Thursday, April 30, 2020

انڈس اسپتال کے 6 ڈاکٹرز میں کورونا وائرس کی تصدیق ایکسپریس اردو

کراچی: انڈس اسپتال کے 6 ڈاکٹرز میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوگئی جب کہ متاثرہ ڈاکٹرز کو آئسولیشن کیلیے چھٹیاں دے دی گئی ہیں۔

انڈس اسپتال کے شعبہ حادثات میں کام کرنے والے 6 ڈاکٹرز میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوگئی، سربراہ انڈس اسپتال ڈاکٹر عبدالباری کا کہنا تھا کہ متاثرہ ڈاکٹرز کو قرنطین کیلیے چھٹیاں دے دی گئی ہیں جبکہ متاثرہ ڈاکٹرز کے ساتھ رابطے میں رہنے والے طبی عملے کے بھی ٹیسٹ کروائے جائیں گے۔

اسپتال کا شعبہ حادثات مکمل طور پر فعال ہے، دن میں 2 بار ایمرجنسی اور مختلف آئسولیشن وارڈ میں ڈس انفیکشن اسپرے کیا جاتا ہے، جب سے کورونا وائرس کے کیسز آرہے ہیں دو مرتبہ ایمرجنسی میں فیومیگیشن اسپرے معمول کی بات ہے، ایمرجنسی سمیت تمام شعبوں میں کام معمول کے مطابق جاری ہے۔

انڈس اسپتال میں وائرس سے بچاؤ کی ہر ممکن تدابیر اختیار کی جارہی ہیں، تمام تر حفاظتی تدابیر کے باوجود طبی عملے کے متاثر ہونے کا خطرہ برقرار رہتا ہے۔

 

The post انڈس اسپتال کے 6 ڈاکٹرز میں کورونا وائرس کی تصدیق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2YnTauc
via IFTTT

آن لائن کاروبار کی اجازت؛ 5 ہزار دکانداروں نے کوائف کمشنر کو ارسال کردیے ایکسپریس اردو

کراچی: سندھ حکومت کی جانب سے آن لائن کاروبارکی اجازت کے بعد کراچی کے 5000 ہزار دکانداروں نے اپنے کوائف کمشنر ہاؤس کو ارسال کردیے۔

سندھ حکومت کی جانب سے آن لائن کاروبارکی اجازت کے بعد کراچی کے 5000 ہزار دکانداروں نے اپنے کوائف کمشنر ہاؤس کو ارسال کر دیے ہیں جن میں الیکٹرانکس مارکیٹ کے دکانداروں کی تعداد نمایاں ہے تاہم موبائل فون کا کاروبار کرنے والوں کا کہناہے کہ موبائل چھینے جانے کے خدشہ کی وجہ سے گھروں پر ڈیلیوری نہیں دے رہے اور گاہکوں کو مارکیٹ میں ہی بلا کر ڈیلیوری دینا مجبوری ہے جس میں مشکلات کا سامنا ہے۔

یادرہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے آن لائن کاروبار کے لیے ہفتے میں3 روز مقرر تھے جن کے مطابق پیر تا جمعرات آن لائن کاروبار کیا جانا تھا پہلے ہفتے میں محدود تعداد میں تاجروں نے کوائف جمع کرائے، تاجروں کی سہولت کے لیے کمشنرکراچی نے ای میل کے ذریعے اجازت دینے اورکوائف جمع کرانے کی سہولت فراہم کی جس سے تاجروں کی مشکلات کم ہوئی ہیں۔

آل سٹی تاجر اتحادکے صدر شرجیل گوپلانی کے مطابق اب تک 5ہزار دکانداروں نے اجازت نامہ حاصل کیے ہیں جن میں سے زیادہ تر الیکٹرانک ڈیلرزاوردکاندارشامل ہیں، آل کراچی ماربل ایسوسی ایشن کے سینئر صدر محمد شعیب اسحاق نے بتایاکہ پاک کالونی اور منگھوپیر روڈ پر ماربل کی600 دکانیں اور شوروم ہیں جو ڈیڑھ ماہ سے بند ہیں حکومت نے تعمیراتی صنعت کو سرگرمیوں کو اجازت دی ہے اور ماربل تعمیراتی میٹریل کا اہم حصہ ہے اس لیے اب سندھ حکومت کی آن لائن کاروبار کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایسوسی ایشن نے ماربل کی آن لائن ٹریڈ کا فیصلہ کیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اب تک 100دکانوں میں ایس او پی کے مطابق اقدامات کرکے اجازت ناموں کے لیے کوائف کمشنر ہاؤس کو بذریعہ ای میل ارسال کردی گئی ہیں جن کا جواب آنا شروع ہوگیا ہے اور پیر سے 100کے قریب دکانیں آن لائن کاروبار شروع کردیں گی جن میں بتدریج اضافہ ہوگا، ایس او پی پر عمل درآمد کی نگرانی خود ماربل ایسوسی ایشن کرے گی تاکہ کرون اکی وباسے دکانداروں اور گاہکوں کو محفوظ رکھا جاسکے۔

موبائل مارکیٹ کے چھوٹے دکانداروں کا کہنا تھا کہ دکانداروں اور گاہکوں کی اکثریت آن لائن کاروبار سے واقفیت نہیں رکھتی بالخصوص چھوٹے دکاندار ان جانے گاہکوں پر بھروسہ کرکے موبائل فون ان کے مطلوبہ مقام پر پہنچانے میں عدم تحفظ کا شکار ہیں۔

 

The post آن لائن کاروبار کی اجازت؛ 5 ہزار دکانداروں نے کوائف کمشنر کو ارسال کردیے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2YmmLUM
via IFTTT

سی این جی کی قیمت میں بھی 12.50 روپے فی لیٹر کمی ایکسپریس اردو

لاہور: پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے بعد سی این جی کی قیمت میں بھی ساڑھے 12روپے فی لیٹر کمی کر دی گئی۔

غیاث پراچہ صدر آل پاکستان سی این جی ایسوسیشن کے مطابق پنجاب اور اسلام آباد میں سی این جی کی قیمت میں بڑی کمی کی گئی ہے، سی این جی کی قیمت میں 12.50 فی لیٹر کی کمی کی گئی ہے، نئی قیمت کا اطلاق یکم مئی سے ہو گا۔

The post سی این جی کی قیمت میں بھی 12.50 روپے فی لیٹر کمی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/35lS57q
via IFTTT

دہشت گردی کیخلاف جنگ، پختونخوا کو آئندہ سال 59 ارب ملیں گے ایکسپریس اردو

پشاور: خیبرپختونخوا کو آئندہ مالی سال 2020-21 ء کیلیے دہشتگردی کیخلاف جنگ کے نام پر خطیر رقم ملے گی جو 59 ارب سے زائد رہنے کا امکان ہے۔

نیا قومی مالیاتی ایوارڈ جاری نہ ہونے کے باعث خیبرپختونخوا کو آئندہ مالی سال 2020-21 ء کیلیے بھی ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت دہشتگردی کیخلاف جنگ کے نام پر خطیر رقم ملے گی جو 59 ارب سے زائد رہنے کا امکان ہے۔

خیبرپختونخوا کو 2010ء میں جاری ہونے والے ساتویں این ایف سی ایوارڈمیں اس وقت کی پیپلزپارٹی کی حکومت نے مجموعی قومی وسائل کا ایک فیصد حصہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہونے والے نقصانات کو پورا کرنے کے لیے دینے کا سلسلہ شروع کیاتھا اور یہ فیصلہ ہواتھا کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی مدت ختم ہونے تک یہ سلسلہ جاری رہے گا تاہم ساتویں این ایف سی ایوارڈ کی آئینی مدت 2015ء میں مکمل ہونے کے باوجود نہ تو آٹھواں قومی مالیاتی کمیشن اور نہ ہی نواں کمیشن اپنا کام کرسکا۔

 

The post دہشت گردی کیخلاف جنگ، پختونخوا کو آئندہ سال 59 ارب ملیں گے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2VQvhJZ
via IFTTT

بخت ٹاور کی اسٹوری آج سامنے آئی،98ء میں بینظیر نے یہ زمین خریدی ایکسپریس اردو

کراچی: سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی نے کہا ہے کہ بخت ٹاور کی اسٹوری آج سامنے آئی ہے، 1998 میں بینظیر بھٹو نے یہ زمین رخسانہ اور شبنم بھٹو سے خریدی۔

قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی نے کہا ہے کہ بخت ٹاور کی اسٹوری آج سامنے آئی ہے، 1998 میں بینظیر بھٹو نے یہ زمین رخسانہ اور شبنم بھٹو سے خریدی، بینظیر بھٹو نے خط لکھا کہ یہ زمین میرے نام کرائی جائے، ساتھ ہی انور مجید نے خط لکھا کہ یہ زمین میرے نام کی جائے، محترمہ نے کہا تھا کہ میری سیاست سے آصف زرداری کا کوئی تعلق نہیں، بعد میں پرچی آئی اور زرداری بھٹو بن گئے۔

انہوں نے کہا کہ ریجنٹ سروس کمپنی ایک بے نامی کمپنی ہے، اس بے نامی کمپنی میں حسین لوائی کو 950 ملین میں بیچا گیا، لوائی صاحب نے اسی بلڈنگ کے اندر تین منزلیں بھی خریدلیں، آج شبنم ناہید بھٹو کون ہیں اور کہاں ہیں، پی پی بتائے آج وہ لوگ کہاں گئے، ہم نے بات سنی کہ وہ روڈ حادثے میں مرگئیں، اس کی کوئی تفتیش نہیں ہوئی،مرتضیٰ بھٹو اور ناہید شبنم کا مرنا عجب کہانی ہے،دال میں کچھ کالا نظر آرہا ہے۔

انصاف ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فردوس شمیم نقوی نے مزید کہا کہ کورونا وائرس اتنی تیزی سے نہیں پھیلا جتنی تیزی سے اومنی کو قرضے دیے گئے، سمٹ بینک کو بھی سندھ بینک پر چپکایا جارہا تھا، پاکستان کے کسی گروپ کو اتنا قرضہ آج تک نہیں دیا گیا، 2008 میں اومنی گروپ کے پاس 6 کمپنیاں تھی،2018 تک 83 کمپنیاں ہوگئی۔

 

The post بخت ٹاور کی اسٹوری آج سامنے آئی،98ء میں بینظیر نے یہ زمین خریدی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3bRpx8s
via IFTTT

نسٹ نے ٹیسٹنگ کٹس، کامسیٹس نے وینٹی لیٹر بنالیا ایکسپریس اردو

اسلام آباد: وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے کہا ہے نسٹ نے ٹیسٹنگ کٹس جبکہ کامسیٹس نے اپنا وینٹی لیٹر بنالیا تاہم سستے اور معیاری وینٹی لیٹرز جلددستیاب ہوں گے۔

وفاقی وزیر فواد چوہدری نے جمعرات کو کامسٹیک ہیڈکوارٹرز میں  طبی آلات و مصنوعات کی نمائش کے موقع پر خطاب میں کہاپاکستان نے کورونا کے کیسز سامنے آتے ہی طبی  سامان کی تیاری کا منصوبہ بنایا اور قلیل وقت میں بہترین مصنوعات تیار کی ہیں جن سے نہ صرف اپنی ضرورت پوری بلکہ برآمد بھی کی جاسکتی ہیں،جو این۔ 95 ماسک 1100 کا منگواتے تھے وہ  90 روپے میں تیار کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا 26 فروری کو پاکستان میں کورونا کے دو کیس سامنے آئے اس وقت ہم طبی آلات اور سامان نہیں بنارہے تھے،بھاری مالیت کے طبی آلات و مصنوعات بیرون ملک سے درآمد کی جاتی تھیں۔ پوری دنیا میں وبا پھیلنے کے باعث ان کی قلت ہوگئی، امریکا، فرانس جیسے ملکوں میں ڈاکٹرز کیلئے طبی آلات و مصنوعات کی قلت پر احتجاج ہورہا تھا ،ہم نے اس صورت حال میں کوشش کی کہ خود یہ بنائیں۔

 

The post نسٹ نے ٹیسٹنگ کٹس، کامسیٹس نے وینٹی لیٹر بنالیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2y8hRjA
via IFTTT

ملک بھر میں ایل پی جی 20 روپے کلو مہنگی کر دی گئی ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: ملک بھر میں ایل پی جی 20 روپے فی کلو مہنگی کردی گئی۔

اوگرا نے مئی 2020 کیلئے ایل پی جی کی قیمت میں اضافے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا جس کے مطابق گھریلو سلنڈ 256روپے اور کمرشل سلنڈرکی قیمت میں 983روپے اضافہ کیا گیا ہے۔ملک بھر میں ایل پی جی 90 روپے فی کلوکی جگہ 112روپے فی کلو اور گھریلو سلنڈر1067روپے کی جگہ1323روپے اور کمرشل سلنڈر4107روپے کی جگہ 5090روپے میں فروخت ہو گا۔

ایل پی جی ڈسٹری بیوشن ایسوسی ایشن کے سربراہ عرفان کھوکھر نے کہا ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں سعودی اریمکو کنٹریٹ ایل پی جی کی قیمت 237 ڈالر فی ٹن سے بڑھ کر 340  ڈالر فی ٹن پر آگئی۔

 

The post ملک بھر میں ایل پی جی 20 روپے کلو مہنگی کر دی گئی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3f9PQc3
via IFTTT

250 ارب کے 4 منصوبے، دیامر بھاشا ڈیم کی لاگت پر تحفظات ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: قومی اقتصادی کونسل کی انتظامی کمیٹی ایکنک نے 250 ارب روپے سے زائد مالیت کے 4 بڑے منصوبوں کی منظوری دے دی۔

وزیراعظم کے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کی زیر صدارت اجلاس میں 12.43 ارب کی لودھراں ملتان 62 کلومیٹر طویل دو رویہ سڑک کی منظوری دی ،جس میں لودھراں ملتان این 5 سیکشن میں 2 فلائی اوور، 2 انٹر چینج اور 4 چھوٹے پل شامل ہے۔

پنجاب کے 11 کم ترقی یافتہ اضلاع میں 32 ارب سے ہیومن کیپٹل انوسٹمنٹ منصوبہ بھی منظور کرلیا گیا۔ کے پی کے تمام 26 اضلاع میں 30 ارب کے اری گیٹڈ ایگریکلچر پراجیکٹ کے علاوہ175 ارب سے زائد کے دیامر بھاشا ڈیم منصوبے پرتحفظات ظاہرکرتے ہوئے مشروط منظوری دی گئی۔یہ منصوبہ پہلی بار 2008ء میں 60 ارب کی لاگت سے منظور کیا گیا تھا۔

2015ء میں نوازشریف حکومت نے اس بنیاد پراس کی لاگت 101ارب منظورکی کہ مقامی لوگوں نے اپنی ارضی کے عوض حکومتی قیمت کی پیشکش قبول نہیں کی تاہم وزارت پانی نے منصوبے کی لاگت 175ارب 40کروڑتک پہنچادی ہے جو 2008ء کے تخمینے سے 291 فیصد زیادہ ہے۔

 

The post 250 ارب کے 4 منصوبے، دیامر بھاشا ڈیم کی لاگت پر تحفظات appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3f6JNoz
via IFTTT

پاکستان میں اب کورونا کے رویے میں شدت نظر نہیں آ رہی، طبی ماہرین ایکسپریس اردو

کراچی: نیشنل انسٹیٹوٹ آف بلڈ ڈیزیز کے سربراہ پروفیسر طاہرشمسی نے کہا ہے کہ مستقبل میں کووڈ19 کے ساتھ احتیاط سے زندگی گزارنا ہوگی جب کہ جنوری 2020 میں کوویڈ19 دنیا بھر میں طرز زندگی میں بتدریج تبدیلی پیدا کررہا ہے تاہم یقینی طورپر کہا جاسکتا ہے کہ نئی دنیا سماجی رابطوں سے دوری پرمنسلک ہوگی۔

پاکستان میں کووڈ19 کو 2 ماہ مکمل ہونے کے حوالے سے ایکسپریس ٹربیون کوڈاکٹرطاہرشمسی نے بتایا کہ دنیا بھر میں تباہی پھیلانے والا کوویڈ19 نے جنوبی ایشائی ممالک کے عوام کو سب سے کم متاثرکیا جبکہ امریکا سمیت یورپی ممالک میں کووڈ 19 مسلسل تباہی کا باعث بنا ہوا ہے۔ جنوبی ایشیا میں ڈیرھ ارب کی ابادی میں وائرس نے 31 ہزار افراد کو متاثرکیا جبکہ شرح اموات بھی 2 فیصد رہی۔

انھوں نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں کووڈ19 سے صحت یاب ہونے والے افراد کے پلازمہ میں کووڈ 19 ری ایکٹیو نہیں ہورہا یعنی کووڈ دوبارہ فعال نہیں ہوا۔ یہ ایک خوشخبری ہے۔

انفیکیشن کنٹرول سوسائٹی کے صدر اورمائیکروبیالوجسٹ پروفیسر رفیق خانانی اورعیسی لیب کے سربراہ پروفیسر فرحان عیسی نے کہاکہ کووڈ19 دنیا بھر کی جغرافیائی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے اپنی تباہ کاریوں کی جانب بڑھ رہا ہے اور خاموشی سے ہزاروں صحت مند افراد کواپنا نشانہ بنارہا ہے۔

ان ماہرین نے کہا کہ پاکستان میں کورونا کو سامنے آئے 2 ماہ ہوگئے، اس دوران کم ٹیسٹ کیے گئے تاکہ کم نتائج سامنے پیش کیے جاسکیں۔ دوسری جانب پاکستان نے دوسرے ممالک کی طرح وائرس کو سنجیدہ نہیں لیا۔

 

The post پاکستان میں اب کورونا کے رویے میں شدت نظر نہیں آ رہی، طبی ماہرین appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2WeoXuJ
via IFTTT

آج کا دن کیسا رہے گا ایکسپریس اردو

حمل:
21مارچ تا21اپریل

آپ کے یہ جذبات قابل قدر ہیں اگر آپ ہزار سال قبل پیدا ہوتے تو شاید آپ کے یہ اعلیٰ کارنامے تاریخ کے کسی صفحے پر درج ہو جاتے لیکن اب اس کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔

ثور:
22 اپریل تا 20 مئی

اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا موقع مل سکتا ہے کسی کے ساتھ لڑائی جھگڑا کرنے کی غلطی جسمانی نقصان کا موجب بن سکتی ہے۔ حتیٰ الامکان احتیاط برتنے کی کوشش کریں۔

جوزا:
21 مئی تا 21جون

اپنے مزاج میں بھی ٹھہرائو پیدا کریں، غیر مستقل مزاج لوگ ترقی کے راستے پر دوسروں سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں کسی بھی کام کی تکمیل کا ارادہ کر لیں تو پھر پیچھے نہ ہٹیں۔

سرطان:
22جون تا23جولائی

ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ آپ دوست نہ بنائیں ضرور بنائیں لیکن پہلے دوستی کا ایک معیار تو قائم کر لیں جو اس معیار پر پورا اترے اس پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کر لیں۔

اسد:
24جولائی تا23اگست

گھریلو حالات قدرے تسلی بخش رہیں گے لیکن اب آپ ہر بات اپنی ہی منوانے والی عادت ترک کر دیجئے، اپنی شریک زندگی کو بھی رائے اور فیصلے کا اختیار دے دیجئے۔

سنبلہ:
24اگست تا23ستمبر

کچھ عرصے سے غیر متوقع پریشانیوں نے آپ کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے آپ جو کچھ چاہتے ہیں وہ نہیں ہو پاتا اس کے باوجود ہم یہی کہیں گے کہ ہمت نہ ہاریئے۔

میزان:
24ستمبر تا23اکتوبر

بعض اوقات بہت ساری دیکھی بھالی چیزیں بھی دھوکہ دے جاتی ہیں اور پھر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ آپکے مخالف کے پاس بھی اتنی صلاحیتیں ہوں جتنی کہ آپ کے پاس ہیں۔

عقرب:
24اکتوبر تا22نومبر

من پسند فرد کے ساتھ شادی کا امکان ہے، ملازمت سے وابستہ افراد کی ترقی کے امکانات ہیں لیکن آپ متذکرہ عرصے بسلسلہ فرائض وغیرہ لاپرواہی کا مظاہرہ ہرگز نہ کریں۔

قوس:
23نومبر تا22دسمبر

مخالفت کو مزید ہوا نہ دیں یہ تو جنگل کی آگ ہے اگر بھڑک اٹھی تو سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے لہٰذا اگر کوئی مخالف صلح کرنا چاہے تو بھی اسے مایوس نہ کیجئے۔

جدی:
23دسمبر تا20جنوری

کسی شخص کیساتھ الجھنے کی غلطی نہ کریں اگر آپ خود پر قابو نہ پا کر کسی سے الجھ بیٹھے تو پھر بات بہت بڑھ سکتی ہے، آپکے اخراجات بھی کسی گھریلو تقریب کے سلسلے میں بڑھ سکتے ہیں۔

دلو:
21جنوری تا19فروری

دماغ پر فضول خیالات کا غلبہ رہے گا، سفر شوق سے کیجئے، نتائج خوشگوار ہو سکتے ہیں، کاروباری سکیموں کو شوق سے عملی شکل دیجئے، نتائج شاندار برآمد ہو سکتے ہیں۔

حوت:
20 فروری تا 20 مارچ

حالات خاصے تشویشناک ہو سکتے ہیں، اب بھی وقت ہے احتیاط برت لیں تاکہ مزید پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے، اخراجات کی رفتار کچھ زیادہ تیز رہے گی۔

The post آج کا دن کیسا رہے گا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2wECHGy
via IFTTT

عوام کا بچکانہ رویہ ایکسپریس اردو

ہماری دنیا کی ایک عجیب روایت ہے کہ قدرتی آفات کو گناہوں کی سزا کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستان تین ماہ سے کورونا وبا کی زد میں ہے اور یہ وبا صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ عالمی سطح پر آئی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر مصیبت کو ہمارے گناہوں کی سزا کہنا کیا عقلمندی کی دلیل ہے؟ اس حوالے سے سب سے زیادہ دلچسپ مفروضہ یہ ہے کہ گناہوں کی ذمے داری غریب عوام پر ڈال دی جاتی ہے کہ عوام کے گناہوں کی یہ سزا ہے۔ اس حوالے سے افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ جس ملک کی نوے فیصد آبادی غربت کی اذیت میں مبتلا ہے جو لوگ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے سارا دن محنت کرتے ہیں انھیں فرصت گناہ کہاں ملتی ہے۔

