Monday, May 31, 2021

پہلے حریف کو سمجھو، پھر کچھ سوچو ( حصہ سوم ) ایکسپریس اردو

پانچ جولائی دو ہزار انیس کو اسرائیل کے سرکردہ اخبار ہاریتز میں ایک تحقیقاتی رپورٹ شایع ہوئی ’’ نقبہ کی تدفین ، اسرائیل کیسے منصوبہ بند انداز میں انیس سو اڑتالیس میں عرب آبادی کے جبری انخلا کے ثبوت مٹا رہا ہے ‘‘۔

اس رپورٹ نے مورخ برادری کو ہلا کے رکھ دیا اور ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ ریاستیں اپنی مرضی کی تاریخ مرتب کرنے کے لیے کس حد تک علمی بددیانتی کی پستی میں گر سکتی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دو ہزار پندرہ میں ایک اسرائیلی محقق تمار نوویک کو اسرائیل کے قیام کے وقت قائم ہونے والی بائیں بازو کی سرکردہ جماعت مپام کی تاریخی دستاویزات کے زخیرے تک رسائی مل گئی۔ ایک کاغذ پڑھ کے تمار کا رنگ اڑ گیا۔

’’ صفید نامی قصبے کے نزدیک صفصاف گاؤں میں باون مردوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھ کر خندق کے کنارے کھڑا کر کے گولی مار دی گئی۔ان میں سے دس ابھی تڑپ رہے تھے مگر انھیں بھی دفن کر دیا گیا۔عورتیں اور بچے رحم کی درخواست کرتے ہوئے روتے رہ گئے۔کل اکسٹھ لوگوں کو مارا گیا۔تین خواتین ریپ ہوئیں۔ایک چودہ برس کی مردہ لڑکی کی انگلی کاٹ کے انگوٹھی اتار لی گئی ‘‘

یہ تفصیل کس نے قلمبند کی؟ نامکمل دستاویز سے اس کا پتہ نہیں چلتا۔مگر اس قتلِ عام کی تصدیق دیگر معروضی واقعات سے کی جا سکتی ہے۔جیسے بالائی گلیلی کے صفصاف گاؤں پر انیس سو اڑتالیس کے آخری دنوں میں نوتشکیل اسرائیلی فوج کے ساتویں بریگیڈ نے قبضہ کیا اور پھر اسے موشاوو صفصفا کا نام دے کر یہودی آباد کار بسائے گئے۔ساتویں بریگیڈ نے یہاں جو بھی زیادتیاں کیں ان کا اعلیٰ فوجی قیادت کو بروقت علم تھا۔نیز اس علاقے میں متحرک آٹھویں اور نویں بریگیڈ نے بھی عرب نقل مکانی کے عمل کو تیز تر کرنے کے لیے بڑھ چڑھ کے کارکردگی دکھائی۔

نقبہ پر تحقیق کرنے والے سرکردہ اسرائیلی مورخ بینی مورث نے بھی تصدیق کی کہ ہگانہ ملیشیا (جو بعدازاں اسرائیلی فوج میں ضم ہو گئی) کے کمانڈر اسرائیل گلیلی نے نومبر انیس سو اڑتالیس میں مپام پارٹی کے رہنما آہرون کوہن کو بتایا کہ صفصاف گاؤں میں کیا ہوا۔مورخ تمار نووک نے جو دستاویز دیکھی وہ غالباً آہرون کوہن کے مرتب کردہ نوٹس ہی تھے۔مگر کچھ عرصے بعد تمار دوبارہ دستاویزات دیکھنے آیا تو یہ نوٹس غائب تھے۔جب تمار نے اس دستاویزی زخیرے کے انچارج سے ان نوٹس کی بابت پوچھا تو اسے بتایا گیا  کہ وزارتِ دفاع کے کارندے یہاں سے کچھ دستاویزات اٹھا کر لے گئے ہیں اور اب یہ دستاویزات عام ملاحظے کے لیے دستیاب نہیں۔

اسرائیلی وزارتِ دفاع نے دو ہزار دو کے بعد سے قومی آرکائیوز کے زخائر کی چھان پھٹک شروع کی تاکہ اسرائیل کے جوہری پروگرام سے متعلق دستاویزات کو وزارتِ کی تحویل میں لے کر سربمہر کیا جا سکے۔

پھر دو ہزار نو میں اس چھان پھٹک کے دائرے میں نقبہ سے متعلق دستاویزات کو بھی شامل کر لیا گیا۔ حالانکہ ان میں سے کچھ تفصیلات برسوں پہلے کہیں نہ کہیں شایع بھی ہوتی رہیں۔مگر اب ان تک رسائی ممنوع قرار دی جا چکی ہے۔

یاہیل ہوروو دو ہزار سات میں وزارتِ دفاع سے ریٹائر ہوئے۔انھوں نے ہاریتز اخبار کو بتایا کہ انھوں نے ہی سن دو ہزار سے ’’ قومی سلامتی سے متعلق  تاریخی ریکارڈ کو سربمہر کرنے کے پروجیکٹ کی قیادت کی اور اس کام سے سات برس منسلک رہے ۔بقول یاہیل ایک الزام کی تب تک کوئی تاریخی اہمیت نہیں ہوتی جب تک اس کے پیچھے مصدقہ دستاویزی ثبوت نہ ہوں اور وزارتِ دفاع یہ نہیں چاہتی کہ اس معاملے میں طے شدہ ریاستی بیانئے پر سوال اٹھے۔

نقبہ کے بارے میں اسرائیلی ریاست کا یہ موقف ہے کہ مقامی عرب رہنماؤں نے اپنے مفادات کی خاطر بھرپور پروپیگنڈہ مہم چلا کر عرب آبادی کو خوف زدہ کر کے ہجرت پر آمادہ کیا۔مگر جون انیس سو اڑتالیس میں اس وقت کے اسرائیلی خفیہ ادارے شائی ( شن بیت کے پیشرو)کے ایک اعلیٰ اہلکار نے عرب ہجرت کے اسباب پر پچیس صفحے کی جو رپورٹ لکھی اس نے  سرکاری بیانئے کا بھانڈا پھوڑ دیا۔

یہ رپورٹ درمیان میں کئی برس غائب رہی لیکن اب اسے ریلیز کر دیا گیا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق ستر فیصد عرب آبادی کو فوجی آپریشنز کے ذریعے بھاگنے پر مجبور کیا گیا۔ان آپریشنز میں فوج کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ مسلح یہودی ملیشیاوں ( ارگون ، لیہی، سٹیرن گینگ)نے بھی ہاتھ بٹایا۔باقی تیس فیصد عرب قریبی  دیہاتوں سے آنے والی تشویش ناک خبریں سن سن کر نکل بھاگے۔ جو تب بھی نہیں نکلے انھیں سنگین نتائج کی دھمکی دے کر نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔

سن دو ہزار میں ایتزاک رابین ریسرچ سینٹر نے انیس سو اڑتالیس کے واقعات کے تناظر میں اس دور کے کئی فوجی افسروں سے انٹرویو ریکارڈ کیے۔یہ انٹرویوز بھی بعد ازاں وزارت دفاع نے اپنی تحویل میں لے لیے۔سابق برگیڈئیر آریا شالیو اور سابق میجر جنرل ایلاد پیلڈ نے اعتراف کیا کہ عرب آبادی کو بھگانے کے بعد ان کے گھروں کو مٹانا اس لیے ضروری تھا کہ وہ کچھ عرصے بعد واپس آنے کی کوشش نہ کریں۔چنانچہ جو مرد اپنی عورتوں اور بچوں کو واپسی کے ارادے سے گھروں میں پیچھے چھوڑنا چاہتے تھے انھیں پورے کنبے کو ساتھ لے جانے پر مجبور کیا گیا۔

سابق میجر جنرل ایلاد پیلڈ نے یہ خوفناک اعتراف بھی کیا کہ بالائی گلیلی میں میری پلاٹون نے ساسا نامی گاؤں کے بیس گھروں کو نصف شب کے قریب دھماکا خیز مواد سے اڑایا۔شاید اس وقت ان گھروںمیں لوگ سو رہے تھے۔اس واقعہ کے بعد بالائی گلیلی عرب آبادی سے تیزی سے خالی ہو گیا۔

ایک اور ریٹائرڈ میجر جنرل ایورام تامیر نے بتایا کہ جب وزیرِ اعظم بن گوریان کو اطلاعات ملیں کہ دریاِ اردن پار کرنے والے سیکڑوں مہاجرین دوبارہ اپنے دیہاتوں میں آنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں تو پھر یہ پالیسی اختیار کی گئی کہ جتنے بھی خالی عرب دیہات ہیں ان سب کو اڑا دیا جائے۔چنانچہ فوج کی انجینئرنگ بٹالینز نے بیشتر کام اگلے بہتر گھنٹے میں مکمل کر لیا۔

جب اسرائیل قائم ہوا تو جنوبی صحراِ نجف میں ایک لاکھ سے زائد عرب بدو ہزاروں برس سے آباد تھے۔اگلے نو برس میں ان کی تعداد گھٹ کے تیرہ ہزار رہ گئی۔یہ بدو کسی قیمت پر علاقہ چھوڑنے  کے لیے آمادہ نہیں تھے۔ انھیں راضی کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً ان کے خیموں کو آگ لگائی جاتی رہی اور اونٹ اغوا ہونے لگے یا پھر ذبح ہونے لگے۔المختصر موجودہ اسرائیل کی سرحدوں کے اندر سے انیس سو اڑتالیس تا پچاس کم ازکم ساڑھے سات لاکھ عرب نکال دیے گئے۔

انیس سو اٹھانوے میں اسرائیلی خفیہ ادارے موساد اور شن بیت کی بہت سی پرانی دستاویزات کی  پچاس برس کی میعاد مکمل ہو گئی۔اس مدت کے بعد ان دستاویزات کو اسرائیلی قانون کے مطابق مورخوں کے مطالعے کے لیے کھول دیا جانا چاہیے تھا مگر خفیہ اداروں نے ’’ قومی سلامتی کے تحفظ‘‘ کی خاطر ان دستاویزات کو انتہائی حساس قرار دیتے ہوئے کابینہ سے مطالبہ کیا کہ ان دستاویزات کو عام کر نے کی مدت پچاس برس سے بڑھا کر ستر برس کر دی جائے۔کابینہ نے یہ مدت بڑھا کر نوے برس کر دی ۔ (قصہ ختم)

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

The post پہلے حریف کو سمجھو، پھر کچھ سوچو ( حصہ سوم ) appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3fDxX7K
via IFTTT

غلطیاں ایکسپریس اردو

پی ڈی ایم کو دوبارہ متحرک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس بار ملک کے مختلف علاقوں میں جلسوں کی تاریخیں دی گئی ہیں، پیپلز پارٹی جو متحرک دو پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں سے ایک تھی وہ اب پی ڈی ایم چھوڑ چکی ہے یوں اب پی ڈی ایم میں صرف مسلم لیگ(ن) کے علاوہ حضرت مولانا فضل الرحمن اور ان کے ہزاروں رضاکار ہیں۔ باقی کبھی کبھی جب اپوزیشن اپنی پوزیشن کو ختم ہونے سے بچانے کے لیے پارٹیوں میں سے ایک دو پارٹی رہنما پی ڈی ایم کی میٹنگ میں نظر آتے ہیں باقی 11پارٹیوں کا صرف کام چلتا ہے۔

ہم نے پہلے بھی لکھا ہے اب بھی لکھ رہے ہیں کہ سیاست میں ہمیشہ پارٹیوں کا مقصد صرف اور صرف حصول اقتدار ہوتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب وہ کون سی ایمرجنسی آگئی ہے کہ ملک بھر میں جلسوں کے پروگرام دیے گئے ہیں،  کیا موجودہ حکومت احسن طریقے سے کام نہیں کر رہی ہے، سوائے مہنگائی کے جس میں حکومت کی نااہلی کا ہاتھ ہے باقی سارے معاملات ٹھیک طریقے سے چل رہے ہیں بلکہ عوام کو مختلف حوالوں سے ریلیف دیا جا رہا ہے۔

پانی کی قلت کے حوالے سے آج جو صورت حال ہے اس کی ذمے داری سابقہ حکومتوں پر آتی ہے کہ عشروں تک برسراقتدار رہنے کے بعد بھی سابقہ حکومتیں ڈیمز نہیں بنا سکیں اب عمران حکومت دس ڈیموں کی تیاری کر رہی ہے جو اگلے چار پانچ سال میں بن جائیں گے، غریب عوام کو مختلف حوالوں سے مدد دینے کے علاوہ گھر بنانے کے لیے قرض بھی دلا رہی ہے یہ اور اس قسم کے بہت سارے کام موجودہ حکومت کر رہی ہے کیا اس سے انکار کیا جاسکتا ہے؟

عمران خان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے، کام کر رہا ہے توتعریف کی جا رہی ہے کام نہیں کرے گا تو تنقید کی جائے گی یہ اہل الرائے کا اصول ہے۔ ملک میں چینی کا بحران پیدا کیا گیا۔ کیا ہم اسے اتفاق کہیں یا حقیقت کہ چینی کے زیادہ تر کارخانے اپوزیشن  رہنماؤں کی ملکیت ہیں؟ کیا چینی کی مہنگائی اور قلت میں ان سیاستدانوں اور شوگر مل مالکوں کا ہاتھ ہے؟ یہ ایک ایسا اوپن سیکرٹ ہے جس کی تحقیق ہونی چاہیے تاکہ اصل مجرموں کا پتا چل سکے جو معیشت کو تہہ و بالا کرتے رہتے ہیں۔

عمران حکومت عوامی مفادات کے بہت سارے کام کر رہی ہے لیکن عمران حکومت کا میڈیا سیل اتنا سست ہے کہ خود اپنی حکومت کے کیے ہوئے کام میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچانے کی زحمت نہیں کرتے، عوامی دباؤ کے پیش نظر شوگر مافیا کی تحقیق کی بات چل رہی ہے،شوگر مل مالکان تڑی دے رہے ہیں کہ اگر تحقیق کی کوشش کی گئی تو ہم چینی کی قیمتیں اور بڑھا دیں گے۔ اس بلیک میلنگ کا مقصد چینی کی قیمتیں بڑھا کر کروڑوں روپے کمانے والوں کو تحقیق سے بچانا ہے یہ کھلی بلیک میلنگ ہے جس کے خلاف سخت ترین کارروائی ہونی چاہیے لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟ ایک بات کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ موجودہ حکومت کا ایڈمنسٹریشن انتہائی کمزور ہے جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔

اپوزیشن عوام کو حکومت کے خلاف موبلائز کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی جماعتوں کے کارکن ہیں جو ہمیشہ پی ڈی ایم کے جلسے جلوسوں کو کامیاب بنانے کے لیے استعمال ہوتے آئے ہیں صرف ایک مذہبی جماعت کے ہزاروں رضاکار ہیں۔

عمران خان کی میری حمایت کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس نے اس اقتدار مافیا سے عوام کا پیچھا چھڑایا جو عشروں سے عوام کے سروں پر مسلط تھی۔وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں ان کو بہت سی باتوںسے پرہیز کرنا چاہیے مثلاً نوکریوں کی بات کو لے لیں خان صاحب نے کہہ دیا کہ ہم عوام کو ایک کروڑ نوکریاں دیں گے اور عوام کو پچاس لاکھ مکان بنا کر دیں گے اگرچہ کہ یہ دعوے خلوص دل سے کیے گئے لیکن یہ دعوے سیاسی ہیںجن کے پورے نہ ہونے سے عوام میں حکومت کا اعتبار ختم ہو سکتا ہے۔

جب حکمران کوئی بات کرتا ہے تو متعلقہ ذمے داروں سے پوری معلومات حاصل کرلیتا ہے لیکن لگتا ہے کہ موجودہ حکمران کسی ایشو پر بات کرنے سے پہلے متعلقہ ماہرین سے کوئی مشورہ نہیں کرتے یہ ایک بہت بڑی کمزوری ہے جس سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے۔ مہنگائی پر جتنی توجہ دینی چاہیے نہیں دی جا رہی ہے جو غلطی ہے۔

The post غلطیاں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3vIhMeP
via IFTTT

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے ایکسپریس اردو

فلسطین اور مقبوضہ کشمیر دونوں وہ رستے ہوئے ناسور ہیں جنھوں نے پوری دنیا کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ایک جانب اسرائیل ہے اور دوسری جانب بھارت ہے یہ دونوں ممالک ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ دونوں ہی توسیع پسندی کے جنون میں مبتلا ہیں۔

بھارت اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھ رہا ہے اور اسرائیل گریٹر اسرائیل کا۔ ایک نہتے فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہا ہے تو دوسرا مظلوم کشمیریوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے۔ یہود اور ہنود کے اس گٹھ جوڑ نے عالمی امن کے لیے شدید خطرات پیدا کر رکھے ہیں۔ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر دونوں ہی جگہ پر قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے لیکن اقوام متحدہ کا ادارہ چپ سادھے ہوئے محض خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔

فلسطین ہو یا مقبوضہ کشمیر دونوں جگہ مسلمانوں کے خون کی ارزانی ہے۔ مائیں بے اولاد ہو رہی ہیں، بیویاں اپنے شوہروں سے محروم ہو کر بیوائیں ہو رہی ہیں اور بہنیں اپنے پیارے بھائیوں سے بچھڑ رہی ہیں، جب کہ معصوم بچے اپنے والدین کے سائے سے محروم ہو رہے ہیں۔

قابل غور بات یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین اور کشمیر دونوں کے پس پشت فرنگیوں کا ہاتھ ہے۔ اسرائیل برطانوی سامراج کی پیدا کی ہوئی ناجائز اولاد ہے تو مسئلہ کشمیر اس کی بندر بانٹ کا نتیجہ ہے۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس نے بے خوف و خطر ہمیشہ مظلوم فلسطینیوں کے لیے نہایت جرأت مندی کے ساتھ صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ اس کے بعد ترکی اور ایران کا نمبر آتا ہے۔ دوسری جانب بھارت ہے کہ جو اسرائیل کا پٹھو ہے لیکن اس کے باوجود مسلم ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم رکھتے ہوئے اپنے کاروباری مفادات کو فروغ دے رہا ہے گویا:

یزید سے بھی مراسم حسین کو بھی سلام

دوسری جانب مسلم ممالک کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ وہ محض اپنے مفاد کی خاطر اپنے برادر ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مقابلے میں اس بھارت کو ترجیح دے رہے ہیں جو ناصرف مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمان بھائیوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے بلکہ جس نے بھارتی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ 57مسلم ممالک پر مشتمل او آئی سی بھی اس سنگین صورتحال کو تبدیل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

جب کبھی کسی مسلم ملک کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو اس تنظیم کا اجلاس طلب ہوتا ہے جس میں محض قراردادیں منظور کرنے کے علاوہ زبانی جمع خرچ کے سوا عملاً کچھ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے اسلام مخالف قوتیں اس تنظیم کو خاطر میں نہیں لاتیں اور اس کی آواز کو سنی ان سنی سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ گستاخی معاف! اسلامی ممالک کی اس تنظیم کی حیثیت قالین کے شیر سے زیادہ نہیں۔ فلسطین کے خلاف حالیہ اسرائیلی جارحیت کوئی نئی یا انوکھی واردات نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسرائیل اس جرم کا مرتکب بہت مرتبہ ہو چکا ہے۔

اس کی سب سے بڑی وجہ وہ مغربی ممالک ہیں جو یہودیوں کے سب سے بڑے حمایتی ہیں جو اسرائیل کی کھلم کھلا حمایت کرتے ہیں۔ مسلم ممالک کی آپس کی نااتفاقی اسرائیل کی دیدہ دلیری کا سب سے بڑا سبب ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی حالیہ بربریت نے درندوں کو بھی مات کردیا جس کے نتیجے میں خاصی بڑی تعداد میں نہتے فلسطینیوں کی قیمتی جانیں ضایع ہوگئیں۔

ان میں نوجوانوں کے علاوہ بوڑھے، بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔ غزہ پر اسرائیل کے انتہائی شدید فضائی حملے میں وہ عمارت بھی ملبے کا ڈھیر ہوگئی جس میں دنیا کے مشہور و معروف میڈیا ہاؤسز بھی شامل تھے چنانچہ اسرائیل کو اس مرتبہ فلسطین پر اپنے حملے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔

ردعمل کے طور پر عالمی میڈیا نے جو اس سے پہلے اسرائیلی جارحیت کے خلاف گونگا بنا رہتا تھا چراغ پا ہو گیا اور اس نے اس اسرائیل کی ننگی جارحیت کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا چنانچہ اس مرتبہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف بیشتر مغربی ممالک میں پرزور احتجاج اور زبردست مظاہرے ہوئے جن میں برطانیہ کے علاوہ امریکا اور فرانس بھی شامل ہیں۔

پاکستان اور ترکی فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف پیش پیش تھے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان، ترکی کے صدر اردگان اور ملائیشیا کے سابق مقبول رہنما 94 سالہ مہاتیر محمد نے انتہائی پرزور الفاظ میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے وہ روز اول سے ہی اسرائیلی جارحیت اور توسیع پسندی کے خلاف اور فلسطینیوں کی حمایت میں آواز حق بلند کرتا رہا ہے۔

حالانکہ فلسطین نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے حق میں پاکستان کے ساتھ ہم آواز ہونے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ یہ پاکستان ہی ہے جو پوری دنیا میں مظلوموں کے حق میں ہمیشہ صدائے احتجاج بلند کرتا رہتا ہے۔

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سعودی سربراہ شاہ فیصل شہید اور پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد اور تعاون کو جو فروغ حاصل ہوا اور دونوں ممالک کے باہمی رشتے جس قدر مضبوط ہوئے اس کی مثال نہیں ملتی۔ شہر اقبال لاہور میں منعقدہ عظیم الشان اور فقید المثال اسلامی سربراہی کانفرنس تاریخی سربراہی کانفرنس اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسلام آباد کی شاندار شاہ فیصل مسجد اس سنہری دور کی انتہائی خوبصورت علامت ہے۔

