Sunday, January 31, 2021

ایران پراسرائیل کی حملہ آورنظریں ایکسپریس اردو

شاہ ایران، رضا شاہ پہلوی،کے اقتدار سے رخصت ہوتے ہی اسرائیل نے ایران سے دانستہ دشمنی پال لی تھی ۔ اس عناد کو اب تقریباً چار دہائیاں ہو رہی ہیں۔ یہ مخاصمت کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔ اسرائیل ایک ( صہیونی) نظریاتی مملکت ہونے کے باعث ایران ایسی اسلامی نظریاتی مملکت کو ایک آنکھ دیکھ نہیں پا رہا۔ اسرائیل جو خود بھی ایک غیر اعلانیہ جوہری طاقت ہے، اپنے ہمسائے میں کسی بھی ممکنہ ایٹمی طاقت کو برداشت نہیں کررہا۔ ایران نے اپنا پُرامن جوہری پروگرام شروع کیا تواسرائیل کی بھنویں تن گئیں۔

اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کان کھڑے ہو گئے ۔ ایران کی تمام ذمے دار سیاسی و عسکری شخصیات اور ادارے غیر مبہم اسلوب میں بار بار اعلان کرتے آ رہے ہیں کہ اُس کا ایٹمی پروگرام کلیتاً غیر اسلحی اور پُر امن ہے لیکن اسرائیل کا اصرار ہے کہ ایران اس پُر امن ایٹمی پروگرام کے پردے میں ایٹمی ہتھیار بنانے کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے۔

اسرائیل چاہتا ہے کہ امریکا ، ایران کو اس راستے پر بگٹٹ بھاگنے سے روکے وگرنہ وہ خودآگے بڑھ کر ایران کے تمام ایٹمی راستے مسدود اور محدود کر دے گا۔ ایرانی قیادت اسرائیل کی تمام خفی و جلی دھمکیوں سے پوری طرح آگاہ بھی ہے اور ان کی معنویت و حقیقت سے بھی واقف۔

یہ حقیقت کسی کی آنکھ سے اوجھل نہیں ہے کہ پچھلے 40برسوں کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران نے امریکا کے ہاتھوں بہت زیادتیاں اور مظالم برداشت کیے ہیں۔ ان مظالم میں اسرائیل بھی پوری طرح شریک رہا ہے کہ بعض حقیقت آشناؤں کے بقول : امریکی پالیسیاں واشنگٹن میں نہیں ، تل ابیب میں مرتب کی جاتی ہیں۔

شاباش دینی چاہیے مگر ایرانی قیادت اور ایرانی عوام کو کہ امریکی جبر وستم کے باوصف وہ امریکا اور اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پرتیار نہیں ہُوا ۔ یہ جرأت جہاں عالمِ اسلام کو ایک نیا حوصلہ بخشتی ہے ، وہیں یہ ایرانی جسارت اسرائیل کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہتی ہے۔

سابق امریکی صدر ، بارک اوباما، کے دَورِ اقتدار میں امریکا اور ایران کے درمیان شائستگی کے ساتھ ایک معاہدہ بھی طے پا گیا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام پر عالمی تحدیدات قبول کر لی تھیں۔ یوں اوباما دَور میں ایران کے کئی منجمد اثاثے بحال بھی کیے گئے اور کئی عالمی اقتصادی اداروں کو، ایک خاص حد میں، ایران کے ساتھ کاروبار کرنے کی اجازت بھی مل گئی۔

اس معاہدے سے ایرانی معیشت کو خاصا ریلیف ملا تھا۔ ایرانی عوام نے بھی نئے سرے سے اُمیدیں باندھ لی تھیں۔ ابھی ایرانی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو ہی رہی تھی کہ بارک اوباما کا دَور ختم ہو گیا اور اُن کی جگہ نسل پرست اور متعصب ڈونلڈ ٹرمپ نے جگہ سنبھال لی۔ ٹرمپ اور اُن کے یہودی النسل داماد،جیرڈ کشنر، کے باہمی گٹھ جوڑ اور اسرائیلی اشارے پر امریکا نے اوباما کے دَور میں ایران سے کیا گیا معاہدہ منسوخ کر دیا۔یہ اقدام صریحاً عالمی سفارتی اخلاقیات کی توہین تھا۔

اسی لیے یورپین یونین کی قیادت میں پورے یورپ نے ٹرمپ کے اقدام کی مخالفت کی لیکن ٹرمپ نے اپنی طاقت کے زعم و نشے میں کسی کی بھی نہیں سُنی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا چار سالہ دَور ایرانی قیادت اور ایرانی عوام کے لیے انتہائی مشکلات کا زمانہ تھا۔ امریکا کی طرف سے ایران پر لگائی جانے والی متعدد اور متنوع پابندیوں نے ایران کو لاتعداد مصائب میں مبتلا کیے رکھا لیکن ایران نے کمرشکن مصائب و مسائل کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیل اور ٹرمپ کے یہودی دامادکے منصوبوں کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا۔ اس دوران ہیجان کا شکار ہو کر مبینہ طور پر امریکا نے ایران پر حملے کا پروگرام بھی بنایا لیکن پھر اسے عملی جامہ نہ پہنا سکا ۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد اب جو بائیڈن امریکی صدر منتخب ہُوئے ہیں تو اُن کے بعض اعلانات سے ایران کو یہ اُمید بندھی ہے کہ اسرائیلی اشاروں پر ایران کے خلاف عائد کی گئی ظالمانہ اور غیر منصفانہ پابندیاں اُٹھا لی جائیں گی۔

ایک ہفتہ قبل نئی امریکی انتظامیہ نے امریکی صدر، جوبائیڈن ، کی قیادت میں اعلان کیا کہ ’’ اگر ایران عالمی برادری سے جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے کیے گئے اپنے وعدوں پر کاربند رہے تو پھر امریکا بھی اُس کے ساتھ جوہری معاہدے کو بحال کر دے گا۔‘‘ جونہی امریکا کی طرف سے یہ اعلان سامنے آیا، اسرائیل بپھر گیا۔ دراصل اسرائیل کو امریکی کانگریس میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کے ارکان کی بڑی تعداد کی شہ بھی حاصل ہے ؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایران کی طرف نئی امریکی انتظامیہ کا صلح جویانہ رویہ دیکھ کر اسرائیل نے ایران کے خلاف فوجی جارحیت کی صاف دھمکی دے ڈالی ہے۔

گزشتہ روز اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل Aviv Kohaviنے تل ابیب یونیورسٹی کے ’’انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز‘‘ سے خطاب کرتے ہُوئے صاف الفاظ میں کہا: ’’ ایران سے جوہری معاہدے کی بحالی امریکا کی غلطی ہوگی۔ اگر امریکا نے جوہری معاہدے کو بحال کیا تو ہم ایران کو ہدف بنائیں گے۔ ہم نے ایران پر حملے کی پوری تیاری کررکھی ہے۔ بس مقتدر سیاسی قیادت کی منظوری درکار ہے۔ ‘‘اسرائیلی فوج کے مذکورہ جرنیل کی دھمکی کا مرکز ایرانی ایٹمی تنصیبات ہیں ۔

ایران کے خلاف اسرائیلی جرنیل کے حملے کی دھمکی کی اصلیت اور معنویت کیا ہے، ایرانی قیادت اس سے پوری طرح آگاہ ہے۔ اِسی ضمن میں ایرانی صدر جناب حسن روحانی کے چیف آف اسٹاف ، محمود واعظی، کی طرف سے ترنت جواب یوں آیا ہے : ’’ یہ نفسیات کی جنگ ہے اور ہم خوب جانتے ہیں کہ اسرائیل کے پاس ایران پر حملے کا نہ تو کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی صلاحیت۔‘‘ ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر ، بریگیڈئر جنرل ابوالفضل شکارچی، کا اسرائیل بارے بیان زیادہ سخت ہے۔

اسرائیلی دھمکی کے جواب میں ایران کی طرف سے آنے والا جواب اگرچہ حوصلہ مند ہے لیکن اگر خدانخواستہ اسرائیل ( جس کی نفسیات میں جارحیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے) اپنی دھمکی پر عمل کر گزرتا ہے تو اس کے انتہائی منفی اثرات پورے عالمِ عرب پر مرتب ہوں گے۔ ان اثرات سے ممکن ہے پاکستان بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ اسرائیل اس سے قبل نہایت جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہُوئے ( چالیس سال قبل) عراقی ایٹمی تنصیبات کو تباہ و برباد کر چکا ہے۔

اسرائیل کے ایک درجن جنگی طیاروں (ایف سولہ) نے7جون1981ء کی شام بغداد سے صرف 10کلومیٹر دُوری پر واقع عراقی ایٹمی ری ایکٹر پر حملہ کر دیا تھا اور پوری دنیا سمیت امریکا کی بھی پروا نہیں کی تھی ۔

اس حملے کو ’’آپریشن اوپرا‘‘ کا عنوان دیا گیا تھا۔ اسرائیلی جنگی طیارے اُڑتے ہُوئے بغداد پہنچے اور صرف دو منٹ میں عراقی ایٹمی سینٹر کو اُڑا کر رکھ دیا۔ اسرائیل نے اس امر کی بھی قطعی پروا نہیں کی تھی کہ حملے کے بعد عراقی ایٹمی پلانٹ سے اگر ہلاکت خیز ریڈی ایشن کا طوفان بہہ نکلا تو عراق کے آس پاس بسنے والے چھ اسلامی ممالک کا کیا بنے گا؟اس حملے کی خبر جب امریکی صدر ، رونالڈ ریگن ، کو ملی تو انھوں نے خوفزدہ ہو کر اپنی ڈائری میں لکھا تھا: ’’ عراقی ایٹمی سینٹر کی ریڈی ایشن کا تصور کرکے مَیں نے سوچا: بس اب قیامت آنے ہی والی ہے۔‘‘ اب جب کہ اسرائیل مبینہ ایرانی جوہری تنصیبات کو ٹارگٹ کرنا چاہتا ہے تو اس دھمکی کے پس منظر میں اُسے عراقی تجربے کی شہ حاصل ہے ۔ لیکن واضح رہنا چاہیے کہ عراقی ایٹمی سینٹر پر اسرائیلی حملے سے تو قیامت نہیں آئی تھی لیکن اگر اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو دُنیا میں قیامتِ صغریٰ ضرور برپا ہوگی ۔

The post ایران پراسرائیل کی حملہ آورنظریں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/39Ct6jS
via IFTTT

ملک بھر میں پرائمری، مڈل سکول اور یونیورسٹیاں کھل گئیں ... سکول دوبارہ کھلنے پر بہت خوش ہیں، طلباء

سعودی حکام نے کوروناپھیلاؤ کو روکنے کی خاطر سخت پابندیاں لگانے کی وارننگ دے دی ... وزیر صحت ڈاکٹر توفیق الربیعہ نے اپنے ویڈیو پیغام میں خبردار کیا ہے کہ اگر کسی لوگ اجتماعات ... مزید

میانمار میں فوج اور جمہوری حکومت میں کشیدگی، وزیراعظم آنگ سان سوچی اور صدر گرفتار ... فوج نے ملک کے مختلف شہروں میں گشت شروع کر دیا

سہیلیوں کے ساتھ گھومنے کی اجازت نہ دینے پر خاتون نے شوہر سے طلاق مانگ لی ... متحدہ عرب امارات کی عدالت نے خاتون کی جانب سے طلاق کا مطالبہ مسترد کردیا

گ*چاغی،ایران میں غیر قانونی طریقے سفر کرنے والے 86پاکستانی ایف آئی اے کے حوالے

’عمران خان کی تعریف کیوں کی‘ والد نے بیٹی کا رشتہ دینے سے انکار کردیا ... وزیر اعظم کی تعریف سن کر وہ شخص اس قدر آگ بگولہ ہوا کہ اس نے ناصرف اپنی بیٹی کا رشتہ دینے سے انکار ... مزید

ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے کے جنون نے ایک اور نوجوان کی جان لے لی ... فیصل آباد میں نوجوان موٹر وے پر ٹک ٹاک ویڈیو بنانے میں مصروف تھا کہ اچانک ایک تیز رفتار گاڑی آکر اس سے ٹکراگئی، ... مزید

سینیٹ الیکشن کیلئے ترمیم کا معاملہ ، ن لیگ نے مشروط آمادگی ظاہر کردی ... مسلم لیگ ن نے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے لچک کا مظاہرہ کیا ، حکومت اوپن بیلٹ سے سینیٹ الیکشن چاہتی ... مزید

tتحصیل زہری میں نا معلوم افراد کی فائرنگ سے 2افراد جاں بحق

ش*مدارس اسلامیہ پاکستان کی بقا وسالمیت کی ناگزیر قوت ہے،جے یو آئی بلوچستان

ض*فرسودہ نظام سے ملک عدم استحکام اور بحرانوں کی کیفیت سے دوچار ہے،جے یو آئی

ی*سابق ڈپٹی سپیکر سندھ عبدالباری جیلانی کا کرائم کی وارداتیں بڑھتے پر تشویش کا اظہار

yگلشن معمار میں فائرنگ کے پراسرار واقعہ سکیورٹی گارڈ جاں بحق

\ سی ٹی ڈی سکھر کی کارروائی،اہم دہشت گرد گرفتار

fکراچی پولیس کی ہفتہ بھر کارروائیاں،918ملزمان گرفتار

wکراچی ،کرائے قاتلوں سے بھائی کو قتل کروانا والا ملزم گرفتار

ت*سندھ پولیس میں کورونا تیزی سے پھیلنے لگا،چار روز میں155 اہلکارمتاثر

}کراچی ، نیو ٹاؤن میں خاتون نے گلے میں پھندا لگا کر خودکشی کرلی

ٹ*کراچی ، ٹریفک حادثات میں دو افراد جاں بحق اور خاتون سمیت چار زخمی

اسٹیبلشمنٹ سیاسی جنگ سیاستدانوں تک رہنے دے ، بلاول بھٹو زرداری ... ناجائز حکومت کو احترام سے ایک طرف ہونے کا موقع دیا ، موقع تھا کہ جمہوری انداز میں الیکشن کرواکر اقتدار ... مزید

کاہنہ پولیس کی منشیات فروشوں کیخلاف کارروائی ،ایک ملزم گرفتار

کیمرون کے اعزازی قونصل جنرل کا پاکستان میں جرائم کی بڑھتی وارداتوں پر افسوس کا اظہار

Saturday, January 30, 2021

گھٹتا بڑھتاچاند،آپ کی نیند پر اثر انداز ہوسکتا ہے ایکسپریس اردو

سیاٹل، امریکہ: سائنس نے گھٹتے بڑھتے چاند اور انسانی نیند پر اثرات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور اس ضمن میں لاکھوں افراد کا سروے کیا ہے۔

ایک نئے تحقیقی مقالے سے معلوم ہوا ہے کہ ہماری نیند کا دورانیہ چاند کے ساڑھے 29 دن کے اتارچڑھاؤ کا اثرلیتا ہے۔ ایک بات معلوم ہوا ہے کہ پورے چاند سے قبل کے دو تین روز پہلے لوگ دیرمیں سوتے ہیں اور ان کی نیند کا دورانیہ بھی مختصر ہوتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ خواہ لوگ دیہات میں رہیں یا پھر شہروں کے باسی ہوں یا ارجنٹینا کے نیم خواندہ قبائلی ہی کیوں نہ ہوں، چاند ہر ایک کی نیند پر اثرانداز ہوتا ہے۔ خواہ کسی علاقے میں بجلی ہو یا نہیں، تب بھی چاند کے آثار نیند کو متاثر کرتےہیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ ہماری اندرونی جسمانی گھڑی (سرکارڈیئن ردم) کا تعلق چاند کے اتار چڑھاؤ سے ہوسکتا ہے۔  یونیورسٹی آف واشنگٹن میں حیاتیات کے پروفیسر ہوراشیو ڈی لا اگلیشیا کہتے ہیں کہ بجلی سے محروم تاریک علاقوں میں یہ اثر بہت زیادہ دیکھا گیا ہے۔ لیکن جدید ترقی یافتہ شہروں میں بھی چاند کا یہ اثر دیکھا گیا ہے۔ ان میں جامعہ واشنگٹن کے طلباوطالبات بھی شامل ہیں۔

اس ضمن میں ارجنٹینا میں رات کو روشنی سے محروم 98 قبائلیوں کی کلائی پر نیند کے مانیٹر پہنائے گئے ۔ دوسری جگہ کم روشنی والے علاقے کے لوگوں کا انتخاب کیا اور اس کے بعد تیسرے گروہ کا انتخاب کیا گیا جو سیاٹل شہر کے رہائشی تھے۔

ماہرین نے دیکھا کہ چاند کے اتار چڑھاؤ والے پورے قمری مہینے میں شرکا کی نیند میں 46 سے 58 منٹ کا فرق واقع ہوا۔ اسی طرح بستر پر جانے کے وقت میں نصف گھنٹے کا فرق دیکھا گیا۔ لیکن پورے چاند سے تین سے پانچ روز قبل تھے تقریباً تمام شرکا نے سب سے کم نیند لی۔

لیکن جب 98 قبائلیوں اور سیاٹل شہر کے 464 افراد کا ڈیٹا ملایا گیا تو حیرت انگیز طور پر یکساں تھا یعنی ان کی نیند میں کمی بیشی کا دورانیہ یکساں اور پورے چاند سے قبل کچھ راتوں کی خوابی تبدیلی بہت حد تک ایک جیسی تھی۔

اگرچہ نیند اور چاند کے ادوار پر خاصی بحث ہوچکی ہے لیکن واشنگٹن یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے پہلی مرتبہ اس کے ٹھوس ثبوت پیش کردیئے ہیں۔

The post گھٹتا بڑھتاچاند،آپ کی نیند پر اثر انداز ہوسکتا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/36qY7FN
via IFTTT

ٹک ٹاک پر 110 سالہ خاتون کی گائیکی نے دھوم مچا دی ایکسپریس اردو

 لندن: معروف ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک پر 110 سالہ خاتون کی گائیکی نے دھوم مچا دی۔

برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق ایمی ہاکنز نے اپنی 110 ویں سالگرہ پر پہلی عالمی جنگ کا مقبول ترین گیت ’’اٹس اے لانگ وے ٹو ٹپریری‘‘ گایا جسے ان کی 14 سالہ پڑ پوتی ساشا نے ریکارڈ کیا اور اسے ٹک ٹاک پر شیئر کردیا، جسے اب تک ایک لاکھ افراد دیکھ چکے ہیں۔

ہاکنز کی بیٹی اور ساشا کی ماں ہنا فریمن کا کہنا ہے کہ ویڈیو کو ملنے والی پذیرائی اس بات کا ثبو ت ہے کہ دنیا میں ابھی انسانیت باقی ہے۔

ایک صدی سے زیادہ عمر پانے والی ہاکنز پہلی جنگ عظیم کے وقت 7سال کی تھیں اور انھیں آج بھی اس دور کی بہت سی باتیں اور بالخصوص گیت اچھی طرح یاد ہیں۔ ان کی بیٹی کا کہنا ہے کہ گیت سنانے کی فرمائش کی جائے تو وہ ایک کے بعد ایک سنائے چلی جاتی ہیں اور ہر بار پوچھتی ہیں کہ ایک اور سناؤں؟

