Wednesday, March 31, 2021

خطہ میں امن کی بحالی ، مثبت پیش رفت ایکسپریس اردو

وزیراعظم عمران خان نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو جوابی خط لکھا ہے ، خط کے مندرجات کچھ یوں ہیں کہ پاکستان کی حکومت اور عوام ،بھارت سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے پرامن اور تعاون پر مبنی تعلقات چاہتے ہیں ، جنوبی ایشیا میں دیرپا امن واستحکام کے لیے جموں وکشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب تنازعات کا حل ہونا ضروری ہے ، جب کہ تعمیری اور نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ضروری ہے ۔

گزشتہ ہفتے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ ’’پڑوسی ملک کے طور پر بھارت، پاکستانی عوام سے خوشگوار تعلقات کا خواہش مند ہے جس کے لیے اعتماد پر مبنی، دہشت گردی اور دشمنی سے پاک ماحول ضروری ہے‘‘ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے خطوط کے متن کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات اخذ کرنے میں قطعاً دشواری نہیںہوگی کہ پاکستان بھارت تعلقات پرجمی برف پگھلانے کی کوشش شروع ہوچکی ہے ، بلاشبہ یہ اقدام، خطے میں امن کی بحالی کی طرف مثبت اور خوش آیند اقدام قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اس موقعے پر ہم توقع کرتے ہیں کہ عالمی برداری بھی تعمیری روش اپنائے گی، تاکہ نہ صرف جنوبی ایشیائی خطہ بلکہ پوری دنیا امن کا گہوارہ بن سکے۔

یہ بات تو واضح ہے کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ آزاد ممالک کی طرح برابری کی بنیاد پر دوستی و تعاون کے ایسے معاہدوں کے لیے تیار ہے ،جیسا کہ دیگر اقوام کے ساتھ کیے جا سکتے ہیں، لیکن بات یہ ہے کہ پہلے بھارت اپنی سوچ میں مثبت تبدیلی لائے، حل طلب مسائل کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھے،تاریخ کے ورق پلٹیں ،تویہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ ہی سے اتار چڑھاؤکا شکار رہے ہیں،مختلف واقعات کے رونما ہونے سے تعلقات پر بہت اثر پڑا ہے۔

آزادی کے وقت سے ہی دونوں ممالک نے ایک دوسرے سے اچھے تعلقات استوار رکھنے کا عزم ظاہر کیا تھا مگر ہندو مسلم فسادات اور علاقائی تنازعات کی وجہ سے دونوں ممالک میں کبھی اچھے تعلقات دیکھنے کو نہیں ملے۔آزادی کے بعد سے اب تک دونوں ممالک کے درمیان چار بڑی جنگیں جب کہ بہت سی سرحدی جھڑپیںہوچکی ہیں۔ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کو سنگین مسائل درپیش ہیں لیکن یہ دونوں ملکوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے عوام بالخصوص مستقبل کی نسلوں کے لیے اِن تمام مسائل جن میں مسئلہ جموں و کشمیر کے علاوہ سیاچن و سر کریک شامل ہیں پر خصوصی توجہ کریں اوراِنہیں بات چیت کے ذریعے حل کریں۔

وزیراعظم عمران خان کی تجویز قائداعظم محمد علی جناح کی فکر کے عین مطابق ہے، قیام پاکستان کے بعد بانی پاکستان نے رائٹر کے نمایندے ڈنکن ہوپر کو انٹرویو دیتے ہوئے واضح کر دیا تھا کہ پاکستان ایک الگ وطن کی شناخت سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا اور نہ ہی کسی بھی شکل میں بھارت کے ساتھ کسی دستوری اشتراک کو قبول کرے گا۔  وزیراعظم کے جوابی خط کے مندرجات ہر پیمانے سے اقوام متحدہ کے چارٹر پر پورا اُترتے ہیں۔

