Sunday, February 28, 2021

عراق، احتجاجی مظاہرے میں بیٹے کی ہلاکت پر خاتون کا تدفین سے انکار ... چھوٹا سا بیٹا بنا کسی وجہ احتجاج کے دوران مارا گیا،قاتلوں کے انکشاف تک دفن نہیں کروں گی،خاتون کاردعمل

حوثی ملیشیا کے حملوں کے خلاف سعودی عرب کے دفاع کے پابند ہیں، امریکا ... سعودی عرب پر ہونے والے حملوں میں امریکاساتھ دینے اور اس کے دفاع میں مدد فراہم کرنے کا پابند ہے،بیان

امیر قطر کا سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو فون، دوطرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال ... شہزادہ محمد بن سلمان نے امیر قطر کی طرف سے خیریت دریافت کرنے اور ان کے برادرانہ جذبات ... مزید

متحدہ عرب امارات کی سعودی عرب پر حوثیوں کے حملوں کی شدید مذمت ... امارات سعودی عرب پر ہونے والے حوثی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے مملکت کے ساتھ کھڑا ہے،بیان

سابق امریکی وزیرخارجہ پومپیو کا قاسم سلیمانی کے قتل پر طنزیہ تبصرہ ... ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل کا اقدام امریکا کے لیے فخر کا باعث ہے،خطاب

زلمے خلیل زاد افغانستان اور قطر کا دورہ کریں گے ... طالبان نمائندوں اور افغان حکام سے بات چیت دوبارہ شروع کرنے کیلئے افغانستان اور قطر کا دورہ کریں گے

ٹرمپ کا آئندہ صدارتی انتخاب لڑنے کا عندیہ ... نئی سیاسی جماعت بنانے کا ارادہ نہیں، نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب کو چرایا گیا،خطاب

میانمارمیں مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ سے ہلاکتیں 18ہوگئیں ... مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ ، ربڑ کی گولیوں اور آنسوگیس کا بھی استعمال، 30افرادزخمی

سابق گورنر خیبر پختونخوا جنرل (ر) علی محمد جان اورکزئی کے گھر ڈکیتی ایکسپریس اردو

 راولپنڈی: تھانہ مورگاہ کے علاقے میں سابق گورنر خیبر پختونخواہ و پاک فوج کے سابق جنرل علی محمد جان اورکزئی کے گھر ڈکیتی کی واردات میں ملوث ملزمان کا سراغ نہ لگایا جاسکا۔

جائے واردات پر فنگر پرنٹس نہ مل سکنے کے بعد پولیس نے جیو فینسنگ کے ساتھ ساتھ جائے واردات کے اردگرد نصب کلوز سرکٹ ٹی وی کیمروں کی فٹیجز کی مدد سے ملزمان کی تلاش شروع کردی۔

پولیس کے مطابق جنرل ریٹائرڈ علی محمد جان اورکزئی نے مورگاہ پولیس کو مقدمہ درج کراتے ہوئے بتایا تھاکہ نجی ہاوسنگ سوسائٹی (ڈی ایچ اے)میں رہاہش پذیر ہوں اہل خانہ کے ہمراہ گھر موجود تھا کہ اچانک مسلح شخص کمرے میں گھر آیاساتھ ایک دیگر شخص بھی تھا دونوں کی عمریں پچیس سے تیس سال تھیں اسلحے کی نوک پر گراونڈ فلور پر لے گئے جہاں مجھے اہلیہ اور ملازم کو ایک ایک کمرے میں بند کردیا ایک ملزم ہماری نگرانی پر کھڑا رھا اور دیگر دو ساتھی گھر میں لوٹ مار کرتے رھے اس دوران بیٹی اور نواسیاں بھی آگئیں جنہیں بھی انھوں نے ہمارے ساتھ بٹھا دیا ۔

تقریبا پنتسالیس منٹ گھر میں لوٹ مار کرنے کے بعد تین لاکھ روپے کی نقدی، چار لاکھ بیس ہزار روپے کے پرائز بانڈ ، تیرہ تولے زیورات، چار گھڑیاں، لے کر فرار ہوگئے مجموعی طور پر مزکورہ چار افراد تھے۔ پولیس نے مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی۔

پولیس زرائع کے مطابق  فرانزک اور پولیس کے تفتیشی ماہرین جائے واردات سے ملزمان کے فنگر پرنٹس دستیاب نہیں ہوسکے جسکے متعلق ماہرین کا خیال ہے کہ ملزمان پلاننگ سے واردات کرنے آئے اور واردات کے دوران یا تو دستانے استعمال کیے یا پھر وہ اسقدر محتاط رھے کہ اپنے نشان نہیں چھوڑے۔

ایکسپریس کو تفتیش سے جڑے آفیسر نے بتایا کہ تفتیش کا دائرہ وسیع کرکے واردات سے پہلے اور بعد تک مخصوص اوقات میں علاقےمیں موبائل کمیونیکشن کے زرہعے ملزمان کا سراغ لگانے کے لیے جیو فینسنگ شروع کردی گئی ہے اسی طرح جائے واردات کی جانب آنے و جانے والے راستوں سمیت متاثرہ گھر کے اردگرد گھروں پر نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی فٹیجز سے بھی ملزمان کا سراغ لگانے کے لیے مدد لی جارہی ہے ادھر ایس ایچ او مورگاہ  انسپکڑ ندیم عباس کا کہنا تھا واردات کو ٹریس کرنے کے لیے تفتیش جاری ہے اور تمام پہلووں کو مدنظر رکھ کر تفتیش کی جارھی ہے۔

The post سابق گورنر خیبر پختونخوا جنرل (ر) علی محمد جان اورکزئی کے گھر ڈکیتی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/37XZuMJ
via IFTTT

سینیٹ الیکشن خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہی ہوں گے، سپریم کورٹ کی رائے ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سینیٹ الیکشن ریفرنس پراپنی راے دیتے ہوئے کہا کہ سینیٹ الیکشن خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہی ہوں گے۔

صدارتی ریفرنس میں تمام فریقوں کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے 4 روز قبل محفوظ کیا گیا فیصلہ سنادیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان گلزاراحمد نے سپریم کورٹ کی رائے اوپن کورٹ میں سنائی۔ فیصلے کے مطابق سینٹ الیکشن خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہی ہوں گے۔ سپریم کورٹ نے چارایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی رائے دی۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: سینیٹ الیکشن ریفرنس میں دلائل مکمل، سپریم کورٹ نے رائے محفوظ کرلی

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کے لیے تمام اقدامات کرسکتا ہے،تمام ادارے الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون کے پابند ہیں، الیکشن کمیشن کرپشن کے خاتمے کے لیے تمام ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کرسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں قراردے چکی ہے کہ سیکریسی کبھی بھی مطلق نہیں ہوسکتی اورووٹ ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رہ سکتا، ووٹنگ میں کس حد تک سیکریسی ہونی چاہیے یہ تعین کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔

واضح رہے کہ وفاق، پنجاب، کے پی کے اوربلوچستان نے ریفرنس کی حمایت کی تھی جب کہ سندھ ،الیکشن کمیشن، (ن) لیگ اورپیپلز پارٹی نے اوپن بیلٹ کی مخالفت کی تھی۔

The post سینیٹ الیکشن خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہی ہوں گے، سپریم کورٹ کی رائے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3uGUTbx
via IFTTT

اگر گیلانی سینیٹ میں جیت گئے تو شاید دھرنے کی ضرورت نہ پڑے ... مسلم لیگ ن کے سینئیر رہنما محمد زبیر نے دھرنا نہ دیے جانے کا عندیہ دے دیا

سینیٹ انتخابات خفیہ ہی ہوں گے، سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر رائے دے دی ... ریفرنس پر رائے چار ایک کے تناسب سے سنائی گئی،جسٹس یحییٰ آفریدی نے رائے سے اختلاف کیا

ایران نے امریکا کے ساتھ جوہری مذاکرات ٹھکرا دیے

کے ایم سی 10 کروڑ کے ٹھیکے من پسند ٹھیکیداروں میں تقسیم ایکسپریس اردو

 کراچی:  بلدیہ عظمیٰ کراچی میں 10 کروڑ کے ٹھیکے خلاف ضابطہ من پسند ٹھیکیداروں کو دے دیے گئے، نہ ٹینڈر اور نہ اشتہار من پسند ٹھیکیداروں کو اندرون خانہ براہ راست ٹھیکے دیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔

شدید مالی بحران سے دوچار بلدیہ عظمی کراچی میں10کروڑ لاگت کے ٹھیکوں کی چور دروازے سے بندر بانٹ کے ساتھ من پسند ٹھیکیداروں کو مکمل ادائیگیاں بھی کردی گئی ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی پر ٹھیکیداروں کے کئی ارب کے واجبات موجود ہیں لیکن حیران کن طور پر کے ایم سی محکمہ انجینئرنگ کے افسران نے کئی سال سے اپنے واجبات کا انتظار کرنے والے ٹھیکیداروں کو ادائیگی کرنے کے بجائے من پسند ٹھیکیداروں کو 10کروڑ روپے لاگت کے براہ راست ٹھیکے دے کر انھیں ادائیگی بھی کرادی ہے۔

محکمہ انجینئرنگ میں ڈائریکٹر جنرل ٹیکنیکل کا لک آفٹر چارج رکھنے والے افسر کے دباؤ پر براہ راست ٹھیکے دیے گئے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ ٹھیکیداروں کو ادائیگیاں کراکر افسران نے ہاتھ جھاڑ لیے ہیں، 2، 2 کروڑ لاگت کے 5 ٹھیکے من پسند ٹھیکیداروں میں تقسیم کیے گئے تھے اور منظم طریقے سے ٹھیکیداروں کو ہاتھوں ہاتھ ادائیگی کراکر منہ مانگا کمیشن وصول کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ بلدیہ کراچی میں 75 کروڑ کی اے ڈی پی ریلیز پر بھی تنازعہ کھڑا ہے۔

چیف سیکریٹری سندھ نے کے ایم سی محکمہ انجینئرنگ میں ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر اقتدار احمد کو تعینات کر رکھا ہے جبکہ ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی نے چیف سیکریٹری سندھ کے آرڈر کو چیلنج کرتے ہوئے ایک متنازع افسرجنھیں محکمہ بلدیات سندھ نے 17 گریڈ کا افسر قرار دیتے ہوئے محکمہ کچی آبادی رپورٹ کرنے کا حکم دے رکھا ہے، انھیں ڈائریکٹر جنرل ٹیکنیکل سروسز گریڈ20 کے ایک نہ دو بلکہ 3 اعلیٰ عہدوں پر تعینات کر رکھا ہے اور ان کے ذریعے اے ڈی پی ریلیز کے75 کروڑ کے فنڈز کی ٹھیکیداروں کو ادائیگیاں کرادی ہیں۔

مذکورہ ادائیگیوں پر چیف سیکریٹری سندھ کے تعینات ڈائریکٹر جنرل ٹیکنیکل سروسز اقتدار احمد نے اے جی سندھ کو خط ارسال کرکے حقائق سے آگاہ کیا جس پر اے جی سندھ نے مزید ادائیگیاں روک دی ہیں۔

کے ایم سی ذرائع کا کہنا ہے کہ شبیہ الحسنین کو محکمہ کچی آبادی میں رپورٹ کرنے کے سندھ حکومت کے جاری احکامات کو نہ مان کر ایڈ منسٹریٹر کے ایم سی نے سندھ حکومت کی رٹ کو چیلنج کر رکھا ہے اور محکمہ انجینئرنگ میں جاری مبینہ بدعنوانیوں کے باعث تحقیقاتی اداروں کی جانب سے بڑی کارروائی کا امکان ہے تاہم اس سلسلے میں ڈائریکٹر جنرل ٹیکنیکل سروسز کا لک آفٹر چارج رکھنے والے شبیہ الحسنین سے ان کا موقف جاننے کے لیے متعدد بار رابطہ کرنے کے باوجود ان سے رابطہ ممکن نہیں ہوسکا۔

ایڈ منسٹریٹرکے ایم سی لئیق احمد نے بھی فون سننے سے گریز کیا۔

The post کے ایم سی 10 کروڑ کے ٹھیکے من پسند ٹھیکیداروں میں تقسیم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3bM9UA9
via IFTTT

آپریشن ردالفساد کی کامیابی … ٹیررازم سے ٹورازم تک کا سفر! ایکسپریس اردو

پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل اور فیصلہ کن جنگ لڑی جس میں مختلف مراحل طے کیے گئے۔

چار برس قبل آپریشن ردالفساد شروع کیا گیا جس کے تحت ملک کے طول و عرض میں ہزاروں کامیاب آپریشن کیے گئے جن سے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی، ان کے نیٹ ورک کا خاتمہ کیا گیا ،انہیں جہنم واصل کیا گیا اور بیشتر کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیاگیا۔

حال ہی میں آپریشن ردالفساد کے کامیاب چار سال مکمل ہوئے ہیں جس پر ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے قوم کو بریفگنگ دی۔ اس اہم آپریشن کے چار سال مکمل ہونے پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا اور اس کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیا گیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

مولانا طاہر محمود اشرفی ( وزیراعظم کے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی )

افغانستان کے جہاد کے خاتمے کے بعد سے پاکستان پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کو مسلط کرنے کی کوشش کی گئی مگر پوری قوم، افواج پاکستان اور سلامتی کے اداروں نے مل کر اس کا مقابلہ کیا۔ سنہ 2000ء کے بعد ہمارے دشمنوں نے پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو پھیلانے کا منصوبہ بنایا جس کے بعد ہمارے پارک، مساجد، امام بارگاہیں،چرچ کوئی مقام ایسا نہیں تھا جو محفوظ رہا ہو۔ دہشت گردوں نے ہمارے بچوں کو بھی نہیں چھوڑا اور آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ کرکے بدترین کام کیاجس کے بعد قوم نے فیصلہ کیا کہ اب ملک سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا ہے۔

اس کے نتیجے میں آپریشن ردالفساد کیا گیا جس کی ذمہ داری صرف فوج نہیں بلکہ پوری قوم نے لی۔ آپریشن ردالفسادسے میں امن ، سکون اور اطمینان آیا اور اس آپریشن کی کامیابی کی بڑی وجہ قومی اتحاد تھا۔ اس جنگ میں ہمارے 80 ہزار سے زائد افراد شہید ہوئے جن میں فوج، پولیس و سکیورٹی اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد، بچے، بڑے ، بوڑھے اور8 ہزار علماء شامل ہیں۔ہمارے دشمن نے ملک کو کمزور کرنے کیلئے یہاں دینی اداروں، افواج پاکستان اور سلامتی کے اداروں میں ٹکرائو پیدا کرنے کی کوشش کی۔

یہاں فرقہ واریت اور نفرت کو فروغ دینے پر کام کیا جس کا اعتراف خود بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو نے اپنی گرفتاری کے بعد کیا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ ایک دن شیعہ لیڈر اور دوسرے دن سنی لیڈر کو قتل کیا جاتا تھا تاکہ فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی جائے مگر پاکستانی عوام اور محراب و ممبر نے ان سازشوں کو سمجھا اور ٹکرائو پیدا کرنے کے اس منصوبے کو باہمی اتحاد سے ناکام بنایا۔ ایک بات قابل فکر ہے کہ پہلے صرف مذہبی حوالے سے کام کرنے کی ضرورت تھی مگر اب ہماری سیاست میں بھی انتہا پسندی آگئی ہے اور سیاستدان ایک دوسرے کے بارے میں بات کرتے ہوئے نہیں سوچتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔

ہمیں ملک سے انتہا پسندی کا مکمل خاتمہ کرنا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے ’ایک قوم ایک منزل‘ کا جو نعرہ دیا وہ بہترین ہے۔ ہماری منزل اخوت، محبت، رواداری، امن، سلامتی، استحکام اور اعتدال ہے۔ ہمیں نفرتوں کو ختم کرنا ہے جس کے لیے ابھی بہت محنت کی ضرورت ہے۔ آپریشن ردالفساد کی کامیابی میں قومی ایکشن پلان کا بہت بڑا کردار ہے۔ ماضی میں قومی ایکشن پلان کے صرف ایک حصے پر عمل ہوا جس سے ایسا لگا کہ یہ پلان صرف محراب و ممبر کے لیے بنا ہے، اس کے تحت مساجد سے سپیکر اتروانے ہیں اور آئمہ اور خطباء کو تنگ کرنا ہے جو درست نہیں ہے۔

اس پلان کے 20نکات ہیں جن میں انتہا پسندی کے ہر پہلو کو بہتر کرنے کے بارے میں بات کی گئی ہے لہٰذااس پلان کو مکمل طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ مساجدو مدارس سے ہمیشہ امن، ترقی اور رواداری کی بات کی گئی ہے، مدارس کے جو نئے وفاق بنائے گئے ہیںان سے انشاء اللہ مزید بہتری آئے گی۔ آپریشن ردالفساد کے 4 سال پورے ہونے کے بعد الحمداللہ آج ہمارے پارک آباد ہیں اور بقول ڈی جی آئی ایس پی آر ہم ٹیررازم سے ٹورازم کی طرف آئے ہیں۔

ملک معاشی لحاظ سے درست سمت میں جارہا ہے یہی وجہ ہے کہ آج کورونا کے باوجود ہماری معیشت بہتری کی طرف جا رہی ہے۔ ہماری فیکٹریوں کو لیبر نہیں مل رہی، ان کے پاس 2،3 برس کے ایڈوانس آرڈرز موجود ہیں جو یقینا بہت بڑی کامیابی ہے اور یہ آپریشن ردالفساد کے ہی ثمرات ہیں۔ ملک ترقی کی جانب بڑھ رہا ہے اور دہشت گردی کے خلاف کاوشوں پر دنیا ہماری معترف ہے ایسے حالات میں بھارت و دیگر دشمن طاقتیں افغانستان میں دہشت گردوں کو منظم کر رہی ہیں اور پاکستان مخالف منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔

ان حالات میں ہمیں قومی وحدت کی ضرورت ہے،ہمیںقومی یکجہتی اور استحکام کی طرف جانا ہے۔ پاکستان کی سلامتی کے ادارے اور افواج نے ملکی سلامتی کیلئے جو کردار ادا کیا ہے، اس کی دنیا میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی ہمیں مل کر فوج اور قوم کو آپس میں لڑانے کی دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانا ہے۔

مسرت جمشید چیمہ (ترجمان پنجاب حکومت)

آپریشن رد الفساد کے 4 سال بعد آج پاکستان پہلے سے نہ صرف زیادہ محفوظ ہے بلکہ ہمارے ملک کی رونقیں بھی بحال ہو چکی ہیں۔ اس فساد کی بیخ کنی کرنے میں پاک فوج سمیت تمام سیکورٹی فورسز کے جوانوں اور افسران نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں، پوری قوم اپنی سیکورٹی فورسز کو سلام پیش کرتی ہے جنہوں نے ملک سے دہشت گردی کے عفریت کا خاتمہ کیا۔

سب سے پہلے تو میں آپریشن ردالفساد میں جان کا نذرانہ پیش کرنے والے شہدا ء کو خرج عقیدت پیش کرتی ہوں جنہوں نے اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر وطن کا دفاع کیا ۔ میں ان ماؤں کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں جنہوں نے ایسے بہادر بیٹے پیدا کیے اور اس ملک پر قربان کئے۔ آپریشن ردالفساد پورے ملک میں کیا گیا جس کا مقصد پر امن اور مستحکم پاکستان بنانا ہے۔ آپریشن ردالفساد کے ذریعے پاک افواج نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی۔ دہشت گردوں نے پاکستان میں نظام زندگی کو مفلوج کرنے کی ناکام کوشش کی لیکن ہماری افواج نے ان کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔

