Saturday, November 30, 2019

فیفا خاتون ریفری کل پاکستان پہنچیں گی ایکسپریس اردو

لاہور: سیاست کے باعث مشکلات میں گھری پاکستان فٹبال کیلیے اچھی خبر آگئی، ملکی تاریخ میں پہلی بار فیفا کی خاتون ریفری پاکستان کے دورے پر 2 دسمبرکو پاکستان پہنچیں گی۔

گلیکسی اسپورٹس اکیڈمی کی چیف آپریٹنگ آفیسر انٹرنیشنل ہاکی پلیئر رابعہ قادرکی دعوت پر جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والی فیفا ریفری اکھونہ ماکالیما پاکستان میں قیام کے دوران خواتین کو کھیل کے میدان خصوصاً فٹبال میں کیریئربنانے کیلیے رہنمائی فراہم کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کوٹریننگ اور ریفرینگ کے حوالہ سے آگاہی پروگرام بھی منعقد کریں گی۔

اکھونہ ماکالیما کے پاکستان میں قیام کو مزید موثر بنانے کیلیے گلیکسی اسپورٹس اکیڈمی نے پاکستان میں کھیلوںکے فروغ کے حوالہ سے نرسری کا درجہ رکھنے والے تعلیمی ادارے پنجاب یونیورسٹی سے اشتراک کیا ہے جہاں کھلاڑیوں کی بڑی تعداد ان کے تجربہ سے مستفید ہوگی اس کے علاوہ دیگر تعلیمی اداروں اور فٹبال کلبز کو بھی اس پروگرام میں شامل کیا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ کھلاڑی بین الاقوامی معیار کی فٹبال ایکسپرٹ سے استفادہ حاصل کرکے ملک میں فٹبال کے فروغ کا باعث بنیں۔

گلیکسی اسپورٹس اکیڈمی کی سی ای او رابعہ قادر نے اس پروگرام کے حوالہ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ اکھونہ ماکالیما کی پاکستان آمد یو ایس اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور ٹینسی یونیورسٹی کے گلوبل اسپورٹس مینٹورنگ ایلومینائی پروگرام کے تحت عمل میں آرہی ہے جس کا مقصد دنیا میں خواتین کو کھیلوں کے ذریعے بااختیار بنانا ہے۔

انھوں نے کہاکہ بین الاقوامی سطح پر اپنی پہچان بنانے والی خواتین کی پاکستان آمد سے ہماری کھلاڑیوں میں بھی جذبہ پیدا ہوگا جس سے پاکستان میں کھیلوں کا معیار بلند کرنے میں مدد ملے گی۔

پنجاب یونیورسٹی کی ڈائریکٹر اسپورٹس طاہرہ سلیم کا کہنا ہے کہ ہمارا دارہ قیام پاکستان کے آغاز سے لیکر آج تک تعلیمی میدان کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے فروغ کیلیے کوشاں ہیں جہاں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی یکساں سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔

انھوں نے کہاکہ اکھونہ ماکالیما کی آمدسے ہمارے کھلاڑیوں کو کھیل اور ریفرینگ کے شعبہ میں جدید تربیت کا موقع ملے گا پنجاب یونیورسٹی کا بین الاقوامی معیار کے اس پروگرام کے ساتھ منسلک ہونا باعث مسرت ہے۔

 

The post فیفا خاتون ریفری کل پاکستان پہنچیں گی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/35QJ9pO
via IFTTT

19 وکٹیں لینے والے بھارتی فاسٹ بولرزکا ہوم گراؤنڈ پر نیا ریکارڈ ایکسپریس اردو

کولکتہ: بھارتی پیسرز نے ہوم گراؤنڈ پر 19وکٹیں لے کر کسی ایک میچ میں 17 شکارکا ریکارڈ توڑدیا تھا۔

بنگلادیش کیخلاف گذشتہ دنوں ختم ہونے والے ڈے اینڈ نائٹ ٹیسٹ میچ میں بھارتی پیسرز نے گلابی گیند سے تباہی مچا دی تھی، میچ کی 20 میں 19 وکٹیں فاسٹ بولرز ایشانت شرما، امیش یادیو اور محمد شمی نے باہمی طور پر بانٹیں۔

برصغیر کی وکٹیں عمومی طور پر اسپنرز کیلیے مددگار ہوتی ہیں لیکن بھارتی پیسرز نے ہوم گراؤنڈ پر 19وکٹیں لے کر کسی ایک میچ میں 17 شکارکا ریکارڈ توڑدیا تھا، اس سے قبل بھارتی پیسرز نے کولکتہ کے ایڈن گارڈنز میں سری لنکا کیخلاف 2017 میں یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔

 

The post 19 وکٹیں لینے والے بھارتی فاسٹ بولرزکا ہوم گراؤنڈ پر نیا ریکارڈ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Y3E1M6
via IFTTT

ڈے نائٹ ٹیسٹ میں صرف گیند کے رنگ کا فرق ہے، آسٹریلوی کوچ ایکسپریس اردو

لاہور: آسٹریلوی ٹیم کے ہیڈ کوچ جسٹن لینگر نے کہاکہ ڈے نائٹ ٹیسٹ میں صرف گیند کے رنگ کا فرق ہے جب کہ اچھے کھلاڑی ہر طرح کی کنڈیشنز سے مطابقت پیدا کرلیتے ہیں۔

جسٹن لینگر نے کہاکہ ڈے نائٹ ٹیسٹ میں صرف گیند کے رنگ کا فرق ہے،اچھے کھلاڑی ہر طرح کی کنڈیشنز سے مطابقت پیدا کرلیتے ہیں تاہم یہ نہیں ہوسکتا کہ پنک بال کی الگ ٹیم ہی بنالیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ پروفیشنل کرکٹ میں کھلاڑیوں کو ریڈ، پنک اور وائٹ بال کے ساتھ کھیلنا پڑتا ہے، وہ ٹیسٹ، 4روزہ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچز میں شریک ہوتے ہیں،بہترین کرکٹر وہی ہے جو کنڈیشنز سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے عمدہ کارکردگی دکھائے۔

 

The post ڈے نائٹ ٹیسٹ میں صرف گیند کے رنگ کا فرق ہے، آسٹریلوی کوچ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/34GqLzG
via IFTTT

انٹرنیشنل ریسلرز 21 دسمبر کو کراچی میں فائٹ کرتے دکھائی دیں گے ایکسپریس اردو

کراچی: کراچی میں ایک مرتبہ پر انٹرنیشنل ریسلرزایکشن میں نظر آئیں گے جب کہ 21 دسمبر کو ڈریم ورلڈ ریزورٹ میں ورلڈ ریسلنگ چیمپئنزکا انعقاد ہوگا۔

کراچی میں ایک مرتبہ پر انٹرنیشنل ریسلرزایکشن میں نظر آئیں گے، ریسلنگ کے چیمپئنزالبرٹو ڈیل ریو، رائینو اور سیمی کی پاکستان آمد ہوگی،رمبل ان پاکستان کے بعد پاکستان پرو ریسلنگ فیڈریشن کے تحت ڈریم ورلڈ ریزورٹ میں ریسلنگ مقابلے ہونگے، ایونٹ میں امریکا، برطانیہ، متحدہ عرب امارات، میکسیکو، یونان اور سنگاپور سے ممتاز ریسلرز مقامی چیلنجرزسے مقابلوں کیلیے کراچی آرہے ہیں۔

فیڈریشن کے صدر نعمان سلیمان کے مطابق مقابلوں سے پاکستان عالمی ریسلنگ کیلیے ایک اہم مقامی حیثیت سے تسلیم کیا جائیگا۔

 

The post انٹرنیشنل ریسلرز 21 دسمبر کو کراچی میں فائٹ کرتے دکھائی دیں گے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/33x9mbb
via IFTTT

16، 17 سال کے بولرز ایکسپریس اردو

’’آسٹریلیا کے دورے میں چند بچوں کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں تاکہ اگر نتائج اچھے نہ رہیں تو تشکیل نو کا نعرہ لگا سکیں،16 ،17سال کے بولرز کو کھلانے کا کریڈٹ بھی مل جائے گا‘‘

شاید حالیہ سیریز سے قبل قومی کرکٹ کے ’’آل ان ون‘‘ مصباح الحق اور بولنگ کوچ وقار یونس کے ذہنوں میں کچھ ایسی ہی سوچ موجود ہو لیکن یہ فیصلہ اتنی برْی طرح بیک فائر کر جائے گا یہ کسی نے نہیں سوچا ہوگا، جب آپ کسی ایک انسان کو ہی ساری پاورز سونپ دیں تو وہ من مانی کرنے لگتا ہے جس کا پھر خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے،نسیم شاہ اور موسیٰ خان کی صلاحیتوں پر کسی کو شک نہیں، دونوں اچھے بولرز ہیں مگر کیا وہ اتنی جلدی ٹیسٹ کھیلنے کیلیے تیار تھے؟

جلد بازی میں ڈیبیو کرانے کا پلیئرز نہ ہی ٹیم کو فائدہ ہوا، نسیم کا آغاز متاثر کن رہا لیکن جس طرح ان سے کم بولنگ کرائی گئی اس سے واضح تھا کہ ٹیم مینجمنٹ کو انجری کا خدشہ ہے، پھر ایک میچ بعد ہی باہر بٹھا دیا، ایڈیلیڈ میں موسیٰ کا ڈیبیو ہوا مگر وہ اچھا پرفارم نہ کر سکے، اگر سیریز میں تیسرا ٹیسٹ ہوتا تو انھیں بھی ڈراپ کر دیا جاتا، ایسے فیصلوں پرمیچ سے قبل تک تو واہ واہ ہوتی ہے مگر بعد میں اسکور شیٹ دیکھ کر ٹیم مینجمنٹ کو برا بھلا ہی کہا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے مصباح الحق کنفیوڑ ہیں، انھیں خود نہیں پتا کہ کیا کرنا ہے، سری لنکا کی کاغذ پر کمزور لگنے والی ٹیم کیخلاف مضبوط ترین اسکواڈ منتخب کیا، عمر اکمل اور احمد شہزاد جیسے بھولی بسری داستان بنے کھلاڑیوں کو بھی واپس لے آئے مگر پھر بھی ہار گئے، اس سیریز میں چند ینگسٹرز کو آزمانا چاہیے تھا، آسٹریلیا میں جہاں تجربہ کار بولرز کی ضرورت تھی وہاں بچوں کو لے گئے۔

ناتجربہ کار کھلاڑی اگر اچھی کارکردگی نہ دکھا سکے تو اس میں ان کا کوئی قصور نہیں، آسٹریلیا کی سرزمین پر ہزاروں شائقین کے سامنے مضبوط میزبان بیٹنگ لائن کیخلاف آتے ہی پرفارم کرنا کیسے ممکن تھا، نوجوان کھلاڑیوں کو1،2سال مزید ڈومیسٹک کرکٹ اور جونیئر ٹورز میں تجربہ دلانے کے بعد قومی ٹیم میں لانا چاہیے، یہ مصباح کے سر پر جو نوجوان کھلاڑیوں کو کھلانے کا جنون سوار ہے وہ یہ کیوں بھول گئے کہ خود 43 کی عمر تک ٹیسٹ کرکٹ کھیلتے رہے۔

ڈومیسٹک کرکٹ میں مسلسل عمدہ پرفارم کرنے والے تابش خان کی شکل کیوں انھیں دکھائی نہیں دیتی، صدف حسین جیسے کئی بولرز بھی چانس ملنے کی آس لیے ہمت ہار گئے،ویسے آسٹریلیا میں ناقص کارکردگی کا تمام تر ملبہ صرف مصباح پر ڈالنا بھی درست نہیں، پی سی بی بھی برابر کا قصوروار ہے جو انھیں بے پناہ اختیارات سونپنے کی غلطی کا مرتکب ہوا، حکام کی کمزور گرفت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محمد عامر کوٹیسٹ کرکٹ چھوڑنے کی اجازت دے دی۔

پیسر کو فکسنگ کیس کے بعد ٹیم میں واپس لا کر احسان کیا گیا جس کا صلہ انھوں نے ٹیم کوبیچ منجھدار میں چھوڑ کر چکایا، کیسے کوئی کھلاڑی ازخود فیصلہ کر سکتا ہے کہ اسے کون سی کرکٹ کھیلنی ہے کون سی نہیں، اگرسابق کرکٹرز کی جانب سے عامر کا سینٹرل کنٹریکٹ منسوخ کرنے کے مطالبات سامنے آ رہے ہیں تو یہ غلط نہیں ہیں، انھیں جسم کو آرام دینا ہے ناں تو ٹھیک ہے غیرملکی لیگز کیلیے این او سی بھی نہیں دینے چاہئیں تاکہ مکمل ریسٹ کریں،اسی طرح وہاب ریاض کو کیوں ٹیسٹ کرکٹ سے دوری کی اجازت دی گئی۔

اگر ایسا چلتا رہا تو ایک دن آئے گا کہ ٹیسٹ ٹیم کیلیے اچھے پلیئرز پر مشتمل الیون منتخب کرنا بھی مشکل ہو جائے گی، مجھے پہلے ہی ایسا لگ رہا تھا کہ ٹیم یہ سوچ کر آسٹریلیاآئی ہے کہ یہاں ماضی میں کون سا جیتے تھے جو اب جیت جائیں گے، اگر ایسا تھا تو دورہ کیوں کرتے ہیں، جب تک مثبت سوچ نہ ہو اچھے نتائج کیسے حاصل ہو سکتے ہیں، بدقسمتی سے نئی مینجمنٹ ٹیم کی کارکردگی بہتربنانے میں مسلسل ناکام ثابت ہوئی ہے،اس سے نوبال کا مسئلہ تو حل نہ ہو سکا،دونوں ٹیسٹ میں اس وجہ سے ڈیوڈ وارنر کی قیمتی وکٹ سے محروم ہونا پڑا۔

حالیہ سیریز کے دوران سامنے آنے والے عجیب و غریب فیصلے یہ بھی بتا رہے ہیں کہ آئندہ بھی کوئی امید نہ رکھی جائے، ٹی20میں پہلی پوزیشن چند دنوں کی مہمان ہے، خدانخواستہ سری لنکا سے ہوم سیریز میں نتائج اچھے نہ رہے تو ٹیسٹ رینکنگ میں آٹھویں پوزیشن پر جانا پڑے گا، یہ ان مصباح الحق کیلیے بڑی شرمندگی کی بات ہو گی جن کے دور قیادت میں چند دنوں کیلیے قومی ٹیم نمبر ون بھی بنی تھی، آسٹریلیا سے ایڈیلیڈ ٹیسٹ میں اب تک2دن کا کھیل ہو چکا اور بدقسمتی سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ میچ بچانا بھی ناممکن ہوگا۔

بابر اعظم کے سوا دیگر بیٹسمینوں کی کارکردگی بھی شرمناک رہی ہے، خیر اس سیریز میں تو جو ہونا تھا وہ تقریباً ہو چکا، اب سری لنکا سے 10 سال بعد ہوم ٹیسٹ سیریز ہو رہی ہے اس میں مثبت نتائج کیلیے منصفانہ سلیکشن کرنا ہوگی، افتخار احمد اور عمران خان سینئر کو ٹیسٹ ٹیم میں واپس لا کر نتیجہ دیکھ لیا، اب فواد عالم سمیت ایسے کرکٹرز جو مسلسل ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ پرفارم کر رہے ہیں انھیں موقع دینا چاہیے۔

کبھی کسی کی شکل اچھی نہ لگے تو بھی کام لینے کیلیے نہ چاہتے ہوئے بھی اسے ساتھ رکھنا پڑ جاتا ہے، مصباح بھی ایسا ہی کریں، ذاتی پسند ناپسند پر سلیکشن کر کے دیکھ لی اب میرٹ کو ترجیح دیں شاید اس صورت میں ہوم سیریز میں اچھے نتائج سامنے آ جائیں، ورنہ یہ پاکستان ہے یہاں آسمان پر چڑھانے اور پھر زمین پر پٹخنے میں دیر نہیں لگتی، ابھی تو صرف وزیر اعظم کے ایک مشیر نے ہی انھیں ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے کل کو یہ آوازیں مزید بلند بھی ہو سکتی ہیں تب کوئی ان کو بچانے کیلیے ساتھ نہیں کھڑا ہوگا۔

(نوٹ:آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

The post 16، 17 سال کے بولرز appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2qZTf8Q
via IFTTT

عادل رشید پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا سفر تیز ہونے پرمسرور ایکسپریس اردو

لاہور: عادل رشید نے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا سفر تیز ہونے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔

انگلش اسپنر نے ایک انٹرویو میں کہاکہ پی ایس ایل کے تمام میچز کا پاکستان میں انعقاد بڑی اچھی خبر ہے، عالمی کرکٹ میں تاریخی پس منظر رکھنے والے ملک میں انٹرنیشنل مقابلوں کا ہونا ضروری ہے،امید ہے کہ جلد انگلینڈ، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا جیسی ٹیمیں بھی تینوں فارمیٹ کے میچز میں شرکت کیلیے وہاں جائیں گی،یہ نہ صرف ملکی بلکہ انٹرنیشنل کرکٹ کیلیے بھی اچھا ہوگا۔

ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ ثقلین مشتاق نے انگلش اسپنرز کی صلاحیتیں نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا،ان کے مشوروں سے نہ صرف میری اور معین علی بلکہ دیگر بولرز کی کارکردگی میں بھی نمایاں بہتری آئی،انھوں نے انٹرنیشنل کرکٹ کے وسیع تجربے کی روشنی میں ہمیں ذہنی طور پر مضبوط بنایا،ان کی رہنمائی ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ دونوں میں ہمارے کام آئی۔

 

The post عادل رشید پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا سفر تیز ہونے پرمسرور appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2qRQlDm
via IFTTT

آج کا دن کیسا رہے گا ایکسپریس اردو

حمل:
21مارچ تا21اپریل

نیا کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو ایسا کام کریں جس میں زیادہ بھاگ دوڑ نہ کرنی پڑے کاروبار وہی کامیاب ہو سکے گا جس میں آپ کا دخل زیادہ ہو اور اس کاروبار کو اچھی طرح سمجھتے ہوں۔

ثور:
22 اپریل تا 20 مئی

کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں اور ہر کام جلدی کریں تاکہ توقع کے مطابق استفادہ کرتے رہیں، اگر آپ نے یہ بہتر وقت یوں ہی گزار دیا تو پھر بڑی جدوجہد اور بھاگ دوڑ کے بعد ہی کچھ حاصل ہو سکے گا۔

جوزا:
21 مئی تا 21جون

ملازمت میں اہم تبدیلی ہو سکتی ہے لیکن یہ تبدیلی آپ کے لئے زیادہ فائدہ مند ثابت نہ ہو سکے گی، بعض اہم کاموں کے سلسلے میں آپ کی جمع شدہ پونجی اہمیت خیز ثابت ہو سکتی ہے اپنے اخراجات کم سے کم کر دیجئے۔

سرطان:
22جون تا23جولائی

شریک حیات کے ساتھ اچھا سلوک کیجئے اگر وہ کسی بھی وقت زیادتی بھی کر دیں تو صبر سے کام لیں بفضل خدا آپ کی یہ کاوشیں رائیگاں نہیں جائیں گی، گھریلو ماحول خاصا خوشگوار ہو سکتا ہے۔

اسد:
24جولائی تا23اگست

آپ کے دماغ پر لاحاصل سوچوں کا غیر معمولی بوجھ رہے گا، آپ فوری طور پر ان سے چھٹکارہ پانے کی کوشش کیجئے، عشق کے سلسلے میں بھی اعتدال کا راستہ اختیار کریں۔

سنبلہ:
24اگست تا23ستمبر

کوئی بھی کام خواہ وہ کتنی ہی معمولی نوعیت کا کیوں نہ ہو، انتہائی جدوجہد کے بعد تکمیل تک پہنچ سکے گا بلکہ بعض کاموں میں تو انتہائی کوشش اور محنت کے بعد بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

میزان:
24ستمبر تا23اکتوبر

بسلسلہ جائیداد بنایا ہوا پلان منشاء کے مطابق عملی شکل اختیار کر سکتا ہے قریبی رشتہ داروں سے اختلافات بڑھ سکتے ہیں، اپنی صلاحیتوں کو پورے اعتماد سے بروئے کار لاتے رہیں تو پھر حالات زیادہ نہیں بگڑیں گے۔

