Monday, September 30, 2019

اسرائیل کی غیر قانونی ریاسست کو تباہ کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے وقت آ گیا ہے کہ فسادی ریاست کو دنیا کے جغرافیے سے ختم کر دینا چاہیے،کمانڈر پاسداران انقلاب

ہمت کرے انساں تو کیا ہو نہیں سکتا کمزوری کو طاقت بنانے والی 24سالہ لڑکی نے مثال قائم کر دی

کھوتا،ڈڈو کے بعد پیش خدمت ہے ٹِڈی بریانی فصلیں کھانے والی ٹڈیوں کی خوبصورت ڈشز تیا رہونے لگیں

ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب کی حیثیت سے اپنی میعاد تقرر مکمل کر لی اتنے بڑے عالمی فورم پر پاکستان کی نمائندگی کرنا بیک وقت میرے لئے ایک ... مزید

وزیراعلیٰ پنجاب کی سری لنکا کے خلاف ون ڈے میچ جیتنے پر قومی ٹیم کو مبارکباد

کینیڈا اور فن لینڈ میں کشمیریوں کے حق میں مظاہرے و ریلیاں

واسا حیدرآباد نے واٹر سیفٹی پلان کا آغاز کر دیا

سیرت طیبہ ﷺ سے رہنمائی لیکر کر معاشی نظام کو بہتر بنایا جاسکتا ہے ،وائس چانسلر ڈاکٹر رخسانہ کوثر

ڈینگی کے خاتمہ کیلئے ماحول کو صاف اور خشک رکھنا ہوگا،قائم مقام ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ

معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے شہریوں کیلئے اُمت ویلفیئر فاؤنڈیشن سیالکوٹ بیش قیمت خدمات انجام دے رہی ہے،صوبائی وزیر چودھری محمد اخلاق

مولانا فضل الرحمان حکومت کے خلاف مارچ کا شوق پورا کر لیں لیکن مذہب کے نام پر عوام کو گمراہ نہ کریں، وزیر مملکت شہریار آفریدی

سکھر،نیب نے خورشید شاہ کے مبینہ فرنٹ مین کو احتساب عدالت میں پیش کردیا، ملزم کا 14 روزہ ریمانڈ

محمد رضوان الحق ایوان صنعت و تجارت سکھر کے بلا مقابلہ صدر منتخب

سکھر، زمینی تنازعہ پر منہ بولے باپ کو پسٹل کے فائر کرکے شدید زخمی کرنے والا مرکزی ملزم گرفتار

انتظامیہ نیشنل اسٹیڈیم کی ناقص کارکردگی، ٹاورلائٹ بند ہونے کے باعث مجموعی طور پر 26 منٹ تک کھیل متاثر رہا

بابراعظم کی سنچری اور عثمان شنواری کی 5وکٹوں نے دوسرے ایک روزہ میچ میں پاکستان کو 67 رنز سے کامیابی دلوادی،عثمان شنواری کو مین آف دی میچ ایوارڈ دیا گیا

گلگت،گلیشئر گرافٹنگ مہم، 15 رٴْکنی ٹیم 4340 میٹر کی بٴْلندی پر پہنچ گئی

گلگت بلتستان کے ضلع تانگیر میں فائرنگ کا واقعہ ،ماں بیٹا جاں بحق

وائس چانسلرقراقرم یونیورسٹی ڈاکٹر عطاء اللہ شاہ کی ڈیلوپنگ انٹرپینورلز ایکو سسٹم پر منعقدہ کانفرنس میں شرکت

قراقرم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی چائنہ پاکستان جوائنٹ ریسرچ سنٹر کی افتتاحی تقریب میں شرکت

د*حکومت کا اکتوبر کیلئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ

ج* ٹویوٹا پک اپ اور ایرانی ٹریلر کے درمیان تصادم ،تین افراد شدید زخمی

mکوئٹہ میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ ایک شخص جاں بحق

Sunday, September 29, 2019

امریکی ریاست مونٹانا میں شدید برفباری سے نظام زندگی درہم برہم

چلی میں زلزلہ کے شدید جھٹکے

روس کے جنگلوں میں لگنے والی آگ پرمکمل طور سے قابو پا لیا گیا

تمباکو کی برآمدات میں اگست کے دوران 515.1 فیصد اضافہ ہوا، شماریات بیورو

چونیاں سے ایک اور بچے کی لاش برآمد ایکسپریس اردو

قصور: چونیاں کے مضافاتی علاقے سے ایک اور بچے کی باقیات ملی ہیں جس کے بعد علاقے میں ایک بار پھر خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق قصور کی نواحی شہر چونیاں میں ایک اور بچے کی باقیات ملی ہیں۔ جس کے بعد علاقے سے ملنے والی بچوں کی لاشوں کی تعداد 5 ہوگئی ہے۔ پولیس نے لاش کی باقیات کو اپنی تحویل میں لے کر تفتیشی عمل شروع کردیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ بچے کی باقیات جس جگہ سے ملی ہے وہ اس مقام سے قریب ہی ہے جہاں سے پہلے زیادتی کے بعد قتل ہونے والے 4 بچوں کی لاشیں اور باقیات ملی تھی۔

واضح رہے کہ 2 ہفتے قبل چونیاں سے 4 بچوں کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں، جن میں 2 کی شناخت فیضان اور عمران کے نام سے ہوئی تھی تاہم پولیس اب تک اس کیس میں کوئی بھی پیش رفت نہیں کرسکی۔

The post چونیاں سے ایک اور بچے کی لاش برآمد appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2mdS6ID
via IFTTT

کراچی میں منشیات فروشی اور فحاشی کے الزام میں 21 خواجہ سرا گرفتار ایکسپریس اردو

 کراچی: درخشاں پولیس نے خواجہ سراؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے 21 خواجہ سراؤں کو گرفتار کرلیا۔

درخشاں پولیس نے منشیات فروشی اور فحاشی کے الزام میں 21 خواجہ سراؤں کو گرفتار کیا ہے۔ ایس ڈی پی او درخشاں ڈی ایس پی زاہد حسین کا کہنا تھا کہ گرفتار خواجہ سرا آئس سمیت دیگر تمام اقسام کی منشیات فروخت کرتے ہیں۔

گرفتار ملزمان کے خلاف دو الگ الگ مقدمات درج کیے گئے ہیں جس میں آوارہ گردی، علاقے میں فحاشی پھیلانا ، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا اور اہلکاروں سے دست درازی کے دفعات شامل کی گئی ہیں۔

انسپکٹر شاہ جہاں لاشاری کا کہنا ہے کہ خواجہ سرا بدر کمرشل پر ٹولیوں کی صورت میں کھڑے ہو کر نہ صرف منشیات فروخت کرتے ہیں بلکہ نازیبا حرکات بھی کرتے ہیں۔

گرفتاری کے بعد خواجہ سراؤں نے تھانے میں ہنگامہ آرائی اور شور شرابہ شروع کر دیا۔ ملزمان نے سب سے پہلے تھانے میں رکھا واٹر کولر اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا بعدازاں کرسیاں اٹھا کر دروازے اور کھڑکیوں پر لگے شیشے توڑنا شروع کر دیے جبکہ اہلکاروں سے ہاتھا پائی کی اور ان سے اسلحہ اور ڈنڈے چھیننے کی بھی کوشش کی۔

ملزمان نے نجی ٹی وی چینل کے رپورٹر کا قیمتی موبائل فون بھی چھین کر زمین پر پٹخ کر توڑ دیا۔

ایس ایچ او درخشاں اضافی پولیس نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچے اور خواجہ سراؤں کو قابو کر کے لاک اپ کردیا۔

علاقے کی خاتون سماجی ورکر فرح ملک کا کہنا تھا کہ بدر کمرشل پر 50 سے زائد گھر ایسے ہیں جہاں 250 کے قریب خواجہ سرا رہائش پذیر ہیں جو نہ صرف فحاشی کا کاروبار کرتے ہیں بلکہ علاقے میں آئس سمیت ہر قسم کی منشیات فروخت کرتے ہیں، وہ گزشتہ 10 ماہ سے مسلسل پولیس کو شکایت کر رہی ہیں تاہم پولیس ان کے خلاف کسی قسم کا ایکشن نہیں لیتی۔ پولیس کے اعلیٰ افسران سے شکایت کرنے پر اب کارروائی کی گئی تاہم وہ بھی نہ ہونے کے براہر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان خواجہ سراؤں کی سرپرستی ایک غیر ملکی خاتون کرتی ہے جسے متعدد بار بدر کمرشل پر خواجہ سراؤں سے ملاقات کرتے ہوئے دیکھا ہے، خواجہ سراؤں کے گھناؤنے کاروبار کے باعث رات کے وقت علاقے میں نکلنا مشکل ہوگیا ہے جبکہ ان کی سرعام بکنگ کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔

The post کراچی میں منشیات فروشی اور فحاشی کے الزام میں 21 خواجہ سرا گرفتار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2nGQPKp
via IFTTT

پاکستان سے ہاکی سیریز کے لیے اومان کی ٹیم لاہور پہنچ گئی ایکسپریس اردو

 لاہور: 4 میچوں کی سیریز کے لیے اومان کی ہاکی ٹیم پاکستان پہنچ گئی ہے ۔ 

پِی ایچ ایف کے عہدیداروں نے لاہور ایئرپورٹ پر مہمان ٹیم کا استقبال کیا۔ ٹوکیو اولمپک کی تیاریوں میں مصروف پاکستانی ہاکی ٹیم اور اومان کے درمیان پہلا میچ یکم اکتوبر کو نیشنل ہاکی اسٹیڈیم لاہور میں کھیلا جائے گا۔ دوسرا میچ 2 اکتوبر کو شیڈول ہے جبکہ تیسرا میچ 4 اکتوبر کو رکھا گیا ہے۔ سیریز کا چوتھا میچ 6 اکتوبر کو نیشنل ہاکی اسٹیڈیم میں ہی کھیلا جائے گا۔

اومان ہاکی ٹیم کے ہیڈ کوچ طاہر زمان کا کہنا ہے کہ بھرپور تیاریوں کے ساتھ پاکستان آئے ہیں، پرامید ہوں کہ گرین شرٹس کے ساتھ اچھے اور جاندار میچز ہوں گے۔

ایکسپریس نیوز سے خصوصی بات چیت میں طاہر زمان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا شمار دنیا کی مضبوط ترین ٹیموں کے ساتھ ہوتا ہے، مضبوط ٹیم کے ساتھ کھیلنے سے جونیئر ایشیا کپ کی تیاریوں میں مدد ملے گی-

اومان ٹیم کے مینیجر کا کہنا تھا کہ پاکستان آنے کی بہت زیادہ خوشی ہے، میری طرح ٹیم کے تمام کھلاڑی پر جوش ہیں، پاکستانیوں کی مہمان نوازی نے خاصا متاثر کیا ہے۔

پاکستان ہاکی فیڈریشن کے عہدیدار کرنل آصف مخناز کھوکھر نے کہا کہ سیریزکی وجہ سے نہ صرف انٹرنیشنل ہاکی کے مزید دروازے  کھلیں گے بلکہ گرین شرٹس کو اولمپک کوالیفائنگ راؤنڈ کی تیاریوں میں بھی مدد ملے گی۔

The post پاکستان سے ہاکی سیریز کے لیے اومان کی ٹیم لاہور پہنچ گئی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2otroMQ
via IFTTT

میں نے جمال خاشقجی کے قتل کا حکم نہیں دیا، سعودی ولی عہد ایکسپریس اردو

ریاض: سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ اگرسعودی حکومت کے اہلکارکسی سعودی شہری کے خلاف کوئی جرم سرزد کرتے ہیں تو میرے پر اس جرم کی پوری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

سعودی ولی نے امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس کے پرواگرام سکٹی مینٹس میں انٹرویودیتے ہوئے کہا کہ میں نے جمال خاشقجی کے قتل کا حکم نہیں دیا لیکن سعودی حکومت کا حصہ ہونے کی حیثیت سے میں قتل کی پوری ذمہ داری لیتا یوں، اگرسعودی حکومت کے اہلکار کسی سعودی شہری کے خلاف کوئی جرم سر زد کرتے ہیں تو میرے پر اس جرم کی پوری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

سعودی ولی عہد نے کہا کہ میں پوری کوشش کررہا ہوں اور اسکے لئے اقدامات بھی کررہا ہوں کہ جمال خاشقجی کے قتل جیسا واقع دوبارہ سرزد نہ ہو ، یہ ناممکن ہے کہ مجھے سعودی سلطنت کیلئے کام کرنے والے 30 لاکھ افراد کی روزانہ کی بنیاد پررپورٹ ملے جن افراد پر جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام ہے، اگر وہ ثابت ہوا توانہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔

اس خبرکو بھی پڑھیں: جمال خاشقجی میرے دور میں قتل ہوا ذمہ داری قبول کرتا ہوں، سعودی ولی عہد

سعودی ولی عہد نے کہا کہ جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقات جاری ہیں اور الزام ثابت ہونے پرملزمان کو انکے سعودی حکومت میں دیئے گئے عہدے کی پرواہ کئے بغیر سزار دی جائے گی۔ اس بات کا کوئی پختا ثبوت نہیں ہے کہ میرے قریبی افراد نے جمال خاشقجی کا قتل کیا ہے۔

سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ ابھی الزامات کی تحقیقات جاری ہیں سعودی حکومت ہونے کی حیثیت سے ہمیں اس واقع نے بہت دکھ پہنچایا، اگر سی بی آئی کو اپنی تحقیقات کے مطابق لگتا ہے کہ میں نے ذاتی طور پر جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دیا تو انہیں تحقیقات کو عوام کے سامنے لانا چاہیئے، امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات جمال خاشقجی کے قتل سے خراب نہیں ہوسکتے، ہمارا تعلق اس واقع سے بالاتر ہے، ہم دان رات کام کر رہے ہیں تاکہ ہمارا مستقبل ماضی سے بہترہو۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال 2 اکتوبرکو واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگاراورسینئر سعودی صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں سعودی سفارتخانے میں قتل کردیا گیا تھا، اس قتل کے تانے بانے ولی عہد محمد بن سلمان سے جوڑے جارہے تھے جب کہ سعودی حکام نے قتل کی ذمہ داری آپریشن کرنے والے حکام پر ڈالی تھی اور اس سلسلے میں کچھ مشتبہ افراد کو گرفتار کرکے ان کے خلاف ٹرائل بھی کیا جارہا ہے۔

The post میں نے جمال خاشقجی کے قتل کا حکم نہیں دیا، سعودی ولی عہد appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2mf3uE4
via IFTTT

شادی پر زیادہ جہیزمانگنے کے خلاف شکنجہ تیار ایکسپریس اردو

گوجرانوالہ:  شادی پر زیادہ جہیز مانگنے کیخلاف شکنجہ تیار کرلیا گیا، نکاح نامہ کے ساتھ جہیزکی تفصیل حکومت کو فراہم کرنا لازمی قراردے گئی۔

ذرائع کے مطابق حکومت نے جہیز کی لعنت ختم کرنے  کیلیے شادی ایکٹ میں ترمیم و قانون سازی تیز کر دی ہے۔ شادی پر زیادہ جہیزمانگنے والوں کو نکیل ڈالنے  کیلیے تصدیق شدہ فارم بلدیہ و یونین کونسل میں جمع کرانا لازمی قرار دیدیا گیا ہے، تجاوز کرنیوالے دولہا اور والدین کو جیل جانا ہو گا۔

The post شادی پر زیادہ جہیزمانگنے کے خلاف شکنجہ تیار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2os23CR
via IFTTT

قائد اعظم ٹرافی ، سینٹرل پنجاب نے بلوچستان کو رنز کے انبار تلے دبا دیا ایکسپریس اردو

 لاہور:  قائداعظم ٹرافی فرسٹ الیون ٹورنامنٹ کے تیسرے راؤنڈ میں سینٹرل پنجاب نے بلوچستان کو رنز کے انبار تلے دبادیا۔

مہمان ٹیم نے 6 وکٹ 521 رنز اننگز ڈیکلیئرڈ کی، سلمان بٹ نے ڈبل سنچری جڑڈالی، میزبان الیون نے 119 رنز تک پہنچنے میں نصف ٹیم گنوادی، سندھ سے میچ میں روحیل نذیراور حماد اعظم نے ناردرن کی مشکلات کم کردیں ، ٹیم نے 9 وکٹ پر 271 رنز جوڑلیے، جبکہ ایبٹ آباد میں سدرن پنجاب کیخلاف بارش سے متاثرہ میچ میں خیبرپختونخوا کی بیٹنگ جاری ہے، صاحبزادہ فرحان نصف سنچری بناکر پویلین واپس ہوگئے۔

اسرار 77 پر ناٹ آؤٹ ہیں۔تفصیلات کے مطابق قائداعظم ٹرافی فرسٹ لیگ میں دوسرے دن بگٹی اسٹیڈیم کوئٹہ میں سینٹرل پنجاب نے سلمان بٹ کی شاندار ڈبل سنچری کی بدولت 521 رنز پر پہلی اننگز ڈیکلیئرڈکردی، سینٹرل پنجاب کے اوپنر سلمان بٹ (152)اور آل راؤنڈر ظفر گوہر(11) نے دوسرے روز کھیل کوآگے بڑھایا، ان کے درمیان205 رنز کی ساجھے داری بنی، سلمان بٹ نے لنچ سے قبل ڈبل سنچری مکمل کرلی۔

وہ 237 رنز کی اننگز کھیل کر میدان بدر ہوئے، 376 گیندوں کا سامنا کرنے والے اوپنر نے 33 چوکے جڑے، ظفرگوہر نے 14 چوکوں اور 3 سکسرز کی مدد سے ناقابل شکست 100 رنز نام درج کرائے، ان کی سنچری مکمل ہوتے ہی کپتان اظہر علی اننگز نے سینٹرل پنجاب کی اننگز 6وکٹ 521 رنز پر ختم کرنے کا اعلان کردیا، یاسر شاہ نے 3 جبکہ عماد بٹ، عمر گل اور خرم شہزاد نے 1،1 وکٹ لی، میزبان الیون کے 5 کھلاڑی 119رنز کے سفر میں پویلین واپس ہوچکے۔

عمران بٹ 33، کپتان عمران فرحت 15 اور ابوبکر 14رنز بناکر نمایاں رہے، نسیم شاہ نے 2 پلیئرز کو آؤٹ کیا، بسم اللہ خان 23 اور حسین طلعت 21 رنز پر ناٹ آؤٹ ہیں۔ایبٹ آبادکرکٹ اسٹیڈیم میں جاری خیبرپختونخوا اورسدرن پنجاب کے درمیان میچ کا دوسرا روز بھی بارش سے متاثر رہا، خراب موسم کے باعث دن بھر محض15.1 اوورز کا کھیل ہی ممکن ہوسکا۔

میزبان ٹیم کے کپتان صاحبزادہ فرحان نے اسرار اللہ کے ہمراہ 126رنزبغیرکسی نقصان سے دوسرے روزکھیل کا آغازکیا تو وہ اپنے انفرادی اسکور میں 15رنزکا ہی اضافہ کرسکے، صاحبزادہ فرحان 78 رنزبناکربلاول بھٹی کا شکاربنے، اسراراللہ77 پرناٹ آؤٹ ہیں، خیبرپختونخوا نے48 اوورز میں1وکٹ پر176رنزاسکور بورڈ پرجوڑلیے۔راولپنڈی میں رات بھر ہونے والی بارش کے باوجود کے آر ایل اسٹیڈیم پر میچ مقررہ وقت پر شروع کیا گیا تاہم خراب موسم کے باعث دوسرے روزصرف 61.4 اوورز کا کھیل ہی ممکن ہوسکا۔

روحیل نذیراورحماد اعظم کی نصف سنچریوں کے ساتھ ساتھ خراب موسم نے ناردرن کرکٹ ٹیم کی مشکلات کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، ٹیم نے 9 وکٹ پر271رنز بنالیے، روحیل نذیر67، حماد اعظم58 ، عمر وحید35 اور حیدرعلی26 رنز بنانے میں کامیاب رہے، سدرن پنجاب کے کاشف بھٹی نے 51رنز کے عوض 3 وکٹوں کا سودا کیا، سہیل خان اور تابش خان نے 2،2 کھلاڑیوں کو واپسی کے پروانے تھمائے۔

The post قائد اعظم ٹرافی ، سینٹرل پنجاب نے بلوچستان کو رنز کے انبار تلے دبا دیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2mYhBOf
via IFTTT