گناہ اور اعلیٰ درجے کے گناہ کے لیے بھاری رقم کی ضرورت پڑتی ہے اور دال روٹی پر گزارا کرنے والوں کے پاس بھاری رقم کہاں ہوتی ہے، ہمارے ملک کے غریبوں کی محنت کی کمائی کی دولت ان ڈاکوؤں کے قبضے میں ہوتی ہے جو سرمایہ دار ہوتے ہیں، جاگیردار ہوتے ہیں، صنعتکار ہوتے ہیں، ان طبقات کے قبضے میں ملک کی اسی(80) فیصد دولت ہوتی ہے۔ غریب عوام کی اس دولت کو یہ طبقات عیاشیوں پر اڑاتے ہیں ملک کے اندر اور ملک کے باہر اعلیٰ درجے کی عیاشی کے لیے بے پناہ دولت درکار ہوتی ہے اور غریب کے پاس روٹی کے لیے ہی پیسہ نہیں ہوتا وہ عیاشی کے لیے پیسہ کہاں سے لاسکتا ہے؟

پاکستان کی حکومت کورونا کی وجہ سے جو لوگ بے روزگار ہوئے ہیں ان کی بھرپور مدد کر رہی ہے دو مہینوں کے اندر دو مرتبہ بارہ بارہ ہزار روپے فی خاندان دیے گئے ہیں، اب تیسری بار بارہ ہزار فی خاندان امداد دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پاکستان جیسے غریب اور پسماندہ ملک کے لیے کورونا کی وبا ایک بڑی آزمائش سے کم نہیں۔ حکومت جہاں جہاں ممکن ہو عوام کی مدد کی کوشش کر رہی ہے اس حوالے سے حکومت نے مئی سے تین ماہ کے بجلی کے بل خود یعنی حکومت کی طرف سے دینے کا اعلان کیا ہے جو ایک قابل ذکر امداد ہے۔ ایک اور امداد اس طرح کی گئی ہے کہ نجی اسکولوں کی فیسوں میں 20 فیصد کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پانی، گیس اور کرایوں میں رعایت کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔

مالکان عام طور پر کسی ہنگامی صورت حال میں یا ذرا سے معاشی دباؤ کی وجہ اپنے ملازمین کو فارغ کرنے کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔ مالکان کے اس ممکنہ اقدام سے ملازمین کے تحفظ کے لیے ملازمین کو ملازمتوں سے نہ نکالنے کا آرڈیننس بھی جاری کردیا ہے۔ بلاشبہ یہ امداد اور تحفظات موجودہ حکومت ہی میں دیکھے گئے ہیں۔ مشکل بات یہ ہے کہ عوام کی مدد کے لیے اٹھائے جانے والے ان اقدامات کی تعریف اور حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ہماری اپوزیشن ڈھونڈ ڈھونڈ کر حکومتی کاموں میں کیڑے نکال رہی ہے اس قسم کی اوچھی حرکتیں کوئی ذی شعور اپوزیشن نہیں کرسکتی۔

جب یہ بات طے ہے کہ کورونا کا اب تک کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا اور جو کچھ کرسکتے ہیں وہ عوام ہی کرسکتے ہیں یعنی احتیاط، تو پھر حکومت کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو تفصیل سے احتیاط کا مطلب سمجھائے اور احتیاط پر عملدرآمد کو یقینی بنائے۔ عام آدمی احتیاط کا جو مطلب لے رہا ہے وہ ہاتھ ملانے سے گریز اور کسی بھی حوالے سے گلے ملنے پر پابندی لیا جا رہا ہے ،لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان دونوں پابندیوں پر جزوی عملدرآمد ہو رہا ہے جب کہ عوام کی اکثریت ان دونوں اہم نکات پر توجہ دینے اور عمل پیرا ہونے کے لیے تیار نہیں ہو رہی ہے۔ اگرچہ عوام کی اس لاپرواہی اور غیر ذمے داری کی ذمے داری عوام پر عائد ہوتی ہے لیکن ہمارے عوام شیراں دے پتر شیر کے مصداق اس حوالے یعنی احتیاط کے حوالے سے ذرہ برابر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔

اس غیر ذمے داری کا مظاہرہ عوام اس لیے کر رہے ہیں کہ انھیں ابھی تک کورونا کی تباہ کاریوں کا ہی اندازہ نہیں۔ اس حوالے سے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ کورونا وائرس سے بیمار ہونے کے دوران اس کی تکلیف دہ کیفیات اور اس وبا سے متاثر ہوکر انتقال کر جانے والوں کے لواحقین کی اذیتناکی اور معاشی مسائل سے عوام کو بھرپور طریقے سے واقف کرائے اس حوالے سے الیکٹرانک میڈیا سے کام لے ۔

بعض افراد اور حلقوں کی جانب سے اس کی مخالفت کی جائے گی لیکن اس کی وجہ اس المیے کی تفصیل سے عوام کی ناواقفیت ہی ہوسکتی ہے۔ بلاشبہ دل دوز حقائق سے عوام میں ایک طرح کی مایوسی پیدا ہوسکتی ہے لیکن بھاری تعداد میں عوامی جانی نقصان سے متعلقین کو جس ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ،اس کا تقاضا ہے کہ حکومت میڈیا کے ذریعے کورونا سے ہونے والے جانی نقصانات اور متعلقین کو پیش آنے والی مشکلات سے آگہی کے بعد بلاشبہ عوام احتیاط کے حوالے سے کی جانے والی غیر ذمے داری اور نقصانات سے واقف ہوں گے تو لازماً احتیاط پر عمل کریں گے۔

حکومت اس حوالے سے اپوزیشن کے رویے کا نوٹس نہ لے کیونکہ کورونا نے حکومت اور اپوزیشن کی کارکردگی سے عوام کو باخبر کردیا ہے۔ اپوزیشن کے پاس اس وقت سوائے حکومت پر بے جا تنقید کے علاوہ کچھ نہیں کررہی ،جس کا احساس اب عوام کو اچھی طرح ہو رہا ہے۔ عوام کو اب ان تصورات سے باہر نکلنا چاہیے کہ کورونا عوام کے گناہوں کی سزا ہے۔ کورونا دوسری وبائی بیماریوں کی طرح ایک وبائی بیماری ہے چونکہ اب تک اس وبا کا علاج دریافت نہیں ہو سکا اور نقصانات لاکھوں جانوں کی شکل میں آ رہے ہیں اس لیے حکومت کو اس حوالے سے ہونے والے شدید اور خوفناک نقصانات سے عوام کو آگاہ کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اس خوفناک وبا کے خلاف سہل پسندی سے کام نہ لیں۔

The post عوام کا بچکانہ رویہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2VR7U2L
via IFTTT

ولیم شیکسپیئر ایکسپریس اردو

دنیا کے تمام ادباء اور شعراء میں سے اگر کوئی شاعر عالمی سطح پر سب سے زیادہ جانا اور پہچانا جاتا ہے تو وہ شیکسپیئر ہے۔ڈاکٹر جانسن نے ولیم شیکسپیئر کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ He was not for age, but for all time.وہ کسی ایک دور کے لیے نہیں بلکہ تمام ادوار کے لیے ہے۔آج شاید ہی کوئی ایسا پڑھا لکھا شخص ہو جس نے شیکسپیئر کا نام نہ سنا ہو۔شیکسپیئر انگریزی زبان کا وہ واحد شاعر اور ڈرامہ نویس ہے جسے پوری دنیا جانتی ہے اور جسے ہر جگہ پڑھا جاتا ہے۔اس کی بڑائی کو سبھی مانتے ہیں۔

بہت بڑے بڑے لکھنے والوں کی رائے میں انسانی زندگی کے دکھ سکھ کا جتنا احاطہ شیکسپیئر نے کیا ہے اتنا کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ دنیا کی تمام لائبریریوں میں اس کے فن پارے رکھے جاتے ہیں بلکہ دنیا کی کوئی بھی لائبریری اس کے فن پاروںخصوصی طور پر اس کے المیہ ڈراموں Tragedies کے بغیر نا مکمل سمجھی جاتی ہے۔ شیکسپیئرکے ڈراموں پر بے شمار مضامین اور کتابیں لکھی گئی ہیں اور لکھی جاتی رہیں گی۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کے ڈراموں پر لکھی جانے والی کتابیں اس کے ڈراموں سے کئی ہزار گنا زیادہ ہوں گی۔صرف اس کے ایک ڈرامے ہیملٹ پر 1970 تک دس ہزار سے زیادہ کتابیں اور مضامین لکھے جا چکے تھے۔

شیکسپیئر جتنا بڑا شاعر اور ڈرامہ نویس ہے اس کے مقابلے میں اس کی ذاتی زندگی پر بہت کم معلومات ملتی ہیں۔وہ جان شیکسپیئر اور میری آرڈن کے گھر اپریل 1564میں پیدا ہوا۔بالکل صحیح تاریخِ پیدائش کی ابھی تک جان کاری نہیں ہو سکی لیکن اس کی جائے پیدائش stratford- upon avonاسٹریٹفورڈ ایون ،جو لندن سے لگ بھگ کوئی ایک سو میل دریائے ایون  کے کنارے واقع ایک بستی تھی ،کے مقامی گرجا گھر میں 26اپریل 1564کو ولیم شیکسپیئر کا اندراج ہوا۔ اس کی والدہ کی تھوڑی سی زمین تھی اور اس کے والد دستانے بنانے کا کام کرتے تھے۔یہ دستانے بہت پسند کیے جاتے تھے لیکن ان سے کوئی خاص آمدنی نہیں ہوتی تھی البتہ جان شیکسپیئر مقامی انتظامیہ میں ایک عہدیدار رہے لیکن بعد میں وہ یہ حیثیت کھو بیٹھے۔

شیکسپیئر کے تین بھائی اور دو  بہنیں تھیں۔اسے ڈرامے دیکھنے کا جنون تھا۔شیکسپیئر کو غالباً 13سال کی ہی عمر میں اسکول سے اُٹھا لیا گیا۔ اٹھارہ سال کی عمر میں 28نومبر1582کو اس کی شادی  26سالہ این ہیتھ اوےAnn Hath Awayسے ہو گئی۔وہ اس شادی پر کوئی خاص رضا مند نہیں تھا لیکن  این نے کمال ہوشیاری سے ایسے حالات پیدا کر دئے کہ شیکسپیئر کے لیے اس شادی سے اعراض ممکن نہ رہا۔ شیکسپیئر کے گھر تین بچے پیدا ہوئے۔

ڈراموں کے شوق میں شیکسپیئر اپنے گھر سے  دور لندن پہنچ گیا۔وہاں تھیٹر کمپنیوں میں چھوٹے موٹے کام کرتا کرتا کمائی کرنے کے قابل بن گیا۔ 1590 میں وہ لندن کی ایک مشہور تھیٹر کمپنی لارڈ چیمبرلین کمپنی کا پارٹنر بن گیا یہی کمپنی بعد میں کنگز کمپنی میں تبدیل ہو گئی۔ 1597تک اس کے پاس اتنی آمدنی ہونی شروع ہو گئی تھی کہ اس نے اسٹریٹفورڈ میں نیو ہائوس نامی شہر کا دوسرا بڑا گھر خرید لیا،1599میں اس نے اپنے ساتھی فنکاروں کے ساتھ مل کر گلوب تھیٹر کمپنی کی بنیاد رکھی ۔گلوب تھیٹر بعد میں لندن کا اہم لینڈ مارک بن گیا۔

شیکسپیئر کی زندگی کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس کی اپنی زندگی میں اس کے ڈرامے چھپ نہ سکے۔ اس کی موت کے چند سالوں بعد اس کے دو اداکار ساتھیوں نے اس کے دو ڈرامے چھپوا کر مارکیٹ میں پہنچائے جہاں سے لوگ اس کے کام سے متعارف ہونے شروع ہوئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کے ڈرامے ہاتھوں ہاتھ لیے جانے لگے۔

برطانوی فتوحات کے نتیجے میں برطانوی نوآبادیوں کا ہر طرف ایک نیٹ ورک قائم ہو گیا اور ایک وقت ایسا آ گیا کہ برطانوی سلطنت پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ان فتوحات کے ساتھ ساتھ انگریزی ادب بھی پھیلا اور شیکسپیئر کی مشہوری کا چار دانگ عالم ڈنکا بجنا شروع ہو گیا۔ اب دنیا کا ہر آدمی شیکسپیئر کو اپنے اندر کے حال کا نمایندہ ترجمان سمجھتا ہے۔اس کی شہرت تمام علاقائی سرحدیں عبور کر چکی ہے، وہ بین الاقوامی سچائیوں کا نمایندہ  ڈرامہ نویس بن گیا ہے۔برطانیہ میں تو اسے قومی شاعر کی سی حیثیت حاصل ہے۔

شیکسپیئر کی شاعری نے اس کے ڈراموں کو بے انتہا حسن بخشا۔اس کی خوش قسمتی تھی کہ کرسٹوفرمارلو  Christopher Marlowe اپنے مشہور ڈرامے ڈاکٹر فاسٹس Doctor Faustusمیں بلینک ورس Blank Verseکا کامیابی سے استعمال کر چکا تھا۔ بلینک ورس شاعری کی ایک بہت عمدہ اور طاقتور صنف کے طور پر ابھری جس نے شاعر کو اظہار کے لیے بہت گنجائش فراہم کی، شیکسپیئر نے اپنے ڈراموں میں بلینک ورس کا اتنی خوبصورتی سے استعمال کیا کہ اس صنف کو چار چاند لگا دیے۔ٹی ایس ایلیٹ کا خیال ہے کہ اپنی خوبصورت شاعرانہ خصوصیات کی بدولت شیکسپیئر جارج برنارڈ شا اور اِبسِن سے بہت بڑا ڈرامہ نویس ہے۔

ڈاکٹر جانسن کی طرح ٹی ایس ایلیٹ کا بھی خیال ہے کہ وہ ایک عہد سے وابستہ نہیں بلکہ تمام ادوار کا بڑا ڈرامہ نویس ہے۔ شیکسپیئر کواُس وقت بڑی کامیابی ملی جب 1603میں اس نے اپنا نام اداکاروں کی اس فہرست میں درج کروالیا جو بادشاہ جیمز اول کے منظورِ نظر تھے۔شیکسپیئر اپنی بستی کو کبھی نہیں بھُولا۔1597میں بستی کا دوسرا سب سے بڑا گھر خریدا اور پھر 1604 کے لگ بھگ لندن سے واپس اسٹریٹفورڈ آ گیا جہاں 25اپریل 1616کو مختصر سی علالت کے بعد فوت ہو کر ٹرینٹی چرچ میں دفن ہوا، وہ اپریل میں پیدا ہوا اور اپریل ہی میں اس دنیا سے رخصت ہوا۔اس نے اپنی جائیداد کا زیادہ تر حصہ بیٹی سوسان کے نام کیا۔

شیکسپیئر نے کُل37 ڈرامے لکھے۔اس کے ڈراموں کو عمومی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔اس کے المیہ ڈراموں میں سے کنگ لیئر،ہیملٹ،میکبتھ اور اوتھیلو، کامیڈی ڈراموں میں سے ٹویلتھ نائٹ، مرچنٹ آف وینس،ٹیمنگ آف شریو،کامیڈی آف ایررز اور تاریخی ڈراموں میں سے رچرڈ 3،ہنری ہشتم،جولیس سیزر اور انٹونی اینڈ قلوپطرہ کو  مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔شیکسپیئر کا ہر ڈرامہ کامیڈی ہو کہ ٹریجیڈی انسانی جذبات کی ایک روداد ہے ،اس کی سیکڑوں لائنیں زبان زدِ عام بن چکی ہیںچند لائنیں دیکھیں،The time is out of joint.Empty vessels make much noise.Nothing will come out of nothing.Brevity is the soul of wit.Music is the food of love. To be or not to be.

شیکسپیئر کے تقریباً تمام ہی ڈراموں میں پلاٹ کو  وہ اہمیت نہیں جتنی اہمیت کرداروں کو حاصل ہوئی۔ اس کے کردار جیسے کنگ لیئر ،ہیملٹ ،لیڈی میکبتھ ہمارے ذہنوں پر چھا جاتے ہیں۔

شیکسپیئر نے اپنے لازوال ڈراموں کے علاوہ  نظمیں بھی لکھیں جو سانٹsonnetکی فارم میں ہیں۔ شیکسپیئر کی سانٹ چودہ لائنوں چار،چار، چار اور دو لائنوں پر مشتمل ہے۔ شیکسپیئر نے کل 154 ایسی نظمیں لکھیں۔ پہلی ایک سو پچیس سانٹ نظمیں fair youthکی محبت میں ہیں جب کہ 126 سے 152تک ڈارک لیڈی  آف سانٹ سے مخاطب ہیں۔ آخری دونوں سانٹ محبت کے دیوتا کیوپڈ کے لیے ہیں۔

شیکسپیئر انسان کی زندگی کو اپنے ڈراموں کا موضوع بناتا ہے یوں وہ خالص ادب تخلیق کرتا ہے کیونکہ ادب  زندگی سے ہی متعلق ہے۔شیکسپیئر ڈرامہ لکھتے ہوئے کرداروں پر اپنے فیصلے صادر نہیں کرتا۔نہ تو اُس نے کوئی اصلاحی تحریک چلائی اور نہ ہی وہ مبلغ کے رُوپ میں سامنے آیا۔وہ تو اپنے کرداروں کو خوش ہوتے،دُکھ سہتے،ہنستے گاتے اور روتے دکھاتا ہے۔نہ ان کی حماقتوں پر ہنستا ہے اور نہ ہی ان کے جرم کو اچھالتا ہے۔وہ انسانوں کو ان کی برائیوں،دغابازیوں اور کمینگیوں کے باوصف ہمدردی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں وہ زندگی کے حسن اور بدصورتی کو نمایاں کرتا ہے،وہ زندگی کا ڈرامہ نویس ہے۔

The post ولیم شیکسپیئر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2SEZgCP
via IFTTT

’’ارطغرل ‘‘ پاکستان بھی ایسی پروڈکشن پیش کر سکتا! ایکسپریس اردو

آج کل پاکستان کے اُفق پر ایک ترکی ڈرامہ ’’ارطغرل‘‘ چھایا ہوا ہے، جو سرکاری ٹی وی سے اردو زبان میں نشر ہو رہا ہے، تاریخ سے میرا خاص لگائو اور خاص الخاص رشتہ ہونے کے ناطے مجھے اس طرح کے ’’سیزن‘‘ خاصے اچھے لگتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اس ڈرامے میں ایسی کیا خوبی ہے کہ ہم جیسے لوگ اس کے لیے تعریف کر رہے ہیں؟حقیقت میں یہ ایک بہترین پلاٹ کی گئی اسٹوری ہے، جسے میں ترکی کی ایک بہترین پروڈکشن کہوں گا۔ترکی میں صرف یہ ایک ہی ڈرامہ نہیں ہے بلکہ ایسے بہت سے ڈرامے تیار کیے جارہے ہیں جو ترک قوم کو ان کی تاریخ سے جوڑتے ہوئے تاریخ سے روشناس کروا رہے ہیں۔ اور شاید ترکی پہلا اسلامی ملک ہے جوبین الاقوامی معیار کے سیزن بنا رہا ہے اور جسکی پوری دنیا معترف بھی ہو چکی ہے۔

اور کم از کم مغرب کو اسلام کے حقیقی روپ کے بارے میں علم ہو رہا ہے۔ورنہ ہر ہالی ووڈ، بالی ووڈ اور دیگر انٹرنیشنل فلم انڈسٹریز میں مسلمانوں کو معذرت کے ساتھ جوتے پڑتے ہی دیکھا گیا ہے۔ خیر اگر ہم ارطغرل کی بات کریں تو اس کہانی میں ترکی کے خانہ بدوش قبیلے ـ’’قائی‘‘ کی کہانی ہے۔

قائی قبیلہ ایک جنگجو قبیلہ ہے جو ایک طرف بے رحم موسموں کے نشانے پر ہے اور دوسری جانب منگولوں اور صلیبیوں کے نشانے پر ہے۔ ہمت و جرات کی یہ عجیب داستان ہے کہ چرواہوں کا یہ خانہ بدوش قبیلہ جو جاڑے کے بے رحم موسم میں قحط سے بچنے کے لیے حلب کے امیر سے ایک زرخیز چراگاہ میں قیام پزیر ہونے کی اجازت مانگ رہا ہوتا ہے آگے چل کر ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھ دیتا ہے جو آٹھ سو سال قائم رہتی ہے۔

’’ارطغرل‘‘ قائی قبیلے کے سردار سلمان شاہ کا بیٹا ہے۔ وہ منگولوں سے بھی لڑتا ہے اور صلیبیوں سے بھی۔ وہ اوغوز ترک قبائل کو یوں ایک لڑی میں سمو دیتا ہے کہ پھر چرواہوں کے اس قبیلے کی ایک اپنی سلطنت ہوتی ہے اور ارطغرل کا بیٹا عثمان اس سلطنت عثمانیہ کا پہلا بادشاہ ہوتا ہے۔ چرواہوں کا قائی قبیلہ ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیاد کیسے رکھتا ہے اس غیر معمولی جدو جہد کی داستان کا نام ’’ارطغرل‘‘ ہے۔ ترکی نے بلاوجہ یہ ترقی حاصل نہیں کی۔ ارطغرل ڈرامہ دیکھتے ہوئے خوب معلوم ہو جاتا ہے کہ ترک سماج آرٹ اور کلچر میں کتنا آگے جا چکا ہے۔ ڈرامہ دیکھتے ہوئے آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ پلاٹ کی تعریف کرے، اداکاروں کی تعریف کرے یا پروڈکشن کے معیار پر ششدر رہ جائے۔

