Sunday, June 30, 2019

صفائی وکچرے کی منتقلی میں کروڑوں کی بدعنوانی کا انکشاف ایکسپریس اردو

کراچی: سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے افسران کی ملی بھگت سے صفائی اورکچرے کی ڈمپنگ سائٹ پر منتقلی کے کاموں میں مبینہ طور پر کروڑوں روپے کی بدعنوانی کا انکشاف ہوا،بورڈ کے قریبی ذرائع کے مطابق سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے افسران کی ملی بھگت سے مبینہ طور پرسرکاری خزانے کو یومیہ بھاری نقصان پہنچایا جارہا ہے۔

ذرائع کے مطابق سولڈ ویسٹ کے اہلکاروں کی ملی بھگت سے کچرے کے ٹرپ کو 3 ٹرپس میں تبدیل کیا جارہا ہے،بلدیہ شرقی ، غربی ،ملیراور اولڈ سٹی ایریا میں کچرے کی صورتحال جوںکی توں ہے،بورڈ حکام کی ملی بھگت سے کاغذات میں یومیہ ہزاروں ٹن کچرا اٹھایا جارہا ہے،ذرائع کے مطابق ایک جانب بورڈ افسران کچرا اٹھانے کی آڑ میں مبینہ طور پر سرکاری خزانے کو نقصان پہنچا رہے ہیں تو دوسری طرف کروڑوں روپے کی گاڑیوں کا ناکارہ بنادیا گیا ، مبینہ طور پر خراب گاڑیوں کے بھی بل بنا کر سرکاری ریونیو ہڑپ کیا جارہا ہے،ذرائع کے مطابق گاڑیوں کی مرمت کے نام پر بھی مبینہ ماہانہ لاکھوں روپے کے بوگس بل بنائے جارہے ہیں ،ذرائع کے مطابق حکومت سندھ نے ضلع شرقی کی صفائی کچرے کی منتقلی کا کام بورڈ کو منتقل کرتے وقت ضلع شرقی کے محکمہ سینٹیشن کے 1800ملازمین کو تنخواہوں سمیت بورڈ منتقل کردیا تھا جن میں سے 700ملازمین رٹائرہوچکے ہیں یا انتقال کرچکے ہیں۔

حکومت سندھ ہر ماہ 1800ملازمین کی تنخواہ ضلع کے او زیڈ ٹی ٹیکس سے کاٹ کر بورڈ کو دے رہی ہے،بورڈ ضلع میں 1800کے بجائے ضلع میں صفائی کے لیے صرف500سے600ملازمین سے کام کرارہا ہے،حکومت سے گزشتہ ڈھائی سال سے1800ملازمین کی تنخواہ وصول کررہا ہے،واضح رہے کہ سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ تین سال سے آپریشنل ہونے کے باوجود تاحال شہر بھر سے کچرا اٹھا کر لینڈ فل سائٹ تک پہنچانے میں ناکام ہوگیا نہ ہی سائنسی بنیادوں پر کچرا تلف کیا جارہا ہے اور نہ ہی مکمل طور کچرا لینڈفل سائٹ تک پہنچایا جارہا ہے۔

بلدیہ جنوبی اور بلدیہ شرقی سے ماہوار کروڑوں روپے کی ادائیگی کے باوجود مکمل کچرا نہ اٹھنا،سرکاری مشینری کو ناکارہ کرکے کھڑا کرکے سرکاری ڈرائیوروں کو بے کار بٹھاکر انھیں وعدے کے مطابق اضافی 25فیصد الاؤنس ادا نہ کرنے،جی ٹی ایس کو تین سال میں معاہدے کے مطابق تعمیر نہ کرنا،کچرے کو نالوں میں پھینکنے سے نہ روکنے کے موثر اقدامات نہ کرنا، تجربے کار عملے کے بجائے پرائیویٹ لوگوں سے کام کرانا، محکمے کی ناقص کارکردگی اور ماہانہ کروڑوں روپے کی بدعنوانی نے سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ حکام کے کردار کو مشکوک بنا کر رکھ دیا،دوسری طرف سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ میں کی جانے والی بدعنوانیوں اور معاہدے کی خلاف ورزیوں پر سجن یونین اور بورڈ ملازمین کی جانب سے بھی بورڈ حکام اور افسران پر سنگین الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔

حکومت سندھ کی جانب سے تاحال بورڈ کی ناقص کارکردگی اور سرکاری ریونیو کا نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیںکی گئی جس کا فائدہ اْٹھا ایک جانب سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے افسران بڑے پیمانے پر سرکاری ریونیو کا نقصان پہنچانے میں مصروف ہیں،دوسری طرف کے ایم سی اور ڈی ایم سیز سے بورڈ منتقل کیے گئے ملازمین کا بھی معاشی استحصال کررہے ہیں۔