ڈینگی جان لیوا نہیں۔۔۔اجتماعی کوششوں سے خاتمہ ممکن ہے!! ایکسپریس اردو

ملک بھر میں ڈینگی وبائی شکل اختیار کر گیا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق ڈینگی سے متاثرہ افراد کی تعداد 10 ہزار سے زائد ہوچکی ہے جبکہ ڈینگی سے متاثرہ افراد کی اموات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

ان حالات میں سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ حکومت کیا کر رہی اور متعلقہ ادارے ڈینگی کے تدارک کے لیے کیا کام کر رہے ہیں؟ ’’ڈینگی کی موجودہ صورتحال اور حکومتی اقدامات‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ڈاکٹرز، محکمہ صحت اور سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر محکمہ صحت پنجاب کے ترجمان سید حماد رضا بھی موجود تھے۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر شہناز نعیم
( پروگرام منیجراینٹی ڈینگی پروگرام پنجاب)

پنجاب میں ڈینگی کے3076مریض رپورٹ ہوئے جن میں سے 2410 مریض صحت یاب ہوکر گھر جا چکے ہیں۔ گزشتہ روز220 مریض آئے جن میں 150مریض علاج کرواکر گھر جاچکے ہیں۔ گزشتہ روزراولپنڈی میں 140، لاہور میں 8 اور گجرات میں 6مریض رپورٹ ہوئے۔ہم روزانہ کی بنیاد پر ڈیٹا مرتب کرتے ہیں۔

راولپنڈی کی ایک یونین کونسل کے علاقے پوٹوہار ٹاؤن میں ڈینگی وباء کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ یہ علاقہ اسلام آباد اور راولپنڈی کی دونوں کی حدود میں آتا ہے۔ پوٹوہار ٹاؤن کے علاقے میں وقت سے پہلے بارشیں ہوئیں، وہاں واٹر سپلائی سکیم نہیں ہے، لوگ پانی زیر زمین یا پلاسٹک کے ٹینکوں میں ذخیرہ کرتے ہیں، غفلت کی وجہ سے لاروا بن جاتا ہے جو ڈینگی کا سبب ہے۔راولپنڈی کی انتظامیہ تو کام کرتی رہی مگر اسلام آباد میں کام نہیں ہوا۔

جس کی وجہ سے یہ مسئلہ خراب ہوگیا۔ اب کووارڈینیشن میٹنگ کے بعد بہتری آئی ہے اور اسلام آباد کی طرف سے بھی مریضوں کی رپورٹنگ کی جارہی ہے۔

18 ویں ترمیم کے بعد صحت کو صوبائی سبجیکٹ بنا دیا گیا جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے۔ہر صوبہ خود پلاننگ کرتا ہے اور صوبوں کے درمیان رابطوں کا مسئلہ ہے۔ محکمہ صحت کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے اور ان کے مابین بھی رابطوں کے مسائل ہیں۔

صوبوں اور اداروں کے درمیان روابط بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ تمام ہسپتال ڈینگی کے مریضوں کو ڈھونڈھتے ہیں۔ جس بھی مریض پر ڈینگی لاحق ہونے کا شعبہ ہو اسے رجسٹرڈ کیا جاتا ہے کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جتنے زیادہ مریض رجسٹرڈ ہوں گے اتنا ہی اس مرض کا خاتمہ آسان ہوگا۔ جس مریض کو 2 سے 10 دن کے قریب بخار ہو، جسم میں درد ہو، آنکھوں میں درد ہو، یا اس طرح کی کوئی بھی دو علامات ہوں تو اس پر شک کا اظہار کرکے ڈینگی کے مبینہ مریض کے طور پر رپورٹ کر دیا جاتا ہے۔ بعدازاں اس کا CBC ٹیسٹ کیا جاتا جس سے صورتحال واضح ہوجاتی ہے۔

سی بی سی کرنے کے بعد جس کے WBC چار ہزار سے کم ہو یا پلیٹ لیٹس ایک لاکھ سے کم ہوں تو ایسے مریض کا ڈینگی ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اگر ٹیسٹ میں ڈینگی ثابت ہوجائے تو وہ ڈینگی کا مریض ہوتا ہے ورنہ اس کا دوسرا علاج کرکے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ ڈینگی مچھر سے پھیلتا ہے اور جہاں بھی صاف پانی کھڑا ہو اس کی افزائش ہوجاتی ہے۔ جب تک ہم مل کر اس بیماری پر توجہ نہیں دیں گے تب تک اس پر قابو نہیںپایا جاسکتا۔ تمام سرکاری ہسپتالوں میں ڈینگی کے مریضوں کے ٹیسٹ اور علاج معالجہ مفت ہے جبکہ نجی لیبارٹریوں کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ 90 روپے میں ’سی بی سی‘ ٹیسٹ کریں، یہ فیصلہ کیبنٹ کمیٹی نے کیا۔

جس مریض پر شبہ ہوتا ہے ڈینگی ٹیمیںاس کے گھر جاتی ہیں اور ارد گرد کے 17 گھروں کی سرویلنس کرتی ہیں کہ کہیں کوئی انڈہ، بچہ یا مچھر تو نہیں ہے، اگر ہے تو اس کا خاتمہ کیا جانا ہے۔ اگر مریض دوسرے مرحلے میں چلا جاتا ہے تو پھر 29 گھروں میں سرویلنس کی جاتی ہے لیکن اگر مرض کنفرم ہوگیا ہے تو 49 گھروں میں سرویلنس اور سپرے کیا جاتا ہے۔

اب تک ڈینگی کے کیس سامنے آنے والے 100 فیصد مریضوں کے گھروں ،کام کی جگہ اور ان کے ارد گرد سرویلنس کی گئی ہے۔ اسی طرح اگر کہیں سے لاروا ملتا ہے تو اسے تلف کرتے ہیں۔ اگر زمین پر پانی گرا دیا جائے تو لاروا مر جاتا ہے۔ اس برتن کو اچھی طرح صاف کردیا جائے تاکہ برتن میں انڈے ، بچے لگے نہ رہ جائیں کیونکہ جب اس میں پانی بھریں گے تو وہ انڈے دوبارہ سے لاروا میں بدل سکتے ہیں۔

اگر کہیں اڑتا ہوا مچھر نظر آتا ہے یا جس علاقے سے زیادہ مریض آتے ہیں وہاں ٹارگٹڈ فوگنگ کی جاتی ہے۔ فوگ زہر ہے۔ جب تک گھروں میں دھواں نہ چھوڑا جائے لوگ سمجھتے ہیں کہ حکومت کچھ نہیں کر رہی۔ ہم اپنے ایس او پیز کے تحت کام کر رہے ہیں۔ تتلیاں اور جگنو دیکھے عرصہ ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ آلودگی ہے۔ ہمیں اپنی صحت بھی عزیز ہے اور اپنے بزرگوں اور بچوں کی بھی ۔ لاہور جیسے بڑے شہر میں ڈینگی کے صرف 90مریض سامنے آنے کا مطلب ہے کہ حکومت اور محکمے اپنا کام کر رہے ہیں۔

ڈینگی کے حوالے سے احتیاط انتہائی اہم ہے، خوف پھیلانے کے بجائے لوگوں کو احتیاطی تدابیر بتائی جائیں اور انہیں ذمہ داری کا احساس دلوایا جائے تاکہ بہتری لائی جاسکے۔ سکولوں میں ڈینگی کے حوالے سے زیرو پیریڈ جاری ہیں جبکہ ہم آگاہی مہم کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم بلاوجہ ایف آئی آر نہیں کرواتے، پہلے وارننگ جاری کی جاتی ہے اور جو ہمارے ساتھ تعاون نہیں کرتا تو عوام کے وسیع تر مفاد اور ان کے صحت کے تحفظ کی خاطر مقدمہ درج کروایا جاتا ہے تاکہ ڈینگی کو پھیلنے سے روکا جاسکے، اب تک 32 ہزار لوگوں کو وارننگ جاری کی جاچکی ہے، اگر وہ تعاون نہیں کریں گے تو قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

ڈی سی لاہور اور ڈی سی راولپنڈی کو بھی ناقص کارکردگی پر معطل کیا گیا ہے لہٰذا حکومت کی توجہ عوام کا تحفظ اور بہتر سہولیات ہیں۔ ڈینگی کا خاتمہ صرف ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کا کام نہیں بلکہ یہ محکمہ ماحولیات، عوام و معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں۔

 ڈاکٹر شعیب الرحمن گرمانی
(سی ای او ہیلتھ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور )

2010ء میں بلا سوچے سمجھے بے جا فوگنگ سے لوگوں کو سینہ، دمہ، الرجی و دیگرامراض لاحق ہوگئے جس کے بعد حکومتی پالیسی میں تبدیلی آئی اور فیصلہ کیا گیا کہ ہر جگہ فوگنگ نہ کی جائے بلکہ اب صرف ٹارگٹڈ فوگنگ کی جاتی ہے۔لوگوں کو سپرے کے حوالے سے آگاہی نہیں ہے اور لوگ فوگنگ کو ہی سپرے سمجھتے ہیں۔ ہم جہاں IRS کرواتے ہیں وہاں بھی لوگ کہتے ہیں کہ سپرے کریں حالانہ آئی آر ایس ایک سپرے ہے۔

لاہور میں ہماری 1400 ’ ان ڈور‘ جبکہ 500 ’آؤٹ ڈور‘ ٹیمیں ہیں ۔ہماری ان ڈور ٹیمیں گھروں میں جاتی ہیں۔ پہلے ہماری ٹیم 25 گھروں میں جاتی تھی جو اب 40 سے 45 گھروں میں جاتی ہے۔ ہم لاہور میں روزانہ 60 سے 65 ہزار گھروں کی سرویلنس کرتے ہیں اور یہ واضح رہے کہ ہم ہر گھر میں IRS یا فوگنگ نہیں کرتے۔ جس گھر میں لاروا ملے ، اس گھر میں اور اس کے اردگرد کے 4 گھروں میں IRS کرواتے ہیں۔ اگر ان 4 گھروں میں سے کسی اور گھر میں لاروا مل جاتا ہے تو اس گھر کے اردگرد بھی چار گھروں میں سپرے کروایا جاتا ہے۔

جہاں ضرورت ہووہاں سپرے کرواتے ہیں اور جہاں ضرورت نہ ہو وہاں نہیں کرواتے۔ جہاں ایڈلٹ لاروا ملے وہاں ماہرین کی نگرانی میں فوگنگ کروائی جاتی ہے کیونکہ یہ صحت کے لیے نقصاندہ ہے۔ ڈینگی کا ہر مریض رجسٹرڈ کیا جارہا ہے، لاہور میں ڈینگی کے اب تک صرف 90 مریض سامنے آئے ہیں اور کوئی موت نہیں ہوئی۔

ڈیڑھ کروڑ کی آبادی میں یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہم دن رات محنت کے ساتھ کام کر رہے ہیں لہٰذا ہمارے کام کی تعریف کی جائے۔ جس مریض پر بھی شبہ ہو اس کی رجسٹریشن کرتے ہیں، بعدازاں ٹیسٹ کیا جاتا ہے، ابھی تک ڈینگی کے شبہ والے 5000 مریض رپورٹ ہوئے جن میں سے 90 کو ڈینگی تھا جبکہ باقی لوگوں کو کوئی اور مرض تھا۔ یہ ڈیٹا صرف سرکاری ہی نہیں بلکہ نجی ہسپتال بھی مرتب کر رہے ہیں۔

وہاں آنے والے مریض بھی ڈیش بورڈ پر ہمارے سامنے آرہے ہیں۔ 24 گھنٹے میں مریض کا مکمل ریکارڈ دیکھا جاتا ہے کہ وہ کہاں کام کرتا ہے،ا س کا گھر کہاں ہے۔ ہم اس کے گھر اور کام کی جگہ جاتے ہیں اور وہاں ڈینگی کی سرویلنس کرتے ہیں۔ اگر مریض کو ڈینگی کنفرم ہوجائے تو ہم ا س کے گھر کے 49 گھروں میں IRS کرواتے ہیں تاکہ ڈینگی کا تدارک کیا جاسکے۔ وزیرصحت کی ہدایت کے مطابق لاہور کے سرکاری و نجی ہسپتالوں میں 670 بیڈزڈینگی کے مریضوں کیلئے مختص کیے گئے ہیں تاکہ کسی بھی قسم کی صورتحال سے نمٹا جاسکے۔

پروفیسر ڈاکٹر شاہد ملک
( سیکرٹری جنرل پی ایم اے)

ڈینگی صرف پاکستان نہیں بلکہ 107 ممالک کی بیماری ہے اور اس کی تین پوزیشنز ہیں۔پہلی یہ کہ self limited بیماری ہے۔ 10 دن کا بخار ہے، جس طرح نزلہ ہوتا ہے اسی قسم کی بیماری ہے۔ اس مرض سے موت کی شرح انتہائی کم ہے۔ ایک ہزار میں سے صرف ایک مریض کی موت واقع ہوسکتی ہے وہ بھی اس لیے کہ اگر اس کا علاج نہ ہو یا غلط علاج ہو۔

یہ مچھر سے لاحق ہونے والی بیماری ہے اور اس قسم کی 93 بیماریاں کتابوں میں موجود ہیں۔ افسوس ہے کہ صرف ہمارا ملک ایسا ہے جہاں محض ڈینگی کا ڈیش بورڈ بنایا ہے۔ 2010ء میں بھی اس پر سیاست کی گئی جو غلط تھی۔ڈینگی صرف صحت نہیں بلکہ سماجی ایشو ہے جس کا تعلق ماحول اور رویوں سے بھی ہے۔ ڈینگی بیماری کے حوالے سے لوگوں کو یہ سمجھانا ہے کہ اس بیماری نے خود بخود ختم ہونا ہے لہٰذا خوف ہراس نہ پھیلایا جائے۔

ڈینگی کے ایسے مریض جن کا علاج نہ ہو تو ان میں سے صرف 2 فیصد ڈینگی ہیمرجک فیور میں جائیں گے۔ پلیٹ لیٹ کاؤنٹ گرے گا اور اوپر آئے گا۔ ڈینگی کے حوالے سے 107 ممالک میں خوف نہیں ہے لہٰذا یہاں بھی لوگوں کو خوفزدہ کرنے کی ضرورت نہیں مگر بدقسمتی سے یہاں اس بیماری پر سیاست کی جاتی ہے۔

اس وقت 8 ہزار کے قریب ڈینگی کے مریض رپورٹ ہوئے ہیں ، یہ اصل میں ڈینگی کے مریض نہیں ہیں بلکہ وہ ہیں جن پر ڈینگی ہونے کا شبہ ہوا۔ان میں سے بیشتر مریض صحت یاب ہوکر گھر جاچکے ہیں۔ ہسپتالوں میں ڈینگی وارڈز بن رہی ہیں اور حکومت اپنی کپیسٹی کے مطابق کام کر رہی ہے۔ اہم یہ ہے کہ ہمیں بیماریوں پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔

ہمیں عوام کو آگاہی دینی چاہیے کہ اس سے بچنا کیسے ہے۔ یہ مچھر طلوع اور غروب کا مچھر ہے۔ اس مچھر نے صبح صبح کاٹنا ہے یا پھر رات کے وقت کاٹنا ہے۔ صاف پانی کے اندر اس کی افزائش ہوتی ہے۔ سب سے پہلے لاروا بنتا ہے۔ یہ بھی ذہن میں ہونا چاہیے کہ ہر لاروا خطرناک نہیں ہے۔ اگر اس لاروے میں وائرس ہی نہیں ہے تو اس سے خطرہ نہیں ہے۔ ہمارے ہاں ٹیمیں جاتی ہیں، پانی دیکھتی ہیں اور لاروا کا کہہ کر ایف آئی آر کروا دی جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ ان کے پاس کون سی خوردبین ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ لاروا ہے۔ میرے نزدیک یہ خراب ڈینگی ریگولیشنز ہیں جن کا فائدہ نہیں ہے۔ اگر آبادی کا 10 فیصد حصہ کسی بیماری کا شکار ہو تو اسے وبائی مرض کہا جاسکتا ہے مگر یہاں تو صرف 8 ہزار مریض ہیں مگر خوف پھیلایا جارہا ہے جو افسوسناک ہے۔ اگر درست وقت پر سپرے کردیا جاتا اور لاروا تلف ہوجاتا تو پھر بیماری نہ پھیلتی۔ اب اگر بخار ہوگیا ہے تو اس کے تین فیز ہیں۔ماضی میں جو اموات ہوئیں وہ CLD کی بیماری تھی۔

ڈینگی سے موت صرف اس شخص کی ہوگی جسے اور بیماریاں بھی ہیں۔ 0.02 فیصد اس کی شرح اموات ہے۔ لوگوں کو اس بیماری کے حوالے سے آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے اور احتیاطی تدابیر اپنانے سے اس بیماری کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر ماحول کو صاف کرلیا اور صاف پانی کو محفوظ بنا لیا تو بیماری کی شرح خودبخود کم ہوجائے گی۔

آئمہ محمود
(نمائندہ سول سوسائٹی )

حکومت 10 ہزار ڈینگی کے مریض خود تسلیم کرچکی ہے جبکہ حقیقت میں تعداد اس سے زیادہ ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس مرتبہ یہ تعداد اس لیے زیادہ لگ رہی ہے کیونکہ ماضی میں ڈینگی کے حوالے سے بہت زیادہ کام ہوچکا تھا اور ادارے اپنا کام کر رہے تھے۔ امید کی جارہی تھی کہ اب بھی ادارے موثر کام کریں مگر افسوس ہے کہ حکومتی اقدامات نظر نہیں آئے۔ ڈینگی کا مسئلہ نیا نہیں ہے۔

لہٰذا ہم یہ خیال کر رہے تھے کہ ہمارے ادارے اس مرض سے نمٹنے کے حوالے سے قابل اور تجربہ کار ہیں، اس لیے ڈینگی اب پہلے جیسی صورتحال اختیار نہیں کرے گا مگر سب کچھ اس کے برعکس ہوا۔ ڈینگی صرف مخصوص موسم میں آتا ہے اور پہلے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ مشکل صورتحال پیدا ہوسکتی ہے لہٰذا اداروں کی کارکردگی نظر آنی چاہیے تھی جو نہیں آئی۔ گزشتہ دور حکومت میں ڈینگی کنٹرول ٹیم لوگوں کے گھروں میں جاتی تھی اور واٹر کولر، گملوں و دیگر جگہ پانی چیک کرتی تھی مگر اس مرتبہ کوئی ٹیم نظر نہیںآئی۔ اس کے علاوہ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ اور محکمہ صحت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی مہم نہیں چلائی گئی۔

70 فیصد مریضوں کا تعلق پنجاب سے ہے جن میں لاہور کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ لاہور ملک کا دل ہے، یہاںہر قسم کی سہولیات موجود ہیں، بڑے ہسپتال ہیں لہٰذایہاں حکومتی مشینری کو موثر ہونا چاہیے تھا ، سوال یہ ہے کہ کوتاہی کیوں برتی گئی؟ افسوس ہے کہ مسئلہ درپیش آنے پر ہم موثر کام کرنے کے بجائے نمائشی اقدامات شروع کردیتے ہیں جن کا فائدہ نہیں ہوتا۔بعض افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے ۔ جو غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اس کے خلاف کارروائی ضرورہونی چاہیے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوام کو اداروں کی غیر ذمہ داری کے خلاف ایف آئی آر کروانے کا اختیار حاصل ہے؟

میرے نزدیک اگر محکمانہ غفلت پر عوام کو ایف آئی آر درج کروانے کا اختیار دے دیا جائے تو اداروں کی کارکردگی میں بہتری آئے گی۔جب ہر تھانے میں اس بات پر ایف آئی آر ہوگی کہ ہمارے ہاں ڈینگی سروے ٹیمیں نہیںآئیں، سپرے نہیں ہوا ، سکولوں میں ٹیمیں نہیں گئیں تو پھر ادارے خود بخود کام کریں گے۔ بدقسمتی سے ڈینگی سے ہلاکتوں کے بعد چند واکس کی گئیں جن کا عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوا اور نہ ہی ان کو آگاہی ملی۔چاہیے تو یہ تھا سکولوں میں جاتے اور بچوں کو آگاہی دیتے۔ اس وقت ہسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ ڈاکٹر ہڑتال پر ہیں، اس صورتحال میں ڈینگی مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہے اور وہ ریکارڈ پر ہی نہیں آرہے۔

