ہمیں معلوم ہے کہ یہ جوتازہ ترین ’’بہرتقسم قبور‘‘ ایک سینیٹ انتخابات کے نام سے ہوئی ہے، ہمارے کچھ شبھ چنتک ہم سے بھی توقع کرتے ہوں گے کہ اس پر…
کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالب غزل سرانہ ہوا
لیکن ہم کہیں بھی توکیاکہیں کہ اس میں نئی بات کیاہے، انڈوں کی تجارت ہے جو ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے اورہوتی چلی جائے گی، اس میں مرغی یامرغیاں نئی ہیں نہ انڈا اورنہ ہی انڈوں کے سوداگر۔مرغی کاتو کام ہی یہی ہے کہ انڈا دے ،اس کے بعد انڈے کاکیاہوتاہے ،کہاں کہاں بیچااورخریداجاتاہے۔
بڑے مزے کاایک خیال آیاہے،پڑوسی ملک کے دھرم کانظریہ کائنات یہ ہے کہ سب سے پہلے ’’برھما‘‘دیوتاپیداہواجس کے پیٹ میں ایک ’’انڈا‘‘تھا ۔ برھما نے اپنے پیٹ کے انڈے سے یہ کائنات بنائی، اسی لیے کائنات کو ’’برھمانڈ‘‘یعنی برھما کاانڈاکہاجاتاہے۔
آپ پورے بھارت کاچپہ چپہ چھان مارئیے، کہیں بھی نہ تو برھما کاکوئی مندرملے گا نہ مورتی اورنہ ہی اس کی پوجا۔جب کہ قدم قدم ،گھر گھرمیں وشنو(پالن ہار) اورشبھ(قبار) کے مندر اوربت دکھائی دیں گے، یہاں تک کہ گاڑیوں میں،گلے میں اورکپڑوں پر بھی ان کے نام یانقش ہوں گے کیوں کہ ایک دیتاہے، دوسرا مارتاہے۔ ایک کے پاس ’’لالچ‘‘ ہے دوسرے کے پاس’’ڈر‘‘ ہے اوربرھمابچاراتو انڈہ دے چکاہے، اسے اب واپس تو نہیں لے سکتا، باقی اس کے پاس بچا کیا ہے۔ پاکستانی عوام یامرغی ہے ،آگے اس کے انڈے کے ساتھ کیاکیاہوتاہے اورہورہاہے اس پر مرغی یابرھما یاووٹر کاکیا بس چلتا ہے؟اصل چیزیاانڈاہے یااس کے سوداگر؟باقی مایا صرف چھایاہے ۔
انڈے کے بارے میں ایک لطیفہ دوچرسیوں کاہے جو آپس میں’’پہیلی بوجھ پہیلی‘‘ کھیل رہے تھے ،ایک چرسی نے پوچھا، اچھا یہ بتاؤمیری مٹھی میں کیاہے، اس نے سلگتی ہوئی سگریٹ مٹھی میں چھپالی جس کادھواں انگلیوں سے نکل رہاتھا۔ دوسرا چرسی بولا،کچھ کلیودے دو،اس نے کلیو دیا ہے ،دوسرے نے کہا سمجھ گیاتم نے اپنی مٹھی میں ریل گاڑی چھپائی ہے۔
اس پر پہلے نے کہا،نہیں یار!تم نے دیکھ لیاہوگا ۔ اچھا چلواب تم پوچھ لو۔دوسرے نے پوچھا، وہ کیاہے جو گول ہے، باہرسے سفید اوراندر سے زردہے،پہلے نے بھی لائف لائن پوچھی تو دوسرے نے بتایاکہ اسے لوگ کھاتے بھی ہیں اورپکاتے بھی ہیں۔پہلے نے سوچتے ہوئے کہا، یہ کسی ٹوکری میں مولیوں کے اندر گاجریں رکھی ہوئی ہیں،ظاہرہے کہ دوسرے نے بھی وہی اعتراض کیاہوگا جوپہلے نے کیاہے کیوں کہ چرسی لوگ ون ٹریک ہوجاتے ہیں، بالکل سیاستدانوں کی طرح ایک دوسرے پر دھاندلی کاالزام لگاتے ہیں۔
انڈے کے لفظ میں اصل مادہ ’’ان‘‘ کا ہے۔ ’’ان‘‘ سے اناج، غلہ دانہ یاپانی کاقطرہ ہے جو ایک بیج اورتخم بھی ہوتاہے۔ایران ،افغانستان میں انڈے کو ’’تخم‘‘ کہاجاتاہے جو ’’تخم مرغ‘‘کامخفف ہے چنانچہ گاہک دکاندارسے صرف اتنا کہتاہے دانہ دودانہ …تخم۔اوروہ مرغی کے انڈے دے دیتاہے۔
اب تازہ ترین منڈی یابازارپر آتے ہیں جس میں انڈوں کی ٹوکریوں والے اپنے انڈے بیچ چکے تو اس میں کیانئی بات ہے جس پر ہم لکھیں۔البتہ اگر یہ انڈے یاتخم بوئے جائیں تو گل وگلزار ہوجائے اورہم ان پر خوشی خوشی لکھتے لیکن جب ’’تخم‘‘ صرف بیچا خریدا جائے توچھوڑئیے۔مرغی کی بات کیجیے جو ابھی سلامت ہے اورہمارے پولٹری فارم میں ہے اورانڈے دے گی اوردے گی کہ اس کا تو کام ہی انڈے دینا ہے اورسوداگروں کاکام اسے تھوک یاپرچون ریٹ پر بیچنا ہے ،لوگوں ،ہوٹلوں اورباورچیوں کے ہاتھوں ،آخرمیں ایک بے موقع شعر سنیے۔
میں نہیں مانگتاکہ تخت بھی ہو تاج بھی ہو
ہرایک گھر میں دیا ہو اوراناج بھی ہو
The post انڈوں کی منڈی میں انڈے، جھنڈے اورفنڈے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3dim2tz
via IFTTT
No comments:
Post a Comment