دل چسپ بات یہ ہے کہ بچپن میں ہاکنز کی والدہ نے انہیں اسٹیج پر پرفارم کرنے سے روک دیا تھا جب کہ وہ فنکار بننے کی خواہش رکھتی تھیں۔ انہیں گانے سے بہت گہرا لگاؤ ہوگا تبھی اس عمر رسیدگی میں بھی ان کی خواہش پوری ہوگئی ہے اور 1 ارب صارفین رکھنے والی ٹک ٹاک ایپ پر ہاکنز اپنی گائیکی کے بے ساختہ انداز کی وجہ سے دن بہ دن تیزی سے مقبول ہورہی ہیں۔

ہاکنز کا کہنا ہے کہ میرے گیت سننے والوں کے کمنٹ پڑھنے سے  معلوم چلتا ہے کہ ان کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں کیوں کہ میرے گیت اپنوں کے بچھڑنے کے غم کی یاد منانے کے لیے ہوتے ہیں۔

The post ٹک ٹاک پر 110 سالہ خاتون کی گائیکی نے دھوم مچا دی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3r6Ocgh
via IFTTT

گوگل سے برطرف ہونے والی خاتون کے کمپنی انتظامیہ پر سنگین الزامات ایکسپریس اردو

کیلیفورنیا: گوگل سے برطرف کی جانے والی خاتون نے کمپنی انتظامیہ پر سنگین الزامات عائد کردیے۔

گزشتہ ماہ مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلی جینس سے متعلق اخلاق و ضوابط پر گوگل سے وابستہ محقق ٹمنٹ گیبرو کو تحقیقی مقالے پر ہونے والے تنازع کے بعد کمپنی سے نکال دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد گوگل میں ملازمین سے یکساں سلوک اور ہر طبقے کی نمائندگی کے لیے ساز گار ماحول سے متعلق سوالات اٹھنے لگے۔

حال ہی میں گوگل کے سی ای او سندر پچائی سے ڈیووس میں  منعقدہ عالمی اقتصادی فورم میں کمپنی میں شفافیت کے حوالے سے سوال ہوا تو انہوں نے جواب دیا کہ گوگل اس حوالے سے بھی دنیا میں سب سے آگے ہے۔

سی ای او  کا یہ بیان سامنے آنے کے بعد ٹمنٹ گیبرو نے ٹوئٹس کا ایک پورا سلسلہ لکھ ڈالا اور اس میں کہا کہ سندر پچائی سے ان کے معاملے کے بارے میں براہ راست سوال ہوا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ اے آئی کے استعمال سے متعلق اخلاقی ضابطوں پر گوگل نے کھلی بحث کی اجازت دے رکھی ہے جب کہ یہ درست نہیں۔

گیبرو کا کہنا تھا کہ گوگل میں انہیں ہراسانی کا نشانہ بنایا گیا ، گوگل میں جھوٹ بولا جاتا ہے، اختلاف رائے رکھنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ انہوں ںے کہا کہ مجھے ہراساں کیا گیا، میرا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی اور مجھے اور میری ٹیم کو آن لائن حملوں کا ہدف بنایا گیا۔

انہوں نے گوگل پر نسلی امتیاز کا الزام بھی عائد کیا ہے۔ گیبرو کا کہنا ہے کہ گوگل میں سیاہ فام افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور جو لوگ باقی ہیں وہ بھی ایک ایک کرکے کمپنی چھوڑ رہے ہیں۔

گیبرو نے دعویٰ کیا ہے کہ گوگل میں کھلے ماحول میں بحث مباحثے کی اجازت نہیں بلکہ خصوصا سیاہ فام خواتین کے ساتھ انتہائی برا سلوک کیا جاتا ہے۔ انہوں نے گوگل کے سی ای او کے دعوؤں کو غیر حقیقی قراردیا اور کہا کہ یہ لوگ بہت مصنوعی ہیں۔

واضح رہے کہ عام طور پر گوگل کے دفتری ماحول کو مثالی قرار دیا جاتا ہے تاہم حال ہی میں اس معاملے کے سامنے آنے کے بعد آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے استعمال سے متعلق ضوابط  کے بارے میں  کمپنی کے رویے اور اختلاف رائے رکھنے والے ملازمین سے متعلق طرز عمل پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔

The post گوگل سے برطرف ہونے والی خاتون کے کمپنی انتظامیہ پر سنگین الزامات appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3teTmZq
via IFTTT

کورونا کے بعد”نپاہ وائرس“آ گیا ... یہ وائرس کورونا سے بھی زیادہ انسانوں کے لیے خطرناک ہو گا،رپورٹ

قومی ادارہ امراض قلب کراچی کے باہر نامعلوم افراد کی فائرنگ اور عملے پر تشدد ایکسپریس اردو

 کراچی: جناح اسپتال کے قریب شعبہ امراض قلب کے دروازے پر نامعلوم افراد کی فائرنگ اور تشدد سے سیکیورٹی گارڈ اور انتظامیہ کا ایک نمائندہ زخمی ہوگیا۔

کراچی میں جناح اسپتال کے قریب شعبہ امراض قلب کے مرکزی دروازے پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے علاقے میں خوف ہراس پھیل گیا ، فائرنگ کرنے والوں نے اسپتال کے سیکیورٹی گارڈ اور انتظامیہ کے ایک نمائندے کو بھی زخمی کیا۔ فائرنگ کر کے فرار ہونے والوں کی گاڑی کی نمبر پلیٹ کے اوپر ایک سیاسی جماعت کا مخصوص مونوگرام تھا۔

اسپتال انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ایک کار میں سوار 4 افراد آئے جو نشے میں دھت تھے اور اسپتال میں نامعلوم وجوہات پر آنا چاہتے تھے ، گارڈز نے انہوں روکنے کی کوشش کی تو 2 افراد کو تشدد کا نشانہ بنا کر زخمی کر دیا اور فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہوگئے۔ ملزمان میں سے ایک شخص وہاں رہ گیا تھا اس کے نظر آنے پر گارڈز نے پکڑ کر صدر پولیس کے حوالے کر دیا ، ملزم نے اپنا نام احمر بتایا ہے، فائرنگ کر کے فرار ہونے والے افراد کی گاڑی کی نمبر پلیٹ کے ساتھ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کا نام کی تختی لگی تھی۔

ایس ایچ او صدر انسپکٹر ارشد آفریدی سے رابطہ کرنے پر انہوں نے بتایا کہ قومی ادارہ برائے امراض قلب کے باہر مسلح افراد نے ہوائی فائرنگ کی، ملزمان اسپتال میں مریض کو دیکھنے کے لئے زبردستی آنا چاہ رہے تھے ، ملاقات کا وقت نا ہونے کی وجہ سے گارڈ نے ان افراد کو گیٹ پر روکا، ملزمان نے گارڈ سے ہاتھا پائی کی اور اندر آنے کی کوشش بھی کی ، ملزمان کی فائرنگ سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ، تمام ملزمان فرار ہوگئے کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

فائرنگ کے وقت رکن سندھ اسمبلی راجا اظہر موقع پر موجود تھے، راجا اظہر نے ایکسپریس کو بتایا کہ جس وقت نامعلوم کار سوار فائرنگ کر کے فرار ہو رہے تھے وہ بچہ وارڈ کے باہر موجود تھے، جناح اسپتال کے باہر فائرنگ کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔

The post قومی ادارہ امراض قلب کراچی کے باہر نامعلوم افراد کی فائرنگ اور عملے پر تشدد appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3pDpqEf
via IFTTT

توانائی کے استعمال میں اضافہ، تیل اور گیس کی مقامی پیداوار میں کمی ایکسپریس اردو

کراچی: ملک میں توانائی کے استعمال میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے لیکن توانائی کے اہم وسائل تیل اور گیس کی مقامی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔

وفاقی وزارت توانائی کے ادارے ہائیڈرو کاربن ڈیولپمنٹ انسٹیٹیوٹ آف پاکستان کی توانائی سے متعلق تازہ رپورٹ پاکستان انرجی ایئربک 2019 کے مطابق ملک میں مجموعی طور پر گذشتہ 6 برسوں کے دوران توانائی کے استعمال میں 6.7 فیصد اضافہ ہوا ہے، توانائی کے استعمال میں زیادہ اضافہ سرکاری شعبے میں ہوا جس کا تناسب 130 فیصد ہے جبکہ گھریلو استعمال میں صرف 4.8 فیصد اضافہ ہوا۔

رپورٹ کے مطابق سال 2018-19 کے دوران تیل کی سپلائی میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 19.8 فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ اسی عرصے کے دوران ایل پی جی کی سپلائی میں 9.5 فیصد کمی ہوئی، ا س دوران ملک میں گیس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 18.9 فیصد اضافی ایل این جی درآمد کی گئی، اسی عرصے کے دوران تیل کی مقامی پیداوار میں 0.2 فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ گیس کی مقامی پیداوار 1.5 فیصد کم ہوئی۔

رپورٹ کے مطابق کمرشل شعبے میں 35 فیصد توانائی کا حصول گیس کے ذریعے ہورہا ہے جبکہ مذکورہ شعبے میں توانائی کے حصول کے لیے تیل پر انحصار 25.7 فیصد ہے، مجموعی طور پر ملک میں تیل اور گیس کی پیداوار کے لحاظ سے صوبہ سندھ کا بڑا حصہ رہا ہے۔

وفاقی وزارت پٹرولیم نے 2009 کے دوران قومی اسمبلی کو بتایا تھا کہ ملک میں 60 فیصد گیس کی پیداوار صوبہ سندھ میں ہوتی ہے، پاکستان انرجی ایئربک 2018-19 کے مطابق مذکورہ سال میں صوبہ سندھ میں تیل کی پیداوار 10,833,662 یو ایس بیرل ہوئی جبکہ اسی سال پنجاب میں تیل کی پیداوار 5,889,264  یو ایس بیرل ہوئی، خیبر پختونخوا میں 15,747,260   یو ایس بیرل اور بلوچستان میں 25,842  یو ایس بیرل تیل کی پیداوار ہوئی، صوبہ سندھ کو اس حوالے سے شدید تحفظات بھی رہے ہیں۔

حال ہی میں وزیر اعلی ٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ میں تیل اور گیس کے ذخائر صرف 15 سال کے باقی ہیں۔

اس سلسلے میں ایکسپریس کی جانب سے جب صوبائی وزیر توانائی امتیاز شیخ سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ گیس کی پیداوار کم ہونے اور اس کا استعمال زیادہ ہونے کی وجہ سے خدشہ ہے کہ صوبہ سندھ میں دستیاب گیس کے ذخائر آئندہ 15 برس میں ختم ہوجائیں۔

انھوں نے کہاکہ اس سلسلے میں آئین کے آرٹیکل 173 (3) پر بھی عمل نہیں کیا جارہا جس کے تحت وفاق اور متعلقہ صوبے کا تیل اور گیس پر برابر کا اختیار ہے،  انھوں نے کہا کہ تیل اور گیس کی ریگولیشن میں صوبوں کی شراکت ہونی چاہیے، صوبوں کو وفاقی آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی میں نمائندگی دینی چاہیے۔

پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما تاج حیدر نے کہا کہ تیل اور گیس کی ریگولیشن کے لیے صوبوں کا اپنا ادارہ ہونا چاہیے۔

معروف کالم نویس اور سماجی کارکن نصیر میمن نے کہا کہ  صوبہ سندھ کو تیل اور گیس کی پیداوار اتنا فائدہ نہیں ہورہا جتنا ہونا چاہیے۔

 

The post توانائی کے استعمال میں اضافہ، تیل اور گیس کی مقامی پیداوار میں کمی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/36uZRh0
via IFTTT

نواز شریف نیوکلیئر پروگرام سے لاعلم تھے، عابدہ حسین ایکسپریس اردو

اسلام آباد: امریکامیں سابق پاکستانی سفیر سیدہ عابدہ حسین نے کہا ہے کہ اسامہ بن لادن نواز شریف کو سپورٹ کرتے تھے اور انھیں مالی مدد بھی دیتے تھے، نیوکلیئر پروگرام صدر کی زیر نگرانی تھا جب کہ وزیراعظم نواز شریف لاعلم ہوتے تھے۔

ایک انٹرویو میں امریکامیں سابق پاکستانی سفیر سیدہ عابدہ حسین نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ اسامہ بن لادن نے نواز شریف کو سپورٹ کیا تھا اور وہ انہیں مالی مدد بھی فراہم کرتا تھا۔

سیدہ عابدہ حسین نے کہا کہ 1990ء میں مجھے امریکہ میں سفیر وزیراعظم نے نہیں بلکہ صدر غلام اسحاق خان نے بنایا تھا، صدر غلام اسحاق خان نے کہا تھاکہ ہمیں نیوکلیئر پروگرام کی تکمیل کیلئے 18  ماہ لگیں گے، کہا گیا آپ نے18  ماہ امریکیوں کو مصروف گفتگو رکھنا ہے اور میں نے ایسا ہی کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے کہا گیا تھا کہ فون پر بات نہیں کرنی، 18 ماہ کے دوران پانچ مرتبہ پاکستان آ کر صدر سے بریفنگ لی۔

انہوں نے کہا کہ نیوکلیئر پروگرام 1983ء میں نہیں بلکہ 1992ء میں مکمل ہوا تھا، امریکی پارلیمنٹیرینز اور سفارتکار ہمیں نیوکلیئر پروگرام رول بیک  کرنے کیلئے   دباؤڈال رہے تھے، میں نے ایسی سرگرمیاں نہیں رکھی تھیں کہ خفیہ والوں کو کچھ ملتا یا وہ ہمارے خلاف استعمال کرتے۔

 

The post نواز شریف نیوکلیئر پروگرام سے لاعلم تھے، عابدہ حسین appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2NSqyGb
via IFTTT

ڈسکوز اونے پونے خریدنے کیلیے آئی پی پیز، بیرونی سرمایہ کاروں نے بساط بچھا دی ایکسپریس اردو

لاہور: بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں( ڈسکوز)کی نجکاری کیلئے وفاق میں بااثر لابی متحرک ہوگئی ہے جب کہ لیسکو، فیسکو اور آئیسکو کے بورڈ آف ڈائریکٹرزمیں میرٹ کے برعکس ارکان کی نامزدگیاں کروا لی گئی ہیں۔

اربوں ڈالرز کے اثاثے رکھنے والی کمپنیوں کو اونے پونے خریدنے کیلیے آئی پی پیز اور غیرملکی سرمایہ کاروں نے بساط بچھا دی ہے۔ پبلک سیکٹرکمپنیز کارپوریٹ گورننس رولزکے تحت بورڈ ارکان کیلئے متعلقہ شعبے کا تجربہ ہوناضروری ہے لیکن ان میں سے کسی بھی ممبرکا پاور سیکٹرکا تجربہ نہیں، قانونی ماہرین نے بورڈ ممبران کی نامزدگی کو اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی خلاف ورزی اورانجینئرزنے بورڈزکوسیاسی ،سفارشی اور نمائشی قراردیا ہے۔

پاکستان کا پاورسیکٹر ان دنوں گردشی قرضوں ،لائن لاسز اور بجلی چوری سمیت متعدد مسائل سے دوچار ہے ،حکومت اورپاورڈسٹری بیوشن کمپنیوںکی مینجمنٹ ان پرقابو پانے کے لیے کوشاں ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں عالمی ساہو کاروں اورسرمایہ کاروں کے مفادات کے تحفظ کیلئے متحرک لابی سرکاری پالیسیوں پر بھرپوراثر انداز ہورہی ہے۔

پہلے مرحلے میں پاور کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹوز اور دیگر اعلیٰ عہدیدار نجی شعبے سے لیے جائیں گے ، دوسرے مرحلے میں  نجکاری کی جائیگی،ڈسکوز کے بورڈز کو نجی شعبے سے چیف ایگزیکٹو کیلئے موزوں امیدوارتلاش کرنے کی ذمہ داری بھی دیدی ہے۔

بااثر لابی نے نجکاری کی راہ ہموار کرنے کیلئے ڈسکوز کے بورڈ زمیںاپنے نمائندے شامل کروا لیے ہیں،ان میں زیادہ ترایجوکیشن،بزنس ،مارکیٹنگ اور مینجمنٹ کا عمومی تجربہ رکھتے ہیں، پاورسیکٹر کا تجربہ کسی کو بھی نہیں۔

ایکسپریس کو دستیاب دستاویزات کے مطابق لیسکو کے بورڈ آف ڈائریکٹرزکے چیئرمین سید ظہور لاہوریونیورسٹی آف مینجمنٹ سائینسز میں 30 سال سے پروفیسرہیں۔فیصل آباد الیکڑک سپلائی کمپنی (فیسکو)کے چیئرمین بورڈ آ ف ڈائریکٹرز سید حسنین حیدر آئی بی اے کراچی سے ایم بی اے کی ڈگری رکھتے ہیں۔ وہ امریکن ایکسپریس بینک، مشرق بنک سے منسلک رہے ہیں۔ سید حسنین حیدر لیسکو اور آئیسکو کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبر بن گئے ہیں۔

عبدالسمیع جولمز سے ایم بی اے فنانس ہیں  لیسکو کے ساتھ فیسکو کے بھی بورڈ ممبر ہیں۔وہ یو ایس ایڈ کے پراجیکٹ میں کام کررہے ہیں ۔بورڈ ممبر صائمہ اکبر خٹک قانون کی ڈگری رکھتی ہیں اور پی ٹی سی ایل میں بطور کمپنی سیکرٹری کام کر رہی ہیں۔بورڈ ممبراحسن علی چغتائی نے کینیڈا سے ایم بی اے کیا ہے وہ بنکنگ ، فنانس کے ماہر ہیں۔بورڈ ممبرسعدیہ خرم لمز سے ایم بی اے ہیں۔وہ لیسکو کے ساتھ آئیسکو کی بورڈ ممبر بھی ہیں۔وہ  نجی ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیمیں بطور نائب صدر مارکیٹنگ منسلک ہیں۔

ذرائع کے مطابق ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ڈسکوزکے بورڈز میں زیادہ تر ایسے افراد کو ممبر بنایا گیاہے جو آئی پی پیز، ابراج گروپ اور کے الیکڑک لابی سے قربت رکھتے ہیں۔اہلیت کے برعکس بورڈممبران کی نامزدگی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوںکی خلاف ورزی  ہے ۔

سینئر قانون دان اورممبرپنجاب بارکونسل عرفان حیات باجوہ نے ایکسپریس کوبتایا کہ پبلک سیکٹرکمپنیزمیں بورڈآف ڈائریکٹرزکی نامزدگی کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے موجود ہیں۔پاورکمپنیوں میں خلاف میرٹ نامزدگیاں  پبلک سیکٹر کمپنیز کارپوریٹ گورننس رولز2013ء، طارق عزیز الدین کیس2010ء ایس سی ایم آر1301،اشرف ٹوانہ 2013ء ایس سی ایم آر1159ء، نعمت اللہ ایڈووکیٹ بنام وفاق پاکستان2020ء ایس سی ایم آر513  ودیگر فیصلوں کی خلاف ورزی ہے۔اس کا اعلیٰ عدلیہ کو نوٹس لینا چاہیے۔