موجودہ حکومت نے صحت کے قوانین میں جو تبدیلی کی ہے اس پر ڈاکٹر ناخوش ہیں۔ عام مریض کو مفت علاج اور ادویات نہیں مل رہیں، ٹیسٹ مفت نہیں ہے۔ اس ساری صورتحال میں سوال یہ ہے کہ کیا نجی لیبارٹریوں کو کہا گیا ہے کہ وہ ڈینگی کا تشخیصی ٹیسٹ سستے داموں کریں۔ کیا انہیں ڈینگی مریضوں کو علاج میں سبسڈی دینے کی کوئی ہدایت کی گئی ہے؟ ڈاکٹرز ہڑتال پر ہیں تو ان کو متبادل کیا سہولیات فراہم کی جارہی ہیں؟ میرے نزدیک ہسپتالوں میں صرف خصوصی وارڈ قائم کردنیا اور چند مریضوں کو وہاں سہولیات دینا کافی نہیں بلکہ ہر شہر ، قصبہ، گلی میں لوگوں کو آگاہی دی جائے اور موثر سٹرٹیجی بنا کر ڈینگی کے بارے میں آگاہی مہم وسیع پیمانے پر چلائی جائے۔

ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی کارکردگی دیکھی جائے تو پھل و سبزی منڈیوں میں کیچڑ اور پانی کھڑا ہے اس کے علاوہ اور بہت سارے معاملات خراب ہیں۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ کن کن اداروں نے ڈینگی کے حوالے سے کام کرنا ہے اور کہاں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔

اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ گزشتہ ایک برس میں ڈینگی کے حوالے سے اداروں کی کیا کپیسٹی بلڈنگ کی گئی؟آج یہ کہا جا رہا ہے کہ ملازمین دن رات ڈیوٹی کریں کیونکہ ڈینگی کے حوالے سے ہنگامی صورتحال ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ انہیں خدمات کے بدلے میں کیا سہولیات دی جارہی ہیں ؟ حکومت اوور ٹائم لگانے والوں کیلئے کیا اقدامات کر رہی ہے؟

بدقسمتی سے صحت کا گزشتہ برس کا بجٹ مکمل طور پر استعمال نہیں کیا جاسکا۔ حکومت نے ادویات کی مفت فراہمی بند کر دی ہے، ہسپتالوں کا بنیادی انفراسٹرکچر تبدیل کیا جارہا ہے لہٰذا اس صورتحال میں ڈینگی کا جو چیلنج سامنے آیا ہے، دیکھنا ہے کہ حکومت کا پلان آف ایکشن کیا ہے۔ عوام کو چند واکس اور بینرز نہیں چاہئیں بلکہ انہیں ڈینگی سے نجات اوربنیادی سہولیات چائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اس وقت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ تمام میڈیا ہاؤسز کو چاہیے کہ وہ ڈینگی کے حوالے سے خوف و ہراس نہ پھیلائیںبلکہ خبر کے ساتھ ساتھ مریضوں کو ڈینگی سے احتیاط کیلئے آگاہی دی جائے۔ حکومت اور اپوزیشن کو بلیم گیم اور ایک دوسرے سے موازنہ کرنے کے بجائے مل کر عوام کو ریلیف دینے پر توجہ دینی چاہیے۔ ڈینگی کے خاتمے کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کو یک زبان اور یک جان ہو کر محنت کرنا ہوگی، اس کے ساتھ ساتھ اداروں کی کپیسٹی بلڈنگ کی جائے۔ بدقسمتی ہم علاج پر توجہ دے رہے ہیں مگر علاج سے پہلے احتیاط پر توجہ نہیں ہے لہٰذا ہمیںا پنے رویے بدلنا ہوں گے اور یہ سمجھنا ہوگا کہ ’احتیاط، علاج سے بہتر ہے‘۔

The post ڈینگی جان لیوا نہیں۔۔۔اجتماعی کوششوں سے خاتمہ ممکن ہے!! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2op49Du
via IFTTT

گوشت ، دودھ ، سبزی اور آٹا مہنگا ہونے کا نوٹس ایکسپریس اردو

کراچی: حکومت نے مرغی کے گوشت ، دودھ، سبزی اورآٹے کے قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا نوٹس لیتے ہوئے منافع خوروں کے خلاف کارروائی کافیصلہ کیا ہے اوراس سلسلے میں منافع خوروں کے خلاف ایکشن لینے کی بھی ہدایت کردی ہے ،منافع خوروں کے خلاف کارروائی نہ کرنے والے پرائس مجسٹریٹس کے خلاف بھی ایکشن لیاجائے گا۔

تفصیلات کے مطابق حکومت نے سندھ بھرمیں مرغی کے گوشت ، دودھ، سبزی اورآٹے کے قیمتوں میں من مانے اضافے کا نوٹس لے لیا ہے، صوبائی وزیر زراعت اسماعیل راہونے صوبے بھرکے کمشنرز، پرائس مجسٹریٹس کو منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی کرنیکی ہدایت دیتے ہوئے کمشنرزو پرائزمجسٹریٹس سے رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔

صوبائی وزیر اسماعیل راہو کا کہنا ہے کہ حکومت نے مرغی، دودھ، آٹے اورسبزیوں سمیت کسی چیز کی قیمت میں کوئی اضافہ نہیں کیا ہے،برائلر مرغی 204 روپے ،مرغی کے گوشت کی سرکاری مقررقیمت 316 روپے کلو اور دودھ کی فی لیٹر سرکاری مقررقیمت 94 روپے فی لیٹر ہے، کراچی ،حیدرآباد لاڑکانہ، سکھر، میرپورخاص، بدین، ٹھٹھہ، مٹھی، نواب شاہ اور دیگر شہروں میں کمشنر اور پرائس مجسٹریٹس منافع خوروں کے خلاف کارروائی کریں گے۔

منافع خوروں کیخلاف کارروائی نہ کرنے والے پرائس مجسٹریٹس کیخلاف سخت ایکشن لیا جائیگا،انھوں نے کہا کہ ملک میں مہنگائی کا طوفان تبدیلی سرکارکا دیا ہوا تحفہ ہے ،حکمران عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ،بڑھتی ہوئی مہنگائی سے صوبائی حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔

The post گوشت ، دودھ ، سبزی اور آٹا مہنگا ہونے کا نوٹس appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2mdnA1x
via IFTTT

دورہ پاکستان ؛ بنگلہ دیشی ٹیم کے بھارتی کوچز نہیں آئیں گے ایکسپریس اردو

ڈھاکا: بی سی بی نے پیچیدگیوں سے بچنے کیلیے سپورٹنگ اسٹاف کو ایمرجنگ کھلاڑیوں کے ساتھ سری لنکا بھیجے کا فیصلہ کرلیا۔

اکتوبر میں خواتین ٹیم کو بھیجنے سے قبل پاکستانی سیکیورٹی کا جائزہ بھی لیا جائے گا، بنگلہ دیشی بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو نظام الدین چودھری کہتے ہیں کہ ہم سری لنکا کے خلاف جاری سیریز میں انتظامات کا جائزہ لینے کیلیے اپنے آفیشل کو پاکستان بھیجیں گے۔ تفصیلات کے مطابق بنگلہ دیشی ویمنز  ٹیم نے 26 اکتوبر سے 4 نومبر تک پاکستان کا دورہ کرنا ہے۔

جس میں ٹوئنٹی 20 اور ون ڈے سیریز شیڈول ہے، یہ مقابلے لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں منعقد ہوں گے تاہم ٹور کا حتمی فیصلہ کیا حکومت کی جانب سے پاکستان کی سیکیورٹی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد کیا جائے البتہ بی سی بی نے واضح کردیا ہے کہ اس ٹور کے دوران بنگلہ دیشی ویمنز ٹیم کا بھارتی کوچنگ اسٹیڈیم پاکستان نہیں جائے گا، جس کی وجہ پاک بھارت کشیدگی ہے۔

بی سی بی کے چیف ایگزیکٹیو نظام الدین چودھری کہتے ہیں کہ اگر ہماری ٹیم گئی تو ہیڈ کوچ انجو جین، اسسٹنٹ کوچ دیویکا پلشکار اور ٹرینر کویتا پانڈے ان کے ساتھ پاکستان کا سفر نہیں کریں گی تاہم تقریباً اسی عرصے میں ہی سری لنکا میں ہونے والے ایمرجنگ ویمنز ایشیا کپ میں یہ اسٹاف ہماری نوجوان کھلاڑیوں کے ساتھ جائے گا، ان کا کہنا تھا کہ بھارت سے تعلق رکھنے والے سپورٹنگ اسٹاف کو پاکستان نہ بھیجنے کا فیصلہ کسی بھی قسم کی پیچدگیوں سے بچنے کیلیے کیا ہے۔

نظام الدین چودھری کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان کے ٹور کی تیاریاں شروع کردی ہیں، سیریز کی تصدیق سے قبل ہم اپنے کسی آفیشل کو پاکستان بھیجنے کی منصوبہ بندی بھی کررہے ہیں جوکہ سری لنکا کے خلاف جاری سیریز کے دوران وہاں پر انتظامات کا جائزہ لیں گے۔

The post دورہ پاکستان ؛ بنگلہ دیشی ٹیم کے بھارتی کوچز نہیں آئیں گے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2mMClsx
via IFTTT

موسمیاتی تبدیلیاں کرکٹ کے لیے بھی خطرہ ہیں، ای ین چپیل ایکسپریس اردو

سڈنی: آسٹریلیا کے سابق کپتان ای ین چیپل نے موسمیاتی تبدیلیوں کو کرکٹ کیلیے خطرہ قرار دے دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، آبی ذخائر کم ہورے ہیں، ورلڈ کپ کے دوران کئی میچز بارش کی نذر ہوگئے، اگرچہ حال ہی میں ایشزسیریزمیں سنسنی خیز مقابلے ٹیسٹ کرکٹ کی صحت کیلیے اچھے ثابت ہوئے مگر کرکٹ کیلیے سب سے بڑا چیلنج موسمیاتی تبدیلیاں ہیں، کھیل کے ایڈمنسٹریٹرز کو فوری طور پر اس جانب توجہ دینا چاہیے۔

درجہ حرارت میں غیرمعمولی اضافہ کھلاڑیوں کی صحت کیلیے بہت بڑا خطرہ ہے، اگر یہ اسی طرح بڑھتا رہا توپھرکھلاڑیوں کو ہیٹ اسٹروک سے بچانا ہوگا جبکہ ان پر جلد کے کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی منڈلاتا رہے گا، اس صورت میں ٹیسٹ کرکٹ کا مستقبل ڈے اینڈ نائٹ فارمیٹ رہ جائے گا۔ چیپل نے کرکٹرز اور ایڈمنسٹریٹرز پر زور دیا کہ وہ مل کر ایسی حکمت عملی تیار کریںجس سے کھیل کے مستقبل کو محفوظ بنایا جاسکے۔

The post موسمیاتی تبدیلیاں کرکٹ کے لیے بھی خطرہ ہیں، ای ین چپیل appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ov0Hr9
via IFTTT

قرضے اور خسارہ بڑھنے سے معاشی مشکلات میں اضافہ ایکسپریس اردو

 اسلام آباد:  وزارت خزانہ کی رپورٹ 2018-19 کے مطابق قرضوں اور مالی خسارے سے اقتصادی صورتحال بگڑتی جارہی ہے۔

رپورٹ کے تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایف بی آر ، اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کے اقدامات ملک کو بند گلی کی جانب لے جارہے ہیں۔ موجودہ صورتحال کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ملکی وسائل کا بھرپوراستعمال نہیں کیاگیا اور بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھتاچلاگیا۔ وزارت خزانہ کی مالی سال 2018-19 کے حوالے سے رپورٹ نے ساری صورتحال آشکار کردی ہے۔

رپورٹ کے مطابق مذکورہ مالی سال 2018-19 میں مجموعی قومی ( وفاقی اور صوبائی ) اخراجات کا تخمینہ 8ٹریلین رہا جبکہ اس عرصے کے دوران مجموعی طور پر 2 ٹریلین کا قرضہ لیا گیا جو مجموعی اخراجات کا 25 فیصد ہے۔ اس عرصے کے دوران برآمدات کی صورتحال کافی پریشان کن تھی، روپے کی قدر میں تنزلی ہوئی، مہنگائی بڑھی اور ٹیکس وصولیوں میں بھی متعدد رکاوٹیں آئیں ۔

اس ساری صورتحال میں مزید قرضوں کی ضرورت پڑی جس نے آمدنی اور اخراجات کی خلیج کو مزید بڑھادیا۔ اس مشکل معاشی صورتحال کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ملک اپنے دستیابوسائل کو پوری طرح اور موثرانداز میں استعمال نہیں کرسکا۔

The post قرضے اور خسارہ بڑھنے سے معاشی مشکلات میں اضافہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2mZtXFQ
via IFTTT

کالے دھن سے تعمیراتی پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کا حکومتی منصوبہ ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: بلڈرزاور ڈویلپر ز اپنا کالا دھن تعمیراتی منصوبوں میں استعمال کریں گے۔

تحریک انصاف کی حکومت نے بلڈرز اور ڈویلپرز کو کالے دھن سے تعمیراتی پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کی اجازت دینے کا منصوبہ تیار کرلیا ہے ۔اس صورت میں بلڈرز اور ڈویلپرز سے سرمایہ کاری کے ذرائع کی پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی۔ حکومت نے سست روی کے شکار تعمیراتی شعبے میں تیزی لانے کے لیے یہ فیصلہ کیا ہے۔

تاہم اس سے کالے دھن سے متعلق خدشات میں اضافے ہونے کا اندیشہ ہے ۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) کی جانب سے ڈرافٹ جلد منظر عام پر لائے جانے کا امکان ہے۔اس سلسلے میں ڈویلپرز اور بلڈرزکے انکم ٹیکس میں کمی کی پروپوزل کو بھی حتمی شکل دے دی گئی ہے ۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کے بینر تلے وجود میں آئی کم لاگت کی ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے بلڈرز اورڈویلپرزکے ٹیکسوں میں 90فیصد کٹوتی ہوگی۔ایف بی آر کے ڈرافٹ رولز کے مطابق بلڈرزاور ڈویلپرز کو بھاری مراعات دینے کی پیشکش کا پلان بنایا گیا ہے ۔

تعمیراتی پراجیکٹس میں سرمایہ کاری پر بلڈرزاور ڈویلپرز کوانکم ٹیکس،کمپیوٹربیل آؤٹ آڈٹ اور پروڈکشن آف ریکارڈ میں چھوٹ دی جائے گی۔یہ بات بھی نہیں پوچھی جائے گی کہ سرمایہ کاری کے لیے رقم کہاں سے آئی۔ایکسپریس ٹریبون کو موصول ڈرافٹ رولز کے مطابق ان رولز کو’’ بلڈرزاینڈڈویلپرزسسپیشل پروسیجرز رولز2019‘‘ پکارا جائے گا۔ایف بی آر نے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001کی شق 99C کے تحت ان رولز کو جاری کرنے کا پلان بنایا ہے۔

ایف بی آر غیر ظاہر شدہ آمدن،کمپیوٹربیل آڈٹ اور پروڈکشن آف ریکارڈ سے متعلق انکم ٹیکس شقوں میں ترمیم کرنے جا رہی ہے۔تاہم تعمیراتی شعبے کے لیے ان بڑی مراعات کی صورت میں حکومت کے ان ٹیکس قوانین پر سوال بھی اٹھیں گے جن کے تحت حکومت نے کالا دھن رکھنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کاآغاز کررکھا ہے۔ ترجمان ایف بی آر ڈاکٹر حامدعتیق سرور نے ان بھاری مراعات پرسوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ان اسپیشل رولز کے نفاذ سے قبل ایف بی آران ڈرافٹ رولز کواپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرے گی تاکہ اسٹیک ہولڈرزکی ان قوانین پر رائے لی جاسکے۔

The post کالے دھن سے تعمیراتی پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کا حکومتی منصوبہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2nHLAKD
via IFTTT

سعودی، ایران ثالثی کی کامیابی کے امکانات محدود، سفارتی ذرائع ایکسپریس اردو

 اسلام آباد:  وزیراعظم عمران خان دورہ امریکہ سے گزشتہ رات وطن واپس پہنچ گئے ،اس دورہ میں مسئلہ کشمیرکوبھرپورطریقے سے اٹھانے پر ان کا زیردست استقبال کیا گیا۔

اس دورے کی دوسری اہم بات مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی ختم کرانے کی کوشش تھی جس کیلیے ان کے بقول امریکی صدر ٹرمپ نے ثالثی کی ذمے داری سونپی ہے لیکن سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کا اس میں ان کی کامیابی کے امکانات بہت محدود ہیں۔

نیویارک جاتے ہوئے انہوں نے سعودی عرب کا دورہ کیالیکن سعودی عرب کی تیل تنصیبات پرڈرون حملوں کے بعد اسے ایران کے ساتھ مفاہمت پر قائل کرنا خاصا مشکل ہے ۔نیویارک میں قیام کے دوران وزیراعظم عمران خان نے ایران کے صدر حسن روحانی سے ملاقات کی ۔وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی ایرانی ہم منصب سے تقریباً تین ملاقاتیں کیں۔

ایران سعودی تیل تنصیبات پرحملوں سے انکار کرتا ہے،یمن کے حوثی باغی اس کارروائی کی ذمے داری قبول کرتے ہیں۔سعودی عرب اورامریکا ایران کو ذمہ دار قراردیتے ہیں۔لہذا پاکستانی قیادت کے ایرانی لیڈروں سے مذاکرات کے کوئی خاطرخواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔

ماضی میں ضیاء الحق نے بھی عراق ایران جنگ رکوانے کی کوششیں کی تھیں لیکن اس میں انہیں کامیابی نہیں ملی تھی۔اسی طرح نوازشریف بھی سعودی عرب اورایران میں یمن کے معاملے پرمفاہمت کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے۔وزارت خارجہ کے ایک ذمہ دار افسرنے بتایا کہ چاہے وزیراعظم عمران خان کی مفاہمتی کوششیں کامیاب نہ ہوں لیکن پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیں کہ دونوں ملکوں میں کشیدگی ختم کرائے ۔لہذا پاکستان اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔

The post سعودی، ایران ثالثی کی کامیابی کے امکانات محدود، سفارتی ذرائع appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2mahOxt
via IFTTT

سعودیہ: سیاحوں کی تعداد سالانہ 10کروڑ تک لے جانے کا منصوبہ ایکسپریس اردو

ریاض: سعودیہ عرب میں سیاحوں کی تعداد سالانہ 10 کروڑ تک لے جانے کا منصوبہ بنالیا گیا۔

سعودی سیاحتی کمیٹی کی ویب سائٹ کے مطابق پہلے مرحلے میں امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، یورپی ممالک اور ایشیا میں برونائی، جاپان، ملائیشیا، سنگا پور، جنوبی کوریا، قازقستان ، چین، ہانگ کانگ اور تائیوان کے باشندے ویب سائٹ کے ذریعے الیکٹرانک ویزا یا مملکت آمد پر ایئرپورٹ پر ویزا حاصل کرسکتے ہیں۔

سرکاری خبر رساں ادارے سے جاری بیان میں کہا گیا کہ غیر ملکی سیاحوں کی تعداد سالانہ 10 کروڑ تک لے جانے کا ارادہ ہے۔ اس وقت مملکت میں سیاحوں کی سالانہ تعداد 4کروڑ 10 لاکھ ہے۔سیاحوں کی تعداد کا ہدف پورا ہونے پر2030 تک سیاحت کا ملکی پیداوار میں حصہ3فیصد سے بڑھ کر 10فیصد تک پہنچ جائے گا۔ سیاحت کے شعبے میں ملازمتوں کے مواقع6 لاکھ سے بڑھ کر 16لاکھ ہوجائیں گے۔

The post سعودیہ: سیاحوں کی تعداد سالانہ 10کروڑ تک لے جانے کا منصوبہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2mVZ1GF
via IFTTT

سی پیک پرکام سست نہیں پڑا، چینی سفیر ایکسپریس اردو

 اسلام آباد:  چینی سفیر یاؤ جنگ نے کہا ہے کہ سی پیک تیزی کے ساتھ اگلے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے کام کی رفتار سست ہونے کی خبریں درست نہیں۔وہ گزشتہ روز پاک چائنہ انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ’’فرینڈز آف سلک روڈ ‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔سیمینار سے وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی خسرو بختیار اور سینیٹر مشاہد حسین سید نے بھی خطاب کیا۔

