حضرت افتخار عارف کو ان کی نظم ‘بارھواں کھلاڑی’ سے پہچانا، پھر ان کے مجموعے ‘مہر دو نیم’ سے۔عزیز بھائی طاہر علوی مجھ سے یہ مجموعہ ہتھیا لے گئے تو پھر ویسے ہی گزارا کیا۔
یہ تجربہ تو بہت بعد میں جا کر ہوا کہ ان کی باتوں سے فقط خوشبو نہیں آتی، سامنے کے حقائق کی کچھ ایسی تہیں بھی کھلتی ہیں جنھیں سمجھنے کے لیے بعض اوقات عمریں بیت جاتی ہیں۔یہ کچھ دن پہلے کی بات ہے۔ وہ اکادمی ادبیات پاکستان میں مہمان تھے۔
اکادمی کا ایک مقبول سلسلہ کتب ہے، پاکستانی ادب کے معمار۔ اکادمی کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر یوسف خشک کے زمانے میں معماران ادب پاکستان پر تحقیق میں حیرت انگیز تیزی پیدا ہوئی اور گزشتہ دو ڈھائی برس کے عرصے میں پچاس ساٹھ کتابیں شایع ہو گئیں۔ ہمارے دوست ڈاکٹر شیر علی نے اسی سلسلے کے تحت استاذ الاساتذہ ڈاکٹر توصیف تبسم کے فن اور شخصیت پر کام کیا ہے۔ وہ اسی کتاب کی تقریب کے صدر نشین تھے۔
ڈاکٹر شیر علی نوجوان محقق ہیں اور متحرک شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کے مزاج کا شاید یہی پہلورہا ہو گا کہ افتخار عارف صاحب نے کہا کہ مجھے امید تو نہیں تھی کہ ہنستا مسکراتا یہ لڑکا گھٹنے توڑ کے بیٹھے گا اور ایسا کارنامہ انجام دے ڈالے گا۔
افتخار عارف صاحب جس محقق کو ایسی سند عطا کر دیں، اس کے معیار میں کیا کلام ہو سکتا ہے لیکن افتخار عارف صاحب کے اس بیان پر ہمارا ایمان بالغیب ہی جانیے کہ آنکھوں دیکھی گواہی تو کتاب کو چھونے اور اس کی خوشبو سے لطف اندوز ہونے کے بعد ہی دی جا سکتی ہے۔
عارف صاحب نے اس تقریب میں کمال کاایک جملہ کہا۔ ڈاکٹر توصیف تبسم صاحب نے کہیں یہ دعویٰ کر رکھا ہے کہ ترقی پسندی سے تو ان کی راہ و رسم رہی ہے لیکن مزاحمتی شاعری وغیرہ پر وہ یقین نہیں رکھتے۔ بس، عارف صاحب نے اسی بیان پر توجہ کی ایک کمال کی بات کہہ دی۔ انھوں نے کہا:
‘ آپ اسٹیٹس کو سے مطمئن ہیں؟ نہیں۔ بس، یہی تو مزاحمت ہے’۔
اسلام آباد میں ہمارے جیسے نو واردوں کی ایک بدقسمتی ہے۔ ڈاکٹر توصیف تبسم جیسے بھاری بھرکم معمار ادب کے مقام اور مرتبے سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ ورنہ جان جاتے کہ ڈاکٹر صاحب نے ایسا دعویٰ کیوں کیا اور افتخار عارف کو اسے تسلیم کر نے میں تامل کیوں تھا۔ یہ راز تو ڈاکٹر شیر علی کی کتاب پڑھ کر ہی کھلے گا۔ اس سے پہلے علی اکبر عباس کی شاعری کو اس اصول پر پرکھ لیتے ہیں۔
علی اکبر عباس ہمارے جھنگ کی مٹی سے اٹھے اور انھوں نے قومی سطح پر شناخت پیدا کی۔ ان کی شاعری کیسے کیسے اوصاف حمیدہ سے معمور ہے، یہ موضوع ہماری دسترس سے باہر ہے بس اتنا سمجھ لیجیے کہ اشفاق احمد جیسی نابغہ روزگار شخصیت نے ان کی شاعری کو جو خراج تحسین پیش کیا ہے، بڑے بڑے لوگ اس کی تمنا کرتے گزر گئے۔ اشفاق صاحب نے پنجاب کی رہتل، بولی ٹھولی اور اردو کے ساتھ اس زبان کو شاعر نے جس خوبی کے ساتھ ہم آہنگ کیا ہے، اس کی تحسین کی ہے۔
اچھی شاعری اور ادب کی یہی خوبی ہے کہ وہ زبانوں کے درمیان رشتوں میں گہرائی پیدا کر کے فرزندانِ وطن کے رشتے کو اس کے ساتھ مضبوط کر دیتا ہے۔ادب اور شاعری کی دوسری بڑی خوبی یہ ہے یا ہونی چاہیے کہ خواہ وہ زلف و کاکل کی لو سے کتنی ہی معمور کیوں نہ ہو، اس میں اگر اپنے عہد کا درد اور اس کی خوشبو نہ ہو تو پھر وہ شاعری کیسی؟
ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری نے اقبالؒ کی شاعری کے بارے میں کمال کی ایک بات کہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ علامہ اقبالؒ کے شعر کا پہلا مصرعہ محض ایک صحافتی بیان لگتاہے لیکن دوسرا مصرع شعر کو اٹھا کر آفاقی سچائی پر پہنچا دیتا ہے جیسے ؎