پاکستان انجینئرنگ کونسل کے چیئرمین انجینئرجاوید سلیم قریشی نے کہا کہ ڈسکوز کے بورڈزکی تشکیل دیکھ کر انتہائی مایوسی ہوئی ہے ،یہ سیاسی ،سفارشی اور نمائشی بورڈ ہیں، پاور سیکٹر خالصتاً ٹیکنیکل کام ہے،بورڈزمیں تجربہ کار اورپرانے انجینئرزکو شامل کیا جائے۔

چیئرمین پی ای سی نے کہا کہ میرٹ کے برعکس بورڈز کی تشکیل اور نجکاری کیخلاف ہر فورم پر بھرپور مہم چلائینگے۔اس حوالے سے  چیئرمین لیسکوبورڈآف ڈائریکٹرزڈاکٹرسید ظہور حسن نے ایکسپریس کو بتایا کہ اگربورڈز پر آپ کو اعتراض ہے تو وزارت توانائی سے رابطہ کریں۔اگرمجھے لگا کہ میری نامزدگی میں کوئی قانونی خلاف ورزی یا بے ضابطگی ہوئی ہے تو میں اسی وقت استعفیٰ دے دونگا۔

ایکسپریس نے وزارت توانائی کے حکام سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہاکہ ڈسکوز کے بورڈ کے حوالے سے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پاورسیکٹرتابش گوہر جواب دیں گے، جس پر تابش گوہرکو وزارت توانائی کے حکام کے توسط سے سوالنامہ بھیجا گیا ،جس پرانہوں نے کہا کہ کل جواب دوں گا، ان سے دوروز مسلسل فون پر رابطہ کی کوشش کی گئی،میسج بھی بھیجے لیکن کوئی جواب نہیں دیاگیا۔

 

The post ڈسکوز اونے پونے خریدنے کیلیے آئی پی پیز، بیرونی سرمایہ کاروں نے بساط بچھا دی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3couokn
via IFTTT

ایف بی آر کی ٹیکس وصولیاں مقررہ ہدف سے متجاوز ایکسپریس اردو

اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ کے دوران حاصل کردہ ٹیکس وصولیاں مقررہ اہداف سے تجاوز کرگئی ہیں۔

رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ میں 8.83  فیصد گروتھ کے ساتھ 2550 ارب روپے کے مقررہ ہدف کے مقابلے میں 2600  ارب روپے جبکہ جنوری 2021 میں 12 فیصد گروتھ کے ساتھ 340 ارب روپے مقررہ ہدف کے مقابلے میں 364 ارب روپے کی ٹیکس وصولیاں کی ہیں۔

اسی طرح رواں مالی سال 2020-21 کے پہلے7 ماہ میں ٹیکس دہندگان کو 170 ارب روپے جبکہ جنوری 2021 میں 20 ارب روپے کے ریفنڈز جاری کیے گئے ہیں اور اگلے چند روز میں ٹیکس وصولیوں کے حتمی اعدادوشمار موصول ہونے پر ٹیکس وصولیوں میں مزید کچھ اضافہ متوقع ہے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں اقتصادی سرگرمیاں بہتر ہونے اور درآمدات بڑھنے کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا ہے اس کے علاوہ وزیراعظم کے تعمیراتی شعبے کیلیے پیکئج کے باعث سیمنٹ اور سریے کی فروخت میں اضافہ بھی ریونیو کی ایک وجہ ہے۔

اس کے علاوہ درآمدات میں اضافہ اور چینی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بھی ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہوا ہے، ملک میں نئے آٹومینوفیکچررز  کی جانب سے گاڑیاں متعاف کرانے کیلیے سی بی یو کنڈیشن میں منگوائی جانے والی نئی گاڑیوں کی وجہ سے بھی ریونیو میں اضافہ ہوا ہے۔

دریں اثنا فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے  14 لاکھ افراد وکمپنیوں  کو سالانہ آمدنی و اخراجات کے گوشوارے  جمع نہ کرانے یا ٹیکس  ادائیگی  کے بغیر  بزنس ٹرانزیکشن کرنے پر نوٹس بھیج دیے۔

ایف بی آر کے ایک سینیئر اہلکار نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ ٹیکس کے نوٹس 3 کیٹیگریز سالانہ انکم ٹیکس ریٹرنز کے نان فائلر، انکم ٹیکس ادا کرنے مگر آمدن چھپانے والے، اور جائیداد کے  فروخت کنندہ اور خریدار کو بھیجے گئے ہیں۔ ایف بی آر نے 63ہزار کمپنیوں کو  ٹیکس نوٹس بھیجے ہیں۔ ایف بی آر نے  قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ہدایت کی ہے کہ  جرمانوں سے بچنے کے لیے وہ یہ قانونی واجبات ادا کریں۔

 

The post ایف بی آر کی ٹیکس وصولیاں مقررہ ہدف سے متجاوز appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3pMrE4t
via IFTTT

کراچی میں کورونا ویکسین کیلیے انتظامات مکمل، 10 مراکز قائم ایکسپریس اردو

کراچی: سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے والے فرنٹ لائن ہیلتھ ورکروں کو پہلی بار کووڈ19 سے بچاؤ کی حفاظتی ویکسین لگانے کے تمام انتظامات مکمل کرلیے گئے۔

کراچی میں کووڈ 19 کی ویکسین ویکسین  لگانے کا عمل فروری کے پہلے ہفتے میں شروع کیا جائے گا جب کہ سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے والے ہیلتھ ورکروں کی فہرست این سی او سی نے نادرا کی مدد سے مرتب کر لی ہے جو صوبائی محکمہ صحت کو بھیج دی گئی ہے۔

کووڈ19 کی لگائی جانے والی حفاظتی ویکسین وفاقی حکومت کی مرتب کی جانے والی حکمت عملی کے تحت لگائی جائے گی۔ سرکاری اسپتالوں کے ملازمین کو لگائی جانے والی کووڈ19 ویکسین وفاقی حکومت فراہم کرے گی۔

معلوم ہوا ہے کہ پیر کو این سی او سی کے ماہرین کی ٹیم کراچی میں قائم کیے جانے والے کووڈ19 ویکسین کے 10 مراکز کا دورہ کرے گی جس کے بعد فرنٹ لائن ہیلتھ ورکروں کو کووڈ19 سے بچاؤ کی حفاظتی ویکسین لگانے کا عمل شروع کردیا جائے گا۔ صوبائی حکومت نے صوبے کے عوام کو کووڈ19 کی ویکسین کی خریداری کیلیے 3 کمپنیوں سے رابطہ قائم کرلیا ہے جس میں بھارت کی ایک کمپنی بھی شامل ہے۔

دریں اثنا ڈائریکٹر ہیلتھ کراچی ڈاکٹر ندیم شیخ نے ’’ ایکسپریس ‘‘ کو بتایا کہ کووڈ 19 ویکسین لگانے کیلیے کراچی کے 6 اضلاع میں 10 حفاظتی ویکسینیشن مراکز قائم کیے گئے ہیں۔ ضلع وسطی میں 3 ویکسین کے مراکز جبکہ ضلع غربی میں 1، ضلع شرقی میں 2، ضلع جنوب میں  2، ملیر میں 1 اور ضلع کورنگی میں بھی ویکسین کا 1 مرکز قائم کرلیا گیا ہے۔

جن مراکز میں ویکسین لگائی جائے گی، ان میں جناح اسپتال، سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال ناگن چورنگی، سندھ گورنمنٹ اسپتال نیوکراچی، سندھ گورنمنٹ قطر اسپتال اورنگی ٹاؤن، خالق دینا ہال،سندھ گورنمنٹ اسپتال لیاقت آباد، سندھ گورنمنٹ اسپتال کورنگی 5 نمبر، جبکہ آغا خان اسپتال کراچی، اور کراچی یونیورسٹی کے سامنے ڈاؤ یونیورسٹی کے کیمپس اور اربن ہیلتھ سینٹر تھڈونالو میں مراکز قائم کیے گئے ہیں۔

اندورن سندھ میں بدین نیو ڈسٹرکٹ ہیلتھ کواٹر بلڈنگ، لاڑکانہ میں چانڈکا میڈیکل کالج، سکھر میں اولڈ آئی ایچ ایس اسپتال، شہید بنظیر آبادمیں کووڈ19کی حفاظتی ویکسین لگانے کے مراکز بھی قائم کیے گیے ہیں۔

ڈائریکٹر ہیلتھ کراچی ڈاکٹر ندیم شیخ نے مزید بتایا کہ کراچی میں 1100 ویکسینیٹر  ہیں جبکہ صوبے بھر میں ویکسینیٹروں کی تعداد 4200 ہے جو محکمہ صحت کے ملازم ہیں۔ ویکسین لگانے سے قبل ویکسینٹروں کو ویکسین لگانے اور ویکسین کی افادیت کو برقرار رکھنے کیلیے آگاہی سیشن بھی دیا جائے گا۔ ہر ویکسینیشن سینٹر میں 10 کیوبیکل بنائے گئے ہیں جہاں بیک وقت 10 فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کو ویکسین لگائی جائی گی۔

انہوں نے بتایا کہ ویکسین مراکز میں 12 سے 15 ویکسینیٹروں کو تعینات کیا جائے گا۔ ویکسین کی پہلی ڈوز لگانے کے بعد مذکورہ شخص کو ویکسین کا کارڈ بھی فراہم کیا جائے گا جس میں لگائی جانے والی ویکسین کی تاریخ،مذکورہ شخص کا نام اور دیگر تفصیلات بھی درج ہوں گی۔

ویکسین کارڈ تیاری کے مراحل میں ہیں جو آئندہ چند دن میں ویکسینیشن مراکز کو فراہم کردیے جائیں گے۔ یہی کارڈ عوام کو بھی فراہم کیے جائیں گے، ویکسینشن کی رجسٹریشن کرانے کیلیے 1166 پر ایس ایم ایس کے ذریعے رجسٹریشن کرلی جائے گی۔ رجسٹریشن کراتے وقت مذکورہ شخص کو اپنا شناختی کارڈ نمبر بھی بھیجنا ہوگا جس کی تصدیق نادرا سے کی جائے گی۔

دوسرے مرحلے میں کمیونٹی میں ویکسین لگانے کا عمل شروع کیا جائے گا جس میں حفاظتی ویکسین کو عمر کے لحاظ سے لگائے جانے کی حکمت عملی طے کی جاری ہے۔ پہلے مرحلے میں عوام میں لگائی جانے والی ویکسین بڑی عمر کے افراد کو لگائی جائے گی۔ عوام کو لگائی جانے والی ویکسین بھی انھی قائم کیے جانے والے ویکسین مراکز میں لگائی جائے گی۔ ویکسین لگانے کے مراکز میں ڈاکٹر اور دیگر طبی عملہ موجود رہے گا۔

دریں اثنا پاکستان میں کووڈ19 ویکسین کو درآمد کرنے کیلیے 3 مختلف کمپنیوں نے ویکسین کی رجسٹریشن کرالی ہے۔ ان تینوں پرائیویٹ کمپنیوں میں سے ایک کمپنی نے روس کی ویکسین رجسٹر ڈکروائی  ہے، جبکہ ایک اور کمپنی نے چین  کی ویکسین، کراچی میں ایک معروف سندھ میڈیکل کپمینی نے بھی ویکسین  پاکستان میں رجسٹرڈ کرائی ہے۔

ان تینوں کمپینوں میں سے ایک کمپنی بھارت تیار کی جانے والی کووڈ 19  ویکسین پاکستان میں لانے کیلیے کوششیں کررہی ہے کیونکہ پاکستان میں وفاقی حکومت نے ابھی تک ویکسین کی قیمت کا تعین نہیں کیا جس کی وجہ سے یہ تینوں کمپنیاں کووڈ19 ویکسین کو پاکستان میں درآمد نہیں کررہی۔ پاکستان میں ان ویکسین کی قیمتوں کے تعین کے بعد ویکسین درآمد کی جائے گی۔  واضح رہے کہ تینوں کمپنیاں پرائیویٹ ہے۔

ادھر چین  نے حکومت پاکستان کو کووڈ19 کی ویکسین کے5 لاکھ ڈوز عطیہ کیے ہیں جوڈھائی لاکھ افراد کو لگائے جاسکیں گے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت کوشش کررہی ہے کہ پاکستان  میں کووڈ19 ویکسین کسی بھی ملک سے مفت میں حاصل کی جاسکے۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ حکومت پاکستان ویکسین کی براہ راست خریداری سے بچنے کیلیے GAVI این جی او سے رابطہ کیا ہے تاکہ حکومت پاکستان کو ویکسین بلامعاوضہ منگوائی جاسکے۔

ذرائع کا دعوی ہے کہ نیب کے خوف سے حکومت پاکستان کسی بھی بڑی خریداری سے اجتناب کررہی ہے۔ ادھر حکومت سندھ نے ویکسین منگوانے کے لیے  مختلف کمپنیوں سے رابطہ کرلیا ہے۔

 

The post کراچی میں کورونا ویکسین کیلیے انتظامات مکمل، 10 مراکز قائم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Ys19oI
via IFTTT

پاکستان کو FATF گرے لسٹ سے نکالے جانے کے امکانات روشن ایکسپریس اردو

اسلام آباد: پاکستان نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(فٹیف)کو دہشتگردی، انتہاپسندی اور منی لانڈرنگ کے انسداد کے قابل ذکر اقدامات میں پیشرفت پر اپنی تازہ رپورٹ بھجوا دی ہے۔

پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے 27نکات پر عملدرآمد مکمل کرنے اور باقی ماندہ 6 نکات پر جاری پیشرفت کو جلد مکمل کرنے کی یقین دہانی کروا دی ہے، پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکالے جانے سے متعلق اس سال اچھی خبر آنے کی قوی امید ہے۔

پاکستان کا نام اسی سال گرے لسٹ سے نکلنے کے حوالے سے ایف اے ٹی ایف سے اچھی خبر آنے کی امید پیدا ہو گئی ہے، پاکستان اور ایف اے ٹی ایف کے درمیان تقریبا دو تین ہفتے پہلے ایک روزہ فیس ٹو فیس مذاکرات بھی ہوئے جس میں پاکستانی وفد کی قیادت وفاقی وزیر حماد اظہر نے کی۔

پاکستان نے 27 میں سے 21 نکات پر مکمل عمل درآمد کیے جانے کے دستاویزی ثبوت حکام کے حوالے کر دیے جبکہ باقی ماندہ 6 نکات پر اہم پیشرفت کی یقین دہانی کروا دی ہے جس کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان 6 نکات کے 50 سے 70 فیصد امور پر عمل مکمل ہو چکا ہے۔

 

The post پاکستان کو FATF گرے لسٹ سے نکالے جانے کے امکانات روشن appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Ywgdla
via IFTTT

اوپن بیلٹ کیلیے آئینی ترمیم منظور نہیں ہونے دینگے، اپوزیشن ایکسپریس اردو

اسلام آباد: حکومت نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کیلئے چھبیسویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے منظور کرانے کا پلان مرتب کرلیا جب کہ اپوزیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ پارلیمنٹ سے آئینی ترمیمی بل منظور نہ ہونے دیا جائیگا۔

قومی اسمبلی کا اجلاس دو روزہ وقفے کے بعد پیر کی شام پانچ بجے طلب کیا گیا ہے جس میں حکومت کی جانب سے آئینی ترمیم بل کی شکل میں لانے کیلئے حکمت عملی بنائی جا رہی ہے۔ حکومتی و اتحادی ارکان کو پیر کے روز سے ایوان میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایات کر دی گئی ہے۔

سینیٹ انتخابات سے متعلق پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے رہنماؤں کے آپس میں رابطے ہوئے جس میں دونوں ایوانوں سے ترمیم کی منظوری روکنے کی حکمت عملی پر غور کیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق آئینی ترمیم کو دونوں ایوانوں سے منظور نہیں ہونے دیا جائیگا۔

پیپلزپارٹی کی رہنما شیری رحمان نے کہا کہ اوپن ووٹنگ ترمیمی بل مسترد ہو گا، حکومت کا ترمیمی بل جلد بازی اور بد نیتی پر مبنی ہے۔ صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ عمران خان کو اپنے ارکان پارلیمان پر اعتماد نہیں ہے۔

 

The post اوپن بیلٹ کیلیے آئینی ترمیم منظور نہیں ہونے دینگے، اپوزیشن appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3pzeFCX
via IFTTT

بختاورکی شادی پراستقبالیہ، ملک بھر سے مہمانوں کی شرکت ایکسپریس اردو

کراچی: سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کی صاحبزادی بختاور بھٹو کی شادی کی تقریب کے حوالے سے بلاول ہاؤس کراچی میں ایک استقبالیہ دیا گیا جس میں ملک بھر سے آنے والے مہمانوں نے شرکت کی۔

گزشتہ شب بلاول ہاؤس کراچی میں آصف علی زرداری کی جانب سے اپنی صاحبزادی بختاور بھٹو زرداری کی شادی کے سلسلے میں ایک استقبالیہ دیا گیا جس میں سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ، سابق وزیراعلی قائم علی شاہ، قمر زمان کائرہ، نثار کھوڑو، سردار لطیف کھوسہ، سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود، سینیٹر رحمان ملک، اسلام الدین شیخ، بلوچستان سے صادق عمرانی، علی مدد، پیپلزپارٹی کے ارکان قومی اسمبلی، صوبائی وزرا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت ملک بھر سے آنے والے مہمان شریک ہوئے۔

تقریب بلاول ہاؤس کے وسیع و عرض لان میں بنائے گئے بینکوئٹ میں ہوئی جس کی خوبصورتی دیکھنے کے قابل تھی۔ مہمانوں کی تواضع چکن بوٹی، ریشمی کباب، روسٹ بکرا اور تیتر، پالک گوشت، بریانی، مٹن پلاؤ، دیسی چکن قورمہ اور مٹن اسٹیک سے کی گئی، اس موقع پر آصف علی زرداری کی پسندیدہ ڈِش بھنڈی بھی مہمانوں کے لیے تیار کی گئی تھی۔ میٹھے میں گاجر کا حلوہ، لوکی حلوہ، بادامی ملتانی قلفی اور آئس کریم کے علاوہ کشمیری چائے اور کافی بھی رکھی گئی تھی۔

اس خصوصی تقریب میں دلہن بختاور بھٹو زرداری نے گہرے ہرے رنگ کا سوٹ پہنا تھا جس پر سنہرے رنگ کا کڑھائی کی گئی تھی، ان کا ماسک بھی لباس سے ہم آہنگ تھا، دلہا محمود چوہدری نے اسی سے ملتے جلتے رنگ کا سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا۔ جیالے رہنماؤں نے بختاور بھٹو اور محمود چوہدری کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ استقبالیہ کی تقریب کے لیے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

 

The post بختاورکی شادی پراستقبالیہ، ملک بھر سے مہمانوں کی شرکت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/36q1Nr8
via IFTTT

ٹی وی پر اتنی پذیرائی ملی کہ فلموں میں کام کی ضرورت محسوس ہی نہیں ہوتی، اقرا عزیز ایکسپریس اردو

 کراچی:  

اداکارہ اقرا عزیز کہتی ہیں کہ ٹی وی پر اتنی پذیرائی ملی ہے کہ انہیں فلموں میں کام کرنے کی ضرورت محسوس ہی نہیں ہوتی۔