عقرب:
24اکتوبر تا22نومبر

خود کو کبھی احساس کمتری کا احساس نہ ہونے دیں آپ اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک ہیں جو چاہے کر سکتے ہیں پھر اس قسم کے جذبے یا احساس کے چنگل میں خود کو پھنسائے رکھنا کہاں کی عقلمندی ہے۔

قوس:
23نومبر تا22دسمبر

آمدنی میں بھی غیر معمولی اضافہ ہو سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہر کام میں مکمل احتیاط رکھتے ہوئے قدم آگے بڑھایا جائے شریک زندگی وہی فریق بن سکتا ہے جسے آپ پسند کرتے ہیں۔

جدی:
23دسمبر تا20جنوری

آپ اپنی دیرینہ سکیموں کو عملی شکل دے کر کسی نہ کسی حد تک کامیابی ضرور حاصل کر سکیں گے دوستوں سے وابستہ توقعات پوری ہو سکتی ہیں مخالفین سے غیر متوقع صلح کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔

دلو:
21جنوری تا19فروری

کاروباری سکیموں کو فوری طور پر عملی جامہ پہنا دیں۔ حتی الامکان اخراجات گھٹا دیجئے تاکہ بچت میں بتدریج اضافہ ہو سکے کیونکہ آپ کو کسی اہم موقع پر رقم کی ضرورت محسوس ہو سکتی ہے۔

حوت:
20 فروری تا 20 مارچ

جن واقعات اور ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا انہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے بعض اہم کاموں میں مشکلات بڑھنے کا سبب آپ کا مزاج بھی رہا ہے اگر آپ جذباتیت کا مظاہرہ نہ کرتے تو صورتحال بدل جاتی۔

The post آج کا دن کیسا رہے گا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/35tFyP7
via IFTTT

سو فیصد کامیابی کا واحد نسخہ ایکسپریس اردو

ملک ریاض پاکستان کے پانچ بڑے امیر لوگوں میں شامل ہیں‘ یہ 25 سال پہلے ایک چھوٹے سے ٹھیکیدار تھے‘ پانچ مرلے کے کرائے کے مکان میں رہتے تھے اور بس میں سفر کرتے تھے لیکن پھر یہ ایشیا کے سب سے بڑے ہاؤسنگ پراجیکٹ کے مالک بن گئے‘ پورے ملک کی رئیل اسٹیٹ انڈسٹری کو بدل کر رکھ دیا۔

میرا ذاتی خیال ہے بحریہ ٹائون کی نیٹ ورتھ ساڑھے تین ہزار ارب روپے ہے‘ یہ کتنی بڑی رقم ہے آپ اس کا اندازہ پاکستان کے ٹوٹل بجٹ سے لگا لیجیے‘ پاکستان کا بجٹ ساڑھے پانچ ہزار ارب روپے ہے جب کہ ملک ریاض کے پراجیکٹس کی ویلیو ساڑھے تین ہزار ارب روپے ہے اور یہ ساری دولت ایک شخص نے 25 برس میں کمائی‘ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ بھی ملک ریاض کو ہوا‘ سپریم کورٹ نے انھیں 470 ارب روپے جرمانہ کیا‘ یہ ڈالرز میں چار بلین ڈالر بنتا ہے۔

ہم آئی ایم ایف سے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی قسط لیتے ہیں گویا ملک ریاض آئی ایم ایف کے برابر جرمانہ ادا کریں گے‘ ملک ریاض نے یہ کامیابی کیسے حاصل کی؟ اس کی صرف اور صرف ایک وجہ ہے‘ میرا دعویٰ ہے آپ بھی اگر یہ نسخہ استعمال کر لیں گے تو آپ بھی ملک ریاض کی طرح کامیاب ہو جائیں گے‘ سو فیصد گارنٹی ہے‘ آج سے چھ ماہ پہلے تک ملک ریاض کے خلاف خوف ناک کیسز چل رہے تھے۔

سپریم کورٹ‘ چیف جسٹس‘ پوری گورنمنٹ اور تمام سیاسی جماعتیں ان کے خلاف تھیں لیکن ان برے ترین حالات میں بھی ملک صاحب اطمینان سے بیٹھے تھے‘ میں نے ان سے ایک دن اس اطمینان کی وجہ پوچھی‘ یہ ہنس کر بولے ’’یہ سب لوگ مل کر بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیسے؟‘‘ یہ بولے ’’میرے تمام بزنسز میں اللہ تعالیٰ حصے دار ہے‘ پروردگار میرا بزنس پارٹنر‘ میرا شیئر ہولڈر ہے اور اللہ کبھی اپنا نقصان نہیں ہونے دے گا‘‘

میں نے مزید وضاحت چاہی‘ ملک ریاض نے بتایا ’’میں جب بھی کوئی پراجیکٹ‘ کوئی کاروبار شروع کرتا ہوں تو میں اللہ کو حصے دار بنا لیتا ہوں‘ اللہ کا یہ حصہ میرے کاروبار کی حفاظت بھی کرتا ہے اور اسے ترقی بھی دیتا ہے لہٰذا یہ لوگ جتنی چاہے کوشش کر لیں یہ میرا کچھ نہ کچھ بگاڑ لیں گے مگر یہ اللہ اور اس کے کاروبار کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے‘‘ ملک ریاض کی بات سو فیصد درست تھی‘ یہ شروع دن سے اللہ کو بزنس پارٹنر بناتے آ رہے ہیں‘ یہ ٹھیکیدار تھے تو یہ پہلے اپنے منافع کا ایک حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے اور پھر اپنا حصہ گھر لے کر جاتے تھے‘ یہ آج بھی ہر سال 68 کروڑ روپے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔

ملک میں 110 دستر خوان چل رہے ہیں‘ یہ ان دستر خوانوں میں ایک لاکھ لوگوں کو روزانہ کھانا دیتے ہیں‘ ملک میں ریاست کے دستر خوان بند ہو گئے لیکن ان کے دستر خوان 12 سال سے چل رہے ہیں‘ یہ درجنوں چیریٹی اسپتال چلا رہے ہیں‘ سیکڑوں میٹھے پانی کے کنویں ہیں‘ ہزاروں طالب علموں کی فیسیں ہیں‘ یہ روز دو خاندانوں کو مفت گھر دیتے ہیں اور ملک میں سب سے زیادہ کڈنی اور لیور ٹرانسپلانٹ بھی اس شخص نے کرائے‘ اللہ کے ساتھ یہ شراکت داری ہے جس نے آج تک ان کا کاروبار بند ہونے دیا اور نہ ان کی گروتھ رکی‘ یہ آج بھی کہتے ہیں سپریم کورٹ نے مجھے 470 ارب روپے جرمانہ کیا‘ میں یہ بھی ادا کر دوں گا کیوں کہ اس میں بھی اللہ حصے دار ہے‘ اللہ یہ بھی پورا کر دے گا۔

آپ جنید جمشید (مرحوم) کے برینڈ ’’جے جے‘‘ سے بھی واقف ہیں‘ یہ پاکستان میں گارمنٹس کا سب سے بڑا برینڈ ہے‘ جنید جمشید نے شروع میں یہ بنایا‘ یہ دو بار ناکام ہو گئے‘ یہ اپنے پارٹنر سہیل بھائی کے ساتھ دعا کے لیے مفتی نعیم کے پاس گئے‘ مفتی صاحب نے انھیں مشورہ دیا آپ اپنے منافع میں اللہ کو حصے دار بنا لیں آپ کو کبھی خسارہ نہیں ہو گا‘ جنید جمشید اور ان کے پارٹنر سہیل بھائی نے اللہ کو 33 فیصد کا شیئر ہولڈر بنا دیا‘ اگلے ہی دن کام چل پڑا‘ یہ لوگ شروع میں صرف منافع کا 33 فیصد خیرات کرتے تھے‘ کام چل پڑا تو انھوں نے سیل کا 33 فیصد شیئر اللہ کے نام کر دیا‘ ان کا برینڈ نیشنل سے انٹرنیشنل ہو گیا۔

آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی یہ اپنی جس پراڈکٹ میں اللہ کا حصہ نہیں رکھتے تھے وہ ناکام ہو جاتی تھی اور یہ جس میں اوپر والی ذات کو پارٹنر بنا لیتے تھے اس کو پہیے لگ جاتے تھے‘ آپ نے سیور فوڈ کا نام بھی سنا ہو گا‘ یہ پاکستان میں تیار فوڈ کا بہت بڑا برینڈ ہے‘ یہ روز دو ہزار دیگیں کھانا پکاتے ہیں‘ یہ ملک میں مرغی‘ چاول‘ گھی‘ چینی اور مصالحوں کے سب سے بڑے خریدار ہیں‘ سو سو ٹرکوں میںان کے چاول آتے ہیں لیکن پھر بھی مانگ پوری نہیں ہوتی‘ سیور کی کام یابی کے پیچھے بھی اللہ کی شیئر ہولڈنگ ہے‘ یہ روزانہ سویٹ ہوم کے یتیم بچوں کو مفت کھانا پہنچاتے ہیں۔

آپ یقین کیجیے یہ یتیم بچے ان کی جس پراڈکٹ کو ہاتھ لگا دیتے ہیں وہ کام یاب ہو جاتی ہے اور باقی پٹ جاتی ہیں‘ یہ یتیم بچوں کو 14 قسم کے کھانے کھلاتے ہیں اور ان کے یہ 14 کھانے کامیاب ہیں‘ کراچی میں ایک ٹرسٹ ہے سیلانی ٹرسٹ‘ یہ ٹرسٹ بھوکوں کو روز 70 لاکھ روپے کا کھانا کھلاتا ہے اور یہ ان کے دو درجن منصوبوں میں سے ایک منصوبہ ہے‘ مولانا بشیر قادری اس ٹرسٹ کے روح رواں ہیں‘ مجھے مولانا نے بتایا‘ ہمارا ایک بھی ایسا ڈونر نہیں جس نے ڈونیشن دینا شروع کیا ہو اور پھر اس نے اپنے ڈونیشن میں اضافہ نہ کیا ہو‘ کیوں؟ کیوں کہ اللہ اس کے کاروبار اور ظرف دونوں میں اضافہ کر دیتا ہے اور ڈونر بھی اپنا حصہ بڑھانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

میں لاہور کے ایک بزنس مین کو جانتا ہوں‘ یہ ڈیپارٹمنٹ  اسٹورز اور گارمنٹس کے بے شمار برانڈز کے مالک ہیں‘ یہ جینز پینٹس کے سب سے بڑے ایکسپورٹر بھی ہیں‘ان کی کامیابی کے پیچھے بھی اللہ کی شیئر ہولڈنگ ہے‘ لاہور میں ایک چیریٹی اسپتال بننا تھا‘ میاں صاحب اور قرشی دوا خانے کے مالک اقبال قرشی دونوں نے اسپتال کے لیے ایک ایک ارب روپے دے دیے یوں ایک دن میں دو ارب روپے اکٹھے ہو گئے‘ اللہ کے نام کے یہ دو ارب روپے ان کی کامیابی کی واحد گارنٹی ہیں‘ کراچی میں انڈس اسپتال ہے‘ یہ دنیا کا واحد اسپتال ہے جس میں کوئی کیش کاؤنٹر نہیں‘ سردرد سے لے کر کینسر تک ہر شخص کا علاج مفت ہوتا ہے‘ اسپتال کا خرچ 12 ارب روپے سالانہ ہے‘ یہ 12 ارب روپے لوگ دیتے ہیں۔

اس کے سی ای او ڈاکٹر باری نے مجھے بتایا‘ ہمیں آج تک پیسوں کی کمی نہیں ہوئی کیوں کہ ہمارے سارے ڈونرز اللہ کے شیئر ہولڈر ہیں‘ اللہ انھیں کمی نہیں آنے دے رہا اور یہ ہمیں کمی نہیں آنے دے رہے‘ آپ عمران خان کی مثال بھی لے لیجیے‘ یہ جب تک صرف کرکٹر تھے تو یہ دو ہزار کھلاڑیوں میں ایک کھلاڑی تھے لیکن انھوں نے جب اللہ کے نام پر کینسر اسپتال بنایا تو اللہ نے انھیں وزیر اعظم بنا دیا‘ ان کا اسپتال بھی آج تک بند نہیں ہوا‘ وجہ اللہ کی شیئر ہولڈنگ ہے اور آپ اخوت کی مثال بھی لے لیجیے‘ یہ تیسری دنیا کی سب سے بڑی مائیکرو فنانسنگ این جی او ہے‘ یہ دس ہزار روپے سے شروع ہوئی تھی‘ یہ آج 100 ارب روپے کی آرگنائزیشن بن چکی ہے‘ یہ لوگ اب تک 35 لاکھ لوگوں کو قرض دے چکے ہیں‘ یہ تنظیم بلاسود قرضہ دیتی ہے۔

آج تک جس شخص نے بھی یہ قرضہ دیا اور جس نے بھی لیا اللہ کی شیئر ہولڈنگ کی وجہ سے اس کے رزق میں اضافہ ہو گیا‘ یہ لوکل مثالیں تھیں‘ آپ انٹرنیشنل مثالیں بھی ملاحظہ کیجیے‘ دنیا میں اس وقت 41 بڑے ڈونرز ہیں‘ بل گیٹس سب سے بڑا ڈونر ہے‘ اس نے 52 بلین ڈالر کی چیریٹی کی‘ یہ رقم پاکستان کے 80 فیصد قرضے کے برابر ہے‘ 41 ڈونرز کی فہرست میں آخری شخص ڈبلیو ایم کیچ ہے‘ اس نے بھی سوا بلین ڈالر چیریٹی کی‘ یہ 41 لوگ کھرب پتی ہیں‘ اتنی دولت چیریٹی کرنے کے بعدان لوگوں کو دیوالیہ ہو جانا چاہیے تھا لیکن آپ اللہ کا حساب دیکھیے جس دن ان لوگوں کا چیک چیریٹی فاؤنڈیشن میں گیا اس دن ان کی دولت کو پر لگ گئے‘ بل گیٹس 2007ء تک ایک سیکنڈ میں 30 ڈالر کماتا تھا‘ یہ آج 130 ڈالر فی سیکنڈ کما رہا ہے۔

یہ رقم ایک منٹ میں 7 ہزار 8 سو ڈالر (12 لاکھ9 ہزار روپے) بنتی ہے‘ آپ دیکھ لیں اللہ نے اس شخص کو کیسے نوازا‘ اس نے ایک ہاتھ سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور اللہ نے دوسرے ہاتھ میں پانچ گنا پکڑا دیا‘ یہ ہے اللہ کی شیئر ہولڈنگ‘ عیسائیوں کی کتابوں میں درج ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے چیریٹی مانگی‘ امیر یہودیوں نے ہزاروں روپے کا ڈھیر لگا دیا۔

قطار میں ایک چھوٹی سی فقیرنی بھی کھڑی تھی‘ اس کی جیب میں صرف ایک سکہ تھا‘ اس نے وہ سکہ ڈھیر پر پھینک دیا‘ اللہ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے فرمایا یہ ایک سکہ بنی اسرائیل کی ساری دولت پر بھاری ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ میں نے ان لوگوں کو جو دیا تھا‘ ان لوگوں نے اس میں سے تھوڑا سا مجھے لوٹایا جب کہ اس فقیرنی کے پاس صرف ایک سکہ تھا‘ اس نے وہ پورے کا پورا مجھے دے دیا‘ اس پوری بستی میں یہ مجھے سب سے عزیز ہے‘ تم سے بھی زیادہ۔

میں آپ کو ہرگز ہرگز یہ نہیں کہتا آپ اس فقیرنی کی طرح اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں دے دیں‘ آپ بس پارٹنر شپ سے آغاز کریں‘ آپ جو بھی کام شروع کریں آپ اللہ کو اس میں پانچ فیصد شیئر ہولڈر بنا لیں اور نیت کریں یا اللہ میرے رزق میں جتنا اضافہ ہوتا جائے گا میں آپ کے حصے کو اتنا ہی بڑھاتا جاؤں گا‘ آپ اس کے بعد کمال دیکھیے اگر آپ کا بزنس کام یاب نہ ہو‘ اگر آپ کے منافع میں اضافہ نہ ہو تو آپ اپنا نقصان مجھ سے لے لیجیے گا‘ میں آپ کا قرض دار ہوں گا‘ آپ ایک بار اللہ کو پارٹنر بنا کر دیکھیں‘ میرا اللہ آپ کی نسلوں تک کو حیران کر دے گا۔

نوٹ: آپ میرے یوٹیوب چینل مائینڈ چینجر پر اس موضوع پر ویڈیو بھی ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

The post سو فیصد کامیابی کا واحد نسخہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2DywFXD
via IFTTT

محمد حنیف کے سرخ پرندے ایکسپریس اردو

میرے سامنے ضیا حدید تھیں۔ لبنانی اور مصری ماں باپ کی بیٹی جس نے کینبرا، آسٹریلیا میں ایک تارک وطن کے طور پر آنکھ کھولی، ہوش سنبھالا اور آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد وہ صحافت سے وابستہ ہوئیں اور اس وقت محمد حنیف کے نئے ناول ’’سرخ پرندے‘‘ کے اردو ترجمے پر گفتگو کے لیے موجود تھیں۔ ان دنوں نیشنل پبلک ریڈیو، واشنگٹن ڈی سی سے وابستہ ہیں، پاکستان میں اس ریڈیو کے نمائندے عبدالستار ان کے ساتھ تھے۔

ضیا ان دنوں مشرقی یروشلم میں رہتی ہیں اور 9 مہینے کی بیٹی کو باپ کی نگرانی میں چھوڑ کر آئی ہیں، کچھ دیر بعد ان کی واپسی کی فلائٹ تھی اور وہ اس بات پر خوش تھیں کہ 24 گھنٹوں میں ان کی بیٹی ان کی آغوش میں ہو گی۔

محمد حنیف آج ایک انٹرنیشنل سیلے بریٹی ہیں لیکن میں انھیں اس وقت سے جانتی ہوں جب وہ ’’نیوزلائن‘‘ میں کام کرتے تھے۔ بی بی سی کی ششی سنگھ کے ساتھ ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس وقت ’’پھٹتے ہوئے آم‘‘ ان کے ذہن میں پرورش پا رہے تھے۔

اوکاڑہ میں پیدا ہونے والے محمد حنیف نے ائیرفورس میں شمولیت اختیار کی اور امریکی طیارے پر فائٹر پائلٹ کی تربیت حاصل کی لیکن بہت جلد اپنے اس انتخاب سے اکتا گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس سہ پہر جنرل ضیاء الحق کا طیارہ فضا میں پھٹ گیا، اس روز میں اپنے دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ ٹیلی وژن دیکھ رہا تھا اور جب ہمیں یقین ہو گیا کہ ایک ڈکٹیٹر سے نجات مل گئی ہے تو ہم نے ایک بوتل پر خوشی منائی۔ اس واقعے کے تین مہینے بعد حنیف نے پاکستان ائیر فورس سے استعفیٰ دے دیا حالانکہ ان کی ملازمت کی مدت میں ابھی دس برس باقی تھے۔

ائیر فورس سے فارغ ہونے کے بعد حنیف اوکاڑوی نے صحافت اختیار کی اور آخرکار ’’نیوزلائن‘‘ سے وابستہ ہو گیا جہاں اس نے ڈاکوئوں، ڈرگ مافیا اور خطرناک گروہوں کے بارے میں لکھا۔ اس کے دوستوں کا خیال تھا کہ وہ صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا اور وہ بے دھڑک ایسی حقیقتیں لکھتا رہا جن کے بارے میں لوگ کچھ نہیں جاننا چاہتے تھے۔ وہ چھ برس لندن میں بی بی سی اردو سروس سے وابستہ رہا۔ جنرل ضیا الحق کے طیارے کو پیش آنے والا حادثہ محمد حنیف کے ذہن کو سوچنے پر مجبور کرتا رہا اور پھر اس نے اپنی بیوی نمرہ بُچہ کے ساتھ مل کر اپنے پہلے ناول پر کام کیا۔ جس کے بارے میں اس کے قریب ترین دوستوں کو بھی کچھ نہیں معلوم تھا۔