تاریخ کے اس سنہری دور کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ سعودی عرب کے علاوہ خلیجی ریاست متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی انتہائی قریبی برادرانہ تعلقات کا قیام اور عروج بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ان تعلقات کی نوعیت ایسی تھی کہ متحدہ عرب امارات کے سربراہ شیخ زید بن سلطان النہیان پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے تھے۔

اس کے نتیجے میں ناصرف پاکستان میں بڑے پیمانے پر متحدہ عرب امارات کی ریکارڈ سرمایہ کاری ہوئی بلکہ پاکستانی افرادی قوت کو اس ریاست میں روزگار کے بے شمار مواقع بھی میسر آئے۔ کاش! اسلامی ممالک یہود و ہنود کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح متحد ہو جائیں اور علامہ اقبال کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے کہ:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر

The post ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3fzzR9k
via IFTTT

فلسطین پر ڈھائے جانے والے مظالم ایکسپریس اردو

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہٹلر نے یورپ اور مشرق وسطیٰ میں یہودیوں کا قتل عام کیا جو یقینا غلط بات تھی مگر آج اسرائیل جب فلسطین پر بمباری کرتا ہے اور ہلاک ہونے والوں میں 95 فیصد مسلمان ہیں تو یہ بھی قابل مذمت اور جرم ہے۔

فلسطینی بہت پہلے سے اس خطے میں آباد ہیں۔ فلسطین میں مختلف لسان اور مذہب کے لوگ آباد تھے۔ کسی زبانے میں اس سرزمین میں (مصر اور فلسطین) حضرت موسیٰ پیدا ہوئے اور غلامی کے خلاف جنگ لڑی، آج وہاں انسانوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ حضرت عیسیٰ بھی اسی علاقے میں پیدا ہوئے اور طبقاتی نظام کے خلاف جدوجہد کی۔ اسی پاداش میں انھیں مصلوب کیا گیا۔

درحقیقت یہ لڑائی  سامراجی مفادات کے لیے ہے (خصوصاً تیل) اسرائیل کو امریکی سامراج عربوں کے تیل پر نظر گڑائے رکھنے اور انھیں مفلوج کرنے کا کام انجام دلوا رہا ہے۔ اسی خطے میں جب فرانس نے حملہ کیا تھا (1099 میں) جسے صلیبی جنگ بھی کہتے ہیں اس وقت یہاں کے مسلمانوں اور یہودیوں نے مل کر فرانسیسی حملہ آوروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا ہرچند کہ انھیں شکست ہوئی تھی۔ بے شمار مسلمانوں اور یہودیوں کا قتل عام ہوا تھا۔ یہ تمام لڑائیاں نسلی ہوں یا مذہبی، سامراجی طاقتیں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے دوسروں کو لڑواتی ہیں۔

اسرائیل کو لے لیں۔ اگر امریکا یہ اعلان کردے کہ ہم اسرائیل کی حمایت نہیں کرتے تو اسرائیل ایک دن بھی نہیں لڑ سکتا ہے۔ اس وقت مشرق وسطیٰ میں جتنے امریکی فوجی ہیں ان سے دو گنا امریکی فوج اسرائیل میں ہے۔ مسلم ممالک 57 کے لگ بھگ ہیں۔ مگر یہ بے کس ہیں۔ اس لیے کہ اسرائیل کے گرد مسلم ممالک نے اپنے مفادات کے لیے اسرائیل اور امریکا سے گہرے تعلقات بنا رکھے ہیں اور وہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف بیان بازی اور قراردادوں کے سوا اور کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ ترکی کے بیانات بڑے سخت ہوتے ہیں لیکن وہ نیٹو کا رکن ملک ہے۔

ایک زمانہ وہ تھا جب مصر، اردن، شام، عراق اور سعودی عرب میں فلسطینی مہاجرین کیمپوں کے گوریلا کارکنان مسلح ہوکر آزادانہ طور پر پھرتے تھے۔ پھر ان کی حرکات و سکنات پر پابندی لگا دی گئی۔ درحقیقت اس وقت عالم عرب میں بعث سوشلسٹ پارٹی تشکیل پائی تھی اور اس نے مصر، الجزائر، لیبیا، عراق اور شام میں بادشاہت کا خاتمہ کردیا تھا۔

اس کے جواب میں  عرب میں اخوان المسلمون تشکیل دی گئی تھی۔ پھر فلسطین میں جب بائیں بازو کی پی ایف ایل پی اور ڈی ایف ایل پی، امریکی سامراج کے خلاف موثر اور فعال محاذ کے طور پر طاقت ور ہوئیں تو اس کے مدمقابل  حماس بنائی گئی۔ اور اب جب حماس امریکا کے خلاف ہوگئی تو امریکی سامراج، اسرائیل کے ذریعے اسی پر حملہ آور ہوگیا۔ حالیہ اسرائیل کے حملے کے خلاف ہونے والے مظاہرے سب سے موثر تھے، بڑے مظاہرے امریکا، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور اٹلی میں ہوئے۔

اٹلی میں لاکھوں کمیونسٹوں، انارکسٹوں، سوشلسٹوں، امن پسندوں اور جمہوریت پسندوں نے ریلی نکالی۔ کیوبا، شمالی کوریا، کیٹالونیا، وینزویلا اور بولیویا میں زبردست مظاہرے ہوئے۔ پاکستان میں کراچی اور اسلام آباد میں بائیں بازو کی جماعتوں اور گروہوں نے بڑے مظاہرے کیے۔ اسرائیل میں بھی امن پسند یہودیوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں۔

اسرائیل نے تقریباً 250 فلسطینیوں، بشمول 60 بچوں اور 50 خواتین کا قتل عام کیا۔ حماس کے راکٹ حملے میں بھی بقول اسرائیل کے 23 شہری اور فوجی مارے گئے۔ فلسطین کے اربوں ڈالر کے اثاثے اور انفرااسٹرکچر تباہ ہوئے۔ تمام عالمی برادری (بقول پروفیسر نوم چومسکی نیٹو، یو این او، اور آئی ایم ایف) خاموش تماشائی بنی رہی۔ فرانس نے اسرائیل کی مذمت کرنے کے بجائے وضاحت مانگ لی اور ناروے نے فلسطین میں آگ لگانے پر سوال اٹھایا۔ یہ ہیں انگلی کاٹ کر شہیدوں میں شامل ہونا۔ جب کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر 750 سے زائد میزائل برسانے پر کوئی سوال نہیں اٹھایا۔

یہ یکطرفہ قتل عام تھا۔ اسرائیل نے غزہ کی جنگ بندی کے چند گھنٹوں کے بعد مسجدالاقصیٰ پر ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس برسائے۔ جب کہ فلسطینی فائر بندی کی خوشی میں مسجد الاقصیٰ میں نماز ادا کرنے گئے تھے۔ سرمایہ دارانہ دنیا میں جنھیں بہت مہذب اور انصاف پسند کہا جاتا ہے جن میں اسکینڈی نیوین ممالک، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینیڈا بھی خاموش رہا۔ ہاں مگر امریکا کے انارکسٹ دانشور ہارورڈ یونیورسٹی کے محقق اور ایریزونا یونیورسٹی کے استاد کامریڈ پروفیسر نوم چومسکی نے اسرائیل کی مذمت کی۔

امریکا کے سوشلسٹ رہنما برنی سینڈرز اور برطانیہ کی لیبر پارٹی کے رہنما جیمری کوربون نے بھی اسرائیل کی مذمت اور فلسطین کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ یہودیوں کے لیے 1948 میں اسرائیل کے نام سے ایک ملک بنایا گیا۔

پھر یہاں امریکا، روس اور یورپ سے یہودیوں نے ہجرت کی۔ انھوں نے مقامی آبادی کو بھاری رقوم دے کر زمینیں خریدیں، مگر توسیع پسندانہ عزائم کو عروج دیتے ہوئے 1967 کی جنگ میں عراق، شام، اردن اور مصر کے علاقوں پر قبضہ کیا اور تاحال ناجائز قبضہ جمائے رکھا ہے۔ ہرچندکہ جنگ کے بعد عربوں کے قبضہ کیے ہوئے علاقوں کی واپسی کا معاہدہ ہوا تھا مگر اب تک اسرائیل نے نہ صرف وہ مقبوضہ علاقے متعلقہ عرب ممالک کو واپس نہیں کیے بلکہ مزید علاقوں پر قبضہ کرتا جا رہا ہے۔

حالیہ جھگڑا بھی اسی وجہ سے ہوا۔ اسرائیل فلسطین کے علاقوں پر جبری تعمیرات کر رہا ہے اور خالی زمینوں پر اسرائیل کا جھنڈا گاڑ کر اپنے ملک کے حصے کے طور پر قبضہ کرکے جائز بنانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ فلسطینی اس عمل کے خلاف نہتے احتجاج کر رہے تھے تو اسرائیل کی فوج اور سیکیورٹی فورسز نے فلسطینیوں پر لاٹھی چارج، آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں برسائیں، جب فلسطینیوں کے جم غفیر نے مقبوضہ علاقے سے اسرائیلی جھنڈے اکھاڑ پھینکے تو اسرائیلی فوج نے ان پر فائر کھول دیے۔

اس کے جواب میں جب حماس نے راکٹ داغے تو اسرائیل نے بمباری شروع کردی۔ اسرائیل کے اس جارحانہ عمل کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ چلانے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل 100 سے زائد بچوں اور عورتوں کو قتل کرکے سنگین جرائم کا مرتکب ہوا ہے۔

اسرائیل کے اس وحشیانہ قتل عام کے خلاف عالمی امہ کا نعرہ لگانے والے اپنے ملکوں سے فلسطین کی حمایت کے لیے گوریلاؤں کو بھیجنا چاہیے تھا جس طرح اسپین میں جنرل فرانکو اور کوریا میں فوجی آمر کے خلاف دنیا بھر سے امریکی سامراج کے خلاف کمیونسٹ گوریلاؤں نے لاکھوں کی تعداد میں جنگ لڑی اور جنرل فرانکو اور سامراجی کوریا کو شکست دی۔

آج بھی کیٹالونیا میں انارکسٹوں کا راج ہے اور سوشلسٹ کوریا سامراج مخالف ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ایک دن جلد آنے والا ہے کہ دنیا ایک ہوجائے گی۔ کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر۔ سب مل کر پیداوار کریں گے اور مل کر بانٹ لیں گے۔ اسرائیلی حکمران نیست و نابود ہوں گے فلسطین اور عرب عوام سب آزاد ہوں گے۔

The post فلسطین پر ڈھائے جانے والے مظالم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2TlUmxt
via IFTTT

پی ڈی ایم : اتحاد ’’قربانی‘‘ سے چلتے ہیں ! ایکسپریس اردو

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 12سیاسی اتحاد بنے، لیکن پی ڈی ایم اپنی نوعیت کا پہلا اتحاد ہے، جو چند ماہ چلنے کے بعد ٹوٹ گیا۔ پاکستان کی ’’اتحادی سیاست‘‘ کا آغاز 1952 میں ہوا جب ڈیموکریٹک یوتھ لیگ اورایسٹ پاکستان کمیونسٹ پارٹی نے مسلم لیگ کے خلاف اتحاد بنایا تھا، 1953 میں دی یونائیٹڈ فرنٹ کے نام سے اتحاد بنایا گیا، یہ اتحاد چار پارٹیوں پر مشتمل تھا۔

پاکستان میں تیسراسیاسی اتحاد ایوب خان دور میں ’’متحدہ اپوزیشن‘‘ کے نام سے بنا، جس کی قیادت مادر ملت فاطمہ جناح نے کی۔ چوتھا اتحاد30 اپریل 1967کونوابزادہ نصراللہ خان نے پانچ پارٹیوں پر مبنی ’’پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ‘‘ کے نام سے بنایا۔ اس اتحاد نے ایوب خان کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کیا ۔پھر پانچواں اتحاد پیپلز پارٹی کے خلاف 9سیاسی و مذہبی جماعتوں نے مل کرپاکستان قومی اتحادکے نام سے بنایا،اس کے بعد جنرل ضیا الحق کے خلاف6 فروری 1981کو جمہوریت کی بحالی کے لیے ’’ایم آر ڈی‘‘ کی شکل میں چھٹے اتحاد کی بنیاد رکھی گئی۔

اس اتحاد میں 10سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ ساتواں اتحاد اسلام کے نام پر بنایا گیا ، یہ اتحاد 1988 میں وجود میں آیا جس کا نام ’’اسلامی جمہوری اتحاد‘‘ (آئی جے آئی) رکھا گیا۔ پھر 1990میں آٹھواں سیاسی اتحاد ’’پیپلز ڈیموکریٹک الائنس‘‘ بنا جس کی قیادت بے نظیر جب کہ آئی جے آئی کی قیادت نواز شریف کر رہے تھے۔

اس کے بعد 1997 میں ’’گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس‘‘ کے نام سے ایک نیا اتحاد بنا جس کی قیادت نصراللہ خان کررہے تھے ،یہ اتحادنواز شریف کی حکومت کے خلاف بنایا گیا تھا ۔پھر دسواں اتحاد مشرف حکومت کے خلاف بنا جس میں 15سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا اور اس کا نام ’’تحریک بحالی جمہوریت‘‘ رکھا گیا۔ پھر گیارہواں اتحاد ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ کے نام سے 6مذہبی جماعتوں نے تشکیل دیا،پھر اسی دوران نیشنل الائنس اور ’’ملی یکجہتی کونسل‘‘ وغیرہ کے نام سے بھی اتحاد بنے لیکن یہ زیادہ پذیرائی حاصل نہیں کر سکے۔

پھر گزشتہ سال تحریک انصاف کے خلاف ن لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت 11جماعتوں کی اے پی سی ہوئی۔ اس آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں اپوزیشن نے حکومت مخالف نیا اور بارہواں اتحاد بنا لیا۔جس کا نام ’’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘ (PDM) رکھا گیا۔

اور یہی پی ڈی ایم مارچ 2021 میں ٹوٹ گئی جس میں سے پیپلز پارٹی اور اے این پی الگ ہوگئے، اس کے ٹوٹنے کی وجوہات تو بہت سی تھیں، مگر اس کا بظاہر موجب سینیٹ الیکشن میں اپوزیشن لیڈر کے انتخاب اور آصف علی زرداری کی وہ تقریر بنے جس میں انھوں نے نوازشریف کو پاکستان آنے کے بارے میں سخت ’’مشورے‘‘ دے ڈالے۔ اور اب جب کہ یہ تحریک شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں دوبارہ حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا اعلان کر چکی ہے تو اب کی بار اس میں شاید وہ زور نہ ہو جو پچھلے سال پیپلزپارٹی اوراے این پی کی موجودگی میں دیکھا گیا تھا۔

اب اگر پی ڈی ایم کو سیاسی تحریک چلانا ہے، مہنگائی کے خلاف عوام کا ساتھ دینا ہے یا جمہوریت کو مزید مستحکم کرنا ہے تو میرے خیال میں سولو فلائیٹ‘‘ کے بجائے پیپلزپارٹی اور اے این پی کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ کیوں کہ اگر ن لیگ پیپلز پارٹی کی ہر بات سے انکار کرے گی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اتحاد چل سکے؟اور ویسے بھی ان سیاسی اتحادوں کو اگر جمہوری انداز سے چلایا جائے تو یہ ملک کے لیے کارگر بھی ثابت ہوتے ہیںجیسے ملائشیا کے سیاسی اتحادوں UMNOاور PASنے کرپٹ حکومت کو ختم کیا اور ملائشیا کو ترقی کی راہ پر چلایا۔

اتحاد تو ہمیشہ قربانی مانگتے آئے، اور قربانی بھی ہمیشہ بڑی پارٹی کو ہی دینا پڑی ہے۔ آج تک جتنے بھی دنیا میں اتحاد دیکھے گئے ہیں، سب میں قربانی بنیادی شرط سمجھی جاتی ہے۔ فرض کیا ، پیپلزپارٹی نے ن لیگ سے مطالبہ کیا کہ پنجاب میں مسلم لیگ ق کو ساتھ ملا کر تحریک عدم اعتماد لے آئیں، ن لیگ نہیں مانی، حالانکہ اگر ن لیگ ق لیگ کو آگے آنے دیتی اور کھلے دل سے اُس کو تسلیم کرتی تو اس میں برائی کیا تھی؟پھر پیپلزپارٹی نے کہا احتجاج کا رخ پارلیمان میں ہونا چاہیے، ن لیگ نے کہا سڑکوں پر ہونا چاہیے۔ اب بندہ پوچھے کہ کورونا کے دور میں سڑکوں پر سیاسی احتجاج کس ملک میں ہو رہے ہیں بھلا؟

بہرکیف کوئی بھی اتحاد Give and Take سے چلتا ہے ،کسی اتحاد کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ کسی ایک پارٹی کا زور چلے۔جب اتحاد بنتے ہیں، تو سب کو ساتھ لے کر چلتے ہیں، سب کو برداشت کرتے ہیں، اب اگر ن لیگ چاہتی ہے کہ ہر کوئی ن لیگ کے رولز کو فالو کرے، اور جو وہ کہے وہی پتھر پر لکیر ہو۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ اور اگر ن لیگ واقعی تحریک چلانے میں سنجیدہ  ہے تو اس کے لیے اُسے اپنے اندر جرأت پیدا کرنا ہوگی، کیوں کہ اسی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پی ڈی ایم پچھلے ’’سیزن‘‘ میں ناکام ہو چکی ہے۔

اور اب کی بار بھی ایسا ہی لگ رہا ہے، کہ اس سیزن میں بھی کچھ ایسا ہی ہونے والا ہے کیوں کہ کہانی کے مرکزی کردار ہی آپس میں اُلجھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اور سیزن کی اسٹوری بھی روایتی سی ہے، کہ سب کو علم ہے کہ کب کیا ہونے والا ہے۔

لہٰذاجب آپ اپنی مرضی کے نتائج مانگیں گے تو پھر کبھی اتحاد نہیں چلتے۔ اوراب چونکہ شہباز شریف میدان میں آچکے ہیں، اور وہ مفاہمتی سیاست کے بادشاہ بھی ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب تر بھی سمجھے جاتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ایک اور پلس پوائنٹ ساتھ ملا لیں کہ زرداری اور شہباز شریف کے خیالات بھی ملتے جلتے ہیں تو اُن کو پاکستان کے وسیع تر مفادات میں آگے بڑھنا چاہیے اور ہم بھی اُس اتحاد کو سپورٹ کریں گے جو پاکستان کے لیے کام کرے گا۔ کیوں کہ روز اول سے شہباز شریف افہام وتفہیم کی سیاست کے قائل رہے ہیں اور اپنے بڑے بھائی کے تابعدار اور برے وقت میں ساتھ بھی نبھاتے رہے۔

بدترین مواقع پر بھی انھوں نے مصالحت کی کھڑکیاں کھلی رکھیں، اور اُمید ہے پی ڈی ایم میں بھی ایسا ہی لائحہ عمل اپنائیں گے ۔ ورنہ اختلافات کو مزید ہوا دی گئی تو پھر یہی کہاوت لاگو ہو جائے گی کہ ’’لڑتے لڑتے ہوگئی گم، ایک کی چونچ ، ایک کی دُم۔

The post پی ڈی ایم : اتحاد ’’قربانی‘‘ سے چلتے ہیں ! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3fDgFHF
via IFTTT

معاشی ریلیف کا در کھلنے کی ضرورت ایکسپریس اردو

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ بھارت سے اِس وقت تعلقات بہتر کرنا کشمیری شہداء کے خون سے غداری ہوگی، کشمیریوں کے خون پر بھارت سے تجارت اور تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے۔ اگر پی ڈی ایم عوام کے لیے کھڑی ہوتی تو اب تک ہماری حکومت گرا چکی ہوتی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ یہ صرف اپنے کیسز ختم کروانا چاہتے ہیں، عوام کو بے وقوف سمجھتے ہیں، عوام اب ان کی باتوں میں نہیں آئیں گے، اپوزیشن نے شروع دن سے ہمیں نااہل کہا، اب شرح نمو بڑھنے پر پھنس گئی ہے اس لیے اعداد و شمار کو ہی غلط کہہ رہی ہے۔

’’آپ کا وزیر اعظم آپ کے ساتھ‘‘ کے عنوان سے عوام کے ٹیلی فون پر سوالات کے جوابات دیتے ہوئے عمران خان نے مسائل، چیلنجز، مشکلات، حکومتی منصوبوں اور میگا پروجیکٹس کے حوالہ سے کثیر جہتی گفتگو کی، زبان خلق سے کچھ سننے کو بھی ملا، حقیقت میں عوام سے دو بدو بات چیت کا یہ سلسلہ صائب ہے جس میں عوام کا  یہ شکوہ بھی دور ہوجاتا ہے کہ وزیر اعظم نہیں ملتے، فریاد کون سنے، عوام اپنے دکھ کس سے شیئر کریں۔

یوں تو آج کی دنیا کو اطلاعات اور ابلاغ کی صدی کہتے ہیں مگر رابطہ کے فقدان سے پیدا ہونے والے مسائل، افواہوں، غلط فہمیوں اور فرسٹریشن نے طرز حکمرانی میں شفافیت کی مشکلات کو بڑھا دیا ہے تاہم میڈیا، انٹرنیٹ، موبائل فون، سٹیزن جرنلزم، پریشر گروپس، فیک نیوز اور سوشل میڈیا نے حکمرانوں کو چوکس اور الرٹ کر دیا ہے۔

اپوزیشن جوابی وار میں دیر نہیں لگاتی، اندیشہ ہائے دور دراز کی بات اور ہے، بہر حال آج حکمراں صنعتی، زرعی، برقی، آبی، اقتصادی پالیسیوں اور مسائل پر گفتگو کرتے جب کہ عوام اپنے دل کی بھڑاس بھی نکال لیتے ہیں، سازشی تھیوریاں بھی زیادہ دیر گردش میں نہیں رہ سکتیں، حقیقت جلد کسی کونے کھدرے سے نکل کر سامنے آ جاتی ہے۔ اب تو جمہوری مکالمہ کو راستہ مل گیا ہے۔ میڈیا میں معروضیت کی دھمک صاف سنائی دیتی ہے۔

