Sunday, September 30, 2018

ملک چلانے کیلئے وژن چاہیے لیکن عمران نیازی اس سے عاری ہے ،جعلی مینڈیٹ والے عوام کی تقدیر نہیں بدل سکتے‘ حمزہ شہباز کابینہ میں بیٹھے ہوئے وفاقی وزیر بھی دھاندلی دھاندلی ... مزید

انڈونیشیاء میں سونامی اور شدید زلزلہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر800 ہوگئی

نئے اداکار اپنی پہلی فلم سے قبل ہی سٹا ر بن جاتے ہیں،سلمان خان

پی ٹی آئی کے ایم پی اے نے عدالت میں رونا شروع کر دیا باہر بدمعاشی کرتے ہو اندرانکار اور پھر رونا شروع کردیتے ہو،تم پہلے استعفیٰ دو جلدی کرو۔ چیف جسٹس کا منشا بم گرفتاری ... مزید

نئی ون ڈے رینکنگ ، بابر اعظم سے دوسر ی پوزیشن بھی چھن گئی فخر زمان اور حسن علی کے لیے بھی بری خبر آگئی

پرینکا نئی فلم ’’سکائی از پنک میںکے 4 ناقابل یقین روپ دھاریں گی

شاہ محمودقریشی نے بھارتی دہشتگردی کوکھل کردنیاکے سامنے پیش کیا ،ْیاسین ملک

پاکستان اور آئندہ نسلوں کی بقا کیلئے ڈیم کی تعمیر ناگزیر ہے ،ْسینیٹر فیصل جاوید پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے بچائوکیلئے آئندہ 5 سالوں میں 10 ارب درخت اگائے جائیں ... مزید

عالیہ بھٹ اور کترینہ کیف رنجشیں بھلا کر پھر سے دوست بن گئیں ایکسپریس اردو

ممبئی: بالی ووڈ کی باربی ڈول کترینہ کیف اور اداکارہ عالیہ بھٹ رنجشیں بھلاکر پھر سے دوست بن گئیں۔

بھارتی میڈیا میں گزشتہ کچھ عرصے سے اداکارہ عالیہ بھٹ اور کترینہ کیف کی دوستی ٹوٹنے کے حوالے سے خبریں گردش کررہی تھیں اور اس دوستی کی ٹوٹنے کی وجہ اداکار رنبیر کپور کو قرار دیا جارہا تھا تاہم اب دونوں اداکاراؤں نے اپنے درمیان رنجشیں بھلاکر ایک بار پھر دوستی کرلی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اداکارہ عالیہ بھٹ نے کترینہ کیف کی حال ہی میں انسٹاگرام پر شیئر کی جانے والی تصویر کو لائک کیا ہے جس کے بعد میڈیا میں یہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ دونوں اداکاراؤں کے درمیان اب سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے اور دونوں رنجشیں بھلا کر ایک بار پھر دوست بن گئی ہیں۔

واضح رہے کہ رنبیر کپور اورعالیہ بھٹ کے درمیان تعلقات کی خبریں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور عالیہ بھٹ کئی بار رنبیر کے لیے اپنی محبت کا اقرار بھی کرچکی ہیں تاہم عالیہ سے قبل رنبیر کپور اور کترینہ ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار تھے اور یہی وجہ عالیہ اور کترینہ کے درمیان تلخی کا سبب بنی تھی۔

The post عالیہ بھٹ اور کترینہ کیف رنجشیں بھلا کر پھر سے دوست بن گئیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2xMTnbZ
via IFTTT

وزیراعظم آزاد کشمیر کے ہیلی کاپٹر پر بھارتی چیک پوسٹ سے فائرنگ ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: وزیراعظم آزاد کشمیر فاروق حیدر کے ہیلی کاپٹر پر بھارتی چیک پوسٹ سے فائرنگ کی گئی ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق وزیراعظم آزاد کشمیر فاروق حیدر سول ہیلی کاپٹر پر لائن آف کنٹرول سے متصل پاکستانی گاوٴں تروڑی میں سفر کر رہے تھے، فاروق حیدر کا ہیلی کاپٹر لائن آف کنٹرول پر طے شدہ حد سے معمولی آگے چلا گیا کہ اسی دوران ہیلی کاپٹر پر بھارتی چیک پوسٹ سے فائر کیا گیا۔

ایل او سی پر تعینات دونوں ملکوں کی افواج کی جانب سے ایک دوسرے کو فضائی نقل و حرکت کی باقاعدہ اطلاع دی جاتی ہے، وزیر اعظم آزاد کشمیر کی فضائی نقل و حرکت کی بھی پیشگی اطلاع دی گئی تھی جب کہ ہیلی کاپٹر کا سفید رنگ ظاہر کرتا تھا کہ وہ سول ہیلی کاپٹر ہے۔

دوسری جانب بھارتی فوج اور میڈیا نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا جواز پیش کرتے ہوئے ہرزہ سرائی کی ہے کہ پاکستان سے آنے والا سفید سول ہیلی کاپٹر ایل او سی پار کرکے آیا جس پر بھارتی فوج کی اگلی چوکیوں سے ہلکے ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی، فائرنگ کے بعد ہیلی کاپٹر واپس چلا گیا۔ اس حوالے سے بھارتی فوج نے ویڈیو بھی جاری کی ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں :بھارت نے غلطی کی تو منہ توڑ جواب ملے گا 

بھارتی فوج کی جانب سے سول ہیلی کاپٹر پر فائرنگ کا واقعہ ایسے وقت میں آیا ہے جب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھارت کی ہٹ دھرمیوں اور دہشتگردی کا پردہ چاک کیا۔

The post وزیراعظم آزاد کشمیر کے ہیلی کاپٹر پر بھارتی چیک پوسٹ سے فائرنگ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2xM1oya
via IFTTT

کویتی وفد کا بیگ چرانے والا افسر نوکری سے برطرف ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: کویتی وفد کا دینار سے بھرا بیگ چوری کرنے والا اکنامک افیئر ڈویژن کا جوائنٹ سیکرٹری ضرار حیدر معطل کردیا گیا۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق جمعے کی شام اقتصادی امور ڈویژن میں ہونے والے اجلاس میں شریک کویتی وفد کے سربراہ کا دینار سے بھرا بیگ چوری کرنے والے افسر ضرار حیدر کو نوکری سے برطرف کردیا گیا ہے اور ضرار حیدرکی معطلی کا باضابطہ نوٹی فکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: سربراہ کویتی وفد کا بریف کیس چرانے والا 20 گریڈ کا افسر گرفتار

وفاقی وزیراطلاعات بیرسٹرفواد چوہدری نے ضرار حیدر کی برطرفی کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وفاقی حکومت نے اکنامک افیئر ڈویژن کے جوائنٹ سیکرٹری ضرار حیدر کو معطل کردیا ہے جب کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو چوری کی باضابطہ تحقیقات کا حکم بھی دیا ہے۔

واضح رہے کہ ضرار حیدر اکنامک افیئر ڈویژن کے جوائنٹ سیکریٹری تھے اور ان پر الزام ہے کہ کویتی وفد کے سربراہ کا دینار سے بھرا پرس چوری کرلیا تھا، اس الزام میں انہیں پہلے ہی گرفتار کیا جاچکا ہے۔

 

The post کویتی وفد کا بیگ چرانے والا افسر نوکری سے برطرف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2zF32mh
via IFTTT

فلسطین نے امریکا کے خلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع کر لیا ایکسپریس اردو

ہیگ: فلسطین نے سفارت خانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے پر امریکا کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں مقدمہ دائر کر دیا۔ 

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق فلسطین نے امریکا کے خلاف اپنے سفارت خانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے پر عالمی عدالت انصاف سے رجوع کر لیا ہے۔ فلسطینی حکومت نے عالمی عدالت انصاف سے مطالبہ کیا ہے کہ امریکی سفارت خانے کی منتقلی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے واپس تل ابیب لایا جائے۔

فلسطینی حکومت نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ امریکی سفارت خانے کی منتقلی بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ ویانا کنونشن 1967 میں طے پایا تھا کہ سفارت خانہ میزبان ملک کے کسی شہر میں قائم کیا جائے گا جب کہ مقبوضہ بیت المقدس ایک متنازعہ علاقہ ہے جس پر اسرائیلی فوج نے قبضہ کر رکھا ہے۔

فلسطینی حکومت نے درخواست میں یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ امریکا کی بین الاقوامی قوانین برائے سفارت کاری کی خلاف ورزی پر سرزنش کی جانی چاہیے اور امریکا سمیت دیگر ممالک کو یروشلم منتقل ہونے والے اپنے سفارت خانوں کو واپس تل ابیب لانے کے لیے پابند کیا جائے۔

یہ خبر بھی پڑھیں : فلسطین نے اسرائیلی مظالم کے خلاف عالمی فوجداری عدالت سے رجوع کرلیا

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ برس دسمبر میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا حکم دیا تھا جس پر رواں برس مئی میں عمل درآمد بھی کردیا گیا۔ امریکا کے بعد دیگر چند ممالک نے بھی سفارت خانے یروشلم منتقل کردیئے تھے۔

The post فلسطین نے امریکا کے خلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع کر لیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Nc7koR
via IFTTT

تنوشری دتہ کی پریانکا چوپڑا پر لفظی گولہ باری ایکسپریس اردو

ممبئی: بالی ووڈ اداکارہ تنوشری دتہ نے پریانکا چوپڑا کو نہایت چالاک اورموقع پرست خاتون قرار دے دیا۔

اداکارہ تنوشری دتہ کے نانا پاٹیکر پر جنسی ہراسانی کے الزامات لگانے کے بعداداکارہ پریانکا چوپڑا، سونم کپور اور ٹوئنکل کھنہ سمیت متعدد بالی ووڈ فنکاروں نے ان کے حق میں ٹوئٹ کیں تاہم تنوشری دتہ نے اپنی ہی حمایت میں کھڑی ہونے والی اداکارہ پریانکا چوپڑا کو موقع پرست اور چالاک قرار دے دیا۔

اس خبرکوبھی پڑھیں:بالی ووڈ انڈسٹری تنوشری دتہ کے حق میں اٹھ کھڑی ہوئی

بھارتی میڈیا کو دئیے گئے انٹرویو میں تنوشری دتہ نے کہا کہ پریانکا چوپڑا نے میرا نام لیے بغیر ٹوئٹ کیاہے، میرا ایک نام ہے، وہ میرانام لے کر ٹوئٹ کرسکتی تھیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا، پریانکا چوپڑا نے موقع سے فائدہ اٹھایا ہے وہ بہت ہی چالاک ہیں۔

تنوشری دتہ نے کہا پریانکا نے صحیح وقت پر ایک باریک کام کیا ہے، لیکن میں لوگوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ میرا ایک نام اور ایک سچ ہے اور میں یہ سچ لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کررہی ہوں اپنے لیے نہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے جو اس طرح کی حالات کا شکار ہوسکتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے اداکارہ و مصنفہ ٹوئنکل کھنہ کی اپنے حق میں کی گئی ٹوئٹ کوسراہتے ہوئے کہا کہ یہ سب جانتے ہوئے بھی ان کے شوہر اکشے کمار ناناپاٹیکر کے ساتھ فلم’’ہاؤس فل 4‘‘میں کام کررہے ہیں۔

The post تنوشری دتہ کی پریانکا چوپڑا پر لفظی گولہ باری appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Ra7FLX
via IFTTT

فوج اور عدلیہ حکومت کی پشت پر کھڑے ہیں، فواد چوہدری ایکسپریس اردو

 لاہور: وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ فوج اورعدلیہ حکومت کی پشت پر کھڑے ہیں جب کہ ادارے اور کابینہ ایک دوسرے کے ساتھ نہ ہوں تو معاملات میں بہتری مشکل ہے۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہماری سیاست پر تنقید بھی بہت ہوگی اور تعریف بھی، ہم تبدیلی کے عمل کے ذریعے یہاں تک پہنچے ہیں، تبدیلی کے لیے پی ٹی آئی حکومت نے کام شروع کردیا اور عمران خان کی ذات خود تبدیلی کا بہت بڑا استعارہ ہے، عمران خان کی تصویر کے بغیر تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : چند پیسوں کے لیے تعلیمی نظام کا بیڑا غرق کردیا گیا ہے

فواد چوہدری نے کہا کہ ہمارے ملک کا متوسط طبقہ صحت، تعلیم اور سیکیورٹی کے موجودہ نظام سے مطمئن نہیں ہیں، کرپشن کو ہمارا معاشرہ تسلیم کر چکا تھا جس کے خلاف عمران خان نے آواز اٹھائی۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے اقتدار چھوڑا تو قرضہ 28 ٹریلین تک پہنچا ہوا تھا، ہم بھی اسی تناسب سے قرضہ لیں تو یہ 40 سے 45 ہزار کروڑ تک پہنچ جائے گا تاہم وزیراعظم نے عوام کو بتایا ہے کہ پہلی قربانی میں نے دی۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ سارک کانفرنس کئ لئے 33 گاڑیاں 98 کروڑ کی منگوائیں اور کانفرنس ہی نہیں ہوئی، پی آئی اے 45 ارب روپے کا  نقصان کررہا ہے، پی ٹی وی اور ریلوے سمیت دیگر ادارے بھی خسارے میں ہیں جب کہ اب وزیراعظم ہاؤس کا خرچہ ایک ارب سے کم ہو کر چند لاکھ تک رہ گیا ہے۔

اس خبر کو بھی پڑھیں : نواز شریف کے منصوبوں کے آڈٹ پر شہباز شریف کو نہیں بٹھا سکتے

فواد چوہدری نے کہا کہ ہم نے دیگر ممالک کو سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے جس سے نوکریاں پیدا ہوں گی اور لوگوں کو روزگار ملے گا، ہم نیک نیتی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج اور عدلیہ حکومت کی پشت پر کھڑے ہیں جب کہ ادارے اور کابینہ ایک دوسرے کے ساتھ نہ ہوں تو معاملات میں بہتری مشکل ہے۔

The post فوج اور عدلیہ حکومت کی پشت پر کھڑے ہیں، فواد چوہدری appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2zFpxYo
via IFTTT

چترال میں دہشت گردوں کا اسکول پر حملہ، عمارت تباہ ایکسپریس اردو

چترال: پاک افغان بارڈر ارندو گول میں دہشت گردوں نے گورنمنٹ پرائمری اسکول پر حملہ کردیا تاہم خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق چترال میں پاک افغان بارڈر ارندو گول میں واقع گورنمنٹ پرائمری اسکول پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا۔   دہشت گردوں نے اسکول میں گھس کر فائرنگ کی اور دستی بموں سے حملہ کیا جس سے اسکول کی عمارت تباہ ہوگئی۔

واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد پولیس کی بھاری نفری متاثرہ اسکول کا معائنہ کرنے گئی تو دہشت گردوں نے پولیس پارٹی پر بھی فائرنگ شروع کردی، پولیس کی جوابی فائرنگ پر جنگل میں چھپے دہشت گرد فرار ہو گئے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اسکول کی چھٹی ہونے کی وجہ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، تاہم اسکول کی عمارت مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہے۔

The post چترال میں دہشت گردوں کا اسکول پر حملہ، عمارت تباہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2QhuUCs
via IFTTT

پی ٹی آئی والوں نے بدمعاشی کرکے ڈیرے بنا رکھے ہیں، چیف جسٹس ایکسپریس اردو

لاہور: چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی والوں نے بدمعاشی کرکے ڈیرے بنارکھے ہیں، یہ لوگ بدمعاشوں کی پیروی کرکے نیا پاکستان بنانے چلے ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جوہر ٹاون میں قبضہ مافیا کے خلاف کارروائی کیس کی سماعت ہوئی۔ کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی۔ کیس میں نامزد ملزمان تحریک انصاف کے ایم این اے ملک کرامت کھوکھر اور ایم پی اے ندیم عباس بارا عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت پی ٹی آئی کے ایم پی اے ندیم عباس بارا نے رونا شروع کردیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ باہر بدمعاشی کرتے ہو اندر انکار رونا شروع کردیتے ہو۔ ایم پی اے ندیم عباس بارا نے استدعا کی کہ کیس شروع ہونے سے پہلے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، میرے خلاف ایس پی نے جھوٹے مقدمات درج کروائے، مقدمات میں میری غلطی ثابت ہوئی تو استعفی دے دوں گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تم پہلے استعفیٰ دو جلدی کرو، تم لوگوں میں اتنی جرات نہیں کہ استعفی دے دو۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: چند پیسوں کے لیے تعلیمی نظام کا بیڑا غرق

چیف جسٹس نے ملک کرامت کھوکھر سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی والوں نے کب سے بدمعاشی شروع کردی، کیا لوگوں نے آپ کو بدمعاشی کرنے کے لیے ووٹ دئیے ہیں، پی ٹی آئی والوں نے بدمعاشی کرکے ڈیرے بنا رکھے ہیں، یہ لوگ بدمعاشوں کی پیروی کر کے نیا پاکستان بنانے چلے ہیں، میں کسی بدمعاش کو پاکستان میں نہیں رہنے دوں گا۔  آج انکوائری میں ثابت ہوا تو ملک کرامت کھوکھر بطور ایم این اے واپس نہیں جاؤ گے۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: اللہ نے مجھے وردی میں بندے مارنے والوں کاحساب لینے کے لئےعہدہ دیا

ملک کرامت کھوکھر نے مؤقف پیش کیا کہ میں کسی منشا بم کو نہیں جانتا، میں نے ایس پی کو نہیں ڈی آئی جی کو فون کیا تھا۔ چیف جسٹس نے ایک بار پھر مکالمہ کرتے ہوئے ملک کرامت کھوکھر سے کہا کہ ملک کرامت کھوکھر تم نے جھوٹ بولا تو یہاں سے ایم این اے کی حیثیت سے واپس نہیں جاؤ گے، اس ڈی آئی جی آپریشنز کو بلائیں جس نے سفارش کی۔ چیف جسٹس نے ساڑھے 3 بجے ڈی آئی جی آپریشنز کو طلب کرلیا۔

The post پی ٹی آئی والوں نے بدمعاشی کرکے ڈیرے بنا رکھے ہیں، چیف جسٹس appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2N879Li
via IFTTT

اسلام آباد میں لیڈی پولیس کانسٹیبل کے ساتھ مبینہ زیادتی ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت میں  نامعلوم شخص نے لیڈی پولیس کانسٹیبل کو مبینہ طور پر زیادتی کا زیادتی نشانہ بناڈالا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق نامعلوم شخص اسلام آباد پولیس کی لیڈی کانسٹیبل کے ساتھ زیادتی کرکے فرار ہوگیا۔ ایس ایس پی امین بخاری کے مطابق گزشتہ رات لیڈی کانسٹیبل گھر جارہی تھی کہ ہائی وے کے قریب نامعلوم شخص نے لیڈی کانسٹیبل ثانیہ کے منہ پر کپڑا رکھ کر بیہوش کردیا اور مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا اور اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہوگیا۔

امین بخاری کے مطابق خاتون کانسٹیبل کی سرکاری بندوق بھی اس کے قریب سے ہی مل گئی تھی جب کہ زیادتی کا نشانہ بننے والی لیڈی کانسٹیبل کو اسپتال منتقل کردیا گیا ہے، ابتدائی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ زیادتی کرنے والا شخص ایک ہی تھا، ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرکے تلاش شروع کردی گئی ہے۔

The post اسلام آباد میں لیڈی پولیس کانسٹیبل کے ساتھ مبینہ زیادتی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2xOUsAe
via IFTTT

انوشکا اور ورون کی ’’سوئی دھاگا‘‘ نے دو دن میں 20 کروڑ کمالیے ایکسپریس اردو

ممبئی: نامور بالی ووڈ اداکارہ انوشکا شرما اورورون دھون کی فلم’’سوئی دھاگا‘‘ نے دو دن میں 20 کروڑ سے زائد کا بزنس کرکے مداحوں کے دل جیت لیے۔

اداکارہ انوشکا شرما اور ورون دھون کی فلم ’’سوئی دھاگا‘‘شائقین کو بھاگئی،  فلم نے ریلیز کے پہلے روز 8 کروڑ30 لاکھ کا بزنس کیا جب کہ دوسرے روز 12 کروڑ 25 لاکھ کابزنس کرکے مجموعی طور پر 20 کروڑ 55 لاکھ کمانے میں کامیاب رہی ہے۔

بھارتی تجزیہ نگار ترن آدرش نے فلم کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہفتے کے اختتام تک فلم 35 کروڑ سے زائد کا بزنس کرلے گی۔

فلم ’’سوئی دھاگا‘‘میں ورون دھون اورانوشکا شرما میاں بیوی کا کردار اداکررہے ہیں، انوشکا کا کردار فلم میں گھریلو خاتون کا ہے جو اپنے شوہر ورون دھون کو خود کی پہچان بنانے اور زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔

The post انوشکا اور ورون کی ’’سوئی دھاگا‘‘ نے دو دن میں 20 کروڑ کمالیے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2NaEgxZ
via IFTTT

چیف جسٹس نے منشا بم کی گرفتاری روکنے پر پی ٹی آئی کے رہنما کو طلب کر لیا میں دیکھتا ہوں یہاں کون بدمعاش ہے، چیف جسٹس کا 70سے زائد مقدمات میں ملوث منشا بم کو فوری گرفتار کرنے ... مزید

ایشیا کپ; بھارتیوں کے دل جیتنے والی پاکستانی لڑکی کا اپنی تصاویروائرل ہونے پر ردِ عمل یہ بہت اچھا تجربہ تھا میرے پاس بیان کرنے کو الفاظ نہیں، میرے شوہر نے کہا کہ پانچ منٹ ... مزید

حکومت تعلیمی اداروں میں کھیلوں کے مقابلوں کے انعقاد کو یقینی بنائے تو ملک میں کھیلوں بہتری آسکتی ہے، اسامہ جاوید

ایشین فٹ سال چیمپئن شپ روواں سال دسمبر میں اسلام آباد میں کھیلی جائے گی چیمپیئن شپ میں میزبان پاکستان سمیت ایشیائی بارہ ممالک کی ٹیمیں حصہ لیں گی جن کو دعوت نامے بھیجوا ... مزید

کومیکو فٹ سال چیمپیئن شپ 12 اکتوبر سے اسلام آبادشروع گی چیمپیئن شپ میں کامیابی حاصل کرنے والے کھلاڑیوں میں ٹرافیاں، اسناد اور نقد انعامی رقم بھی تقسیم کی جائیں ... مزید

انٹرنیشنل سکولز اینڈ انٹر کالجیٹ کھیلوں کے مقابلے (آج ) شروع ہو نگے گرلز کے چار کھیلوں کے مقابلے 10 دسمبر سے 13 دسمبر تک ہونگے جن میں اتھلیٹکس، والی بال، بیڈمنٹن اور ٹیبل ... مزید