چینی سفیر نے کہا کہ سی پیک کے اگلے مرحلے میں چینی حکومت پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کرتے ہوئے 3 شعبوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دے گی جس میں خصوصی اکنامک زونزکا قیام بالخصوص رشکئی اقتصادی زون کی تعمیر، زراعت کا فروغ اور سماجی شعبے کی ترقی شامل ہیں۔چین کے سفیر یاؤ جنگ نے کہا کہ چین اور پاکستان کے سٹریٹجک تعلقات معاشی ترقی میں تعاون اور عوام کی خوشحالی میں منتقل ہو چکے ہیں۔

دونوں ملکوں کے حکومتیں معاشی ترقی کیلئے پرعزم ہیں ، سی پیک کے منصوبوں کے لیے 8مشترکہ ورکنگ گروپ کام کر رہے ہیں، سی پیک کے نئے مرحلے میں پاکستان کی حکومت چین کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے۔ خصوصی اقتصادی زونز کے ذریعے صنعتی تعاون کو فروغ دیا جائیگا ، زرعی ترقی کے شعبے میں پاکستان کو فنی و تکنیکی تعاون فراہم کیا جائیگا ، پاکستان میں زرعی ٹیکنالوجی کی سکیمیں شروع کی جائیگی اور پلانٹیشن کے منصوبے مکمل کیے جائیں گے ۔چینی سفیر نے کہا کہ اکتوبر کے ا ٓخر میں پاکستان میںزرعی ایکسپو کا انعقاد کیا جائیگا ، انہوں نے کہا کہ دوسرے مرحلے میں سماجی شعبے کے 27منصوبے 3  سال میں مکمل کیے جائیں گے۔

ان میں سے 17منصوبے جلد مکمل ہو جائیں گے ، یاؤ جنگ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان غربت کے خاتمے کے لیے خواہاں ہیں اس کیلیے چین پاکستان کے 5دیہات کو پائلٹ پروجیکٹ کے طورپر ماڈل ویلج بنائے گا اور آئندہ ہفتے کام شروع کر دیا جائیگا۔چینی سفیر نے سی پیک منصوبوں میں سستی روی سے متعلق کہا کہ اس طرح کے تحفظات درست نہیں۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی خسرو بختیار نے کہا کہ سی پیک اتھارٹی کا جلد اجرا کر دیا جائیگا ، پشاور سے کراچی تک 1700کلو میٹر ریلوے لائن کی اپ گریڈیشن کے ایم ایل ون منصوبے کے مالیاتی امور طے کیے جارہے ہیں اور جلد ہی اس پر معاہد ہ کیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ سی پیک پر تمام سیاسی جماعتوں کو اتفاق ہے، رشکئی خصوصی اقتصادی زون اکتوبر کے آخر میں شروع ہو جائے گا گوادر سٹی ماسٹر پلان کو حتمی شکل دے دی ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ خصوصی اقتصادی زونز کی تعمیر میں بڑا مسئلہ بجلی ، گیس و دیگر سہولتوں کی فراہمی کا تھا ، حکومت نے رواں مالی سال کے پی ایس ڈی پی میں ان سہولتوں کی فراہمی کے لیے 20ارب روپے رکھے ہیں ،سی پیک کے مشترکہ تعاون کمیٹی کے اجلاس نومبر میں ہوگا اور اس میں آئل اینڈ گیس ،ا سٹیل ، صنعتی شعبے اور ریلوے کے ایم ایل ون منصوبے سمیت دیگر اہم منصوبوں پرپیش رفت ہوگی۔

انھوں نے کہا کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں زراعت اور سماجی شعبے کی ترقی کے لیے منصوبوں پر کام ہوگا، سماجی شعبے اور زراعت کے لیے چین پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی گرانٹ فراہم کرے گا، گوادر سٹی کے ماسٹرپلان کو حتمی شکل دے گی گئی ، گوادر میں 300 میگاواٹ کا توانائی منصوبہ پر کام جلد شروع ہوگا، خسروبختیار نے کہاکہ سی پیک اتھارٹی کے قیام سی پیک منصوبوں پر کام کو آگے بڑھائے گا۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ چین نے کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ میں ساتھ دے کر ایک مرتبہ پھر عظیم دوستی کا ثبوت دیا ہے جس پر چین کے مشکور ہیں۔چین 2013میں ایک ایسے وقت میں سی پیک لے کر آیا جب مسلمان ممالک سمیت دنیا کو کوئی ملک یہاں آنے کو تیار نہیں تھا ، سی پیک نے پاکستان کو اسٹرٹیجک اہمیت فراہم کی ، 70ہزار افراد کو روزگار ملا، 28000پاکستانی چین میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور چین نے 20ہزارا سکالرشپ دی ہیں۔

سی پیک کے دوسرے مرحلے میں سیا حت و ثقافت ، سماجی شعبے اور زراعت کی ترقی کیلیے منصوبوں پر کام ہوگا، تقریب میں رشکئی اقتصادی زونز سے متعلق ایک پریزٹیشن بھی پیش کی گئی اور بتایا گیا کہ رشکئی اقتصادی زون سے ملک میں 13کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری آئیگی ،30ہزار لوگوں کو روزگار ملے گا،تقریب میں سینیٹر جاوید عباسی ، سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل ( ر) عبدالقیوم ، سینیٹر غوث نیازی ، ڈاکٹر ثمینہ سمیت دیگر پارلیمنٹرینز ، سابق سفارتکاروں ، گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے اعلی ٰ حکام، چینی و پاکستانی کاروباری شخصیات بھی شریک ہوئیں۔

The post سی پیک پرکام سست نہیں پڑا، چینی سفیر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ot8dTm
via IFTTT

وزیراعظم کوعالمی برادری سے ٹائم فریم لینا چاہیے تھا، سراج الحق ایکسپریس اردو

 لاہور /  اسلام آباد:  امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ قوم چاہتی ہے کہ پاک فوج وہ فیصلہ کرے جو کشمیری چاہتے ہیں۔

امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ حکمران اچھا خطاب کرنے کے بعد مطمئن ہو کر نہیں بیٹھ جاتا، حکمران بااختیار ہوتا ہے اسے زنجیروں کو توڑنا اور رکاوٹوں کو ختم کرنا ہوتا ہے، وزیراعظم کو مسئلہ کشمیرکے حل کیلیے عملی اقدامات پر عالمی برادری سے کوئی ٹائم فریم لینا چاہیے تھا، ہم کب تک کشمیریوں کے قتل عام اور ماؤں بہنوں بیٹیوں کی اجتماعی عصمت دری کے واقعات پر خون کے گھونٹ پیتے اور دنیا کی طرف دیکھتے رہینگے۔

کشمیر ہمارا مسئلہ ہے اور ہمیں یہ جنگ خود لڑنا ہوگی، نشتر ہال پشاور میں جے آئی یوتھ خیبر پختونخوا کے لیڈر شپ کنونشن اور واہ کینٹ میں تحریک محنت پاکستان کے نو منتخب صدر خالد حسین بخاری کی تقریب حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں کو ایک بار پھر متنبہ کرتا ہوں کہ کشمیر کی لڑائی سری نگر اور جموں و لداخ میں نہ لڑی تو مظفر آباد، لاہور اور اسلام آباد میں لڑنا پڑیگی، ملک و قوم کے مسائل کا حل ملک میں قرآن و سنت کے نظام کا نفاذ ہے، تحریک محنت پاکستان کے نو منتخب صدر کی حلف برداری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ تحریک محنت کا مقصد ہی پاکستان میں غلبہ دین اور نظام مصطفی کے نفاذ کی جدوجہد ہے۔

The post وزیراعظم کوعالمی برادری سے ٹائم فریم لینا چاہیے تھا، سراج الحق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ov5OYt
via IFTTT

آئی ایم ایف نے ریونیواہداف میں بہتری کو سراہا ہے، حماداظہر ایکسپریس اردو

 لاہور:  وفاقی وزیرریونیو حماد اظہر نے کہاہے کہ آئی ایم ایف نے ریونیواہداف کی وصولی میں بہتری کی تعریف کی ہے۔

’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی تعداد میں اضافہ ہواہے، ایف بی آر نے جیو ٹیگنگ کی ہے جس میں کاروباری مراکز کا سیٹلائٹ کے ذریعے ڈیٹا مرتب کیاجائے گا، اس  سے پتہ چل جائے کہ نقشے کے مطابق مارکیٹ میں ٹیکس گزار کتنے ہیں اور کون کتنا ٹیکس دیتا ہے۔

ایف بی آر نے ٹیکس گزاروں کیلیے ایک ایپ  بنائی ہے۔ ماضی  میں کوئی بھی ایف بی آر کے ریونیو اہداف حاصل نہیں کرسکا۔ انھوں نے کہاکہ تاجروں کیلیے فکسڈ ٹیکس کی پیشکش کی ہے،دکانداروں کو شناختی کارڈ نہیں دینا پڑے گا اورنہ ہی آڈٹ ہو گا۔

The post آئی ایم ایف نے ریونیواہداف میں بہتری کو سراہا ہے، حماداظہر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2nIA2qs
via IFTTT

آزادی مارچ میں شرکت پر(ن) لیگ آج فیصلہ کرے گی ایکسپریس اردو

 لاہور:  جمعیت علماء اسلام ف کے آزادی مارچ اور اسلام آباد لاک ڈاؤن میں شرکت یا عدم شرکت کا فیصلہ کرنے کیلئے مسلم لیگ ن کی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس آج اسلام آباد میں ہو گا۔

اجلاس صبح 10 بجے صدر مسلم لیگ (ن) و قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہبازشریف کی منسٹر انکلیو میں واقع رہائشگاہ پر ہو گا، اجلاس میں آزادی مارچ میں شرکت بارے مشاورت کی جائے گی اور شہباز شریف کی گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمن سے ہونے والی 2 ملاقاتوں بارے سی ای سی کو اعتماد میں لیا جائے گا۔

پارٹی ذرائع کے مطابق مجلس عاملہ کے اجلاس کی سفارشات نواز شریف کو بھیجی جائیں گی اور نواز شریف کی حتمی منظوری کے بعد آزادی مارچ میں شرکت بارے باضابطہ اعلان کیا جائیگا، پارٹی ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بھی آج30 ستمبر کو ہی سہہ پہر ساڑھے 3 بجے طلب کیا گیا ہے جس میں قومی اسمبلی اجلاس کی حکمت عملی، سیاسی صورتحال اور پارٹی امور پہ مشاورت کی جائیگی۔

The post آزادی مارچ میں شرکت پر(ن) لیگ آج فیصلہ کرے گی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2mMAMLa
via IFTTT

ایشیا کپ کرکٹ : بھارتی ٹیم کیلیے جون کی ڈیڈ لائن مقررکردی گئی ایکسپریس اردو

کراچی:  پاکستان نے ایشیا کپ میں بھارتی ٹیم کی شرکت کی تصدیق کیلیے جون 2020 کی ڈیڈ لائن مقررکردی۔

پاکستان نے ایشیا کپ میں بھارتی ٹیم کی شرکت کی تصدیق کیلیے جون 2020 کی ڈیڈ لائن مقررکردی۔ اس ایونٹ کی میزبان پاکستان نے ستمبر 2020 میں کرنا ہے، اگر آئندہ برس جون تک بھارتی کرکٹ بورڈ نے اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے کی تصدیق نہیں کی تو پھر ایونٹ کی میزبانی یو اے ای میں کی جاسکتی ہے۔

The post ایشیا کپ کرکٹ : بھارتی ٹیم کیلیے جون کی ڈیڈ لائن مقررکردی گئی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2nGlVBT
via IFTTT

Saturday, September 28, 2019

دشمنوں سے ہوشیار ایکسپریس اردو

پہلی جنگ عظیم میں ترکی کی شکست کے بعد انگریزوں نے جزیرہ نما عرب سے سلطنت عثمانیہ کا کنٹرول ختم کرکے اسے کئی چھوٹی بڑی ریاستوں میں تقسیم کر دیا۔ اس تقسیم سے ہی واضح ہوگیا تھا کہ وہ عربوں کوکمزور کرنے کے لیے یہ سازشی کارروائی کر رہے ہیں اور بعد میں ہوا بھی وہی جس کا خطرہ تھا۔

عربوں کی آپس میں نہ بنی اور وہ ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہوگئے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ انھیں سرزمین عرب پر اسرائیل کے ناسورکو ختم کرنے کے لیے اپنی متحدہ توانائیاں صرف کرنا چاہیے تھیں۔ اب اس وقت حال یہ ہے کہ سعودی عرب کی شام یمن اور قطر سے ان بن چل رہی تھی۔ شام پر اسی کی تائید میں مغربی ممالک نے حملہ کر دیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔

سعودی عرب کے یمن سے تعلقات اس لیے خراب ہیں کہ وہ وہاں اپنی پسند کے شخص کو مسند صدارت پر بیٹھا دیکھنا چاہتا ہے۔ وہاں کے جنگجو سعودی عرب پر حملے کر رہے ہیں ، جن سے شاہی محلات اور تیل کی تنصیبات بھی محفوظ نہیں ہیں۔ سعودی حکومت نے دو سال قبل قطر سے اچانک ناتا توڑ لیا تھا ۔ قطر سے محاذ آرائی میں متحدہ عرب امارات سعودی عرب کے ساتھ ہے۔ سعودی عرب کے ایران کے ساتھ ویسے تو برسوں سے تلخ تعلقات چل رہے ہیں مگر چند برسوں سے دونوں ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ بیان بازی کر رہے ہیں جس کی اصل وجہ یمن کا مسئلہ ہے۔

اس کے علاوہ دونوں ممالک میں سی آئی اے اور موساد کی جانب سے پیدا کی جانے والی غلط فہمیاں بھی حالات خراب کر رہی ہیں۔ ان دونوں شیطانی خفیہ اداروں کا مقصد عربوں کو باہم لڑانے کے علاوہ سعودی عرب اور ایران میں باقاعدہ جنگ کرانا ہے۔ عربوں کے آپس کے نفاق کی وجہ سے ہی وہ 1967 میں اسرائیل سے شکست کھا گئے تھے۔ اس وقت اسرائیل ایک ایٹمی طاقت ہے اور امریکا کے زیر سایہ روز بروز ترقی کی منازل طے کرتا جا رہا ہے۔ عرب ممالک اس سے اس قدر مرعوب ہوچکے ہیں کہ وہ مسئلہ فلسطین کو ہی بھول چکے ہیں اور اب اپنے اس ازلی دشمن سے دوستی کے طلب گار ہیں۔

بعض اطلاعات کے مطابق سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات خفیہ طور پر اسرائیل سے تعلقات استوار کرچکے ہیں۔ ایسا اس لیے بھی ہوا ہے کیونکہ امریکا یہی چاہتا ہے اور دونوں ہی ممالک امریکا کو کسی بھی صورت میں ناراض کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ وہ امریکی ایما پر ہی بھارت سے اسٹرٹیجک تعلقات قائم کرچکے ہیں اور وہ بھارت کو خالص مسلم تنظیم او آئی سی میں بھی داخل کرانے کے لیے کوشاں ہیں اور حد تو یہ ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو مسلم امہ کا مسئلہ ہی تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔ مودی جیسے فاشسٹ شخص کو ایوارڈ سے نوازنا مسلم امہ کو شدید صدمے سے دوچار کرنے کے مترادف ہے۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نہ جانے کیوں یہ بھول رہے ہیں کہ بھارت اور اسرائیل ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ اسرائیل کی طرح بھارت بھی مسلمانوں کا ازلی دشمن ہے۔ بھارت اورکشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم وستم سے بھی ان کی آنکھیں نہیں کھل رہی ہیں۔ وہ امریکا پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ کر رہے ہیں جب کہ امریکا کی پالیسی یہ ہے کہ وہ اسرائیل کو عربوں پر حاوی کرانا چاہتا ہے اور اب تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسرائیل عربوں پرحاوی ہوچکا ہے۔

ایک وقت تھا جب لیبیا ، شام اور عراق اسرائیل کے لیے مسلسل خطرہ بنے ہوئے تھے وہ اتنی طاقت رکھتے تھے کہ اسرائیل کا مقابلہ کرسکتے تھے مگر سی آئی اے اور موساد نے ایسا کھیل کھیلا کہ ان تمام میں بغاوت پھیلا کر انھیں اپنے ہی عوام کے ہاتھوں تباہ و برباد کرا ڈالا۔ شام میں آگ اور خون کا کھیل اب بھی جاری ہے اب اسرائیل کو صرف ایران سے ہی خطرہ لاحق ہے۔ اس وقت صدر ٹرمپ اسرائیل نوازی میں تمام سابقہ امریکی صدور پر بازی لے گئے ہیں وہ متنازعہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔

اب ٹرمپ کا منصوبہ یہ ہے کہ کسی طرح سعودی عرب اور ایران میں جنگ کرا دی جائے تاکہ پورے مشرق وسطیٰ کو جنگ کے شعلوں میں دھکیل دیا جائے۔ اگر سعودی عرب اور ایران کی کبھی جنگ ہوئی تو سعودی عرب اور ایران کے حامی بھی خاموش نہیں رہ سکیں گے اور وہ بھی جنگ کا حصہ ضرور بنیں گے اس طرح ٹرمپ کی یہ شاطرانہ چال کہ عرب ممالک اور ایران خود ہی اپنی جنگ میں تباہ و برباد ہوجائیں کامیاب ہوسکتی ہے مگر اس کا دار و مدار اس پر ہے کہ وہ ٹرمپ کے بھڑکاوے میں نہ آئے۔

چند دن قبل سعودی عرب کے جنوب میں واقع اس کے تیل کے بڑے کنوؤں اور وہاں موجود ایک بڑی ریفائنری پرکئی ڈرونز حملے کیے گئے ہیں جن سے تیل کے کنوؤں کے ساتھ ساتھ ریفائنری میں بھی آگ لگنے سے بہت نقصان ہوا ہے اس سے نہ صرف سعودی عرب کی آمدنی پر اثر پڑا ہے بلکہ تیل کی عالمی سپلائی بھی متاثر ہوئی ہے جس کے نتیجے میں تیل کی قیمتوں میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے۔

یہ ایسا وقت ہے جب سعودی عرب کی معیشت خستہ حالی سے گزر رہی ہے کیونکہ اسے اپنے پڑوسیوں سے خطرے کے سبب جدید مہنگا اسلحہ خریدنا پڑ رہا ہے خاص طور پر یمن کا مسئلہ اس کے گلے کا ہار بن گیا ہے۔ حالیہ ڈرونز حملوں کی تباہی نے اسے مزید اسلحہ خریدنے کی جانب مائل کردیا ہے۔ اس وقت روس کی جانب سے اسے دفاعی نظام ایس فور ہنڈریڈ فروخت کرنے کی پیشکش کی گئی ہے اس نظام کی موثر کارکردگی کی وجہ سے ترکی اور بھارت پہلے ہی اسے خریدنے کے لیے روس کو آرڈر دے چکے ہیں۔

امریکی پیٹریاٹ میزائل کی ناکامی کے بعد سعودی حکومت ایس 400 دفاعی نظام کو ہی خریدنا چاہے گی مگر وہ شاید ایسا نہ کرسکے کیونکہ اس سے امریکا ناراض ہوگا اور وہ امریکا کی ناراضگی کا خطرہ کسی صورت مول نہیں لے سکتی۔ گوکہ سعودی حکومت امریکا کو اپنا جگری دوست خیال کرتی ہے مگر ٹرمپ کی عیاری دیکھیے کہ وہ سعودی عرب میں ہونے والے ڈرونز حملوں کو زبردستی ایران کی جانب سے کیے گئے حملے ثابت کرنے پر مصر ہے۔ اس نے اپنے خلائی سیارے کے ذریعے بھیجی گئیں تصاویر سے ڈرونز کے داغے جانے کی جگہ ایران کے جنوبی حصے کو قرار دیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ سیٹلائٹ کا یہ خاکہ واضح نہیں ہے خود مغربی ماہرین اسے مشکوک قرار دے رہے ہیں۔ مگر ٹرمپ اور ان کے وزیر خارجہ مسٹر پومپیو اسے ایرانی کارروائی قرار دے کر سعودی عرب کو ایران پر حملہ کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ ایسے میں یورپ میں متعین ایک سعودی سفیر نے سعودی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ ہوشیار رہے اور کسی کے کہنے پر محاذ آرائی سے گریز کرے۔ اب تو برطانوی وزیر اعظم مسٹر بورس جانسن بھی ایران کو سعودی عرب پر ڈرون حملوں کا ذمے دار قرار دے رہے ہیں۔ لگتا ہے برطانیہ عراق پر جس طرح مہلک ہتھیاروں کے رکھنے کے جھوٹے امریکی دعوے کی تصدیق کرکے عراق کی تباہی کا باعث بنا تھا اسی طرح اب وہ نہ صرف ایران بلکہ سعودی عرب کی بھی تباہی چاہتا ہے۔