آپریشن ردالفساد کے تحت پنجاب میں 34ہزار، سندھ میں ڈیڑھ لاکھ، بلوچستان میں 52 ہزار جبکہ خیبر پختونخوا میں 80ہزار آپریشن کیے گئے۔ اسی دوران جب دشمن نے کراچی سٹاک ایکسچینج پر حملے کی مزموم کوشش کی تو فوری ایکشن لیتے ہوئے دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا۔

اس کے علاوہ خفیہ ایجنسیوں نے سخت محنت سے دہشت گردوں کے نیٹ ورک پکڑے اور ان کی کمر توڑ دی۔ 2017ء سے لے کر اب تک 78 سے زائد دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ایکشن لیا گیا جبکہ1200 سے زائد دہشت گردوں نے ہتھیار ڈالے۔خیبر فور آپریشن بھی کیا گیا جس سے راجگال ویلی کو خالی کروایا گیا۔ انہی کاوشوں کی وجہ سے ہم خوشحالی، استحکام اور ترقی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

آپریشن ردالفساد کامیابی سے جاری ہے۔ ہمیں امن عمل کو مزید مضبوط کرنا ہوگا کیونکہ اس کے بغیر ترقی، خوشحالی اور استحکام کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ امن اور بین المذاہب ہم آہنگی ہمارا فلیگ شپ پروگرام ہے۔نفرت انگیز تقریر پر ہماری ’زیرو ٹالرنس ‘ کی پالیسی ہے۔ ہم نے مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت ، شیعہ سنی فسادات کو ختم کرنے کی ہرممکن کوشش کی، یہی وجہ ہے کہ آج حالات بہتر ہیں اور کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیںا ٓیا۔ اب ہمارا بیانیہ بھی پہلے سے بہتر ہے اور دنیا میں ہماراسافٹ امیج بھی بہتر ہوا ہے۔

کھیل کے وہ میدان جو دہشت گردی کی وجہ سے ویران ہوگئے تھے آج دوبارہ آباد ہوچکے ہیں اور کرکٹ میچز ہورہے ہیں ۔ اسی طرح اب بیرونی سرمایہ دار اور اوورسیز پاکستانی بھی یہاں سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور خود کو محفوظ تصور کر رہے ہیں۔ ہم ٹیررازم سے ٹورازم کی طرف بڑھ رہے ہیں جو یقینا بہت بڑی کامیابی ہے۔ افسوس ہے کہ اپوزیشن نے دہشت گردی کے خلاف ملکی سالمیت کی اس جنگ میں بھی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی اور این آر او پر توجہ رکھی۔ مرکز اور تین صوبوں میں تو روابط مثالی ہیں مگر پیپلز پارٹی کی حکومت اور ملک کی اپوزیشن اس طرح سے تعاون نہیں کر رہی جیسے کرنا چاہیے تھا۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ مضبوط پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ ہمارے لیے سب سے پہلے پاکستان ہے اور یہ وطن ہمیں اپنی اولاد سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ جو لوگ جانے انجانے میں ملک کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں ہوش کے ناخن لینا ہونگے۔دشمن نے ہماری افواج کی کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کی ناکام کوشش کی، ہائبرڈ وار کے ذریعے وہ ہمارے ذمہ دار لوگوں تک پہنچا مگر اسے کامیابی نہیں ہوسکی۔ افواج پاکستان نے سرحدوں کی حفاظت کی ہم پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کریں گے اور فرنٹ لائن سولجر بن کر ففتھ جنریشن وار کا مقابلہ کریں گے۔

جنرل (ر) غلام مصطفی (دفاعی تجزیہ نگار)

افواج پاکستان، ملکی سلامتی کے اداروں، پولیس اور سب نے مل کر دہشت گردی کے خلاف ایک طویل اور کامیاب جنگ لڑی جس کا آغاز 2008ء میں سوات آپریشن سے ہوا اور پھر ہم مختلف مراحل طے کرتے ہوئے آپریشن ردالفساد تک پہنچے۔

ملک میں نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا جو مشعل راہ تھا کہ ہم نے کس سمت میں جانا ہے۔ گزشتہ 4برسوں میں ملکی سلامتی کے ادارے چوکس رہے اورملک کے طول و عرض میں ہزاروں آپریشن کیے جن میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی دی۔ ملک میں ابھی بھی کچھ مسائل ہیں، دہشت گردی کے اکا دکا افسوسناک واقعات ہو رہے ہیں مگر پاکستان کے شیردل جوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ملک کی حفاظت کر رہے ہیں اور اس لیے قربانیاں دے رہے ہیں لوگ چین کی نیند سو سکیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس بات پر خصوصی زور دیا کہ یہ صرف افواج پاکستان کی کامیابی نہیں بلکہ پاکستان کی کامیابی ہے۔

عوام نے سیسہ پلائی دیوار کی طرح افواج پاکستان کا ساتھ دیا اور ڈٹ کر کھڑے رہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ بھی واضح کیا کہ جنگ صرف فوج نہیں قوم لڑتی ہے اور اگر قوم ساتھ کھڑی نہ ہو توکسی جنگ میں کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی ۔ ملک میں سویلین بالادستی پر بات ہوتی ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ بھی واضح کیا کہ جو کچھ کر رہی ہے وہ حکومت کر رہی ہے اور اس کے احکامات کے مطابق کام کیا جا رہا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ آسان نہیں ہے اور یہ ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ ہمارے دشمن ہماری سرزمین استعمال کرکے ہمیں ہی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہے۔ ہم زمینی سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابیاں سمیٹ چکے ہیں مگر اب ہائبرڈ وار ،ففتھ جنریشن وار کے حوالے سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں بدنما قسم کے خاردار پودے موجود ہیں۔

جنہیں ختم کرنے کی ضرروت ہے۔ آپریشن ردالفساد میں کچھ خامیاں بھی رہی ہیں ، سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ مرکز اور صوبوں کے درمیان روابط کا فقدان تھا اور وہاں صوبائیت کی جھلک نظر آئی تاہم مجموعی طور پر سب نے مل کر اس آپریشن کو کامیاب بنایا۔ ہمیں مرکز اور صوبوں کے مابین روابط کو مثالی بنانا چاہیے اور قومی مسائل پر قومی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ اس حوالے سے آئین اور قانون میں جو ترمیم کی ضرورت ہے وہ بھی کرلینی چاہئیں تاکہ مسائل سے مکمل طور پر نمٹا جاسکے۔ امریکا نے 9/11 کے بعد بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی تو ہم اپنے ملک کی خاطر کیوں نہیں کرسکتے؟

دہشت گردی سے ملکی معیشت کو اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا، سکیورٹی کیلئے اخراجات میں اضافہ ہوا، معاشی سرگرمیاں سست روی کا شکار ہوگئیں اور ملک کو معاشی طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر اب آپریشن ردالفساد کی کامیابی کے بعد یہ خوش آئند ہے کہ ملکی معیشت بہتر ہورہی ہے اور مختلف سیکٹرز نے دوبارہ سے ترقی بھی کی ہے۔ ردالفساد کے باجود افواج پاکستان نے کورونا کی مشکل گھڑی میں ایمرجنسی کی ذمہ داریاں بھی ادا کیں، اس کے خطرات شدید تھے مگر اللہ کا شکر ہے کہ اب حالات بہتر ہیں۔ جو لوگ بلاوجہ تنقید کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ کٹھن اور مشکل حالات میں قومی سلامتی کے اداروں کا ساتھ دیں۔

پاک افغان سرحد پر باڑ لگانا ایک بڑا اور مشکل کام تھا جو تقریباََ مکمل ہوچکی ہے ، ایران کے ساتھ بارڈر کے معاملات بھی بہتر کیے جارہے ہیں جلد انٹری اور اگزٹ پر کنٹرول بہتر ہوجائے گا۔ فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کیا جاچکا ہے۔ وہاں تیزی سے ترقی ہورہی ہے، سکول، کالج، سٹرکیں، مارکیٹیں بن رہی ہیں اور آہستہ آہستہ کنٹرول سول انتظامیہ کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ پاکستان اس وقت درست سمت میں جا رہا ہے، آپریشن ردالفساد ابھی بھی کامیابی کے ساتھ جاری ہے اور جو اندرونی و بیرونی دشمن سازشیں کر رہے ہیںا ن کے خلاف کارروائیاں کی جارہی ہیں۔

The post آپریشن ردالفساد کی کامیابی … ٹیررازم سے ٹورازم تک کا سفر! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2NRTdLH
via IFTTT

نوجوان کو دوسری شادی مہنگی پڑ گئی، محبوبہ نے پٹائی کر دی ایکسپریس اردو

نواب شاہ:  نوجوان کو دوسری لڑکی سے شادی مہنگی پڑگئی جب کہ پہلی محبوبہ نے حملہ کرکے زخمی کردیا۔

مریم روڈ پر واقع مقامی شادی ہال میں شادی کی تقریب اس وقت شدید ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگئی جبکہ ناہید مہر نامی لڑکی نے دولہا نیاز مہرکوگریبان سے پکڑ لیا اور چیختی چلاتی کہنے لگی کہ محبت مجھ سے کرو، شادی کسی اور سے، ایسا نہیں ہونے دوں گی، خواتین نے ناہید کو پکڑنے کی کوشش کی جس پر لڑکی نے تیز دھار آلے سے حملہ کرکے دولہا کو زخمی کردیا۔

خواتین نے حملہ آور لڑکی کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا جبکہ زخمی دولہا کو فوری طور پیپلز میڈیکل کالج و اسپتال منتقل کیا گیا ۔ ذرائع نے بتایا کہ زخمی دولہا اور حملہ آور لڑکی آپس میں رشتے دار اور دونوں سٹھ میل کے قریب 18 ویں شاخ کے رہائشی ہیں ۔ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔

ذرائع کے مطابق ناہید مہر کا کہنا ہے کہ نیاز مہر کے پاس وہ ٹیوشن پڑھتی تھی جس دوران ہم دونوں میں محبت ہوگئی ۔ دونوں نے شادی کے قول اقرار کیے مگر اس نے کسی اور لڑکی سے شادی کرلی، میرے احتجاج پر اس نے دلاسہ دیا کہ جلد تجھ سے شادی کروں گا جس پر میں راضی ہو گئی، آج مجھے اطلاع ملی کہ نیاز نواب شاہ میں دوسری شادی کر ریا ہے جس پر میں شادی ہال پہنچ گئی اور نیاز کو پکڑلیا اور چمچہ مار کر اسے زخمی کردیا۔

دولہا کے عزیز و اقارب بھی تھانے پہنچ گئے اور بتایاکہ ہم رشتے دار ہیں اور معاملہ کورٹ کچہری میں نہیں لے جانا چاہتے۔ لڑکی کی نیاز سے شادی کرالیں گے۔رابطے پر پولیس نے تصدیق کی کہ لڑکے والوں کی یقین دہانی پر معاملہ نمٹ گیا ہے۔

شادی میں ہنگامہ کرنے والی طالبہ کی مبینہ خود کشی

20 سالہ طالبہ ناہید مہر نے اتوار کی شام اپنے گوٹھ کے گھر میں مبینہ خود کشی کر لی ہے۔ سٹھ میل پولیس تھانے کے ایس ایچ او منظور بھنگوار نے رابطے پر تصدیق کی کہ ناہید مہر نامی طالبہ نے گلے میں پھندا ڈال کر پنکھے سے لٹک کر خود کشی کرلی ہے ان سے جب پوچھا گیا کہ لڑکی کو غیرت کے نام پر قتل تو نہیںکردیا گیا اور خودکشی کا ڈرامہ رچایا گیا ہے۔

تھانیدار نے کہا کہ لاش پوسٹ مارٹم کے لیے پیپلز میڈیکل کالج و اسپتال منتقل کر دی ہے۔پوسٹ مارٹم رپورٹ میں اگر قتل ثابت ہوا تو سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔

واضح رہے کہ آج دوپہر نواب شاہ کے مقامی شادی ہال میں مبینہ خود کشی کرنے والی طالبہ ناہید مہر نے نکاح کے وقت پہنچ کر شور شرابا کیا جسے حراست میں لیاگیا تھا۔ بعد ازاں لڑکی کو والدین کے حوالے کر دیاگیا جو ناہید کو اپنے ہمراہ گوٹھ لے گئے جہاں چند گھنٹوں بعد اس کی پھندہ لگی لاش پنکھے سے لٹکی ملی۔

The post نوجوان کو دوسری شادی مہنگی پڑ گئی، محبوبہ نے پٹائی کر دی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3aZq1v3
via IFTTT

لاہور قلندرز نے ملکی ہاکی کو بھی ٹھیک کرنے کا بیڑا اٹھا لیا ایکسپریس اردو

 کراچی:  لاہور قلندرز نے ملکی ہاکی کو بھی ٹھیک کرنے کا بیڑا اٹھا لیا۔

پی ایس ایل فرنچائز اور کراچی ہاکی ایسوسی ایشن کے درمیان ایک یادداشت پر دستخط ہوئے ہیں جس کے تحت قلندرز نہ صرف ٹیلنٹ ہنٹ میں معاونت کرے گی بلکہ ماہ رمضان میں کمیونٹی ٹورنامنٹ بھی منعقد کیا جائے گا۔

اس ایم او یو پر لاہور قلندرز کی جانب سے عاطف رانا اور کراچی ہاکی ایسوسی ایشن کے حیدر حسین نے دستخط کیے۔

The post لاہور قلندرز نے ملکی ہاکی کو بھی ٹھیک کرنے کا بیڑا اٹھا لیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3q44vts
via IFTTT

سینیٹ انتخابات کے بعد وفاقی کابینہ میں ردوبدل کا امکان ایکسپریس اردو

 اسلام آباد:  سینیٹ کے انتخابات کے بعد وفاقی کابینہ میں ردوبدل کا امکان ہے کیونکہ وزیر اعظم عمران خان کئی اہم وزرا کی کارکردگی سے خوش نہیں، اس لئے انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ کابینہ میں صرف وہی رہیں گے جو ڈیلیور کرسکیں گے۔

پارٹی ذرائع نے بتایا کہ ڈیلیور اورکارکردگی ہی وہ چیزیں ہیں جس میں وزیر اعظم دلچسپی لیتے ہیں کیونکہ وہ کسی بھی وجہ سے منصوبوں کی تکمیل میں غیرمعمولی تاخیر کے بعد بہانے سننے کو اچھا نہیں سمجھتے۔

ایک اہم وفاقی وزیر نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر کہاکہ وزیر اعظم کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ پارٹی حلقوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے، وزیر اعظم پختہ یقین رکھتے ہیں کہ وزراء کو کسی عذر پیش کیے بغیر کارکردگی دکھانا ہوگی۔

وزیر نے انکشاف کیا کہ کابینہ میں وہی لوگ رہیں گے جو کارکردگی دکھائیں گے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگرچہ متعدد معاشی اشارے درست سمت میں گامزن ہیں۔

The post سینیٹ انتخابات کے بعد وفاقی کابینہ میں ردوبدل کا امکان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ZXlgMn
via IFTTT

معاشی استحکام کیلیے بیرونی سرمایہ کاری کو ترجیح دینے کی ضرورت ایکسپریس اردو

 کراچی:  پاکستان معاشی محاذ پر آئرلینڈ سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔

2008 کے عالمی اقتصادی بحران کے نتیجے میں آئرلینڈ دیوالیہ ہونے کے قریب تھا مگر محض 7برس کے بعد اس کی جی ڈی پی نے 26.3 فیصد کی حیران کُن شرح سے ترقی کی۔ اس کی وجہ آئرلینڈ کی حکومت کا سرمایہ کاروں کو ترجیحی طور پر ٹیکسوں میں چھوٹ دینا اور ان کے لیے دروازے کھول دینا تھا۔

آئرلینڈ نے12.5 فیصد کی شرح سے سنگل کارپوریٹ ٹیکس متعارف کرایا اور کینیڈا اور امریکا کے علاوہ یورپی ممالک سے دہرے ٹیکس کے عدم نفاذ کے معاہدوں پر دستخط کیے۔

پاکستان سوفٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ کے ایم ڈی عثمان ناصر نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوے کہا کہ اس پالیسی کی وجہ سے دنیا کی صف اول کی کمپنیاں جیسے ایپل، فیس بک اور گوگل وہاں سرمایہ لگانے کی جانب راغب ہوئیں اور انھوں نے وہاں اپنے دفاتر اور ذیلی کمپنیاں کھولیں۔

عثمان ناصر کا کہنا ہے کہ پاکستان بھی آئرلینڈ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شرح نمو میں نمایاں اضافہ حاصل کرسکتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو یہاں لانا اور غیرملکی سرمایہ کاری ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے اور ہمیں کچھ وقت کے لیے ٹیکس آمدن کے اہداف کو پس پشت ڈال دینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بھی 66 ممالک کے ساتھ دہرے ٹیکس سے بچاؤ کے معاہدے کررکھے ہیں جن کے تحت سرمایہ کار پر یا تو اس کے آبائی وطن یا پھر جہاں وہ سرمایہ لگارہا ہے اس ملک میں ٹیکس عائد کیے جائیں گے۔

عثمان ناصر کہتے ہیں کہ اپنی اسٹریٹجک لوکیشن کے ساتھ پاکستان مشرق و مغرب دونوں جانب کے سرمایہ کاروں کو سہولتیں بہم پہنچانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کے لیے ٹیکس کی شرح کم اور کاروبار کرنے میں آسانی ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ غیرملکی سرمایہ کار اپنے دفاتر اور پیداواری یونٹ یہاں لگاسکتے ہیں اور پاکستان سے دنیا بھر میں اپنی مصنوعات برآمد کرسکتے ہیں۔ پاکستان آئی ٹی انڈسٹری میں تیزی سے ترقی کررہا ہے اور آئی ٹی کی برآمدات رواں مالی سال میں 2 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔

عثمان ناصر کہتے ہیں کہ اگر غیرملکی کمپنیاں اپنے دفاتر یہاں قائم کریں تو باصلاحیت نوجوانوں کو بہتر ملازمتیں میسر آسکتی ہیں۔

The post معاشی استحکام کیلیے بیرونی سرمایہ کاری کو ترجیح دینے کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2OaV2Dc
via IFTTT

چارسدہ، بابا صاحب مزار کے خادم کو قتل کر کے لاش جلا دی گئی ایکسپریس اردو

چارسدہ: تھانہ پڑانگ کی حدود میں بابا صاحب مزار میں خادم کو قتل کرکے لاش جلا دی گئی۔

بابا صاحب مزار میں خادم کو قتل کرکے لاش جلا دی گئی، مقتول لنگرخانہ میں مامور تھا۔

تفتیشی ٹیم نے سائنسی خطوط پر تفتیش کرتے ہوئے ایک گھنٹہ میں ملزم محمد نور خان سکنہ ملاکنڈ درگئی کو گرفتارکرکے آلہ قتل برآمد کر لیا، ملزم نے ابتدائی تفتیش میں اپنے جرم کا اعتراف کر لیا۔

The post چارسدہ، بابا صاحب مزار کے خادم کو قتل کر کے لاش جلا دی گئی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3bMOyCN
via IFTTT

پنجاب میں 30 سیاحتی مقامات کو ترقی دینے کا فیصلہ ایکسپریس اردو

 لاہور:  حکومت پنجاب نے صوبے میں تیس نئے سیاحتی مقامات کو ترقی دینے کا فیصلہ کیا ہے جس سے سالانہ سو ارب روپے سے زائد کی آمدن حاصل ہوگئی جبکہ 20ہزار افراد کو روزگار ملے گا ۔

حکومت پنجاب نے ٹورازم فار اکنامک گروتھ پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے منظوری دے دی ہے۔ پروگرام کے تحت بدھ مت، سکھوں کے آٹھ مقدس مقامات، ہڑپہ کی پانچ ہزار سال پرانی تہذیب اور مری کے قریب کوٹلی ستیاں اور نڑ کے مقامات کو سیاحت کے لیے ترقی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