خیبر فٹ سال ٹیم کے چناؤ سلسلہ میں ٹرائلز شروع ہو گئے منتخب ٹیم 12 اکتوبر سے لاہور میں کھیلی جانے والی قومی فٹ سال چیمپیئن شپ میں شرکت کرے گی

سکواش کے سابق عالمی چمپین جان شیر خان کا سینئرصحافی جواد نذیر کی وفات پر اظہار تعزیت

مقبوضہ کشمیر : شوپیاں تھانے پر حملے میں پولیس اہلکار ہلاک

سپریم کورٹ کے فیصلے بھارتی معاشرے کی اخلاقی اور تہذیبی بنیادوں کی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں‘سید علی گیلانی میاں بیوی کے حوالے سے بھارتی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے بھارتی ... مزید

سرگودھا ‘ جہاں آباد میں تین مسلح ڈاکوئوں نے اہل خانہ سے اسلحہ کے زورپر چھ لاکھ روپے مالیت کے طلائی زیورات چھین لئے اور فرار ہو گئے

سرگودھا ریجن میں فائرنگ اورٹریفک حادثہ میں خاتون سمیت دو افراد جاںبحق

سرگودھا‘محکمہ اینٹی کرپشن پولیس نے محمد سیلم، چیئرمین میونسپل کمیٹی بھیرہ کو ڈھائی لاکھ روپے رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتارکرلیا

سرگودھا‘ خونی ڈکیتیوں میں ملوث شمشاد عرف شادو گینگ سمیت 26ملزمان گرفتار سنگین وارداتوں کا انکشاف ‘ ان کے قبضہ سے دو وہیکلز، چارموٹرسائیکل ومویشیوں سمیت 37 لاکھ کا مال ... مزید

صوبائی وزیربلدیات پنجاب علیم خان صوبہ بھر میں تجاوزات کیخلاف (آج)سے گرینڈ آپریشن کا معائنہ کریں گے سرگودھا شہر اور گردونواح میں آج سے قبضوں اور تجاوزات کے خلاف بھرپور ... مزید

ایران عدم استحکام سے دوچار کرنے سے ایک دن بھی باز نہیں آیا،متحدہ عرب امارات ایران نے امارات کے تین جزیروں پر غیر قانونی اور ناجائز تسلط قائم کر رکھا ہے،وزیرخارجہ کا دعویٰ

ترک صدریردوآن نے جرمن شہر کولون میں جامع مسجد کا افتتاح کر دیا مسلمانوں کے لیے دیگر جرمن شہروں میں بھی مساجد دیکھ کر خوشی ہو گی،افتتاح کے موقع پر خطاب

ایران نواز عسکری گروہوں کی دھمکیاں،عراق میں امریکی قونصل خانہ بند قونصل خانہ عارضی طورپر بند کیا،عملہ محفوظ مقام پر منتقل، دھمکیوں کا جواب دیا جائیگا،امریکی وزیرخارجہ

ری پبلیکن محل پر قبضے کی جنگ،یمنی فورسزسے جھڑپوںمیں 37حوثی ہلاک اسلحہ اور گولہ بارود کی بھاری مقدار تباہ، یمنی فوج کاصعدہ گورنری کے اطراف میں 400 بارودی سرنگیں تلف کرنے ... مزید

امریکا اور عرب ممالک کامشرق وسطیٰ میں ایرانی مداخلت روکنے پر اتفاق اجلاس میں داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو شکست دینے، شام اور مشرق وسطیٰ میں قیام امن پر تبادلہ خیال

امریکی فوج کا ایک جدید اور مہنگا ترین ایف35 لڑاکا طیارہ گر کر تباہ پینٹاگون نے کمپنی کو مزید 141 ایف35 طیاروں کی تیاری کا ٹھیکہ دیا،ساڑھے 11 ارب ڈالر لاگت آئے گی

سابقہ مشرقی جرمن باشندے مہاجرین سے متعلق برداشت دکھائیں، میرکل نفرت اور تشدد کسی بھی صورت قابل برداشت نہیں،جرمن عوام کو لاحق تشویش اور مسائل کا حل تلاش کرنا ہو گا،گفتگو

بزرگ پولیش سیاستدان نے ملکی صدرکو غدار اوربے وقوف قراردیدیا حکمران نفرتوں کو ہوا دے رہے ،مجھے بھی اس لیے ایجنٹ قرار دیتے ہیں تاکہ انتخابات جیت سکیں،انٹرویو

شاہ سلمان ریلیف مرکز کی جانب سے شمالی شام میں گیس سلینڈر تقسیم مقصد جنگ سے تباہ حال شامی بہن بھائیوں کی گھریلو ضروریات میں ان کی مدد کرنا ہے،بیان

شاہ سلمان اور امریکی صدر کا ٹیلی فونک رابطہ،تیل مارکیٹ کے استحکام پر بات چیت

اداکار و ماڈل فواد خان بھی فیشن ڈیزائنر بن گئے

پریانکا چوپڑا کا ساتھ پانے پرخود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں‘کینیڈین گلو کار بران ایڈمز

مارول کی اینٹی سپر ہیروفلم ’’وینم‘‘کا نیا انٹرنیشنل ٹریلر جاری کر دیاگیا یہ فلم 5اکتوبر کو سینما گھروں میں کھڑکی توڑ نمائش کے لیے پیش کر دی جائے گی

بالی ووڈ کی کئی شخصیات تنوشری کی حمایت میں بول پڑیں بالی وڈ کی ایک اور شخصیت شائنی شیٹی نے واقعے کا چشم دید گواہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے

ہریتک روشن کا خاتون مداح کو لپ سٹکس کا تحفہ

رشی کپورعلاج کی غرض سے امریکا روانہ ایکسپریس اردو

ممبئی: نامر بالی ووڈ اداکار رشی کپورعلاج کی غرض سے امریکا روانہ ہوگئے۔

بالی ووڈ اداکار رشی کپور نے گزشتہ روز ٹوئٹر پر اپنی امریکا روانگی کی اطلاع دیتےہوئے کہا ’’میں علاج کی غرض سے کچھ دنوں کے لیے امریکا جارہا ہوں، انہوں نے اپنے پرستاروں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ کسی بھی افواہ یا قیاس آرائیوں پر پریشان نہ ہوں۔مجھے فلموں میں کام کرتے ہوئے 45 سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا، اس کے ساتھ ہی رشی کپورنے کہا کہ آپ کی دعاؤں اور نیک تمناؤں کے ساتھ میں بہت جلد واپس آؤں گا۔‘‘

واضح رہے کہ رشی کپور نے اپنے ٹوئٹ میں کہیں بھی ذکر نہیں کیا کہ وہ کس بیماری کے علاج کے لیے امریکا جارہے ہیں اور نہ ہی اس حوالے سے ان کے بیٹے رنبیر کپور کا کوئی بیان سامنے آیا ہے۔

The post رشی کپورعلاج کی غرض سے امریکا روانہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2NaCHA7
via IFTTT

آئی سی سی نے ایک روزہ کرکٹ کی نئی رینکنگ جاری کردی ایکسپریس اردو

 لاہور: آئی سی سی کی نئی رینکنگ کے مطابق 127 پوائنٹس کے ساتھ انگلینڈ کا راج ہے جب کہ پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔

آئی سی سی نے ایک روزہ کرکٹ کی نئی رینکنگ جاری کردی ہے جس کے مطابق انگلینڈ 127 پوائنٹس کے ساتھ پہلے، 122 پوائنٹس کے ساتھ بھارت دوسرے، نیوزی لینڈ 112 پوائنٹس کے ساتھ تیسرے اور جنوبی افریقہ 110 پوائنٹس کے چوتھے جب کہ پاکستان 101 پوائنٹس کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے، آسٹریلیا چھٹے، بنگلہ دیش ساتویں، سری لنکا آٹھویں، ویسٹ انڈیز نویں اور افغانستان دسویں نمبر پر ہے۔

بیٹنگ میں بھارتی کپتان ویرات کوہلی اور بولنگ میں بھارتی بولر جسپرت بھمبرا پہلی پوزیشن پر براجمان ہیں جبکہ ابتدائی 10 بیٹسمین میں پاکستان کے صرف بابراعظم شامل ہیں اور وہ چھٹی پوزیشن پر موجود ہیں۔

بولنگ کے شعبے میں ابتدائی 10 بہترین بولرز میں پاکستان کے حسن علی کا بھی چھٹا نمبر ہے۔ بولنگ کے شعبے میں ابتدائی 10 بہترین بولرز میں پہلی پوزیشن پر بھارت کے جسپرت بھمبرا، افغانستان کے راشد خان دوسرے ، کلدیپ یادیو تیسرے، نیوزی لینڈ کے ٹرینڈ بولٹ چوتھے اور آسٹریلیا کے جوش ہیزلی ووڈ پانچویں نمبر پر ہیں۔

بہترین آل راوؤنڈرز کی فہرست میں افغانستان کے راشد خان نے بنگلادیش کے شکیب الحسن سے نمبر ون آل راؤنڈر کی پوزیشن چھین لی، راشد خان 353 پوائنٹس کے ساتھ سرفہرست ہیں۔ بنگلادیش کے شکیب الحسن دوسری، افغانستان کے محمد نبی تیسری، نیوزی لینڈ کے مچل سینٹنر چوتھی اور قومی ٹیم کے محمد حفیظ پانچویں پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

The post آئی سی سی نے ایک روزہ کرکٹ کی نئی رینکنگ جاری کردی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2OpdczQ
via IFTTT

چیف جسٹس نے سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق زیر سماعت مقدمات کا ریکارڈ طلب کر لیا ایکسپریس اردو

 لاہور: چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے انسداد دہشت گردی عدالت سے سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق زیر سماعت مقدمات کا ریکارڈ طلب کرلیا۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سانحہ ماڈل ٹاون سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالت عظمیٰ کے فاضل بینچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں جاں بحق شہید خاتون کی بیٹی بسماء کی درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ چیف جسٹس پاکستان نے سانحہ کا فیصلہ تین ماہ میں رکنے کا حکم دے رکھا ہے، روزانہ سماعت کے حکم کے باعث ہمارا کیس تمام وکلا نے چھوڑ دیا ہے، سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود سانحہ ماڈل کیس کا ٹرائل مکمل نہیں کیا جا رہا ہے، لاہور ہائی کورٹ نے ہماری اپیل مسترد کر دی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فیصلے کے خلاف اپیل آئی تو دیکھیں گے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے انسداد دہشت گردی عدالت سے سانحہ ماڈل کے متعلق زیر سماعت مقدمات کا ریکارڈ طلب کر لیا۔ عدالت نے سانحے میں ملوث افسران کے خلاف کارروائی کے متعلق رپورٹ طلب کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکریٹری توقیر شاہ کےخلاف فوری کارروائی کا حکم دے دیا۔

17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے باہر تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا گیا تھا، اس دوران پولیس کی فائرنگ سے خواتین سمیت 14 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔

واضح رہے کہ رواں ماہ لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس میں نواز شریف اور شہباز شریف سمیت 12 شخصیات کو طلب کیے جانے کی درخواست مسترد کردی تھی۔

The post چیف جسٹس نے سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق زیر سماعت مقدمات کا ریکارڈ طلب کر لیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IpB4O9
via IFTTT

دہشت گردی کے خلاف جنگ تقریباً مکمل، پناہ گزین وطن واپس آجائیں، شام ایکسپریس اردو

نیو یارک: شام کے نائب وزیراعظم ولید المعلم نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ کو کامیابی کے ساتھ تقریباً مکمل کرلیا ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق شام کے نائب وزیراعظم اوروزیر خارجہ ولید المعلم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 7 سال سے جاری جنگ کے بعد اب شام میں دہشت گردوں کا تقریباً خاتمہ ہو گیا ہے اس لیے دنیا کے کسی بھی ملک میں موجود شامی پناہ گزینوں کے لیے اب اُن کے ملک کا دروازے کھلے ہیں۔ شام اپنے شہریوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے پوری طرح سے تیار ہے۔ شامی پناہ گزین بلا خوف و خطر اپنے ملک آئیں اور نئی زندگی کا آغاز کریں۔

شام کے نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کامیاب جنگ کے دوران کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام بے بنیاد ہے۔ شام اور اتحادی افواج نے دہشت گردوں کا مقابلہ کیا لیکن اس دوران بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرتے ہوئے کبھی ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال نہیں کیا۔

ولید المعلم نے کہا کہ دنیا کی سپر طاقت اور چند مقامی شدت پسند گروپوں نے غیر آئینی اتحاد بنا کر رقہ کو جہنم بنا دیا تھا جسے بڑی قربانیوں اور ہولناک جنگ کے بعد شامی حکومت نے واگزار کرایا ہے۔ سپر طاقتوں کو شام کی سلامتی اور خود مختاری کو تسلیم کر لینا چاہیئے۔

The post دہشت گردی کے خلاف جنگ تقریباً مکمل، پناہ گزین وطن واپس آجائیں، شام appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IsTk9w
via IFTTT

انڈونیشیا میں شدید زلزلہ اورسونامی میں ہلاکتیں 832 ہو گئیں ایکسپریس اردو

جکارتہ: انڈونیشیا کے جزیرے سولاویسی اور شہر پالو میں شدید زلزلہ اور ہولناک سونامی کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 832 ہو گئی ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق انڈونیشیا کے  جزیرہ سولاویسی میں زلزلے کے شدید جھٹکوں اور آفٹر شاکس کے بعد سونامی کی 10 فٹ بلند لہروں نے پالو شہرمیں بڑے پیمانے پر تباہی مچادی ہے۔

Indonesia

سونامی سے سیکڑوں گھر تباہ، درجنوں ہوٹل اور عمارتیں منہدم جب کہ لینڈ سلائیڈنگ، بجلی کے تار گرنے اور دیگر واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 832 ہو گئی ہے۔ امدادی کاموں کے دوران لاشوں کے ملنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

Indonesia 4

تاحال سیکڑوں افراد لاپتہ ہیں، اسپتال زخمیوں سے بھر گئے ہیں اور ریلیف کیمپوں میں ہزاروں لوگوں نے پناہ لے رکھی ہے۔ متاثرین کو اجناس، ادویات اور پینے کے پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ عالمی امدادی ادارے بھی ریسکیو کاموں میں حصہ لے رہے ہیں۔

Indonesia 6

امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق ریکٹر اسکیل پر زلزلے کی شدت 7.5 ریکارڈ کی گئی ہے جس کی گہرائی زیر زمین 10 کلومیٹر تھی جس نے شہر پالو میں سونامی کی 10 فٹ بلند لہریں پیدا کیں جب کہ آفٹر شاکس نے بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی، سیکڑوں لوگ لاپتہ ہوگئے، بجلی کا نظام بھی درہم برہم ہو گیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 5 اگست کو انڈونیشیا کے سیاحتی مرکز لومبوک میں آنے والے زلزلے اور آفٹر شاکس کے نتیجے میں 460 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

The post انڈونیشیا میں شدید زلزلہ اورسونامی میں ہلاکتیں 832 ہو گئیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Iqo7Uz
via IFTTT

چند پیسوں کے لیے تعلیمی نظام کا بیڑا غرق کردیا گیا ہے، چیف جسٹس ایکسپریس اردو

 لاہور: چیف جسٹس نے نجی یونیورسٹیوں میں سہولیات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ چند پیسوں کے لیے تعلیمی نظام کا بیڑا غرق کردیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے نجی یونیورسٹیوں میں سہولیات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

چیف جسٹس نے پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر سے استفسار کیا کہ آپ کس چکر میں پڑ گئے؟۔ آپ کو اس عمر میں کتابیں لکھنی چاہیں، لیکچرز دینے چاہئیں، آپ کے کالجز اور ایگزیکٹ کمپنی میں کیا فرق رہ گیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چند پیسوں کے لیے تعلیمی نظام کا بیڑا غرق کردیا گیا، ہر تعلیمی ادارے کا سربراہ کہتا ہے کہ ہمارا ادارہ بہتر ہے، جب وہاں سروے کروایا جاتا ہے تو آوے کا آوا بگڑا ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ نے یونیورسٹی آف لاہور سمیت دیگر یونیورسٹیوں میں فراہم کی گئی سہولیات کی انکوائری کے لیے قانونی ماہر ظفر اقبال کلانوری اور ڈائریکٹر ایف آئی اے وقار عباسی پر مشتمل ٹیم تشکیل دے دی، چیف جسٹس نے حکم دیا کہ گورنر پنجاب اور وزیراعلی یونیورسٹیز کے چارٹرڈ کرنے سے متعلق تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیں۔

The post چند پیسوں کے لیے تعلیمی نظام کا بیڑا غرق کردیا گیا ہے، چیف جسٹس appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Nbj7DO
via IFTTT

پی ایچ ایف سلیکشن کمیٹی کو فارغ کردیا گیا ایکسپریس اردو

 لاہور: پی ایچ ایف سلیکشن کمیٹی کی چھٹی کردی گئی ہے اور اب آئندہ ماہ اومان میں شیڈول ایشین چیمپئن ٹرافی کے لئے ٹیم کا حتمی انتخاب ٹیم منیجمنٹ خود کرے گی۔

ذرائع کے مطابق ایک روزہ ٹرائلز 3 اکتوبر کو نیشنل ہاکی اسٹیڈیم لاہور میں ہوں گے، اس موقع پر سیکرٹری پی ایچ ایف شہباز سینئر بھی موجود ہوں گے جن کی مشاورت سے 18 رکنی حتمی اسکواڈ تشکیل دیا جائے گا، ذرائع کے مطابق ایونٹ کے دوران 2 گول کیپرز ٹیم کے ساتھ لے جانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اصلاح الدین صدیقی کی سربراہی میں قائم سلیکشن کمیٹی نے کامن ویلتھ گیمز اور ایشین گیمز سمیت متعدد ایونٹس میں قومی ٹیم کا انتخاب کیا تاہم گرین شرٹس کسی بھی بڑے ایونٹس میں نمایاں کامیابی حاصل نہ کر سکی۔

ذرائع کے مطابق پی ایچ ایف تھنک ٹینک کا خیال ہے کہ ٹیم مینجمنٹ کھلاڑیوں کی فٹنس اور گیم میں مہارت کے حوالے سے زیادہ بہتر جانتی ہے، اس لئے ٹیم آفیشلز زیادہ بہتر انداز میں حتمی اسکواڈ کا انتخاب کر سکتے ہیں۔

واضح رہے کہ ایشیائی ایونٹ 18 اکتوبر سے 28 اکتوبر تک اومان کے دارالحکومت مسقط کے سلطان قابوس اسٹیڈیم میں کھیلا جائے گا۔ ایونٹ میں دفاعی چیمپئن بھارت سمیت ملائشیا، پاکستان، جنوبی کوریا، جاپان اور اومان کی ٹیمیں شریک ہوں گی۔ افتتاحی میچ ملائشیا اور جاپان کی ٹیموں کے درمیان کھیلا جائے گا۔

The post پی ایچ ایف سلیکشن کمیٹی کو فارغ کردیا گیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2QlQqpS
via IFTTT

جہانگیر ترین کے اکاؤنٹس کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی قائم کی جائے، ناصر حسین شاہ ایکسپریس اردو

کراچی: سندھ کے وزیر برائے ورکس اینڈ سروسز سید ناصر حسین شاہ نے مطالبہ کیا ہے کہ جہانگیر ترین کے اکاؤنٹس کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی قائم کی جائے۔

سندھ اسمبلی کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ناصر حسین شاہ نے کہا کہ کچھ اصول صرف پیپلزپارٹی کے لئیے بنائے گئے ہیں حالانکہ جہانگیر ترین کے اکاؤنٹس سے متعلق چیف جسٹس آف پاکستان نے ذکر کیا تھا۔ جہانگیر ترین کے اکاؤنٹس سے متعلق جے آئی ٹی بنائی جانی چاہیے۔ جو نااہل ترین ہیں وہ اہم ترین بن کر حکومتی کام کر رہے ہیں۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ گرین لائن کا کام مکمل نہ ہونے کی وجہ سے بسیں نہیں لائی گئیں۔ چھ سو بسیں کچھ ماہ بعد کراچی کی سڑکوں پر نظر آئیں گی ہم نے وقت سے پہلے بسیں نہ لاکر دیگر صوبوں کے برعکس اپنی سبسڈی بچائی ہے۔

کالاباغ ڈیم کے نہ بننے سے متعلق پیپلزپارٹی کا موقف واضح ہے۔ اس کے علاوہ جو ڈیم بنیں گے اس کی مخالفت نہیں کریں گے، عمران خان نے دعوی کیا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے قرضہ نہیں لیں گے مگر آج صورتحال آپ خود دیکھ لیں۔

The post جہانگیر ترین کے اکاؤنٹس کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی قائم کی جائے، ناصر حسین شاہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2zEOO4P
via IFTTT

ہراسانی معاملہ؛ نانا پاٹیکر کا تنوشری دتہ کے خلاف عدالتی کارروائی کا فیصلہ ایکسپریس اردو

ممبئی: نانا پاٹیکر نے ہراسانی کا الزام لگانے والی تنوشری دتہ کو قانونی نوٹس بھجوانے کا فیصلہ کرلیا۔

بھارتی میڈیا کے مطابق ناناپاٹیکر نے خود پر تنوشری دتہ کی جانب سے لگائے جانے والے جنسی ہراسانی کے الزامات کے جواب میں لیگل نوٹس بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ناناپاٹیکر کے وکیل راجیندرا شکوڈکر نے اپنے موکل پر لگائے گئے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ تنوشری دتہ کی جانب سے لگائے گئے تمام الزامات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں، ہم تنوشری دتہ کو اتنے سنگین الزامات لگانے پر قانونی نوٹس بھجوانے کی تیاریاں کررہے ہیں، جس میں اداکارہ سے ہراسانی کے سنگین الزامات واپس لینے کے ساتھ معافی مانگنے کا مطالبہ کیاجائے گا۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: بالی ووڈ انڈسٹری تنوشری دتہ کے حق میں اٹھ کھڑی ہوئی

دوسری جانب نانا پاٹیکر کا کہنا ہے کہ میں بہت جلد ایک پریس کانفرنس منعقد کروں گا جس میں کیمرے سےآنکھیں ملا کر خود پر لگائے جانے والے الزامات کا جواب دوں گا، میں فلموں میں زیادہ رقص کرنا پسند نہیں کرتا تو کسی کو کیسےبے ہودہ انداز میں رقص کرنے کے لیے کہہ سکتا ہوں۔

انہوں نے کہا ایسی صورتحال میں میں تمام الزامات کی  تردید کرسکتاہوں یا اپنی ساکھ خراب کرنے کے لیے تنوشری دتہ کو عدالت گھسیٹ سکتاہوں اس کے علاوہ میں اور کر بھی کیا سکتا ہوں۔

