وزرات خزانہ کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال 2022-23 کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح 25.1 فیصد رہی۔
ایف بی آر کے محصولات سترہ فی صد بڑھے ، برآمدات میں 5.5 فی صد اضافہ، درآمدات 7.9 فی صد کم ہوئیں ، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ دو ارب بیس کروڑ ڈالر رہا جب کہ ترسیلات زر میں 3.6 فی صد ، مجموعی سرمایہ کاری 83.7فیصد کم ہوگئی۔ رپورٹ کے مطابق مستحکم کرنسی کے لیے مضبوط معیشت کا ہونا ضروری ہے۔
اسی تناظر میں معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں بہتری کے لیے دیرپا منصوبہ بندی ضروری ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بیان تو دیا ہے کہ ڈالر کی قیمت 200 روپے سے نیچے ہونی چاہیے لیکن ملکی معیشت کو بہتر سمت میں لے جانا بھی انھی کی ذمے داری ہے۔ رواں ہفتے روپے کی قدر میں ایک بار پھر گراوٹ کا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کی تبدیلی کے بعد روپے کی قدر میں بہتری کا سلسلہ اب برقرار نہیں رہ پا رہا دراصل ملکی کرنسی میں بہتری کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ روپے کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ برآمدات میں اضافہ کیا جائے جس سے آمدنی بڑھے گی اور اخراجات کم ہوں گے تو ہی ملکی کرنسی مضبوط ہوگی۔
مہنگائی مسلسل بڑھنے کی وجوہات میں ایک تو وہ قرضوں کا انبار ہے جو ایک سو بیس ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔ دوسرا وہ بجلی کا نظام ہے جس کے تحت ہمیں باہر سے بجلی منگوانی پڑتی ہے ہم نے بجلی کی پیداوار بڑھانے اور ڈیمز بنانے کی طرف کبھی توجہ نہ دی اب غریب کے لیے یہ بات تکلیف دہ ہے اگر وہ بجلی کی قیمتیں ادا کرتے ہیں تو ان کے پاس کھانے کے لیے پیسے نہیں بچتے اور تیسری بات یہ کہ ہمیشہ سے ہمارا مقصد اقتدار بچاؤ تو رہا غربت کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح نہ رہا ہم ہمیشہ اقتدار میں آنے کے لیے یہ تاثر دیتے رہے کہ پرانی حکومتیں غیر جمہوری تھیں۔
ہم حکومت کے اصل وارث ہیں اور عوام کے خدمتگار ہیں اور عوام اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ اپنا بھی دن آئے گا لیکن ہر دن مہنگائی کی نوید لے کر آیا پاکستان نے انیس سو اٹھاسی کے بعد سخت شرائط پر قرض لیا اس سے قبل قرض پر شرائط نہ ہونے کے برابر تھیں قرض بڑھتا گیا شرائط سخت ہوتی گئیں مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
موجودہ حکومت کے کندھوں پر تین تین ذمے داریاں عائد ہوچکی ہیں ، صورتحال یہ ہے کہ ایک کا رخ درست کرنے کی کوشش کی جائے تو دوسری کی سمت خراب ہوجاتی ہے جب کہ تیسری ذمے داری کا تعلق عوام سے ہے جس کا رخ آج تک کسی نے متعین کرنے کی کوشش نہ کی۔ مہنگائی کے روز بروز بڑھتے رحجان نے عوام کے ذہنوں کو ماؤف کردیا ہے۔
اسی حوالے سے ایک دانشور نے لکھا ہے کہ موجودہ دور میں لاتعداد مسائل نے عوام کو اس قدر خالی الذہن کردیا ہے کہ پورے معاشرے میں چلتی پھرتی کھوپڑیاں ہیں۔
کارل مارکس اس نظریہ میں اتنا آگے بڑھ گیا کہ اس نے لکھا کہ ’’پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لیے لوگ جرائم کی طرف مائل ہوتے ہیں اور معاشرتی ناہمواری کی وجہ یہی غربت ہے‘‘ لیکن حزب اقتدار اور مخالف کی سیاسی کشمکش اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں نے عوام کو خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا ہے۔
اب سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا معاشی صورتحال سنبھل جائے گی اور عوام کی زندگیوں میں کیا تبدیلی آئے گی۔ اس سے قبل ٹیکسوں کی بڑھتی ہوئی شرح اور بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتوں نے عوام پر جو بم گرایا ہے کیا عوام کو اس حوالے سے آنے والوں دنوں میں ریلیف ملے گا؟ لیکن حقائق بتاتے ہیں کہ آگے چل کر نہ صرف پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا بلکہ بجلی اور گیس میں بھی اضافہ ہوگا۔
ایک کہاوت ہے کہ ایک ریاست میں جب غربت بڑھ گئی تو ریاست کے والی نے وزیر با تدبیر کو بلایا کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہے وزیر با تدبیر نے کہا کہ یہ کونسی مشکل بات ہے آپ عوام کی توجہ مہنگائی سے ہٹا کر کسی اور طرف لگا دیں۔ اگلے دن اعلان کیا گیا کہ اس ریاست میں جو بھی یہ پتہ لگائے گا کہ پہلے مرغی پیدا ہوئی کہ انڈا اسے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔
