Monday, November 21, 2022

’’بچے بات نہیں مانتے ۔۔‘‘ ایکسپریس اردو

آپ نے اکثر ماؤں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہوگا کہ ’’میرے بچے میری بات ہی نہیں سنتے، چاہے ہوم ورک کرانا ہو، صبح جگانا ہو یا اور کوئی کام ہو، جب تک میں چیخوں نہیں، بچے بات نہیں مانتے، موبائل تو چھوڑتے ہی نہیں ہیں۔ آوازیں دیتی رہوں، لیکن بچوں پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔

بچوں کی تربیت کے ضمن میں عموماً ماؤں کو یہی شکایات درپیش ہوتی ہیں۔ عموماً والدین خصوصا مائیں یہ سمجھتی ہیں کہ بچوں کے ساتھ وقت گزارنا ، اس کو گلے لگانا ، پیار کرنا ، اس سے اولاد اور والدین کا رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔ خصوصاً گھریلو خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ ہم سارا وقت بچوں کے ساتھ ہی تو گزارتی ہیں۔ تو بچوں سے ہمارا تعلق بہت مضبوط ہے، لیکن بچہ پھر بھی ہماری بات نہیں مانتا۔

درحقیقت مائیں اپنا سارا وقت تو بچوں کے ساتھ گزارتی ہیں، لیکن اولاد اور والدین کے مابین جو گہرا تعلق ہو وہ احساس نہیں اجاگر ہوتا۔ ماہرین کی رائے میں اولاد کا والدین سے ایسا تعلق اس وقت بنتا ہے، جب بچوں کے ساتھ ایسا وقت گزارا جائے جس میں ان کو کوئی نصیحت، کوئی حکم نہ دے رہے یوں۔ بلکہ ان کے دوست بن جائیں۔

بچہ اپنی مرضی سے وقت گزارے۔ وہ جو کھیلنا چاہے، اس کو کھیلنے دیا جائے۔ والدین اس کھیل میں بچے کے ساتھی بن جائیں۔ اس کے ساتھ کھیل میں شامل ہوں۔ وہ کچھ کرنا چاہتا ہے، تو بچوں کی صلاحیتوں پر بھروسا کریں۔ ہر وقت نکتہ چینی اور تنقید سے بچوں کی شخصیت میں اعتماد نہیں رہتا۔ ایسے شخص کو جو ہر وقت غلطیاں نکالتا رہے، بچے کبھی پسند نہیں کرتے۔

جس طرح مائیں کچھ وقت سکون سے اپنی مرضی سے گزارنا چاہتی ہیں اسی طرح بچے بھی اپنے لیے ایسا وقت چاہتے ہیں۔ اس وقت والدین صرف ایک دوست کی طرح بچے کے ساتھ ہنسیں کھیلیں۔ گویا اپنا بچپن دوبارہ جیئیں۔ روزانہ اگر اس طرح صرف آدھا گھنٹے بھی بچے کے ساتھ گزارا جائے، تو کچھ دنوں میں ہی بچے کی شخصیت میں واضح مثبت تبدیلی محسوس ہوگی۔

اگر بچے بڑے ہیں تو والدین ان کے ساتھ کتابوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ ان پر تبصرہ کرسکتے ہیں۔ ساتھ ورزش اور چہل قدمی کر سکتے ہیں۔ کھانا پکانا ہو یا کیک بیک کرنا ہو، ان کے ساتھ ایک ایسی دوست بن کر رہیں، جو بہترین سامع ہو۔ چھوٹے بچوں کے ساتھ ایسے کھیل کھیلیں جس میں ان کی ذہنی و جسمانی ورزش ہو۔ جس میں وہ خوب ہنسیں اور خوش رہیں۔ ان کے دوستوں کی طرح ان کے ساتھ ہنسیں اور کھیل سے لطف اندوز ہوں۔

بچے اسکول جانا شروع کریں، تو ان کو صبح سویرے جگانا ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔روزانہ صبح ماں بچوں کے درمیان آوازیں دینے سے گویا ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے۔ بچوں کے اوپر سے کمبل، رضائی کھینچنا۔ پانی چھڑکنا۔ غصیلے لہجے میں جگانا۔ بسا اوقات تو مائیں کوسنے دینے، طنز کرنے اور دھمکیاں دینے لگتی ہیں مثلاً فوراً باہر آو ورنہ یہ کردوں گی، وہ کردوں گی۔ معصوم بچوں کے سماعتوں پر یہ الفاظ گویا پتھر کی مار محسوس ہوتے ہیں۔