انگریزی میں لکھنا اور چھپنا اس حوالے سے ’’محفوظ‘‘ ہے کہ عام آدمی اسے پڑھتا نہیں اور مقتدر حلقوں کے پاس پڑھنے کی فرصت نہیں ہوتی۔ محمد حنیف کے ناول کو پاکستان کے کسی پبلشر نے شائع کرنے سے انکار کر دیا، تب اسے ہندوستانی پبلشر رینڈم ہائوس کی چکی سرکار نے شائع کیا ۔ اس کے چند ہزار نسخے پاکستان پہنچے تو یہاں کی ادبی دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ ناول میں بے دھڑک انداز میں مقتدر ترین حلقوں کو طنز اور مزاح کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ حنیف کے قریبی حلقوں کا خیال تھا کہ وہ کسی وقت بھی ’’غائب‘‘ ہو سکتا ہے اور اس کا مقدر بھی کسی زندان کے تہہ خانے میں ایک متشدد موت ہو سکتی ہے۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

اس کے بعد بھی حنیف نے کئی ادبی ناول اور کہانیاں لکھیں، تازہ ترین ’’دی ریڈ برڈز‘‘ ہے لیکن اس کے درمیان اس کا ایک اہم کام وہ رپورٹ ہے جو اس نے 2 فروری 2012ء میں ایچ آر سی پی کی ہدایت پر بلوچستان کے غائب ہونے والے نوجوانوں کے بارے میں مرتب کی۔

وہ بلوچ نوجوان جو اپنے گھروںسے، چائے کے کسی ڈھابے یا سڑک کے کسی کونے سے اٹھا لیے گئے، ان پر کیا گزری، یہ ایک سوہان روح داستان ہے۔ اس میں ان سیکڑوں بلوچ نوجوانوں کا قصہ ہے جو اپنے بنیادی انسانی حقوق اور جمہوری حقوق کے لیے آواز بلند کرتے رہے۔ یہ آوازیں شاید کسی تہہ خانے میں اب بھی گونجتی ہوں یا سلا دی گئی ہوں۔ اس رپورٹ میں قدیر بلوچ کے بیٹے جلیل رکی کی داستان الم ہے۔ دو برس اور آٹھ مہینوں بعد گم شدہ جلیل ہلاک کر دیا گیا، اس کی لاش تربت کے قریب ملی۔ بوڑھے باپ نے بیٹے کے بدن پر تشدد کے تمام نشانات گنے۔ اس کی پشت پر جلنے کے نشانات تھے، شاید اسے سگریٹوں سے داغا گیا تھا ۔ اس کے دل کے قریب گولیوں کے تین زخم تھے۔ اسے کئی دن پہلے قتل کیا گیا تھا لیکن اس کا بدن کسی شہید کی طرح تر و تازہ تھا۔

بوڑھا باپ بیٹے کا پارہ پارہ بدن کراچی لے آیا اور پریس کلب کے سامنے بیٹھ گیا۔ شاید بڑے اخبارات اس بے کس اور بے بس نوجوان کے بارے میں کچھ لکھیں جو کتابوں کا رسیا تھا اور جس کا کسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق نہ تھا۔ محزوں اور ملول بوڑھے نے یہ بھی کیا کہ اپنے ساڑھے چاربرس کے پوتے کو گھر سے لایا اور اسے باپ کے بدن کے تمام زخم دکھائے۔ وہ کہتا ہے ’’ لوگوں نے مجھے روکنا چاہا لیکن میں نے ان کی ایک نہ سنی۔ میں دو برس اور آٹھ مہینے تک اپنے بوتے سے جھوٹ بولتا رہا تھا، اسے دلاسا دیتا رہا تھا۔ اب وقت آ گیا تھا کہ وہ سچ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔ اس نے جب اپنے باپ کی پھوٹی ہوئی آنکھ دیکھی تو اس نے پوچھا کہ بابا کے ساتھ یہ کس نے کیا ہے تو میں نے اسے بتا دیا۔ اس بچے کے دل میں سوراخ ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اسے کوئی صدمہ نہیں پہنچنا چاہیے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اسے حقیقت جان لینی چاہیے۔ وہ جب تک زندہ ہے، اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اس کے بے گناہ باپ کے ساتھ کیا ہوا تھا۔‘‘ بوڑھے بلوچ کی آواز میں ذرا سی بھی لرزش نہیں تھی۔

محمد حنیف نے یہ رپورٹ یقینا جان پر کھیل کر لکھی۔ وہ قابل داد ہے۔ لیکن یاد رہے کہ جب سے وہ انٹرنیشنل سیلے بریٹی بنا ہے اس وقت سے ایک نظر نہ آنے والا حفاظتی دائرہ اس کے گرد کھنچا ہوا ہے۔ وہ اگر ’’غائب‘‘ ہو جاتا ہے یا کسی پارک میں ٹہلتے ہوئے کسی آوارہ گولی کا نشانہ بن جاتا ہے تو یہ ایک بڑی خبر ہو گی اور بڑی خبریں آسانی سے چھپائی نہیں جا سکتیں۔

ضیا حدید کو اس کی پریشانی تھی کہ اس کے نئے ناول ’دی ریڈ برڈز‘‘ کا اردو ترجمہ صرف ایک ہزار کی تعداد میں کیوں چھپ رہا ہے۔ ضیا کے اس سوال پر میں شرمندہ تھی۔ اسے یہ تو معلوم ہی نہیں کہ اب ہمارے یہاں بیشتر کتابیں 500 کی تعداد میں چھپتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں شرح خواندگی شرمناک حد تک کم ہے، دوسرے ان لوگوں کی قوتِ خرید روز بہ روز کم ہو رہی ہے جو کتابیں خریدنے کے رسیا ہیں۔ اور تیسرے یہ کہ ہمارے سرکاری اسکولوں میں بچوں کو پڑھنے کی طرف راغب نہیں کیا جاتا۔ ان کے دل میں ادب کی شناوری کا شعلہ نہیں بھڑکتا۔

محمد حنیف کا نیا ناول ’سرخ پرندے‘‘ اس امریکی جیٹ بمبار کا قصہ ہے جسے اس کے افسران بالا نے یہ باور کرایا تھا کہ وہ جس علاقے میں بم گرانے جا رہا ہے، وہ دراصل دہشتگردوں کا کیمپ ہے۔ امریکی ائیر فورس کا میجر ایلی اس یقین کے ساتھ اپنا طیارہ اور اس میں بھرے ہوئے بم لے کر اڑتا ہے لیکن اس کا طیارہ ایک صحرا میں کریش کر جاتا ہے۔ وہ آٹھ دن تک بھوکا پیاسا صحرا میں بھٹکتا رہتا ہے اور یہ بات تو اسے بعد میں معلوم ہوتی ہے کہ جس جگہ کے بارے میں اسے بتایا گیا تھا وہا ں دہشتگردوں نے اسلحے کے ڈھیر لگارکھے ہیں، وہاں وہ لوگ ہیں جن سے ان کے گھر چھن چکے ہیں اور امریکی جنگ نے انھیں ان کی بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم کر دیا ہے۔

اس ناول میں امریکا کے اس کردار کو اجاگر کیا گیا ہے جو اس نے شرق اوسط کے ملکوں کو تباہ و برباد کرنے کے لیے ادا کیا ہے۔ جنگ کس طرح انسانوں کو غیر انسان بناتی ہے اور ان سے ہر انسانی خوبی چھین لیتی ہے۔ کس طرح انسانی بدن سے اڑتے ہوئے خون کے چھینٹے سرخ پرندے بن جاتے ہیں۔

کرہ ارض پر امریکا کیوں انسانی خوشیوں کا قاتل ہے، بچے کس طرح اپنے بچپن اور اپنی معصومیت سے محروم کر دیے جاتے ہیں۔ اس پر صرف امریکیوں اور مغرب کو ہی نہیں ہمیں بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہم میں سے بہت سے مغرب کا سایہ بن کر جینے میں راحت محسوس کرتے ہیں۔ کیا ہم واقعی چین آرام سے ہیں؟ یہ ایک بہت اہم سوال ہے جس کا ہم سب کو جواب دینے کی ضرورت ہے۔

The post محمد حنیف کے سرخ پرندے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2qROCOo
via IFTTT

ریاست مدینہ کیا ہے ایکسپریس اردو

پاکستان بلکہ تیسری دنیا میں شروع سے یہ ہو رہا ہے کہ کوئی سیاسی حکمران حکومت میں تو عوام کی پر جوش حمائیت سے آتا ہے مگر وہ عوام کو شاید بے وقوف سمجھتے ہوئے انھیں بھلا دیتا ہے اور اپنے ہم مشرب سیاسی طبقے کی پرورش میں لگ جاتا ہے جو دراصل اس کے حریف ہوا کرتے ہیں چنانچہ جب اقتدار پر آفت آتی ہے تو اس کے اپنے طبقے کے ساتھی اسے مخالفوں کی صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور عوام اس سے متنفر ہو چکے ہوتے ہیں ۔ تنہائی کے اس عالم میں وہ گلوں شکووں کے سوا کچھ نہیں کر سکتا۔

ذوالفقار علی بھٹو ا س سیاسی المیے یا حماقت کی بہترین مثال ہیں ۔ ایک ذہین و فطین لیڈر جس نے بہت کچھ توڑ دیا مگر سیاست کی اس آسیب زدہ روایت کو نہ توڑ سکا اور خود اس کا بد قسمت شکار بن گیا چنانچہ ایک بار پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا تھا ۔ اقتدار سے علیحدگی کے بعد بھٹو صاحب نے اپنی سیاست کھیلنے کا فیصلہ کیا اور ہر وڈیرے ، رئیس ، سردار اور چوہدری کے دروازے پر دستک دی لیکن ایوب خان کے اس معتوب سے سب ڈر رہے تھے چنانچہ کسی نے اس کا ساتھ دینے کا حوصلہ نہ کیا۔ جب اس کے تمام حیلے ناکام ہو گئے تو وہ مایوسی اور برہمی کی کیفیت میں گم سم ہو گیا اور جب غورو فکر کے اس مراقبے سے باہر نکلا تو اس کی زبان پر پاکستان کے درو دیوار ہلا دینے والا روٹی کپڑا مکا ن کا نعرہ تھا ۔

اس وقت اس کی پاکستانی قوم ایک نسبتاً خوشحال قوم تھی اور سیاست کی ریڑھ کی ہڈی مڈل کلاس بھی موجود تھی ۔ سوشلزم کافیشن تھا اور بھارت کے خلاف بھر پور جنگ کی نفرت انگیز یادیں تازہ تھیں ۔ بھٹو نے کہا کہ عوام پاکستان کے مالک ہیں اور اس ملک کا سب کچھ ان کا ہے اور میں یہ سب کچھ چھین کر ان کو دے دوں گا۔ لاڑکانہ نہیں لاہور بھٹو کی سیاست کا مرکز تھا اور یہاں کے فلیٹیز ہو ٹل میں ان کا ڈیرہ جمتا تھا ۔ ایک دن میں نے بھٹو صاحب سے باتوں باتوںمیں پوچھا کہ عوام کو اتنا کچھ آپ کہاں سے دیں گے اتنی تو ملک کی زمین بھی نہیں یہ شام کا وقت تھا ۔

انھوں نے ایک خاص انداز میں کہا کہ جنت کسی مسلمان نے دیکھی ہے خدا کسی نے دیکھا ہے مگر مسلمان جنت کے وعدے اور خدا کی رحمت کے لیے جان تک قربان کرنے پر تیار رہتا ہے ۔ وعدوں پر اعتبار اس قوم کی رگ و پے میں ہے پھر انھوں نے ذرا تن کر کہا لیکن میں بہت سے وعدے پورے کروں گا، میں بہت سوں سے بہت کچھ چھین لوں گا۔ وہ اپنے طبقے کے بڑے زمینداروں اور ملک کے صنعتکاروں سے بہت ناراض تھے جنہوں نے انھیں حقارت کے ساتھ مسترد کر دیا تھا ۔ مختصراً یہ کہ کسے یاد نہیں کہ بھٹو نے اپنے نامور مخالف سیاستدانوں کو تہس نہس کر تے ہوئے پرانی سیاست کو نابود کر دیا ، بہت کچھ اکھاڑ پچھاڑ دیا سیاست کے لاتعداد تاج اور کلاہ اپنے پائوں تلے روند ڈالے ۔

اس سیاستدان نے یہ سب کچھ عوام کی مدد سے کیا، کسی سردار، چوہدری، وڈیرے اور نواب کی مدد سے نہیں ۔ آج تک اس کا ترکہ اس کے سیاسی جانشین کھا رہے ہیں ۔ لیکن بالآخر بھٹو اپنی اس کامیاب سیاست پر قائم نہ رہ سکا ۔ اس کے اندر کا وڈیرہ جاگ گیا ۔ اقتدار اور حکمرانی کا سحر اس کے حواس کو بے قابو کر گیا اس نے عوام کو چھوڑ کر پھر سے اپنے دشمنوں کو جمع کر لیا ۔ یہ لوگ تو کمزور ترین مخلوق تھے اصل طاقت عوام کے پاس تھی جو اس نے گم کر دی، وہ خود بھی گم ہو گیا صرف اس کی یاد باقی رہ گئی۔

یہ باتیں مجھے آج کے حکمرانوں کی حالت زار دیکھ کر یاد آ رہی ہیں جو بھٹو کی طرح نہ سہی لیکن عوام کی تائید کے دعویدار ہیں اور وجہ کچھ بھی ہو عوام نے انھیں بڑے شوق سے اور بڑی امیدوں کے ساتھ اقتدار پر سرفراز کیا ہے ۔ مگر عوام کے ساتھ ان کا رابطہ اتنا ہی ہے کہ انھوں نے عوام کے استعمال کی اشیاء ان پر تنگ کر دی ہیں ۔ بھٹو صاحب کا تجربہ کوئی پرانے زمانے کی بات نہیں ہے، تاریخ سے سبق اگرچہ بہت کم سیکھا جاتا ہے مگر ماضی قریب کی تاریخ تو فراموش نہیں کرنی چاہیے، خصوصاً جب ہر وقت عوام کو خوشحالی کے خواب دکھائے جاتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کواس غلط فہمی یا خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ کوئی ایسی طاقت ان کے اقتدار کو بچا سکتی ہے جس کا عوام سے کوئی تعلق نہ ہو یا ان کے سیاسی اتحادی جن کو پاکستان کے عوام کئی بار بھگت چکے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا عوام سے خوشگوار تعلق نہیں ہے ۔ وہ ماضی کی ہر حکومت کے اتحادی رہے ہیں چاہے وہ سیاسی حکومت ہو یا فوج کی مارشل لائی حکومت۔ بس ایک پردہ پڑا ہوا ہے جس کے پیچھے کوئی معشوق نہیں ہے صرف رقیب چھپے ہوئے ہیں ۔

عمران خان کو اگر کسی پر انحصار کرنا ہے تو وہ پاکستان کے عوام ہیں جنہوں نے ان کو نعروں کی گونج اور ڈھول کی تھاپ پر اقتدار کی مسند پر بڑے چائو سے بٹھایا ہے ۔ قرآن کے الفاظ میں یہ افتادہ خاک لوگ عمران خان کی اصل سیاسی طاقت ہیں جو کسی کرم فرما کی راہ تکتے رہتے ہیں ۔ وہ ان کا حال دل جاننے کی کوشش کریں اور ان کو اپنا حال سنائیں وہ دیکھیں گے کہ زمین کے یہ کمزور لوگ کس قدر پیار کرنے والے ہیں ۔ وہ ان کو طاقت دیں ان سے اقتدار کے لیے طاقت حاصل کریں۔ یہ وہ طاقت ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ وہ صوبوں کا بار بار دورہ کریں، بار بار ان کا حال پوچھیں، ان کو بتائیں کہ وہ ان کے مسائل کے حل کے لیے آئے ہیں ۔

بڑے لوگوں سے ان کی بڑائی اورتکبر چھین لیں اور چھوٹے لوگوں میں ان کی عاجزی اور کمزوری کو ختم کر دیں، اسی کا نام ریاست مدینہ ہے۔ سیدنا صدیق اکبر ؓ نے فرمایا تھا کہ میں اس وقت تک چین سے نہ بیٹھوں گا جب تک ظالم سے مظلوم کا حق نہ چھین لوں۔

The post ریاست مدینہ کیا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/35TJnMX
via IFTTT

’’اپنے اپنے حصے کا بوجھ ‘‘ ایکسپریس اردو

ابھی ابھی اتفاقاً فیس بُک کے ایک بلاگ (غالباً اسے یہی کہتے ہیں) پر نظر پڑی تو دو ناموں اور اُن کی تصویروں نے آگے بڑھنے سے روک دیا۔ ڈاکٹر معید پیرزادہ ، ڈاکٹر شاہد مسعود کے کسی ٹی وی پروگرام کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ جس پر رضا رومی نے کوئی کمنٹ کیا تھا۔

ایک تو میں ڈاکٹر معید پیرزادہ کو نسبتاً ایک بہتر اور باقاعدہ اینکر سمجھتا ہوں دوسرے ذکر دو ایسے لوگوں کا تھا جس سے بوجوہ میری ذاتی دلچسپی اور تسلی خاطر ہے کہ شاہد مسعو د سے رابطہ اس وقت سے ہے جب ابھی انھوں نے میڈیا کی دنیا میں قدم رکھا ہی تھا اور عزیزی رضا رومی سے اُس کی ذاتی خوبیوں اور عمدہ تحریروں کے ساتھ ساتھ برادرم شیخ ریاض اور بہن بلقیس ریاض کی اولاد ہونے کے ناتے سے بھی ایک پرانا اور محبوب تعلق ہے۔

سو میں نے ڈاکٹر معید کی بات سننا شروع کر دی جو ان دو اصحاب کے تذکرے سے ہوتی ہوئی ایک ایسے موضوع کے گرد گھومنے لگی جس پر میں خود اکثر سوچتا رہتا ہوں اور سچ پوچھئے تو میں اس حسنِ اتفاق کا شکر گزار بھی ہوں کہ اس گفتگو کی وساطت سے بہت سے سوالوں کے جواب میرے ذہن میں زیادہ واضح اور بامعنی ہوتے چلے گئے اور یوں فیس بک پر صرف کیے گئے یہ چند منٹ اُس بے مصرف اور خاصے طویل عرصے کی تلافی بن گئے جو نہ چاہتے ہوئے بھی آج کل ہماری وقت گزاری کا ایک اور مستقل حصہ بن چکے ہیں ۔

گفتگو کا اصل موضوع یہ تھا کہ ٹی وی کے ٹاک شوز میں بعض اینکر حضرات جان بوجھ کر نہ صرف سنسنی پھیلانے والے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں بلکہ اپنے اپنے مخصوص ایجنڈے اور ضروریات کے مطابق اس زیادہ تر خود ساختہ آگ پر تیل بھی چھڑکتے رہتے ہیں کہ یُوں اُن کے پروگراموں کی رینکنگ بڑھتی ہے، چاہے اس سارے عمل میں حقائق ، انصاف اور اخلاقیات کا دیوالہ ہی کیوں نہ نکل جائے۔ اب یہ تصویر ایسی ہے کہ مجھ سمیت بیشتر لوگ اس سے کم یا زیادہ اتفاق ضرور رکھتے ہیں۔

گزشتہ دنوں بلکہ کچھ مہینوں سے یہ بات اکثر موضوع، گفتگو رہتی ہے کہ موجود دور میں اظہار رائے کی آزادی متاثر ہو رہی ہے بلکہ میڈیا انڈسٹری کے سیکڑوں لوگ (جن میں زیادہ تعداد کم آمدنی والے ملازمین کی ہے) یا تو بے روزگار ہو گئے ہیں یا انھیں کئی کئی مہینے تنخواہ نہیں ملتی جس کی وجہ سے ہر طرف ایک افواہوں کا بازار سا گرم ہے لیکن اصل اور صحیح صورتِحال سامنے نہیں آ رہی کہ آخر یہ مسئلہ ہے کیا اور اس سارے بگاڑ میں کس کا کتنا حصہ ہے؟