ایسے ماحول میں سعودی عرب کو معاملات کا صحیح ادراک کرنا ہوگا اور امریکی ترغیب پر اسے ایران پر حملہ بہت مہنگا ثابت ہوسکتا ہے۔ ایران کو بھی اب حوثی قبائل کو سعودی عرب پر حملوں سے باز رکھنا چاہیے۔ اس وقت تازہ خبر یہ ہے کہ حوثیوں نے سعودی عرب پر مزید حملے نہ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

ادھر ایران نے بھی سعودی حکومت کی جانب سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے سعودی حکومت کو بھی دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے ایسا ہی کرنا چاہیے ساتھ ہی اسے اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کہیں ڈرون حملے اسرائیل کا کارنامہ تو نہیں ہیں واضح ہو کہ نائن الیون کے حملوں میں بھی اس کے ملوث ہونے کے ثبوت ملے تھے مگر سی آئی اے نے جان بوجھ کر انھیں دبا دیا تھا۔ ابھی حال ہی میں وہائٹ ہاؤس کے احاطے میں آواز ریکارڈ کرنے والے خفیہ آلات پکڑے گئے ہیں۔

خود سی آئی اے کے کچھ ارکان اسے اسرائیل کی کارروائی قرار دے رہے ہیں۔ ایسے ماحول میں جب کہ دشمن خود آپس میں ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے ہیں تو سعودی عرب کا ان پر اندھا بھروسہ کرنا خطرناک ہوگا۔

The post دشمنوں سے ہوشیار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2nCwcik
via IFTTT

کشمیر اور اقوام متحدہ کا کردار ایکسپریس اردو

70سال سے سسکتا کشمیر ایک بار پھر شدید ظلم و ستم کا شکار ہے اور تقریباً 2ماہ سے مسلسل کرفیو کی صورتحال نے وادی کو اوپن (کھلے) جیل میں تبدیل کردیا ہے۔

جس میں تقریباً ایک کروڑ انسان محض اپنے بنیادی حق ِ خودمختاری کی بحالی و قومی شناخت کو برقرار رکھنے کی پاداش میں پابند سلاسل ہیں ، جو حق انھیں فطرت کی جانب سے ہزارہا سال سے اور 70سال سے اقوام ِ متحدہ کی جانب سے دیگر ممالک و اقوام کی طرح حاصل ہے ۔برصغیر کی موجود مستند تاریخ کے جھروکوں سے ہمیں کشمیر کی ہند و سندھ کے درمیان ایک آزاد و خودمختار ریاست کے طور پر موجودگی کے شواہد 633ء؁ میں اُس وقت بھی نظر آتے ہیں جب اِ س خطے کی اُس وقت کی سب سے بڑی سلطنت سندھ کے راجہ چچ بن سیلائج کی طرف سے کشمیر کے راجہ درلہ بھوردھنہ کے ساتھ سرحدی حد بندی بطور آزاد و خودمختار ریاستوں کے طور پر کی گئی ۔پھر یہ خودمختاری انگریز کے آنے تک کسی نہ کسی صورت میں برقرار رہی۔

برصغیر پر انگریز کے قبضے نے نہ صرف یہاں کے دھن و دولت اور وسائل پر قبضہ کیا بلکہ یہاں کی تمام ریاستوں و اقوام کی خودمختاری کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچایا ۔کشمیرکی خودمختاری بھی اُسی کی نذر ہوگئی ۔ انگریز کی حرص پر مبنی اس شاطرانہ پیش قدمی کی شکار کئی اقوام آج تک اپنے قومی وجود وحق اقتدار کی بحالی کے لیے محوئے جستجو ہیں۔ انگریز نے دوسری جنگ عظیم میں ہونیوالے مالی خسارے اور انتظامی کمزوری کی وجہ سے دنیا پر قائم اپنے قبضوں کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا۔

اُس کے تحت ہی برصغیر کو بھی بیرونی تسلط سے آزادی نصیب ہوئی لیکن انگریز جاتے جاتے خطے کی من پسند بندر بانٹ کی خواہش میں بھی یہاں کئی سوالات اور تنازعات برپا کرتا گیا ۔ اُن میں سے سب سے بڑا سوال اور تنازعہ کشمیر کی صورت میں نظر آتا ہے ۔ جو بظاہر دو ہمسایہ ممالک انڈو پاک کے درمیان بٹوارے کے مسئلے کے طور پر اُبھرا لیکن درحقیقت یہ دنیا کی جنت کہلانے والے اس کشمیر کے قومی وجود کے ختم ہونے کا نوحہ ہے ۔

1947میں دونوں ملکوں کی افواج کی پیشقدمی کی بنیاد پر یہ وادی جنگ کا میدان بن گئی ۔ بھاری جانی و مالی نقصان کے بعد بالآخرنوزائیدہ عالمی اقوام کے مشترکہ ادارے اقوام متحدہ کی ثالثی کی بنیاد پر جنگ بندی ہوئی اور تنازعے کے مستقل حل تک دونوں ملکوں کی افواج کی اُس وقت پوزیشن والی جگہ کو عبوری حد بندی یعنی Line of Control (LOC)قرار دیا گیا ۔ جب کہ تنازعے کے مستقل حل کے لیے دونوں ملکوں کو انسانی حقوق پر مبنی اقوام ِ متحدہ کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے تحت پاس کردہ قرار دادوں کا بھی پابند کیا گیا ۔ لیکن اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر اگر آج تک حل نہیں کیا جاسکا ہے تو اس میں ایک طرف بھارت کی ہٹ دھرمی ہے تو دوسری طرف اقوام ِ متحدہ بھی اپنی قرار دادوں کا بھرم نہیں رکھ سکی ہے۔

جہاں تک بات ہے پاکستان کی تو اُس کا موقف ’’کشمیر ہماری شہہ رگ ہے ‘‘ ، ’’ کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘سے’’ کشمیری عوام کے حق رائے دہی کو قبول کرنے ‘‘ کے بیانیے تک اُس کے موقف میں لچک نظر آتی ہے لیکن بھارت کے ’’اٹوٹ انگ ‘‘ والے موقف میں لچک نہ لانے والی ہٹ دھرمی نے اس جنت نظیر وادی کو خطے بالخصوص کشمیریوں کے لیے دوزخ بنادیا ہے ۔

کشمیر کے تنازعے کی باعث عالمی طاقتیں انڈیا و پاکستان کی حمایت والے بلاکوں میں منقسم ہیں۔ بظاہر دنیا کے تمام ممالک کے آپس میں سفارتی تعلقات ہیں لیکن سوشیو اکنامک ترجیحات کی بناء پر عالمی قوتیں کشمیر معاملے میں جانبداری دکھاتے ہوئے بھارت کے ناجائز اقدامات پر بھی خاموش رہتی ہیں اور اس مسئلے کو پاک بھارت تنازعہ قرار دینے کی آڑ میں وہ کشمیری عوام پر بھارتی جبر و بربریت پر خاموش (یعنی نیم رضا مند) رہتے ہیں ۔

انسان ترقی یافتہ جانور ہے لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جانور کی خصلتیں اس پر بار بار غالب آتی رہتی ہیں اور وہ ایک دوسرے کو بے دردی سے قتل کردیتے ہیں ۔ اس لیے اس کی جانور والی جبلت پر قابو پانے کے قواعد و ضوابط طے کرنے کے لیے دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد غور و خوض کیا گیا اور ان پر عملدرآمد کے لیے ہی اقوام ِ متحدہ کا ادارہ قائم ہوا ۔ اقوام ِ متحدہ کے چار ٹر آف ڈیمانڈ کے متن کیمطابق ادارے کی ذمے داری قرارپائی کہ آنیوالی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچایا جائے گا، انسانوں کے بنیادی حقوق ، انسانی اقدار کی عزت اور قدرومنزلت کی جائے گی ۔ چارٹرآف ڈیمانڈ کے دستور کے آرٹیکل 2کے تحت تمام رکن ممالک کو مرتبہ برابری کی بنیاد پر ہے۔

ہر امن پسند ملک جو اقوام ِ متحدہ کے چار ٹر کی شرائط تسلیم کرے، ان شرائط کو پورا کرسکے اور اقوام ِ متحدہ کی ذمے داریوں کو ادا کرنے کے لیے تیار ہو ، برابری کی بنیاد پر اقوام ِ متحدہ کا رکن بن سکتا ہے ۔ شروع میں اس کے 51ارکان تھے ، بعد میں بڑھتے بڑھتے ان کی تعداد آج 193ہوگئی ہے۔ اس ادارے کی فعالیت کے چھ مرکزی و اہم ادارے ہیں: (۱) بین الاقوامی عدالت انصاف: تمام رکن ریاستوں کے درمیان تنازعات پر اپنا فیصلہ سناتا ہے۔ اس کے ججز کی تعداد 15پر مشتمل ہے۔ (۲) اقوام متحدہ سیکریٹریٹ : یہ ادارے کے انتظامی و مالی اُمور کی تیاری اور فعالیت کی ذمے داریاں سرانجام دیتا ہے۔ (۳) اقوام متحدہ جنرل اسمبلی: تمام اراکین کی مشترکہ اسمبلی ہے ، اس کا کام امن امان کی خاطر بین الاقوامی اصولوں پر غور کرنا اور اس ضمن میں اپنی سفارشات پیش کرنا ہے ۔ (۴) ٹرسٹی شپ کونسل: یہ ادارہ علاقہ جات کے لیے نوآبادکاری کے انتظامات کے لیے قائم ہوا تھا لیکن 1994میں اسے غیر فعال کردیا گیا ۔ (۵) اقوام ِ متحدہ اقتصادی اور سماجی کونسل : اس کا کام عالمی اقتصادی اور سماجی اُمورپر تعاون پیدا کرنا ہے۔ (۶) سلامتی کونسل یا سیکیورٹی کونسل : اس کا کام دنیا بھر میں امن اور سلامتی قائم رکھنا ہے۔

سلامتی کونسل اس کا سپریم ادارہ ہے ۔ اگر کوئی رکن چارٹر کی مسلسل خلاف ورزی کرے اسے سلامتی کونسل معطل یا خارج کرسکتی ہے۔ان تمام ذمے داریوں اور قوانین کی مناسبت سے اقوام ِ متحدہ ہی تمام بین الاقوامی اُمور کا ذمے دار و حتمی ادارہ ہے ۔ اس ادارے کے اُمور ویسے تو جمہوری انداز میںاکثریتی رائے دہی کی بنیاد پرسرانجام دیے جاتے ہیں لیکن اس کے فوجی عملے کی کمیٹی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین ممالک کے چیف آف اسٹاف یا ان کے نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ان پانچ مستقل ارکان کو ویٹو کے پاور ہیں ۔ان میں سے کوئی بھی رکن فیصلے کو ویٹو پاور استعمال کرکے روک سکتاہے۔

دراصل اقوام ِ متحدہ کے نتائج نہ دے سکنے کی وجہ یہی پانچ ویٹو پاور رکھنے والے ممالک کے رویے ہیں۔ آج دنیا کو عالمی سطح پر ناانصافی کا سامنا ہے ۔ طاقتور ممالک و اقوام اپنے مفادات کی بناء پر کمزور اقوام و ممالک کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں ۔ ایسے میں دنیا کو 5ویٹو ممالک کے ہاتھوں میں یرغمال ہونے سے بچانا ہی اقوام ِ متحدہ کا مقصد ہونا چاہیے ۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجودکشمیر اور کشمیری بھارت کے محاصرے میں ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ ناکامیوں کا باعث بننے والی اقوام ِ متحدہ کی موجودہ بناوٹ پر غور و خوض کرتے ہوئے اس کی ناکامیوں کی وجہ طاقتور ممالک بالخصوص ویٹو ممالک کی امتیازی حیثیت ختم کرکے ادارے کی برابری و سراسری کی بنیادوں پر تشکیل ِ نو کی جائے ، جو نہ صرف دنیا میں بھوک و افلاس اورسماجی و معاشی استحکام میں مؤثر ہو بلکہ دنیا میں قیام ِ امن کے لیے بھی حتمی اور بااختیار ادارہ ہو ۔ جو تمام ارکان ممالک کی یکساں مالی و عسکری معاونت کی بنیاد پر قائم ہو اور دنیا بھر میں اُبھرنے والے تضادات و تنازعات پر مقدم کارروائی کے اختیار کا حامل ہو ۔ جس کے لیے مالی و عسکری طاقت اور خصوصی حیثیت کی بناء پر پانچ ملکوں کے پاس گروی رکھے گئے اقوام ِ متحدہ کے اختیارات کو چھڑانا ہی اس دنیا میں امن کے قیام کی جانب حقیقی پیش قدمی ہوگی۔

اب جب کہ دنیا بھر سے بلکہ خود بھارت کے اندر سے بھی کشمیریوں پر مظالم کے خلاف آوازیں اُٹھ رہی ہیں ایسے میں بھی ایک طرف اقوام ِ متحدہ خاموش تماشائی بنا بیٹھاہے تو امریکا سپر پاور اور ویٹو اختیارات جیسی مستثنیٰ حیثیت کی وجہ سے معاملے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بناء پر دیکھنے کے بجائے اپنے ملکی مفادات کی بناء پر بھارت کی جارحیت کو نظر انداز کرکے طول دینا چاہتا ہے ۔ کشمیر مسئلے پر دنیا میں جو کھلبلی مچی ہوئی ہے اس کی وجہ بھی امریکا کا کردار ہے جو عالمی تنازعوں میںخود ساختہ تھانیداربنا بیٹھا ہے اور اپنے من پسند فریق بھارت کی جانب جھکا نظر آتا ہے۔ جب کہ اس وقت اقوام ِ متحدہ کا کردار صرف قراردادیں پاس کرنے یا اپیلیں کرنے تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔

دوسری طرف باقی 4 ویٹو ممالک کے ہونٹوں پر بھی مجرمانہ خاموشی طاری ہے ۔ ایسے میں دنیا میں امن اور انسانی برابری کیسے ممکن ہوسکتی ہے ۔اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ اقوام ِ متحدہ کا قیام و تشکیل امریکا کی دلچسپی اور کوششوں کی وجہ سے ممکن ہوئی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ اقوام ِ عالم کے اس عظیم اتحاد کو محض امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے مصرف میں لایا جائے بلکہ اس ادارے کی اہمیت و افادیت کا تقاضہ ہے کہ اِسے دنیا بھر کے ممالک و اقوام کے درمیان برابری ، سراسری اور بھائی چارے کی فضا کو پروان چڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے اور اگر کہیں کوئی تنازعہ پیدا ہو تو غیر جانبداری کو ہمیشہ مقدم رکھتے ہوئے اپنی بالا اور حتمی حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے پہل و جارحیت کے مرتکب ٹھہرنے والے ملک و قوم کو راہ راست پر لانے کے لیے اقدامات کرے اور اگر ضروری ہو تو کارروائی کرنے سے بھی دریغ نہ کرے ۔

حالانکہ اقوام ِ متحدہ کے 74ویں حالیہ اجلاس کے وقت دنیا میں کئی مسائل و تنازعوں پر بات چیت ہوئی ہے۔ امریکا -ایران اور سعودی -یمن تنازعے اور افغانستان و شام کی صورتحال کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر پھیلی دہشت گردی کی لہر بڑے مسائل و تنازعے ہیں جو زیر ِ بحث آئے ، لیکن اس وقت سب سے بڑی اہمیت کا حامل معاملہ کشمیر ہی رہا ۔اس لیے اقوام ِ متحدہ کو کشمیر کا معاملہ اولیتی بنیادوں پر حل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے کیونکہ دنیا میں پھیلی بدامنی کی ہوائیں ایشیا کے حالات سے اُٹھتی رہی ہیں، جوکہ عالمی قوتوں نے اپنے مفادات کی بناء پر برپا کیے ہیں ۔ کشمیر کو اس وقت لفظی ہمدردی جیسے احسان کی نہیں بلکہ عملی اقدامات سے حق کی یقینی فراہمی کی ہے ۔ موجودہ صورتحال میں اقوام ِ متحدہ ہی واحد طاقت ہے جو اس معاملے میںحقیقی غیرجانبدارانہ ثالثی کا کردار و حق رکھتاہے ۔

کشمیری عوام اور اُن کی نمایندہ جماعتوں کی اکثریت اپنے قومی وجود کی شناخت سے تقریباً پون صدی سے لڑنے مرنے کے بعد بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں ، جوکہ اُن کا فطرتی و انسانی حق ہے اور اُس کی توثیق اقوام ِ متحدہ کے قوانین بھی کرتے ہیں ۔ ایسے میں اقوام ِ متحدہ کی ذمے داری بنتی ہے کہ اس معاملے کو دو ملکوں کے رواجی تنازعے کے پس منظر میں دیکھنے کے بجائے اِسے کشمیری عوام کے حق ِ آزادی کے تناظر میں دیکھے اور اپنی قرار دادوں و چارٹر آف ڈیمانڈ اور اپنے مقصد ِ قیام کا بھرم رکھتے ہوئے مؤثر و ٹھوس اقدامات کی جانب پیش قدمی کرے ۔ یہ نہ صرف کشمیری عوام کے قومی وجود کا سوال ہے بلکہ خود اقوام ِ متحدہ کے وجود و دائرہ کار اور اختیار کی بقا کا بھی تقاضہ ہے ۔

The post کشمیر اور اقوام متحدہ کا کردار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2nCwbLi
via IFTTT

تعلیم کو تباہ ہونے سے بچائیے ایکسپریس اردو

کراچی انٹرمیڈیٹ بورڈ کا حالیہ رزلٹ کئی اعتبار سے حیران کن اور مایوس کن تھا۔ نتائج کے مطابق نجی و سرکاری کالجزکے 80 فیصد طلبا فیل قرار پائے جن میں اکثریت سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبا کی تھی نتائج کے مطابق 12 سرکاری کالجزکا نتیجہ صفر رہا جن کا کوئی بھی طالب علم پاس نہ ہوسکا۔ اس طرح کے مایوس کن نتائج اورکارکردگی طلبا ، والدین اور خود محکمہ تعلیم کے تعلیمی اقدامات پر سوالیہ نشان ہیں جب کہ وزیر اعلیٰ نے صوبہ بھر میں تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا ہوا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق سندھ میں گزشتہ 5 ماہ کے دوران 8 ہزار سے زائد سرکاری اسکول بند کر دیے گئے ہیں۔ خود سابقہ وزیر تعلیم کے اپنے حلقے میں 1215 اسکول بند کیے گئے ہیں۔ تھرپارکر جیسے پسماندہ علاقے میں جہاں تعلیم کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے 708 اسکولوں کو بند کردیا گیا ہے جب کہ بند کیے جانے والے اسکولوں کے عملے کو کروڑوں روپے ماہانہ تنخواہوں کی مد میں ادا کیے جا رہے ہیں۔

شرح خواندگی بڑھانے کی بجائے ہزاروں کی تعداد میں سرکاری اسکولوں کو بند کرکے شہریوں کو تعلیم کے حصول کے بنیادی حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا تعلیمی معیار جو پہلے ہی خراب تھا مزید تنزلی کی طرف گامزن ہے ، نجی سیکٹر میں تعلیم کا شعبہ خالصتاً کاروبار اور لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ بن چکا ہے۔ معیاری تعلیم کا حصول سرمایہ کاری سے مشروط ہوچکا ہے۔

دہرا نہیں بلکہ تہرا تعلیمی نظام قائم ہوچکا ہے جو والدین نامی گرامی اور مہنگے تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکتے ہیں نامی گرامی، مہنگے اور شہرت یافتہ ٹیوشنز سینٹرز اور نامور سبجیکٹ اسپشلسٹ اساتذہ سے ٹیوشن پڑھوانے پر لاکھوں روپے خرچ کرسکتے ہیں اور سیلف فنانس کے متحمل بھی ہوسکتے ہیں انھی کے بچوں کا تعلیمی مستقبل محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ تعلیم غریب و متوسط طبقے کی استطاعت سے باہر ہوچکی ہے عام طالبان کی غالب اکثریت اچھی قابلیت و صلاحیت رکھنے کے باوجود تعلیمی سرمایہ کاری کلچر کی وجہ سے اجتماعی استحصال اور ناانصافی کا شکار ہو رہی ہے۔