The post ہراسانی معاملہ؛ نانا پاٹیکر کا تنوشری دتہ کے خلاف عدالتی کارروائی کا فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2N7YLLO
via IFTTT

وزیر اعلیٰ سندھ نے پیپلز پارٹی کے ارکان کی تقاریر پر معافی مانگ لی ایکسپریس اردو

 کراچی: وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے پیپلز پارٹی کے ارکان کی تقاریر پر معافی مانگ لی۔

سندھ اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ میں نے تمام ارکان کی تقاریر سنی ہیں، اس اسمبلی میں نوٹوں کی باتیں ہوئیں، تحریک انصاف کے حلیم عادل شیخ نے ایوان کو مچھلی بازار کہا، جس کا مجھے بہت افسوس ہوا، مچھلی بازار کوئی گندی جگہ نہیں، میں نے خود فش ہاربر پر کام کیا ہے۔ معاملہ مچھلی بازار سے بھی آگے نکل گیا اور ماحول خراب ہوا۔ اراکین چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض ہورہے تھے۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو عوام ہر بار سب سے زیادہ سیٹیں دے کر منتخب کرتے ہیں۔ پورے سندھ کی عوام کا شکرگزار ہوں جنہوں نے پیپلزپارٹی پر اعتماد کیا، میں نےاپنے اراکین سے کہا کہ اپنے لیڈر سے کچھ سیکھیں، بلاول بھٹو زرداری نے جو سنجیدگی دکھائی انہیں دیکھیں، لوگوں نے اگر آپ کو ہرایا ہے تو ان کی تذلیل نہ کریں، زور سے بولنے اور کسی کی برائی سے نمبرز نہیں بڑھتے، ہمیں بڑی بڑی باتیں برداشت کرنا پڑیں گی۔

مراد علی شاہ نے اپوزیشن کو مخالطب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ واحد صوبہ ہے جس کی اسمبلی میں پاکستان کی ہر زبان بولنے والے بیٹھے ہیں، میں اپنے اراکین کی طرف سے خود معافی مانگتا ہوں۔ میں خود ہجرت کر کے آیا ہوں، سندھ نے ہمیں اپنا کہا ہم سندھی ہوگئے، آپ بھی سندھ کو اپنائیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ چند روز سے سندھ اسمبلی میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں ہی جانب سے متنازع تقاریر کی جارہی تھیں۔

The post وزیر اعلیٰ سندھ نے پیپلز پارٹی کے ارکان کی تقاریر پر معافی مانگ لی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2NQTI7v
via IFTTT

کراچی کے اسکول میں اندھی گولی کا نشانہ بننے والی بچی دم توڑ گئی ایکسپریس اردو

کراچی: سعید آباد کے اسکول میں اندھی گولی کا نشانہ بننے والی بچی اقصیٰ دم توڑ گئی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی میں بلدیہ ٹاؤن کے علاقے سعید آباد میں دو روز قبل اسکول میں زیر تعلیم پہلی جماعت کی بچی اقصیٰ  اس وقت اندھی گولی کا شکار ہوکر شدید زخمی ہوگئی تھی جب وہ وقفے کے دوران اسکول کے میدان میں کھیل رہی تھی۔ طالبہ کو فوری طور پہلے سول اسپتال پھر جناح اسپتال سے ملحق قومی ادارہ برائے امراضِ اطفال منتقل کیا گیا تھا۔

اقصیٰ دو روز تک زندگی کی جنگ لڑتے ہوئے دم توڑ گئی۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سیدھی طرف سے کمر میں لگی گولی اقصیٰ کے جسم میں موجود تھی، گولی لگنے سے اقصیٰ کے پھیپھڑے متاثر ہوئے تھے،  اقصیٰ کو آج صبح سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا، معالجین نے اقصیٰ کی زندگی بچانے کے لیے تمام تر کوششیں کیں لیکن وہ جانبر نہ ہوسکی۔

The post کراچی کے اسکول میں اندھی گولی کا نشانہ بننے والی بچی دم توڑ گئی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2xR0wrT
via IFTTT

وزیر اعظم عمران خان کو اخبار میں اشتہار دے کر طلب کرنے کا فیصلہ سیشن کورٹ پشاور نے وزیرِاعظم عمران خان کو ہرجانہ کیس میں اخبار میں اشتہار دے کر نوٹس جاری کرنے کی ہدایت ... مزید

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب 7 دہائیوں سے مسئلہ کشمیر انسانی تاریخ کے دامن پر داغ ہے،اقوام متحدہ کی رپورٹ نے کشمیر میں جاری بھارتی ... مزید

پاکستانی کبوتر کے بعد پاکستان زندہ باد کے نعرے والے سیبوں نے بھارت میں دہشت پھیلادی بھارتی پنجاب میں ریڑھی پر موجود سیبوں پر پاکستان زندہ باد کے نعرے، شہری نے سیب خرید ... مزید

چاروہ سیکٹر کی پوسٹ تُلسی پور میں 10ونگ چناب رینجرز کے زیراہتمام عوام کو مفت طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیئے فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد

بیمار انسان کی صحتیابی کیلئے مدد کرنا کسی عبادت سے کم نہیں،صوبائی وزیر اسپیشل ایجوکیشن

کینٹ پولیس نے سفیان عرف حسنو گینگ اور پطرس عرف پطوڈکیت گینگ کے 6ملزمان گرفتار کر لئے

بانی پاکستان نے ملک میں بسنے والی اقلیتوں کو مکمل مذہبی آزادی اور تحفظ کی ضمانت دی تھی،عمر ڈار

گر ین اینڈ کلین پنجاب کے حوا لے سے ضلع بھر میں آ پر یشن شروع کر نے کا فیصلہ

قاضی ظفر اقبال ایڈیشنل کمشنر ریونیو اپنے عہدے سے ریٹائر ہوگئے

سپریم کورٹ کے فیصلے پر جہانگیر ترین کا باضابطہ ردعمل آگیا نااہلی کے فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواست پر سپریم کورٹ کے فیصلے پرانہیں مایوسی ہوئی ہے،جہانگیر ترین

موجودہ حکومت خطے کے ممالک کے ساتھ تجارتی حجم کو بڑھانے کے لیے ٹھو س اقدامات کر رہی ہے پارلیمانی سیکرٹری برائے اطلاعات و نشریات جویریہ ظفر آہیر کی ٹی وی چینل سے گفتگو

کراچی،شہرمیں ناجائزتعمیرات کا سلسلہ زوروشورسے جاری گلبرگ بلاک 12 میں 5-Cکے پرانے بس اسٹینڈ اور جامع مسجد سے متصل پلاٹ پر زیرتعمیر زیدی سینٹرکے مالک نے اردگردکی زمین بھی ... مزید

میرا ملک چین اورسنگاپور کیوں نہیں بن سکا،فردوس شمیم نقوی مرادعلی شاہ سے پہلی ملاقات میں یہی کہا کہ ہمارا صوبہ بہت پیچھے رہ گیاہے،ہم سب کا منشور غربت مٹانا اور صحت وتعلیم ... مزید

کراچی ،سندھ اسمبلی میں صوبائی بجٹ پر بحث واٹر کمیشن کی مہربانی ہے اس نے کراچی اور حیدرآباد کیلئے پینے کے صاف پانی کی کچھ اسکیمیں بجٹ میں شامل کرائی ہیں، کنور نوید جمیل ... مزید

کراچی ،اے آئی ویلفیئرسندھ کا زیر علاج سی ٹی ڈی کانسٹیبل عابدی رضوی کی عیادت،علاج کے حوالے سے تفصیلات معلوم کیں

ساہیوال، دریائے راوی کے کٹائو سے مسجد کا شمالی دیواریں دریا برد ہو گئیں مسجد کی جانب دریا کا کٹائو شدت اختیار کر گیا ، دریا کے کٹائو میں پانی کے ریلے سے گزرنے کے سبب تیزی ... مزید

جنرل اسمبلی اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کی عدم شرکت کی وجہ سامنے آ گئی اکتوبر 2012 میں عمران خان کو ٹورنٹو سے شکاگو کی پرواز سے آف لوڈ کیا گیا تھا پاکستانی سفارتی حکام ... مزید

چیف جسٹس کا شیخ زید،حمید لطیف اور ڈاکٹرز ہسپتال کا دورہ، مریضوں کو دی جانے والی ناکافی سہولیات پر اظہار برہمی

ْوزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین کا سینئر صحافی جواد نظیر کے انتقال پر گہرے رنج و غم اظہار

حکومت کا اکتوبر میں پٹرولیم مصنوعات کی موجودہ قیمتیں برقراررکھنے کا فیصلہ

کوئٹہ ،پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کا مسلح افراد کی فائرنگ سے ڈاکٹروں کے زخمی ہونے کی مذمت

کوئٹہ ،ملک میں آبی ذخائر کے لئے ڈیموں کی اشد ضرورت ہے،نوابزادہ میر جمال خان رئیسانی چیف جسٹس اور وزیراعظم فنڈ ز میں ڈیموں کی تعمیر کے لئے چندہ مہم میں عوام بڑھ چڑھ کر ... مزید

کراچی،پولیس نے سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان مخالف سرگرمیوں میںملوث ہو نے کے الزام میں عمیر اور ریحان نامی ملزمان کو گرفتار کرلیا

پاکستان رینجرز سندھ کی جانب سے پیش کئے گئے ثبوت اور دلائل کی روشنی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 5ملزمان کو سزائیں سنا دی

کراچی،فیروز آباد تھانے کی حدود پی ای سی ایچ ایس میں مبینہ پولیس مقابلے کے دوران 2 ملزمان کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا

کراچی، ننھا عبدالرحمان ڈاکٹرز کی مبینہ غفلت سے جان کی بازی ہار گیا اہل خانہ شدت غم سے نڈھال ہوگئے۔کراچی میں مسیحا کہلانے والے ڈاکٹرز دشمن بن گئے، تھوڑی سی لاپرواہی نے ... مزید

کراچی،ایسٹ زون پولیس نے گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں مختلف کاروائیوں میں ملوث 35 ملزمان کو گرفتار کرلیا

کراچی،گارڈن پولیس کی کاروائی، چھالیہ اسمگلنگ کی کوشش ناکام ،بھاری مقدار میں چھالیہ کے بورے برآمد

کراچی،سپر مارکیٹ لیاقت آباد سی ایریا سی2 ڈکیت گرفتار دو پستول اور مسروقہ موٹر سائیکل برآمد

کراچی،ڈاکس پولیس کی کارروائی 2 منشیات فروش گرفتار مختلف اقسام کی چرس برآمد کارلی

خوابوں کی تعبیر ایکسپریس اردو

بنجر علاقے میں درخت لگانا
عزت سلیم، لاہور

خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک خشک جگہ پہ کھڑی ہوں دور دور تک کوئی سایہ نہیں اور گرمی کافی ھے۔اگلے ہی لمحے میں دیکھتی ہوں کہ میں اپنی دوستوں کے ساتھ مل کہ اس علاقہ میں درخت لگا رہی ہوں اور ساتھ ہی دیکھتی ہوں کہ وہ جگہ بہت ہری بھری ہو گئی ہے۔ ہر طرف سبزہ ہے اور لہلہاتے درخت ۔ سب لوگ بہت خوش ہوتے ہیں اور میں بھی یہ سب دیکھ کہ بہت خوش ہوتی ہوں۔

تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاھر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کی عزت اور وقار میں اضافہ ہو گا۔دوست آپ کے معاون رہیں گے۔ آپ نماز کی پابندی ضرور رکھیں۔

بیل گم ہو جاتا ہے
حرا پروین، لاہور

خواب : میرے ابو نے خواب میں دیکھا کہ ہم ایک بیل خرید کر لائے ہیں اور ہم نے اس کو اپنے صحن میں باندھ دیا ہے۔ ہمسائے وغیرہ بھی آ کر ہم کو مبارک دیتے ہیں ۔ پھر میں اس کے آگے چارہ ڈالتی ہوں مگر وہ کھاتا نہیں ۔کچھ دیر بعد ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کہیں نہیں ہے۔ ہم سارا علاقہ دیکھتے ہیں مگر وہ کہیں نہیں ہوتا۔

تعبیر:۔ یہ خواب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی قسم کی پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔کاروبار اور نوکری میں مالی پریشانی کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور ہر نماز کے بعد کثرت سے استغفار پڑھا کریں ۔ ممکن ہو سکے تو کچھ صدقہ و خیرات کریں۔ چھت پہ پرندوں کو دانہ ڈالنے کا بھی اہتمام کیا کریں۔

تحفے میں قلم ملنا
امجد بٹ،گوجرانوالہ

خواب : میں نے خواب میں دیکھا کہ ہم اپنی نانی کے گھر گرمیوں کی چھٹیوں میں آئے ہوئے ہیں ۔ یہاں میری خالہ بھی آئی ہوئی ہوتی ہیں اور سب بچوں کے لئے تحفے لے کر آئی ہوتی ہیں۔ مجھے بہت خوبصورت قلم ملتا ہے جس سے میں قرآن پاک کی آیات لکھتا ہوں ۔ سب لوگ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں اور میں خود بھی حیران ہو رہا ہوتا ہوں کہ اتنی خوبصورتی سے میں نے کیسے لکھ لیا۔

تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بزرگی عطا ہو گی۔ علم و حکمت ملے گی۔ دینی و روحانی معاملات میں ترقی ہو گی ۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور تلاوت قرآن پاک کو باقاعدگی سے جاری رکھیں۔کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

بازار سے تیل خریدنا
اسماء امین،لاہور

خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنی ساس کے گھر گئی ہوئی ہوں وہاں پہ میرے دیور کی فیملی بھی آئی ہوئی ہے اور نند بھی ۔ میری ساس مجھے اور میری نند کو کچھ سامان لانے کو پیسے دیتی ہیں ۔ میں اور میری نند بازار جاتے ہیں اور سامان لے کر آتے ہیں ۔ اور وہ سارا کا سارا تیل پہ ہی مشتمل ہوتا ہے۔گھر آ کر جب میری ساس اس تیل کو دیکھتی ہیں تو بہت خوش ہوتی ہیں ۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتا دیں۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی رحمت سے آپ کی عزت اور وقار میں اضافہ ہو گا۔ نیک نامی میں اضافہ ہو گا جو کاروبار یا نوکری یا پھر گھریلو سطح پہ بھی ہو سکتی ھے۔ آپ صلہ رحمی سے کام لیا کریں۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں۔کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

دوستوں کے ساتھ دعوت اڑانا
فرقان علی، لاہور

خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں کسی خوبصورت سی جگہ پہ موجود ہوں اور ہم سب کھانا کھانے کے لئے اس جگہ آئے ہیں۔ پھر ایک آدمی آتا ہے اور میرے سامنے ایک خوان رکھ دیتا ہے جس میں تیتر تلے ہوئے رکھے ہوتے ہیں۔ میں اپنے دوستوں کو بھی اس میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں اور ہم سب اس کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور انتہائی مزے لے کر کھاتے ہیں۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا۔ وسائل میں بھی بہتری آئے گی۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

درخت سے انار توڑ کر کھانا
معین وقار، شورکوٹ

خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی درخت سے انار توڑ کر کھا رہا ہوں اور اپنے گھر والوں کو بھی توڑ توڑ کہ دیتا ہوں وہ سب بھی انتہائی مزے لے کر کھاتے ہیں۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔

تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا۔ وسائل میں بھی بہتری آئے گی۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

لذیذ کھانے
احمد مرتضیٰ، لاہور

خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اکیلا کہیں کسی کمرے میں بیٹھا ہوں اور وہاں ایک میز پہ انواع و اقسام کے کھانے پڑے ہوئے ہیں جن سے انتہائی خوشبو اٹھ رہی ہے۔ بلکہ کئی کھانے تو ایسے تھے جو کبھی دیکھے نہ کھائے۔ میں ادھر انتھائی بے تکلفانہ انداز میں بیٹھ جاتا ہوں اور مزے لے لے کر انتھائی لذیذ کھانے کھاتا ہوں۔ دل میں مسلسل خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ھم کو یہ نعمت دی۔ وہ خوشی سکون اور مزہ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتا دیں ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا۔ کاروبار میں وسعت ہو گی اور برکت بھی۔ وسائل میں بھی بہتری آئے گی ۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔

سسر گندگی میں لتھڑے ہوتے ہیں
ماریہ قبطیہ، وزیرآباد

خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے سسرال کے ساتھ کسی گاوں میں کوئی شادی اٹینڈ کرنے آتی ہوں۔ میرے سارے سسرال والے وہاں خوشی خوشی رہتے ہیں مگر مجھے گاوں میں بنیادی سہولیات کے بنا کافی مشکل ہو رہی ہوتی ہے۔ ایک دن میرے سسر باہر جا رہے ہوتے ہیں کہ کہیں گندگی میں سارے لتھڑ کر گھر آتے ہیں۔ ان کے پاس سے شدید بو آ رہی ہوتی ہے۔ بس اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر :۔ یہ خواب اللہ نہ کرے پریشانی و حرام مال کو ظاہر کرتا ہے۔کاروباری معاملات میں قناعت اور ایمانداری کا مظاہرہ کریں۔ سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور ہر نماز کے بعد کثرت سے استغفار بھی کیا کریں اور اللہ کے حبیبﷺ کی سیرت پر عمل کریں۔

گاؤں میں خالی گھر
عمران کبیر، بورے والا

خواب : ۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے گھر گاوں گیا ہوں۔ اس خالی گھر میں ہر طرف ابتری پھیلی ھوئی ہوتی ہے اور جیسے پورے گھر میں اس کا غبار پھیلا ہوا ہے۔ جبکہ ہم اس گھر میں رہتے بھی نہیں اور نہ ہی ادھر کچھ خاص سامان موجود ہے۔

تعبیر:۔ یہ خواب ظاہر کرتا ہے کہ مالی معاملات میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ غیر ضروری اخراجات یا اصراف اس کا سبب ہو سکتا ہے۔کاروبار میں بھی رقم بلاک ہونے کا احتمال ہے۔ اس سے اللہ نہ کرے کہ قرض تک کی نوبت آ سکتی ہے۔ آپ حلال روزی کا اہتمام کریں اور نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ صدقہ وخیرات بھی حسب توفیق کرتے رہا کریں۔

سفید بکری خریدنا
ارسلان بیگ ، لاہور

خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی منڈی جیسی جگہ پر ہوں اورکوئی جانور خریدنا چاہتا ہوں ، حالانکہ نہ تو بکرا عید ہے اور نہ ہی گھر میں کوئی فنکشن ہے پھر بھی میں خود کو ادھر پاتا ہوں۔کافی دیر بعد مجھے ایک سفید رنگ کی خوبصورت سی بکری پسند آ جاتی ہے۔ میں ان بزرگ سے بھاؤ تاؤ کرتا ہوں۔ اب آگے مجھے یاد نہیں مگر یہ ضرور یاد ہے کہ میں گھر آ کر اس سفید بکری کو لا کر بہت خوش ہو رہا ہوتا ہوں اور حیران اس کے ساتھ ملنے والے ایک سفید بیگ پہ ہوتا ہوں جس میں ایک گائے کی کھال موجود ہوتی ھے۔ میں ان دونوں چیزوں کی موجودگی سے کافی خوشی محسوس کر رہا ہوتا ہوں اور مسلسل اس پر اپنی انگلیاں پھیر کر خوش ہو رہا ہوتا ہوں ۔

تعبیر :۔ بہت اچھا خواب ہے جو کہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی مہربانی و فضل سے حلال طریقے سے رزق میں اضافہ ہو گا اور مالی طور پہ مستحکم ہوں گے۔ آپ چاہے کاروباری ہوں یا نوکری میں، سب میں آسانی ہو گی۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔ ممکن ہو سکے تو حسب استطاعت صدقہ و خیرات کیا کریں ۔

ریچھ حملہ کر دیتا ہے
مدیحہ سلمان، لاہور

خواب :۔ یہ خواب میرے بھائی نے دیکھا کہ ہم سب کسی پہاڑی مقام پہ چھٹیاں گزارنے گئے ہوئے ہیں اور ایک دن وہاں پہ سب بچے گراونڈ میں کھیل رہے ہوتے ہیں کہ ادھر ایک ریچھ جنگل سے نکل آتا ہے۔ یہ دیکھ کر سب بچے چیخنے لگ جاتے ہیں۔ ریچھ تیزی سے ہماری طرف بڑھتا ہے اور سب ڈر کہ مختلف سمتوں میں بھاگتے ہیں۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتادیں۔

تعبیر:۔ خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی بیماری یا ناگہانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔گھر کے کسی فرد کی بیماری کی وجہ سے گھر میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا پھر نوکری یا کاروباری معاملات میں کسی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مالی معاملات بھی اس سے متاثر ہوں گے۔گھر کے سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔کسی منگل یا ہفتہ کو ظہر کی نماز کے بعد کالے چنے یا کالے ماش کسی مستحق کو دے دیں۔

گھوڑے سے گرنا
صوفیہ تبسم،لاہور

خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی دوست کے ساتھ اس کے فارم ہاوس پہ آئی ہوئی ہوں۔ وہاں ان لوگوں نے گھوڑے بھی رکھے ہوئے ہیں۔ میری دوست مجھ سے گھڑ سواری کا کہتی ہے تو میں اس کو یہ نہیں بتاتی کہ میں نے اس سے پہلے کبھی گھوڑے کی پشت پہ سواری نہیں کی بلکہ اس کے ساتھ دوسرے گھوڑے پہ سوار ہو جاتی ہوں ۔ مگر جیسے ہی وہ دوڑتا ہے میں نیچے گر جاتی ہوں اور وہ میرے اوپر سے گزرتا چلا جاتا ہے۔ اس کے بعد سب لوگ اکھٹے ہو جاتے ھیں جو مجھے اٹھانے اور ہسپتال لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بعد مجھے یاد نہیں ۔

تعبیر : ۔ اس سے ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی بیماری یا ناگہانی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نوکری یا کاروباری معاملات میں کسی پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑ ے۔ مالی معاملات بھی اس سے متاثر ہوں گے۔گھر کے سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ صدقہ خیرات بھی کریں۔