منصوبے کے تحت خوشاب، چکوال، جہلم اور میانوالی کی سالٹ رینج میں بارہ سے چودہ مقامات مختلف مذاہب کے لیے مقدس گردانے جاتے ہیں اس کے علاوہ ہندو مت کے شاہی قلعے اور پرانی تہذیب کے آثار کو محفوظ بنانے اور سیاحوں کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

مری میں سیاحوں کا رش کم کرنے اور نئی سائٹ ڈویلپ کرنے کے لیے مری کی ایکسٹینشن کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت کوٹلی ستیاں، اور، نڑ کے مقامات کو بھی سیاحوں کے لیے سہولیات سے مزین کیا جائے گا چیرلفٹ بنائی جائیں گے، روڈ اور مختلف سہولیات کی فراہمی کی جائے گی۔

The post پنجاب میں 30 سیاحتی مقامات کو ترقی دینے کا فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3stAq8i
via IFTTT

7 ماہ میں چینی سرمایہ کاری402.8 ملین ڈالر کیساتھ سرفہرست ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: رواں مالی سال کے سات ماہ کے دوران پاکستان میں چینی سرمایہ کاری 402.8 ملین ڈالر کے ساتھ سرفہرست ہے۔

چینی سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بڑھا ہے، 2020 میں ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ کل 117 غیر ملکی کمپنیوں میں سے زیادہ تر چینی تھیں۔

گوادر پرو کی رپورٹ کے مطابق دیگر ممالک کی نسبت چین کی پاکستان میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری(ایف ڈی آئی) بلند ترین سطح پر پہنچنے کے باعث پاکستان کی معیشت مضبوط ہوئی ہے ۔ دیگر ممالک سے مجموعی طور پر ایف ڈی آئی میں 27 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

اسٹیٹ بینک رپورٹ کیمطابق 100 ملین سے زائد مجموعی ایف ڈی آئی کرنے والے نیدرلینڈ اور ہانگ کانگ تھے۔ انھوں نے سات ماہ کے دوران بالترتیب 122 ملین اور 105 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔

برطانیہ سے 83.8ملین ڈالر ، امریکہ 73.5 ملین ڈالر اور مالٹا سے بھی 60.6 ملین ڈالر کی نمایا ں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری آئی۔ ناروے سے سرمایہ کاری میں واضح تبدیلی نے ایف ڈی آئی کو بڑی حد تک متاثر کیا۔ اسکینڈی نیویائین ممالک سے مزید سرمایہ کاری کی بجائے 25.8 ملین ڈالر کی کمی ریکارڈ کی گئی۔

The post 7 ماہ میں چینی سرمایہ کاری402.8 ملین ڈالر کیساتھ سرفہرست appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3kFhNM0
via IFTTT

والدین کے دل تو موم کے ہوتے ہیں! ایکسپریس اردو

ناصرمحموداوریاسرمحموددونوں سگے بھائی ہیں۔ پنڈی کے ایک مضافاتی بستی کے رہائشی۔سفیدپوش بلکہ اس سے بھی نچلی سطح پرزندگی گزارنے پرمجبور۔والدزندہ تھا۔  کم ازکم ایک برس پہلے تک۔ ناصربڑابھائی تھا۔اسے احساس ہواکہ والدضعیف ہوچکاہے۔کسی بھی وقت بلاواآسکتاہے۔چھوٹابیٹایعنی یاسروالدکے کافی نزدیک تھا۔خدمت کرتاتھا۔لہذابوڑھے والدکاچھوٹے بیٹے کی طرف جھکاؤبہت زیادہ تھا۔

اس کے ذہن میں آیاکہ کہیں والد،محبت کے جوش میں جائیدادبرادرخوردکے نام نہ لگا دے۔اثاثے بھی کیاتھے۔دوتین ایکڑبارانی زمین اور ایک نیم پختہ مکان۔بارش پرمنحصرزمین سے چند ہزار روپے سال کے وصول ہوتے تھے۔وہ بھی ہمیشہ نہیں۔ بارش نہ ہونے کی صورت میں کونسی فصل اورکونسے پیسے۔ انتہائی معمولی ذرائع آمدن میں زندگی کیا ہوگی۔

اس کا اندازہ لگانازیادہ مشکل نہیں۔ناصرشادی شدہ تھا۔اس نے اب ہروقت سوچناشروع کردیاکہ کہیں چھوٹابھائی جائیدادکا مالک نہ بن جائے۔چنانچہ اس نے ایک انتہائی ادنیٰ اور المناک فیصلہ کیا۔شروع شروع میں تووالدکوکہاکہ جائیداد کا بٹواراکردے۔جب اس بوڑھے آدمی نے جواب دیاکہ اپنی زندگی میں جائیداداولادکے نام نہیں کریگا۔اس کی وفات کے بعدشرعی طریقے سے زمین اورگھراولادمیں تقسیم ہوجائیگا۔

اس نکتہ پرروزباپ بیٹے میں جھگڑاہونے لگا۔ناصرنے ایک منصوبہ بنایا۔جس میں والدکوزندگی کی قیدسے آزاد کرنا شامل تھا۔رات گئے،اپنے والدکے کمرے میں گیا۔ بوڑھا باپ سورہاتھا۔ناصرنے پوری طاقت سے باپ کا گلاد با دیا۔بیٹے کی تسکین پھربھی نہ ہوپائی۔ایک بوری لایا۔ باپ کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کیے۔گوشت کوبوری میں بندکیا۔بستی کے نزدیک ایک نالہ بہتاتھا۔

بوری،جس میں باپ کی لاش کے حصے تھے،خاموشی سے نالہ میں پھینک دیا۔گھرمیں چھوٹے بھائی کومعلوم ہی نہ ہوپایاکہ اس کے سگے بھائی نے اپنے ہی والدکوبے دردی سے قتل کر دیاہے۔خیرتلاش شروع کی گئی۔اس میں ناکامی کے بعد، پولیس کومطلع کیاگیا۔پولیس نے چندہی دنوں میں شبہ کی بنیادپرناصرکوگرفتارکرلیا۔دورانِ تفتیش بیٹاسب کچھ مان گیا۔نالہ سے بوری بھی برآمدہوگئی۔باپ کی لاش کے ٹکڑوں کواہل خانہ نے دفن کردیا۔بڑے بیٹے یعنی ناصرمحمودکے خلاف بھرپورقانونی کارروائی کی گئی۔

اسی نکتے کوآگے بڑھاتے ہوئے عرض کرنا چاہتا ہوں۔پشاورمیں بخشی پُل کے نزدیک ایک بستی ہے۔ غربت سے اَٹی ہوئی ہمارے عظیم ملک کی معمولی سی کالونی۔وہاں کاشف نام کاایک شخص،بیوی بچوں سمیت اپنی والدہ کے ساتھ رہتاتھا۔والدہ کانام مجددہ بی بی تھا۔ ساس بہومیں ہروقت نوک جھوک ہوتی رہتی تھی۔ گھر کا ماحول حددرجہ خراب ہوچکاتھا۔کاشف کبھی اپنی بیوی کوسمجھاتااورکبھی اپنی والدہ کو۔مگروہ ہروقت کی اس چخ چخ کونہ کم کرپاتاتھا،نہ گھرمیں اس کی کوئی بات سنتا تھا۔

ایک دن اسی طرح ساس بہوکاجھگڑاہورہا تھا ۔ کاشف نے الماری سے پستول نکالااوراپنی والدہ پر فائرنگ کر ڈالی۔اس کے بعدگھرسے بھاگ گیا۔ماں زخمی ہوکرزمین پرگرگئی۔بوڑھی عورت نے زورزورسے چیخناشروع کر دیا۔فائرنگ اورچِلانے کی آواز سنکر ہمسائے گھرپہنچے تو مجددہ سانس لے رہی تھی۔اسے پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال پہنچانے کی کوشش کی گئی ۔ مگرخاتون زخموں کی تاب نہ لاسکی۔اورایمبولینس ہی میں دم توڑگئی۔کاشف کوبھی گرفتارکرلیاگیا۔اس سے آگے لکھتے ہوئے میرا قلم لرزرہاہے۔ہمت ہی نہیں کہ اسطرح کے اَن گنت واقعات قلم بندکرپاؤں۔

اخبارمیں والدین کی اولادکے ہاتھوں مارے جانے کی خبریں پڑھنے کوملتی رہتی ہیں۔معمولی سے جھگڑے،جائیدادکی تقسیم اورخاندانی تنازعوں میں اولاد کے ہاتھوں ماں باپ کے مارے جانے کے واقعات اب کوئی رازنہیںہیں۔ ایسی قبیح حرکت۔ اتنابڑاظلم۔ اولادکے ہاتھوں والدین ہی جان دھوبیٹھیں۔ سوچنا تک دشوارہوجاتا ہے۔

مگر عذاب یہ ہے کہ اسطرح کی خبریں سچی ہوتی ہیں۔ اسطرح کے واقعات اب بڑھتے جارہے ہیں۔ قطعاً عرض نہیں کررہاکہ ماضی میں یہ گھٹیاروش نہیں تھی۔بالکل تھی۔ خصوصاًاقتدارکی جنگوں میں بھائی،باپ،بیٹے ایک دوسرے پرلشکرکشی کرتے رہتے تھے۔

برصغیرمیں کیونکہ اقتدارکی منتقلی کے متعلق ہونے کاکوئی ضابطہ نہیں تھا۔ اس لیے جیسے ہی بادشاہ کمزورہوتاتھا، بیمار پڑجاتا تھا یا آخری دموں پر ہوتاتھا۔توپھراولادایک دوسرے کے خلاف سلطنت حاصل کرنے کے لیے شورش میں مبتلا ہوجاتی تھی۔ برصغیرکی یہی روایت تھی کہ اقتدارکوصرف اورصرف تلوار کے زورپرہی حاصل کیاجاتاتھا۔اگرچندصدیوں پہلے کی مغربی دنیاپرنظرڈالیں تووہاں بھی سلطنت حاصل کرنے کے لیے بھائی،بہنیں،بیگمات ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے دکھائی دیتے ہیں۔

ویسے غورسے دیکھا جائے تو اسلامی ممالک کی اکثریت آج بھی اس منفی روش کا شکار ہے۔ ہمارے جیسے ملک میں بتایاجاتاہے کہ جمہوریت ہے۔ مگریہاں بھی غیبی تلوارکی طاقت کے بغیرکچھ نہیں ہو سکتا۔سازش،قتل وغارت کوتہذیب کابرہنہ لباس پہنا دیاجاتاہے۔مگربنیادی نکتہ وہیں رہتاہے کہ تخت کیسے حاصل کرناہے اورپھراس پرتسلط کیسے قائم رکھنا ہے۔ سلطنت کے حصول کی جنگ میں خاندانی رقابت کا المیہ سمجھ میں آتاہے۔مگرمعاشرے میں بالکل معمولی سی باتوں پر والدین اوراہل خانہ کوموت کے گھاٹ اُتار دینا صرف اور صرف ایک سماجی بیماری اورعلت کے سواکچھ بھی نہیں ہے۔

ہمارے عمومی،سماجی رویے کیا تھے۔ان میں کتنا خوفناک بگاڑآچکاہے۔اس پرہمارے معاشرے میں کھل کربات نہیں ہوتی۔ تسلیم ہی نہیں کرتے کہ معاشرہ اس حدتک گل سڑ چکاہے کہ اس سے تعفن کے علاوہ کچھ بھی برآمدنہیں ہورہا۔منافقت اتنی زیادہ ہے کہ جوہم ہیں، اس پربات کرناگناہ سمجھاجاتاہے۔جونہیں ہیں اورنہ بن سکتے ہیں۔اس پرہروقت کج بحثی جاری رہتی ہے۔

تاریخی لوریاں سناسناکرہمیں ایک ایسی ذہنی کیفیت میں مبتلا کر دیاگیاہے کہ ہم ماضی میں سانس لینے کے علاوہ اورکچھ نہیں کرسکتے۔انتہائی ضعیف روایات کومنطق کاحصہ بنا دیاگیاہے۔اورہم اس صورتحال سے اب کسی طور پر باہر نہیں نکل سکتے۔سچ بولنے اورسچ بتانے والے، سب لوگ معتوب گردانے جاتے ہیں۔یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم میں سے اکثریت اپنے حال کو دیکھنے کی ہمت نہیں رکھتی۔

مرداورعورت دونوں محنت کرتے نظر آئینگے۔ دفتروں ،دکانوں،منڈیوں،بازاروں میں روزمرہ کے کام میں مصروف نظرآئینگے۔تاجرحضرات روزانہ کثیر تعداد میں پیسے بینکوں میں جمع کرتے مصروف ہونگے۔کسی بھی طبقہ،امیریاغریب،ان لوگوں سے پوچھیں کہ آپ اتنی شدیدمحنت کیوں کررہے ہیں۔تواکثریت کاجواب ایک جیساہی ہوتاہے۔’’اپنے بچوں کے سکھ کے لیے‘‘۔ ’’ہماری زندگی جیسی تیسی گزری،مگراولادکوبہترمستقبل دینا چاہتے ہیں‘‘۔دیکھاجائے تواس میں آدھاسچ ہوتاہے۔

انسان اپنی آسائش کے لیے بھی محنت کرتاہے اوراپنی اولادکے لیے بھی۔ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق وہ اولادکو تعلیم، کاروبار اور تجارت،سب کچھ سکھانے کی کوشش کرتا ہے۔یہ عمومی رویہ ہے اوراس کی مثالیں ہم میں سے ہرایک کے اردگرد بکھری ہوئی ہیں۔انسان اولادکے سکھ کو متعددباراپنے ذاتی آرام سے زیادہ ترجیح دیتاہے۔ مگر پھرہوتاکیاہے کہ اولادخودمختارہوکروالدین کی شدید ریاضت کو بھولنا شروع کردیتی ہے۔ماضی کی تکالیف برداشت کرکے انھیں ترقی کے مواقعے دینے کومکمل فراموش کردیتی ہے۔ والدین کی اہمیت روزبروزکم ہونی شروع ہوجاتی ہے۔

وہ بیچارے مکمل اکلاپے کاشکار ہوجاتے ہیں۔اولادان پرروک ٹوک بھی روارکھتی ہے۔ آپکو یہ کرناچاہیے۔یہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس طرح کے فقرے عام سننے کوملتے ہیں۔ اب آپکوفیصلے کرنے کی ضرورت نہیں۔بس اب توآپ اللہ اللہ کریں ۔ نتیجہ یہ کہ بزرگوں کوانکی موت سے پہلے ذہنی طورپرختم کردیا جاتا ہے ۔ہرگزیہ عرض نہیں کررہاکہ تمام اولادایسے ہی کرتی ہے۔میں نے توایسے بلندکردارلوگ بھی دیکھے ہیں جوبوڑھے والدین کی خدمت کرنے کو عبادت گردانتے ہیں۔مگرانکی تعدادکم ہوتی جارہی ہے۔

بے ادبی کا دور دورہ حددرجہ زیادہ ہے اورپھرکچھ رقیق القلب لوگ ، اپنے والدین کوقتل تک کرڈالتے ہیں۔ اس سے بھیانک سماجی رویہ اورکیاہوگا۔ اولاد کو سمجھنا چاہیے کہ والدین کے دل توموم کے بنے ہوتے ہیں۔ انکا غصہ بھی بناوٹی ہوتاہے۔دل سے بچوں کے لیے صرف دعائیں نکلتی ہیں۔ان بے چاروں سے کیالڑنا!

The post والدین کے دل تو موم کے ہوتے ہیں! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/300hORe
via IFTTT

Saturday, February 27, 2021

ہما علی نے اداکارہ اقصیٰ علی کو رقص میں مات دیدی ،شائقین کی بھرپور داد ... مقابلے کی فضا سے شائقین کو بہترین کام دیکھنے کو ملتاہے ‘ اداکارہ کی گفتگو

ایک سال گزرنے کے باوجود بھی الحمر ا ہال نمبر دو کی تزئین و آرائش مکمل نہ ہو سکی

میں کراچی کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا اداکار ہوں‘ شہزاد رضا ... میں نے کراچی سمیت پاکستان بھر میں کام کیا ہے ، پنجاب میںبھی ڈرامے کر چکا ہوں‘ سینئر اداکار

پائل چوہدری خودکو سپر سٹار اورساتھ کام کرنے والوں کو کم ترسمجھتی ہیں ‘ خوشی ... خدا کی ذات عزت دے تو اس پر تکبر نہیں کرنا چاہیے ،رویے میں عاجزی لانی چاہیے ‘ اداکارہ کی گفتگو

سخاوت ناز نے بیک وقت تین اسٹیج ڈراموںمیں پرفارم کر کے منفردریکارڈ قائم کر دیا ... جب لگن ہو توپھر کوئی بھی کام مشکل نہیں رہتا بلکہ آسان ہو جاتا ہے ‘ کامیڈین اداکار کی گفتگو

من کے سچے لوگوں کو دوست بنانا میری کمزوری ہے ‘ ریشم ... ہمیں اپنے سے جڑے ہوئے لوگوں کابھی خیال رکھنا چاہیے ‘ انٹر ویو میں گفتگو

جوبائیڈن مشکل میں پھنس گئے،ساری دنیا نے امریکی صدر کو تنقید کا نشانہ بنا ڈالا ... جو بائیڈن کو خبردار کیا جاتا ہے کہ وہ جنگل کے قانون کی پیروی نہ کریں،شامی وزیر خارجہ

سندھ معدنی ذخائر سے مالا مال مگر اعداد و شمار دستیاب نہیں ایکسپریس اردو

کراچی: صوبہ سندھ قدرتی وسائل سے مالامال ہے جب کہ باضابطہ اسٹڈی نہ ہونے باعث حکومت سندھ کے متعلقہ حکام کے پاس اکثر معدنی ذخائر کاصحیح تخمینہ دستیاب نہیں ہے۔

ممحکمہ مائنز اینڈ منرل ڈیولپمنٹ سندھ کے اعدادوشمار کے مطابق صوبہ سندھ میں مختلف اقسام کی 27 معدنیات پائی جاتی ہیں تاہم ابھی تک صرف 8 قسم کی معدنیات کے ذخائر کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ بقیہ تمام معدنی ذخائر کی مقدار سے متعلق کوئی اعداد وشمار موجود نہیں ہیں۔

اکثر معدنی ذخائر کے صحیح اعداد وشمار نہ ہونے کے باعث ایک طرف معدنی وسائل سے متعلق منصوبہ بندی نہیں کی جاسکتی تو دوسری جانب اس سے انویسٹمنٹ کے مواقع بھی نہیں بڑھ پاتے، یہی وجہ ہے کہ محکمہ مائنز اینڈ منرل ڈیولپمنٹ نے حکومت سندھ کو سفارش کی ہے کہ صوبے میں موجود معدنی ذخائر سے متعلق تفصیلی اسٹڈی کرائی جائے۔

ڈائریکٹر ایکسپلوریشن گل شیر منگی نے ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ کو بتایا کہ اسٹڈی شروع ہونے کے بعد 2 سال کے اندر محکمے کے پاس تمام معدنی ذخائر کے اعداد وشمار دستیاب ہوجائیں گے، انھوں نے کہا کہ درکار اعداد و شمار کی دستیابی کے بعد صوبے میں معدنی وسائل کے حوالے سے انویسٹمنٹ کے مواقع بڑھیں گے۔