کچھ لوگ اس ڈرامہ سیریل کو ہالی ووڈ ڈرامہ سیریل ’’گیم آف تھرون‘‘ کے ساتھ موازنہ کررہے ہیں، یہ درست نہیں۔ دونوں مختلف انداز کے سیزن ہیں، ان کے وسائل میں بے پناہ فرق ہے۔ گیمز آف تھرون HBOکا ڈرامہ سیزن ہے، انھوں نے کروڑوں ڈالر خرچ کیے اور اس سے بہت زیادہ کمایا۔ انھیںبہت سے منجھے ہوئے اور بڑے فنکاروں، جدید ٹیکنالوجی کا ایڈوانٹیج حاصل تھا۔اس کی کہانی میں تمام کردار خیالی تھے، ڈریکولا بھی خیالی تھا جس کا حقیقی زندگی کے ساتھ تعلق نہیں بنتا۔ مگر ارطغرل اتنے بڑے بجٹ کا ڈرامہ سیریل تو نہیں مگر اس کے ڈائریکٹر ابراہیم ایرن بتاتے ہیں کہ یہ بیک وقت 60ممالک میں مختلف زبانوں میں دیکھا جا رہا ہے۔

المختصر یہ کہ یہ ڈرامہ فنی اعتبار سے تو یہ ایک شاہکار ہے ہی ، اس کی ایک اور خوبی بھی ہے۔ یہ مسلمانوں پر مسلط کردہ احساس کمتری کا طلسم کدہ توڑ کر پھینک دیتا ہے۔ خانہ بدوش قبیلے کے اس ڈرامے کی چند اقساط دیکھ کر آپ کے اندر سے وہ احساس کمتری دھیرے دھیرے ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے جو مغرب اور اس کے رضاکاروں نے بڑے اہتمام سے مسلم سماج میں پھیلا رکھا ہے۔ یہاں تک کہ ایک وقت آتا ہے کہ آپ کو مسلم تہذیب کے رنگوں پر فخر محسوس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ڈرامے کا یہ تہذیبی پہلو  اتنا شاندار ہے کہ 2017 میں طیب اردوان کی جب ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات متوقع تھی تو نیویارک ٹائمز میں ولیم آرمسٹرانگ نے لکھا کہ طیب اردوان اور ترکی کی نفسیات جاننے کے لیے ’ارطغرل‘ ڈرامہ دیکھ لیجیے۔

ارطغرل ڈرامہ سب سے پہلے 2014 میں نشر کیا گیا تھا، اسے Takden Filmنامی پروڈکشن کمپنی نے بنایاتھا۔ اس سیریل کا سب سے پہلے آئیڈیا پیش کرنے والے مہمت بزداگ کہتے ہیں کہ انھوں نے بہت کم بجٹ سے اس کا پہلا سیزن مکمل کیا جس کے لیے بہت سے سپانسرز سے رابطہ کیا‘ ہم نے پہلا سیزن مکمل کیا اور لانچنگ کے بعد اس پہلے سیزن کی کمائی سے ہم نے اگلا سیزن بنایا۔ یعنی اگر انسان کچھ کرنا چاہے تو بہت کم وسائل میں بھی کچھ کر سکتا ہے۔

حکومت کو بھی چاہیے کہ اس طرح کے سیریلز میں معاونت کرے، اچھی پروپوزل پر کام کرے، اور سپانسر بھی کرے۔ لیکن پہلی شرط یہ ہے کہ کیا آپ کا پلان کسی کے دل میں گھر کرتا ہے یا نہیں!المیہ یہ بھی ہے کہ ہم لوگ ساس بہو کے ڈراموں سے باہر ہی نہیں نکل سکتے، میں نے ایک دوست پروڈیوسر سے پوچھا کہ آپ لوگ ایسے ڈرامے کیوں بناتے ہیں جس سے ہماری گھریلو انوسٹی گیشن آفیسر بن جاتی ہیں۔ بات بات پر بال کی کھال ادھیڑنے تک چلی جاتی ہیں تو موصوف فرمانے لگے، ہمارا تو یہی کچھ بکتا ہے بھائی جان۔ ہمارے لوگوں میں تعلیم نہیں ہے اس لیے وہ ایسے ڈراموں کو زیادہ پسند کرتے ہیں جس میں سازش کی ’’بو‘‘ آئے۔

اور پھر اہم بات یہ کہ پاک و ہند جتنا بڑا خطہ ہے یہاں سے تو کہانیاں بھی بہت سی جنم لے سکتی ہیں، یعنی یہاں تو بہت کچھ بیچا جا سکتا ہے۔ ہم بھی اسی طرز کی کئی ایک ڈرامہ سیریل بنا سکتے ہیں، ہمارے پاس تو شاید ترکی سے زیادہ کہانیاں موجود ہیں جو اس سرزمین پر رونماء ہوتی رہی ہیں۔ سیکڑوں کہانیاں اور سلطنیتیں ایسی ہیں جنھیں لوگ پڑھنا ، دیکھنا اور خریدنا چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس ایسے بہت سے ’’سکندر‘‘ غازی، مجاہد، اور بادشاہ گزرے ہیں جن پر کئی ایک سیزن بن سکتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ ہمیں ساس بہو کے جھگڑوں، ایک خاوند کی دوشادیوں، نندوں کے بھابیوں پر مظالم، عورت عورت کی دشمن یا مرد باوفا یا عورت بے وفا جیسی کہانیوں کے چنگل سے نکلنا پڑے گا۔

یقین مانیں ہماری ڈرامہ انڈسٹری نے تو خوامخواہ رشتوں میں شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں، بھائی کو بھائی پر شک کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے، دوستی جیسے رشتوں کو رسوا کر دیا گیا ہے۔ داماد،سسر کی جائیداد پر نظر رکھے ہوئے ہے، بیٹا باپ کا جانی دشمن بنا بیٹھاہے، بیٹی ساس کی جانی دشمن بن بیٹھی ہے۔ اور تو اور ہماری خواتین ایسی کہانیوں کواپنی حقیقی زندگی میں عملی جامہ پہناتے نظر آتی ہیں، مثلاََ اکثر خواتین جب ان ڈراموں سے فراغت حاصل کرتی ہیں تو ’’خاوند‘‘ حضرات انھیں کسی بھی فلم کے بدترین کردار کے طور پر نظر آرہے ہوتے ہیں، جب کہ وہ خود کو ڈرامے کا سب سے مظلوم کردار تصور کرکے اندر ہی اندر کڑھتی رہتی ہیں۔

کئی احباب کا تو حال یہ ہوتا ہے کہ گھر میں موجود دور پڑے موبائل کو بھی وہ دیکھ لے اور بیگم کی نگاہ اُس غریب پر پڑجائے تو گھر میں بلاوجہ کی لڑائی کا آغاز ہو جاتا ہے، کیوں کہ بیگم یہی سوچ رہی ہوتی ہے کہ آیا اس نے موبائل کو بلاوجہ نہیں دیکھاہوگا، یقینا اسے کسی کے فون کا انتظار ہوگا۔

یعنی سمجھ سے باہر ہے کہ ہم کس کلچر کو پروموٹ کر رہے ہیں ؟اور پھر ہمارے ذہن ایسے بن گئے ہیں کہ ہم میں سے کئیوں نے ارطغرل کی کہانی کو بھی فراڈ سمجھ لیا ہے اور اسے ہم اب ترکی کی سازش قرار دے رہے ہیں۔ ہم یہ نہیں سوچ رہے کہ جب ہم نے ایک چیز کو ’’ڈرامہ‘‘ کہہ دیا تو اس کو انجوائے کریں تاریخ کو پرکھیں خود کھوج لگائیں، کہ حقیقت کیا ہے۔ اور پھر اسے دیکھتے ہوئے ذہن میں رکھیں کہ یہ ایک ’’ڈرامہ‘‘ ہے اسے سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں!لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اگر میزائلوں کے نام غزنوی، غوری، شاہین، بابروغیرہ رکھ سکتے ہیں تو ان کے ڈرامے کیوں نہیں بنا سکتے، تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہم کوشش ہی نہیں کرتے۔

21 ویں صدی میں بہانے تراش رہے ہوتے ہیں کہ جگہ نہیں مل رہی۔ حالانکہ اس دور میں آپ کو کسی رجسٹرڈ میڈیا ، پروڈکشن ہاؤس یا میگزین کی ضرورت نہیں ہے، یہاں آپ بغیر کسی رکاوٹ کے اپنا کام انجام دے سکتے ہیں، لیکن کام مثبت ہونا چاہیے، کسی کی دل آزاری نہیں ہونی چاہیے، تاریخ وہی صحیح جانتا ہے جو تاریخ سے شغف رکھتا ہو، جسے تاریخ سے محبت ہو۔ لہٰذاپاکستان کے ڈرامہ نگاروں اور پروڈکشن کے لوگوں سے میری گزارش ہے کہ انسانی دماغ تاریخ کو رنگوں کے ساتھ یاد رکھتا ہے، ناکہ لکھی پڑھی تاریخ انسان کو یاد رہتی ہے، اسی لیے ایسی کہانیاں ہمیں برسوں یاد رہتی ہیں جنھیں ہم ٹی وی اسکرین پر دیکھتے ہیں، اس لیے ہمیں اپنی کہانیاں تراشنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنا کلچر بھی پروموٹ کر سکیں اور پیسہ بھی کما سکیں!

The post ’’ارطغرل ‘‘ پاکستان بھی ایسی پروڈکشن پیش کر سکتا! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2SnQybS
via IFTTT

یکم مئی کے شہیدوں کو سرخ سلام ایکسپریس اردو

چھو رہے تھے ظا لموں کے سر میرے پائوں کے ساتھ

کس قدر اونچا تھا میں سولی پہ چڑھ جانے کے بعد

آج سے ایک سو چونتیس برس قبل امریکا کے صنعتی شہر شکاگو میں ہزارہا مزدور امنڈ آئے تھے۔ مزدوروں کے مطا لبات یہ تھے کہ کام کے او قات آٹھ گھنٹے مقرر کر نا، کام کی جگہ پر سہو لتیں مہیا کر نا،کم عمر بچوں سے کام نہ لینا، خواتین کو مرد مزدوروں کے برابر تنخواہ دینا ،وغیرہ شا مل تھے۔ اس جلسے سے انارکو کمیو نسٹ کار کنان آگسٹس، البرٹ سیموئل، فیشر اور فلڈن وغیرہ نے خطاب کیا۔ جلسہ پر امن تھا۔

فلڈن کے خطاب کے دو ران سر کا ری اہلکا روں میں سے کوئی سادہ لباس میں مزدوروں میں گھس آ یا اور پولیس پر بم پھینکا، جس کے نتیجے میں فلڈن نام کا ایک پو لیس افسر ہلاک ہو گیا۔ اس کے بعد پو لیس نے جلسے کے حاضرین پر گو لیاں بر سا دیں، جب کہ آخری مقرر فلڈن نے اپنی تقریر کے بعد اجتماع کو پر امن طور پر منتشر ہو نے کی اپیل کی۔ بہر حال پو لیس کی گولیوں سے متعدد مزدور شہید ہو گئے اور چھ کو گرفتار کر لیا گیا، پھر سات ماہ بعد نومبر میں ایک جا نبدار عدالت نے مزدور رہنما ئوں کو سزا ئے موت سنا دی ، ایک کامریڈ لنک نے پہلے ہی خود کشی کر لی تھی۔

بعد میں شدید احتجاج کے بعد فلڈن کی سزا ئے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا اور چار کو جب سفید رنگ کے کفن نما کپڑے پہنا کر تختہ دار پر لے جا یا جا رہا تھا تو وہ مزدوروں کا عا لمی ترا نہ گا تے جا رہے تھے۔ اس ترانے کو شاعر اژینو پو تو نے لکھا تھا، جسے کرا چی کے محمد میاں نے اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ شروع کے دو اشعار کچھ یوں ہیں۔

زمین کے بد بخت ساکنوں بھوک کے نا دار قیدیو، اٹھو کہ اب آ نے وا لا ہے نیاچلن، ہم کچھ نہیں تھے اب سب کچھ ہونگے، گا ئو انٹر نیشنل۔جب ان مزدور رہنمائوں کو تختہ دار پر کھڑا کر دیا گیا تو آگسٹس نے یہ نعرہ لگا یاکہ ہرے انارکزم۔ دوسرے ساتھی البرٹ نے جب مزید کچھ بولنا چا ہا تو جلاد نے تختے کی رسی کھینچ دی۔ ایک کے گلے میں رسی ا س کی ہڈی میں پھنس گئی جس سے وہ کچھ دیر لٹکتا رہا اور پھر پھانسی کے پھندے پر جھول گیا۔ سلام ہے تم پر کہ اپنی جان کو دا ئو پر لگاکر آج دنیا بھر میں بارہ اور چودہ گھنٹے کی ڈیو ٹی کو آٹھ گھنٹے میں تبدیل کر وا دی۔

پاکستان اور پسماندہ ملکوں میں آج بھی بیشتر مزدوروں سے بارہ گھنٹے کام لیا جا تا ہے۔ یکم مئی اٹھارہ سو چھیا سی میں مزدور فیڈریشن کی کال پر شکاگو سمیت امریکا کے متعدد شہروں میں لا کھوں مزدوروں نے ہڑ تال کی، ان سے یکجہتی کے لیے دنیا بھر میں مزدوروں نے بھی ہڑ تال کی۔ آج اقوام متحدہ نے آٹھ گھنٹے کی ڈیو ٹی کو قا نو نی درجہ دے دیاہے اور عا لمی طور پر یکم مئی کو چھٹی کا اعلان کیا ہے۔ پھر بھی بعض مسلم ممالک اور جا پان میں یکم مئی کی چھٹی نہیں ہو تی۔ اس لیے کہ یہاں ملا ئیت،بادشاہت اورمزدور دشمن حکومتیں ہیں۔

انار کسٹوں کو پھانسی دینے پر شکاگو کے گور نر نے بیان جا ری کیا تھا کہ پھانسی پا نے والے معصوم اور بے قصورتھے۔حے مارکیٹ کے جلسے سے گرفتار کیے گئے دو افراد کا امریکا سے،دو کا جر منی سے، ایک کا آئر لینڈ سے اور ایک کاانگلینڈ سے تھا۔اتنی عظیم قر با نیاں دینے اور دنیا بھر میں پیدا واری قوتوں، محنت کشوں اور شہریوں کو فا ئدہ پہنچا نے وا لوں کے بارے میں سکہ بندبیشتر کمیو نسٹ اور سو شلسٹ ان شہدا کے انار کسٹ ہو نے کا ذکر تک نہیں کر تے۔

جب انیس سو انیس میں سامراجی ملکوں نے روس پر حملہ کیا تھا اور فرانس، زار شاہی کی مدد کر نے کے لیے جہاز پر اسلحہ لا دے جا رہے تھے تو فرانس کے انار کسٹوں نے ہڑتال کر دی اور مزدوروں نے اسلحہ کی لو ڈنگ روک دی تو دنیا بھر کے مطلق کمیونسٹوں اور سو شلسٹوں نے انار کسٹوں کے اس اقدام کو سراہا اور جب زار شاہی کو شکست ہو گئی توان ہی کمیو نسٹوں اور سو شلسٹوں نے انار کسٹوں کو پھا نسی پہ لٹکا یا، قید کیا، تشدد کیااور ملک بدر کیا۔ یہی صورتحال یو کرائن میں انیس سو بائیس میں اور اسپین میں انیس سو انتا لیس میں پیش آئی۔ یو کرائن میں انیس سو اٹھارہ سے انیس سو بائیس تک اور اسپین میں انیس سو چھتیس سے انیس سو انتا لیس تک انار کسٹوں نے اپنی انتظامیہ قائم کر رکھی تھی۔

روس کی حکو مت اور کمیو نسٹ پارٹی نے انیس سو بائیس میں یو کرا ئن اور انیس سو انتالیس میں اسپین میں مدد کر نے کے بہا نے قبضہ جما یا اور انار کسٹوں کا قتل کیا،تشدد کیااورمطلق حکمرا نی قائم کر کے آ زاد اور غیر طبقا تی نظام کا خاتمہ کیا۔واضح رہے کہ انیس سو اٹھارہ سے انیس سو بائیس میں یوکرائن اور انیس سو چھتیس سے انتالیس تک اسپین میں جب تک انارکسٹوں کی انتظامیہ تھی۔بر صغیر کے معروف انار کسٹ کامریڈ بھگت سنگھ کو کمیو نسٹوں اور سوشلسٹوں نے انار کسٹ ہو نے کا در جہ دیا اور نہ وہ عزت جب کہ وہ آ زادی کے لیے پھانسی پر لٹک گئے۔

اب ہمیں اس ڈانواں ڈول کیفیت سے نکلنا ہو گا۔ اس سنگین صورتحال میں نیشنل ٹریڈ یو نین فیڈریشن اور ہوم بیس وو مین ور کرز فیڈریشن انتہا ئی سر گرم عمل ہے۔ ہزاروں ضرورت مند مزدوروں میں را شن تقسیم کر رہی ہے اور جان بچا نے کے لیے ایدھی فا ئونڈیشن سے تعاون کر رہی ہے۔ مو ثر پیش قدمی کر نے وا لوں میں نا صر منصور، زہرہ خان، سجاد ظہیر اور خضر قاضی وغیرہ شا مل ہیں۔ ایدھی فائونڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی قرنطینہ میں وقت گزار رہے ہیں، انھوں نے اعلان کیا ہے کہ میں صحت مند ہو کر کار کنوں کے ساتھ کام میں لگ جائوں گا۔نیشنل ٹریڈ یو نین فیڈریشن یوم مزدور کو کراچی سمیت ملک بھر میں منائے گی۔

The post یکم مئی کے شہیدوں کو سرخ سلام appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2SoHXWk
via IFTTT

فتنہ ابلاغ اورکرسیوں کے کیڑے ایکسپریس اردو

محترم ڈاکٹر اے آرخالد کی دوکتابیں پڑھ کر اس وقت ہم فارغ ہوچکے ہیں ،ایک کانام ہے ’’فتنہ ابلاغ‘‘جب کہ دوسری کا عنوان ہے ’’کرسیوں کے چند کیڑے ملک سارا کھاگئے‘‘

محترم خالد صاحب ایک معروف لکھنے والے ہیں اورصحافت کا ایک طویل تجربہ رکھتے ہیں اس لیے ان دونوں کتابوں میں وہی کچھ ہوگا اورہے جو ’’چیونٹی کے اس گھر‘‘ پاکستان میں ہوتارہاہے یا اندھے کی بیوی بھی کہہ سکتے ہیں ،پشتو کہاوت کے مطابق ’’اندھے کی بیوی خدا کے حوالے‘‘۔لیکن ہم نے ان دونوں کتابوں کی تحریروں میں وہ ’’چیز‘‘بہت زیادہ محسوس کی ہے جو الفاظ میں نہیں ہے۔

یا ، وہ سارے فسانے میں جس کاذکر نہ تھا۔ وہ غیر موجود اور شدت سے محسوس چیزوہ ’’درد‘‘ ہے جو ہر محب وطن ملک و قوم کو اپنا سمجھنے والوں کے دل میں ہوتاہے لیکن ان کی حالت اس کسان کی سی ہوجاتی ہے جس کے کھیت میں کھڑی فصل پر بے مہار اور آوارہ جانوروں نے ہلہ بولا ہواہو ۔کسان کنارے بیٹھا اپنی فصل کا حشر نشر دیکھ رہاہوتاہے لیکن اس کے ہاتھ میں لاٹھی لکڑی نہیں ہوتی جس سے ان جانوروں کو بھگا سکے،بلکہ میں اپنے تجربے کی روشنی میں ان جانوروں کو ’’سوروں‘‘ کا گلہ کہوں گا۔

ہمارے علاقے میں پہلے سورنہیں ہوتے تھے لیکن گزشتہ سیلاب میں جب ترائی کاعلاقہ زیر آب آگیا تو یہ سور وہاں سے بھاگ کر ہمارے علاقے میں آگئے جو پہلے خشک علاقہ ہونے کی وجہ سے اس بدبخت جانورسے محفوظ تھا۔چنانچہ آج کل ہم ان سوروں کے ہاتھوںبہت بڑے عذاب میں مبتلا ہیں،ایک تو یہ کہ جھرمٹ کی شکل میں پھرتے ہیں، دوسرا یہ کہ بوقت ضرورت حملہ آورہوکر انسانوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں اورتیسری مصیبت یہ کہ سور اتنا کھاتا نہیں جتنا بربادکرتے ہیں،کھانے کے بعد فصلوں میں لوٹیں لگاتے ہیں اوربچی کچی فصل بھی برباد کرتے ہیں ،اوپر سے کم بخت اتنے عیارہوتے ہیں کہ معمولی اسلحہ کی تو پرواہی نہیں کرتے لیکن اکیلے انسان کو پاکر حملہ آور ہوجاتے ہیں ،چھریدار اور معمولی بورکااسلحہ بھی ان پر بے اثر ہوتاہے کیوں کہ بہت موٹی اورپھسلوان کھال اوڑھے ہوتے ہیں اوربہت زیادہ چربی دار ہونے کی وجہ سے ان کے زخم بھی بہت جلد مندمل ہوجاتے ہیں، مطلب یہ کہ ہرلحاظ سے وہ ہوتے ہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔

صرف خالد صاحب ہی نہیں ہم سب خالی ہاتھ والے ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں ،کھیت کا حشر نشر بھی اوراپنی بے بسی بھی۔

شد آں کہ اہل نظر درکنارہ می رفتند

ہزارگونہ سخن درد ہاں ولب خاموش

یعنی پھر یوں ہواکہ اہل نظر بیچارے ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے ہزارہزار باتیں دل میں لیے اور خاموش لب۔دوسرا شعر حافظ شیراز کی اس غزل کا یہ ہے کہ ۔

بہ بانگ چنگ می گوئیم آں حکایت ہا

کہ ازتفتن آں دیگ سینہ می زد جوش

یعنی میں ’’چنگ‘‘ کی آواز میں باتیں کر رہا ہوں کیوں کہ اس ابلتے ہوئے دیگ سے سینہ جل رہاہے، لیکن حافظ کا زمانہ دوسرا تھا اس زمانے میں اگر کوئی بات ’’بہ بانگ چنگ‘‘بھی کی جاتی تھی تو لوگ سن لیتے تھے، لیکن بقول خالد صاحب آج کے فتنہ ابلاغ نے اتنا شور مچایاہے کہ کوئی نہ تو کسی کی سنتاہے نہ سمجھتاہے ،سارے کے ساے بول رہے ہیں بلکہ ’’ابلاغ‘‘ کے بڑے بڑے ’’نقاروں‘‘ کی آوازوں میں ’’طوطے‘‘ کی آواز ہی کھوگئی ہے،اس میں شک نہیں کہ ’’ابلاغیہ‘‘ ایک رحمت تھی،اس فن شریف میں صرف اہل درد ہوتے تھے جو درد سنتے بھی تھے اورسمجھتے بھی تھے ۔