 سکول میں تلاوت کرنا
منیرہ علی، اسلام آباد

خواب ؛ ۔ میں نے دیکھا کہ میں اپنے سکول کی اسمبلی میں کھڑی ہوں اور جو بچہ اسمبلی میں تلاوت کر رہا ہوتا ہے وہ بار بار بھول رہا ہوتا ہے۔ میں نجانے کیوں آگے بڑھ کر خود تلاوت کرنے لگ جاتی ہوں حالانکہ ہمارے سکول میں ٹیچرز ایسا نہیں کرتیں۔اس کو میں پیچھے ہٹنے کا اشارہ کرتی ہوں اور خود اس کی جگہ کھڑی ہو کر سورہ الفیل پڑھنا شروع کر دیتی ہوں ۔ پڑھتے ہوئے مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ میں باقاعدہ قرات کے ساتھ تلاوت کرتی ہوں۔ بعد میں پرنسپل اور باقی اساتذہ بہت خوش ہوتے ہیں۔

تعبیر: ۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل وکرم سے آپ کو بزرگی عطا ہو گی۔ علم و حکمت ملے گی۔ دینی و روحانی معاملات میں ترقی ہو گی ۔گھریلو و کاروباری معاملات میں دشمن پہ فتح نصیب ہو گی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور تلاوت قرآن پاک کو باقاعدگی سے جاری رکھیں۔ کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

گھر میں آبشار
ملیحہ حسن، پتوکی

خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی اجنبی سے گھر میں ہوں اور اس گھر کے اندر ہی ایک آبشار سی بہ رہی ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ وہ گھر کس کا ہے یا اندرکون لوگ ہیں ، مگر یہ یاد ہے کہ میں حیران ہوتی ہوں کہ کیسے یہ گھر کسی نے بنایا ہے۔ میں آھستہ آھستہ آگے بڑھتے ہوئے آبشار کے پانی کے پاس چلی جاتی ہوں جو ایک نالی نما راستے سے گھر سے باہر جا رہا ہوتا ہے۔ میں اس پانی میں قدم رکھ دیتی ہوں جو کہ اتنا صاف ہوتا ہے کہ میں اپنے پیر بھی پانی میں دیکھ سکتی ہوں۔ پھر میں آگے بڑھ کر اس کو پینے کی کوشش کرتی ہوں اور پیتے ہوئے یہ سوچ کے کھڑی ہو جاتی ہوں کہ زمزم کو تو ہم بیٹھ کر نہیں پیتے اور کھڑے ہو کر وہ انتہائی لذیز اور میٹھا پانی پینے لگ جاتی ہوں۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ھے کہ اللہ کی مہربانی سے آپ کے درجات میں ترقی ہو گی۔ علم و ہنر کی دولت آپ کو نصیب ہو گی جس سے دنیاوی طور پر بھی آپ کو فائدہ ہو گا۔ یعنی مال و وسائل میں بھی برکت ہو گی۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ تلاوت قرآن پاک کو اپنا معمول بنا لیں۔

ڈبے میں مردہ خرگوش
نصرت فیروز، گوجرانوالہ

خواب : میں نے دیکھا کہ میں کسی شادی پر گاوں آیا ہوا ہوں۔ میرے بچوں کو یہ جگہ بہت پسند آتی ہے۔ ایک منظر میں مجھے لگتا ہے کہ جیسے یہ میری ہی شادی ہو رہی ہے اور بہت سارے لوگ میرے لئے تحفے لے کر آئے ہیں۔ جن میں میری جٹھانی بھی ہیں جو ایک بڑا سا ڈبہ لاتی ہیں اور مجھے دیتی ہیں کہ تمھارے بیٹے کے لیے ہے۔ میں خوشی خوشی کھول کر دیکھتی ہوں تو اس کے اندر کچھ خرگوش ہوتے ہیں جو کہ مر چکے ہوتے ہیں۔ میں ایک دم گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوتی ہوں تو وہ میرے ہاتھ سے چھوٹ کے نیچے گر جاتا ہے۔ مگر میں مارے خوف کے اس جگہ سے بھاگ جاتی ہوں۔ اس کے بعد والا حصہ مجھے یاد ہی نہیں ہے ۔

تعبیر:۔ آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خدانخواستہ کسی کی موت کی خبر بھی ہو سکتی ہے۔گھریلو اور کاروباری یا تعلیمی معاملات میں بھی پریشانی و رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا شکور یا خفیظ کا ورد کیا کریں۔ حسب استطاعت صدقہ و خیرات بھی کریں۔ آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی۔

گناہوں کی معافی مانگنا
اسلم خان، اسلام آباد

خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے محلے کی مسجد میں نماز عصر ادا کرنے گیا ہوں۔ نماز کے بعد جب کافی نمازی چلے جاتے ہیں مسجد میں چند ہی لوگ ہوتے ہیں۔ میں خود کو گڑگڑا کر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ھوئے دیکھتا ہوں۔ اور اس آہ و زاری میں مسجد میں موجود لوگ اٹھ کر میرے ارد گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں تو میں گھبرا کر باہر نکل آتا ہوں۔ جب میری آنکھ کھلی تو میرا چہرہ آنسووں سے بھرا ہوا تھا اور میں استغفار کی تسبیح پڑھ رہا تھا۔

تعبیر :۔ اچھا خواب ہے جو کسی دلی مراد کے پورا ہونے کی طرف دلیل کرتا ہے۔ دینی معاملات میں بہتری کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات میں بھی آسانی و بہتری ہو گی۔ رزق حلال میں اضافہ ہو گا اور اس کے لئے وسائل مہیا ہوں گے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار بھی کیا کریں۔

نظر کی خرابی
محمود علی، لاہور

خواب :۔ میں نے دیکھا کہ میں کہیں جا نے کے لئے تیار ہو رہا ہوں۔ میرے باتھ روم کا شیشہ کافی اندھا سا ہو رہا ہوتا ہے تو میں دوسرے کمرے میں چلا جاتا ہوں کہ ادھر تیار ہو جاتا ہوں۔ مگر اس کمرے میں موجود شیشہ بھی زنگ آلود سا ہوتا ہے اور بالکل بھی ٹھیک نظر نہیں آ رہا ہوتا ۔ پھر میں اسی طرح گھر سے نکل جاتا ہوں مگر میری گاڑی کے شیشے بھی اندھے سے لگتے ہیں ۔ مجھے بالکل بھی ٹھیک دکھائی نہیں دیتا ۔

تعبیر:۔ آپ کا خواب ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے گھریلو معاملات یا اولاد کی طرف سے آپ کو کچھ پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ازدواجی معاملات میں بھی بیوی یا شوہر کی طرف سے اسی طرح کے مسلے کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کاروباری معاملات میں بھی کسی پریشانی سے رکاوٹ ہو سکتی ہے۔ اس کا تعلق کاروباری افراد سے ہو سکتا ہے۔ جو آپ کے بھروسے کو توڑ سکتے ہیں ۔کوشش کریں کہ ان معاملات میں ضروری کاروائی لازمی کریں تا کہ کسی پریشانی سے بچا جا سکے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں۔ لازمی طور پر صدقہ و خیرات بھی کریں۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2NTjSXg
via IFTTT

لاہور کے شاہی قلعہ سے ملنے والی توپوں کے متعلق جاننے کے لئے تحقیقات کا آغاز ایکسپریس اردو

لاہور: شاہی قلعہ میں بارودخانہ کی کھدائی کے دوران ملنے والی توپوں کی تاریخ بارے جاننے کے لئے والڈسٹی اتھارٹی کے ماہرین نے تحقیق شروع کردی ہے۔

ان دنوں لاہور کے شاہی قلعہ کے مُختلف حصوں میں بحالی کا کام جاری ہے، شاہی باورچی خانے، بارود خانے اورمثمم دروازے کی بحالی اورکھدائی کے دوران اب تک ڈیڑھ لاکھ کیوبک فٹ ملبہ اور کچرا اٹھایا جاچکا ہے۔

والدسٹی اتھارٹی حکام کے مطابق کھدائی کے دوران انہیں  سکھ دور کی اشیا، زیر زمین راستے کا سُراغ  ملا اورپھر 13 ستمبر کو توپوں کے آثار ملے، مثمم دروازے کی مرمت کے دوران دو توپیں برآمد ہوئیں جن کے بارے میں خیال ظاہرکیا جارہا ہے کہ یہ برطانوی دورمیں استعمال ہوتی رہی ہیں یہ توپیں مزید کُھدائی کرنے پر واضح ہو گئیں۔

زنگ آلود سیاہی مائل لوہے کی بھاری توپوں کے دریافت ہونے کے بعد والڈ سٹی اتھارٹی نے ان کی صفائی کا کام شروع کر دیا ہے۔ والدسٹی اتھارٹی کی ترجمان تانیہ قریشی نے بتایا کہ یہ توپیں بہترین حالت میں ہیں، اسی لئے انہیں بارود خانے، برطانوی دور کے پُل یا جیل کے باہر نصب کرنے پر غور کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ ہمیں برطانوی دور حکومت کی یاد دلاتی ہیں لیکن اس سے پہلے ان کے وزن، حجم اور تاریخ جاننے کے لئے تحقیق کی جائے گی، اسی قسم کی دو توپیں دیوان عام اور ایک توپ موتی مسجد کے عقبی حصے کے باہر نصب ہے جو یہاں آنے والوں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرتی ہیں۔

توپوں پر واضح طور پر کھدے ہوئے نمبر اور تاج دیکھے جا سکتے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا تعلق نو آبادیاتی دور سے ہے، مثمم دروازہ شاہ جہان کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا، جبکہ بارود خانہ اور یہاں آنے والا شاہی راستہ انگریز دور میں اُس وقت بنایا گیا جب وہ شاہی قلعے پر قابض ہو گئے تھے۔ اس لئے تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بات کہی جا سکتی ہےکہ انہی جگہوں کے قریب برطانوی فوج نے اپنے بیرک بنائے تھے اور یہاں سے اُن کی باقيات مل سکتی ہیں۔

The post لاہور کے شاہی قلعہ سے ملنے والی توپوں کے متعلق جاننے کے لئے تحقیقات کا آغاز appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2zFNQWa
via IFTTT

قصہ افغان اور بنگالی باشندوں کی شہریت کا۔۔۔ ایکسپریس اردو

وزیراعظم عمران خان نے افغان اور بنگالی باشندوں کو شہریت دینے کا عندیہ دے کر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اِن کے پہلے دورۂ کراچی پر کہاں تو یہ توقع تھی کہ وہ کوئی ترقیاتی پیکیج دیں گے، اور کہاں انہوں نے اپنے تئیں مسائل کا یہ حل تجویز کر دیا کہ بعض مبصرین اسے الٹا مسائل میں اضافے سے تعبیر کر رہے ہیں۔

عمران خان کا خیال ہے کہ کراچی میں جرائم کی وجہ بنگلادیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں، جو شناختی کارڈ نہ ملنے کی صورت میں بے روزگار رہتے ہیں اور پھر جرائم کی طرف راغب ہوتے ہیں۔

گزشتہ سال وفاقی وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ میں تارکین وطن کا تخمینہ 50 لاکھ لگایا، جن میں ظاہر ہے سب سے بڑی تعداد افغان شہریوں کی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے اعدادوشمار کے مطابق 14 لاکھ رجسٹرڈ اور سات لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان پناہ گزین ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں بنگالی افراد کی تعداد 15 لاکھ ہے، جب کہ بنگالی باشندوں کے نمائندے خواجہ سلمان اپنی برادری کی تعداد 25 لاکھ تک بتاتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ بہت سے قومی اور بین الاقوامی قوانین کی رو سے جائے پیدائش کی بنیاد پر کسی بھی فرد کو ریاست کی شہریت کا حق حاصل ہوجاتا ہے، لیکن نئے شہریوں کے اس حق کی بنیاد دیگر مقامی شہریوں کے بنیادی حق تلفی پر ہرگز نہیں رکھی جانی چاہیے۔ عمران خان کے اس اعلان پر سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل نے بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا، جس پر یہ وضاحت سامنے آئی کہ کہ صرف کراچی میں موجود افغانوں اور بنگالیوں کو شہریت دینے کی بات کی گئی تھی۔

کراچی اور سندھ لسانی اعتبار سے پہلے ہی بہت سے مسائل کا شکار رہے ہیں۔ اس لیے کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت مقامی آبادی کے تحفظات کو نظرانداز کرنا بے حد خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ تارکین وطن کے حوالے سے حکم رانوں سے پہلا سوال تو یہ ہونا چاہیے کہ انہیں اب تک واپس اپنے ملک کیوں نہیں بھیجا گیا۔ بالخصوص کراچی جیسے مصائب زدہ شہر کب تک بن بلائے مہمانوں کی تواضع کر کر کے ہلکان ہوتا رہے گا۔ اگر ان تارکین وطن کا ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے مسائل ہیںِ، تو حکومت کا فرض ہے کہ بطور غیر ملکی ان کی رجسٹریشن یقینی بنائے۔ اس کے بعد باضابطہ طریقے سے انہیں روانہ کیا جائے۔

بدترین گنجانیت کے شکار کراچی میں بنیادی سہولیات سے لے کر ہنگامی امداد تک شدید مسائل درپیش ہیں۔ اس گنجانیت کی سب سے بڑی وجہ ملک کے دیگر علاقوں میں روزگار کے مناسب مواقع نہ ہونا ہے، جس کے سبب ملک کے کونے کونے سے یہاں مسلسل نقل مکانی جاری ہے۔ سرکاری سطح پر بھی یہ سلسلہ رہا، جب 1960ء کی دہائی میں یہاں تربیلا ڈیم کے متاثرین کو لاکر بسایا گیا۔۔۔ 1980ء کی بدنصیب دہائی میں یہاں افغان مہاجرین کا سیلاب بھی داخل کردیا گیا، جس سے شہر کے مسائل میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ اِن افغان پناہ گزینوں نے اِس شہر کو منشیات اور اسلحے و بارود کا وہ ’’تحفہ‘‘ دیا کہ جس کے ثمرات کا احاطہ ان صفحات پر ممکن نہیں۔ اس کے بعد 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے شکار افراد کی بھی یہاں آمد ہوئی۔ سوات اور قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کے متاثرین کو بھی ہزاروں کلو میٹر دور یہاں لاکر بسایا گیا۔

یہ وہ صورت حال ہے کہ اب اہل کراچی یہ شکوہ کرتے ہیں کہ انہیں اپنے گھر میں اجنبی بنایا جا رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ ان کے آباو اجداد نے ہجرت کی، لیکن اب اُن کا جینا مرنا اسی شہر کے ساتھ ہے، جب کہ یہاں آنے والی دیگر لسانی اکائیوں کے اپنے آبائی علاقے بھی موجود ہیں، اس لیے اس شہر اور اِس کے وسائل پر پہلا حق ہمارا تسلیم کیا جانا چاہیے، ہم یہاں سے کما کر یہیں خرچ کرتے ہیں، جب کہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ دیگر افراد یہاں کے وسائل سے استفادہ کر کے اپنی زیادہ تر آمدنی اپنے علاقوں میں صرف کرتے ہیں۔

جب کوئی سہولت پہلے گھر کے افراد کے بہ جائے باہر والوں کو ملے، تو ایسے سماج میں ہم آہنگی کے بہ جائے شدید تناؤ جنم لیتا ہے، اور ہماری تاریخ میں اس کے خوف ناک نتائج بھی رقم ہیں۔ آج بھی کراچی میں مسافر بسوںِ، سڑکوں، بازاروں اور گلی محلوں میں معمولی تنازع لسانی تکرار اختیار کر جاتے ہیں۔۔۔ اس کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ اس شہر کے وسائل نہایت کم اور مسائل بہت زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں آپ لاکھ جتن کرلیں نہ سماجی ہم آہنگی پیدا ہو سکتی ہے اور نہ لسانی سیاست کا سدباب کیا جا سکتا ہے۔

اگر تارکین وطن کو شہریت دے دی گئی تو پھر لامحالہ یہ انتخابات میں اپنا حق رائے دہی بھی استعمال کریں گے۔ یہ امر جہاں بہت سی سیاسی جماعتوں کے موافق ہوگا اور وہیں بہت سی سیاسی جماعتوں کے لیے غیرموافق بھی ثابت ہوگا۔ ایسی صورت حال میں کراچی میں خدانخواستہ دوبارہ نفرتوں کا الاؤ دہکنے کے خدشات نظرانداز نہیں کیے جاسکتے۔ اس شہر نے پہلے ہی 1965ء سے اب تک لسانی عصبیتوں کو بہت جھیلا ہے، درمیان میں لسانیت کا محاذ ذرا ٹھنڈا ہوتے ہی 12 مئی 2007ء کے سیاسی تصادم کو بنیاد بنا کر شہر میں دوبارہ لسانی نفرتیں پھیلائی گئیں، آج تک نہیں پتا چلا کہ آخر ایک سیاسی اختلاف کو اس شہر میں لسانی رنگ کس طرح دے دیا گیا؟

25جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں پہلی بار تحریک انصاف نے کراچی میں بھی اکثریت حاصل کی ہے۔۔۔ انتخابات سے قبل جب مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے جب کراچی کے دورے کے دوران یہ کہا کہ ’’میں پان کھانے والوں کے کراچی کو لاہور بناؤں گا!‘‘ تو پہلی بار ایسا ہوا کہ تحریک انصاف کراچی کے راہ نماؤں نے بھی انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور کراچی کے دفاع کے لیے میدان میں آئے۔ انہوں نے اس دوران ’بانیان پاکستان‘ جیسی اصطلاحیں بھی استعمال کیں، جو اس سے پہلے صرف ایم کیو ایم کی جانب سے ہی استعمال کی جاتی تھیں۔ آج تحریک انصاف ملک بھر کی طرح کراچی کی بھی ایک اکثریتی جماعت ہے۔ اس لیے کراچی کے نمائندوں کی حیثیت سے اِن کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ اس شہر کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ یہاں کی سماجیات کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کریں۔ کسی تجزیے، خدشے یا شکایت کو آنکھ بند کرکے فقط تعصب یا تنگ نظری کے چابک سے نہ ہانک دیں، بلکہ اس پر سنجیدگی سے غور کریں، کیوں کہ یہ شہر اب مزید کسی سماجی اور سیاسی اشتعال انگیزی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

٭کیا بنگالی باشندوں کا موازنہ افغان مہاجرین سے کیا جا سکتا ہے؟

عمران خان نے بنگالی اور افغان افراد کو شہریت دینے کے اعلان سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں دونوں قوموں کا مقدمہ یک ساں نوعیت کا ہے، یا اس میں کوئی فرق ہے۔ وزیراعظم کے اعلان کے بعد ہمارے بیش تر تجزیہ کار دو الگ الگ مسئلوں کو خلط ملط کر رہے ہیں، جس سے کافی ابہام پیدا ہو رہا ہے۔

جغرافیائی طور پر دیکھیے تو ریاستِ پاکستان برصغیر کے ایک مخصوص حصے میں قائم ہوئی، لیکن یہ ریاست پورے برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد اور کوششوں کا نتیجہ تھی۔ اگرچہ 1971ء میں مشرقی بنگال، بنگلا دیش بن گیا، لیکن نظریاتی طور پر پاکستان میں بنگالیوں کے رہنے کی نفی نہیں کی جا سکتی، ہمیں یہ بھی دھیان میں رکھنا چاہیے کہ بنگال کا مغربی ٹکڑا بنگلا دیش کا حصہ نہیں، جس طرح برصغیر کے دیگر علاقے نے اس ریاست میں رہنے کے حق کو استعمال کیا، اسی طرح مغربی بنگال کی نسبت سے بھی اِن کے لیے گنجائش نکلتی ہے۔

یہی نہیں مسلم لیگ کے قیام (1906ء) سے قیام پاکستان (1947ء) تک اہل بنگال کی جدوجہد سے کسی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا، بنگال کا شمار برصغیر کے اُن تین صوبوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے قیام پاکستان کے لیے (کل 30میں سے) سب سے زیادہ یعنی چھے، چھے نشستیں دے کر پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ ان صوبوں میں ’یوپی‘ تو کبھی اس ملک کا حصہ ہی نہ بن سکا، جب کہ پنجاب کی مسلم لیگ میں شمولیت بٹوارے سے کچھ ہی پہلے کا واقعہ ہے، دوسری طرف صوبہ بنگال کی تحریک پاکستان میں شمولیت بالکل آغاز سے ہے۔

افغان پناہ گزینوں کا مسئلہ 1980ء میں روسی حملے کے بعد پیدا ہوا، اِن افغان باشندوں کی یہاں آمد عارضی بنیادوں پر تھی، لیکن عملاً یہ کراچی کے وسائل پر دھڑلے سے قابض ہوتے گئے، جس کی وجہ سے شہر میں امن وامان کے گمبھیر مسائل پیدا ہوئے، انہیں واپس بھیجنے کے خاطرخواہ اقدام تو کیا ہوتے، الٹا ان کے یہاں قیام کی مدت میں بار بار توسیع کی جاتی رہی۔

یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے کہ افغانستان کی 45 فی صد سے زائد آبادی تاجک، ازبک اور دیگر وسطی ایشیائی نسلوں پر مشتمل ہے، یوں بلاواسطہ وسطی ایشیا کے باشندے بھی یہاں کی شہریت حاصل کرنے کے راستے اختیار کرنے لگیں گے، اس امر پر بھی بہت اچھی طرح غور کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان سے بنگلادیش کی کوئی سرحد نہیں ملتی، اس لیے جغرافیائی طور پر بنگالی باشندوں کی یہاں مزید نقل مکانی ممکن نہیں۔ یوں بنگالیوں کے حوالے سے تو شہریت کے مسئلے کو ہم حل ہونا کہہ سکتے ہیں، افغان باشندوں پر انہیں جغرافیائی اور تاریخی طور پر بھی برتری حاصل ہے، جب کہ نسلی طور پر ریاست میں افغانیوں کے مماثل لسانی اکائیاں اور موافق سیاسی آوازیں موجود ہیں، پھر فطری طور پر اپنا ناتا وہاں سے جوڑ لیں گے، جب کہ بنگالیوں کی یہاں کراچی ہی آخری پناہ گاہ ہے۔ یہ امر سماجی ہی نہیں سیاسی طور پر کراچی پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔

ریاست پہلے ہی تین عشروں سے افغان باشندوں کی تباہ کن مہمان نوازی اٹھا رہی ہے، ہماری افغانستان کے ساتھ ایک طویل سرحد بھی موجود ہے، جہاں سے آمدورفت کا سلسلہ بھی مستقل جاری رہتا ہے۔ کراچی میں ان کے لیے شہریت کے دروازے کھلنے کے بعد یہ سلسلہ مزید دراز ہونے کے خدشات ہیں، پھر کیا ہمارے کم زور نظام میں کسی بھی طرح یہاں کی پیدائش ثابت کرنا کون سا دشوار امر رہ جاتا ہے۔ اس سے ہمارے ناکافی وسائل پر مزید بار بڑھ جائے گا۔

٭غیرملکیوں کی شہریت اور اپنے شہریوں کی بے گھری!