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق صوبے کے مختلف اضلاع میں مختلف معدنیات پائی جاتی ہے لیکن تھرپارکر، جامشورو اور ٹھٹھہ کا معدنی وسائل کے حوالے سے زرخیز اضلاع میں شمار ہوتا ہے، ضلع تھرپارکر میں کوئلے کے ساتھ ساتھ بہترین کوالٹی کا گرینائٹ بھی پایا جاتا ہے، جامشورو میں ماربل اور لائم اسٹون سمیت مختلف اقسام کی معدنیات پائی جاتی ہیں، جبکہ ضلع ٹھٹھہ میں سلیکا، شیل کلے اور کوئلے سمیت مختلف معدنی ذخائر موجود ہیں۔

 

The post سندھ معدنی ذخائر سے مالا مال مگر اعداد و شمار دستیاب نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Pn0rrL
via IFTTT

جے یو آئی ( ف) کے مقامی رہنما بیٹے اور شاگرد سمیت قتل ایکسپریس اردو

اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت میں تھانہ بھارہ کہو کی حدود پرنس روڈ پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے جمعیت علماء اسلام( ف ) کے مقامی رہنمااورمسجد صدیق اکبرکے امام مفتی اکرام بیٹے اورشاگرد سمیت جاں بحق ہوگئے۔

پولیس کے مطابق ہفتہ کی رات پرنس روڈ پر مارکیٹ میں مفتی اکرام اپنے تیرہ سالہ بیٹے اورشاگردکے ساتھ موجود تھے کہ ان پر نامعلوم افراد نے اندھادھند فائرنگ کردی جس سے تینوں جاں بحق ہوگئے،اطلاع ملتے ہی مقامی پولیس فوری جائے وقوعہ پرپہنچ گئی اورتینوں لاشوں کوپوسٹمارٹم کیلیے اسپتال منتقل کردیا۔

ایس پی سٹی عمرخان کا کہناہے واقعہ کی تفتیش جاری ہے جبکہ متعلقہ ایس ایچ اوحبیب الرحمن نے ایکسپریس سے گفتگومیں بتایاکہ واقعہ ٹارگٹ کلنگ معلوم ہوتا ہے جس کی ہر پہلو سے تفتیش کی جارہی ہے جلد ملزمان سے تک پہنچ جائیں گے، واقعہ پر ڈی آئی جی آپریشنزافضال احمدکوثرنے تحقیقات کیلئے ایس ایس پی انویسٹی گیشن کی سربراہی میں دوٹیمیں تشکیل دیدی ہیں۔

ڈی آئی جی نے ایس ایس پی تفتیشی ونگ کو ہدایت کی ہے کہ تفتیشی ٹیمیں سرزد وقوعہ کے ہر پہلو پر تحقیقات کریں اورحقائق پرمبنی رپورٹ 24 گھنٹے کے اندرپیش کریں۔

 

The post جے یو آئی ( ف) کے مقامی رہنما بیٹے اور شاگرد سمیت قتل appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3b0Jmfv
via IFTTT

پی ٹی آئی اور جی ڈی اے کے وفود کی ادارہ نور حق آمد ایکسپریس اردو

کراچی: پی ٹی آئی اور جی ڈی اے کے وفود نے ادارہ نور حق میں جماعت اسلامی  کے رہنماؤں سے ملاقات کی اور سینیٹ کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی حمایت حاصل کرنے کیلیے درخواست کی ہے۔

پی ٹی آئی کے  دورکنی وفد جس میں سینیٹ میں امیدوار سیف اللہ ابڑو کے علاوہ فداحسین نیازی شامل تھے نے  ہفتے کوادارہ نورحق میں جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے ملاقات کی اور 3مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات میں جماعت اسلامی کی جانب سے پی ٹی آئی کے امید وار کو ووٹ دینے کی درخواست کی۔

جماعت اسلامی نے وفد کو بتایا کہ مرکز سے مشاورت کے بعد حتمی فیصلہ کیا جائے گا،تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن،نائب امرا راجہ عارف سلطان،مسلم پرویز،سکریٹری کراچی منعم ظفر خان سے ملاقات کی اور سندھ اسمبلی میں جماعت اسلامی کے رکن کی حمایت حاصل کرنے کے لیے درخواست کی۔

ملاقات میں کراچی سمیت اندرون سندھ کے عوام کے مسائل بالخصوص شہر قائد کی ابتر صورتحال اور بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سمیت باہمی دلچسپی امور اور سیاسی حالات پر تبادلہ خیال بھی کیا گیا۔

علاوہ ازیں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (GDA)کے رہنما پیرپیر صدر الدین شاہ راشدی اور سردار رحیم نے بھی ادارہ نور حق میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن، نائب امیر مسلم پرویز سے ملاقات کی اور سینیٹ کے انتخابات میں جماعت اسلامی کی حمایت حاصل کرنے کی درخواست کی۔

ملاقات میں ملکی سیاسی صورتحال، کراچی و اندورن ِ سندھ کے حالات اور عوام کی حالت ِ زار پر گفتگو کی گئی،حافظ نعیم الرحمن نے وفد کو بتایا کہ مرکزی قیادت سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ سینیٹ انتخابات میں کس کی حمایت کی جائے۔

 

The post پی ٹی آئی اور جی ڈی اے کے وفود کی ادارہ نور حق آمد appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3syXG4S
via IFTTT

ایل او سی سیزفائر معاہدہ، بھارت سے تجارت بحال ہونے کا امکان ایکسپریس اردو

اسلام آباد: لائن آف کنٹرول پر سیزفائر کے معاہدے کے بعد بھارت کے ساتھ  بہ تدریج تجارتی تعلقات کی بحالی کے امکانات روش ہوگئے ہیں۔

وزارت تجارت کے ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ آئندہ ہفتے مشیرتجارت بھارت سے کپاس کی درآمد کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرسکتے  ہیں۔ ذرائع کے مطابق کپاس کی قلت کا معاملہ وزیراعظم عمران خان کے علم میں  لایا جاچکا ہے، اور اصولی فیصلے کے بعد یہ معاملہ  کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اندرون خانہ اس سلسلے میں غوروخوض شروع ہوچکا ہے مگر حتمی فیصلہ وزیراعظم کی منظوری کے بعد کیا جائے گا جن کے پاس وزارت تجات کا قلمدان بھی ہے۔

بھارت سے کپاس کی درآمد کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں مشیرتجارت عبدالرزاق  داؤد نے کہا کہ پیر کو وہ اس سلسلے میں کچھ بتانے  کی پوزیشن میں ہوں گے۔

نئی دلی کی جانب سے جموں و کشمیر کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت حاصل خصوصی حیثیت کے خاتمے کے یکطرفہ فیصلے کے بعد پاکستان نے ہمسایہ ملک سے تجارتی تعلقات معطل کردیے تھے۔ تاہم دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کی بحالی سے  پیداواری لاگت میں کمی اور غذٓائی اجناس کی رسد میں تسلسل ممکن ہوسکتا ہے۔

واضح رہے کہ رواں برس پاکستان کو کپاس کی قلت کا سامنا ہے۔ وزارت غذائی تحفظ و تحقیق نے رواں برس کپاس کی پیداوار کا تخمینہ 12 ملین گانٹھیں لگایا تھا تاہم پیداوار 7.7 ملین  گانٹھیں رہی ہے تاہم کاٹن جنرز کے لگائے گئے تخمینے کے مطابق کپاس کی پیداوار صرف 5.5 ملین گانٹھیں رہے گی۔ اس طرح ملک کو کپاس کی کم ازکم 6ملین گانٹھوں کی قلت کا سامنا ہے۔

 

The post ایل او سی سیزفائر معاہدہ، بھارت سے تجارت بحال ہونے کا امکان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3uEkZMp
via IFTTT

جنگ بندی معاہدے کے بعد پاکستان اور بھارت کا سخت بیان بازی سے گریز کا فیصلہ ایکسپریس اردو

اسلام آباد: کنٹرول لائن پر جنگ بندی معاہدے کے بعد پاکستان اور بھارت نے کشیدگی کم کرنے کے لیے سخت بیان بازی سے گریزکا فیصلہ کیاہے۔

ایک سرکاری عہدیدارنے گزشتہ روز انکشاف کیا کہ پاکستان اور بھارت نے کشیدگی کم کرنے کے لیے سخت بیان بازی سے گریزکا فیصلہ کیاہے جب کہ مزیداقدامات کیلئے دونوں ہمسائے بہتراورخوشگوارماحول کے خواہاں ہیں، ایک دوسرے کا اعتمادبحال کرنے کیلئے دواطراف سے سخت بیان بازی سے گریزکیاجارہاہے، ذرائع کے مطابق یہ تجویزپہلے بھارت کی طرف سے آئی ہے۔

بھارت نے وزیراعظم عمران خاں کیطرف سے مختلف مواقع پراپنے ہم منصب بھارتی وزیراعظم  نریندرامودی کو ہدف بنانے اور ہٹلرسے تشبیہ دینے پرکچھ تحفظات کااظہارکرنے کے باوجود دونوں ملکوں  نے’’خاموش ڈپلومیسی ‘‘پرزوردیاجس کا نتیجہ کنٹرول لائن پر خوشگوارماحول پیداکرنے اور کشیدگی کم کرنے کیلئے سیزفائر معاہدے کی صورت میں نکلا ۔

بھارتی ذرائع کے مطابق بھارت نے پاکستان کو درخواست کی ہے کہ وزیراعظم عمران خان  کومودی کیخلاف ذاتی بیان بازی کو روکناہوگا۔پاکستان کو بتایاگیاتھاکہ بھارت اسلام آبادکیساتھ کشیدگی کم کرنے اوردوبارہ مذاکرات  اس شرط پرکرنے کیلئے  تیارہے اگروزیراعظم عمران خاں مودی پر حملے بندکردیں تو، جس پر پاکستان نے بھارتی  درخواست قبول کرلی اورعمران خان نے مودی کو تنقیدکانشانہ بنانے سے ہاتھ روک لیا۔

17جنوری کو آخری باروزیراعظم عمران خاں نے مودی کیخلاف کوئی تنقیدی بیان جاری کیاتھا۔اس کے بعد عمران خان نے مودی پر ٹویٹس اوربیانات کی صورت میں مودی پر ذاتی حملوں اورلفظی گولہ باری سے گریزکرناشروع کیا۔کئی مواقع جیسے یوم یکجہتی کشمیر اورآپریشن سوئفٹ ریٹورٹ کے دوسال مکمل ہونے پروزیراعظم عمران خاں کو کچھ بیانات دینا پڑے۔

ماضی سے ہٹ کر عمران خان  نے دونوں مواقع پر دبنگ آوازمیں بھارت کومسئلہ کشمیرپرمذاکرات کی دعوت دی ہے ۔ہفتے کو جاری ٹویٹس کے باوجودوزیراعظم عمران خان نے دوسال قبل بھارتی لڑاکاطیارہ مارگرانے کے حوالے تقریب پر پاک فضائیہ اورقوم کو مبارکباددی ہے اورجنگ بندی معاہدہ کاخیرمقدم کیاہے۔

انہوں نے بھارت سے کہاہے کہ وہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب ایشوزکے حل کیلئے مذاکرات کی میزپر بیٹھے ۔پاکستان کی  بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کیطرف سے 5اگست 2019 کے غیرقانونی اقدام واپس لینے کے حوالے سے کچھ شرائط  ہیں۔

مبصرین کویقین ہے کہ مودی حکومت کیلئے 5اگست کا غیرقانونی اقدام واپس لینے فیصلہ بڑامشکل ہوگا۔لیکن انکا خیال ہے  کہ بھارتی سپریم کورٹ ہی اس کا کوئی حل نکال سکتی ہے  اوربھارتی سپریم کورٹ میں بھارتی آئین کے آرٹیکل370کے خاتمے کے حوالے سے ایک پٹیشن التوابھی ہے کیونکہ بھارتی سپریم کورٹ ہی مودی کو آسان راستہ دیتے ہوئے خصوصی حیثیت بحال کرسکتی ہے۔

ماہرین نے پاکستان کو خبردارکیاہے کہ  بھارت کے رویے میں تبدیلی کو لداخ سے بھی  جوڑاجاسکتاہے ۔اگرچہ چین اوربھارت  کا حال ہی میں اہم مقام  لداخ ریجن پر تصادم ہواہے جوکہ ابھی تک کشیدگی برقرارہے۔

بھارتی اسٹریٹجک کمیونٹی کا خیال ہے کہ  پاکستان کے بڑھتے ہوئے فوکس کے باعث بھارت کوپاکستان کو مصروف کرناہوگا۔دونوں ملک کوشش سے پانچ اگست سے پہلی والے سفارتی تعلقات کو بحال کرسکتے ہیں حالانکہ پانچ اگست کے اقدام کے بعدپاکستان اور  بھارت اپنے اپنے سفارکاروں کو واپس لے چکے ہیں۔بھارت پاکستان کی میزبانی میں ہونیوالی  سارک کانفرنس کا بائیکاٹ کرچکاجو کہ 16 نومبرکو اسلام آبادمیں ہوئی تھی۔

 

The post جنگ بندی معاہدے کے بعد پاکستان اور بھارت کا سخت بیان بازی سے گریز کا فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3uGEd47
via IFTTT

میرے دو استاد ایکسپریس اردو

سنتوش آنند 1939 میں سکندر آباد میں پیدا ہوئے‘ یہ بلند شہر کا چھوٹا سا قصبہ تھا‘ فضا میں اردو‘ تہذیب اور جذبات تینوں رچے بسے تھے چناں چہ وہاں کا ہر پہلا شخص شاعر اور دوسرا سخن شناس ہوتا تھا‘ سنتوش جی ان ہوائوں میں پل کر جوان ہوئے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے لائبریری سائنس کی ڈگری لی اور حالات کے کندھوں پربیٹھ کر فلم انڈسٹری کے دروازے پر آ گرے‘ 1970 کی دہائی بھارت میں فلم انڈسٹری کے عروج کازمانہ تھا اور سنتوش آنند نے فلم پورب اور پچھم کے گانے لکھے اور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا‘ ان کا فلمی کیریئر زیادہ لمبا نہیں تھا‘ انھوں نے صرف 26 فلموں میں 109 گانے لکھے اور فلم انڈسٹری نے انھیں چپ چاپ سائیڈ پر رکھ دیا‘ یہ ابھی تک حیات ہیں‘ عمر 81سال ہے‘ ٹانگوں سے معذور ہیں‘ ہاتھوں میں رعشہ اور زبان میں لکنت آ چکی ہے اور انھیں بولنے اور لکھنے دونوں میں دقت ہوتی ہے لیکن یہ اپنے دو گانوں کی وجہ سے آج بھی سننے والوں کے حافظے میں زندہ ہیں۔

میرا خیال ہے یہ دو گانے جب تک زندہ ہیں سنتوش آنند اس وقت تک گم نامی کی قبر میں دفن نہیں ہوں گے‘ پہلا گانا شور فلم کے لیے لکھا تھا اور اس کے بول تھے‘ اک پیار کا نغمہ ہے‘ موجوں کی روانی ہے‘ زندگی اور کچھ بھی نہیں‘ تیری میری کہانی ہے اور دوسرا گانا کرانتی فلم کا ٹائٹل سانگ ہے ‘زندگی کی نہ ٹوٹے لڑی‘ پیار کر لے گھڑی دو گھڑی‘ یہ دونوں گیت امر ہیں اور یہ سنتوش آنند کو بھی امر بنا چکے ہیں۔

میںسنتوش آنند کے پہلے گانے ’’اک پیار کا نغمہ ہے‘‘ کو اپنا استاد سمجھتا ہوں‘ میرا دوسرا استاد ساحر لدھیانوی کا گانا ’’میں پل دو پل کا شاعر ہوں‘ پل دو پل میری کہانی ہے‘‘ ہے‘ یہ دونوں گانے صرف گانے نہیں ہیں‘ یہ زندگی کی فقہ اور وقت کا آئین ہیں‘ یہ دونوں گانے یقینا ان دونوں شاعروں پر کسی خاص وقت میں‘ کسی خاص کیفیت میں الہام کی طرح اترے ہوں گے ورنہ زندگی کی اتنی حساس حقیقتیں اتنی آسانی سے بیان کرنا ممکن نہیں تھا‘ میں یہ دونوں گانے ہزاروں مرتبہ سن چکا ہوں اور آپ یقین کریں یہ ہر بار نئی کیفیت‘ نئی ترنگ کے ساتھ کانوں میں اترتے ہیں اور زندگی اور حالات کی نزاکتوں کے الجھے دھاگے کھلتے چلے جاتے ہیں‘ اللہ نے مجھ پر رحم کیا‘ اس کا لاکھ لاکھ کرم ہے۔

اس نے ہر قسم کے جائز ناجائز نشے سے محفوظ رکھا لیکن میں جب بھی یہ دونوں گانے سنتا ہوں تو میں خود کو نشئی سا محسوس کرنے لگتا ہوں اور یہ سوچتا ہوں شاید نشے کے بعد نشئیوں میں بھی ایسی ہی کیفیت پیدا ہوتی ہو گی ورنہ کسی شخص کے لیے اپنا گھر بار‘ رتبہ اور مذہب فراموش کرنا آسان نہیںہوتا‘ ان دونوں گانوں کے لفظوں میں کیا کرشمہ‘ کیا چمتکار ہے میں آج تک نہیں سمجھ سکا لیکن آپ یقین کریں میں نے زندگی کے بڑے سے بڑے بحران‘مسائل کے بڑے سے بڑے جوہڑ میں کھڑے ہو کر بھی جب یہ دو گیت سنے تو دو منٹ میں! جی ہاں صرف دو منٹ میں میری کیفیت بدل گئی۔

میں نے ان دونوں گانوں کو دو الگ الگ ٹائٹل بھی دے رکھے ہیں۔ میں ’’اک پیار کا نغمہ ہے‘‘ کو زندگی کی حقیقت اور ’’میں پل دو پل کا شاعر ہوں‘‘ کو انسان کی حقیقت سمجھتا ہوں‘ میری آپ سے درخواست ہے آپ جب بھی زندگی کے کسی مسئلے کا شکار ہوں آپ ’’اک پیار کا نغمہ ہے‘‘ سن لیں اور آپ جب بھی خود کو طرم خان سمجھنے لگیں یا آپ کے منہ سے بار بار یہ نکل رہا ہو ’’تم مجھے جانتے نہیں ہو میں کون ہوں‘‘ یا ’’یہ میں کہہ رہا ہوں‘‘ یا آپ بار بار’’ میں سمجھتا ہوں‘‘ کہہ رہے ہوں تو آپ ’’پل دو پل کا شاعر‘‘ پلے کریں اور خود کو اس سائونڈ ٹریک میں رکھ دیں‘آپ یقین کریں آپ گانا ختم ہونے سے پہلے بندے کے پتر بن جائیں گے۔

دنیا میں ہر چیز کو بیان کیا جا سکتا ہے لیکن موسیقی‘ پینٹنگ اور الہام کو بتایا اور سمجھایا نہیں جا سکتا‘ دنیا آج تک ایسے لفظ ایجاد نہیں کر سکی جن کے ذریعے الہامی کیفیات‘ پینٹنگ میں چھپے جذبات اور موسیقی کو بتا یااور سمجھایا جا سکے‘ میں بھی یہ دونوں نغمے آپ کو سمجھا نہیں سکوں گا‘ یہ آنکھوں سے دیکھنے والے رنگ‘ کانوں سے سننے والی آواز اور لمس سے چکھنے والے ذائقے ہیں ‘یہ قلم اور آواز سے دوسروں میں ٹرانسفر نہیں کیے جا سکتے تاہم میں اس کے باوجود کوشش کرتا ہوں آپ کو کچھ نہ کچھ سمجھا یا بتا سکوں۔ ہم سب سے پہلے استاد سنتوش آنند کے شاہکار کی طرف آتے ہیں‘ زندگی اور کچھ بھی نہیں تیری میری کہانی ہے۔

