امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک ہے اور اس کا ایٹمی پروگرام بے قاعدہ ہے۔
جو بائیڈن جب سے امریکا کے صدر بنے ہیں، پاکستان کے حوالے سے ان کا اپنا طرز عمل غیرواضح رہا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کے ساتھ انھوں نے دانستہ بات نہیں کی تھی، اب انھوں نے پاکستان کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے ، وہ ریاست پاکستان کو کسی صورت قبول نہیں ہے اور ان کی بات حقائق کے برعکس بھی ہیں۔
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی صدر بائیڈن کے بیان کو حقائق کے برعکس اور گمراہ کن قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے، دفتر خارجہ نے پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کو طلب کر کے امریکی صدر کے بیان پر شدید احتجاج کیا ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے امریکی صدر جو بائیڈن کے بیان پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان جوہری اثاثوں کی حفاظت سے متعلق عالمی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے وضع کردہ تمام معیارات کی پیروی کرتا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے ڈیموکریٹک کانگریشنل کمپین کمیٹی کی ایک فنڈ ریزنگ تقریب میں تقریر کے دوران چین اور روس کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا حوالہ دیا۔
میڈیا کے مطابق صدر جو بائیڈن نے اپنی تقریر میں کہا کہ دنیا تبدیل ہو رہی ہے ،ممالک اپنے تعلقات نئے سرے سے استوار کر رہے ہیں، ہمیں دیکھنا ہوگا چین کیا کر رہا ہے، وہ بھارت کے ساتھ کیسے چل رہا ہے، پاکستان کے ساتھ کیسے چل رہا ہے،روس میں کیا ہو رہا ہے،میرے خیال میں پاکستان دنیا کا خطرناک ترین ملک ہے، جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں مگر بغیر کسی ترتیب کے، انھوں نے مزید کہا کہ میرا یہ یقین ہے کہ دنیا ہماری طرف دیکھ رہی ہے اورمیں کوئی مذاق نہیں کر رہا یہاں تک کہ ہمارے دشمن بھی ہماری طرف دیکھ رہے ہیں کہ ہم صورت حال سے کس طرح نمٹتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کیا کسی نے یہ بات سوچی ہے کہ ہم ایک ایسی صورت حال میں ہوںگے جہاں چین اپنے تعلقات کو روس ، بھارت اور پاکستان کے ساتھ نئی جہتیں دے رہا ہے، اور ہم اسے کیسے ہینڈل کریںگے اور روس میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسے ہم کیسے ہینڈل کریںگے۔ انھوں نے کہا کہ اس تمام صورت حال میں امریکا کے پاس بڑے زبردست مواقع ہیں کہ وہ حالات کو تبدیل کر سکے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی تقریر انٹرنیشنل جیواسٹرٹیجک کے تناظر میں انتہائی اہم ہے۔ موجودہ بدلتے ہوئے حالات امریکا کے لیے پریشان کن ہیں،خاص طور پر وہ اسے چین سے بہت سے خطرات محسوس ہو رہے ہیں،پہلے تو صرف روس اس کے مقابل ایک سپر طاقت کے طور پر سامنے تھا جسے نیچا دکھانے کے لیے اس نے معاشی،سیاسی اور میڈیا وار سے لے کر ہر طرح کا حربہ استعمال کیا،امریکا اور روس کی اس چپقلش کو عالمی سطح پر ایک سرد جنگ سے تعبیر کیا گیا۔
اب چین کا ایک بڑی معاشی اور فوجی طاقت کے طور پر ابھرنا امریکا کو کسی طور ہضم نہیں ہو رہا۔سب سے بڑا خطرہ جسے امریکا محسوس کر رہا ہے وہ چین کا معاشی لحاظ سے دنیا کے دیگر ممالک میں قدم جمانا ہے،چین بڑی سرعت سے ایشیا،افریقہ اور دیگر ممالک میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کرکے خود کو مضبوط سے مضبوط تر بنا رہا ہے،یہی وہ نکتہ ہے جو امریکا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے کہ یہی صورتحال اسی طرح جاری رہی تو مستقبل میں امریکا کی سپرمیسی کمزور پڑ سکتی ہے اور چین اس کی سپرمیسی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔
اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے امریکا کی انتظامیہ روس اور چین کی حکمت عملی پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے اور اسی تناظر میں امریکا کی انتظامیہ بھارت کی پالیسی کو بھی دیکھ رہی ہے۔پاکستان کے حوالے سے امریکا کے صدر نے جو کچھ کہا ہے، وہ خاصی اہمیت کا حامل ہے ،اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،اس میں مستقبل کی پالیسی کے حوالے سے بہت سے معنی پنہاں ہیں۔
پاکستان کو اس حوالے سے کسی قسم کی نرمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام دنیا کا محفوظ ترین پروگرام ہے جب کہ روس اور بھارت کی اس حوالے سے کارکردگی ناقص رہی ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے بالکل درست کہا ہے کہ گزشتہ دہائیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان انتہائی ذمے دار جوہری ریاست ہے، جوہری پروگرام موثر تکنیکی اور فول پروف کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے زیر انتظام ہے۔