وزیر اعظم نے بات چیت کرتے ہوئے کہا پی ڈی ایم اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی، یہ لوگ چاہتے ہیں کہ حکومت کو بلیک میل کرکے کرپشن کیس ختم کیے جائیں، ملک درست سمت میں لگ چکا ہے۔ اپوزیشن سمجھ ہی نہیں رہی تھی کہ حکومت معاشی مشکلات سے نکلے گی۔

اب یہ بجٹ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کریں گے لیکن ان کی یہ کوشش بھی کامیاب نہیں ہو گی۔ قوم اپوزیشن کی چوری بچانے میں ان کا ساتھ نہیں دیگی۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران اپنے لوگوں اور معیشت کو بھی بچایا، ایف بی آر نے ریکارڈ وصولیاں کی ہیں۔

کبھی ہمارے ملک میں اتنا زیادہ ٹیکس اکٹھا نہیں ہوا، جسٹس (ر) عظمت سعید کی زیر سرپرستی ہاؤسنگ سوسائٹیز پر کمیٹی بنائی ہے جو باقاعدہ کیٹگرائز کر رہی ہے، اگر ہاؤسنگ سوسائٹیز شرائط پوری نہیں کریں گی تو منظوری نہیں دی جائے گی۔

غیر قانونی سوسائٹیز بند کر دیں گے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ملک میں بلاشبہ پانی کی کمی ہے، 10 ڈیم بن رہے ہیں جو اگلے دس سال تک مکمل ہوں گے، انھوں نے یقین دلایا کہ جب ڈیم بن جائیں تو ہر صوبے میں منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے۔ صوبوں کے اندر بھی پانی کی تقسیم پر اختلافات ہیں کیونکہ کمزور کسان کا پانی چوری ہوتا ہے، طاقت ور اپنی زمینوں کا پانی لے جاتا ہے، ہم ان صوبوں میں جہاں ہماری حکومت ہے وہاں اقدامات کریں گے، سندھ حکومت کو صورتحال خود بہتر کرنا ہے، اگر رینجرز کی ضرورت پڑی تو دیں گے۔

پنجاب پولیس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تھوڑا وقت لگے گا، رواں سال کے آخر تک پورے پنجاب میں ہیلتھ کارڈ دیے جائینگے۔ وزیر اعظم نے کہا مشکل وقت میں حکومت ملی، کبھی کسی حکومت کو اتنے مسائل نہیں ملے جتنے ہماری حکومت کو 2018 میں ملے۔

کسی کو امید نہیں تھی تقریباً 4 فیصد گروتھ ہوگی، ہم اپنی اور مخالفین کی سوچ سے زیادہ تیزی سے اوپر گئے، اپوزیشن نے پہلے دن سے کہا کہ یہ نااہل ہیں انھیں نکال دینا چاہیے۔ اپوزیشن نے کہا اگر ہمیں این آر او دے دو گے تو آپ نااہل نہیں ہوگے، این آر او نہیں دو گے تو حکومت نہیں چلنے دیں گے، یہ پاکستانی فوج کو کہتے ہیں منتخب حکومت کو گرا دو۔

کہتے ہیں الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے اور کوئی ثبوت بھی نہیں دیا۔ تاہم وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ اب اپوزیشن پھنس گئی ہے کہ اگر اتنی نااہل حکومت تھی تو 4 فیصد شرح نمو کیسے آ گئی؟ اب کہتے ہیں حکومت کے اعداد و شمار غلط ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ اللہ نے ہمیں بڑے مشکل وقت اور امتحان سے گزارا ہے، اگلا وقت آسان ہو جائے گا۔ انھوں نے کہا اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر بھارت سے ہمارے تعلقات اچھے ہوں اور تجارت شروع ہو جائے تو سب کو فائدہ ہوگا لیکن ہم اس وقت اگر بھارت سے تعلقات معمول پر لاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے ہم کشمیر کے لوگوں سے بہت بڑی غداری کریں گے، ہماری تجارت بہتر ہوگی لیکن کشمیریوں کا خون ضایع ہو جائے گا لہٰذا یہ ہر گز نہیں ہو سکتا۔ ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں، اگر ان کے خون پر ہی پاکستان کی تجارت بہتر ہوگی تو یہ نہیں ہو سکتا۔

وزیر اعظم نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ اگر بھارت 5 اگست کے اقدامات سے واپس جائے تو پھر بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ فلسطین کا مسئلہ بھی کشمیر کی طرح ہے، اس وقت بین الاقوامی میڈیا اور دنیا میں جو شعور اور جس طرح کی تحریک چل پڑی ہے، یہ تحریک فلسطینیوں کو ایک حل دینے کی طرف جائے گی۔

وزیر اعظم کے مطابق اینٹی کرپشن کی ٹیم راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے پر انکوائری کر رہی ہے، دو ہفتے کے اندر انکوائری کا رزلٹ آ جائے گا پھر ہم ایکشن لیں گے۔ رنگ روڈ کو جیسا ہونا چاہیے تھا ویسا ہی ہوگا۔ ہماری حکومت نے زراعت میں بڑے اقدامات کیے اور کسانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انھیں فنڈز دیے۔

اب تک 4 ہزار 143 ارب روپے کا ٹیکس وصول ہوا ہے، جولائی، اگست تک آٹومیشن پر چلے جائیں گے اور ٹیکس نہ دینے والوں کے بارے میں سب کچھ پتہ چل جائے گا، ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ ایک خراب ادارے کو ٹھیک کرنا سب سے مشکل کام ہے۔

پنجاب کے سابق آئی جی عباس خان نے 1993 میں لاہور ہائی کورٹ میں ایک رپورٹ پیش کی تھی، جس میں انھوں نے کہا کہ پولیس میں25 ہزار لوگوں کو میرٹ کے بغیر بھرتی کیا گیا، زیادہ تر لوگوں کو پیسے لے کر بھرتی کیا گیا اور ان میں سے کئی بڑے کریمنلز تھے۔

جب پولیس کو مخالفین کے خلاف استعمال کیا جائے تو اس نے خراب تو ہونا ہی ہے، پنجاب پولیس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن تھوڑا وقت لگے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جب ملک کی لیڈر شپ اخلاقیات کو تباہ کرتی ہے تو وہ سارے معاشرے کو نیچے لے جاتی ہے، جنگیں ہارنے سے قومیں تباہ نہیں ہوتیں، معاشی بحران سے بھی قومیں تباہ نہیں ہوتیں بلکہ اخلاقیات ختم ہو تو معاشرہ بگڑتا ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ساتویں سے نویں کلاس تک نصاب میں سیرت نبویؐ  کے بارے میں تعلیم دی جائے گی کیونکہ انھی کو رول ماڈل بنا کر ہم اپنی نسلوں کی کردار سازی کر سکتے ہیں۔

وزیر اعظم کا استدلال تھا کہ جب فوج حکومت کرتی ہے تو بدقسمتی سے ان کو ادارے کمزور کرکے حکومت میں آنا پڑتا ہے، عدلیہ اور دیگر اداروں پر کنٹرول کرکے ان کو اپنے نیچے لانا پڑتا ہے۔ فوجیں جس طرح حکومت کرتی ہیں، اس کو جواز دینے کے لیے خود کو جمہوری بھی کہتے ہیں تو پھر مصنوعی جمہوریت ہی آتی ہے اور ملک کو نقصان پہنچاتی ہے۔

1988 کے بعد جو سیاسی قیادت آئی اس نے بھی اداروں کو مضبوط کرنے کے بجائے کمزور کیا۔ اپوزیشن کو معیشت کی پرواہ ہوتی تو آج ان کو مبارک باد دینی چاہیے تھی، ہماری حکومت نے بیرونی قرضے واپس کیے ہیں اور ہمیں اب قرضے لینے کی کم سے کم ضرورت پڑ رہی ہے، اس لیے یہ گھبرائے ہوئے ہیں اور پھر سے اکٹھے ہو رہے ہیں تاکہ حکومت گرا دیں۔ مگر ایسا نہیں کرسکیں گے۔

عوام سے تبادلہ خیال کا یہ راؤنڈ بھی خوش آیند تھا، ایک طرف عوام مہنگائی، بیروزگاری اور گڈ گورننس کے فقدان پر فریاد کناں ہیں، دوسری جانب عوامی حلقوں کے مطابق وزیر اعظم نے ملکی حالات، اپوزیشن کی اسٹرٹیجی اور مشکلات پر سیر حاصل گفتگو کی، انھیں اندازہ بھی ہوا کہ حقیقت ویسی نہیں جیسی بیورو کریسی یا ان کے وزرا اور مشیر انھیں بتاتے ہیں۔

اس عوامی ٹاک میں بہت سی باتیں تشنہ رہ گئیں، کچھ دل کے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے، مہنگائی اور بیروزگاری کا صرف ذکر ہوا، ریلیف کی باتیں نہیں کی گئیں، حکومت کو درپیش خطے میں ہمہ جہتی چیلنجز پر جامع اظہار خیال نہیں کیا، غربت اور بیروزگاری کے خاتمہ پر کسی بریک تھرو کی نوید نہیں سنائی گئی، لیکن وزیر اعظم نے اتنا ضرور کہا کہ مہنگائی کی وجہ سے رات کو نیند نہیں آتی۔ کوشش ہے کہ مہنگائی پر قابو پایا جائے۔

بہر کیف وزیر اعظم کا انداز بیاں دلنشین تھا ملکی صورتحال اور معیشت کی نبض پر ہاتھ بھی رکھا، میڈیا کے مطابق ایک دہائی طویل معطلی کے بعد کویت نے پاکستانی خاندانوں اور تاجروں کو دوبارہ ویزا دینے کا فیصلہ کرلیا۔ رپورٹ کے مطابق کویت کی حکومت نے یہ فیصلہ کویتی وزیر اعظم شیخ صباح الخالد الصباح اور وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے درمیان کویت سٹی میں ہونے والی ملاقات کے دوران کیا۔

ایسے خیر سگالی و ہنگامی دورے تمام خلیجی اور مشرق وسطیٰ کے دوست ملکوں کے ہونے چاہئیں جہاں بیروزگار ہم وطنوں کے لیے روزگار کے دروازے کھولے جائیں، عوام کا کہنا تھا کہ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کے خلاف فوری معاشی ریلیف مڈل ایسٹ سے ملنے کا زیادہ امکان ہے، ستر کی دہائی میں جاب کی تلاش میں افرادی طاقت نے تعاون کا یہی منظر دیکھا تھا، خدا کرے بات اس دعا کے ساتھ ختم ہو کہ

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

The post معاشی ریلیف کا در کھلنے کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3wNzIES
via IFTTT

نومولود کلیوں کو کھلکھلاتا رکھیے۔۔۔ ایکسپریس اردو

نومولود بچوں کو بہت سے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ اس مرحلے پر ماں کو بہت تحمل سے کام لینا چاہیے۔

ایسی مائیں جو پہلی بار اس مرحلے سے گزرتی ہیں، انھیں بچے کی بدلتی ہوئی کیفیات کے حوالے سے زیادہ معلومات نہیں ہوتیں اور وہ بہت سی پریشانیوں میں مبتلا ہوتی ہیں۔ نومولود بچے اکثر پیٹ درد کا شکار رہتے ہیں۔ اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں، یہ کیفیت آہستہ آہستہ بہتر ہوتی جاتی ہے، بس یہ بات یاد رکھیے کہ آپ کا بچہ دودھ ٹھیک پیتا ہے اور اس کا وزن مناسب انداز میں بڑھ رہا ہے۔

معالج کہتے ہیں کہ بچے کو دودھ اسی وقت پلائیں جب اسے بھوک محسوس ہو اور وہ روئے ورنہ اگر بچہ کھیل رہا ہے یا سو رہا ہے، تو اسے مت جگائیں۔ جب اسے بھوک محسوس ہوگی، وہ خود جاگ جائے گا اور روئے گا۔

بچے کو چھے ماہ تک صرف ماں کا دودھ دیں، اگر ایسا ممکن نہ ہو تو ڈبے کا معیاری دودھ دیں۔ گائے یا بھینس کا دودھ بچے کو مت دیں کیوں کہ گائے اور بھینس کی غذا کسی وقت کیسی ہوتی ہے اور کسی وقت اور طرح کی۔ اس سے بچے کا معدہ خراب ہوتا ہے اور اس کا پیٹ ڈھیلا ہوجاتا ہے اور دست لگ جاتے ہیں، جس کی وجہ سے بچہ کمزور ہو جاتا ہے اور اس کا ہاضمہ بھی خراب رہتا ہے۔ بچوں کو فیڈ کرانے والی ماؤں کو چاہیے کہ اپنی خوراک کا خاص خیال رکھیں زیادہ روغنی اور حد سے زیادہ میٹھی غذا کا استعمال نہ کریں۔

چھے ماہ سے کم عمر بچوں مختلف قسم کی الرجی کا شکار بھی ہو جاتے ہیں، انھیں اکثر خارش، کان میں درد اور گلے کا انفیکشن ہو جاتا ہے۔ معالجین کے مطابق بچوں کو یہ انفیکشن ’فوڈ الرجی‘ کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ جب مائیں بچوں کو چھے ماہ سے پہلے ہی مختلف غذائیں دینا شروع کر دیتی ہیں، بچوں کو مختلف قسم کے گرائپ واٹر نہ دیں اور نہ ہی وقت سے پہلے سیریلک شروع کریں کیوں کہ بچے کا معدہ اتنی جلدی سب کچھ ہضم نہیں کر سکتا۔

طبی ماہرین کے مطابق نومولود بچے عام طور پر دن میں تقریباً 18 گھنٹے تک سوتے ہیں، لیکن اگر بچے کی نیند میں خلل یا کمی آ جائے، تو اس سے نہ صرف اس کی صحت متاثر ہوتی ہے، بلکہ یہ والدین کے لیے پریشانی اور خاص طور پر ماں کے لیے تھکاوٹ اور بے چینی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے لیے ماؤں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کا ایک معمول بنائیں۔

بچوں کے سونے کے اوقات مقرر کریں، دن میں کم وقت سلائیں، تاکہ وہ رات کو زیادہ نیند لے سکیں۔ نومولود بچوں کو ٹھنڈی اشیاء سے دور رکھیں، کیوں کہ اس سے بچوں کو گلے کا انفیکشن ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔

بچے کا دودھ پی کر دودھ ڈالنا (الٹی کرنا) بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ نومولود بچوں کو دودھ پلا کر فوراًلٹا دینے سے ہوتا ہے، اس لیے ماؤں کو چاہیے کہ وہ دودھ پلانے کے بعد بچے کو کچھ دیر کندھے سے لگا کر آہستہ آہستہ کمر سہلائیں یا تھپ تھپائیں تاکہ وہ ڈکار لے، اس طرح پھر وہ دودھ نہیں ڈالتا۔

اکثر ماؤں کی شکایت ہوتی ہے کہ مائیں اس بات سے پریشان ہو جاتی ہیں کہ بچہ دن میں کئی بار پاخانہ کرتا ہے۔  ماہرین کے مطابق بچے کا دن میں چھ سے آٹھ بار تک پاخانہ کرنا نارمل ہے اور اس میں پریشانی کی بات نہیں۔

ماں کا دودھ جلد ہضم ہو جاتا ہے، اس لیے بچہ اگر دو گھنٹے سے بھی کم وقفے میں روئے تو یہ عام بات ہے۔ اس پر پریشان نہ ہوں۔ اسے بار بار دودھ پلائیں۔ ڈائیریا تب ہوتا ہے، جب آپ کا بچہ بہت ذیادہ، پانی کے جیسے، یا بہت ذیادہ مرتبہ پاخانے کرے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے پاخانے میں بلغم جیسی لیس بھی ہو۔ ڈائریا کو بعض اوقات الٹیوں سے بھی جوڑا جاتا ہے۔

ڈائیریا کی وجوہات زیادہ تر بیکٹیریا یا وائرل انفکشن ہوتے ہیں۔ بیکٹیریا نومولود کے اندر آلودہ کھانے سے پہنچتے ہیں۔ ڈائریا کسی اور بیماری کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات یہ بچے کی خوراک میں شدّت یا کمی بیشی یا پھر غذا کی نارواداری کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ ڈائیریا بعض بچوں کو اینٹی بائیوٹک دوائیوں کے ضمنی اثرات کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔

ڈآئیریا نومولود بچوں کے لئے کافی خطرنات ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر آپ اپنے بچے کے پاخانہ کرنے میں کوئی تبدیلی دیکھیں، تو اُس کا ذکر ڈاکٹر سے کریں۔ اگر آپ کے بچے کو ڈائیریا یا الٹیاں ہو رہی ہوں تو عموماً یہ کسی انفیکشن کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔

اگر آپ کا بچہ پانی کی کمی کا کوئی اشارہ ظاہر کرے، مثلاً خشک منہ، ایک دن میں چھے سے کم ڈائپر کی تبدیلی، دھنسی ہوئی آنکھیں، دھنسا ہوا تالو یا خشک جلد تو یہ بہت ذیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔

اس سے پہلے کہ آپ کے بچے کو پتلے اور پانی نما پاخانے کرتے ہوئے 24 گھنٹے گزر جائیں یا پھر الٹیاں، بخار ہو تو اپنے بچے کوفوراً ڈاکٹر کے پاس لے جائیں اور کسی زبانی مشوروں پر انحصار نہ کریں۔

The post نومولود کلیوں کو کھلکھلاتا رکھیے۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3p6fKma
via IFTTT

دہی ایکسپریس اردو

دہی صدیوں سے لوگوں کی ایک مرغوب غذا ہے۔  یہ نہ صرف ہمارے مختلف کھانوں کے بنیادی اجزا میں شامل ہے، بلکہ اسے براہ راست بھی دسترخوان کی زینت بنایا جاتا ہے، جیسے رائتے کی صورت میں یہ ہمارے ہاں بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ’دہی بڑے‘ اور دہی سے تیار ہونے والے مختلف لوازم اس کے علاوہ ہیں۔ سخت گرمیوں میں دہی کا استعمال ویسے بھی فرحت کا باعث ہوتا ہے۔

دہی ایسے لوگوں کے لیے بے حد مفید ہے جو آنتوں کے مرض میں مبتلا ہیں یا جنھیں غذائیت کی کمی کے باعث کوئی بیماری لاحق ہوگئی ہو۔ دہی کو غذا کے طور پر سب سے پہلے بلقان نامی ملک کے باشندوں نے استعمال کرنا شروع کیا۔ بعد ازاں یہ ہندوستان، پاکستان، بنگلا دیش اور مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک میں بھی مقبول ہوگیا اور اب یورپ ، امریکا اور روس میں بھی بکثرت اس کا استعمال کی جا رہی ہے۔

امریکا کے محکمۂ خوراک کے سائنس دان ڈاکٹر فرینک کا کہنا ہے کہ پس ماندہ ممالک کے لیے دہی غذائیت سے بھرپور ایک ایسی خوراک ہے، جو بعض جسمانی خامیوں کا ازالہ کردیتی ہے۔ ڈاکٹر فرینک کہتے ہیں دودھ میں خمیر اٹھ آئے تو وہ دہی بن جاتا ہے۔

دہی میں بیکٹیریا کی افزائش کی وجہ سے خمیراٹھنے کے دوران خاص قسم کی اس شکر کی مقدار کم ہو جاتی ہے جو دودھ میں پائی جاتی ہے اور lactose کہلاتی ہے۔ دہی میں lactose کی مقدار کم ہونے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بیکٹیریا کی ایک خاص قسم کا خمیری ترشے بناتے ہیں۔ یہ خمیری ترشہ جن لوگوں کے جسم میں نہیں ہوتا انہیں lactose راس نہیں آتی۔ دنیا کی آبادی میں سے  80سے 90 فی صد لوگوں کی زندگی کے پہلے دس برسوں کے بعد کیمیاوی خمیر پیدا کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور lactose ہضم نہیں کر پاتے۔

دہی انسانی جسم کے لیے لحمیات، کیلشیم اور وٹامن کی فراہمی کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ دہی کا ایک وصف یہ ہے کہ دودھ کے مقابلے زیادہ دیر تک خراب نہیں ہوتا اور اسے عرصے تک رکھ کر کھایا جا سکتا ہے۔ دہی میں کچھ ایسے اجزا بھی ہوتے ہیں، جو معدے اور آنت کی بعض بیماریوں کا انتہائی موثر علاج ثابت ہوتے ہیں۔ 1906ء میں ایک روسی ڈاکٹر اور ماہر علم میچی کون نے کہا تھا کہ اپنی تحقیق سے وہ اس بات کا معترف ہوگیا کہ دہی بعض امراض میں بہت مفید ہے۔

ان کا کہنا تھا جو جراثیم خمیرہ پیدا کرکے اسے دہی بناتے ہیں وہ اپنے جسم سے کئی طرح کے زہر اور تیزابی مادے بھی خارج کرتے ہیں اور ان جراثیموں کا ایک خاص طریقہ کار بھی ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ دہی  میں ایسے ناپسندیدہ اجسام کی افزائش اور فروغ روک دیتے ہیں، جو عام طور سے انسان کی آنتوں میں پائے جاتے ہیں پھر ہوتا یہ ہے کہ دہی کے اچھے جراثیم انسانی آنتوں کے جراثیم کو یا تو ہلاک کردیتے ہیں یا انہیں غیر موثر بنادیتے ہیں۔

ڈاکٹر فرینک نے ڈاکٹر میچی کون کی تحقیق کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ کثرت سے دہی کا استعمال کرتے ہیں وہ اکثر طویل عمر پاتے ہیں مثلاً بلقان کے باشندے جو دہی کھاتے رہتے ہیں اور دہی ان کی مرغوب غذا ہے وہ اکثر سو برس سے زیادہ عرصے تک زندہ رہتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کے باشندوں کو اپنی عام غذا میں چوں کہ وٹامن بی، کیلشیم اور پروٹین کافی مقدار میں حاصل نہیں ہوتی اس لیے ان کے لیے دہی کا استعمال غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے۔ یہ بہت مفید اور قوت بخش ہوتا ہے اور انھیں آنتوں اور پیٹ کی بیماریوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

دہی کھانے سے ذیابیطس کے خطرے میں بھی کمی ہوتی ہے۔ اس تحقیق میں شامل افراد نے مطالعے کے آغاز میں رضاکارانہ طور پر اپنی غذائی عادات تحریر کی تھیں اور مطالعے میں یہ بات واضح نہیں کہ بعد میں کس طرح ان افراد کی ان غذائی عادات اور سرگرمیوں پر نگاہ رکھی گئی۔