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
آزادی کے بعد ہمارے یہاں حالات کچھ ایسے رہے ہیں کہ ہمارے بعض فن کاروں نے حکمراں طبقات کے قہر سے بچانے کے لیے خود کو غیر جانب داری کے ‘عظیم منصب’ پر فائز کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا ادب نثری ہو یا شعری ہر دو روحِ عصر سے محروم ہو گئے۔
روحِ عصر سے محرومی کا ایک سبب تو یقیناً حکمرانوں کا ناپسندیدہ طرز عمل رہا ہے لیکن اس کی ایک اور وجہ سیاسی یا سماجی دباؤ بھی تھا۔ ہمارے یہاں جتھہ بندی وغیرہ کے باعث اہلِ فکر و نظر کے لیے بات کہنا مشکل ہو گیا تو کبھی سیاست کی وجہ سے سماجی حالات نے کچھ ایسا رخ اختیار کیا کہ بات کہنی آسان نہ رہی۔
کوئی شبہ نہیں کہ آخری مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفر جس عذاب سے گزرے، کب کوئی تاج دار ایسے حالات سے گزراہو گا لیکن سچ یہ ہے کہ ایک شعر ان کا ایسا ہے جو اپنے عہد کے دکھوں کی ترجمانی بھی کرتا ہے لیکن موجودہ دور میں تو یہ زیادہ بامعنی ہو گیا ہے
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
ماضی قریب میں یہ کرب کراچی کے اہل قلم نے برداشت کیا ہے اور زمانۂ حال میں پاکستان میں 2014 ء سے جس چلن کا آغاز ہوا ، اس نے سیاسی دباؤکے ساتھ سماجی دباؤ کابھی اضافہ کردیا۔ آپ اپنے ضمیر کے مطابق کوئی بات کہہ دیں تو آپ کی فکر سے اختلاف رکھنے والے آپ کا گھیراؤ ہی نہیں کرتے ، آپ کے اپنے اعزا حتیٰ کہ بھانجے بھتیجے بھی منھ کو آتے ہیں۔ اس قسم کے ماحول میں ادیب اور دانش ور کیا کرے۔ بقول انتظار حسین مرحوم، وہ کوئی ہاتھی گھوڑے پرسوار ہو کر میدان جنگ کی صفیں تو مرتب نہیں کرتا۔قلم و قرطاس کے ذریعے ہی قوم کو نیک و بد سمجھاتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ملک میں رواج پانے والے نئے سیاسی رجحانات ایک ایسے جابرانہ دباؤکا ذریعہ بن گئے جن میں اپنے فکر اور ضمیر کے مطابق کوئی بات بلا کم و کاست کہنی مشکل ہو گئی۔ایسے مشکل ماحول میں صرف چند ہی لوگ تھے جنھوں نے ہمت نہیں ہاری اور وہی بات کہی جسے درست جانا۔ ان روشن ضمیر لوگوں میں ایک بلکہ نمایاں ترین شاعر علی اکبر عباس ہیں۔
‘ گن گیان’اور’رچنا ‘جیسے مجموعوں میں گیتوں کے ذریعے انھوں نے پنجاب کے روشن رنگوں کو زبان دی تو غزل کے ذریعے وہ بات کہی جسے کہتے ہوئے آج کے عہد میں پتہ پانی ہوتا تھا لیکن داد دیجیے علی اکبر عباس کو کہ وہ تمام تر سیاسی و سماجی جبر کے باوجود حق بات کہتے رہے۔ ان کا ایسا ہی کلام ‘تشنگی رہ گئی’ کے نام سے شایع ہو چکا ہے۔ ان کی یہ شاعری مزاحمت کی اسی تعریف پر پوری اترتی ہے جس کے بارے میں افتخار عارف کہتے ہیں کہ اگر آپ اسٹیٹس کو سے مطمئن نہیں تو پھر مزاحمت کرتے ہیں۔
میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ علی اکبر عباس کی یہ شاعری اس تعریف پر پوری ہی نہیں اترتی کچھ نئے معیارات قائم کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی معاشرہ باہمت شاعر پیدا کرنے بند کر دے تو سمجھئے کہ وہ بانجھ ہو گیا۔ مجھے فخر ہے کہ ہمارے درمیان علی اکبر عباس موجود ہیں۔ ان کے چند شعر ؎
کھلاڑی ایک اتارا گیا ہے میدان میں
مقابلے میں نہ کوئی بھی سامنے آئے
ٌٌ****
طاقت ہمارے ہاتھ میں اور حکم کوئی اور دے
بھاتا نہیں یہ سلسلہ مثبت نتائج کے لیے
****
سلیقہ نہیں جس کو کوئی دل نوازی کا
اسے امیر بنانے کی ضد ہے بڑھ چڑھ کے
****
The post تشنگی مزاحمت کی تمام ہوئی appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/WYVyRTu
via IFTTT
No comments:
Post a Comment