دراصل بھارت کی طرح پاکستان بھی اب ایک موثر ایٹمی طاقت ہے البتہ بھارت کے توسیع پسندانہ ایٹمی عزائم کے سامنے پاکستان کا ایٹمی پروگرام خطے میں پُرامن بقائے باہمی کے حوالے سے ہی سامنے آیا تھا تاکہ خطے میں جنگ کے بجائے دونوں ملکوں میں پُرامن تہذیبی توازن کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق استوار کیا جائے لیکن بھارت خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے بدستور متحرک ہے جب کہ وزیراعظم عمران خان کا خط دونوں ممالک کی خود مختاری، سرحدوں کے احترام اور علاقائی و بین الاقوامی مسائل جن میں مسئلہ کشمیر کو بنیادی حیثیت حاصل ہے کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق بات چیت سے حل کرنے کی غمازی کرتا ہے۔

اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر ایک حل طلب مسئلہ ہے جو آج بھی اقوام متحدہ کے ایجنڈے کا حصہ ہے جہاں بھارتی افواج کشمیریوں پر ظلم و ستم اور کشمیری خواتین و نوجوان طلبا و طالبات پر بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں مصروف ہیں۔بھارت کی اس پالیسی کی بنیاد پر ہی پاکستان کے ساتھ اس کے تنازعات شروع ہوئے جن میں کشمیر کا تنازعہ پاکستان کی سلامتی کو کمزور کرنے کی نیت سے بھارت نے خود کھڑا کیا تھا، جو آج قدیم ترین تنازع کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس مسئلہ کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد تو کجا، بھارت شملہ معاہدہ کے تحت پاکستان کے ساتھ کبھی دوطرفہ مذاکرات کی راہ پر بھی نہیں آیا۔

اس کے برعکس بھارت نے اپنے غیر قانونی قبضہ میں لی گئی وادی جموں و کشمیر کی بابت اٹوٹ انگ کا راگ الاپ کر یہ مسئلہ مزید پیچیدہ بنایا اور پھر پانچ اگست 2019کو اپنے زیر تسلط جموں اور لداخ کو باقاعدہ بھارت میں ضم کر کے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو سنگین خطرات لاحق کیے۔

چند روز قبل ایک تقریب سے اپنے خطاب میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ مستحکم پاک بھارت تعلقات مشرقی اور مغربی ایشیا کو منسلک کرتے ہوئے جنوب اور وسط ایشیا کی صلاحیتیں بروئے کار لانے کی کنجی ہے لیکن یہ صلاحیت دونوں جوہری صلاحیت کے حامل پڑوسی ممالک کے درمیان یرغمال بنی رہی ہے۔ یہ ماضی کو دفن کر کے آگے بڑھنے کا وقت ہے، بامعنی مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی ذمے داری اب بھارت پر عائد ہوتی ہے، ہمارے پڑوسی ملک کو خصوصاً مقبوضہ کشمیر میں سازگار ماحول بنانا ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان اور پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل باجوہ کی طرف سے پیشکش ایسے وقت میں ہوئی ہے جب دونوں ملکوں کے درمیان ایک نئے امن عمل کی ابتدا ہورہی ہے۔

تعلقات کے جمود کے بعد برف پگھلنے کے واضح آثار نظر آرہے ہیں۔بہتر تعلقات کی کوششیں پہلے بھی متعدد بار ہوتی رہی ہیں، مگر صورتحال جوں کی توں رہی۔ اِس بار بھی امریکا اور چین کی سہولت کاری کے باعث کوششیں شروع ہوچکی ہیں، اس عمل کو شروع کرنے میں امریکا اور چین کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات کا نام بھی سامنے آرہا ہے۔امید کی جانی چاہیے کہ قومی سلامتی مکالمے کو مزید آگے بڑھایا جائے تاکہ اچھے دنوں کے قیام کا خواب اپنی تعبیر حاصل کر سکے۔تین بڑی جنگوں اور کارگل تنازعے نے یہ ثابت کیا ہے کہ تنازعات جنگوں سے حل نہیں ہوتے۔

پاک بھارت بڑھتی کشیدگی نہ صرف دفاعی اخراجات میں اضافے کا سبب بنتی ہے بلکہ غربت، ناخواندگی اور عوام کی محرومیوں میں بھی اضافے کا سبب بنتی ہے جب کہ دونوں ممالک کی ایٹمی ہتھیاروں کی صلاحیت نے تو خطے کو انتہائی حد تک غیر محفوظ بھی کردیا ہے۔پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے خصوصی سفیروں کی تعیناتی،ٹریک ٹو ڈپلومیسی، سارک تنظیم کی وسعت اور تنازعات کے حل کے لیے عالمی طاقتوں کی مدد بھی حاصل کی جانی چاہیے۔ بھارت کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کے مقابلے میں متکبرانہ رویہ ترک کرے اور پاکستان کے لیے فعال اور مثبت پالیسی اختیار کرے۔