غیر ملکی ویب سائیٹ ’اردو نیوز‘ کو دیئے گئے انٹرویو میں اقرا عزیز نے کہا کہ ان کی سوچ کے مطابق ٹی وی ایک بہت بڑا میڈیم ہے۔ ایسے دوردراز علاقے جہاں کیبل یا سینما نہیں ہوتے، وہاں ٹی وی ہوتا ہے۔ لوگ اس کے ذریعے اپنے پسندیدہ فنکاروں کے ساتھ جڑے رہتے ہیں، چھوٹی اسکرین پر اتنی پذیرائی ملی ہے کہ انہیں فلموں میں کام کرنے کی ضرورت محسوس ہی نہیں ہوتی۔

مداحوں کی جانب سے تنقید پر اقرا عزیز کا کہنا تھا کہ جو لوگ ہمیں پسند کرتے ہیں وہ ہمارے کام کو سراہتے ہیں اور اگر انہیں ہمارا کام کبھی پسند نہ آئے تو وہ تنقید بھی کر سکتے ہیں، اس میں برا منانے والی کوئی بات نہیں لیکن تنقید کا بھی ایک طریقہ ہوتا ہے، میں نے ہمیشہ مثبت تنقید کو سراہا ہے۔

ڈراموں کی کہانیوں میں یکسانیت سے متعلق اقرا عزیز نے کہا کہ دنیا بہت بدل چکی ہے اب لوگ بہت آگے جا چکے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی روش بدلیں، جو لوگ بھی ڈرامے بنا رہے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ مختلف موضوعات پر ڈرامے بنا ئیں ہمارے ڈراموں کی کہانیاں ایسی ہونی چاہیئں جو اگر ہماری زندگی کے ساتھ نہیں بھی جڑی ہوئیں لیکن دیکھنے والے اس سے سبق سیکھ سکیں۔

اپنی حالیہ سیریز ’رقیب سے‘ میں اپنے سینیئر ساتھی اداکاروں کی تعریف کرتے ہوئے اقرا نے کہا کہ بعض اوقات بڑے سٹارز کے ساتھ کام کرنے سے پہلے آرٹسٹ ڈرا سہما ہوتا ہے، میرا بھی یہی حال تھا لیکن ثانیہ سعید ،حدیقہ کیانی اور نعمان اعجاز کے ساتھ کام کرکے بہت مزا آیا اور بہت کچھ سیکھا، نعمان اعجاز بہت بڑے اداکار ہیں۔ انہوں نے ان لوگوں کے ساتھ کام کیا ہوا ہے، جن کا نئی نسل کو شاید پتہ بھی نہ ہو، وہ ایک کھلی کتاب کی طرح ہیں اور اپنے سے جونیئرز کی بہت مدد کرتے ہیں۔ ڈرامے کہ شوٹنگ کے دوران میرے ساتھ بار بار ریہرسل کیا کرتے تھے تاکہ میں فلمایا گیا منظر حقیقت سے قریب ہو۔

The post ٹی وی پر اتنی پذیرائی ملی کہ فلموں میں کام کی ضرورت محسوس ہی نہیں ہوتی، اقرا عزیز appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2MI57qt
via IFTTT

کوروناوبا؛ ایک دن میں مزید 34 افراد جاں بحق ایکسپریس اردو

اسلام آباد: ملک بھر میں کورونا وائرس سے ایک دن میں 34 افراد جاں بحق ہوگئے جب کہ ایک ہزار سے زائد مثبت کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 42 ہزار 455 کورونا ٹیسٹ کئے گئے، جس کے بعد مجموعی کووڈ 19 ٹیسٹس کی تعداد 79 لاکھ 32 ہزار 196 ہوگئی ہے۔

کورونا کی مریضوں کی تعداد کتنی؟

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں مزید ایک ہزار 599 مثبت کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، اس طرح پاکستان میں کورونا کے مصدقہ مریضوں کی تعداد 5 لاکھ 44 ہزار 813 ہوگئی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک سندھ میں 2 لاکھ 46 ہزار 437 ، پنجاب میں ایک لاکھ 57 ہزار 353، خیبر پختونخوا میں 66 ہزار 953، اسلام آباد میں 41 ہزار 359، بلوچستان میں 18 ہزار 815، آزاد کشمیر میں 8 ہزار 988 اور گلگت بلتستان میں 4 ہزار 908 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے۔

کورونا کے فعال مریضوں کی تعداد

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک بھر میں کورونا کے فعال مریضوں کی تعداد 33 ہزار182 ہے۔ جب کہ 2 ہزار سے زائد مریضوں کی حالت تشویشناک ہے۔

کورونا سے جاں بحق ہونیوالے افراد کی تعداد

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں کورونا سے مزید 34 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں جس کے بعد اب اس وبا سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد مجموعی طور پر 11 ہزار 657 ہوگئی ہے۔

صحت یاب مریضوں کی تعداد

این سی او سی کے مطابق کورونا سے ایک دن میں ایک ہزار 822 مریض صحت یاب ہوئے جس کے بعد صحت یاب ہونے والے مریضوں کی تعداد 4 لاکھ 99 ہزار 974 ہوگئی ہے۔

کورونا وائرس اوراحتیاطی تدابیر

کورونا وائرس کے خلاف یہ احتیاطی تدابیراختیارکرنے سے اس وبا کے خلاف جنگ جیتنا آسان ہوسکتا ہے۔ صبح کا کچھ وقت دھوپ میں گزارنا چاہیے، کمروں کو بند کرکے نہ بیٹھیں بلکہ دروازے کھڑکیاں کھول دیں اور ہلکی دھوپ کو کمروں میں آنے دیں۔ بند کمروں میں اے سی چلاکربیٹھنے کے بجائے پنکھے کی ہوا میں بیٹھیں۔

سورج کی شعاعوں میں موجود یو وی شعاعیں وائرس کی بیرونی ساخت پر ابھرے ہوئے ہوئے پروٹین کو متاثر کرتی ہیں اور وائرس کو کمزور کردیتی ہیں۔ درجہ حرارت یا گرمی کے زیادہ ہونے سے وائرس پرکوئی اثرنہیں ہوتا لیکن یو وی شعاعوں کے زیادہ پڑنے سے وائرس کمزور ہوجاتا ہے۔

پا نی گرم کرکے تھرماس میں رکھ لیں اورہرایک گھنٹے بعد آدھا کپ نیم گرم پانی نوش کریں۔ وائرس سب سے پہلے گلے میں انفیکشن کرتا ہے اوروہاں سے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتا ہے، گرم پانی کے استعمال سے وائرس گلے سے معدے میں چلا جاتا ہے، جہاں وائرس ناکارہ ہوجاتا ہے۔

The post کوروناوبا؛ ایک دن میں مزید 34 افراد جاں بحق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3tbcVC6
via IFTTT

رکوڈک چیخ نہیں سکتا! ایکسپریس اردو

’’ایک لالچی چاہے دنیابھر کی دولت اکھٹی کر لے تب بھی اس کی ہوس پوری نہیں ہوتی۔‘‘(افریقی کہاوت)
٭٭
پچھلے اٹھائیس برس میں اپنے پرائوں نے بلوچستان خصوصاً اس کے علائے رکوڈک کو جس بیدردی سے کچوکے لگائے ہیں،یہ اگر ذی حس ہوتا تو دردو کرب کی تاب نہ لاتے ہوئے یقیناً چیخ اٹھتا۔اس کی داستان ِالم سے آشکارا ہے کہ حکمران طبقے میں موجود لالچی شخصیات جب ہوس میں مبتلا ہو جائیں تو اپنے وطن کی مٹی کا سودا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔

یہ افسوسناک واقعہ بتاتا ہے کہ حکومت میں چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے سے کرپٹ عناصر کو موقع ملتا ہے کہ وہ چند ٹکوں کی خاطر مادر وطن کو بیچ ڈالیں۔یہ کہانی نئی نسل کو خصوصاً آگاہ کرتی ہے کہ قدرتی وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود مملکت خداداد کیوں ترقی نہ کر سکی اور نہ خوشحال ہوئی۔رکوڈک کی بظاہر سنگلاخ اور بنجر زمین میں اہل قوم کے لیے کئی اسباق پوشیدہ ہیں۔

دور جدید کی ایسٹ انڈیا کمپنی
کہانی کا آغاز 1969ء میں ہواجب جی سی پی(جیالوجیکل سروے آف پاکستان )کے ماہرین ارضیات نے رکوڈک میں سونے اور تانبے کے ذخائر دریافت کیے۔یہ علاقہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں ایسی جگہ و اقع ہے جہاں افغانستان،ایران اور پاکستان کی سرحدیں ملتی ہیں۔علاقے میں کروڑوں سال پرانی چٹانوں کی کثرت ہے۔یہ یورپ سے انڈونیشیا تک پھیلی ایک ارضیاتی پلیٹ کا حصہ ہیں۔اس پٹی میں مختلف معدنیات مثلاً سونا،تانبا،کوبالٹ،لیتیھم وغیرہ ملتی ہیں۔اسی پلیٹ پر،رکو ڈک کے نزدیک سینڈک کان واقع ہے جہاں سے ایک چینی کمپنی سونا اور تانبا نکال رہی ہے۔

حکمران طبقے کی بے حسی اور نااہلی کے سبب رکوڈک میں کان کنی کی خاطر کوئی اقدام نہیں ہوا۔حالانکہ علاقے سے معدنیات نکال کر انھیں عالمی منڈیوں میں فروخت کیا جاتا تو پاکستان قیمتی زرمبادلہ پا لیتا۔ہمارے حکمران اپنے اخراجات بڑھاتے ہوئے پے درپے قرضے لیتے رہے مگر انھوں نے رکوڈک میں پوشیدہ قدرتی خزینے کو کھوجنے کی زحمت نہ کی۔ایک بڑی رکاوٹ عالم اسلام میں سائنس وٹکنالوجی کا زوال پذیر ہونا ہے۔پاکستانی حکومت بھی یہ ٹکنالوجی نہیں رکھتی تھی کہ جان سکے،رکوڈک میںمعدنیاتی ذخائر کس جگہ واقع ہیں۔انھیں چٹانوں کی کوکھ سے نکالنا تو دور کی بات تھی۔یہ معدنی خزانہ کسی غیر ملک میں دریافت ہوتا تو حکومت فوراً اس سے فائدہ اٹھانے کے اقدامات شروع کر دیتی۔

خدا خدا کر کے حکمران طبقے کے گروہوں کی مفاداتی لڑائیاں ختم ہوئیں اور حکومت میں کچھ ٹھہرائو آیا تو نو سال بعد جی سی پی کے کچھ ماہرین 1978ء میں دوبارہ رکوڈک پہنچے۔اس بار وہ چند جدید آلات سے لیس تھے۔لہذا انھوں نے وہاں کھدائی کی اور نقشے تیار کیے۔اس تحقیق سے بھی منکشف ہوا کہ علاقے کی مٹی میں سونے اور تانبے کے ذرات چھپے ہیں۔ان کی مالیت اربوں ڈالر بتائی گئی۔اس تحقیق کا علم آسٹریلیا کی ایک کمپنی،بی ایچ پی(برکن ہل پروپرائٹری کمپنی لمیٹیڈ)کو بھی ہو گیا۔اس کے ماہرین بھی سائٹ دیکھنے رکوڈک آئے۔

ڈھائی سو سال قبل برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجروں نے ہندوستان میں میر جعفر اور میر قاسم جیسے لالچی وجاہ طلب غداروں کو خرید کر اسلامی حکومتوں کا خاتمہ کر ڈالا تھا۔اسی طرح اب آسٹریلوی کمپنی کو حکومت بلوچستان میں لالچی اور خواہشات کے مارے افسر مل گئے۔ان کومال کھلا کر بی ایچ بی بھی رکوڈک پہ ’’قبضہ‘‘کرنے میںکامیاب رہی اور اپنی دانست میں علاقے کی مالک بن بیٹھی۔یہ قبضہ کرانے کے لیے آسٹریلوی اور پاکستانی کرپٹ ٹولے کو جس مناسب وقت کا انتظار تھا ،وہ جولائی 1993میں آ پہنچا۔اس ماہ پاکستان کا حکمران طبقہ پھر شدید خانہ جنگی کا شکار رہا۔ اقتدار کی رسّہ کشی نے قوم کو انوکھے ڈرامے دکھلائے۔آخر 18جولائی کو وزیراعظم نوازشریف کے استعفی سے کھیل انجام کو پہنچا۔

اس دوران ملک وقوم بے چینی اور افراتفری میں مبتلا رہے۔موقع سے فائدہ اٹھا کر بلوچستان کی بیوروکریسی نے 29جولائی کو ایک معاہدے کے ذریعے اپنا قومی علاقہ،رکوڈک آسٹریلوی کمپنی کی جھولی میں ڈال دیا۔پچھلے کئی برس سے انسداد کرپشن کا قومی ادارہ،نیب تحقیقات کر رہا ہے کہ رکوڈک غیرقانونی طریقے سے غیروں کو سونپ دینے میں کون کون غدار ملوث تھا۔نومبر 2020ء میں آخرکار ’’پچیس ‘‘ملزمان کی نشاندہی ہوئی جن پہ اب نیب عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے۔ملزمان میں بلوچستان کے سابق چیف سیکرٹری،محکمہ کان کنی کے سابق سیکرٹری،بی ڈی اے (بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی)کے سابق سربراہ اور متعلقہ محکلموں کے اعلی افسر شامل ہیں۔ان میں سے دو زیرحراست ہیں۔ایک سابق گورنر پر بھی غیرملکی کمپنی سے رشوت لینے کا الزام ہے مگر وہ ثابت نہیں ہو سکا۔

کھیل جو کھیلا گیا
ذرائع کے مطابق بی ایچ پی کئی برس سے کوشش کر رہی تھی کہ رکوڈک میںکان کنی کے حقوق اسے مل جائیں۔ کمپنی کے مقامی افسروں نے رفتہ رفتہ بذریعہ رشوت بی ڈی اے اور دیگر صوبائی محکموں کے افسروںکو اپنا ہمنوا بنا لیا۔تاہم ذرائع بتاتے ہیں کہ تب کے چیف سیکرٹری بی ایچ پی کو رکوڈک دینے پر آمادہ نہیں ہوئے۔وجہ یہ کہ یہ عمل بلوچستان کے کان کنی مراعاتی قوانین (مائننگ کنسیشن رولز 1970)سے متصادم تھا۔ایک اہم ترین قانون یہ تھا کہ صوبائی حکووت پاکستان سے باہر رجسٹرڈ کسی کمپنی کے ساتھ کان کنی کا معاہدہ نہیں کر سکتی۔دوسرا قانون یہ کہ بی ڈی اے کسی کمپنی کے ساتھ براہ راست کاروباری معاہدہ کرنے کی مجاز نہیں۔وہ انتظامی طور پہ خودمختار ہونے کے باوجود حکومت بلوچستان کے ماتحت تھا۔ادارے میں ماہرین ارضیات تک موجود نہ تھے جو بی ایچ پی سے معاہدے کی مختلف شقوں پہ ماہرانہ رائے دیتے اور اس کی خامیاں اجاگر کرتے۔

صوبے میں سرگرم کئی ماہرین قانون انکشاف کرتے ہیں کہ نومبر1990ء سے مئی1993ء تک تاج محمد جمالی وزیراعلی بلوچستان رہے۔وہ رکوڈک میں کان کنی کا ٹھیکہ کسی غیرملکی کمپنی کو دینے سے مسلسل انکار کرتے رہے۔نومبر 1992ء میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے انھیں یہ سمری بھیجی کہ ٹھیکہ بی ایچ پی کو دے دینا چاہیے۔وزیراعلی نے اسے مستردکر دیا۔جولائی1993ء میں ملک سیاسی بحران کا شکار ہوا تو اس زمانے میں بی ڈی اے کے سربراہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری کے دفتر پہنچ گئے۔وہ اپنے ساتھ بی ایچ پی سے کیے گئے معاہدے کی فائل لائے تھے تاکہ حکومت اسے منظور کر سکے۔

ایڈیشنل چیف سیکرٹری نے انھیں بتایا کہ یہ معاہدہ اسی وقت منظور ہو گا جب منصوبہ بندی،خزانہ اور قانون کے صوبائی محکموں سے اس کی منظوری مل جائے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا ’’حکومت بلوچستان کو علم ہی نہیں کہ اس معاہدے میں کیا ہے اور اس پہ دستخط کرنے سے کیا اثرات اور نتائج برآمد ہوں گے۔‘‘حیرت انگیز بات یہ کہ لاعلمی اور شک وشبے کے باوجود انھوں نے سربراہ بی ڈی اے کو اس شرط پر معاہدہ کرنے کی اجازت دے دی کہ وہ متعلقہ محکموں سے معاہدے کی منطوری لے لیں۔اس سلسلے میں انھیں چھ ماہ کا وقت دیا گیا۔

بی ڈی اے کے سربراہ نے مگر متعلقہ محکموں سے کوئی رابطہ نہیں کیا اور بی ایچ پی سے کان کنی کرنے کا معاہدہ کر لیا جو ’’چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ایگریکمنٹ ‘‘کہلاتا ہے۔اسے انجام دینے کی غرض سے بے ڈی اے نے ایک کمپنی،چاغی ہلز ایکسپلوریشن کمپنی بھی تشکیل دی۔معاہدہ انہی دو کمپنیوں کے مابین ہوا۔حقائق سے آشکارا ہے،صوبائی بیوروکیسی کے بعض اعلی افسروں نے سیاسی قیادت کو لاعلم رکھتے ہوئے اپنے گٹھ جوڑ کی بدولت رکوڈک ایک بیرونی کمپنی کے سپرد کر دیا۔یہ معاہدہ کرتے ہوئے بلوچستان کان کنی مراعاتی قوانین1970ء کی درج ذیل شقیں پیروں تلے روند دی گیئں:

٭شق 6اور15:۔کان کن کمپنی پاکستان میں رجسٹر ہو اور اس میں مقامی افراد نے بھی سرمایہ کاری کر رکھی ہو۔

٭شق 23,31,38,62,63:۔علاقے میں معدنیات دریافت ہونے کی صورت میں کمپنی صرف اسی وقت وہاں کان کنی کرے گی جب تک حکومت اس سے مطمئن رہے۔

٭شق32,70(f),86 اور 95:۔حکومت کمپنی کی علاقے میں سرگرمیوں پہ نظرثانی کرنے کا حق رکھتی ہے۔کمپنی پر لازم ہے کہ وہ متوقع سرگرمیوں کے متعلق دستاویز حکومت کو پیش کرے۔حکومت اس کی سرگرمیاں روکنے کا استحقاق رکھتی ہے۔

٭شق 32(h),51,55,56,66,70(h):۔حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ قوانین کی خلاف ورزی پر کمپنی کا لائسنس منسوخ کر دے۔اور اس پہ جرمانہ کر دے۔

٭شق 51:۔لائسنس یافتہ کمپنی حکومت کو ہر ماہ سرگرمیوں کی رپورٹ دے گی۔

٭شق 53:۔معدنیات نکالنے کے لیے کمپنی حکومت کی منظوری کے بعد ہی کام شروع کرے گی۔

٭شق 56,57,70(g),83:۔حکومت کمپنی کو دیا گیا کان کنی کا علاقہ کسی بھی وقت واپس لینے کا حق رکھتی ہے۔