The post صفائی وکچرے کی منتقلی میں کروڑوں کی بدعنوانی کا انکشاف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Xf3V2x
via IFTTT

سینٹرل جیل کی بی کلاس میں ایک اور قیدی کا اضافہ ایکسپریس اردو

کراچی:  سینٹرل جیل کراچی کی بی کلاس میں ایک اور قیدی کا اضافہ ہونے جا رہا ہے،قتل کے الزام میں قید سلمان ابڑو نے جیل میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا،گریجویشن کا امتحان دیا جوکہ اس نے فرسٹ ڈویژن سے پاس کرلیا،اس کے ساتھ ساتھ سینٹرل سپریئرسروس (سی ایس ایس) کی تیاری بھی جاری ہے۔

تفصیلات کے مطابق مئی 2014 میں کلفٹن میں بنگلے کے اندر دو طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں سلیمان لاشاری ہلاک جبکہ سلمان ابڑو زخمی اور سلمان ابڑو کا ساتھی پولیس اہلکار ظہیر جاں بحق اور دیگر زخمی ہوگئے تھے،واقعے کا مقدمہ درخشاں تھانے میں درج کیا گیا تھا،پولیس نے سلمان ابڑوکوگرفتارکرکے جیل منتقل کردیا، کیس عدالت میں زیر سماعت ہے،اس سلسلے میں سینئر سپرنٹنڈنٹ شاہ نواز ساند نے بتایا کہ سینٹرل جیل میں قید کے دوران بھی سلمان ابڑو نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا،گریجویشن کا امتحان دیا،سلمان نے امتحان 1000 نمبروں میں سے634 نمبر لے کر فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔

کراچی یونیورسٹی کی جانب سے ڈگری بھی جاری کردی جوکہ انھوں نے خود سلمان ابڑو کو ڈگری دی ، سپرنٹنڈنٹ کا کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ سلمان ابڑو جیل میں ہی قید کے دوران سینٹرل سپریئر سروس(سی ایس ایس) کی تیاری بھی کررہا ہے اور آئندہ برس سی ایس ایس کے امتحان دینے کا ارادہ بھی ظاہر کیا ہے ،سلمان سی ایس ایس کی تیاری چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ایس پی فدا حسین شاہ کی زیر نگرانی کررہا ہے جوکہ حال ہی میں ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔

گرفتاری سے قبل سلمان ابڑو کیڈٹ کالج میں زیر تعلیم تھا،ایک سوال کے جواب میں سینئر سپرنٹنڈنٹ شاہ نواز ساند نے بتایا کہ گریجویشن کی تکمیل کے بعد اب سلمان ابڑو قانونی طور پر بی کلاس کا حق دار ہے،سلمان ابڑوکی اس حوالے سے درخواست موصول ہونے کے بعد مروجہ قانونی ضابطے مکمل کرکے اسے بی کلاس کی سہولت دے دی جائے گی۔

The post سینٹرل جیل کی بی کلاس میں ایک اور قیدی کا اضافہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2JeMDbT
via IFTTT

انڈر19 کرکٹ ؛ پاکستانی لٹل اسٹارزجگمگا اٹھے، سیریز جیت لی ایکسپریس اردو

پائٹرمرٹزبرگ / جنوبی افریقہ: پاکستانی لٹل اسٹارز جگمگااٹھے، گرین شرٹس نے جنوبی افریقہ کو چوتھے ون ڈے میں 88 رنز سے شکست دیکر انڈر19 سیریزمیں 4-0 کی فیصلہ کن برتری حاصل کرلی،عامر علی اور نسیم شاہ نے4،4 وکٹیں آپس میں بانٹ لیں، حیدرعلی اور فہد منیر نے نصف سنچریاں بنائیں، کپتان روحیل نذیر نے 89 اور حارث خان نے 62 رنز بٹورے۔

تفصیلات کے مطابقانڈر19کرکٹ سیریز کے چوتھے معرکے میں ٹاس جیتنے والی پاکستانی ٹیم نے پہلے کھیل کر مقررہ 50 اوورزمیں8 وکٹ کھوکر341 کا بڑا مجموعہ ترتیب دیا، اوپنر حیدرعلی نے درجن بھر چوکوں کی مدد سے59 رنزبنائے، فہد منیر56کے بعد کپتان روحیل نذیر نے عمدہ بیٹنگ کی، انھوں نے 91 گیندوں پر89 رنزبنانے کیلیے 11 باؤنڈریز لگائیں، حارث خان نے برق رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے 41 گیندوں پر62 رنزبٹورے، ان کی اننگز میں 8 چوکے اور ایک سکسر شامل رہے، عباس آفریدی نے 30 رنز ناٹ آؤٹ بنائے، عمران فیلینڈر نے3 اور ایچیل کولیٹے  نے 2 وکٹیں اپنے نام کیں۔