آپ ملاحظہ کیجیے زندگی کی کتنی مختصر اور جامع تعریف ہے‘ آپ اور میں جن جن حالات سے گزرتے ہیں‘ ہم اتار چڑھائو کے جس کھیل کا حصہ ہیں وہ زندگی ہے اور جس دن ہماری کہانی رک جائے گی اس دن زندگی ختم ہو جائے گی‘ آپ شعر دیکھیں’’ کچھ پا کر کھونا ہے‘ کچھ کھو کر پانا ہے‘ جیون کا مطلب تو آنا اور جانا ہے اور دو پل کے جیون سے اک عمر چرانی ہے‘‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کیا ہم زندگی بھر پا کر کھوتے اور کھو کھو کر پاتے نہیں رہتے اور کیا آنا اور جانا یہ زندگی کا مطلب نہیں اور کیا ہم کائنات کے نینو سیکنڈز میں زندہ نہیں ہیں؟

اربوں کھربوں سال کی اس کائنات میں ہمارے ساٹھ ستر سالوں کی کیا حیثیت ہے اور کیا ہم دو پل کے جیون میں ایک عمر نہیں گزارتے اور کیا یہ ہمارا کمال نہیں؟ آپ یہ شعر بھی دیکھیے ’’طوفان تو آنا ہے‘ آکر چلے جانا ہے‘ بادل ہے یہ کچھ پل کا‘ چھا کر ڈھل جانا ہے‘ پرچھائیاں رہ جاتی‘ رہ جاتی نشانی ہے‘‘ استاد سنتوش نے کس خوب صورتی سے زندگی کی تینوں سچائیاں بیان کر دیں‘ دنیا کے بڑے سے بڑے طوفان بھی بہرحال چلے جاتے ہیں‘ دنیا کے گہرے سے گہرے بادل بھی بالآخر ڈھل جاتے ہیں اور ہم دنیا کے لیے کتنے ہی ناگزیر‘ کتنے ہی اہم کیوں نہ ہو جائیں آخر میں ہم پرچھائی بن کر رہ جاتے ہیں۔

ہماری صرف نشانی بچتی ہے اوریہ بھی کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے‘ اس گیت کے دو بند گانے میں شامل نہیں ہیں‘ یہ دونوں بند خیالات اور حقائق کی معراج ہیں‘ استاد سنتوش نے کہا ’’جو بیت گیا وہ۔۔۔اب دور نہ آئے گا‘ اس دل میں سوا تیرے۔۔۔ کوئی اور نہ آئے گا‘ گھر پھونک دیا ہم نے ۔۔۔ اب راکھ اٹھانی ہے‘‘ اس سے اگلا بند اس سے بھی کوئی اونچی چیز ہے‘ استاد کا کہنا ہے ’’تم ساتھ نہ دو میرا۔۔۔چلنا مجھے آتا ہے ۔۔۔ہر آگ سے واقف ہوں۔۔۔ جلنا مجھے آتا ہے اور تدبیر کے ہاتھوں سے‘ تقدیر بنانی ہے‘ زندگی اور کچھ بھی نہیں‘ تیری میری کہانی ہے‘‘۔

آپ اب دوسرے استاد کی طرف بھی آیے‘ آپ اگر طاقتور ہیں‘ آپ اگر کوئی طرم خان‘ کوئی توپ علی خان یا پھر شیخ ہیرا لال ہیں تو میری آپ سے درخواست ہے آپ دن میں کم از کم ایک بار ساحر لدھیانوی کا ’’میں پل دو پل کا شاعر ہوں‘ پل دو پل میری کہانی ہے‘ پل دو پل میری ہستی ہے‘ پل دو پل میری جوانی ہے‘‘ ضرور سن لیا کریں‘ آپ کو اپنی اوقات یاد رہے گی‘ آپ استاد ساحر لدھیانوی کے شعر ملاحظہ کیجیے’’ مجھ سے پہلے کتنے شاعر آئے اور آ کر چلے گئے‘ کچھ آہیں بھر کر لوٹ گئے‘ کچھ نغمے گا کر چلے گئے۔۔۔ وہ بھی اک پل کا قصہ تھے‘ میں بھی اک پل کا قصہ ہوں‘ کل تم سے جدا ہو جائوں گا گو آج تمہارا حصہ ہوں‘‘۔۔۔

اور ’’کل اور آئیں گے نغموں کی کھلتی کلیاں چننے والے‘ مجھ سے بہتر کہنے والے‘ تم سے بہتر سننے والے۔۔۔ ہر نسل اک فصل ہے دھرتی کی‘ آج اگتی ہے کل کٹتی ہے‘ جیون وہ مہنگی مدرا ہے جو قطرہ قطرہ بٹتی ہے‘‘ ۔۔۔اور ’’ساگر سے ابھری لہر ہوں میںساگر میں پھر کھو جائوں گا‘مٹی کی روح کا سپنا ہوںمٹی میں پھر سو جائوں گا‘‘۔۔۔اور کل کوئی مجھ کو یاد کرے‘ کیوں کوئی مجھ کو یاد کرے‘مصروف زمانہ میرے لیے کیوں وقت اپنا برباد کرے‘‘ واہ استاد کیا بات ہے۔

ہم اہل زمین بھی کیا چیز ہیں‘ ہم ہر طوفان کو دائمی‘ ہر بادل کو خدا سمجھ لیتے ہیں‘ ہم صرف مٹی کی روح کا سپنا ہیں لیکن ہم خود کو مستقل سمجھ لیتے ہیں‘ ہم یہ سمجھتے ہیں زمانے کے پاس ہمیں یاد کرنے کے سوا کوئی کام نہیں ہو گا‘ہم وہ ہیں جو کبھی یہاں سے رخصت نہیں ہوں گے‘ ہم اہل زمین روز نسلوں کی فصلیں کٹتے اور پھر برباد ہوتے دیکھتے ہیں لیکن ہم اس کے باوجود اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں ہم کٹیں گے اور نہ ہی برباد ہوں گے اور ہم اہل زمین پل کا قصہ ہونے کے باوجود‘ وقت کا حصہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو مکمل اور پوری کتاب حیات سمجھ لیتے ہیں۔

ہم وقت کے مسافر‘ ہم پل دو پل کے ناکام شاعر نہ جانے خود کو کیا سمجھ لیتے ہیں‘ ہم فرعون کے لہجوں میں بول کر ہمیشہ اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں وقت کبھی ہماری رعونت پر مٹی نہیں ڈالے گا‘ ہم خوشی کا ’’خ‘‘ ہیں‘ ہم لوح ایام پر ہمیشہ ہمیشہ درج رہیں گے‘ ہم اہل زمین بھی کیا چیز ہیں؟۔

آپ بھی اگر میری طرح اس غلط فہمی کا شکار ہوتے رہتے ہیں تو پھر آپ بھی رات سونے سے پہلے ایک آدھ بار پل دو پل سن لیا کریں‘ اللہ سے معافی مانگتے رہا کریں اور اپنی اوقات کو اوقات میں رکھ کر خود کو دیکھتے رہا کریں‘زندگی اچھی گزرے گی‘ آپ یہ یاد رکھیں اس کائنات میں اللہ کی ذات کے علاوہ کوئی ناگزیر نہیں اور اس کے علاوہ کوئی شخص‘ کوئی عہدہ دائمی نہیں‘ کرسی صرف اس کی ہے جس نے کرسی کی آیت اتاری تھی باقی سب مٹی کی مٹھی ہیں‘ بکھرنا اور بکھر کر اڑ جانا ہم سب کا مقدر ہے ‘ہم مٹی کی روح کا سپنا ہیں‘ ہم مٹی میں مل کر رہیں گے اور پھر ہمارا نشان بھی نہیں ہوگا نشانوں میں۔

The post میرے دو استاد appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/37Weafl
via IFTTT

منٹو سے کیا ہوا وعدہ ایکسپریس اردو

چند دنوں پہلے میرے ایک عزیز دوست اور پاکستان کے مشہور سیاسی تجزیہ نگار شاہین صہبائی کا امریکا سے یہ پیغام آیا کہ وہ مجھے ایک کتاب بھجوا رہے ہیں جو ان کے والد قدوس صہبائی مرحوم کی زندگی کی کہانی ہے۔ یہ کتاب جس کا نام ’’میری رانی، میری کہانی‘‘ہے، چند دنوں بعد مجھے مل گئی۔

ایک نہایت دلچسپ اور اداس کردینے والی محبت کی کہانی۔ اپنی زندگی کا قصہ قدوس صہبائی صاحب نے 50 کی دہائی میں سعادت حسن منٹوکو سنایا تو ان کا کہنا تھا کہ اس قصے کو لکھ ڈالو، یہ لوگوں کو بہت متاثر کرے گا اور برطانوی راج کے زمانے کی زندگی بھی لوگوں کی سمجھ میں آجائے گی۔ اس کے فوراً بعد ہی منٹوکی زندگی شراب خانہ خراب کے دریا میں ڈوب گئی۔

قدوس صہبائی اپنی بیوی اور بچوں کی زندگی کو سنوارنے میں مصروف ہوگئے۔ ان کا بہت ہولناک کار ایکسیڈنٹ ہوا ، مر مرکے بچے اور لگ بھگ دو برس بعد جب طبیعت کچھ سنبھلی تو انھوں نے کاغذ ، قلم سنبھالا اور اپنی زندگی کے بارے میں لکھنے بیٹھ گئے۔ خود نوشت 1973 میں مکمل ہوئی، انھوں نے جن صفحات پر اپنا حال دل لکھا تھا، اس کی جلد بند کرائی اور اسے گھرکی ایک الماری میں رکھ کر یوں مطمئن ہوگئے جیسے منٹو سے کیا ہوا وعدہ پورا ہوگیا ہو۔ صہبائی خاندان کا تعلق افغانستان سے تھا۔

ہندوستان آکر بھی یہ لوگ فوج سے ہی وابستہ رہے لیکن قدوس صہبائی کو پڑھنے اور لکھنے سے ایسی گہری دلچسپی ہوئی کہ خاندان والوں کے خیال میں انھوں نے اپنے گھر والوں کی ناک کٹوا دی۔ اس زمانے میں صحافت ایک ایسا پیشہ تھی جس کا مطلب مولانا حسرت موہانی اور دوسرے قوم پرست ادیبوں کی طرح چکی پیسنا اور جیل جانا تھا۔ قدوس صہبائی کارل مارکس کے فلسفۂ معاشیات کے پیروکار تھے اورکمیونزم کو ساری دنیا کے غریبوں کے مسائل کا حل سمجھتے تھے۔

یہ ایسے خیالات تھے جس سے ان کے والد اور خاندان کے بزرگ خوش نہ تھے، لیکن قدوس کو بزرگوں کی ناراضی کی پروا نہ تھی۔ وہ اپنے پیشے میں دل وجان سے ڈوبے ہوئے تھے کہ بیمار ہوئے اور ایک صحت افزا مقام پر بھیج دیے گئے، یہ علاقہ چھتیس گڑھ کے نام سے مشہور تھا۔ اس کے راجا ایک روشن خیال راجپوت حکمران تھے۔ ان کی تین بیٹیاں تھیں جنھیں انھوں نے انگریزی تعلیم دلائی تھی اور ہر سال یورپ لے کر جاتے تھے ۔ ان کی چھوٹی بیٹی رانی وجے روپ کی شادی ایک راج کمار سے ہوئی۔

یہ پسند کی شادی تھی اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوش تھے لیکن تقدیر سے انسانوں کی خوشی بھلا کب دیکھی جاتی ہے چنانچہ راجکمار ایک کار ایکسیڈنٹ میں ختم ہوگیا اور حسین و نوجوان راجکماری وجے روپ بیوہ ہوگئی۔ اس نے سال بھر راج کمار کے سوگ میں سیاہ لباس اورپھر سفید رنگ اختیارکر لیا۔ وہ دودھیا سفید رنگ کی ساڑی میں اپنی سفید بیوک گاڑی میں نکلتی اور سنسان پہاڑیوں، گھنے جنگلوں میں گھومتی رہتی۔

اس کی ریاست جنگلی اور خونخوار درندوں سے بھری ہوئی تھی۔ ان درندوں کے سامنے انگریز افسروں کی ٹانگیں کانپتی تھیں لیکن راجکماری وجے روپ کا حسنِ بے پروا ان خونخوار جانوروں کو بھی خاطر میں نہ لاتا۔ وہ ریاست کی آن اور شان تھی اسی لیے بیوہ ہونے کے باوجود لوگ اسے تقریباً دیوی سمجھتے اور بہت سی رعایا تو اس کے سامنے ماتھا ٹیکتی۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ وہ آسمان سے اتری ہوئی اپسرا ہے اور اسی لیے شیر، چیتے اور بھیڑیے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاتے۔

ایک ایسی رومانی اور افسانوی فضا میں  قدوس صہبائی اور راجکماری وجے روپ ایک دوسرے کے عشق میں گرفتار ہوئے لیکن شدید خواہش کے باوجود دونوں شادی کے بندھن میں نہیں بندھ سکتے تھے۔ دونوں کی راہ میں کیسی رکاوٹیں آئیں، اس کا اندازہ قدوس صہبائی کی خود نوشت ’’میری رانی، میری کہانی‘‘ سے ہوتا ہے۔ مذہب ان دونوں کے راستے کی دیوار رہا اور پھر ہندوستان تقسیم ہوگیا۔

قدوس صہبائی اس دوران ایک لڑکی سے شادی کرچکے تھے، جس سے ان کے بچے تھے۔ راج کماری سے ان کی آخری ملاقات ممبئی میں ہوئی۔ اس ملاقات میں قدوس صہبائی کی بیوی بھی موجود تھیں۔ راجکماری نے دونوں کو شادی کی بدھائی دی، چند تحفے صہبائی کی بیوی اور ان کے بچوں کو دیے اور پھر دونوں ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے۔

اپنی اس خود نوشت میں انھوںنے راج کماری وجے روپ سے صرف عشق کا قصہ اور مرگِ محبت کا فسانہ ہی نہیں لکھا ہے بلکہ اس زمانے کی سیاست کا بھی احاطہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:

3 ستمبر 1939 کا دن دنیا کے لیے وہ سیاہ دن تھا جس کی سیاہی افق عالم سے اب تک نہ مٹی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کا ڈنکا بج گیا تھا۔ ابتدا میں یہ جنگ یورپ تک محدود تھی اور اس کے اثرات ہندوستان پر زیادہ شدید نہ تھے۔

جرمنی نے 1940 کے موسم بہار اور پھر اگلے موسم گرما میں سارے یورپ کو روند ڈالا تھا۔ اگلے سال وہ انگلستان پر حملے کی تیاری کررہا تھا۔ 1940-41 کے دو سالوں میں ہٹلر سارے یورپ اور اٹلی کی مدد سے جنوبی یورپ کو بھی تسخیرکرچکا تھا۔ آسٹریا جرمنی میں شامل کرلیا گیا تھا۔ ترکی کے علاقہ مشرقی یورپ میں سوئٹزرلینڈ کے علاوہ وسطی یورپ میں اور اسپین پرتگال کے علاوہ مغربی یورپ میں شاید ہی کوئی علاقہ ایسا رہ گیا تھا جو ہٹلر کے اس جنگی جنون سے بچ سکا ہو۔

مجھے نہیں معلوم تھا کہ وجے روپ انگلستان میں تھی، جرمنی یا آسٹریا میں۔ یہ تفصیل مجھے چھ سات سال بعد جنگ کے خاتمے پر معلوم ہوسکی کہ وجے روپ جرمنی میں اور اس کے ماں باپ آسٹریا میں دشمن ملک کے باشندوں کی حیثیت سے پہلے نظر بند کردیے گئے پھر بڑی دشواریوں سے ان سب کو جرمنی کے ایک بڑے شہر میں یکجا کردیا گیا اور صرف چلنے پھرنے کی جزوی آزادی مل سکی۔

وجے روپ اور اس کے ماں باپ نے جنگ کے زمانے میں جرمنی اور آسٹریا میں بے حد مصیبتیں اور جسمانی تکلیفیں برداشت کیں۔ انھیں شدید سے شدید مالی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا ذاتی سامان بڑی دشواریوں اور بعض ہمدرد خواتین کی مدد سے بچ سکا۔ وجے روپ اور اس کی ماں اپنے قیمتی زیورات اور جواہرات فروخت کرکے اس مشکل زندگی کے دن پورے کرتی رہیں۔ وجے روپ کے باپ کا مرض جنگ کی ہولناکیوں اور مصیبتوں سے بڑھتا ہی چلا گیا۔

وجے روپ کے ذمہ یہ کام جرمن حکومت نے لگایا کہ وہ جرمن فوجیوں کو انگریزی ، اردو اور ہندی زبانیں سکھائے اور بھی بہت سے ہندوستانی اس کام پر متعین کیے گئے تھے۔ فوجی یونٹ اور دوسرے فوجی شعبوں کے لوگ چند ہفتوں کے لیے ان زبانوں کو سیکھتے اور چلے جاتے۔ ان فوجوں کو افریقی محاذوں پر بھیجاجاتا تھا۔ جہاں طبروق، العالمین اور بن غازی کے محاذوں پر زیادہ تر ہندوستانی فوجیں لڑنے کے لیے انگریزوںنے بھیجیں تھیں۔ وجے روپ کو اس کام کے صلے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے کی اجازت بھی دے دی گئی لیکن اس کے پتا جی ان صدموں کو برداشت نہ کرسکے۔ جنگ ختم ہونے سے دو سال پہلے ہی وہ مرگئے۔

وطن سے دور وجے اور اس کی ماتا کے لیے یہ صدمہ دنیا کے ہر صدمے سے زیادہ بڑا تھا لیکن گزشتہ عالمگیر جنگ دنیا کا ایک ایسا عظیم المیہ تھا جس میں افراد کی بربادی، موت اور پریشانی کا کوئی تصور ہی باقی نہ رہ گیا تھا۔ یہ جنگ تو قوموں اور براعظموں کی بربادی کا پیش خیمہ تھی۔ لاکھوں انسان ہلاک و زخمی ہورہے تھے۔ کروڑوں بھوک اور احتیاج سے لرزہ براندام تھے۔ سارا یورپ اور مشرقی ایشیا جنگ میں امریکا، جاپان اور روس کی شرکت کے بعد جہنم کا نقشہ بن گیا تھا۔

میں بھی اس عظیم سمندر میں ایک تنکے کی طرح بہے چلا جا رہا تھا۔ جمہوریت کی روح جنگ کے ہنگامی قوانین کی بھینٹ چڑھ چکی تھی۔ جنگ میں جاپان کی شمولیت کے بعد ہندوستان میں انگریزوںنے ہندوستانیوں کی مرضی کے خلاف لاکھوں ہندوستانی فوج مشرق قریب، مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید میں وسیع محاذ پر بھیج دی تھی۔ ہندوستان غیر ملکی فوجوں کا اڈہ بن گیا تھا۔ اتحادی فوجی جگہ جگہ سارے برصغیر میں دندناتے پھرتے تھے۔ میں تلاش روزگار میں کبھی کہیں پھر رہا تھا کبھی کہیں۔

سیاست اور صحافت زندگی کے بے نام شعبوں کا نام تھا۔ 1942 میں ایک تحریک چلائی جسے ہندوستان چھوڑ دو تحریک کہا جاتا ہے لیکن یہ تحریک دو ہفتوں میں ہی کچل ڈالی گئی۔ صحافت بے اثر سہی پھر بھی اخبار نکلتے تھے اور اخبار نویس بھی ان میں کام کرتے تھے، یہ اخبار خوب بکتے تھے۔ جنگ کی گرما گرم خبریں ملتی تھیں لیکن عقلودانش کا فقدان تھا۔ ذہین طبقہ نیم مردہ ہوچکا تھا اور اخبار میں کام کرنے والے اخبار نویس زندہ لاشیں۔