لیکن بہت سی دوسری نعمتوں کی طرح  جب سے یہ نعمت بھی کمرشلائز اورانڈسٹریلائز ہوچکی ہے تب سے یہ نعمت کے بجائے لعنت بنتی جارہی ہے، ایک ایسی قتل گاہ جہاں انسانیت ،اخلاقیات، شرافت اورضمیروں، ایمانوں کو بڑی بے دردی سے ’’پی آر‘‘ کی شیطانی قربان گاہ میں ذبح کیا جارہا ہے،مفادات اورکمائیوں کا ایک عفریت ہے جو سب کچھ نگلتاجارہاہے ،مذہب اخلاق ،شرافت، سچائی ، معصومیت،حیا،شرم ،ایمان ضمیر اوررشتے ناطے۔

ویسے بھی یہ ’’شور‘‘ باقاعدہ منصوبہ بندی سے مچایاجارہاہے کہ کوئی کسی کی نہ سنے، آزادی کے خوبصورت نام سے ہربکواس کو پذیرائی مل رہی ہے کیوں کہ ’’اس آزاد ابلاغیہ ‘‘ میں پرانی پابند ابلاغیہ کا دل نہیں بلکہ دماغ کارفرما ہے ایسی کوئی چیز باقی نہیں بچی ہے جسے کمائی  کی قربان گاہ پر ذبح کرکے چڑھایا نہ گیاہو۔ چنانچہ اس ابلاغیہ کے نسبتاً کمزورشعبے پرنٹ میڈیا میں کچھ ہو بھی تو جنگل میں مورناچا کس نے دیکھا ۔

ہنسو آج  اتنا کہ اس شور میں

صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے

بیچارے خالد صاحب نے بھی اپنے دل کادرد ان دونوں کتابوں میں بکھیر اہواہے اور ان سارے المیوں کا ذکر کیاہے جو اس ملک کو لاحق ہوچکے ہیں۔

’’کرسیوں کے چند کیڑے‘‘ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ ملک سارا کھا چکے ہیں بلکہ اس ملک  کے رہنے والوں کو بھی تقریباً کھاچکے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ کرسیوں کے یہ کیڑے کوئی ڈھکے چھپے یا وائرس کی طرح نہیں کہ مائیکروسکوپ کے بغیر نظر نہ آسکیں، بالکل سامنے ہیں ازحد موٹے اورخاندانوں کے  خاندان دن دھاڑے کھا رہے ہیں لیکن کوئی ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا کیوں ؟ اس کیوں کا جواب ہے ہمارے پاس لیکن وہ جواب اگر دے دیا تو سارے ’’مقدسات‘‘چیخ اٹھیں گے کیوں کہ کافر بنانے کی مشین ان کے پاس بے شمارہیں،اس لیے پوراجواب دینے کے بجائے صرف اتنا اشارہ کافی ہے کہ یہ ملک بنایاہی کیڑوں کے لیے گیاہے عوام تو کالانعام ہوتے ہیں اگر وہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کے لیے بنایاگیاہے۔ تو۔۔۔۔ ان کی کیابات کریں یہ تو ہیں ناداں۔

The post فتنہ ابلاغ اورکرسیوں کے کیڑے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2YqKeUH
via IFTTT

امریکہ میں کورونا کے باعث ایک ہی دن میں مزید 2000 ہزار سے زائد افراد ہلاک کورونا کے باعث امریکہ میں 2 ہزار سے زائد ہلاکتوں کا مسلسل تیسرا روز، مجموعی اموات کی تعداد 63 ہزار ... مزید

نیویارک میں مردہ خانے کے باہر ریفریجریٹر کے بغیر ٹرکوں سے درجنوں لاشیں برآمد مردہ خانوں میں جگہ کم پڑنے کی وجہ سے لاشیں ٹرکوں میں رکھی گئیں، ٹرکوں سے تعفن پھیلنے کی وجہ ... مزید

ہمارے پاس ثبوت ہیں کہ کورونا وائرس ووہان لیب سے آیا، امریکی صدر کا دعویٰ چینی حکام کو علم تھا کہ لوگ کورونا سے متاثر ہیں، پھر بھی انہیں چین چھوڑنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ ... مزید

حکومت کی جانب پٹرولیم مصنوعات میں کمی کا اعلان ایک احسن اقدام ہے ‘میاں نعمان کبیر

مزدور کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں‘ حکومت محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے‘ سعدیہ سہیل رانا

برآمد کنندگان تمام ممالک سے ٹیکسٹائل سمیت مختلف صنعتی مصنوعات کے آرڈرز حاصل کریں،پاکستان عالمی مارکیٹ میں تیل کی کم قیمتوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق ... مزید

حکومت کم آمدن والے طبقہ کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کررہی ہے، تعمیراتی شعبہ سے متعلق بزنس کھولنے سے محنت کش طبقہ کو فائدہ ملے گا،جلد ہی ملک میں کورونا ٹیسٹنگ ... مزید

بھارت اقلیتوں کے لیے جہنم بن چکا ہے، مودی سرکار نے کورونا کی آڑ میں مسلمانوں پر ظلم وستم کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے،محمد طاہر محمود اشرفی

Wednesday, April 29, 2020

مشکل کی اس گھڑی میں مستحقین کیلئے حکومتی معاشی پیکجز کے اقدامات قابل ستائش ہیں‘ میاں نعمان کبیر

صوبہ پنجاب میں جلد کورونا وائرس کے یومیہ 10ہزار ٹیسٹ شروع ہوجائیں گے، مختلف اضلاع میں 8 نئی لیبارٹریاں بھی قائم کی جارہی ہیں جو تکمیل کے مراحل میںہیں،چوہدری محمد سرور

چوہدری فواد حسین کی باہمی ایشوز پر کھل کر اظہار خیال اور تنقید کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل ایک تھنک ٹینک کے قیام کی تجویز

سپریم کورٹ نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے قومی پالیسی بنانے سے متعلق دائر درخواست اعتراض لگا کر واپس کردی

پاکستان کی معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے ضروری ہے کہ بہتر انتظامات کے تحت سمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی پرعمل درآمد کیا جائے، ڈاکٹر ندیم الحق

مستحقین رمضان المبارک میں احساس ایمرجنسی کیش پروگرام سے مستفید ہورھے ہیں، ڈاکٹر ثانیہ نشتر مستحقین رمضان المبارک میں احساس ایمرجنسی کیش پروگرام سے مستفید ہورہے ہیں، ... مزید

وائٹ ہائوس نے بھارتی وزیراعظم ،ان کے دفتر،بھارتی صدر اور امریکہ میں بھارتی سفارتخانے کے ٹویٹر ہینڈلز کو اًن فالو کر دیا

کورونا سے مسلسل ہلاکتیں، برطانیہ میں اموات کی تعداد فرانس اور اسپین سے بھی زیادہ ہو گئی کورونا سے ہونے والی ہلاکتوں کے حوالے سے امریکہ بدستور پہلے نمبر پر، اٹلی دوسرے ... مزید

امریکہ میں کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں میں پھر سے شدت آ گئی گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران امریکہ میں 2 ہزار 500 سے زائد افراد ہلاک۔ خبر ایجنسی

ایکواڈور میں کورونا وائرس کے باعث مردہ قرار دی گئی خاتون ایک ماہ بعد اہل خانہ کو زندہ مل گئی اسپتال انتظامیہ نے 27 مارچ کو 74 سالہ ایلبا ماروری کے گھر والوں کو کورونا وائرس ... مزید

فلسطینی شامی نژاد رکن کانگرس امریکی صدارتی انتخابات کی دوڑ میں شامل لاکھوں امریکی شہری ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن کے چہروں کے علاوہ بھی کچھ دیکھنا چاہتے ہیں۔ جسٹن ایمیش

کورونا کی 99 فیصد درست معلومات فراہم کرنے والے اینٹی باڈی ٹیسٹ کی تصدیق کر دی گئی برطانوی کمپنی “ایبٹ” نے یورپ کے لیے نئے ٹیسٹ کی تصدیق کی ہے، ٹیسٹ سے یہ پتا لگایا جا سکتا ... مزید

یہ نہیں کہا کورونا وائرس انسان نے بنایا ، جاپانی سائنسدان

کورونا وائرس، ایکوا ڈور میں مردہ قرار دی گئی خاتون اہل خانہ کو زندہ مل گئی

مصنف رانامحمد شفیق خان پسروری کی کتاب'' کوروناوائرس اور شرعی مسائل وتدابیر'' کی تقریب رونمائی آج ہو گی

ذخیرہ اندوزی کر نیوالے کسی معافی کے مستحق نہیں انکے خلاف سخت کارروائی کی جائیگی‘سعدیہ سہیل رانا

ملکی وسائل لوٹنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں‘حکومتی پالیسیوں کے مثبت نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں،مومنہ وحید

مشکل کی اس گھڑی میں مستحقین کیلئے حکومتی معاشی پیکجز کے اقدامات قابل ستائش ہیں‘ میاں نعمان کبیر

صوبہ پنجاب میں جلد کورونا وائرس کے یومیہ 10ہزار ٹیسٹ شروع ہوجائیں گے، مختلف اضلاع میں 8 نئی لیبارٹریاں بھی قائم کی جارہی ہیں جو تکمیل کے مراحل میںہیں،چوہدری محمد سرور

سپریم کورٹ نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے قومی پالیسی بنانے سے متعلق دائر درخواست اعتراض لگا کر واپس کردی

پاکستان کی معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے ضروری ہے کہ بہتر انتظامات کے تحت سمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی پرعمل درآمد کیا جائے، ڈاکٹر ندیم الحق

مستحقین رمضان المبارک میں احساس ایمرجنسی کیش پروگرام سے مستفید ہورھے ہیں، ڈاکٹر ثانیہ نشتر مستحقین رمضان المبارک میں احساس ایمرجنسی کیش پروگرام سے مستفید ہورہے ہیں، ... مزید

وائٹ ہائوس نے بھارتی وزیراعظم ،ان کے دفتر،بھارتی صدر اور امریکہ میں بھارتی سفارتخانے کے ٹویٹر ہینڈلز کو اًن فالو کر دیا

Tuesday, April 28, 2020

حکومت عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے تمام وسائل بروئے کار لارہی ہے‘سعدیہ سہیل رانا

آئس لینڈ ائر کا اپنے 2 ہزار ملازمین کو فارغ کر دینے کے منصوبے کا اعلان

برٹش ائر ویز نے اپنے 12ہزار ملازمین کو فارغ کرنے کا اعلان

فرانسیسی صدر نے لاک ڈاؤن میں نرمی کا منصوبہ پیش کر دیا

تیسری دنیا میں مکمل لاک ڈائون نا ممکن ہے کیونکہ اس سے معاشرہ کا پسماندہ طبقہ بری طرح متاثر ہوگا،گورنر عمران اسماعیل

لاک ڈائون کے باعث آن لائن کھانوں کی خریداری میں اضافہ

کورونا اور اجڑا ہوا چمن  ایکسپریس اردو

ہمارے کانوں کو یہ بات بہت اچھی اور دلفریب لگتی ہے کہ کورونا سے ڈرنا نہیں ہے لڑنا ہے۔ وزیر اعظم نے اپنی پہلی تقریر سے ساری قوم کو اِس سہانے مستانے نعرے پر لگا دیا کہ ہر شخص اورہر بچہ جس کی عمر ابھی ایسی باتیں کرنے کی بھی نہیں تھی وہ بھی ٹی وی اسکرین پر اپنی تصویر یا وڈیو دیکھنے کے لیے یہ نعرہ لگاتا دکھائی دینے لگا۔

قطع نظر اِس سے کہ اِس خطرناک اور مہلک وائرس کا پیدا کرنے والا کون ہے اورکس طاقت نے یہ آفت ہمارے سروں پر مسلط کر دی ہے ہم اُس سے لڑنے کے لیے میدان میں کود پڑے۔ جیب میں ایک دھیلا نہیں اورعقل وسمجھ بھی کوئی کام نہیں کر رہی مگر زبان پر ہر وقت یہی بیان جاری ہے کہ گھبرانا نہیں، ڈرنا نہیں بس قدرت کی اِس لاحوتی اور لافانی طاقت سے لڑنا ہے۔

یہ تو شکر بجالائیے مولانا طارق جمیل کا کہ انھوں نے بلاشبہ دیر سے لیکن کم ازکم یہ بات تو وزیراعظم اور میڈیا کے لوگوں کے سامنے کہنے کی جرأت و ہمت دکھائی کہ بھائی اپنے دل سے یہ زعم اور خیال نکال دیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طاقت اورحکمت سے لڑسکتے ہیں۔ رب کریم نے ساری دنیا کو اپنی طاقت سے یہ دکھا دیا ہے کہ تم کچھ بھی کرلو اِس ایک چھوٹے سے وائرس کا جوکھلی آنکھوں سے کسی کو دکھائی بھی نہیں دیتا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ جب تک اللہ نہ چاہے تم اِسے پھیلنے سے روک بھی نہیں سکتے۔ بظاہر ایک معمولی سی شے نے جس کے مضر اثرات میڈیکل سائنس کے تمام دعوئوں اور تحقیق کے برعکس نکلے اورہزارو لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

آج سے چند مہینے پہلے کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ 2020 کا نیا سال ایسی آفت لے آئے گا۔ دنیا بھرکے حکمراں اورماہرین نئے سال کو حسب دستور خوشیاں لانے والا سال قرار دے رہے تھے۔ خود ہمارے وزیر اعظم کا بھی یہی خیال تھا کہ تکلیف کے دن اب ختم ہوگئے۔ نیا سال قوم کے لیے نئی خوشیاں لائے گا۔ کسی کو بھی معلوم نہ تھاکہ نیا سال کس قدرمصیبتیں لائے گا کہ بڑی سے بڑی طاقتیں اپنے سارے کا م چھوڑ کرکفن اور تابوت بنانے میں مصروف ہوگئیں۔

سرے شام بے ہنگم رقص و سرورکی ساری محفلیں اچانک گھپ اندھیروں میں بدل گئیں۔ تمام نائٹ کلب بند ہوگئے۔ انسانوں نے ایک دوسرے پر سارے ظلم وستم روک دیئے۔ ہر ایک کو اپنی جان بچانے کی فکر لاحق ہوگئی،کسی کو سب کے سامنے اگر چھینک بھی آجائے تو سب اپنے منہ اور ناک پرکپڑا رکھنے لگے۔ یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ موت کا ایک دن معین ہے،مگر ہرشخص پھر بھی یہ سمجھ رہا ہے کہ اگر اُس نے کوئی غفلت کی تو وہ سیدھا موت کے منہ میں چلاجائے گا۔

حیرانی کی بات ہے کسی نے ابھی تک اپنے اعمال کاجائزہ نہیں لیا۔ بڑے سے بڑا حکمراں اِسے ایک ناگہانی آفت تو سمجھ رہا ہے لیکن یہ سوچنے پرغور نہیں کررہا کہ یہ آفت آخر آئی کیوں۔ ساری دنیا میں ظلم وبربریت کا بازارگرم کرنے والی عالمی طاقتیں ابھی بھی ایک دوسرے کو اِس وائرس کا موجد ثابت کرنے میں اپنی طاقت اور توانائی تو صرف کر رہی ہیں لیکن اللہ جل جلالہ کی طاقت کا اندازہ لگانے پر ایک لمحے کے لیے بھی غور نہیں کررہیں۔ ہم جب تک اپنے گناہوں کی توبہ نہیں کرلیتے، ایسی یا اِس سے بھی بڑی آفتیں آتی رہیں گی۔

ذرا غور توکریں آج سے پہلے یہ دنیا کہاں جا رہی تھی۔ فحاشی بڑھ چکی تھی ، معصوم بچوں سے زیادتی روزکا معمول بن چکی تھی۔کسی کا مال چھین لینا اورکسی کی حق تلفی کرنا  جرم ہی نہیں سمجھا جانے لگا۔ جھوٹ اورمکروفریب ہر ایک کا طرہ امتیاز بننے لگا۔ بے ایمانی اور دغا بازی اہلیت اور قابلیت گردانی جانے لگی۔ ایک دوسرے پر غلط اور جھوٹا بہتان لگانا کوئی قابل تعزیر فعل ہی نہیں سمجھا گیا۔ سب کوکھلی چھٹی دے دی گئی۔ معاشرے سے اخلاقی قدروں کاجنازہ نکال دیا گیا۔

معزز اور باعزت لوگوں کی پگڑیاں اچھالی جانے لگیں۔ کسی کو بھی بخشا نہیں گیا۔ مولانا طارق جمیل نے جب  یہ کہاکہ ہماری بچیوں اور لڑکیوں کوکون نچاتا رہا ہے،کس نے انھیں بے پردہ ہوکر سر عام رقص کرنے پر لگا دیا ہے، تو  وہاں موجود سب کی نظریں کچھ لمحوں کے لیے جھک توگئیں لیکن کسی نے اعتراف کرنے کی ہمت نہیں دکھائی۔ خود وزیراعظم ہاتھ میں تسبیح لیے بیٹھے تھے لیکن انھیں اپنے وہ دن یاد نہیں آئے جب 126دنوںتک اسلام آباد کے ڈی چوک پر ہرروز سرشام احتجاجی میلہ سجاتے رہے اوراُس پر فخر بھی کرتے رہے۔

رہ گئی بات اجڑے ہوئے چمن کی تو 2018 میں ہمارے موجودہ حکمرانوں کو ورثہ میں ملنے والا چمن 2013 میں میاں نواز شریف کو ملنے والے اُس چمن سے بہت زیادہ بہتر تھا جب ہرطرف دہشت گردی کا راج تھا۔کراچی شہر خون میں نہا رہا تھا۔ ملک بھر میں توانائی کا بحران اپنے عروج پر تھا۔ ملکی خزانہ حسب معمول خالی اورکنگال تھا،جب کہ 2018میں ہمارے اِس چمن کی صورتحال آج سے بھی بہتر تھی۔ بجلی اورتوانائی کا بحران ختم ہوچکا تھا۔کراچی شہرمیں امن وامان قائم ہوچکا تھا۔ خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے کرتا دھرتاؤں کاسد باب کیاجاچکا تھا۔ ملک ترقی وخوشحالی راہ پر چل پڑا تھا۔ ہرطرف ترقیاتی کاموں کی داغ بیل ڈالی جاچکی تھی۔

بڑی بڑی سڑکیں ، شاہراہیں اورموٹرویز بنائے جارہے تھے۔ سی پیک جیسے عظیم منصوبے پر کام زوروں پر جاری تھا۔آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہا جاچکا تھا۔ شاید یہی بات پاکستان کی دشمنوں کو اچھی نہیں لگی اور ایک طے شدہ پروگرام کے تحت اُس حکمراں کاتختہ کردیا گیا بلکہ اُسے پس زنداں ڈال دیا گیا جس نے اِس ملک کو خودمختار بنانے کا عزم کر رکھا تھا۔ تاریخ کبھی نہ کبھی یہ اعتراف ضرورکرے گی کہ یہ سب کچھ ملک کوکمزورکرنے کے لیے کیا گیا۔ آج اِس ملک کی جوحالت ہے وہ 2018 سے بھی گئی گذری ہے۔ کوئی پالیسی اورکوئی پروگرام واضح نہیں ہے۔

ملک کس سمت جارہا ہے کسی کو پتا نہیں۔ ہرچند ماہ بعد دلاسہ دیاجاتا ہے کہ آنے والے دن اچھے اور بہترہونگے۔ لیکن پھرکوئی نیابہانا بناکے اگلی تاریخ دے دی جاتی ہے۔ ملک میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہورہا۔ کسی بڑے منصوبے یاپروجیکٹ کی شروعات نہیں کی گئی ،جو شیلٹر ہومز اور لنگرخانے کھولے گئے تھے اُن کا بھی نام ونشان دکھائی نہیں دے رہا۔آج کورونا کی وباکی موجودگی میں اِن لنگر خانوں اور شیلٹر ہومزکی تو اشد ضرورت تھی لیکن وہ بھی انڈوں،مرغیوں ، بھینسوں اورکٹوں کے منصوبوں کی طرح عارضی اوروقتی ہی ثابت ہوئے۔ہاں ایک کام ضرور ہوا ہے کہ ہماراوہ کشکول جوپہلے قدرے چھوٹا ساتھا اب بہت بڑا ہوچکا ہے۔

اِس میں ملنے والی ساری امداد نجانے کہاں جارہی ہے۔ عوام پہلے سے بھی زیادہ ننگے اور بھوکے ہوتے جارہے ہیں۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد نئے بیروزگار ہوچکے ہیں۔ایک کروڑ افراد کو نوکریاں دینے اورپچاس لاکھ گھر بنانے کا منصوبہ ابھی تک صرف کاغذوں پرہی موجود ہے۔ قوم بس اچھے دنوں کی اُمید اور آس پرہی زندہ ہے۔روشن مستقبل والے افق پر گہری دھند چھائی ہوئی ہے۔ آنے والے دن اچھے ہونے کی بجائے اب اِس کورونا کے سبب اور بھی کٹھن اورمشکل دکھائی دے رہے ہیں۔اللہ خیر کرے ۔(آمین )

The post کورونا اور اجڑا ہوا چمن  appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2KV7thX
via IFTTT

وزیراعظم کا دلچسپ انداز حکمرانی ایکسپریس اردو

وزیر اعظم عمران خان کو ایک طرف کورونا کے بحران کا سامنا ہے دوسری طرف وہ اپنی ٹیم میں بھی مسلسل بڑی تبدیلیاں کر رہے ہیں۔ایسا لگ رہا ہے کہ وہ کورونا کے بعد ایک نئی اننگ کھیلنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ وہ صرف اپنی سیاسی ٹیم میں تبدیلیاں نہیں کر رہے ہیں بلکہ بیوروکریسی کی ٹیم میں بھی تبدیلیاں کر رہے ہیں۔ میری رائے میں بیوروکریسی کی ٹیم میں تبدیلیاں سیاسی ٹیم میں تبدیلیوں سے اہم ہے۔ حالانکہ اس کا شور کم ہے۔