میزبان الیون 43.3 اوورز میں 253رنزپر ہمت ہارگئی، اوپنر آر ٹیربلینچ 53، جوناتھن برڈ نے سب سے زیادہ 75 رنز بنائے،کپتان برائس پیرسون 39 رنز بنانے میں کامیاب رہے، فاسٹ بولر نسیم شاہ نے 9.3 اوورز میں 52 رنز دیکر4 مہرے کھسکائے،عامر علی نے 44 رنزکے عوض 4 شکار کیے، عمدہ بولنگ پرفارمنس پر انھیں میچ کا بہترین کھلاڑی بھی چناگیا، عباس آفریدی اور فہد منیر نے ایک ایک وکٹ اپنے نام کی،7 میچز پرمشتمل سیریز کا پانچواں مقابلہ منگل کو شیڈول ہے۔

The post انڈر19 کرکٹ ؛ پاکستانی لٹل اسٹارزجگمگا اٹھے، سیریز جیت لی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Xj9vAL
via IFTTT

روئے کوآؤٹ نہ دینے پر بھارتی میڈیا اور شائقین کا علیم ڈار کیخلاف محاذ ایکسپریس اردو

برمنگھم:  بھارتی میڈیا اور شائقین نے جیسن روئے کو آؤٹ نہ دینے پر امپائر علیم ڈار کے خلاف محاذ کھول لیا۔

گیارہویں اوور کی پانچویں گیند پر ہردیک پانڈیا کی گیند پر بھارت نے روئے کے خلاف کاٹ بی ہائنڈ کی اپیل کی جسے علیم نے مسترد کردیا، کوہلی اس پر ریویو لینا چاہتے تھے مگر وکٹ کیپر دھونی نے امپائر کے فیصلے کو قبول کرنے کا مشورہ دیا۔

بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ گیند بیٹسمین کے گلوز کو چھوتی ہوئی گئی تھی، اسی بنیاد پر سوشل  میڈیا پر کچھ بھارتی شائقین نے بھی شور مچایا۔

The post روئے کوآؤٹ نہ دینے پر بھارتی میڈیا اور شائقین کا علیم ڈار کیخلاف محاذ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2LrjAVj
via IFTTT

دوران میچز سیاسی بینر کو لہرانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، آئی سی سی چیف ایگزیکٹیو ایکسپریس اردو

لیڈز: افغان تماشائیوں کی شرانگیزی کے بعد آئی سی سی نے سیکیورٹی انتظامات مزید سخت کرنے کا فیصلہ کرلیا، چیف ایگزیکٹیو ڈیوڈ رچرڈسن کہتے ہیں کہ آئندہ اس قسم کے واقعات سے بچنے کی پوری کوشش کریں گے، کسی بھی قسم کے سیاسی بینر کو لہرانے کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

کونسل کے چیف ایگزیکٹیو ڈیوڈ رچرڈسن کہتے ہیں کہ گورننگ باڈی مختلف اتھارٹیز کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ اس قسم کے واقعات پھر رونما نہ ہوں، ہم مختلف سیکیورٹی ٹیموں کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں تاکہ انتظامات کو مزید بہتر بنایا جاسکے، انفرادی طور پر اسٹیڈیم میں موجود ہر شخص پر نظر رکھنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن ہماری سیکیورٹی ٹیم ایسے افراد پر نظر رکھے گی جوکہ سیاسی سلوگن یا بینرز استعمال کررہے ہوں گے۔

The post دوران میچز سیاسی بینر کو لہرانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، آئی سی سی چیف ایگزیکٹیو appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2xlLv0q
via IFTTT

سیمی فائنل میں رسائی ؛ سری لنکن کرکٹ ٹیم کومعجزے کا انتظار ایکسپریس اردو

چیسٹر لی اسٹریٹ:  ورلڈ کپ میں پیر کو سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان میچ ہوگا، آئی لینڈرز کو سیمی فائنل میں رسائی کیلیے معجزے کا انتظار ہے، اگر مگر کے چکر سے قبل اپنے باقی دونوں میچز جیتنا ہوں گے، دوسری جانب کیریبیئن ٹیم اب بحالی وقار کیلیے کھیلے گی، موسم صاف رہے گا۔

