Wednesday, March 31, 2021

ثنا خان کی سونے کی پرت والی کافی پینے کی تصویر وائرل ... ثنا خان نے کچھ ماہ قبل ہی شوبز کو خیر باد کہ کر مفنی انس سے شادی کی تھی

پاکستانی شوبز انڈسٹری’’بہت منافق ہے‘‘، یاسر حسین ... دوسرے پاکستانی اداکاروں کے مقابلے میں کھری بات کہنے کے عادی‘اداکار

شاہ رخ خان نے غیراخلاقی سوال پوچھنے پر مداح کو شرمسار کردیا ... مداحوں کی معلومات میں اضافے کیلئے سوال جواب کا سیشن رکھتا ہوں، شاہ رخ خان

بھارتی گلوکار بپی لہری بھی کورونا وائرس میں مبتلا ... بپی لہری کی طبیعت بگڑنے پر اٴْنہیں ممبئی کے ایک اسپتال میں داخل کردیا گیا

سعودیہ:رمضان سیزن میں عمرہ زائرین کے استقبال کے لیے خصوصی تیاریاں کر لی گئیں ... مکہ مکرمہ کے 12 سو ہوٹلز زائرین اور معتمرین کو بہترین خدمات فراہم کریں گے

لاہور ، انٹر نیشنل فلائیٹ میں کورونا مریض کے بیٹھنے سے کھلبلی مچ گئی ... مسافر نجی ایئرلائن کی پرواز 412 سے متحدہ عرب امارات کی ریاست شارجہ جا رہا تھا ، کورونا کا علم ہونے ... مزید

نائجر: فوجی بغاوت کی کوشش ناکام

کورونا کی تباہ کاریاں جاری ، ایک دن میں مزید 98 افراد جان کی بازی ہار گئے ... تیسری لہر میں ایک دن میں سب سے زیادہ 4 ہزار974 نئے کیسز سامنے آگئے ، فعال کیسز کی تعداد 50 ہزار397 ... مزید

طارق بشیر چیمہ کی فیملی کو کس نے کورونا ویکسین لگائی،کورونا ٹاسک فورس کا چیئرمین پریشان ... دو نہیں ایک پاکستان کا میں قائل ہوں،طارق بشیر چیمہ نے زیادتی کی ہے ان کے خلاف ... مزید

اس شیطانی جوتے میں انسانی خون موجود ہے ایکسپریس اردو

 نیویارک: مشہورِ زمانہ جوتے بنانے والے کمپنی نے ایک امریکی ریپر گلوکار پر مقدمہ کیا ہے جس نے انسانی لہو کے حامل انتہائی متنازعہ جوتے متعارف کرائے ہیں اور اس پر کئی شیطانی علامات بھی بنائی گئی ہیں۔

بروکلِن میں آرٹ کلیکٹر کمپنی ایم ایس سی ایچ ایف نے اسے ’شیطانی جوتے‘ کا نام دیا گیا ہے جس کے تلے میں اصل انسانی خون کا ایک قطرہ بھی موجود ہے۔ اس کی قیمت 1,018  ڈالر رکھی گئی ہےاور جوتے کے ایک کنارے پر لیوک 10:18 لکھا گیا ہے۔ اس ڈیزائن کے صرف 666 جوڑے ہی بنائے گئے ہیں۔

ریپر گلوکار لل ناس ایکس کے مطابق انسانی لہو والے سارے جوتے فوری طور پر فروخت ہوگئے، تاہم انہوں نے نائکی ایئرمیکس 97 کے ڈیزائن میں تبدیلیاں کی تھیں اور اسی بنا پر نائکی نے ان پر مقدمہ دائر کردیا ہے۔ انہوں نے عدالت میں کہا ہے کہ ایم ایس سی ایچ ایف نے ان کا لوگو بھی تبدیل کردیا ہے۔

مقدمے کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایم ایس سی ایچ ایف نے اپنی کمپنی اور نائکی کے درمیان غلط فہمی اور الجھاؤ کا تاثر دیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ دونوں کمپنیوں کے درمیان کوئی معاہدہ ہوا ہے۔

واضح رہے کہ اس جوتے کی فروخت سے ایک ہفتہ قبل امریکی گلوکار لل ناس ایکس نے ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں ایک گانے ’کال می بائے یور نیم‘ میں وہ فرضی شیطان کے ساتھ رقص کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک منظر میں وہ شیطان سے اس کے سینگ چرالیتے ہیں۔

جوتے کے تلے میں دو اونس سرخ روشنائی بھری ہوئی ہے جس میں ایک قطرہ انسانی خون بھی شامل ہیں۔ یہ جوتے انہوں نے ایک جگہ سے خریدے اور اس کے ڈیزائن میں بنیادی اور متنازعہ تبدیلیاں کرکے انہیں ’شیطانی جوتوں‘ کا نام دیا ہے۔

The post اس شیطانی جوتے میں انسانی خون موجود ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3cDdPko
via IFTTT

نارنجی چہرے والی نئی مکڑی کوفلمی کردار’نیمو‘ کا نام دیدیا گیا ایکسپریس اردو

 میلبورن: ایک شہری سائنسدان کو جنوبی آسٹریلیا کی آبگاہ میں ایک نئی قسم کی مکڑی دکھائی دی جس کا چہرہ شوخ نارنجی رنگ کا تھا۔ اس کی رنگت کو دیکھتے ہوئے اسے پکسار اینی میشن فلم ’فائنڈنگ نیمو‘ کی کلاؤن فِش ’نیمو‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس طرح اس کا پورا نام میراٹس نیمو قرار پایا ہے۔

اس نوع کا تعلق پی کاک اسپائیڈر سے ہے جو ناچتی اور تھرکتی رہتی ہیں۔ اس کا چہرہ نارنجی ہے اور اس پر سفید دھاری ہے۔ اس پر چار خوبصورت روشن آنکھیں ہیں۔ اس کی رنگت کلاؤن فش کی طرح ہے اور اسی بنا پر نودریافت مکڑی کو نیمو کا نام دیدیا گیا ہے۔

اب سے قبل سائنس اس خوبصورت مخلوق سے ناواقف تھی۔ سب سے پہلے آسٹریلیا کی فوٹوگرافر اور مکڑیوں کے شوقین شیرل ہولیڈے نے اس کی تصاویر گزشتہ برس کے لاک ڈاؤن میں اتاری تھیں اور انہیں فیس بک پر رکھا تھا۔ اس پر میلبورن کے میوزیم آف وکٹوریا کے ماہرِ جوزف شوبرٹ کی نظر پڑی۔

جوزف کے مطابق شاید یہ مکڑی کی نئی قسم تھی جس کے تحت انہوں نے شیرل سے رابطہ کیا اور انہیں کچھ مکڑیاں پکڑ کر بھیجیں۔ جوزف نے تجربہ گاہ میں اس کا بغور تجزیہ کیا۔ جوزف اس سے قبل پی کاک اسپائیڈر کی کئی اقسام دریافت کرچکے تھے اور کئی کے نام رکھ چکے تھے۔

شیرل نے جوزف کو چار نر اور ایک مادہ مکڑی کے نمونے بھیجے جو 20 نومبر 2020 کو موصول ہوئے۔ اس پر طویل تحقیق کے بعد اسے نئی مکڑی قرار دیا گیا اور اس کی تفصیلات 25 مارچ 2021 کو ایوولوشنری اسٹیسٹکس میں شائع ہوئی ہیں۔ اب اسے میراٹس نیمو کا نام دیا گیا ہے۔ اس مکڑی کے نر کے جسم کی رنگت گہری کتھئی ہوتی ہے، چہرہ شوخ نارنجی ہوتا ہے اور اس پر افقی سفید لکیریں ہوتی ہیں۔ اس طرح آسٹریلیا میں دریافت ہونے والی پی کاک نسل کی یہ بیانوے ویں قسم ہے جن کی اکثریت گزشتہ دہائی میں شناخت کی گئی ہیں۔

واضھ رہے کہ یہ مکڑی اتنی چھوٹی ہے کہ یہ چاول کے دانے سے بڑی نہیں اور اس کے نر ملاپ کے وقت والہانہ رقص کرتے ہیں۔

The post نارنجی چہرے والی نئی مکڑی کوفلمی کردار’نیمو‘ کا نام دیدیا گیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3ftOpaL
via IFTTT

شکر بچوں کی دماغی نشوونما متاثر کرسکتی ہے ایکسپریس اردو

جارجیا: دکانوں اور اسٹور میں سجی رنگ برنگی ٹافیاں اور مشروبات بچوں کو اپنی طرف لبھاتی ہیں اور وہی ان کے دماغ کی دشمن بھی ہوسکتی ہیں۔

بچے اندھا دھند میٹھا کھاتے ہیں جس سے وہ موٹاپے اور دل کی بیماریوں کے شکار ہوسکتے ہیں لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ اس سے ان کی دماغی صلاحیت بالخصوص یادداشت شدید متاثر ہوسکتی ہے۔

یہ تحقیق جارجیا یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے سائنسدانوں نے کی ہے۔ انہوں نے اس کے اہم تجربات چوہوں پر کئے ہیں۔ چونکہ فعلیاتی طور پر چوہے انسانوں کے قریب ہوتے ہیں اور ان پر تحقیق کا اطلاق انسانوں پر بھی ہوتا ہے۔ جب نوجوان اور بچے چوہوں کو ضرورت سے زائد شکر دی گئی تو نہ صرف اسی عمر میں ان کی یادداشت اور دماغی صلاحیت متاثر ہوئی بلکہ اس کے اثرات جوانی میں بھی دیکھے گئے۔ مزید تحقیق پر معلوم ہوا کہ آنتوں میں بیکٹیریا کی کیفیات بدل جاتی ہیں جس سے یادداشت متاثر ہوتی ہے۔

تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ شکر کھانے سے معدے اور آنتوں میں  پیرابیکٹیریوٹوئڈز قسم کے بیکٹیریا کی تعداد غیرمعمولی طور پر بڑھ جاتی ہے۔ اس سے معدے میں تندرست جرثوموں کا تناسب و توازن بگڑجاتا ہے۔ یہ بیکٹیریا دماغی سرگرمی کو متاثر کرسکتا ہے۔

اس لیے ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر بچوں اور نوعمروں میں شکر کی مقدار دس فیصد بھی کم کردی جائے تو اس سے بھی یادداشت اور دماغ کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ بالخصوص 9 سے 18 سال تک کی عمر کے بچے اور نوجوانوں حد سے زیادہ چینی بدن میں اتاررہے ہیں جس کی وجہ انرجی ڈرنکس، سافٹ ڈرنکس اور دیگر میٹھے مشروبات ہیں۔

The post شکر بچوں کی دماغی نشوونما متاثر کرسکتی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/39tGMgD
via IFTTT

باؤنسی پچز پر پیس ہتھیار گرین شرٹس کے منتظر ایکسپریس اردو

 لاہور: جنوبی افریقہ میں باؤنسی پچزپر پیس ہتھیارگرین شرٹس کے منتظر ہیں تاہم ہوم ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی سیریز میں زیر کرنے والی پاکستان ٹیم جمعے کو پروٹیز کے دیس میں پہلی آزمائش سے گزرے گی۔

جنوبی افریقی ٹیم نے رواں سال جنوری فروری میں پاکستان کا دورہ کیا تھا، میزبان نے دونوں ٹیسٹ کے بعد تینوں ٹی ٹوئنٹی میچز میں بھی فتح حاصل کی،یوں پروٹیز جیت کو ترستے ہوئے وطن واپس گئے،اب گرین شرٹس جنوبی افریقہ میں موجود ہیں، ون ڈے سیریز کا آغاز جمعے کو سنچورین میں ہوگا،اس کے بعد مزید 2ایک روزہ اور 4ٹی ٹوئنٹی میچز بھی شیڈول ہیں۔

پاکستان ٹیم لاہور میں انٹرا اسکواڈ میچز سمیت تربیتی کیمپ میں اپنی تیاریاں مکمل کرکے 26مارچ کو جوہانسبرگ روانہ ہوئی تھی، دورہ انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے برعکس کھلاڑیوں اور معاون اسٹاف کا قرنطینہ طویل نہیں تھا مگر وہاں کنڈیشنز سے ہم آہنگی کیلیے زیادہ وقت بھی نہیں مل سکا۔

قومی کرکٹرزگذشتہ دونوں روز بھرپور پریکٹس سیشنز کرتے ہوئے بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ میں اپنی صلاحیتیں نکھارنے کیلیے سرگرم رہے،اس دوران میزبان ملک کی پیس اور باؤنس والی پچز سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش جاری رہی۔

کوچز نے خاص طور پر ٹاپ آرڈر پر بھرپور توجہ دیتے ہوئے آف اسٹمپ سے باہر جاتی گیندوں کے ساتھ باؤنسرز پر مشق کروائی، ماربل سلیب پر پڑ کر تیزی سے نکلنے والے گیندوں کا سامنا بھی کروایا گیا، پاور ہٹنگ کی خصوصی پریکٹس کا سلسلہ جاری رہا۔

گزشتہ روز تمام کھلاڑیوں کیلیے ٹریننگ لازمی نہیں تھی، اس لیے زیادہ تر نے آرام کو ترجیح دی، میدان کا رخ کرنے والوں میں سے ٹیل اینڈرز کو طویل پریکٹس کروائی گئی،حسن علی کے ساتھ چند نوجوان بولرز نے صلاحیتوں کو چمکایا، فیلڈنگ ڈرلز کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

دوسری جانب پلیئنگ الیون پر غور کیلیے ٹیم مینجمنٹ نے بھی سر جوڑ لیے، زمبابوے کیخلاف ہوم سیریز کا آخری میچ کھیلنے والے افتخار احمد، خوشدل شاہ، وہاب ریاض اور محمد موسی کا خلا پْر کرنے کیلیے مختلف ناموں پر غور کیا جا رہا ہے،محمد رضوان کو بطور اسپیشلسٹ بیٹسمین کھلاتے ہوئے پی ایس ایل میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہترین اسٹرائیک ریٹ سے رنز بنانے والے وکٹ کیپر سرفراز احمد کوشامل کرنے کی تجویز پر عمل مشکل ہے۔

اوپنرز فخر زمان اور امام الحق، مڈل آرڈر میں بابر اعظم، حیدر علی، محمد رضوان کے ساتھ آصف علی،دانش عزیز میں سے کسی کو موقع ملے گا، آل راؤنڈرز میں شاداب خان اور فہیم اشرف، پیس بیٹری میں شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف اور حسن علی کو شامل کیے جانے کا امکان روشن ہے۔

پچ کو دیکھتے ہوئے عثمان قادر یا محمد نواز میں سے کسی ایک اسپنر کو کھلانے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے، زیادہ امکان یہی ہے کہ پاکستان 3فاسٹ بولرز اور ایک پیسرو آل راؤنڈر کے ساتھ میدان میں اترے گا۔

سپر اسپورٹس پارک سنچورین میں پاکستان اور جنوبی افریقہ کی ٹیمیں 6بار مقابل ہوئی ہیں،ان میں سے گرین شرٹس نے 2میں فتح پائی، 4میں شکست کا سامنا کرنا پڑا،دونوں ٹیموں کااس میدان پر گذشتہ ٹاکرا جنوری 2019میں ہوا تھا،بارش زدہ میچ میں گرین شرٹس6وکٹ 317رنز بنانے کے باوجود ڈک ورتھ لوئیس میتھڈ پر 13رنز سے ہارگئی تھی، امام الحق کی سنچری بھی کسی کام نہیں آئی تھی۔

The post باؤنسی پچز پر پیس ہتھیار گرین شرٹس کے منتظر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3ucWRzg
via IFTTT

جانسن اینڈ جانسن نے کووڈ ویکسین کی ڈیڑھ کروڑخوراکیں ضائع کردیں، تحقیقات متوقع ایکسپریس اردو

میری لینڈ: امریکی کمپنی جانسن اینڈ جانسن نے معیار پر پورا نہ اترنے کے باعث کورونا ویکسین کی ڈیڑھ کروڑ خوراکیں ضائع کردیں۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی کمپنی جانسن اینڈ جانسن نے ریاست میری لینڈ کے ایک پلانٹ میں تیارکی جانے والی ڈیڑھ کروڑکورونا ویکسین کومعیارپرپورا نہ اترنے کے باعث ضائع کردیا۔ امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی کی جانب سے بھی اس واقعے کی تحقیقات متوقع ہیں۔

کمپنی کے مطابق متعلقہ پلانٹ پرمزید ماہرین کو بھیجا جارہا ہے تاکہ ماہرین کی نگرانی میں ویکسین کا معیار اورحفاظت کو بہترین بنا یا جاسکے۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: عالمی ادارہ صحت نے ایک ٹیکے والی جانسن اینڈ جانسن کی کورونا ویکسین کی منظوری دیدی

اس متعلق کمپنی کا مزید کہنا ہے کہ کورونا وبا کے خلاف ویکسین کا معیارکمپنی کی اولین ترجیح ہے اورضائع کی گئی ویکسین اپنے تیارہونے ہونے کے آخری مراحل تک نہیں پہنچی تھی۔

واضح رہے کہ اب تک جتنی بھی کورونا ویکسنز زیراستعمال ہیں وہ ساری دو ٹیکوں پر مشتمل ہیں جب کہ جانسن اینڈ جانسن کی کورونا ویکسین پہلی ویکسین ہے جو صرف ایک خوراک پر مشتمل ہے یعنی اس کا ایک ہی ٹیکہ مہلک وائرس سے بچاؤ کے لیے کافی ہوگا۔

The post جانسن اینڈ جانسن نے کووڈ ویکسین کی ڈیڑھ کروڑخوراکیں ضائع کردیں، تحقیقات متوقع appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3whgk3P
via IFTTT

بائیوسیکیورٹی پر فیکٹ فائنڈنگ پینل کی رپورٹ تاخیر کا شکارہوگئی ایکسپریس اردو

 لاہور:  پی ایس ایل6میں بائیوسیکیورٹی کی خلاف ورزیوں پر فیکٹ فائنڈنگ پینل کی رپورٹ تاخیر کا شکار ہوگئی۔

میڈیکل پینل کے سربراہ ڈاکٹر سہیل سلیم نے استعفیٰ دے دیا، بائیو سیکیورٹی کی ناکامی کے باقی ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلیے 2رکنی فیکٹ فائنڈنگ پینل بنایا گیا تھا،اس میں وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر سید فیصل محمود اور ڈاکٹر سلمہٰ محمد عباس شامل ہیں۔

پینل کو فرنچائزز کے نمائندوں سمیت مختلف متعقلہ افراد سے حقائق جاننے کے بعد اپنی رپورٹ گذشتہ روز چیئرمین پی سی بی کے پاس جمع کروانا تھی، مگر بورڈ ترجمان کی جانب سے بتایا گیا کہ اب اس کیلیے رواں ہفتے کے آخر تک انتظار کرنا ہوگا۔

یاد رہے کہ پی ایس ایل میچز کو دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے پی سی بی نے تمام فرنچائزرز سے مجوزہ شیڈول پر مشاورت مکمل کرلی ہے۔

اگرچہ بائیو سیکیورٹی کیلیے غیر ملکی کمپنی سے معاملات بھی طے ہورہے ہیں مگر اس سے قبل ایونٹ کے التوا کا سبب بننے والے حقائق کو منظر عام پر لانا بھی ضروری ہے۔

The post بائیوسیکیورٹی پر فیکٹ فائنڈنگ پینل کی رپورٹ تاخیر کا شکارہوگئی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2QRZ5pr
via IFTTT

تنازع برقرار، فیفا کی ڈیڈ لائن ہوا میں اڑا دی گئی ایکسپریس اردو

 لاہور:  پاکستان فٹبال کا تنازع برقرار رہا، جب کہ یفاکی ڈیڈ لائن ہوا میں اڑا دی گئی۔

اشفاق گروپ نے ہفتے کو پی ایف ایف کے لاہور میں قائم ہیڈ کوارٹرز سے فیفا کی نامزد نارملائزیشن کمیٹی کو بے دخل کرتے ہوئے کنٹرول سنبھال لیا تھا، اس کارروائی پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فیفا نے وارننگ جاری کی تھی کہ مداخلت ختم کرکے بدھ کی رات 8بجے تک چارج نارملائزیشن کمیٹی کے حوالے نہ کیا گیا تو پاکستان کی معطلی جیسا سخت ترین قدم بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔

