Saturday, February 27, 2021

میرے دو استاد ایکسپریس اردو

سنتوش آنند 1939 میں سکندر آباد میں پیدا ہوئے‘ یہ بلند شہر کا چھوٹا سا قصبہ تھا‘ فضا میں اردو‘ تہذیب اور جذبات تینوں رچے بسے تھے چناں چہ وہاں کا ہر پہلا شخص شاعر اور دوسرا سخن شناس ہوتا تھا‘ سنتوش جی ان ہوائوں میں پل کر جوان ہوئے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے لائبریری سائنس کی ڈگری لی اور حالات کے کندھوں پربیٹھ کر فلم انڈسٹری کے دروازے پر آ گرے‘ 1970 کی دہائی بھارت میں فلم انڈسٹری کے عروج کازمانہ تھا اور سنتوش آنند نے فلم پورب اور پچھم کے گانے لکھے اور پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا‘ ان کا فلمی کیریئر زیادہ لمبا نہیں تھا‘ انھوں نے صرف 26 فلموں میں 109 گانے لکھے اور فلم انڈسٹری نے انھیں چپ چاپ سائیڈ پر رکھ دیا‘ یہ ابھی تک حیات ہیں‘ عمر 81سال ہے‘ ٹانگوں سے معذور ہیں‘ ہاتھوں میں رعشہ اور زبان میں لکنت آ چکی ہے اور انھیں بولنے اور لکھنے دونوں میں دقت ہوتی ہے لیکن یہ اپنے دو گانوں کی وجہ سے آج بھی سننے والوں کے حافظے میں زندہ ہیں۔

میرا خیال ہے یہ دو گانے جب تک زندہ ہیں سنتوش آنند اس وقت تک گم نامی کی قبر میں دفن نہیں ہوں گے‘ پہلا گانا شور فلم کے لیے لکھا تھا اور اس کے بول تھے‘ اک پیار کا نغمہ ہے‘ موجوں کی روانی ہے‘ زندگی اور کچھ بھی نہیں‘ تیری میری کہانی ہے اور دوسرا گانا کرانتی فلم کا ٹائٹل سانگ ہے ‘زندگی کی نہ ٹوٹے لڑی‘ پیار کر لے گھڑی دو گھڑی‘ یہ دونوں گیت امر ہیں اور یہ سنتوش آنند کو بھی امر بنا چکے ہیں۔

میںسنتوش آنند کے پہلے گانے ’’اک پیار کا نغمہ ہے‘‘ کو اپنا استاد سمجھتا ہوں‘ میرا دوسرا استاد ساحر لدھیانوی کا گانا ’’میں پل دو پل کا شاعر ہوں‘ پل دو پل میری کہانی ہے‘‘ ہے‘ یہ دونوں گانے صرف گانے نہیں ہیں‘ یہ زندگی کی فقہ اور وقت کا آئین ہیں‘ یہ دونوں گانے یقینا ان دونوں شاعروں پر کسی خاص وقت میں‘ کسی خاص کیفیت میں الہام کی طرح اترے ہوں گے ورنہ زندگی کی اتنی حساس حقیقتیں اتنی آسانی سے بیان کرنا ممکن نہیں تھا‘ میں یہ دونوں گانے ہزاروں مرتبہ سن چکا ہوں اور آپ یقین کریں یہ ہر بار نئی کیفیت‘ نئی ترنگ کے ساتھ کانوں میں اترتے ہیں اور زندگی اور حالات کی نزاکتوں کے الجھے دھاگے کھلتے چلے جاتے ہیں‘ اللہ نے مجھ پر رحم کیا‘ اس کا لاکھ لاکھ کرم ہے۔

اس نے ہر قسم کے جائز ناجائز نشے سے محفوظ رکھا لیکن میں جب بھی یہ دونوں گانے سنتا ہوں تو میں خود کو نشئی سا محسوس کرنے لگتا ہوں اور یہ سوچتا ہوں شاید نشے کے بعد نشئیوں میں بھی ایسی ہی کیفیت پیدا ہوتی ہو گی ورنہ کسی شخص کے لیے اپنا گھر بار‘ رتبہ اور مذہب فراموش کرنا آسان نہیںہوتا‘ ان دونوں گانوں کے لفظوں میں کیا کرشمہ‘ کیا چمتکار ہے میں آج تک نہیں سمجھ سکا لیکن آپ یقین کریں میں نے زندگی کے بڑے سے بڑے بحران‘مسائل کے بڑے سے بڑے جوہڑ میں کھڑے ہو کر بھی جب یہ دو گیت سنے تو دو منٹ میں! جی ہاں صرف دو منٹ میں میری کیفیت بدل گئی۔