درحقیقت یہ رویہ کسی بھی طرح کسی تعلیم یافتہ اور تمیز دار ماں کی شخصیت کا حصہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن چوں کہ انھوں نے یہ رویہ دیکھا ہے، جو ان کے مزاج کا حصہ بن گیا ہے، لہٰذا وہ اپنی اولاد کے ساتھ بھی اسی رویے کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور اولاد بھی آنے والی نسلوں کے ساتھ یہی رویہ رکھے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ضمن میں درست طریقہ اختیار کیا جائے۔

گھر کے ماحول میں نظم و ضبط پیدا کرنے کے لیے ماؤں کو اپنی ذات پر وہ تمام اصول لاگو کرنا ہوں گے۔ جو بچے کی شخصیت میں دیکھنے کے متمنی ہیں۔

سب سے اہم گھر کے تمام افراد رات کو جلد سو جاتے ہوں۔ اس کے علاوہ بچوں کی نفسیات و عادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر اس کے ساتھ پیش آئیں تو بچہ بخوشی آپ کی ہر بات مانے گا۔ مثلاً صبح جگانے کے عمل کو غصے اور دھمکی آمیز رویے کے بہ جائے پیار سے اور دل چسپ انداز اپنائیے۔ ایک کھیل کی طرح جگائیے۔ بچے سے اس بابت پہلے سے بات کر لیجیے کہ جب میں پہلی آواز دوں گی تو آپ کو صرف جاگنا ہے۔ اٹھنا نہیں ہے۔

چند منٹ بعد جب دوسری آواز دوں گی، تب بھی اٹھنا نہیں ہے صرف کروٹ لینی ہے اور امی کی تیسری آواز کا انتظار کرنا ہے اور کچھ دیر بعد جب میں تیسری آواز دوں گی تو آپ کمبل سے ہاتھ نکالنا اور امی سے ہاتھ ملانا اور اٹھ کے بیٹھنا ہے ۔ پھر پہلے دعا پڑھنا۔ کچھ لمحے بیٹھ کر اس دوران جو سامنے ہو اس کو سلام کریں پھر اٹھ کر کھڑے ہو جائیں اور اسکول کے لیے تیار ہونا۔

بچے اس طرح جگانے کے عمل سے لطف اندوز ہوں گے۔ رات کو دعا پڑھ کر سلا دیں اور صبح نرم آواز میں بچے کے سر اور گالوں کو ہلکے سے تھپتھپاتے ہوئے اس طرح جگائیں۔ اور کمرے سے باہر چلی جائیں۔ کچھ منٹوں بعد تھوڑا دور سے خّوش گوار لہجے میں آواز دیں اور پھر کچھ دیر بعدبچے کے قریب جا کر تیسری آواز دیں۔

ہو سکتا ہے بچے ابتدا میں جاگنے میں تھوڑے نخرے کریں، لیکن رفتہ رفتہ وہ اس کے عادی ہو جائیں گے اور خود وقت پر جاگ جائیں گے۔  رات کو سونے سے پہلے نرمی سے بچوں سے سوال کریں کہ آج صبح کون پہلے جاگا تھا۔ کس نے بتائے گئے طریقے پر عمل کیا تھا، الغرض جگانے کے عمل کو ایک دل چسپ کھیل بنا دیں۔ اس طرح کچھ وقت میں ان کی یہ عادت پختہ ہو جائے گی۔

اسی طرح بچوں کا موبائل فون کا استعمال بھی والدین کے لیے درد سر بن گیا ہے۔ موبائل فون کے بے جا استعمال سے ان کی صلاحیتوں پر اثر پڑتا ہے۔ بہتر ہے کہ والدین بچوں کا اسکرین ٹائم مقرر کر دیں۔ دیگر اوقات میں بچوں کو کھیل کود کے مواقع فراہم کریں۔ کھلونوں سے کھیلنے دیں۔ ڈرائنگ بک اور کلرز دے دیجیے۔ غرض بچے کی توجہ دوسری جانب مبذول کرادیں

اکثر مائیں بچوں کی ضد اور رونے کی وجہ سے ان سے موبائل لینے کے بعد دوبارہ دے دیتی ہیں۔ حالاں کہ بچے اپنی دل چسپی دوسری چیزوں میں ڈھونڈ لیتے ہیں۔ ان کی توجہ دوسرے کھلونوں، کھیل یا کسی اور تعلیمی سرگرمی کی جانب مبذول کرائیں۔ چند منٹوں میں بچے سب بھول بھال کر نئی سرگرمی میں مگن ہو جائیں گے۔

The post ’’بچے بات نہیں مانتے ۔۔‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/ul7LsxS
via IFTTT

No comments:

Post a Comment