ایک تازہ طبی تحقیق میں بتایاگیا ہے کہ دہی اور کم چکنائی کے حامل پنیرکے استعمال سے ذیابیطس لاحق ہونے کا خطرہ تقریباً ایک چوتھائی حد تک کم ہو جاتا ہے۔ یہ تحقیق برطانوی محققین کی جانب سے سامنے آئی۔ اس تحقیقی رپورٹ میں 35 سو برطانوی شہریوں کا مطالعہ کیا گیا۔ یہ سائنسی شواہد ایک طویل دورانیے پر محیط طبی جائزے کی بنیاد پر جمع کیے گئے۔

اس تحقیق میں برطانیہ کے مشرقی علاقے میں خواتین اور حضرات کی کھانے پینے کی عادات کا تحقیق کے آغاز سے اختتام تک مستقل ریکارڈ رکھا گیا اور انہیں اعداد و شمار اور معلومات کی بنیاد پر یہ نتائج اخذ کیے گئے۔ تحقیقی رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ برطانوی علاقے نورفولک میں 11 برس کے دورانیے میں 753 بالغ افراد میں ٹائپ ٹو ذیابیطس پیدا ہوا۔ تاہم ایسے افراد جو دہی اور کم چکنائی کے حامل پنیر کا باقاعدگی سے استعمال کرتے رہے، ان میں اس مرض کو یہ اشیا استعمال نہ کرنے والوں کے مقابلے میں 24 فی صد تک کم دیکھا گیا۔

تحقیقی رپورٹ میں واضح طور پر بتایاگیا ہے کہ صرف دہی کا باقاعدگی سے استعمال کرنے والوں میں اس بیماری کی شرح دہی کا استعمال نہ کرنے والوں کے مقابلے میں 28 فی صدکم دیکھی گئی۔ اس تحقیق کے مطابق دہی اور کم چکنائی والے پنیر کے علاوہ دیگر ڈیری مصنوعات اور ذیابیطس میں کمی کے حوالے سے کوئی تعلق نہیں دیکھا گیا۔ تحقیق کے مطابق ایسے افراد جنھوں نے 125 گرام دہی کا ایک ہفتے میں اوسطاً چار مرتبہ استعمال کیا دیگر افراد کے مقابلے میں ذیابیطس سے محفوظ رہے۔

محققین کے مطابق ذیابیطس میں کمی کا تعلق صرف دہی اور کم چکنائی والی ڈیری اشیا سے دیکھا گیا ہے اور زیادہ چکنائی والی ڈیری مصنوعات میں دودھ کا اس مرض میں کمی کے حوالے سے کوئی کردار سامنے نہیں آیا ہے۔

اس تحقیق میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ دہی یا کم چکنائی والی ڈیری مصنوعات اور ذیابیطس میں کمی کے درمیان یہ تعلق کیوں ہے اور وہ کیا محرکات ہیں، جو دہی کے استعمال کو اس بیماری کے خلاف فائدہ مند اور موثر بناتے ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق اب یہ تحقیق کی جائے گی کہ ذیابیطس کے مرض میں کمی دہی میں پائے جانے والے ذیابیطس روبائیوٹک بیکٹیریا یا دہی میں موجود ایک خصوصی وٹامن کے (K) کی وجہ سے ہوتی ہے۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف کیمبرج کی ایپی ڈیمیولوجسٹ نیتا فروحی کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب ہمیں بہت سے شواہد مل رہے ہیں کہ شکر کی حامل غذائیں اور مشروبات ہماری صحت کے لیے مضر ہیں، یہ انتہائی حوصلہ افزا بات ہے کہ کم چکنائی کی حامل ڈیری مصنوعات ہماری بہتر صحت میں اپنا مثبت کردار ادا کر سکتی ہیں، تاہم اس تحقیق کے محقیقین نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس سلسلے میں مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔

اس تحقیق میں شامل افراد نے مطالعے کے آغاز میں رضا کارانہ طور پر اپنی غذائی عادات تحریر کی تھیں اور مطالعے میں یہ بات واضح نہیں کہ بعد میں کس طرح ان افراد کی ان غذائی عادات اور سرگرمیوں پر نگاہ رکھی گئی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس تحقیق میں مختلف افراد میں مُٹاپے اور ذیابیطس کے معاملے میں ان کے خاندانی پس منظر کا ذکر بھی نہیں کیاگیا ہے ، جو اس مطالعے کے نتائج کے ٹھوس ہونے پر سوال پیدا کرتا ہے۔

The post دہی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/34D5wjX
via IFTTT

پاکستانی بیٹنگ کے مسائل، پی ایس ایل میں حل تلاش کیے جائیں گے ایکسپریس اردو

 کراچی:  پاکستانی بیٹنگ کے مسائل کا حل پی ایس ایل میں تلاش کرنے کی کوشش ہوگی۔

پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pkکے پروگرام ’’کرکٹ کارنر ود سلیم خالق‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے تینوں فارمیٹ میں قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے پی ایس ایل میں عمدہ کھیل کا عزم ظاہر کیا، اس سوال پر کہ قومی ٹیم کو مڈل آرڈر میں مسائل کا سامنا ہے، کیا لیگ سے حل تلاش کرنے میں مدد ملے گی۔

بابر اعظم نے کہا کہ ہم پی ایس ایل میں کھلاڑیوں کی کارکردگی پر نظر رکھتے ہوئے غور کریں گے کہ کون کس پوزیشن پر سیٹ ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، ٹیم کے مفاد میں بہتر فیصلے کے جائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ لیگ میں کرکٹ کا معیار بہترین ہے، اہم بات یہ ہے کہ غیر ملکیوں سے زیادہ مقامی کرکٹرز میچز جتواتے ہیں، پاکستان یا یو اے ای جہاں بھی مقابلے ہوں کنڈیشنز سے آگاہ ہونے کی وجہ سے پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی نمایاں ہوتی ہے۔

کراچی کنگز کے اوپنر نے قومی کرکٹ سے ریٹائرڈ ساتھی کھلاڑی محمد عامر کے بارے میں سوال پر کہا کہ فی الحال میری پیسر سے بات نہیں ہوئی، موقع ملنے پر پوچھوں گا کہ ان کے کیا مسائل ہیں، وہ دنیا کے بہترین لیفٹ آرم بولرز میں سے ایک اور مجھے بہت پسند ہیں، پی ایس ایل کے کراچی میں میچز کے دوران اچھا پرفارم کر رہے تھے، امید ہے کہ ابوظبی میں بھی بولنگ اچھی رہے گی۔

بابر اعظم نے کہا کہ کراچی کنگز پی ایس ایل کے پہلے مرحلے میں عمدہ کارکردگی کا تسلسل ابوظبی میں بھی برقرار رکھیں گے، عدم دستیاب کھلاڑیوں کی جگہ متبادل بھی اسی معیار کے مل گئے ہیں،ہم پْرامید ہیں کہ جیت کی راہ پر گامزن رہتے ہوئے اعزاز کا دفاع کریں گے، مارٹن گپٹل کھیل کا نقشہ تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، میں ان کے ساتھ کیریبیئن پریمیئر لیگ میں کھیل چکا ہوں،ہمارا اچھا تال میل رہا ہے،میں پاور ہٹنگ میں غیر معمولی مہارت رکھنے والے کیوی اوپنر سے سیکھنے کی کوشش کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ شرجیل خان سے بھی اچھی توقعات وابستہ ہیں، پی ایس ایل کے آغاز میں تھوڑی جدوجہد کرنے کے بعد اوپنر نے جارحانہ سنچری بنائی، ایسا بیٹسمین فارم میں ہو تو میچ ہی یکطرفہ ہوجاتا ہے، میں خوش ہوں کہ شرجیل نے اپنی فٹنس پر بھی بہت کام کیا ہے، امید ہے کہ وہ آئندہ بھی پرفارم کرتے ہوئے ٹیم میں اپنی جگہ مستحکم بنائیں گے۔

بابر نے کہا کہ کراچی اور ابوظبی کی کنڈیشنز میں سب سے بڑا فرق موسم کا ہوگا، سخت گرمی نہ صرف ہمارے بلکہ تمام ٹیموں کیلیے پریشان کن ہوگی،ایک پروفیشنل کے طور پر سب کو اس چیلنج پر پورا اترنا ہوگا، اس طرح کی کنڈیشنز سے ہم آہنگی کیلیے 5 سے 6 دن لگتے ہیں، ہمیں 2 یا 3 روز میسر آئیں گے، بہرحال پوری کوشش کریں گے کہ مقابلوں کیلیے تیار ہوں۔

ایک سوال پر بابر اعظم نے کہا کہ یواے ای میں گیند تھوڑا سلو آتی ہے،اس لیے بیٹسمینوں کو تھوڑا انتظار کرکے اسٹروکس کھیلنے کی حکمت عملی اپنانا پڑے گی، بیشتر پاکستانی کرکٹر ان کنڈیشنز میں کھیلنے کا تجربہ رکھتے ہیں، کئی غیر ملکیوں کو بھی یہاں کھیلنے کا تجربہ حاصل ہے، اچھی بیٹنگ دیکھنے کو ملے گی۔

انھوں نے کہا کہ پی ایس ایل کے بیشتر اسکواڈز میں تبدیلیاں ہوئی ہیں، اس کے باوجود ٹیمیں مضبوط اور متوازن نظر آرہی ہے، کسی حریف کو بھی آسان نہیں لیا جا سکتا، بہترین کرکٹ کھیلنے والی ٹیم کو ہی کامیابی ملے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی کنگز کی جانب سے کھیلتے ہوئے کپتان عماد وسیم مجھ سے مشاورت کرتے ہیں، بولنگ میں تبدیلیوں سمیت جہاں بھی ضرورت ہو میں اپنی رائے دیتا ہوں،ہم پوری کوشش کرتے ہیں کہ سب ایک صفحے پر ہوکر ٹیم کے مفاد میں بہتر فیصلے کریں۔

کپتانی کا دباؤ نہ ہونے پر بطور بیٹسمین کھیلتے ہوئے آسانی محسوس کرنے کے سوال پر بابر اعظم نے کہا کہ کلب، لیگ یا پاکستان کسی بھی سطح پر کھیلیں ذمہ داری تو لینا پڑتی ہے۔ پی ایس ایل میں بطور بیٹسمین اپنی پرفارمنس پر زیادہ توجہ دینے اور لطف اندوز ہونے کا موقع ملے گا، اس کے ساتھ دیگر کھلاڑیوں کی کارکردگی کا جائزہ بھی لینا ہے، کلب کی طرف سے بھی آپ کو سیکھنے کا موقع ملتا ہے،کسی نئی چیز کی کوشش کرتے ہیں تو سینئرز کی رہنمائی سے مدد بھی ملتی ہے۔

The post پاکستانی بیٹنگ کے مسائل، پی ایس ایل میں حل تلاش کیے جائیں گے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2SIE4P9
via IFTTT

ورلڈ کپ کی بھارت سے فوری منتقلی کا امکان کم ایکسپریس اردو

نئی دہلی:  ٹی 20 ورلڈ کپ کی بھارت سے فوری منتقلی کا امکان کم ہے جب کہ بی سی سی آئی منگل کو انٹرنیشنل کرکٹ کونسل سے میزبانی کا فیصلہ ایک ماہ آگے بڑھانے کی درخواست کرے گا۔

آئی سی سی بورڈ کا اجلاس منگل کو ورچوئل طور پر ہوگا،اس میں ٹی 20 ورلڈ کپ کی میزبانی کے حوالے سے حتمی فیصلہ متوقع ہے،البتہ بھارتی بورڈ اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ ایک ماہ تک موخر کرنے کی درخواست کرے گا، میگا ایونٹ اکتوبر، نومبر میں بھارت میں شیڈول ہے تاہم کورونا وائرس کیسز کی وجہ سے ٹورنامنٹ کی متحدہ عرب امارات منتقلی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔

بی سی سی آئی اگرچہ اپنی آئی پی ایل ستمبر، اکتوبر میں یواے ای میں مکمل کرنے کا فیصلہ کرچکا مگر ورلڈ کپ اپنے ہی ملک میں کرانا چاہتا ہے،اسی لیے آئی سی سی بورڈ میٹنگ میں اس حوالے سے کوئی فیصلہ سامنے آنے کا امکان کم ہے،یکم جولائی کے بعد بی سی سی آئی کی ایک اور خصوصی جنرل میٹنگ ہوگی،جس میں ملک میں کورونا وائرس کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا۔

آئی سی سی کی جانب سے میزبانی کا باضابطہ اعلان 18 جولائی سے شیڈول سالانہ کانفرنس میں ہوگا،آئی سی سی بورڈ میٹنگ میں بی سی سی آئی میگا ایونٹ کیلیے حکومت سے ٹیکس استثنیٰ کے حوالے سے بھی اپ ڈیٹ کرے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اگرچہ بورڈ اس حوالے سے حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے تاہم ٹیکس کی رقم 906 کروڑ روپے معاف کرنا مشکل ہوسکتا ہے،آئی سی سی میٹنگ میں فیوچر ٹور پروگرام کے اگلے دورانیے پر بھی بات ہوگی۔

The post ورلڈ کپ کی بھارت سے فوری منتقلی کا امکان کم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3i64HrK
via IFTTT

کانگو میں مسلح گروہ کے حملے میں 50 افراد ہلاک ایکسپریس اردو

کنشاسا: افریقی ملک کانگو میں مسلح افراد کے حملے میں 50 افراد ہلاک ہوگئے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق افریقی ملک کانگو میں مسلح افراد نے گاؤں پر حملہ کرکے 50 افراد کو ہلاک کردیا، سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ علاقے میں اب بھی لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے، مرنے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں جب کہ خوف کی وجہ سے متعدد افراد زخمی حالت میں جھاڑیوں میں چھپے ہوئے ہیں جن کی تلاش کا کام جاری ہے۔

حکام کے مطابق حملہ آوروں کی بڑی تعداد نے بے گھر افراد کے کیمپ پر حملہ کیا جب کہ ہلاک افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق اے ڈی ایف ملیشیا گروپ سے ہے جس کا تعلق داعش گروپ سے ہے تاہم اس حوالے سے تصدیق نہیں کی جاسکی ہے۔

واضح رہے کانگو میں لسانی فسادات اور بغاوت کے باعث معاشی صورت حال نہایت خراب ہے اور معدنیات سے مالامال علاقوں میں قبضے کے لیے حکومت اور باغیوں کے درمیان جھڑپیں معمول کی بات ہیں۔

The post کانگو میں مسلح گروہ کے حملے میں 50 افراد ہلاک appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3wE0nnI
via IFTTT

پی ایس ایل کا شیڈول جاری کرنے میں مزید تاخیر ایکسپریس اردو

 لاہور: پی ایس ایل کا شیڈول جاری کرنے میں مزید تاخیرہونے لگی جب کہ کرکٹرز اور براڈ کاسٹرز کی ٹکڑوں میں آمد نے انتظامی مشکلات میں اضافہ کردیا۔

پی ایس ایل6کیلیے لاہور اور کراچی سے کرکٹرز، معاون اسٹاف ارکان اور پی سی بی آفیشلز کی روانگی 26مئی کو ہونا تھی مگر ایک روز کی تاخیر سے دونوں شہروں سے چارٹرڈ طیاروں نے اڑان بھری،25سے زائد افراد ویزے نہ ہونے کی وجہ سے قرنطینہ میں ہی رہ گئے۔

بعد ازاں پی سی بی کی جانب سے مزید16افرادکو ویزے ملنے کی خوشخبری سنائی گئی، اتوار کو علی الصبح کمرشل فلائٹ میں لاہور سے جانے کی کوشش کرنے والے 10افراد اور کراچی سے سرفراز احمد کو ایئرپورٹ سے واپس آنا پڑا، محمد حسنین سمیت 5 نے اڑان بھر لی۔

اگلے مرحلے میں لاہور سے 12افراد رات کو روانہ ہوگئے،باقی 13کو ہوٹلز کے بائیو ببل سے گھر بھجوا دیا گیا، سرفراز احمد، دیگر 2کرکٹرز سمیت 6کو اب ویزے مل چکے اور روانگی منگل کو ممکن ہوگی۔

اسی طرح براڈ کاسٹرزکی آمد کے حوالے سے بھی متضاد اطلاعات سامنے آتی رہیں،27 مئی کو ہی بھارت اور جنوبی افریقہ سے براڈ کاسٹرز کو لانے والی خصوصی پروازوں کو لینڈنگ کی اجازت ملنے کا بتایا گیا، بعد ازاں پیچیدگیاں سامنے آئیں، اس کے بعد بھارت سے 8افراد آئے،مختلف مراحل میں یہ اب براڈکاسٹرز کی آمد ہوچکی۔

اسی دوران جنوبی افریقہ اور دیگر ملکوں سے کرکٹرز بھی مختلف دنوں میں ابوظبی پہنچے ہیں، پاکستانی کرکٹرز اور معاون اسٹاف ارکان کیلیے قرنطینہ کی مدت 7جبکہ دیگر کئی ملکوں سے آنے والوں کیلیے 10روز ہے۔

مجوزہ پلان کے مطابق ایونٹ 5سے 20جون تک مکمل ہونا تھا،27مئی کو آنے والوں کی کمروں میں آئسولیشن تو 1،2 روز میں ختم ہونے والی ہے،تاخیر سے آنے والوں کی مدت بھی مختلف ہوگی،سب سے اہم مسئلہ بھارت اور جنوبی افریقہ کے براڈ کاسٹرز کا ہے،انہی مسائل کی وجہ سے ابھی تک حتمی شیڈول سامنے نہیں آ رہا۔

تاخیر سے ایونٹ شروع کرنے کی وجہ سے ڈبل ہیڈرز زیادہ،پلے آف کے بجائے سیمی فائنلز کرانے جیسی تجاویز پر غور کیا جارہا ہے،حتمی فیصلہ براڈ کاسٹرز کی دستیابی سے مشروط ہے۔یاد رہے کہ قومی ٹیم کو 23جون کو انگلینڈ روانہ ہونا ہے۔

The post پی ایس ایل کا شیڈول جاری کرنے میں مزید تاخیر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3wGa9pg
via IFTTT

بینظیر نے تھرکول منصوبے کی مخالفت کی تھی، جاوید حنیف کا دعویٰ ایکسپریس اردو

 کراچی: سندھ اسمبلی میں ایم کیوایم پاکستان کے رکن جاوید حنیف نے دعوی کیا کہ سابق وزیر اعظم شہید بینظیر بھٹو نے تھرکول منصوبے کی مخالفت کی تھی۔

رکن سندھ اسمبلی جاوید حنیف کا کہنا تھا کہ کوئی منسٹر فیزبیلٹی نہیں بناتا ہے، ڈپارٹمنٹ کی ذمے داری ہوتی ہے، تھر کول میں پروجیکٹ لگانے کی مخالفت بی بی نے کی تھی۔

پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر مکیش کمار چاولہ کا کہنا تھا کہ اس وقت ایم کیو ایم ہماری اتحادی تھی، تھرکول پروجیکٹ سندھ کا مستقبل ہے اپنے پروجیکٹ کو ناکام نہ کہیں،یہ پروجیکٹ دوسال بعد اپنے عروج پر تھا۔

سابق وزیراعلی سندھ سید قائم علی شاہ نے کہاکہ شہید بی بی اب اس دنیا میں نہیں، مجھے بی بی نے کہا تھا لغاری کو دکھائیں تھرکا کوئلہ جس پرمیں لغاری صاحب کو لیکر آیا اورتھرکا کوئلہ دکھایا جس پر انھوں نے کہا کہ یہ بہت کام آسکتا ہے، بی بی شہید نے تھرکول منصوبے کی کبھی مخالفت نہیں کی تھی کول پاورکی بنیاد شہید بی بی کے دورمیں رکھی گئی۔

The post بینظیر نے تھرکول منصوبے کی مخالفت کی تھی، جاوید حنیف کا دعویٰ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3p8fumD
via IFTTT

ایمزون سروس؛ پاکستان پوسٹ بہترین سروسز کیلیے میدان میں آگیا ایکسپریس اردو

 راولپنڈی: پاکستان پوسٹ ملکی تمام اقسام کی مصنوعات بیرون ممالک بھجوانے کیلیے کوالٹی سروس فراہم کرنے کے لیے باقاعدہ میدان میں آگیا ہے۔

پاکستان کو باقاعدہ ایمزون کی فہرست میں شامل کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی پاکستان پوسٹ ملکی تمام اقسام کی مصنوعات بیرون ممالک بھجوانے کیلیے کوالٹی سروس فراہم کرنے کے لیے باقاعدہ میدان میں آگیا ہے۔

پہلے مرحلہ میں پاکستان کے9شہروں سے تاجروں، صنعتکاروں کی مصنوعات کو بیرون ممالک بھجوانے میں آسان سہولت کاری کے لیے سینئر افسران کی بھی تعیناتی  کا سرکلر جاری کر دیا گیا۔

اسلام آباد میں پوسٹ ماسٹر جنرل اسلام آباد،لاہور،سیالکوٹ،فیصل آباد،گوجرانوالہ کے صنعتکاروں تاجروں کے لیے پوسٹ ماسٹر جنرل سنٹرل پنجاب،ملتان کے لئے پوسٹ ماسٹر جنرل ساؤتھ پنجاب،کراچی کے لیے پوسٹ ماسٹر جنرل کراچی، گجرات کے لیے پوسٹ ماسٹر جنرل ناردرن پنجاب اور پشاور کے لیے پوسٹ ماسٹر جنرل خیبر پختونخواہ کی تعیناتی کی گئی ہے جنہیں15 جون تک سہولت سینٹرز، خصوصی کاؤنٹر مکمل کرنے کی سخت ہدایات بھی جاری کر دی گئی ہیں۔

The post ایمزون سروس؛ پاکستان پوسٹ بہترین سروسز کیلیے میدان میں آگیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3c89Pb8
via IFTTT

صرف سندھی بولنے والے بھرتی ہو رہے ہیں، خواجہ اظہار ایکسپریس اردو

 کراچی:  سندھ ہائی کورٹ نے جعلی ڈومیسائل کے اجرا کے خلاف ایم کیو ایم کی درخواست پر سماعت اگست تک ملتوی کر دی۔

جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس ارشد حسین ارشد حسین خان پر مشتمل 2 رکنی بینچ کے روبرو جعلی ڈومیسائل کے اجرا کیخلاف ایم کیو ایم کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ خواجہ اظہار عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالت نے سماعت 9 اگست تک ملتوی کردی۔ سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ایم کیو ایم کے رہنما خواجہ اظہار نے کہا کہ بھٹو صاحب کے قوانین پر بھی عمل نہیں ہو رہا۔ یہاں پختون، بلوچ سب زبانیں بولنے والے موجود ہیں۔ بھرتیاں صرف سندھی بولنے والوں کی ہورہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ غیر قانونی بھرتیاں نہ کریں غریب لوگوں کا نقصان ہوگا۔ ہمیں عدالتوں سے پوری امید ہے انصاف ہوگا۔ پورے سندھ کو سولر بجلی بلا معاوضہ دینے کی قرارداد پیش کی تھی۔ قرار داد سب نے پاس کی۔ سولر انرجی پر رعایت کا معاملہ آیا تو کراچی، حیدر آباد غائب کردیا گیا۔

خواجہ اظہار نے کہا کہ صحافیوں کے بل پر کراچی پریس کلب کو شامل نہیں ہونے دیا گیا۔ صوبہ ہم نہیں بنا رہے پیپلز پارٹی خود بنا رہی ہے۔ اگلی دو درخواستوں میں کرپٹ بیورکریسی کی چیخیں نکلیں گی۔ ہم نے اگلی درخواست میں نیب کو فریق بنایا ہے۔

The post صرف سندھی بولنے والے بھرتی ہو رہے ہیں، خواجہ اظہار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3uFhEeT
via IFTTT

ٹیکس ہدف حاصل کرنے کیلیے ایک ماہ میں 790ارب درکار ایکسپریس اردو

 اسلام آباد:  فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے رواں مالی سال میں اب تک 41 کھرب 70ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا ہے۔

رواں مالی سال کا ٹیکس ہدف حاصل کرنے کے لیے سال کے آخری مہینے ( جون ) میں 790ارب کا ٹیکس جمع کرنا ہوگا جو ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ مالی سال 2020-21 کے ابتدائی 9ماہ ( جولائی تا مئی) کے دوران ایف بی آر کا جمع کردہ ٹیکس 17.4 فیصد اضافے سے 41کھرب 70ارب روپے رہا۔

اب سالانہ ٹیکس ہدف حاصل کرنے کے لیے ایک مہینے میں 71  فیصد  شرح نمو سے 790ارب روپے جمع کرنے ہوں گے۔  کووڈ 19کی وجہ سے معاشی سست روی کے پیش نظر آئی ایم ایف نے رواں مالی سال کے لیے ٹیکس کلیکشن کا تخمینہ نظرثانی کے بعد  47کھرب روپے کردیا تھا۔

بعض اہم اشاریے مزید زوال پذیر ہوئے  ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ حکومت یا ٹیکس حکام کا ٹیکس کلیکشن میں کردار بہت محدود ہے۔ مجموعی ٹیکس کلیکشن میں براہ راست ٹیکسوں کا حصہ گذشتہ برس کے 37.2 فیصد سے گر کر 35.3 فیصد ہوگیا ہے۔

ایف بی آر نے  سیلزٹیکس اور کسٹمز ڈیوٹی ہدف سے زائد حاصل مگر ایک بار پھر انکم ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔  ایف بی آر نے 11ماہ کے دوران 14کھرب 72ارب روپے کا انکم ٹیکس جمع کیا جو ہدف سے 193 ارب روپے کم رہا۔ ایف بی آر کو کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 672 ارب روپے حاصل ہوئے۔

The post ٹیکس ہدف حاصل کرنے کیلیے ایک ماہ میں 790ارب درکار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2SHmydW
via IFTTT

اسرائیلی فورسز نے فلسطینیوں پرایک بار پھردھاوا بول دیا ... پرامن مظاہرین پر آنسو گیس کے شیل پھینکے گئے، کئی نوجوانوں پر بدترین تشدد بھی کیا

بھارت میں خلائی مخلوق؟ سوشل میڈیا پر بحث شروع ہوگئی ... خلائی مخلوق کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی

بس بہت ہو گیا،اب انصاف فراہم ہو جانا چاہیے ... وزیر اعظم نے وعدہ کیاتھا کہ انصاف ملے گا جس کا آج بھی انتظار کر رہا ہوں، جہانگیر ترین

اوکاڑہ میں چھت گرنے سے ایک خاندان کے 6 افراد جاں بحق ... بارش اورا ٓندھی کے دوران مختلف علاقوں میں 11افراد جان کی بازی ہار گئے

بزرگ شہری نے جیو میٹری کے اصول پر قرآن مجید کا نسخہ تیار کر لیا ... قرآن مجید کو ہاتھ سے جیومیٹری خط میں لکھنے پر 30لاکھ روپے کی لاگت آئی،مشتاق احمد

کوئٹہ اور تربت میں ایف سی پر دشمن کے حملے کے دو واقعات ... حملے میں چار اہلکار شہید سات زخمی،جبکہ جوابی کارروائی میں پانچ دہشت گرد ہلاک

ملک میں کورونا وائرس سے مزید 71 افراد جاں بحق ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: کورونا وائرس کے باعث مزید 71 افراد جاں بحق جب کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ایک ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے۔

یشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 47,633 ٹیسٹ کیے گئے جس کے نتیجے میں ایک ہزار 771 نئے کیسز رپورٹ ہوئے جب کہ مزید 71 افراد وائرس کے باعث جان کی بازی ہارگئے، مثبت کیسز کی شرح 3.71 فیصد رہی جب کہ مجموعی اموات کی تعداد 20ہزار 850 ہوگئی ہے۔

کورونا وائرس اوراحتیاطی تدابیر؛

کورونا وائرس کے خلاف یہ احتیاطی تدابیراختیارکرنے سے اس وبا کے خلاف جنگ جیتنا آسان ہوسکتا ہے۔ صبح کا کچھ وقت دھوپ میں گزارنا چاہیے، کمروں کو بند کرکے نہ بیٹھیں بلکہ دروازے کھڑکیاں کھول دیں اور ہلکی دھوپ کو کمروں میں آنے دیں۔ بند کمروں میں اے سی چلاکربیٹھنے کے بجائے پنکھے کی ہوا میں بیٹھیں۔

سورج کی شعاعوں میں موجود یو وی شعاعیں وائرس کی بیرونی ساخت پر ابھرے ہوئے ہوئے پروٹین کو متاثر کرتی ہیں اور وائرس کو کمزور کردیتی ہیں۔ درجہ حرارت یا گرمی کے زیادہ ہونے سے وائرس پرکوئی اثرنہیں ہوتا لیکن یو وی شعاعوں کے زیادہ پڑنے سے وائرس کمزور ہوجاتا ہے۔

پانی گرم کرکے تھرماس میں رکھ لیں اورہرایک گھنٹے بعد آدھا کپ نیم گرم پانی نوش کریں۔ وائرس سب سے پہلے گلے میں انفیکشن کرتا ہے اوروہاں سے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتا ہے، گرم پانی کے استعمال سے وائرس گلے سے معدے میں چلا جاتا ہے، جہاں وائرس ناکارہ ہوجاتا ہے۔

The post ملک میں کورونا وائرس سے مزید 71 افراد جاں بحق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2RYHZqW
via IFTTT

Sunday, May 30, 2021

گونگے بہرے لوگوں کے لیے آواز کو اشاروں میں بدلنے والا چشمہ تیار ... مصر کی المنصورہ یونی ورسٹی کے انجینئرنگ کالج کے ٹیلی کام اورکمپیوٹر کے طالب علم نے منفرد چشمہ تیار کیا،رپورٹ

برطانیہ میں اسرائیل کیلئے جنگی جہاز بنانے والی فیکٹری کے سامنے مظاہرہ ... مظاہرین فیکٹری کی دیوار پر چڑھ کر نعرے لگاتے رہے، اسرائیل کو جنگی آلات مہیا نہ کیے جائیں،حکومت ... مزید

شہباز شریف اور بلاول کے آئی ایم ایف پر بیان حیرت انگیز ہے، فوادچوہدری ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: شہباز شریف اور بلاول کے آئی ایم ایف پر بیان حیرت انگیز ہے، شرمندگی سے بچنے کے لئے بات سے پہلے اپنے ریکارڈ دیکھ لیا کریں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنی ٹویٹ میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ شہباز شریف اور بلاول بھٹو کے آئی ایم ایف پر بیانات حیرت انگیز ہیں، پاکستان آج تک آئی ایم ایف سے 13 ارب 79 کروڑ ڈالر کا قرضہ لیا، جس میں سے پیپلزپارٹی نے 47 فیصد اور مسلم لیگ (ن) نے 35 فیصد قرضے لئے۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کی جانب سے لئے گئے مجموعی قرضے میں سے تمام حکومتوں نے مل کر 18 فیصد اور پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے 82 فیصد قرضے لئے، میرا مشورہ ہے کہ بلاول بھٹو اور شہبازشریف بات کرنے سے پہلے اپنے ریکارڈ دیکھ لیا کریں تا کہ شرمندگی سے بچ سکیں۔

The post شہباز شریف اور بلاول کے آئی ایم ایف پر بیان حیرت انگیز ہے، فوادچوہدری appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3i41lpa
via IFTTT

ریونیو، معاشی استحکام کے امکانات ایکسپریس اردو

معاشی ماہرین حکومتی آمدن بڑھانے کی ایک کثیر جہتی کوشش کو معیشت کے حقیقی استحکام سے جوڑ  رہے ہیں، ریونیو بڑھانے کی قوم کو صائب نوید مل رہی ہے، اقتصادی اقدامات میں تیزی اور ترسیلات میں بہتری، اسٹاک مارکیٹ میں تاریخ کی ریکارڈ تیزی نے کاروباری اور تجارتی شعبے میں معاشی سرگرمیوں کا خوش آیند پہلو اجاگر کیا ہے۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان تمام اقدامات کی سمت اگر درست رہی اور حکومت اپنی آئینی مدت کی تکمیل سے قبل ملکی معیشت کو حقیقی استحکام، مہنگائی اور بیروزگاری میں کمی سمیت غربت میں خاتمے کے طے شدہ اہداف مکمل کرلیتی ہے تو پاکستان کے معاشی مسائل کا حل آئی ایم ایف کے شکنجہ سے نکل کر خود کفالتی، اقتصادی و سماجی نظام کے پائیدار سنگ میل کو یقینی طور پر پا سکتا ہے، تاہم ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ مستحکم معیشت کی منزل تک پہنچنے کے لیے کسی شارٹ کٹ کی ضرورت نہیں، بلکہ عوام کو مسائل سے نجات کی جانب صرف مساوات، انصاف، پیداواری حکمت عملی اور زرعی و اقتصادی پالیسیوں پر آزادانہ اور دلیرانہ عملدرآمد کا عزم ہی بنیادی معاشی بریک تھرو ثابت ہوگا۔

ادارے حکومتی آمدن بڑھانے کی سمت درست کرلیں تو ملکی عوام غربت، فاقہ کشی، مہنگائی اور بیروزگاری کے جن اعصاب شکن ایام کی شکایت کرتے ہیں اس سے عوام کو بڑی حد تک نجات مل سکتی ہے۔ حکومتی دعویٰ ہے کہ معیشت درست سمت اختیار کر رہی ہے، وہ شعبے جو بے سمتی، سرمایہ کاری کے فقدان اور ہچکچاہٹ کا شکار تھے ان کو ایک نیا اعتماد اور جستجو کی توانائی مل رہی ہے، اس میں اقتصادی تقویت کے بہت سے مثبت اشارے قوم کو مل رہے ہیں۔ بس سیاسی درجہ حرارت کے ٹھہرنے کی دیر ہے، جمہوری رویے، سماجی تناؤ اور سیاسی کشمکش کو بریک لگ جائے تو معاشی استحکام کی لہر کو ملک میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس آزادیٔ عمل کا آغاز ہوچکا ہے۔

میڈیا کے مطابق پاکستان میں ٹیکس وصول کرنے والے ادارے نے رواں مالی سال کے 11 ماہ میں 41 کھرب 43 ارب روپے اکٹھا کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو ملک میں معاشی سرگرمیوں کی بحالی کو ظاہر کرتا ہے جب کہ گزشتہ برس کے اسی عرصے میں 35 کھرب 30 ارب روپے اکٹھے کیے گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق رواں ماہ کے آخری 2 روز (30، 31 مئی) میں مزید 15 سے 20 ارب روپے کا ریونیو حکومت کے خزانے میں آئے گا جو رواں مالی سال میں ریونیو کلیلشن کو مزید بہتر بنا دے گا۔ جب یہ اعداد و شمار وزیر اعظم کو بتائے گئے تو اس کے فوراً بعد انھوں نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر کے ذریعے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی کارکردگی کو سراہا، جس نے کسی مالی سال میں پہلی مرتبہ 40 کھرب روپے اکٹھا کر کے اس تاریخی سنگ میل کو عبور کیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ  جولائی تا مئی ریونیو کلیکشن 18 فیصد زائد رہی، ایسی کارکردگی حکومتی پالیسز کے باعث وسیع ترمعاشی بحالی کو ظاہر کرتی ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ایف بی آر کی مجموعی ریونیو کلیکشن گزشتہ برس کے 36 ارب 60 ارب روپے کے مقابلے میں جولائی تا مئی کے دوران 19 فیصد زیادہ یعنی 43 ارب روپے رہی۔ انھوں نے کہا کہ حکومتی پالیسیوں سے حاصل ہونے والی وسیع البنیاد معاشی بحالی کے یہ واضح آثار ہیں۔ رواں برس 11 ماہ میں 2 کھرب 16ارب روپے کا ریونیو فنڈ تقسیم کیا گیا جو گزشتہ برس کے ایک کھرب 24 ارب روپے کے مقابلے میں 74 فیصد زائد ہے۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے ریونیو اینڈ فنانس ڈاکٹر وقار مسعود خان نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ 40 کھرب روپے کا ہندسہ عبور کرنا ایف بی آر کے لیے نفسیاتی رکاوٹ تھی کیوں کہ گزشتہ 3 برسوں سے ریونیو کلیکشن تقریباً 38 کھرب روپے رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ 31 مئی تک ریونیو کلیکشن کا اضافہ مزید بہتر ہوگا اور آیندہ 2 روز میں نمایاں ریونیو کی توقع ہے کیوں کہ پاکستان میں عموماً لوگ آخری دنوں میں ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

معاون خصوصی نے کہا کہ یہ اعداد و شمار عید کی تعطیلات کے دوران ریونیو کلیکشن متاثر ہونے کے باوجود بہتر ہوئے، عید کے بعد پیداوار نے رفتار پکڑی جس سے زیادہ ریونیو جمع ہوا، ساتھ ہی انھوں نے رواں مالی سال کا ریونیو ہدف پانے کا اشارہ بھی دیا۔ حکومت نے مالی سال 2021 کو بجٹ تیار کرتے ہوئے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کو 49 کھرب 60 ارب روپے ریونیو اکٹھا کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی جو مالی سال 2020 کے مقابلے میں 24.4 فیصد زائد ہدف تھا۔

تاہم آئی ایم ایف نے ریونیو کے ہدف کو نظرِ ثانی کے بعد کم کر کے 46کھرب 91 ارب روپے کر دیا تھا۔ آیندہ مالی سال کے لیے آئی ایم ایف نے ایف بی آر کے لیے 59 کھرب 63 ارب روپے ریونیو کلیکشن کا ہدف تجویز کیا ہے لیکن وزیر خزانہ شوکت ترین پہلے ہی اشارہ دے چکے ہیں اصل ہدف تجویز کردہ ہدف سے کم ہوگا۔ اس دوران معاشی تجزیہ کار بھی مختلف النوع اقتصادی تحفظات کا شکار رہے، جیساکہ وزیر اعظم عمران پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ جی ڈی پی گروتھ ریٹ پر مخالفین حیرت میں رہ گئے، لیکن ان کی حیرت اقتصادی حوالہ سے معیشت، ریونیو اور دیگر معاشی معاملات کے جمود اور تبدیلی کے نعرے کی بے اعتباری بھی تھی، عوام کو ہوبہو وہی ماضی جیسی صورتحال بلکہ اس سے بدتر حالات کا تجربہ ہوا، اسی سے فرسٹریشن بڑھتی چلی گئی، کیونکہ عوام کو ان تین برسوں میں کوئی بنیادی انقلاب،نشاۃ ثانیہ اور میرٹ و کرپشن سے پاک معاشرہ کی تشکیل کا منظر نامہ نہیں ملا، اب منظر بدلنے لگا ہے تو امید بڑھی ہے، خدا کرے یہ قائم رہے۔

وزیراعظم عمران خان نے نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے دورے میں نیوکلیئر فیسلیٹی کا معائنہ کیا اور پروگرام سے وابستہ ماہرین کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ قومی دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے اسٹرٹیجک پلاننگ ڈویژن کا کردار اطمینان بخش ہے۔

ایٹم بم محفوظ، پاکستان پر اعتماد ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم کو اعلیٰ کمان نے اسٹرٹیجک پروگرام کے حوالے سے بریفنگ بھی دی، نیشنل کمانڈ اتھارٹی میں عمران خان کا استقبال جنرل ندیم رضا اور لیفٹیننٹ جنرل ندیم ذکی منج نے کیا۔ دوسری جانب وزیر اعظم نے ایک پیغام میں FBR کو شاباشی دیتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں پہلی بار ایک سال کے دوران 4 ہزار ارب سے زائد ٹیکس جمع کیا گیا جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 18فیصد زیادہ ہے، ٹیکس وصولیوں کا سنگ میل حکومت کی پالیسیوں کے باعث وسیع البنیاد معاشی بحالی کا عکاس ہے۔

معیشت میں ہلچل کی عکاسی کا ایک مظہر میڈیا اور سوشل میڈیا کا شعوری فیڈ بیک بھی ہے، دوسری حقیقت عوام میں بیداری کی لہر بھی ہے، عوام کو کورونا نے بھی نڈھال کر دیا ہے، معاشی جدوجہد برائے نام رہ گئی، افرادی قوت اور شہریوں کو اپنے مسائل سے متعلق مزاحمت جب کہ عوام کے جاننے کے حق کے لیے بھی میڈیا نے لب بستہ کو خیرباد کہہ دیا ہے، کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی، شہری اپنے حقوق سے آشنا ہیں، حق کے لیے لڑنے کو تیار ہیں، عوامی احتجاج کے درجنوں مظاہر قومی زندگی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

آج دنیا ایک کھلی ہوئی کتاب ہے، اسے صرف پڑھنے کی ضرورت ہے۔ حکومت سندھ نے مردم شماری کے نتائج کے معاملے پر پارلیمنٹ کو ریفرنس بھیج دیا۔ چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کو بھجوائے گئے ریفرنس میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ مردم شماری کے نتائج کے معاملے پر سی سی آئی میں ووٹنگ کے لیے مروجہ قواعد پر عمل نہیں کیا گیا، تحفظات ظاہر کیے جانے کے باوجود، سی سی آئی نے مردم شماری کے نتائج کی منظوری دی۔ 2017 کی مردم شماری میں سندھ کی آبادی کو کم دکھایا گیا جسے سندھ حکومت نہیں مانتی، سندھ کی آبادی 62 ملین یعنی6 کروڑ 20 لاکھ ہے، 2017 کی مردم شماری میں سندھ کی آبادی ایک کروڑ 50 لاکھ کم دکھائی گئی، وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ میں نے سی سی آئی کے دیگر ممبران کو یاد دلایا تھا کہ دوسرے صوبوں سے آنیوالوں کو سندھ کے بجائے ان کے اصل صوبوں میں شمار کیا گیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان سے درخواست کی تھی کہ وہ معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے صوبوں کے تحفظات دور کریں اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو کابینہ کے2017 کی مردم شماری سے متعلق کیے گئے فیصلوں کو کالعدم یا باطل تسلیم کیا جائے گا۔ سینیٹ میں تمام فریقین نے 5فیصد آبادی کے بلاکس میں دوبارہ گنتی اور مردم شماری کے اعداد و شمار کی اصلاح کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

حکومت کا اس معاہدے پر عمل درآمد کرانے کے بجائے تازہ مردم شماری کرانے کا فیصلہ ایک چال ہے۔ کابینہ کمیٹی کے بعد کابینہ نے بھی متنازع نتائج کی منظوری دے دی اور صوبوں سے مشاورت نہیں کی، اس مردم شماری کے فیصلے کو پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا، وفاقی حکومت نے غیرقانونی اور غیر منصفانہ طریقے سے مردم شماری کے متنازع نتائج کو منظور کیا، سندھ حکومت کی مخالفت کے باوجود مردم شماری کے متنازع نتائج کی منظوری کے معاملے کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ مردم شماری کے مسئلہ کو عوام کی امنگوں کے مطابق جلد حل کیا جائے، الیکشن قریب آجائیں گے تو مردم شماری، حلقہ بندیاں پھر ایک ایشو بن کر حکومت کے لیے درد سر اور سوال بن جائیں گی۔ امید کی جانی چاہیے کہ دیگر مسائل کی طرح مردم شماری کو بھی سندھ حکومت ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی سعی کریگی، مردم شماری ایک ناگزیر ضرورت ہے۔

The post ریونیو، معاشی استحکام کے امکانات appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3pdcCFm
via IFTTT

کوئی بھوکا…نہیں سوئے گا ایکسپریس اردو

بالکل ٹھیک بلکہ ٹھیک ’’ٹاک‘‘ ہے یعنی سو فی صد ٹھیک ’’ٹاک‘‘ ہے کہ اب کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔ ویسے تویہ بات ہمارے امیرالمومینین اور والی ولایت خیرپخیر نے کہی ہے لیکن سنئے تو چاروں اطراف بلکہ شش جہات سے یہ آواز آرہی ہے اوراگر معاون خصوصیان کی آوازوں کو بھی شامل کردیںتو…

