ری پبلیکنز نے امریکی ایوان نمایندگان میں معمولی اکثریت سے بالا دستی حاصل کر لی ہے ، جس سے صدر بائیڈن کے لیے قانون سازی مشکل ہوجائے گی، البتہ سینیٹ میں ان کی ڈیموکریٹ پارٹی کو ایک اضافی نشست کے ساتھ برتری حاصل ہوگئی ہے۔
وسط مدتی انتخابات کو عام طور پر صدارتی مدت کے پہلے دو سالوں پر ہونے والا ریفرنڈم سمجھا جاتا ہے، جس میں اقتدار میں پارٹی اکثر شکست کھاتی ہے۔ ان وسط مدتی انتخابات کے بعد امریکا میں اگلے دو برسوں میں ممکنہ طور پر ایک تعطل دیکھنے کو ملے گا اور کسی بھی فریق کے پاس اتنی طاقت نہیں ہوگی کہ وہ خارجہ اور ملکی پالیسی میں بڑے اقدام کرسکے۔
امریکا میں انتخابات تبدیلی یا کسی انقلاب کا پیش خیمہ نہیں بنتے بلکہ اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کا ایک موثر اور جائز طریقہ تصورکیے جاتے ہیں۔ اب حالیہ امریکی انتخابات کی ہی مثال لے لیتے ہیں، حالانکہ ان انتخابات کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ یہ بڑے یادگار ہونگے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور پورے امریکا میں ایک سرخ لہر (سْرخ رنگ ری پبلکن پارٹی کا رنگ ہے، جیسے نیلا رنگ ڈیموکریٹس کا ہے) آئی ہوئی ہے، جو ڈیموکریٹس کو بہا کر لے جائے گی، بالکل پاکستان والے حالات کا سامنا تھا کہ جس طرح یہاں عمران خان کا طوطی بول رہا ہے کہ اب الیکشن ہوئے تو باقی سیاسی جماعتوں کا صفایا ہوجائیگا، اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت کے چرچے زبان زد عام تھے، مگر نتائج اس توقع کے مطابق نہیں آئے۔
دنیا اس وجہ سے امریکی انتخابات پر نظر رکھتی ہے کیونکہ یہ دنیا میں امریکا کے عزائم اور طرزِ عمل کا تعین کرتے ہیں۔ امریکا میں صدارتی انتخابات ہر لیپ کے سال نومبر کے پہلے منگل کو ہوتے ہیں، مگر وہ منگل پہلے سوموار کے بعد آنا چاہیے۔ گویا اگر منگل پہلی نومبر کو آجائے تو پھر انتخابات پہلی تاریخ کو نہیں ہوں گے، پھر یہ آٹھ نومبر کو ہونگے کیونکہ سات نومبر کو پہلا سوموار ہوگا۔
امریکی آئین بنانے والوں نے انتخابات کی اتنی حتمی تاریخ طے کردی ہے کہ جس پرکامیابی سے عمل کرتے ہوئے سوا دو سو سال سے بھی زیادہ عرصہ گزر گیا ہے۔ ان عام انتخابات کی سب سے اہم بات دو اہم عہدوں یعنی صدر اور نائب صدر کے لیے ووٹ ہونا ہے۔
صدر اور نائب صدر چار سال کی مدت کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں، اگر ’’میک امریکا گریٹ اگین ‘‘ والے ری پبلکنز جیت جاتے تو یورپ اور خاص طور پر یوکرین اس کے فوری اور خطرناک اثرات کا نشانہ بنتے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک طویل عرصے تک ٹرمپ اور ان کی اپیل ناقابلِ شکست تھی، لیکن اب امریکی ووٹروں نے دوسری طرف رخ کرلیا ہے۔
واشنگٹن کے قدامت پسند حلقوں میں اسی سوال پر سوچ بچار ہو رہا ہے کہ ٹرمپ کی حمایت کا جوازکیسے پیش کیا جائے۔ اس سوال کا جواب جو بھی ہو بہرحال امریکا کے ووٹروں نے یہ دکھا دیا ہے کہ وہ حقیقت کو سمجھنا شروع ہوگئے ہیں۔