اساتذہ کے تقرر، تعیناتیوں، ترقیوں، تبادلوں اور تنخواہوں کی ادائیگیوں تک میں کھلے عام وسیع پیمانے پر کی جانے والی بد نظمی و بد عنوانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ تعلیمی امداد دینے والے یورپی یونین اور ورلڈ بینک جیسے عالمی ادارے ان پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں اور شفافیت یقینی نہ بنانے پر امداد روکنے کی وارننگ بھی دیتے رہے ہیں۔

سندھ میں اساتذہ اور عملہ سالہا سال سے عدم تحفظ و غیر یقینی صورتحال اور اقربا پروری اور ناانصافیوں پر سراپا احتجاج ہے، جس کی وجہ سے تعلیم دینے میں ان کی دلچسپی اور استعداد کار بھی متاثر ہوتی ہے کبھی احتجاج کرنے والے سینئر اساتذہ و پروفیسرز سڑکوں پر لاٹھیاں کھاتے اور واٹرکینن کے پانی میں نہاتے نظر آتے ہیں، آنسو گیس سے ان کی اشک شوئی کا اہتمام کیا جاتا ہے تو کبھی اسکول اساتذہ اور خصوصاً خواتین اساتذہ کے ساتھ بھی یہ عمل دہرایا جاتا ہے جن کی درگت دیکھ کر آس پاس کے لوگ مذمت کرتے نظر آتے ہیں کچھ ان نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اساتذہ کے ساتھ یہ سلوک اچھے معاشرے کے لیے کسی طرح قابل قبول نہیں ہے۔

آج کل سندھ بھر کے ہیڈ ماسٹر سراپا احتجاج ہیں جن کا کہنا ہے کہ ان کا تقرر آئی بی اے سے ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد عمل میں آیا تھا۔ انھیں 2 سال کنٹریکٹ پر خدمات دینے کے باوجود مستقل کرنے کے بجائے نوکریوں سے فارغ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔ جب کہ سندھ بھر میں اساتذہ کی 5 ہزار آسامیاں خالی ہیں انھیں بلاوجہ فارغ کیا جا رہا ہے جب کہ ان کا تقرر میرٹ پر ہوا تھا ان اساتذہ کا کہنا ہے کہ انھیں اچھی کارکردگی پر اعزازی سرٹیفکیٹ دیے گئے تھے۔

وزیر تعلیم اور سیکریٹری تعلیم کی جانب سے انھیں مستقل کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی مگر اب حکومت ان کی حق تلفی کرکے اپنے من پسند اور غیر تعلیم یافتہ ہیڈ ماسٹر لگوانا چاہتی ہے۔ پریس کلب پر مظاہرہ کرنے والے ان اساتذہ کا کہنا تھا کہ کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود حکومت کے کسی نمائندے نے ان سے رابطہ نہیں کیا جس کی وجہ سے انھوں نے احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب پیش قدمی کی تھی جس پر پولیس نے ان پر دھاوا بول دیا اور لاٹھی چارج، واٹر کینن اور شیلنگ کا استعمال کیا جس سے کئی اساتذہ زخمی و بے ہوش ہوگئے بہت سوں کو گرفتار کرلیا گیا۔

تعلیم کے معاملے میں وزارت تعلیم، محکمہ تعلیم اور بورڈ آفسز تک بدانتظامیوں اور بدعنوانیوں کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے ہر سطح پر خرابیوں کا اجتماع ہے اعلیٰ افسران کی تقرریوں، ترقیوں اور تبادلوں سے لے کر امتحانات تک مسلسل بدنظمی، بدانتظامی، بدعنوانیوں اور نااہلیت کے مظاہرے میڈیا کے ذریعے سامنے آتے رہتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق نقل مافیا ایک سیزن میں ایک ارب روپے کماتی ہے۔ دو سال قبل تو امتحانات میں انتہا کی بدنظمی اور بدعنوانی دیکھنے میں آئی تھی میڈیا میں ان کی تفصیلات آنے کے بعد اعلانات و بیانات کا سلسلہ شروع ہوا۔ خود وزیر اعلیٰ نے وزیر تعلیم اور محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران کے ہمراہ امتحانی مراکز کے طوفانی دورے کیے تھے جہاں روشنی نہیں تھی وزیر اعلیٰ نے اپنی جیب سے بلب لگوائے۔

امتحانی پرچوں کی چھپائی اور ترسیل کے کام کی نگرانی میں ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو بھی شامل کرلیا گیا تھا پرچے بھی ان کی نگرانی میں کھلوائے جاتے تھے۔ امتحانی امور میں معاونت اور نقل روکنے کے لیے کمشنر، ڈپٹی کمشنر، مختار کاروں اور پولیس کو بھی شریک کرلیا گیا تھا جس کے بعد یہ خبریں بھی آئیں کہ اختیارات کا غلط استعمال شروع کردیا گیا ہے۔ اس کی آڑ میں امتحانی مراکز کے آس پاس عام لوگوں کو حراست میں لے کر ان سے مال بٹورنے کی خبریں بھی آئیں۔

کیا اس قسم کے وقتی و نمائشی نوعیت کے اقدامات سے بد انتظامی، بد نظمی، بد عنوانی اور نقل کلچر کا خاتمہ ممکن ہے؟ ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ محکمہ تعلیم کے پاس کوئی واضح نصب العین ہے نہ ہی امتحانات کے سلسلے میں کوئی جامع پالیسی ہے بار بار وہی غلطیاں دہرائی جاتی ہیں ، اس وقت کے چیئرمین بورڈ نے الزام لگایا تھا کہ نقل مافیا انتظامیہ کو فیل کرکے اپنی مرضی کی انتظامیہ لانے کی کوششیں کر رہی ہے جس کے لیے منصوبہ بندی کی گئی ہے کہ سب سے پہلے ایڈمٹ کارڈ کی ترسیل کا مسئلہ پیدا کیا جائے اس کے بعد سی سی اوز کے ذریعے پرچہ شروع ہونے سے قبل آؤٹ کرائے جائیں، تیسرے مرحلے میں ایوارڈ لسٹوں میں رد و بدل کیا جائے اور ان تمام مرحلوں میں میڈیا کو بطور ہتھیار پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جائے۔ چیئرمین بورڈ کی جانب سے عائد کیے جانے والے سنگین الزامات کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات کراکے مستقبل میں ان کے تدارک کے اقدامات کیے جانے چاہیے تھے لیکن ایسا کچھ دیکھنے میں نہیں آیا۔

جب تک محکمہ تعلیم سے نا اہلوں اورکالی بھیڑوں کا صفایا کرکے تقرریوں، تعیناتیوں، ترقیوں، تبادلوں اور داخلوں میں اہلیت کو معیار نہیں بنایا جائے گا ، تعلیمی معیار روبہ زوال رہے گا، اہل طلبا کا اجتماعی استحصال ہوتا رہے گا جس کے طلبا اور ملک کے مستقبل پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ کاش ! ہمارے ارباب اختیار و اقتدار اپنی ذمے داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اس مسئلے کی سنگینی کو محسوس کریں۔

The post تعلیم کو تباہ ہونے سے بچائیے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2lZ1vDB
via IFTTT

مستقبل لکھا ہوا نہیں ہوتا ایکسپریس اردو

مستقبل لکھا ہوا نہیں ہوتا اور نہ ہی مستقبل کوئی ایسی چیزہوتا ہے جس میں آپ داخل ہوجائیں بلکہ مستقبل وہ چیز ہے جو ہم خود بناتے ہیں۔ ہمیں کبھی پیچھے کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ ہم اس راستے پر نہیں جا رہے ہیں ہرکامیاب آدمی کے پیچھے لا تعداد ناکامی کے سال ہوتے ہیں ہمارا بہترین استاد ہماری غلطیاں ہونی چاہییں۔

ماریا روبنسن نے ٹھیک کہا ہے کہ کوئی بھی ماضی میں جا کر نئی شروعات نہیں کرسکتا لیکن ہم آج نئی شروعات کرکے ایک نیا اور خوشگوار مستقبل بنا سکتے ہیں، یہ زندگی کا اصول ہے کہ آپ نے وقت کے ساتھ ساتھ سفرکرنا ہے، اگر آپ وقت کے ساتھ سفر نہیں کریں گے تو وقت آگے نکل جائے گا اور آپ پیچھے رہ جائیں گے۔

ڈیکارٹ نے کہا تھا ’’ میں سوچتا ہوں اس لیے میں موجود ہوں ‘‘ آئیں ! ہم بے باکی سے آتش نمرود میں کود پڑیں اور اپنے مسائل کا اسی طرح مطالعہ کریں کہ ہر جزکل میں سما جائے ہمارا علاج فکرونظرکے سوا کچھ نہیں ، انسانی کردار اورایمان میں کبھی بھی اتنی گہری اور خطرناک تبدیلیاں نہیں ہوئیں، جتنی آج کل ہو رہی ہیں، آج پھر سقراط کا زمانہ ہے۔ ہماری اخلاقی زندگی خطرے میں ہے، آج ہم انسانیت کے چیتھڑے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں آج ہم سے کسی میں یہ ہمت نہیں کہ زندگی کے سارے پہلوئوں کا جائزہ لے سکے۔

زندگی کے اس ڈرامے میں ہر شخص کو اپنا پارٹ تو یاد ہے لیکن وہ اس کے مطلب سے نابلد ہے زندگی بے معنیٰ ہو رہی ہے۔ کسی زمانے میں عظیم شخصیتیں سچائی کے لیے جان دینے کے لیے تیار رہتی تھیں۔ سقراط نے اس کے لیے دشمنوں سے بھاگنے کے بجائے جام شہادت پینا منظورکیا۔ افلاطون نے اس کے لیے ایک ریاست قائم کرنے کی خاطر دو مرتبہ اپنی جان خطر ے میں ڈالی ۔

مارکس اور پلیٹس کو تخت وتاج سے زیادہ اس سے محبت تھی۔ برونو اس کا وفادار ہونے کے جرم میں آگ میں جلا دیاگیا کسی زمانے میں کلیسیا اور حکومتیں اس سے کانپتی تھیں اور اس کے نام لیوائوں کو اس لیے قید و بند میں ڈال دیتی تھیں کہ ان کی وجہ سے حکومتوں کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہوتا تھا۔

دوسری طرف ہم ہمیشہ بہرے بنے رہے، ہمارے سامنے سچ بار بار آکے چلاتا رہا ، دہائیاں دیتا رہا، لیکن ہم میں کبھی اسے سننے کی ہمت اورجرأت نہ ہوسکی جب بھی وہ ہمارے سامنے آتا ہم اس سے خوفزدہ ہوکے اس سے ڈرکر بھاگ کر چھپ جاتے لیکن ہماری تمام تر بزدلی اور ڈروخوف کے باوجود ہم سچ سے نہ چھپ سکے۔ آج سچ پوری قوت اور طاقت کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑا ہے، اب ہمارے پاس نہ بھاگنے کی کوئی جگہ باقی بچی ہے اور نہ چھپنے کی۔

آج سچ چیخ رہا ہے کہ ہم نے اپنے لوگوں کا کیا سے کیا حال کر دیا اپنے ملک کو تباہی اور دیوالیے کے دہانے پر لاکھڑا کر دیا ہے۔ آج پورے ملک میں خاک اڑتی پھر رہی ہے ۔ بربادی و حشیانہ رقص میں محو ہے موت دیوانہ وار قہقہے لگا رہی ہے۔ آج ہمارا ملک ایسا ملک بن گیا جہاں سیاست دان جمہوریت کے نام پر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں جہاں علماء مذہب کے نام پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے میں مصروف ہیں جہاں بزنس مین اپنے منافع کی خاطر لوگوں کو زندہ درگورکر نے تلا بیٹھا ہے۔

جہاں جاگیردار ذراسی بات پہ اپنی تسکین کی خاطر اور دھاک بٹھانے کے لیے بے کس و بے بس کسانوں کی بیٹیوں کی عزت تار تارکردیتے ہیں جہاں ڈاکٹرکو مریض کی زندگی بچانے کے بجائے اپنی فیس کی زیادہ فکر ہوتی ہے جہاں شرافت، تعلیم ، تہذیب وتمد ن ، اخلاص ، خلوص محبت کوکوئی ٹین ڈبے والا بھی نہیں خریدتا۔ جہاں رشتوں کے لیے لڑکیوں کا معائنہ بھیڑ بکریوں کی طرح ہوتا ہے جہاں ہر جائزکام، ناجائز طریقے سے انجام پاتا ہے اور ناجائزکام جائز طریقے سے ہوتا ہے۔

جہاں تھانے ، نوکریاں، ٹھیکے سر عام بکتے ہیں جہاں کفن تابوتوں، رشوت ،کمیشن کا کاروبار دن رات ترقی کرتا جا رہا ہے۔ جہاں مزدوروں کا دن رات خو ن پیا جا رہاہے۔ جہاں ہر دو نمبرکام عروج پر ہے، جہاں عقل سے پیدل تہذیب و تمد ن سے عارج سمجھ و دانش سے محروم نرے جاہل عقل مندوں ، تعلیم یافتہ ، دانش مندوں کی زندگیوں کے فیصلے کرتے پھرتے ہیں۔

جہاں ابن الوقتوں، مفاد پرستوں ، لٹیروں کی چاندی ہی چاندی ہے جہاں عوام کے ٹیکسوں پر چند ہزار لوگ عیش وعشرت میں غرق ہیںجہاں ٹیکس دینے والوں کے گھروں میں ماتم برپا ہے، وہیں اس ٹیکس کے روپوں سے چند لوگ عیاشیوں میں مصروف ہیں وہ یا ان کے پیارے بیمار پڑیں تو وہ اپنا علاج خیراتی اسپتال میں کروانے پر مجبور ہیں جہاں وہ بغیر دوائی یا دو نمبر دوائی کی وجہ سے سسک سسک کرجان دینے پر مجبور ہیںجب کہ وہ لوگ جو ان ٹیکسوں کی وجہ سے زندہ ہیں وہ بیمار ہوں تو اپنا علاج بیرون ملک کرواتے ہیں۔

ٹیکس دینے والوں کے بچے پیلے اسکول سے پڑھیں اور ان لٹیروں کے بچے عالیشان ، ایئرکنڈیشنر انگلش اسکولوں سے تعلیم حاصل کریں ، ٹیکس دینے والوں کے بچوں کے لیے مالی اور چپڑاسی کی نوکری نصیب بناد ی گئی ہے اور تمام اعلیٰ اور منافع بخش نوکریاں وہ اپنے پیاروں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔

برسہا برس سے سنتے آرہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گذر رہا ہے، عوام قربانیوں کے لیے تیار ہوجائیں ۔ بجلی، پٹرول ،گھی ، آٹا ، گیس، چاول ، چینی میں اضافہ کرنا نا گزیر ہوگیا ہے، ساری کی ساری قربانیاں عام لوگ دیں اور عوام کے ٹیکسوں پر یہ زندہ صرف عیاشیاں ہی عیاشیاں کرتے رہیں۔آپ ایک چھوٹا سا تجربہ کرکے دیکھ لیں آپ کسی ارکان پارلیمنٹ ، بیوروکریٹس، جاگیردار، سرمایہ دارکے بچوں کی شادی یا موت میت میں جا کر معائنہ کرلیں آپ ان کی شان وشو کت، ان کے کھانے،ان کے لباس ہیرے جواہرات دیکھ کر اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھیں گے۔

کیا یہ ملک اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ عوام قربانیاں دیتے رہیں، فاقے کرتے رہیں، خود کشیاں کرتے رہیں۔ ماتم کرتے رہیں اور ان کے پیسوں پر چند ہزار لوگ عیاشیوں میں غرق رہیں۔ حضرت علی ؓ کا قول ہے ’’کفرکا معاشرہ قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم کا نہیں‘‘ اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ ظلم کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ یہ طے ہے کہ اب انجام دور نہیں۔

The post مستقبل لکھا ہوا نہیں ہوتا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2lZ1zDl
via IFTTT

بھارت کا مقابلہ کریں ایکسپریس اردو

پرانے زمانے کے اندر جب مختلف ممالک ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ء ہو تے تھے تو ان ممالک کو جیت نصیب ہوتی تھی جن کے پاس بہترین لشکر اور جنگی سامان ہوا کرتا تھا ۔فوج کی تعداد بھی ایک اہم عنصر تھی ۔پھر اس کے ساتھ وقت گزرتا گیا ۔اور پھر ان ممالک کو دوسرے ممالک پر فوقیت حاصل ہوئی جن کے پاس جدید ٹیکنالوجی اور جدید جنگی اسلحہ موجود تھا۔

یہی وجہ ہوئی کہ دوسری جنگ عظیم میں ایٹمی طاقت ہونے کا امریکا نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور دو ایٹم بم جاپان پر برسا کر اسے شکست کھانے پر مجبور کر دیا ۔پھر ایک وقت آیا کہ تمام بڑی طاقتوں کے پاس ایٹمی ہتھیار آگئے ۔اس کے بعد مقابلہ کا میدان اسلحہ کی بجائے معیشت بن گیا ۔یہ وہی دور تھا جب امریکا اور روس کے درمیان سردجنگ  عروج پر تھی۔ اس معیشت کی جنگ کے اندر امریکا کے ہاتھوں روس کو شکست ہوئی اور روس ٹوٹ پھوٹ کر بکھر گیا۔

یہ وہ حقائق ہیں جو کہ باآسانی ہر ملک میں تاریخ کے تناظر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔لیکن بہت سارے ایسے ممالک آج بھی موجود ہیں جو کہ ان حقائق سے دور کسی خیالی دنیا میں رہ رہے ہیں۔وہ آج بھی اپنے جنگی سازوسامان کو جدید سے جدید کیے جا رہے ہیں۔امریکا اور اس جیسی مضبوط طاقتیں جن کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں وہ اپنا اسلحہ اور فوج پر خرچ اس وجہ سے کرتی ہیںتا کہ اس کے ذریعے وہ ان ممالک پر تسلط حاصل کرسکیں جن کے پاس ایٹمی طاقت یا اس قسم کے مہلک ہتھیار نہیں ہیں ۔لیکن جب بات دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان آ جائے تو مقابلہ اسلحہ اور فوج کی بجائے معیشت اور معیشت سے جڑے اثرورسوخ تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔

اس وقت اگر ہم بھارت اور پاکستان کی معیشت کا موازنہ کریں تو بھارت کی معیشت پاکستان کی نسبت کئی گنا زیادہ مضبوط ہے۔ ساتھ میں تجارت میں بھی بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ بھارت کے دوسرے ملکوں کے ساتھ گہرے تجارتی تعلقات موجود ہیں ۔یہی بات ہے کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نسبت بھارت کی آواز بہتر طریقے سے سنی جاتی ہے اور پاکستان کے جائز مطالبات پر بھی کان نہیں دھرا جاتا۔

یہ بات صرف یہاں تک محدود نہیں مگر دنیا میں ہر جگہ پر مالدار ممالک کا اثرورسوخ زیادہ ہو تا ہے ۔مثال کے طور پر یورپی یونین کے اندرکافی ممالک مالدار ہیں ۔لیکن ان میں بھی سب سے زیادہ معاشی طور پر جرمنی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یورپ کے اندر سب سے زیادہ مضبوط آواز جرمنی کی سنی جاتی ہے ۔آج کے زمانے کے اندر امریکا کا تسلط یا اثر ورسوخ صرف اس کے اسلحہ اور فوج کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی معاشی طاقت ہونے کی وجہ سے ہے۔

آج بھی دنیا کے اندر زیادہ تر سودے ڈالر میں کیے جاتے ہیں اور جتنی تجارت معیشت امریکا کی موجو د ہے شاید ہی کسی دوسرے ملک کی ہو ۔بھارت اور پاکستان ایک ساتھ آزاد ہوئے لیکن معاشی طور پر بھارت آگے کیسے نکل گیا؟ یہ بھی سوچنے کی غور طلب بات ہے۔اگر ہم نے کسی سے دشمنی نبھانی ہے تو اس دشمن کو پوری طرح سمجھنا ضروری ہے اور اس میں بھی کوئی عارنہیں کہ آپ اپنے مخالف کی اچھی باتوں سے سبق سیکھ کر خود کو مضبوط کریں ۔