اس وقت سے ریاست کے عوام انعام و اکرام کے لیے اس ٹرک کی بتی کے پیچھے دوڑ رہے ہیں جس کی کوئی منزل نہیں۔ ہم نے عوام کی توجہ آئی ایم ایف کی طرف موڑ رکھی ہے کہ قرض ملتے ہی ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا ہے، جلد ترقیاتی منصوبے شروع ہوں گے لیکن عوام کو اس ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ حالات و واقعات اس بات کے شاہد ہیں کہ نئے سخت شرائط والے قرضوں کے حصول کے بعد مزید سخت فیصلے عوام کی زندگی پر برے اثرات ڈالیں گے۔
اس وقت مہنگائی کی شرح اٹھائیس فی صد ہے جو کہ مستقبل قریب میں پینتیس سے چالیس فی صد ہوجائے گی ، حکومت کا موقف ہے کہ وہ اپنی مدت دو ہزار تیئس تک پوری کرے گی، اب اس سفر کے دوران کیا کیا مشکلات درپیش ہوں گی، یہ تو وقت ہی بتائے گا تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ۔
عوام بھی اس تبدیلی سے یہ توقع لگائے بیٹھے تھے کہ عمران حکومت کے جاتے ہی تجربہ کار سیاستدان کوئی بڑی تبدیلی لائیں گے اور غریب کے ٹھنڈے چولہے پھر سے جل اٹھیں گے۔
آج ہمیں جن کڑے فیصلوں کی ضرورت ہے، اس میں ہر سطح پر فضول خرچی کا خاتمہ، غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی اور اس سادہ طرز زندگی کی ضرورت ہے جس سے معاشی نظام کو کسی حد تک سہارا ملے اس کے ساتھ درست فیصلے سیاسی محاذ آرائی کا خاتمہ اور سیاسی استحکام کے لیے ناگزیر حیثیت رکھتا ہے۔
بحران زدہ حالات کے تسلسل میں ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر مصنوعی سانسوں سے بھی چل نہیں سکے گی۔ اب سب کو معلوم تھا کہ معاشی مشکلات کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اب رونے دھونے کا کیا فائدہ؟
یہ درست ہے کہ موجودہ اقتصادی تباہ حالی کی بنیاد عمران خان نے اپنی حکومت میں رکھی اور آج سارا ملبہ اپنے مخالفوں پر ڈال کر ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ بس الیکشن کراؤ۔ اپنے دور حکومت میں سیاسی عدم استحکام کا سب سے بڑا ذریعہ خود بنے رہے، سارا وقت اپنے مخالفین سے لڑتے اور انھیں چور ڈاکو، چور ڈاکو کہتے رہے، اب کہتے ہیں معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے اور اُس کا فوری اور واحد حل الیکشن ہی ہیں۔
عمران خان معیشت پر بات نہیں کرنا چاہتے۔ کہتے ہیں پہلے الیکشن کا اعلان کرو، پھر کوئی دوسری بات کرو۔ نئے الیکشن کا مطلب کم از کم تین چار مہینے ہے، وہ بھی اگر آج نئے انتخابات کا اعلان کر دیا جائے، اگر عمران خان نئے انتخابات سے پہلے انتخابی اصلاحات اور نئے الیکشن کمیشن کا اپنا مطالبہ منوانا چاہتے ہیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ جلد از جلد انتخابات کو بھی پانچ چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔
سرِ دست ملک کی جو معاشی حالت ہے اُسے فوری علاج کی ضرورت ہے اور چند مہینوں کے انتظار کا مطلب مکمل تباہی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کو اپنی سیاست کے لیے موجودہ حکومت کا معاشی طور پر ناکام ہونا سوٹ کرتا ہے۔
موجودہ حکومت کی معاشی ناکامی اور آسمان کو چھوتی مہنگائی، عمران خان کو الیکشن تو جتوا دے گی لیکن اگر ملکی معیشت کو درست کرنے کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے اور معیشت کو سیاست سے بالاتر رکھ کر کوئی متفقہ لائحہ عمل وضع نہ کیا گیا تو عمران خان کو الیکشن جیتنے پر جو معیشت ملے گی وہ انھیں بھی حکمرانی کے قابل نہیں چھوڑے گی۔
اس لیے اب بھی وقت ہے، حکمران ہوں ، ن لیگ ، عمران خان یا دوسرے سیاست دان ، سب مل کر ملک کا سوچیں ، عوام کا خیال کریں اور معیشت پر سیاست بند کریں۔ آج قرض کی ادائیگی کا مسئلہ سوہان روح بنا ہوا ہے۔ ہمارے پاس الہ دین کا چراغ نہیں کہ معاملات درست کر لیں۔ ہمیں اس نظام کو سخت محنت اتحاد برداشت اور درست خارجہ پالیسی سے درست کرنا ہے جس کی طرف ہمارا کوئی دھیان نہیں ہے۔
ہمیں قومی ترقی کی سوچ اپنا کر سخت محنت اور ایمانداری سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی استحکام سازگار سماجی حالات سرکاری انفرا اسٹرکچر اور اکنامک اسٹرکچر کو مستحکم بنائے گا۔ غیریقینی کی صورتحال سے کاروبار کرنے والے صنعت کار بزنس مین شدید خوفزدہ ہے۔ مختصر، درمیانے اور طویل المدتی میثاق معیشت بناکر پالیسی سازی کی جائے۔
اقتصادی سیاسی و سرکاری پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی مرتب کی جائے۔ فوڈ سیکیورٹی، انرجی سیکیورٹی، بارڈر سیکیورٹی اور عدل و انصاف پاکستان کو آگے لے کر جائے گا۔ اکانومی مستحکم ہونے سے ذرایع آمدن بڑھیں گے جنھیں جدید اکنامک نیٹ ورکنگ سے بزنس سیکٹر کے مزید موثر نتائج مرتب ہونگے۔ معیشت مستحکم ہونے سے ہی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔
The post مستحکم معیشت، وقت کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/v4KJXP5
via IFTTT
No comments:
Post a Comment