ڈاکٹر معید پیرزادہ نے اسی سے ملتے جلتے ایک مکالمے یا مبالغے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک بہت فاضل قسم کے مقررّ نے بھری محفل میں یہ تک کہہ دیا کہ یہ لوگ اینکرز نہیں کچھ اور ہیں جو روزانہ شام 5 بجے کے بعد اپنا اپنا تماشا شروع کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر معید کا استدلال بہت مضبوط اور فکر انگیز تھا کہ اگر واقعی ایسا ہے تو اس تماشے کے پروڈیوسرز اور تماشا ئی کون، کیوں اور کیسے ہیں؟

یہ بات تو طے ہے کہ کم از کم پاکستانی میڈیا کی حد تک حکومت اسے کسی طرح کے قانونی اور براہ راست مالی معاونت فراہم نہیں کرتی، اب رہ جاتے ہیں لے دے کر وہ ادارے جن کی مصنوعات کے اشتہارات کی آمدنی سے چینلز کو اپنے سارے خرچے پورے کرنے ہوتے ہیں ۔ یہ انھی پروگراموں کو زیادہ اشتہارات دیتے ہیں جو سنسنی پھیلانے اور نان ایشوز کو ایشوز بنا کر مکالمے کے نام پر مرغوں کی لڑائی کا اہتمام کرتے ہیں اور ایسی غیر مصدقہ مگر نزاکت کی حامل خبروں یا افواہوں پر کئی کئی گرما گرم پروگرام کرتے چلے جاتے ہیں جن کے اندر یا تو سرے سے کچھ نہیں ہوتا یا ان کا حاصل دو چار دن کے لیے لوگوں کو مزید فرسٹریٹ اور پریشان کرنا ہوتا ہے اور یوں آگ سے آگ پیدا ہوتی اور پھیلتی رہتی ہے۔

پرانے وقتوں میں مشہور تھا کہ ایک کیڑا ایسا بھی ہوتا ہے جس کا رزق آگ میں ہوتا ہے، سو آج کے زماے میں بعض اینکرز بھی اسی قسم کے گروہ سے لگتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ جس آگ پر یہ چلتے ہیں اُس کو فراہم کون کرتا ہے۔ یہاں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ اس آگ کے عناصر ترکیبی میں رینکنگ کا سسٹم، پروگراموں کی گریڈنگ، اُن کا معیار کا تعین اور انھیں دیکھنے والوں کی اس مبینہ مقدار سے کیا جاتا ہے جس کو ناپنے کا کوئی معقول اور قابلِ اعتبار طریقہ سرے سے ہمارے اس سسٹم میں موجود ہی نہیں ہے۔

اشتہار دینے والے کے سامنے اگر صرف یہ معیار رکھا جائے کہ اُس کے پروڈکٹ کس پروگرام کی سپانسر شپ کی وجہ سے زیادہ خریداروں تک پہنچے گی تو دو اور دو چار کے مطابق اُس کا فیصلہ وہی ہو گا جو کہ آج کل کیا جا رہا ہے اور جس کی وجہ سے یہ جاری زوال اور انتشار کی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے جب کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ صرف ’’مقدار‘‘ کی بنیاد پر کسی ایسے مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا جس کا تعلق ’’معیار‘‘ سے ہی ہو۔

سو اصل بات اُس سنسنی خیزی، بدتمیزی اور اخلاقی معیارات کی بے حرمتی ، ہے جن کی جمع تفریق کے بعد اینکرز پر ساری ذمے داری ڈالنے کے بجائے اُس معاشی ’’بوجھ‘‘ کو بھی بدلنے اور ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے جس کے گرد یہ سارا نظام گھومتا ہے۔ یہ معاملہ ’’بوجھ‘‘ پر تنقید کرنے کا نہیں بلکہ اپنے اپنے حصے کا بوجھ اٹھانے کا ہے سو ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تقسیم کا آغاز وہاں سے کیا جائے جہاں یہ سب عناصر اکھٹے اور یکجا ہوتے ہیں اور اس کے بعد معاشیات اور اخلاقیات کا ایک ایسا سلسلہ وضع کیا جائے جس میں نہ صرف ہر ایک کے حقوق اور فرائض اور ان کا دائرہ کار متعین ہو بلکہ ان کی حفاظت بھی ایک ایسے نظام کے سپرد ہو جس کی بنیاد صرف اور صرف انصاف اور خیر کے حصول پر ہو۔

The post ’’اپنے اپنے حصے کا بوجھ ‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2OFllzv
via IFTTT

ہائی اسکول اور اسکول فیلوز ایکسپریس اردو

چوکور کپڑے کے بنے بستے بغلوں میں دبائے میرے اکثر اسکول فیلو صبح گھروں سے نکلتے تھے۔ میں خود بھی چاروں کونوں کی گرہیں لگے کپڑے کا بستہ اُٹھائے شہر سیالکوٹ کے مشہور ڈرموں والے چوک سے امیلیا ہوٹل اور پھر ملک بُک ڈِپوکے سامنے سے تیز تیز قدم اُٹھائے تین میل دور گورنمنٹ ہائی اسکول کی طرف روانہ ہوتا۔ ان دنوں اسکول بیگ نہیں ہوتے تھے یا پھر چند امراء کے بچوں کے پاس ہوتے ہونگے۔

تیز چل کر اسکول پہنچنے کی جلدی اس لیے ہوتی کہ کلاس روم کے دروازے پر ہاتھ میں بلیک بورڈ صاف کرنیوالا لکڑی کا ڈسٹر پکڑے ماسٹر محمد بخش لیٹ آنیوالے طالبعلم کا ہاتھ پکڑ کر ایک شعر پڑھتے ہوئے دو بار ڈسٹر مارنے کی سزا دے کر اُسے کلاس روم میں Entry دیتے تھے۔

اس وقت تو ڈسٹر کی چوٹ والا ہاتھ سہلانے کے علاوہ کوئی اور بات سوچنے کی فرصت ہی نہ ہوتی آج خیال آتا ہے کہ شاید کلاس ٹیچر ہم شاگردوں سے اپنی بیگم سے ناشتے پر ہوئی ناراضی یا بے عزتی کا صبح سویرے بدلہ لیتے تھے یا کسی ذہنی بیماری میں مبتلا تھے کہ پہلے پیریڈ سے بھی پہلے شاگردوں کی مرمت کرنے کے بعد خود کو نارمل حالت میں لانے کا نسخہ استعمال کرتے تھے۔ وجہ جو بھی ہو اس وقت ڈسٹر نے بعض اساتذہ کی حیوانیت کو کیمروں میں محفوظ کر کے ان کی خصلت کو بے نقاب کر دیا ہے۔

جنہوں نے اسکولوں کو چالیس پچاس ساٹھ سال قبل چھوڑا ان کے موجودہ دنوں میں دُنیا کے سکڑنے اور لوگوں کے پر پھیلانے کی وجہ سے اسکول فیلوز بھی یوں بکھر گئے ہیں کہ ایک دوسرے سے ملنا جلنا تو دور کی بات نام اور شکلیں تک بھول گئے ہیں لیکن ہماری خوش قسمتی کہ نصف صدی بعد ہم کلاس اور اسکول فیلو اب بھی رابطے میں رہتے اور مہینے میں ایک بار چائے پر مل بیٹھتے ہیں۔ کلاس کا پیریڈ تبدیل ہونے پر استاد بھی تبدیل ہوتے یا اِدھر اُدھر ہوتے ہیں تو اس دوران کلاس کا مانیٹر انتظام سنبھالتا تھا۔

پانچویں جماعت سے دسویں تک ہمارا کلاس مانیٹر محمد سعید ہی رہا وہ قابل، محنتی اور سخت گیر اسٹوڈنٹ مانیٹر تھا جس کے ذمے کلاس میں نظم و ضبط قائم رکھنا ہوتا۔ اُستاد کی کلاس سے غیر موجودگی کے دوران وہ ایڈمنسٹریٹر بن کر شور کرنے یا اِدھر اُدھر گھومنے والے اسٹوڈنٹس کے نام نوٹ کر کے اُنہیں ٹیچر سے پٹواتا۔ لائق تو سعید تھا ہی، اسکول کے بعد اس نے گریجویشن کی پھر قانون کی ڈگری لے کر وکالت شروع کی اور ایک دن ایڈیشنل سیشن جج کے عہدے پر سیلیکٹ ہونے کے بعد ترقی پا کر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مقرر ہو گیا۔ سروس کی معیاد پُوری ہونے پر ریٹائر ہوا تو اب وہ عبادت گزار باریش مولانا سعید اپنے لائق بچوں اور اسکول فیلوز کے ساتھ وقت گزارتا ہے۔

جاوید ارشد مرزا کو اس کی قابلیت کی بنا پر نہ معلوم کیوں اور کس نے پانچویں جماعت میں ڈاکٹر کہہ کر بلایا اور پھر سب کلاس فیلو اُسے ڈاکٹر کہہ کر مخاطب کر نے لگے۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ وہ ایک دن نیو کلیئر سائنسدان بنے گا اور ڈاکٹر قدیر کے بعد 5سال تک اٹامک انرجی کمیشن کا چیئرمین رہے گا اور ڈاکٹر جاوید ارشد مرزا کہلائیگا لیکن آٹھویں کلاس کے ایک ٹیچر کو ون ورڈ سننے یا کسی دیگر معمولی غلطی پر شاگردوں کو کھڑا کرتے جانے اور جب تعداد کافی ہو جاتی تو ان سب کو ایک ایک بید ہاتھ پر رسید کرنے کا بیحد شوق تھا۔

ڈاکٹر جاوید ارشد نے بھی اس استاد سے ہاتھ پر چھڑی کھائی تھی۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے شاید ہی کوئی بچا ہو گا، ہمارا ساتھ آٹھ اسکول فیلوز کا اکٹھ ہوتا رہتا ہے، خوشی ہوتی ہے جب تین باریش بزرگ دوست نظر آتے ہیں۔ لوگ اس نیوکلیئر سائنسدان کا نام تک نہیں جانتے وجہ یہ کہ نہ وہ میڈیا پر کبھی آیا نہ اپنی تشہیر پسند کرتا ہے۔

وجہ اس کی یہ کہ وہ Genuine نیو کلیئر سائنسدان ہے اور جب میں نے اُسے سولہ سال قبل پندرہ بیس معروف شخصیات بشمول عمران خاں کو لاہور جمخانہ میں کھانے پر بلایا تو اُس نے بحیثیت چیئرمین اٹامک انرجی کمیشن کہا کہ اس کے کھانے پر آنے کی تشہیر قطعی نہ ہو۔ توقیر حسین جو کئی ممالک میں پاکستان کا سفیر رہا ، اسکول کی پانچویں کلاس میں میرے ساتھ ایک دو سیٹ والے بنچ پر بیٹھتا تھا۔ ہم نے سول سروس کے امتحان کی تیاری اکٹھے کی تھی۔ وہ فارن سروس میں سیلیکٹ ہوا تو اس کی پہلی تعیناتی کینیڈا میں ہوئی۔ موسیقی سے لگائو توقیر کو اسکول اور پھر کالج کے زمانے سے تھا۔

گزشتہ سال واشنگٹن میں اس کے گھر کھانے سے فارغ ہوئے تو وہ مجھے الگ تھلگ کمرے میں لے گیا۔ وہاں میں نے آلات ِ موسیقی بھی دیکھے اور مسحور کر دینے والی غزلیں بھی سنیں۔ وہ واشنگٹن کی ایک یونیورسٹی میں انٹر نیشنل امور پر ہفتہ میں ایک دن لیکچر دیتا، اخبار میں مضمون لکھتا اور کبھی TV پر اظہار ِ خیال کر کے خود کو مصروف رکھتا ہے۔ سلیم مرزا تعلیم سے زیادہ اسپورٹس پر توجہ دیتا تھا ۔ اسکول کے زمانے میں بھی اس کی شہرت بحیثیت کرکٹر تھی۔ کرکٹ ٹیم میں کسی کے پاس کرکٹ کا سامان تو دور کی بات گیند تک نہ تھی۔

میچ ہوتا تو کرکٹ کا سارا سامان سلیم مرزا لاتا اور وہ اکلوتا پلیئر تھا جو کرکٹر کے ڈریس میں ہوتا۔ اس نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی بہت سی دولت بھٹو صاحب کے ہم نوائوں میں لٹائی۔ سلیم علوی میرے خوش اطوار اور خوش شکل دوستوںاور ہم جماعتوں میں سے ہے جس نے انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے بعد دو ممالک میں تعلیم حاصل کی۔ ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد پاکستان واپس آ کر تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور اب تک قائم ہے۔ ڈاکٹر صوفی منیر نے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اُستاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ شفقت بخاری اورعبدل معتی بخاری ہر دو نے بینک کی ملازمت شروع کی۔

شفقت کی پوسٹنگ بیرو نِ ملک بھی رہی لیکن معتی بخاری نے پاکستان ہی میں ملازمت کی لیکن یہ ہر دو اسکول فیلو اعلیٰ ترین بینکنگ کے عہدوں پر رہے۔ ہمارا کلاس فیلو امداد اے جی آفس میں ملازمت کرتا رہا۔ یہ محنتی اور مخلص دوستوں میں شمار ہوتا ہے۔ حسام الدین اسکول اور کالج کے بعد فوج میں کمیشن لے کر ترقی کرتے ہوئے کرنل کے عہدے پر تھا جب مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعد POW  ہو گیا لیکن پھر لاہور آ کر امریکن قونصلیٹ میں اعلیٰ سیکیورٹی عہدے پر کام کرتا رہا۔

The post ہائی اسکول اور اسکول فیلوز appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2P3ggj9
via IFTTT

آئین کی بالادستی ایکسپریس اردو

28 Nov 2019  کا دن پاکستان کی تاریخ میں اپنے آپ کو کچھ اس طرح سے رقم کر چلا کہ یہ مملکت خداداد اپنی راہیں آئین کے تناظر میں یقیناً طے کرے گی۔ فرد، اداروں کے سامنے چھوٹے پڑ جائیں گے ۔

قانون سب کو ایک آنکھ سے دیکھے گا وہ چاہے محمود ہو یا پھر ایاز ۔ کتنی کہانیاں ہیں اور کتنے قصے ہیں ، ان بھول بھلیوں میں اگر یاد کرنا چاہوں تو بہت کچھ ہے ، کتنی ناانصافیاں ہیں جو انھیں عدالتوں کے کٹہروں میں ہوتی ہیں اور پھر آج کی یہ دنیا اور آج اس دنیا کی بڑی بڑی تہذیبیں ہیں، ان کے تشخص میں یہی انصاف کے تقاضے تھے اور وہ تقاضے انھوں نے آئین کے کوزے میں سما دیے ورنہ آج کی یہ جو دنیا ہے یہ دنیا نہ ہوتی جنگل کا قانون ہوتا، ہر طرف خون خرابہ ہوتا ہلاکو ہوتے چنگیز خان ہوتے تاتاریوں کی یلغارہوتی۔ ادھر نادر شاہ  ہوتا ادھر ہٹلر ہوتا۔

ہم آج تک اپنے آئین کی جنگ لڑتے رہے ، جنگ لڑتے لڑتے کبھی کبھار آئین سے دور بھی رہے، بہت طویل تھی یہ جنگ اور بہت کٹھن بھی ، کبھی نظریہ ضرورت سامنے آیا تو کبھی Article 58(2)(b) کے ذریعے نظریہ ضرورت کو آئین کے اندر سمو دیا گیا۔ پھر جو جمہوریتیں آئیں کیا وہ واقعتاً بھی جمہوریتیں تھیں ، جو بھی تھیںمگر تھیں وہ آپ کا اور میرا عکس ، جاگیرداروں کی جمہوریت گماشتے سرمایہ داروں کی جمہوریت ۔ ہمارے شرفاء واقعتاً  شرفاء نہ تھے انگریزوں کے دیے ہوئے تحفے تھے۔ ہم نے جو انگریزوں سے روایتیں لیں  جو انھوں نے ہمیں غلامی کے طوق پہنائے ہم وہیں رہے جہاں ہمیں وہ چھوڑ کرچلے گئے تھے۔

کیا فرق رہ گیا، وہ مسلمان جس سے انگریز نے ھندوستان چھینا تھا اور جاتے جاتے اسی انگریز سے کانگریس نے ھندوستان چھینا اور مسلم لیگ نے پاکستان پایا ۔ ہماری سیاسی قیادت ہمارے ہی معاشرے کا عکس تھی، پہلے دن سے ہی اتنی کمزو کہ نظریہ ضرورت کے سوائے کوئی چارہ نہ تھا اور آج 28Nov 2019  کو ہم نئی تاریخ رقم کر چلے ، ہم نئی راہیں متعین کر چلے ۔ پاکستان میں آئین کا بول بالاہو گیا یہ ملک اسی طرح سے ہی اپنے خدوخال اوراپنی راہوں کا تعین کرے گا جس طرح دنیا کی تمام ماڈرن ریاستیں کرتی ہیں ۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بھی نظریہ ضرورت کے تحت طے پایا ۔ یعنی کس قانون کے تحت چھ مہینے دیے گئے ہیں جب کہ کوئی قانون نہیں تھا نہ آئین میں کوئی ذکر تھا۔ تو پھر یہ چھ مہینے خود نظریہ ضرورت ہے ۔ ہر نظریۂ ضرورت کا ایک زماں و مکان ہوتا ہے ، context  ہوتا ہے ریفرنس ہوتا ہے ۔ ایک نظریہ ضرورت ضروری نہیں ہے کہ پہلے کی طرح منفی ہو جب دو جڑواں بچے جن کا جسم آپس میں جڑا ہوتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو دونوں ہی اللہ کو پیارے ہو جائیں گے یا پھر ان کا آپریشن کر کے کسی ایک کو بچایا جائے اور ایک کو نہیں۔ ایک کو بچانا اور ایک کو مارنا قتل ہے۔

یہ امریکی سپریم کورٹ نے کہا مگر تقاضا یہ ہے ایک قتل کیا جائے اور ایک کو بچایا جائے یہ ہے نظریۂ  ضرورت۔ اور اس طرح عدالت کے فیصلے سے ایک معصوم کا قتل ہوا اور ایک معصوم بچ بھی گیا ۔ عدالت جب چھ مہینے دے رہی تھی تو کسی کو یہ بھی سمجھنا چاہیے تھا کہ عدالت اس سے تین سال لے بھی رہی تھی اور چھ مہینے بھی کیوں دے رہی تھی وہ تو یہ کہہ رہی تھی کہ قانون بنانا یا آئین میں ترمیم کرنا عدالت کا کام نہیں یہ جس کا کام ہے وہ جا کے کرے ۔

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں

روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں

یہ جو وزارت قانون ہے وہ کیا ہے اور حکومت کیا ہے ،جب ’’درخت رات کو آکسیجن دے سکتے ہیں، جرمنی اور جاپان کی سرحدیں مل سکتی ہیں‘‘  تو ایسے نوٹیفکیشن بھی آ سکتے ہیں۔ جیسا بادشاہ ویسی حکومت ۔ لوگ کہتے ہیں کہ جنہوں نے دی انھیں کو جا کے لگی لیکن جو اصل بات کسی کو سمجھ میں نہ آئی وہ یہ ہے کہ یہ جو ہماری قوم ہے بڑی مختلف سی ہے۔ اسطرح نہیں ہے کہ پٹرول کی قیمت بڑھ جائے جس طرح ایران میں ہوا ۔  لوگوں نے جس طرح احتجاج کیا اس کی مثال ایران کے انقلاب کے بعد کہیں نہیں ملتی اور نہ ہی اس طرح کہ جب میکسیکو میں ریل کے نرخ بڑھا دیے گئے تو ہنگامہ برپا ہوگیا ، برے دن تو اردوان کے بھی شروع ہو گئے ہیں اور ساتھ ہی مودی ، پیوٹن سب کے، جنہوں نے نعرے ، وعدے ، نظریے اور حب الوطنی کو بیچا ۔