گزشتہ روزاشفاق گروپ نے ہیڈ کوارٹرز خالی کرنے سے انکار کردیا، ویڈیو پیغام میں انھوں نے واضح کیاکہ فیفا ہاؤس کا کنٹرول پاس رکھ کر کام چلاتے رہے گے، اب تک آنے والی تینوں نارملائزیشن کمیٹیز صرف مال بناتی رہی، 18 ماہ میں الیکشن کرانے کیلیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، فیفا سے درخواست کرتے ہیں کہ یہ معاملات دیکھیں۔

ذرائع کے مطابق چیئرمین نارملائزیشن کمیٹی ہارون ملک فیفا کو تمام صورتحال سے ای میل کے ذریعے آگاہ کریں گے، موجودہ صورتحال میں پاکستان کی رکنیت 5سال کے لیے ختم کی جا سکتی ہے، اشفاق گروپ کے آفیشلز پر بھی فیفا کی طرف سے اب تاحیات پابندی عائد ہوسکتی ہے، اس صورتحال میں پاکستانی فٹبالرز، کوچز اور آفیشلز میں تشویش کی لہر پائی جاتی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر پابندی لگ گئی تو پاکستان فٹبال کو بڑا نقصان ہوگا،فیفا سے مطالبہ ہے کہ ملک کے بجائے معاملات میں مداخلت کرنے والوں پر تاحیات پابندی لگائی جائے۔

The post تنازع برقرار، فیفا کی ڈیڈ لائن ہوا میں اڑا دی گئی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3diYYec
via IFTTT

’بدمزاج‘ مانوساہنی کی چھٹی کا وقت قریب ایکسپریس اردو

 دبئی:  ’بدمزاج‘ مانوساہنی کی آئی سی سی سے چھٹی کا وقت آگیا، تحقیقات میں ملازمین نے چیف ایگزیکٹیو کے خلاف شکایات کے انبار لگا دیے تاہم بورڈ میٹنگ میں باضابطہ طورپر برطرفی کا اعلان متوقع ہے۔

انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے جنوری2019 میں مانو ساہنی کا بطور چیف ایگزیکٹیو تقررکیا تھا،وہ اس سے قبل سنگاپور میں ایک اسپورٹس مینجمنٹ کمپنی کے ایگزیکٹیو تھے،انگلش پریمیئر لیگ کلب مانچسٹر یونائیٹڈ کے غیرجانبدار ڈائریکٹر بھی رہ چکے۔

آئی سی سی میں ان کا دیگر ملازمین کے ساتھ رویہ اچھا نہیں تھا جس کی وجہ سے شکایتیں بڑھنے لگیں،ایسے میں آئی سی سی نے رخصت پر بھیجتے ہوئے انگلینڈ کی ایک فرم پرنس واٹرہاؤس کوپرز کو ساہنی کے خلاف کلچرل تحقیقات کی ذمہ داری سونپی، جس نے 10 مارچ کو اپنی مکمل رپورٹ آئی سی سی کو دے دی۔

چیف ایگزیکٹیو کو عائد الزامات اور تحقیقات کے نتائج پر بات کرنے کیلیے طلب کیا گیا مگر وہ نہیں آئے۔ اب بدھ سے شروع ہونے والے آئی سی سی بورڈ اجلاس میں ساہنی کو ملازمت سے برطرف  کیے جانے کا امکان ہے۔

غیرتصدیق شدہ رپورٹس کے مطابق خود ساہنی بھی اپنی جبری برطرفی کی صورت میں آئی سی سی کو قانونی نوٹس بھیجنے کو تیار بیٹھے ہیں، سنگاپور میں بھی ملازمت کے دوران ان پر خراب رویے کے الزامات عائد ہوئے تھے۔

دوسری جانب ساہنی کی جگہ نئے چیف ایگزیکٹیو کیلیے امیدواروں کے نام بھی سامنے آنا شروع ہوگئے،ان میں انگلش بورڈ کے چیف ٹام ہیریسن، ویسٹ انڈین جوناتھن گریویس اور ای سی بی کے ہی ڈائریکٹر ایونٹ اسٹیو ایلورتھی کا نام بھی شامل ہے۔ مانو ساہنی کی قسمت کا فیصلہ ہونے کے بعد آئی سی سی کا ایچ آر ڈپارٹمنٹ نئے چیف ایگزیکٹیو کی تقرری کا عمل شروع کرے گا۔

یاد رہے کہ بگ تھری بھارت، آسٹریلیا اور انگلینڈ بھی ساہنی سے خوش نہیں تھے،وہ انھیں نئے نشریاتی دورانیے میں ہر سال ایک ورلڈ کپ کی تجویز کا ماسٹرمائنڈ سمجھتے ہیں۔

The post ’بدمزاج‘ مانوساہنی کی چھٹی کا وقت قریب appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3rJNVjk
via IFTTT

معدہ کا السر، وجوہات اور احتیاطی تدابیر ایکسپریس اردو

انسانی وجود کی صحت وتن درستی کا تمام تر انحصار متوازن خوراک اور نظام ہضم کی اعلیٰ کارکردگی پر سمجھا جاتا ہے۔

خوراک جس قدر متوازن، مقوی اور بھرپور ہوگی اسی قدر جسم میں توانائی اور قوت کا احساس ہوگا۔ کھائے جانے والی خوراک کا فائدہ بھی اسی وقت ہوتا ہے جب بدن کا نظام ہضم مضبوط اور مکمل کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والا ہو۔ فی زمانہ لذت اور مزے سے بھرپور پکوانوں کے استعمال سے نظام ہضم کسی خوش نصیب ہی کا مکمل طور پر فعال اور بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والا ہوگا۔

نظام ہضم کا تعلق ہمارے معدے سے ہے، ہم جو بھی کھاتے اور پیتے ہیں وہ سب سے پہلے معدے میں کیمیائی پروسس سے گزر کر دوسرے اعضاء تک پہنچ پاتا ہے۔ معدے کی کارکردگی جتنی مثالی اور عمدہ ہوگی ، ہماری صحت بھی اتنی ہی شاندار اور قابل رشک ہوگی۔ یوں تومعدے کے کئی ایک امراض ہیں جو بدن انسانی کو اپنی لپیٹ میں لے کر پریشانی کا سبب بنتے ہیں لیکن ان میں سب سے تکلیف دہ مر ض معدے کا زخم (السر ) ہے جس سے پورا بدن ہی متاثر ہوتا ہے۔

معدے کاالسر کیا ہے؟

معدہ کے السر  سے مراد معدہ کی حفاظتی جھلی  میں زخم کا بن جانا ہے۔ یہ زخم عمومی طور پر 5mm یا اس سے زیادہ بڑا ہو سکتا ہے اور معدہ کی اندرونی تہہ کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ معدہ کے السر کے بارے میں آگہی حاصل کرنے کے لئے معدہ کی ساخت کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔

انسان کی عمر اور السر میں تعلق

السر کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے۔ معدہ کا السر عام طور پر زیادہ عمر کے لوگوں مثلاً70-55 سال تک کی عمر میں ہوتا ہے جب کہ چھوٹی آنت کا السرنسبتاً کم عمر کے افراد یعنی30-55سال کی عمر میں ہوتا ہے۔ معدہ کے علاوہ ، السر چھوٹی آنت میں بھی ہو سکتا ہے۔

السر کیوں اور کیسے؟

ایسے افراد جو متواتر مرغن، تیز مسالے والی غذائیں،چٹ پٹے پکوان اور چٹخارے دار اشیاء کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ فاسٹ فوڈز، سموسے، پکوڑے، کولا مشروبات، بیکری مصنوعات، میدے سے بنی اشیاء، بریانی، بیگن، دال مسور اور بادی غذاؤں کے بکثرت استعمال سے بھی معدے میں ورم کی کیفیت ہوسکتی ہے۔ گوشت خوری،چائے ،کافی اور سگریٹ نوشی کی زیادتی سے بھی معدے میں تیزابی مادے بڑھ جاتے ہیں۔جب معدے کی تیزابیت مسلسل بڑھی رہے تو یہ معدہ کی حفاظتی جھلی کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے اور السر کا موجب بن سکتی ہے۔

تیزابیت کے علاوہ مندرجہ ذیل عوامل السر کا باعث بن سکتے ہیں۔ اینٹی بائیو ٹیک اور دردوں کی دوا کا زیادہ استعمال کرنے سے بھی معدے میں ورم کی کیفیت پیدا ہوجانے سے زخم بن کر السر کا روپ دھار لیتا ہے۔ دافع جسمانی درد، جوڑوں کی درد وغیرہ کیلئے دردوں کی دوائیاں (NSAIDs) گروپ کا استعمال زیادہ کرنے سے معدے کے السر کے ساتھ ساتھ جگر اور گردے بھی متاثرہونے کے امکانات رہتے ہیں۔ جدید میڈیکل سائنس کی رو سے H.Pilory بھی معدے کے السر کا ایک سبب بنتی ہے۔

ایچ پیلوری ایک جراثیم ہے جو معدہ اور چھوٹی آنت کے السر کا باعث بن سکتا ہے یہ جراثیم بہت عام ہے اور تقریباً دنیا کی آدھی آبادی کو متاثر کیے ہوئے ہے۔یہ جراثیم حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل نہ کرنے کے باعث ، گندی آب و ہوا، آلودہ پانی یا غیر معیاری خوراک استعمال کرنے سے پھیلتا ہے۔بلا کے سگریٹ نوش حضرات بھی السر کے خطرے کی زد میں رہتے ہیں۔ سگریٹ نوشی اورشراب نوشی کے استعمال سے السر ٹھیک ہونے کے بعد دوبارہ ہونے کا خطرہ بھی لاحق رہتا ہے۔ اسی طرح پان اور نسوار کا استعمال کرنے والے افراد بھی معدے کے السر کے نشانے پرہوسکتے ہیں۔

السر کی علامات

معدہ میں درد، السر کی بیماری کی سب سے اہم علامت ہے اور 90-80% لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ بھوک کی کمی اور متلی کی کیفیت معدہ کے السرسے متاثر لوگوں میں اکثر پائی جاتی ہے۔ چھوٹی آنت کے السر میں دو تہائی افراد میں درد  رات کو ہوتی ہے اور پیٹ سے کمر کی طرف جا سکتی ہے۔ قے کا بار بار آنا اور وزن کا مسلسل کم ہونا خطرے کی علامت ہے اور معدے کا کینسر یا معدہ کے خارجی راستے کی رکاوٹ کی نشان دہی کرتی ہے۔ اگر السر مندمل نہ ہو تو پیچیدگی کی صورت اختیار کر سکتا ہے اور مریض کو خون کی اُلٹی یا سیاہ پاخانے بھی آسکتے ہیں۔

السر کی تشخیص

جسب کسی کو السر کا مسئلہ پیش آتا ہے تو معدے میں مسلسل درد،جلن ، قے،ابکائیاں اور بعض حالات میں خون کی الٹی بھی آنے لگتی ہے۔ السر کے مریض کی بھوک بھی تقریباً ختم ہوجاتی ہے۔ پانی پینے سے بھی معدے میں دکھن کا احساس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جدید لیبارٹریز کے تحت السر اور اس کی وجوہات کی تشخیص کیلئے کئی ٹیسٹ کئے جا سکتے ہیں لیکن السر کی تشخیص کا سب سے بہتر طریقہ  اینڈو سکوپی ہے۔ اس ٹیسٹ کی مدد سے اس بات کا تعین کیا جا سکتا ہے کہ السر معدہ یا چھوٹی آنت میں ہے۔

السر سے بچاؤ

امراض کے خلاف ہماری غذا ہی بہترین ہتھیار ثابت ہوسکتی ہے۔ اگر ہمیں غذاؤں کے انتخاب اور مناسب استعمال سے آگاہی ہو جائے۔ کچی سبزیاں اور موسمی پھلوں کا بکثرت استعمال معدے کے السر سمیت تمام بیماریوں سے بچاؤ کا بہترین قدرتی طریقہ ہے۔ ہماری غذا میں جس قدر ریشے دار غذائیں شامل ہوں گی، اسی قدر تیزابی مادے کم بنیں گے، السر پیدا ہونے کی سب سے بڑی وجہ تیزابیت بنتی ہے۔ جب معدے میں تیزابی مادے ہی نہیں بنیں گے تو السر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اسی طرح خالی پیٹ تیز قدموں کی سیر اور ورزش کو معمول میں شامل رکھنا بھی السر کے حملے سے محفوظ بناتا ہے۔

کھانے کے ساتھ کولڈ ڈرنکس پینے کی عادت ترک کردینے سے بھی السر کے خطرات کم ہوجاتے ہیں۔ گوشت پکاتے وقت سبزی شامل کر لینے سے بھی کئی ایک معدے کے مسائل سے تحفظ ملتا ہے۔سرخ مرچ،تیز مسالے،تلی اور بھنی ہوئی غذاؤں سے بھی گریز السر کی شکایت سے محفوظ بناتا ہے۔ بغیر کسی خاص مسئلے کے دافع درد ادویات کے استعمال سے بھی بچنا چاہیے۔ کیونکہ جسمانی درد کی دوائیاں خاص کرNSAIDs گروپ کے مبینہ مسلسل استعمال سے نہ صرف معدے اور انتڑیوں کا السر پیدا ہوتا ہے بلکہ جگر اور گردوں کو  مبینہ طور پرناکارہ بھی یہی ادویات بناتی ہیں۔ دافع  درد کی ادویات کا استعمال اگر  ناگزیر ہوں تو ماہر معالج کے مشورہ سے متبادل دوائیاں استعمال کریں۔

H.Pylori جراثیم معدہ کی بیماریوں خصوصی طور پر السر کی ایک اہم ترین وجہ ہے غیر معیاری بازاری کھانوں سے پرہیز کیا جائے اور صاف تازہ پانی کا استعمال کیا جائے۔ جتنا ممکن ہوسکے چائے ،سگریٹ اور شراب نوشی سے پرہیز کریں۔ اگر عادت سے مجبور ہوں تو خالی پیٹ چائے یا سگریٹ پینے سے اجتناب کیا جائے۔ تیز سرخ مرچ مسالے دار مرغن کھانے اور آلودہ پانی کے استعمال سے اجتناب کریں۔ اگر معدے میں تیزابی مادے بڑھ جائیں تو فوری جلاب آور ادویات کا استعمال کر کے معدے اور انتڑیوں کو فاسد مادوں سے پاک کریں۔

کھانا بھوک رکھ کر کھائیں، رات کا کھانا سونے سے 2 سے3گھنٹے پہلے کھائیں۔ موسمی پھل، پھلوں کے جوسز اور سبزیاں  قدرے زیادہ استعمال کریں۔کچی سبزیاں کھیرا ، ٹماٹر، پیاز، بند گوبھی، مولی، گاجر اور سلاد کے پتے بطور سلاد دوپہر کے کھانے میں لازمی شامل کریں۔ ناشتے میں جو اور گندم کا دلیہ شامل کرنا بھی معدے کے کئی ایک مسائل سے بچاتا ہے۔گنے کی گنڈیریاں، قدرتی مشروبات جیسے صندل، الائچی، عناب، آلو بخارا وغیرہ کا استعمال بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔

تفکرات، اداسی، ٹینشن، سٹریس اور ڈپریشن سے بھی معدے میں تیزابی مادوں میں اضافہ ہوتا ہے اور نتیجتاََ السر پید اہوکر زندگی کو اجیرن بنادیتا ہے۔ لہذا روز مرہ کی زندگی میں فکر ، پریشانی ، ٹینشن اور فضول سوچنے کے طرز عمل اور اداس رہنے سے گریز کر یں۔ہم امید کرتے ہیں کہ آپ ہماری معروضات کو اپنا کر مثالی صحت کا حصول ممکن بنائیں گے۔

The post معدہ کا السر، وجوہات اور احتیاطی تدابیر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3dnhQbX
via IFTTT

نکسیر کی وجوہات اور اس کا علاج ایکسپریس اردو

نکسیر ناک سے خون کے بہنے کی ایک کیفیت کا نام ہے۔ یہ گرم علاقوں کا ایک عام مرض ہے۔

اس مرض میں ناک کی باریک اور چھوٹی نالیوں پر دباؤ بڑھ جانے سے اوپر والی جھلی پھٹ جاتی ہے اور خون بہنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ خون کبھی قطروں کبھی دھار کی صورت میں بہتا ہے۔ موسم گرما میں یہ تکلیف زیادہ ہوتی ہے تاہم موسم سرما میں بھی ہو جاتی ہے۔

عام طور پر چھوٹی عمر کے بچے اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ یہ بذات خود کوئی بیماری نہیں بلکہ دیگر کئی ایک بیماریوں میں سے کسی ایک بیماری کے ہونے کی علامت ہے۔ ناک کی کچھ ایسی بیماریاں بھی ہیں جن کی وجہ سے ناک سے خون جاری ہو سکتا ہے۔

(1)۔ جن میں ناک کے اندر لگنے والا زخم یا کوئی بیرونی چوٹ۔(2)۔کوئی باہر سے گھسی ہوئی شے۔ (3)۔ ناک کی رسولیاں یا ۔۔۔ (4)۔ ناک کی پرتوں میں کیڑے پڑ جانا۔ (5)۔ خناق۔ (6)۔ چیچک یا خسرہ جیسی خطرناک بیماریاں اور ایسی بیماریاں شامل ہیں جن سے خون کی نالیاں پھیل جاتی ہیں۔ (7)۔ بلڈ پریشر میں زیادتی۔ (8)۔ خون کا سرطان۔ (9)۔ بہت زیادہ بلندی سے چھلانگ لگانے سے یا زیادہ گہرے سمندر کی تہہ میں جانے سے بھی نکسیر جاری ہو جاتی ہے۔

بچوں کی نکسیر پھوٹنے کے حوالے سے عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ نکسیر پھوٹنا یا ناک سے خون بہنے کا سبب گرمی یا بلڈ پریشر ہے۔ طبی نقطہ نظر سے نکسیر پھوٹنے کا سبب بچوں کی ناک کے اندر خون لے جانے والی نسوں کا کمزور پڑ جانا ہے۔ اس عارضے میں مبتلا بچوں کی ناک کی نسیں پھول جاتی ہیں اور ذرا سی ٹھیس سے خون بہنے لگتا ہے۔ تاہم کچھ بچوں کا مرض خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

ناک سے بہتا خون دیکھنا مریض کے لیے اور دیکھنے والوں اور گھر والوں کے لیے بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اکثر اوقات مریض اور گھر والے گھبرا جاتے ہیں اس وقت مریض میں بیماری کی وجوہات تلاش کرنے کے بجائے مریض کے سر پر ٹھنڈا پانی ڈالنا چاہیے۔ اس سے خون رک جاتا ہے اور اگر پھر بھی نہ رکے تو ناک پر برف کے ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھنی چاہئیں۔ اس وقت بجائے گھبرانے کے مریض کو تسلی دینا چاہیے کیونکہ زیادہ خون بہنے سے اچھی سے اچھی صحت کے مالک کا بھی بلڈ پریشر کم ہو سکتا ہے۔ خون رکنے کے بعد مریض کو کوئی ٹھنڈا مشروب گھونٹ گھونٹ پلانا چاہیے۔ آئس کریم کھلانی چاہیے۔

نکسیر گرم علاقوں کا ایک عام مرض ہے لیکن اگر بچوں کو یہ مرض بار بار ہو تو بچے کو کسی اچھے ڈاکٹر کو دکھائیں۔ بچوں کو ان کے مستقبل کے لیے بھی اور ویسے بھی مستقل اور بھرپور علاج کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ مستقبل میں انھیں خون کی کمی یا سانس کا عارضہ لاحق ہونے کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ بچے کی بار بار نکسیر پھوٹنے کی وجہ اس کے سر، گردن یا پھر ناک کا کوئی مسئلہ ہو۔