ویسے تو سب کی توجہ وزیر اعظم کی میڈیا ٹیم کی تبدیلی کی طرف ہے۔ لیکن یہ کوئی پہلی تبدیلی نہیں ہے کہ اس پر حیران ہوا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ خان صاحب کو بار بار اپنی ٹیم بدلنے کی عادت ہے۔ آپ پنجاب میں دیکھیں، اب تک کتنے وزیر اطلاعات بدلے جا چکے ہیں۔ کے پی میں بھی وزیر اطلاعات بدلے جا چکے ہیں۔ مرکز میں بھی یہ کوئی پہلی تبدیلی نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی وزیر اطلاعات بدلے ہیں۔ اس لیے تبدیلی عمران خان کا خاص انداز حکمرانی ہے۔

اس سے پہلے چینی اسکینڈل کی رپورٹ آنے کے بعد بھی کابینہ میں وزیروں کے قلمدان تبدیل کیے گئے تھے۔ جن پر بہت شور مچا تھا۔ لیکن پھر چند دن بعد تھم گیا۔ شاید عمران خان کو بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ ان تبدیلیوں سے ایک شور پیدا ہوتا ہے اور میڈیا کا توجہ اصل ایشوز سے ہٹ جاتی ہے۔ یہ تبدیلیاں چائے کی پیالی میں طوفان کی مانند شور پیدا کرتی ہیں اور پھر کوئی اور تبدیلی کردی جاتی ہے۔ بظاہر ایسے شور کا  حکومت کو کوئی خاص فائدہ ہوتا ہے اور نہ نقصان ۔ بس چند دن کے لیے میڈیا کی توجہ اس جانب مرکوز رہتی ہے۔

عمران خان کی ٹیم میں کام کرنا سب سے مشکل ہے۔ کیونکہ ان کی تمام تر توجہ میڈیا پر ہوتی ہے۔ انھیں میڈیا کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ بظاہر یہ ماحول رکھا گیا ہے کہ حکومت میڈیا کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتی ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت سب سے زیادہ اہمیت ہی میڈیا کو دیتی ہے۔ ایک ایک خبر کی اہمیت ہے۔ ہر ٹاک شو میں کی گئی بات کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ تنقیدی باتوں کا دفاع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

عمران خان کی سربراہی میں ایک میڈیا اسٹرٹیجی کمیٹی بھی کام کر رہی ہے۔ یہ اس حکومت میں سب سے فعال کمیٹی ہے۔ جس کے اجلاس  باقاعدگی سے ہوتے ہیں بلکہ وزیر اعظم عمران خان خود بھی شریک ہوتے ہیں۔ یہاں چھوٹی چھوٹی بات پر بھی تفصیل سے غور کیا جاتا ہے۔ اگلے پندرہ دن کا روڈ میپ بھی تیار ہوتا ہے۔ کس  جانب محاذ کھولنا ہے۔ کہاں ہاتھ نرم رکھنا ہے۔ کس  با ت کا کتنا جواب دینا ہے۔ کون فرنٹ فٹ پر کھیلے گا۔ کون خاموش رہے گا۔ کس کو کس لہجے میں جواب دیا جائے گا۔ یہ سب اس اجلا س میں طے ہوتا ہے۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ فردوس عاشق اعوان کی تحریک انصاف کے اندر مخالفت بہت بڑھ گئی تھی۔ تحریک انصاف کا ایک بڑا حلقہ انھیں تحریک انصاف کا حصہ ہی نہیں سمجھتا تھا۔ ایک رائے تھی کہ وہ باہر سے نازل ہوئی ہیں۔ لیکن پھر بھی اتنی مخالفت کے باوجود انھوں نے ایک لمبی اننگ کھیلی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو فواد چوہدری بھی اتنی لمبی اننگ نہیں کھیل سکے۔ فیاض الحسن چوہان بھی ایک بار آئوٹ ہوئے ہیں۔کے پی میں بھی شوکت یوسفزئی آئوٹ ہوئے ہیں۔ اس تناظر میں فردوس عاشق اعوان کا آئوٹ ہونا کوئی بڑی خبر نہیں ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ لیفٹیننٹ جنرل(ر) عاصم سلیم باجوہ کا حکومت کی میڈیا ٹیم میں آنا ایک بڑی تبدیلی کہلا سکتی ہے۔ شبلی فراز کو وزیر اطلاعات بنانا بھی بڑی تبدیلی ہے۔ان کے وزیر بننے کے امکانات تو کافی عرصہ سے موجود تھے۔ لیکن وہ وزیر اطلاعات بن جائیں گے اس کا کسی کو اندازہ نہیں تھا۔ اس ضمن میں دوسرے کئی نام گردش کرر ہے تھے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ حالیہ تبدیلی سے باخبر سمجھے جانے والے صحافی بھی لا علم رہے۔

شبلی فراز ایک نرم گو اور نرم لہجہ رکھنے والے مہذب انسان ہیں۔ وہ تحریک انصاف کی کور ٹیم سے ہیں۔ لیکن وہ گالم گلوچ گروپ کا حصہ نہیں ہیں، وہ ٹاک شوز میں بھی نرم لہجہ رکھتے تھے۔ ان کے بارے میں اب بھی یہی رائے ہے کہ وہ نرم لہجہ اور شائستہ گفتگو ہی جاری رکھیں گے۔ وہ میڈیا کے ساتھ ایک فرینڈلی ماحول کو بڑھانے میں کردار ادا کریں گے۔ ان کے ساتھ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو بھی میڈیا ہینڈلنگ کا وسیع تجربہ ہے۔ سب مانتے ہیں کہ بطور ڈی جی آئی ایس پی آر انھوں نے بہت کام کیا۔ ان کے کام کو آج بھی ایک روڈ میپ کی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے میڈیا میں بہت اچھے تعلقات بھی ہیں۔ اس لیے وہ بھی حکومت کے میڈیا سے تعلقات اور میڈیا ہینڈلنگ کو بہتر کرنے میں مربوط کردار ادا کر سکتے ہیں۔

لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر عمران خان چاہتے ہیں کہ شبلی فراز اور عاصم سلیم باجوہ کی ٹیم کامیاب ہوتو انھیں ان کو فری ہینڈدینا چاہیے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے میڈیا اسٹرٹیجک کمیٹی کو اول تو ختم کر دینا چاہیے اور اگر اس کمیٹی کو برقرار رکھنا ناگزیر ہے تو اسے وزارت اطلاعات کے ماتحت کر دینا چاہیے۔ وزیر اعظم کو خود کو اس کمیٹی سے دور کر دینا چاہیے۔

ایک سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف میں اپنے تعین کردہ میڈیا ایکسپرٹس کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ وہ سب خود کو  افلاطون سمجھتے ہیں اور وہ اپنی ہی میڈیا ٹیم کی خامیاں تلاش کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اسی لیے عمران خان کی میڈیا حکمت عملی کو اپوزیشن نے شکست نہیں دی ہے بلکہ تحریک انصاف کے اندر سے ہی شکست ہوئی ہے۔ اس لیے واحد حل یہی ہے جو نئی میڈیا ٹیم آئی ہے ، اسے فری ہینڈ دیں۔ سب ان کو جواب دیں۔ یہ کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ شبلی فراز اور عاصم سلیم باجوہ کو فری ہینڈ دیں، پھر دیکھیں، بہت جلد سب ٹھیک ہو جائے گا۔

The post وزیراعظم کا دلچسپ انداز حکمرانی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2W5zfgN
via IFTTT

قانون اور انصاف ایکسپریس اردو

آج کل سوشل میڈیا پر ایک ٹاپ ٹرینڈ ’’فیصل آباد پولیس‘‘ چل رہا ہے، یہ اس لیے ہے کہ گزشتہ ہفتے فیصل آباد شہر میں ایک پولیس مقابلہ میں 4ملزمان مارے گئے۔ ان پر ایک کمسن بچے سے زیادتی کا الزام تھا۔ اس واقعہ کے بعد فیصل آباد کے عوام نے اس پولیس مقابلے کو سراہا اور پولیس کے حق میں جلوس بھی نکالے،ملک بھر میں 99.9فیصد لوگ اس واقعہ پر پولیس کا شاباشی دے رہے ہیں۔

یعنی یا تو عوام کا نظام انصاف سے اعتبار اُٹھ گیا ہے، یا وہ فوری انصاف چاہتے ہیں، خیر یہ ملک میں ہونے والے دیگر پولیس مقابلوں جیسا ایک مقابلہ تھا جسے کے حقیقی ہونے یا نہ ہونے پر بحث کا کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ پولیس نے ٹھیک کام کیا؟

قانون کے ہاں، ظاہر ہے اس سوال کا جواب نفی میں ہے، بلکہ وہ چاہے گا کہ ان ملزمان کا ٹرائل ہو اور عدالتوں سے انھیں سزاملے۔ لیکن یہاں ایک دوسرا سوال جنم لیتا ہے کہ قانون میں اگر اس اقدام کی کوئی گنجائش نہیں تو پھر یہ سوشل میڈیا پر لوگ اتنے خوش کیوں ہیں؟ کیا معاشرہ اپنے قانون سے لاتعلق ہو چکا ہے ؟یہ بہت اہم سوال ہے۔ یہ قیام پاکستان سے پہلے کی بات ہے اور اس واقعے کا تذکرہ ہندوستان میں تعینات برطانوی افسر پینڈرل مون نے اپنی کتاب’’ انڈیا ان اسٹرینج‘‘ میں کیا۔

اسی کتاب میں ایک دو واقعات آپ کی نذر کرتا چلوں کہ ایک گائوں میں کسی کے مویشی چوری ہو گئے۔پولیس نے چوروں کو مویشیوں سمیت گرفتار کر لیا۔ لیکن چور بڑے طاقتور تھے۔ چنانچہ مویشیوں کے مالکان ڈر گئے اور انھوں نے بیان دے دیا کہ نہ تو یہ مویشی ان کے ہیں اور نہ ہی ان کے مویشی چوری ہوئے ہیں۔ اب مقدمے کا نتیجہ واضح تھا کہ مجرمان نے بری ہو جانا تھا۔ چنانچہ پولیس نے اب ایک دوسرا راستہ اختیار کیا اور مویشیوں کے نئے جعلی مالکان ڈھونڈ نکالے۔ یہ نئے مالکان عدالت میں پیش ہو گئے اور انھوں نے اپنے مویشی بھی پہچان لیے۔ چنانچہ مجرموں کو سزا ہو گئی۔

مویشی بیچ کر ان کی رقم ’’جعلی مالکان‘‘ اور پولیس میں تقسیم ہو گئی۔ اصل مالکان کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ مصنف لکھتا ہے کہ اگر قانون کے مطابق ہی چلا جاتا تو چوروں کو کبھی سزا نہ مل سکتی۔ کیونکہ برطانیہ کا بنا یا ہوا قانون اتنا پیچیدہ ہے کہ اس خطے میں اس کے تحت انصاف ہو ہی نہیں سکتا۔ ایک اور واقعہ بھی اسی کتاب میں لکھا ہے۔ ایک گائوں کے کچے مکان کی دیوار توڑ کر چوروں نے کچھ چوری کر لی۔ پولیس نے انتہائی محنت سے چند ہی دنوں میں چور ڈھونڈ  نکالے۔چوری کا مال بھی برآمد ہوگیا۔

مصنف لکھتا ہے کہ مال ایک ایسی جگہ زمین میں دبایا گیا تھا جو غیر آباد تھی۔ اب یہاں پینڈرل مون ایک سوال اٹھاتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں کہ فرض کریں اب یہ کیس کسی جج کے سامنے پیش ہو۔ چور بھی عدالت میں لے جا کر کھڑے کر دیے جائیں اور چوری کا مال بھی پیش کر دیا جائے۔ جج بھی انتہائی ایماندار ہو تو اس صورت میں کیس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ کیونکہ قانون کے مطابق چوری کا مال چوروں کے قبضے سے برآمد نہیں ہوا۔ نہ ہی یہ ان کے زیر قبضہ یا زیر تصرف جگہ سے برآمد ہوا ہے۔بلکہ یہ سامان ایک ایسی جگہ سے نکلا ہے جہاں ہر شخص کی رسائی ہے۔ اس لیے شہادت کمزور قرار دی جائے گی اور ملزمان بری کر دیے جائیں گے۔

یہ کتاب 40کی دہائی میں لکھی گئی تھی لیکن زمینی حقائق آج بھی وہی ہیں کیونکہ قوانین وہی ہیں۔ آج بھی کسی کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ اپنا سچا فوجداری مقدمہ بھی جھوٹ بولے بغیر صرف سچ کے زور پر جیت کر دکھا دے۔ ایف آئی آر میں جھوٹ کی آمیزش ہوتی ہے۔ گواہیاں باقاعدہ تیار کی جاتی ہیں۔قریب قریب سارا منظر نامہ وہی ہے جس کا تذکرہ کتاب میں کیا گیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہاں وہی پولیس ، وہی سسٹم ہے، وہی قانون تعزیر، وہی گواہی دینے کا نظام ، وہی جھوٹ اور پھر نتائج بھی ویسے ہی نکلتے ہیں۔ بہرکیف ملزم کی گرفتاری اور سزا کے بیچ وہ خوفناک مراحل آتے ہیں جہاں قانون بھی ہانپ جاتا ہے۔طاقتور آدمی کے خلاف کون گواہی دے۔ گواہی دینے والے کو تحفظ کون دے گا؟ وہ سر راہ قتل ہو جائے تو کیا ہو گا؟ سوالات ہی سوالات ہیں۔اور ان سوالات کی پیچیدگی سے پولیس کے سوا کون آگاہ ہو گا؟

یہاں المیہ یہ ہے کہ لوگ بھی پولیس مقابلوں کو سراہتے ہیں، کیوں کہ انھیں پتہ ہے کہ اس سسٹم میں  امیر اور طاقتور کو سزا نہیں ملتی، سب کو علم ہوتا ہے کہ گنہگار کون ہے، لیکن گواہی دینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتاجس سے ملزم بچ جاتا ہے۔ اورعدالتیں اس ملزم کی ضمانت منظور کرنے کے لیے مجبور ہوجاتی ہیں۔ میری اس تحریر پر شاید کچھ دوست ناراض بھی ہوں کہ بچے کے لواحقین کو جلد انصاف مل گیا، اس سے مجھے کیا تکلیف! اور ویسے بھی پاکستان میں کمسن بچوں کے ساتھ زیادتی کے ایک دردناک تاریخ ہے۔

ماضی قریب میں قصور شہر کے ایک واقعہ نے جس میں بچی کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا نے پوری قوم کو صدمے میں ڈال دیا تھا۔ اس وقت کے فعال ’’خادم اعلیٰ‘‘ قصور موقع پر گئے اور پولیس نے جدید آلات وٹیکنالوجی کی مدد سے اس بدبخت کو گرفتار کیا۔

میرے خیال میں ہمیں ہمارے نظام انصاف پر ذرا غور کرنا چاہیے، یہ بھی غور کرنا چاہیے کہ یہاں فوری انصاف کے لیے ملٹری کورٹس کی ضرورت پیش کیوں آتی ہے؟ جہاں مجرم فوری طور پر کیفرکردار کو پہنچ جاتے ہیں، حالانکہ میں ملٹری کورٹس کے خلاف ہوں، لیکن پھر بھی فوری انصاف ملنے پر میں ملٹری کورٹس کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ خطرناک دہشت گردوں کو ملٹری کورٹس کے علاوہ کوئی سزا نہیں دے سکتا تھا، پھر کیا کرپٹ لوگوں اور عادی مجرموں کے لیے بھی ایسی فوری سزائیں نہیں ہونی چاہیئں، کیا ایسے طاقتور لوگوں کے لیے بھی ایسی ’’اسپیشل کورٹس‘‘ نہیں ہونی چاہیں، اگر ان کے فیصلے پرانے فرسودہ نظام کے مطابق ہوں گے تو انصاف کی کوئی اُمید نہیں لگائے گا۔

اور ویسے بھی پہلے ہی ہمارے سامنے سانحہ بلدیہ ٹائون، سانحہ ماڈل ٹائون، سانحہ ساہیوال اور دیگر سانحات ہیں جن میں ملزمان کو آج تک سزا نہیں ملی۔ جہاں حکومت گواہان کو پروٹیکشن دینے سے قاصر ہو، وہاں پھر معذرت کے ساتھ پولیس مقابلے ہی عوام کے نزدیک بہتر تصور کیے جاتے ہیں۔ لہٰذا معاشرہ میں جرائم کا مسئلہ تو اپنی جگہ پر کل بھی موجود تھا اور آج بھی ہے۔ لیکن اس کا حاضر صورتحال کے مطابق حل کیا ہے۔ فوری اور باموقع انصاف یا عدالت میں طویل مقدمہ۔ اس سوال پر ایک ایسی قومی بحث کی ضرورت ہے جس میں صرف اہلیت رکھنے والی آوازیں ہوں نہ کہ صرف بحث براے بحث۔

اس فرسودہ نظام قانون کو ادھیڑ کر پھینکنا ہو گا اور اپنی زمینی حقیقتوں کی روشنی میں اپنے لیے اپنا قانون بنانا ہو گا۔یاد رکھیے ، 159سال پرانے پولیس کے ڈھانچے ، ڈیڑھ صدی پرانے فوجداری قانون اور 121سال پرانے مجموعہ ضابطہ فوجداری سے قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہو سکتی۔بے شک ایک سو سال مزید برباد کر کے دیکھ لیجیے۔جو بادی النظر میں ہم کر ہی رہے ہیں!!

The post قانون اور انصاف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/35dNHaA
via IFTTT

ناگزیر تبدیلی ایکسپریس اردو

ایک ایسے وقت میں جب ففتھ جنریشن جنگ کے خطرناک خطرات کے درمیان ملک کو سنگین بیرونی چیلنج درپیش ہیں وزیراعظم عمران خان نے وزارت اطلاعات کو تقویت دینے کے لیے ایک سابق فوجی کا انتخاب کیا ہے جو پالیسی میں بڑی تبدیلی کا اشارہ ہے۔ان کا انتخاب فصاحت سے ریاست کی بات کرنے، علاقائی اور عالمی اہمیت کے امور مؤثر انداز میں بیان کرنے، حقیقت جھوٹ سے الگ کر کے ملک کا امیج بہترکرنے کے لیے عمل میں لایا گیا ہے۔

سابق ترجمان پاک فوج (ڈی جی آئی ایس پی آر) لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ ، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی جگہ وزیراعظم کے معاون خصوصی اطلاعات کی حیثیت سے خدمات انجام دیں گے۔اس کے ساتھ ہی پاکستان تحریک انصاف کے ایک اہم رہنما سینیٹر شبلی فراز کو حکومت کے میڈیا سے متعلق روزہ امور چلانے کے لیے وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات مقرر کیا گیا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب ہندوتوا سے متاثر نریندر مودی اور اس کی بی جے پی مہابھارت کے قصوں کے مطابق اندرون اور بیرون ملک اپنے ’دشمنوں‘ کے خون کے پیاسے ہیں، زعفرانی رنگ میں ملبوس مذہبی ہندو انتہاپسند نام نہاد کورونا جہاد کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں کے جان کے دشمن ہیں،جب یہ سنگدل اور بے حس حکمران کشمیریوں سے ان کی اصل شناخت چھیننے پر کمر بستہ ہیں، اکھنڈ بھارت کا خواب تکمیل کے لیے سازشوں مصروف ہیں تاکہ جنگ زدہ افغانستان میں کبھی حقیقی اور دیرپا امن قائم نہ ہو سکے،ایسے میں جب سی پیک ہمارے ہمسایہ ملک اور بیرون ملک اسٹرٹیجک پارٹنر سمیت تمام دشمنوں کا اولین ہدف ہے، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی تقرری کا اس سے بہتراور کوئی وقت ہو ہی نہیں سکتا تھا۔

اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ لیفٹننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی تقرری ناگزیر تھی۔وہ واقعتا اس عہدے کے لیے موزوں ترین شخص ہیں۔ انھوں نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے دوران اہم موڑ پر 2012 سے 2016 کے دوران فوج کے شعبہ اطلاعات، آئی ایس پی آر کی بڑی ذمے داری اور چابکدستی سے چار سال قیادت کی۔ وہ امیج بلڈنگ میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔انھوں نے ہی معلومات کے فوری پھیلاؤ کے لیے ٹویٹ کلچر متعارف کرایا۔ بطور سپاہی بھی لیفٹیننٹ جنرل(ر) عاصم سلیم باجوہ کا کیریئر شاندار ہے۔

موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق آرمی چیفس جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی اور جنرل (ر) راحیل شریف کے ساتھ خدمات دینے کی وجہ سے وہ ہائبرڈ وار فیئر اور نئی جنگی حکمت عملی کا گہرا ادراک رکھتے ہیں۔مزید براں جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ میں ایک ترجمان کی تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔وہ، صاحب علم، باخبر، تحمل مزاج ہیں اور فن گفتگو کے ماہر ہیں۔وہ واقعی ایک صحیح انتخاب ہیں۔

 

The post ناگزیر تبدیلی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/35eWsRB
via IFTTT

کورونا وائرس ، حکومت اور عوام ایکسپریس اردو

ملک میں کورونا وائرس میں مبتلا مریضوں کی تعداد چودہ ہزار سے تجاوز کرنا اور تین سو افراد کا جاں بحق ہوجانا، روز بروز بگڑتی صورتحال کی نشاندہی کر رہا ہے۔ گورنر سندھ بھی کورونا کا شکار ہوگئے ہیں، یہ وباء امیر، غریب میں کوئی فرق روا نہیں رکھ رہی، ہر ایک اس کے نشانے پر ہے۔

یہ وائرس ایک بھیانک حقیقت ہے جو ہمیں تسلیم کرنی چاہیے، ملک میں لاک ڈاؤن میں نرمی کا مطلب یہ نہیں کہ کورونا وائرس ختم ہو چکا ہے، عوام نے اگر سنجیدہ طرز عمل اختیار نہ کیا تو حکومت کے پاس سخت فیصلوں کے سوا کوئی آپشن موجود نہیں رہے گا، اگر ہم اس حقیقت کو سمجھیں کہ ہم نے ہر صورت میں پاکستان کو خطرناک حالات سے بچانا ہے، تب ہی کوئی خیر کی صورت نکل سکتی ہے، ورنہ صورتحال انتہائی خطرناک ہوجائے گی کہ اس پر قابو پانا کسی کے بس میں نہیں رہے گا۔