قدوس صہبائی راج کماری کے سحر میں آخر تک گرفتار رہے۔ اسی سحر میں انھوں نے راج کماری وجے روپ کا قصہ لکھا اور یہ بھی لکھا کہ ہم دونوں اگر خود غرضی سے کام لیتے تو اس کا نتیجہ ہندو مسلم فسادات کی صورت میں نکلتا۔ ہم دونوں اپنی خوشیوں کا محل ہندوئوں اور مسلمانوں کی ہڈیوں پر نہیں تعمیر کرسکتے تھے۔ یوں یہ کہانی ختم ہوجاتی ہے، ایسی ہی کتنی کہانیاں دونوں طرف کے چاہنے والوں کے سینوں میں دبی ہوئی ہیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ صہبائی صاحب نے سعادت حسن منٹو سے کیا ہوا وعدہ پورا کردیا۔

The post منٹو سے کیا ہوا وعدہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3r2lEVK
via IFTTT

تمنا کہیں جسے ایکسپریس اردو

جب سے یہ کورونا کا معاملہ شروع ہوا ہے، دنیا کی شکل ہی بدل گئی ہے۔ برسوں سے رائج طور طریقے نہ صرف بدلے ہیں بلکہ اُن کی جگہ ایسی چیزوں نے لے لی ہے جنھیں شائدمقبولِ عام کا درجہ حاصل کرنے کے لیے کئی دہائیاں درکار ہوتی ہیں۔

ان میں سب سے نمایاں ’’آن لائن‘‘ رابطہ ہے جس نے بزنس، تعلیم، سفر، تبادلہ، معلومات اور دفتری اوقات سمیت ہر چیز کی کایا پلٹ کر رکھ دی ہے، یہاں تک کہ ا دب اور کتاب بھی اس کی زد سے نہیں بچ سکے، صرف اُردو ادب کی حد تک مشاعروں، مذاکروں، مباحثوں اور لیکچرز کا یہ عالم ہے کہ ہر روز درجنوں کے حساب سے عالمی سطح کی تقریبات منعقد ہو رہی ہوتی ہیں۔

بلاشبہ ان میں سے زیادہ تر کا معیار کوئی بہت زیادہ بلند نہیں ہوتا مگر ایسی تقریبات بھی کم نہیں جن میں صفِ اول کے لکھاری حصہ لیتے ہوں، ایسے میں جن اداروں یا پروگراموں نے سنجیدہ ، بامقصد اور معیاری ادب کو فروغ دینے کی بھرپور اور کامیاب کوشش کی ہے، اُن میں جوائے آف اُردو Joy of Urduنامی تنظیم یا گروپ کا ذکر اس لیے زیادہ ضروری ہے کہ اپنے نام کی طرح اس کا ہدف اور ذریعہ اظہار بھی دونوں زبانوں کو بیک وقت ساتھ لے کر چلنا ہے اور اس کے سر پرستوں میں ڈاکٹر عارفہ سیّدہ جیسے بے حد اہم نام شامل ہیں، چند ماہ قبل مجھے ان لوگوں کے ایک پروگرام میں شمولیت کا موقع ملا تو ان کی زبان و ادب سے گہری اور سنجیدہ دلچسپی نے بہت متاثر کیا۔

اگرچہ میں نے ان دنوں اس طرح کی ورچوئل میٹنگز سے بوجوہ گریز کا روّیہ اپنا رکھا ہے مگر اپنے چھوڑے ہوئے اچھے تاثر کی وجہ سے میں ان کوانکار نہیں کرسکا جس کی دوسری وجہ ’’غالب ‘‘کا نام تھا کہ یہ پروگرام اُس کے نام تھا اور وجہ حال ہی میں گزرنے والی اُس کی برسی تھی۔ ذاتی طور پر میرے لیے غالب پر بات کرنا ہمیشہ ایک پسندیدہ اور محبوب عمل رہا ہے چنانچہ میں نے ہاں کردی اور یوں پورا ایک گھنٹہ ’’پیرومرشد‘‘ کی دلنواز صحبت میں گزرا۔

اس دفعہ عارفہ سیّدہ کسی وجہ سے شامل نہیں تھیں، اس لیے گفتگو میرے اور پروگرام کے کمپیئر یا اینکر علیم صاحب ہی کے درمیان رہی جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ غالب کی شخصیت، شاعری، مستقل گیر روّیئے اور بیک وقت ایک زندہ دل فلسفی اور سائنسی فکر رکھنے والے شخص کا زندگی کے بارے میں اندازِ نظر ایک ایسا شاندار مجموعہ ہے جس کی کوئی دوسری مثال فی الوقت اُردو زبان وادب کی تقریباً چار سو سالہ تاریخ میں نہیں ہے، اس کی اس انفرادیت کو سمجھنے کے لیے اس کے یہ دو اشعار بہت کافی ہیں کہ

ہر نفَس ، ہر یک نفَس جاتا ہے قسطِ عمر میں

حیف ہے اُن پر جو کہویں ’’زندگانی مفت ہے‘‘

گُل غنچگی میں غرقہ ، دریائے رنگ ہے

اے آگہی فریب تماشا، کہاں نہیں

اپنی بات کی وضاحت کے لیے میں نے غالب پر لکھی ہوئی اپنی ایک ایسی نظم کو بنیاد بنایا جس کے تمام تر حوالے اور بیشتر الفاظ بھی ا ُس کے ہی مختلف اشعار سے لیے گئے تھے۔ یہ ایک طرح کا ہدیہ تحسین بھی ہے کہ اس میں اُس کے جن اشعار سے استفادہ کیا گیا ہے، وہ نہ صرف اُس کی پہچان ہیں بلکہ اُردو شاعری کے لیے بھی ا ُن کا ہونا عزت اور فخر کا باعث ہے ۔

اپنے پہ کر رہا تھا قیاس اہلِ دہر کا

سمجھا تھا دلپذیر متاعِ ہنر کو وہ

قطرے میں اُس کی آنکھ کو دجلہ دکھائی دے

اُس کو سنائی دے

اُن طائروں کی دردمیں ڈوبی ہوئی صدا

رستوں میں جن کے کھو گیا رخ آشیان کا

تھا جامِ جم سے مٹی کا کوزہ جسے عزیز

جس کے لیے تھی آرزوافسونِ انتظار

ایسا تھا خود نگر کہ اگر اُس پہ وا نہ ہو

اُلٹا پلٹ وہ آتا تھا کعبے کے در سے بھی

اُس کی نظر کے رنگ تھے دنیا سے مختلف

معنی کا اک جہان تھا اُس کا ہر ایک لفظ

شاہد ہے اس بیان پہ خود اُس کی شاعری

دیکھی نہیں ہے ہم نے تو ایسی ہنرور ی

امکاں کے جتنے راز تھے سب اس پہ کُھل گئے

امجدؔ سلام کرتی ہے اُس کو ہر ایک صبح

آتی ہے جو بھی شام وہ لیتی ہے اس کا نام

وہ دُرِّ بے مثال ہے اس میں نہیں ہے شک

وہ رشکِ صد بہار ہے اس میں نہیں کلام

ہم عاشقانِ شعر کا محبوب ہے وہی

شاعر بہت ہیں، سب سے مگر خوب ہے وہی

ڈھوندے تھا جس مغنّی  آتش نفس کو جی

وہ رُوبرو ہے، کیجیے اہلِ نظر سلام

ہونے لگا ہے بزم میں غاَلب غزل سرا

جونکتہ داں ہیں اُن کے لیے ہے صلائے عام

’’ممکن نہیں کہ بُھول کے بھی آرمیدہ ہوں

میں دشتِ غم میں آہوئے صیّا د دیدہ ہوں

جو چاہیے نہیں وہ مری قدر و منزلت

میں یوسف بہ قیمت ِ اول، خریدہ ہوں‘‘

The post تمنا کہیں جسے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2O8w9rM
via IFTTT

ڈھاکہ سے ڈسکہ تک ایکسپریس اردو

ایک نیا باب رقم ہوا ہے ڈسکہ میں۔ ایک ایسا باب جس سے عام لوگوں کو بھی دیکھنے اور سمجھنے میں آیا ہے کہ دھاندلی ہوتی کیا ہے؟کونسے ایسے انتخابات اب تک ہوئے ہیں، اس ملک میں جن میں دھاندلی نہیں ہوئی، ماسوائے 1970 کے انتخابات کے۔

اگر دیکھا جائے تو ڈسکہ میں فقط ضمنی انتخابات ہی ہوئے تھے،قومی اسمبلی کی ایک نشست پر لیکن ان ضمنی انتخابات نے وہ پردے چاک کیے کہ حکمرانوں میں پھوٹ پڑگئی۔کوئی ذمے داری اٹھانے کے لیے تیار ہی نہیں۔

حکومت بھی ان بیس پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ ووٹنگ چاہتی ہے جن پولنگ اسٹیشنزکے پریزائیڈنگ آفیسرز غائب ہوئے تھے۔ ان میں سے کچھ پریزائیڈنگ آفیسرزکے ویڈیو بیانات بھی آ گئے ہیں اور ریٹرننگ آفیسرز نے بھی تیرہ پولنگ اسٹیشنزکی تصدیق کردی ہے۔ اب اس حلقے میں دوبارہ انتخابات ہوں گے یا پھر ایسا کہیے کہ دھاندلی ثابت ہوگئی ہے۔

وہ بیانیہ جس کو صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ کے کندھوں پر ڈال دیا گیا تھا۔ یہ لوگ جو آرٹیکل 226 کی تشریح مانگنے کے لیے گئے تھے، وہ اس بات سے بھی لا علم ہیں کہ یہ بات آرٹیکل23 اور 239 کو چھیڑ دے گی،کچھ اس طرح کہ پھر آئین میںترمیم کا حق پارلیمنٹ کے علاوہ کورٹ کا بھی ہوگا۔ اب اس طرح توکل کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ آرٹیکل 18 کے تحت صدارتی ریفرنس ڈالو اورکچھ بھی کر والو یہاں تک کہ نئے صوبے بنوا لو، ایک ایسا کام جو آئین میں ترمیم کرنے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔

نئے صوبے کی منظوری کے لیے نہ صرف دونوں ایوانوں کی دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے بلکہ اسی صوبے کی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت سے قرارداد کی منظوری کی بھی ضرورت ہے، اگر آرٹیکل 226 کی روح میں تبدیلی لائی گئی تو یہ تبدیلی آرٹیکل 226 تک محدود نہیں رہے گی بلکہ بات بہت آگے تک جائے گی۔2014 میں خان صاحب کا ڈی چوک میں دھرنا بھی جعلی ثابت ہوا اور انھوں نے جو اپنا پورا کیس سپریم کورٹ میں پیش کیا وہ بھی کمزور ہوا۔

لینے کے دینے پڑگئے ڈسکہ کے انتخابات میں کھلِ عام دھاندلی کرنے میں۔ اتنی ویڈیو اب تک وائرل ہوچکی ہیں اس سلسلے میں کہ اب چاہے کتنی بھی حکومتی مشینری استعمال ہو مگر نشان مٹ نہیں سکتے۔ تو بات یہاں تک پہنچی کہ الیکشن کمیشن نے بھی بیان دیا کہ کیسے پنجاب حکومت کے چیف سیکریٹری  یا آئی جی الیکشن کمشنر کا فون اٹھانے کے لیے تیار نہ تھے۔ ڈسکہ میں اس دھاندلی نے حکومت کو سینیٹ کے انتخابات کے لیے مشکل میں ڈال دیا ہے۔

پشاور سے لے کرکراچی تک حکمراں پارٹی کے اندر بہت بڑا بحران نظر آرہا ہے۔پی ڈی ایم اپنی حکمتِ عملی کے تحت انتخابات سے بائیکاٹ کرنے جا رہی تھی لیکن پی ڈی ایم کی قیادت کو آصف زرداری صاحب نے ایسی غلطی کرنے سے روکا اور آج اس چال میں خان صاحب کچھ ایسے پھنس چکے ہیں کہ بہت مشکل نظر آرہا ہے کہ اب وہ اس بحران سے نکل سکیں۔

پاکستان میں صاف وشفاف الیکشن کروانا سب سے بڑا چیلنج بن چکا۔1970 وہ واحد سال تھا جب اس ملک میں شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات ہوئے۔ پہلی مرتبہ اس ملک کی تاریخ  میں بالغ حقِ رائے دہی سے انتخابات کروائے گئے ، مگر ہم نے ان نتائج کو ماننے سے انکارکردیا اور ان نتائج کو نہ ماننے کے نتائج  سے بھی ہم سب واقف ہیں۔ ہم نے پھر انتخابات کے نتائج میں گڑبڑکرنے کا سوچا اور بھٹو صاحب نے 1977 کے انتخابات میں دھاندلی کروائی۔ اس وقت بھٹو صاحب کی سادہ اکثریت تو بنتی تھی مگر دو تہائی اکثریت نہیں۔

تحریک چل پڑی اور بات بلآخر جا ٹھہری ملٹری حکومت پر۔پھر 1990 کی دہائی میں آئی جے آئی بنائی گئی۔ سیاستدانوں تک پیسے پہنچائے گئے۔ اس کے بعد ہمارے میاں صاحب مینڈیٹ لے کر آئے، وہ مینڈیٹ اتنا بھاری پڑا کہ 12اکتوبرکو ملٹری انقلاب آگیا۔ اب تک اس ملک کے سب سے متنازعہ انتخابات  018 کے انتخابات کی شکل میں سامنے آئے ہیں۔ اس کے باوجود بھی خان صاحب سادہ اکثریت نہیں رکھتے۔ ایک تو ان کی حکومت متنازع اور پھر کارکردگی میں ان کی خستہ حالی الگ۔

اس دفعہ لگتا ہے کہ بات بہت دور تلک جائے گی، جس چارٹر آف ڈیموکریسی نے ایک نئے عمرانی معاہدے کو اٹھارہویں ترمیم کی شکل میں مستحکم کیا تھا، غیر جانبدار الیکشن کمیشن کا میکنزم ، ججزکی تقرری ، صوبائی خود مختاری یا پھر این ایف سی ایوارڈ۔ یقینا اب بھی بہت سے ابہام ہیں جو باقی ہیں اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کس طرح سول بالادستی کو یقینی بنایا جائے اورکس طرح سے اداروں کو سیاست سے دور رکھا جائے۔

یہ بڑا سنہری موقعہ ہے کہ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک نیا عمرانی معاہدہ ان دو بڑی جماعتوں کی مفاہمت سے تشکیل دیا جائے بلکہ ان تمام پارٹیوں کے درمیان ہو جو اس وقت پی ڈی ایم میں ہیں۔ چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرنے کے بعدیہ دو بڑی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں لگ گئیں۔ میاں صاحب خود جاکر پٹیشنر بنے۔ اصغر خان کیس میں جو الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے تھا، اس کیس کا فیصلہ بھی سنایا گیا لیکن اس فیصلے پر عمل نہ ہوسکا۔آصف زرداری کو میاںصاحب کے خلاف استعمال کیا گیا۔آصف زرداری، بلوچستان میں سینیٹ چیئرمین کے انتخابات میں PMLN کی حکومت کو چلتا کرنے کے لیے مقتدر قوتوںکے ساتھ کھڑے ہوئے۔

ڈھاکہ ہو یا ڈسکہ دونوں ہی ہمارے لیے سبق آموز ہیں۔ آئیے ہم اس ملک کو واپس 1973کے آئین پر اس انداز سے لے آئیں  جیسے اس خطے میں بنگلہ دیش اور ہندوستان جیسے ملک چل رہے ہیں۔کیا وجوہات ہیں کہ ان کی معیشت ہم سے بہتر ہے، وہ ہماری طرح IMF کے مقروض نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم کیوں  IMF کے مقروض ہیں؟ اس سوال پر اب ایک علیحدہ نشست درکار ہے۔

The post ڈھاکہ سے ڈسکہ تک appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3bLUCvh
via IFTTT

’’ پاوڑی‘‘ جاری ہے!    (پہلا حصہ) ایکسپریس اردو

اس ہفتے 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منایا گیا ہے اور میرے سامنے سی ایس ایس 2021 کا انگریزی زبان کا پرچہ موجود ہے، جسے دیکھنے کے بعد مجھے یقین ہے کہ اس سال بھی سی ایس ایس کے امتحان میں کامیاب ہونے والوں کی تعداد ڈھائی، تین فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی۔ یوں انگریزی زبان کو اسکرین آؤٹ کرنے کا ذریعہ بنانے والوں کی خواہش پوری ہوجائے گی۔

2021 کے انگریزی کے پرچے میں پوچھے جانے والے مترادفات اور متضاد الفاظ میرے سامنے ہیں۔ مجھے تقریباً آدھے الفاظ کا مطلب سمجھ میں آتا ہے۔ تقریباً تمام تر الفاظ فرسودہ اور کلاسیکی انگریزی سے ماخوذ ہیں اور ان کا استعمال ندارد ہے ۔ میں نے آکسفورڈ اور کیمبرج میں پڑھنے والے چار طلباء وطالبات سے مطالب پوچھے، تو سب سے بڑا اسکور چار رہا۔

میرے جاننے والے دو عالی مقام گوروں نے( ایک پچاس کتابوں کا مصنف اور دوسرا پینگوئن جیسے ادارے میں تیس سال ایڈیٹر رہا) پچاس سے ساٹھ فیصد درست جوابات دیے۔ پاکستان میں یہ پرچہ دودھ میں سے کریم الگ کرنے کے کام آئے گا اور یوں 97 فی صد پھٹا ہوا دودھ پیچھے یا نیچے رہ جائے گا۔

میں گناہ گار ہونے کا اعتراف کروں گا کہ میں بذات خود انگریزی نظام سے فائدہ اٹھانے والوں میں سے ایک ہوں۔ اس زبان نے عشق سے لے کر اقتدار اور اثر و رسوخ کے دروازے کھولے۔ میں نے بیس برس انگریزی زبان پڑھانے کے ادارے کھولے اور میرے اور میاں جہانگیر کے سسٹم نے ساؤتھ پنجاب میں دس لاکھ سے زائد افراد کو تربیت دی۔ اس نظام کی آنتوں سے گزرنے کے بعد بتا سکتا ہوں کہ یہ ایک کینسر سے کم نہیں ہے۔

وادی سون میں پیدا ہونے اور ٹاٹ میڈیم سرکاری اسکولوں میں پڑھنے کے بعد مجھے انٹرمیڈیٹ کے آس پاس یہ بات سمجھ آچکی تھی کہ مجھے اوپر والے طبقے میں ’’ گھس بیٹھیا‘‘ بننے کے لیے انگریزی سے بہتر پیراشوٹ موجود نہیں تھا۔ میں نے برٹش کونسل اور امریکن سینٹرز سے حتیٰ الوسع فائدہ اٹھایا اور اپنے شین قاف کو درست کرکے استعماری سسٹم میں نقب لگالی۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ سی ایس ایس میں انٹرویو کرنے والے صاحب نے خاص طور پر مجھ سے پوچھا تھا کہ پاکستان سے باہر گئے بغیر، میرا انگریزی لہجہ ایسا کاٹھا کیوں ہے؟ میں ایک ایسا کوا تھا، جو انگریزی کا مور پنکھ لگا کر نظام میں نقب لگانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اور یہ فارمولا آج بھی اسی قدر کارآمد ہے۔

بیس سال قبل سی ایس پی بننے کے بعد مجھے انگریزی کے جلوؤں سے خوب آگہی حاصل ہوئی۔ سب سے پہلے تو یہ معلوم ہوا کہ صرف میں ہی نہیں، پچاس، ساٹھ فیصد کریم بھی میری طرح کوؤں پر ہی مشتمل تھی۔ دیکھا کہ اسسٹنٹ کمشنر سطح سے لے کر سیکریٹری کی سطح تک سب اس زبان کے رعب کا شکار ہیں۔