٭شق65 :۔حکومت کومعدنیات کے سلسلے میں رائلٹی لینے کی شرح بڑھانے کا حق حاصل ہے۔

٭شق69 :۔ایک کمپنی کسی بھی علاقے میں بلاشرکت غیرے اس کے مالکانہ حقوق حاصل نہیں کر سکتی۔

پاکستان دلدل میں کیسے پھنسا؟
صوبائی بیوروکریسی کے اقدامات سے آسٹریلوی کمپنی کو درج بالا تمام قوانین سے استثنی مل گیا۔ قوانین کی بے دھڑک خلاف ورزی کا نتیجہ تھا کہ معاہدے کی پہلی اینٹ ہی لالچ و ہوس سے تخلیق ہوئی۔اس بد چلن سے ایک غیر ملکی کمپنی کو ناجائز طور پہ کئی سہولتیں اور مراعات مل گئیں۔مثلاً اسے ایک ہزار مربع میل کلومیٹر رقبے کا مالک بنا دیا گیا۔اہم بات یہ کہ معدنیات ملنے پر ازروئے معاہدہ ’’75فیصد‘‘منافع آسٹریلوی کمپنی کو ملنا تھا۔جبکہ صرف ’’25فیصد‘‘بی ڈے اے کے حصے میں آتا۔رائلٹی کی شرح بھی محض ’’دو فیصد‘‘رکھی گئی۔

گویا ایک طرح سے صوبائی بیوروکریسی نے اربوں ڈالر مالیت کی معدنیات جو پاکستانی قوم کی ملکیت تھیں،اونے پونے داموں غیروں کو فروخت کر دیں۔البتہ یہ سودے بازی چند لالچی افراد کو ضرور امیر کبیر بنا گئی۔حد یہ ہے کہ رکوڈک میں معدنیات تلاش کرنے کے سلسلے میں ٹینڈر جاری نہیں کیے گئے اور من پسند کمپنی کو ٹھیکہ دے دیا گیا۔یہ آمریت اور من مانی کی بدترین مثال ہے۔

خشت اول ہی مبنی بر گناہ تھی لہذا عمارت بھی تعمیر نہ ہو سکی۔بی ایچ پی نے رکوڈک میں ایک دھیلے کا بھی کام نہیں کیا۔2000ء میں اس نے بیوروکریسی کی مدد سے مذید مراعات معاہدے میں داخل کرائیںجن سے فائدہ اٹھا کر بی ایچ پی نے اپنا حصہ دوسری آسٹریلوی کمنی،منکور کو بیچ دیا۔منکور نے نئی کمپنی،ٹیتھیان کاپر کمپنی کی بنیاد رکھی۔2006ء میںاس کمپنی کے حصص چلّی کی انٹیوفاگستا اور کینیڈین واسرائیلی کان کن کمپنی،بارک گولڈ نے خرید لیے۔یوں وہ بھی کمنی میں شراکت دار بن گئیں۔

اس دوران بلوچستان میں یہ خبر پھیل گئی کہ صوبائی بیورکریسی نے قانون سے تجاوز کرتے ہوئے غیرملکی کمپنیوں کو رکو ڈک کا ٹھیکہ دیا ہے۔جماعت اسلامی کے رکن اسمبلی،مولانا عبدالحق بلوچ معاملہ بلوچستان ہائیکورٹ لے گئے مگر اس نے درخواست مسترد کر دی۔یہ مقدمہ پھر سپریم کورٹ پہنچا۔2013ء تک بیوروکریسی کی بھرپور سعی رہی کہ غیرملکی کمپنیوں کوآزادانہ رکوڈک میں کام کرنے دیا جائے۔تاہم 2013ء میں سپریم کورٹ نے معاہدہ کالعدم قرار دے دیا۔

بی ایچ پی اور بی ڈی اے کے معاہدے میں یہ شق شامل تھی کہ کسی تنازع کی صورت اسے عالمی بینک کا ٹربیونل برائے تنازاعات سرمایہ کاری (انٹرنیشل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپوٹیس)حل کرے گا۔ غیرملکی کمپنیوں نے پاکستانی عدالت کا فیصلہ قبول نہ کیا،وہ رکوڈک کا بلا شرکت غیرے قبضہ چاہتی تھیں۔وہ معاملہ ٹربیونل میں لے گئیں۔چونکہ بیوروکریسی کے ’کمالات‘‘سے حکومت اپنے تمام حقوق کھو بیٹھی تھی، اس لیے جولائی 2019ء میں کیس ہار گئی۔ٹربیونل نے پاکستان پر 5ارب 97کروڑ ڈالر کا جرمانہ کر دیا۔

یہ حق پر کھڑے کمزور پہ ظالم طاقتور کی جیت کا معاملہ بھی ثابت ہوا۔ امریکا کی ممتاز کولمبیا یونورسٹی میںمعاشیات کے پروفیسر،جیفرے ساچس نے اپنے ایک مضمون’’Illegal projects: How World Bank Arbitrators Mugged Pakistan‘‘ میں انکشاف کیا ہے کہ طاقتور مغربی کان کن کمپنیاں ٹربیونل میں من پسند جج تعنیات کرانے میں کامیاب رہیںجنھوں نے پاکستان کے خلاف فیصلہ دیا…حالانکہ یہ کیس ہی بدنیتی پہ مبنی تھا۔غیرملکی کمپنیاں خوب جانتی ہیں کہ انھوں نے صوبائی بیوروکریسی کے کرپٹ افسروں کی ملی بھگت سے غیرقانونی طور پہ رکوڈک کا ٹھیکہ پایا تھا۔

حکومت پاکستان ستمبر 2020ء میں ٹربیونل سے فیصلے کے خلاف حکم امتناع لینے میں کامیاب رہی مگر اس نے بطور ضمانت ڈیرھ ارب ڈالر دینے تھے۔حکومت اتنی بڑی رقم نہ دے سکی لہذا دسمبر2020ء سے غیر ملکی کان کن کمپنیوں کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ جرمانے کی نصف رقم پاکستان کے بیرون ملک موجود اثاثے ضبط کر کے پا لیں۔یہ کمپنیاں اس ضمن میں بیرونی عدالتوں سے رجوع کر رہی ہیں۔پاکستانی حکومت نے نئے مقدمات کے دفاع کا عندیہ ظاہر کیا ہے،مگر کیسے؟یہ واضح نہیں۔

حیران کن بات یہ کہ ماہرین کی رو سے غیرملکی کمپنیوں نے رکوڈک میں معدنیات تلاش کرتے ہوئے بمشکل دس لاکھ ڈالر خرچ کیے ہوں گے بگر بی ڈی اے سے ہوئے معاہدے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ نہ صرف کیس جیتنے میں کامیاب رہیں بلکہ جرمانے کی بھاری رقم بھی حاصل کر لی۔یہ معاملہ اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھودنے کے مترادف ثابت ہوا۔اورعیاں کرتا ہے کہ چند لالچی پاکستانیوں نے اپنے مفادات کے لیے ملک وقوم کو بہت بڑی مصبیت میں پھنسا دیا۔امید ہے،اس سنگین بحران سے ہمارا حکمران طبقہ سبق سیکھتے ہوئے کرپشن کی دلدل میں پھنسنے سے اجتناب کرے گا۔

The post رکوڈک چیخ نہیں سکتا! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3tcvWUQ
via IFTTT

عالمی شہرت یافتہ اداکارہ و ماڈل صوفیہ ورگار ایکسپریس اردو

کہتے ہیں بڑی منزلوں کے حصول کے لئے خواب بھی بڑے ہونے چاہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بڑی سے بڑی منزل کے حصول کے لئے پہلے ایک چھوٹا قدم ہی اٹھایا جاتا ہے۔

قدرت نے ہر انسان کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا تاکہ وہ ان کے ذریعے اپنی منزلوں کو پا لے، لیکن ان صلاحیتوں کے ساتھ جہد مسلسل وہ کنجی ہے، جو ہر کامیابی کے تالے کو کھول سکتی ہے۔

زندگی کے ہر شعبہ کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ان شعبہ جات میں خود کو امرکرنے والی اکثر شخصیات جہد مسلسل سے ہی اس مقام کو پہنچیں، ان شخصیات نے سطحی مقام سے اپنا سفر شروع کیا اور پھر اپنی مستقل مزاجی کے باعث وہ بام عروج کو پہنچ گئے۔

ایسی ہی شخصیات میں ایک نام گزشتہ برس ابھر کر سامنے آیا، جس کا تعلق شوبز کی دنیا سے ہے اور وہ ہیں کولمبیئن نژاد امریکی اداکارہ و ماڈل صوفیہ ورگارا، جس نے اپنے فنی سفر کا آغاز بہت معمولی کاموں سے کیا، کبھی انہیں کسی اشتہاری مہم تو کبھی کسی ڈرامہ میں بہت مختصر کردار دیا گیا، لیکن پھر وقت بدلا اور صوفیہ کے جہد مسلسل نے انہیں دنیا کی مہنگی ترین اداکارہ بنا ڈالا۔

معروف کولمبین امریکن اداکارہ، کامیڈین، پروڈیوسر، ٹی وی ہوسٹ، ماڈل اور بزنس وومن صوفیہ ورگارا 10جولائی 1972ء کو کولمبیا میں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ ایک گھریلو خاتون جبکہ والد گوشت انڈسٹری کے لئے مویشی پالتے تھے اور یہی ان کے گزربسر کا ذریعہ تھا۔ صوفیہ کو اس کے 5 بہن بھائیوں اور متعدد کزنز میں ان کے عرفی نام ٹوٹی سے پکارا جاتا تھا۔ اداکارہ نے نیشنل یونیورسٹی آف کولمبیا میں تین سال تک دندان سازی کی پڑھائی کی لیکن ڈگری کی تکمیل سے 2 سمسٹر قبل ہی انہوں نے اس پڑھائی کو خیرآباد کہ دیا کیوں کہ اپنے شوق اور معاشی حالات کے باعث وہ جلد از جلد کچھ کرنا چاہتی تھیں۔

ورگارا نے ابتدائی طور پر ماڈلنگ میں قسمت آزمائی کی، جس میں شائد انہیں وہ کامیابی حاصل نہ ہوئی، جس کی وہ توقع رکھتی تھیں۔ 1998ء میں امریکن ٹی وی کی مقبول ہوسٹ کے ساتھ ایک ایسا حادثہ پیش آیا، جس نے کولمبیا سے ان کا دل اُچاٹ کر دیا، ہوا کچھ یوں کہ صوفیہ کے بڑے بھائی رافیل گھر سے کسی کام کے لئے نکلے تو راستے میں وہ چند اغواء کاروں کے ہتھے چڑھ گئے، اس دوران رافیل نے مزاحمت کی تو اغواکار مشتعل ہو گئے اور انہوں نے گولی چلا دی، جس سے رافیل موقع پر ہی ڈھیر ہو گئے، اس حادثہ نے ورگارا کو شدید ذہنی دبائو کا شکار کر دیا اور نتیجتاً وہ کولمبیا سے فلوریڈا (امریکا) چلی گئیں، جہاں کچھ آرام کے بعد انہوں نے پھر سے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا تو یوں محسوس ہوا کہ کامیابیاں شائد ان ہی کی راہ تک رہی تھیں۔

ورگارا کے فنی سفر کا آغاز کچھ ڈرامائی تھی، ایک روز یونہی وہ کولمبین ساحل پر واک کر رہی تھیں کہ ایک فوٹو گرافر کی ان پر نظر پڑی، جس پر اس نے صوفیہ سے ایک عام فوٹو شوٹ کی درخواست کی، جسے مستقبل کی معروف ماڈل نے قبول کر لیا، اس عام فوٹوشوٹ پر جب اس سے متعلقہ شعبہ کے افراد کی نظر پڑی تو وہ گرویدہ ہو گئے اور ورگارا کو باقاعدہ ماڈلنگ کی آفرز آنے لگیں۔ ماڈلنگ کے بعد جب انہیں ایک اشتہار میں کام کرنے کی پیش کش ہوئی تو وہ گھبرا گئیں لیکن ان کی ٹیچر نے صوفیہ کا حوصلہ بڑھایا تو وہ یہ کرنے پر راضی ہو گئیں۔

اداکارہ نے 17 برس کی عمر میں اپنا پہلا ٹی وی کمرشل بنوایا، جسے پسندیدگی کی سند عطا ہوئی، اس کے بعد صوفیہ نے کریٹیو ورکشاپس سکول آف ایکٹنگ میں باقاعدہ پڑھائی، جہاں انہیں اداکاری کی تربیت کے لئے بہترین اساتذہ کا ساتھ نصیب ہوا۔ چھوٹی سکرین پر اداکارہ کا سفر 1995ء میں ایک ٹی وی پروگرام سے ہوا، جس کے بعد انہوں نے متعدد ڈراموں میں بحیثیت اداکارہ اور پروگرامز میں بطور ہوسٹ کام کیا۔ فلم انڈسٹری کی بات کی جائے تو اداکارہ کی پہلی فلم Big Trouble تھی، جس میں انہیں نسبتاً ایک چھوٹا کردار دیا گیا، یوں کامیابیوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا، جو آج تک جاری ہے۔ ’’بگ ٹربل، فور برادرز، شیف، وائلڈ کارڈ، ہیپی فیٹ ٹو‘‘ اداکارہ کی مشہور فلمیں جبکہ ’’مائی وائف اینڈ کڈز، ڈانسنگ ودھ دی سٹارز، فیملی گائے، سیچرڈے نائیٹ لیو، ماڈرن فیملی‘‘ معروف ٹی وی ڈرامے ہیں۔

بے شمار کمپنیوں سے معاہدے اداکارہ کو امریکا کی بہترین ماڈل قرار دلوانے کی ایک دلیل ہیں، ان معاہدوں سے وہ ککھ سے لکھ پتی بن گئیں۔ ورگارا کی نجی زندگی کی بات کی جائے تو انہوں نے صرف 18 برس کی عمر میں اپنے ایک سکول فیلو جُو گونزیلز سے شادی کی اور 1991ء میں وہ ایک بیٹے کی ماں بن گئیں، لیکن بدقسمتی سے میاں بیوی کے درمیان حالات اچھے نہیں تھے تو 1993ء میں ان کے درمیان طلاق ہو گئی۔ 2000ء میں صوفیہ کو گلے کے غدود کا کینسر لاحق ہو گیا، جس سے انہیں آپریشن کے بعد نجات حاصل ہو گئی، 2012ء میں نِک لوب سے ان کی دوستی کی پینگیں بڑھیں لیکن دو برس بعد ہی یہ تعلق بھی ٹوٹ گیا۔

فن کی دنیا میں سمیٹی کامیابیاں
صوفیہ نے پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز ماڈلنگ سے کیا لیکن جلد ہی وہ پہلے ٹیلی ویژن اور پھر فلمی دنیا کا چمکتا ستارہ بن گئیں۔ اداکارہ کی چھوٹی سکرین پر پہلی انٹری 1995ء میں نشر ہونے والی مختصر دورانیہ کی ڈرامہ سیریز Acapulco, cuerpo y alma سے ہوئی، جس میں انہیں نسبتاً ایک محدود کردار دیا گیا، جس کے بعد اسی برس انہوں نے Fuera de serie کے نام سے نشر ہونے والے ٹیلی ویژن پروگرام میں شریک میزبان کے فرائض سرانجام دیئے۔ 1999ء میں انہوں نے Baywatch کے نام سے ایک ایکشن ڈرامہ سیریز میں کام کیا، جس سے انہیں اپنی شناخت بنانے میں کافی مدد ملی۔

صوفیہ نے My Wife and Kids، Eve، The Knights of Prosperity، Men in Trees، Modern Family، Family Guy اور America’s Got Talent سمیت 25 ٹیلی ویژن پروگرامز میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ فلمی میدان میں اداکارہ کی شروعات کچھ اچھی نہیں تھی، انہوں نے اپنی فلم Big Trouble کے نام سے کی، جس سے انہیں زیادہ پذیرائی نہ مل سکی تاہم اگلے ہی برس یعنی 2003 میں انہیں Chasing Papi کے نام سے بننے والی فلم میں اہم کردار دیا گیا، جسے انہوں نے بخوبی نبھایا۔ صوفیہ کے ٹیلی ویژن پروگرامز کی طرح فلموں کی مجموعی تعداد بھی 25 ہے۔ فلم اور ٹی وی کے علاوہ وہ 2 میوزک ویڈیوز اور ایک تھیٹر میں بھی اپنے جوہر دکھا چکی ہیں۔

8 بار امریکی ٹیلی ویژن اور ایک بار (2020) دنیا کی مہنگی ترین اداکارہ کا اعزاز پانے والی صوفیہ کو Screen Actors Guild Awards، سے لے کر Golden Globe Awards، NAACP Image Awards، Kids’ Choice Awards، Satellite Awards، ALMA Awards اور People’s Choice Awards تک درجنوں ایوارڈز سے نوازا یا نامزد کیا گیا۔ وہ دو بار دنیا کی بااثر ترین خواتین کی فہرست میں شامل ہو چکی ہیں۔

’’ماڈرن فیملی‘‘
2020ء میں دنیا کی مہنگی ترین اداکارہ قرار پانے والی صوفیہ ورگارا کے اس اعزاز میں سب سے نمایاں چیز امریکن براڈ کاسٹنگ کمپنی کے بینر تلے نشر ہونے والی مزاحیہ ڈرامہ سیریل ’’ماڈرن فیملی‘‘ ہے۔ اس ڈرامہ کی ہر قسط پر اداکارہ کو 5 لاکھ ڈالر ادا کئے گئے جبکہ اقساط کی مجموعی تعداد 18 تھی۔ اسی ڈرامہ سے حاصل ہونے والی مقبولیت کی وجہ سے ورگارا کو America’s Got Talent نامی شو میں بحیثیت جج شامل کیا گیا، جس کا معاوضہ 10 ملین ڈالر تھا۔

ماڈرن فیملی معروف امریکی لکھاری و پروڈیوسر کرسٹوفر لیوڈ اور سٹیون لیویٹن کی پیش کش ہے، جس کا آغاز 2009ء میں ہوا۔ متنوع مزاج کی حامل تین فیملیز کے گرد گھومنے والے اس ڈرامہ کے اب تک 11 سیزن آ چکے ہیں۔ ماڈرن فیملی کا پہلا سیزن 23 ستمبر 2009ء سے 19 مئی 2010ء تک چلا اور اس کو دیکھنے والوں کی تعداد ساڑھے 9 ملین یعنی تقریباً ایک کروڑ تھی، اس کے بعد آنے والے ہر سیزن کے شائقین کی تعداد پچھلے سے زیادہ ہوتی چلی گئی۔ ماڈرن فیملی کے تیسرے ہی سیزن میں اس کو دیکھنے والوں کی تعداد 13ملین تک پہنچ گئی۔ ماڈرن فیملی بلاشبہ امریکی ٹی وی کا مقبول ڈرامہ ہے، جسے ہر عمر کے افراد نے پسندیدگی کی سند عطا کی ہے۔

The post عالمی شہرت یافتہ اداکارہ و ماڈل صوفیہ ورگار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3cDGNRV
via IFTTT

فوجی ہیلی کاپٹر تباہ، تمام اہلکار ہلاک ... ہیلی کاپٹر کے تباہ ہونے کی وجوہات کا پتا نہیں لگایا جا سکا،ایجنسی رپورٹ