دوسری جانب جو بائیڈن کی ساکھ ایک سال سے زیادہ عرصے سے خراب ہے جب کہ موسم گرما کے دوران ڈیموکریٹک کی قسمت ٹھیک ہوتی دکھائی دے رہی ہے، اونچی مہنگائی اور معیشت کے بارے میں خدشات نے وسط مدتی انتخابی مہم کے آخری مرحلے میں اپنے آپ کو دوبارہ ظاہر کر دیا ہے، جس سے ڈیمو کریٹس کو کانگریس کے دونوں ایوانوں کا انتظام سنبھالنے کے لیے ایک مشکل جنگ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
صدر کے طور پر اپنے پہلے دو سالوں میں جو بائیڈن نے کانگریس میں اپنی کم اکثریت کے باوجود موسمیاتی تبدیلی، گن کنٹرول، بنیادی ڈھانچے کی سرمایہ کاری اور بچوں کی غربت سے متعلق نئے قوانین کو آگے بڑھایا ہے۔
حالیہ شکست خوردہ صدور کے برعکس سابق صدر ٹرمپ نے خاموشی سے سیاست نہیں چھوڑی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب بھی2024 میں وائٹ ہاؤس میں واپس آنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تکنیکی طور پر دیکھا جائے تو امریکا کے وسط مدتی انتخابات کے بیلٹ پیپر پر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام موجود نہیں تھا اور ویسے بھی یہ صدارتی انتخابات نہیں تھے بلکہ 2ایوانوں یعنی ایوانِ نمایندگان اور امریکی سینیٹ کے انتخابات تھے مگر اس کے باوجود ری پبلکن امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے ایک ٹرمپ ٹیسٹ سے گزرنا تھا اور اکثر صورتوں میں ٹرمپ صرف ان امیدواروں کی تائید کررہے تھے جو ان کی عظمت اور بڑائی کو تسلیم کرنے پر راضی تھے اور ٹرمپ کے اس دعوے کی بھی حمایت کرتے تھے کہ 2020 کا صدارتی انتخاب ڈیمو کریٹس نے چوری کیا ہے۔
بدقسمتی سے ری پبلکن جماعت کے مستقبل کے لیے ان امیدواروں کو ایسا کرنے کی سزا دی جائے گی جو ’’ میک امریکا گریٹ اگین‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ جیسے جیسے انتخابات کے ابتدائی نتائج آنا شروع ہوئے تو یہ واضح ہوتا گیا کہ پہلے سے ہی اپنی فتح کا اعلان کرنے والے ری پبلکنز غلط تھے، بہرحال ان وسط مدتی انتخابات سے قبل ہونے والی تمام پیش گوئیوں میں ری پبلکنز کو فاتح قرار دیا جارہا تھا۔ کچھ ری پبلکنز کے مطابق تو اس کا مطلب کانگریس کے ساتھ ساتھ سینیٹ پر بھی تقریباً مکمل کنٹرول حاصل ہونا تھا۔
گزشتہ انتخابات میں صدارت، کانگریس اور سینیٹ گنوانے کے بعد ری پبلکنز کا خیال تھا کہ وہ صرف جیت نہیں رہے بلکہ بڑی جیت ان کا انتظار کر رہی ہے۔ ان کی یہ امید جن سروے کے نتائج پر تھیں وہ زیادہ تر کنزرویٹو اداروں نے کیے تھے۔
ان سروے میں یہ بھی بتایا گیا کہ کئی دہائیوں بعد نیویارک اور واشنگٹن جیسی ڈیموکریٹک ریاستوں میں بھی سخت مقابلہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ بہرحال انتخابات سے پہلے جتنی بھی پیشگوئیاں کی گئیں ان کا نتیجہ اب سامنے آچکا ہے۔ ڈیموکریٹس نے نہ صرف سینیٹ کا کنٹرول اپنے پاس رکھا بلکہ وہ ایوانِ نمایندگان میں بھی ری پبلکنز کی جیت کو معمولی فرق تک محدود رکھنے میں کامیاب رہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس طرح کہا جاتا ہے کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور اسی طرح امریکی انتخابات بھی دکھانے کے اور ہوتے ہیں اور حقیقت میں کْچھ اور ہوتے ہیں۔