تفصیلات کے مطابق سری لنکا نے انگلینڈ کے خلاف 20 رنز کی کامیابی سے جہاں ایک طرف ٹورنامنٹ کو اوپن اور سیمی فائنلز کے امیدواروں میں اضافہ کیا تو دوسری جانب اپنے امکانات بھی روشن کیے مگر اگلے ہی میچ میں جنوبی افریقہ کے ہاتھوں ناکامی کے بعد آئی لینڈرز کے لیگ مرحلے سے آگے بڑھنے کے امکانات تقریباً ختم ہوچکے تاہم انھیں اب معجزے کا انتظار ہے، اگر وہ اپنے باقی دونوں میچز جیت جاتے اور انگلینڈ اور پاکستان کے آئندہ میچز کا نتیجہ شکست کی صورت میں برآمد ہوتا ہے تو پھر سری لنکا ٹیم کے سیمی فائنل کھیلنے کی امید بن سکتی ہے۔ پروٹیز سے میچ میں اسے 9 وکٹ سے شکست ہوئی تھی، جس میں بڑا قصور غیر مستقل مزاج بیٹنگ کا تھا، اب اسے ویسٹ انڈین اٹیک کے خلاف بہتر پرفارمنس کا چیلنج درپیش ہوگا۔ لسیتھ مالنگا سے کافی امیدیوں وابستہ ہیں، انھوں نے 5 میچز میں 9 وکٹیں لی ہیں، جن میں سے 7 سری لنکا کی 2 فتوحات میں سامنے آئی ہیں۔ نوان پردیپ کے انجرڈ ہونے کی وجہ سے آئی لینڈرز کا انحصار اپنے تجربہ کار پیسر پر ہی ہوگا۔

دوسری جانب جیسن ہولڈر ایلیون 7 میچز میں سے صرف ایک کامیابی کی وجہ سے سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر ہوگئی ہے، اگرچہ کئی میچز میں اس کی جانب سے اچھی پرفارمنس سامنے آئی مگر وہ کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اپنے افتتاحی میچ میں کیریبیئن ٹیم نے پاکستان کے خلاف 7 وکٹ سے کامیابی حاصل کی تھی مگر اس کے بعد کوئی بھی تدبیر کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ ٹیم کے سینئر ممبر کرس گیل اپنے پانچویں اور آخری ورلڈ کپ کو یادگار تو نہیں بنا پائے تاہم الوداعی میچز میں بہتر کارکردگی پیش کرنا چاہتے ہیں۔ چیسٹر لی اسٹریٹ میں ہی سری لنکا کو 9 وکٹ سے شکست ہوئی تھی، اس لیے وہ اس بار زیادہ سنبھل کر کھیلنے کی کوشش کریں گے، ڈرہم میں پیر کو آسمان صاف رہے گا بارش کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

The post سیمی فائنل میں رسائی ؛ سری لنکن کرکٹ ٹیم کومعجزے کا انتظار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Lv6yWE
via IFTTT

سوئس فٹبالرسوئمنگ حادثے کے بعد لاپتہ ایکسپریس اردو

جنیوا: سوئٹزرلینڈ کی نیشنل ویمنز فٹبالر فلوریجانا اسماعیلی سوئمنگ حادثے کے بعد سے لاپتہ ہیں۔

وہ گذشتہ دنوں شمالی اٹلی میں واقع جھیل کومو میں حادثے کا شکار ہوئی تھیں۔ کلب اعلامیے کے مطابق ہماری پلیئر فلوریجانا سوئمنگ حادثے کے بعد ہفتے کی صبح سے لاپتہ ہیں، پولیس نے ان کی تلاش جاری رکھی ہوئی ہے، اطالوی میڈیا کے مطابق انھوں نے فرصت کا دن جھیل میں گزارنے کا فیصلہ کیا تھا، جہاں انھوں نے کرائے پر کشتی حاصل کی تھی ، حادثے کے وقت انھوں نے پانی میں چھلانگ لگائی تھی لیکن پھر وہ سطح آب پر نہیں آسکیں۔

The post سوئس فٹبالرسوئمنگ حادثے کے بعد لاپتہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2xkurIt
via IFTTT

ریلوے اراضی کی دیکھ بھال کرنے والی کمپنی آج سے بند ایکسپریس اردو

 لاہور:  کیبنٹ ڈویژن سے منظوری کے بعد وزارت ریلوے کی ذیلی کمپنی ’’ری ڈیمکو ‘‘ ریلوے اسٹیٹ ڈیولپمنٹ مارکیٹنگ آج پیر  یکم جولائی سے مکمل طور بند ہوجائیگی۔