دبئی اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کے بعد اب تک 272ملین ڈالر کی تجارت ہوئی ... پانچ ماہ کے قلیل عرصے میں اتنا زیادہ کاروبار دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی نوید سنا ... مزید

ریحام خان اور فوزیہ قصوری کو شو میں کیوں لیا،سینئر اینکر پرسن کا پروگرام بند کر دیا گیا ... اگر اپنا شو جاری رکھنا ہے تو حکومت کے حق میں چھے ماہ تک پروگرام کرنا ہو گا وگرنہ ... مزید

پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ لوٹی دولت ملک واپس لائیں گے مگر اب ملک سے دولت لوٹ کر باہر بھیج دی ... کرپشن کے خلاف جنگ کا نعرہ بلند کرنے والوں نے کرپشن کے ریکارڈ قائم کر دیے،شاہزیب ... مزید

جب موجودہ حکومت جائے گی تو دس نیب بنانے پڑیں گے ان کی کرپشن پکڑنے کے لیے ... پہلے ہمارے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ قطریوں کے ساتھ کاروبار کرتے تھے اور اب حکمرانوں کے مشیر کررہے ... مزید

امریکن ایٹم بم بردار جنگی طیارے ایرانی سرحد پر پہنچ گئے،امریکی آرمی نے ویڈیو جاری کر دی ... جوبائیڈن کے صدر بننے کے بعد امریکی جنگی طیارے مشرقِ وسطیٰ میں کھڑے کر دیے گئے،طبل ... مزید

Friday, January 29, 2021

ملک میں مزید 2179 افراد کورونا کا شکار، 65 مریض جاں بحق ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: ملک بھر میں مزید 2 ہزار 179 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے جب کہ 65 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں کورونا کے 41 ہزار 435 ٹیسٹ کئے گئے، اس طرح ملک میں مریضوں میں اس وائرس کی تشخیص کے لیے کئے گئے ٹیسٹس کی مجموعی تعداد 78 لاکھ 89 ہزار 741 ہوگئی ہے۔

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 2 ہزار 179 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے، جس کے بعد وائرس کی کورونا کے مصدقہ مجموعی کیسز کی تعداد 5 لاکھ 43 ہزار214 ہوگئی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایک ہزار 407 افراد نے کورونا کی وبا کو شکست دے دی ہے۔ اس طرح اب تک 4 لاکھ 98 ہزار 152 کورونا مریض صحتیاب ہوچکے ہیں۔

این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا کی وبا نے مزید 65 افراد کی جان لے لی ہے ، جس کے بعد اس وبا سے لقمہ اجل بننے والوں کی تعداد 11 ہزار 623 ہوگئی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک میں کورونا کے مصدقہ فعال مریضوں کی تعداد 33 ہزار439 ہے جو اپنے گھروں، اسپتالوں یا خصوصی مراکز میں زیر علاج ہیں۔ ان میں 2 ہزار 111 کی حالت تشویشناک ہے۔

کورونا وائرس اوراحتیاطی تدابیر

کورونا وائرس کے خلاف یہ احتیاطی تدابیراختیارکرنے سے اس وبا کے خلاف جنگ جیتنا آسان ہوسکتا ہے۔ صبح کا کچھ وقت دھوپ میں گزارنا چاہیے، کمروں کو بند کرکے نہ بیٹھیں بلکہ دروازے کھڑکیاں کھول دیں اور ہلکی دھوپ کو کمروں میں آنے دیں۔ بند کمروں میں اے سی چلاکربیٹھنے کے بجائے پنکھے کی ہوا میں بیٹھیں۔

سورج کی شعاعوں میں موجود یو وی شعاعیں وائرس کی بیرونی ساخت پر ابھرے ہوئے ہوئے پروٹین کو متاثر کرتی ہیں اور وائرس کو کمزور کردیتی ہیں۔ درجہ حرارت یا گرمی کے زیادہ ہونے سے وائرس پرکوئی اثرنہیں ہوتا لیکن یو وی شعاعوں کے زیادہ پڑنے سے وائرس کمزور ہوجاتا ہے۔

پا نی گرم کرکے تھرماس میں رکھ لیں اورہرایک گھنٹے بعد آدھا کپ نیم گرم پانی نوش کریں۔ وائرس سب سے پہلے گلے میں انفیکشن کرتا ہے اوروہاں سے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتا ہے، گرم پانی کے استعمال سے وائرس گلے سے معدے میں چلا جاتا ہے، جہاں وائرس ناکارہ ہوجاتا ہے۔

The post ملک میں مزید 2179 افراد کورونا کا شکار، 65 مریض جاں بحق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/39sxSAx
via IFTTT

پہلی اننگز میں کم ٹوٹل کی وجہ سے میچ ہاتھ سے نکلا، ڈی کک ایکسپریس اردو

 کراچی: پروٹیز کپتان کوائنٹن ڈی کک نے پہلی اننگز میں کم ٹوٹل کو کراچی ٹیسٹ میں ناکامی کی وجہ قرار دیدیا۔

ورچوئل پریس کانفرنس میں کوائنٹن ڈی کک نے کہاکہ پاکستان نے بہتر کھیل پیش کرکے کامیابی حاصل کی،ہم راولپنڈی میں سیریز برابر کرنے کی کوشش کرینگے، ڈی کک نے کہا کہ پہلی اننگز میں کم ٹوٹل کی وجہ سے میچ ہاتھ سے نکلا جب کہ میزبان بولرز نے مسلسل بہترین بولنگ کرکے ہمیں دباؤ میں رکھا۔

پروٹیز کپتان نے کہا کہ بیرون ملک کھیلنے والی ٹیم کو مختلف کنڈیشنز میں زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہماری بیٹنگ لائن کو رہا، انھوں نے کہا کہ مارکرم اور ڈوسین کی دوسری اننگز میں مزاحمت سے ثابت ہوا کہ کوشش سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جاسکتا تھا مگر دیگر بیٹسمین ذمہ دارانہ کھیل پیش نہ کرسکے۔

The post پہلی اننگز میں کم ٹوٹل کی وجہ سے میچ ہاتھ سے نکلا، ڈی کک appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3t2TV8G
via IFTTT

نعمان علی نے ڈیبیو پر ہی ریکارڈز کا کھاتہ کھول لیا ایکسپریس اردو

 لاہور:  نعمان علی نے ڈیبیو پر ہی ریکارڈز کا کھاتہ کھول لیا، وہ کیریئر کے پہلے ہی ٹیسٹ کی اننگز میں 5وکٹیں حاصل کرنے والے تاریخ کے چوتھے معمرترین اسپنر اور ساتویں بولر بن گئے۔

نعمان علی پاکستان کی طرف سے ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے چوتھے معمر ترین کرکٹر کے طور پر نیشنل اسٹیڈیم کے میدان پر اترے تھے، اس وقت ان کی عمر 34سال اور 111دن تھی،اس سے قبل میراں بخش 47سال 284دن، ذوالفقار بابر 34سال 308دن اور محمد اسلم 34سال 177دن کی عمر میں پہلا ٹیسٹ کھیلنے میں کامیاب رہے تھے۔

نعمان ڈیبیو میچ کی کسی اننگز میں 5وکٹیں حاصل کرنے والے ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے چوتھے معمرترین اسپنر اور ساتویں بولر ہیں،پہلے ہی ٹیسٹ میں 5وکٹوں کا کارنامہ سرانجام دینے والے معمر ترین پاکستانی بولرز میں بھی وہ سہرفہرست ہیں۔

کراچی ٹیسٹ سے قبل مجموعی طور پر پاکستان کے 11بولرز نے ڈیبیو ٹیسٹ میں 5 وکٹیں اڑاکر دھاک بٹھائی تھی، ان میں عارف بٹ،محمد نذیر، شاہد نذیر،محمد زاہد،شاہد آفریدی،محمد سمیع،شبیر احمد، یاسر عرفات، وہاب ریاض،تنویر احمد اور بلال آصف شامل ہیں۔

نعمان علی نے 12ویں بولر کے طور پر اس فہرست میں اپنا نام درج کرایا،ڈیبیو ٹیسٹ میں زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے پاکستانی بولرز میں نعمان علی چھٹے نمبر پر آگئے،محمد زاہد نے 130رنز دے کر11شکار کیے تھے،اعزاز چیمہ،محمد سمیع، شبیر احمد اور عبدالرحمان نے اپنا پہلا ہی میچ 8،8وکٹوں سے یادگار بنایا تھا، نعمان علی نے 73رنز دیکر 7شکار کیے۔

دوسری جانب بابر اعظم نے بطور ٹیسٹ کپتان ڈیبیو پر فتح حاصل کرنے والوں کی فہرست میں اپنا نام درج کرا لیا، اس سے قبل فضل محمود،مشتاق محمد،جاوید میانداد، وقار یونس، سلیم ملک، رمیز راجہ، محمد یوسف اورسلمان بٹ نے پہلی بار قیادت کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی تھی۔

The post نعمان علی نے ڈیبیو پر ہی ریکارڈز کا کھاتہ کھول لیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3t7RGkD
via IFTTT

سندھ میں بدھ سے کورونا ویکسین لگانے کا اعلان، پہلے مرحلے میں ہیلتھ ورکرز کو لگائی جائے گی ایکسپریس اردو

 کراچی:  سندھ حکومت نے بدھ کے روز سے صوبے میں کورونا ویکسین لگانے کا اعلان کر دیا ہے جب کہ پہلے مرحلے میں سندھ کے دس اضلاع میں فر نٹ لا ئن ہیلتھ کیئر ورکرز کو ویکسین لگانے کا عمل شروع کیا جائے گا۔

صوبائی وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ نے پارلیمانی سیکریٹری برائے صحت ایم پی اے قاسم سراج سومرو کے ہمراہ سندھ اسمبلی کمیٹی روم میں ہنگامی پریس کانفرنس میں کہا کہ سندھ حکومت نے بدھ کے روز سے صوبے میں کورونا ویکسین لگانے کا اعلان کر دیا ہے جب کہ پہلے مرحلے میں سندھ کے دس اضلاع میں فر نٹ لا ئن ہیلتھ کیئر ورکرز کو ویکسین لگانے کا عمل شروع کیا جائے گا۔

صوبائی وزیر اطلاعات سندھ ناصر حسین شاہ نے کہا کہ حکومت پاکستان کو چین سے ملنے والی سائینو فارم ویکسین کی پانچ لاکھ ڈوز میں سے سندھ حکومت کو 82 ہزار 359 ڈوزز ملیں گی، انہوں نے کہا کہ محکمہ صحت سندھ نے اپنے وسائل سے کورونا ویکسین کی خریداری کے لیے ڈیڑھ ارب روپے مختص کیے ہیں جبکہ کہ وزیر اعلی سندھ نے علیحدہ سے معقول فنڈز مختص کیے ہیں تا کہ صوبائی حکومت خود بھی ویکسین کی خریداری کر سکے۔

ناصر حسین شاہ نے کہا کہ صوبائی حکومت کو ویکسین کی خریداری کیلیے وفاقی حکومت کی اجازت درکار ہے، وزیراعلیٰ سندھ نے اجازت کے لئے وفاقی حکومت کو خط لکھ دیا ہے لیکن اس کا جواب ابھی تک نہیں آیا۔

انھوں نے کہا کہ ایک نجی ڈونر گروپ نے پا کستا ن میں بیس فیصد آبادی کی ویکسینیشن کا وعدہ کیا ہے ان کی مارچ میں پہلی شپمنٹ آجا ئے گی، انھوں نے کہا کہ ابتدا ئی طو ر پر دس اضلاع کو شارٹ لسٹ کیا گیا ہے جہاں پر کورونا کا تنا سب زیادہ ہے اس میں کراچی کے 7اضلاع کے علاوہ جامشورو، حیدرآباد اور شہید بے نظیر آباد شامل ہیں۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ چین کی سائنو فارم اورنجی ڈونر گروپ کی اسٹرا زینکا اور فائزر کی دو مختلف ڈوز ملیں گی، ہمیں وفاق کی جانب سے اتوار سے ویکسین ملنا شروع ہوجائے گی۔

پارلیمانی سیکریٹری برائے صحت ایم پی اے قاسم سراج سومرو نے کہا کہ پہلے مرحلے میں ہم فرنٹ لائن ہیلتھ کیئر ورکرز کو ٹارگٹ کر رہے ہیں، پالیسی کے مطابق جن علاقوں میں زیادہ کورونا کے کیسز مثبت ہیں ان کو ترجیح دی جارہی ہے،کراچی میں 22فیصد تنا سب رہا ہے اور اس کے بعد حیدرآباد ہے جہاں 26 فیصد تناسب گیا ہے، اس کے بعد شہید بے نظیر آباد ہے۔

ناصر حسین شاہ نے کہا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل وہی ادارہ ہے جس کی رپورٹس کو عمران خان لہرایا کر تے تھے، انھوں نے کہا کہ میں نے تو موجودہ حکومت سے متعلق ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کا اردو اور سندھی میں بھی ترجمہ کرایا ہے اور میں ڈھونڈ رہا ہوں کے یہ لکھا نظر آ جائے کہ یہ 2018 سے پہلے کی رپورٹ ہے۔

The post سندھ میں بدھ سے کورونا ویکسین لگانے کا اعلان، پہلے مرحلے میں ہیلتھ ورکرز کو لگائی جائے گی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2YtEB76
via IFTTT

انسداد منی لانڈرنگ، جیولرز، پراپرٹی ڈیلر، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کی رجسٹریشن ایکسپریس اردو

 اسلام آباد:  وفاقی حکومت نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی شرائط پر عملدرآمد کیلیے جیولرز،پراپرٹی ڈیلرز، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کی رجسٹریشن شروع کردی ہے۔

آئندہ ماہ کے وسط تک ملک بھرمیں57 ہزار سے زائد جیولرز، پانچ ہزار رئیل اسٹیٹ ایجنٹس و پراپرٹی ڈیلرز اور چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کی رجسٹریشن کی جائے گی۔انھیں انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ 2010ء کے سیکشن6اے کے تحت نوٹس جاری کئے جاچکے ہیں۔

منی لانڈرنگ کیسوں کیلئے کراچی، لاہور، اسلام آباد سمیت ملک میں بھر پبلک پراسیکیوٹرز تعینات کرنے کا بھی  فیصلہ کیا گیا ہے جس کیلیے ایف بی آر میں پراسیکیوشن ونگ  قائم کیا جائے گا۔ وزارت خزانہ اگلے چند روز میں سمری کابینہ کو بھجوائے گی۔

ایف بی آرذرائع نے بتایا ہے کہ ان کے محکمے نے اب تک  82 ارب 26 کروڑ روپے  کی منی لانڈرنگ کے119کیسز درج کیے ہیں رواں برسایسے  کیسز سے 6ارب 22کروڑ روپے ریکور، 66غیر منقولہ جائیدادیں ضبط اور 203 بینک اکاؤنٹس منجمد کئے گئے ہیں جبکہ وفاقی دارالحکومت سے سیلز ٹیکس چوری کا ایک کیس پکڑا گیا ہے پکڑے جانے والے کیسوں میں ایک درجن سے زائد کیس ایڈوانس مرحلے میں ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ فیٹف نے منی لانڈرنگ کے کیسوں کو خود سے ایویلیو ایٹ کرنے،پراسیکیوشن کا عمل تیز کرکے سزائیں دینے پر زور دیا ہے، ریئل اسٹیٹ ایجنٹس اب سے اپنے تمام صارفین اور ان کی ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ رکھیں گے۔

علاوہ ازیں جیولرز 20 لاکھ سے زائد کیش ٹرانزکشن پر صارفین کا تمام ریکارڈ رکھنے کے پابند ہوں گے کسی بھی مشکوک ٹرانزیکشنز یا شک وشبہ کی صورت میں ڈائریکٹریٹ جنرل آف ڈی این ایف بی پیز کو آگاہ کرنا ضروری ہو گاجبکہ مشکوک صارف کی معلومات فراہم نہ کرنے پر 10 کروڑ روپے تک کا جرمانہ بھی کیا جاسکے گا۔

The post انسداد منی لانڈرنگ، جیولرز، پراپرٹی ڈیلر، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس کی رجسٹریشن appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/39skVXw
via IFTTT

اے ڈی بی نے پاکستان کے 1 کروڑ ڈالر کے قراقرم بانڈز فروخت کر دیے ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان کے قراقرم بانڈز فروخت کر دیے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) نے 28 جنوری کو پاکستان کے قراقرم بانڈز فروخت کر دیے۔

جاری اعلامیہ میں بتایا گیا ہے قراقرم بانڈز کی مالیت 1 کروڑ ڈالر ہے جو دو یورپی سرمایہ کاروں نے خریدے، پانچ سال کے لیے جاری بانڈز سے پاکستان کو ایک ارب 60 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی ہے۔

The post اے ڈی بی نے پاکستان کے 1 کروڑ ڈالر کے قراقرم بانڈز فروخت کر دیے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3coaard
via IFTTT

کراچی سے امن ریلی محبت کا پیغام لے کر گوادر روانہ ایکسپریس اردو

 کراچی: 50 بائیک رائیڈر اور 50 کاروں پر مشتمل امن ریلی مرحلہ وار کراچی سے گوادر روانہ ہوگئی۔

پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کی کوششیں اور قربانیاں رنگ لے آئیں، پاکستان اور بالخصوص بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال میں واضح بہتری کے ثمرات کھل کر سامنے آنے لگے، جمعہ کی صبح 50 بائیک رائیڈر اور 50 کاروں پر مشتمل امن ریلی مرحلہ وار کراچی سے گوادر روانہ ہوگئی۔

پہلے مرحلے میں اسلام آباد، لاہور اور کراچی سے 50 رائیڈرز کا قافلہ امن و محبت کا پیغام لے کر کلفٹن کراچی سے گوادر کی جانب روانہ ہوا، جبکہ دوسرے مرحلے میں مائی کلاچی روڈ بوٹ بیسن کلفٹن سے پچاس کاروں پر مشتمل قافلہ بھی گوادر کو روانہ ہوا۔

اس عظیم الشان امن ریلی کے شرکاء شام تک ساڑھے چھ سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کریں گے، ریلی کے شرکاء کا جوش و جذبہ اور خوشی دیدنی تھی، حب پہنچنے پر مقامی انتظامیہ اور عوام الناس نے ریلی کا گرمجوشی سے استقبال کیا اور بلوچستان میں خوش آمدید کہا۔

پاکستان کے قومی پرچم کے رنگوں میں رنگی یہ دلکش ریلی کنڈ ملیر، اورماڑہ اور پسنی کے دلکش ساحل سے ہوتی گوادر پہنچے گی ، یہ ریلی دنیا کو پاکستان کے بے مثال حسن اور اس کی سینکڑوں کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی کے ہوش ربا نظارے دکھانے کی زبردست کاوش ہے۔

گوادر میں اس امن ریلی کا شاندار استقبال کیا جائیگا ہفتے کے روز ریلی کے شرکا گوادر میں خوب لطف اندوز ہونگے اور مقامی لوگوں اور بالخصوص نوجوانوں کے ساتھ سیر و تفریح کریں گے، اتوار کے دن امن ریلی کے شرکا محبتیں بانٹتے اور سمیٹتے واپس کراچی کو روانہ ہونگے۔

The post کراچی سے امن ریلی محبت کا پیغام لے کر گوادر روانہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3j3zbcy
via IFTTT