چند سال پہلے مجھے بھارت جانے کا موقع ملا تو وہاں پر بہت سارے شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے انٹرویوکیا تو معلوم ہوا کہ وہاں پر نریندر مودی کافی مقبول ہیں ۔اور اس کی بنیادی وجہ بقو ل بھارتی شہریوں کے جو اس کی معیشت کو مضبوط کرنے کے اقدامات تھے ۔اس کی اس مثبت پالیسی کی وجہ سے بھارتی شہریوں نے اس کی بہت ساری برائیوں اور کوتاہیوں کو نظر انداز کر دیا ۔

یہی وجہ تھی کہ وہ نریندر مودی دوسری بار بہت زیادہ اکثریت کے ساتھ الیکشن جیت کر دوبارہ بھارت کا وزیر اعظم بن گیا۔اور اس نے اس طاقت کو جس طر ح سے استعمال کیا یہ سب کے علم میں ہے ۔دوسری طرف پاکستان کے اندر دیکھا جائے تو ہماری جمہوری حکومتوںکو گرانے کے لیے اسلامی جمہوری اتحاد جیسے اقدامات کا حصہ ہیں ۔جو اصغر خان کیس میں واضح ہیں ۔ہماری اس جمہوری حکومتوں کو طالع آزمائوں نے روند دیا اور جمہوری روایت کا تسلسل کبھی قائم نہ رہ سکا۔

The post بھارت کا مقابلہ کریں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2mwPupr
via IFTTT

عمران خان کا جنرل اسمبلی میں تاریخی خطاب ایکسپریس اردو

وزیر اعظم عمران خان نے جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس میں تاریخی خطاب کیا۔ انھوں نے پاکستان ، مسلم امہ سمیت دنیا بھر کے جمہوریت پسندوں اور انسان دوستوں کے جذبات اور امنگوں کی فاتحانہ ترجمانی کی، بھارت کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا اور کشمریوں کے حق خودارادیت اور ان کے خلاف مودی کی بربریت کا کچھا چٹھا کھول کر رکھ دیا۔

سفارتی ذرائع اور سیاسی مبصرین کاکہنا ہے کہ انھوں نے گزشتہ کئی برسوں میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میںپہلی بار کسی وزیراعظم کی مدلل ،سنجیدہ اور ٹو دی پوائنٹ تقریر سنی جو انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تاریخی خطاب نے کشمیریوں کے مستقبل کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے کے قریب کردیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے نسل پرستانہ، متکبرانہ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات کی وجہ سے دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہیں، ہم جنگ کے حامی نہیں لیکن جنگ چھڑی تولاالہ الا اللہ پر یقین رکھتے ہیں، آخری وقت تک لڑینگے،دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ کے اثرات نہ صرف خطہ بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ 80لاکھ کشمیری 55 دنوں سے محصور، انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی رابطے معطل ہیں،اگر خونریزی ہوئی تو اسلام پسندی نہیں، انصاف نہ ملنے کی وجہ سے ہوگی۔ گزشتہ 30 سال میں ایک لاکھ کشمیری حق خود ارادیت کی جدوجہد میں شہید ہو چکے ہیں۔ دنیا کشمیری بچوں، عورتوں اور افراد کو محصور کرنے اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف آواز کیوں بلند نہیں کر رہی؟ دنیا کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ کشمیر میں انصاف یا سوا ارب لوگوں کی مارکیٹ کو دیکھیں گے ؟یہ سوال ہنڈریڈ ملین ڈالر کا ہے، اور عالمی برادری کی ساکھ اور اس کے منصب کے حوالہ سے اہم تریں سوال ہے۔ عالمی سفارت کاری کے لیے اس سوال سے بچنا محال ہے۔ اسے کشمیر کا مسئلہ حل کرناہوگا۔ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹرفیصل نے کہا کہ عمران خان نے مسلم امہ کی حقیقی ترجمانی کی،ان کی تقریر یاد رکھی جائے گی۔

جمعہ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے مزید کہا کہ کرفیو کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام اور بھارتی سیکیورٹی فورسز کے مابین خونیں تصادم کا خطرہ ہے۔ بھارت کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنا ہو گی، کرفیو اٹھانا ہوگا اور اقوام متحدہ کو اپنی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو ان کا حق خود ارادیت دلانا ہوگا، اگر ہمارے اوپر جارحیت مسلط ہوئی تو دنیا کو سمجھنا چاہیے کہ اس دوران کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر واضح کیا کہ ہم کشمیریوں کی حق آزادی اور خود مختاری کے لیے آخری سانس تک لڑیں گے۔ انھوں نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی آر ایس ایس کے رکن ہیں جو کہ ہٹلر اور مسولینی کے نظریئے پر چلتی ہے، یہ نظریہ مسلمانوں اور عیسائیوں سے نفرت انگیز برتاؤ کرتا ہے ۔ نفرت پر مبنی اسی بیانیہ نے مہاتما گاندھی کی بھی جان لی، مودی نے آر ایس ایس کو گجرات میں تین دن مسلمانوں کے قتل عام کی اجازت دیے رکھی تھی، اس وقت وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے، اس واقعہ کے باعث ان پر امریکا آنے پر بھی پابندی لگی۔ اب مقبوضہ کشمیر میں بیمار برزگوں، بچوں اور خواتین کو جانوروں کی طرح قید میں رکھا گیا ہے۔

دنیا سوچے کہ کشمیر میں خونریزی کا کشمیری باشندوں پر کیا اثر ہوگا؟ جب وہاں کرفیو ختم ہوگا تو کیا صورتحال ہوگی؟ کیا بھارت میں موجود کروڑوں مسلمان یہ سب کچھ نہیں دیکھ رہے؟ 80 لاکھ مسلمان 5 اگست سے اب تک وہاں کیسے جی رہے ہیں؟ دنیا اس معاملے پر کیوں خاموش ہے؟ اگر اسی لاکھ یہودی اس طرح اتنے دنوں سے محصور ہوتے تو کیا ہوتا؟ عمران خان نے اقوام متحدہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت عملی اقدام اٹھانے اور اقوام متحدہ کی آزمائش کا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سب سے پہلے بھارت فوری طور پر کشمیر میں گزشتہ 55 روز سے نافذ کرفیو ختم کرے۔13 ہزار کشمیریوں کو رہا کرے، اقوام متحدہ اور عالمی برادری کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دلائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم اپنے پڑوسیوں سے سفارتی و تجارتی سطح پر اچھے تعلقات چاہتے ہیں لیکن بھارت بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے۔ بھارت پاکستان کوایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں شامل کرنے کی سازش کررہا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ پاکستان نے 1989ء میں سویت وار اور نائن الیون کے بعد امریکا کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شمولیت اختیار کی حالانکہ نائن الیون میں کوئی پاکستانی شامل نہیں تھا۔ ہمارے 70 ہزار فوجی اور شہری اس جنگ میں شہید ہوئے۔ انھوں نے کہا میں نے نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت کی تھی۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ اس دنیا میں کوئی ریڈیکل اسلام نہیں، صرف ایک اسلام ہے جو ہمارے نبی ﷺ لے کر آئے،دہشتگردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، مغربی رہنماؤں کی متضاد باتوں سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مغرب میں پیغمبر اسلام ﷺ کی شان میں گستاخیوں کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں ۔اسلامو فوبیا کا تصور مغرب کا اپنا پیدا کرتا ہے، پوری دنیا کے مسلمانوں کو کیسے انتہا پسند اور دہشت گرد کہا اور سمجھا جا سکتا ہے۔نائن الیون کے بعد دنیا میں اسلامو فوبیا بہت تیزی سے پھیلایا گیا، اس سے تفریق پیدا ہوئی۔

مغرب کو سمجھنا چاہیے کہ نبی کریم ﷺ کی توہین کی کوشش مسلمانوں کے لیے بہت بڑا معاملہ ہے جس طرح ہولوکاسٹ کے بارے میں کہا جاتا ہے تو یہودیوں کو برا لگتا ہے یہ آزادی اظہار رائے نہیں دل آزاری ہے۔

انھوں نے کہا کہ سوویت یونین کے خلاف افغان جنگ میں امریکی اور مغربی ممالک نے فنڈنگ کی اور پاکستان نے تربیت دی جس کے بعد افغانستان کے لوگوں نے سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی اور اسے جہاد کا نام دیا گیا۔ جب سوویت یونین کے افغانستان سے جانے اور نائن الیون کے بعد افغانستان پر امریکی قبضے کے خلاف افغانوں نے جنگ لڑی تو اسے دہشتگردی کا نام دیا گیا۔نائن الیون سے قبل زیادہ خودکش حملے تامل ٹائیگرز نے کیے جو ہندو تھے لیکن کسی نے ہندوئوں کو انتہاء پسند نہیں کہا، اسی طرح جاپانی پائلٹوں نے بھی دوسری جنگ عظیم میں خودکش حملے کیے۔

وزیراعظم عمران خان نے منی لانڈرنگ کے ذریعے غریب ملکوں سے کرپشن کی رقم امیر ملکوں میں منتقل کرنے کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ ترقی پذیر ممالک سے حکمرانوں ‘ طاقتور طبقے اور اشرافیہ کی کرپشن کی رقوم ترقی یافتہ ملکوں میں منتقل کی جاتی ہے وہ وہاں مہنگی جائیدادیں خریدتے ہیں اور بینک اکائونٹس میں پیسے رکھتے ہیں ، اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے ان ممالک کو یہ رقوم واپس کرنا ہوں گی جہاں سے یہ لوٹی گئیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کا ذکرکرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کا ماحولیاتی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں میں حصہ انتہائی کم ہے لیکن وہ اس کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہیں ۔پاکستان ان 10 ممالک میں شامل ہے جنھیں سب سے زیادہ نقصان کا سامنا ہے۔ ہمارا زرعی ملک ہے اور اس کا زیادہ انحصار دریائوں پر ہے جن میں 80 فیصد پانی گلیشیئرز سے آتا ہے، یہ تیزی سے پگھل رہے ہیں، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو بڑی آفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبہ خیبرپختونخوا میں ایک ارب درخت لگائے، اب ہمارا ہدف پورے ملک میں 10 ارب درخت لگانے کا ہے۔

وزیراعظم نے اپنے فی البدیہہ خطاب میں جو کچھ کہا وہ ان کے اور عالم اسلام کے دل آواز تھی۔مایوسی میں ڈوبے بھارتی مندوبین اب اس بات پر لڑ رہے ہیں کہ عمران کو پندرہ منٹ کے بجائے 45 منٹ کیوں ملے؟ ادھر اہل کشمیر کے لیے عمران کا خطاب بہار کا ایک جھونکا اور امید کی کرن ثابت ہوگا۔ انشااللہ۔

 

The post عمران خان کا جنرل اسمبلی میں تاریخی خطاب appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2lVNHK2
via IFTTT

نائیجیریا کے اقامتی اسکول میں بچوں پر ظالمانہ تشدد ایکسپریس اردو

نائیجیریا کے شمالی شہر کڈونا میں پولیس نے تین سو سے زیادہ طالب علم بچوں کو بچا لیا ہے جنھیں ایک اقامتی مدرسے میں زنجیروں سے جکڑ کر رکھا گیا تھا ۔اطلاعات کے مطابق ان بچوں پر  تشدد اور زیادتی کا شکار بنایا جاتا تھا۔

حکام نے اپنے ذرائع سے اطلاع  ملنے پر ریگاسا کے علاقے کی ایک عمارت پر چھاپہ مارا جہاں بچوں کے ساتھ بڑے عمر کے طلبہ کو بھی انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں قید میں رکھا گیا تھا اور انھیں غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ اور یہ انسانیت سوز سلوک ان کو تعلیم دینے اور تہذیب سکھانے کے نام پر کیا جاتا تھا۔

کڈونا ریاست کی پولیس چیف کے ترجمان یعقوبو صابو  کے حوالے سے خبر دی گئی ہے کہ  مذکورہ عمارت پر چھاپے کے دوران  ایک سو سے زیادہ بچے بازیاب کرائے گئے  جن میں بعض بچوں کی عمر 9 سال سے بھی کم تھی۔ ان سب کو زنجیروں سے باندھ کر رکھا گیا تھا اور یہ سب ایک چھوٹے سے کمرے میں ٹھونس دیے گئے تھے اور ان کے ساتھ یہ بیہمانہ سلوک ان کی اصلاح کے نام پر کیا جا رہا تھا ۔

یہ اسکول دس سال سے قائم تھا جس میں والدین خود اپنے بچوں کو داخل کرانے لائے تھے۔ بعض بچوں کو منشیات کی لت سے بچانے کے لیے بھی یہاں لایا جاتا تھا۔ پولیس نے وہاں چھاپہ مار کر بچوں کے ساتھ جو سلوک دیکھا اس کے پیش نظر اسکول کے پروپرائٹر کے ساتھ اس کے اسٹاف کے چھ ارکان کو بھی حراست میں لے لیا۔ نام نہاد اسٹاف کے ارکان اپنے طور پر بھی مظلوم بچوں کو سب و شتم کا نشانہ بناتے تھے۔

کئی بچوں کی حالت رہائی کے موقع پر نارمل نہیں تھی۔ بچوں کے جسم پر جگہ جگہ تشدد کے نشانات بھی تھے۔  پولیس کو اس علاقے کے رہائشیوں نے اس اسکول کے بارے میں مشتبہ سرگرمیوں کی اطلاع دی تھی۔ پولیس نے اس اسکول پر چھاپے کے دوران ایک ایسا کمرہ بھی دیکھا جو عقوبت خانے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا جس میں بچوں کو اذیت دینے کے مختلف طریقے استعمال کیے جاتے تھے اور کئی ایک کو چھت کے ساتھ الٹا لٹکا دیا جاتا تھا اور پھر مارا جاتا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ اس ادارے میں مذہب کے نام پر بھی بچوں کا استحصال کیا جاتا تھا۔ بچوں کے والدین کو تین مہینوں میں ایک مرتبہ اپنے بچوں کو ملنے کے لیے آنے کی اجازت دی جاتی تھی مگر انھیں اسکول کے محض خاص خاص حصوں میں جانے کی اجازت دی جاتی تھی۔

تعلیم خصوصاً دینی تعلیم کے نام پر قائم نام نہاد اسکول اور مدرسے دنیا کے ہر کونے میں پائے جاتے ہیں۔پاکستان میں بھی اسکولوں میں بعض ناخوشگوار واقعات ہوئے ہیں۔اس معاملے میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کو اپنا کردار فعال بنانا چاہیے تاکہ بچوں کے ساتھ بڑھتی ہوئے تشدد اور زیادتی کو روکا جاسکے۔

The post نائیجیریا کے اقامتی اسکول میں بچوں پر ظالمانہ تشدد appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2obmHXH
via IFTTT

نوجوان کو پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی انسانیت سوز واقعہ معمولی سے بات پر پیش آیا،جلنے والا نوجوان اسپتال میں دم توڑ گیا

9 سالہ معذور بچی نے ریمپ پر واک کر کے سب کو حیران کردیا مصنوعی پاؤں کے ساتھ واک کرتی ماڈل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل

برطانیہ میں پاکستانیوں کے لیے ملازمتوں کا در کھلنے کو ہے جیسے ہی برطانیہ بریگزٹ سے نکلاتو پاکستان اپنی افرادی قوت وہاں بھیج سکتا ہے

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے خلاف پولیس نے تحقیقات شروع کر دیں بورس نے ایک خاتون کے ساتھ تعلقات رکھے اور 26 لاکھ یورو کا فائدہ پہنچایا

بھارتیوں نے ٹوئٹر ہائی جیک کر لیا پاکستانیوں کے اکاؤنٹ معطل کیے جانے لگے

غریب ملک کے صدر کی جنرل اسمبلی کے ڈائس پر لی گئی سیلفی سوشل میڈیا پر وائرل جہاں دہشت گردی،منی لانڈرنگ اور ماحولیات پر گفتگو کی جا رہی تھی وہاں سیلفی لینا بھی اہم تھا

پاکستان نے کامیابی کے ساتھ دنیا کو پیغام دیا ہے اور ان پر زور دیا ہے کہ بھارتی افواج 80 لاکھ کشمیری عوام پر محاصرے کا نوٹس لیںِِ، وہ اللہ تعالیٰ کے شکرگزار ہیں جس نے مجھے ... مزید

آرٹیکل) پاکستانی قوم اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھے گی جب تک کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت نہیں دیا جاتا ، چاہئے اس کیلئے ہمیں جو بھی قیمت چکانی پڑے، وزیر اعظم عمران خان ... مزید

وزیر اعظم عمران خان پاکستان واپسی کے لئے ہفتہ کی دوپہرکمرشل پرواز کے ذریعے ریاض کے لئے روانہ ہو گئے

ْورلڈ بنک نے پاکستان کو عالمی اصلاحات کرنے والے صف اول کے 20 ممالک کی فہرست میںشامل کردیا

ڈپٹی کمشنر اصغر جوئیہ کی چوہدری عامر صدیق کے ہمراہ مصری شاہ لوہا مارکیٹ میں ڈینگی آگاہی مہم تاجروں میں مربوط انداز میں ڈینگی کی حفاظتی تدابیر کو اختیار کرنے کیلئے آگاہی ... مزید

پنجاب میں 15اکنامک سٹی بنائے جائیں گے جہاں کاروبار کی تمام سہولیات میسر ہوں گی، مشیر وزیر اعلی پنجاب ڈاکٹر سلمان شاہ کی اکنامک جرنلسٹ ایسوسی ایشن کے نمائندوں سے ملاقات ... مزید

پاکستان کا سب سے بڑا اور سٹیٹ آف دی آرٹ ایکسپور سنٹر قائم کیا جائیگا، مفاہمتی یاداشت پر دستخط

مقامی پرائیویٹ سکول کے طلباء و طالبات کا ایوان قائد اعظم اور نظریہ پاکستان کا مطالعاتی دورہ

قائداعظمؒ اصول پسند انسان تھے اور برصغیر پاک وہند میں ان جیسا کوئی اور لیڈر پیدا نہیں ہوا۔پاکستان اور قائداعظمؒ کیخلاف کوئی بات برداشت نہ کریں ۔پروفیسر احمد سعید

کمشنر لاہور ڈویژن کاایم ڈی واسا اور چیئرمین ایل ڈبلیو ایم سی کے ہمراہ شہر کا دورہ ، نکاسی آب کی خود نگرانی کی

Friday, September 27, 2019

وزیراعظم عمران خان کی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گتریز سے ملاقات عالمی ادارہ دیرینہ تنازعہ جموں و کشمیر کے حل میں مدد اور انسانی جانیں بچانے کیلئے فوری اقدامات ... مزید

پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کو باقاعدہ محکمے کا درجہ دیا جائے گا۔وزیر خزانہ پنجاب

پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے اکاونٹس فیفا کی پانچ رکنی نارملائزیشن کمیٹی کے حوالے کردئیے گئے

گور نر نے پنجاب یونیورسٹی میں طلباء تنظیموںا ور سکیورٹی اہلکاروںمیں تصادم کی رپورٹ طلب کر لی

گور نر پنجاب سے سویٹزرلینڈ کے سفیر تھامس کولی کی ملاقات دنیا کاکشمیر یوں پر بھارتی مظالم کا نوٹس نہ لینا بھی ظلم ہے، چوہدری سرور کی وفود سے گفتگو

وزیر اعظم عمران خان وطن واپسی کے لیے ہوٹل سے ایئرپورٹ روانہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے بعد وزیر اعظم عمران خان آج ہی امریکہ سے پاکستان روانہ ہوں گے

بلوچستان میں ٹی بی کنٹرول پروگرام نے بیماری کے تشخیصی اسکریننگ کیمپس کے انعقاد کا سلسلہ تیز کر دیا گیا

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کا وزیراعظم عمران خان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کا خیر مقدم

ڈپٹی کمشنر کوہلو کی سربراہی میں ضلعی انتظامیہ ،نجی سکول کے طالب علموں، سول سوسائٹی کی کشمیریوں سے اظہار یکجہتی اور کشمیر میں بھارتی بربریت کیخلاف ریلی

کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے ڈپٹی کمشنر نصیرآباد ظفر علی ایم شہی کی قیادت میں عظیم الشان ریلی کا انعقاد

موجودہ حکومت کھیلوں کے فروغ کے لیے تمام وسائل بروئے کارلارہی ہے ،صوبائی مشیر ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن ملک نعیم خان بازئی