پاکستان میں اے پی ایس پشاور جیسے بے شمار واقعات ہوئے ہیں جن میں بھارت کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت ملے ہیں لیکن بھارت کی تان ٹوٹی ہے تو جہاد پر اور اس کی ’’دیدہ بینا‘‘ کھٹکی ہے تو کشمیر میں تحریکِ آزادی کی پاکستان کی جانب سے کی جانے والی اخلاقی حمایت ۔اگر بھارت واقعی دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری چاہتا ہے تو تنازعہ کے بنیادی نکتہ کو حل کرنا چاہیے اور وہ نکتہ مسئلہ کشمیر ہے۔بھارت کو اب سمجھنا چاہیے کہ مسئلہ کشمیر نہ صرف دونوں ملکوں کے لیے بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں تناؤاور کشیدگی کا باعث ہے۔

اس کے علاوہ بھی بعض حل طلب مسائل موجود ہیں، لیکن مسئلہ کشمیر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سرحد پر سیز فائر ہونا بہت اہم اور باعث سکون قدم ہے۔اس میں پاکستان کی عسکری قیادت کی کوششیں قابل تحسین ہیں۔ اس سے سرحدکے دونوں طرف رہنے والوں خصوصاً آزاد کشمیر میں سرحدی دیہات کے رہنے والوں کو سکون مل گیا ہے، یہ سیز فائر دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کے قیام کے لیے نقطہ آغاز ہو سکتا ہے لیکن یہ دونوں ملکوں کے درمیان مسائل کے حل تک قائم رہنا نہایت ضروری ہے۔ یقیناً بھارت کو معلوم ہو گا کہ دونوں ملکوں کے لیے تجارت کی کتنی اہمیت ہے۔

بالخصوص بھارت کی معیشت کی بہتری میں پاک بھارت تجارت نہایت اہم اور ضروری ہے۔ اچھے پڑوسی بن کر رہنے میں دونوں ملکوں کے عوام کا بھلا ہے۔بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے نام لکھے گئے خط میں دہشت گردی کا بھی ذکر کیا ہے۔

یہ بھی پاکستان کی مسلسل کوششوں کا نتیجہ ہے۔ بھارت کو دہشت گردی کے حوالے سے حقائق کو سامنے رکھنا چاہیے۔اب اگر بھارت کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے تو یہ بھی ایک مثبت پیش رفت ہے اور چونکہ ایسی کارروائیاں دوسری طرف سے ہوتی ہیں تو بھارت کو ہی ایسے اقدامات کو روکنا ہو گا۔ اسی طرح اگر بھارت واقعی علاقے میں قیام امن میں سنجیدہ ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات چاہتا ہے تو اس کا عملی مظاہرہ بھی بھارت کو کرکے دکھانا چاہیے۔

دور حاضر میں جنگیں محض میدان جنگ میں نہیں لڑی جاتیں بلکہ اب یہ دائرہ ہمہ جہتی شکل اختیار کر چکا ہے۔ایک جانب اقتصادی،معاشی، معاشرتی اور ماحولیاتی تحفظ بھی اس کی اہم جزئیات میں شامل ہو چکے ہیں تو دوسری طرف سائبر سیکیورٹی،آرٹی فیشل اینٹی جنس، کورونا جیسی مہلک وبائیں اورتیزی سے پگھلتے گلشیئر خطر ے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ موسمی تبدیلیاں ہر شے کو نگلنے کے درپے ہیں اور دنیا تیزی سے ان دیکھے خطرات کی جانب بڑھ رہی ہے۔ایسے میں توقع کی جانی چاہیے کہ پاکستان اور بھارت کی قیادت سیاسی فہم وفراست اور تدبر سے کام لیتے ہوئے خطے کے ڈیڑھ ارب انسانوں کے مستقبل کی خاطر امن کی راہ پر چلے گی ۔

The post خطہ میں امن کی بحالی ، مثبت پیش رفت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3ucOfZu
via IFTTT

No comments:

Post a Comment