نکسیر کی وجوہات

سر میں اجتماع خون۔ (2)۔ناک کے اندر مقامی تکلیف۔ (3)۔مردوں میں اکثر نکسیر بواسیری خون کے بند ہونے سے پیدا ہوتی ہے اور نوجوان عورتوں میں حیض نہیں آتا بلکہ نکسیر بہنے لگتی ہے۔ عمر کے بڑے افراد میں خاص طور پر مزاجی حالات کے ماتحت نکسیر کبھی کبھی دورے کی صورت میں ایک خاص عرصے کے بعد پیدا ہوتی رہتی ہے۔ ایسی حالت میں بغیر مناسب علاج کے نکسیر کا بند ہو جانا خطرے کا پیش خیمہ ہے۔

بچوں کی نکسیر پھوٹنے کے اسباب میں سر یا ناک پر چوٹ لگنا یا فریکچر بھی ہو سکتا ہے۔ بچوں کی عادت ہوتی ہے وہ بار بار ناک میں انگلی ڈالتے ہیں جس کے باعث ناک میں زخم اور سوجن آ جاتی ہے۔ اکثر سانس کی تکالیف میں مبتلا بچوں کو ناک میں کیے جانے والے اسپرے کے باعث ناک میں جلن اور سوزش ہوتی ہے، بچے ناک کو رگڑتے ہیں جس سے رگیں یا نسیں متاثر ہوتی ہیں اور ناک سے خون بہنے لگتا ہے۔ نکسیر پھوٹنے کی ایک وجہ ناک کی ہڈی میں کوئی مسئلہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ الرجی سے بھی بچوں کی ناک میں انفیکشن ہو جاتا ہے۔

بڑی عمر کے افراد میں نکسیر کی وجہ ہائی بلڈ پریشر کا مرض ہو سکتا ہے۔ نکسیر کا پھوٹنا اچھی بات نہیں ہے۔ اس سے کمزوری لاحق ہو جاتی ہے۔ نکسیر عموماً ناک کے اندر ورم وغیرہ سے ہوتی ہے۔ بعض دفعہ حرارت جگر اور وبائی بخار اور بچوں میں پیٹ کے کیڑے بھی اس کا سبب ہوتے ہیں۔ جب نکسیر پھوٹنے والی ہوتی ہے تو سر میں گرمی اور خشکی معلوم ہوتی ہے ناک نتھنوں میں، حلق میں سوزش اور گرمی اور خشکی معلوم ہوتی ہے اور بعض دفعہ خارش محسوس ہوتی ہے۔

کمزور بچوں میں پیٹ میں کیڑے پڑ جانے سے ہو تو بچہ بار بار ناک نوچتا ہے ۔ بعض اوقات دھوپ میں چلنے سے پان چباتے ناک کو کھجانے، چھینک آنے یا روز سے کھنکھارنے سے فوراً نکسیر پھوٹ پڑتی ہے۔ بعض دفعہ بغیر کسی حرکت کے ناک میں سوزش ہو کر نکسیر جاری ہو جاتی ہے اور ناک سے خون بہنے لگتا ہے اور بعض دفعہ بلڈشوگر ہونے کی وجہ سے بھی نکسیر پھوٹ پڑتی ہے۔

نکسیر پھوٹنے سے بچاؤ اور علاج

(1)۔ بچے کے دونوں ہاتھ اور سر کو اوپر اٹھائیں۔  (2)۔ سر، گردن اور منہ پر سادے یا ٹھنڈے پانی کے چھینٹے ماریں اور پیشانی پر پانی ڈالیں۔ (3)۔ بچے کو سادے پانی میں ذرا سا نمک گھول کر پلائیں، سر کو اونچا کرکے 10 سے 15 منٹ کے لیے لپیٹ دیں۔ (4)۔چھوٹے بچے جو اسکول جاتے ہیں وہ سر پر گیلا کپڑا رکھیں۔ (5)۔ ناک کے ساتھ زیادہ چھیڑ خانی نہ کریں۔ خیال رکھا جائے کہ بچہ بار بار ناک میں انگلی نہ ڈالے۔ بعض بچوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بار بار ناک میں انگلی ڈالتے ہیں۔(6)۔گرمی کے دنوں میں دوپہر میں نہیں بلکہ صبح و شام ٹھنڈے وقت میں باہر نکلیں۔ (7)۔گرم اشیا کا زیادہ استعمال نہ کریں (مچھلی، گائے کا گوشت وغیرہ)  نکسیر پھوٹنے کی صورت میں انگلی اور شہادت کی انگلی سے ناک کے نتھنوں کو دونوں طرف سے کچھ دیر تک دبا کر بند کردیں۔ سر اور ماتھے پر برف رکھیں موسم گرما میں ٹھنڈے مشروبات پئیں۔ چھینک آنے کی صورت میں منہ کھول کر چھینکیں تاکہ ناک پر زیادہ زور نہ پڑے۔

دیسی علاج

نکسیر پھوٹنے کے فوراً بعد نیم کے پتے یا اجوائن پیس کر سر میں لگانا بھی خاصا مفید ثابت ہوتا ہے۔ رس دار پھل، دودھ، دہی اور پانی والی ٹھنڈی ترکاریاں جیسے لوکی، شلجم اور مولی وغیرہ کھائیں۔

نسخہ الشفا

ملتانی مٹی 12 گرام، برادہ صندل 3گرام، دھنیا خشک 3 گرام، کافور 1گرام۔

تمام ادویات کو عرق گلاب میں نہایت باریک پیس کر محفوظ کرلیں۔

استعمال: تالو کے مقام سے بالوں کو دور کرکے لیپ کریں اور کھدر کے کپڑے کی گدی رکھ دیں اور اس پر تھوڑی تھوڑی دیر میں پانی ڈالتے رہیں۔

روئی سے نتھنوں کو بند کردیں۔

ہومیو پیتھک ادویات

(1)۔نیٹرم نائیٹریلمNat Rum Nat

(2)۔ملی فولیم       Mille Folium

(3)۔فیرم فاس     Ferrum Phos 6x

(4)۔امبروسا       Ambrosa

(نوٹ) اگر زیادہ نکسیر آنے کی وجہ سے کمزوری ہو جائے تو Chinaچائنا۔

تمام دوائیں ڈاکٹر کے مشورے سے استعمال کریں۔n

The post نکسیر کی وجوہات اور اس کا علاج appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2PoU0of
via IFTTT

ایم کیو ایم کا یومِ تاسیس ایکسپریس اردو

ایم کیو ایم کے37سال مسلسل جدوجہد، اتحادیوں کی تبدیلی اور دہشت گردی کے الزامات سے پر ہے۔

قائد تحریک 31 سال تک جلاوطن رہنے کے باوجود مقبول رہنما رہے، اب وہ ماضی کی سرگرمیوں پر معذرت خواہ ہیں ، اسٹیبلشمنٹ انھیں معافی دینے کو تیار نہیں۔ ایم کیو ایم کا ایک دھڑا پی ایس پی جس کی قیادت مصطفی کمال کررہے ہیں وہ کراچی اور حیدرآباد فتح کرنے کے بعد کوئٹہ کو فتح کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔

ایک اور دھڑا ایم کیو ایم بحالی کمیٹی کے نام سے سینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں قائم ہے اور انھوں نے پی آئی بی میں اپنے گھر کے سامنے ایک جلسہ برپا کیا تھا۔ ایم کیو ایم پاکستان جس کی  قیادت ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کررہے ہیںسب سے بڑا دھڑا ہے۔

اس کے اراکین قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلی میں نمائندگی کرتے ہیں ۔ ایم کیو ایم پاکستان نے اپنے 37ویں یوم تاسیس کے موقع پر نشتر پارک میں ایک جلسہ کیا مگر 31 سال قبل ایم کیو ایم کے آغاز کے موقع پر ہونے والے جلسہ کے مقابلے  میں یہ خاصا چھوٹا جلسہ تھا۔ اس جلسہ میں مقررین نے کہا کہ جنرل یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑتے وقت کراچی کو صوبہ بنانے کا عندیہ دیا تھا مگر ہمارے بزرگ سندھ میں شامل رہنے کی تجویز کے حامیہوئے مگر اب حالات اتنے خراب ہیں کہ شہر ی صوبہ ضروری ہے۔ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر مردم شماری کرائے۔

گزشتہ مردم شماری میں کراچی، حیدرآباد اور شہری علاقوں کی آبادی کم ریکارڈ کی گئی اور نئی مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ  بندیاں کی جائیں۔ معروف سیاسی رہنما محترمہ کشور زہرا نے کہا کہ کارکنوں کی گرفتاریاں جاری ہیں۔ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے فاصلے کیسے کم ہونگے دوسری طرف کارکنوں کو گرفتارکیا جاتا ہے۔ ایک مقرر نے کہا کہ سندھو دیش اور پاکستان نہ کھپے کا نعرہ لگانے والوں پر لعنت بھیجتے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر کمالی نے کہا کہ مہاجروں سے زیادہ محب وطن پاکستانی اس خطے میں کوئی نہیں ہے۔

ایم کیو ایم تحریک انصاف کی اتحادی ہے مگر ایم کیو ایم کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے یکساں شکایتیں ہیں۔ 2017ء کی مردم شماری کو پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم اور سندھ کی قوم پرست جماعتوں نے مسترد کیا تھا۔ جب تحریک انصاف کی وفاق میں حکومت قائم ہوئی تو سندھ کی حکومت نے مشترکہ مفاد کونسل میں مردم شماری کے عبوری نتائج پر اعتراضات کیے تھے اور یہ طے پایا تھا کہ مردم شماری کے حتمی نتائج مرتب کرنے سے پہلے کراچی میں محدود پیمانہ پر پائلٹ مردم شماری کی جائے گی، جب ایم کیو ایم نے پاکستان تحریک انصاف سے اتحاد کیا تھا تو عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ مردم شماری کے نتائج کی تصدیق کے لیے پائلٹ مردم شماری ہوگی۔

ایک طرف وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی حکومت سے کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کیا۔ دوسری طرف مردم شماری کے حتمی نتائج جاری نہیں کیے، جب سپریم کورٹ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا مقدمہ سماعت کے لیے آیا تو سندھ کی حکومت نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ مردم شماری کے حتمی نتائج کے اجراء کے بغیر بلدیاتی انتخابات کے لیے حد بندیاں ممکن نہیں ہیں مگر 4 سال گزرنے کے باوجود حتمی نتائج کا اجراء نہ ہوا، یوں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی التواء کا شکار ہے۔

ایم کیو ایم کے دفاترکی بحالی اور کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل، سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے اور مہینہ دو مہینے بعد ایم کیو ایم کے کارکنوں کی گرفتاریوں کا معاملہ وفاق سے متعلق ہے اور وزیر اعظم عمران خان اس صورتحال کے ذمے دار ہیں۔ گزشتہ ماہ جب قومی اسمبلی میں اسلام آباد کی نشست کے لیے انتخابات کا وقت آیا ، پھر سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا انتخاب منعقد ہونے لگا تو تحریک انصاف کی حکومت  بڑے بحران کا شکار تھی مگر ایم کیو ایم نے یہ موقع ضایع کیا اور ایک وزارت لے کر نامعلوم وجوہات کی بناء پر تحریک انصاف کی حکومت پر اعتماد کا اظہارکردیا۔

ایم کیو ایم کا شہری صوبہ کا نعرہ اگرچہ بہت سی محرومیوں کا مظہر ہے اور ان محرومیوں کا براہِ راست تعلق پیپلز پارٹی کے 12سالہ طویل اقتدار سے ہے مگر پیپلز پارٹی کے 12 سال بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کے تناظر میں قانون سازی کے حوالے  سے بہترین سال ہیں البتہ اچھی طرزِ حکومت اور سندھ کے شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے اعتبار سے بدترین سال ہیں۔

پیپلز پارٹی کی حکومت نچلی سطح کے بلدیاتی اداروں کے خلاف ہے اور سندھ میں ایسا بلدیاتی نظام قائم ہے کہ اس نظام کے نتیجہ میں شہر اورگاؤں مغلوں کے دور میں چلے گئے ہیں۔ ہر شہر میں کوڑے کے ٹیلے ہیں اور سیورج کا پانی مستقل سڑکوں اور گلیوں میں جمع رہتا ہے اور ہر شہرگاؤں میں آوارہ کتوں کی بھرمار ہے، یوں شہری ایک غیر انسانی ماحول سے تنگ ہے۔

کراچی اور حیدرآباد کے ساتھ  امتیازی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ ان شہروں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے دروازے بند ہیں۔ ہر ضلع میں ایک سے 15 گریڈ کی آسامیاں قانونی طور پر اس ضلع کے ڈومیسائل رکھنے والے افراد کے لیے مختص ہوتی ہیں مگر یہ آسامیاں ان ہی اضلاع کے لیے مختص فنڈز کو دیگر اضلاع میں غیر قانونی طور پر منتقل کرنا معمول بن گیا ہے۔

سندھ پبلک سروس کمیشن کی ساکھ ختم ہوچکی ہے۔ اگرچہ ایک وقت تھا کہ دیہی علاقوں کی پسماندگی کی بنیاد پر شہری اور دیہی کوٹہ ضروری تھا مگر پیپلز پارٹی نے 12 سال کے دوران ہر سال گاؤں اور شہر میں اسکول  و کالجوں کا جال بچھایا۔ اب اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے لائق افراد سپیریئر سروس کے امتحانات میں زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔ ان میں ذہین خواتین کی تعداد میں بھی خاطرخواہ اضافے ہوا ہے تو پھر اس پر بحث کی ضرورت ہے کہ سندھ کے کون سے علاقے زیادہ پسماندہ ہیں اور 12 برسوں میں ان علاقوں کے لیے مختص کیے گئے فنڈز کہاں خرچ ہوئے ، یوں کوٹہ سسٹم کی ضرورت اور اس کے نفاذ کی وجوہات سامنے آئیں گی۔

لوگ کہتے ہیں کہ صرف ملازمتوں میں نہیں بلکہ تقرریوں میں شہری علاقوں کے افسروں سے بھی امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حیدرآباد میں یونیورسٹی کے قیام کو 12 سال کیوں لگے اور لیاری کی طرح ایک گنجان پسماندہ بڑی آبادی اورنگی ٹاؤن میں کب یونیورسٹی قائم ہوگی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 12 سال میں کراچی اور حیدرآباد وغیرہ میں ماس ٹرانزٹ پروگرام کیوں نہیں شروع کیا گیا اور لاہور ماس ٹرانزٹ پروگرام میں کراچی سے آگے کیوں نکل گیا؟

ایک حقیقت یہ ہے کہ کراچی کو اسلام آباد نے ہمیشہ استعمال کیا اور برسوں ایم کیو ایم اسلام آباد کی مقتدرہ کے بنائے ہوئے راستہ پر چلتی رہی۔ اسلام آباد نے ایم کیو ایم کو جمہوری حکومتوں کے اقتدارکو سبوتاژ کرنے میں استعمال کیا۔ تمام تر اختلافات اور امتیازی سلوک کی شکایات کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ سندھی بولنے والے ہی اردو بولنے والوں کے فطری اتحادی ہیں اور ان سے اتحاد سے ہی حقوق حاصل ہوسکتے ہیں۔

ایم کیو ایم کے قائد ین کو علیحدہ صوبہ کے مضمرات کو محسوس کرنا چاہیے اور گزشتہ 72 برس کے دوران ملک کے مختلف علاقوں سے کراچی ہجرت کرنے والی برادریوں کی آبادی کے پھیلاؤ کو محسوس کرنا چاہیے۔ شہری صوبے کے مطالبہ کا مطلب ایک طرف سندھ میں نئے تضادات پیدا ہونا ہے تو دوسرا ایم کیو ایم جن لوگوں کے لیے صوبہ بنانا چاہتی ہے ان کے اقلیت میں جانے کے امکانات زیادہ ہیں۔ پیپلز پارٹی کو اب نچلی سطح کے اختیارکے بلدیاتی نظام کو نافذ کرنا چاہیے اور شہری علاقوں کے لوگوں کی شکایات کے تدارک کے لیے سوچ بچارکرنی چاہیے، ورنہ سندھ تضادات کا شکار رہے گا اور سب کے حصہ میں بربادی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔

The post ایم کیو ایم کا یومِ تاسیس appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3dlDHk5
via IFTTT

اس نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے ایکسپریس اردو

جس دنیا کا نظام انصاف پر مبنی نہ ہو وہ دنیا نفرتوں اور بے چینیوں کا اکھاڑہ بنی رہتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ اپنی ضرورتوں سے زیادہ دولت رکھتے ہیں،کیا وہ ملک اور قوم کے مجرم نہیں ہیں؟

المیہ یہ ہے کہ اس ناانصافی کا محافظ قانون اور انصاف ہوتا ہے کیونکہ یہ قانون ہی ہے جو نجی ملکیت کی حفاظت کرتا ہے ایسے معاشرے جن میں لامحدود نجی ملکیت کو قانون کا تحفظ حاصل ہوکبھی مطمئن نہیں ہوتے۔

ایک نفرت وہ ہوتی ہے جو نظر آتی ہے دوسری نفرت وہ ہوتی ہے جو نظر نہیں آتی صرف دلوں اور دماغوں میں کھولتی رہتی ہے قانون اور انصاف چونکہ اس نفرت کو باہر آنے نہیں دیتا اس لیے وہ اندر ہی اندرکھولتی رہتی ہے اور جب یہ نفرت خوف سے آزاد ہوکر سڑکوں پر آتی ہے تو کہیں انقلاب فرانس بن جاتی ہے ،کہیں انقلاب روس بن جاتی ہے۔

وہ ملک جہاں معاشی ناانصافیاں عام ہوتی ہیں ، ان ملکوں کے عوام کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ بصورت آتش فشاں موجود ہوتے ہیں اور جب وہ اپنے اندر پکتے اور بھڑکتے لاوے کو باہر آنے سے روکنے کے قابل نہیں ہوتے تو ان کے اندرکا آتش فشاں پھٹ پڑتا ہے اور اس کے پھیلاؤکی راہ میں رکاوٹ بننے والی ہر چیز کو جلا کر خاک کردیتا ہے۔

یہ بات تو سب کہتے ہیں کہ غریب لوگوں کی زندگی بہت دشوار ہوگئی ہے ، دو وقت کی روٹی حاصل کرنا عام آدمی کے لیے دشوار ہے لیکن اس قسم کی باتیں کرنے سے نہ غربت دور ہو سکتی ہے نہ عام آدمی کو دو وقت کی روٹی میسر آ سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں میں دو وقت کی روٹی کا مسئلہ کیسے حل ہو؟ انسانی حقوق میں زندہ رہنے کے حق کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ زندہ رہنے کے لیے جو چیزیں درکار ہیں کیا انسان کو میسر ہیں؟ مثلاً غذا،پانی، رہائش وغیرہ، کیا انسان اپنی یہ بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے قابل ہے، اگر نہیں ہے توکیوں؟

ہمارے سرمایہ دارانہ نظام میں سب سے بڑا مسئلہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے پیسہ چاہیے اور پیسہ عام انسان کی پہنچ سے بہت دور ہے۔ کیوں؟ اس سوال کا یہ واضح جواب ہے کہ دولت کی تقسیم غیر مساویانہ ہے عام آدمی کی آمدنی لگی بندھی اور اس کی ضروریات سے کم ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دولت نہیں ہے یا اس کی تقسیم غلط ہے۔ دولت بہت ہے لیکن عام آدمی سے دور مٹھی بھر انسانوں کی گرفت میں ہے اور اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ ارتکاز دولت پرکوئی پابندی نہیں ہے، لاکھوں کروڑوں اربوں کی دولت اگر مٹھی بھر اشرافیہ کے ہاتھوں میں مرتکز ہو تو دولت کی منصفانہ تقسیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اس نظام کا ظلم اور المیہ یہ ہوتا ہے کہ عوام کی جائز خواہشات کو دبانے کے لیے ان عوام ہی کو استعمال کیا جاتا ہے جن کے جسموں پر وردی ڈال دی جاتی ہے۔ وردی جو عوامی خوف پر کفن بنی رہتی ہے بدقسمتی یہ ہے کہ اس عوام کے آتش فشاں کو باہر آنے سے روکنے کے لیے عوام کی بے حسی ہی کام آتی ہے۔ عوام کو اس آتش فشاں کی طرف جانے سے روکنے کے لیے فریب استعمال کیا جاتا ہے جو کہیں محترم نظریات کی شکل میں ہوتا ہے تو کہیں خوف کی شکل میں ہوتا ہے اس خوف کی دیوار کو توڑے بغیر انصاف کا حصول ممکن نہیں۔