کنٹریکٹ اور3 ,3 ماہ ڈیلی ویجزز پر کام کرنے والے 65 سے زائد ماتحت ملازمین کو فارغ کردیا گیا ہے، ریلوے آفیسرز کو واپس محکمہ ریلوے میں ضم کردیا جائے گا۔ ریلوے زمینوں کے تمام معاملات اب واپس آٹھوں ڈویژنوں کو سونپ دیے گئے ہیں،  محکمہ آڈٹ اور فنانس ڈیپارٹمنٹ رواں ماہ ذیلی کمپنی کے مالی معاملات کا جائزہ لے گی۔

ذرائع نے بتایا سابق حکومت میں ریلوے زمینوں کے معاملات کو بہتر بنانے کیلئے  ذیلی کمپنی’’ ری ڈیمکو ‘‘ قائم کی گئی تھی ۔

The post ریلوے اراضی کی دیکھ بھال کرنے والی کمپنی آج سے بند appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ZXRjtl
via IFTTT

بھکرمیں ٹریلر کی وین کو ٹکر، ایک ہی خاندان کے 8 افراد جاں بحق ایکسپریس اردو

بھکر:  جہان خان کے قریب جھنگ بھکر روڈ پر ٹرالر نے کیری ڈبے کو کچل ڈالا جس سے ایک ہی خاندان کے 4 بچوں سمیت 8 افراد جاں بحق اور 7  زخمی ہوگئے۔

جنہیں ڈسٹرکٹ اسپتال بھکر منتقل کردیا گیا۔وین میں سوار حیدرآباد تھل کا رہائشی بدقسمت خاندان اپنے رشتہ داروں کو ڈیرہ اسماعیل خان سے مل کر واپس جا رہا تھا۔ جاں بحق ہونے والوں میں 65 سالہ عزیز مائی ،60 سالہ محمد ارشاد ، 4 سالہ ولید احمد ، ایک سالہ شہریار ، 55 سالہ شاہ حسین ، 9 سالہ سبحان ، 7 سالہ آصف عمر ، 6 سالہ زہرہ عمر شامل جبکہ آسیہ بی بی،ماہ پارہ ،بشریٰ ،بلال حسین،غلام یٰسین،زہرہ مائی ، کنیز فاطمہ شدید زخمی ہوئے ۔

اطلاع ملنے پر ڈپٹی کمشنر کیپٹین (ر) وقاص رشید نے موقع پر پہنچ کر اپنی نگرانی میں امدادی کاروائیاں شروع کروائیں، ٹرالر ڈرائیور موقع سے فرار ہوگیا ، ڈی پی او بھکر شائستہ ندیم کے مطابق ٹریلر کو پولیس نے تحویل میں لے کر ڈرائیور کی گرفتاری کے لیے کاروائی شروع کردی ہے۔

The post بھکرمیں ٹریلر کی وین کو ٹکر، ایک ہی خاندان کے 8 افراد جاں بحق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2XCBAm9
via IFTTT

ٹیکس ایمنسٹی: 1780 ارب کے اثاثے ظاہر، 42 ارب ٹیکس جمع ایکسپریس اردو

 اسلام آباد:  ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے تحت اب تک 90ہزار لوگوں کی جانب سے 1780 ارب روپے کے اثاثے ظاہر کیے گئے ہیں۔

ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے تحت اب تک 90ہزار لوگوں کی جانب سے 1780 ارب روپے کے اثاثے ظاہر کیے گئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ایف بی آر کو مجموعی طور پر42 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوا ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ مالی سال کے دوران مجموعی طور پر598 ارب روپے کے عبوری ریونیو شارٹ فال کا انکشاف ہوا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایف بی آر کو کل رات گئے تک مجموعی طور پر3800ارب روپے کا عبوری ریونیو حاصل ہوا جو گزشتہ مالی سال کیلیے مقرر کردہ 4398ارب روپے کے ٹیکس وصولیوں کے ہدف کے مقابلے میں 598 ارب روپے کم ہے۔

ذرائع کے مطابق ایمنسٹی لینے والوں میں زیادہ تعداد درمیانے طبقے کی ہے۔ اب بھی 10 ہزار سے زائد درخواستیں التوا میں پڑی ہیں اور بڑی تعداد میں نئی درخواستیں آرہی ہیں۔

The post ٹیکس ایمنسٹی: 1780 ارب کے اثاثے ظاہر، 42 ارب ٹیکس جمع appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3003MN8
via IFTTT