جب تین نومبر کو عدالت نے مشرف کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی کہ وہ دنیا کی تاریخ کا پہلا شب خون تھا جس میں حکومت برقرار اور عدالت کو فارغ کر دیا گیا، پھر کیا ہوا پوری قوم اس آمر سے لڑ پڑی اس کے باوجود کہ سیاسی قیادت کمزور تھی لیکن صحافیوں سے لے کر وکیلوں تک سب آمر کے خلاف ایک ہو گئے اور تب تک چین سے نہ بیٹھے جب تک آمر رخصت نہ ہوا مگر کیا قسمت پائی ہے اس قوم نے کہ آج تک اس آمر کو بچانے کے لیے تانے بانے بنے جا رہے ہیں۔ اب لوگ صرف اور صرف انصاف کی برتری دیکھنا چاہتے ہیں۔

اب جو دنیا میں تبدیلی آ رہی ہے وہ اسی تیزی سے آ رہی ہے جس تیزی سے ایک لہر آئی تھی اسی صدی کی آخری دہائیوں میں جب سویت یونین ٹوٹ گیا، رومانیا، چیکوسلواکیا اور سارا سوشلسٹ بلاک، برلن وال ٹوٹ گئی اور اب آثار یہ ہیں کہ نہ ٹرمپ بچے گا نہ کوئی اور رائٹ ونگ پاپولسٹ لیڈر ۔ چاہے کیوں نہ لیفٹ ونگ ہو جس طرح سے وینزویلا کے ہوگوشاویز ہوا کرتے تھے ۔ ایک بہت تیز لہر تبدیلی کی آ رہی ہے، یہ دنیا تبدیل ہو رہی ہے۔ اس بدلتی دنیا میں بیانیہ کے نام پر، تاریخ کے نام پر ، ثقافت اور مذہب کے نام پر یا پھر قوم پرستی کے نا م پر اب لوگوں کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ یہ عوام اب بہتر حکمرانی مانگتے ہیں، عدل و انصاف مانگتے ہیں، اسکول ، اسپتال پینے کا صاف پانی، نکاسیء آب کا نظام ، میونسپل سروسز، ٹرانسپورٹ اور روزگار مانگتے  ہیں۔

آج اگر یہ حکمراں ہیں تو کل ان کا نعم البدل نواز شریف اور زرداری ہیں ان کے پاس کیا ہے عوام کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ۔ فقط یہ ہے کہ جمہوری تسلسل برقرار رہے گا اور پھر ان کی بری حکمرانی کی ذمے داری بھی لوگ اپنے کاندھوں پر لے کر بلآخر ان کو اسی طرح رخصت کریں گے، جس طرح مودی کو ھندوستان کرے گا ، ٹرمپ کو بلآخر آمریکا ، بوسنارو کو برازیل، اردوان کو ترکی اور پیوٹن کو رشیا کریگا۔ یہ جو 28 Nov 2019  کو ہوا یہی سب کچھ اگر 28 Nov 2010  کو یا اس سے پہلے ہو تا پھر چاہے یہی جج صاحبان ہوتے اور یہی عدالت ہوتی تو کیایہ نہیں ہو سکتا تھا مگر یہ وقت وقت کی بات ہے اور اب بات یہاں تلک بھی پہنچی کہ ہمارے محترم جج صاحبان کی حب الوطنی پر بھی شک کیا گیا جو بڑی دلگیر سی بات ہے، کسی شاعر کی مانند جو آپ کہتے تھے

عشق میں غیرت جذبات نے رونے نہ دیا

ورنہ کیا بات تھی کس بات نے رونے نہ دیا

آپ کہتے تھے کہ رونے سے نہ بدلیں گے نصیب

عمر بھر آپ کی اس بات نے رونے نہ دیا

یہ وطن بیس کروڑ لوگوں کا وطن ہے ۔ بھوک  و افلاس میں رہتی اس قوم پر ہمیں اب رحم آنا چاہیے ۔ یہ ملک فرد واحد سے نہیں چل سکتا ۔ اس کو ادارے چاہیئیں ، آئین چاہیے ، آئین کی پاسداری چاہیے ۔ حقیقت بھری تاریخ چاہیے۔

اب ہمیں بند کرنے ہونگے یہ سب دھندے کہ فلاں کافر ہے یہ کافر، فلاں غدار یہ غدار۔ ہماری حب الوطنی کو کسی بھی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ۔ لوگوں سے پیار کرنا ان کے لیے تعبیریں سوچنا خواب دیکھنا اگر غداری ہے تو دے دیجیئے ایک یہ تحفے میں مجھے بھی ۔

ان کا دم ساز اپنے سواء کون ہے

شہر جاناں میں اب باصفا کون ہے

دست قاتل کے شایاں رہا کون ہے

رخت دل باندھ لو دل فگارو چلو

پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو

The post آئین کی بالادستی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/34MAk0d
via IFTTT

اماں مصدقہ… ایکسپریس اردو

’’ اماں، یہ ہیں میری وہ دوست جن کے بارے میں میںنے آپ کو بتایا تھا کہ لکھاری ہے‘‘ میںاس سے مل کر ہٹی تواس نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے ان کے سامنے کھڑا کیا، ’’ اور میری پیاری دوست، یہ ہیں اماں مصدقہ!‘‘

’’ اوہ اچھا!! ‘‘ میںنے ہولے سے کہا۔ وہ اسپتال میں داخل تھی اور اس کے پاس اماں مصدقہ ٹھہری ہوئی تھیں، وہ اس کے خاندان کی پرانی خدمتگار تھیں، اس کے بچپن سے لے کر وہ ان کے گھر میں تھیں۔ غالبا وہ اس کی والدہ کے جہیز میں آئی تھیں، پرانے وقتوں میں یہی رواج تھا۔

’’ یہ کون سی دوست ہے، وہ جو اخبار اور کتابیں لکھتی ہے؟ ‘‘ انھوں نے ناک پر عینک جما کر ، تسبیح روک کر، مجھے سر تا پا دیکھا، میں لجا سی گئی اپنے اس تعارف پر، ’’ لیکن یہ تو مجھے تمہارے جیسی ہی لگ رہی ہے؟ ‘‘ مایوسی ان کے چہرے سے عیاں تھی، وہ غالبا میرے سر پر سینگ یا کندھوں پر پر تلاش رہی تھیں۔

’’ جی میں ، ہفتے میں ایک دن ایک کالم لکھتی ہوں اخبار میں، پورا اخبار تو بہت بڑا ہوتا ہے، اتنا بڑا دماغ کہاں میرے پاس! ‘‘ میںنے انھیں وضاحت پیش کی۔ ’’ تو تم ہفتے کے باقی دن کیا کرتی ہو؟ ‘‘ ان کے سوال پر میں انھیں دیکھ کر رہ گئی۔

’’ جی اور بہت سے کام، وہ سارے کام جو عورتیں کرتی ہیں !! ‘‘’’ تو کیا تمہیں عورتوں کے کرنے کے سارے کام بھی آتے ہیں، ہانڈی روٹی اور چولہا چوکی؟ ‘‘ ان کی حیرت دیدنی تھی۔’’ جی بس کر ہی لیتی ہوں اماں جی! ‘‘ میںنے اپنی ہنسی کو دبا کر کہا۔

’’ اب کہ جب تم لکھو تو ذرا پوچھیو تو اپنے… عمران سے کہ! ‘‘ وہ رکیں اور میں مسکرا کر رہ گئی، سمجھ تو گئی تھی کہ ان کی مراد میرے دیور عمران سے نہیں ہو سکتی، لیکن اب یہ ’’ عمران‘‘، ان کا اپنا ہے یا میرا، ’’ کہ اس نے کتنے پیسے لے کر نواز کو چھوڑا ہے؟ ‘‘ …’’ آپ کے عمران نے مفت میں اپنے نواز کو چھوڑ دیا ہے اماں جی، عدالت کا حکم تھا کہ اسے مفت میں چھوڑ دیا جائے، وہ ضمانت پر ملک سے باہر گئے ہیں ! ‘‘ میںنے انھیں انھی کی زبان اور انداز میں سمجھایا۔

’’ ہائیں … وہ کیوں ، میں نے تو سنا تھا کہ بہت سارے پیسے لے کر چھوڑے گا اسے، اتنے کہ ملک سے مہنگائی کم ہو جائے گی، غریبوں کے دلدر دور ہو جائیں گے! ‘‘

’’ جی اس طرح تو نہ کوئی پیسے دیتا ہے نہ اتنی آسانی سے ان پیسوں سے غریبوں کے دلدر دور ہو سکتے ہیں! ‘‘

’’ ہمارے پنڈ کا ایک منڈا تھا… بہت بڑا چور اور ڈاکو، پکڑا گیا، کیس ثابت ہو گیا اور پھر اسے جیل بھی ہو گئی۔ نمانے کی ماں مر گئی تب بھی اسے جنازے پر نہیں آنے دیا، سال ہا سال اس کا ضعیف باپ عدالتوں اور کورٹ کچہریوںمیں پھرتا رہا۔ اس کی حرام کی کمائی کاسارا پیسہ لگ گیا اور اس کی ضمانت نہ ہو سکی اور پتا ہے جب ضمانت ہوئی تو عدالت کو علم ہوا کہ اسے تو مرے ہوئے بھی تین سال ہو گئے تھے، اس کا باپ بھی مر چکا تھا! ‘‘ …’’ اوہو… ‘‘ میںنے اسے ’’ ذرادیر ‘‘ سے ضمانت ملنے پر تاسف کا اظہار کیا، ’’ میرا خیال ہے اماں جی کہ وہ اتنا بڑا چور اور ڈاکو نہیں ہو سکتا جتنا کہ آپ کہہ رہی ہیں ! ‘‘ …’’ پتر ہم نے تو اس بار ووٹ دیتے وقت سوچا تھا کہ اسی کو ووٹ دیتے ہیں، کچھ ہمیں بچوں نے بھی مجبور کر دیا اور ہم نے مخالف کیمپوں میں بیٹھ کر بریانی کھانے والوں کو بھی حسرت سے دیکھا اور اسے ووٹ دے دیا، ہم نے تو سوچا تھا کہ غریب کے بھی دن پھر جائیں گے مگر ہم تو پہلے حالوں سے بھی گئے ہیں۔ دو وقت کی روٹی کھانا مشکل ہو گیا ہے، جس کے ہاں بال بچے اور والدین ہیں اور کمانیوالا ایک ہے، وہ تو بلک رہے ہیں ، سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ پٹرول مہنگا ہوتا ہے تو اس کیساتھ روٹی کی قیمت میں بھی ایک روپے کا اضافہ ہو جاتا ہے جیسے تنور والا پٹرول سے تنور چلاتا ہے۔ اگلے روز میںنے تنور والے سے سبب پوچھا تو کہنے لگا کہ میرے آنے جانے کے خرچے میں بھی تو اضافہ ہوا ہے اماں جی!! ‘‘ سانس لینے کو وہ رکیں، ’’ اب دیکھو نا پتر، اگر پٹرول مہنگا ہو گا تو اس سے ہر چیز کی قیمت میں فرق پڑے گا نا؟ ‘‘

’’ اس میں کچھ تو اس تنور والے کی غلط بیانی بھی ہے اماں جی، وہ ہر روز لاہور سے اسلام آباد تو نہیں آتا ہو گا، اگر وہ کہیں سے بھی آتا ہے تو بائیک پر اس کا ایک لٹر پٹرول ایک طرف کا لگتا ہو گا، روزانہ کا دو لٹر، اگر مہینے کے بعد پٹرول کی قیمت میں فی لٹر پانچ روپے کا بھی اضافہ ہو اور اسے دس روپے روز کے زیادہ دینا پڑیں تو اس دس روپے کے عوض وہ اپنی ہر روٹی پر ایک روپیہ تو نہیں بڑھا سکتا، اس کے ہاں سے ہر روز ہزاروں روٹیاں بکتی ہیں، اس پر اس کا منافع بھی ہے، اسی طرح سبزیوں اور دالوں کے دکان دار بھی ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت پیدا کر کے عوام کے لیے مشکلات کھڑی کرتے ہیں اور ہر غلط کام کا الزام ہر دور میں حکومت پر آتا رہا ہے! ‘‘

’’ تو پتر حکومت اور ہے کس لیے… اگر حکومت نے یہ نہیں کرنا کہ عام آدمی سکون سے جی سکے تو اور اس کا کیا کام ہے، ووٹ ہم دیتے ہیں تو اس لیے نا کہ ہمیں بہتر حکمران ملیں اور ہمارے دکھ درد کو سمجھیں ۔ ان کے اپنے بکھیڑے اور دکھ درد ہی ختم نہیں ہوتے۔ اگر پرانے جانے والوں کے رونے رونے کی بجائے، خود کو ان سے بہتر ثابت کرنے پر توانائیاں خرچ کی جائیں تو ہمیں علم ہو کہ کوئی ہماری داد رسی کو بھی آیا ہے! ‘‘ …’’ بس اماں جی، ہماری بد قسمتی سمجھ لیں یا ان لوگوں کی خوش قسمتی جو اس ملک کو لوٹنے کھسوٹنے کی نیت سے آج تک اس ملک پر حکمرانی کرتے رہے ہیں۔ ہم نے بھی اپنے ماضی کی کی گئی کسی غلطی کو نہیں یاد رکھا اور ہر پانچ برس کے وقفے سے یہی لوگ اپنی باری کے بعد ملک سے باہر جا کر چار پانچ سال آرام اور عیاشی کر کے لوٹ آتے ہیں اور ہم پھر ان کے ان جھوٹے وعدوں کے دام میں آ جاتے ہیں ۔ پھر ایک پلیٹ بریانی یا ہزار پانچ سوکے لفافوں کے عوض انھیں اپنے قیمتی ووٹ دے دیتے ہیں ! ‘‘ میں نے دل کے پھپھولے پھوڑے۔

’’ تو اور کس کو ووٹ دیں پتر؟ ‘‘ انھوں نے بے بسی سے کہا، ’’ اس ملک میں الیکشن کون لڑ سکتا ہے، وہ جس کے پاس پیسہ ہے، طاقت ہے، اختیار ہے اور جھوٹے وعدوں کے انبار۔ غریب آدمی، جس کے دل میں دوسرے غریب کا درد ہو گا، وہ کہاں اور کیسے الیکشن لڑے گا؟ ‘‘

’’ بس اماں جی آپ دعا ہی کریں کہ اللہ اس ملک پر، اس ملک کے عوام پر رحم فرمائے اور خواص کو ہدایت نصیب فرمائے! ‘‘ …’’ عمران کے بعد کون آئے گا پتر؟ ‘‘ انھوںنے وہ سوال پوچھا جو شایدانھیں چند سال کے بعد پوچھنا چاہیے تھا۔…

’’ انھی میں سے کوئی آئے گا اماں جی، جنھیں آج کل ہم بڑے بڑے چور اور ڈاکو کہہ رہے ہیں !‘‘ میں نے بے بسی سے کہا،…’’ تین سال بعد ہم بھول چکے ہوں گے کیونکہ ہم موجودہ حکومت سے بھی بور ہو چکے ہوں گے اور ملک میں کوئی انقلابی تبدیلی نہ آنے کے باعث ہم مجبورا انھی کو دوبارہ ووٹ دیں گے، ایک ایک پلیٹ بریانی بھی مفت میں ملے گی! ‘‘…’’ کوئی اور چارہ نہیںہے پتر… ہماری قسمت میں یہی لوگ کیوں ہیں جو ملک کو بیچ کر کھا چکے ہیں۔ کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے ہمارے پاس، کوئی اور ایسا نہیں جو ملک کو بہتری کی راہ پر گامزن کر سکے، جس کے اپنے کوئی مفادات نہ ہوں ؟ ‘‘ انھیں معلوم تھا کہ وہ عمر کے جس حصے میں ہیںکہ شاید انھیں ایسا کوئی دن دیکھنا نصیب نہیں ہو گا … شاید ہمیں بھی نہیں۔…’’ تیسرا راستہ؟ پہلے دو راستے کون سے ہیں اماں جی؟‘‘…’’ ایک تو موجودہ حکمران اور دوسرے جو اپنی باری کے منتظر بیٹھے ہیں ! ‘‘

’’ ہم… تیسرا راستہ؟؟‘‘ میں نے ان کے چہرے کو غور سے دیکھا، ’’ آپ بتائیں تیسرا راستہ؟‘‘

’’ تمہیں بھی معلوم ہے بیٹا… ہر کوئی دل میں سوچتا ہے، کہنے سے جھجکتا ہے! ‘‘ میںنے ان کی مسکراہٹ میں شرارت رقصاں دیکھی، وہ غور سے مجھے دیکھ رہی تھیں۔ ’’ تم تو اخبار لکھتی ہو، تمہیں تو علم ہو گا!! ‘‘…’’ میں اخبار نہیں لکھتی اماں جی، ہفتے میں ایک دن اخبار میں کالم لکھتی ہوں !!‘‘ میںنے پھر ان کی تصحیح کی۔…’’ تو باقی دن تم کیا کرتی ہو؟ ‘‘ انھوںنے پھر سوال کیا۔ …

’’ باقی دن… کچھ خاص نہیں ! ‘‘

’’ چلو اب باقی دنوں میں سوچنا اور پھر اس پر لکھنا کہ تیسرا راستہ کیا ہے ہمارے لیے!! ‘‘ انھوں نے کہہ کر آنکھیں موند کر تسبیح کے دانے گرانا شروع کردیے ۔

The post اماں مصدقہ… appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Y4a9zf
via IFTTT

قرآن پاک کی بے حرمتی اور عمر الیاس   (پہلا حصہ) ایکسپریس اردو

گزشتہ دنوں ناروے میں قرآن کی بے حرمتی نے دنیا بھرکے مسلمانوں کو شدید صدمے سے دوچارکیا۔ پاکستان نے ناروے میں قرآن کی بے حرمتی کے حوالے سے نارویجن سفیرکو دفتر خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج کیا۔ ملک میں مختلف شہروں میں مظاہرے بھی کیے گئے اور قرآن مجید کی حفاظت کرنے والے عمر الیاس کو اسلام کا ہیرو ٹھہرایا گیا۔

ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے ناروے میں قرآن پاک کی بے حرمتی کو روکنے والے نوجوان عمر الیاس کو بہادری اور جرأت دکھانے پر سلام پیش کیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ ’’ ایک افسوسناک اور قابل مذمت کارروائی کو روکنے کے لیے ہمت کا مظاہرہ کیا، ایسی اسلام فوبیا پر مبنی اشتعال انگیزی صرف نفرت اور انتہا پسندی کو فروغ دیتی ہے۔ تمام مذاہب قابل احترام ہیں۔ اسلام فوبیا عالمی امن اور ہم آہنگی کے لیے خطرہ ہے۔‘‘ جناب وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ اسلامو فوبیا عالمی امن کے لیے خطرہ ہے۔ مسلم ممالک کو اکٹھا ہونا ہوگا۔

اس قسم کے واقعات دوسرے مغربی ممالک میں آئے دن پیش آتے ہیں،کبھی خاکوں کے حوالے سے توکبھی نعوذ باللہ قرآنی اوراق کی توہین کرنے کے حوالے سے، وقتی طور پر امت مسلمہ غم و غصے کا اظہار کرتی ہے اور پھر بہت جلد حالات معمول پر آجاتے ہیں۔ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے سخت ترین اقدامات اور مسلمانوں کے اتحاد کی ضرورت ہے تاکہ مسلمان ایک طاقت بن کر دنیا کے سامنے آئیں۔ ایسی طاقت جس کی جھلکیاں ماضی میں نظر آتی ہیں۔ مسلمانوں کی یکجہتی اور اسلام سے عقیدت و محبت کی داستانوں سے تاریخ اسلام بھری ہوئی ہے۔

یہ وہ غیر مسلم ہیں جو نفرت، تعصب کی بیماری میں اس قدر مبتلا اور جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں، انھیں یہ بھی نہیں معلوم کہ آسمانی کتاب انجیل مقدس اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کیا پیغام ہے؟ وہ اس بات سے بھی ناواقف ہیں کہ قرآن پاک وہ واحد کتاب ہے جو صرف مسلمانوں کے لیے نازل نہیں ہوئی ہے بلکہ پوری دنیا کے انسانوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ قرآن کی پہلی ہی سورت سورۂ فاتحہ مکمل طور پر دعا اور شفا ہے۔ ترجمہ: ’’اللہ کے نام سے جو بڑا رحمن اور رحیم ہے، تعریف اللہ ہی کے لیے جو تمام کائنات کا رب ہے، رحمن اور رحیم ہے، روزِ جزا کا مالک ہے، ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں، ہمیں سیدھا راستہ دکھا ان لوگوں کا راستہ جن پر تُو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔‘‘

سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ صرف مسلمانوں سے مخاطب نہیں ہے بلکہ دنیا بھر کے انسانوں سے وہ کلام کر رہا ہے اور ان کو راہ راست پر لانے کی ترغیب دے رہا ہے۔ ترجمہ: ’’یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں، ہدایت ہے ان پرہیز گار لوگوں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں ، جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے، یعنی قرآن مجید اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں، ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں۔ جن لوگوں نے (ان باتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا) ان کے لیے یکساں ہے خواہ آپ انھیں خبردار کریں یا نہ کریں۔

بہرحال وہ ماننے والے نہیں ہیں، اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں کو مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑگیا ہے وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔ اسی سورہ میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اس بات کا احساس دلا رہا ہے کہ جو نعوذباللہ قرآن جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش میں دن رات ایک کر رہے ہیں، لیکن کامیاب آج تک نہیں ہوئے اور نہ ہوں گے، اللہ نے خود فرما دیا ہے کہ اگر تمہیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے یہ ہماری ہے یا نہیں، تو اس کے ماخذ ایک ہی سورۃ بنا لاؤ اپنے سارے ہم نواؤں کو بلا لو ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو مدد لے لو اگر تم سچے ہو تو یہ کام کرکے دکھاؤ ، لیکن اگر تم نے ایسا نہیں کیا اور یقینا کبھی نہیں کرسکتے تو ڈرو اس آگ سے، جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر جو مہیا کی گئی ہے منکرین حق کے لیے۔

آج مسلمانوں کی غیرت ایمانی زبانی جمع خرچ کی طرح ہے عمل کچھ نظر نہیں آتا۔ اپنے آپ کو مسلمان کہنا اور کہلوانا پسند کرتے ہیں لیکن قرآن کی تعلیم اور فہم القرآن سے ناواقف ہیں ، بے حد بزدل اور ڈرپوک، ملکوں، شہروں، ضلعوں اور قصبوں میں کچھ بھی ہو جائے ان کی بلا سے، ہم معمول کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں دنیا بھر کے اسلامی ممالک کے سربراہان مملکت کا بھی یہی حال ہے مسلمانوں کا ساتھ دینے کی بجائے غیروں کو دوست بناتے ہیں اور ان کی تجارت میں حصہ ڈال کر انھیں امیر ترین کرتے ہیں انگریز تو تقسیم سے قبل ہی مغلیہ سلطنت کی دولت، ہیرے، جواہرات اور کوہ نور جیسا نادر ہیرا لوٹ کر لے گئے تھے اور اب انھیں پھر موقع میسر آگیا ہے اور یہود و نصاریٰ کی چالوں اور دلفریب اداؤں کے باعث وہ انھیں فائدہ پہنچا رہے ہیں اور کفار قرآن پاک جیسی مقدس کتاب کی بے حرمتی کرنے میں بھی پیش ہیں۔

عمر الیاس جیسے غیور مسلمان اپنے مذہب سے دل و جان سے محبت کرنے اور حضرت محمدﷺ کی حرمت پر جان قربان کرنے والے بہت کم ہیں۔ مسلمان نہ کہ روزہ، نماز سے دور ہوکر رقص وموسیقی کی محفلوں میں گم ہوگئے بلکہ سیرت رسول پاکؐ وسلم کو بھی بھلا بیٹھے، علامہ اقبال نے ایسے ہی لوگوں کو شرم دلائی ہے:

مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے

یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

شور ہے، ہوگئے دنیا سے مسلماں نابود

وضع میں تم ہو نصاریٰ‘ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود

یوں تو سید بھی ہو‘ مرزا بھی ہو‘ افغان بھی ہو

تم سب ہی کچھ ہو‘ بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

اقبال کو مسلمانوں کی حالت زار نے دل گرفتہ کردیا تھا تب ہی ان کی پستی اور ان کی کوتاہیوں کو اجاگر کرنے کے لیے انھوں نے یہ نظم لکھی تھی۔ ایک جگہ جواب شکوہ میں فرماتے ہیں:

کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں

ڈھونڈنے والے کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں

جذب باہم جو نہیں‘ محفل انجم بھی نہیں

آج کی صورتحال مزید خوفناک ہوگئی ہے مقام عبرت ہے اور اپنی زندگیوں کو بدلنے کا وقت ہے۔ اجتماعی و انفرادی توبہ کی ضرورت ہے ایک طرف طرح طرح کی بیماریاں ہیں تو دوسری طرف قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کا دن دیہاڑے قتل ہو جاتا ہے۔ ایسے ایسے سانحات رونما ہو رہے ہیں کہ جنھیں سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ بے شمار معصوم بچے تشدد کے ذریعے قتل کیے جا رہے ہیں، بدکاری و فحاشی عام ہوگئی ہے ، حیا ایمان کا حصہ ہے جب حیا نہیں رہی تب ایمان جاتا رہا اور پھر کیا بچتا ہے سوائے شیطانیت کے۔

کبھی ڈینگی سے تو کبھی نگلیریا، کبھی اسپتال والوں کی غفلت، ٹی وی چینلز پر ایسی خبریں ہر روز سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں، تمام گھر والے قرآن پاک پڑھنے کی بجائے اسمارٹ فون کو نگاہوں کے سامنے رکھتے ہیں۔ اس طرح بہت سا وقت ضایع ہوجاتا ہے۔ مثبت کام رہ جاتے ہیں اور منفی سوچ جنم لیتی ہے مقابلے کی دوڑ شروع ہوجاتی ہے لیکن اسی سیل فون پر قرآن پاک کے تراجم اور بے شمار معلومات سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔ لیکن جو مزہ کتابیں پڑھنے میں اور فلاحی امور انجام دینے میں ہے وہ دوسرے ذرائع میں نہیں ملتا ہے۔

ہم قرآن پاک کے اس حد تک دعویدار ہیں کہ یہ آسمانی کتاب ہے اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمدؐ آخر الزماں پر نازل ہوئی ہے اور بس۔۔۔۔یا پھر ناظرہ کی حد تک اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔

(جاری ہے)

The post قرآن پاک کی بے حرمتی اور عمر الیاس   (پہلا حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Y48iuh
via IFTTT

معاشی فیصلوں کے اثرات ایکسپریس اردو

تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں آئے تقریباً 16ماہ ہوگئے ہیں ۔ اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کے ساتھ ہی قوم سے اپنے پہلے خطاب میں بطور وزیر اعظم عمران خان نے اپنا 100دن کا پروگرام دیا ، جس میں کئی وعدے اور کئی اصلاحات کا عزم تھا، لیکن عملی شاہراہ پر قدم رکھتے ہی اُنہیں اندازہ ہوگیا کہ وعدے کرنے میں کوئی Investment نہیں کرنی پڑتی ، اصلاحات کا سوچنے اور پروگرام کا Document تیار کرنے میں کوئی رکاوٹ آڑے نہیں آتی مگر وعدوں کی تکمیل اور اصلاحات کو نافذالعمل کرتے وقت قدم قدم پر قانونی ، آئینی اور انتظامی و معاشی پُل ِ صراط پار کرنی پڑتی ہے ، جب کہ اُن کے نتائج بھی فی الفور نہیں ہوتے ، جنھیں دکھاکر عوام کو اپنی بہتر کارکردگی، صاف و شفاف قیادت اور گڈ گورننس ہونے کے ثمرات بتائے جاسکیں ۔

کئی عشروں سے ملک کی جڑوں میں گھر کرگئی کرپشن پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ سی پیک کی مؤثر فعالیت ، کشمیر ایشو ، دیوالیہ ہونے کے قریب قومی خزانہ ، بیرونی قرضوں کا بوجھ اور اُن پر چڑھنے والے سود کی اقساط کی ادائیگی سر پر ہونے جیسے اُمور کسی بھی نئی حکومت کے اوسان خطا کرنے کے لیے کافی تھے ، اوپر سے 100دن کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے میں ناکامی نے حکومتی صفوں میں کھلبلی مچادی ۔

کئی خاص مہروں اور اہم ٹیم ارکان کی دھوبی پچھاڑ ہوئی لیکن پھر بھی حکومتی صفوں میں اطمینان پیدا نہیں ہوسکا مگر کم از کم عوام یہ سمجھ گئے کہ پہلی بار اقتدار کی مسند پر بیٹھنے کی خوشی اور جوش میںعمران خان نے یہ بڑے بڑے وعدے اور اعلانات کردیے ہیں، کیونکہ عوام کو ماضی کا تجربہ تھا ۔ وہ جانتے تھے کہ ہمارے ملکی حالات اور سیاسی انتظامی و آئینی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ سب ممکن نہیں ۔

اس لحاظ سے عوام نے رائے قائم کی کہ اس پروگرام کے کام 100دن میں نہ سہی اگر آئندہ 5سالوں میں بھی یہ پورے نہ سہی صرف اس کے نصف جتنے پورے کر پائے تو بھی ملکی اُمور پٹری پر آجائیں گے ۔ کہتے ہیں کہ رائے عامہ ہی اصلیت ہوتی ہے ۔ اس لحاظ سے اقتدار کا تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے جو غلطیاں ہوئیں ، جو قدم ڈگمگائے ، اُسے عوام نے اسی پی ٹی آئی حکومت کے پہلے موقع کے تناظر میں دیکھا اور عام رائے عمران خان کے حق میں رہی ، جوکہ عوام کا بھروسہ ہی کہا جاسکتا ہے ۔

عوام کے اُسی اعتماد کی بناء پر ہی شاید عمران خان اور اُس کی ٹیم کو نیا حوصلہ ملااور وہ ایک نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھے ۔ پھر کئی اسپیڈ بریکر اور کئی بار یو ٹرن لینے کے بعد جاکر کچھ ایسے اشارے ضرور دیکھنے میں آئے ہیں کہ جنھیں دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ بھلے ہی اب تک حکومتی کارکردگی واضح نتائج دینے میں صفر رہی ہو لیکن موجودہ حکومت نے کئی ایسے اقدامات ضرور کیے ہیں جو دور رس نتائج کے حامل ہیں ۔

جیسے گرین پاکستان اسکیم ۔ جس کے تحت ابتدائی طور پر 19 پائلٹ شہروں میں ’’میرا شہر ، میری ذمے داری ‘‘ کے تحت ٹھوس فضلے ، مائع فضلے کا انتظام ، صحت و صفائی ، حفظان ِ صحت اور شہری ہریالی جیسے بنیادی اُمور کو شامل کیا گیا ہے ۔جب کہ حکومت نے عالمی بینک کے ساتھ ایک MoUپر دستخط کیے ہیں کہ عالمی بینک پاکستان کو 787ملین ڈالر قرضہ فراہم کرے گا جو کہ شہروں میں ماس ٹرانزٹ ، پانی کی فراہمی و نکاسی کے نظام کو بہتر بنانے میں معاون ہوگا ۔ کیونکہ ماحولیاتی آلودگی ہمارے ملک کا ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے ۔

کراچی اس وقت دنیا کے گندے ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے تو لاہور بھی دنیا کا دوسرا یا تیسرا گندہ ترین شہر بن گیا ہے ۔ جہاں اسموگ آلودگی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ لوگوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں ۔ اس کے لیے وزیر اعظم کی جانب سے ’’کلین اینڈ گرین پاکستان انڈیکس ‘‘ منصوبے کا افتتاح اور اس میں تقابلی ماحول کو اُجاگر کرنا ایک بہترین ، بروقت اور مؤثر قدم ہے لیکن اس پر مکمل عمل کے مراحل کامیابی سے پار کرنا ہی ہماری آئندہ نسلوں کے لیے روشن و صاف ستھرے اور صحت مند پاکستان کی ضانت ہو گا ، ورنہ کہیں تباہ کن انسانی المیہ ہی ہمارا مقدر نہ بن  جائے ۔ ہمارے یہاں یہی ہوتا آیا ہے کہ پالیسیاں تو بے شمار بنا دی جاتی ہیں مگر ان پر من و عن عمل درآمد نہیں ہوتا اوراس کے لیے مختص فنڈکا بڑا حصہ بھی ہڑپ ہو جاتا ہے۔

ماضی میںملک میں جتنے بجٹ پیش ہوئے وہ یا تو کسان دوست کہلائے یا تاجر دوست اور کوئی صنعتکار دوست کہلائے تو کبھی ایک آدھ عوام دوست بھی کہلائے لیکن حکومت کا اس سال کا بجٹ ایسا ہے کہ سوائے حکومت اور حکومتی نمائندوں کے کوئی بھی اس سے خوش نہیں ۔ اس لحاظ سے اس بجٹ کو صرف حکومت دوست کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ اس بجٹ میں ٹیکس ریفارمز اور Indirectٹیکسز کے باعث ملک میں عوام سے کسانوں تک ، تاجروں اور صنعتکاروں سے ٹرانسپورٹرز اور خدمات فراہم کنندگان تک تمام حلقے پریشان دکھائی دے رہے ہیں ۔ عوام کی تو خیر اس ملک میں کبھی سنی نہیں گئی لیکن اس مرتبہ تقریباً ہر شعبہ کی جانب سے احتجاج کیا گیا لیکن حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی۔

آج جب ملکی مالیاتی اداروں اور عالمی اداروں کی جانب سے پاکستان کی معیشت میں استحکام کے مثبت اشارے ملنے کی خبریں گردش کررہی ہیں تو اس کو حکومت اپنے اس سخت گیر رویے اور اپنی پالیسی پرسختی سے ثابت قدم رہنے کی وجہ سے ممکن ہونا بتاتی ہے ۔ یہ بات کس قدر حقیقت ہے یہ جاننے کے لیے آئیے رواں مالیاتی سال کے پہلے چار مہینوں کے دوران حکومت کی کارکردگی پر نظر ڈالتے ہیں۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے اپنی تین گزشتہ رپورٹس میں معاشی ابتری کی دکھائی گئی صورتحال کے بعد رواں ماہ کے شروعاتی دنوں میں جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے اور ایف بی آر کی جانب سے بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان ٹیکس ریفارمز اور حکومت کے سخت اقدامات کی وجہ سے ملکی خزانے میں580 ارب روپے جمع ہوئے ہیں ، جس سے قومی سرمایہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے ۔

لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ صرف وقتی پکڑ دھکڑ کے ذریعے عارضی فائدہ ہے جب کہ ملک کی مجموعی معیشت کے دیرپا استحکام کی راہ میں ناکامی کہ وجہ سے پبلک سیکٹر کارپوریشنز میں نقصانات ، برآمدی ڈھانچے میں خامیاں ، پیداواری سیکٹر میں جمود کے ساتھ ساتھ حکومت کرنے میں مشکلات اور جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے ۔ اس لیے حکومت جس اقتصادی بہتری کے دعوے کررہی ہے اس میں پائیداری نظر نہیں آتی، کیونکہ ایک طرف معیشت پھیل رہی ہے تو دوسری طرف عوام کی زندگی کا معیار پست سے پست تر ہوتا جارہا ہے ۔ ملک میں خود کشیوں کے واقعات میںبے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے ۔

غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک میں غربت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور حکومت کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ اقتصادی ترقی سے غربت از خود کم ہوجائے گی ۔ ماضی میں ایوب خان حکومت نے بھی یہی غلطی کی تھی جو کہ حکومت کی عارضی کامیابی کے بعد عوام کے احتجاجاً روڈوں پر آجانے سے ملک انتشار کا باعث بن کر دو لخت ہوگیا تھا ۔ اس لیے حکومت کو اس تناظر میں کئی ایسے اقدامات کی شدید ضرورت ہے جس سے یہ عارضی معاشی کامیابی دیرپا استحکام میں تبدیل ہوسکے ۔ اس لیے حکومت کو عوام کے پست سے پست تر ہوتے معیار ِ زندگی پر بھی توجہ دینی چاہیے ۔

اشیائے خورد و نوش خصوصاً آٹا ، چینی ، سبزیاں ، پھلوںاور پیٹرول ، گیس و بجلی کی قیمتوں میں آئے روز اضافے کو بریک لگاکر عوام کو یہ بنیادی چیزیں و سہولیات سستے داموں پر فراہمی کے بندوبست پر خصوصی اقدامات کرنے ہوں گے کیونکہ کسی بھی ملک کے معاشی ، سیاسی و سماجی استحکام کا دارومدار ہی عوام کو سہولیات کی فراہمی اور خوشحالی سے جڑا ہوتا ہے ، اور اگر کوئی حکومت یا حکومتی نظام عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی،لوگوں کی فلاح و بہبود اور انفرادی ترقی میں ناکام رہے تو پھر حکومت اور حکومتی نظام کس کام کے ؟ مگر حکومت کو شاید اس کا ادراک نہیں ہے کہ مہنگائی ایسی بلا ہے جو عوام کاتو جینا جنجال بناہی دیتی ہے لیکن ساتھ ہی حکومت اور حکومتی نظام کی بنیادوں کو بھی ہلادیتی ہے ۔ جس کی تازہ مثال اس وقت ایران اور لبنان ہیں ۔

دیکھا جائے تو اس وقت پاکستان میں عوامی سہولیات بالخصوص صحت کی صورتحال انتہائی گمبھیر ہے ۔ ملک میں 936لوگوں پر صرف ایک ڈاکٹر اور اسپتالوں میں 1600آبادی پر ایک بستر دستیاب ہے ، 5برس کے کم عمر بچوں کی شرح اموات ایک ہزار آبادی پر 74اور ملک میں مجموعی طور پر موت کی شرح میں 62فیصد بچوں کی ہے ۔ 1000پیدا ہونے والے بچوں میں سے 178بچے زچگی کے دوران وفات پاجاتے ہیں ۔ صحت کے شعبے پر مجموعی پیداوار کا 0.97 فیصد ہی خرچ ہوتا ہے ۔ ملک میں رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد صرف 2لاکھ بیس ہزار ہے ۔

ہم اپنی نسلوں کو غیر صحت مند ، غذائی قلت اور وبائی و موذی امراض ورثے میں دے رہے ہیں ۔ صحت کار ڈ جاری کیے گئے ہیں لیکن تھر جیسے آفت زدہ علاقے میں بھی صحت کارڈ کارگر اور کارآمد نہیں ہوپارہے ، جہاں گزشتہ 11ماہ میں 780بچے موت کا شکار بن چکے ہیں ۔ اس لیے حکومت کو اس ضمن میں بھرپور اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ عوام نے جو عمران خان کی قیادت پر اعتماد کیا ہے وہ بحال رہ سکے ۔ ویسے بھی عوام نے یہ اعتماد اس لیے کیا ہے کہ ملکی مسائل کے حل کے لیے مطلوبہ قیادتی قوت ِ ارادی کی نایاب ہوتی جھلک بڑے عرصے بعد عوام کو عمران خان میں نظر آگئی ۔

عمران خان کی قیادت میں وفاقی حکومت کی کوششوں کی بدولت یو اے ای میں خصوصی افراد کے لیے پہلے ایکسپیبلٹی ایکسپو کا انعقاد ہوا۔ جس میں پاکستانی پلیٹ فارم پہلے 10میں شامل تھا ۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے لیے 30ارب اضافی مختص کیے گئے ہیں ۔ جاری قرضہ جات کے مسائل کے حل کے لیے حکومت نے 250 ارب روپے اضافی رکھے ، جس کے نتیجے میں مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی ۔ احساس پروگرام ، ای ویزہ پالیسی کے تحت دنیا کے لیے پاکستان کے دروازے کھول دیے ، جوکہ کاروبار اور سیاحت کے فروغ کا سبب بن رہا ہے ۔

کرتارپور راہداری کی فوری اور تیز ترین تعمیرسے جہاں خطے میں پون صدی سے جاری مذہبی منافرت کے خاتمے اور ہم آہنگی بڑھانے میں مدد ملی ہے ، وہیں ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی اُمید پیدا ہوئی ہے جب کہ اس سے کروڑوں سکھ یاتریوں کے آنے سے مقامی سطح پر متوسط کاروباری طبقے کو فائدہ پہنچ رہا ہے ۔ عوام کے اس اعتماد قائم کرنے میں وزیر اعظم سٹیزن پورٹل نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے ، جہاں 15مہینوں کے مختصر عرصے میں ملک بھر سے مجموعی طور پر تقریباً 10لاکھ لوگوں نے رابطہ کیا اور اُن کے مسائل پر فوری کارروائی عمل میں آئی ، جس پر 40%لوگوں نے اطمینان کا اظہار بھی کیا ہے ۔