ایک بیان میں انھوں نے کہا جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت سے متعلق پاکستان نے ہمیشہ نہایت ذمے دارانہ کردار کا مظاہرہ کیا ہے، پاکستان نے عدم پھیلائو، سلامتی وتحفظ پر عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے)سمیت عالمی معیارات کے اپنے پختہ عہد کو پورا کیا ہے، دنیا کے امن کو اصل خطرہ سرفہرست جوہری ممالک کے درمیان اسلحہ کی دوڑ سے ہے، پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کی حقیقی صلاحیت کو پہچاننے کے لیے خالص اور پائیدار کوششیں نہایت ناگزیر ہیں، اس مقصد کے لیے غیرضروری بیانات سے پرہیز کیا جائے۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے امریکی سفیر کو طلب کر کے احتجاجی مراسلہ حوالے کیا اور امریکی صدر کے بیان پر وضاحت کے لیے کہا گیا،دریں اثنا بلاول ہاؤس کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی اور وفاقی وزیر خارجہ بلاول زرداری نے پاکستان کے جوہری اثاثوں کے متعلق صدر جوبائیڈن کے بیان پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جوہری اثاثوں کی حفاظت سے متعلق سوالات ہیں، تو وہ بھارت سے پوچھے جانے چاہئیں، جس نے حال ہی میں حادثاتی طور پر پاکستانی سرزمین پر میزائل فائر کیا تھا، جو ناصرف غیر ذمے دارانہ عمل اور انتہائی غیرمحفوظ ہے بلکہ بھارت کی جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کے حوالے سے قابلیت پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔
امریکی صدر کے مذکورہ بیان کی وجہ غلط فہمی ہو سکتی ہے، جو روابط کے فقدان سے جنم لیتی ہے، لیکن خوش قسمتی سے اب دونوں ممالک روابط کی بحالی کے سفر پر گامزن ہو چکے ہیں،اگر جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کا معاملہ تشویش کا باعث ہوتا، تو اسے ان کے ساتھ میٹنگ میں اٹھایا گیا ہوتا،صدر بائیڈن کا بیان ایک غیر رسمی تقریب میں سامنے آیا جو قوم سے خطاب یا اس طرح کی کوئی باقاعدہ تقریب نہ تھی، ہمیں سازشی نظریات سے گریز کرنا چاہیے۔
ہم پاکستان کے مفاد کا تحفظ کرنا جانتے ہیں، اور اگر ہم محسوس کریں کہ ایسا کوئی دباؤ ہے تو اسے عوام کے سامنے لایا جائے گا،اسلام آباد میں کیوبن سفیر نے بھی ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ 1798سے آج تک کس ملک نے 469 مرتبہ فوجی مداخلتیں کی ہیں، کس ملک نے شہریوں پرایٹم بم گرائے، اور دوسروں پر غیر انسانی پابندیاں کون لگا رہا ہے۔
اپوزیشن رہنمائوں نے امریکی صدر جوبائیڈن کے پاکستانی ایٹمی پروگرام سے متعلق بیان پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ جوبائیڈن کا بیان امپورٹڈ حکومت کی خارجہ پالیسی کی مکمل ناکامی ہے، کیا یہ امریکا سے تعلق کی بحالی ہے؟ امریکی صدر کا بیان قابل مذمت ہے، اسے فوری واپس لیا جائے۔ تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی ٹویٹ میں کہاکہ پاکستان نے جوہری قوت بننے کے بعد دنیا میں کب جارحیت دکھائی؟
امریکی صدر کونسی معلومات کی بنا پر پاکستان کی جوہری صلاحیت سے متعلق اس نتیجے پر پہنچے؟ جب میں وزیراعظم تھا تو مجھے علم تھا کہ پاکستان کا نیو کلیئر کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم انتہائی محفوظ ہے، پاکستان امریکا کی طرح جنگوں میں شامل رہا اور نہ کسی ملک میں جارحیت کی۔
سابق وزیراعظم نواز شریف نے امریکی صدر کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ایک ذمے دار ایٹمی ریاست ہے جو بین الاقوامی قوانین اور طریقوں کا احترام کرتے ہوئے اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔
ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ تمام آزاد ریاستوں کی طرح، پاکستان اپنی خود مختاری، خود مختار ریاست اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ پاکستان عالمی قوانین کی پاسداری کرتا ہے، اس کا ایٹمی پروگرام کسی ملک کے لیے خطرہ نہیں۔
ایک تقریب سے خطاب کے دوران جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ امریکا کون ہوتا ہے ہمارے ایٹمی اثاثوں پر بات کرنے والا، ہم نے ایٹمی قوت پاکستان کی ریاست کے دفاع کے لیے حاصل کی ہے، کسی پر جارحیت کے لیے نہیں۔
حکومتی وزراء نے ایٹمی اثاثوں سے متعلق امریکی صدر جوبائیڈن کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام مضبوط کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے تحت محفوظ ہے، پاکستان ذمے دار ترین ایٹمی طاقت ہے، اس نے کبھی اپنے اثاثوں کا غلط استعمال نہیں کیا۔
The post امریکی صدر کے بیان پر پاکستان کا احتجاج appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/xgqMAzk
via IFTTT
No comments:
Post a Comment