اس معاشی ناانصافی سے چھٹکارا دلانے میں اہل قلم اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عام سادہ لوح قانون سے خوفزدہ عوام کے دلوں میں جو نفرت ہوتی ہے اسے باہر لانے کے لیے عوام کو حقائق بتانا اور ان کے ذہنوں سے اس خوف کو نکالنا ضروری ہوتا ہے جو قانون کی شکل میں عوام کے اعصاب پر سوار رہتا ہے۔ یہ کام اصولاً سیاستدانوں کا ہوتا ہے لیکن جس دنیا میں سیاستدان خود اس خوف کو مضبوط کرتے ہوں ان ملکوں اور معاشروں میں اہل فکر، اہل علم اور اہل دانش کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اس خوف سے عوام کو نجات دلائیں۔

یہ خوف کسی خاص ملک اور معاشرے میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں پھیلایا گیا ہے کہ عوام مستقل خوفزدگی کے عالم میں رہیں وہ لوگ عوام کا سرمایہ عوام کی امید عوام کا بہتر مستقبل ہیں جو اس خوف کو عوام کے ذہنوں سے مختلف حوالوں سے کھرچتے رہتے ہیں، بدقسمتی یہ ہے کہ ایسی تحریروں کو جس اہتمام کے ساتھ عوام کی خدمت میں پیش کیا جانا چاہیے کہ وہ اسے پڑھنے میں دلچسپی لیں ماضی میں ایسی پارٹیاں ایسی جماعتیں ہوتی تھیں جو اس قسم کی تحریروں کو پڑھنے میں عوام سے تعاون کرتی تھیں اور ان میں اشتیاق پیدا کرتی تھیں، آج کل اشتیاق ایک حرف غلط بن گیا ہے۔

فضول بے کار سرگرمیوں میں وقت ضایع کرکے انقلاب کا نام بدنام کرتی ہیں۔ انقلاب کے لیے ذہنوں میں آگ جلانا پڑتی ہے۔ عالمی میڈیا کہتا ہے کہ ہر سال لاکھوں انسان بھوک سے، بیماری سے،  بے روزگاری سے فوت ہو جاتے ہیں، یہ اس نظام کا  المیہ ہے جس میں ہم رہ رہے ہیں۔ کیا اس نظام کو نہیں بدلا جانا چاہیے جو ظلم اور ناانصافیوں کا مجموعہ ہے اور اس نظام کو بدلنے کی کوشش کرنے والے وہ عظیم انسان ہیں جو آج گوشہ گمنامی میں پڑے ہوئے ہیں۔

The post اس نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3dnnuuz
via IFTTT

پہلے ریاست پھر سیاست ایکسپریس اردو

من حیث القوم ہم ایسے دور سے گزر رہے ہیں‘ جسے پاکستانی تاریخ کا سیاہ ترین دور قرار دیاجائے تو یہ غلط نہ ہوگا کیونکہ آج سے پہلے ایسا دور کبھی دیکھا نہ سنا، آج سے پہلے کبھی ایسے حکمران ملک و قوم پر مسلط نہیں کیے گئے جو وبال بن جائیں۔

عنان اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھ تھما دی گئی ہے جنھیں رستے کا پتا ہے نہ منزل کی خبر، حکومت کاایسا کون سا کام ہے جو ملک و قوم کے لیے اطمینان کا باعث بن سکا ہو، ایسا کون سا شعبہ ہے جو حکومتی پالیسیوں سے خوش ہو، کراچی سے لے کر خیبر تک ہر پاکستانی حکومت سے ناخوش ہے۔ یہ ٹیم اس قدر اناڑی ہے کہ انھیں ہر چھ ماہ بعد کھلاڑی بدلنے پڑتے ہیں حالانکہ باربار کھلاڑی بدلنے سے کوئی فائدہ نہیں ہورہا، ہمت کرکے ایک بار کپتان ہی بدل کے دیکھ لیں شاید کوئی تبدیلی محسوس ہوہی جائے۔ حکومتی ٹیم جانتی ہی نہیں کہ اُسے کرنا کیا ہے۔

نہ خوبیٔ انجن نہ کمال ڈرائیور

چلی جا رہی ہے خدا کے سہارے

اب تک تو لانے والے بھی ایگزاسٹ ہوچکے ہوں گے لیکن بیچاروں کے پاس فیس سیونگ کا کوئی راستہ بھی نہیں، کس منہ سے انھیں ہٹایا جایا اور کس منہ سے حقیقی جمہوری قوتوں کو آن بورڈ لیا جائے، صورتحال گمبھیر نہیں، بہت گمبھیر بن چکی ہے۔ حکومتیں بین الاقوامی اداروں سے گفت و شنید کے ذریعے معاملات حل کیا کرتی ہیں کچھ مانا جاتا ہے کچھ منوایا جاتا ہے لیکن یہ دنیا کی واحد حکومت ہوگی جو معاملات طے کرنے کے لیے گفت و شنید کے بجائے لیٹ جانے میں ہی عافیت سمجھتی ہے۔

ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے مانا تو سب کچھ جارہا ہے لیکن کچھ منوانے کی جسارت ہی نہیں کی جاتی، یہی وجہ ہے کہ ہر بار ڈو مور کا مطالبہ ہوتا ہے اور ہم کر  گزرنے کو تیار ہوتے ہیں، حکومت پہلے ایف اے ٹی ایف کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی رہی اب آئی ایم ایف انھیں گول گول گھما رہا ہے۔ جو حکم آتا ہے سر تسلیم خم نظر آتا ہے۔

ہاٹ نیوز تو یہ ہے کہ ہمارا مرکزی بینک یعنی اسٹیٹ بینک آف پاکستان اب ہمارا نہیں ہوگا، حکومت اس بینک کے حوالے سے ایک قانون لانے جارہی ہے جس کے بعد پاکستان کے اس مرکزی بینک پر حکومت پاکستان کا کوئی کنٹرول نہیں ہوگا بلکہ ورلڈ بینک اس کا نظم ونسق چلائے گا، اس بینک پر وہاں سے ہی ایک وائسرائے بٹھایا جائے گا جو سیاہ و سفید کا مالک ہوگا اور بینک کے معاملات چلانے میں پورا اختیار رکھتا ہوگا۔

2018 کے انتخابات میں جو کچھ ہوا اس پر سب سے زیادہ ردعمل مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے آیا اور ان کا ردعمل جو پہلے دن تھا اس کا لیول آج بھی اسی جگہ برقرار ہے، اس میں رائی کے دانے کے برابر بھی فرق نظر نہیں آرہا، کہیں کوئی لچک دکھائی نہیں دے رہی، اس الیکشن کے بعد اسی سال 14اگست کے موقعے پر مولانا نے بڑا عجیب اعلان کیا تھااس اعلان میں انھوں نے کہا تھا کہ اس سال ہم جشن آزادی نہیں بلکہ جدوجہد آزادی منائیں گے، بیگانے تو بیگانے اپنوں نے اس بیان پر مولانا پر تنقید کے نشتر چلا دیے لیکن اس ملک میں اڑھائی سال تک جو کچھ ہوتا رہا اور اب ملک کے مرکزی بینک یعنی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ساتھ جو کچھ ہونے جارہا ہے اس نے مولانا فضل الرحمٰن کے موقف کی تائید کردی ہے۔

بلی تھیلے سے باہر آچکی ہے، جس حکومت کو نالائقی اور نا اہلی کے طعنے دیتے رہے وہ تو کسی ایجنڈے پر کام کرتی نظر آرہی ہے۔ پہلے ایف اے ٹی ایف کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے مدارس و مساجد کے نیٹ ورک پر شب خون مارا گیا اور ایک متنازع قانون ’’وقف پراپرٹیز ایکٹ 2020‘‘ کے نام سے پاس کرایا گیا بلکہ اب تو اس پر عملدرآمد کی خبریں بھی آنا شروع ہوچکی ہیں، یہ قانون مدارس و مساجد کی خود مختاری پر کھلا حملہ ہے جس کی تفصیل ہم ایک کالم میں بیان کرچکے ہیں اور اب آئی ایم ایف کے ایما پر ناصرف ایسی معاشی پالیسیاں اپنائی جارہی ہیں جو ملکی معیشت کے لیے زہرقاتل ہیں۔

رہی سہی کسر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کی جھولی میں ڈال کر پوری کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان مجوزہ ترمیمی ایکٹ 2021 کا مسودہ وفاقی حکومت منظور کر چکی ہے، اب اسے قومی اسمبلی اور سینیٹ آف پاکستان سے منظور کرانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حکومتی اتحاد کے پاس کیا عددی برتری ہے یہ تو پوری قوم سینیٹ الیکشن میں دیکھ چکی اس لیے ممکن ہے یہ بل منظور کرانے کے لیے ایسا ہی کھیل کھیلا جائے جیسا صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنوانے کے لیے کھیلا گیا تھا، یہ پارلیمنٹ میں موجود سیاسی قوتوں کا بڑا امتحان ہے جس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں۔ اس مجوزہ ترمیمی ایکٹ کے چیدہ چیدہ نکات قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔

اسٹیٹ بینک کے گورنر و وفاقی وزیرخزانہ کے مشورے سے تین نائب گورنروں کا تقرر کرینگے یعنی یہ تقرر ان دوافراد کی صوابدید پر ہوگا اور نائب گورنروں کی معزولی و برطرفی کے جملہ حقوق گورنر و وفاقی وزیر خزانہ کے ہاتھ میں ہونگے۔ اسٹیٹ بینک کے ملازمین صرف اور صرف گورنر کوجوابدہ ہوں گے۔

نیب، ایف آئی اے اور دوسرے تحقیقاتی ادارے اسٹیٹ بینک کے گورنر، ڈپٹی گورنرز اور سینئر منیجرز کی تحقیقات نہیں کرسکیں گے اور یہ لوگ وفاقی حکومت کو بھی جوابدہ نہیں ہوں گے۔ اسٹیٹ بینک کے اہلکاروں پر سرکاری ملازمین کے قوانین کا اطلاق نہیں ہوگا اور گورنر اسٹیٹ بینک کو تمام قانونی کارروائیوں سے مکمل استثنیٰ حاصل ہوگا۔ ملک کی مالیاتی منصوبہ بندی، ٹیکس شرح، محصولات وغیرہ کا تعین گورنر اسٹیٹ بینک اور وفاقی وزیر خزانہ باہمی مشورے سے کریں گے۔ تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں کا تعین بھی یہی دو شخصیات کریں گی۔ اے جی پی یا کوئی اور ادارہ اسٹیٹ بینک کے حسابات کا آڈٹ نہیں کرسکے گا۔ گورنر، وزیرخزانہ کے مشورے سے انٹرنل آڈیٹر کا تقرر کرے گا۔

اس ملک میں اسٹیٹ بینک کے حوالے سے یہ وہ قانون بننے جارہا ہے جس پر ملک کے بڑے بڑے ماہرین اقتصادیات ناصرف حیران ہیں بلکہ تشویش میں بھی مبتلا ہیں کیونکہ خدا نخواستہ اسٹیٹ بینک ترمیمی آرڈیننس منظور ہوگیا تو اس ملک میں ایک معاشی بھونچال آئے گا ، ملک کے تمام وسائل اسٹیٹ بینک کے ہاتھ میں چلے جائیں گے۔

ریاست کے پاس سرکاری ملازمین کی تنخواہیں اور پنشن دینے کے بھی پیسے نہیں ہوں گے، کیونکہ ترجیح قرضوں کی ادائیگی ہوگی۔ جب نئے قرض لے کر پرانے قرضوں کی ادائیگی ہوگی تو قرض کا بوجھ مزید بڑھتا چلا جائے گا اب تک اڑھائی برسوں میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا اور ہورہا ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے اکانومسٹ کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ حکومت کی مالیاتی بے بسی سے ریاست مفلوج ہوسکتی ہے ۔ سلطنت عثمانیہ میں ایسا ہی ہوا تھا کہ قومی دولت کا کنٹرول مرکزی بینک کے پاس تھا اور جنگ کے دوران بینک نے حکومت کو لڑنے کے لیے پیسے دینے سے انکار کردیا جس کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ ٹوٹ گئی۔

یہ ہیں وہ حالات جو چیخ چیخ کر نوشتہ دیوار بنے ہوئے ہیں، ملک ایک بڑی تباہی کی طرف دھکیلا جارہا ہے، سیاسی جماعتوں کو اس امتحان کے لیے کیا تیاری کرنی ہے اس پر بات کرتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب اس ملک کی محب وطن حلقوں کو اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر آگے بڑھنا چاہیے اور اس قانون کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانا چاہیے۔

اس مقصد کے لیے پی ڈی ایم کا پلیٹ فارم موثر ثابت ہوسکتا ہے۔ اس پلیٹ فارم کوایک منظم سازش کے تحت کمزور کرنے کی کوشش کی گئی، اسی اتحاد میں شامل کچھ مہرے استعمال ہوئے لیکن پاکستان کو جو حالات درپیش ہیں ان کا تقاضا ہے کہ کچھ وقت کے لیے سیاسی اختلافات کو بھلا کر ملک بچانے کے لیے سرجوڑ کربیٹھا جائے۔ یہ بات سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ یہ ملک ہے تو سب کچھ ہے خدانخواستہ اسے کچھ ہوا تو کوئی نہیں بچے گا۔

اس لیے پہلے ریاست پھر سیاست کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے تمام سیاسی قوتیں پاکستان کی سلامتی اور جمہوریت کی بقا کے لیے صف بندی کریں یا پہلے مرحلے میں معاشی غلامی اور اگلے مرحلے میں سیاسی طور پر مٹ جانے کے لیے تیار ہو جائیں۔

The post پہلے ریاست پھر سیاست appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3ucW69C
via IFTTT

خطہ میں امن کی بحالی ، مثبت پیش رفت ایکسپریس اردو

وزیراعظم عمران خان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو جوابی خط لکھا ہے ، خط کے مندرجات کچھ یوں ہیں کہ پاکستان کی حکومت اور عوام ،بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے پرامن اور تعاون پر مبنی تعلقات چاہتے ہیں ، جنوبی ایشیا میں دیرپا امن واستحکام کے لیے جموں وکشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب تنازعات کا حل ہونا ضروری ہے ، جب کہ تعمیری اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ضروری ہے ۔

گزشتہ ہفتے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ ’’پڑوسی ملک کے طور پر بھارت، پاکستانی عوام سے خوشگوار تعلقات کا خواہش مند ہے جس کے لیے اعتماد پر مبنی، دہشت گردی اور دشمنی سے پاک ماحول ضروری ہے‘‘ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے خطوط کے متن کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات اخذ کرنے میں قطعاً دشواری نہیںہوگی کہ پاکستان بھارت تعلقات پرجمی برف پگھلانے کی کوشش شروع ہوچکی ہے ، بلاشبہ یہ اقدام، خطے میں امن کی بحالی کی طرف مثبت اور خوش آیند اقدام قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اس موقعے پر ہم توقع کرتے ہیں کہ عالمی برداری بھی تعمیری روش اپنائے گی، تاکہ نہ صرف جنوبی ایشیائی خطہ بلکہ پوری دنیا امن کا گہوارہ بن سکے۔

یہ بات تو واضح ہے کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ آزاد ممالک کی طرح برابری کی بنیاد پر دوستی و تعاون کے ایسے معاہدوں کے لیے تیار ہے ،جیسا کہ دیگر اقوام کے ساتھ کیے جا سکتے ہیں، لیکن بات یہ ہے کہ پہلے بھارت اپنی سوچ میں مثبت تبدیلی لائے، حل طلب مسائل کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھے،تاریخ کے ورق پلٹیں ،تویہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ ہی سے اتار چڑھاؤکا شکار رہے ہیں،مختلف واقعات کے رونما ہونے سے تعلقات پر بہت اثر پڑا ہے۔

آزادی کے وقت سے ہی دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے اچھے تعلقات استوار رکھنے کا عزم ظاہر کیا تھا مگر ہندو مسلم فسادات اور علاقائی تنازعات کی وجہ سے دونوں ممالک میں کبھی اچھے تعلقات دیکھنے کو نہیں ملے۔آزادی کے بعد سے اب تک دونوں ممالک کے درمیان چار بڑی جنگیں جب کہ بہت سی سرحدی جھڑپیںہوچکی ہیں۔ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کو سنگین مسائل درپیش ہیں لیکن یہ دونوں ملکوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے عوام بالخصوص مستقبل کی نسلوں کے لیے اِن تمام مسائل جن میں مسئلہ جموں و کشمیر کے علاوہ سیاچن و سر کریک شامل ہیں پر خصوصی توجہ کریں اوراِنہیں بات چیت کے ذریعے حل کریں۔

وزیراعظم عمران خان کی تجویز قائداعظم محمد علی جناح کی فکر کے عین مطابق ہے، قیام پاکستان کے بعد بانی پاکستان نے رائٹر کے نمایندے ڈنکن ہوپر کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کر دیا تھا کہ پاکستان ایک الگ وطن کی شناخت سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا اور نہ ہی کسی بھی شکل میں بھارت کے ساتھ کسی دستوری اشتراک کو قبول کرے گا۔  وزیراعظم کے جوابی خط کے مندرجات ہر پیمانے سے اقوام متحدہ کے چارٹر پر پورا اُترتے ہیں۔

دراصل بھارت کی طرح پاکستان بھی اب ایک موثر ایٹمی طاقت ہے البتہ بھارت کے توسیع پسندانہ ایٹمی عزائم کے سامنے پاکستان کا ایٹمی پروگرام خطے میں پُرامن بقائے باہمی کے حوالے سے ہی سامنے آیا تھا تاکہ خطے میں جنگ کے بجائے دونوں ملکوں میں پُرامن تہذیبی توازن کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق استوار کیا جائے لیکن بھارت خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے بدستور متحرک ہے جب کہ وزیراعظم عمران خان کا خط دونوں ممالک کی خود مختاری، سرحدوں کے احترام اور علاقائی و بین الاقوامی مسائل جن میں مسئلہ کشمیر کو بنیادی حیثیت حاصل ہے کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق بات چیت سے حل کرنے کی غمازی کرتا ہے۔

اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر ایک حل طلب مسئلہ ہے جو آج بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے کا حصہ ہے جہاں بھارتی افواج کشمیریوں پر ظلم و ستم اور کشمیری خواتین و نوجوان طلبا و طالبات پر بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں مصروف ہیں۔بھارت کی اس پالیسی کی بنیاد پر ہی پاکستان کے ساتھ اس کے تنازعات شروع ہوئے جن میں کشمیر کا تنازعہ پاکستان کی سلامتی کو کمزور کرنے کی نیت سے بھارت نے خود کھڑا کیا تھا، جو آج قدیم ترین تنازع کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس مسئلہ کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد تو کجا، بھارت شملہ معاہدہ کے تحت پاکستان کے ساتھ کبھی دوطرفہ مذاکرات کی راہ پر بھی نہیں آیا۔

اس کے برعکس بھارت نے اپنے غیر قانونی قبضہ میں لی گئی وادی جموں و کشمیر کی بابت اٹوٹ انگ کا راگ الاپ کر یہ مسئلہ مزید پیچیدہ بنایا اور پھر پانچ اگست 2019کو اپنے زیر تسلط جموں اور لداخ کو باقاعدہ بھارت میں ضم کر کے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو سنگین خطرات لاحق کیے۔

چند روز قبل ایک تقریب سے اپنے خطاب میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ مستحکم پاک بھارت تعلقات مشرقی اور مغربی ایشیا کو منسلک کرتے ہوئے جنوب اور وسط ایشیا کی صلاحیتیں بروئے کار لانے کی کنجی ہے لیکن یہ صلاحیت دونوں جوہری صلاحیت کے حامل پڑوسی ممالک کے درمیان یرغمال بنی رہی ہے۔ یہ ماضی کو دفن کر کے آگے بڑھنے کا وقت ہے، بامعنی مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی ذمے داری اب بھارت پر عائد ہوتی ہے، ہمارے پڑوسی ملک کو خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں سازگار ماحول بنانا ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان اور پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل باجوہ کی طرف سے پیشکش ایسے وقت میں ہوئی ہے جب دونوں ملکوں کے درمیان ایک نئے امن عمل کی ابتدا ہورہی ہے۔

