘ جاگیر داروں اور زمین داروں کے بچوں کو انگلش میڈیم تعلیم دے کر متوسط طبقے کو دبانے کی ذمے داری بھی دے دی گئی ‘ انگریزوں کو سمجھ دار‘ قانون پسند اور انصاف کا پیکر بنا کر پیش کرنا بھی شروع کر دیا گیا۔

دھوپ گھڑی پر پابندی لگا دی گئی اور مقامی زبانوں اور کتابوں کو جہالت کا مرکب قرار دے دیا گیا‘ ولیم لیٹنر کا منصوبہ کام یاب ہو گیا اور اس نے 50 کے بجائے 30 برس میں پورے پنجاب کو غیرتعلیم یافتہ اور جاہل بنا دیا‘ لیٹنر نے اپنے ہاتھ سے لکھا’’ میں نے پورے پنجاب کا دورہ کیا‘ آج یہاں کوئی پڑھا لکھا شخص نہیں‘‘ اس نے سیالکوٹ کے ایک گاؤں چوڑیاں کلاں کی مثال دی‘ اس کا کہنا تھا‘ میں پنجاب آیا تو اس گاؤں میں ڈیڑھ ہزار پڑھے لکھے لوگ تھے‘ آج یہاں صرف 10لوگ گورمکھی اور ایک اردو پڑھ سکتا ہے اور یہ بھی چند برسوں میں مرکھپ جائیں گے‘ لیٹنر نے پنجاب میں رہ کر اردو سیکھ لی اور پھر اردو میں دو والیم کی تاریخ اسلام لکھی‘یہ کتاب 1871ء اور 1876ء میں دو بار شایع ہوئی۔

لیٹنر 1870ء کی دہائی میں اپنا کام مکمل کر کے برطانیہ واپس چلا گیا‘ یہ بھوپال کی رانی سلطان شاہ جہاں کے بہت قریب تھا‘ رانی نے اسے کثیر سرمایہ اورآرکی ٹیکٹس دیے‘ اس نے لندن میں ووکنگ (Woking) کے علاقے میں جگہ خریدی اور بیگم سلطان شاہ جہاں کے نام پر شاہ جہاں مسجد بنوا دی‘ یہ مغربی یورپ اور برطانیہ میں پہلی مسجد تھی‘ یہ آج بھی قائم ہے اور مجھے اس میں جمعہ کی نماز پڑھنے کا اتفاق ہو چکا ہے‘ مسجد میں لیٹنر کے نام کی تختی بھی لگی ہے۔

ولیم لیٹنر نے 1882ء میںHistory of indigenous education in the Punjab کے نام سے کتاب لکھی‘ اس نے اس میں انکشاف کیا ‘میں جب پنجاب پہنچا تو پورے ملک میں کوئی ایسی مسجد‘ مندر یا دھرم شالا نہیں تھی جس کے ساتھ اسکول نہ ہو‘ حکومت پوری ریاست میں مفت قاعدے تقسیم کرتی تھی اور یہ قاعدے پڑھنا عورتوں کے لیے لازمی تھا‘ اخلاقیات کی تعلیم پنجابی سسٹم کی بنیاد تھی‘ یہ لوگ اخلاقیات سے اپنی تعلیم شروع کرتے تھے‘ ہم نے ہر گھر سے قاعدے نکالے‘ جلائے اور ان کی اشاعت پر پابندی لگا دی۔

ہم نے عبادت گاہوں میں موجود تعلیمی ادارے بھی بند کر دیے اور عوام کو مجبور کیا وہ انگریز کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں لیکن ہماری تعلیم سب کے لیے نہیں تھی‘ ہم یہ سہولت صرف اپنے وفادار خاندانوں کو دیتے تھے‘ پنجاب میں سکھ‘ ہندو اور مسلمان اکھٹے رہتے تھے‘ یہاں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں تھا لیکن ہمارے اقتدار کے صرف 30 برسوں میں یہ سب لوگ ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے جب کہ چارلس میٹکلف نے لکھا ’’ہم نے صرف انگریزی کو دفتری اور سرکاری زبان بنا کر ایک ہی رات میں پورے ہندوستان کو ان پڑھ بنا دیا‘‘۔