اِن دنوں کراچی میں مختلف سرکاری اداروں کی جانب سے کئی عشروں پرانی آبادیاں خالی کرانے کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔ مارٹن کوارٹر اور گارڈن وغیرہ میں بہت سے کوارٹرز میں سابق سرکاری ملازمین کے اہل خانہ 40، 40 برسوں سے رہ رہے ہیں اور انہوں نے ماضی میں اپنے تئیں مالکانہ حقوق کی کارروائی بھی نمٹائی ہے، اس کے باوجود چار ہزار سے زائد کواٹروں میں رہنے والے لاکھوں مکینوں پر بے دخلی کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔

ستم بالائے ستم یہ کہ کراچی کے حقوق کی سب سے بڑی نام لیوا ’متحدہ قومی موومنٹ‘ سے لے کر حب الوطنی اور مذہبی بنیادوں پر استوار کوئی بھی سیاسی جماعت اس سنگین انسانی مسئلے پر آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔۔۔! ایسے ماحول میں اسی کراچی میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد کو قانونی تسلیم کرنا اِن افراد کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے، جو ریاست کے قیام کے وقت سے یہاں کے شہری ہیں۔ کتنی عجیب سی بات ہے کہ کراچی میں جن تارکین وطن کی باقاعدہ پوری آبادیاں غیرقانونی ہیں، بلکہ بہت سی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی زمینوں پر بھی وہ قبضہ جمائے ہیں اور ان کے اصل مالکان بے بس ہیں۔ کسی کی مجال نہیں ہے کہ ان کے قبضے چھڑائے۔ الٹا نہیں یہاں کی شہریت دینے کی باتیں کی جا رہی ہے، جب کہ دو، دو کمرے کے گھروں میں گزر بسر کرنے والے ان سرکاری خادمین کے اہل خانہ کے سر سے چھت بھی چھینی جا رہی ہے، جن کے بڑوں کی محنت سے اُس زمانے میں امور ریاست چل پائے۔

٭شہریت دینے سے پہلے

پاکستان جیسے کثیر الا قومی ملک میں پناہ گزینوں کو شہریت دینے کے کسی بھی فیصلے سے قبل مقامی آبادی کے تحفظات دور کیے جانا ضروری ہیں، تاکہ انہیں اپنے سماجی اور سیاسی حق کی تلفی کا کوئی خدشہ نہ ہو، انہیں کسی بھی طرح اقلیت میں تبدیل نہ کیا جائے، نئے شہریوں کی رہائش اور زندگی گزارنے کے لیے براہ راست متعلقہ ضلع کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے، نہ کہ اُسی وسائل میں نئے شہریوں کو بھی حصے دار بنا دیا جائے۔ نئے وسائل میں پانی، بجلی اور گیس سے اسپتالوں تک کی ہنگامی ضروریات کا احاطہ ہونا چاہیے.

شہریت دینے کے بعد انہیں بہ جائے کسی مخصوص جگہ بسانے کے، انہیں ملک کے مختلف علاقوں میں آباد کرنے کے لیے بھی سہولیات مہیا کی جا سکتی ہیں، غیر ملکی باشندوں کو مکمل شہری حقوق بہ تدریج اور مشروط طور پر دیے جائیں، جس میں باقاعدہ طور پر حق رائے دہی اور دیگر بنیادی حقوق حاصل ہونے کی ایک مدت کا تعین کیا جائے، وغیرہ۔ اگر ان بنیادی امور کو سامنے رکھ کر کوئی بھی فیصلہ کیا جائے تو یقیناً یہ قدم کسی بھی معاشرے کی سیاسی اور سماجی ہم آہنگی کی طرف بڑھا ہوا محسوس ہوگا، ورنہ صورت حال اس کے برعکس ہوگی۔

The post قصہ افغان اور بنگالی باشندوں کی شہریت کا۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Qoiwkr
via IFTTT

بُک شیلف ایکسپریس اردو

محمد حسین آزاد، احوال و آثار
مصنف: ڈاکٹر محمد صادق
صفحات:269
قیمت: 300 روپے
ناشر: مجلس ترقی ادب، لاہور

اردو ادب کی ترویج اور ترقی میں بہت سی شخصیات نے مختلف ادوار میں اپنے اپنے انداز میں کردار ادا کیا، کچھ نے نثر کو میدان کے طور پر چنا اور کچھ نے شاعری پر توجہ دی، اسی طرح علوم شرقیہ کی بھی ترویج ہوئی۔

مولانا محمد حسین آزاد کا زمانہ یعنی انیسویں صدی بڑی ہی پرآشوب تھی کیونکہ اس دور میں مغل سلطنت کا زوال ہو چکا تھا اور انگریزوں نے پورے برصغیر پر اپنے پنجے پوری طرح گاڑھ لیے تھے۔ مسلمان یوں تو پہلے ہی معتوب تھے کیونکہ انگریزوں نے اقتدار انھی سے چھینا تھا مگر 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد بالخصوص مسلمانوں پر دور ابتلا کا آغاز ہوا ۔ مولانا آزاد کے والد مولوی محمد باقر ایک اردو اخبار کے مالک تھے اور ابتدا سے ہی ہر طرح سے مسلمانوں کی حمایت کرتے تھے یوں وہ انگریزوں کی نظر میں کھٹکتے تھے۔

جنگ آزادی کے بعد انھیں مختلف الزامات کے تحت گرفتار کر کے قید کر لیا گیا اور پھانسی دیدی گئی۔ مولانا آزاد اس دور میں اپنے اخبار میں بطور مدیر منسلک تھے، یوں وہ بھی معتوب ٹھہرے، مگر شومئی قسمت وہ بچ نکلے اور کافی عرصہ تک جان بچانے کے چکر میں سرگرداں رہے، یوں ان کی زندگی بڑی مشکلات سے دوچار رہی، مگر کیا کہتے ہیں حالات کی چکی میں پسنے کے بعد جوہر کھل کر سامنے آتے ہیں تو مولانا آزاد نے بھی ہمت نہ ہاری اور بالآخر انھوں نے اپنی قابلیت کا لوہا منوا لیا ۔

زیر تبصرہ کتاب ان کی پوری زندگی کا احاطہ کرتی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ان کی تصانیف اور رجحانات کا بھی بڑے معروضی انداز میں تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور تحقیق کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ آخر میں ضمیمہ جات بھی دیئے گئے ہیں، گیارہ ابواب پر مشتمل اس کتاب کا قارئین کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے، تاکہ وہ ایک عظیم ادیب کی زندگی میں آنے والے اتار چڑھاؤ سے واقفیت حاصل کر سکیں۔

بحر الفصاحت (حصہ ششم و ہفتم) علم بدیع
مصنف: مولوی نجم الغنی رام پوری
مرتب: سید قدرت نقوی
قیمت:500 روپے
صفحات:488
ناشر: مجلس ترقی ادب، لاہور

زبان کے قرینے اور سلیقے زانوئے تلمذ طے کرنے سے ہی آتے ہیں، سیکھنے کے یہ آداب ذوق و شوق سے ہی تعلق رکھتے ہیں ورنہ چل چلاؤ تو بہتوں کو آتا ہے۔ مجلس ترقی ادب نے بحر الفصاحت کے نام سے زبان کے قرینے سے ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو آگاہ کرنے کی شاندار کاوش کی ہے، زیر تبصرہ کتاب میں علم بدیع میں صنائع لفظی و معنوی سے بحث کی گئی ہے۔ سیوطی نے کہا ہے کہ بدیع کلام کی خوبی بعد رعایت مقتضائے حال اور وضوح الدلالۃ یعنی تعقید سے خالی ہونے کی معلوم ہوتی ہے۔

منفعت اس کی یہ ہے کہ کلام میں ایسی خوبی پیدا ہو جائے کہ کانوں کو بھلا معلوم ہو اور دل میں اتر جائے۔ ’’خیر البلاغت ‘‘ کے ایک رسالے میں لکھا ہے کہ علم بدیع وہ ہے جس سے کلام بلیغ کی عارضی خوبیوں کا حال معلوم ہو جاتا ہے۔ عبداللہ بن معتز عباسی نے علم بدیع کے قواعد بنائے اور اسے الگ علم کا درجہ دیا اور اپنی کتاب میں سترہ قسم کی صنائع لکھیں، پھر پیچھے آنے والے اس میں اضافہ کرتے چلے گئے۔ ایک علمی بحث یہ بھی ہے کہ علم معانی اور بیان سے کلام میں حسن ذاتی آ جاتا ہے، پھر علم بدیع کو الگ علم کا درجہ کیوں دیا گیا؟۔

اسی لئے محاسن کو دیکھتے ہوئے کچھ محققین نے بدیع کو علم معانی اور بیان کا ہی حصہ قرار دیا۔ ایسی علمی مباحث ادب کی وسعت اور بڑائی میں اضافے کا سبب ہیں۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے، ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔

 درد جاں ستاں
مصنف: سید ناصر نذیر فراق دہلوی
مرتبہ: محمد سلیم الرحمٰن
قیمت:150 روپے
صفحات؛133
ناشر: مجلس ترقی ادب، لاہور

ناصر نذیر فراق اپنے زمانے کے نامور نثر نگار رہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ آج کی نسل ان کے بارے میں کم ہی جانتی ہے، جس کی وجہ ان کی تصانیف کا منظر عام پر نہ آنا ہے،انھوں نے افسانے، مضامین، لوک روایات، معاشرتی خاکے اور ناول لکھے، مجلس ترقی ادب نے ان کے اس ناول کو مرتب کروا کر ادب کی شاندار خدمت کی ہے ۔

یہ ناول پہلی مرتبہ 1909ء میں شائع ہوا تھا۔ ناول کی فضا اور زبان و بیان بھی اسی دور کے مطابق ہے، اندازہ ہے کہ یہ فراق کا پہلا ناول ہے۔ نامور ادیب محمد سلیم الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ناول کو سچا واقعہ قرار دے کر فراق نے پڑھنے والوں کو بڑے دبدھے سے دوچار کر دیا ہے ۔ تاہم اگر ناول نگار کے اس دعوے پر یقین کر لیا جائے کہ وہ سچے واقعات بیان کر رہا ہے تو طرح طرح کے سوال سر اٹھاتے ہیں اور ان کا کوئی تسلی بخش جواب ناول کے متن میں تلاش کرنا بے سود ہے۔ محترم سلیم الرحمٰن نے پیش لفظ میں اسی طرح ناول کا کڑا تنقیدی جائزہ لیا ہے اور بہت سی ادبی مباحث کا راستہ کھول دیا ہے، بہرحال گم گشتہ ادب کی بازیابی مجلس ترقی ادب کی بہترین کاوش ہے۔

میں ہوں عمران خان
مصنف: فضل حسین اعوان
قیمت: 750روپے
صفحات: 256
ناشر: دعا پبلی کیشنز، اردو بازار، لاہور

عمران خان سپر سٹار کرکٹر ہیرو جنھوں نے 1992ء میں پاکستان کو کرکٹ کا عالمی کپ جتوایا، جو اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہو چکے ہیں، کی زندگی مسلسل جدوجہد کی شاندار مثال ہے۔ انھوں نے کھیل کی دنیا میں قدم رکھا تو اس کی آخری بلندی تک پہنچے اور سیاست کے خارزار میں پاؤں دھرے تو اس کی بھی سب سے اونچی سیٹ پر براجمان ہوئے۔

مصنف نے کتاب میں عمران خان کی زندگی کی بھرپور تصویر پیش کی ہے، بچپن سے لے کر کرکٹ کے میدان میں قدم رکھنے تک عمران کو تعلیمی میدان میں جو چیلنجز درپیش ہوئے اور عمران نے ان پر کیسے قابو پایا؟ کرکٹ میں کامیابی کے لئے انھیں کتنی محنت کرنا پڑی اور کیسے ناکامیوں کو کامیابی میں بدلا؟ اس دوران ان کی زندگی میں جو گلیمر در آیا اس کی وجہ سے انھیں کن سکینڈلز کا سامنا کرنا پڑا اور وہ کیسے ان سے عہدہ برآ ہوئے؟

عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کیسے متحرک ہوئے؟ پھر آخر میں سیاست کے میدان میں پیش آنے والی مشکلات اور مخالفین کا پروپیگنڈا، ان سب کا سوالوں کا جواب دیا گیا ہے۔ عمران کے والد اکرام اللہ نیازی کی ایک تحریر بھی کتاب میں شامل ہے جو ایک باپ کے اپنے بیٹے کے بارے میں محسوسات کا اظہار تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ بجپن سے جوانی کی زندگی کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ کتاب کا مطالعہ کرنے سے ایک شاندار شخصیت کا تصور ابھرتا ہے جو ایک سچا اور کھرا انسان ہے اور ہمہ وقت جہد مسلسل کا پیکر ہے اور یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اگر لگن سچی ہو تو بالآخر منزل مل ہی جاتی ہے۔

میرا پاکستان
مصنف: مولانا محمد الیاس گھمن
صفحات:  127
قیمت : درج نہیں
ناشر :عالمی اتحاد اہل السنۃ والجماعۃ

مولانا محمد الیاس گھمن معروف عالم دین ہیں اور میرا پاکستان ان کی تازہ تصنیف ہے جس میں انہوں نے وطن عزیز پاکستان کی تخلیق کے مقاصد، اس کے قیام کی غرض وغائت، اس کی تاریخ اور اس حوالے سے علما کا کردار کیا تھا، اس بارے میں اس چھوٹی سی کتاب میں بڑے موثر انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔

اس کتاب کے مخاطب تو بظاہر مدارس کے طلبہ ہی ہیں لیکن یہ کتاب ہر پاکستانی خصوصاً ہماری نوجوان نسل، جس نے پاکستان کو اپنی آنکھوں سے بنتے نہیں دیکھا ان کے لیے یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے ضرور پڑھا جانا چاہیے تاکہ اسے یہ معلوم ہو سکے کہ یہ عظیم مملکت خداداد حاصل کرنے کے لیے ہندوستان کے مسلمانوں کو کس قدر قربانیاں دینا پڑیں اور مشکلات و مصائب جھیلنا پڑے، آگ و خون کے دریا سے کس طرح گزرنا پڑا۔ لیکن جن عظیم مقاصد کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا وہ آج تک پورے نہیں ہو سکے۔ یہ لمحہء فکریہ ہے کہ قیام پاکستان کی منزل پانے کے بعد اپنی خواہشات، آرزووں اور آدرشوں کی روشنی میں آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔اس کتاب میں اس تمام صورت حال کا احاطہ کیا گیا ہے۔ نوجوان نسل کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے ۔

 شریف کنجاہی کے خطوط
 مرتب : احسان فیصل کنجاہی
 صفحات: 160
قیمت : 250/ روپے
ناشر: کامرانیاں پبلی کیشنز، کنجاہ، گجرات

شریف کنجاہی پنجابی زبان کے معروف ادیب، شاعر، مترجم، محقق اور استاد تھے۔ انہوں نے تمام عمر پنجابی زبان و ادب کی خدمت میں گزاری۔ دیگر علمی وا دبی کتب کے علاوہ قرآن مجید کا پنجابی میں ترجمہ بھی ان کا ایسا کارنامہ ہے جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ زیر تبصرہ کتاب شریف کنجاہی کے ان ایک سو سے زائد خطوط کا مجموعہ ہے جو انہوں نے مختلف لوگوں کو لکھے۔ خطوط نویسی الگ سے ایک صنف ِ ادب کا درجہ رکھتی ہے۔ مشاہیر کے خطوط اسی اعتبار سے خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کہ جن سے نہ صرف متعلقہ شخصیت کو سمجھنے، اور اس کے فکر و فلسفہ، اس کی سوچ اور نظریہ حیات و فن تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے بلکہ۔ یہ خطوط اس عہد کی ادبی اور ثقافتی تاریخ بھی اپنے اندر رکھتے ہیں۔

احسان فیصل کنجاہی نے شریف کنجاہی کے خطوط کو منضبط کرکے کتاب کی شکل میں پیش کردیا ہے۔ تاہم پروف کی غلطیاں بعض مقامات پر مزہ کرکرا کردیتی ہیں ۔کتاب کی اشاعت بلا شبہ ایک بڑا کام ہے اور اس نوعیت کے بڑے کام کے لیے عرق ریزی اور محنت بھی اسی قدر درکار ہوتی ہے۔ اور پروف ریڈنگ کی غلطیاں بڑی کتاب کو بھی قاری کی نظر میں بے وقعت کر دیتی ہیں ۔ اس کے باوجود یہ ایک ایسی کاوش ہے جسے بہرحال سراہا جانا چاہیے۔

 تکلم
 شاعرہ: تبسم شیروانی
 صفحات: 128
 قیمت : 260 روپے
 ناشر: سانجھ پبلی کیشنز، مزنگ روڈ، لاہور

زیر تبصرہ کتاب تبسم شیروانی کی شاعری کا اولین مجموعہ ہے جو سترکے قریب آزاد نظموں پر مشمل ہے۔ ان نظموں میں نسوانی حسن، خیالات اور جذبات کی خوشبو رچی ہوئی ہے ۔ شاعرہ کا کہنا ہے کہ میرے لیے شاعری کتھارسس بھی ہے اور تلاش ِ ذات کا سفر بھی۔ان نظموں کے مطالعے سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ شاعرہ تلاش ِ ذات کے سفر پر ہے۔ ذاتی مشاہدات و تجربات نے ان کی شاعری کو وقیع بنا دیا ہے۔ ڈاکٹر امجد طفیل کے بقول ’’ ان نظمو ںکے مطالعے سے قاری کو پہلا تاثر تو یہ ملتا ہے کہ ان کا طرز احساس عہد جدید سے لگا کھاتا ہے۔

ان کے ہاں قید اور آزادی کی متضاد کیفیات کے درمیان کشمکش دکھائی دیتی ہے، وہ اپنے ظاہر و باطن میں موجود بُعد کو اپنے تخلیقی تجربے میں حل کرنے کی کوشش کرتی ہیں ‘‘َ۔  اور یہی کتھارسس ہے ۔ پروین سجل کا کہنا ہے کہ ’’ تکلم کی شاعری فکر انگیز ہے جس سے شاعرہ کی سوچ اپنی راہ متعین کرتی دکھائی دیتی ہے ‘‘۔ خوبصورت سرورق کے ساتھ یہ مجموعہ دلکش بھی ہے اور دیدہ زیب بھی۔

رت جگوں کا سفر
 شاعر : شبیر ناقد
صفحات: 144
 قیمت:  500/ روپے
ناشر : اردو سخن ڈاٹ کام، پاکستان

غزلوں، نظموں اور قطعات پر مشتمل یہ مجموعہ شاعر اور ادیب شبیر ناقد کا نتیجہ ء فکر ہے ۔ وہ اس سے پہلے درجن بھر شعری کتب شائع کرچکے ہیں ۔ا س کتاب میں چھوٹی بحراور سادہ پیراہن میں غزلیں روائتی مضامین کے ساتھ موجود ہیں ۔ شبیر ناقد کا اسلوب سادہ اور عام فہم ہے ان کی شاعری میں عشق و محبت کے روائتی مضامین بہ کثرت ملتے ہیں، تاہم خیالات میں وہ گہرائی اور گیرائی نظر نہیں آئی جس کی توقع شاعری کے کسی نئے مجموعے سے رکھی جاسکتی ہے۔

تاہم کتاب کے ناشر کا ماننا ہے کہ ’’ شبیر ناقد عہدِ موجود کے کہنہ مشق، ممتاز اور اپنے ہنر میں مخلص شاعر ہیں جو ریاضت کے مسلسل عمل سے نت نئے اظہاری پیرائے اور قلبی وارداتوں کے سراغ تلاش کرتے رہتے ہیں، سادہ مگر جاندار لفاظی ان کا وطیرہ ہے جبکہ خوبصورت رومانوی فضا کی تعمیر میں بھی انہیں ملکہ حاصل ہے ‘‘۔کتاب کے آخری صفحات پرآزاد نظموں کے علاوہ بچوں کے لیے دو نظمیں بھی شامل کی گئی ہیں جن میں سے ایک ان کے اکلوتے بیٹے ’’کاوش بیٹا ‘‘ اور دوسری ’’ الائیڈ بنک تونسہ شریف‘‘ کے عنوان سے ہے۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2zFNRtc
via IFTTT

’معاشی حملہ‘ جدید دور کا انوکھا طرز ِجنگ ایکسپریس اردو

امریکا کے رئیل اسٹیٹ ڈویلپر ،ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں امریکی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی مملکت کو ’’دوبارہ عظیم‘‘ بنائیں گے۔ مطلب یہ کہ وہ برسراقتدار آکر امریکا کو معاشی مسائل سے چھٹکارا دلاسکتے ہیں۔ اس وعدے پر امریکی عوام نے اعتبار کیا اور ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس تک پہنچا دیا۔

صدر ٹرمپ نے مگر اپنی ٹیم کے ساتھ امریکا کو معاشی مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے انوکھا راستہ اپنالیا… وہ مختلف ممالک پر معاشی حملے کرنے لگے۔

انہوں نے گویا انہونی دکھاتے ہوئے معاشی حملے کو جدید دور کا خطرناک طرزِ جنگ بناڈالا۔یہ طرزِ جنگ آشکارا کرتا ہے کہ اب کسی ملک کے خلاف محض ٹینکوں، توپوں اور طیاروں سے حملہ نہیں کیا جاتا بلکہ اسے کمزور کرنے اور اپنا مطیع بنانے کے لیے اس پر معاشی حملے کرنے بھی ممکن ہیں جو شاید زیادہ کارگر ثابت ہوتے ہیں۔وہ اس لحاظ سے کہ انسانی خون بہائے اور تباہی پھیلائے بغیر حملہ کرنے والا ملک اپنا مقصد حاصل کر سکتا ہے۔

دلچسپ بات یہ کہ دنیا بھر میں نت نئی جنگیں چھیڑ کر ہی امریکی حکمران طبقے نے اپنے ملک کو معاشی مسائل میں گرفتار کروایا اور امریکا کھربوں ڈالر کا مقروض ہوگیا۔ تاہم ٹرمپ حکومت نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور معاشی حملوں کی داغ بیل ڈال دی۔اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ٹرمپ کی ٹیم کے اہم ارکان امریکی فوج کے سابق فوجی افسر ہیں۔ممکن ہے کہ ان کی چھیڑی معاشی جنگوں سے امریکا کو وقتی طور پہ فائدہ پہنچ جائے، لیکن طویل المعیادی لحاظ سے اسے نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔

امریکا کو کئی ممالک سے باہمی تجارت میں خسارہ ہورہا تھا۔ اس ضمن میں چین اور امریکا کی باہمی تجارت میں خسارہ سب سے زیادہ تھا۔ یہ خسارہ کم کرنے کے لیے ٹرمپ حکومت نے چینی سامان پر عائد ٹیکسوں کی شرح بڑھادی۔ یوں اس نے ایک تیر سے دو شکار کر دئیے۔ ایک تو امریکی حکومت کی آمدن بڑھ گئی، دوسرے ٹیکس بڑھنے سے چینی سامان کی آمد میں بھی کمی آجاتی۔چین نے ٹرمپ حکومت کے اس معاشی حملے کو صبر و سکون سے برداشت نہیں کیا۔ چینی حکومت نے بھی امریکی سامان پر لگے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کردیا۔ اس جوابی وار نے دونوں ممالک کے مابین جاری معاشی جنگ کی شدت بڑھادی۔ تاہم فریقین سنبھل کر اور بڑی حکمت عملی سے ایک دوسرے پر معاشی حملے کررہے ہیں کیونکہ وہ باہمی تجارت کو زیادہ نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔

ٹرمپ حکومت نے کئی یورپی ممالک سے آنے والے سامان پر بھی ٹیکسوں کی شرح بڑھادی۔ اس پر یورپی یونین بھی چیں بہ جبیں ہوئی۔ بعض یورپی حکومتوں نے ٹرمپ حکومت کے معاشی حملے کا جواب دیا اور امریکی مال پر نئے ٹیکس عائد کردیئے۔ غرض ٹرمپ حکومت کے معاشی حملوں نے بین الاقوامی معیشت میں ہلچل مچا دی اور اس کے استحکام کو ضعف پہنچایا۔خاص طور پر کئی ممالک کی کرنسیاں ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر کھو بیٹھیں ۔یہ امر اکثر ملکوں کو ڈالر سے متنفر کر سکتا ہے۔

ٹرمپ حکومت کے معاشی حملوں کا نشانہ وہ ممالک بھی بنے جو امریکا کی ہدایات من و عن تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ان ممالک میں عالم اسلام کے تین ملک،ایران، ترکی اور پاکستان سرفہرست ہیں۔ ٹرمپ حکومت نے سب سے پہلے پاکستان کو معاشی حملے کا نشانہ بنایا۔ٹرمپ حکومت کا دعویٰ ہے کہ افغان طالبان کو پاک افواج کی حمایت حاصل ہے۔ اسی لیے 2002ء سے لے کر اب تک وہ افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج کے خلاف گوریلا جنگ لڑنے میں کامیاب رہے۔ اسی الزام کے باعث ٹرمپ حکومت نے برسراقتدار آنے کے صرف سات ماہ بعد جولائی 2017ء میں ’’کوکیشن سپورٹ فنڈ‘‘ کی مد میں پاکستان کو دی جانے والی رقم روک دی جبکہ جنوری 2018ء میں اس رقم میں بہت کمی کردی گئی۔

ان معاشی حملوں کا مقصد یہی تھا کہ پاکستان کی معیشت اتنی کمزور کردی جائے کہ وہ امریکا سے ڈالروں کی بھیک مانگنے پر مجبور ہوجائے۔ یہ راہ اختیار کرتے ہوئے پاکستان کو امریکا کی پالیسیاں مجبوراً تسلیم کرنا پڑتیں۔امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان پر دباؤ ڈال کر انہیں مذاکرات کی میز پر لے آئے اور یہ کہ افغان طالبان ہتھیار پھینک کر افغان حکومت کا حصہ بن جائیں۔ یہ عمل انجام پذیر ہونے کے بعد امریکی فوج باعزت طریقے سے افغانستان سے رخصت ہوسکتی ہے۔دوسری صورت میں امریکا کو ویت نام کے بعد افغانستان سے بھی ذلت و رسوائی اٹھا کر رخصت ہونا پڑے گا۔ تاہم پاکستان کئی بار اعلان کرچکا کہ وہ افغان طالبان پر اتنا زیادہ اثرورسوخ نہیں رکھتا کہ انہیں جنگ بندی پر آمادہ کرسکے۔ افغان طالبان ایک خود مختار اکائی ہیں جو اپنا راستہ خود بناتے ہیں۔

ٹرمپ حکومت یہ بھی چاہتی ہے کہ امریکا اور چین کے مابین جاری معاشی جنگ میں پاکستان کسی ایک فریق کا طرفدار بن جائے۔ پاکستانی حکومت کا المّیہ یہ ہے کہ فی الوقت وہ کھل کر امریکا یا چین کا ساتھ نہیں دے سکتی کیونکہ پاکستان کے دونوں کے ساتھ اہم معاشی مفادات وابستہ ہیں۔پاکستان کا سرکاری خزانہ تقریباً خالی ہے اور عمران خان حکومت کو ڈالروں کی اشد ضرورت ہے۔ مطلوبہ ڈالر اسے عالمی مالیاتی اداروں سے مل سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ پاکستانی حکومت امریکا کی پالیسیاں قبول کرلے۔

اکثر عالمی مالیاتی اداروں میں امریکا کا اثرورسوخ سب سے زیادہ ہے اور وہ امریکی حکومت کی ایما پر ہی مختلف ملکوں کو قرضے دیتے ہیں۔ گویا عمران خان حکومت نے اگر عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لینے ہیں تو اسے امریکی حکومت کی’’ڈکٹیشن‘‘ یا ہدایات قبول کرنا پڑیں گی۔چین نے پاکستان میں سی پیک منصوبہ شروع کررکھا ہے۔ وہ پاکستان کو قرضے بھی فراہم کررہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ماضی میں امریکا جس طرح وسیع پیمانے پر پاکستان کی معاشی و مالی مدد کرتا رہا ہے، اس انداز میں چین ابھی مدد کرنے کو تیار نہیں۔ یہ امر بھی پاکستان کو امریکا سے کلی طور پر ناتا توڑنے سے باز رکھے ہوئے ہے۔

ایک اور معاشی وجہ یہ کہ پاکستان کا سب سے زیادہ مال امریکی منڈیوں ہی میں جاتا ہے۔ اگر پاکستان نے علی الاعلان امریکا سے رشتہ توڑ لیا، تو پاکستان کو ایک بڑی منڈی سے محروم ہونا پڑے گا۔ گویا ضرورت اس مار کی ہے کہ پہلے پاکستان  امریکی منڈی پر انحصار کم سے کم کرے تبھی وہ اس حیثیت میں آئے گا کہ اپنی شرائط پر امریکی حکومت سے مذاکرات کرسکے۔ فی الحال تو مذاکرات کی میز پر پاکستانی حکومت کی پوزیشن خاصی کمزور ہے۔

مزید براں بدلتی جغرافیائی سیاست کے باعث پاکستان امریکا کے لیے پہلے کی طرح زیادہ اہم ساتھی نہیں رہا۔ امریکی حکمران طبقہ اور امریکی فوج اب چین کو امریکا کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتی ہے جو معاشی و عسکری طور پر طاقتور ہورہا ہے۔ امریکی حکمران چین کے مقابلے میں بھارت کو کھڑا کرنا چاہتے ہیں تاکہ چینی معاشی سرگرمیوں خصوصاً ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے پھیلاؤ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاسکیں۔ اسی لیے امریکی حکمران بھارت کی ناز برداری کرنے اور نخرے برداشت کرنے میں محو ہیں۔

بھارتی حکمران طبقہ اگرچہ کھل کر چین کے سامنے نہیں آنا چاہتا کیونکہ اس خفیہ و عیاں لڑائی میں بھارت کو اچھا خاصا نقصان پہنچ سکتا ہے۔(اپنے پڑوسی،پاکستان کی مثال اس کے سامنے ہے جس نے دوسروں کی جنگ میں شامل ہوکر بہت نقصان اٹھایا)اسی لیے مودی حکومت ٹرمپ سرکار کی تمام پالیسیوں پر آمنا صدقاً بھی نہیں کہنا چاہتی۔مثال کے طور پر مودی حکومت روس سے ایس۔400 جدید ترین میزائل خریدنا چاہتی ہے۔ اگر یہ معاہدہ ہوا تو بھارت پر امریکی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ امریکی کانگریس نے اگست 2017ء میں ایک بل (CAATSA) منظور کیا تھا۔ اس کی رو سے جو ممالک روسی کمپنیوں سے کاروبار کریں گے، ان پر امریکی معاشی پابندیاں لگ جائیں گی۔

اس کے علاوہ بھارت ایران سے بھی تجارتی تعلقات توڑنے کو تیار نہیں۔ بھارت بڑی مقدار میں ایرانی تیل خریدتا ہے۔ کچھ عرصے سے اس مقدار میں کمی آگئی ہے لیکن بھارت ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم کرنے کے حق میں نہیں۔جبکہ ٹرمپ حکومت مودی پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ ایران سے معاشی تعلقات توڑ لے۔بھارت نے ایران سے تجارتی رشتہ برقرار رکھا تب بھی امریکی کمپنیاں آزادی سے بھارتی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار نہیں کر سکیں گی۔

روس اور ایران کی سمت بھارت کے بدستور جھکاؤ کی وجہ سے ہی ٹرمپ حکومت مخمصے کا نشانہ بن چکی۔گو وہ نت نئے عسکری و سول معاہدے کر کے بھارتی حکمرانوں کو رام کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر تعلقات میں پہلے جیسی گرم جوشی نہیں رہی۔اسی باعث اب امریکی حکمران طبقہ کو احساس ہو چکاکہ براعظم ایشیا میں بہ لحاظ آبادی چوتھا بڑا ملک،پاکستان بھی اہم اتحادی ہے اور اس کے ساتھ زیادہ بگاڑ مناسب نہیں۔ یہی وجہ ہے، جب عمران خان کی نئی حکومت آئی تو امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان جانے کا اعلان کردیا۔ یاد رہے،کسی بھی امریکی حکومت میں صدر کے بعد وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کے عہدے سے ہی سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور ٹرمپ حکومت میں یہ دونوں عہدے سابق فوجیوں کے ہاتھوں میں ہیں جو مذہبی و سیاسی لحاظ سے قدامت پسند ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ نے پہلے تو وزیراعظم بننے پر عمران خان کو مبارکباد دی۔ لیکن نئی پاکستانی حکومت نے ترکی اور ایران کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی دکھائی تو امریکی وزیر خارجہ نے دو پاکستان مخالف اعلان داغ دیئے۔ پہلے دھمکی دی کہ امریکہ آئی ایم ایف سے پاکستان کو قرضہ نہیں لینے دے گا۔

 

پھر امریکا نے کولیشن سپورٹ فنڈ کے 300 ملین ڈالر روکنے کا بیان دے ڈالا۔ اس طرح نئی پاکستانی حکومت کو ترغیبات دینے کے ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی دی گئیں۔کچھ عرصہ سے ترکی بھی امریکا کے معاشی حملوں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ یہ معاشی حملے اس لیے ہوئے کیونکہ ایران کے خلاف محاذ میں ترکی نے امریکا کا حلیف بننے سے انکار کردیا۔ وجہ یہ کہ شام میں بشار الاسد حکومت کے خلاف جاری امریکی جنگ میں ترکی امریکا کا اتحادی رہا ۔لیکن اس جنگ نے ترکی کو معاشی طور پر خاصا نقصان پہنچا دیا۔ لاکھوں شامی مہاجرین نے ترکی میں ڈیرے ڈال دیئے۔ پھر شام کے ساتھ ترکی کی طویل سرحد بھی غیر محفوظ ہوگئی۔ لہٰذا ترکی اب امریکی حکمرانوں کی خاطر ایران کے ساتھ لڑائی مول لینے کو تیار نہیں۔

ترکی کو جُھکانے کی خاطر ٹرمپ حکومت نے ترک مال تجارت پر عائد ٹیکسوں کی شرح بڑھادی۔ اس عمل سے ترک کرنسی کی قدروقیمت گرگئی اور مقامی معیشت کو خاصا نقصان پہنچا۔ امریکا کے معاشی حملے کو تاہم ترک معیشت برداشت کرگئی۔ وجہ یہ ہے کہ صدر طیب اردوان نے پچھلے پندرہ سولہ برس میں معقول معاشی پالیسیوں کے باعث ملکی معیشت کو مضبوط و مستحکم بنا دیا ہے۔ٹرمپ حکومت ایران پر بھی معاشی حملے کررہی ہے۔ امریکا، یورپی یونین اور ایران نے مل کر جولائی 2015ء میں ایٹمی معاہدہ کیا تھا۔

مقصد یہ تھا کہ ایران ایٹم بم بنانے کا اپنا پروگرام منجمد کردے۔ مئی 2018ء میں ٹرمپ حکومت نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے نکلنے کا اعلان کردیا۔ اگلے ہی دن ایرانی کرنسی کی قیمت گرگئی۔ تاہم یورپی یونین نے یہ معاہدہ برقرار رکھا ہے، اس باعث ایرانی معیشت کو اتنا زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ مگر ٹرمپ حکومت اقوام متحدہ کی وساطت سے ایران پر نئی عالمی پابندیاں لگانے میں کامیاب رہی تو ایرانی معیشت گھمبیر مسائل کا نشانہ بن سکتی ہے۔

ترکی اور ایران پہ امریکا کے معاشی حملوں کا ایک بڑا مقصد اپنے آقا،اسرائیل کو تقویت پہنچانا بھی ہے۔امریکی و اسرائیلی حکمران اپنی خفیہ و عیاں چالوں سے قطر و شام کے علاوہ اکثر عرب ممالک کو کم ازکم غیر جانب دار ضرور بنا چکے۔ ترکی و ایران لیکن فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی وجہ سے اسرائیل کے کٹر مخالف ہیں۔امریکی حکمران دونوں اسلامی ملکوں پر معاشی حملے کر کے انھیں اتنا ناتواں بنانا چاہتے ہیں کہ وہ عسکری لحاظ سے اسرائیل کے لیے خطرہ نہ رہیں۔

امریکا کے نئے طرز جنگ،معاشی حملوں کا مقابلہ کرنے کی خاطر چین،روس اور ان کے ہمنوا ممالک مختلف تدابیر پر غور کر رہے ہیں۔ان میں سے ایک تدبیر یہ بھی ہے کہ دیگر ملکوں سے تجارت ڈالر کے بجائے اپنی قومی کرنسی یا دیگرکرنسیوں مثلاً چینی ین یا یورپی یورو میں کی جائے۔ڈالر نے امریکا کو سپرپاور بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ڈالر کی کمزوری اسے بھی کمزور کر دے گی۔

The post ’معاشی حملہ‘ جدید دور کا انوکھا طرز ِجنگ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2xZH0bX
via IFTTT

وائٹ ہاؤس کے چند دلچسپ حقائق ایکسپریس اردو

1600 پینسلوینیا ایونیو پر واقع 220 سال پرانی یہ عمارت اپنی تعمیر سے لے کر آج تک دنیا کی اہم ترین اور غیر معمولی عمارتوں میں سے ایک گردانی جاتی ہے۔ اس کی اہمیت وخصوصیت اس کے طرز تعمیر کی وجہ سے نہیں بلکہ اس حیثیت کے باعث ہے جو اسے حاصل ہے۔

جی ہاں، یہ وائٹ ہاؤس ہے جسے ’’صدارتی محل‘‘ یا ’’ایگزیکٹو مینشن‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہاں معنوی اعتبار سے دنیا کا طاقتور ترین فرد یعنی امریکہ کا صدر رہائش پذیر ہوتا ہے۔ یہ تو وہ حقائق ہیں کہ جو آج تقریباً ہر پڑھا لکھا شخص جانتا ہے، تاہم اس عمارت کے متعلق چند دلچسپ باتیں ایسی بھی ہیں جو شاید سب لوگوں کے علم میں نہ ہوں۔ آئیے آپ کو ان سے آگاہ کرتے ہیں۔

-1 جارج واشنگٹن اس میں کبھی بھی نہیں رہے :۔ موجودہ امریکہ کے بانی اور پہلے صدر جارج واشنگٹن نے اس جگہ کو یعنی وائٹ ہاؤس جہاں یہ آج واقع ہے، 1791ء میں صدارتی محل کی تعمیر کے لیے منتخب کیا اور اس کے حتمی ڈیزائن کی منظوری دی۔ 13 اکتوبر 1792ء کو اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور اس کی تعمیر کا آغاز ہوگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صدر واشنگٹن جن کی مدت صدارت 1797ء میں ختم ہوئی اور وہ 1799ء میں وفات پاگئے، کو یہ موقع ہی نہ مل سکا کہ وہ اس صدارتی محل میں قیام کرسکیں۔ 1800ء میں دوسرے امریکی صدر جون ایڈمز اپنی بیگم ’’ابیجیل‘‘(Abigail) کے ساتھ نامکمل وائٹ ہاؤس میں منتقل ہوگئے اور یوں وہ پہلے امریکی صدر تھے جو وائٹ ہاؤس میں رہائش پذیر ہوئے۔ وائٹ ہاؤس کی عمارت اور ملحقہ باغات 18 ایکڑز پر پھیلے ہوئے ہیں۔

-2 یہ عمارت کافی وسیع و عریض ہے :۔ گو وائٹ ہاؤس کی عمارت آج کل کی دیگر عمارتوں کے مقابلے میں زیادہ بڑی تو نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ امریکی خانہ جنگی کے بعد تک بھی ملک کی سب سے بڑی عمارت تھی۔ اس میں 132 کمرے، چھ منزلوں میں 35 غسل خانے، 412 دروازے، 147 کھڑکیاں، 28 آتش دان، 8 سیڑھیاں اور 3 لفٹس ہیں۔ یہ عمارت 168 فٹ لمبی اور 85 فٹ چوڑی (بیرونی برآمدوں کے علاوہ) جبکہ جنوبی سمت سے 70 فٹ اونچی اور شمالی جانب سے 60 فٹ 4 انچ اونچی ہے۔

-3 برطانوی فوج کی طرف سے لگائی گئی آگ :۔ 1812ء کی برطانیہ امریکہ جنگ کے دوران 1814ء میں برطانوی فوج نے وائٹ ہاؤس پر چڑھائی کردی۔ اس حملے میں انہوں نے وائٹ ہاؤس کو نظر آتش کردیا۔ انہوں نے یہ کارروائی امریکی فوجیوں کی جانب سے کینیڈا کے صوبے ’’اونٹاریو‘‘ (Ontario) کے شہر ’’یارک‘‘ (York) میں عمارتوں کو آگ لگانے پر بدلہ لینے کے لیے کی تھی۔ آگ نے وائٹ ہاؤس کے اندرونی حصے اور چھت کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔ امریکی صدر ’’جیمز میڈیسن‘‘ (James Madison) نے وائٹ ہاؤس کے اصل ڈیزائنر ’’جیمز ہوبان‘‘ (James Hoban) کو طلب کرکے عمارت کی فوری تعمیر نو کا حکم دیا۔ بدقسمتی سے صدر میڈیسن اور ان کی بیگم دوبارہ کبھی وائٹ ہاؤس میں آ کر نہیں رہ سکے۔ البتہ تعمیر نو کا کام مقررہ مدت میں مکمل ہوگیا اور 1817ء میں نئے منتخب صدر ’’جیمز مونروے‘‘ (James Monroe) وہاں منتقل ہوگئے۔

-4 1901ء تک اس کا کوئی سرکاری نام نہ تھا :۔ وائٹ ہاؤس گو کہ 1800ء سے تمام ہی امریکی صدور کی سرکاری رہائش گاہ رہا ہے مگر اس کو وائٹ ہاؤس کا نام 1901ء میں صدر ’’تھیوڈرر روز ویلیٹ‘‘ (Theodore Roosevelt) نے اپنی سرکاری دستاویزات میں دیا۔ اس سے قبل اسے ’’پریذیڈنٹ ہاؤس‘‘ یا ’’پریذیڈنٹ منشن‘‘ کہا جاتا تھا۔ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسے وائٹ ہاؤس کا نام اس وقت دیا گیا جب آگ لگنے کے بعد دھویں سے کالی ہوجانے والی دیواروں پر سفید پینٹ کیا گیا۔ تاہم بیشتر تاریخ دان اس نظریے سے اتفاق نہیں کرتے۔

-5 عورتوں کا حق رائے دہی کے حصول کے لیے دو سال تک احتجاج :۔ 10 جنوری 1917ء کو صدر ’’وڈو ولسن‘‘ (Woodrow Wilson) کی صدارت شروع ہونے کے ساتھ ہی عورتوں کے ایک گروہ جو ’’دی سائلینٹ سینٹینلز‘‘ The Silent Sentinels (خاموش محافظ) کہلاتا تھا، نے وائٹ ہاؤس کے گیٹ کے سامنے احتجاج کا آغاز کیا۔ ’’نیشنل وومن پارٹی‘‘ کی نمائندگی کرنے والے عورتوں کے اس گروہ کا مطالبہ تھا کہ عورتوں کو بھی ووٹ کا حق دیا جائے۔ یاد رہے کہ اس وقت تک بھی امریکہ میں عورتوں کو حق رائے دہی حاصل نہ تھا۔ ان عورتوں نے اپنے مطالبے کی منظوری تک وہاں سے ہٹنے اور احتجاج موخر کرنے سے انکار کردیا۔ یہ گروہ وائٹ ہاؤس کے سامنے اڑھائی برس تک مسلسل موجود رہ کر احتجاج کرتا رہا۔ اس دوران انہیں متعدد بار ہراساں کیا گیا، ان کے ساتھ انتہائی برا سلوک اور بدتمیزی روا رکھی گئی۔ یہاں تک کہ انہیں زدوکوب بھی کیا گیا۔ لیکن وہ اپنی دھن کی پکی ثابت ہوئیں۔ بالآخر 4 جون 1919ء کو 19 ویں آئینی ترمیم کے پاس ہونے پر عورتوں کو رائے دہی کا حق مل گیا۔

-6 آسیب زدہ ہونے کی افواہیں :۔ امریکہ کے بہت سے صدور، ان کی بیگمات، عملے کے افراد اور مہمانوں نے مبینہ طور پر بھوتوں کو متعدد بار اس تاریخی عمارت کے کمروں میں منڈلاتے ہوئے دیکھا۔ 1789-97ء میں پہلے امریکی نائب صدر اور 1797-1801ء میں دوسرے امریکی صدر رہنے والے صدر جون ایڈمنٹر کی اہلیہ ’’ابیگیل ایڈمز‘‘ (Abigail Adms) کا بھوت وائٹ ہاؤس کے مشرقی کمرے میں دیکھا گیا جہاں وہ اپنے دھلے ہوئے کپڑے لٹکایا کرتی تھیں۔