اثاثے ظاہرکرنے کے مضمرات سے تارکین وطن خوفزدہ ایکسپریس اردو

کراچی: حکومت نے ٹیکس سے بچنے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کم شرح پر ٹیکس ادا کر کے اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم  شروع کی ہے۔ نان فائلرز کو ٹیکس کی ادائیگی پر راغب کرنے کے لیے ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی تاریخ میں متعدد بار توسیع کی ہے۔

نان فائلرز کے لیے ڈیجیٹلائزیشن کے اس دور میں ٹیکس کی ادائیگی سے بچنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ دوسری جانب اسٹیٹ بینک ایف اے ٹی ایف کی شرائط کے تحت اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ کے انسداد کے لیے رقوم ؍ غیرملکی زرمبادلہ کی منتقلی پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے نئے چیئرمین شبرزیدی نے ٹیکس اصلاحات بروئے کار لانے کا وعدہ کیا ہے جس سے ٹیکس بیس وسیع ہوگی اور ٹیکس دہندگان کو سہولت ہوگی۔ تاہم اس تمام عمل کے دوران ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک نے بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے لیے کچھ اہم مسائل کھڑے کردیے ہیں۔ ایف بی آر کے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 81 کے مطابق پاکستان سے باہر 183 ایام تک رہنے والا شہری تارک وطن کہلائے گا اور اس وقت تک ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کرسکتا جب تک کہ اس کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ پاکستانی ذریعہ نہ ہو جیسے اسٹاک ڈیویڈنڈ، غیرمنقولہ جائیداد کے کرائے سے حاصل ہونے والی آمدنی، یا کوئی بھی ایسی جائیداد یا سیکیورٹیز جن پر کیپٹل گین ٹیکس لاگو ہوتا ہو۔ لہٰذا ایک تارک وطن کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ کسی خلیجی ملک میں مقیم رہتے ہوئے اور پاکستان میں یا پاکستان سے باہر جائیداد اور بینک اکاؤنٹس میں رقم رکھے اور ایف بی آر اس سے لاعلم ہو۔

دوسری جانب ایک تارک وطن جس نے پاکستان میں اپنی کسی آمدنی کے لیے ریٹرنز فائل کیے ہوں اسے اثاثے ظاہر کرنے کے مضمرات کا خوف لاحق ہوتا ہے۔ اسے ماضی میں اثاثے ظاہر نہ کرنے پر نوٹس موصول ہوتے ہیں تو وہ بیرون ملک رہتے ہوئے سمن اور لیگل نوٹس کی تکمیل کیسے کرسکتا ہے؟ بیرون ملک مقیم رہتے ہوئے پاکستان میں وکیل کی خدمات حاصل کرنا اور پھر قانونی معاملات سے نمٹنا ایک درد سر ثابت ہوگا۔ علاوہ ازیں جن تارکین وطن نے اپنی محنت سے کما کر بیرون ملک کوئی مقام حاصل کرلیا ہے انھیں یہ خوف لاحق ہے کہ اثاثے ظاہر کرنے کی صورت میں ایف بی آر ان کی محنت کی کمائی کو منی لانڈرنگ سے نہ جوڑ دے۔

The post اثاثے ظاہرکرنے کے مضمرات سے تارکین وطن خوفزدہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2XxR3UD
via IFTTT

پاک افغان اتفاق: باہمی اعتماد کیلیے مخالفانہ بیان بازی نہیں ہوگی ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: پاکستان اور افغانستان نے ایک دوسرے کیخلاف مخالفانہ بیان بازی نہ کرنے پر اتفاق کیا ہے، دونوں ملکوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ عوامی فورمز پر ایک دوسرے پر الزام تراشی نہیں کریں گے اور نہ ہی مخاصمانہ بات کی جائے گی تاکہ اس باہمی اعتماد کو فروغ دیا جاسکے جو دونوں ہمسایہ ملکوں کو درپیش مسائل کے حل کیلیے ازحد ضروری ہے۔

یہ فیصلہ افغان صدر اشرف غنی کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران وزیراعظم عمران خان اور عسکری قیادت سے ملاقاتوں میں کیا گیا، 2015ء کے بعد افغان صدر کا یہ پہلا دورہ ہے جو پاکستان کے ان حالیہ کوششوں کا نتیجہ ہے جو افغانستان کیساتھ تعلقات بہترکرنے کے ضمن کی جا رہی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان اور افغان صدر کی وفود کے ہمراہ ملاقات سے متعلقہ سرکاری عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ دونوں جانب اس امر پر اتفاق پایا گیا کہ سازگار ماحول پیدا کرنے کیلئے عوامی فورمز کو ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کیلئے استعمال نہیں کیا جائے گا، دونوں ملکوں کے مابین طے پایا کہ ایک دوسرے کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرنے کیلئے سفارتی ذرائع بروئے کار لائے جائیں گے، پاک افغان تعلقات کئی سال تک باہمی اعتماد کے فقدان کے باعث کشیدہ رہے، افغان قیادت عوامی سطح پر پاکستان کو اپنے داخلی حالات کا مورد الزام گردانتی رہی ہے۔