میں نے ان دونوں گانوں کو دو الگ الگ ٹائٹل بھی دے رکھے ہیں۔ میں ’’اک پیار کا نغمہ ہے‘‘ کو زندگی کی حقیقت اور ’’میں پل دو پل کا شاعر ہوں‘‘ کو انسان کی حقیقت سمجھتا ہوں‘ میری آپ سے درخواست ہے آپ جب بھی زندگی کے کسی مسئلے کا شکار ہوں آپ ’’اک پیار کا نغمہ ہے‘‘ سن لیں اور آپ جب بھی خود کو طرم خان سمجھنے لگیں یا آپ کے منہ سے بار بار یہ نکل رہا ہو ’’تم مجھے جانتے نہیں ہو میں کون ہوں‘‘ یا ’’یہ میں کہہ رہا ہوں‘‘ یا آپ بار بار’’ میں سمجھتا ہوں‘‘ کہہ رہے ہوں تو آپ ’’پل دو پل کا شاعر‘‘ پلے کریں اور خود کو اس سائونڈ ٹریک میں رکھ دیں‘آپ یقین کریں آپ گانا ختم ہونے سے پہلے بندے کے پتر بن جائیں گے۔

دنیا میں ہر چیز کو بیان کیا جا سکتا ہے لیکن موسیقی‘ پینٹنگ اور الہام کو بتایا اور سمجھایا نہیں جا سکتا‘ دنیا آج تک ایسے لفظ ایجاد نہیں کر سکی جن کے ذریعے الہامی کیفیات‘ پینٹنگ میں چھپے جذبات اور موسیقی کو بتا یااور سمجھایا جا سکے‘ میں بھی یہ دونوں نغمے آپ کو سمجھا نہیں سکوں گا‘ یہ آنکھوں سے دیکھنے والے رنگ‘ کانوں سے سننے والی آواز اور لمس سے چکھنے والے ذائقے ہیں ‘یہ قلم اور آواز سے دوسروں میں ٹرانسفر نہیں کیے جا سکتے تاہم میں اس کے باوجود کوشش کرتا ہوں آپ کو کچھ نہ کچھ سمجھا یا بتا سکوں۔ ہم سب سے پہلے استاد سنتوش آنند کے شاہکار کی طرف آتے ہیں‘ زندگی اور کچھ بھی نہیں تیری میری کہانی ہے۔

آپ ملاحظہ کیجیے زندگی کی کتنی مختصر اور جامع تعریف ہے‘ آپ اور میں جن جن حالات سے گزرتے ہیں‘ ہم اتار چڑھائو کے جس کھیل کا حصہ ہیں وہ زندگی ہے اور جس دن ہماری کہانی رک جائے گی اس دن زندگی ختم ہو جائے گی‘ آپ شعر دیکھیں’’ کچھ پا کر کھونا ہے‘ کچھ کھو کر پانا ہے‘ جیون کا مطلب تو آنا اور جانا ہے اور دو پل کے جیون سے اک عمر چرانی ہے‘‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کیا ہم زندگی بھر پا کر کھوتے اور کھو کھو کر پاتے نہیں رہتے اور کیا آنا اور جانا یہ زندگی کا مطلب نہیں اور کیا ہم کائنات کے نینو سیکنڈز میں زندہ نہیں ہیں؟

اربوں کھربوں سال کی اس کائنات میں ہمارے ساٹھ ستر سالوں کی کیا حیثیت ہے اور کیا ہم دو پل کے جیون میں ایک عمر نہیں گزارتے اور کیا یہ ہمارا کمال نہیں؟ آپ یہ شعر بھی دیکھیے ’’طوفان تو آنا ہے‘ آکر چلے جانا ہے‘ بادل ہے یہ کچھ پل کا‘ چھا کر ڈھل جانا ہے‘ پرچھائیاں رہ جاتی‘ رہ جاتی نشانی ہے‘‘ استاد سنتوش نے کس خوب صورتی سے زندگی کی تینوں سچائیاں بیان کر دیں‘ دنیا کے بڑے سے بڑے طوفان بھی بہرحال چلے جاتے ہیں‘ دنیا کے گہرے سے گہرے بادل بھی بالآخر ڈھل جاتے ہیں اور ہم دنیا کے لیے کتنے ہی ناگزیر‘ کتنے ہی اہم کیوں نہ ہو جائیں آخر میں ہم پرچھائی بن کر رہ جاتے ہیں۔

ہماری صرف نشانی بچتی ہے اوریہ بھی کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے‘ اس گیت کے دو بند گانے میں شامل نہیں ہیں‘ یہ دونوں بند خیالات اور حقائق کی معراج ہیں‘ استاد سنتوش نے کہا ’’جو بیت گیا وہ۔۔۔اب دور نہ آئے گا‘ اس دل میں سوا تیرے۔۔۔ کوئی اور نہ آئے گا‘ گھر پھونک دیا ہم نے ۔۔۔ اب راکھ اٹھانی ہے‘‘ اس سے اگلا بند اس سے بھی کوئی اونچی چیز ہے‘ استاد کا کہنا ہے ’’تم ساتھ نہ دو میرا۔۔۔چلنا مجھے آتا ہے ۔۔۔ہر آگ سے واقف ہوں۔۔۔ جلنا مجھے آتا ہے اور تدبیر کے ہاتھوں سے‘ تقدیر بنانی ہے‘ زندگی اور کچھ بھی نہیں‘ تیری میری کہانی ہے‘‘۔

