Wednesday, October 26, 2022

آواز سے علاج؛ لوگ اس کی جانب کیوں متوجہ ہو رہے ہیں؟ ایکسپریس اردو

کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ بارش کی رِم جھم اتنی پْرسکون کیوں محسوس ہوتی ہے؟ یا پھر ساحل سے مسلسل ٹکراتی لہروں کی آواز کانوں میں رس کیوں گھولتی ہے؟

ان آوازوں کی فریکوئنسی پر حال ہی میں ’ ٹک ٹاک‘ پر ایک ٹرینڈ بنا جب صارفین نے ’ براؤن نوائز ‘ کو دریافت کیا اور اس کے فوائد گنوائے جو ’ وائٹ نوائز‘ (سفید شور) کا بالکل الٹ ہے۔

اس ٹرینڈ کی وجہ سے لوگ اب جدید زندگی سے جڑی پریشانیوں یا پھر اپنے اندرونی احساسات اور خیالات سے چند لمحوں کے لیے فرار اختیار کرنے کے لیے اس کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ یہ آواز لوگوں کو کام پر توجہ مرکوز کرنے، بہ اآسانی سونے اور اے ڈی ایچ ڈی جیسے ڈس آرڈر کا شکار لوگوں کی زندگی آسان بنانے میں مدد دیتی ہے۔ اے ڈی ایچ ڈی اٹینشن ڈیفیسٹ ہائپر ایکٹیویٹی سنڈروم کو کہا جاتا ہے۔ تاہم اس آواز کا راز کیا ہے اور یہ اتنی مشہور کیوں ہو گئی ہے؟

براؤن نوائز کیا ہے؟

وائٹ نوائز کے برخلاف براؤن نوائز میں کمتر بیس ٹونز پر زیادہ زور ہوتا ہے جو انسانی کان کو سْنائی دیتی ہیں۔ اسے دنیا بھر میں فضائی جہاز کے اندر بیٹھے ہوئے یا پھر قدرتی ماحول میں بھی سْنا جا سکتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ براؤن لفظ رنگ نہیں ہے بلکہ براؤنیئن موشن کا حوالہ ہے جو پانی میں پولن کی حرکت کی آواز ہوتی ہے جسے سب سے پہلے رابرٹ براؤن نے تقریبا 200 سال قبل 1827 میں دریافت کیا تھا۔ اسے ’ ریڈ نوائز ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

ریڈ نوائز کی فریکوئنسی سفید روشنی سے کم ہوتی ہے۔ اس کی شہرت میں اضافے کی ایک وجہ اے ڈی ایچ ڈی کمیونٹی ہے جس نے سوشل میڈیا پر اس کے ٹرینڈ کو بڑھانے میں مدد دی۔

براون نوائز اور نیورو ڈائیورسٹی

ماہر نفسیات ڈاکٹر ایلکس ڈی میتریو کا کہنا ہے کہ عام لوگوں کو ہر قسم کا شور پریشان کر دیتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ دوسری جانب اے ڈی ایچ ڈی کے شکار افراد کا دماغ دباؤ میں بہتر طریقے سے کام کرتا ہے۔

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہلکا پھلکا سا شور دماغ کو مکمل خاموشی کی نسبت بہتر طریقے سے کام کرنے میں مدد دیتا ہے۔ براؤن نوائز کا وائٹ نوائز کے مقابلے میں کم مطالعہ کیا گیا ہے تاہم اس پر ہونے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ اے ڈی ایچ ڈی سے متاثرہ افراد کے لیے مفید ہے۔

ٹک ٹوک پر موجود صارف ناتالیا بب، جو اے ڈی ایچ ڈی سے متاثر ہیں، نے پہلی بار براون نوائز سننے پر ردعمل دیا۔ انھوں نے حیرانی سے پوچھا کہ ’ کیا یہ اصلی ہے؟ میری سوچ کہاں چلی گئی؟ ‘ ایک اور ویڈیو میں انھوں نے کہا کہ ’ اس نے تو میری پڑھائی میں انقلاب برپا کر دیا۔‘

آواز کے دیگر رنگ

آواز کے کئی اور رنگ بھی ہیں جو مختلف فریکوئنسی پر کام کرتے ہیں۔ ان میں سفید کے علاوہ پنک اور وائلٹ رنگ ہیں۔ ان میں فرق صرف فریکوئنسی کا ہوتا ہے۔ ان کے فوائد کے باوجود ہر کوئی ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا کیونکہ اکثر کے لیے یہ ایک تنگ کرنے والی آواز ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ڈی میتریو کے مطابق ’یہ اپنی اپنی پسند کی بات ہے۔‘