اب دوعالم سے یہی صدائے سازآتی ہے مجھے

دل کی آہٹ سے یہی آوازآتی ہے مجھے

لیکن ہمارے خیال میں اس جملے میں۔یہ پہلے والے دوالفاظ فالتوہیں۔یعنی اب کوئی …بھوکا نہیں سوئے گا۔

کیوںکہ اب اورتب یاآج اورکل کی کوئی بات نہیں، تاریخ کی تمام کتابوں میں کوئی ایک بھی ایسا واقعہ درج نہیں ہے کہ کوئی ’’بھوکا سویا ہو‘‘۔ ہرظل اﷲ،ظل الٰہی اورسایہ ذوالجلال کے دور میں کبھی کوئی بھوکا نہیں سویا،کیوں کہ کسی بھوکے کو نیند کہاں آتی ہے۔ رحمان بابا نے بھی کہاہے کہ

خوب خندا پہ بے غمی کیگی رحمانہ

چہ پہ زڑہ کے دیارغم وی سہ بہ خو ب کا

یعنی سونا اورہنسنا ’’بے غمی ‘‘سے ہوتا ہے اورجس کے دل میں ’’یار‘‘ کاغم ہو وہ کیا سوئے گا،انھوں نے تو’’یارکاغم‘‘کہاہے لیکن ’’غم‘‘ کوئی بھی ہومثلاً بے چارے وزیروں، مشیروں کو قوم کاغم توہمیشہ ہوتا ہے بلکہ بہت زیادہ ہوتاہے، کم سے کم درد سے تو زیادہ ہوتاہے، اس سے بیچارے ۔

نیند کیا آئے گی فراز

موت آئی تو سو لیں گے

کیوں کہ ان کو پتہ ہوتاہے کہ ’’موت‘‘ کم ازکم جیتے جی تو ان کے پاس آتی نہیں، اگر زبردستی بذریعہ بم یاکلاشن کوف لائی بھی جائے گی تو وہ اتنا کچھ سیکھ چکے ہیں کہ موت کوبھی موت دے دیں گے ۔

گولی بغیر مرنہ سکا لیڈراے اسد

بچپن میں وہ پئے ہوئے بلی کا دودھ تھا

خیر۔موت کو ایک طرف کردیجئے، بات سونے کی ہورہی ہے اورجس جملے یاخوشخبری یا قوالی کی آج کل دھوم ہے کہ اب کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔سراسر یہ دھاندلی ہے، دھوکا ہے، فریب ہے، نوسربازی ہے کیونکہ بھوکانہ پہلے کبھی سویا تھا،نہ اب سوئے گا، کیونکہ بھوک کی وجہ سے کوئی سو نہیں سکتا جب تک اس کا پیٹ نہ بھر جائے۔

ویسے بھی سب جانتے ہیں کہ جوسوتاہے وہ کھوتاہے لیکن اس ’’سونے‘‘میں بھی بڑا ابہام ہے کیونکہ ظل اللہ کے بابرکت سایے میں دونوں ’’سونے‘‘ وافر ہوتے ہیں، لوگ پیٹ بھر کر سوتے بھی ہیں اورجب جاگتے ہیں تو سونا اچھال اچھال کر جاتے ہیں تاکہ شیر اوربکری کو ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے دیکھ کرعنداللہ ماجورہوں اورظل اللہ کے لیے ’’گاڈسیودی کنگ‘‘ گائیں۔

آپ تو جانتے ہیں کہ ہم ڈرتے بہت ہیں، اس لیے اس فقرے میں بھی ہمیں بہت بڑا’’ڈر‘‘ دکھائی دے رہاہے ۔اب تو خیرخدائے فضل،آئی ایم ایف کی اورریاست مدینہ کی برکت سے ہم بھوکے نہیں سوئیں گے کہ جگہ جگہ لنگرخانے ہوں گے اورگوشت پکے گا، روزپلاؤ کھائیں گے اورحلوہ کھا کر سوئیں گے۔لیکن اگر خدانخواستہ خدانخواستہ کچھ ایسا ویسا ہوگیاجیساکہ اکثر ہوتاہے تو ہم تو مفت کی کھاکھا کر بلکہ ڈکار ڈکار کر سونے کے عادی ہوچکے ہوں گے اورعادت تو چھٹتی ہے نہیں۔ تو پھر کیاہوگابلکہ تیراکیابنے گا کالیا۔اورہمارے اس ڈر کے پیچھے ایک حقیقہ ہے۔

گاؤں کے لوگ ایک شخص کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ اپنے ڈیرے میں لوگوں کومفت چرس پلاتاتھا، لوگ جوق در جوق آتے اور مفت کے سوٹے مارتے اورجب اچھی طرح عادی ہوجاتے تو وہ شخص اپناہاتھ کھینچ لیتا۔اس کافقرہ اب بھی ہمارے گاؤں میںمروج ہے کہ بھئی منگنی میں نے کرا دی ہے، اب شادی جانے اورتم جانو۔ یعنی اب خرید کر پیو اورپھر اپنا دھندہ چلادیتا۔

ایک مرتبہ پھر خدانخواستہ ،خدانخواستہ اگر ایسا ہوگیا تو۔اگر لنگرخانے بند ہوگئے تو۔نکل کر تیری محفل سے یہ ’’سونے والے‘‘ کہاں جائیں گے۔گویا پھرجگاڑ ہی جگاڑ…

ساقیا آج مجھے نیند کہاں آئے گی

سنا ہے تیری محفل میں رت جگا ہے

اس مسئلے پر تو بات ہی نہیں کرینگے کہ بھیک مانگ مانگ کر بھیک دینا ٹھیک ہے یاغلط ؟ کیونکہ جب حکومت کہتی ہے، سربراہ حکومت کہتاہے ، چھوٹے بڑے سارے ستارے نین تارے کہہ رہے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہونگے ورنہ ہمارا اپنا تجریہ تویہ ہے کہ اگر کارخانے سے برف کی سل چلتی ہے توراستے کے گرم مقامات پر پگھلتے پگھلتے ،اخروٹ جتی برف رہ جاتی ہے۔

ایک مرتبہ پھر ہم نے کسی اخبار میں ایک کارٹون دیکھاتھا۔ایک شخص بغل میں مرغی دبائے بس پر چڑھ رہاتھا لیکن جب وہ بس سے اتررہاتھا تو اس کی بغل میں صرف ایک ’’پر‘‘ دباہواتھا۔

ویسے ایک کہاوت ہے کہ قرضہ جب سو روپے سے بڑھ جائے تو پھر گھی چاول ۔

ہرطرف ابرکرم ہے تو ادھر اشک رواں

میری دنیامیں ہمیشہ یہی برسات رہا

کوئی بھوکا۔۔نہیں سوئے گا۔

The post کوئی بھوکا…نہیں سوئے گا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2RVli6Q
via IFTTT

مانک سرکارجیسا سیاستدان ہمارے نصیب میں کیوں نہیں ہے؟ ایکسپریس اردو

مانک سرکارچارمرتبہ تری پورہ کا وزیراعلیٰ رہا۔ مسلسل لگاتار۔ 1949 میں پیدا ہونے والا یہ سیاستدان ہمارے صفِ اول کے سیاستدانوں کی عمر کے تقریباً برابرہوگا۔ غلط لفظ استعمال کرگیا۔ صفِ اول کے سیاستدان۔معاف کیجیے،یہاں صفِ اول کے لیڈران یااہم لوگ بالکل موجودنہیں ہیں۔یہ تو دس نمبرکی لائن میں موجودلوگ ہیںجوجھوٹ،سازش اور لوگوں کو بیوقوف بناکرصفِ اول میں موجود ہونے کا یقین دلاتے ہیں۔

بات مانک سرکارکی ہورہی تھی۔ جب وہ 1998 میں پہلی باروزیراعلیٰ بنا، تو اسٹاف نے اس کے سامنے ایک کاغذرکھا۔درج تھاکہ آپکے پاس کتنی جائیداد ہے۔ کتنا سرمایہ ہے۔کتنی گاڑیاں ہیں۔ یعنی آپکے اثاثے کیا ہیں؟مانک سرکار نے آٹھ آنے کی پکی پینسل جیب سے نکالی اورسوال نامے پردرج کیاکہ میرے پاس کوئی اثاثے نہیں ہیں۔

وزیراعلیٰ کا اسٹاف یہ سمجھاکہ شائد مانک سرکار معاملے کوگہرائی سے سمجھ نہیں پایا۔روایتی لجاجت سے دوبارہ پوچھاکہ جناب،یہ سوال نامہ آپکو اپنے اثاثوں کے متعلق بتانے کے لیے ہے۔شائدآپ نے اسے غورسے نہیں پڑھا۔ مانک سرکارنے دوسری بار سوال نامے پرلکھاکہ میرے پاس کسی قسم کے کوئی اثاثے نہیں ہیں۔کارنہیں ہے۔زمین نہیں ہے اورذاتی گھرتک نہیں ہے۔ شائد مانک سرکارکے عملے کی طرح آپکوبھی یقین نہ آئے۔ مگرحقیقت یہی ہے۔ وزیراعلیٰ کے والددرزی تھے اور والدہ انملی سرکار، ایک محکمہ میں معمولی سی پوسٹ پرکام کرتی تھیں۔

وزیراعلیٰ بننے کے بعدمانک سرکار نے کسی قسم کی سرکاری مراعات لینے سے انکار کردیا۔ حد تویہ ہے کہ اس نے اپنی تنخواہ بھی اپنی سیاسی پارٹی کے اکاؤنٹ میں جمع کروانی شروع کردی۔ پارٹی،مانک کودس ہزارہندوستانی روپے ماہانہ دیتی تھی۔ جو پاکستانی تقریباًبیس ہزارروپے بنتے ہیں۔مانک اور اس کی بیوی پنچالی بھٹاچاریااسی تنخواہ میں گزاراکرتے رہے۔بیوی سوشل ویلفیئرمحکمہ میں معمولی سی سطح پرکام کرتی تھی۔ اسکودفترآنے جانے کے لیے سرکاری گاڑی استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ روز وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ایک رکشہ آتاتھا۔وزیراعلیٰ کی بیوی کو دفتر لیجاتا تھا۔

اس طرح دفترسے شام کوواپسی بھی رکشہ یا بس پر ہوتی تھی۔اگرآپ انڈیاکے ٹیکس بورڈ آف ریوینیوکی ویب سائٹ پرجائیں توٹیکس اداکرنے والوں میں مانک کانام نہیں ملے گا۔اس لیے نہیں کہ ہمارے اکثر چورتاجروں اورنابکارسیاستدانوں کی طرح وہ ٹیکس چوری میں ملوث تھا۔بلکہ اس لیے کہ مانک،اس سطح پرآتاہی نہیں تھااورہے کہ ٹیکس اداکرے۔اس کی آمدنی اتنی کم تھی کہ ٹیکس اداکرنے والوں کی فہرست میں نہیں تھا۔چنانچہ آج تک اس عظیم آدمی نے کبھی کوئی ٹیکس نہیں دیا۔اب آپ اس کی بیوی کی رودادسنیے جوسرکاری ملازم رہی۔ پنچالی کو اپنے ناناکی وراثت میں آٹھ سواٹھاسی سکوئرفٹ زمین ملی۔

ریٹائرمنٹ کے وقت اہلیہ کوجوپیسے ملے،ان پیسوں سے ایک معمولی ساگھربنالیا۔اس کی آج کی قیمت اٹھارہ لاکھ ہے۔اس نے یہ گھراپنی بہنوں کو رہنے کے لیے وقف کردیاہے۔ نیا منتخب ہونے والا وزیراعلیٰ، پبیبلک کمار،مانک سرکار  کے پاس آیا۔ اسے کہاکہ بطورسابقہ وزیراعلیٰ،اسے تمام مراعات استعمال کرنے کا قانونی حق ہے۔سرکاری بنگلہ، سرکاری گاڑی،اسٹاف سب کچھ اسکاقانونی حق ہے۔ مگرمانک سرکارنے انکار کردیا۔  دو کمروں کے ایک معمولی سے گھرمیں رہتا ہے جواسے اس کی سیاسی پارٹی نے دے رکھاہے۔

یہ گھر، دفترکی بالائی منزل پر موجود ہے۔ مانک سرکارآج بھی حددرجہ اوربے مثال سادگی سے اپنی زندگی گزار رہا ہے۔اس کی بیوی روز بازارسے سودا سلف خودخریدتی ہے۔ کھانا خود بناتی ہے۔بیس برس کے لگ بھگ وزیراعلیٰ رہنے والے کے گھرمیں آج بھی کوئی نوکر نہیں ہے۔مانک سرکار انتہائی پُرسکون زندگی گزار رہا ہے۔ جس محلے یا گلی سے گزرتا ہے، لوگ احتراماً اس کے پاؤں چھوتے ہیں۔ اسے بھگوان کا اوتار گردانتے ہیں۔ مانک کے نام پرلوگ،تری پورہ میں اپنے بچوں کے نام رکھتے ہیں۔ ہندوستان کی سیاست میں ایمانداری کی اصل تصویرمانک سرکارہے۔

اس تمام صورتحال کاسیاسی موازنہ پاکستان سے کیاجائے توسوائے شرمندگی کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔یہ بات نہیں کہ ہمارے اعمال نامہ میں ایماندار سیاستدان نہیں تھے۔بالکل تھے۔جیسے محترم معراج خالدصاحب،غلام حیدروائیں، محترم حنیف رامے اور چنددیگراصحاب۔مگرانکی تعدادنہ ہونے کے برابر ہے۔ ہرشعبہ میں،ایسے ایسے بحری قزاق،ڈھونگ رچا کر بیٹھے ہیں کہ افسوس کے علاوہ کچھ بھی یارہ نہیں ہوتا۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے۔ایک صاحب تشریف لائے۔ چین سے سامان منگواکر ملک میں فروخت کرتے ہیں۔

ہر لحاظ سے متمول انسان۔فرمانے لگے کہ کوئی ٹیکس نہیں دیتے۔ انھوں نے اپناسسٹم بتایا۔ انھوں نے درجنوں کمپنیاں رجسٹرکروائی ہوئی ہیں۔ ایک فرضی کمپنی کے نام پرکنٹینرمنگواتے ہیں۔چین میں وہاں کی چینی کمپنی کسی جعلی نام سے مال پاکستان بھجواتی ہے۔یہاں کسٹم والے عمال بھاری رشوت کے عوض اسے کسی اورنام پرکلیئرکرتے ہیں۔پیسے کا لین دین مکمل طورپرمختلف بے نامی اکاؤنٹوں سے کیا جاتا ہے۔ لاہور آتے ہی مال بغیرکسی رسیدکے اطمینان سے بیچ دیا جاتا ہے۔پھر صاحب،خودہی فرمانے لگے کہ ہم پاکستان میں اپنی فرضی کمپنی کو صرف ایک بار استعمال کرتے ہیں۔

پھر،دوسری جعلی کمپنی کے نام پر کام شروع کردیتے ہیں۔ ان کی ماہانہ آمدنی تقریباً دوکروڑکے قریب ہے۔ اور ان کا نام ٹیکس دینے والوں کی فہرست میں موجودہی نہیں ہے۔بتانے لگے کہ تقریباًایک ہزارافرادکاایک گروہ برسوں سے کام کر رہاہے۔یہ کراچی، لاہور اور دیگرائیرپورٹوں سے دوبئی اوردیگرممالک میں روزکی بنیادپرجاتے ہیں۔ دوبئی میں ایسے گینگ موجودہیں جوتمام سامان ان کھپیوں کو فروخت کرتے ہیں۔ یہ صرف چوبیس گھنٹے میں مال لے کر واپس پاکستان آجاتے ہیں۔

ائیرپورٹ پر سرکاری عمال ان سے روزانہ کی بنیادپرلاکھوں روپیہ رشوت وصول کرکے بڑے آرام بلکہ عزت و احترام سے کلیئرکردیتے ہیں۔ ناجائز طورپر آیا ہوا سامان بھی بڑے اطمینان سے مقامی مارکیٹ میں فروخت ہوجاتا ہے۔اب آپ خودبتائیے کہ کونسے لفظ استعمال کیے جائیں۔مجھے تو افسوس اوررنج جیسے الفاظ بھی بے معنی سے نظرآتے ہیں۔اس طرح کے ہزاروں نہیں، لاکھوں واقعات تسلسل سے ملک میں ہوتے چلے جارہے ہیں۔مگرکسی کے کانوں پرکوئی جوں تک نہیں رینگتی۔ویسے رینگنی بھی نہیں چاہیے۔

سیاستدانوں کی طرف دیکھیے تودل دہلتا ہے۔ آج بھی یہ لفظ سب کویادہوگا۔کہ ’’اگرمجھ پریا میرے خاندان پردھیلے کی کرپشن ثابت ہوجائے، تو میں سیاست چھوڑدونگا‘‘۔یہ الفاظ دس سال تواترسے بولے جاتے رہے ہیں۔مگر معاملات ایسے نہیں ہیں، سب کو ان کے بارے میں معلوم ہے۔آج یہ موصوف،بڑی بڑی اخلاقی باتیں فرماتے ہیں۔جیسے نیوسوشل کنٹریکٹ،مفاہمت۔مگرصرف ایک بات نہیں کرتے کہ ان کے خاندان کے پاس وافرتعدادمیں لکشمی کیسے آئی ہے۔اسی طرح سندھ سے تعلق رکھنے والے شاہی خاندان کو پرکھیے۔

انھوں نے کرپشن کو عملی طورپر جائزقراردے ڈالا ہے۔ سندھ کے کچے میں رہنے والے ڈاکوؤں کے گروہوں پر کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔برائے نام۔ایک فلم کی شوٹنگ کی طرح، پولیس والے اورگاڑیاں دوڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ اورتمام ڈاکوتسلی سے غائب ہوجاتے ہیں۔آہستہ آہستہ ملک کاپورانظام مکمل طور پرادنیٰ لوگوں کے ہاتھ میں جاچکا ہے۔کمزوراورپسے ہوئے لوگ کچھ نہیں کرسکتے۔اس ملک کاظالم نظام کبھی بھی تبدیل نہیں ہوگا۔ہاں، صرف ایک طریقہ ہے۔ اگر اس بدبودار نظام کو اکابرین کے خون سے نہلادیاجائے توشائدکچھ بہتری آجائے۔ مگر اس کے لیے بھی مانک سرکارکی سطح کاایماندارشخص چاہیے، جو شائد ہمارے نصیب میں نہیں ہے؟

The post مانک سرکارجیسا سیاستدان ہمارے نصیب میں کیوں نہیں ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3i3bZN1
via IFTTT

طالبان کا نیا افغانستان ایکسپریس اردو

کابل انتظامیہ کا اقتدار اور اختیاردھوپ میں پڑی برف کی طرح تیزی سے پگھل رہا ہے۔ آندھیوں کی زد میں ٹمٹماتے چراغ کی مانند ہے جو کسی بھی وقت بجھ سکتا ہے۔ طالبان کوئی لمبی چوڑی باتیں نہیں کر رہے صرف یہ یقین دلا رہے ہیں کہ امن و امان اور تحفظ کو یقینی بنائیں گے، انصاف کو ہر گھر کی دہلیز پر فراہم کریں گے۔

اگرچہ اشرف غنی کے وزیر مشیر بلند و بانگ دعوی کر رہے ہیں لیکن خوف ان کے چہروں پر جھلک رہا ہے ۔ امریکی الوداعی ملاقاتیں کر رہے ہیں اور چینی طالبان سے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں۔چین نے افغانستان میں جاری اپنے منصوبوں کی حفاظت اور عملے کے تحفظ کے لیے امریکی انخلا کے بعد طالبان سے ضمانتیں طلب کرلی ہیں اور چینی دستے تعینات کرنے کے امکانات پر گفتگو بھی کی ہے جسے طالبان قیادت نے قبول کر لیا ہے ۔ ایک طالبان رہنما نے اس کالم نگار کو بتایا کہ ان محافظوں کی نقل و حمل محدود ہو گی۔

پینٹاگون نے افغان فوج کے لیے نئے امریکی  بجٹ میں 3 ارب 50 کروڑ ڈالر مانگ لیے ہیں۔امریکی انخلا کے بعد افغانستان کو سہارا دینے کے نام پر یہ خطیر رقوم خرچ کی جائے گی۔صدر بائیڈن نے دعویٰ کیا ہے کہ ہم ایک واضح مقصد کے تحت افغانستان گئے تھے کہ اسے دہشت گردوں کے اڈوں سے پاک کیا جائے جن دہشت گردوں نے 9/11 برپا کی تھی ان کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے اور القاعدہ کو مستقبل میں افغان سرزمین سے امریکا پر حملہ کرنے کے قابل نہ چھوڑا جائے اور ہم نے تمام مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔

گل بدین حکمت یار افغان منظر نامے پر عجیب و غریب کردار بن کر ابھرے ہیں۔ ایساسابق وزیراعظم جسے کابل شہر میں نہیں گھسنے دیا گیا تھا جس نے کابل کی دہلیز پر مورچہ بند ہوکر راکٹ بازی کرکے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی جب طالبان  پیش قدمی کرتے لوائے راکٹ نامی اڈے پر پہنچے تھے تو یہ جوتے چھوڑ کر ننگے پاؤں فرار ہوگئے تھے۔

جب سعودی شہزادوں نے منہ موڑ لیا تھا اور پاکستان کے لہجے میں بھی سرد مہری در آئی تھی تو اسی عملیت پسند حکمت یار نے تہران میں پناہ لینے میں ذرا دیر نہیں لگائی تھی۔ وہیں سے امریکیوں سے رابطے استوار کیے اور پھردہشت گرد سے دوبارہ امن پسند افغان بزرگ قرار پائے۔ جناب انجینئر گل بدین حکمت یار کے امن سپریم کونسل کی تشکیل اور ترتیب پر اشرف غنی سے شدید اختلافات رہے ہیں۔ آج اْنہوں نے اشرف غنی سے معاہدہ ہو جانے کی خوش خبری سنائی ہے جس کی مخالفت صدر غنی کے سارے مشیر ان کر رہے ہیں۔ ماضی کا طاقتور اور باوقار حکمت یار اب آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بن چکا ہے جس کی  باتیں لطائف سمجھی جاتی  ہیں