یہ بھی دیکھا کہ انگریزی زبان بولنا ایک برتری کی نشانی تھی چاہے اس میں کچھ مغز ہو یا نہ ہو۔ مجھے بار بار لطیفہ یاد آتا جب جی ٹی ایس، سرکاری بس میں کنڈکٹر سفر کرنے والے طالب علموں سے کرایہ مانگتے تو وہ آگے سے تھرسٹی کرو( پیاسا کوا) سنا دیتے تھے اور یوں انگریزی کے رعب سے کرایہ بچا لیتے تھے۔ معلوم ہوا تھرسٹی کرو کی تلاوت صرف بس میں ہی نہیں، اقتدار کے تمام ایوانوں میں سب سے کارآمد کرنسی ہے۔

پچھلے دس سال میں صدر پرویز مشرف کے ساتھ، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ اور وزیر اعظم نواز شریف اور موجود وزیراعظم عمران خان کے ساتھ بین الاقوامی سطح کی تقریبات میں شامل ہوا اور وہاں پر انگریزی کی مزید درگت بنتی دیکھی۔ ان سب میں عمران خان کو زیادہ نیچرل انداز سے بولتے دیکھا۔ میں نے درجنوں وزیروں، اراکین پارلیمنٹ کو زبان اور بیان کی مختلف مہارتوں میں تربیت دی۔ پھر اپنے سفیروں، سیکریٹریوں، جرنیلوں کو بین الاقوامی سطح پر انگریزی بولتے دیکھا اور اس کوشش میں ہلکان ہوتے دیکھا۔

میں ایسی سیکڑوں تقریبات کے ہزاروں گھنٹوں پر محیط تجربے کی روشنی میں بتا سکتا ہوں کہ ان تمام اعلیٰ حکام میں سے 80 فی صد صرف انگریزی بولنے کی کوشش میں خوار ہوتے ہیں اور صرف 20 فی صد اعتماد کے ساتھ اپنا مافی الضمیر بیان کر سکتے ہیں۔ اگر یہ سب اردو میں بولیں تو اپنی تعلیم اور تجربے کی بنیاد پر 90 فی صد شاندار بات چیت کر پائیں گے۔

آپ کو حیرت ہوگی کہ پاکستان مقتدرہ کی اعلیٰ ترین مسند پر بھی انگریزی میں اٹھک بیٹھک ہی سب سے بڑا معیار ہے۔ کئی اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں میں نواز شریف کی کرپشن سے زیادہ اعتراض ان کی بری انگریزی پر خود سنا ہے۔ صرف سیاسی ہی نہیں، غیر سیاسی اشرافیہ میں بھی وہی بامراد ٹھہرتا ہے جو انگریزی زبان کے ناکے سے نکل پاتا ہے۔

ایک بات پورے اعتماد سے عرض کرسکتا ہوں کہ بین الاقوامی سطح پر ہم پاکستانی گونگے ہیں اور دنیا ہمارے ریاستی بیانیے سے بڑی حد تک متفق نہیں ہوتی اور ہماری نالائقیوں کے علاوہ اس کی بڑی وجہ یہی زبان غیر ہے جس میں ہم ’’ شرح آرزو‘‘ کرتے ہیں۔         ( جاری ہے)

The post ’’ پاوڑی‘‘ جاری ہے!    (پہلا حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/37VrJeZ
via IFTTT

اقتصادی صورتحال اور زمینی منظرنامہ ایکسپریس اردو

ملکی سیاسی و معاشی صورت حال کو ایک غیر معمولی بریک تھرو سے نکلنے کے لیے جادو اثر اقتصادی حکمت عملی درکار ہے، عوام ایسی پالیسیوں کے انتظار میں ہیں جو ایشین ٹائیگر بننے کے لیے دیر پا اور استحصال، کرپشن اور ناانصافی سے پاک معاشی و عوام دوست معاشی فیصلوں سے عوام کو ہمہ جہتی ریلیف مہیا کرے۔

معاشی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور قطر کے درمیان ایل این جی فراہمی کا نیا معاہدہ طے پانا اس سمت میں ایک اہم قدم ہے، اقتصادی مشکلات کے خاتمہ میں حکومت کو جو بنیادی چیلنجز درپیش ہیں ان میں توانائی بحران سب سے اعصاب شکن ہے جس نے عوام پر بے پناہ مالی بوجھ ڈالا ہے، صارفین پہلے ہی اشیا خورو نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پریشان تھے اور اب پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ایک بار بھر اضافہ کا خدشہ ہے، تاہم یہ خوش آئند اطلاع ہے کہ حکومت نے قطر سے ایل این جی منگوانے کا فیصلہ کرکے عوام کو ایک خوش خبری دی ہے۔

اس تقریب میں وزیر اعظم عمران بھی شریک ہوئے، معاہدے کے تحت قطر پاکستان کو10  سال کے لیے 3 ملین ٹن ایل این جی فراہم کرے گا، معاون خصوصی ندیم بابر کا کہنا ہے کہ معاہدے سے باہمی تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوگا، پاکستان اور قطر کے درمیان ایل این جی معاہدہ تاریخی ہے، اسی سال موسم سرما میں اضافی ایل این جی لے سکیں گے، ایل این جی کی قیمتوں میں کمی کا سہرا حکومت اور وزیر اعظم عمران خان کو جاتا ہے،  وزیر توانائی عمر ایوب اور قطر کے وزیر توانائی نے معاہدے پر دستخط کیے۔

پریس کانفرنس میں معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر کا کہنا تھا کہ نئے معاہدے کے تحت دس سال میں تین ارب ڈالر کی بچت ہوگی، پہلے معاہدے کے تحت 170 ملین ڈالر کی لیٹر آف کریڈٹ حکومت دیتی تھی۔

معاون خصوصی کا کہنا تھا مہنگے کنٹریکٹس کو31 فیصد سستی ایل این جی سے ختم کر رہے ہیں اسپاٹ پرچیز سے بھی سستی ایل این جی لارہے ہوں گے، 2024 میں ایل این جی خریداری دو گنا کر دیں گے، یہ گیس ٹرمنل ٹو پر آئے گی، نئے معاہدے کے تحت ایک جہاز (ویسل)21 ملین ڈالر کا ملے گا، پرانے معاہدے کے تحت ایک جہاز27 ملین ڈالر کا ملتا تھا، ندیم بابر کا مزید کہنا تھا نیا معاہدہ برینٹ کی قدر کے 10.2 فیصد کے برابر اور دس سال کے لیے طے کیا گیا ہے، چار سال بعد معاہدے کی ری اوپننگ ہوگی۔

عوام کو اصل خوشی ایل این جی کی سستی اور مستقل فراہمی سے ہوگی، اس کے لیے ایک موثر میکنزم اور فعال انفرا سٹرکچر کا ہونا ناگزیر ہے جو عوام کی ضروریات اور روزمرہ سہولت کی تکمیل کو یقینی بنائے، اس کے ساتھ ہی شفافیت بھی ضروری ہے، تاکہ متبادل توانائی کے سسٹم میں جو مسائل پیدا ہوئے اور تنازعات نے جنم لیا ان سے دامن بچا رہے۔ بجلی، گیس اور ایل این جی کا پہیہ چلے گا تب ہی ملکی صنعتیں ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنا سکتی ہیں۔ اچھی خبروں کا جزوی سلسلہ جاری ہے۔

وفاقی وزارت مالیات نے امید ظاہر کی ہے کہ رواں مالی سال کی دوسری ششماہی کے دوران معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی اور افراط زر میں کمی واقع ہوگی تاہم رواں ماہ کے دوران افراط زر کی شرح کے حوالے سے غیر یقینی نظر آتی ہے اور وزارت کی جانب سے ماہ فروری کے دوران افراط زر کی شرح 5 اعشاریہ 5 سے 7 اعشاریہ 5 کے درمیان رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے بھی آٹھ ماہ کا نظر ثانی شدہ ہدف حاصل کر لیا ہے اور اس عرصے کے دوران ادارے نے 6 فیصد اضافے کے ساتھ مجموعی طور پر2 کھرب 90 ارب روپے محصولات کی مد میں وصول کیے۔ اعداد و شمار کے مطابق ماہ فروری کے دوران ایف بی آر کو 327 ارب روپے کے محصولات حاصل ہوئے۔

معاشی مستقبل کے حوالے سے جاری رپورٹ کے مطابق وزارت مالیات کا کہنا ہے کہ معاشی ترقی اور بہتری کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔ وزارت مالیات کے مطابق کپاس کی فصل کی پیداوار میں کمی کے خدشات ہیں تاہم خریف کی دیگر فصلوں کی بہتر پیداوار کے سبب ان خدشات پر کمی پائی جاسکتی ہے، اسی طرح ربیع کے سیزن میں اس سال گندم کی پیداوار کا ہدف حاصل کیے جانے کی امید ہے۔

اس سال ربیع کے موسم میں یوریا کی فروخت میں ایک اعشاریہ ایک فیصد کمی رہی اور مجموعی طور پر1817 ٹن یوریا فروخت ہوا جب کہ DAP کی فروخت میں بھی 8 اعشاریہ 9 فیصد کمی رہی اور 791 ٹن فروخت رہی۔ اعداد و شمار کے مطابق وسیع صنعتی پیداوار ماہانہ بنیاد پر مثبت رہی اور دسمبر 2019 کے مقابلے میں دسمبر 2020 میں اس میں11 اعشاریہ 4 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

وزارت کے مطابق ماہ فروری کے  دوران درآمدات میں کمی کی توقع ہے جب کہ برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق مہنگائی میں اضافہ، برآمدات اور سرمایہ کاری میں کمی، ٹیکس وصولی اور ترسیلات زر بڑھ گئیں، سات ماہ میں مہنگائی کی اوسط شرح 8.2 فیصد رہی، درآمدات 7.2 فیصد بڑھی، اقتصادی شرح نمو اور تجارتی توازن میں مزید بہتری متوقع، زرمبادلہ کے ذخائر 20.2 ارب ڈالرز ہوگئے۔

ادارہ شماریات کے مطابق آٹا، گھی، دال، انڈے اور مرغی سمیت 25 اشیا ء کی قیمتوں میں اضافہ جب کہ صرف 5 اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوئی، ادھر اوگرا نے پٹرولیم قیمتوں میں 20 روپے لیٹر اضافے کی سفارش کرتے ہوئے ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں بھی 19روپے 61 پیسے اضافے کی تجویز دی ہے۔

رواں مالی سال کے پہلے7 ماہ جولائی تا جنوری کے دوران ترسیلات زر میں اضافہ، برآمدات اور سرمایہ کاری میں کمی ہوئی، سات ماہ میں ملک میں مجموعی سرمایہ کاری میں 78 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، سات ماہ میں 75 کروڑ50 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی جب کہ اس عرصے کے دوران گزشتہ برس 3 ارب 43 کروڑ81 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔

وزارت خزانہ کے جاری اعداد و شمار کے مطابق سات ماہ میں ترسیلات زر میں گزشتہ برس کے مقابلے میں24.1 فیصد اضافہ ہوا، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ڈیٹا کے مطابق برآمدات میں 3.8 فیصد کمی اور درآمدات میں 6.1 فیصد اضافہ ہوا جب کہ پاکستان بیورو آف شماریات کے مطابق برآمدات میں5.6 فیصد اضافہ ہوا اور درآمدات میں 7.2 فیصد اضافہ ہوا، ٹیکسٹائل کے شعبے میں8.2 فیصد اضافہ ہوا۔

سات ماہ میں اوسط مہنگائی کی شرح 8.2 فیصد رہی، گزشتہ برس اس عرصے میں مہنگائی کی اوسط شرح11.6فیصد تھی، رواں برس جولائی تا دسمبر کے چھ ماہ میں پاکستان کا بجٹ خسارہ 1137 ارب90 کروڑ روپے رہا جو کہ جی ڈی پی کا 2.5 فیصد ہے گزشتہ برس اس عرصے میں بجٹ خسارہ 2.3 فیصد یعنی994 ارب 70 کروڑ روپے تھا۔

فروری کو جاری معاشی آؤٹ لک کے مطابق بیرونی سرمایہ کاری کا حجم ایک ارب 14 کروڑ 53 لاکھ ڈالر رہا گزشتہ برس اس کا حجم ایک ارب 57 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تھا اس میں کمی ہوئی، بیرون ملک سے ترسیلات زر16ارب 50 کروڑ ڈالر رہی جوکہ گزشتہ برس 13ارب 30 کروڑ ڈالر تھی۔ رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر تیل اور اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا رحجان ہے تاہم حکومتی اقدامات کے باعث مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی۔

وزارت خزانہ نے بین الاقوامی سطح پر خصوصاً تیل اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے حالیہ رجحان کے باعث آیندہ ماہ افراط زر 5.5 سے 7.5 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ گزشتہ ماہ افراط زر کی شرح 5.7 فیصد رہی۔

جمعہ کو وزارت خزانہ کے جاری بیان کے مطابق مالی بچت کے حوالے سے کورونا وائرس سے نمٹنے کے بروقت اقدامات، نقل و حرکت پر عائد پابندیوں میں نرمی، ویکسی نیشن کے لیے فوری اقدامات اور سازگار مالی پالیسیوں کی وجہ سے مشکل وقت میں اقتصادی سرگرمیاں جاری رہیں اور آیندہ مہینوں میں ان سرگرمیوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔

وفاقی وزیر اسد عمر نے چیئرمین سی پیک اتھارٹی لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے ہمراہ فیڈمک ہیڈ آفس میں اجلاس سے خطاب کیا۔ اسد عمر نے کہا کہ فیڈمک کے اکنامک زونز میں آمد و رفت کی آسانی کے لیے جھمرہ انٹرچینج کی منظوری دے دی گئی ہے جس پر جلد کام شروع کر دیا جائے گا، فیڈمک کو وافر مقدار میں بجلی اور گیس فراہم کی جائے گی تاکہ یہاں لگنے والی صنعتوں کو توانائی کی فراہمی سے متعلق کسی قسم کا مسئلہ نہ ہو۔

اقتصادی اعداد و شمار میں نشیب و فراز کی جو تصویر کشی کی گئی ہے وہ اگرچہ معیشت کے استحکام کی طرف بہتری کا اشارہ کرتی ہے لیکن مبصرین نے مجموعی ملکی سیاسی صورتحال کے اقتصادی اور معاشی پہلو پر ایک غیر معمولی جست کی ضرورت پر زور دیا ہے، کیا حکومت کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ کورونا کے باعث ملک کو بیروزگاری، مہنگائی اور غربت کے ہوشربا مصائب کا سامنا ہے، یہ صورتحال کسی شاعر نے یوں بیان کی ہے کہ

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں

تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں

بلاشبہ مہنگائی نے عوام کے اعصاب جھنجھوڑ کر رکھ دیے ہیں، کورونا نے یوں تو دنیا بھر کی معیشت کو بحران کا شکار بنایا ہے لیکن لاکھوں مزدور فیکٹریوں سے نکالے جا چکے ہیں، ملک میں متوسط طبقہ کی معاشی اور تہذیبی طاقت زمین بوس ہوچکی، بیروزگاری نے گھروں میں فاقے ڈال دیے، عمومی سیاسی صورتحال اب بھی روزگار، مہنگائی اور غربت کے خطرات کے حوالہ سے بڑے فیصلہ کرنے پر زور دیتی ہے، ملک سماجی و سیاسی صورتحال کی بہتری کے لیے کسی اہم بریک تھرو کا منتظر ہے، یہ تبدیلی اب نعرے سے زیادہ عمل سے تعلق رکھتی ہے، آنے والے دن سیاستدانوں اور ارباب اختیار کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔

The post اقتصادی صورتحال اور زمینی منظرنامہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3sz0PBv
via IFTTT

پاکستان میں لاپتا افراد سالہا سال تک واپس نہیں آتے جبکہ مغربی دنیا میں لاپتا کتے بھی چند دن میں بازیاب ہو جاتے ہیں ... لیڈی گاگا کے اغوا کیے گئے کتوں کی بازیابی پر لاکھوں ... مزید

کورونا وائرس آپ کے کپڑوں پر تین دن تک زندہ رہتا ہے ... لاکھوں لوگوں کی جان لینے والا موذی وائرس آج بھی سائنسدانوں کے لیے معمہ بنا ہو اہے

تبدیلی سرکار کی شاہ خرچیاں،سرکاری بابوؤں کو نئی گاڑیاں دینے کا منصوبہ تیار ... کچھ افسران کو ایک تو کچھ کو دو گاڑیاں بھی عنایت کی جائیں گی

بے روزگارنوجوانون کے لیے حکومت نے نئی حکمت عملی تیار کر لی ... ہزاروں نوجوانون کو فنی تربیت کے کورسز کروا کر روزگار مہیا کیا جائے گا،رپورٹ

کام سے بچنے کے لیے اپنے اغوا کا ڈراما رچانے والا گرفتار ... نوجوان نے بتایا کہ دو نقاب پوشوں نے اسے اغوا کرلیا ہے جو اس کے ہاتھ پیر باندھ کر کسی ویران جگہ پر پھینک کر چلے ... مزید

Friday, February 26, 2021

پنجاب میں جنگلی حیات کی افزائش اورتحفظ کے لئے قواعد میں ترمیم ایکسپریس اردو

 لاہور: محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب نے پنجاب اڑیال کنزرویشن، پروٹیکشن وٹرافی ہنٹنگ رولز 2016 میں ترمیم کرتے ہوئے صوبے میں چنکارہ ہرن،پاڑہ ہرن،کالاہرن، نیل گائے سمیت اس انواع کے دیگرچوپائیوں کی کنزرویشن اورپروٹیکشن کے لئے کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشنز(سی بی او) کے قیام کی منظوری دے دی ہے۔

پنجاب میں اس وقت 5 کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشنز کام کررہی ہیں جن کی کوششوں سے سالٹ رینج میں پنجاب اڑیال کی آبادی میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ اسی کامیابی کومدنظررکھتے ہوئے پنجاب اڑیال کنزرویشن، پروٹیکشن اینڈ ٹرافی ہنٹنگ رولزمیں ترمیم کی گئی ہے۔

پنجاب وائلڈلائف کے ڈپٹی ڈائریکٹر ہیڈ کوارٹرز مدثر حسن نے بتایا کہ نئے رولز کی منظوری کے بعد اب صوبے کے مختلف حصوں میں جہاں ہرنوں کی مختلف اقسام قدرتی طور پر موجود ہیں یا پھر نیل گائے پائی جاتی ہے وہاں اگر مقامی لوگ ان انواع کے تحفظ اور ان کی آبادی میں اضافے کے لئے کوئی آرگنائزیشن بنانا چاہتے ہیں تو اس کی اجازت ہوگی ۔ اس سے ناصرف پہلے سے موجود ان انواع کو تحفظ ملے گا بلکہ ان کے غیر قانونی شکار کو روکنے میں مدد ملے گی اور سی بی اوز ان کے آبادی بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں گی۔

پنجاب اڑیال کنزرویشن، پروٹیکشن وٹرافی ہنٹنگ رولز 2016 میں یہ ترمیم پنجاب وائلڈلائف کے اعزازی گیم وارڈن بدرمنیرکی مسلسل کوششوں سے ممکن ہوسکی ہے۔ بدر منیر کا اس حوالے سے کہنا تھا پوری دنیا میں سی بی اوز جنگی حیات کی افزائش کے لئے اہم کردار ادا کررہی ہیں۔پاکستان میں گلگت بلتستان اورخیبرپختونخوا میں درجنوں سی بی اوز کام کررہی ہیں ، سب سب کم سی بی اوز پنجاب میں ہیں۔ انہوں نے کہا سی بی اوزکا کام یہ ہے کہ جس علاقے میں کوئی جنگلی انواع قدرتی طورپرموجود ہے توحکومت سی بی اوکو اس علاقے میں کام کرنے کی اجازت دیتی ہے،وہ سی بی او پھرذمہ دارہوتی ہے کہ ناصرف پہلے سے موجود جنگی حیات کے تحفظ کو یقینی بنائے بلکہ اس کی افزائش کے لئے بھی اقدامات اٹھائے۔ سالٹ رینج میں 2004 میں صرف چندسو کے قریب پنجاب اڑیال تھے لیکن آج ان کی آبادی 4 ہزار سے تجاوزکرچکی ہے۔