افغان صدر بھی متعدد بار داخلی انتشار کا موجب پاکستان کو قرار دے کر اس کی جانب انگلیاں اٹھا چکے ہیں تاہم پاکستان نے ہمشہ ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور تمام مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا ہے۔ عہدیدار کے مطابق الزام تراشی ماحول کو کشیدہ کرتی ہیجس کی حالیہ مثال کرکٹ کے عالمی مقابلوں میں پاک افغان میچ کے دوران افغان تماشائیوں کا پاکستانی تماشائیوں پر حملہ ہے، ایسے واقعات سے اسی صورت بچا جا سکتا ہے جب دونوں جانب سے مثبت پیغامات سامنے آئیں، پاکستان کی جانب سے اس حوالے سے احتیاط برتی جاتی ہے کہ الزام تراشی کو ہوا نہ دی جائے، پاکستان کو بھی افغانستان سے بعض معاملات پر تحفظات ہیں، خاص طور پر سرحدی حملوں میں ملوث گروپوں کیخلاف کارروائی نہ کرنا، تاہم پاکستان نے افغانستان کو عوامی سطح پر کبھی مورد الزام نہیں ٹھہرایا،مذکورہ عہدیدار نے بتایا کہ پاکستان نے ان مسائل کیلئے ہمیشہ سفارتی یا دوسرے ذرائع استعمال کئے ہیں۔

The post پاک افغان اتفاق: باہمی اعتماد کیلیے مخالفانہ بیان بازی نہیں ہوگی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ZYed3U
via IFTTT

ججزریفرنس کی کل سماعت، وکلا برادری کا یوم سیاہ ایکسپریس اردو

کوئٹہ /  اسلام آباد / کراچی: ججزریفرنس کی کل سماعت پروکلا برادری نے یوم سیاہ منانے کا اعلان کیا ہے۔

سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وکلا برادری حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے 2 ججز جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف بدنیتی کی بنیاد پر دائر ریفرنسزکی سماعت کے موقع پر آج ملک بھر کی بارز کے عہدے داروں سے یوم سیاہ منانے، بازو پر سیاہ پٹی باندھنے اور باررومز پر سیاہ جھنڈے لہرانے کی درخواست کی گئی ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ وہ سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کے موقع پر عدلیہ سے اظہار یکجہتی کیلیے اسلام آباد سپریم کورٹ بلڈنگ میں 2 جولائی کو صبح 11 بجے پہنچ کر کونسل کی کارروائی تک موجود رہیں جس کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کے حتمی فیصلے کی روشنی میں ایکشن کمیٹی کے اجلاس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔

ایک بیان میں انھوں نے کہاہے کہ سپریم کورٹ، سندھ اور بلوچستان کی عدالتوں میں گرمیوں کی تعطیلات کے باعث عدالتی بائیکاٹ یا ہڑتال کی کوئی اپیل نہیں کی گئی البتہ پنجاب سمیت کہیں اگر گرمیوں کی تعطیلات نہ ہوں تو وہاں کی صوبائی بارکونسل اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز اپنے حالات کے مطابق متفقہ فیصلہ کرسکتی ہیں تاکہ وکلا اداروں کے تضادات سے مخالفین کو فائدہ اور بعض لوگ ہمارے اصولی موقف کے خلاف سمجھوتہ کرکے منافع بخش دھندے اور اپنی ترقی کا ذریعہ نہ بنائیں۔ دوسری جانب پاکستان بار کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف ریفرنس کے تناظر میںکل(منگل 2 جولائی کو) ملک گیر ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ اتوار کو پی بی سی کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق منگل کے روز ہی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے جس میں احتجاج سے متعلق آئندہ حکمت عملی پر غور ہو گا۔ کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان بارکونسل کے وائس چیئر مین امجد شاہ نے کہاکہ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے معاملے پر وکلا میں کوئی اختلاف نہیں، دونوں بڑے وکلا گروپ متحد ہیں، وفاقی حکومت جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے معاملے پر رویہ ٹھیک کرے، وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل سے درخواست ہے کہ ذاتی مقاصد کیلیے عہدے کا استعمال نہ کریں، اس موقع پر کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ و دیگر وکلا بھی موجود تھے۔