کابل حکومت کے لیے اپنی رٹ کی بحالی اور صوبوں کا دفاع مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے ۔ اقربا پروری اور لوٹ مار نے افغان حب وطن ، دلیری اور بہادری کو لایعنی استعارہ بنا دیا ہے۔ کابل انتظامیہ نے اپنی ناکامیوں کی ذمے داری پاکستان پر ڈالنے کی آسان راہ پکڑی ہوئی ہے ۔

طالبان کے زیرانتظام علاقوں میں تمام تعلیمی ادارے اور اسپتال کابل انتظامیہ کی زیر نگرانی چل رہے ہیں۔ عملے کی تنخواہیں، ادویات اور بچوں کی کتب و دیگر سامان کابل انتظامیہ ادا کرتی ہے۔ اس اسکولوں اور اسپتالوں کی باقاعدہ انسپکشن بھی ہوتی ہے ،اس پر بھی طالبان کو کوئی اعتراض نہیں بلکہ وہ اپنے زیر کنٹرول علاقے میں  کابل سے آنے والے عملے کو تحفظ فراہم کرتے ہیں او ان کی مہمان نوازی بھی کرتے ہیں۔

ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ طالبان کے زیر انتظام علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت بھی موجود ہے۔امریکا افغانستان کے پڑوس میں اڈے بنارہا ہے جس کے ذریعہ وہ افغانستان سے انخلاء کے بعد وہاں کے حالات کو کنٹرول رکھے گا اور ماضی کے تلخ تجربات کو دہرانے سے بچاؤ کی تدبیر کرے گا۔اس افواہ کی پڑوسی ممالک اور خود امریکا نے بھرپور تردید کردی ہے مگر میڈیا میں ہلچل ضرور مچ گئی۔

اس بے سراپا افواہ کی آڑ میں بین الاقوامی ذرایع ابلاغ نے ایک دفعہ پھر طالبان کے خلاف پروپیگنڈا مہم شروع کردی ہے۔ ٹاک شوز میں کہا گیا کہ نوے کی دہائی میں طالبان نے حکومت پر قبضہ کرلیا تھا جس کی وجہ سے ترقی کے بجائے انتہائی پسندی کی سوچ مسلط ہوئی اور اظہارِ رائے کی آزادی پیروں تلے روندی گئی۔حقیقت یہ ہے کہ ٹی وی اسکرینز پر بولنے والے نام نہاد تجزیہ حقائق سے نابلد ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ طالبان کابل پر قبضہ کرنے میں کیوں کر کامیاب ہوگئے تھے۔

اصل بات یہ ہے کہ طالبان کے آنے سے قبل صرف کابل شہر پانچ حکومتوں کا میدان جنگ بن گیا تھا ۔ ان کی آپس میں جنگیں چل رہی تھیں۔ عوام بیچارے گھروں میں محصور تھے۔  طالبان نے افغانستان کو بخرے کرنے سے بچایا۔ ملک میں مثالی امن قائم کردیا۔طالبان کا دور افغانستان میں قانون کی حکمرانی عوام کو امن و امان اور انصاف کی فراہمی کا دور زرین تھا۔ دوحہ معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات کے بعد افغانستان سے غیر ملکی افواج مکمل طور پر نکل جائیں اور کوئی نئی  بہانہ بازی نہ کریں۔

اس لیے طالبان نے بڑے پیمانے پر موسم بہار کے حملوں(spring offensive) کارروائیوں کا آغازنہیں کیا، تاہم کچھ صوبوں میں اضلاع کی سطح پر اہم فوجی اور سول ادارے خود بخود مجاہدین کے زیر کنٹرول آگئے ہیں جس پر کابل انتظامیہ کے فوجی اور سیاسی حلقوں نے شور مچانا شروع کردیا ہے  اور خوف و دہشت کا شکار ہو گئے ہیں۔

The post طالبان کا نیا افغانستان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/34E0ljv
via IFTTT

مختار مسعود ایکسپریس اردو

شیخ التحریر مختار مسعود، اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش برسائے رکھے، ایک روز ان کی طبیعت گھبرائی تو اس کے باوجود کہ ہنگامۂ دار و گیر بپا تھا، جوانان رعنا جلوس نکالتے تھے اور خون میں نہا کر گھروں کو لوٹتے یا وادی خموشاں میں جا سوتے، و ہ گھر سے نکلے اور تہران یونیورسٹی کے نواح میں پہنچے۔ شہر کا یہ کوچہ انقلابیوں کا مرکز تھا۔

انقلابی دن رات وہاں ڈیرے ڈالے رکھتے، خواب دیکھتے اور سوچتے کہ یہ جان اگر ایک بار داؤ پر لگا ہی دی ہے تو اب واپس پلٹنا نہیں ہے۔ تہران یونیورسٹی کے شبستانوں میں فقط انقلابیوں ہی کے ڈیرے نہ تھے، دہائیوں سے قید و بند میں پڑی ہوئی کتابیں بھی رسے تڑا کر وہاں آ پہنچی تھیں۔

اس کوچے میں کتابوں کی تین قسمیں پائی جاتی تھیں، اوّل ،وہ لٹریچر جس کے چلمنوں میں سرخ سویرے کے خواب بسے تھے، دوم، ایران کے کوچہ و بازار میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی پر آیت اللہ روح اللہ خمینی کا ردعمل۔ اس زمانے میں اخبارات عموماً بند کر دیے جاتے یا بند نہ ہوتے تو ان کی گردن کے گرد حلقہ اتنا تنگ ہوتا کہ کوئی انھیں شایع کرنے کی ہمت ہی نہ کرتا، اس لیے کوئی چھاپہ خانہ رات کے اندھیرے میں یہ بیانات شایع کر کے یہاں وہاں پھیلا دیتا۔ راتوں رات کھمبیوں کی طرح اُگ آنے والے ان کتاب گھروں میں جو تیسری چیز دست یاب ہوتی، وہ کتاب یا رسالے کی ایک ایسی قسم تھی، اہل ایران اسے دیکھتے اور سوچتے کہ بار الٰہا، کیا ایسا ایسا انکشاف بھی زیور طبع سے آراستہ ہو سکتا ہے؟

ایسے کتابچوں اور رسالوں میں ریاست کی طاقت ور شخصیات کی بدعنوانی، بدمعاشی، قانون شکنی اور کمزور شہریوں پر تشدد اور خون ریزی کی داستانیں رقم کی جاتیں۔اہل ایران کانپتے ہاتھوں سے یہ کتابچے پکڑتے، ان کا مطالعہ کرتے اور سوچتے کہ جبر کی اس سیاہ رات میں کون ایسے سورما ہیں جو یہ سب کر گزرتے ہیں؟ اس دیس میں روحانیون یعنی طبقہ علما اور بائیں بازو کی تودہ پارٹی، اس کے قائدین اور متعلقین کے بارے میں ایسی جرأت مندی ممکن بلکہ عین ممکن تھی لیکن شاہ، اس کے حامیوں، حالیوں موالیوں اور دیگر طاقت ور طبقات کے بارے میں کوئی ایسا سوچ بھی سکے، یہ ممکن نہ تھا۔

کچھ ایسے ہی سوالات مختار مسعود صاحب کے ذہن میں بھی رہے ہوں گے کہ انھوں نے تہران یونیورسٹی سے دست یاب لٹریچر کو اکٹھا کیا اور اطمینان سے گھر بیٹھ کر اس کا مطالعہ شروع کر دیااور سوچاکہ ایران میں جب سے انقلاب کا غلغلہ ہوا ہے، اس ملک کے عوام و خواص میں کیا تبدیلی رونما ہوئی ہے اور قومی مسائل و آشوب کے ضمن میں ان میں کس قسم کے رجحانات پائے جاتے ہیں؟ اس سلسلے میں مختار مسعود صاحب کا مشاہدہ نہایت دلچسپ ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ جبر کے ڈھائی ہزار برس قدیم بوجھ تلے دبی ہوئی ایرانی قوم کے طرز عمل میں تبدیلی بتدریج آئی۔ وہ زمانہ جب احتجاج کی نوعیت ابتدائی تھی، احتجاجی یا انقلابی اپنے عزم میں یکسو تھے اور اپنے راستے پر ہر قسم کے دار و گیر کے باوجود پوری قوت سے جمے ہوئے تھے، ان ہی دنوں ایران کے کسی شہر میں ایک واقعہ رونما ہوا، کسی نے ایک سینما گھر کے دروازوں پر تالے اس طرح لگائے کہ تماش بینوں کے فرار کا ہر راستہ بند ہو گیا، اس کے بعد عمارت پر پیٹرول چھڑکا اور دیا سلائی دکھا دی۔ یہ ایک خوف ناک واقعہ تھا جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔

عالمی ذرایع ابلاغ تادیر اس انسانیت کش واقعے پر تبادلہ خیال کرتے رہے اور صرف پڑوسی ملکوں میں ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں انسانیت اس واقعے سے لرز کر رہ گئی لیکن ایران کے اندر عجب صورت حال تھی۔ لوگ اس واقعے کے ذکر سے اجتناب کرتے اور بفرضِ محال کہیں کوئی غیر ملکی اس پر بات شروع کر دیتا تو سنی ان سنی کر دیتے۔ علاقائی تعاون برائے ترقی کا ادارہ المعروف آرسی ڈی معروف معنوں میں ایک سفارتی ادارہ تھا۔

سفارت کاروں کی خوبی جیسا کہ دنیا جانتی ہے، یہ ہوتی ہے کہ لیے دیے رہو، آنکھیں کھلی رکھو اور زبان بند لیکن اس لکھے اور اَن لکھ ضابطے کی پابندی کی بھی آخر ایک حد ہوتی ہے۔ اگر آپ کے دائیں بائیں ہی چار سو زندہ جانیں دیکھتے ہی دیکھتے جلا کر کوئلہ بنا دی جائیں، ایسے مواقع پر سفارتی جکڑ بندیاں اور خود اختیاری ضابطے خود بخود نرم پڑ جاتے ہیں۔ آر سی ڈی کے صدر دفتر واقع تہران میں ایک سفارت کار سے رہا نہ گیا، ایک ایسی محفل میں جہاں تینوں ملکوں سے تعلق رکھنے والے سینئر عہدے دارموجود تھے ،سوال اٹھایا کہ آخر اس واقعے کا ذمے دار کون ہے؟ سرکار کا الزام یہ تھا کہ اس کے ذمے دار مذہبی طبقات ہیں۔

اس کے برعکس عام لوگ متفق تھے کہ یہ کام حکومت کی سرپرستی میں کیا گیا، البتہ اِس معاملے میں اختلاف پایا جاتا تھا کہ یہ کس ادارے کی کارروائی ہے، فوج، ساواک(خفیہ ایجنسی) یا سول انتظامیہ۔ سہ ملکی ادارے کے دفتر میں زور شور سے یہ بحث جاری تھی کہ ایک ایرانی اہل کار نے کاغذوں میں سر دیے دیے بحث نمٹانے کے لیے بے زاری کے ساتھ کہا کہ حادثہ ہے، شارٹ سرکٹ کے سبب ہوگیا ہوگا۔ عمومی طور پر تبصروں میں محتاط ترک ساتھی سے رہا نہ گیا، چمک کر بولے کہ ہم اتنے سادہ بھی نہیں کہ حادثے اور سازش میں تمیز نہ کر سکیں۔ اس موقع پر پاکستانی اہل کار بھی خاموش نہ رہ سکے ، کہا کہ ہم اتنے نا سمجھ بھی نہیں کہ بے رحم سیاست اور شارٹ سرکٹ میں فرق محسوس نہ کر سکیں۔ بحث ختم کرنے کی ا یرانی کوشش ناکام ہو گئی۔

اس کے بعد حالات بدل گئے۔ مختار مسعود کا تجزیہ ہے کہ ایرانیوں میں اس سلسلے میں چار ماہ کے دوران میں تین تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ حالات میں خرابی شروع ہوئی تو اوّل اوّل وہ اَن جان بن گئے کہ جیسے کچھ بھی  نہیں ہو رہا۔ لوگوں کے سامنے اخبار اٹھاتے تو پہلا صفحہ پلٹ دیتے۔ شہنشاہ کے ذکر پر سنجیدہ ہو جاتے۔ اس پر بھی بات نہ بنتی تو اچانک انھیں کوئی کام یاد آجاتا اور وہ موقع سے غائب ہو جاتے۔دوسرے دور میں محفل سے اٹھ جانے کا تکلف جاتا رہا لیکن چہرہ اسپاٹ رہتا، پتہ ہی نہ چلتا کہ کس بات کی تائید کررہے ہیں اور کس بات کی نہیں۔ کوئی براہ راست سوال پوچھ بیٹھتا تو طرح دے جاتے اور کہتے کہ مجھ سے کیا پوچھتے ہیں، آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ تیسرے دور میں حجاب اٹھ گئے۔

بحث میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے، شاہ پر نکتہ چینی کی جانے لگی اور اس کی خامیوں کاذکر علی الاعلان کیا جانے لگا۔ یہی وہ دور تھا جس کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ انھیں اپنے ملک کے مستقبل کی فکر لاحق ہو گئی۔ الحمدللہ، ہمارے ہاں ایران جیسی کوئی ایک بات بھی نہیں۔ ملک ٹھیک چل رہا ہے، حالات پر سکون ہیں اور لوگ دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں، اسی اطمینان کے عالم میں ایک واقعہ ایسا رونما ہو گیا ہے جس کے سبب سے برے برے خیال آنے لگے ہیں۔ پھر جنت مکانی مختار مسعود صاحب کا خیال آیا کہ وہ اگرانقلابِ ایران جیسے پیچیدہ معاملے کا تجزیہ اتنے رسان سے کر سکتے تھے، یہ تومیری فکر مندی چٹکیوں میں حل کر دیتے، لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیتے کہ ان دنوں ہم کس دور سے گزر رہے ہیں، پہلے، دوسرے یا پھر تیسرے؟

The post مختار مسعود appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3wBXoMy
via IFTTT

عوام کے لیے بے فائدہ انتقامی کارروائیاں ایکسپریس اردو

چیئرمین نیب نے دعویٰ کیا ہے کہ 2020 میں نیب نے کرپٹ عناصر سے 321 ارب روپے وصول کیے۔ انھوں نے نیب کی طرف سے بڑی مچھلیوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کا دعویٰ بھی کیا اور کہا کہ نیب کے وقار اور ساکھ میں اسی وجہ سے اضافہ ہوا ہے اور سارک ممالک میں نیب ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔

جن کرپٹ عناصر سے 321 ارب روپے گزشتہ سال میں وصول کیے گئے ان میں سیاسی اور غیر سیاسی کرپٹ عناصر کا تو کوئی ذکر نہیں جب کہ ملک میں زیادہ چرچا سیاسی کرپٹ رہنماؤں کا ہی ہے باقی دودھ دھلے اور حکومتی حلیف ہیں جن کے خلاف کارروائی کی تفصیلات میڈیا کو فراہم نہیں کی جاتیں اور صرف یہ کہا جا رہا ہے کہ نیب کے قیام کے بعد سے اب تک 9640487 وصول ہونے والی شکایات میں 93015 کی تصدیق کے بعد صرف 041-10کی انکوائری ہوئی اور احتساب عدالتوں میں صرف 3682 ریفرنس زیر سماعت ہیں۔

عوام کو سیاسی یا غیر سیاسی کرپٹ عناصر سے تو کوئی دلچسپی نہیں مگر عوام یہ جاننے کا  اور پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ گزشتہ سال جو 321 ارب روپے وصول ہوئے ان سے عوام کو کیا ملا؟ یہ رقم کہاں خرچ ہوئی؟ کیونکہ گزشتہ سال مہنگائی 2019 سے بھی زیادہ رہی اور 2021 کے پانچویں ماہ میں مہنگائی میں پھر ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا اور ایکسپریس کی خبر کے مطابق عیدالفطر کی چھٹیوں میں مرغی، بکرے اور گائے کے گوشت کی قیمتیں کنٹرول سے باہر رہیں۔ سبزیوں اور پھلوں کے نرخ بے لگام رہے اور ملک میں پہلی بار مرغی کا برائلرگوشت 460 روپے کلو اور بکرے کا گوشت 15 سو روپے تک فروخت ہوا۔

موجودہ حکومت نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ پاکستان میں پٹرول کی قیمت امریکا و چین سمیت علاقائی ممالک کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔ ملک میں مہنگائی کا سبب پٹرولیم مصنوعات ہی کو قرار دیا جاتا ہے جب کہ حکومت کے زیر کنٹرول بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے سے ملک میں مہنگائی ہمیشہ آگے بڑھتی ہے اگر ملک میں پٹرول کی قیمتیں امریکا اور چین سے کم ہیں تو ملک کے عوام کو امریکی عوام جیسی سرکاری سہولتیں کیوں میسر نہیں؟اور ملک میں تیار کی جانے والی اشیا کی قیمتیں چین سے زیادہ اور چینی اشیا کی قیمتیں معیار کے مطابق کم کیوں ہیں جب کہ چین سے اشیا لائے جانے پر حکومتی ٹیکسوں کے علاوہ اخراجات بھی زیادہ ہونے کے باوجود وہ سستی ہیں۔ چینی اشیا سستی ہونے کے باعث پاکستان میں ان کی فروخت زیادہ ہے اور ملک بھر میں موجود ملتی ہیں۔

نیب نے گزشتہ سال کے برعکس 2020 میں جو 321 ارب روپے کرپٹ عناصر سے وصول کیے وہ حکومت کو ملے تو حکومت کو بھی بتانا چاہیے کہ وہ کہاں خرچ ہوئے؟ اس رقم سے عوام کو کون سا ریلیف یا سہولیات فراہم کی گئیں؟ 321 ارب روپے ایک بڑی رقم ہے جس سے عوام کو کچھ تو ملتا۔ یہی بتا دیا جاتا کہ کیا ملک کی سب سے بڑی کابینہ پر یہ رقم خرچ ہوئی یا غیر ملکی قرضہ ادا کیا گیا؟ اگر ایسا نہیں ہوا تبدیلی حکومت کے بعد ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری مسلسل کیوں بڑھ رہی ہے؟ موجودہ حکومت آنے کے بعد عوام کرپشن کرپشن کی باتیں سنتے آ رہے ہیں جب کہ اپوزیشن حکومت پر مسلسل انتقامی اور سیاسی کارروائیوں کے الزامات لگا رہی ہے۔

کرپشن کے مبینہ الزامات میں گرفتار اکثر اپوزیشن رہنماؤں کو عدالتوں سے ضمانت مل چکی کیونکہ وہ طویل عرصہ نیب کی قید میں رہے مگر کسی سیاسی رہنما کو کرپشن پر سزا نہ ہوئی جس سے ان کا یہ بیانیہ مضبوط ہوا کہ انھیں انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور حکومت نے انھیں گرفتار کرا کر اپنا انتقام تو لے لیا مگر عوام کے لیے کچھ بھی نہیں کیا اور عوام مسلسل ریلیف سے محروم چلے آ رہے ہیں۔

عوام بھی حقائق دیکھ رہے ہیں کہ حکومت کے سیاسی انتقام سے انھیں کوئی فائدہ نہیں ہو رہا بلکہ حکومتی اقدامات سے صرف مہنگائی اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ حکومتی اقدامات یا برآمدہ رقم سے عوام کو کچھ ریلیف مل جاتا اور مہنگائی کم ہو جاتی تو عوام بھی سکھ کا سانس لیتے اور حکومتی اقدامات کو سراہتے اور نیب کی بھی تعریف ہوگی مگر ایسا نہیں ہوا۔ عوام تو بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری میں خودکشیاں کر رہے ہیں۔ عوام کے لیے بے فائدہ انتقامی کارروائیوں سے حکومت کو تو سکون مل رہا ہوگا مگر عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا بلکہ حکومت بدنام ہو رہی ہے اور اپوزیشن کا بیانیہ تقویت حاصل کر رہا ہے۔

The post عوام کے لیے بے فائدہ انتقامی کارروائیاں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3fxDXi6
via IFTTT

وفاقی بجٹ 22-2021 ۔۔۔ کورونا سے ہونیوالے معاشی نقصان کا ازالہ کرنا ہوگا!! ایکسپریس اردو

وفاقی بجٹ 22-2021  کی آمد آمد ہے اور سب کی نظریں اس بجٹ پر لگی ہیں۔

اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اور اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم اسلام آباد‘‘ میں ’’پری بجٹ فورم‘‘ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، ماہرین معاشیات اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

شوکت ترین
(وفاقی وزیر خزانہ )

مہنگائی پر قابو پانا وزیراعظم عمران خان اور ہماری اولین ترجیح ہے۔ اگلے مالی سال کا وفاقی بجٹ آئندہ ماہ کی 11 تاریخ کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا جس میں معاشرے کے غریب طبقے کو ریلیف دیاجائے گا۔ حکومت بر آمدات، محصولات مزید بڑھانے اور پائیدار اقتصادی ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے متعدد انتظامی اقدامات پر توجہ دے رہی ہے۔

اس ضمن میں بزنس چیمبرز سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت جاری ہے۔ وفاقی بجٹ 2021-22 گروتھ پر مبنی ہوگا جس میں پائیدار معاشی شرح نمو حاصل کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے اورنئے اضافی ٹیکس لگا کر ریونیو بڑھانے کے بجائے متبادل ذرائع اختیار کئے جائیں گے،ٹیکس کے نظام میں جدت لائی جائے گی، ٹیکنالوجی کے استعمال کو فروغ دیا جائے گا، ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کیلئے مراعات دی جائیں گی لیکن ساتھ ساتھ کڑئی نگرانی بھی ہوگی اورتاریخ میں پہلی مرتبہ ٹیکس نادہندگان کو جیل بھیجا جائے گا۔

ایف بی آر میں ایک خصوصی سیل بنایا جائے گاجس میں پرائیویٹ سیکٹر سے لوگوں کو لائیں گے، اسی خصوصی سیل کے ذریعے ٹیکس نادہندگان کو پکڑا جائے گا۔ کرونا کی وباء کے دوران وزیراعظم کی دانشمندانہ حکمت عملی کے نتیجے میں نہ صرف معاشی استحکام حاصل ہوا بلکہ گروتھ بھی ہوئی۔رواں مالی سال کیلئے نیشنل اکاونٹس کمیٹی کے اعلان کردہ حالیہ عبوری اعدادوشمار بہت حوصلہ افزاء ہیں، ہمیں گروتھ ریٹ کو متنازعہ نہیں بنانا چاہیے۔