یہ تاریخی حقائق کیا ثابت کرتے ہیں؟ یہ ثابت کرتے ہیں حکومتوں کا ایک آدھ فیصلہ پوری قوم کا مقدر بدل دیتا ہے‘ یہ انتہائی تعلیم یافتہ قوموں کو صرف 30برسوں میں جاہل ترین قوم بنا دیتا ہے اور سرسید احمد خان جیسا کوئی ایک شخص آ کر قوم کو دوبارہ پٹڑی پر ڈال دیتا ہے ‘ سرسید نے کیا کیا تھا؟ اس نے ہندوستان کے مسلمانوں کے سامنے جھولی پھیلائی اور علی گڑھ میں پہلی مسلمان یونیورسٹی بنا دی‘ یہ تعلیم کے معاملے میں اتنے جنونی تھے کہ یہ چندہ مانگنے کے لیے لاہور کی ہیرا منڈی پہنچ گئے‘ طوائفوں نے کہا‘ آپ ہمیں ناچ کر دکھائیں‘ ہم اپنے زیور آپ کی جھولی میں ڈال دیں گے‘ شاہ صاحب نے سڑک پر ناچنا شروع کر دیا‘ سرسید کی جھولی زیوروں سے بھر گئی ‘ طوائفوں نے کہا‘ مولوی صاحب ہماری کمائی حرام ہے۔

آپ حرام کی کمائی حلال کے کام پر کیسے لگائیں گے؟ سرسید نے جواب دیا‘ آپ فکر نہ کریں میں اس رقم سے علی گڑھ یونیورسٹی (کالج) کے غسل خانے تعمیر کر لوں گا‘ آپ جنون دیکھیے‘ 1946ء میں پاکستان کا اعلان ہو ا توڈاکٹر ضیاء الدین احمد علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے‘ انھیں پتا چلا پاکستان کے لیے انجینئر چاہیے ہوں گے‘ مسلمان اس شعبے میں بہت پیچھے ہیں‘ علی گڑھ یونیورسٹی نے فوری طور پر انجینئرنگ کالج کی نشستیں بڑھائیں‘ دن رات کلاسز چلائیں‘ ہر مہینے امتحان لیے اور سات ماہ میں سیکڑوں انجینئرز تیار کر دیے اور یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے آگے چل کر پاکستان کو دس سال میں قدموں پر کھڑا کر دیا۔

میرا سوال یہ ہے اگر رنجیت سنگھ 1830ء میں پورے پنجاب اور سرسید احمد خان ہندوستان کے اعلیٰ مسلمان خاندانوں کو تعلیم یافتہ بنا سکتے ہیں تو ہم یہ کام آج کیوں نہیں کر سکتے؟ میری درخواست ہے حکومت راجہ رنجیت سنگھ اور سرسید احمد خان کے ماڈلز کا مطالعہ کرے اور ملک میں صرف تعلیم کا نظام مضبوط اور جدید بنا دے‘ یہ ملک دس پندرہ برسوں میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے گا‘ آپ کچھ نہ کریں آپ اعلیٰ تعلیم کا صرف ایک شعبہ لے لیں‘ آپ آرکی ٹیکچر‘ انجینئرنگ‘ آئی ٹی‘ سوشل میڈیا‘ میڈیکل سائنس یا پھر ٹیکسٹائل انجینئرنگ کو لے لیں اور گراس روٹ سے لے کر یونیورسٹی تک ایک لاکھ نوجوانوں کو اس کی تعلیم دے دیں‘ یہ لاکھ لوگ پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان بن جائیں گے‘ یہ ملک بدل جائے گا لیکن یہ کرے گا کون؟ وزیرتعلیم شفقت محمود سارا دن الیکشن کمیشن کے سامنے کھڑے رہتے ہیں اور وزیراعظم میچ دیکھتے رہتے ہیں چناں چہ سرسید اور رنجیت سنگھ جیسے فیصلے کون کرے گا؟ یہ سوال بہت قیمتی ہے۔

The post ایک قیمتی سوال appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3uE0SOi
via IFTTT

No comments:

Post a Comment