سیاست دوراں کا شاید سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ملک میں ابتری ، انتشار، شکست وریخت اور بے یقینی کا سبب کیا ہے؟ ول ڈیورینٹ نے کہا تھا کہ تہذیب ترتیب اور ضبط و نظم سے شروع ہوتی ، آزادی سے نشوونما پاتی اور ابتری ولاقانونیت سے مردہ ہوتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سیاسی و معاشی چیلنجز اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ ہمیں من حیث القوم اس امڈتے سیاسی ومعاشی طوفانوں سے کنارہ کرنا ہے۔ اقبال نے کہا تھاکہ
برنگ بحر ساحل آشنا رہ
کف ساحل سے دامن کھینچتا جا
وقت کی للکار ہے کہ سیاسی رہنماؤں کو دیدہ وری سے کام لینا ہوگا، قوم درست سمجھتی ہے کہ ملک کو 71 برس کے سیاسی مغالطوں، جمہوری مبالغہ آرائیوں، منافقت، ریا کاری اور جمہوریت سے انحراف کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے، لازم ہے کہ اہل اقتدار سیاست میں اجتماعیت اورقومی مفاد کو پیش نظررکھیں، کشیدگی اور محاذ آرائی سے بچیں اورکشادہ دلی کے ساتھ مشترکہ جمہوری رویوں کو فروغ دینے کا کلچر مستحکم کریں۔ ان چیلنجز کا ادراک کریں جو خطے کو لاحق ہیں۔
صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی نے کہا ہے کہ پانی اورغذائی تحفظ کے بحران سے نمٹنے کے لیے بین الصوبائی روابط کی ضرورت ہے، ملک میں توانائی ، پانی اور خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے واٹر پالیسی پرعمل درآمد کے ضمن میں صوبوں کے درمیان اتفاق رائے نا گزیر ہے ، وہ چوتھی کراچی انٹرنیشنل واٹرکانفرنس کے شرکا سے خطاب کر رہے تھے جس کا اہتمام حصار فاؤنڈیشن نے کیا تھا،کانفرنس کا موضوع ’پانی، توانائی ، غذا کا تعلق اور 21 ویں صدی میں پاکستان کا ایجنڈا تھا ، صدر مملکت نے کانفرنس کے موضوع کے انتخاب کو سراہا اور عالمی حدت کی پیچیدگیوں کے اثرات پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ پانی اورغذائی تحفظ کے لیے شراکت داری کا نیٹ ورک وقت کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں نجی شعبہ ،حکومت ، سول سوسائٹی ، میڈیا اورعوام کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ، انھوں نے کہا کہ ہم جس دورمیں رہ رہے ہیں وہاں ہمارے بچے ماحولیات کے حوالے سے احتیاطی اقدامات میں نا کامی کی ہماری غلطیوں کا احتساب کرنے کا حق رکھتے ہیں، وہ ہم سے یہ توقع کرتے ہیں کہ ہم قدرتی وسائل کا تحفظ اور ورثے میں پانی اورخوراک سے مزین معاشرہ تعمیرکرکے جائیں گے۔
صدر مملکت نے حصار فاؤنڈیشن کوکانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد دیتے ہوئے بیرون ملک سے آئے ہوئے وفود اور ماہرین کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے پانی اورغذائی تحفظ کے حوالے سے اہم معلومات فراہم کیں،انھوں نے منتظمین کو ہدایت کی کہ وہ چاروں صوبوں کے زراعت اور پانی کے وزیروں بشمول وفاقی وزراء کو آیندہ ہونے والی کانفرنس میں بلائیں تاکہ وہ حکومتی ایجنڈا دے سکیں، یہ وزارتیں ٹھوس حکمت عملی بنانے میں نمایاں کردار ادا کرسکتی ہیں تاکہ خشک سالی اورسیلاب جیسی تباہ کاریوں کے خطرات سے ملک کو بچایاجاسکے۔
وزیر اعظم عمران خان نے نیدر لینڈ کی ملکہ میکسیما کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہاکہ دنیا میں زیادہ مسائل ہوس دولت کے باعث ہیں، خواتین کو غربت سے نکالنا اولین ترجیح ہے، اسی بنیاد پر احساس پروگرام کا آغاز کر دیا ہے، انھوں نے کہا کہ حکومت ایکسپورٹرزکی مشکلات دور کرنے میں سنجیدگی سے اقدامات کر رہی ہے۔
ہالینڈ کی ملکہ میکسیما کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 40 فی صد آبادی غربت کا شکار ہے، صرف14 فی صد کے بینک اکاؤنٹس ہیں، انھوں نے اے ڈی پی کے زیر اہتمام کانفرنس میں شرکت کی، وفاقی وزیر اقتصادی امور نے ملکہ میکسیما کا خیرمقدم کیا ، وفاقی وزیرحماد اظہر نے کہا کہ حکومت کا اگلے چار سال میں64 کروڑ50 لاکھ ڈیجیٹل ایکٹو اکاؤنٹس کا ہدف رکھے گی، آٹو میشن سسٹم پرکام جاری ہے۔