آپ اب دوسرے استاد کی طرف بھی آیے‘ آپ اگر طاقتور ہیں‘ آپ اگر کوئی طرم خان‘ کوئی توپ علی خان یا پھر شیخ ہیرا لال ہیں تو میری آپ سے درخواست ہے آپ دن میں کم از کم ایک بار ساحر لدھیانوی کا ’’میں پل دو پل کا شاعر ہوں‘ پل دو پل میری کہانی ہے‘ پل دو پل میری ہستی ہے‘ پل دو پل میری جوانی ہے‘‘ ضرور سن لیا کریں‘ آپ کو اپنی اوقات یاد رہے گی‘ آپ استاد ساحر لدھیانوی کے شعر ملاحظہ کیجیے’’ مجھ سے پہلے کتنے شاعر آئے اور آ کر چلے گئے‘ کچھ آہیں بھر کر لوٹ گئے‘ کچھ نغمے گا کر چلے گئے۔۔۔ وہ بھی اک پل کا قصہ تھے‘ میں بھی اک پل کا قصہ ہوں‘ کل تم سے جدا ہو جائوں گا گو آج تمہارا حصہ ہوں‘‘۔۔۔

اور ’’کل اور آئیں گے نغموں کی کھلتی کلیاں چننے والے‘ مجھ سے بہتر کہنے والے‘ تم سے بہتر سننے والے۔۔۔ ہر نسل اک فصل ہے دھرتی کی‘ آج اگتی ہے کل کٹتی ہے‘ جیون وہ مہنگی مدرا ہے جو قطرہ قطرہ بٹتی ہے‘‘ ۔۔۔اور ’’ساگر سے ابھری لہر ہوں میںساگر میں پھر کھو جائوں گا‘مٹی کی روح کا سپنا ہوںمٹی میں پھر سو جائوں گا‘‘۔۔۔اور کل کوئی مجھ کو یاد کرے‘ کیوں کوئی مجھ کو یاد کرے‘مصروف زمانہ میرے لیے کیوں وقت اپنا برباد کرے‘‘ واہ استاد کیا بات ہے۔

ہم اہل زمین بھی کیا چیز ہیں‘ ہم ہر طوفان کو دائمی‘ ہر بادل کو خدا سمجھ لیتے ہیں‘ ہم صرف مٹی کی روح کا سپنا ہیں لیکن ہم خود کو مستقل سمجھ لیتے ہیں‘ ہم یہ سمجھتے ہیں زمانے کے پاس ہمیں یاد کرنے کے سوا کوئی کام نہیں ہو گا‘ہم وہ ہیں جو کبھی یہاں سے رخصت نہیں ہوں گے‘ ہم اہل زمین روز نسلوں کی فصلیں کٹتے اور پھر برباد ہوتے دیکھتے ہیں لیکن ہم اس کے باوجود اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں ہم کٹیں گے اور نہ ہی برباد ہوں گے اور ہم اہل زمین پل کا قصہ ہونے کے باوجود‘ وقت کا حصہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو مکمل اور پوری کتاب حیات سمجھ لیتے ہیں۔

ہم وقت کے مسافر‘ ہم پل دو پل کے ناکام شاعر نہ جانے خود کو کیا سمجھ لیتے ہیں‘ ہم فرعون کے لہجوں میں بول کر ہمیشہ اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں وقت کبھی ہماری رعونت پر مٹی نہیں ڈالے گا‘ ہم خوشی کا ’’خ‘‘ ہیں‘ ہم لوح ایام پر ہمیشہ ہمیشہ درج رہیں گے‘ ہم اہل زمین بھی کیا چیز ہیں؟۔

آپ بھی اگر میری طرح اس غلط فہمی کا شکار ہوتے رہتے ہیں تو پھر آپ بھی رات سونے سے پہلے ایک آدھ بار پل دو پل سن لیا کریں‘ اللہ سے معافی مانگتے رہا کریں اور اپنی اوقات کو اوقات میں رکھ کر خود کو دیکھتے رہا کریں‘زندگی اچھی گزرے گی‘ آپ یہ یاد رکھیں اس کائنات میں اللہ کی ذات کے علاوہ کوئی ناگزیر نہیں اور اس کے علاوہ کوئی شخص‘ کوئی عہدہ دائمی نہیں‘ کرسی صرف اس کی ہے جس نے کرسی کی آیت اتاری تھی باقی سب مٹی کی مٹھی ہیں‘ بکھرنا اور بکھر کر اڑ جانا ہم سب کا مقدر ہے ‘ہم مٹی کی روح کا سپنا ہیں‘ ہم مٹی میں مل کر رہیں گے اور پھر ہمارا نشان بھی نہیں ہوگا نشانوں میں۔

The post میرے دو استاد appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/37Weafl
via IFTTT

No comments:

Post a Comment