اسٹیٹ بینک کی جاری کردہ اس رپورٹ میں معیشت میں بہتری کے جو اشارے دکھائے گئے ہیں وہ بھی حکومت کی معاشی پالیسیوں کے درست سمت میں ہونے کو تسلیم کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 4مہینوں (جولائی تا اکتوبر ) کے دوران بیرونی براہ راست تجارت میں 238فیصد اضافے کیساتھ 650ملین ڈالر کا کاروبار ہوا ہے ۔جوکہ گزشتہ برس اکتوبر میں صرف 191.9ملین ڈالر تھا ۔ اسی طرح چار سال کے بعد جاری کھاتے ماہانہ 99ملین ڈالرز سے سرپلس رہے ہیں ۔ جس سے واضح نظر آرہا ہے کہ مالی سال کے پہلے چار ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 73.5 فیصد کم ہوا ہے۔ جب کہ عام اشیائے صرف اور خدمات کی برآمدگی میں 9.6%اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔

ایکسچینج ریٹ کو مستحکم رکھ کر درآمد پر سبسڈی اور برآمدات پر ٹیکس لاگو کرنا بھی مجموعی طور پر معاشی استحکام کی طرف پیش قدمی کا واضح اشارہ ہے ۔ اسٹیٹ بینک کے بقول اُن کے پاس غیر قرضہ جات زرمبادلہ کے ذخائر میں 1117ملین ڈالرز کا اضافہ ہوا ہے ، جس سے روپے کی گرتی ہوئی قدر کو بریک لگ گئے ہیں اور اب اس کی قدر میں بہتری کے اشارے بھی مل رہے ہیں ۔جوکہ ایک اچھا اور نیک شگون ہے کیونکہ جب روپے کی قدر گرتی ہے تو مہنگائی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے ۔

رپورٹ میں ٹیکس وصولیوں میں اضافہ ظاہر ہونے پر وزیر اعظم FBRکو مبارکباد دیتے نظر آئے، ملک میں ٹیکس ادا کنندگان کی تعداد پہلے 19لاکھ تھی جو کہ حکومتی پالیسیوں سے بڑھ کر 25لاکھ ہوگئی ہے ۔جب کہ رپورٹ میں یہ بھی دکھا یا گیا ہے کہ موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران کل غیر ملکی قرض ادائیگی میں 25%اضافہ ہوا ہے ۔

رپورٹ کے مطابق حکومتی پالیسیوں کی بدولت آج پاکستان پہلی بار جرمنی اور روس جیسی دنیا کی مستحکم معیشتوں کے شانہ بہ شانہ کھڑا نظر آرہا ہے ۔ بس اب اس کامیابی کو برقرار رکھنے اور عوام کے لیے فائدہ مند بنانے کے لیے بھی حکومت ایسے اقدامات کرے جس سے یہ معاشی بہتری کے اشارے مکمل طور پر معیشت کے استحکام کا باعث بن جائیں ، تاکہ ہم بطور قوم طویل عرصہ سے ہاتھوں میں تھامے کشکول کو توڑ نے اور اقوام ِ متحدہ میں برابری اور توقیر کے ساتھ سر اُٹھاکر اقوام ِ عالم کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوسکیں !

The post معاشی فیصلوں کے اثرات appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Y11YUz
via IFTTT

اسلام سے نفرت کیوں؟ ایکسپریس اردو

ابو بکر بغدادی کے مارے جانے کے بعدکیا اب یہ سمجھ لیا جائے کہ دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوگیا ہے؟ ہونا تو ایسا ہی چاہیے اس لیے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کے مارے جانے کے واقعے کی اس انداز سے تشہیر کی تھی جیسے انھوں نے نہ صرف ایک بڑی عالمی دہشت گرد کو ہلاک کردیا ہے بلکہ دنیا بھر سے دہشت گردی کا صفایا کر دیا ہے۔

اگر واقعی ایسا ہے تو پھر افغانستان اور شام میں اب بھی داعش کے دہشت گرد کیوں موجود ہیں۔ وہ افغانستان میں طالبان کے خلاف امریکی فوجوں کی کیوں مدد کر رہے ہیں اور شام میں شامی باغیوں کے ساتھ مل کر شامی حکومت کے خلاف کیوں برسر پیکار ہیں۔ تاہم امر واقعہ یہ ہے کہ اب کوئی مغربی ممالک کے جھانسے میں آنے والا نہیں ہے۔

دراصل مغرب کی سازشوں سے عالمی ضمیر بیدار ہوچکا ہے۔ لوگ اب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ مغربی ممالک خصوصاً امریکا اپنے مفاد اور بالادستی کے لیے خود دہشت گرد پیدا کرتا ہے اور جب ان سے کام نکل جاتا ہے تو انھیں خود ہی ختم کرکے دنیا بھر سے داد و تحسین وصول کرنے لگتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بغدادی سے پہلے اسامہ بن لادن کوکس نے دہشت گرد بنایا۔

یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب شاید امریکی حکومت گول کرجائے مگر پوری دنیا پر آشکار ہوچکا ہے کہ یہ امریکا تھا جس نے افغانستان سے روس کو نکالنے کے لیے اسامہ بن لادن اور دیگر مسلم نوجوانوں کو افغانستان میں جمع کرکے انھیں باقاعدہ دہشت گردی کی تربیت دی گئی، اس معرکے میں پاکستانی نوجوانوں کو بھی استعمال کیا گیا اور ان سب کی مدد سے روس کو افغانستان سے کھدیڑ دیا گیا۔ مگر اس کے بعد امریکا نے ان نوجوانوں سے آنکھیں پھیر لیں اور انھیں ہی دہشت گرد قرار دے دیا۔

اسامہ بن لادن نے امریکی بے رخی کے بدلے میں اسے نقصان پہنچانے کی کوششیں شروع کردیں لیکن ایسا کرنے کی چھوٹ بھی دی گئی تاکہ اسے عالمی طور پر بدنام کیا جائے اور پھر دہشت گردی سے نجات پانے کے نام پر اس کا اس کے ساتھیوں سمیت شکار کیا جاسکے ساتھ ہی دہشت گردی کو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔ القاعدہ کا اصل محرک امریکا ہی تھا اس تنظیم کے ذریعے اصل نقصان مسلمانوں کو پہنچا ان کی ساکھ پر سخت ضرب لگائی گئی۔

آخر یہ کیا تماشا ہے کہ کبھی اسامہ بن لادن تو کبھی ابو بکر البغدادی اور اب شاید کسی اور مسلم نوجوان کو دہشت گردی کے میدان میں اتار دیا جائے۔ اس سارے مغربی گھناؤنے کھیل کے پس پشت دراصل مسلمانوں سے پرانا انتقام لینے کی بو آرہی ہے۔ اسامہ ہو یا بغدادی وہ امریکی مفادات کی بھینٹ بھی چڑھ گئے اور ساتھ ہی مغربی سازشی منصوبے کے تحت مسلمانوں کی بدنامی کا باعث بھی بن گئے۔

اسامہ بن لادن کی مغرب کے خلاف کارروائیوں کو مغربی ممالک نے اسلام سے جوڑ کر اسلامی دہشت گردی کی نئی متعصبانہ اصطلاح ایجاد کی اور اب اس اصطلاح کو مغربی میڈیا نے اتنا پکا رنگ دے دیا ہے کہ مسلمان ممالک کے اعتراض کے باوجود بھی اسے جاری رکھا گیا ہے اور شاید اسے آگے بھی جاری رکھا جائے، اس لیے کہ اس کے ذریعے اسلام کو نشانہ بنانا اصل مقصد ہے۔ جو ان کی آنکھوں میں بری طرح کھٹک رہا ہے، شاید اس لیے کہ اسلام دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے خود امریکا اور یورپ جیسے گھناؤنے معاشروں سے بدظن ہوکر وہاں کے لوگ جوق درجوق اسلام قبول کر رہے ہیں ایک تو روزبروز مغربی ممالک کی آبادی سکڑ رہی ہے دوسرے یہ کہ اسلام ان ممالک میں اپنی جگہ بناتا چلا جا رہا ہے، چنانچہ انھیں خدشہ ہے کہ مستقبل میں اسلام یورپ کا سب سے بڑا مذہب نہ بن جائے ، ایک منظم منصوبے کے تحت یورپی ممالک میں مسلمانوں کو تنگ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ کہیں داڑھی رکھنے پر توکہیں نماز ادا کرنے پر پابندی عائد ہے۔

مسلم خواتین تک کو نہیں بخشا گیا ہے وہ برقعہ تو کیا اسکارف تک نہیں پہن سکتیں۔ کبھی مردوں کو داڑھی رکھنے پر تو خواتین کو اسکارف استعمال کرنے پر نوکریوں سے نکال دیا جاتا ہے۔ انھی ممالک میں پیغمبر اسلامؐ کے خاکے بنانے کے بعد اب قرآن پاک کو جلانے کی بھونڈی کوشش کی گئی ہے۔ یہی ممالک مسلمانوں کے حقوق، جائز مطالبات اور ان کی سرزمین کو قابض اقوام سے خالی کرانے کے سلسلے میں مسلسل ناانصافی اور ہٹ دھرمی کا کھلا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

فلسطین اورکشمیر پرگزشتہ ستر برس سے اسرائیل اور بھارت قابض ہیں۔ حالانکہ فلسطینیوں اورکشمیریوں کو اقوام متحدہ نے حق خود اختیاری تفویض کیا ہے مگر دونوں ہی جابر ممالک اقوام متحدہ کی قراردادوں کو اپنے پیروں تلے روند رہے ہیں۔ شاید وہ ایسا کبھی نہ کر پاتے اگر مغربی ممالک کی انھیں آشیرباد حاصل نہ ہوتی۔ اقوام متحدہ دراصل مغربی ممالک کے اشاروں پر ہی چل رہی ہے۔ اسے وہی فیصلہ کرنا پڑتا ہے جو یہ ممالک چاہتے ہیں۔ ان ممالک کے پاس ویٹو پاور ہے۔ یہ دولت مند ہیں اور عسکری طور پر مضبوط ہیں۔ ان کی بے رخی اور ناانصافی مسلم ممالک کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔ اب تک کسی امریکی صدر نے کھل کر مسلمانوں کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا تھا مگر صدر ٹرمپ نے تو باقاعدہ مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔

اقوام متحدہ نے بیت المقدس کو فلسطین کا دارالخلافہ تسلیم کیا ہے مگر ٹرمپ نے اسے اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرلیا ہے۔ سپر پاور امریکا کی جانب سے فلسطینیوں کی داد رسی کرنے کے بجائے جارح اور قاتل اسرائیل کی ہمت افزائی کی جا رہی ہے۔ حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی غیر قانونی بستیاں بسانے کو جائز قرار دیا ہے جس سے لگتا ہے کہ اب دنیا میں جنگل کا قانون نافذ ہوچکا ہے۔

ادھر کشمیری تین ماہ سے مسلسل بھارتی حراست میں ہیں مگر امریکا خاموش ہے جب کہ ایران میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں پر فوری ردعمل ظاہرکیا گیا ہے۔ اب بھارت نے کشمیر کو مکمل طور پر اپنے چنگل میں لے لیا ہے اور اس سلسلے میں ایک خود ساختہ نقشہ بھی جاری کیا گیا ہے جس میں کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ اس کا یہ عمل سراسر سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے اس خلاف ورزی کے خلاف اقوام متحدہ کی طرف سے بھارت پر پابندیاں لگنا چاہیے تھیں اور امریکا کو بھی بھارت کے خلاف اقدامات لینا چاہیے تھے لیکن ظالم نیتن یاہو کی طرح مودی کی بھی ہمت افزائی ہو رہی ہے۔

امریکا اور ان کے مغربی ساتھیوں کی مسلمانوں کے ساتھ یہ زیادتیاں ان کے مسلمانوں سے تعصب کی واضح عکاس ہیں۔ محض اسرائیل کی بقا کی خاطر مغربی ممالک عراق، لیبیا، صومالیہ اور شام کو پہلے ہی تباہ و برباد کرچکے ہیں اور اب ایران کی باری ہے مگر ایران پر ہاتھ ڈالنے کی انھیں اس لیے جرأت نہیں ہو پا رہی ہے کیونکہ وہ فوجی طور پر ایک مضبوط ملک ہے چنانچہ وہ اس پر نئی نئی معاشی پابندیاں عائد کرکے اسے پریشان کر رہے ہیں ساتھ ہی سعودی عرب اور ایران کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرکے ان دونوں ممالک کو جنگ میں الجھانے کی کوششیں جاری ہیں۔

مسلم امہ کو باہم جنگ وجدل سے بچانے اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان کا کردار ہمیشہ شاندار رہا ہے مگر پاکستان کی مسلم امہ کو متحد رکھنے کی یہی کوششیں مغربی ممالک کو کھٹکتی رہی ہیں اور اسی لیے وہ پاکستان کے خلاف سازشیں اور بھارت کی طرف داری کر رہے ہیں تاہم پاکستان شروع دن سے ان کی سازشوں کا مقابلہ کر رہا ہے بلکہ انھیں ناکام بنا رہا ہے۔

اب جہاں تک ابو بکر بغدادی اور اسامہ بن لادن کا تعلق ہے مغربی ممالک نے ان کا جو حشرکیا ہے اس سے سبق لیتے ہوئے آیندہ کسی مسلم نوجوان کو مغرب کے جھانسے میں نہیں آنا چاہیے اور اب وقت آگیا ہے کہ تمام مسلم ممالک کو اپنی مصلحت آمیزی کو بالائے طاق رکھ کر مغرب کی اسلامو فوبیا مہم کے خلاف کھل کر میدان میں اترنا چاہیے اور ناروے میں سرکاری سرپرستی میں ہونے والی قرآن کریم کی بے حرمتی کے خلاف سخت احتجاج ریکارڈ کرانا چاہیے۔

The post اسلام سے نفرت کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/35ODccU
via IFTTT

طلبا یونین کی بحالی ایکسپریس اردو

پاکستان کی ترقی اور خوشحالی اور استحکام کا بنیادی تقاضا ہے کہ عوام کو خوشحال بنایا جائے انھیں تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا جائے اوربااختیار بنایا جائے۔ ہر بالغ شہری کو سیاست میں حصہ لینے کا حق ہے چاہے وہ طالبعلم ہو یا نہ ہو۔

امریکا اور مغربی جمہوری ممالک قانون کی بالادستی کے ساتھ اپنے نظام کو خوش اسلوبی سے چلارہے ہیں وہاں سیاسی نظام مستحکم ہے۔ اس کی اہم ترین وجہ ان کا نظم و ضبط بھی ہے۔ پہلے مرحلے میں ٹریفک کے قوانین اس میں کردار ادا کرتے ہیں۔ ہر گاڑی قطار میں دو لکیروں کے درمیان چلتی ہے۔ پیدل چلنے والے بھی قوانین کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ تربیت انھیں اسکولوں میں ملی ہے۔ بڑے بڑے مظاہرے جلسے جلوس میں بھی ٹریفک جاری ساری رہتا ہے۔

سڑکوں کو تقسیم کرکے ایک حصہ جلوس یامظاہرے کے لیے رکھا جاتا ہے یا متبادل راستے پہلے سے طے کیئے جاتے ہیں۔ اس طرح ملکی معیشت اور کاروبار زندگی کی روانی میں رکاوٹ نہیں ہوتی۔ جمہوری آزادی کے ساتھ اس بات کا خیال رکھا گیا ہے ہر شہری کی نقل و حرکت اور دیگر حقوق متاثر نہ ہوں۔ تعلیمی اداروں میں طلبا کو یونین بنانے کا اختیار ہے لیکن وہ مخصوص قوانین کے تحت آزادانہ کام کرتی ہے۔ پاکستان میں طلبا یونین پر1984 میں پابندی عائد کردی گئی تھی۔

پابندی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس وقت کی مارشل لاء حکومت طلبا یونین کو اپنے لیے خطرہ تصور کررہی تھی۔ بعدازاں مختلف سیاسی حکومتیں طلبا یونین کی بحالی سے متفق ہونے کے باوجود دیگر مسائل میں الجھنے اور بعض مصلحتوں کی وجہ سے طلبا یونین کی بحالی میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ طلبہ و طالبات میں ایک مرتبہ پھر سے اس تحریک کا آغاز ہوا ہے۔ ملک بھر کے طلبہ و طالبات متحد ہورہے ہیں۔

حکومت کو طلبا کی اس تحریک کو مثبت تصور کرتے ہوئے تحریکی نمائندوں سے رابطے کا آغاز کرنا چاہیے۔ ان کے مطالبات پر توجہ دینی چاہیے۔ حکومت کے یہ خدشات کہ طلبا یونین کی بحالی سے تشدد کا امکان ہے یا طلبا کی تعلیمی صلاحیتوں پر منفی اثرات ہوں گے تعلیمی اداروں کی کارکردگی متاثر ہوگی سب فرسودہ تصورات ہیں۔ معاشرے آزادی اور قانون کی حکمرانی اور نظم و ضبط سے آگے بڑھتے ہیں۔

طلبا یونین کی بحالی کے لیے حکومت اپنے تمام خدشات اور تحفظات کو سامنے رکھ کر ایسے قوانین وضع کرسکتی ہے جس سے طلبا کی تعلیمی سرگرمیوں اور امن و امان کی صورتحال پر کوئی منفی اثر نہ ہو بلکہ اس میں مزید بہتری آئے۔ تعلیمی اداروں میں مشیر طلبا کے شعبے میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ سیاسی عمل میں کسی حل کے لیے بات چیت کا آغاز ہی سب سے بہتر طریق کار ہے۔

طلبا یونین سے طالب علموں کی بہتر نشوونما ہوتی ہے۔ وہ انتخابی عمل کو سمجھتے ہیں بحث و مباحثے کے ذریعے ان کی فکری صلاحیتوں کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ انتظامی کارکردگی میں انھیں سیکھنے کو ملتا ہے۔ نوجوان نسل میں بہت زیادہ صلاحیتیں ہیں۔ ان کی سوچ مثبت ہے۔ نوجوان نسل بدعنوانی کے اثرات سے دور ہے۔ اب یہ حکومت پر منحصر ہوگا کہ وہ کس طرح طلبہ و طالبات کو مناسب مواقع فراہم کرے۔ طلبا یونین کی بحالی کے لیے پاکستان کے پچاس شہروں میں طلبا ایکشن کمیٹی کی جانب سے مظاہروں کا اہتمام کیا گیا۔ ان مظاہروں کو طلبا یکجہتی مارچ کا نام دیا گیا۔

یونین کے انتخابات کے علاوہ طلبا ایکشن کمیٹی کی جانب سے جو مطالبات پیش کیئے گئے ان میں تعلیمی اداروں کی نجکاری کا خاتمہ، فیسوں میں اضافے کی واپسی، مفت تعلیم، تعلیمی اداروں میں حلف نامے کا خاتمہ، جنسی ہراسانی کا خاتمہ، ایچ ای سی کے بجٹ کی کٹوتی کی واپسی، مفت ہاسٹل، مفت ٹرانسپورٹ کی فراہمی، طبقاتی تعلیمی نظام کا خاتمہ، ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی کا قیام، فارغ التحصیل طلبا کے لیے روزگار، بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے وظیفہ، سیکیورٹی اداروں کی مداخلت کا خاتمہ، قوم، مذہب، زبان اور صنف کی بنیاد پر طلبا کے ساتھ تعصب اور ہراسانی کو بند کرنا۔