پنجاب وائلڈلائف حکام کے مطابق سی بی اوز اورمحکمے کی کاوشوں سے جب کسی علاقے میں کسی مخصوص جنگلی جانور کی تعداد خاطرخواہ حدتک بڑھ جاتی ہے تو پھر حکومت وہاں ٹرافی ہنٹنگ کی اجازت دیتی ہے۔ ٹرافی ہنٹنگ کے لئے صرف ان جانوروں کی اجازت دی جاتی ہے تو اپنی طبعی عمرپوری کرچکے ہوتے ہیں۔

The post پنجاب میں جنگلی حیات کی افزائش اورتحفظ کے لئے قواعد میں ترمیم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3bHEDON
via IFTTT

حمزہ شہباز کی رہائی کے موقع پر مریم نواز نے اعلان کر دیا ... مریم نواز نے حمزہ شہباز کی جیل سے رہائی کے موقع پر خود جانے کا فیصلہ کر لیا

سابق ناظم کو ہتھکڑی لگا کر درخت کے ساتھ باندھ دیا گیا ... سوشل میڈیا پر وائرل تصویر نے پولیس کلچر عیاں کر کے رکھ دیا،عوام میں غم و غصہ

ملک میں کورونا کے فعال مریضوں کی تعداد 21554 رہ گئی، 538 کی حالت تشویشناک ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: ملک میں کورونا کے فعال مریضوں کی تعداد گھٹ کر 21554 رہ گئی ہے جس میں سے  538 کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں کوویڈ کی تشخیص کے لیے 39 ہزار 86 ٹیسٹ کئے گئے ، اس طرح اب تک ملک میں اس مرض کی تشخیص کے لیے 89 لاکھ 12 ہزار 918 ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں ایک ہزار 315 نئے کورونا کیسز سامنے آئے ہیں۔ اس طرح ملک بھر میں کورونا کے مجموعی مصدقہ کیسز کی تعداد 5 لاکھ 78 ہزار 797 ہو گئی ہے۔ سندھ میں 2 لاکھ 57 ہزار 730، پنجاب میں ایک لاکھ 70 ہزار 817، خیبر پختونخوا میں 72 ہزار 3، بلوچستان میں 19 ہزار 38، آزاد کشمیر میں 10 ہزار 147، اسلام آباد میں 44 ہزار 106 اور گلگت بلتستان میں اب تک کورونا کے 4 ہزار 956 کیسز سامنے آئے ہیں۔

این سی او سی کے مطابق 24 گھنٹے میں مزید 2 ہزار 13 افراد کورونا سے صحت یاب ہوئے۔ اس طرح اب تک اس وائرس کو شکست دینے والے افراد کی تعداد 5 لاکھ 44 ہزار 406 ہوگئی ہے۔

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک میں کورونا سے مزید 33 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی گئی ہے، جس کے بعد ملک میں اس وبا سے لقمہ اجل بننے والوں کی مصدقہ تعداد 12 ہزار 837 ہوگئی ہے۔ اس وقت ملک میں کورونا کے فعال کیسز کی تعداد 21 ہزار 554 ہے۔ جن میں سے ایک ہزار 538 کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے۔

کورونا وائرس اوراحتیاطی تدابیر

کورونا وائرس کے خلاف یہ احتیاطی تدابیراختیارکرنے سے اس وبا کے خلاف جنگ جیتنا آسان ہوسکتا ہے۔ صبح کا کچھ وقت دھوپ میں گزارنا چاہیے، کمروں کو بند کرکے نہ بیٹھیں بلکہ دروازے کھڑکیاں کھول دیں اور ہلکی دھوپ کو کمروں میں آنے دیں۔ بند کمروں میں اے سی چلاکربیٹھنے کے بجائے پنکھے کی ہوا میں بیٹھیں۔

سورج کی شعاعوں میں موجود یو وی شعاعیں وائرس کی بیرونی ساخت پر ابھرے ہوئے ہوئے پروٹین کو متاثر کرتی ہیں اور وائرس کو کمزور کردیتی ہیں۔ درجہ حرارت یا گرمی کے زیادہ ہونے سے وائرس پرکوئی اثرنہیں ہوتا لیکن یو وی شعاعوں کے زیادہ پڑنے سے وائرس کمزور ہوجاتا ہے۔

پا نی گرم کرکے تھرماس میں رکھ لیں اورہرایک گھنٹے بعد آدھا کپ نیم گرم پانی نوش کریں۔ وائرس سب سے پہلے گلے میں انفیکشن کرتا ہے اوروہاں سے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتا ہے، گرم پانی کے استعمال سے وائرس گلے سے معدے میں چلا جاتا ہے، جہاں وائرس ناکارہ ہوجاتا ہے۔

The post ملک میں کورونا کے فعال مریضوں کی تعداد 21554 رہ گئی، 538 کی حالت تشویشناک appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3aYe4Wm
via IFTTT

سمت پٹیل نے اپنی وکٹ قربان کرنے کے بجائے حفیظ کو رن آؤٹ کرادیا ایکسپریس اردو

 کراچی: سمت پٹیل نے اپنی وکٹ قربان کرنے کے بجائے ان فارم محمد حفیظ کو رن آؤٹ کرادیا۔

انگلش آل راؤنڈر ٹائمنگ میں مشکلات کا شکار تھے، دوسری جانب محمد حفیظ بہترین اسٹروک پلے کا مظاہرہ کررہے تھے، ٹوٹل میں اضافے کیلیے آخری 3 اوورز میں ان کی جارحانہ بیٹنگ اہم کردار ادا کرسکتی تھی، عثمان قادر کی گیند کھیلنے کے بعد رننگ میں غلط فہمی پر محمد حفیظ اسٹرائیکر اینڈ تک پہنچ گئے تھے۔

سمت پٹیل نے دوڑنے کے بجائے کریز میں واپس جانے کا فیصلہ کیا، یوں انگلش راؤنڈر کے بجائے محمد حفیظ کو اپنی وکٹ قربان کرنا پڑ گئی، اس سے لاہور قلندرز کی ملتان سلطانز کو بڑا ہدف دینے کی مہم کو بڑا نقصان پہنچا۔

The post سمت پٹیل نے اپنی وکٹ قربان کرنے کے بجائے حفیظ کو رن آؤٹ کرادیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3dPy93d
via IFTTT

زیادہ چھکے، پاکستانی بیٹسمینوں میں محمد حفیظ تیسرے نمبر پر آگئے ایکسپریس اردو

 کراچی:  ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں زیادہ چھکے لگانے والے پاکستانی بیٹسمینوں میں محمد حفیظ تیسرے نمبر پر آگئے۔

لاہور قلندرز کے اسٹار کرکٹر نے ملتان سلطانز سے میچ میں 5گیندوں کو فضائی روٹ سے باؤنڈری کے پار پھینکا، یوں انھوں نے اپنے چھکوں کی مجموعی تعداد 225 کرتے ہوئے کامران اکمل (222) کو پیچھے چھوڑ دیا۔

شعیب ملک نے سب سے زیادہ309 اورشاہد آفریدی نے 252 چھکے لگائے ہیں، محمد حفیظ اور کامران اکمل کے بعد عمر اکمل (215) اور آصف علی (213) کے نام پانچویں اور چھٹے نمبر پر موجود ہیں۔

The post زیادہ چھکے، پاکستانی بیٹسمینوں میں محمد حفیظ تیسرے نمبر پر آگئے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3sqOkrE
via IFTTT

زیادہ کراؤڈ سے نیشنل اسٹیڈیم کی رونقوں میں اضافہ ایکسپریس اردو

 کراچی:  پی ایس ایل میں 50فیصد کراؤڈ کی اجازت ملنے پر نیشنل اسٹیڈیم کی رونقوں میں اضافہ ہوگیا۔

این سی او سی کی جانب سے 50فیصد کراؤڈ کی اجازت مل جانے پر گذشتہ روز پی ایس ایل میچز کے دوران نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں تماشائیوں کی تعداد بڑھ گئی جس سے رونق میں بھی اضافہ ہوگیا، مختلف انکلوڑرز میں بیٹھے شائقین کا جوش وخروش بھی بڑھ گیا۔

وقفے وقفے سے نعرے بازی کا سلسلہ جاری رہا، دوپہر کو گرمی کی شدت کے سبب ابتدا میں تماشائیوں کی تعداد کم رہی تاہم بعد میں اضافہ ہوتا گیا، فیملی اسٹینڈز میں شائقین زیادہ تعداد میں ہونے کے باوجود انتہائی منظم انداز میں بیٹھ کر کھیل سے لطف اندوز ہوتے رہے۔

لاہور قلندرزکی ناقص فیلڈنگ پر تماشائی مسلسل جملے کستے رہے،ایک آواز آئی رانا جی ان کو سمجھاؤ، ویل چیئر پر موجود پشاور زلمی کا اسپیشل فین اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کو دیکھنے اسٹیڈیم پہنچا،فرنچائز کے مالک جاوید آفریدی نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔

دوران میچ موسیقی پر میڈیا گیلری میں موجود غیر ملکی خاتون براڈ کاسٹر کا رقص توجہ کا مرکز بن گیا، دوسرے مقابلے کے دوران تماشائی اپنے موبائل کی ٹارچ روشن کرکے ماحول میں خوبصورتی پیدا کرتے رہے، سندھی اجرک میں ملبوس کرس گیل کی تصویر کو بہت پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا۔

چیف سلیکٹر محمد وسیم بھی کھلاڑیوں کی کارکردگی کا بغور جائزہ لیتے رہے،ان کا کہنا تھا کہ اب پی ایس ایل اپنے عروج پر آگئی ہے، پی سی بی کے چیف ایگزیکٹیووسیم خان اور سینئر اسپورٹس جرنلسٹ شاہد ہاشمی نے میڈیا سینٹر میں اپنی سالگرہ کا کیک کاٹا۔

The post زیادہ کراؤڈ سے نیشنل اسٹیڈیم کی رونقوں میں اضافہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/389DfUr
via IFTTT

شعیب اختر نے شرجیل خان کو وزن کم کرنے کا مشورہ دے دیا ایکسپریس اردو

 کراچی: سابق فاسٹ بولر شعیب اختر نے کراچی کنگز کے اوپنر شرجیل خان کو وزن کم کرنے کا مشورہ دے دیا۔

اپنے یوٹیوب چینل پر شعیب اختر نے کہا کہ پاکستان کرکٹ اور خود کو نقصان پہنچانے والے شرجیل کا زبردست کم بیک ہوا ہے، میں ان کی فٹنس کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ اس حوالے سے سنجیدہ نہیں ہوئے تو پھر پاکستان ٹیم میں شامل ہونے کے امکانات کم ہوجائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ 5 برس بہت بڑا عرصہ ہوتا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر کامران اکمل اور شرجیل خان اوپنرز ہوں تو پاکستان کے اوپننگ مسائل ختم ہوسکتے ہیں۔

یاد رہے کہ شرجیل پر فکسنگ میں ملوث رہنے کی وجہ سے پابندی عائد ہوئی، اب وہ کھیل میں واپس آچکے، بدھ کو انھوں نے اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف کراچی کنگز کی جانب سے سنچری بنائی تھی۔

The post شعیب اختر نے شرجیل خان کو وزن کم کرنے کا مشورہ دے دیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3q5MfA4
via IFTTT

دورانِ فیلڈنگ ساتھیوں پر برہم ہونے کا الزام درست نہیں، سرفراز احمد ایکسپریس اردو

 کراچی: پی ایس ایل 6 میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی قیادت کرنے والے سرفراز احمد نے کہا ہے کہ دوران فیلڈنگ ساتھیوں پر برہم ہونے کا الزام درست نہیں، یہ میرا انداز ہے۔

ایک انٹرویو میں سرفراز احمد نے کہاکہ میرا شروع ہی سے یہ انداز رہا ہے، یہ عمل گراؤنڈ تک ہی محدود رہتا ہے، باہر آکر سب چیزیں ختم ہو جاتی ہیں، نجانے لوگوں کو ایسا کیوں محسوس ہوا کہ میرا طرز عمل درست نہیں۔

انھوں نے کہا کہ میں ایونٹ میں زیادہ سے زیادہ رنز کرنے کی کوشش کروں گا، امید ہے کہ پرفارمنس بہتر ہوتی چلی جائے گی، ڈوپلیسی اور اسٹین کی موجودگی سے ہماری ٹیم مضبوط ہوگئی ہے۔

سرفراز نے کہا کہ پی ایس ایل6 کے ابتدائی 2 میچز میں شکست کی بنیادی وجہ ہماری خراب فیلڈنگ تھی، بولنگ اور بیٹنگ دونوں ہی مناسب ہیں۔

انھوں نے کہا کہ یونیورسل باس کے نام سے پکارے جانے والے ویسٹ انڈیز کے جارح مزاج بیٹسمین کرس گیل کے ساتھ بیٹنگ کرنے کا شاندار تجربہ رہا، میں بطور کپتان ان کی کمی محسوس کروں گا،امید ہے وہ اپنے وطن کی جانب سے سیریز کھیلنے کے بعد دوبارہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا حصہ بن جائیں گے۔

The post دورانِ فیلڈنگ ساتھیوں پر برہم ہونے کا الزام درست نہیں، سرفراز احمد appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3r4zpTO
via IFTTT

بین ڈنک کینگروز کو پاکستان میں کھیلتے دیکھنے کے منتظر ایکسپریس اردو

 کراچی:  آسٹریلوی کرکٹر بین ڈنک کینگروز کو آئندہ برس پاک سرزمین پر کھیلتے دیکھنے کے منتظر ہیں جب کہ انھوں نے سیکیورٹی کے حوالے سے پاکستان کو محفوظ ملک قرار دے دیا۔

پی سی بی کو انٹرویو میں بین ڈنک نے کہا کہ کینگروز کا ٹور پاکستانی عوام اور کرکٹرز کے لیے شاندار ہوگا، اس دورے میں 2 ٹیسٹ، 3 ون ڈے اور 3 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز شامل ہیں، آسٹریلوی کرکٹ ٹیم نے آخری مرتبہ 1998میں پاکستان کا ٹور کیا تھا۔

سی اے کی جانب سے دورہ پاکستان میں سیکیورٹی سے متعلق رائے مانگے جانے کے سوال پر ڈنک نے کہا کہ میں پاکستان میں سیکیورٹی انتظامات سے 100 فیصد مطمئن ہوں، میں چار مرتبہ یہاں آچکا اور کبھی خود کو غیر محفوظ نہیں سمجھا، یہاں کی میزبانی اور کھانے مجھے بہت پسند ہیں، مقامی افراد کی حوصلہ افزائی بھی شاندار رہی، مجھے پاکستان آنا ہمیشہ اچھا لگتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ یہاں ہوٹل سے لے کر گراؤنڈ تک بہترین سیکیورٹی انتظامات کیے جاتے ہیں، ایسے میں آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کا دورہ یہاں کی عوام کے لیے ایک شاندار تجربہ ہوگا۔ مجموعی سیکیورٹی صورتحال میں بہتری کی وجہ سے پی سی بی کوانٹرنیشنل ٹیموں کو دورے کے لیے راضی کرنے میں بھی بہت مدد ملی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں ٹیسٹ کرکٹ کا سلسلہ 2019 میں دوبارہ بحال ہوچکا اور اب انگلینڈ اور نیوزی لینڈ جیسی بڑی ٹیموں کو بھی رواں سال دورہ کرنا ہے۔ بین ڈنک مسلسل دوسری مرتبہ لاہور قلندرز کا حصہ بنے ہیں۔ وہ اس سے قبل 2019 میں کراچی کنگز کی نمائندگی کر چکے، انھوں نے کہا کہ پاکستانی کراؤڈ شاندار اورمجھے امید ہے کہ آسٹریلوی ٹیم بھی اس کے سامنے کھیل کر لطف اندوز ہوگی۔

ڈنک نے کہا کہ گذشتہ ایڈیشن میں شاہین شاہ آفریدی نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا، کپتان سہیل اختر بھی زبردست رہے اور محمد حفیظ اپنی بھرپور فارم میں، انھوں نے لاہور شہر کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔

The post بین ڈنک کینگروز کو پاکستان میں کھیلتے دیکھنے کے منتظر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3aYBDP9
via IFTTT

پاکستانی معیشت میں بہتری کے آثار نظر آنے لگے ایکسپریس اردو

 اسلام آباد:  پاکستان کی معیشت میں بہتری کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔

وفاقی وزارت مالیات نے امید ظاہر کی ہے کہ رواں مالی سال کی دوسری ششماہی کے دوران معاشی سرگرمیوں میں تیزی آئے گی اور افراط زر میں کمی واقع ہوگی تاہم رواں ماہ کے دوران افراط زر کی شرح کے حوالے سے غیر یقینی نظر آتی ہے اور وزارت کی جانب سے ماہ فروری کے دوران افراط زر کی شرح 5 اعشاریہ 5 سے 7 اعشاریہ 5 کے درمیان رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے بھی آٹھ ماہ کا  نظر ثانی شدہ ہدف حاصل کرلیا ہے اور اس عرصے کے دوران ادارے نے 6 فیصد اضافے کے ساتھ مجموعی طور پر 2 کھرب 90 ارب روپے محصولات کی مد میں وصول کیے۔ اعداد و شمار کے مطابق ماہ فروری کے دوران ایف بی آر کو 327 ارب روپے کے محصولات حاصل ہوئے۔

معاشی مستقبل کے حوالے سے جاری رپورٹ کے مطابق وزارت مالیات کا کہنا ہے کہ معاشی ترقی اور بہتری کے آثار نمایاں ہورہے ہیں اور مالی سال کی رواں ششماہی میں اس میں مزید بہتری آئے گی۔

وزارت مالیات کے مطابق کپاس کی فصل کی پیداوار میں کمی کے خدشات ہیں تاہم خریف کی دیگر فصلوں کی بہتر پیدوار کے سبب ان خدشات پر کمی پائی جاسکتی ہے، اسی طرح ربیع کے سیزن میں اس سال گندم کی پیداوار کا ہدف حاصل کیے جانے کی امید ہے۔ اس سال ربیع کے موسم میں یوریا کی فروخت میں ایک اعشاریہ ایک فیصد کمی رہی اور  مجموعی طور پر 1817 ٹن یوریا فروخت ہوا جبکہ DAP کی فروخت میں بھی 8 اعشاریہ 9 فیصد کمی رہی اور 791 ٹن فروخت رہی۔

اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ وسیع صنعتی پیداوار ماہانہ بنیاد پر مثبت رہی اور دسمبر 2019 کے مقابلے میں دسمبر 2020 میں اس میں 11 اعشاریہ 4 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

وزارت کے مطابق ماہ فروری کے دوران درآمدات میں کمی کی توقع ہے جبکہ برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔ وزات مالیات کے مطابق رواں مالی سال کے گزشتہ سات ماہ کے دوران نجی شعبے کو دیے جانے والے قرضہ جات میں محض 39 ارب 80 کروڑ روپے کا اضافہ ہوا جبکہ اس سے گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں نجی شعبے کی جانب سے 63 ارب 80 کروڑ روپے قرض حاصل کیا گیا تھا۔

The post پاکستانی معیشت میں بہتری کے آثار نظر آنے لگے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3uEXzX2
via IFTTT