یہ بات عام مشاہدے میں آئی ہے کہ ملک بھر میں جاری جزوی لاک ڈاؤن کے دوران عوام کی جانب سے غیر سنجیدہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، بازاروں میں سماجی فاصلہ اور ماسک کا استعمال بہت کم نظر آرہا ہے۔ گزشتہ روز خیبرپختون خوا سے منتخب ایک ایم این اے، مشیر وزیراعلیٰ اور راولپنڈی میں کورونا کے مریضوں کا علاج کرنیوالے ڈاکٹر میں بھی وائرس کی تصدیق ہونا خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔

یہ خبر انتہائی خوش آیند ہے کہ وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے وزیراعظم ریلیف پیکیج کے تحت چھوٹے دکانداروں اور کاروباری اداروں کے بجلی کے بل مئی سے دینے کا اعلان کردیا ہے، اس پیکیج سے پینتیس لاکھ افراد کو فائدہ ہوگا، جو افراد ملازمت سے فارغ ہوئے ان کے لیے ویب پورٹل بنایا جائے گا، جس پر موبائل فون کے ذریعے رجسٹریشن ہوگی۔ بلاشبہ یہ حکومت کا انتہائی مستحسن فیصلہ اور لائق تحسین اقدام ہے، جس کا براہ راست فائدہ عام آدمی اور چھوٹے کاروباری طبقے کو پہنچے گا۔

وفاقی حکومت انتہائی مستعد طریقے سے ایسے اقدامات اٹھا رہی ہے جس سے قوی امید ہو چلی ہے کہ ملکی معیشت کو سہارا ملے گا اور عوام کے مسائل میں کمی دیکھنے میں آئے گی۔

دوسری جانب حکومت پنجاب نے کورونا سے نمٹنے پر آنے والے اخراجات کی مانٹیرنگ کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس میں عام شہری بھی ڈیزاسٹر فنڈز میں کرپشن کی نشاندہی کرسکے گا، یہ بھی پنجاب کی صوبائی حکومت کا ایک صائب فیصلہ ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی زیر صدارت کووڈ 19  کے جواب میں پنجاب کے مستقبل کی معاشی نمو کی حکمت عملی کے لیے حکومتی منصوبے پر ایک اعلیٰ سطح اجلاس میں سماجی تحفظ اور معاشی بحالی رسپانس ’’رائز پنجاب‘‘ کا افتتاح کیا گیا، منصوبہ کے تحت پنجاب میں فوری طور پر پچاس لاکھ افراد کو نوکریاں فراہم کرنے کے مواقعے پیدا کیے جائیں گے۔ اس پروگرام کی کامیابی یقینا پنجاب کے عوام کی زندگیوں میں تبدیلی لائے گی۔

دوسری جانب یہ بات انتہائی پریشان کن ہے کہ خیبر پختونخوا میں کورونا وائرس سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ایک سو سے تجاوز کرگئی ہے۔ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے چین سے خریدے گئے طبی سامان کی ایک اور کھیپ اسلام آباد پہنچ گئی ہے۔

ترجمان این ڈی ایم اے کے مطابق چین سے خریدے گئے سامان میں 159وینٹی لیٹرز، 15ایکسرے مشینیں،200 تھرمل گنز کے علاوہ ڈاکٹروں اور طبی عملہ کے لیے ذاتی حفاظتی اشیاء بھی شامل ہیں۔ چین نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور اسی لیے پاک چین دوستی، دنیا میں ایک مثال بن چکی ہے۔

خیبرپختونخوا کی بزنس کمیونٹی نے کورونا وائرس لاک ڈاؤن کی وجہ سے افغانستان میں سبزی و دیگر اشیائے خورونوش کی قلت دور کرنے اور درآمدات و برآمدات بڑھانے کی غرض سے وفاقی حکومت سے پاک افغان بارڈر طورخم اور چمن ہفتے میں چھ روز کھولنے کا مطالبہ کیا ہے، کیونکہ سات ہزار سے زائد کنٹینرز کراچی بندرگاہ پر کھڑے ہیں، ان پر لاکھوں روپے کا روزانہ ڈیمرج چارج چڑھ رہا ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو اس مطالبے پر ضرور توجہ دینی چاہیے تاکہ مسائل جلد از جلد حل ہوں۔

حکومت سندھ نے کراچی کی مزید 153 برآمدی نوعیت کی صنعتوں کو مشروط پیداواری عمل شروع کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ ان صنعتوں میں ریڈی میڈ گارمنٹس، ٹیکسٹائل کے علاوہ لیدر گارمنٹ اور ٹینریز کی صنعتیں بھی شامل ہیں۔ فیکٹریوں کو سندھ حکومت کے سماجی فاصلوں کے ایس او پیز پر عمل کرنا لازمی ہوگا۔ کراچی، پاکستان کا معاشی حب ہے، صنعتوں میں پیداواری عمل شروع کرنے سے مزدوروں کو روزگار کے مواقعے ملیں گے اور معیشت کا پہیہ رواں ہونے سے ملک کی معیشت کو سہارا ملے گا۔

کورونا وائرس کی وجہ ملک بھر میں تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں، ہمارے لاکھوں طالب علموں کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے۔ ملک بھر میں میٹرک اور ایف اے، ایف ایس سی کے سالانہ امتحانات کا انعقاد التوا کا شکار ہو چکا ہے۔ گزشتہ روز انٹر پراونشل بورڈز چیئرمین کمیٹی کا اجلاس بغیر کسی نتیجے کے ختم کر دیا گیا کہ31 مئی تک ملکی سطح پر کورونا کی صورت حال کو دیکھ کر دوبارہ اجلاس میں امتحانات کی تاریخ کا تعین کیا جائے گا۔ ان حالات میں جب بورڈز کے پاس امتحانات لینے کے لیے وقت کی کمی کا سامنا ہے، کوئی ایسی ٹھوس تجاویز تیار کی جائیں جس سے طالب علموں کو بھی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

دوران اجلاس فیصلہ کیا گیا کہ مئی کے آخری ہفتے میں پھر اجلاس کا انعقاد کیا جائے گا جس میں اس وقت کورونا کی صورت حال کو مد نظر رکھ کر فیصلے کیے جائیں گے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس امر پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے درست سمت میں فوری فیصلہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ مسئلہ براہ راست وطن عزیز کے طلبا کے تعلیمی مستقبل سے تعلق رکھتا ہے۔

مساجد میں تراویح اور نماز پنجگانہ کی ادائیگی کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے مختلف مساجد کا دورہ کیا۔ انھوں نے مساجد میں نماز اور تراویح کے دوران اختیار کی جانے والی احتیاطی تدابیر کا جائزہ لیا، اس موقعے پر صدر مملکت نے کہا کہ وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ان تدابیر پر عمل درآمد انتہائی اہمیت کا حامل ہے، نمازیوں اور مساجد انتظامیہ کو ملکر ان تدابیر پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا۔

The post کورونا وائرس ، حکومت اور عوام appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2KHUBvd
via IFTTT

کروڑوں فرزندان اسلام کے لیے خوشخبری امام کعبہ شیخ عبدالرحمن السدیس نے حرمین شریفین کو جلد کھولنے کا اعلان کر دیا

پاکستان میں کورونا وائرس کی روک تھام کی کوششوں میں بڑی کامیابی کا امکان آئندہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان میں کلورکوئن اور دیگر اینٹی وائرل ادویات کے کلینیکل ٹرائلز ... مزید

امریکہ میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران مزید 2200 سے زائد افراد ہلاک کورونا کے باعث امریکہ میں ہونے والی مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 59 ہزار سے تجاوز کر گئی

سپین نے لاک ڈاؤن سے نکلنے کے لیے چار فیزز پر مشتمل پروگرام کا اعلان کر دیا چار جزیرے پہلے لاک ڈاؤن میں نرمی کریں گے، صوبے اپنے فیصلے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تبدیل کر ... مزید

آئندہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان میں کلورکن اور دیگر اینٹی وائرل ادویات کے کلینیکل ٹرائلز کامیاب ہوجانے کی امید ہے جو کورونا وائرس کی روک تھام کی کوششوں میں ایک بڑی کامیابی ... مزید

پٹرولیم مصنوعات میں مزید کمی کی خوشخبری دیں گے،جون کے پہلے ہفتے میں بجٹ لایا جائیگاجو کہ’’کورونا بجٹ‘‘ہوگا، اس بجٹ میں ہر شعبے کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے اقدامات ... مزید

حکومت عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے تمام وسائل بروئے کار لارہی ہے‘سعدیہ سہیل رانا

آئس لینڈ ائر کا اپنے 2 ہزار ملازمین کو فارغ کر دینے کے منصوبے کا اعلان

برٹش ائر ویز نے اپنے 12ہزار ملازمین کو فارغ کرنے کا اعلان

فرانسیسی صدر نے لاک ڈاؤن میں نرمی کا منصوبہ پیش کر دیا

تیسری دنیا میں مکمل لاک ڈائون نا ممکن ہے کیونکہ اس سے معاشرہ کا پسماندہ طبقہ بری طرح متاثر ہوگا،گورنر عمران اسماعیل

لاک ڈائون کے باعث آن لائن کھانوں کی خریداری میں اضافہ

Monday, April 27, 2020

متاثرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجودلاک ڈاؤن میں نرمی ایکسپریس اردو

کورونا کے حوالے سے ہفتہ رفتہ میں کچھ عجیب وغریب سے منظر دیکھے گئے۔۔۔

ایک طرف ملک بھر میں کورونا سے متاثر ہونے والے مریض بڑھتے گئے، تو دوسری طرف ملک کے تمام ہی بڑے شہروں میں لاک ڈاؤن میں نرمی کی گئی۔۔۔ یوں بہت سی جگہوں پر تین ہفتوں کے بعد مختلف دکانیں اور کاروبار وغیرہ کھول لیے گئے، بالخصوص گلی محلوں میں یہ مناظر زیادہ دیکھنے میں آئے۔ دن کے اوقات میں شہر کی سڑکوں پر بھی واضح طور پر آمدورفت میں اضافہ سامنے آیا۔۔۔ بہت سی مساجد وغیرہ بھی کھول دی گئیں، اور وہاں باجماعت نمازوں کا اہتمام بھی ہونے لگا، کہیں نمازیوں کے درمیان فاصلہ ملحوظ رکھا گیا ہے، تو کہیں معمول کے مطابق ہی نماز ادا ہو رہی ہے۔

گذشتہ دنوں حکومت کی مشروط اجازت پا کر کھلنے والی صنعتوں کے خلاف کارروائیاں بھی کی گئیں، حکومت سندھ کی جانب سے یہ کہا گیا کہ صنعتوں اور کارخانوں میں احتیاطی تدابیر کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جا رہا تھا۔۔۔ ساتھ ہی کراچی میں دکانیں کھولنے والے کچھ تاجروں کو بھی گرفتار کیا گیا، اور وہ اب 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیجے جا چکے ہیں۔۔۔! یہ صورت حال یقیناً اضطرابی صورت حال کی طرف جا رہی ہے، جس سے بہ جائے وبا کے خلاف مشترکہ حکمت عملی کے، الٹا ہماری توانائیاں داخلی تنازعات کی نذر ہو رہی ہیں۔۔۔!

دوسری طرف تاجروں کی مختلف انجمنوں کے لب ولہجے ان کے پیمانۂ صبر چھلکنے کی خبر دینے لگے ہیں۔۔۔ جس سے آنے والے دنوں میں تناؤ میں اضافے کا خدشہ ہے۔۔۔ بہت سے حلقوں سے ایسی باتیں بھی سامنے آرہی ہیں کہ مبینہ طور پر بازار اور صنعتیں کھولنے کی اجازت دینے کے لیے اِن سے باقاعدہ بھاری رقوم کا تقاضا کیا جا رہا ہے۔۔۔

لاک ڈاؤن میں نرمی دکھانے کے ساتھ ساتھ خواتین، بزرگ اور صحافیوں وغیرہ کا استثنا ختم کر کے ’ڈبل سواری‘ کے حوالے سے پہلی بار مکمل طور پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔۔۔ جس پر عمل درآمد کرانے کے حوالے سے ’کراچی پولیس‘ کی کارروائیوں پر شہریوں میں سخت غم وغصہ ہے، تواتر کے ساتھ ایسی اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ کسی خاتون کو ساتھ لے جانے والے شہری کی بائیک کی ہوا نکال کر انہیں سخت گرمی میں پیدل چلنے پر مجبور کر دیا گیا۔۔۔! اس طرح کی کارروائیاں براہ راست پریشان شہریوں کو مشتعل کر رہی ہیں۔۔۔!

مجموعی طور پر ایسا لگ رہا ہے کہ لاک ڈاؤن کے حوالے سے حکام بالا تاجروں اور صنعت کاروں وغیرہ کے دباؤ میں آکر نرمی کرنے لگی ہے۔ وزیراعظم عمران خان بھی ’اسمارٹ لاک ڈاؤن‘ کی بات کر چکے ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ’لاک ڈاؤن‘ کے دوران ہی پابندی نہیں ہوئی، دکانوں اور بازاروں میں احتیاطی تدابیر کی دھجیاں اڑا دی گئیں، ایسے میں ’اسمارٹ لاک ڈاؤن‘ کتنا کارگر ہوگا۔۔۔؟ پھر کورونا کے متاثرین اور جاں بحق ہونے والوں کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافے کے دوران نرمی چہ معنی؟ کراچی میں ڈاکٹروں نے بھی پریس کانفرنس کر کے بھی مستقبل کی مشکل صورت حال کے حوالے سے خدشات ظاہر کیے ہیں۔۔۔

اس تمام صورت حال کے ساتھ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گذشتہ 20 برسوں میں کم ترین سطح پر آچکی ہیں، لیکن طلب ورسد کے گورکھ دھندے سے جڑی ہوئی اس سہولت سے ’فائدہ‘ کون اٹھائے۔۔۔ سارے عالم میں صنعتیں اور کارخانے بند ہیں، ہوائی جہاز کھڑے  ہوئے ہیں۔۔۔ بحری سفر معطل ہے۔۔۔ سڑکوں پر بھی معمول کے سفر پر بندشیں ہیں۔۔۔ ایسے میں کون خریدار ملے، اس ’کالے سونے‘ کا کوئی کیا کرے۔۔۔ اس لیے کسی بھلے مانس کا کہنا ہے کہ اس ’رعایت‘ سے وہی ملک زیادہ استفادہ کر سکے گا، جو ’کورونا‘ کے بعد سب سے پہلے ’لاک ڈاؤن‘ ختم کرے گا۔۔۔ دفعتاً ہمیں اپنے دیش کا خیال آیا۔۔۔ جہاں لاک ڈاؤن ہو بھی رہا ہے، مگر نہیں بھی ہو رہا۔۔۔! اس لیے ہم ارزاں تیل کے سہارے ’سَستائی‘ یا بہتر معیشت کا فقط خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ کسی کو کیا سمجھائیں۔۔۔ ہمارے ہاں تو قدم قدم پر ’رانگ نمبر‘ ہی دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ عوام میں ’کورونا‘ کے ٹیسٹ کے درست ہونے اور انتقال کرنے والوں کو زبردستی کورونا کا شکار بتانے کے حوالے سے خدشات بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔۔۔ اس ابہام کو بھی فوری طور پر دور کرنا ریاست کی اولین ذمہ داری ہے، ورنہ صورت حال بگڑ سکتی ہے۔

’سرمایہ داری‘ کے عہد میں جہاں سرمایہ ’خدا‘ کی صورت پوجا جاتا ہو، وہاں ’سازشیں‘ فقط وہم نہیں ہو سکتیں۔۔۔ جہاں منظر بنائے جاتے ہوں اور واقعات کی تشکیل ہوتی ہو۔۔۔ مختلف ’پیادے‘ دوڑائے جاتے ہوں اور افسانوں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کو ناقابل یقین ناٹک رچائے جاتے ہوں۔۔۔ وہاں ولیم شیکسپئیر  کے الفاظ میں یہ سارا جہاں فطری اسٹیج کے ساتھ ساتھ  مہیب سرمایہ کاروں کی ڈائریکشن میں بننے والی کوئی فلم ہی تو دکھائی دیتا ہے۔۔۔ لیکن دوسری طرف ہم لوگ بھی تو وہ ہیں کہ کھیل کو جنگ اور جنگ کو کھیل سمجھنے کی ایک تاریخ رکھتے ہیں۔۔۔ اس بار بھی اپنی کم علمی اور جذباتیت کے ہاتھوں اگر  کسی ایسی ہی غلطی کا شکار ہوگئے تو ؎

کہانی آپ الجھی ہے یا الجھائی گئی ہے

یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہوگا

زیادہ نہیں صرف پانچ سال پہلے 2015ء میں یہی رمضان المبارک کے دن تھے، جب ملک کے معاشی دارالحکومت کراچی نے شدید ترین گرمی میں ’متاثرین‘ کے لیے اسپتالوں میں گنجائش ختم ہوتے ہوئے دیکھی۔۔۔

کتنا خوف ناک منظر تھا، جب لوگ ہنگامی حالت میں اپنے پیاروں کو ’ایمبولینسوں‘ میں لیے ایک اسپتال سے دوسرے اسپتال کی خاک چھانتے رہے کہ ان کے مریض کو کہیں تو جگہ مل جائے، کئی اسپتالوں میں پارکنگ تک مریضوں کے بستر لگے ہوئے تھے۔۔۔ وہ تو شکر ہے کہ چند دن میں ہی  موسم بہتر ہوگیا، ورنہ جانے مرنے والوں کی تعداد ڈیڑھ دو ہزار سے بڑھتے ہوئے کہاں تک جاتی۔۔۔! اس امر نے یہ بہت واضح کر دیا تھا کہ  ملک کا سب سے بڑا شہر معمول کی طبی سہولتوں کے لیے ہی قطعی ناکافی ہے، الّا کہ کسی وبا یا غیر معمولی صورت حال کا سامنا کر سکے۔۔۔!

’کورونا‘ کے اعدادوشمار دیکھیے، تو شاید یہ بات درست ہے کہ یہ مرض ہمارے ملک کے لوگوں کے لیے اتنا مہلک نہیں، جتنا مغربی ممالک کے لیے کاری ہے، لیکن بتایا یہ جاتا ہے کہ اس مرض کی انتہائی صورت میں مریض کو ’وینٹی لیٹر‘ کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔۔۔۔! لیکن ہمارے 22 کروڑ آبادی والے  ملک میں کتنے وینٹی لیٹر موجود ہیں۔۔۔؟ مختلف ذرایع سے اِن کی تعداد دو ہزار کے اندر بتائی جاتی ہے۔۔۔ آگے آپ خود سمجھ دار ہیں۔

The post متاثرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باوجودلاک ڈاؤن میں نرمی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2W61JXA
via IFTTT

لاک ڈاؤن: ڈونلڈ ٹرمپ اپنا ووٹ بینک بڑھانا چاہتے ہیں! ایکسپریس اردو

امریکا:  مضمون نگار طویل عرصے تک پاکستان میں صحافتی ذمے داریاں سرانجام دینے کے بعد 2000ء سے امریکا میں مقیم ہیں۔ ان کی یہ مختصر تحریر کورونا کے شکار امریکا کی صورت حال کی تصویر پیش کر رہی ہے۔

امریکا میں حکومت کی جانب سے جاری لاک ڈاؤن میں مزید توسیع کو روکنے کے لیے کئی ریاستوں میں مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ مشی گن اسٹیٹ میں لوگ اپنا لائسنس یافتہ اسلحہ لے کر مظاہرہ کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ ٹیکساس اور انڈیانا میں بھی مظاہرہ کیا گیا اور مظاہرین لاک ڈاؤن کو یکم مئی سے قبل ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دوسری جانب امریکا میں اس وائرس سے ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکا کے سابق وزیر خزانہ پال اونیل بھی اس وائرس سے ہلاک ہوگئے۔ یہ وائرس اب نیو یارک اور دیگر بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہروں اور ٹاؤن میں بھی پھیلنے لگا ہے۔ امریکا میں اب تک 38 ہزار افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔

لاک ڈاؤن کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر غریب اور ڈیلی ویجز طبقہ ہو رہا ہے، چھوٹے کاروبار بھی تباہی کا شکار ہو رہے ہیں۔ لوگوں کی جانب سے اسلحہ خریدنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، لوٹ مار اور چوری کی وارداتوں میں حیرت انگیز حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ شہری خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے اعلان کردہ 1200 ڈالر ہر امریکی شہری کے اکاؤنٹ میں آنا شروع ہوگئے ہیں، مگر یہ امداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، یہاں 3 سے 4 افراد پر مشتمل ایک گھرانے کا خرچہ کرایہ وغیرہ ملا کر کم ازکم 5 ہزار ڈالر ماہانہ بنتا ہے۔ امریکا میں لوگوں کی اکثریت گھروں میں کھانا نہیں بناتی، بلکہ باہر کھانے کو ترجیح دیتی ہے اس معاشرے میں کھانا پکانا یا بچے کا ’ڈائپر‘ تبدیل کرنا صرف عورت کی ذمے داری نہیں، بلکہ مرد بھی اس میں برابر کا حصہ ڈالتے ہیں، اسی لیے یہاں پیسہ کمانا بھی صرف مردوں کی ذمہ داری نہیں، بلکہ عورتیں بھی ملازمت کر کے پیسہ کماتی ہیں۔

یہاں کی عورت مظلوم بن کر کسی ظالم شوہر کے ساتھ زیادہ عرصہ نہیں گزارتی بلکہ وہ برسر روزگار ہونے کی وجہ سے خود علیحدگی اختیار کرلیتی ہے اور اپنی زندگی ہنسی خوشی اکیلے گزارتی ہے، مگر اس لاک ڈاؤن کے باعث ازدواجی مسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ لوگ باہر نکلنا شروع ہوگئے ہیں، سب سے زیادہ ضرورت انہیں باہر کے کھانوں کی ہے، دوسرا بڑا مسئلہ سماجی دوری کا ہے، یہ لوگ آپس میں یعنی رشتہ داروں سے تو ویسے بھی بہت کم ملتے جلتے ہیں، ان کا سماجی دائرہ زیادہ تر باہمی شوق ہوتا ہے یعنی اگر آپ ’’بار‘‘ جانے کے شوقین ہیں، تو آپ زیادہ تر ایسے لوگوں میں بیٹھتے ہیں جو ’’بار‘‘ جاتے ہیں یا وہاں آپ کے ساتھ شراب نوشی میں شریک ہوتے ہیں، آپ اپنے دل کی تمام باتیں، قصے کہانیاں وہاں پر شیئر کرتے ہیں یا آپ شکاری ہیں یا کچھ اور… بہرحال اپنے ہی جیسوں کی صحبت میں اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں۔