مشہور امریکی صدر ابراہم لنکن کی اہلیہ ’’میری ٹوڈ لنکن‘‘ (Mary Todd Lincoln) نے اپنے دوستوں کو بتایا تھا کہ انہوں نے 7 ویں صدر اینڈریو جیکسن کی غصیلے لہجے میں گالیاں دینے اور زور زور سے پاؤں پٹخنے کی آوازیں وائٹ ہاؤس کے کئی ہال کمروں میں سنیں۔ تاہم ان میں سب سے زیادہ شہرت خود صدر ابراہم لنکن ہی کے بھوت کو ملی جس کو دیکھنے کا دعویٰ 30 ویں صدر ’’کیلوین کولیج‘‘ (Calvin Coolidge) صدر جونسن اور صدر روز ویلٹ کی بیگمات نے کیا اور تو اور دوسری جنگ عظیم میں وہائٹ ہاؤس کے قیام کے دوران برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل کو بھی ابراہم لنکن کا بھوت دیکھنے کا ’شرف‘ حاصل ہوا۔

-7 پالتو ریچھ، شیر کے بچے اور دیگر جنگلی جانور :۔ اگرچہ بہت سے امریکی صدور نے وائٹ ہاؤس میں پالتو جانور، جیسے کتے بلیاں وغیرہ رکھے لیکن کئی صدور نے اس سے آگے بڑھ کر ایسے جانور بھی وہاں پالے جو عام پالتو جانوروں میں شمار نہیں کیے جاتے اور فارم ہاؤسز میں رکھے جانے والے جانور تصور ہوتے ہیں۔ تاہم چند صدور تو اس سے بھی آگے جاکر جنگل کے جانوروں کو بھی وائٹ ہاؤس میں لے آئے۔ مشہور امریکی صدر جون ایف کینڈی پالتو جانوروں کے زیادہ ہی دلدادہ تھے۔ ان کے دور صدارت میں وہائٹ ہاؤس کے گراؤنڈز مختلف انواع کے پرندوں، ہامسٹرز Hamsters (چوہے جیسا ایک جانور)، خرگوشوں، کتوں، بلیوں اور گھوڑوں سے بھرے رہتے تھے۔ صدر تھامس جیفرسن نے وائٹ ہاؤس میں ریچھ کے دو بچے رکھے ہوئے تھے۔

امریکہ کے 8 ویں صدر ’’مارٹن وین برن‘‘ نے وائٹ ہاؤس میں شیر کے بچوں کا جوڑا پالا ہوا تھا جو انہیں اومان کے سلطان نے تحفے میں دیا تھا۔ کانگریس نے صدر مارٹن کو مجبور کیا کہ وہ اس جوڑے کو چڑیا گھر میں بھیج دیں کیونکہ وہ نجی نہیں بلکہ ایک سرکاری تحفہ تھا (ہمارے لیے یہ غور طلب بات ہے کہ ہمارے حکمران غیر ملکوں سے ملنے والے تحائف کو ذاتی سمجھ کر اپنے ساتھ گھر لے جاتے ہیں)۔ صدر ولیم ہنری ہیریسن نے ایک بکرا اور ایک گائے وائٹ ہاؤس میں رکھی ہوئی تھیں جبکہ صدر ’’جیمس بچانن‘‘ کے پاس امریکہ کے مشہور گنجے عقابوں کا جوڑا اور کتے کے بچوں، پونی گھوڑوں اور مچھلیوں کا پورا غول موجود تھا۔ صدر گرور کلیولینڈ کو مرغ بانی کا شوق تھا اور وہ اپنا یہ شوق وائٹ ہاؤس میں بھی پورا کرتے تھے۔

-8 وائٹ ہاؤس کے لیے ٹنوں پینٹ درکار ہوتا ہے :۔ دوسری تمام تاریخی عمارتوں کی ہی طرح وائٹ ہاؤس کو جاذب نظر بنائے رکھنے کے لیے مرمت و تزین و آرائش کا کام چلتا رہتا ہے۔ تاہم دوسرے گھروں کے برخلاف وائٹ ہاؤس کے بیرونی حصے کو پینٹ کرنے کے لیے تقریباً 3 ٹن سفید پینٹ درکار ہوتا ہے جس میں سے 300 گیلن پینٹ عمارت کے رہائشی حصے کو پینٹ کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ 1992ء میں جب وائٹ ہاؤس کی تزین نو کی گئی تو اس کی بیرونی دیواروں پر سے رنگ کی قریباً 30 پرتیں اتاری گئیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایسے تو وائٹ ہاؤس کو سالانہ بنیادوں پر پینٹ کیا جاتا ہے، البتہ ہلکی پھلکی لیپا پوتی تو سارا سال ہی جاری رہتی ہے۔

-9 کیا وائٹ ہاؤس کے نیچے خفیہ کمانڈ سینٹر موجود ہے؟ 2010ء میں تعمیراتی عملے نے وائٹ ہاؤس کے مشرقی حصے کے سامنے واقع گراؤنڈ میں ایک بہت بڑا گڑھا کھودنا شروع کیا۔ اس دوران اس حصے کو سبز رنگ کی باڑ سے ڈھانپ دیا گیا تھا تاکہ یہاں ہونے والے تعمیراتی کام کو خفیہ رکھا جاسکے۔ دو سال بعد یہ باڑ ہٹا دی گئی اور زمین کی سطح دوبارہ ہموار کرکے پختہ کردی گئی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہاں کچھ کام ہوا ہی نہیں۔ سرکاری طور پر بتایا گیا کہ یہ تعمیراتی کام مشرقی حصے میں موجود زیر زمین سہولیاتی مشینری جیسے ایئرکنڈیشنگ اور سیوریج سسٹم کی مرمت اور بحالی کے سلسلے میں کیا گیا تھا مگر کنکریٹ سے لدے درجنوں بھاری بھرکم ٹرکوں کی آمدورفت اور بڑے بڑے شہتیروں کے یہاں لائے جانے نے معاملے کو متجسس شہریوں کے لیے مشکوک بنا دیا اور طرح طرح کی باتیں پھیلنے لگیں۔ کہا جاتا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں زیر زمین خفیہ کمانڈ سینٹر بنانے کا منصوبہ 50 برس قبل بنایا گیا تھا جو آخر کار اب روبہ عمل لایا گیا۔

-10 وائٹ ہاؤس میں ہونے والے بدتہذیبی کے واقعات :۔ جدید دور میں امریکہ کے نئے آنے والے اور سبکدوش ہونے والے صدور کے درمیان اقتدار کی منتقلی کا عمل نہایت پرسکون اور باوقار رہا ہے اور حالیہ برسوں میں سابق ہوجانے والے چند صدور نے انتہائی پر امن طریقے سے وائٹ ہاؤس کو خیر باد کہا۔ تاہم تاریخ میں ایسا بھی ہوا کہ رخصت ہونے والے کچھ صدور نے نئے صدر کے ساتھ بات چیت تک سے گریز کیا۔ اس کی ایک مثال 1932ء میں صدر ہوور اور روز ویلٹ کے مابین دیکھنے میں آئی۔

البتہ کئی جانے والی حکومتوں نے آنے والی انتظامیہ کے ساتھ بے ضرر قسم کے مذاق ضرور کیے۔ خاص طور 2001ء میں جب جارج بش کی انتظامیہ اقتدار سنبھالنے لگی تو بظاہر بل کلنٹن کے عملے نے وائٹ ہاؤس کو 20 ہزار ڈالرز کا نقصان پہنچایا۔ انہوں نے 30 تا 60 کمپیوٹرز کے کی بورڈز‘‘ میں سے ”W” کے حروف کے بٹن نکال کر وائٹ ہاؤس کی دیواروں پر مختلف جگہوں پر چسپاں کردیئے۔ علاوہ ازیں مبینہ طور پر انہوں نے دروازوں کی نابیں چوری کرلیں، میزوں کی درازیں گوند لگا کر چپکا دیں اور قریباً 100 ٹیلی فون لائنز ڈائیورٹ کردیں تاکہ ان پر آنے والی کالز دوسرے نمبروں پر منتقل ہوجائیں اور نئے عملے کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔

-11 وائٹ ہاؤس میں کل وقتی 3000 سے زائد لوگ کام کرتے ہیں :۔ جب سبکدوش ہونے والا کوئی امریکی صدر وائٹ ہاؤس سے رخصت ہوتا ہے تو وہ اپنا عملہ بھی ساتھ لے جاتا ہے تاکہ آنے والا نیا صدر اپنی مرضی کا عملہ تعینات کرسکے۔ مگر یک مشت 3 ہزار 3 سو کل وقتی اہلکار بھرتی کرنا کوئی کھیل نہیں ہے۔ ان میں وہ لوگ شامل نہیں جو وہاں جزوقتی کام کرتے ہیں یا وہ لوگ جن کی ملازمت تو وائٹ ہاؤس میں ہی ہوتی ہے لیکن ان کے دفاتر وائٹ ہاؤس سے باہر ہوتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے صرف دفتر ہی میں 500 افراد ملازم ہوتے ہیں۔ نائب صدر کے دفتر میں 100، فوجی دفتر میں 1300 اور مینجمنٹ اینڈ بجٹ کے دفتر میں تقریباً 500 لوگ جبکہ 500 سے زائد خفیہ اہلکار اور 200 افراد صدر کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں۔

-12 وائٹ ہاؤس کا اصلی سنگ بنیاد غائب ہوگیا :۔ وائٹ ہاؤس کے اسراروں میں سب سے زیادہ نمایاں اور قابل ذکر اس کے اصلی سنگ بنیاد کا غائب ہوجانا ہے۔ 1792ء میں اپنے نصب کیے جانے کے محض 24 گھنٹے بعد ہی وائٹ ہاؤس کا سنگ بنیاد اور کندہ کی ہوئی پیتل کی پلیٹ غائب ہوگئی اور اس کے بعد آج تک کسی نے انھیں نہیں دیکھا۔ وائٹ ہاؤس کی تعمیر کا کام کرنے والے راج مستریوں نے اس کے غیاب سے خود کو بری ذمہ قرار دیا۔ متعدد صدور جن میں ’’روز ویلیٹ اور ٹرومین‘‘ شامل ہیں، نے اس کو تلاش کروانے کی کوششیں کیں مگر ناکام رہے اور یہ کوششیں لاحاصل اور بے سود رہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ یہ سنگ بنیاد وائٹ ہاؤس کے ’’روزگارڈن‘‘ کی دو سنگی دیواروں کے درمیان چھپا ہوا ہے تاہم اس بات کی آج تک تصدیق نہیں ہوسکی۔

The post وائٹ ہاؤس کے چند دلچسپ حقائق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2zFualp
via IFTTT

انسانوں کی حیوانیت کے ہاتھوں مٹتے جانور ایکسپریس اردو

کینیا کے علاقے اوسیوان میں دو شیر کئی ہفتوں سے مویشیوں اور بھیڑ بکریوں کوخوراک بنارہے تھے۔ نقصان اٹھاتے اٹھاتے ماسائی قبیلے کے چرواہوں کی ہمت جواب دے چکی تھی۔

گزشتہ دسمبر میں ماسائیوں نے کینیا وائلڈ لائف سروس کو تنبیہہ کردی تھی کہ انھیں خونخوار درندوں سے نجات دلائی جائے بہ صورت دیگر وہ خود اس مسئلے کا حل تلاش کرلیں گے۔ اس سنگین مسئلے پر سوچ بچار کے لیے قبیلے میں کئی اجتماعات ہوچکے تھے۔ ایسے ہی ایک اجتماع میں نوجوان ماسائی جنگجُو سواہیلی نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر وائلڈ لائف سروس نے جلد ہی شیروں کا خاتمہ نہ کیا تو وہ خود انھیں ہلاک کر ڈالیں گے کیوں کہ ’ہم جانتے ہیں کہ شیر کو کیسے مارا جاتا ہے۔‘

سواہیلی کا اشارہ محض اپنے ترکش میں سجے تیروں کی جانب نہیں تھا بلکہ اس کی مراد قاتل زہر سے بھی تھی جسے اب گلہ بان اور چرواہے شیروں سے اپنے مویشیوں کی حفاظت کے لیے مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ شیر کینیا کا قومی نشان و جانور ہے تاہم ماسائی چرواہے اسے قومی علامت کے طور پر نہیں بلکہ ایسے عفریت کے طور پر دیکھتے ہیں جو ان کے ذریعۂ معاش کو نگل جاتا ہے۔ کینیا وائلڈ لائف سروس شیروں کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہے، تاہم مقامی باشندے اس کی قومی جانور کو نقصان نہ پہنچانے کی اپیلوں پر اب کان نہیں دھرتے۔

کینیتھ اولے ناشوو نے جو کینیا وائلڈ سروس سے بہ طور سنیئر وارڈن وابستہ ہیں، دیہاتیوں کے ہاتھوں شیروں کی ہلاکت کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد فیصلہ کیا کہ قومی جانور کے تحفظ کے لیے انھیں اوسیوان میں امبوسیلی نیشنل پارک کے شمالی حصے سے، جہاں مویشیوں کی ہلاکتوں کے واقعات پیش آرہے تھے، ساؤ ویسٹ کے نیشنل پارک میں منتقل کردیا جائے جو اوسیوان سے زیادہ دور نہیں تھا، تاہم یہ مرحلہ آسان نہ ہوتا، اس کے لیے شیروں کو بے ہوش کرنا ضروری تھا۔ کرسمس سے ایک دن پہلے کی شام اولے ناشوو اور ان کے ساتھی رینجرز شیروں کے تحفظ کے لیے فعال ’ لائن گارجینز‘ نامی گروپ کے رکن لیوک مامائی کی ہمراہی میں ایک لینڈ کروزر میں سوار ہوکر جھاڑیوں کے درمیان نسبتاً کُھلی جگہ پر پہنچے اور گاڑی کا انجن بند کردیا۔ آسمان پر چاند روشن تھا اور اس کی چاندنی میں اردگرد کا منظر بڑی حد تک واضح تھا۔ کینیتھ اور اس کے ساتھی شیروں کی آمد کے منتظر تھے۔

مامائی نے جو ماسائی قبیلے کا فرد ہے، گاڑی کی چھت پر لاؤڈ اسپیکر رکھا، کچھ ہی لمحوں کے بعد شب کی تاریکی میں موت سے ہمکنار ہوتی گائے کے ڈکرانے کی آواز گونجنے لگی جسے نظرانداز کرنا شیر کے لیے ممکن نہیں۔ کینیتھ اور اس کی ٹیم کو زیادہ دیر انتظار کی زحمت نہیں اٹھانی پڑی۔ لب مرگ گائے کی صدا خاموش ہوئے پندرہ منٹ ہی گزرے تھے کہ دائیں جانب کی جھاڑیوں سے ایک بڑے چوپائے کا ہیولا نکلتا ہوا دکھائی دیا۔ یہ ایک شیرنی تھی۔ وہ گاڑی سے دس گز کے فاصلے پر آکر رُک گئی اور پھر محتاط انداز میں ایک پستہ قامت درخت کی جانب بڑھنے لگی جس کی شاخوں سے مامائی نے بکری کی آلائشیں لٹکا دی تھیں۔ اولے ناشوو نے دوسری لینڈکروزر میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو اشارہ کیا جو ہاتھوں میں ڈارٹ رائفل (بے ہوشی کی برچھی فائر کرنے والی بندوق) تھامے ہوئے تھا۔

چند ہی لمحوں بعد اولے ناشوو اپنے آدمیوں کو بے ہوش شیرنی پنجرے میں منتقل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ایک کام یاب مشن کی تکمیل پر ساتھیوں کو مبارک باد پیش کررہا تھا۔ اوولے کا کہنا تھا کہ دو شیرنیوں میں سے ایک کی ’گرفتاری‘ سے شیروں کی جوڑی کو زک پہنچے گی اور دونوں بھائی مویشیوں کو نشانہ بنانا چھوڑ دیں گے۔ اوولے کا یہ دعویٰ بہ ظاہر عجیب و غریب تھا کیوں کہ دونوں شیر آزاد تھے اور ان کے منہ کو خون لگ چکا تھا۔

رات خاصی گزر چکی تھی۔ میں اور میرا رہبر اور شکاری پرندوں کا ماہر سائمن تھامسیٹ، اس کی لینڈکروزر میں سونے کی سعی کررہے تھے جب غراہٹ کی آوازیں ہمارے کانوں سے ٹکرائیں۔ بہ تدریج یہ آوازیں قریب آتی چلی گئیں۔ اندازہ ہوا کہ یہ غراہٹیں دو شیروں کی تھیں جو ممکنہ طور پر شیرنی کو کھوج رہے تھے۔ ڈارٹ گن کی مدد سے ایک شیر کو پکڑ لیا گیا جب کہ دوسرا بچ نکلا۔ پکڑے گئے شیر اور شیرنی کو بعدازاں ساؤ ویسٹ کے نیشنل پارک میں چھوڑ دیا گیا۔ سابقہ تجربات کی بنیاد پر اندازہ تھا کہ ممکنہ طور پر دونوں درندے زندہ نہیں رہ پائے ہوں گے کیوں کہ پہلے سے موجود شیروں نے انھیں اپنا ساتھی نہیں بلکہ درانداز تصور کیا ہوگا اور اس کا نتیجہ عموماً نوواردوں کی پُرتشدد موت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔

کے ڈبلیو ایس کے شعبہ ویٹرنری خدمات کے سربراہ فرانسس گاکو نے جوکینیا میں جنگلی حیوانات کی بہبود کے ذمے دار ہیں، شیروں کو آزاد کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا،’’ہم انھیں دوسرا موقع دینا چاہتے ہیں۔‘‘ تاہم فرانسس کے برعکس شیروں کے کئی ماہرین کا یقین ہے کہ شیروں کو نئے مسکن میں منتقل کرنے کے بجائے انھیں دیکھتے ہی ہلاک کردینا انسانیت کے زیادہ قریب ہوتا۔

اسی دوران وارڈن کی سوچ کے برخلاف بچ جانے والے شیر نے مویشیوں کو خوراک بنانے کا سلسلہ جاری رکھا، تاہم اس بار گلہ بانوں نے، جو ممکنہ طور پر مقامی نہیں تھے، بیرونی مدد طلب نہیں کی۔ انھوں نے مُردہ بکری اور گائے پر زہریلے کیمیکل چھڑک دیے۔ شیر اور شیرنی نے جب ان مُردہ جانوروں کے گوشت سے شکم سیری کی تو زہرخورانی کا شکار ہوکر جان سے چلے گئے۔ جب اس واقعے کی اطلاع کے ڈبلیو ایس کو ہوئی اور وہاں سے تحقیقات کے لیے ویٹرنیرین ( جانوروں کا ڈاکٹر) بھیجا گیا، اس وقت تک شیروں کی نعشیں گل سڑ چکی تھیں۔

ویٹرنیرین کو ’جائے وقوعہ‘ پر لگڑبھگڑ اور گدھ کی باقیات بھی نظر آئیں جو یقیناً مُردہ مویشیوں کا زہرآلود کھانے کے باعث ہلاک ہوئے تھے۔ کینیا میں یہ مناظر عام ہوچکے ہیں۔ بدقسمتی سے ویٹرنیرین نے جانچ کے لیے مُردہ مویشیوں اور شیروں کے نمونے حاصل نہیں کیے تھے حالاں کہ کئی قسم کے زہر ایسے ہیں جو طویل عرصے تک متأثرہ جانوروں کی باقیات میں موجود رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ معلوم نہیں ہوسکتا تھا کہ شیروں کو ہلاک کرنے کے لیے کون سا زہر استعمال کیا گیا تھا، جو اس کا علم رکھتے تھے وہ ممکنہ طور پر اس بارے میں بات کرنے سے انکاری ہوتے۔

کینیا اور افریقا بھر میں چھوٹے جانوروں کو بہ غرض حصول خوراک، ہاتھیوں اور گینڈوں کو ان کے سینگ، اور دیگر جانوروں کو ادویہ میں ان کے اعضا کی ضرورت کی وجہ سے زہر دے کر مار دینے کا رواج عام ہوچکا ہے، یہ واضح نہیں ہے کہ انسانی صحت پر زہر کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ زہر کے استعمال کی ایک اور تکلیف دہ صورت انسان اور جنگلی جانوروں کے مابین ٹھن جانے کے بعد سامنے آتی ہے جب کوئی شیر یا لگڑ بھگڑ مویشیوں کو نشانہ بناتا ہے، یا پھر کوئی ہاتھی جب ان کی فصلوں اور املاک کو نقصان پہنچاتا ہے۔ زہر کی یہ قسم کیڑے مار زہر پر مشتمل ہوتی ہے کیوں کہ حشرات کُش زہر ارزاں قیمت پر اور عام مل جاتے ہیں نیز مہلک بھی ہوتے ہیں۔

گاکویا اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ زہر کا استعمال ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے، اور اوسیوان کی صورت حال سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ ہنوز حل طلب ہے۔

مزاحمت کے طور پر زہر دینے کے واقعات کہیں بھی کسی بھی لمحے پیش آسکتے ہیں مگر اکثر اس کے شواہد من گھڑت اور نامکمل ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود کینیا کی جنگلی حیات کی نگرانی کرنے والے ماہرین حیاتیات، کینیا والڈ لائف سروس کے ملازمین اور جنگلی حیاتیات کے تحفظ کے ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ زہر دینے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے کیوں کہ انسانوں اور جنگلی حیات کے مابین تصادم بڑھ رہا ہے۔

کینیا کے محفوظ علاقے بشمول جنوب کا ماسائی مارا، امبوسیلی، ساوو ویسٹ اور ساوو ایسٹ پارک، سب کے سب محاصرے میں ہیں۔ شاہراہوں، ریلوے لائنوں، بجلی گھروں کی تعمیر اور بھاری صنعتوں، ہائی ٹیک سینٹرز اور وسعت پذیر شہروں کو بجلی کی فراہمی کے لیے ٹرانسمیشن لائنوں کا پھیلتا ہوا جال محفوظ علاقوں کے گرد گھیرا تنگ کرتا جارہا ہے۔ کینیا کی آبادی جس کی ضروریات کے لیے مقامی وسائل پہلے ہی ناکافی ہوچکے ہیں، 2050ء تک متوقع طور پر دُگنی ( آٹھ کروڑ ) ہوجائے گی۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ اراضی کو زیرکاشت لایا جارہا ہے، جس کے نتیجے میں جانوروں کی نقل وحرکت محدود تر ہوتی جارہی ہے۔ ہاتھی جیسے بڑے ممالیہ کے صورت حال خاص طور سے مخدوش ہے جو موسم میں تبدیلی کے ساتھ غذا اور پانی کی تلاش اور افزائش نسل کے لیے ایک سے دوسرے علاقے کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔

شیر کینیا کا قومی جانور ہے مگر اب ان کی تعداد دو ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے جو پانچ عشرے قبل بیس ہزار تھی۔ علاوہ ازیں 90 فی صد شیر اپنے اصل مسکن یا علاقوں سے غائب ہوچکے ہیں۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ آئندہ بیس برسوں میں کینیا میں شیروں کی تعداد اتنی رہ جائے گی جتنی چڑیا گھروں میں ہوتی ہے اور وہ چڑیا گھر جیسے ہی حالات میں رہنے پر مجبور ہوں گے۔ شیروں کو زہر دے کر مارنے کا ہر واقعہ کینیا کو جنگلی حیات کی تصویر کشی کرنے والے معروف فوٹوگرافر پیٹر بیئرڈ کے بہ قول ’اینڈ آگ دی گیم‘ کے قریب لے جارہا ہے۔