تعلقات کے جمود کے بعد برف پگھلنے کے واضح آثار نظر آرہے ہیں۔بہتر تعلقات کی کوششیں پہلے بھی متعدد بار ہوتی رہی ہیں، مگر صورتحال جوں کی توں رہی۔ اِس بار بھی امریکا اور چین کی سہولت کاری کے باعث کوششیں شروع ہوچکی ہیں، اس عمل کو شروع کرنے میں امریکا اور چین کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات کا نام بھی سامنے آرہا ہے۔امید کی جانی چاہیے کہ قومی سلامتی مکالمے کو مزید آگے بڑھایا جائے تاکہ اچھے دنوں کے قیام کا خواب اپنی تعبیر حاصل کر سکے۔تین بڑی جنگوں اور کارگل تنازعے نے یہ ثابت کیا ہے کہ تنازعات جنگوں سے حل نہیں ہوتے۔

پاک بھارت بڑھتی کشیدگی نہ صرف دفاعی اخراجات میں اضافے کا سبب بنتی ہے بلکہ غربت، ناخواندگی اور عوام کی محرومیوں میں بھی اضافے کا سبب بنتی ہے جب کہ دونوں ممالک کی ایٹمی ہتھیاروں کی صلاحیت نے تو خطے کو انتہائی حد تک غیر محفوظ بھی کردیا ہے۔پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے خصوصی سفیروں کی تعیناتی،ٹریک ٹو ڈپلومیسی، سارک تنظیم کی وسعت اور تنازعات کے حل کے لیے عالمی طاقتوں کی مدد بھی حاصل کی جانی چاہیے۔ بھارت کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کے مقابلے میں متکبرانہ رویہ ترک کرے اور پاکستان کے لیے فعال اور مثبت پالیسی اختیار کرے۔

پاکستان میں اے پی ایس پشاور جیسے بے شمار واقعات ہوئے ہیں جن میں بھارت کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت ملے ہیں لیکن بھارت کی تان ٹوٹی ہے تو جہاد پر اور اس کی ’’دیدہ بینا‘‘ کھٹکی ہے تو کشمیر میں تحریکِ آزادی کی پاکستان کی جانب سے کی جانے والی اخلاقی حمایت ۔اگر بھارت واقعی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری چاہتا ہے تو تنازعہ کے بنیادی نکتہ کو حل کرنا چاہیے اور وہ نکتہ مسئلہ کشمیر ہے۔بھارت کو اب سمجھنا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر نہ صرف دونوں ملکوں کے لیے بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں تناؤاور کشیدگی کا باعث ہے۔

اس کے علاوہ بھی بعض حل طلب مسائل موجود ہیں، لیکن مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سرحد پر سیز فائر ہونا بہت اہم اور باعث سکون قدم ہے۔اس میں پاکستان کی عسکری قیادت کی کوششیں قابل تحسین ہیں۔ اس سے سرحدکے دونوں طرف رہنے والوں خصوصاً آزاد کشمیر میں سرحدی دیہات کے رہنے والوں کو سکون مل گیا ہے، یہ سیز فائر دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کے قیام کے لیے نقطہ آغاز ہو سکتا ہے لیکن یہ دونوں ملکوں کے درمیان مسائل کے حل تک قائم رہنا نہایت ضروری ہے۔ یقیناً بھارت کو معلوم ہو گا کہ دونوں ملکوں کے لیے تجارت کی کتنی اہمیت ہے۔

بالخصوص بھارت کی معیشت کی بہتری میں پاک بھارت تجارت نہایت اہم اور ضروری ہے۔ اچھے پڑوسی بن کر رہنے میں دونوں ملکوں کے عوام کا بھلا ہے۔بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے نام لکھے گئے خط میں دہشت گردی کا بھی ذکر کیا ہے۔

یہ بھی پاکستان کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے۔ بھارت کو دہشت گردی کے حوالے سے حقائق کو سامنے رکھنا چاہیے۔اب اگر بھارت کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے تو یہ بھی ایک مثبت پیش رفت ہے اور چونکہ ایسی کارروائیاں دوسری طرف سے ہوتی ہیں تو بھارت کو ہی ایسے اقدامات کو روکنا ہو گا۔ اسی طرح اگر بھارت واقعی علاقے میں قیام امن میں سنجیدہ ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات چاہتا ہے تو اس کا عملی مظاہرہ بھی بھارت کو کرکے دکھانا چاہیے۔

دور حاضر میں جنگیں محض میدان جنگ میں نہیں لڑی جاتیں بلکہ اب یہ دائرہ ہمہ جہتی شکل اختیار کر چکا ہے۔ایک جانب اقتصادی،معاشی، معاشرتی اور ماحولیاتی تحفظ بھی اس کی اہم جزئیات میں شامل ہو چکے ہیں تو دوسری طرف سائبر سیکیورٹی،آرٹی فیشل اینٹی جنس، کورونا جیسی مہلک وبائیں اورتیزی سے پگھلتے گلشیئر خطر ے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ موسمی تبدیلیاں ہر شے کو نگلنے کے درپے ہیں اور دنیا تیزی سے ان دیکھے خطرات کی جانب بڑھ رہی ہے۔ایسے میں توقع کی جانی چاہیے کہ پاکستان اور بھارت کی قیادت سیاسی فہم وفراست اور تدبر سے کام لیتے ہوئے خطے کے ڈیڑھ ارب انسانوں کے مستقبل کی خاطر امن کی راہ پر چلے گی ۔

The post خطہ میں امن کی بحالی ، مثبت پیش رفت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3ucOfZu
via IFTTT

Tuesday, March 30, 2021

اپریل کے مہینے میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ تبدیل کیے جانے کا امکان ... وفاقی کابینہ میں رد و بدل کے بعد پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار اور وزیر اعلیٰ ... مزید

”آئندہ 10 سال میں اتنا پیسہ خرچ کریں گے جتنا پچھلے300 سال میں نہیں ہوا“ ... سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے مملکت کو ترقی اور خوشحالی کی بلندیوں پر لے جانے کا اعلان ... مزید

کورونا کیسز روز بروز بڑھنے لگے ، ایک دن میں مزید 4 ہزار757نئے کیسز سامنے آگئے ، 78 اموات ... پاکستان میں عالمی وباء سے اموات کی مجموعی تعداد 14 ہزار434 تک پہنچ گئی ، اس وقت ملک ... مزید

اب پاکستان چینی بھی بھارت سے خریدے گا ... مقبوضہ کشمیر میں انڈیا کے قبضہ کے حوالے سے کچھ نہیں ہو امگر تجارت کے راستے کھول دیے گئے

وزیر اعظم کیلئے فوڈ سیکیورٹی کے نئے چیلنجز سر اٹھا رہے ہیں ایکسپریس اردو

 لاہور: وزیر اعظم عمران خان نے سابق وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کومہنگائی پر قابو پانے میں ناکامی کا’’ ذمہ دار‘‘ قرار دے کر ڈھائی سال میں تیسری مرتبہ اپنی معاشی ٹیم تبدیل کر لی ہے ،نوجوان اور باصلاحیت کھلاڑی حماد اظہر کو نیا وفاقی وزیر خزانہ مقرر کردیا گیا ہے۔

مہنگائی پر قابو پانے کی بات کی جائے تو صوبائی حکومتیں پرائس کنٹرول کے حوالے سے ابھی تک کامیابی حاصل نہیں کر پائی ہیں اور ان کے متعدد فیصلے اورا قدامات رسد وطلب کے بنیادی حقائق اور ضروریات سے متصادم ہیں۔ ویسے تو بجلی، پٹرولیم، گیس سب کچھ مہنگا ہوتا جا رہا ہے لیکن حکومت،اپوزیشن اور میڈیا کے لئے مہنگائی کی بنیادی تشریح اشیائے خورونوش بالخصوص آٹا اور چینی ہیں۔

گندم آٹا چینی طویل عرصہ سے ’’سیاسی‘‘ ہو چکے ہیں، حکومت ان اشیاء کی قیمتوں کو مصنوعی طور پر کم رکھ کر سیاسی فوائد اور عوامی مقبولیت حاصل کرنا چاہتی ہے تو اپوزیشن ان اشیاء کی قلت اور مہنگائی کو جواز بنا کر حکومت پر شدید تنقید کرتی ہے۔

ایک جانب تو عمران خان سبسڈی دینے کے سخت مخالف ہیں لیکن دوسری جانب وہ آٹا قیمت کو مصنوعی طور پر کم رکھنے کی خاطر بھاری بھرکم سبسڈی کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ حکومت نے گزشتہ برس کسانوں سے 1400 روپے فی من قیمت پر گندم خریدی جس پر انسیڈنٹل چارجز کی مد میں مزید 544 روپے خرچ ہوئے لیکن حکومت نے یہ گندم فلورملز کو 1475 روپے میں فروخت کی جبکہ حکومت پنجاب کو 2600 روپے فی من قیمت پر امپورٹڈ گندم کی لاگت پڑی لیکن یہ گندم بھی 1475 روپے میں ہی ملز کو فراہم کی گئی تا کہ آٹا تھیلا 860 روپے میں فروخت ہو،محکمہ خوراک گندم کی وافر دستیابی نہ ہونے کے سبب رواں برس ملوں کو آبادی کی بنیاد پر کوٹہ دے رہا ہے جو کہ ناکافی نہ ہونے کے سبب فلورملز اوپن مارکیٹ سے مہنگی گندم خرید کر طلب پوری کر رہی ہیں۔

گزشتہ خریداری سیزن میں فلورملز کو گندم خریدنے سے روکا گیاتھا لیکن ذخیرہ اندوزوں نے بعد ازاں فلورملز کو 2300 روپے فی من قیمت تک گندم فروخت کی تھی ،یہ تو اچھا ہوا کہ حکومت نے سرکاری محکموں کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کو بھی گندم امپورٹ کرنے کی اجازت دے دی تھی جس کے نتیجہ میں اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت اور دستیابی معمول پر آگئی ورنہ حکومت کیلئے 860 روپے قیمت پر وافر مقدار میں آٹا فراہم کرنا ناممکن ہوجاتا۔

اس مرتبہ وفاقی سیکرٹری نیشنل فوڈ سیکیورٹی غفران میمن نے یہ دانشمندی کی ہے کہ وزیر اعظم کو تمام حقائق ،سابقہ و موجودہ حالات سے باخبر کر کے 30 لاکھ ٹن گندم امپورٹ کرنے کی اصولی اجازت حاصل کر لی ہے چناں چہ اگر خدانخواستہ صوبائی محکمے کسی وجہ سے کم گندم خریدتے ہیں تو بھی امپورٹڈ گندم ملک میں کسی بحران کو جنم نہیں لینے دے گی۔

تاہم وزیر اعظم عمران خان، وفاقی وزیر خزانہ حماد اظہر، وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار اور گورنر سٹیٹ بنک آف پاکستان ڈاکٹر رضا باقر کو ان اطلاعات پر خصوصی توجہ دینی اور کسی ممکنہ خرابی کو روکنا ہوگا جن کے مطابق ایک مخصوص لابی صرف سرکاری سطح پر گندم امپورٹ کرنا چاہتی ہے یا پھر اس کی کوشش ہے کہ صرف 10 کے لگ بھگ پرائیویٹ امپورٹرز کو امپورٹ کا فائدہ ہو جبکہ ایسے فیصلے کروائے جا رہے ہیں جو فلورملنگ انڈسٹری کو گندم خریدنے سے روکنے کا سبب بن سکتے ہیں ۔

19 مارچ کو سٹیٹ بنک آف پاکستان نے ایک سرکلر جاری کیا ہے جس میں فلورملز کیلئے گندم خریداری کی خاطر قرضوں کے حصول کیلئے نئی شرائط عائد کی گئی ہیں۔ سرکلر کی پہلی شق کے مطابق بنک صرف دیسی گندم(یعنی مقامی پیداوار) کیلئے ہی قرضے دیں گے، اس شرط کے نفاذ سے وہ فلورملز جن کا آٹا میدہ کا مارکیٹ میں بڑا حصہ ہے اور وہ سرکاری گندم کوٹہ سے ڈیمانڈ پوری نہیں کرتیں اور اپنی نجی گندم استعمال کرتی ہیں۔

یہ تمام ملز گندم امپورٹ کے عمل سے باہر ہو گئی ہیں اور عملی طور اب گندم کی نجی امپورٹ صرف وہ نو یا دس لوگ کرسکیں گے جن کا تعلق کراچی سے ہے اور ان کے پاس بے بہا سرمایہ ہے اور اب پاکستان کی اوپن مارکیٹ پر ان کی مکمل اجارہ داری ہوجائے گی ۔وزیر اعظم عمران خان کا دعوی ہے کہ وہ مافیاز کے خلاف جہاد کر رہے ہیں لیکن ان کی اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے بعض افراد اپنے ذاتی مالی مفادات کی خاطر سرکاری فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔

قیاس آرائی ہو رہی ہے کہ مبینہ طور پر تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ایک نجی امپورٹر نے ایک وفاقی وزیر کے توسط سے سابق وفاقی وزیر خزانہ کو گمراہ کر کے گندم امپورٹ کیلئے فلورملز کیلئے قرضوں پر پابندی کا فیصلہ کروایا ہے،سرکلر کے مطابق فلورملز کو بنک سے حاصل شدہ قرضوں کے ذریعے مقامی دیسی گندم خریدنے کیلئے 30 جون تک کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے اس کے بعد یہ قرضے ناقابل استعمال ہوں گے۔ اس وقت سرکاری محکمے جس جارحانہ انداز میں گندم خریداری کرتے ہیں اور صوبہ کو فلورملز کیلئے نو گو ایریا بنادیا جاتا ہے اس میں 30 جون کی ڈیڈ لائن غیر حقیقی ہے اور اس میں کم ازکم ایک ماہ کی توسیع لازمی ہونا چاہئے۔

پاکستان فلورملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عاصم رضا احمد نے گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر رضا باقر کو ایک مراسلہ ارسال کیا ہے جس میں انہوں نے سٹیٹ بنک کے جاری کردہ سرکلر پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس پر نظر ثانی کی جائے کیونکہ سرکاری گندم ہو یا نجی گندم اسے استعمال فلورملز نے ہی کرنا ہوتا ہے اس لئے بنک قرضوں کی اجازت نجی گندم امپورٹ کیلئے بھی دے جبکہ گندم خریداری کیلئے حاصل کردہ قرضوں کی واپسی کی مدت 31 مارچ تک مقرر کی جائے۔ چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک اس حوالے سے بہت متحرک ہیں اور کم وبیش بلا ناغہ سیکرٹری فوڈ شہریار سلطان اور ڈائریکٹر فوڈ دانش افضال کے ساتھ میٹنگز میں مختلف ا قدامات اور تجاویزپر تبادلہ خیال ہوتا ہے ،وزیر اعلی سردار عثمان بزدار اور سینئر وزیر و وزیر خوراک عبدالعلیم خان بھی ان کی مکمل سپورٹ کر رہے ہیں۔

حالیہ گندم ریلیز سیزن میں شہریار سلطان اور دانش افضال نے بہت محنت اور دلیری کے ساتھ چیلنجز کا مقابلہ کیا ہے ،عبدالعلیم خان کی یہ بات اب حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ پنجاب کی ایک ہزار فلورملز میں سے عملی اور حقیقی طور پرکاروبار کرنے والی ملوں کی تعداد 700 کے لگ بھگ ہے باقی سب موسمی پرندوں کی طرح صرف سرکاری گندم کوٹہ سیزن میں ہی دکھائی دیتی ہیں اور ان میں سے بعض سرکاری گندم کی فروخت میں بدنام ہیں اور جب ان کے سیاہ کاریوں پر سرکاری گرفت مضبوط ہونے لگتی ہے تو یہ لوگ فوڈ حکام پر دباو ڈالنا شروع کردیتے ہیں۔

اگر پھر بھی بس نہ چلے تو عدالتوں سے حکم امتناعی لا کر حکومت کو بے بس کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ قابل احترام چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ،وزیر اعلی، سینئر وزیر اور چیف سیکرٹری کو سرکاری گندم چوری میں ملوث فلورملز کو نشان عبرت بنانے اور ایسی فلورملز کے خلاف جدوجہد کرنے والے سرکاری ملازمین کو حوصلہ دینے کیلئے اپنا اپناکردار ادا کرنا ہوگا۔گندم کی امدادی قیمت خرید1800 روپے من مقرر کی گئی ہے اور اس تناظر میں آئندہ ایشو سیزن پہلے سے زیادہ مشکل اور بحرانی ہوگا اس لئے حکومت کو اپنے فیصلے مشاورت اور زمینی حقائق کے مطابق کرنا ہوں گے۔

The post وزیر اعظم کیلئے فوڈ سیکیورٹی کے نئے چیلنجز سر اٹھا رہے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3cCkXgV
via IFTTT

کیا پاکستان اپنی معاشی خود مختاری سے دستبردار ہورہا ہے؟ ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: پاکستانی سیاست جس تیزی سے رنگ بدلتی ہے اس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ کچھ دن پہلے پاکستان کی تمام بڑی اپوزیشن جماعتیں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر حکومت کو گھر بھیجنے کی تیاریاں کررہی تھیں۔

دو غیر فطری اتحادی بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز ایک دوسرے کو بہن بھائی کہہ رہے تھے۔ لیکن پھر وقت نے کروٹ لی، سینٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کو خود پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر انتخاب جتوایا گیا مگر سینٹ میں حزب اختلاف کے معاملہ پر پیپلز پارٹی کی سولو فلائٹ پر دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان لکیر کھچ گئی اور یوں کل کے بہن بھائی آج کے حریف بن گئے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آصف علی زرداری نے ساری گیم سیٹ کی ہوئی تھی جس میں پنجاب حکومت کو ہٹانا بھی شامل تھا لیکن نواز شریف نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔

اطلاعات ہیں کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں پیدا ہونے والے اختلافات کے تناظر میں تینوں بڑی جماعتوں کے قائدین اور مرکزی رہنماوں کے درمیان ٹیلیفونک رابطوں کا سلسلہ وقفوں وقفوں سے جاری رہا، لندن، کراچی اور اسلام آباد میں ہونے والے ان رابطوں کے حوالے سے متضاد اطلاعات سامنے آئی ہیں جن کی اگرچہ باضابطہ تصدیق تو نہیں ہو سکی تاہم پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پی ڈی ایم کے بجائے جمعیت علمائے اسلام کی مرکزی شوریٰ کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس میں مجلس عاملہ اور شوریٰ کے ارکان شرکت کرتے ہیں اور ایسے اجلاس اہم فیصلوں کیلئے صورتحال پر غور کرنے کیلئے بلایا جاتا ہے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اسلام آباد میں بلائے جانے والے اس اجلاس کی تاریخ کے حوالے سے مشاورت ہورہی ہے بعض ارکان کا کہنا ہے کہ صورتحال کے پیش نظر اجلاس فوری طور پر طلب کیا جانا چاہئے جبکہ خود مولانا فضل الرحمان اس حق میں ہیں کہ چار اپریل کو پاکستان پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والے فیصلوں کے بعد جے یو آئی کا اجلاس بلایا جائے۔

ٹیلیفونک رابطوں کے حوالے سے اسلام آباد میں موجود پی ڈی ایم میں شامل جماعت کی ایک ذمہ دار شخصیت نے اس تاثر کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا کہ اس دوران فریقین کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’’صورتحال سنجیدگی کی طرف جا رہی ہے‘‘ مذکورہ شخصیت کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کو اب اس بات پر پچھتاوا ہو رہا ہے کہ انہوں نے پیپلزپارٹی کے قائدین کی جانب سے دی گئی یقین دہانیوں پر اعتماد کیوں کیا۔ معلوم ہوا ہے کہ مسلسل سفر ،سیاسی مصروفیا ت کے باعث شب بیداری اور ذہنی دباؤکے باعث مولانا فضل الرحمان کی طبیعت ناساز ہے۔