امریکی صدر پر تو آئینی بندش ہے کہ دو مرتبہ سے زیادہ منتخب نہیں ہوسکتا مگر یہ پابندی کسی اور منتخب رکن کے لیے نہیں ہے، اس لیے کانگریس کے اراکین بار بار الیکشن میں منتخب ہوجاتے ہیں، کانگریس میں دوبارہ منتخب ہونے کی شرح پچانوے فی صد سے بھی زیادہ ہے۔
یعنی پہلے ایک بار جیتے ہوئے رکن کو ہرانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ نوکری پیشہ افراد کی طرح سیاست بھی ایک کیریئر کی طرح ہے، کانگریس کے ارکان سالہا سال کانگریس کے رکن چلے آتے ہیں، ریاست ویسٹ ورجینیا کے مرحوم سینیٹر ایلن برڈ مسلسل پچاس سال سینیٹ کے رکن رہے اور کبھی الیکشن ہارے نہیں۔ یہ تو صرف ایک مثال ہے۔ باقی بھی اسی طرح ہیں کہ جب تک کانگریس کے اراکین ازخود سیاست سے ریٹائرمنٹ نہ لے لیں، نئے ارکان کے لیے موقع میسر نہیں آتا۔ جیسا کہ اس بار چھ سینٹرز نے ریٹائرمنٹ لے لی اور الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔
ایوان نمایندگان کی نسبت سینیٹ میں بار بار جیتنے کی شرح کہیں زیادہ ہے۔ البتہ بعض انتخابات میں نئے اراکین یعنی پہلی بار جیت کر آنیوالے اراکین، جنھیں چیلنجرز کہا جاتا ہے، کی تعداد اگر درجن بھر ہوجائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ بڑے حیران کن انتخابات ہوتے ہیں اور ان انتخابات کو تاریخ میں یاد رکھا جاتا ہے۔ موجودہ انتخابی نتائج کا اگر انتخابات سے پہلے کی صورتحال سے مقابلہ یا موازنہ کریں تو شاید انیس بیس کا فرق بھی نظر نہ آئے۔
ہم نے تفصیل سے امریکی وسط مدتی انتخابات کا ایک جائزہ پیش کیا ، اب اگر ہم عالمی منظر نامے کے حوالے سے بات کریں تو چین آج دنیا میں ایک مضبوط معیشت تصور کیا جاتا ہے چینی اشیاء دنیا میں بھر فروخت ہورہی ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ بات امریکا کو ناگوار گزرتی ہے۔
امریکا دنیا کی معیشت میں چین کا راستہ روکنا چاہتا ہے جس طرح ایک وقت میں اس نے روس کا راستہ روکا تھا اور سوویت یونین ٹوٹ گیا تھا۔ امریکا نے بڑا معاشی فائدہ اٹھایا لیکن آج امریکا بھول رہا ہے نہ اب ویسے حالات ہیں نہ آج ایسا کچھ ہوسکتا ہے لہٰذا امریکا کو چین کے خلاف پالیسی بدلنا ہوگی چین ایک عالمی طاقت ہے۔ دنیا اس بات کو مان چکی ہے لہٰذا امریکا اور یورپ کو اپنا قبلہ خود درست کرلینا چاہیے ، اگر نئے عالمی اتحاد کی بات کریں تو بدلتا ہوا نیا عالمی معاشی جغرافیہ اس اتحاد میں شامل تمام ممالک کے لیے ایک نئی معاشی مضبوطی کی نوید ہے۔
چین کی بہتر پالیسی کے سبب جو نیا عالمی اتحاد وجود میں آیا ہے وہ اس خطے کے ممالک کی حالت بدل دے گا۔ اس خطے سے غربت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردے گا اس نئے عالمی اتحاد میں شامل ممالک چین ، روس ، ترکی ، ملائیشیا ، پاکستان ، ایران ، بنگلہ دیش ، میانمار ،آذربائیجان ، وغیرہ شامل ہیں۔ کیا امریکا اکیلی سپر پاور ہونے کا دعویٰ اور زعم قائم رکھ پائے گا، یہ ملین ڈالر سوال ہے ، اس کا تعین آنے والا وقت کرے گا۔
The post امریکی وسط مدتی انتخابات اور عالمی منظر نامہ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/pdAHD5m
via IFTTT
No comments:
Post a Comment