اس لاک ڈاؤن اور سماجی رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں میں منشیات کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے اور اس لاک ڈاؤن کے دوران منشیات کی زیادتی کی وجہ سے متعدد اموات بھی واقع ہو چکی ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ بتدریج چند ریاستوں میں جہاں اس وائرس سے اموات کا تناسب کم رہا ہے لاک ڈاؤن کے سلسلے کو کم کرتے جائیں گے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے چھوٹے کاروبار تباہی کی طرف جا رہے ہیں، کاروبار بند پڑے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے اعلان کردہ چھوٹے کاروباری طبقے کے لیے قرض کی مد میں دی جانے والی رقم ضرورت سے کم نکلی اور یہ اعلان کے ایک ہفتے میں ہی ختم ہوگئی۔

اب تک صرف 10 سے 20 فی صد چھوٹے کاروباروں کو قرض فراہم کیا جا چکا ہے، باقی لوگ حکومت سے مزید قرض کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ اگر بل گیٹس کے کہنے کے مطابق لاک ڈاؤن میں اگست یا ستمبر تک توسیع کی گئی تو امکان ہے کہ عوام سڑکوں پر آجائیں گے۔ ٹیکساس میں مظاہروں کے دوران ایک شخص نے تو یہاں تک کہا کہ اگر اس وائرس کا خطرہ موجودہ صورت حال سے 10 گنا زیادہ بھی ہوتا تو وہ گھر میں رہنے کو ترجیح نہیں دیتا، یہ ہماری آزادی کے خلاف ہے۔ لوگوں کی ایک خاموش اکثریت خصوصاً 50 سال سے زائد عمر کے شہری لاک ڈاؤن کے زبردست حامی ہیں اور وہ گھروں میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ٹر مپ لاک ڈاؤن کی مخالفت کر کے اپنا ووٹ بینک بڑھانا چاہتے ہیں اور اسی لیے انہو ں نے اپنی ہی پارٹی سے وابستہ نیو یارک کے گورنر کو شکا یتو ں سے ذیادہ اپنے کام پر تو جہ دینے کی ہدایت کی ہے، کیوں کہ یہ گورنر لاک ڈاؤن میں نرمی کے سخت مخالف ہیں۔

The post لاک ڈاؤن: ڈونلڈ ٹرمپ اپنا ووٹ بینک بڑھانا چاہتے ہیں! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2VFCOv4
via IFTTT

جعلی پاسپورٹ کا علم نہیں تھا،رونالڈینو ایکسپریس اردو

آسانسیون: برازیل کے سابق فٹبال رونالڈینو نے ایک بار پھر اپنی بے گناہی کا دعویٰ کرتے کہا کہ مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ پاسپورٹ جعلی ہے۔

انھیں جعلی سفری دستاویزات کی وجہ سے 32 دن پیراگوئے کی جیل میں گزارنے پڑے جبکہ اب بھی وہ آسانسیون کے ایک ہوٹل میں نظربند ہیں، اپنی گرفتاری کے حوالے سے پہلی بار گفتگو کرتے ہوئے رونالڈینو نے کہا کہ ہم نے اب تک مقامی اتھارٹیز سے مکمل تعاون کیا ہے۔

The post جعلی پاسپورٹ کا علم نہیں تھا،رونالڈینو appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2KDKN5v
via IFTTT

پرتھیو پٹیل 9 انگلیوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے رہے ایکسپریس اردو

 ممبئی:  بھارت کے سینئر وکٹ کیپر بیٹسمین پرتھیو پٹیل 9 انگلیوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے رہے۔

اس بات کا انکشاف انھوں نے ایک حالیہ انٹرویو میں کیا ہے، پرتھیو نے کہا کہ جب میں 6 برس کا تھا توبائیں ہاتھ کی چھوٹی انگلی دروازے میں آکر کٹ گئی تھی، مگر میں نے بعد میں اس کمی کو اپنے کیریئر کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا، وکٹ کیپنگ کے دوران بچی ہوئی انگلی پر ٹیپ لپیٹ دیتا ہوں تاکہ وہ کیپنگ گلوز میں فٹ ہوجائے۔

یاد رہے کہ پرتھیو پٹیل نے 25 ٹیسٹ اور 38 ون ڈے میچز میں بھارت کی نمائندگی کی ہے، ڈومیسٹک سطح پر انھوں نے مختلف فارمیٹس میں مجموعی طور پر 16 ہزار سے زائد رنز بنائے۔

The post پرتھیو پٹیل 9 انگلیوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے رہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2KDiKmy
via IFTTT

بھارتی بورڈ ہاتھ دھو کر ورلڈکپ کے پیچھے پڑگیا ایکسپریس اردو

کراچی: بھارتی بورڈ ہاتھ دھو کر ورلڈکپ کے پیچھے پڑگیا،اس نے اکتوبر میں انعقاد کو ناقابل عمل قراردیتے ہوئے کئی سوال اٹھا دیے،ایک آفیشل کا کہنا ہے کہ حتمی فیصلے پر پہنچنے کیلیے کئی پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ہوگا، کیا تب تک کورونا وائرس مکمل طور پر کنٹرول ہوچکا ہوگا، کیا آئی سی سی یا آسٹریلوی حکومت دنیا بھر سے آنے والے کھلاڑیوں کی زندگی کی ضمانت دیں گی، کیا ٹکٹیں بھی سوشل ڈسٹنس کے لحاظ سے فروخت ہوں گی؟

تفصیلات کے مطابق آئی سی سی اور میزبان آسٹریلیا نے رواں برس اکتوبر، نومبر میں شیڈول ٹوئنٹی 20  ورلڈ کپ کے حوالے سے اپنے ہونٹ سختی سے بند کررکھے ہیں،موجودہ صورتحال میں بھارتی بورڈ کی جانب سے ایونٹ کے حوالے سے مسلسل غیریقینی پھیلائی جارہی ہے، اب ایک آفیشل نے ایونٹ کے اکتوبر میں انعقاد کو ناقابل عمل قرار دے دیا ہے،ایک بھارتی اخبار سے گفتگو میں انھوں نے کہاکہ ٹی 20 ورلڈ کپ اکتوبر میں منعقد ہوتا ہوا دیکھائی نہیں دیتا، ہمیں مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینا ہوگا،فی الحال تو آپ یہ نہیں بتا سکتے کہ غیرملکی سفر کب محفوظ ہوگا، کوئی جون کی بات کررہا اور کوئی اس سے آگے کی تاریخ دے رہا ہے۔

کیا تب تک کورونا وائرس مکمل طور پر کنٹرول ہوچکا ہوگا، اس کے علاوہ ایونٹ میں شریک لوگوں کی زندگی کی ضمانت کون دے گا، اگر آئی سی سی اور آسٹریلیا ایونٹ کے انعقاد کیلیے بضد ہیں تو پھر ذمہ داری کس کی ہوگی، کیا آسٹریلوی حکومت یہ خطرہ مول لے سکے گی، اگر آخری لمحات میں ایونٹ منعقد کرنیکا فیصلہ ہوا تو میزبان حکومت کب تک منظوری دیگی، مہمان ٹیموں کی حکومتیں کیا اپنے کھلاڑیوں کو سفر کرنے دیںگی، صرف یہی نہیں اگر ایونٹ تماشائیوں کی موجودگی میں کرانے کا فیصلہ ہوتا ہے تو کیا شائقین اسٹیڈیم کا رخ کرنے پر راضی ہوں گے۔

کیا وہاں پر سوشل ڈسٹنس برقرار رکھنے کیلیے 10 میں سے صرف ایک نشست کی ٹکٹ فروخت کی جائے گی؟ ان تمام چیزوں کو اگر مدنظر رکھا جائے تو اکتوبر میں ایونٹ کا انعقاد قابل عمل دکھائی نہیں دیتا۔ یاد رہے کہ آسٹریلوی آل راؤنڈر گلین میکسویل کا حال ہی میں کہنا تھا کہ تماشائیوں کے بغیر ورلڈ کپ کے انعقاد کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

The post بھارتی بورڈ ہاتھ دھو کر ورلڈکپ کے پیچھے پڑگیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2zEN6Dj
via IFTTT

عمر اکمل پاکستانی کوہلی کیوں نہ بن سکا ایکسپریس اردو

3 اگست 2009 کی بات ہے سری لنکا کے شہر دمبولا میں ایک نوجوان اپنے دوسرے ون ڈے انٹرنیشنل میں بیٹنگ کیلیے میدان میں اترا اور66 رنز کی عمدہ اننگز سے سب سے دادوتحسین سمیٹی۔

اس میچ سے تقریباً ایک سال پہلے کی بات ہے، اسی دمبولا اسٹیڈیم میں ایک اور نوجوان بیٹسمین ایکشن میں نظر آیا مگر ڈییبو پر12 رنز سے آگے نہ بڑھ سکا۔

پہلے والا بیٹسمین عمر اکمل اور دوسرا ویرات کوہلی تھا، دونوں کی عمروں میں تقریباً ایک سال کا فرق ہے، کیریئر میں بھی ایسا ہی رہا، مگر آج اگر ہم عمر اکمل کو دیکھیں توانھوں نے11 سالہ کیریئر میں ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں مجموعی طور پر6 ہزار رنز بھی نہیں بنائے، ان کے کیریئر ریکارڈ میں صرف3 سنچریاں ہی درج ہیں۔ دوسری جانب کوہلی بھارت کے کپتان بن چکے، انھوں نے تینوں طرز میں تقریباً22 ہزار رنز بنا لیے،70 سنچریاں ان کے ریکارڈ کا حصہ ہیں، یقین مانیے عمر اکمل بھی کوہلی سے کم نہ تھے،آپ صرف کرکٹ کھیلیں تو اچھی بات ہے لیکن اگر کرکٹ سے کھیلیں گے تو معافی نہیں ملے گی۔

کوہلی کو بھی آغاز میں رویے کے حوالے سے مسائل کا سامنا تھا مگر انھوں نے بہت جلد اپنی خامیوں کا اندازہ لگا کر کھیل پر ہی توجہ مرکوز کر لی جس کی وجہ سے آج دنیا کے نمبر ون بیٹسمین ہیں، عمر اکمل نے خود کو کھیل سے بڑا سمجھا جس کی وجہ سے آج یہ حال ہے،  بیچارے عبدالقادر بھی اپنے داماد کی وجہ سے پریشان ہی رہے، وہ انھیں سمجھاتے مگر کوئی فائدہ نہ ہوتا، عمر اکمل اگر فضول حرکات میں نہ پڑتے تو ان کاکیریئر ریکارڈ  بھی شاندار ہوتا مگر انھوں نے کبھی کرکٹ کو ترجیح نہیں دی، دیگر ’’مشاغل‘‘ میں پڑے رہے جس کی وجہ سے یہ دن دیکھنا پڑا، زیادہ دور کیوں جاتے ہیں اپنے کزن بابر اعظم سے ہی سبق لیں جو مختصر کیریئر میں قیادت کے منصب پر فائز ہو چکے، دنیا بھر میں انھیں اپنی کارکردگی کی وجہ سے سراہا جاتا ہے مگر افسوس عمر نے اپنے کیریئر کا خود گلا گھونٹ دیا،دورۂ آسٹریلیا میں جب انھوں نے بھائی کی ’’محبت‘‘ میں جھوٹی انجری کا بہانہ بنایا تب ہی سب کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ بڑے ’’فنکار‘‘ ہیں، بعد میں لاتعداد تنازعات میں پھنسے، ہر بارسزا کے بعد واپس بھی آ جاتے مگر اب معاملہ سنگین لگ رہا ہے،مشکوک رابطے کی بروقت اطلاع نہ کرنے پر وہ تین سال کی پابندی بھگتیں گے، اگر کوئی ’’سیٹنگ‘‘ نہیں ہوئی تو وہ اپیل نہیں کریں گے۔

البتہ اگر یہ پری پلان گیم ہے تو شاید اپیل پر سزا کم کر دی جائے اور پھر آئندہ سال دوبارہ واپس آ جائیں، ان کے ’’چاہنے والے‘‘ بہت ہیں جو ایک سیٹ مہرے کو ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے، دیکھتیں ہیں آگے کیا ہوتا ہے، بہت کم لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ پی ایس ایل 3میں بھی عمر اکمل کے حوالے سے شکایات موجود تھیں مگر ان پر پی سی بی نے توجہ نہیں دی، چوتھے ایڈیشن کے ایک اہم میچ سے قبل ان کے حوالے سے ٹپ ملی جس پر وارننگ دے کر میچ کھلایا گیا، اس سال قسمت نے ساتھ نہ دیا اور وہ پھنس گئے،ابتدا میں بورڈ نے ٹھوس ثبوت ہونے کی بات کہی تھی بعد میں کیس صرف رپورٹ نہ کرنے کا بنا، عمر اکمل  نے تسلیم کیا کہ وہ مشکوک افراد سے ملے تھے لیکن وجہ ذاتی قرار دی، یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں کوئی انھیں بلیک میل تو نہیں کر رہا تھا، افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری کرکٹ میں متواتر ایسے واقعات ہو رہے ہیں، لیکچرز وغیرہ کا کسی پر اثر ہی نہیں ہوتا، یہ تو وہ کیسز ہیں جو سامنے آ گئے۔

نجانے کتنے کھلاڑی اب بھی آزاد گھوم رہے ہوں گے، دراصل یہ سارا قصور پی سی بی کا ہے جس نے نام کی زیروٹولیرنس  پالیسی اپنائی ہے،اگر فکسرز کو نشان عبرت بنا دیا جاتا تو دوسروں کو ایسا کرنے کی ہمت نہ ہوتی، مگر افسوس یہاں عامرجیسے جیل جانے والے فکسرز کو پھر ہیرو بنایا گیا، اب شرجیل خان کو واپس لانے کی باتیں ہو رہی ہیں، ماضی کے داغدار کرکٹرز کو بڑے بڑے عہدے دیے گئے، اسی لیے ایسا ہوتا رہا اور آئندہ بھی ہو گا،عمر اکمل کو ابھی تین سال سزا ہوئی کیا بورڈ ان کے بینک اکاؤنٹس اور اثاثے چیک کرائے گا؟ یہاں کہا جائے گا کہ اختیار نہیں ہے،  میں نہیں مانتا کہ اگر پی سی بی کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے سے کسی کھلاڑی کے خلاف تحقیقات کا کہے تو وہ انکار کر دے گا۔

بات قدم اٹھانے کی ہے، جتنے مشکوک کرکٹرز ہیں آپ نہ صرف ان کے بلکہ اہلیہ، بہن، بھائی، قریبی دوستوں، ڈرائیورز اور مالی تک کے اکاؤنٹس چیک کرائیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا، اگر واقعی کرپشن ختم کرنا چاہتے ہیں تو  سینٹرل کنٹریکٹ میں یہ شق شامل کریں کہ اکاؤنٹس اور جائیدادوں کی تفصیلات چیک کی جا سکیں گی، اگر کوئی کھلاڑی انکار کر دے تو اسے کنٹریکٹ نہ دیں کہیں ویسے ہی کھیلے اور پھر شک ہو تو کسی ایجنسی سے چیک کرنے کی درخواست کر دیں، نہ صرف کھلاڑیوں بلکہ بورڈ حکام کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں تاکہ انھیں ایسا نہ لگے کہ امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ساتھ فکسنگ پر تاحیات پابندی کا اعلان کر دیں، اس کے بعد دیکھیے گا کہ یقینی طور پر بہتری آئے گی، ابھی تو قوم کو بے وقوف بنانے کیلیے زیرو ٹولیرنس کا راگ الاپتے رہیں، مگر اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، آج عمر اکمل تو کل کوئی اور کھلاڑی اپنی غلطی سے پکڑا جائے گا  پھر اس پر چند برسوں کی پابندی لگ جائے گی مگر اصل مسئلہ برقرار رہے گا،آپ کو مرض کی جڑ تک پہنچنا ہے تو گڑے مردے اکھاڑنے ہوں گے،ان کے پوسٹ مارٹم سے ہی پاکستان کرکٹ میں سرایت کرنے والے کرپشن وائرس کا درست اندازہ ہو گا، جسٹس قیوم کی رپورٹ کا پھر مطالعہ کریں اور نائنٹیز کے نام نہاد ہیروز کوگھر بھیجیں،  شاید کچھ بہتری آ جائے، ورنہ قوم کو پھر زیروٹولیرنس کا لالی پاپ پکڑا کر چین کی نیند سو جائیں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

The post عمر اکمل پاکستانی کوہلی کیوں نہ بن سکا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2y7qKtr
via IFTTT

محمد حفیظ ٹی20 ورلڈ کپ کھیلنے کیلیے بے چین ایکسپریس اردو

کراچی: آل راؤنڈر محمد حفیظ ٹی 20 ورلڈ کپ کھیلنے کیلیے بے چین ہیں، وہ انٹرنیشنل کرکٹ کو الوداع کہنے سے قبل میگا ایونٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں، انھوں نے اپنے ’ڈریم‘ اوپننگ پارٹنر کیلیے بابر اعظم کا انتخاب کیا، وہ روہت شرما اور ڈیوڈ وارنر کے بھی مداح ہیں۔

تفصیلات کے مطابق محمد حفیظ پاکستان کی 55  ٹیسٹ، 218 ون ڈے اور 91 ٹوئنٹی 20  میچز میں نمائندگی کر چکے ہیں، اس دوران انھوں نے مجموعی طور پر 12 ہزار سے زائد رنز اور 200 سیزیادہ وکٹیں لیں۔ وہ پہلے ہی ٹیسٹ کرکٹ کو الوداع کہہ چکے اور صرف سفید بال کی کرکٹ تک محدود ہیں، اب ان کی خواہش ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کو ہمیشہ کیلیے الوداع کہنے سے قبل رواں برس آسٹریلیا میں شیڈول ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندگی کریں۔

انھوں نے ایک انٹرویو میں اس خواہش کا اظہار کرنے کے ساتھ ڈریم اوپننگ پارٹنر کے طور پر مختصر ترین فارمیٹ کے قومی کپتان بابر اعظم کا نام لیا، حفیظ نے کہا کہ دنیا میں اس وقت متعدد شاندار بیٹسمین کھیل رہے ہیں،میں ان میں سے کئی کو پسند کرتا ہوں، اگر مجھے اپنے ڈریم پارٹنر کیلیے پاکستان سے کسی کا انتخاب کرنا پڑے تو وہ بابر اعظم ہوں گے، جس عمدہ تکنیک کے ساتھ وہ بیٹنگ کرتے ہیں اس سے دوسرے اینڈ پر موجود بیٹسمین سے دباؤ بہت کم ہوجاتا ہے، انھوں نے کہا کہ عالمی سطح پر کسی خاص پلیئر کا ذکر کرنا بہت ہی مشکل ہے کیونکہ اس وقت کئی عظیم نام موجود ہیں، بہرحال میں روہت شرما اور ڈیوڈ وارنر کے ساتھ اننگز کا آغاز کرنا چاہوں گا۔

The post محمد حفیظ ٹی20 ورلڈ کپ کھیلنے کیلیے بے چین appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2YfOOVJ
via IFTTT

میانداد کا قومی کرکٹرز کے ساتھ ویڈیوسیشن، مفید مشوروں سے نوازدیا ایکسپریس اردو

 لاہور:  سابق کرکٹرز کی جانب سے قومی کرکٹرز کو ویڈیو لنک پر لیکچرز دینے کا آغاز ہوگیا۔

گذشتہ روز جاوید میانداد نے بیٹسمینوں کو اپنے ماضی کے تجربات سے آگاہ کیا، انھوں نے پلیئرز کو انگلینڈ سمیت مختلف کنڈیشنز میں ایڈجسٹ ہونے اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اہم مشورے دیے، اپنے وقت کے بہترین بیٹسمین نے حریف بولرز کو خود پر حاوی نہ کرنے کی ہدایت کی۔انھوں نے بابر اعظم کی پرفارمنس کو سراہتے ہوئے کہا کہ اپنی اسکلز پر مزید محنت کرکے آپ بہت نام کماسکتے ہیں۔

اس موقع پر محمد حفیظ، بابر اعظم اور امام الحق نے سابق کپتان سے مختلف سوالات کیے، اس سیشن میں ہیڈکوچ مصباح الحق اور بولنگ کوچ وقار یونس بھی شریک ہوئے۔اگلے مرحلے میں سابق کپتان وسیم اکرم لیکچر دیں گے۔

The post میانداد کا قومی کرکٹرز کے ساتھ ویڈیوسیشن، مفید مشوروں سے نوازدیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/35bDCed
via IFTTT

عمر اکمل پر تاحیات پابندی لگنی چاہیے تھی ، راشد لطیف ایکسپریس اردو

کراچی: سابق ٹیسٹ کپتان راشد لطیف نے کہا ہے کہ عمر اکمل پر تاحیات پابندی لگنی چاہیے تھی، نمائندہ ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اینٹی کرپشن کوڈ کی خلاف ورزی پر عمر اکمل کو سزا تو ملنی ہی تھی،البتہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ یہ سلسلہ رکنے والا نہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملے پر قانون سازی کر کے پارلیمنٹ سے باقاعدہ طور پر منظوری دلا کرآئین کا حصہ بنایا جائے۔

یوں آئندہ پی سی بی کو اس قسم کے معاملات پر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی، قانون کی روشنی میں تعزیراتی جرم کی بنا پر قصوروار سزا کا حقدار ٹھہرے گا،ایک سوال پر راشد لطیف نے کہا کہ عمر اکمل کے لیے تین سال کی سزا کا فیصلہ بہت کم ہے، یہ دورانیہ پلک جھپکتے ہی ختم ہو جائے گا، اس سے پہلے بھی جن کرکٹرز کو سزائیں ہوئی وہ اپنی سزا مکمل کرکے واپس کرکٹ کے میدانوں میں آگئے۔