کورونا وائرس کا ان کا ٹیسٹ منفی آیا ہے تاہم مولانا نے اپنی سیاسی سرگرمیاں فی الوقت معطل کر دی ہیں۔ یہ سیاسی حیلے بہانے اپنی جگہ مگر زمینی حقائق یہی ہیں کہ ایوزیشن جماعتوں کا بنایا اتحاد(پی ڈی ایم اے )اس وقت بکھر چکا ہے اور اپنے مقاصد حاصل کرنے میں بھی ناکام ہوگیا ہے۔ مولافضل الرحمن دونوں بڑی جماعتوں کو ایک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ابھی تک کی سیاسی صورتحال دیکھتے ہوئے دونوں سیاسی جماعتوں کا یک ہونا مشکل ہے۔

پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز نے کوٹ لکھپت جیل میں شہبازشریف سے ملاقات کی جو سوا دو گھنٹے جاری رہی ہے بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اس ملاقات میں کوئی اور طاقتور شخصیت بھی موجود تھی۔ جس کے اثرات آگے چل کر نظر آنا شروع ہوجائیں گے۔ یہ باتیں بھی ہورہی ہیں کہ میاں شہباز شریف اور خواجہ آصف کی اسیری کے دن بھی شائد ختم ہونے کو ہیں۔ اگرچہ ن لیگ کے ذرائع بتاتے ہیں کہ حمزہ شہباز نے یوسف رضا گیلانی کو ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف بنائے جانے پر مسلم لیگ ن میں پائی جانے والی بے چینی سے آگاہ کیا۔

حمزہ شہباز نے شہباز شریف سے کہا کہ پیپلز پارٹی نے یوسف رضاگیلانی کے معاملے پر انہیں اعتماد میں نہیں لیا۔ شہبازشریف نے حمزہ شہباز کو پیپلزپارٹی کے خلاف کسی بھی قسم کی بیان بازی سے روک دیا۔ شہبازشریف نے حمزہ شہباز سے گفتگو میں کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے پنجاب میں بلدیاتی اداروں کی بحالی کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ انہوں نے بلدیاتی نمائندوں سے رابطوں میں تیزی لانے کی ہدایت کی۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی کے پارلیمانی رہنما سید حسن مرتضیٰ نے صحافیوں کو بتایا کہ ‘ہم نے پنجاب اسمبلی میں تبدیلی کے لیے باضابطہ طور پر اپنی کوششیں شروع کر دی ہیں اور آنے والے دنوں میں بھی اس میں شدت پیدا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ عوام عیدالفطر کے بعد خوشخبری سنیں گے کیونکہ حکمران پاکستان تحریک انصاف کے دو درجن سے زیادہ قانون ساز ہمارے ساتھ رابطے میں ہیں۔حسن مرتضیٰ نے کہا کہ ان کی پارٹی (مسلم لیگ ن) کو پنجاب اسمبلی میں اپنی عددی طاقت کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبائی چیف ایگزیکٹو کے دفتر کے لیے نامزد امیدوار کا اعلان کرنا چاہیے اور پیپلز پارٹی اس کی حمایت کرے گی۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز شریف پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کی پیش کش پہلے ہی مسترد کرچکی ہیں۔

ان کا دعوی ہے کہ پیپلز پارٹی نے صوبے میں تبدیلی کا آرڈر دینے اور پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلی کے عہدے پر لگانے کی پیش کش کی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کو خدشہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی بحیثیت وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے بڑھ کر ان کے خلاف کام کریں گے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پچھلے تین سال سے حکومت کنفیوژن کا شکار ہے۔ پالیسیوں میں کسی قسم کا استحکام اور ٹھہراو نہیں ہے اور اسی وجہ سے معیشت کا پہیہ چل نہیں پاتا ہے اب معیشت کا تمام تر بوجھ حماد اظہر کے ناتواں کندھوں پر لاد دیا گیا ہے سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیا وہ معیشت کی الجھی ہوئی گھتی کو سلجھا پائیں گے۔

اب حکومت آئی ایم ایف سے مذاکرات اس کے نمائندوں یعنی اسٹیٹ بینک کے گورنر اور ڈپٹی گورنروں کی منظوری سے ہی کر سکے گی اور کوئی نوٹ بغیر ان کی مرضی کے حکومت پاکستان نہیں چھپوا سکے گی تو پھر ہر ماہ سرکاری تنخواہیں، پنشن کیسے باقاعدگی سے ادا ہوں گی۔ وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے ہوئے انکم ٹیکس ترمیمی بل کی بجائے انکم ٹیکس ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا ہے جس کے تحت 140 سے 150 ارب روپے تک کی ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی ہے۔ یہ آرڈیننس فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔ آرڈیننس میں 62 اداروں کو ٹیکس کریڈٹ کی سہولت دے دی گئی ہے۔

پی سی بی سمیت کھیلوں کی تمام تنظیموں، فلم انڈسٹری کیلئے ٹیکس چھوٹ ختم کردی گئی ہے آمدن کم ظاہر کرنے پر واجب الادا ٹیکس کا 50 فیصد جرمانہ عائد ہوگا۔ دکان پر ٹیکس نمبر آویزاں نہ کرنے پر 5 ہزار روپے جرمانہ عائد ہوگا۔ انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے پر 5ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔ نئی آئل ریفائنری لگانے پر صرف 31 دسمبر 2021 تک چھوٹ ہوگی درسی کتابیں شائع کرنے والے بورڈز پر انکم ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ کئی انویسٹمنٹ کمپنیوں کے منافع پر انکم ٹیکس کی چھوٹ ختم کردی گئی ہے۔

انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت فاٹا اور پاٹا سے متعلق ٹیکس چھوٹ 30 جون 2023 کو ختم کی جا رہی ہے۔ قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے بجلی کی پیداوار کیلئے سرمایہ کاری پر 25 فیصد ٹیکس کریڈٹ دینے کی تجویز ہے تاکہ نجی شعبے میں بجلی کی پیداوار بڑھائی جا سکے۔ ملک میں تیار ہونے والے موبائل فونز کی ملک میں فروخت پر ٹرن اوور ٹیکس کی چھوٹ دینے کی تجویز ہے تاہم موبائل فونز مینو فیکچررز کو انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے نظام میں رجسٹر ہونے کی شرط سے یہ سہولت مشروط کی گئی ہے۔

دوسری جانب صدر مملکت نے نیپرا ایکٹ میں ترمیم کے آرڈیننس پر بھی دستخط کردیئے۔ آرڈیننس کے تحت بجلی کے صارفین پر مختلف مراحل میں مجموعی طور پر700ارب روپے سے زائد کا اضافی بوجھ پڑے گا۔

The post کیا پاکستان اپنی معاشی خود مختاری سے دستبردار ہورہا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3dr4Gee
via IFTTT

کورونا…عوامی لاپرواہی کے باعث حکومت سخت اقدامات پر مجبور ایکسپریس اردو

 کراچی: ملک میں کورونا وائرس کی صورت حال تشویشناک حد تک خراب ہوتی ہوئی نظرآرہی ہے۔

وباء کی تیسری لہر نے حکومت کو ایک بار پھر سخت فیصلے کرنے پر مجبور کردیا ہے جبکہ طبی ماہرین پہلے ہی ان خدشات کا اظہار کررہے تھے کہ وباء کے مکمل خاتمے تک عوام احتیاطی تدابیر اختیار کریں، لیکن افسوسناک طور پر ان ہدایات کو یکسرنظرانداز کردیاگیا جس کے نتائج ہمیں آج دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی)نے اپنے اجلاس میں چند اہم فیصلے کیے ہیں ،جن کے تحت ملک کے تمام صوبوں میں ہاٹ اسپاٹ کی نشاندہی کر کے وہاں لاک ڈاؤن نافذ کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ 5 اپریل سے ان ڈور اور آؤٹ ڈور شادیوں اور تقریبات پر بھی مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے، البتہ صوبوں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے پابندیاں عائد کر سکتے ہیں۔

صوبوں میں ٹرانسپورٹ میں مسافروں کی کمی کے لیے بھی مختلف آپشن زیر غور ہیں اور اس حوالے سے حتمی فیصلہ صوبوں کی رائے اور بذریعہ ٹرین، بس اور ہوائی جہاز سفر کرنے والوں کے اعدادوشمار موصول ہونے کے بعد کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ صوبوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ این سی او سی کی جانب سے دیے گئے اہداف کو بروقت حاصل کریں۔ مذکورہ پابندیوں کا اطلاق ان علاقوں اور شہروں میں ہوگا، جن میں مثبت کیسز کی شرح 8 فیصد یا اس سے زائد ہے۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر اسد عمرکا کہنا ہے کہ کورونا کیسز میں اضافہ اسی رفتار سے جاری رہا تو مزید پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے بھی قوم کے نام اپنے پیغام میں عوام پر زور دیا ہے کہ وہ ایس او پیز پر عمل درآمد کریں۔ وزیراعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا میں کورونا ویکسین کی قلت ہوگئی ہے، کورونا ویکسین سے متعلق جو ہمیں دنیا نے کہا تھا وہ بھی ہمیں نہیں مل رہا، جو ملک کورونا ویکسین بناتے ہیں وہاں بھی ویکسین کی کمی ہوگئی ہے۔ ادھر میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے)کے مرکزی سیکرٹری جنرل ڈاکٹر قیصر سجاد کا بھی یہی کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی تیسری لہر بہت خطرناک ہے، جو تعداد حکومت بتا رہی ہے اس سے کہیں زیادہ لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ حکومت ایس او پیز پر عمل درآمد کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔کورونا وائرس کی صورت حال میں عوام بھی کنفیوژن کا شکار نظرآتے ہیں۔

این سی او سی کی جانب سے کاروباری اوقات کار 8بجے تک کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ سندھ میں یہ اوقات رات دس بجے تک ہیں۔ دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ کراچی کے گنجان آباد اور کاروباری مراکز خصوصاً فوڈ اسٹریٹس میں اصل رش ہوتا ہی رات دس بجے کے بعد ہوتا ہے اور عوام ایس او پیز کی دھجیاں اڑاتے ہوئے رات گئے شہر کی سڑکوں پر گھومتے رہتے ہیں۔حکومت کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں پر انتظامیہ عملدرآمد کرانے میں بالکل ناکام نظرآتی ہے۔

دوسری جانب عوام کا یہ حال ہے کہ وہ اب بھی کورونا کو سنجیدگی سے لینے کے لیے تیار نہیں ہے اور اپنی حفاظت کے لیے ان کو پانچ روپے کا ماسک خریدنا بھی گوارا نہیں ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ میں گنجائش سے زیادہ مسافر سفر کررہے ہیں۔ فی الحال سندھ میں کورونا مریضوں کی تعدا د پنجاب کے مقابلے میں کم دیکھنے میں آرہی ہے لیکن جو بے احتیاطی عوام کی جانب سے سامنے آ رہی ہے اس سے یہی نظرآتا ہے کہ سندھ میں بھی کورونا وائرس کی صورت حال تشویشناک ہوسکتی ہے۔ چیئرمین کورونا ٹاسک فورس ڈاکٹر عطا الرحمن بھی اس صورت حال پر انتہائی متفکر نظرآتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وائرس تیزی سے ساخت تبدیل کر رہا ہے، اس لیے ویکسین غیر موثر ہوسکتی ہے، کورونا کی صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے، حکومت کو چاہئے کہ پولیس کو چھڑیاں پکڑا دیں اورجو ماسک کے بغیر نظر آئے اسے دو ڈنڈے ماریں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ عوام کورونا صورتحال کوعام نہ سمجھیں اور سختی سے ہدایات پرعمل کریں۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ازخود اپنے اوپر رحم کریں۔ ماسک کا استعمال کریں، احتیاط علاج سے بہتر ہے۔

ایک جانب ملک میں کورونا کے وار جاری ہیں تو دوسری جانب کراچی کو سیاسی جماعتوں نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا ہوا ہے۔گزشتہ دنوں ایم کیو ایم پاکستان ،جماعت اسلامی اور تنظیم بحالی کمیٹی ایم کیوایم پاکستان کی جانب سے عوامی اجتماعات کا انعقاد کیا گیا۔کراچی کے نشتر پارک میں ایم کیو ایم کے یوم تاسیس کے حوالے سے منعقدہ جلسے سے خطاب میں پارٹی رہنماؤں نے ایک مرتبہ پھر اپنے مطالبات دہرائے جبکہ تنظیم بحالی کمیٹی ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے پی آئی بی کالونی گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یہ نوید سنائی ہے کہ آئندہ ایم کیو ایم پاکستان کا یوم تاسیس ایک ہی پلیٹ فارم سے منایا جاسکتا ہے۔

ادھر جماعت اسلامی کی”حقوق دو کراچی” ریلی میں عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ امیرجماعت اسلامی پاکستان و سینیٹر سراج الحق کا اپنے ٹیلی فونک خطاب میں کہنا تھا کہ کراچی آج بھی 25 سو ارب سالانہ ریوینو ملک کو دیتا ہے لیکن افسوس کہ اس شہر کے اپنے لوگ بے روزگار، پیاسے اور بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ کراچی کے مسائل کے حوالے سے ایک مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان مرکزی حکومت کا حصہ ہے، اس کو چاہیے کہ وہ اپنی اتحادی جماعت پی ٹی آئی پر زور دے کہ شہر کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے ایک جامع حکمت عملی مرتب کرے۔ جماعت اسلامی کا یہ شکوہ بھی بجا نظرآتا ہے کہ وزیراعظم کے اعلان کردہ کراچی ٹرانسفارمیشن پلان پر عملدرآمد ہوتا ہوا نظرنہیں آرہا ہے۔ سوائے نالوں کے اطراف کے تجاوزات کے خاتمے کے آپریشن کے علاوہ اس پلان میں شامل دیگر منصوبوں پر عملدرآمد کہیں نہیں ہے۔

کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 249کے ضمنی انتخاب کے لیے سیاسی جماعتوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاک سرزمین پارٹی ،پاکستان تحریک انصاف ،ایم کیو ایم پاکستان اور پاکستان پیپلزپارٹی اس نشست کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ امجد آفریدی کو امیدوار نامزد کرنے کے بعد پی ٹی آئی میں پیدا ہونے والے اندرونی اختلافات ابھی تک دور نہیں ہوسکے ہیں جن کا پارٹی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مسلم لیگ (ن)کے مفتاح اسماعیل انتہائی موثر انداز میں اپنی انتخابی مہم چلارہے ہیں اور مسلم لیگ کے مرکزی رہنما بھی ان کی مدد کے لیے کراچی کے دورے کر رہے ہیں، تاہم اگر پیپلزپارٹی سے اتفاق رائے نہیں ہوسکا تو مفتاح اسماعیل کو مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

پی ایس پی کے چیئرمین سید مصطفی کمال خود اس نشست پر امیدوار ہیں۔ اب تک دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ پی ایس پی سب سے موثرا نداز میں اپنی انتخابی مہم چلارہی ہے تاہم وہ ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنے میں کس قدر کامیاب ہوتی ہے اس کا فیصلہ انتخابی نتائج کے بعد ہی ہوگا۔

شہر قائد میں رمضان کی آمد سے قبل ہی مہنگائی کا جن بے قابو ہوگیا ہے۔ اشیائے خور ونوش کی سرکاری پرائس لسٹ غیر موثر ہوگئی، کریانہ آئٹم کی سرکاری پرائس لسٹ نو ماہ گزرنے کے باوجود اپ ڈیٹ نہیں ہوسکی۔ اس ضمن میں شہریوں کا کہنا ہے کہ شہر میں کوئی بھی چیز سرکاری نرخ پر فروخت نہیں کی جا رہی، جو حکومت اور انتظامیہ کی ناقص کاکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

شہریوں کے مطابق سندھ حکومت نے گراں فروشوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے، گراں فروشی کو قابو کرنے کے لیے شہری انتظامیہ اور مجسٹریٹس کو حرکت میں نہیں لایا جا رہا، جس سے عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے اور عوام مہنگائی کا ذمہ دار وفاقی حکومت کو قرار دے رہے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک سے قبل ہی یہ صورت حال ہے تو ماہ مقدس میں منافع خور عوام کی زندگی اجیرن کردیںگے۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے خصوصی اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔

The post کورونا…عوامی لاپرواہی کے باعث حکومت سخت اقدامات پر مجبور appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3doR3Me
via IFTTT

تحریک انصاف بلوچستان نے بے اختیاری کا شکوہ شروع کر دیا ایکسپریس اردو

 کوئٹہ: سینیٹ الیکشن کے’’ آفٹر شاکس‘‘ ابھی تک بلوچستان کی سیاست پر محسوس کئے جا رہے ہیں، جس کی زد میں حکمران جماعت اور بلوچستان میں باپ کی اتحادی تحریک انصاف زیادہ تر نظر آرہی ہے۔

بلوچستان اسمبلی میں تحریک انصاف سات ارکان اسمبلی ہونے کے باوجود سینیٹ الیکشن میں اپنا ایک سینیٹر لانے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکی جبکہ ان الیکشن میں آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والے عبدالقادر نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرکے پارٹی قیادت کو سیاسی شطرنج کی اس گیم میں ’’پیادے‘‘ کے ذریعے شہہ دیتے ہوئے مات دے دی ہے کیونکہ سینیٹ کے الیکشن میں بلوچستان کے اندر تحریک انصاف کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے، جس کی واضح مثال حال ہی میں تحریک انصاف بلوچستان کے ریجنل صدور اور عہدیداران کے ایک غیر معمولی اجلاس میں پارٹی کی مرکزی قیادت پر شدید تنقید کے علاوہ بغاوت کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔

اس اجلاس کی صدارت بلوچستان اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی وزیر تعلیم سردار یار محمد رند نے کی، اجلاس کے حوالے سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ سینیٹ الیکشن کے دوران پارٹی قیادت کو غلط گائیڈ کرکے ناپسندیدہ فیصلے کرانے کے عمل پر پارٹی عہدیداران سخت نالاں دکھائی دیئے، پارٹی کے بعض عہدیداران نے اپنا نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر اس اجلاس کی اندرونی کہانی کے حوالے سے راقم کو بتایا کہ پارٹی کے عہدیداران نے یہ بات واضح کی ہے کہ بلوچستان میں اڑھائی سال سے حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی اتحادی ہونے کے ناطے اس کے ساتھ جو رویہ روا رکھا جارہا ہے اور سینیٹ الیکشن کے دوران جو کچھ انہوں نے عہدیداران و کارکنوں کے ساتھ کیا۔

اس حوالے سے تحریک انصاف کے سربراہ وزیراعظم عمران خان کو آگاہ کیا جائے گا۔ اگر پھر بھی شنوائی نہ ہوئی اور رویہ یوں ہی روا رکھا گیا تو پھر بلوچستان میں ورکرز کنونشن بلا کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائیگا جس میں انتہائی اقدام پارٹی سے راہیں جدا کئے جانے سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔ پارٹی کے ان عہدیداران کے مطابق اجلاس میں اس بات پر بھی سخت ناراضگی کا اظہار کیا گیا کہ بلوچستان میں تحریک انصاف کو حکمران جماعت بی اے پی نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔

پارٹی کے عہدیداران و کارکنوں سمیت وزراء اور ارکان اسمبلی کو یکسر نظر اندا کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب مرکز میں بلوچستان عوامی پارٹی اپنی تمام چیزیں وزیراعظم عمران خان سے منوا رہی ہے، جس میں ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے اقدامات بھی شامل ہیں، تاہم بلوچستان میں ان کے وزیراعلیٰ جام کمال تحریک انصاف کے وزراء و ارکان اسمبلی اور عہدیداران و کارکنوں کو کسی بھی معاملے میں خواہ وہ ترقیاتی عمل ہو، ملازمتیں ہوں یا پھر پوسٹنگ ٹرانسفر ہو کوئی اہمیت نہیں دیتے، جس کی واضح مثال تحریک انصاف کے وزراء اور ارکان اسمبلی کا نجی محفلوں میں برملا بے اختیار ہونے کا اظہار ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق تحریک انصاف بلوچستان میں یہ لاوا کافی عرصے سے پک رہا تھا جبکہ پارلیمانی گروپ بھی دوسے تین گروپوں میں بٹا ہوا ہے، پارٹی کے عہدیداران و کارکنوں نے مایوسی کے اندھیروں سے نکلنے کے لئے آواز بلند کی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے وہ بلوچستان میں اپنے پارلیمانی گروپ کو متحد کریں اور مل کر یک آواز ہوں تب جاکر انہیں بلوچستان اور مرکز میں پارٹی قیادت اہمیت دے گی، ورنہ صورتحال جوں کی توں ہی رہے گی ۔