بھارت کا رویہ کشمیر میں وحشت ناک ہے، بھارت بزور بازو کشمیر لینے کی کوشش کررہاہے، کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اور کشمیر بنے گا پاکستان،مقررین

بلوچستان ریذیڈینشل کالج خضدارمیں وائس پرنسپل ڈاکٹر اعجاز احمد مہر کی قیادت میں کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے طورپر ریلی اور مظاہرہ

بھارت کے غرور کو خاک میں ملانے کے لئے پاکستان کے پاس قوتِ ایمانی موجود ہے،کشمیریوں سے یکجہتی کے طور پرسیاسی وسماجی تنظیموں، طلباء و طالبات کا اظہار خیال

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاسوں کے شیڈول کا اعلان کردیا گیا

ڈپٹی کمشنرلورالائی کی خصوصی ہدایت پر اسسٹنٹ کمشنرکالورالائی بازار میں تجاوزات اور نو پارکنگ پر گاڑیوں کے خلاف آپریشن

کمشنرژوب ڈویژن سہیل الرحمن بلوچ تحصیل درگ میںسردار مشتاق جعفر کی رہائش گاہ میں کھلی کچری منعقد

کمشنر قلات ڈویژ ن حافظ طاہر کا دورہ ضلع آواران، ڈپٹی کمشنر آوارن و دیگرمتعلقہ آفیسران کے ہمراہ مختلف ترقیاتی منصوبوں کا معائنہ

کمانڈنٹ سبی سکاؤٹس کرنل چوہدری وقار احمد کے اعزاز میں پروقار الوداعی تقریب کا انعقاد

کوئٹہ، آر ٹی اے عملہ اور ٹرانسپورٹرز نے مشترکہ طور پر خصوصی مہم کے تحت پبلک اور لوکل گاڑیوں پر معصوم کشمیری بچوں پر مظالم کے خلاف پوسٹرز اور پینافلکس آویزاں کئے

بلوچستان میں سیاحت کے فروغ کے لیے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے صوبے کا بہتر امیج دنیا تک پہنچائیں گے، ترجمان لیاقت شاہوانی

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے خطاب کے دوران اقوام متحدہ کی عمارت کے باہر کفن پوش احتجاجی مظاہرہ مظاہرین کی کشمیریوں کے حق اور مودی کیخلاف زبردست نعرے بازی

وزیراعظم عمران خان کا مقبوضہ کشمیر میں صورتحال معمول پر نہ آنے کی صورت میں اقوام عالم کو انتباہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ ہونے کی صورت میںاس کے اثرات نہ ... مزید

Thursday, September 26, 2019

ہیں تلخ بہت۔۔۔۔؟ ایکسپریس اردو

دنیا میں ہر بڑے پیشے میں کام کرنے والے مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ٹریڈ یونینز بنی ہوتی ہیں۔ پاکستان اس حوالے سے اس قدر پسماندگی میں گرا ہوا ملک ہے کہ یہاں پاکٹ یونینز تو ہر جگہ ہیں لیکن نمایندہ ٹریڈ یونین کا دور دور تک پتہ نہیں۔ پاکستان میں ٹریڈ یونین کی تاریخ بڑی دلچسپ تاریخ ہے۔

پاکستان میں 1973 تک کسی نہ کسی طرح ٹریڈ یونین کا نام زندہ تھا لیکن یہ ایک دلچسپ المیہ ہے کہ مزدورکسان راج کے حامیوں کے دور میں پاکستان میں ٹریڈ یونینز کا ایسا خاتمہ ہوا کہ آج تک ٹریڈ یونینز زندہ نہیں ہو سکیں۔ ایوب خان کے دور میں مزدوروں پر جو مظالم ہوئے وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان مظالم کی وجہ یہ تھی کہ امریکا نے پاکستان میں سوشل ازم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوفزدہ ہو کر  پاکستان کو بھاری مالی امداد دینا شروع کی لیکن امریکا کی شرط یہ تھی کہ ٹریڈ یونین کو ختم کر کے مزدور طبقے کو سختی سے کنٹرول کیا جائے۔

ایوب خان نے امریکا کے اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مزدوروں پر ایسے ستم ڈھائے کہ کارخانوں میں نجی جیلیں بنائیں جہاں مزدوروں کو سزائیں دے کر رکھا جاتا تھا۔ ٹریڈ یونین کا نام لینا جرم تھا۔ مزدور لاوارث تھے لیکن ایسے کٹھن وقت میں بھی کچھ مزدور تنظیمیں اور رہنما فعال تھے ان میں متحدہ مزدور فیڈریشن سمیت دیگر تنظیمیں قابل ذکر ہیں ۔ ایوبی آمریت کے خلاف یہ مزدور تنظیمیں سرگرم تھیں اور مزدوروں کو منظم کرنے میں مصروف تھیں، مشرقی پاکستان کی کچھ مزدور تنظیموں سے بھی ان کا تعلق تھا اور ٹریڈ یونین کے حوالے سے مشرقی پاکستان کی قیادت سے صلاح و مشوروں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔

ایوب حکومت نے امریکا کی اقتصادی امداد جوکولمبو پلان کے تحت پسماندہ ملکوں کو مل رہی تھی سے ملک میں صنعتکاری کا سلسلہ شروع تو کیا لیکن مزدور طبقے کو اس قدر دبا کر رکھا گیا کہ مزدور اپنے حق کے لیے آواز بلند نہیں کر سکتے تھے، اس ظالمانہ دور میں مشرقی پاکستان کے مزدور رہنما مولانا بھاشانی مزدوروں کے حقوق کے لیے سخت لڑائی لڑ رہے تھے۔

مولانا نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ تھے اور نیشنل عوامی پارٹی مزدوروں اور کسانوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔ یہ غالباً 1968 کی بات ہے مولانا بھاشانی کراچی آئے اور نیپ کے مقامی رہنما مسیح الرحمن کے مکان پر قیام پذیر ہوئے۔مولانا نے ایک دن ہم سے کہا کہ لانڈھی کے مزدوروں کا ایک جلسہ کراؤ۔ ہم نے کنیز فاطمہ، علاؤالدین عباسی اور وحید صدیقی کے ساتھ لانڈھی میں ایک ملز کے گیٹ پر ایک جلسہ کیا اس جلسے کے بعداس ملز کے مزدور جلوس کی شکل میں لانڈھی انڈسٹریل ایریا کے لیے نکلے اور چار گھنٹوں میں پورا انڈسٹریل ایریا بند کروا کر مزدوروں کے بڑے جلوس کی شکل میں 89 اسٹاپ کے میدان میں پہنچے جہاں مولانا بھاشانی جلسے سے خطاب کرنے والے تھے۔

کوئی پچاس ہزار مزدور اس یادگار جلسے میں شریک تھے۔جلسہ اتنا بڑا تھا کہ مولانا بھاشانی خوش ہو گئے لیکن المیہ یہ رہا کہ مزدوروں کا استحصال ختم نہ ہوا بلکہ انتقامی کارروائیاں شروع ہوئیں۔ مزدور کسان راج کے دعوے دار مزدوروں کے خلاف انتقامی کارروائیوں پر اتر آئے۔ بہت سارے مزدوروں اور مزدور رہنماؤں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔

مولانا بھاشانی مختلف جلسوں سے خطاب کر کے ڈھاکا واپس چلے گئے۔ بھٹو صاحب نے مزدوروں کو آسمان پر چڑھایا تھا، اب جب مزدور اینگری ہو گئے تو سیکڑوں کے حساب سے پکڑے جانے لگے اور گرفتار مزدوروں کو جیلوں میں ڈنڈا بیڑی پہنائی جانے لگی۔ ڈنڈا بیڑی پہنے مزدوروں کی تصویریں میڈیا میں آنے لگیں۔ یہ تھا مزدور کسان راج؟یہ تو ہوئیں پرانی باتیں اب حال یہ ہے کہ کراچی جیسے ترقی یافتہ شہر میں نمایندہ یونینزکا دور دور تک پتہ نہیں۔ ہر طرف پاکٹ یونینزکا راج ہے، مزدوروں کا حال یہ ہے کہ ٹھیکیداری نظام کا جواء کندھوں پر رکھے زندگی کی گاڑی گھسیٹ رہے ہیں۔

عشروں کی لگاتارکوششوں اور بے بہا قربانیوں کے بعد مزدوروں نے کچھ کامیابیاں حاصل کی تھیں جن میں یونین سازی کا حق، ہڑتال کا حق، سودے کاری کا حق یہ سارے حقوق طاق نسیاں پر رکھ دیے گئے، اب حال یہ ہے کہ مزدورکارخانہ دارکا ملازم نہیں بلکہ ٹھیکیدارکا ملازم ہے اور اس کی نوکری پکی ہے نہ قانون کے مطابق اسے ٹریڈ یونین حقوق حاصل ہیں۔

ٹھیکیداری نظام مزدوروں سے نکل کر وائٹ کالر یونین تک پہنچ گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹھیکیداری نظام بیچ میں کہاں سے ٹپک پڑا۔ ٹریڈ یونین میں ایسی قیادت موجود نہیں جو کم از کم ٹھیکیداری نظام ہی کے خلاف جدوجہد کرے۔بھٹو صاحب مزدور کسان راج لانے کی نوید سناتے رہے لیکن مزدور رہنماؤں کو برسوں کے لیے جیلوں میں ٹھونس کر اور ڈنڈا بیڑیاں پہنا کر مزدور کسان راج کا مذاق اڑایا گیا۔

سوال یہ ہے کہ اب سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے کیا مزدور راج نہ سہی مزدوروں کو ان کے قانونی حقوق ہی دلا دیے جائیں تو پیپلز پارٹی کی مزدوروں کے ساتھ بڑی مہربانی ہو گی۔ ٹھیکیداری نظام و ڈیرہ شاہی نظام سے بدتر نظام ہے مالکوں نے ملوں کارخانوں کو ٹھیکداروں کے حوالے کر دیا ہے اب مزدور مالکان کا نہیں ٹھیکیداروں کا ملازم ہے جس کے کوئی قانونی حقوق نہیں ٹھیکیدار کی مرضی ہے جب تک چاہے مزدورکو رکھے جب چاہے نکال باہرکرے۔

کیا پیپلز پارٹی کی حکومت مزدوروں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ نہیں کر سکتی۔ کراچی سب سے بڑا صنعتی علاقہ ہے یہاں سارے ملک سے مزدور روزگار کے لیے آتے ہیں۔ اس صنعتی شہر میں مزدور قوانین کا نام نہیں ہر طرف ٹھیکیداری نظام کا بول بالا ہے پیپلز پارٹی کے رہنما وقت نکال کر غریب مزدوروں کے مسائل پر غورکریں۔

The post ہیں تلخ بہت۔۔۔۔؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2nJ8FN3
via IFTTT

نیا سہ فریقی اتحاد ایکسپریس اردو

ایک زمانہ تھا جسے ہم انیس کی دہائی کہہ سکتے ہیں۔ اس وقت نیٹو اور سوویت یونین نے ایک دوسرے کے خلاف الفاظ کی جنگ کے علاوہ جنوب مشرقی ایشیا، افریقہ اور دیگر علاقوں میں عملی جنگ شروع کر رکھی تھی۔ یہاں تک کہ برصغیر میں بھی دائیں اور بائیں بازوکے مابین زبردست کشمکش ہو رہی تھی۔

پھر ایک ایسا بھی وقت آیا جب سوویت یونین کے وزیر اعظم خروشچیف اور امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے مابین عالمی نیوکلیائی جنگ سر پر آن پہنچی تھی جسے عالمی مدبروں، دانشوروں کی کوشش سے روکا گیا۔ جس میں برٹرینڈ رسل پیش پیش تھے۔ یہ جنگ تسلسل سے جاری تھی۔ مگر سوویت یونین سے کمیونسٹ پارٹی کے مابین فکری اور نظری اختلافات پھیلتے گئے۔

یہاں تک کہ روس اور چین کے مابین جو عالمی اتحاد تھا اس پر بھی اختلاف پیدا ہو گیا۔ سوویت یونین کے دانشوروں کے بدلتے نظریات اور مشینی تبدیلی کی بنیاد پر جو فیصلے کیے گئے اس کو ماؤزے تنگ نے مارکسی نظریات سے انحراف قرار دے دیا (حالانکہ فی الوقت چین انھی نظریات سے گزر رہا ہے۔)

روس اور چین کے نظریاتی اختلاف سے پوری دنیا میں پارٹیاں دو حصوں میں بٹ گئیں۔ یہاں تک سن اڑسٹھ ستر میں طلبا بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئے بعدازاں مزدور کسان تحریک بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ انھی نظریاتی اختلافات کی خلیج نے ایک ایسا وقت بھی دیکھا جب موجودہ انقلاب بھی مباحثے کا شکار ہو گیا۔ افغانستان میں اس کا اثر شدید ترین ہوا۔ کیونکہ پارٹی تین دھڑوں کی تاب نہ لاسکی اور دشمنوں کے مقابلے میں شکست کھا گئی۔ کیوبا اور لاطینی امریکا کے ممالک اس نظریاتی جنگ سے بہت دور تھے اور انھوں نے اپنے اندر تقسیم کے اثرات کو آنے نہ دیا۔

افغان انقلاب کی شکست کے بعد دس سال سے زائد عرصے تک کسی نئے عوامی انقلاب کا خواب نہ دیکھا جا سکا۔ حتیٰ کہ سوویت یونین بھی لخت لخت ہو گیا۔ ایک طویل عرصے کے بعد سوویت یونین نے روس کی شکل میں سامراجی ملکوں سے پنجہ آزمائی شروع کی۔ روس اور امریکا اب اپنے اپنے اتحادیوں کو اپنے پروں میں سمیٹے نئے نظریاتی اتحاد بنا رہے ہیں۔

مگر اس کا عوامی انقلاب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ البتہ جو حکومتیں روس کی پشت پناہی میں ہیں زیادہ تر وہ قوم پرست حکومتیں ہیں۔ ان حکومتوں میں دنیا کے کئی ممالک شامل ہیں۔ درمیان میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب شام کی حکومت کو امریکا نے معزول کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا اور مذہبی انتہا پسند قوتوں کو شام کے خلاف متحدہ جنگ کرنے کا اعلان کر دیا اور ان کی پشت پناہی بھی شروع کر دی جس کے نتیجے میں عرب دنیا میں دھڑے بندیاں ہونے لگیں۔

شام اور سعودی عرب براہ راست ’’پراکسی وار‘‘ کے تصادم میں چار برس تک مد مقابل رہے اور دونوں کو زبردست جانی اور مالی نقصانات ہوتے رہے مگر ایک وقت ایسا آیا جب روس براہ راست شام کی مدد کو آن پہنچا۔ جس سے داعش کو سخت نقصانات اٹھانا پڑے۔ جب کہ عراق میں داعش کو مقتدا صدر اور آیت اللہ سیستانی کے سرفروشوں نے زبردست شکست دے دی۔ادھر سعودی عرب میں آزاد خیال قیادت نے سر اٹھایا اور وہ امریکا کے مزید قریبی ساتھیوں میں سے ہے۔ مگر دوسری جانب امریکا اور نیٹو کے قریبی ساتھی اردگان کے مابین نظریاتی اختلافات جنم لینے لگے۔

آج سے تقریباً سال بھر پہلے ایک ایسی گھڑی بھی آئی جس میں اردگان کے خلاف نیٹو اور مقامی فوج نے بغاوت کی مگر اردگان کے حامی فوجی اور عوام نے اس بغاوت کو پسپا کر دیا۔ اس طرح اردگان کو زبردست فوجی اور سیاسی قوت حاصل ہوئی اور اردگرد کے چھوٹے ممالک ترکی کی طرف دیکھنے لگے۔ان میں سے قطر ایک ایسا ملک ہے جس نے ترکی سے تعلقات مزید مستحکم کرنا شروع کر دیے اور سعودی عرب سے منہ موڑنا شروع کر دیا۔ گوکہ سوویت یونین اور اس کا اتحادی پارٹنر ’’وارسا پیکٹ‘‘ تو ختم ہو گیا مگر مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک نے روس سے سیاسی اور عسکری تعلقات مستحکم کرنے شروع کر دیے۔

ان نئی دھڑے بندیوں میں اب ذرا سا غورکریں تو معلوم ہو گا کہ امریکا کے ساتھیوں میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نمایاں ہیں، جب کہ دوسری جانب ایران، شام، نصف لبنان اور کسی حد تک عراق اور ترکی امریکی مخالف دھڑے بندی کے اہم ستون ہیں۔

عراق کا نام اس وقت اس نئی دھڑے بندی میں امریکا مخالف پینل میں اس لیے لکھنا پڑا کیونکہ اکثر ’’آرامکو فیسلٹی‘‘ حملے میں ڈرون کو جہاں سے حملہ کرتے ہوئے بتایا گیا ان کے خیال میں عراق یا یمن کی سرزمین کو مشتبہ قرار دیا گیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ مڈل ایسٹ جنگی صورتحال میں دو مخالف قوتوں کی سرزمین بن گیا۔ اس کا بین ثبوت سولہ ستمبرکو انقرہ کے سہ فریقی اعلان میں نمایاں ہو گیا۔

انقرہ میں جو ترکی کا دارالسلطنت ہے وہاں سہ فریقی اہم ترین پریس کانفرنس کا اعلان ترکی، روس اور ایران نے کیا جس میں طیب اردگان نے بہ حیثیت ترکی کے صدرکے روس اور ایران کوکئی سہولیات فراہم کیں جن میں روس کو شام جانے کے لیے ترکی کی سرزمین استعمال کرنے کو قانونی اور جائز قرار دیا۔

اس طرح ماضی کا ترکی جو امریکا کا دست راست تھا وہ موجودہ دور میں روس کے ہمنواؤں کی صف اول میں شامل ہو گیا۔ گو کہ اس پریس کانفرنس کا پاکستانی میڈیا میں چرچا نہ کیا گیا مگر مغربی دنیا اور اس کے اتحادیوں نے اس خبر کی نمایاں حیثیت سے تشریح کی۔ ظاہر ہے ایران سے براہ راست ترکی کا عسکری سفر دنیا کے لیے باعث حیرت بن گیا اور یہ ایک نئی مضبوط اور سیاسی قوت کا نمایاں مظاہرہ تھا۔

جس نے یہ ثابت کر دیا کہ کسی بھی جنگی صورتحال میں ایران کے ساتھ روس اور ترکی کھڑے ہیں۔ ترکی کوئی طیب اردگان کے دور سے نیٹو میں شامل نہیں بلکہ یہ ابتدا سے ہی امریکی اتحادی تھا۔ لیکن رجب طیب اردگان نے ایسا لگتا ہے کہ وقت، سفر اور راستوں کی پیمائش کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ قریبی دوستوں سے روابط رکھنا عملی طور پر ہزاروں میل دور کے دوستوں پر انحصار کرنے سے کہیں بہتر ہے۔

اب اس کے فوائد محض ترکی کو نہیں بلکہ شام اور ایران کو بھی حاصل ہوں گے۔ ایران سے ترکی تک تیل کی رسد دونوں ملکوں کے لیے ایک تجارتی خزانے سے کم نہیں۔ حالانکہ انھی دنوں آرامکو پر حملے کے بعد امریکا نے ایران کی معاشی ناکہ بندی میں اضافہ کر دیا۔

لیکن ایران معاشی طور پر ڈالر کے دباؤ کا مریض نہیں۔ اسے وہاں سے روس اور چین تک کی مارکیٹ حاصل ہے۔ ایسی صورتحال میں یہ کہنا تو درست نہ ہو گا کہ امریکی دباؤ کا اثر ایران پر بالکل نہ ہو گا۔ لیکن جو اہداف امریکا حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اہداف یقینا حاصل نہ ہوں گے کیونکہ اس معاہدے نے ایران کو ایک نیا رخ عطا کر دیا۔ لہٰذا ہم یہ باآسانی کہہ سکتے ہیں کہ مشرق اوسط میں فی الوقت کسی بڑی جنگ کا امکان نہیں ہے۔ اور نیا سہ فریقی اتحاد اس جنگ کے مخالف پلڑے میں اضافی وزن کا باعث ہو گا۔ کیونکہ روس کی شراکت نے شام کو بحفاظت بچا لیا تو نئی صورتحال ایران کے حق میں بھی مثبت کردار ادا کرے گی۔

The post نیا سہ فریقی اتحاد appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2nzZuy6
via IFTTT