نوزائیدہ بچوں کو اکثر وائٹ نوائز سنا کر سکون دیا جاتا ہے کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ یہ ماں کے پیٹ میں موجود آواز جیسی ہوتی ہے۔

ایسے افراد جن کو ٹنائٹس کا مرض لاحق ہوتا ہے، یعنی وہ مرض جس میں کان کے اندر ہر وقت گھنٹیاں بجتی رہتی ہیں، کو وائلٹ نوائز میں آرام محسوس ہو سکتا ہے۔ وائٹ نوائز سے کم تر لیکن براؤن نوائز سے زیادہ فریکوئنسی رکھنے والے پنک نوائز سننے والوں کو جلد سونے میں مدد دیتی ہے۔ ان تمام آوازوں سے منسوب فوائد کے دعوؤں کے باوجود سائنس دان اور ماہرین اْن کی موجودگی پر متفق نہیں ہیں۔

سنہ 2020 میں 38 تحیققات کا جائزہ لیا گیا جس میں نیند پر وائٹ نوائز کے مثبت اثر کے محدود شواہد ملے جب کہ براؤن نوائز پر اس سے بھی کم مواد ملا۔ تاہم جو لوگ اس آواز سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فائدہ مند ہوتی ہے۔

سسیلیا پارکر کا کہنا ہے کہ وہ کافی کی دکان کے ماحول کی آواز سْن کر اپنا دھیان مرکوز کر سکتی ہیں۔ ’ مجھے خاموشی بہت تنگ کرتی ہے کیوں کہ ایسے میں میرے پاس سوچنے کو بہت کچھ ہوتا ہے۔ کسی کافی کی دکان کا براؤن نوائز اچھا ہوتا ہے کیوں کہ اس کی شناخت نہیں ہو سکتی اور نا ہی اس میں پیٹرن ہوتے ہیں۔ ‘

ڈیٹا سائنس دان پاز بومبو کا کہنا ہے کہ وہ ویڈیوگیم کے ساونڈ ٹریک سن کر کام کرتے ہیں اور سمندری لہروں کی آواز کی مدد سے سوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی وجہ سے ان کے کام اور نیند دونوں پر مثبت فرق پڑا۔ ’ میں عام طور پر سمندر کی لہروں یا پھر جنگل میں آگ کی آواز سنتا ہوں اور 20 منٹ میں نیند آ جاتی ہے۔

میں نے یہ بھی پڑھا ہے کہ ویڈیو گیم کی موسیقی کام کرنے میں مدد دیتی ہے اور ایسا ہوتا ہے۔ کوئی بھی ایسی آواز جس میں تکرار ہو، مجھے توجہ مرکوز کرنے میں مدد دیتی ہے۔‘

ایلس فونڈا مارس لینڈ ایک استانی ہیں اور ماں بننے والی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے نیند کا مسئلہ تھا اور زچگی کے بعد تو بلکل نیند نہیں آتی تھی۔ براؤن نوائز نے میری کافی مدد کی لیکن افسوس کہ یہ مجھے زیادہ دیر سونے میں مدد نہیں دے سکا۔‘

اگرچہ اس کے پیچھے کارفرما سائنسی عوامل اب تک ثابت نہیں ہو سکے، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ براون نوائز مفید ہے۔

الیکسیا ٹروئین کو جب اے ڈی ایچ ڈی کی تشخیص ہوئی تو ان کو زیادہ مدد نہیں ملی۔’ مجھے بتایا گیا تھا کہ آپ نے اتنا عرصہ اس کے ساتھ زندگی گزار لیں، باقی بھی گزر جائے گی لیکن انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ زندگی کے ساتھ ذمہ داریاں بڑھتی ہیں۔ مجھے کسی قسم کی کوئی مدد نہیں ملی لیکن پھر مجھے آواز سے علاج کا پتہ چلا۔‘

وہ پہلے ڈرم کی موسیقی سے کام پر توجہ مرکوز کرتی تھیں اور اب ان کو براون نوائز میں سکون ملتا ہے۔ ’اس سے میرے ارد گرد باقی شور دب جاتا ہے اور میرے ذہن میں ہیجان خیز سوچیں منظم کرنے میں مدد ملتی ہے جس سے جسم پْر سکون ہو جاتا ہے۔‘    ( بشکریہ بی بی سی )

The post آواز سے علاج؛ لوگ اس کی جانب کیوں متوجہ ہو رہے ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/moXA2Kr
via IFTTT

No comments:

Post a Comment