بعض سیاسی حلقوں کے مطابق اس تمام صورتحال سے پارٹی کے پارلیمانی لیڈر و صوبائی وزیر تعلیم سردار یار محمد رند اور بعض ارکان اسمبلی بھی سخت مایوس ہیں اور وہ اکثر اوقات اپنی نجی محفلوں میں اس بات کا اظہار بھی کرتے چلے آ رہے ہیں کہ وہ جام کابینہ میں بے اختیار وزیر کی حیثیت اور وزیراعلیٰ کی جانب سے ان کے محکموں میں بے جا مداخلت پر کسی بھی وقت معذرت کرکے وزارت کا عہدہ چھوڑ سکتے ہیں، جس کے لئے وہ کسی مناسب وقت کے منتظر ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بعض حلقوں کا خیال ہے کہ جس مناسب وقت کے وہ منتظر ہیں۔

شاید وہ وقت اب قریب آگیا ہے کیونکہ ان کی جماعت کے صوبائی عہدیداران وکارکنوں نے بھی انہیں یہ تجویز دے دی ہے کہ وہ بے اختیار عہدوں سے جان چھڑا لیں، جس کے لئے انہوں نے اپنے قریبی دوستوں اور ہمدردوں سے مشاورت کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ اسی لئے بعض سیاسی حلقے تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی وزیر تعلیم سردار یار محمد رند کے حوالے سے بریکنگ نیوز کی آئندہ چند روز میں توقع کررہے ہیں۔

سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان کی سیاست میں ماہ رمضان و عید کے بعد بڑی سیاسی تبدیلیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس کے علاوہ سیاسی حلقوں میں موجودہ گورنر بلوچستان جسٹس (ر) امان اللہ یاسین زئی کی تبدیلی کے حوالے سے بھی بعض خبریں گشت کر رہی ہیں، اس سے قبل بھی گورنر جسٹس(ر) امان اللہ یاسین زئی کی تبدیلی کے حوالے سے خبریں آئی تھیں اور بعض شخصیات کے نام بھی سامنے آئے تھے لیکن مرکز نے آخری وقت پر اپنا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے انہیں گورنر کے عہدے پر برقرار رکھا۔ سیاسی حلقوں میں صوبے کی ایک قبائلی شخصیت احمد خان غبیزئی کی اچانک بیرون ملک سے کوئٹہ آمد اور زبردست استقبال کے بعد گورنر بلوچستان کی تبدیلی کی خبروں نے زور پکڑا ہے، لیکن یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ گورنر بلوچستان جسٹس(ر) امان اللہ یاسین زئی کو فوری طور پر تبدیل کیا جا رہا ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق سینیٹ الیکشن میں متحدہ اپوزیشن کی دو جماعتوں بلوچستان نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کے ارکان اسمبلی کے حوالے سے یہ بات وثوق سے کہی جارہی تھی کہ انہوں نے اپنا ووٹ حکومتی اتحاد کو دیا ہے۔ بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اپنی جماعت کے حوالے سے سخت نوٹس لیتے ہوئے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کی رپورٹ بھی پارٹی کو موصول ہوگئی ہے اور کارروائی بھی عمل میں لائی جارہی ہے۔

پارٹی کے اندر احتساب کا یہ عمل یقینا قابل تعریف ہے، جس کے آئندہ دو رس نتائج برآمد ہوں گے، سیاسی مبصرین کے مطابق دوسری اپوزیشن جماعت جے یو آئی کو چاہئے کہ وہ بی این پی کی تقلید کرتے ہوئے پارٹی کے اندر احتساب کا عمل کرے اور ایسے ارکان کے خلاف کارروائی عمل میں لائے۔

The post تحریک انصاف بلوچستان نے بے اختیاری کا شکوہ شروع کر دیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3cGOJkZ
via IFTTT

پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا اپنی سیاست پر غور شروع؟ ایکسپریس اردو

 پشاور: پاکستان پیپلزپارٹی نے جس طریقے سے اپنے پتے کھیلے اور پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف کا عہدہ حاصل کیا، اس کی وجہ سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ حالت نزع میں چلی گئی ہے اور بظاہر لگ یہی رہا ہے کہ پی ڈی ایم اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔

تاہم سیاست میں کچھ بھی ہو سکتا ہے اور اس صورت میں کہ اس معاملے میں آصف علی زرداری جیسی شخصیت کا اہم کردار ہو، یہ آصف علی زرداری ہی ہیں کہ جنہوں نے اچانک ایسی صورت حال پیدا کی کہ پی ڈی ایم کی بساط ہی الٹ کر رکھ دی کیونکہ وہ لانگ مارچ اور اسمبلیوں سے استعفوں کے معاملے کو اکٹھے لے کر چلنے کے حق میں نہیں تھے۔

یہی وجہ ہے کہ پہلے اس ایشو کی بنیاد پر پی ڈی ایم کی جماعتوں میں دوریاں پیدا ہوئیں اور اب اپوزیشن لیڈر کے عہدہ پر سید یوسف رضاگیلانی کی تقرری کے بعد معاملات آخری حد تک پہنچ چکے ہیں اور تادم تحریر صورت حال یہ ہے کہ ایک جانب تو مولانافضل الرحمٰن علیل ہوکر گھر تک محدود ہیں تو دوسری جانب مریم نواز بھی علالت کا شکار ہیں۔ سب کی نظریں پاکستان پیپلزپارٹی کے سی ای سی اجلاس پر لگی ہوئی ہیں، حالانکہ سی ای سی نے جو بھی فیصلہ کرنا ہے وہ سابق صدر اور پارٹی چیئرمین کی جانب سے دی گئی پالیسی کے مطابق ہی کرے گی اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ پیپلزپارٹی کسی بھی طور نہ تو سندھ حکومت چھوڑے گی اور نہ ہی اسمبلیوں سے باہر آئے گی۔

پی ڈی ایم کی وجہ سے اپوزیشن میں شامل سیاسی جماعتوں میں جو نزدیکیاں پیداہوئی تھیں، وہ اب ایک بار پھر دوریوں میں تبدیل ہونا شروع ہوگئی ہیں اور تمام پارٹیوں کے رہنما اور ورکر اپنی پارٹی قیادت کی طرف دیکھنے پر مجبور ہیں تاکہ گرین سگنل ملتے ہی وہ واپس اپنی سیاست کی طرف آسکیں، یہ پی ڈی ایم کی وجہ سے پیداہونے والی صورت حال ہی تھی کہ جس نے عوامی نیشنل پارٹی میں بھی اندرونی اختلافات کو واضح کردیا ہے۔ پی ڈی ایم کے طرز سیاست اور عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیارولی خان کی علالت کی وجہ سے پارٹی کی مرکزی اور صوبائی تنظیمیں الگ کھڑی نظر آرہی ہیں۔

پہلے نوشہرہ کے ضمنی انتخابات میں پارٹی کی مرکزی قیادت کے ساتھ مسلم لیگ ن کے رابطوں کے باوجود اے این پی نے اپنا امیدوار مقابلے سے دستبردار نہیں کرایا کیونکہ پارٹی کی صوبائی قیادت ایسا نہیں چاہتی تھی، اس لیے اے این پی نے میدان میں رہتے ہوئے مقابلہ کیا حالانکہ اس سے اے این پی کو فائدہ تو کچھ نہیں ہوا تاہم پارٹی کی صوبائی قیادت نے ثابت کردیا کہ وہ اپنے فیصلوں میں آزاد ہے۔

پھر سینٹ کے معاملات میں اے این پی کے اندر کی یہ تقسیم مزید واضح ہوگئی ہے کیونکہ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں چیئرمین سینٹ کے عہدہ کے لیے پیپلزپارٹی کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے ڈپٹی چیئرمین سینٹ اور قائدحزب اختلاف کے عہدوں پر فیصلے کے لیے جس ذیلی کمیٹی کو ٹاسک سونپا گیا اس میں پی ڈی ایم کے مرکزی ترجمان اور اے این پی کے مرکزی جنرل سیکرٹری میاں افتخار حسین موجود تھے اور ان کی موجودگی ہی میں ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے عہدہ کے حوالے سے جے یوآئی اور قائدحزب اختلاف کے حوالے سے مسلم لیگ ن کے حق میں فیصلہ ہوا لیکن اس کے بعد جب پیپلزپارٹی قائدحزب اختلاف کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے اپنے طور پر سرگرم ہوئی اور اس نے سیاسی پارٹیوں سے رابطے شروع کیے تو آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اے این پی کے مرکزی قائدین کے بجائے صوبائی صدر ایمل ولی خان کے ساتھ رابطہ کیا کیونکہ انھیں اختیار کا منبع معلوم تھا اور پھر ان کی توقعات کے مطابق صوبائی صدر نے اپنا فیصلہ پیپلزپارٹی کے حق میں دیا۔ اے این پی کے دونوں سینیٹرز نے سینٹ میں قائد حزب اختلاف کے عہدہ پر پیپلزپارٹی کے امیدوارسید یوسف رضاگیلانی کی حمایت کی جس کے بعد ایک مرتبہ پھر سابق صدر آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ایمل ولی خان سے رابطہ کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا،اے این پی اختلافات کا شکار ہے یا نہیں؟اس بارے میں پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری سردارحسین بابک کہتے ہیں کہ ہم پی ڈی ایم کے مشترکہ فیصلوں کے پابند ہیں اور جب کسی ایشو پر مشترکہ فیصلہ نہ ہو تو ہر پارٹی اپنے فیصلوں میں آزاد ہے۔

دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ مرکز کے ساتھ خیبرپختونخوا کی کابینہ میں بھی ایک مرتبہ پھر ردوبدل کی بات چل پڑی ہے، اشتیاق ارمڑ جو گزشتہ حکومت میں معاون خصوصی سے ترقی پاکر وزیر بنے اور جنگلات وماحولیات کا محکمہ سنبھالے رہے اور اب موجودہ حکومت میں بھی ڈھائی سالوں سے ان کے پاس اسی محکمہ کا قلمدان ہے ،ان کا محکمہ تبدیل کیے جانے کی افواہیں ہیں، جس کے ساتھ ہی ان کے سٹیٹس میں بھی ردوبدل کی بات کی جا رہی ہے، جس کا واضح مطلب انھیں وزیر کے بجائے مشیر یا پھر معاون خصوصی بنانا ہی ہو سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی بعض دیگر صوبائی وزراء وحکومتی ٹیم ارکان کے محکموں میں بھی ردوبدل کی باتیں سرگرم ہیں۔ وفاقی وزیر دفاع پرویزخٹک کے صاحبزادے ابراہیم خٹک جن کی شادی حال ہی میں پیپلزپارٹی کے رہنما خواجہ محمد ہوتی کی صاحبزادی سے انجام پائی ،انھیں صوبائی کابینہ میں شامل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، جس کے ساتھ وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کے بھائی فیصل امین کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ انھیں بھی حکومتی ٹیم کاحصہ بنایا جا رہا ہے۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو اس صورت میں سپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر کیوں کر نیچے ہوکر بیٹھیں گے، وہ بھی اپنے بھائی عاقب اللہ خان کی حکومتی ٹیم میں شمولیت کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ بہرکیف صوابی میں ترکئی فیملی کے ہم پلہ بننے کے لیے انھیں عہدوں کی ضرورت تو ہے، لیکن اس ردوبدل میں کہیں پر بھی سابق سینئر وزیر عاطف خان کا نام سننے میں نہیں آرہا حالانکہ سینٹ انتخابات سے قبل جب دوگورنروں کی کوششوں کی بدولت وزیراعلیٰ محمود خان اور سابق سینئر وزیر میں صلح ہوئی تو اس کے بعد اصولی طور پر کابینہ میں بھی ان کی واپسی ہوجانی چاہیے تھی، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔

جانی خیل بنوں میں چار نوجوانوں کے قتل کے معاملے پر جاری تنازعہ ختم ہوگیاہے ،وزیراعلیٰ نے صوبائی وزرائپر مشتمل کمیٹی بنوں بھیجی لیکن جب مسلہ حل نہ ہوا تو خود بنوں پہنچ گئے اور مسلسل مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے بالآخر معاہدہ کیا تاہم اس معاملے میں شروع میں قدرے تساہل کا مظاہرہ کیاگیا۔

اگر شروع ہی سے پشاور سے وزراء پرمشتمل وفد صوبائی حکومت کی جانب سے بھیجا جاتا تو اس کا اثر کچھ اور ہوتا اور یہ معاملہ بروقت حل کر لیا جاتا کہ جس میں سیاسی عنصر بھی شامل نہ ہونے پاتا، تاہم مستقبل کے حوالے سے ضرور اسے مثال بنانا چاہیے تاکہ اگر خدانخواستہ مستقبل میں ایسا کوئی واقعہ ہوتاہے تو بیوروکرویٹس اور پولیس افسروں پر معاملہ چھوڑنے کے بجائے وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم خود معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے حل نکالیں۔

The post پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا اپنی سیاست پر غور شروع؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3dngEFC
via IFTTT

پی ایس ایل؛ فرنچائزز کو شیڈول فائنل ہونے کا انتظار ایکسپریس اردو

 کراچی:  پی ایس ایل فرنچائزز کو شیڈول فائنل ہونے کا انتظار ہے تاہم اب تک کوئی پیش رفت سامنے نہ آ سکی۔

پی ایس ایل فرنچائزز کو بقیہ میچز کے حتمی شیڈول کا انتظار ہے، پی سی بی نے ایک ہفتے قبل آگاہ کرنے کا کہا تھا مگر تاحال مکمل خاموشی طاری ہے، حکام کی برطانوی کمپنی سے بائیو سیکیورٹی کے معاملات پر بات چیت جاری ہے،مکمل ہوٹل بک کرانے میں اخراجات کا مسئلہ آڑے آ گیا،اگر بات نہ بنی تو2 ہوٹل بک کرا کے الگ ایریا کھلاڑیوں اور آفیشلز کیلیے مختص کر دیا جائے گا۔

یاد رہے کہ چھٹے ایڈیشن کو کورونا کیسز کی وجہ سے 14میچز کے بعد ہی روکنا پڑ گیا تھا،بائیو ببل کے مسائل حل کرنے کیلیے پی سی بی نے ایک برطانوی کمپنی کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا جو آئی پی ایل سمیت کئی ایونٹس میں  کام کا تجربہ رکھتی ہے، ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ اس کی کروڑوں روپے فیس کون ادا کرے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بھی فرنچائزز کو ہی دینا پڑ سکتی ہے، باہمی مشاورت سے جو تیسرا مجوزہ شیڈول تیار ہوا اس میں روزانہ ایک ہی میچ کرانے کا ذکر ہے، پلیئرز مئی کے آخر میں قرنطینہ کریں گے جس کے بعد جون میں میچز کھیلے جائیں گے، قرنطینہ کی مدت کا فیصلہ برطانوی کمپنی کرے گی۔

ذرائع نے بتایا کہ گذشتہ روز فرنچائز مالکان کی ورچوئل میٹنگ میں مختلف معاملات پر تبادلہ خیال ہوا، بورڈ کے ساتھ  رابطہ مسلسل جاری رکھنے پر بھی بات ہوئی، فرنچائز جلد از جلد شیڈول فائنل کرانا چاہتی ہیں تاکہ غیرملکی کرکٹرز کی دستیابی ممکن بنائی جا سکے، انھوں نے مجوزہ فنانشل ماڈل  پر بھی بات کی۔

The post پی ایس ایل؛ فرنچائزز کو شیڈول فائنل ہونے کا انتظار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3u68c4c
via IFTTT

انتظامی مسائل سے مانی اوروسیم کی پوزیشن کمزور ایکسپریس اردو

 لاہور:  پی سی بی کے انتظامی مسائل نے احسانی مانی اور وسیم خان کی پوزیشن کمزور کردی۔

چیئرمین پی سی بی احسان مانی کے 3سالہ کنٹریکٹ کی مدت رواں سال ستمبر کے اوائل میں ختم ہوجائے گی،دوسری جانب چیف ایگزیکٹیو وسیم خان کا معاہدہ فروری 2022تک ہے مگر اس میں فریقین کی رضامندی سے ایک سالہ توسیع کا شق شامل ہے۔

اگرچہ بورڈ کے دونوں بڑے مزید کام جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار کرچکے مگر یہ معاملہ پہلے کی طرح سادہ اور آسان نظر نہیں آرہا،سابق سربراہان نجم سیٹھی اور شہریار خان کی کاوشوں سے غیر ملکی ٹیموں کی آمد کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، اس کو آگے بڑھاتے ہوئے موجودہ مینجمنٹ نے جنوبی افریقی ٹیم کی میزبانی کامیابی سے کی۔

پاکستان نے سیریز بھی جیت لی،پوری پی ایس ایل پاکستان میں کرانے کا حوصلہ بھی پیدا ہوا، اس کو تھوڑا بہتر کریڈٹ لینے کا دعویٰ بھی کیا جا سکتا ہے مگر فاش انتظامی غلطیوں کی وجہ سے پی ایس ایل 6کا میلہ جس طرح اجڑا پی سی بی کے دونوں بڑے بھی اس پر سخت تنقید کی زد میں آئے،وزیر اعظم کی ہدایت پر بنایا جانے والا نیا ڈومیسٹک اسٹرکچر ابھی تک مکمل نہیں ہوسکا، قومی ٹیم کی بیرون ملک شکستوں کا سلسلہ بھی نہیں تھما۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ایس ایل کے التوا کا سبب بننے والی غلطیاں نظر انداز کرنا چیف پیٹرن اور وزیر اعظم عمران خان کیلیے بھی آسان نہیں ہوگا،اگر ستمبر میں احسان مانی کی رخصتی ہوگئی تو نئے چیئرمین کی تقرری کے بعد چیف ایگزیکٹیو وسیم خان بھی عہدے پر رہنے کا اخلاقی جواز کھوبیٹھیں گے۔

The post انتظامی مسائل سے مانی اوروسیم کی پوزیشن کمزور appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3rDux7q
via IFTTT

اسلام آباد میں جوڈیشل کمپلیکس تعمیر کرنے کا فیصلہ ایکسپریس اردو

 اسلام آباد:  وفاقی حکومت نے جدید طرز کے جوڈیشل کمپلیکس کی فوری تعمیر کا فیصلہ کیا ہے۔

وفاقی حکومت نے اسلام آباد کچہری منتقلی سے متعلق بڑا اقدام اٹھاتے ہوئے 91 عدالتوں پر مشتمل جدید طرز کے جوڈیشل کمپلیکس کی فوری تعمیر کا فیصلہ کیا ہے۔

اسلام  آباد کچہری کی منتقلی سے متعلق پیش رفت سے متعلق سیکریٹری قانون نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کر دیا، انھوں نے عدالت کو بتایا کہ31مارچ کو سی ڈی ڈبلیو پی سے منصوبے کی منظوری ہو جائے گی ،91کورٹس کی جی الیون میں تعمیر کے لیے 6.8 بلین روپے کی منظوری کل ہو جائے گی، 8 منزلہ عمارت تعمیر کی جائے گی جبکہ سائلین کے لیے سہولت سنٹر کی تعمیر سے متعلق بھی پیپر ورک مکمل ہو چکا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد کچہری کی منتقلی سے متعلق حکومتی اقدامات کو سراہتے ہیں،  چیف جسٹس نے سیکریٹری قانون کو ہدایت کی کہ وفاقی کابینہ سے منظوری کے بارے میں سمری کی ایک کاپی عدالت میں جمع کرائیں۔

The post اسلام آباد میں جوڈیشل کمپلیکس تعمیر کرنے کا فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2O89yvX
via IFTTT