ایف بی آر نے 7 ماہ کے دوران محصولات کا ہدف حاصل کرلیا ایکسپریس اردو

 اسلام آباد:  ایف بی آر نے 7ماہ کے دوران محصولات کا ہدف حاصل کرلیا جب کہ اس عرصے کے دوران ادارے نے 2 کھرب 57 ارب روپے ٹیکسز کی مد میں وصول کیے۔

اعداد و شمار کے مطابق ایف بی آر نے جنوری تا جولائی دو کھرب 57 ارب روپے کے محصولات وصول کیے جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 6 اعشاریہ 5فیصد زائد ہے۔

ادارے کے مطابق 7 ماہ کے دوران محصولات کا ہدف دو کھرب 55 ارب روپے رکھا گیا تھا تاہم ایف بی آر نے 20 ارب روپے زائد ٹیکس وصول کیا۔ ان محصولات میں زیادہ تر بالواسطہ ٹیکسز شامل ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق سات ماہ کے دوران انکم ٹیکس کی مد میں 945 ارب روپے وصول ہوئے جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 5 اعشاریہ 2 فیصد زائد ہے تاہم یہ اب بھی اپنے ہدف سے 82ارب روپے کم رہے۔

دوسری جانب سیلز ٹیکس محصولات اپنے ہدف سے 75 ارب روپے زائد رہے اور مجموعی طور پر ایک کھرب 75 ارب روپے وصول ہوئے۔سات ماہ کے دوران ایف بی آر نے ٹیکس ریفنڈ کی مد 128 ارب روپے بھی ادا کیے۔

صدر عارف علوی نے ایف بی آر کو ہداہت جاری کی ہے کہ جعلی اور فرضی رسیدوں انوائسز کی مد میں دی گئی رقومات کی وصولی کی جائے۔ انھوں نے یہ ہدایات وفاقی ٹیکس محتسب کی جانب سے جعلی RPs کو ٹیکس ریفنڈ کے نام پر 13-2012 میں دی گئی رقومات کی وصولی کے احکامات کی مد میں جاری کی گئیں۔

اپنی ہدایات میں صدر علوی کا کہنا تھا کہ یہ بات باعث حیرت اور افسوس کہ ایف بی آر ریفنڈ کے جعلی کلیمز کی چھان بین میں ناکام رہا اور اس جعلسازی میں ادارے کے بعض افسران بھی شامل تھے۔

The post ایف بی آر نے 7 ماہ کے دوران محصولات کا ہدف حاصل کرلیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2YtDggA
via IFTTT

برآمدی صنعتوں کو گیس کی بندش خطرے کی گھنٹی ہے، ٹاول مینوفیکچررز ایکسپریس اردو

 کراچی: ٹاول مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے برآمدی صنعتوں کو گیس کی بندش ٹاول سمیت ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات کے لیے خطرے کی گھنٹی قراردیدیا ہے۔

ٹی ایم اے کے چیئرمین فیروز عالم لاری نے کہاہے کہ ان حالات میں برآمدی آرڈرز کی مقررہ مدت میں تکمیل ناممکن ہوگئی ہے جس سے ویلیوایڈڈ ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدی سرگرمیوں میں نمایاں کمی کے بادل امڈناشروع ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کپاس ٹیکسٹائل کی صنعت کی اہم اور بنیادی خام مال ہے اور مقامی مارکیٹ میں کپاس کی قلت کی وجہ سے پہلے ہی ٹیکسٹائل کا شعبہ بری طرح متاثر رہا ہے۔

The post برآمدی صنعتوں کو گیس کی بندش خطرے کی گھنٹی ہے، ٹاول مینوفیکچررز appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3owm18X
via IFTTT

مینگورہ میں 6 سالہ بچی سورہ کی بھینٹ چڑھ گئی، جرگے کے 12 افراد گرفتار ایکسپریس اردو

مینگورہ:  خوازہ خیلہ کے علاقہ لاخار میں چھ سالہ بچی کو سورہ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔

پولیس کے مطابق بچی ستوریہ کو پرانی عداوت ختم کرنے کیلیے سورہ کی بھینٹ چڑھا یا جارہا تھا، اطلاع ملنے پر پولیس نے بروقت کاروائی کرتے ہوئے جرگہ کے 12 افراد کوحراست میں لے کر ایف آئی آر درج کر لی۔

واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل اسلام اللہ نامی شخص نے مسماۃ فرحت سے پسند کی شادی کی تھی جس کے بعد دونوں خاندان میں تنازعہ کھڑا ہوگیا تھا۔

The post مینگورہ میں 6 سالہ بچی سورہ کی بھینٹ چڑھ گئی، جرگے کے 12 افراد گرفتار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3pxqRUM
via IFTTT

43 ہزار اسکولوں کو جی پی ایس کے ذریعے گوگل میپ پر لوکیٹ کر دیا، وزیر تعلیم سندھ ایکسپریس اردو

 کراچی: وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ صوبے بھر کے 43 ہزار سے زائد اسکولوں کو جی پی ایس کے ذریعے گوگل میپ پر لوکیٹ کردیا گیا ہے۔

وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے اپنے دفتر میں منعقدہ محکمہ اسکول ایجوکیشن کے ریفارم سپورٹ یونٹ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ صوبے بھر کے 43 ہزار سے زائد پرپرائمری، مڈل اور سیکنڈری اسکولوں کو مکمل جی پی ایس کے ذریعے گوگل میپ پر لوکیٹ کردیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ صوبے کے تمام ڈسٹرکٹ میں سرکاری اسکولوں کو یونین کونسل اور یونین کمیٹی کی سطح پر کلسٹر کردیا گیا ہے اور آئندہ 3 سال کے اندر اندر ورلڈ بینک اور دیگر کے اشتراک سے صوبے میں ہر یونین کونسل اور یونین کمیٹی میں 2 کلومیٹر کے اندر آنے والے اسکولوں میں سے ایک اسکول کو ایلمنٹری اسکول کا درجہ دیا جائے گا، اس سلسلے میں پہلے 3 سال کے دوران 1 ہزار ایلمنٹری اسکولز بنائیں جائیں گے جبکہ دوسرے مرحلے میں یہ تعداد 2 ہزار تک بڑھا دی جائے گی، ہر ایلمنٹری اسکول کا ہیڈ ماسٹر ہی اس کلسٹر میں آنے والے اسکول کے انتظامی اور مالی معاملات کا ذمے دار ہوگا۔

اجلاس میں صوبائی وزیر کو بتایا گیا کہ ریفارم سپورٹ یونٹ (آف ایس یو) کے تحت صوبے کے 29 اضلاع کے 43 ہزار سے زائد پرائمری، مڈل اور سیکنڈری اسکولز کا یونین کونسل اور یونین کمیٹی کے تحت 2 کلومیٹر کے اندر آنے والے اسکولوں کا کلسٹر کا کام مکمل کرلیا گیا ہے۔

صوبائی وزیر کو بتایا گیا کہ تمام ڈسٹرکٹ میں ان تمام اسکولوں کو جی پی ایس کے تحت گوگل پر لوکیٹ کردیا گیا ہے اور آئندہ صوبے کے کسی بھی اسکول کی لوکیشن کو گوگل میپ کے تحت لوکیٹ کیا جاسکے گا، صوبے میں خواندگی کی شرح میں اضافے کے لیے اس پروگرام کے تحت مذکورہ ہیڈ ماسٹر جو کہ اسی یوسی اور اس علاقے کی جغرافیائی، سماجی اور ثقافت سے وابستہ ہو اسی کا بنایا جائے گا تاکہ وہ اس علاقے کے حوالے سے وہاں کی کمیونٹی کو اعتماد میں لیکر ان بچوں کو جو اب تک اسکولوں سے دور ہیں ان کو اسکولوں میں داخلہ کراسکے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہر یوسی میں وہ اسکول جن میں انرولمنٹ 30 بچوں سے کم ہوگا اس کو اسی یوسی کی 2 کلومیٹر کی دوسری اسکولوں میں ضم کردیا جائے گا اور اس اسکول کا سمز کوڈ ختم کردیا جائے گا۔

سعید غنی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے منشور کے تحت صوبے میں اسکولوں سے باہر بچوں کو اسکولوں میں لانے کیلیے تمام وسائل کو بروئے کار لایا جائے اور صوبے میں خواندگی کی شرح میں اضافے کے لیے ہر پلیٹ فارم کو استعمال کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم تعلیمی میدان میں انقلاب کے خواہ ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ جس طرح ہم نے دیگر شعبوں میں انقلابی اقدامات کئے ہیں اسی طرح تعلیم کے میدان میں بھی انقلابی اقدامات کو یقینی بنائیں اور دنیا بھی میں کوووڈ کے باعث جو تعلیمی نقصان ملک اور بالخصوص صوبہ سندھ میں ہوا ہے اس کا بھرپور ازالہ کیا جا سکے۔

The post 43 ہزار اسکولوں کو جی پی ایس کے ذریعے گوگل میپ پر لوکیٹ کر دیا، وزیر تعلیم سندھ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3clQmV9
via IFTTT

چوہتر سالہ گریٹ احتساب سرکس (حصہ دوم ) ایکسپریس اردو

قیامِ پاکستان کے بعد شروع کے تئیس برس تک احتساب کے نام پر صفائی میں ہر اسٹیبلشمنٹ مخالف گھوڑا گدھا ہدف ٹھہرا۔حاکمِ وقت کی انا اور خوِ انتقام کی تسلی تو بخوبی ہو گئی مگر جسے لغوی و معنوی احتساب کہتے ہیں اس کی غیر جانبدارانہ تکمیل ادھوری ہی رہی۔

لیاقت دور کے پروڈا اور ایوبی دور کے ایبڈو  کے ذریعے مرضی کا سیاسی منظرنامہ تشکیل دینے کی کوشش  سے سدھار کم ہوا اور خلفشار زیادہ بڑھا اور مشرقی و مغربی بازو کے مابین سیاسی بیگانگی کی رفتار مزید تیز ہو گئی۔

اسی طرح یحییٰ دور کے آغاز میں تین سو تیرہ ناپسندیدہ بیوروکریٹس کی احتسابی صفائی کے سبب گورننس تو خیر کیا بہتر ہوتی۔ انگریز دور کی نوآبادیاتی اصول پسندی کے سانچے میں ڈھلی آئی سی ایس کلاس کی بتدریج بے دخلی کے سبب جو خلا پیدا ہوا اسے پر کرنے کے لیے قابلیت و اہلیت کو جی حضوری اور وفاداری کی سان پر چڑھا دیا گیا۔درمیانے درجوں کی سویلین افسر شاہی بھی سیاسی و عسکری مفادات کے ماتحت ہوتی چلی گئی۔

ترقی و تنزلی کے پیمانے بدلے تو گڈ گورنننس کا تھوڑا بہت جذبہ اور دلیرانہ فیصلوں کی خواہش نوکری بچاؤ تحریک کی شکل میں افسر شاہی کی جڑوں میں بیٹھ گئی۔ ریاستی فیصلوں کا معیار گرتا چلا گیا اور تنظیم و ضبط کو منظم افراتفری نے معزول کر دیا۔

جب زمام کار ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں آئی تو ان کی پہلی کابینہ میں شامل چہروں کو دیکھ کے امید بندھی کہ اب گڈ گورننس کا زمانہ شروع ہوا چاہتا ہے۔چند ماہ بعد ہی یہ تاثر بکھرنا شروع ہو گیا۔فیصلہ سازی میں میرٹ سے زیادہ انتقام و حساب چکتا کرنے کی خواہش جھلکنے لگی۔نئی عوامی حکومت کو افسرشاہی کے ڈھانچے کو عوامی ضروریات سے ہم آہنگ کرنے کا شوق ضرور چرایا۔

البتہ لگ بھگ چودہ سو افسروں کی جو برطرفی فہرست بنی ان میں وہ افسر بھی شامل تھے جنھوں نے دورِ ایوبی میں بھٹو صاحب کو بلواسطہ یا بلاواسطہ زچ کیا  یا ان کی شکل نئے حاکموں کو پسند نہیں تھی۔فہرست میں وہ افسر بھی شامل تھے جو بھٹو صاحب کے کسی ساتھی یا جاننے والے کو رنجیدہ کر چکے ہوں گے۔اور وہ افسر بھی شامل تھے جو واقعی اپنی بے اعتدالیوں کے سبب برطرفی و تنزلی کے مستحق تھے۔

لیکن گزشتہ تمام احتسابی فہرستوں کی طرح یہ فہرست بھی عجلت میں بنائی گئی اور پچھلی فہرستوں کی طرح اس میں بھی اہل نا اہل گدھے گھوڑے کرپٹ ایماندار کی کوئی خاص تمیز نہیں رکھی گئی۔

بھٹو دور شروع ہوتے ہی جو لگ بھگ ڈیڑھ ہزار افسر بنا شوکاز نکالے گئے ان میں سندھ واحد صوبہ تھا جہاں محکمہ تعلیم کو بھی اس تطہیری دائرے میں شامل کیا گیا اور یہ صفائی بھی ایک خاص تعصبی زاویے کے تحت کی گئی۔

مثلاً بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن حیدرآباد کے پہلے سیکریٹری مرزا عابد عباس کے بارے میں جس جس نے بھی سنا کہ وہ بھی لسٹ میں شامل ہیں بھونچکا رہ گیا۔سیکریٹری بننے سے پہلے مرزا صاحب سٹی کالج حیدرآباد کے طویل عرصے تک پرنسپل رہے۔اس دوران کالج کی پالیسی یہ تھی کہ کسی بھی قابل طالبِ علم کو محض اس لیے داخلہ دینے سے انکار نہیں کیا جائے گا کہ وہ فیس جمع کرانے کے قابل نہیں۔ اس فیصلے کے سبب  معاشی طور پر کمزور سیکڑوں طلبا نہ صرف تعلیم حاصل کر پائے بلکہ عملی زندگی میں بھی کامیاب ہوئے۔

مرزا عابد عباس حیدرآباد کی ادبی زندگی کے بھی محور تھے۔کمشنر نیاز صدیقی اور مرزا صاحب کی بدولت شہر کے ہر بڑے مشاعرے میں فیض، جوش، جگر سمیت صفِ اول کے بیشتر ادبی مشاہیر کی موجودگی ناگزیر ہوا کرتی تھی۔

ستم ظریفی یہ رہی کہ جس دن مرزا عابد عباس کو بے قاعدگی و اختیارات کے بے جا استعمال وغیرہ وغیرہ کے الزام میں برطرف کیا گیا۔اگلے دن سٹی کالج کے بورڈ آف گورنرز نے انھیں پیش کش کی کہ وہ جب چاہیں کالج کے پرنسپل کی ذمے داریاں پھر سے سنبھال سکتے ہیں۔ایک ہفتے بعد حکومت نے نجی تعلیمی ادارے قومی تحویل میں لینے کا اعلان کر دیا۔قومیائے گئے کالجوں میں سٹی کالج بھی شامل تھا۔

برطرفی کے بعد ایک سرکردہ اردو اخبار میں مرزا صاحب کا خط چھپا جس میں انھوں نے چیلنج کیا کہ اگر گورنر سندھ ( میر رسول بخش تالپور ) جو کہ مجھے بہت اچھی طرح جانتے ہیں صرف یہ گواہی دے دیں کہ میں نے اپنے منصب پر رہتے ہوئے ایک روپے کی بھی بے قاعدگی کی ہے تو اس کے بعد ریاست مجھے برسرِ عام پھانسی دے دے۔ میں یہ سزا بلا حجت قبول کر لوں گا۔

حکومت کی جانب سے اس چیلنج کا جواب خاموشی کی صورت میں آیا۔مرزا صاحب نے اپنی برطرفی کو عدالت میں چیلنج کیا۔انیس سو اٹہترمیں وہ اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے اور انسپکٹر آف کالجز سندھ کے عہدے پر تعینات کیے گئے اور پھر ریٹائرمنٹ لی (مگر نہ جانے ایسے کتنے ہوں گے جنھوں نے مزاحمت کے بجائے گوشہ نشینی کا انتخاب کیا )

گیہوں کے ساتھ گھن پس جانے کی یہ مثال مجھے اس لیے دینا پڑی کیونکہ نوکری سے برطرفی اور بحالی کے درمیانی برسوں میں مرزا عابد عباس کے پانچ بچے زیرِ تعلیم تھے۔ شدید معاشی تنگی کے باوجود انھوں نے کسی در پر دستک نہیں دی اور کسی بھی قیمت پر بچوں کی تعلیم کا حرج نہیں ہونے دیا۔

ان میں سے ایک بچہ میجر جنرل ( ریٹائرڈ ) اطہر عباس ہے ، دوسرا بچہ ڈان کا ایڈیٹر ظفر عباس ہے ، تیسرا بچہ مظہر عباس چوٹی کے صحافیوں میں ہے ، چوتھا اظہر عباس ایک نجی ٹی وی چینل کا ایم ڈی ہے اور پانچواں انور عباس امریکا میں ایک آئی ٹی کمپنی سے منسلک ہے۔( چند برس پہلے مرزا عابد عباس کا ذہن پر کوئی بھی داغ لیے انتقال ہو گیا )۔

بھٹو صاحب کا ایک تاریخی کارنامہ انیس سو تہتر کے متفقہ آئین کا نفاذ ہے۔اس آئین کے تحت دیہی علاقوں کو شہری علاقوں کے برابر ترقی دینے کے لیے سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں کوٹہ سسٹم کو آئینی شکل دی گئی اور اس کی ابتدائی مدت دس برس طے کی گئی۔اگرچہ اس سسٹم کو بھی طاقتور سیاسی خاندانوں نے اپنوں اپنوں میں ریوڑیاں بانٹنے کے لیے استعمال کیا مگر بہت سے ایسے دیہی نوجوانوں کا بھی بھلا ہوا جو نامساعد سماجی و تعلیمی حالات کے سبب بہتر مواقعوں میں پھلنے پھولنے والے نوجوانوں سے کھلے مقابلے میں پیچھے رہ جاتے تھے۔

یہاں تک تو ٹھیک تھا۔مگر بھٹو حکومت نے ایک اور اقدام بھی کیا جس کے دوررس اثرات ہوئے۔یعنی وہ سرکاری آسامیاں جو مقابلے کے امتحانات یا سلیکشن کے طے شدہ معیار کی کسوٹی کے ذریعے پر کی جاتی تھیں۔اس کے متوازی لیٹرل انٹری سسٹم متعارف کروا دیا گیا۔یعنی سیاسی و سفارشی بنیاد پر اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں بھرتی۔( بعد ازاں اس میں پیسہ بھی شامل ہوتا گیا)۔

سلیکشن کے مروجہ اور نسبتاً شفاف نظام کے ہوتے لیٹرل انٹری متعارف کروانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ؟ یہ تو میں نہیں جانتا۔البتہ لیٹرل انٹری سسٹم کے سبب پبلک سروس کمیشن اور پراونشنل سروس کمیشن جیسے اداروں کی توقیر ختم ہو گئی۔اعلیٰ عہدوں پر پیراشوٹ کے ذریعے اترنے والے امیدوار براجمان ہونے لگے اور یہ تقرریاں عدلیہ ، پولیس ، کسٹمز ، ریونیو سمیت ہر اس کلیدی محکمے میں ہوئیں جنھیں گورننس کا ستون سمجھا جاتا ہے۔