اسلام آباد میں دوردراز علاقوں سے آنے والے طلبا کو ہاسٹل کی فراہمی یقینی بنانے اور پرائیویٹ ہاسٹلز کو بند نہ کرنے کے مطالبات شامل ہیں۔ طلبا کی اس تحریک کے مرکزی رہنمائوں کو اس بات کا اندازہ ہے کہ یہ مسئلہ فوری طور پر حل نہیں ہوگا۔ اگر وہ اپنے مقاصد کو محدود رکھ کر دیگر سیاسی قوتوں بشمول برسراقتدار سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی اشتراک ِ عمل اور مذاکرات کے ذریعے کسی متفقہ حل کے لیے کوشش کریں تو کامیابی کی راہ نکل سکتی ہے۔

ملک میں مجموعی طور سیاسی کشیدگی اور محاذآرائی کی فضا ہے اگر طلبا کی تحریک اس کے زیراثر آگئی تو اس تحریک پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ قومی اور صوبائی حکومتوں کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ موجودہ دور میں جمہوریت کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی عمل میں نوجوان نسل کی شرکت سے جمہوریت کو فروغ حاصل ہوگا۔ امریکا اور مغربی ممالک کی نقل کرنے کے بجائے ان کی ترقی، آزاد ی اور خودمختاری سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔

وہاں کے تعلیمی نظام، سیاسی نظام اور نظم و ضبط کا بغور جائزہ لینا اس کا مطالعہ کرنا اپنے نوجوانوں کو وہاں کے بہترین تعلیمی اداروں میں بھیج کر انھیں جدید تعلیم سو تربیت سے آراستہ کرنا بعد میں ان کی تربیت کرنا انھیں ملک میں ایسا ماحول مہیا کرنا جس میں وہ اپنے علم و تجربے کے ذریعے ملک کی فلاح و بہبود میں اہم کردار ادا کرسکیں۔ اسی صورت میں ہم ملک میں معیاری تعلیم و تربیت اور تحقیق کا ماحول تیار کرسکیں گے۔ طلبا پر بے جا پابندیاں لگا کر انھیں مثبت سرگرمیوں سے روکنا معاشرے کی ترقی و نشوونما کے لیے نقصان کا باعث بن رہا ہے۔

1884میں برطانیہ میں طلبا کی یونین کا آغاز ہوا تھا۔ اس وقت طلبا یونین کی سرگرمیوں میں مختلف قسم کی تقریبات کا انعقاد، سماجی سرگرمیاں، نصابی و ہم نصابی سرگرمیاں شامل تھیں۔ رفتہ رفتہ سیاسی آزادیوں کے ساتھ طلبا یونیوں کا کردار بھی بڑھتا گیا اور طلبا یونین ایک ایسا ادارہ بن گئی جہاں سے آئندہ کی قیادت بھی تیار ہوئی۔ امریکا کی بے شمار جامعات میں طلبا حکومت کا شعبہ ہے جس کی ایک علیحدہ عمارت ہوتی ہے وہاں طلبا کو ہر طرح کی رہنمائی اور سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ اس کا باقاعدہ تنخواہ دار عملہ بھی ہوتا ہے۔

آج کے جدید دور میں مختلف ممالک کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔ ٹیکنالوجی، علم اور تحقیق میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے ہرممکن کوشش ہورہی ہے۔ نوجوان نسل کو مناسب سہولت، آزادی، تعلیم، تحقیق، نظم و ضبظ اور بہتر تربیت سے آراستہ کرنا ہوگا تاکہ وہ اس تیز رفتار بدلتی دنیا میں موثر کردارا دا کرسکیں۔ طلبا یونین کی بحالی بھی اس عمل کا ایک حصہ ہے جس سے طلبا میں مزید اعتماد پیدا ہوگا وہ زیادہ خودمختار ہوں گے۔ متحد ہوکر نظم و ضبط کے ساتھ اپنے مسائل کے حل کی راہ تلاش کریں گے علمی اور تحقیقی سرگرمیوں کو مزید فروغ دیں گے جس سے پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کا عمل تیز ہوگا۔

The post طلبا یونین کی بحالی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2RdxXzz
via IFTTT

جس پہ مرتی ہے فصاحت وہ زباں ہے اردو ایکسپریس اردو

قائد اعظم نے 1948 میں فرمایا تھا کہ ’’ہماری قومی زبان اردو ہے۔‘‘ اور 1973 کے آئین کی دفعہ (1)251 کی رو سے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیتے ہوئے اسے 15 سال کے اندر سرکاری طور پر نافذ کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے لیکن افسوس صد افسوس برسہا برس کے بعد بھی یہ آئینی تقاضا پورا نہیں ہوا۔

امریکا ، جاپان ، چین اور سعودی عریبیہ میں صدیوں سے وہاں کی اپنی قومی زبان میں سارا انتظام و اہتمام چلتا ہے، حد تو یہ کہ نیون سائن یا سائن بورڈز تک انھی زبانوں میں رقم کرا کے آویزاں کیے جاتے ہیں۔ اور یہ بات بھی غلط نہیں کہ دنیا کی کوئی بھی زبان کسی ایک فرد یا معاشرے کی طبع زاد ایجاد نہیں۔ یہ ہر زندہ زبان افراد کے باہمی ارتباط اور معاملات کی اظہار طلبی نے پیدا کی ہے، اور اس نے طرح طرح کے سفر کیے ہیں۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ انسان کی تخلیق کے ساتھ ساتھ بولی (زبان) کی بھی تخلیق ہوئی۔ اور یہ بھی بجا ہے کہ زبان خواہ کیسی ہی اورکسی کی کیوں نہ ہو، اس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ یہ جس ملک ، جس علاقے یا جس خطے میں بھی بولی جاتی ہے وہاں کے باشندے اس کو اپنی بولی سمجھتے ہیں۔ خواہ ان کی مادری یا مذہبی زبان کوئی بھی ہو۔

اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ انگریزی دنیا کی سب سے زیادہ استعمال ہونے والی زبان ہے، اس کی بڑی لغات میں نہ صرف یورپی زبانوں کے الفاظ ملتے ہیں بلکہ اردو، ہندی، سندھی کے علاوہ افریقہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے قدیم قبائل کے الفاظ تک شامل ہیں تاکہ ان کو انگریزی میں استعمال کیا جائے۔

کم و بیش یہی حال ہماری قومی زبان کا ہے جس میں درجنوں غیر زبانوں کے الفاظ اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ بغیرکسی اچھی لغت کے ان کے مخزن کا پتا چلانا دشوار ہے۔ شاید اسی بنا پر اردو زبان کو لشکری زبان بھی کہا جاتا ہے۔ اردو زبان کے معرض وجود میں آنے کی مدت کافی طویل اورکئی صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے اسی لیے اردو مشکل زبان اور مشکل سبجیکٹ ہونے کے باوجود ہمیشہ سے قدرتی طور پر بڑی آسان زبان ثابت ہوئی ہے اور ہر دوسرا غیر ملکی بڑے مزے کی گلابی اردو بولتا بھلا لگتا ہے۔ وطن عزیز میں جس کی مادری زبان خواہ کوئی بھی ہو وہ اردو بڑی آسانی سے بول لیتا ہے ، عربی ، ایرانی ، بنگالی ، ترکی ، ہندوستانی الغرض ہر ملک کا باسی ہماری اردو زبان ٹوٹی پھوٹی ضرور بولنا جانتا ہے اسی بنا پر انگریزی کے بعد ہم اردو کو دوسری بڑی اور بین الاقوامی زبان کہہ سکتے ہیں۔

لیکن وطن عزیز کی بدقسمتی سے ہی اسے تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ ہماری قومی زبان اردو کو آج تک وہ امتیاز و مقام نہ مل سکا جو اس کا حق، قرض اور فرض تھا۔ بوجوہ ہر آنے جانے والی حکومتوں کی عدلیہ اردو کے نفاذ پر زور دیتے ہوئے اسے رائج کرنے کے آرڈر تو دیتی چلی آئی لیکن اس آرڈر کی پاسداری تادم تحریر کسی نے نہ کرائی جس کی بنا پر آج اردو نہ دفتری زبان بن سکی، نہ سرکاری اور نہ ہی اسے صحیح معنوں میں قومی زبان کا تشخص حاصل ہوسکا۔ دراصل جو قومیں اپنے سے بد تر، علم وشعور و آگہی سے عاری اور بدنیت لوگوں کو اپنا آقا بنا لیں ان کے لیے کبھی کوئی موسیٰ آسمان سے نہیں اترا کرتا۔

کون نہیں جانتا کسے نہیں معلوم کہ قومیں بڑے سے بڑے بحرانوں سے نکل آتی ہیں لیکن نشان منزل دھندلا جائے تو انھیں بھٹکنے سے کوئی نہیں روک سکتا 72 برسوں میں جو قوم یا اس کی مشینری اپنے بانی کے فرمان اور اپنے آئین کی پاسداری نہ کرسکے وہ اقوام عالم میں اپنی کیا ترجیح منوا پائے گی؟ ویسے بھی ایک اردو زبان ہی کیا قوم کو جن گمبھیر مسائل کا سامنا ہے انھیں حل کرنے کے لیے موجودہ حکومت جس غیر سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کر رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یا تو اسے ان کا ادراک ہی نہیں یا پھر اسے اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہماری نئی نسل بالخصوص ہمارے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں میں اردو پڑھنے کی اہلیت نہیں ہے اور وہ بہت اٹک اٹک کر اردو پڑھتی ہے۔ اردو کے بیشتر اہم لیکن مشکل الفاظ سے تو سرے سے وہ نابلد ہیں اور تو اور ان کا اردو رسم الخط بھی حد درجہ کمزور ہے۔ حالات اگر یہی رہے تو ہماری معاشرتی زندگی میں ’’اردو شناسی‘‘ کا سلسلہ ٹوٹ جائے گا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ قومی زبان میں دسترس حاصل کیے بغیر قوم کی تخلیقی صلاحیتیں فروغ نہیں پاتیں، کاش ہمارے ارباب اختیار اور ماہرین تعلیم اس سلگتے ہوئے مسئلے پر دھیان دے سکیں۔

ترقی یافتہ ملکوں میں طالب علم کے گھر اور درسگاہ کی زبان بالعموم ایک ہی ہوتی ہے۔ وہ اسکول میں جس زبان میں بولتا، لکھتا اور پڑھتا ہے وہی محلے، پڑوس اور دوست احباب کی محفلوں میں اس کی زبان ہوتی ہے۔ یہ سہولت فطری طور پر اسے نہ صرف آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے بلکہ عملی زندگی میں خود اعتمادی عطا کرتی ہے۔ وہ کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتا، پیشہ ورانہ امور سرانجام دیتا اور اپنے علم اور تجربے کو آیندہ نسلوں تک منتقل کرتا ہے۔ اس طرح پوری قوم کے لیے ترقی کی راہیں آسان اورکشادہ ہوجاتی ہیں۔ اس تناظر میں پنجاب حکومت نے پرائمری سطح پر اردو کو بطور ذریعہ تعلیم اختیارکیے جانے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اس سے یہ واضح نہیں ہو پایا کہ اردو نجی و سرکاری سطح پر ہر چھوٹے بڑے اسکول میں رائج ہوگی یا اس کا دائرہ مخصوص اسکولوں تک محدود رہے گا۔

ہماری دانست میں بچوں کی بنیاد اردو میڈیم کرنے سے اس زبان کے ساتھ ساتھ بہت سے فائدے پہنچیں گے کیونکہ پھر یہ سلسلہ بتدریج مڈل ، ثانوی، اعلیٰ ثانوی جماعتوں حتیٰ کہ ترقی یافتہ ملکوں کی طرح پیشہ ورانہ تعلیم تک بڑھانا ضروری ہوگا تاکہ طلبا کو کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے جس سے فی الوقت طالب علم دوچار ہیں۔ بہت سے ذہین افراد ذریعہ تعلیم کی وجہ سے ’’ سول سروس ‘‘ جیسے حساس امتحانات میں نہیں بیٹھ سکتے اور عملی زندگی میں احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں۔

یہ بات ایک المیے سے کم نہیں کہ اب تک تین نسلیں اردو، انگریزی کے چکر میں اپنی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرچکی ہیں، اب مزید ایسا نہیں ہونا چاہیے اور پورے ملک میں بلاتخصیص قومی زبان کو رائج کیا جانا چاہیے جو ایک اہم آئینی تقاضا بھی ہے۔

The post جس پہ مرتی ہے فصاحت وہ زباں ہے اردو appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2DzIkp4
via IFTTT

رئیس کریم بخش نظامانی ، بابائے ثقافت ایکسپریس اردو

قیام پاکستان سے قبل سندھ کی شخصیات میں ایک بڑا نام رئیس کریم بخش نظامانی کا ہے، جو خواص وعوام میں یکساں مقبول تھے۔ انھیں سندھی ادب ، تہذیب وتمدن سے حد درجہ پیار تھا۔ سندھ کے رسم ورواج اور روایت سے انھیں بے انتہا محبت اورلگائو تھا یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی تمام زندگی سندھی زبان وادب اورکلچر کے لیے وقف کردی اور اس کے صلے میں عوام سے ’’ بابائے ثقافت‘‘ کا خطاب پایا۔

انھیں گفتگو کے فن پر حد درجہ کمال حاصل تھا ، جو ان سے ملتا وہ ان کا عمر بھر کے لیے گرویدہ ہوجاتا۔ لوگ ان کے پاس آکر ان کی باتوں کو بڑے غور سے سنتے تھے،اکثر ان کی باتوں میں پوری رات بیت جاتی تھی اور پتا بھی نہیں چلتا تھا۔ وہ بے شمار خوبیوں کے مالک تھے اور ان کی دوستی میں ہر عمرکے افراد شامل تھے ۔ان کی اوطاق پر آنے کے بعد کوئی بھی چھوٹا بڑا نہیں رہتا تھا اور آنے والے ان کی اوطاق میں آکر فخر اور اچھا محسوس کرتے تھے۔ انھیں اپنے کلچر اور موسیقی سے بڑا لگاؤ تھا ، لوگوں کو اپنے پاس بلاکر ان سے کچہری کرنا، ان کے مسائل حل کرنا اور ضرورت مند کے کام آنا بڑا پسند تھا۔

کریم بخش 1903 میں ضلع بدین کے شہر ماتلی میں رئیس غلام محمد نظامانی کے گھر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد اپنے قبیلے کے نیک، شریف اور سخی انسان تھے۔ رئیس کریم بخش کی گفتگو میں ایک مٹھاس ہوتی تھی اور جب وہ کسی موضوع پر بولتے تھے تو لوگ انھیں سن کر پتھرکے بت بن جاتے جیسے انھیں مسمرائز کردیا گیا ہو ۔ وہ بولتے جاتے اور لوگ سنتے جاتے اور وقت کا پتا نہیں چلتا تھا۔ ان کی گفتگو کا محور زیادہ تر تاریخ ، تہذیب، تمدن، جیوگرافی اور کلچر ہوتا تھا جس میں صرف سندھ مرکز تھا۔ لوک کہانیاں، لوک گیت، لوک موسیقی، شاہ عبداللطیف بھٹائی اور ان کی شاعری، سندھی کہاوتیں، پہیلیاں ہوتی تھیں۔ ان کی باتیں بتاتی تھیں کہ وہ شخص ذہین بھی تھا اور مدبر بھی جس نے اپنی اوطاق کو ایک تدریسی انسٹیٹیوٹ بنایا ہوا تھا۔

کریم بخش کو کلاسیکل موسیقی کے بارے میں بڑی جانکاری حاصل تھی، معروف گویے ان کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے جنھیں سن کر انھیں کئی چیزوں کے بارے میں گائیڈ بھی کرتے۔ سر اور تال پر اچھی نالج ہونے کی وجہ سے گانے والے استاد خاص طور پر ان کے پاس آیا کرتے تھے۔ ان کی اوطاق میں جب بھی لوگ جاتے تھے تو وہاں پر ساری رات قوال، گویے، مسخرے، سگھڑ اورکھیل کھیلنے والوں کا ایک ہجوم رہتا تھا اور ان کا لنگر چوبیس گھنٹے چلتا رہتا تھا جہاں پر ہندوستان کے کونے کونے سے لوگ آیا کرتے تھے جس میں سیاستدان بھی شامل تھے۔ یہ دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ ان لوگوں کا یہ اوطاق دوسرا گھر ہے۔

متعدد معروف شخصیات میں بندہ علی تالپر، جام صادق علی، محمد ایوب کھوڑو، سائیں جی ایم سید، سر غلام حسین ہدایت اللہ، قاضی فضل اللہ، اللہ بخش سومرو، میر غلام علی خان تالپر، جام انور علی خان اکثر آیا کرتے تھے۔ خاص طور پر حیدرآباد کے ٹالپر فیملی سے ان کے بڑے قریبی اور اچھے تعلقات تھے اور جام صادق تو کریم بخش کی بڑی عزت کرتے تھے اور انھیں انکل کہہ کر پکارتے تھے۔ اس کے علاوہ میر رسول بخش تالپر اور میر علی احمد تالپر بھی انھیں پسند کرتے تھے۔ سندھ کی دیگر نامور شخصیات ان کی دوستی کے دائرے میں شامل تھیں۔

رئیس کریم بخش کی ذہانت کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو،کامریڈ حیدر بخش جتوئی بھی ان کے پاس کچہری کرنے کے لیے آتے رہتے تھے۔ سمن سرکار جو ایک پیر بھی ہیں جب زندہ تھے تو وہ ان سے ملنے آتے تھے اور کریم بخش سے بہت کچھ سیکھنے کو انھیں ملا۔ موسیقی سے بے حد لگاؤ کی وجہ سے انھوں نے ماتلی شہر میں ایک خوبصورت سینما تعمیر کروایا جس کا نام انھوں نے Picture Nest رکھا جو ان کے گھر کے بالکل قریب تھا۔ اس سینما کا افتتاح نیو میجسٹک سینما حیدرآباد کے مالک لالہ نورالدین نے کیا تھا۔ اس سینما کے افتتاح کے موقع پر فلم اسٹار علاؤ الدین، حسین شاہ فاضلانی، مصطفی قریشی، اداکارہ بہار نے بھی شرکت کی تھی، یہ سینما اب بند ہوچکا ہے۔ انھوں نے اپنے گھر کا نام بھی My Nest رکھا تھا کہتے اس کی بھی حالت کچھ اچھی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے لوگوں کی تفریح کے لیے ایک پارک دارالامان کے نام سے بنایا تھا جس کی موجودہ حالت دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔

رئیس کریم بخش نے اپنی زندگی پر ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کا نام ہے کئی کتاب جس میں انھوں نے کوئی بات نہیں چھپائی اور بہت سارے سچ لکھ ڈالے ہیں۔ اس کا پہلا حصہ تو چھپ گیا تھا مگرکتاب کا دوسرا والیوم نہیں چھپ سکا جسے ان کے بیٹے رئیس علی رضا کو چھپوانا چاہیے تھا جو ٹاؤن کمیٹی ماتلی کے چیئرمین بھی تھے۔ وہ انصاف پسند تھے، ان کے فیصلے ہمیشہ بروقت ہوتے تھے اور لوگ ان فیصلوں کو قبول کرتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ رئیس کبھی بھی کسی کی حمایت نہیں کرتے تھے۔ رئیس نے اپنے وقت میں ماتلی شہرکو ترقی دی اور شہری سہولیات بڑے پیمانے پر دیں۔

ان کی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے اور انھوں نے جو بھی مشاہدے اور تجربات کیے ان سے بہت کچھ سیکھا اور اس کی بنیاد پر اپنی زندگی کو مزید مستحکم کرنے کے لیے کام کرتے رہے۔ انھوں نے اپنی ابتدائی زندگی میں بہت Travelling کی ، ان کے ساتھ سمن سرکار بھی ساتھ ہوتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ زندگی میں آئی ہوئی خوشیوں اور غموں سے انھوں نے بہت کچھ سیکھا تھا۔ ان کے بنائے ہوئے پارک میں اب بھی لوگ آتے ہیں اور خاص طور پر مسافر جو درختوں کے سائے میں بیٹھ کرکچھ دیر کے لیے سانس لیتے ہیں اور پھر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں اور جاتے ہوئے رئیس کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔

وہ اس دنیا فانی سے 31 دسمبر 1983 اور 1 جنوری 1984 کی درمیانی رات کوچ کرگئے۔

The post رئیس کریم بخش نظامانی ، بابائے ثقافت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2rFGmkw
via IFTTT