پاکستان آئی ٹی بیس مارٹ کی نئی چین عکاظ کا آغاز ایکسپریس اردو

 کراچی: پاکستان آی ٹی بیس مارٹ کی نئی چین عکاظ کا آغاز کردیا گیا ہے۔

پاکستان اورامریکا کے نوجوانوں نے باہمی اشتراک سے پاکستان آی ٹی بیس مارٹ کی نئی چین عکاظ کا آغاز کردیاہے، منصوبے کے تحت صارفین کو سستی قیمتوں پر ایک چھت تلے ہرقسم کی معیاری مصنوعات کی فراہمی کے لیے ملک بھر میں عکاز مارٹ کی شاخیں قائم کی جائیں گی جبکہ ابتدائی طور پر کراچی کے مختلف علاقوں میں 50مارٹ قائم کردیے گئے ہیں۔

تعارفی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عکاظ کے سی ای او سید سعد شاہ نے کہاکہ عوام کو معیاری اور سستی اشیا ایک چھت کے نیچے فراہم کرنا ہماری بنیادی ترجیح ہے۔

The post پاکستان آئی ٹی بیس مارٹ کی نئی چین عکاظ کا آغاز appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/39tzklW
via IFTTT

مسلم لیگ(ن) کا بیانیہ ہی اس کا کارڈ تھا، شاہدخاقان عباسی ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کے رہنما سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کا بیانیہ ہی اس کاکارڈ تھا اور وہ بیانیہ سارے پاکستان میں بک گیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام’’ ٹو دی پوائنٹ‘‘ میں میزبان منصور علی خان سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اے کی یہی کامیابی آپ کو پاکستان کے مسائل کاحل دے گی، یہ کرسیوں، مفاد اور اقتدار کی سیاست نہیں تھی یہ ایک بیانیے کی سیاست ہے کہ جب تک آپ اپنے ملک کو آئین کے مطابق نہیں چلائیں گے ملک نہیں چلے گا، یہ ایک تحریک ہے، ساری جماعتیں الگ ہوجائیں لیکن مسلم لیگ(ن) قائم رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں کرسیوں کا فیصلہ ہم نے نہیں کیا ہمارے تو پانچ لوگ بندھے ہوئے تھے اورچھٹا بھی بندھ سکتا تھا، ہمارے پاس آدھی سے زیادہ تعداد تھی لیکن ہم نے دیکھا کہ چوری چکاری کی سیاست شروع ہوجائے گی، ہمارے جو فالتو امیدوار تھے ہم نے ودڈراکرلیے۔

شاہد خاقان نے کہا کہ قاف لیگ کو زیادہ خطرہ تھا انھوں نے حکومت سے بات کی اور انھوں نے ایک امیدواروڈراکرلیا۔  ہم نے کسی سے مشورہ کیے بغیر اپنے امید وار وڈرا کرلیے۔ سب کامشترکہ فیصلہ تھا کہ ہم نے اس بندربانٹ کاحصہ نہیں بننا۔  پی ڈی ایم اے کی ساری جماعتیں چاہتی تھیں کہ لانگ مارچ کیاجائے پھر استعفے دیے جائیں تب وہ زیادہ موثرہوگا لیکن پیپلز پار ٹی کا اپنا ایک موقف تھا۔ انھوں نے کہا کہ ہم اپنے معاملے کو سی ای سی کے پاس لے جائیں گے،  ہمارامقصد کرسیوں سے بہت بلند ہے کہ ملک کے نظام کو بدلا جائے۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے فیصلے پربہت سوال  ہو چکے ہیں آرمی نے ایکسٹینشن کا اظہار کر دیا تھا۔ فوج کو شرمندہ نہیں کرنا چاہیے۔ ہم نے قانون میں تبدیلی کر دی لیکن ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ اس سے فوج کے اندربھی ترقی کا عمل رک جاتا ہے، کچھ مدت بعد فوج  ہی اسے تبدیل کروائے گی کہ اگر ضرورت کے تحت ایکسٹینشن لیناپڑے توصرف ایک سال کیلیے ہی لی جا سکتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک کا نظام آئینی طریقے سے چلے اورآئین میں رہ کر ہر ادارے کو بڑی اسپیس دی جاسکتی ہے۔

The post مسلم لیگ(ن) کا بیانیہ ہی اس کا کارڈ تھا، شاہدخاقان عباسی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/39uUQ9J
via IFTTT

پاکستانی قرضوں کا حجم زیادہ، شرح نمو کم رہے گی،عالمی بینک ایکسپریس اردو

 اسلام آباد:  عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں معاشی بڑھوتری کے فوری امکانات نہیں ہیں تاہم قرضوں کا حجم زیادہ اور شرح نمو کم رہے گی۔

منگل کو جاری کی جانے والی اپنی سالانہ ساؤتھ ایشیا اکنامک فوکس رپورٹ میں عالمی بینک نے کہا کہ پاکستان کے قرضوں کا گراف بلند رہے گا، رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ٹیکس محصولات کو دگنا کر کے قرضوں کو کم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

پانچ چیئرمین ایف بی آر اور تین وزرائے خزانہ کو تبدیل کرنے کے باوجود وہ ان دو اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں،بینک نے پاکستان کی معاشی بحالی کو بدستور نازک صورتحال سے دوچار قرار دیا ہے اور غربت میں اضافے کی پیش گوئی بھی کی ہے، یہ رپورٹ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے اپنے دوسرے وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو ہٹائے جانے کے ایک دن بعد سامنے آئی ہے۔

عالمی بینک نے آئندہ مالی سال کے لئے صرف دو فیصد معاشی نمو کی پیش گوئی کی ہے ، جو حکومت کے چوتھے سال کے دوران حکومتی ہدف سے نصف ہے۔

رپورٹ کے مطابق مالی سال21 ۔ 2020ء کے دوران اوسط شرح اوسطا 2.2 فیصد ہوجائے گی، 23۔ 2022ء میں زیادہ تر نجی کھپت کی وجہ سے شرح نمو میں اضافے کی توقع ہے،بینک نے رواں مالی سال کے لئے پاکستان میں افراط زر کی شرح 9 فیصد رہنے کی توقع ظاہر کی ہے،تاہم آئندہ مالی سال میں یہ شرح کم ہوکر 7 فیصد ہوجائے گی۔

The post پاکستانی قرضوں کا حجم زیادہ، شرح نمو کم رہے گی،عالمی بینک appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/39rTVqC
via IFTTT

ای سی سی آج بھارت سے چینی و کپاس درآمد کا جائزہ لے گی ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: اقتصادی رابطہ کمیٹی آج بھارت سے چینی و کپاس درآمد کا جائزہ لے گی۔

اقتصادی رابطہ کمیٹی کا اجلاس آج (بدھ) وزیرخزانہ حماد اظہرکی زیرصدارت ہوگا جس میں بھارت سے چینی اورکپاس کی درآمد سمیت 21 نکاتی ایجنڈے پر غورکیا جائیگا۔

حفیظ شیخ کے بعد حکومت نے وزیر خزانہ حماد اظہر کو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کا سربراہ بنادیا ہے جوآج اقتصادی رابطہ کمیٹی کے پہلے اجلاس کی صدارت کریں گے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اجلاس میں سٹریٹجک ٹریڈ پالیسی فریم ورک 2020-25 پر غور کیا جائے گا، پنک راک سالٹ کے جغرافیائی حقوق کی رجسٹریشن کیلیے سمری پیش ہوگی، پی آئی اے کی تنظیم نو کی سمری بھی پیش کی جائیگی۔

اجلاس میں وزیراعظم کی کم لاگت گھروں کی اسکیم کیلیے 2 ارب روپے گرانٹ ،وزارت پٹرولیم کیلیے ٹیکنیکل گرانٹ کی سمریوں کی منظوری متوقع ہے۔

The post ای سی سی آج بھارت سے چینی و کپاس درآمد کا جائزہ لے گی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2QJQcOC
via IFTTT

چند اہم واقعات ایکسپریس اردو

بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے 23مارچ 1940 کا دن کوئی عام دن نہیں تھا، وہ ایک عظیم انقلاب کی طرف مسلمانوں کا فیصلہ کن قدم تھا۔ ہندوستان کے کونے کونے سے لاہور آنیوالے افراد صرف جلسہ دیکھنے نہیں بلکہ ہندوستان کی تاریخ اور جغرافیہ بدل دینے کا عزم لے کر آئے تھے۔

عالمگیری مسجد کے پر شکوہ مینار دیکھ رہے تھے کہ لاہور کے اس تاریخی میدان میں (جو اب مفکّرِ پاکستان کے نام سے موسوم ہے) کرہ ارض پر بسنے والی مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی کے مستقبل کا فیصلہ ہونے جارہا ہے، اسٹیج پر ہندوستان کے ہر علاقے کے مسلمانوں کے چوٹی کے رہنما موجود تھے ۔ مگر ہزاروں سامعین کی نظریں کسی اور کو تلاش کر رہی تھیں۔ ٹھیک دو بجکر پچپن منٹ پر پورے ہندوستان کا سب سے قابلِ اعتبار اور سب سے بلند کردار رہنما اسٹیج پر نمودار ہوا تو مجمعے میں برقی رو دوڑ گئی۔

سامعین کے جوش و خروش نے انتہاؤں کو چھولیا۔ قائدِاعظم زندہ باد کے نعروں کی گونج پورے لاہور میں سنائی دینے لگی۔ اُس جلسے میں پاس ہونے والی قرارداد چند الفاظ کا مجموعہ نہیں تھا وہ اسلامیانِ ہند کے علیحدہ وجود کا اعلان تھا، اپنے آپ کو ایک علیحدہ ملت کے طور پر منوانے کی للکار تھی، اور حصولِ منزل کے لیے عزمِ صمیم کا اظہار تھا۔

منظرنامہ تیزی سے بدل رہا تھا، مایوسی اور بے یقینی کے اندھیروں میں بھٹکتا ہوا ہجوم قوم میں بدل گیا اور قوم کو منزل نظر آگئی۔ مسلمانوں کو منزل حاصل ہوگئی، پاکستان معرضِ وجود میں آگیااور ہم آزادی کی نعمت سے مالا مال ہوئے۔

اسی لیے پاکستان کے شہری اس تاریخی دن کو یومِ پاکستان کے طور پر ہر سال مناتے ہیں کہ اُس روز مسلمانوں نے متفقہ طور پر دو قومی نظریے کا اعلان کیا تھا۔ہونا تو یہ چاہیے کہ ہر سال 23مارچ کو تعلیمی درسگاہوں میں اور میڈیا کے ذریعے دوقومی نظریے کی اہمیت اور فضیلت اور مسلمانوں کی علیحدہ وطن کے لیے عظیم جدوجہد کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا جائے، مگر 23مارچ ہی کے حوالے سے ریاستِ مدینہ کا راگ الاپنے والی حکومت کے ایک وزیر نے بیان داغا ہے کہ 23 مارچ کی اہمیت ہمارے لیے اس لیے ہے کہ اس روز بھگت سنگھ اور کچھ سکھوں کو پھانسی دی گئی تھی۔ کئی اہلِ نظر نے اس درفنطنی کو یومِ پاکستان کی اہمیت کم کرنے کی ایک بھونڈی حرکت قرار دیا ہے۔

اُدھر خیبر پختونخواکے گورنر نے فرمایا Subcontinet کے مسلمانوں کے ’’غالباً‘‘سب سے بڑے لیڈر محمد علی جناح نے 2013 میں مسلم لیگ کو جوائن کیا تاکہ ” وہ بھی اوٹ پٹانگ مارتے رہے، کیا وزیراعظم صاحب اپنے ساتھیوں کی ایسی حرکتوں کا نوٹس لیں گے جس سے ان کی حکومت کی مزید بدنامی ہورہی ہے۔ بہتر ہے کہ حکومتی شخصیات پر 23مارچ یا 14اگست کو تحریکِ پاکستان کے بارے میں مطالعہ کیے بغیر تقریر کرنے کی پابندی عائد کردی جائے۔

٭…٭…٭

چند روز پہلے سرکاری طور پر اعلان کیا گیا تھا کہ وزیرِاعظم صاحب کورونا کا شکار ہوگئے ہیں۔ہم سب نے ان کی صحتیابی کی دعا کی۔ پرائم منسٹر کے مشیرنے اعلان کیا کہ وزیرِاعظم نے تمام مصروفیات منسوخ کردی ہیں ، ایسا ہی ہونا چاہیے تھا۔ اپوزیشن کے چند بڑے رہنماؤں نے البتہ یہ کہا کہ الیکشن کمیشن نے انھیں 22مارچ کو ذاتی حیثیّت سے طلب کررکھا ہے۔

اس لیے یہ ’’کورونا‘‘ پیشی کو avoidکرنے کے لیے ہے، اُدھر پیشی کی تاریخ گزرگئی اور مریم نواز کی پیشی کی تاریخ قریب آگئی تو وزیرِاعظم صاحب نے وہ کام کردیا جس کی پوری دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی کیونکہ دنیا کے کسی لیڈر نے قرنطینہ میں ہوتے ہوئے اپنے قریب ترین مشیروں کے ساتھ بھی فزیکل میٹنگ نہیں کی، مگر ہمارے وزیرِاعظم صاحب نے قرنطینہ کو چھوڑ چھاڑ کر کچھ خاص لوگوں کو بلایا اور مریم نواز کی پیشی کے بارے میں حکمتِ عملی طے کرتے رہے۔ دوسری طرف کورونا SOPs کو نظر انداز کرنے پر کئی شہری حوالاتوں کی ہوا کھا چکے ہیں۔کیا پاکستان میں بھی کبھی حاکموں سے باز پرس بھی ہوسکے گی ؟

٭…٭…٭

لگتا ہے نالائقی اور میرٹ کے برعکس تقرریاں اور فیصلے موجودہ حکومت کا طُرۂ امتیاز بن چکا ہے۔ 23مارچ کو مختلف فیلڈز میں غیرمعمولی خدمات اورکارکردگی دکھانے والے خواتین و حضرات کو صدرِ مملکت ایوارڈ دیتے ہیں۔ اس بارs  Citation کا معیار بہت پست تھا، مگر اس سے اہم بات یہ ہے کہ کچھ ایوارڈز پر لوگوں نے سخت تخفظات کا اظہار کیا ہے ۔

اسلام کی تبلیغ میں مولانا طارق جمیل کی خدمات بلاشبہ غیرمعمولی ہیں۔ اللہ نے انھیں غیر معمولی حافظے اور خطابت کے جوہر سے نوازا ہے اور انھوں نے اپنی ان صلاحیتوں کو تبلیغِ دین کے لیے استعمال کیا ہے۔ میں ذاتی طور پر ان کا قدردان ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی کچھ باتوں سے اختلاف بھی رکھتا ہوں۔انھیں حکمرانوں کے قرب کا شوق ہے۔ اسلام کی روح کو سمجھنے والے سب سے بڑے تھنکر اور شاعر علامّہ اقبال فرماگئے ہیں کہ

ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق

جو تجھے حاضر وموجود سے بیزار کرے

فتنۂ ملتِ بیضا ہے امامت اس کی

جو مسلماںکو سلاطیںکا پرستار کرے

مگر اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ انھوں نے آخرت کا خوف اور اللہ اور نبی کریمﷺ کی محبت لاکھوں مسلمانوں کے دلوں میں ڈال دی ہے۔ جو ان کا غیرمعمولی کارنامہ ہے۔ وہ تو ویسے بھی وزیرِاعظم صاحب کے حمایتی ہیں، انھیں مذہبی خدمات پر ہلالِ امتیاز بھی دے دیا جاتا تو بھی کوئی اعتراض نہ کرتا مگر انھیں پرائیڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ دیا گیا جو ان کے مقام اور مرتبے سے کمتر ہے۔

کئی تیسرے درجے کے گلوکاروں اور ایکٹرسوں کو ستارۂ امتیاز دے دیا گیاہے جو پرائیڈ آف پرفارمنس سے برتر سمجھا جاتا ہے۔ ویسے بھی پرائیڈ آف پرفارمنس آرٹسٹوں کو دیا جاتا ہے۔ مولانا طارق جمیل کوئی آرٹسٹ نہیںبلکہ ملک کے معروف اور مقبول مبلغ ہیں۔اُن کے مرتبے سے کمتر ایوارڈ دیکر ان کی توہین کی گئی ہے۔

راقم کو 2016 میں ستارۂ امتیاز دیا گیا مگر اس لیے کہ سروس کے دوران سات بار مختلف حکمرانوں نے خود بلاکر اہم ذمے داریاں سونپیں اور ہربار خالق و مالک نے سرخروکیا۔ اِس ناچیز کے ہاتھوں کئی محکمے transform ہوئے اور کئی ڈوبے ہوئے ادارے پاؤں پر کھڑے ہوئے۔اُس وقت کی ایوارڈ کمیٹی کے ممبران کا کہنا تھا کہ ’’صرف پاسپورٹ کے سنگین قومی بحران پر قابو پالینا ہی سب سے بڑا ایوارڈدلانے کے لیے کافی ہے‘‘۔ اس ضمن میں یہ بھی نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ شعروادب کا سب سے بڑا ایوارڈ جناب انور مسعود صاحب کو دیا جانا چاہیے ۔ اس سے خود ایوارڈ کی عزت افزائی ہوگی۔

٭…٭…٭

حکومت کسی پارٹی کی بھی ہو، صوبے کا وزیرِاعلیٰ اور حکومتی پارٹی کے ممبرانِ اسمبلی، بلدیاتی اداروں کو سوکن سمجھتے ہیں، وہ اپنے اختیارات اور فنڈز اُنکے ساتھ شیئر نہیں کرنا چاہتے ۔ جیسے بھی ہوئے، پچھلی حکومت میں صوبہ پنجاب کے بلدیاتی اداروں کے انتخابات ہو گئے اور اداروں نے اپنا کام شروع کردیا، جن منتخب اداروں کی تعمیر و تشکیل پر اربوں روپے خرچ ہوئے تھے، پی ٹی آئی کی حکومت نے انھیں ایک انتظامی حکم کے تحت برخاست کردیا۔ حکومت کے اس اقدام کو اُس وقت بھی ہر ذی شعور اور جمہوریت پسند شخص نے غیرجمہوری، آمرانہ اور ظالمانہ قرار دیا تھا۔ خیال تھا کہ اعلیٰ عدالتیں حکومت کے اس غیرآئینی اقدام کو فوری طور پر کالعدم قرار دیکر منتخب ادارے بحال کردینگی، ایسا نہ ہوسکا۔ بہرحال اب جاکر سپریم کورٹ نے بلدیاتی ادارے بحال کردیے ہیں۔

عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ قابلِ تحسین ہے۔ امید ہے کہ وزیرِاعظم سپریم کورٹ کے فیصلے کی روح کے مطابق اس پر عملدرآمد کرائینگے اور بلدیاتی اداروں کے فنڈز روک کر یا ان کے اختیارات افسر شاہی کو منتقل کرکے منتخب اداروں کو غیرفعال بنانے کی کوشش نہیں کرینگے۔ جس طرح مرکزی اور صوبائی حکومتیں چاہتی ہیں کہ وہ اپنی مدت پوری کریں، اسی طرح بلدیاتی اداروں کو پورے پانچ سال کام کرنے دیا جائے۔ انھیں جتنے عرصے کے لیے معطل رکھا گیا ہے، اتنا عرصہ انھیں اضافی دیا جائے تاکہ وہ بھی اپنی مُدت پوری کرسکیں۔

٭…٭…٭

سیاسی پارٹیوں کے نظریات کچھ بھی ہوں، ریاستِ پاکستان کا کشمیر کے بارے میں ایک واضح موقف ہے اور پچھلے ستر سال سے وہ اُس پر قائم ہے،مگر پہلی بار ِ پاکستان کے موقّف میں تبدیلی نظر آئی ہے، جس میں کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو اور خود کشمیر کو فراموش کرکے بھارت کے ساتھ دوستی کی بات کی گئی ہے۔ اس پر کشمیر کے سب سے مقبول رہنما سید علی گیلانی نے دکھ کا اظہار کیا ہے اور ملک کے اندر بھی لوگ تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ عوام اور پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر ریاستی موقّف میں کوئی تبدیلی نہیں ہونی چاہیے۔

٭…٭…٭

اسٹیٹ بینک کی ’’اٹانومی‘‘ کے بارے میں ماہرین تشویش کا اظہار کررہے ہیں، کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے پارلیمنٹ اور میڈیا میں تفصیلی بحث ہونی چاہیے۔

The post چند اہم واقعات appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3dgIeUS
via IFTTT