سابق ٹیسٹ کرکٹر باسط علی نے کہاکہ عمراکمل بگڑے ہوئے بچے کی مانند ہیں،انھوں نے مسلسل غلطیاں کرکے اپنے ساتھ ناانصافی کی، انھیں کرکٹ کیریئر کے دوران بہت زیادہ مواقع ملے،میں عمر اکمل کا کوچ رہا ہوں اور یہ بات میرے علم میں ہے کہ وہ اپنی حرکتوں کی وجہ سے ہر سال پابندیوں کا شکار ہوتے رہے۔

باسط علی نے کہا کہ عمراکمل کو ملنے والی سزا سے ان کے سسر سابق ٹیسٹ کرکٹر  عبدالقادر مرحوم کی روح کو بھی تکلیف پہنچی ہوگی۔ عمر اکمل کی پی ایس ایل  فرنچائز کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے اونر ندیم عمر نے کہا کہ یہ ہمارے لیے باعث افسوس ہے کہ ٹیم کا ایک اچھا کھلاڑی جرم کا مرتکب ہوا اور اسے سزا ملی،انھوں نے کہاکہ عمراکمل کو اس کے جرم سے زیادہ سزا ملی، تین سال کا عرصہ بہت زیادہ اور اس مدت میں ایک اچھے کرکٹر کا کیریئر ختم ہونے کا بھی امکان ہوتا ہے،پی سی بی کو چاہیے تھاکہ وہ عمراکمل کو تنبیہ کرکے مختصر سزا دیتی۔

The post عمر اکمل پر تاحیات پابندی لگنی چاہیے تھی ، راشد لطیف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3cUuf5u
via IFTTT

بطور ملزم پیشی پرعمراکمل کا بادشاہوں والا رویہ ایکسپریس اردو

 لاہور:  فکسنگ کیس میں بطور ملزم پیشی پر بھی عمراکمل کا بادشاہوں والا رویہ رہا،انھوں نے این سی اے اسٹاف کو جسم کا ٹمپریچر چیک کرانے سے گریز کیا،وہ کرکٹ فیلڈ میں کم تنازعات میں زیادہ ایکشن میں نظر آئے، آسٹریلیا میں بھائی کامران اکمل کی جگہ وکٹ کیپنگ سے انکار، ٹریفک وارڈن سے جھگڑے،ورلڈکپ 2015میں ڈسپلن کی خلاف وزری،ڈانس پارٹی میں شرکت، ہیڈ کوچ مکی آرتھر سے محاذ آرائی اور ٹرینر کے سامنے نازیبا حرکت سمیت کئی ’’کارنامے‘‘ سرانجام دیے۔

تفصیلات کے مطابق گذشتہ روز ڈسپلنری پینل کے سامنے پیشی میں بھی عمر اکمل کی اکڑ برقرار رہی، جب نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے اسٹاف نے ان کے جسم کا ٹمپریچر چیک کرنا چاہا تو وہ انکار کرتے ہوئے اندر چلے گئے۔ پورے کیریئر میں انھیں ڈسپلنری مسائل کا سامنا رہا، 2009میں کیریئر کا آغاز کرنے والے عمر اکمل کو مبصرین مستقبل کے عظیم بیٹسمینوں کی صف میں کھڑا دیکھ رہے تھے لیکن انھوں نے کرکٹ سے زیادہ تنازعات میں نام کمایا، وہ اپنا پانچواں ٹیسٹ کھیل رہے تھے کہ آسٹریلیا میں انتہائی ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بھائی کامران اکمل کو ڈراپ کیے جانے پر متبادل وکٹ کیپر کے گلوز پہننے کے بجائے کمر کی تکلیف کا بہانہ کردیا۔

2014میں ٹریفک قوانین کی دھجیاں بکھیرنے کے بعد وارڈن سے لڑائی کی اور مقدمے کا سامنا کیا، ورلڈکپ2015 میں ڈسپلن کی خلاف ورزیوں پر ہیڈکوچ وقار یونس نے عمر اکمل اور احمد شہزاد دونوں کی بارے میں منفی رپورٹ دی، 2015 میں ہی حیدرآباد میں ایک ڈانس پارٹی میں شرکت کی ویڈیو سامنے آئی،اگلے سال فیصل آباد کے ایک تھیٹر میں ایک رقاصہ کو دوبارہ پرفارم نہ کرانے پر منتظمین سے جھگڑا کیا،چیمپئنز ٹرافی 2017میں فٹنس ٹیسٹ پاس نہ کرنے پر ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے انھیں واپس بھجوا دیا۔

مڈل آرڈر بیٹسمین نے بعد ازاں پریس کانفرنس میں آرتھر پر امتیازی سلوک کا الزام عائدکر دیا، رواں سال فروری میں فٹنس ٹیسٹ میں ناکام ہونے پر انھوں نے ٹرینر کے سامنے کپڑے اتار کر کہا کہ آپ کو موٹاپا کہاں نظر آرہا ہے، اس کے بعد بکی کی جانب سے رابطے کی اطلاع نہ کیے جانے کا موجودہ کیس سامنے آیا، ڈسپلنری پینل کی طرف سے دی جانے والی سزا کے تحت اب وہ 3سال گھر بیٹھ کر گزاریں گے۔

The post بطور ملزم پیشی پرعمراکمل کا بادشاہوں والا رویہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Yb4lGl
via IFTTT

امریکہ میں کورونا کے باعث ایک ہی دن میں مزید 1303 افراد ہلاک ملک میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ریکارڈ، مجموعی تعداد 10 لاکھ کے قریب پہنچ گئی

نامور شاعر انور مسعود کی اہلیہ انتقال کر گئیں میری والدہ پروفیسر صدیقہ انور اردو اور فارسی ادب کی استاد تھیں، آج ان کا روزہ تھا۔ عمار مسعود

برطانیہ میں لاک ڈاؤن کے دوران گھریلو تشدد میں اضافہ تین ہفتوں کے دوران 14 خواتین کو قتل کیا گیا، گھریلو تشدد سے متعلق قومی ہیلپ لائن پر آنے والی کالز کی اوسط تعداد معمول ... مزید

فرانس میں بلیک مارکیٹ میں فروخت ہونے والے ماسک کی سب سے بڑی کھیپ پکڑی گئی فرانس پولیس نے بلیک مارکیٹ میں فروخت ہونے والے 140000 فیس ماسک قبضے میں لے لیے

ووکس ویگن کے ولسفبرگ کے کارخانے میں پیداواری عمل دوباہ شروع

وبا انسانی حقوق کے بحران میں تبدیل ہو سکتی ہے، مشیل بچلیٹ

نئے کورونا وائرس کے دنیا بھر میں متاثرین کی تعداد 29 لاکھ سے تجاوز کر گئی

زرتاج گل کی سینیٹر شبلی فراز اور عاصم سلیم باجوہ کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی تعریف،اعتماد کا اظہار

تاجروں کو ایس او پیز کے ساتھ کاروبار کی اجازت دی جائے، حافظ نعیم الرحمن

انتظامیہ نے آن لائن کاروبار کی اجازت کا آسان طریقہ کار وضع کرلیا

صدقہ فطر گندم 100 روپے اور کشمش کے اعتبار سی1960 روپے بنتی ہے، مفتی محمد نعیم

وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 4 ہزار 956 ہوگئی ہے ، ترجمان حکومت سندھ

کمشنر کراچی نے صدر کے علاقے میں دکانداروں کے جمع ہونے کا نوٹس لے لیا

Sunday, April 26, 2020

وفاق صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر عوام کی جان و مال کے تحفظ کیلئے اقدامات کر رہا ہے، ہماری حکومت کرپشن کے خلاف سونامی ہے، جو بدعنوانی میں ملوث نہیں اسے ڈرنے کی ضرورت نہیں ... مزید

آج کا دن ہمیں اپنے ان فوجیوں کی یاد دلاتا ہے جو سیاچن کے گیاری سیکٹر میں برفانی تودے کے نیچے آئے تھے‘ سینیٹر ستارہ ایاز

معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا سے کرونا وائرس کے حوالے سے اسلام آباد میں کام کرنے والی سرویلنس ٹیموں کی ملاقات سرویلنس ٹیمیں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز کی زیر نگرانی ... مزید

2009 میں امریکا سےشروع ہونے والا "ایچ1 این1 " وائرس دنیا کے 214 ممالک میں پھیلا "ایچ1 این1 " وائرس سے دنیا میں 2 لاکھ اموات ہوئیں لیکن کسی نے امریکا کو ذمہ دار قرار نہیں دیا'' امریکا ... مزید

پاکستان کو ایسے لوگوں سے نوازا گیا ہے جو کم مراعات یافتہ افراد کی دیکھ بھال کرتے ہیں‘ شہزاد ارباب

عالمگیر وباء کے معاشی اورسماجی اثرات سے نمٹنے کیلئے آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا، پاکستان کیلئے توسیعی فنٖڈ سہولت پروگرام جاری ہے،آئی ایم ایف مزدورطبقہ ... مزید

ترجمان دفتر خارجہ نے ہندوستان میں اقلیتوں کے حوالے سے پاکستانی قیادت کے تبصرے پر بھارتی وزارت خارجہ کے غیر زمہ دارانہ اور بے بنیاد ریمارکس کو مسترد کردیا ْبھارتی ریماکس ... مزید

نوجوان نے ایک کمرے کے اپارٹمنٹ میں 1400 پودے لگا کر گھر کو جنگل بنا لیا

دنیا کی تنہا ترین ڈولفن ایک متروک ایکوریم پول میں چل بسی

لیویز فورس کے جوان دن رات راشن کی پیکنگ میں مصروف ہیں،ڈپٹی کمشنر کیچ میجر (ر) محمد الیاس کبزئی

بلوچستان کے علا قے پسنی میں پولیس کی کارروائی‘ منشیات فروش گرفتار‘ بھاری مقدار میں منشیات برآمد

حکومت بلوچستان کا بغیر ماسک گھومنے والے شہریوں کے خلاف کارروائی کرنے کا فیصلہ

گوادر میں احساس پروگرام کے تحت بینظیر اِنکم سپورٹ کی 5327 خواتین بینیفشریز کو 6 کروڑ 39 لاکھ 24 ہزار روپے ادا کیے گئے

بلوچستان فوڈ اتھارٹی کی فوڈ سیفٹی ٹیموں کا کوئٹہ شہر کے مختلف علاقوں میں کارروائیاں‘مصالحہ بنانے والی فیکٹری سیل

بلوچستان فوڈ اتھارٹی نے صوبے بھر میں پھلوں کو ایسیٹلین گیس(کیلشیم کاربائیڈ)کے ذریعے پکانے پر پابندی عائد کردی

ْکوئٹہ کے مستحق خاندانوں میںپکی پکائی روٹی کی تقسیم جاری ہے،ترجمان صوبائی حکومت بلوچستان

محکمہ پولیس بلو چستان کا اعلامیہ

سپریم کورٹ میں کورونا وائرس ازخود نوٹس کیس کی سماعت دو ہفتوں کیلئے ملتوی، وفاق اور صوبائی حکومتوں سے دوبارہ پیشرفت رپورٹ طلب

؁کورونا کی وجہ سے معاشی صورتحال کے پیش نظر پنجاب اسمبلی کے سالانہ بجٹ میں 31 کروڑ روپے کی کمی کر دی گئی ہے،چودھری پرویزالٰہی (کورونا کے خلاف جہاد میں ارکان اسمبلی اور اسمبلی ... مزید

ض* مولانا قاری محمد یونس مدنی کی شہادت عظیم سانحہ ہے،مولانا حافظ حسین احمد

پولی کلینک انتظامیہ کی نا اہلی، ایم سی ایچ سنٹر کے عملہ کو حفا ظتی کٹس دئیے بغیر کھول دیا گیا ؒ ایک لیڈی ڈاکٹر،چیف نرسنگ،لیبارٹری ٹیکنیشن،آیا، وارڈ بوائے اور تین پرائیویٹ ... مزید

* گزشتہ 24 گھنٹوں میں کورونا کے 4178 ٹیسٹ ہوئے،425 نئے مریض سامنے آئے مجموعی تعداد 8418 ہوگئی ہے، ڈاکٹر ظفر مرزا اس وقت 65 فیصد کیسز مقامی طور پر سامنے آئے ہیں، کل اموات 176 ہوچکی ... مزید

امریکا، فرانس اور برطانیہ کے بعد جرمنی نے بھی چین کو کورونا وائرس کا ذمہ دار قرار دیدیا جرمنی نے چین کو کورونا وبا کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے نقصان کا ازالہ کرنے کیلئے 130ارب ... مزید

Saturday, April 25, 2020

جون المیڈا : سب سے پہلے جس نے کورونا وائرس دیکھا ایکسپریس اردو

برطانیہ جن چار علاقوں پر مشتمل ہے اس میں اسکاٹ لینڈ بھی شامل ہے۔ اپنی خوبصورت آبشاروں، جھیلوں، پہاڑوں اور سرسبز وادیوں، پھولوں اور جنگلی حیات کے باعث اس کا شمار دنیا کے خوبصورت ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔ یہاں نصف کروڑ سے زیادہ لوگ آباد ہیں۔ جن کی غالب اکثریت سفید فام ہے۔

بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ہماری زندگی کی کئی نہایت اہم چیزیں یہاں بنائی گئی تھیں۔ ٹرین کا آغاز 1824 میں یہیں سے ہوا تھا۔ ٹیلی فون کی ایجاد بھی 1875 میں اسکاٹ لینڈ سے ہوئی تھی۔ معاملہ یہیں تک محدود نہیں ٹیلی وژن کا آغاز بھی سب سے پہلے 1925 میں یہی سے ہوا تھا۔ دنیا کا مقبول ترین کھیل فٹ بال کی تاریخ کا پہلا باضابطہ میچ اسکاٹ لینڈ میں منعقد ہوا تھا۔ گالف کا آغاز یہاں سے تو نہیں ہوا تھا البتہ جدید گالف کا کھیل یہیں سے شروع ہوا تھا۔ اسکاٹ لینڈ میں گھنے جنگل یا پیڑ نہیں پائے جاتے، اسی وجہ سے یہاں کے زیادہ تر گھر پتھروں سے تعمیر کیے گئے ہیں لیکن کہا یہ جاتا ہے کہ دنیا کا قدیم تر درخت بھی اسکاٹ لینڈ میں موجود ہے جو لگ بھگ پانچ ہزار سال پرانا ہے۔

اس دلچسپ حقیقت کا ذکر بھی ضروری ہے کہ دنیا کی سب سے مختصر اور چند کلومیٹر کی ہونے والی پرواز بھی اسکاٹ لینڈ سے ہوتی ہے جس کا دورانیہ صرف 47 سیکنڈ ہے ۔ اسکاٹ لینڈ فنون لطیفہ اور علم و سائنس کے حوالے سے بھی منفرد مقام رکھتا ہے۔ اس وقت اسکاٹ لینڈ کے ذکر کا ایک خصوصی حوالہ ہے۔

کورونا وائرس کا خوف پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے اور پاکستان سمیت ہر ملک تاریخ کی اس مہلک ترین وبا سے خود کو بچانے میں مصروف ہے۔ اس وقت مجھے اسکاٹ لینڈ کا سب سے بڑا شہر گلاسگو یاد آرہا ہے۔ اس شہر کی ایک غریب بستی میں 1930 میں ایک بچی کا جنم ہوا۔ اس کے والدین بہت غریب تھے، گھر کا گزر اوقات بڑی مشکل سے ہوتا تھا۔ اس بچی کے والدین بس ڈرائیور تھے۔ انھوں نے اپنی بچی کو تعلیم دلانے کی کوشش کی لیکن مالی پریشانیوں اور مجبوریوں کی وجہ سے یہ لڑکی اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکی اور اسے مجبوراً تعلیم ترک کرنی پڑی۔ اسے وائرولوجی کے بارے میں جاننے کا بہت شوق تھا۔ یہ وہ علم ہے جس میں وائرس سے پیدا ہونے والے امراض کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔

بچی چاہتی تھی کہ وہ وائرلوجی کی ماہر بن جائے ۔ غربت اس کے آڑے آئی اور وہ اپنے پسندیدہ شعبے کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہی۔ گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اسے ملازمت کرنی پڑی اور اس نے 16 سال کی عمر میں گلاسگو کی ایک لیب میں بطور ٹیکنیشن کام کرنا شروع کردیا۔ جس کے عوض اسے ہر ہفتے 25 شلنگ ادا کیے جاتے تھے۔

اپنے شہر کی لیبارٹری میں کام کرتے ہوئے اس کے اندر وائرس کے بارے میں جاننے کا زیادہ سے زیادہ شوق پیدا ہوا۔ وہ اپنی زندگی دوسرے لوگوں کی طرح گلاسگو اور اسکاٹ لینڈ میں ہی ملازمت کرتے ہوئے گزار سکتی تھی لیکن اس کے شوق نے اسے چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ امیر اور متوسط طبقے کے نوجوانوں کی طرح اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرسکتی جس کی وجہ سے وہ پیشہ وارانہ طور پر کوئی بڑا کیرئیر شروع نہیں کرسکے گی۔ یہ جانتے ہوئے بھی اس نے گلاسگو ہی نہیں بلکہ اسکاٹ لینڈ چھوڑ کر لندن جانے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ 1954 میں لندن پہنچی۔ لندن میں وہ وینزویلا کے ایک آرٹسٹ ایزک المیڈا کے عشق میں گرفتار ہوگئی اور اس سے شادی کرلی جس سے اس کی ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ جون المیڈا برطانیہ سے نقل مکانی کرکے کینیڈا چلی گئی۔ اگرچہ اس نے اپنے شعبے میں اعلیٰ تعلیم اور ڈگری حاصل نہیں کی تھی لیکن اس کی ذہانت اور غیر معمولی مہارت کی وجہ سے اسے انٹاریو انسٹیٹیوٹ آف کینسر ریسرچ میں ملازمت کی پیش کش کی گئی جو اس نے بخوشی قبول کرلی۔

اس انسٹیٹیوٹ میں اس نے الیکٹرون مائیکرو اسکوپی کے ٹیکنیشن کے طور پر کام کا آغاز کیا۔ جہاں جون المیڈا کو الیکٹرون خرد بینوں میں نئے فنی طریقہ کار متعارف کرانے کے مواقع ملے جس سے الیکٹرون مائیکرو اسکوپی کے ذریعے مریضوں میں وائرل انفیکشن کی تشخیص ممکن ہوسکی۔ اس دوران اس کے تحقیقی مقالے معتبر طبی جرائد میں شائع ہونے لگے اور پذیرائی ملنے لگی۔

جون المیڈا کی غیر معمولی صلاحیتوں سے متاثر ہوکر برطانیہ نے اسے وطن واپس لانے کے لیے ترغیبات دیں اور وہ 1964 میں برطانیہ آگئی اور سینٹ تھامس اسپتال کے میڈیکل اسکول میں کام کرنا شروع کردیا۔ یہاں ڈاکٹر ڈیوڈ ٹائریل اور ان کی ٹیم فلو کے ایک نمونے کا تجزیہ کررہی تھی جسے “B814″ کا نام دیا گیا تھا۔ لیکن اسے اس وائرس کی تیاری میں کامیابی نہیں مل رہی تھی،تمام روایتی ذرائع ناکام ہوچکے تھے اور محققین کا خیال تھا کہ یہ کوئی نیا وائرس آگیا ہے۔ ڈاکٹر ٹائریل (Tyrell) نے سوچا کہ کیوں نہ المیڈا کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے۔ جون المیڈا نے ڈاکٹر ٹائریل کی امیدوں اور توقعات سے بڑھ کر نتائج دیے اور المیڈا نے اس وائرس کی ایک صاف تصویر تخلیق کرلی اور اس نئے وائرس پر مقالہ لکھا جسے جائزہ کاروں نے تسلیم نہیں کیا۔ تاہم، بعد ازاں المیڈا کی تحقیق کو مان لیا گیا۔

جون المیڈا الیکٹرانک خوردبین کے ذریعے سرمئی رنگ کے کانٹے دار گول اور انتہائی باریک وائرس کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والی پہلی انسان تھیں۔ اس کی شکل سورج کے گرد نظر آنے والے روشنی کے ہالے جیسی ہے لہٰذا اسے کورونا کا نام دیا گیا۔ المیٹڈا کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ کورونا وائرس کا پورا ایک خاندان دنیا میں موجود ہے جس میں 50 کے قریب وائرس شامل ہیں، لیکن ان میں سے محض 4 یا 5 ہی انسانوں کو ہلاک کرنے کی خطرناک صلاحیت رکھتے ہیں۔ کورونا خاندان کا جدید وائرس کووڈ 19 کہلاتا ہے۔ جو اس وقت پوری دنیا میں قیامت خیز تباہی پھیلا رہا ہے۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بھی بے محل نہیں ہوگا کہ جون المیڈا نے لندن کے جس سینٹ تھامس اسپتال کی تجربہ گاہ میں کورونا وائرس دریافت کیا تھا۔ آج اسی وائرس کے خاندان کے نئے وائرس میں مبتلا ہوکر برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے بھی اسی اسپتال سے اپنا علاج کرایا ہے۔

جون المیڈا کا انتقال 2007 میں ہوا، اس وقت اس کی عمر 77 سال تھی۔ وہ اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک غیرمعمولی سائنسدان اور وائرس امیجنگ کی بانیوں میں تھیں۔ وہ انسان میں کورونا دریافت کرنے اور اسے دیکھنے والی پہلی سائنسدان تھیں۔ آج ان کو دنیا سے گئے 13 سال گزر چکے ہیں۔ نصف صدی پہلے انھوں نے وائرلوجی یعنی وائرس سے متعلق علوم میں جو انقلابی اور اہم ترین دریافتیں کی تھیں، انسان نے اسے بھلائے رکھا۔ آج نئے کورونا وائرس کووڈ 19 نے دنیا کو انھیں یاد کرنے پر مجبور کردیا ہے اور ان کا تحقیقی کام اس وقت بھی کام آرہا ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ہمیں اپنے محسن عام دنوں میں نہیں بلکہ مشکل کی گھڑی میں یاد آتے ہیں۔

The post جون المیڈا : سب سے پہلے جس نے کورونا وائرس دیکھا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2x7XkuL
via IFTTT