ادارہ شماریات ایک خودمختار ادارہ ہے، اس ادارے نے گروتھ کا ہدف 3.94 دیا ہے اور تمام ریکارڈ کو سامنے رکھتے ہوئے گروتھ ریٹ 3.94 بتایا گیا ہے، سٹیٹ بینک نے بھی کہا تھا کہ گروتھ ریٹ 3 فیصد ہو سکتا ہے جبکہ ورلڈ بینک نے 1.3 اور آئی ایم ایف نے 1.5 فیصد گروتھ کی پیشگوئی کی تھی۔ گندم اور چاول سمیت تین بڑی فصلوں کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے اس کے علاوہ تعمیراتی شعبے میں بھی ترقی ہوئی ہے۔ ملک میں ہاؤسنگ، زراعت، انڈسٹریز اور برآمدات کا شعبہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے، امید ہے کہ آئندہ برس گروتھ ریٹ 5 فیصد اور اس سے اگلے سال 6 فیصد پر جائے گا۔

چین نے ہمارے لئے بہت بڑا انفراسٹرکچر، سڑکیں اور پاور سیکٹر قائم کیا ہے لہٰذا اس سے بہترین انداز میں فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔آئندہ بجٹ کے حوالے سے میں نے معاشی پلان بنایا ہے، 12 مختلف شعبوں پر تفصیلی تحقیق کے بعد اقدامات کیے جا رہے ہیں جس کے اثرات بجٹ کے بعد نظر آئیں گے اور عوام کو ہماری پالیسی آؤٹ لائنز کا بھی معلوم ہوجائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان معاشی استحکام اور غربت کے خاتمے کیلئے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہے ہیں۔

لوگوں کی معاشی حالت بہتر کرنے کیلئے حکومتی پالیسی کے مطابق مائیکرو فنانس بینک اور غیر سرکاری تنظیمیں لوگوں کو چھوٹے کاروبار کے لئے آسان قرض فراہم کر رہی ہیں۔اخوت پراجیکٹ کے تحت سینکڑوں لوگوں کو 150 ارب روپے کا قرض دیا گیا ہے۔ بجلی کے منصوبے لگاتے ہوئے سوچنا چاہیے تھا کہ اتنی بجلی کہاں استعمال ہوگی؟ ہمارا سرکلر ڈیٹ بڑھتا جا رہا ہے،آئی ایم ایف کہتا ہے کہ سرکلر ڈیٹ کو روکنے کیلئے ٹیرف بڑھا دیں، ہمیں عالمی اداروں کو سمجھانا ہوگا کہ غریب عوام مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم مہنگائی کو نیچے لانے کی کوشش کر رہے ہیں، اسے 5 سے 6 فیصد پر لانے کے لئے ابھی بھی ایک سال لگے گا۔ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کو آٹا اور بجلی میں سبسڈی دی جائے گی۔

ڈاکٹر محمد ارشاد
(سابق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو)

اگلے بجٹ میں ٹیکس لگانے کے بجائے سٹرکچرل تبدیلیاں لائی جائیں اورٹیکس مشینری کو اپ گریڈ کیا جائے۔ وزیر خزانہ ٹیکس کی شرح بڑھانے یا نئے ٹیکس لگا کر رینیو اکٹھا کرنے کے بجائے جدید ٹیکنالوجی اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دے کر ریونیو بڑھانے کا ویژن رکھتے ہیں لیکن یہ عظیم مقصد ٹیکس اصلاحات اور ٹیکس مشینری کو اوورہال کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔

ایف بی آر میں افسران زیادہ ہیں اور ٹیکس اکٹھا کرنے والا ماتحت عملہ کم ہے۔اس کے علاوہ ایف بی آر کے افسران کے اختیارات، لاجسٹک سپورٹ اور وسائل کی بھی قلت ہے جو ایف بی آر کی کمزوری ہے۔ وزیر خزانہ کو ذاتی دلچسپی لے کر اس ادارے کو مضبوط بنانا ہوگا۔ایف بی آر کے ٹیکس اکٹھا کرنے اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے والے افسران و اہلکاروں کے اختیارات بڑھائے جائیں اور انہیں لاجسٹک سپورٹ فراہم کی جائے۔ٹیکس بیس کو وسیع کرنے اور محصولات کی وصولی میں اضافہ کے لئے آٹومیشن ہی واحد راستہ ہے جس کیلئے حکومت، بینک ، پاکستان واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور پاکستان میں بجلی کی تقسیم کرنے والی تمام کمپنیاں جو بجلی کے بل تیار کرتی ہیں اور جمع کرتی ہیں۔

پاکستان ٹیلی مواصلات کمپنی لمیٹڈ اور ایف بی آر کی جانب سے ایڈوانس ٹیکس جمع کرنے والی سیلولر کمپنیاں یہ سب مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ ہیں۔ ان کے ڈیٹا بیس کا استعمال کرکے ، وفاقی حکومت آسانی سے منصفانہ ٹیکس کی بنیاد کا تعین کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایف بی آر اور پرال کے پاس اپنا بہترین ڈیٹا بینک و ڈیٹا بیس موجود ہے۔ ایف بی آر اس ڈیٹا کی بنیاد پر ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کا سراغ لگاکر انہیں ٹیکس نیٹ میں لاسکتی ہے۔

زاہد لطیف خان
(رہنما پاکستان سٹاک ایکسچینج اسلام آباد)

کسی بھی ملک کی سٹاک ایکسچینج اس کا اقتصادی چہرہ اور معاشی ونڈو ہوتی ہے، اس میں بہتری سے معیشت بہتر ہوتی ہے لہٰذا حکومت کو بجٹ میں اقتصادی ترقی کو بڑھانے اور معاشی ڈھانچے میں عدم توازن کو دور کرنے پر توجہ دینا ہوگی تاکہ سٹاک مارکیٹ میں بہتری آئے۔ میری تجویز ہے کہ کچھ عرصے کیلئے کپیٹل گین ٹیکس ختم کر دیا جائے، اس سے نئے مقامی اور غیر ملکی سرمایہ داروں کی سٹاک مارکیٹ میں دلچسپی بڑھے گی۔ حکومت کو طویل مدتی ٹیکس پالیسی متعارف کرانے اوررئیل اسٹیٹ سیکٹر کو دستاویزی بنانے پر بھی توجہ دینا ہوگی۔

حکومت کو چاہیے کہ آئندہ بجٹ میں سیونگ اور انویسٹمنٹ اکاؤنٹس متعارف کرائے اور رجسٹرڈ کمپنیوں کیلئے ٹیکس ریٹ میں کمی لائے۔ ان بجٹ تجاویز پر عمل کرنے سے ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہوگا۔ سٹاک مارکیٹ معیشت کے سب سے زیادہ دستاویزی سیکٹرز میں سے ایک ہے لہٰذاکیپٹل مارکیٹ کا پھیلاؤ، پاکستان میں ٹیکس کا دائرہ کاربڑھانے کے لیے ایف بی آر کی کوششوں کے ساتھ پوری طرح منسلک ہے۔ مالیاتی نظم و ضبط اور ٹیکس اقدامات سے کیپٹل مارکیٹ کے سٹرکچر اور کام پر براہ راست اور گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ایک بڑی اور بہتر طور پر کام کرنے والی کیپٹل مارکیٹ جدید معیشت کے لیے لاز می شرط ہے لہٰذا پاکستان کی معیشت کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ سازگار ماحول پیدا کیا جائے جس سے زیادہ کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کوکیپٹل مارکیٹ کی طرف راغب کرنے میں مدد ملے گی۔ حکومت کی آمدنی پر اثرانداز ہوئے بغیر، نئی لسٹنگ کی حوصلہ افزائی اور سرمایہ کاری میں اضافہ کرکے کیپٹل مارکیٹ کے حجم اوروسعت میں اضافہ کیا جائے اور ترقی میں حائل رکاوٹوں پر توجہ دی جائے ۔

اسی طرح ریئل اسٹیٹ اور تعمیرات کے لیے کیپٹل گینز ٹیکس (سی جی ٹی) کے سٹرکچرمیں حالیہ تبدیلیوں نے لسٹڈ اور دیگر کلاسز کے مابین ٹیکس کے تناظر میں بگاڑ پیدا کیا ہے، جہاں دستاویزی سرمایہ کاری کے لیے سی جی ٹی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ اس حوالے سے تجویز ہے کہ لسٹڈ سیکیورٹیز کے لیے سی جی ٹی کو بین الاقوامی سطح کے مطابق ہونا چاہیے۔ ایک اور اہم تجویز یہ ہے کہ اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ کمپنیوں کے لیے ٹیکس کے نرخوں کومناسب بنانا اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے رجسٹرڈ کاروباری اداروں کے لیے ٹیکس کریڈٹ میں اضافہ کرنا چاہیے۔

محمد عارف یوسف جیوا
(نائب صدر فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز)

و فاقی بجٹ 2021-22 میں کورونا وباء کے باعث بزنس کمیونٹی اور عام آدمی کے ہونے والے نقصان کے ازالے پر توجہ ہونی چاہیے۔ نئے ٹیکس نہ لگانے کا اعلان خوش آئند ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ حکومت کو کورونا سے متاثر صنعتوں کے لیے ریلیف پیکیج کا اعلان کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیلز ٹیکس میں کمی لائی جائے۔

وزیراعظم عمران خان تعمیراتی شعبے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس شعبے کے لیے ریلیف پیکیج (ایمنسٹی اسکیم)کا اعلان کیا جس کے تحت تعمیرات اور رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ذرائع آمدن ظاہر نہ کرنے کی 30 جون2021 تک چھوٹ جبکہ 31 دسمبر 2021 تک فکس ٹیکس رجیم کی سہولت دی گئی ہے۔

اگلے بجٹ میں تعمیراتی شعبے اور رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ذرائع آمدن ظاہر نہ کرنے کی چھوٹ میں مزید 2 سال کی توسیع دی جائے اور فکس ٹیکس رجیم کا نظام مستقل بنیاد پر نافذ کیا جائے۔ نیا پاکستان ہا وسنگ اسکیم کے تحت 50 لاکھ سستے گھروں کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے سیمنٹ، سریا،ٹائلز اور دیگر تعمیراتی میٹریل کی قیمتوں کو کم از کم 3 سال کے لیے فکس کیا جائے یا ان پر 3 سال کے لیے مقامی ٹیکسوں سمیت تمام ٹیکسز ختم کیے جائیں ۔کرونا کی وجہ سے بزنس کمیونٹی شدید مالی بحران سے دوچار ہے لہٰذا کاروبار کی سود ادائیگیوں کو 6 ماہ کے لیے موخر کیا جائے، درآمدشدہ مشینری، پلانٹ وغیرہ کو سیلز ٹیکس سے استثنیٰ دیا جائے۔ انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی جائے۔

حکومت کو سیلز ٹیکس ریفنڈ سسٹم میں ٹیکنیکل مسائل کو درست کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ ایکسپورٹرز کو جلد ریفنڈز ادا کیے جاسکیں۔ نئی رجسٹر ہونے والی کمپنیوں بالخصوص ایس ایم ایز کو تمام ٹیکسوں سے 3 سال کی چھوٹ دی جائے۔ ایس ایم ایز کو قرضوں کے لیے نرم پالیسیاں متعارف کی جائیں اوربلا سود قرضے دیے جائیں جس کے لیے کولیٹرل کی شرط بھی ختم کیا جائے ۔ عالمی تجارت میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو ایکسپورٹ سٹرٹیجک شفٹ لانا ہوگی جس کے لیے میڈیم اور ہائی ٹیکنالوجی مصنوعات کی برآمدات کو بڑھانا ہوگا۔

ڈاکٹر ساجد امین جاوید
(ماہر معاشیات)

حکومت مشکل حالات میں بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے۔ اس میںایک طرف اقتصادی ریکوری کو سپورٹ کرنا ہوگا جبکہ دوسری طرف مالی وسائل کے مسائل اور آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کو دیکھتے ہوئے اخراجات کو بڑھانا مشکل ہوگا۔ ایسے میں اگر کوئی سخت قسم کا بجٹ آجاتا ہے تو اس سے اکنامک ریکوری میں تاخیر ہوسکتی ہے،اس بجٹ میں توازن لانا حکومت اور وزیر خزانہ کیلئے بہت بڑا چیلنج ہوگا۔بجٹ اقتصادی بحالی و ترقی کو سپورٹ کرنے والے پیکیج پر مبنی ہونا چاہیے اور اس کا بنیادی مقصد اکنامک ریکوری کو سپورٹ کرنا ہونا چاہیے۔

کرونا کی وباء کے تناظر میں حکومت کی طرف سے دیے جانے والے معاشی پیکیج جاری رہنے چاہئیں۔ حکومت کو چاہیے کہ بجٹ سازی میں اخراجات کیلئے فنڈز مختص کرتے وقت ویکسی نیشن پالیسی کو خاص اہمیت دے کیونکہ اب ویکسی نیشن پالیسی ہی اکنامک پالیسی ہے۔ ویکسی نیشن کی لاگت ملکی جی ڈی پی کے ایک سے دو فیصد کے لگ بھگ ہونے کی توقع ہے، یہ اخراجات نہیں بلکہ سرمایہ کاری ہے جس کے معاشی اور سماجی فوائد بہت زیادہ ہوں گے۔

اس لئے حکومت کو اگلے بجٹ میں ویکسی نیشن کے حوالے سے الگ پالیسی لانی چاہیے ۔چونکہ غیر یقینی صورتحال ہے لہٰذا اس بجٹ کے بعد منی بجٹ بھی آتے رہیں گے۔ چھوٹی صنعت کیلئے جو پہلے سے رعایات و مراعات ہیں نہ صرف وہ جاری رہنی چاہئیں بلکہ آنے والے بجٹ میں بھی ایس ایم ای سیکٹر پر توجہ دی جائے اور انہیں مراعات دی جائیں۔ مختصراََ یہ کہ آنے والے بجٹ کا بنیادی مقصد پاکستان کی اقتصادی ریکوری کو محفوظ بنانا ہونا چاہیے۔ اس کیلئے شاید حکومت کو آئی ایم ایف سے مذاکرات کرکے قائل کرنا پڑے گا۔

بجٹ کا بنیادی مقصد مالیاتی خسارے کو کم سے کم کرنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ اخراجات کو کتنے موثر اور پیداواری انداز سے استعمال میں لایا جائے ۔ وزیر خزانہ کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ اگلے بجٹ میں نئے ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے اور نہ ہی ٹیکس کی شرح بڑھائی جائے گی مگر مالیاتی خسارے میں کمی،قرضوں کی ادائیگی اور ملکی وسائل بڑھانے کیلئے حکومت کو ٹیکس ریونیو بڑھانا پڑے گا جو ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ اگلے بجٹ میں ٹیکس وصولیوں کا ہدف چھ ہزار ارب روپے کے لگ بھگ مقرر کرنے کی باتیں ہورہی ہیں، ایسے میں یا تو ٹیکس بڑھانا پڑے گا یا پھر نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا پڑے گا، حکومت کو ٹیکس وصولی کے اہداف پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔

حکومت کے آخری دو سال انتخابات کے تناظر میں دیکھے جاتے ہیں اور اس دوران خزانے کا منہ کھول دیا جاتا ہے جس کا نتیجہ مالیاتی خسارے میں اضافے کی صورت نکلتا ہے۔ ہمارے قرضے تو پہلے ہی ایک کھرب سولہ ارب ڈالر کے لگ بھگ پہنچ چکے ہیں جو خطرناک حد کو چھو رہے ہیں ، قرضوںاور اخراجات میں کمی ناگزیر ہے ورنہ حالات مزید مشکل ہوجائیں گے۔

 عرفان صدیقی
(صدر اوورسیز انویسٹرز چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری)

وفاقی بجٹ 2021-22میں ٹیکس کے نظام کی پیچیدگیوں کو آسان بنانے کیلئے ایز آف ڈوئنگ بزنس اقدامات کے ذریعے ٹیکس دہندگان کی حوصلہ افزائی اور تمام سالانہ آمدنی والے افراد کیلئے ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کو یقینی بنانے جیسے اقدامات پر خصوصی زور دینا ہوگا۔ حکومت پاکستان نے مقامی اور بین الاقوامی تجارت پر کووڈ 19کے اثرات سمیت متعدد معاشی چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے جر ا ت مندا نہ اقدامات اٹھائے۔

اب اگلے بجٹ میں ضروری ہے کہ کم سے کم ٹیکس کو نچلی سطح پر عام ٹیکس کی شرح کے موافق کیا جائے اورفوری طورپر زیادہ ٹرن اوور والی آئل مارکیٹنگ اور ریفائنریزسمیت مختلف صنعتوں کیلئے ٹیکس کی شرح کو 0.2تک کم کیا جائے۔ 45فیصد سے زائد ودہولڈنگ ٹیکس ایک بوجھ ہے جس کو فوری طور پر فائلرز کیلئے 5فیصد کی سطح پر لایا جائے، حتمی ٹیکس رجیم کو ختم کرکے ود ہولڈنگ ٹیکس کو ایڈجسٹ کیا جائے اور ایف بی آر اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ تمام افراد جن پر ودہولڈنگ ٹیکس عائد کیا جاتا ہے باقاعدگی سے ٹیکس گوشوارے جمع کروائیں۔

سندھ میں قابل اطلاق سیلز ٹیکس کی یکساں 13فیصد شرح کو پورے ملک میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملک بھرمیں ایک عام ٹیکس ریٹرن فارم متعارف کرایا جائے اور ہرصوبے کے حکام علیحدہ سیلز ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کے بجائے ایک ہی ٹیکس گوشوارہ ایف بی آر میں جمع کرائیں۔ اوورسیز چیمبر نے تمباکو کی صنعت میں بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری روکنے کیلئے غیر ساختہ تمباکو کی صنعت پر ایف ای ڈی میں خاطر خواہ اضافے کی بھی سفارش کی ہے۔

اس کے علاوہ ٹریک اور ٹریس مانیٹرنگ سسٹم کے نفاذ سے ایف بی آر کی آمدنی میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ ہم نے پوری ویلیو چین میں غیر قانونی تجارت پر سخت کنٹرول اور جرمانے عائد کرنے کی بھی تجویز پیش کی۔ تجاویز میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے پر غور اور نظر ثانی کے بعد ڈیوٹی چوری کی ترغیب کو ختم کرنے کیلئے ڈیوٹی اور ٹیکس کی شرح میں ہم آہنگی لائی جائے۔ خطے میں لاگو بہترین پالیسیوں اور طریقوں کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں پالیسیوں اور طریقوں کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مینوفیکچرنگ، آئی ٹی اور خدمات کے برآمدات جیسے شعبوں میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرکے ملازمت کے مواقع پیدا کئے جاسکیں ۔

منور اقبال
( بانی چیئرمین کمپیوٹر ایسوسی ایشن)

وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم کے اہم ممبران آئی ٹی کے شعبے پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں۔ حکومت سے گزارش ہے کہ آئی ٹی سیکٹر سمیت تمام شعبوں کیلئے پیداواری لاگت کم کرنے پر توجہ دی جائے تاکہ ان اشیاء کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ ساتھ عالمی منڈی میں رائج قیمتوں کا مقابلہ کرنے میں آسانی پیدا ہوسکے۔ پاکستانی مصنوعات کیلئے نئی منڈیوں کی تلاش پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

برآمدات کو صرف ٹیکسٹائل،چمڑہ اور سپورٹس تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ غیر روایتی اشیاء کی برآمد پر بھی توجہ دی جائے، اس سے اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح آئی ٹی سیکٹر پر توجہ دے کر بھی جی ڈی پی گروتھ کے ساتھ ملک میں تعلیم اور پیشہ وارانہ مہارت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔

آئی ٹی کی صنعت ملکی معیشت کے مالی اور تجارتی سیکٹر کا ایک اہم جزو ہے۔ کووڈ19 کی وجہ سے کمپیوٹر کی مانگ میں اضافہ ہوا مگر ملک میں جاری مسلسل لاک ڈاؤن کے باعث اس صنعت کو شدید دھچکا لگا ۔ اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے استعمال شدہ اور اسیمبلڈ کمپیوٹر پر اچانک ہوش ربا ڈیوٹی عائد کر دی گئی ۔ اب کمپیوٹر صنعت کے بند ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے لہٰذا اگلے بجٹ میںآ ئی ٹی پارٹس اور پرزہ جات کا کام کرنے والی آئی ئی ٹی صنعت کمپیوٹر کے ریٹیلرز کے لئے فکسڈ ڈیوٹی لاگو کرنے کا نظام متعارف کرایا جائے اور اس تجویز کے تحت آئی ٹی صنعت کے ریٹیلرزپر پانچ ہزارروپے ماہانہ فی کس ٹیکس عائد کردیا جائے تاکہ وہ بھی دستاویزی معیشت کے نیٹ میں آسکے۔

بجٹ میں آئی ٹی شعبہ میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے،اس کیلئے خصوصی مراعاتی پیکیج متعارف کروایا جائے۔ کمپیوٹر، موبائل و دیگر اشیاء بنانے والی بین الاقوامی کمپنیوں کے مینوفیکچرنگ پلانٹس پاکستان میں لگ جائیں تو معاشی طور پر بہت فائدہ اور برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔ اگر بہتر حکمت عملی سے کام کیا جائے تو پاکستان صرف آئی ٹی انڈسٹری اور آئی ٹی سروسز برآمد کرکے بارہ سے پندرہ ارب ڈالر سالانہ حاصل کرسکتا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت ٹیکسز کو ریشنلائز کرے اور اسمبلڈ کمپیوٹرز کی صنعت کو فروغ دے۔ حکومت آئی ٹی کے فروغ کے لئے غیر ملکی سرمایہ کارو ں کو 5 سال کی ٹیکس چھوٹ دے ۔

The post وفاقی بجٹ 22-2021 ۔۔۔ کورونا سے ہونیوالے معاشی نقصان کا ازالہ کرنا ہوگا!! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2RcbFAA
via IFTTT