دنیا بھر میں زمانۂ قدیم سے جانوروں کے شکار اور دشمنوں کو ہلاک کرنے کے لیے زہر کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مشرقی افریقا میں  Acocantheraنامی درخت میں ایسا کیمیائی مرکب پایا جاتا ہے جس کی معمولی مقدار ایک بڑے ممالیہ کے دل کو ناکارہ کردینے کے لیے کافی ہے، یہ زہر صدیوں سے مقبول ہے۔ کچھ عشروں سےحشرات کش زہر بھی جانوروں کی ہلاکت کے لیے استعمال ہونے لگے ہیں۔

اس کا آغاز 1980ء کی دہائی میں ہوا تھا جب براعظم افریقا میں آبادی تیزی سے بڑھنے لگی تھی اور اسی مناسبت سے سَر چھپانے کے لیے چھت اور پیٹ بھرنے کے لیے خوراک کے حصول کی مسابقت میں بھی تیزی آتی گئی۔ زمین داروں اور گلہ بانوں پر انکشاف ہوا کہ حملہ آوروں (شیر، تیندوا، چیتا، جنگلی کتے، گیدڑ ) مردار خوروں (بھیڑیے، گدھ) اور فصلوں کو نقصان پہنچانے والے جانوروں (ہاتھی، کچھ اقسام کے پرندے ) کو ہلاک کرنے کے لیے حشرات کش زہر کا بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کچھ علاقوں میں لوگ ان ہلاکت خیز مرکبات کو بطخوں اور مرغابیوں وغیرہ کا شکار کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ بطخیں بعدازاں فروخت کردی جاتی ہیں جن کا گوشت خریداروں کی خوراک بنتا ہے۔

زہر دینے کے واقعات کی روک تھام کے لیے قومی سطح پر ایک تحریک اس وقت شروع ہوئی جب مشرقی افریقا کی قدیم ترین نیچرل ہسٹری آرگنائزیشن، نیچر کینیا پر انکشاف ہوا کہ شمالی علاقوں میں کسان شیروں کو حشرات کش زہر کی مدد سے ہلاک کررہے ہیں۔ نیچر کینیا کی برڈ کمیٹی میں شامل ڈیرسی اوگاڈا نے اس مسئلے کی وسعت کا اندازہ کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر سروے ڈیزائن کیے اور ان کی نگرانی کی۔ سروے کرنے کے لیے انھوں نے مارٹن اوڈینو نامی ایک پُرجوش ماہر طیوریات کی خدمات حاصل کیں۔

سروے کے لیے انھوں نے جن مقامات کا انتخاب کیا ان میں سے ایک مغربی کینیا میں جھیل وکٹوریا کے کنارے بنیالا کا علاقہ تھا جہاں دور تک دھان کے کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ غیرسرکاری اطلاعات کے مطابق یہاں کاشت کار فیوراڈان 5G نامی حشرات کش زہر کے ذریعے پرندوں کو ہلاک کررہے تھے۔ فیوراڈان 5G ارغوانی رنگ کا دانے دار کیمیائی مرکب ہے جسے امریکا کی ریاست فلاڈلفیا میں قائم ایک کمپنی ایف ایم سی تیار کرتی ہے۔ اس حشرات کُش زہر میں کاربوفوران نامی ایک مرکب بھی شامل ہے۔ یہ اتنا زہریلا ہوتا ہے کہ کینیڈا، یورپی یونین، آسٹریلیا اور چین میں اس کے استعمال پر پابندی ہے یا پھر اس کا استعمال انتہائی محدود ہے۔ امریکا میں خوردنی فصلوں پر اس کے استعمال کی ممانعت ہے، اس کے باوجود کینیا میں اس کی درآمد کی اجازت ہے۔ کینیا میں اس زہر کی درآمد کا اجازت نامہ جوانکو گروپ کے پاس ہے جس کا مرکزی دفتر نیروبی میں واقع ہے۔

بنیالا کے علاقے میں پہلے دورے پر اوڈینو نے دیکھا کہ زرعی ادویہ کی دکانوں پر فیوراڈان 5G عام دستیاب تھا اور کوئی بھی اسے خرید سکتا تھا۔ انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ شکاری چاول اور گھونگھوں پر اس زہر کا چھڑکاؤ کرکے انھیں بطخوں اور ایک قسم کے بگلے کا شکار کرنے کے لیے استعمال کررہے تھے جو ان اشیاء کو اپنی خوراک بناتے ہیں۔ جانور ہزاروں کی تعداد میں مر رہے تھے۔ شکاری ، مُردہ پرندے مقامی باشندوں کو فروخت کردیتے تھے، جن کا خیال تھا کہ اگر گوشت کو اچھی طرح پکالیا جائے تو وہ زہریلے اثرات سے تقریباً پاک ہوجاتا ہے۔ پرندوں کے زہریلے گوشت سے بنا سوپ پینے والے کئی اشخاص نے اوڈینو کو بتایا کہ سوپ پینے کے بعد انھیں گھٹنوں میں کمزوری کا احساس ہوتا ہے، یہ علامت ایک ایسے مرکب کی ہے جو دماغی خلیوں کی سرگرمیوں پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔ تاہم اب تک اس ضمن میں کوئی تحقیق نہیں کی گئی۔

اوگاڈا نے اپنی حاصل کردہ معلومات ’’والڈ لائف ڈائریکٹ‘‘ کی چیف ایگزیکٹیو آفیسر پاؤلا کاہومبو کو پیش کیں جو کینیا میں قدرتی وسائل کے تحفظ کی سب سے بااثر حامی ہیں، انھیں بھی مختلف علاقوں سے اسی نوع کے واقعات کے بارے میں خبریں مل رہی تھیں۔ کاہومبو نے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی۔ اس کا پہلا اجلاس اپریل 2008 میں ہوا۔ اوگاڈا کے مطابق یہ ایک کام یاب اجلاس تھا، کیوں کہ پہلی بار قدرتی وسائل کے تحفظ کے حامی ایک ہی کمرے میں بیٹھ کر اس اہم مسئلے پر تبادلۂ خیال کررہے تھے۔ کاہومبو جانتی تھی کہ سنگین صورت حال کے باوجود حکومت کو اس اس کیمیکل کی درآمد پر پابندی کے لیے راضی کرنا آسان نہیں ہوگا جس پر کینیا کی وسعت پذیر زراعتی صنعت کا دارومدار تھا۔ کاہومبو کہتی ہیں کہ ابھی تک اس کیمیکل کا سستا اور اتنا ہی مؤثرمتبادل دستیاب نہیں ہوسکا تھا۔

زہر کی مدد سے جنگلی حیات کی ہلاکت کو عالمی توجہ 2009ء میں اس وقت حاصل ہوئی جب امریکی ٹیلی ویژن چینل سی بی ایس کے پروگرام میں کینیا میں فیوراڈان  5G کے ذریعے شیروں کی ہلاکت اور اس کیمیائی مرکب کی دست یابی پر ایک جامع رپورٹ نشر کی گئی۔ بعدازاں فیوراڈان 5Gبنانے والی کمپنی نے کینیا میں اپنی مصنوعہ مارکیٹ سے اٹھالی اور عوام الناس سے اس زہریلے مرکب کی بوتلیں واپس خریدنے کی اسکیم بھی چلائی۔ یہ حکمت عملی ایک حد تک کام یاب رہی کیوںکہ 2010ء کے بعد سے زرعی ادویہ کی دکانوں پر فیوراڈان 5G فروخت نہیں ہوئی، لیکن کاربوفیوران اب بھی عام دست یاب ہے۔

کبھی کبھار فیوراڈان افریقا ہی کے بعض علاقوں سے کینیا تک پہنچنے میں کام یاب ہوجاتی ہے۔ تاہم فیوراڈان کی بندش کے بعد اب مارکیٹ میں نقلی فیوراڈان موجود ہے، علاوہ ازیںکاربوفیوران سے بنی چینی اور بھارتی مصنوعات بھی بیچی جارہی ہیں۔ ایف ایم سی کی تیارکردہ گلابی رنگ کی ایک اور مصنوعہ جو ’’مارشل‘‘ کہلاتی ہے، بھی حملہ آور جانوروں کو ہلاک کرنے کے لیے مُردہ جانوروں پر چھڑکی جارہی ہے۔ مارشل میں کاربوسلفان نامی مرکب شامل ہے جو کم ارتکاز پر کاربوفیوران میں ٹوٹ جاتا ہے۔

اس کے باوجود یہ بے حد زہریلا ہوتا ہے۔ کاہومبو، اوڈینو، اوگاڈا اور دوسروں کی کوششوں کے باوجود کینیا کی حکومت نے ہنوز کاربوفیوران پر پابندی عائد نہیں کی۔ صدر اہورو کینیاٹا کی پہلی ترجیح فوڈ سیکیورٹی ہے اور کینیا کی مسلسل بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر اس زہریلے مرکب کی درآمد پر پابندی مشکل دکھائی دیتی ہے۔ آبادی میں اضافے کا مطلب ہے خوراک کی بڑھتی ہوئی طلب، اور اس طلب کو پورا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ اراضی کو زیرکاشت لانا ناگزیر ہے، اور پھر اسی مناسبت نباتات اور حشرات کش زہر کا استعمال بھی وسیع ہوتا چلا جائے گا، چناں چہ ان پر پابندی کا امکان بہ ظاہر دور دور تک نظر نہیں آرہا۔

ایف ایم سی کمپنی کی ترجمان کوری اینے ناٹولی نے ای میل کے جواب میں لکھا کہ پہلی بار ہم نے ’’مارشل‘‘ کے غلط استعمال کے بارے میں سنا ہے، کمپنی اس دعوے کی تحقیقات کررہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایف ایم سی کینیا میں فیورڈان کی دست یابی کے ضمن میں کوئی ذمے داری قبول نہیں کرتی۔

کینیا کی مارکیٹ کے فیوراڈان کے اٹھائے جانے کے بعد بھی حشرات کش زہر کا استعمال اسی طرح کیا جارہا تھا۔ دسمبر 2015ء میں یہ مسئلہ ایک بار پھر اس وقت اجاگر ہوا جب ایک شیر اور دو شیرنیوں پر مشتمل گروپ موت کا شکار ہوا۔ کینیا میں یہ شہر بے حد مقبول تھے اور ’’ مارش پرائڈ‘‘ کہلاتے تھے۔ مقبولیت کے پیش نظر انھیں بی بی سی ٹیلی وژن کی سیریز سیریز ’’ بگ کیٹ ڈائری‘‘ میں بھی پیش کیا گیا تھا۔ دسمبر 2015ء کے ابتدائی ہفتے میں ان درندوں نے ماسائی مارا کی حدود میں کئی مویشی ہلاک کردیے۔

جواباً گلہ بانوں نے ایک جانور کی لاش پر زہر کا چھڑکاؤ کردیا۔ نتیجتاً ایک شیرنی موقع ہی پر ہلاک ہوگئی، دوسری جو زہرخوانی کے باعث بے حد لاغر ہوگئی تھی اسے لگڑ بگڑوں نے شکار کرلیا۔ زہریلے اثرات کے سبب نقاہت اور کمزوری کا شکار ہونے والے شیر کو بھینسوں نے روند ڈالا۔ معذوری کا شکار ہوجانے والے شیر کو اذیت سے نجات دلانے کے لیے کینیا وائلڈ سروس کے عملے کو اسے زہر دینا پڑا۔ شیروں کے پوسٹ مارٹم سے ان کے جسم میں کاربوسلفان کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔

جنگلی حیات کے لیے محفوظ قرار دیے گئے علاقوں کی سرحدیں جانوروں کے لیے خطرناک بن چکی ہیں تاہم بڑے اور زیادہ متحرک رہنے والے جانوروں کے لیے مارا ریجن کا مشرقی حصہ سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ محفوظ علاقے کے اطراف گلہ بانی زوروں پر ہے، اور مویشیوں کے ریوڑ اور باڑوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے، اس کے نتیجے میں کھلے میدان سکڑتے جارہے ہیں، چناں چہ ماسائی کے گڈریے اور گلہ بان بالخصوص خشک سالی کے دوران مویشیوں کو چرانے کے لیے محفوظ علاقے کی حدود میں لے آتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہزاروں گائے بھینسیں شیروں کے مسکن میں چلتی پھرتی نظر آنے لگتی ہیں۔ شیر کو دھیمی چال چلنے اور موٹ عقل والا شکار زیادہ پسند ہوتا ہے، چناں چہ وہ مویشیوں پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔ ایسے ملک میں جہاں بندوقوں کا قانونی طور پر حصول مشکل ہے، وہاں زہر اور زہریلے تیر ہی گلہ بانوں کا ہتھیار ٹھہرتے ہیں جن سے شیروں اور دوسرے حملہ آور جانوروں کا شکار کیا جاتا ہے۔

اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے کہ شکار کے اس رجحان، جانوروں کے خلاف تشدد کو ختم یا محدود کرنا مقامی لوگوں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں، کچھ غیرسرکاری تنظیموں (این جی اوز) نے ایم نئی حکمت عملی اپنائی ہے جس میں جانوروں کے تحفظ کی کوششوں میں مقامی آبادی کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔

کچھ معروف این جی اوز اسی طرح کی حکمت عملیوں سے کام لے رہی ہیں۔ ان حکمت عملیوں میں زیبرا اور اسی جسامت کے جانوروں کو دستی آہنی پھندوں سے بچانے کے لیے گشت کرنا، مویشیوں کی ہلاکت کی صورت میں مالکان کے نقصان کی تلافی کرنا، اور رات میں جانوروں کو بند کرنے کے لیے مضبوط چوبی اور جالی کی باڑ لگا ہوا احاطہ تعمیر کرنا ہے۔ 2010ء سے اینے کینٹ ٹیلر فنڈ نامی این جی او نے مارا ریجن میں 800 احاطے تعمیر کیے ہیں۔ اس کے نتیجے میں مویشیوں پر درندوں کے حملوں میں کمی آئی ہے، بہ الفاظ دیگر اس علاقے میں شیروں کو زہر دینے کا جواز قریب قریب ختم ہوگیا ہے۔

این جی اوز کی سب سے کام یاب حکمت عملی مقامی رہائشیوں کو بہ طور رینجرز، تصفیہ کار، اور جنگلی حیات کا محافظ بھرتی کرنا ہے۔ بگ لائف نامی این جی او کے شریک بانی اور افریقا میں ڈائریکٹر آپریشنز رچرڈ بونہم کہتے ہیں کہ جنگلی حیات کی تنظیم کاری دراصل لوگوں کی تنظیم کاری ہے۔

جنگلی حیات کو زہر کا شکار ہونے سے بچانے میں ناکامی کا ذمہ دار بہ آسانی کینیا وائلڈ لائف سروس کو ٹھہرایا جاسکتا ہے، اور کچھ لوگ اسے موردالزام ٹھہراتے بھی ہیں۔ میں نے جن علاقوں کا بھی سفر کیا وہاں نااہلی کے واقعات سُننے کو ملے؛ زہر کا شکار ہونے والے جانوروں کے نمونے حاصل نہیں کیے گیے، نمونے ضایع ہوگئے، نمونوں کی شناخت میں غلطیاں کی گئیں اور بے پروائی برتی گئی، نمونوں کی جانچ نہیں کی گئی، اور نہ ہی کبھی لیبارٹری سے جانچ کے نتائج موصول ہوپائے۔ زخمی جانوروں کا بروقت اور مناسب طور پر علاج نہ ہونے کی شکایات بھی موجود تھیں جو صحت یاب ہوسکتے تھے مگر موت کا شکار ہوگئے، علاوہ ازیں جائے وقوعہ پر ناقص تحقیقات، مربوط اور جامع معلومات کی کمی جیسے مسائل بھی موجود تھے جن کی بنیاد پر پالیسی اور طریقہ ہائے کار وضع کیے جاتے۔

تاہم مارا کنزروینسی کے سربراہ برائن ہیتھ کے مطابق یہ بھی حقیقت ہے کہ کینیا وائلڈ لائف سروس کو کئی بڑے مسائل کا سامنا ہے جس میں سب سے اہم فنڈز کی قلت ہے۔ علاوہ ازیں کیتھ کہتے ہیں کہ جنگلی حیات کا تحفظ حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں، اسی لیے کے ڈبلیو ایس کے مقابلے میں ٹوارزم بورڈ کو زیادہ فنڈز دیے جاتے ہیں، حالاں کہ جنگلی حیاتیات اور خوب صورتی تفریحی مقامات جن کے تحفظ اور دیکھ بھال کی ذمے داری کے ڈبلیو ایس کے سپرد ہے، کے بغیر سیاحتی صنعت بیٹھ جائے گی۔

ملک کے بیشتر نیشنل پارکوں کو عملے کی کمی کا سامنا ہے اور دست یاب اہل کاروں کی اکثریت بھی مناسب تربیت یافتہ نہیں۔ ویٹرنری ڈاکٹر کام کے بوجھ سے لدے ہوتے ہیں، کیوں کہ قانون کے تحت انھیں انسانوں اور جانوروں کے مابین تصادم میں موخرالذکر کو پہنچنے والے ہر چھوٹے بڑے زخم کا علاج کرنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے زہر دینے کے واقعات کے نتیجے میں جانوروں کی ہلاکتوں پر ضروری کارروائی کرنے میں تاخیر ہوجاتی ہے۔ کے ڈبلیو ایس کے اہل کار فرانسس گا کویا کہتے ہیں کہ یہ بڑی مایوس کن صورت حال ہے، بنیادی وسائل دستیاب نہیں ہیں، گاڑیاں بہت کم ہیں جن کے لیے اکثر اوقات ایندھن بھی مہیا نہیں ہوتا۔

اس قومی معمے کا ایک اور نظرانداز کردہ پہلو پولیس اور ججوں کا کردار ہے۔ ’مارش پرائڈ‘ کو زہر دینے کے الزام میں مارا کنزروینسی کے رینجرز نے دو مشتبہ افراد پکڑے تھے، مگر کوئی کیس درج کیے اور مقدمہ چلے بغیر ان کی ضمانت ہوگئی۔ اگرچہ ماضی کی نسبت اس نوع کے معاملات میں قانونی اور عدالتی کارروائی کی شرح بڑھ گئی ہے تاہم بیشتر ملزمان باعزت بری ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے جنگلی جانوروں کو زہر دینے کے واقعات اسی طرح جاری ہیں۔ کاربوفیوران اگرچہ مقبول ہے تاہم اس کے علاوہ گھریلو تیارکردہ روایتی زہریلے مرکبات بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ رواں سال مسائی مارا میں ایک ہی واقعے میں چالیس کے لگ بھگ کرگس ہلاک ہوگے تھے۔ مشرقی ساوو میں ہاتھیوں کے شکاری زہریلے تیروں سے کام لیتے ہیں۔ گذشتہ برس پندرہ ہاتھی زہریلے تیروں کا شکار ہوئے تھے۔

کچلہ کے پودے سے حاصل کردہ زہریلا مرکب تنزانیہ سے کینیا میں موٹرسائیکل پر اسمگل کرنا بہت آسان ہے اور پھولوں کے کھیتوں( فلاور فارم) پر کام کرنے والا کوئی بھی کاشت کار یا ملازم نیا حشرات کش زہر مقامی بلیک مارکیٹ کو مہیا کرسکتا ہے۔ زہر تو زہر۔۔۔۔ حد تو یہ ہے کہ سیمنٹ بھی جنگلی حیات کو ہلاک کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک ایسے ملک میں یہ کسی ستم ظریفی سے کم نہیں جہاں تعمیراتی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ نیروبی کے قریب مجھے سمبا سیمنٹ کا بل بورڈ نظر آیا، یہ سیمنٹ مقامی طور پر تیار کی جاتی ہے۔ تشہیری بورڈ پر ببر شیر کا چہرہ دکھایا گیا تھا اور اس کے اوپر ’’کنگ آف دی کنکریٹ جنگل‘‘ کے الفاظ چھپے ہوئے تھے۔ شیروں کے تحفظ کے لیے اگر کچھ نہ کیا گیا تو پھر یہ جانور صرف تشہیری بورڈز ہی پر رہ جائے گا۔

ایک روز اینے کینٹ ٹیلر فنڈ کی شکار کی روک تھام کی گشتی ٹیم مجھے اپنے ہمراہ نیاکویری کے جنگل میں لے گئی۔ یہ جنگل ماسائی مارا کی حدود سے باہر سے باہر پہاڑی ڈھلوان پر واقع ہے۔ گشتی ٹیم کے نوجوان سربراہ ایلیس کمانڈے نے مجھے وسیع و عریض قطعہ ارض دکھایا جہاں جا بہ جا درختوں کے تنے اور شاخیں بکھری ہوئی تھیں۔ کمانڈے نے بتایا کہ یہ علاقہ کچھ عرصہ قبل تک ہاتھیوں کی نرسری کے طور پر استعمال ہورہا تھا، جہاں دو سو ہتھنیاں بہ یک وقت بچے جنتی تھیں۔

یہ علاقہ کچھ عرصہ قبل تک گھنے جنگل کا منظر پیش کرتا تھا مگر اب اس پر سے درختوں کا صفایا ہوچکا تھا۔ اس قطعۂ ارض کا رقبہ فٹبال کے چار میدانوں کے مساوی تو یقیناً تھا۔ کمانڈے نے بتایا کہ جنگل میں درختوں سے خالی ایسے قطعہ ارض کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور درختوں کے اس قتل عام کے پس پردہ کوئلے کی صنعت کے کرتا دھرتا ہیں۔ کمانڈے نے اداس لہجے میں مجھ سے کہا کہ پانچ سال کے بعد یہاں اس جنگل کے بجائے انسانی آبادیاں، فصلیں، مویشی اور باڑے ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں یہاں سے ہاتھی، شیر، زرافے، لگڑبھگڑ اور دوسرے جانور ختم ہوجائیں گے، جو آج مارا ٹرائی اینگل اور اس ڈھلوانی جنگل کے درمیان آزادانہ نقل و حرکت کرتے ہیں۔

کینیا کے پاس اب بھی جنگلی حیات کے مساکن کو بچانے کا وقت ہے۔ اگر حکومت نے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مؤثر اقدامات نہ کیے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب نباتات اور حشرات کش زہر کسی تشویش کا باعث نہیں رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔ ظاہر ہے جب جنگلی جانور ہی باقی نہیں رہیں گے تو زہر کسے دیا جائے گا!

The post انسانوں کی حیوانیت کے ہاتھوں مٹتے جانور appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2QohqVR
via IFTTT