نتیجہ یہ نکلا کہ جو افسر سلیکشن کے طے شدہ راستے سے میرٹ کے بل بوتے پر آئے تھے ان میں مایوسی، غصہ اور کام سے عدم دلچسپی بڑھی۔ لیٹرل انٹری والے کئی افسر ترقی کرتے کرتے فیصلہ سازی کے مجاز کلیدی عہدوں تک جا پہنچے اور پھر انھوں نے بھی ایسے ماتحتوں کو بھرتی کرنے کے لیے اختیارات استعمال کیے جو ان  کے لیے خطرہ نہ بنیں یا ان سے آگے نہ نکل جائیں۔

لیٹرل انٹری نے اس کلاس کو جنم دیا جو اہلِ اقتدار کی نہ صرف احسان مند تھی بلکہ ان کے لیے جائز و ناجائز سے قطع نظر ہر کام کرنے پر آمادہ تھی۔ان کے لیے اوپر سے آنے والا یہ حکم کافی تھا کہ ’’ یہ کام ہر صورت میں کرنا ہے۔یہ کیسے ہوگا، قانونی راستہ تم خود تلاش کر لینا ‘‘۔

یہ وہ سانحہ ہے جس نے گڈ گورننس کے تصور اور معیاری فیصلہ سازی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔اس کے بعد بھی احتساب کا سرکس جاری رہا۔ (قصہ جاری ہے )۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

The post چوہتر سالہ گریٹ احتساب سرکس (حصہ دوم ) appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Mak9FU
via IFTTT

امریکی انتخابات سے سبق ایکسپریس اردو

امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیلی کاپٹر میں سوار ہوئے اور وائٹ ہاؤس سے چلے گئے۔ امریکا کی ڈھائی سو سالہ تاریخ میں 20 جنوری کو ایک سیاہ واقعے کا اضافہ ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے نومنتخب صدر جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کی۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر جمہوری کردار ،انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے، اپنے حامیوں سے مظاہرے کرانے اور کیپیٹل ہل پر حملہ کرانے کے باوجود امریکی آئین کے تحت اقتدارکی منتقلی کا عمل مکمل ہوا۔ ریاست کے تمام اداروں نے آئین کی پاسداری کی، یوں امریکا کا جمہوری نظام ایک سنگین بحران سے بچ گیا۔

نومنتخب صدر بائیڈن نے اپنی تقریر میں بھی سابقہ صدر کے بارے میں کوئی منفی بات نہیں کی۔ انھوں نے اپنی تقریرمیں واضح کیا کہ امریکا داخلی پسندی کی پالیسی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے واضح کیا کہ آئین کا دفاع ، سیاسی انتہاپسندی ، سفید فام بالادستی کا خاتمہ،آزادی اور انصاف سب کے لیے ہوگا۔ بائیڈن نے کہا کہ امریکا کے انتخابات میں جمہوریت کی فتح ہوئی ہے۔ امریکا میں اقتدارکی منتقلی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر اور ایک افریقی بھارتی نژاد خاتون کے نائب صدر منتخب ہونے کے بعد بین الاقوامی صورتحال اور خاص طور پر خطہ کی صورتحال کے بارے میں نئے امکانات پیدا ہوگئے۔

جب سابق صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم شروع کی تو کچھ دنوں بعد انھیں محسوس ہونے لگا کہ رائے عامہ ان کے حق میں نہیں ہے۔ انھوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ اگر انتخابی نتائج ان کے خلاف آئے تو وہ انھیں قبول نہیں کریں گے۔ ٹرمپ نے انتخابات کے بعد دھاندلیوں کے الزامات لگانے شروع کیے مگر ٹرمپ کے پاس ان الزامات کے کوئی شواہد نہیں تھے۔ امریکی ریاست کے کسی ادارہ یا ایجنسی نے ٹرمپ کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ سب سے پہلے امریکا کی فوج کے سربراہ نے اعلان کیا کہ امریکی فوج انتخابات میں کسی فریق کی حمایت نہیں کرے گی۔

امریکا کی اندرونی سیکیورٹی کی ذمے دار ایف بی آئی اور دنیا بھر میں کارروائیوں کی ذمے دار سی آئی اے کے سربراہوں نے آئین کی مکمل پاسداری کی۔ جب سوئنگ ریاستوں فلوریڈا، جیورجیا، ٹیکساس، وزکونسن، ایریزونا اور پنزلوینیا میں انتخابی نتائج سامنے آنے لگے ، ان ریاستوں کے بارے میں روایتی طور پر یہ یقین سے کہا جاتا تھا کہ یہ ریاستیں ریپبلکن پارٹی کا روایتی گڑھ ہیں۔ انتخابی نتائج واضح ہونے لگے تو سابق صدر ٹرمپ نے ان نتائج کو مسترد کیا اور متعلقہ ریاستوں کے سپریم کورٹ میں گنتی رکوانے اور نتائج کو منسوخ کرنے کی درخواستیں دائر کیں۔

حیرت کی بات تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے وکلاء نے یہ سب عرض داشتیں دھاندلی کے شواہد کے بغیر دائرکیں۔ ٹرمپ کے وکلاء نے ان عرض داشتوں میں عجیب وغریب قسم کے دلائل دیے۔ یہ دلائل ماضی میں ہونے والے انتخابات کے نتائج اور بعض اوپینیئن پول کے سروے پر مشتمل تھے مگر تمام ریاستوں کی سپریم کورٹس نے کہیں بھی گنتی روکنے کے لیے حکم امتناعی جاری نہیں کیا۔ ٹرمپ کے وکلاء دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں مسلسل قانونی جنگ لڑتے رہے مگرکسی عدالت نے ان کے دباؤکو قبول نہیں کیا۔ عدالتوں کے جمہوریت پسند رویہ کی بناء پر نتائج اپنے شیڈول کے مطابق آگئے۔

ایک صحافی کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ روزانہ دھاندلی کے الزامات لگاتے تھے۔ تمام قسم کے ذرایع ابلاغ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی دھاندلیوں سے متعلق بیانات کو شایع اورنشرکیا مگر تمام نیوز ایجنسیوں ، اخبارات، الیکٹرونک میڈیا نے ان بیانات کے ساتھ یہ عبارت تحریر کی کہ ٹرمپ کے پاس انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کے ثبوت نہیں ہیں۔ اسی طرح امریکا کے سیاست دانوں اور سابق صدورکا بھی جمہوریت کے استحکام کے لیے رویہ واضح طور پر سامنے آیا۔

ٹرمپ نے بائیڈن کی حلف برداری کی تقریب کا بائیکاٹ کیا مگر ان کے رخصت ہونے والے نائب صدر نے ٹرمپ کے بائیکاٹ کی پیروی نہیں کی، وہ اس حلف برداری میں شریک ہوئے۔ ان انتخابات میں ایک اہم ترین بات یہ بھی آشکار ہوئی کہ ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کے منتخب صدر تھے اور دوسری مدت کے انتخابات کے لیے انھیں ریپبلکن پارٹی نے صدارتی انتخاب کے لیے منتخب کیا تھا مگر ریپبلکن پارٹی نے ٹرمپ کے انتخابی دھاندلیوں کے مؤقف کو تسلیم نہیں کیا۔

ریپبلکن پارٹی کے رہنماؤں نے واضح کیا کہ انتخابات میں دھاندلی کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ تمام سابق صدورنے جن میں ریپبلکن پارٹی کے صدور بھی شامل تھے حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی۔ سابق صدر جارج بش ریپبلکن پارٹی کے روایتی رکن ہیں، ان کے والد جارج بش سینئر کا تعلق بھی ریپبلکن پارٹی سے تھا۔ جارج بش اب خاصے بوڑھے ہوچکے ہیں مگر وہ کووڈ 19 کے خوف کے باوجود تقریب میں شریک ہوئے۔ ان کے علاوہ سابق صدرکلنٹن بھی تقریب میں موجود تھے۔

جب ٹرمپ نے کیپیٹل ہل  پر حملہ کرنے والے افراد کی حمایت میں Twitter کے ذریعہ بیان جاری کیا تو Twitterکا ان کا اکاؤنٹ فوری طور پر بند کردیا گیا۔ بعد میں آنے والی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ Twitterکی انتظامیہ نے ٹرمپ کا اکاؤنٹ ساری زندگی کے لیے بند کردیا ہے۔ معروف پولیٹیکل سائنٹسٹ ہما یوسف نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ”In How Democracies Die: What History Reveals About Our Future, Steven Levitsky and Daniel Ziblatt argue that the real threat to democracy no longer comes from major upheavals such as cops,dictatorships or suspensions of the constitution. Instead, it comes from within the system itself.”ہما یوسف کے آرٹیکل کا یہ پیراگراف امریکا اور یورپی ممالک کی مضبوط جمہوریت کی خامیوں کو واضح کرتا ہے۔

جمہوری نظام پر تحقیق کرنے والے معروف محقق اور زیبسٹ کے سوشل سائنسز کے ڈین ڈاکٹر ریاض شیخ کہتے ہیں کہ امریکا میں اداروں کی مضبوطی اور ڈیپ اسٹیٹ کے کردار کے محدود ہونے کی بناء پر ڈونلڈ ٹرمپ کے عزائم ناکام ہوگئے مگر پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں جمہوریت کے مستحکم نہ ہونے اور جمہوری نظام کے ناکام ہونے کی بنیادی وجہ ملک کے اداروں اور ایجنسیوں کا جمہوری نظام کو غیر مستحکم کرنے میں کردار ہے۔ ابلاغیات کے پروفیسر سعید عثمانی کہتے ہیں کہ جدید ریاست تین بنیادی ستونوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ ستون انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ ہیں۔ تمام وزارتیں اور ان کے ماتحت ادارے ان ستونوں کے فیصلوں کی تابعداری کرتے ہیں۔

1973 کا آئین ان بنیادی ستونوں پر قائم ہے مگر ڈیپ اسٹیٹ نے طاقت کے ذریعہ اپنے آپ کو ریاست کا ایک ستون بنوالیا ہے، یوں ڈیپ اسٹیٹ حکومتوں کے برسر اقتدار آنے اور ان کے اقتدار چھوڑنے کے بارے میں فیصلہ سازی کرتی ہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ انتظامیہ، عدلیہ اور پارلیمنٹ موجود ہیں گر وہ ڈیپ اسٹیٹ کے بیانیہ کے خلاف مزاحمت نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 72 برسوں میں آدھا عرصہ آمریتوں کے سائے میں گزرا ہے۔ ان آمریتوں نے سیاست دانوں کی سرپرستی کی اور جمہوریت دشمن گروہ مضبوط ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کوئی اسکینڈل اور کبھی کوئی اسکینڈل سامنے آئے مگر ان اسکینڈل کے ذمے داروں کے احتساب کی کوشش ناکام ہوگئی۔

2018 کے انتخابات میں انتخابی نتائج کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعہ فوری طور پر ریٹرننگ افسروں کو معطل کرنے کا نظام مفلوج ہوا ، تمام انتخابات میں اسی طرح کی صورتحال ہوتی ہے۔ امریکا کے انتخابات سے یہ سبق ملتا ہے کہ ادارے مستحکم ہوں تو طالع آزما قوتوں کے عزائم کامیاب نہیں ہوتے۔

The post امریکی انتخابات سے سبق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2MkK0uB
via IFTTT

جوبائیڈن امریکا کا مستقبل ایکسپریس اردو

نئے منتخب امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنی منتخب حکومت کے پہلے دن کا آغاز مثبت فیصلوں سے کیا۔ ٹرمپ نے مسلم ممالک پرجوسفری پابندیاں عائدکی تھیں، جوبائیڈن نے اقتدار کے پہلے دن ہی ان سفری پابندیوں کو ختم کردیا، پیرس ماحولیاتی اور ڈبلیو ایچ او میں دوبارہ شمولیت کا اعلان کیا۔

میکسیکو کی سرحد پر دیواروں کی تعمیر بندکرا دی، مارکیٹنگ ریجن میں تیل اورگیس دریافت کرنے کی لیز منسوخ کردیں اس طرح اپنے دور حکومت کے پہلے ہی دن اپنے ملک اور عالمی امور کے حوالے سے مثبت کام کا آغاز کیا ہے، اسلامی ملکوں پر پابندیاں ختم ہونے سے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ سابق صدر ٹرمپ کے دور میں جو اینٹی عوام فیصلے کیے گئے تھے جوبائیڈن نے انھیں منسوخ کرنا شروع کردیا ہے، جو دنیا کے عوام کے لیے حوصلہ افزا بات ہے۔

بائیڈن نے جن سترہ حکم ناموں پر دستخط کیے ہیں وہ قومی اور بین الاقوامی امور میں بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ سابق صدر ٹرمپ نے جوکارنامے انجام دیے ان میں ایران پر پابندیاں شامل ہیں لیکن بائیڈن نے ان غیر ضروری پابندیوں کو ختم نہیں کیا۔ واضح رہے کہ امریکی حکومتیں ایران پر پابندیاں لگانے کے حوالے سے یکساں طرز عمل کا مظاہرہ کرتی آ رہی ہیں جس کی وجہ سے یہ علاقہ مستقل تناؤ کا شکار ہے۔ ٹرمپ کی ایران دشمنی کی وجہ اسرائیل کی فرضی سالمیت کا تصور ہے۔ اسرائیل اب اس قدر طاقتور ہو گیا ہے کہ وہ پورے خطے پر حاوی ہو چکا ہے، صرف ایران ایسا ملک ہے جو علاقے میں اسرائیل کی ظلم پر مبنی داداگیری کو نہیں مانتا۔ ایران کی اس حکم عدولی کو اسرائیل کا سرپرست اور محافظ بغاوت سمجھتا ہے۔

نومنتخب امریکی صدر اپنے دور حکومت کے پہلے دن سے مثبت پالیسیوں پر عملدرآمد کی تیاری کرکے دنیا کے عوام میں نیک تمناؤں کی خواہش پیدا کر رہے ہیں۔ یہ ایک مثبت عمل ہے بائیڈن اس سمت میں اگر پیش رفت کرتے ہیں تو دنیا کے مستقبل کی بہتری کے علاوہ خود امریکا کی نیک نامی کو سہارا مل سکتا ہے۔

اسرائیل ایک خود غرض ملک ہے وہ صرف اپنے قومی مفادات کو اولیت دیتا ہے ساری دنیا کے عوام کے مفادات سے اسے کوئی غرض نہیں ہوتی۔خاص طور پر اسلامی ملکوں سے اس کی دشمنی چھپائی نہیں جاسکتی لیکن عالمی دباؤ کے علاوہ اس کے اپنے دباؤ کا تقاضا ہے کہ وہ مسلم دنیا کی غیر عاقلانہ دشمنی اور علاقے میں اپنی دہائیوں پر مشتمل  تنہائی سے باہر نکلے اور امن کی حامی دنیا کا حصہ بنے۔ اس حوالے سے امید کی ایک کرن یہ دکھائی دیتی ہے کہ اب اس نے عرب ملکوں سے سفارتی تعلقات کا آغاز کیا ہے۔

صدیوں سے دنیا مختلف حوالوں خاص طور پر مذہب کے حوالے سے جس متحارب راستے پر چل پڑی ہے، اس کی وجہ سے دنیا کے عوام میں محبت اور بھائی چارے کی جگہ نفرت اور مذہبی انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے جو دنیا کے مستقبل کے لیے ایک خطرہ اور مایوسی کی علامت ہے۔

دنیا کے مسلم ملکوں کی آبادی کئی ملکوں میں بٹی ہوئی ہے اتنی بڑی آبادی سے عداوت ایک بڑا خطرہ ہی نہیں بلکہ دنیا کے عوام کی معاشی خوشحالی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے اس میں کمی کے بجائے اضافہ امریکا اور اسرائیل کی سیاست سے ہو رہا ہے۔ یہ مسئلے اس لیے پیدا ہو رہے ہیں کہ ہر ملک اپنے قومی مفاد کو اولیت دے رہا ہے بلاشبہ قوموں اور ملکوں میں بٹی ہوئی اس دنیا میں یہ تنگ نظری نہ غیر فطری ہے نہ امید کے برخلاف۔ دنیا میں اب پیغمبری کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے جب تک پیغمبری کا سلسلہ جاری تھا دنیا اور دنیا کے عوام کی بھلائی پیغمبروں کی ذمے داری تھی اب جب کہ پیغمبری متروک ہوگئی ہے یہ ذمے داری خدا کے برگزیدہ اور عوام دوست افراد کی ذمے داری بن گئی ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کی ذمے داری بن گئی ہے جو خدا کے بندوں سے محبت کرتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذکورہ افراد اپنی ذمے داریاں پوری کر رہے ہیں؟ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ دنیا میں ہزاروں کی تعداد میں انسان پرست یعنی انسانوں کی بھلائی چاہنے والے مفکر، ادیب، دانشور اور فنکار موجود ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کی ’’بندہ نوازی‘‘ کو سانپ سونگھ گیا ہے وہ اب صرف اپنے لیے زندہ ہیں دنیا کے 8 ارب انسانوں سے ان کی دلچسپی ختم ہوگئی ہے۔

ایسا کیوں؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے لیکن اس کا مختصر ترین جواب ہے سرمایہ دارانہ نظام جو انسان کو جانور بنا دیتا ہے۔دنیا میں بے شمار صالحین آئے اور انسانوں کی بھلائی کے لیے کوشش کرتے رہے ان عظیم انسانوں کو عقل سے معذور انسانوںنے انسانوں کو ایک وحدت میں پرونے کا وہ عظیم کام نہیں کرنے دیا جس کے کرنے سے دنیا حقیقی معنوں میں جنت بن سکتی ہے۔ بلکہ ہوا یہ کہ یہ بے رحم انسان ان مہان لوگوں کو صلیب پر چڑھاتا رہا۔ آج پوری دنیا فکری دیوالیہ پن کی وجہ سے صلیب پر چڑھی ہوئی ہے کوئی انسان اور خدا کا بندہ بننے کے حوالے سے سوچنے کے لیے تیار نہیں۔ اس بڑے کام کے لیے عقل و دانش کے علاوہ بھاری وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔

بات چلی تھی ٹرمپ کی شکست اور جوبائیڈن کی فتح اور شکست سے اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ امریکا طاقت کے حوالے سے سب سے بڑا ملک ہے لیکن انسانیت کے حوالے سے سب سے گھٹیا ملک ہے بائیڈن بھی ایک امریکی ہے اور اس میں امریکا پرستی کا ہونا ایک فطری بات ہے لیکن اس کے چند ابتدائی کاموں سے امید پیدا ہو رہی ہے کہ یہ شخص روٹین کے کاموں کے علاوہ بھی کچھ کرسکتا ہے۔

بائیڈن یہ کرسکتا ہے کہ قومی سطح پر سوچنے والوں کے بجائے عالمی سطح پر سوچنے والوں کو آگے لائے اور ان کے سامنے صرف ایک سوال رکھے کہ مختلف حوالوں سے ہزاروں خانوں میں بٹی ہوئی دنیا کو ایک بڑے خانے یعنی انسانیت کے خانے میں کس طرح لایا جاسکتا ہے ہم جیسے خوش فہم ایسی خواہش کرتے ہیں اور خواہشوں سے ہی کشادہ راہیں نکلتی ہیں۔

The post جوبائیڈن امریکا کا مستقبل appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3or4vCY
via IFTTT