میکسیما نے اے ڈیپی کانفرنس کے موقع پر کہا کہ جدید فنانشل ٹیکنالوجی اورای کامرس سے مقابلے کا رجحان پیدا ہوگا، ملکہ نے کہا کہ اس مقصد کے لیے صارفین کی ضروریات کا خیال رکھنا ہوگا، انھوں نے کہا کہ پاکستان میں نجی شعبہ کے لیے قرضہ جات بڑھے ہیں، خواتین اور غریب طبقے کے لیے قرضہ جات بڑھانا زیادہ اہم ہے۔
دوسری طرف متحدہ اپوزیشن نے کل جماعتی کانفرنس میں کہا کہ نئے انتخابات پر سمجھوتہ نہیں ہوگا ، بحران کا حل حکومت کا خاتمہ ہے، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ آیندہ کسی سلیکٹڈ کو قبول نہیں کیاجائے گا، مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ حکومت ملکی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ حقیقت میں خطرات کا دائرہ خطے کے سیاق وسباق میں کثیر جہتی اندیشوں سے عبارت ہے، ہمارا ازلی دشمن بھارت پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے کے لیے مہم جوئی کر رہا ہے، اس نے مقبوضہ کشمیرکوکشمیریوں کے لیے جیل خانہ بنا دیا ہے، مودی کی سیکیورٹی فورسز نے نام نہاد آپریشن میں پلوامہ میں 3 نوجوانوں کو شہیدکیا، شہادتوں پر وادی میں بھارت مخالف زبردست مظاہرے ہوئے۔
بھارتی فوج نے آنسو گیس ، ہوائی فائرنگ ، پیلٹ گنزکا بے دریغ استعمال کیا جس سے درجنوں زخمی ہوگئے۔ دریں اثنا پاکستان نے سلامتی کونسل کی مستقل بھارتی رکنیت پر شدید اعتراض کیا، اقوام متحدہ میں مستقل پاکستانی مندوب منیر اکرم نے کہا کہ یو این او قراردادوں کی دھجیاں اڑانے والا بھارت غیر مستقل رکن بننے کا بھی اہل نہیںِ۔ انھوں نے کہا کہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا بھارت ملک کس طرح مستقل رکن بن سکتا ہے۔ اس نے وادی میں 9 لاکھ فوج کے ساتھ دہشت گردی برپا کر رکھی ہے،اس نے80 لاکھ کشمیریوں کو مستقل کرفیو میں محصورکر رکھا ہے۔
کشمیریوں پر لاک ڈاؤن مسلط کی ہوئی ہے، ادھر ناروے میں قرآن مجید کی بے حرمتی کے خلاف عالم اسلام سمیت پاکستان کے طول وعرض میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، وزیراعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ تمام مذاہب کی مقدس ہستیوں اورکتب کے احترام کے حوالے سے عالمی سطح پر قانون سازی کی جائے، سعودی عرب سے اپنے ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ ناروے جیسے واقعات پر ملزموں کو سزا ملنی چاہیے۔ سندھ اسمبلی میں اس پر قرارداد جمع ہوئی۔ فارن فنڈنگ کیس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو بھی سوالنامے جاری کیے گئے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی اسٹیک ہولڈرز خطے اور داخلی صورت حال کو اپنی سیاست کا محور بناتے ہوئے دوراندیشی پر مبنی فہم وفراست سے کام لیں، بہت سارا قیمتی وقت بے مقصد بلیم گیم میں ضایع ہو رہا ہے، ملک میں ہیجانی کیفیت ہے، تناؤ کا اعصاب شکن عفریت 22 کروڑ ہم وطنوں کو حصار میں جکڑے ہوئے ہے، عجیب درد ناک کھینچا تانی کا سلسلہ جاری ہے، ملکی معیشت کی بہتری کے دعوے بھی ہیں اور عوام بدستور مہنگائی اور بے روزگاری کی اندھی گلی میں دیواروں سے ٹکریں مار رہے ہیں۔ میڈیا نے حکمرانوں کو دور اندیشی ، تدبر ودانائی کے ساتھ افہام و تفہیم کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت کا احساس دلایا ہے۔
سیاست دان ہی شکایت کر رہے ہیں کہ حکومت پاؤں پرکلہاڑی مار رہی ہے، ادھر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارکا کہنا ہے کہ وزیر اعظم قائد اعظم کے ویژن کے مطابق نیا پاکستان بنا رہے ہیں۔ خدا کرے عوام کو نئے پاکستان میں آسودگی ملے، مہنگائی اور بیروزگاری ختم ہو، سیاست میں مستقل ٹھہراؤکی کیفیت پیدا ہو۔ ملک سیاسی ابتری کے حصار سے نکلے۔ عوام اطمینان کا سانس لیں۔کاش !
The post سیاست دان چیلنجز کا ادراک کریں appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2OqbY6s
via IFTTT
No comments:
Post a Comment