انھوں نے کہاکہ اٹارنی جنرل کے پاس اختیار نہیں کہ وہ فروغ نسیم کو بھیجے گئے نوٹس کو معطل کریں، جمہوری اداروں کے ساتھ قانونی خلاف ورزیاں قابل مذمت ہیں، فروغ نسیم کو پریکٹس کرنے پر نوٹس دیا گیا مگر وہ پیش نہیں ہوئے ، قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس اجلاس کا اہم ایجنڈا تھا، 2جولائی کو سپریم کورٹ سمیت ملک بھر میں ہڑتال اور احتجاج کیا جائے گا، بلوچستان کے ساتھ وفاق کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ایسا نہ ہوکہ ہم خود سپریم کورٹ جانے سے انکار کردیں۔ فروغ نسیم وزیر ہونے کے بعد پریکٹس نہیں کرسکتے، وہ دو کشتیوں کی سواری کرنا چاہتے ہیں جو قبول نہیں، ملک کو1973کے آئین کے تحت چلایا جائے، صدر اور وفاقی حکومت کوسوچنا چاہیے کہ ملک میں ایسی کیفیت پیدا نہ کریں جس سے جمہوریت کو خطرہ اور اداروں کے درمیان ٹکرائو ہو، جمہوریت کو کسی صورت کمزور نہیں ہونے دیںگے۔ کراچی بار ایسوسی ایشن کے ترجمان اسلم خٹک ایڈووکیٹ نیایک اعلامیہ میں کہا ہے کہ کراچی بار متفقہ طور پر سپریم کورٹ اور پاکستان بار کی مشترکہ طور پر اعلان کردہ کل (منگل 2 جولائی) ہڑتال کی مکمل حمایت کا اعلان کرتی ہے اور 2 جولائی کو عدالتوں کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے گا۔

The post ججزریفرنس کی کل سماعت، وکلا برادری کا یوم سیاہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2XHHPVJ
via IFTTT

نوجوانوں کوبا اختیار بنانے کیلیے33 رکنی قومی یوتھ کونسل قائم ایکسپریس اردو

 اسلام آباد:  حکومت نے نوجوانوں کو سماجی، معاشی طور پر بااختیار بنانے کی جانب ایک اور قدم اٹھاتے ہوئے 33 رکنی قومی یوتھ کونسل آف پاکستان تشکیل دے دی ہے، وزیراعظم عمران خان اس کے سرپرست جبکہ وزیراعظم کے خصوصی معاون برائے امور نوجوانان محمد عثمان ڈار چیئرمین ہونگے۔

وزیراعظم آفس پبلک برائے کامیاب جوان پروگرام کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق فیصلہ سازی میں نوجوانوں کو شریک کرنے کی غرض سے پہلی قومی یوتھ کونسل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔پاک فوج کے میجر تنویر شفیع، کرکٹر حسن علی ، خاتون کرکٹر ثنا میر، اداکار حمزہ علی عباسی، اداکارہ ماہرہ خان، کوہ پیما ثمینہ بیگ ، اینکر پرسن منیبہ مزاری اس کونسل کے کلیدی ممبران ہونگے۔ قومی یوتھ کونسل ایک مشاورتی ادارہ ہو گا جو مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی سماجی و اقتصادی ترقی کے لئے پالیسی سفارشات مرتب کرے گی۔

The post نوجوانوں کوبا اختیار بنانے کیلیے33 رکنی قومی یوتھ کونسل قائم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Jk8Y89
via IFTTT

وزیرتعلیم کا ٹیسٹ پاس 6000 اساتذہ کو آفر لیٹرجاری کرنے کا حکم ایکسپریس اردو

کراچی: آئی بی اے سکھر کے تحت ٹیسٹ پاس کرنیوالے امیدواروں کا انتظار ختم ہوگیا، صوبائی وزیرتعلیم نے ایک ہفتے میں آفر لیٹر جاری کرنے کا حکم دے دیا، تفصیلات کے مطابق آئی بی اے سکھر کے تحت ٹیسٹ پاس کرکے تعینات ہونے والے جونیئر ایلیمینٹری اسکول ٹیچر اور ارلی چائلڈ ہڈ ٹیچرز کا انتظار ختم ہوگیا۔

سندھ کے وزیر تعلیم سردار شاہ نے آئی بی اے ٹیسٹ پاس کرنے والے 6000 اساتذہ کو ایک ہفتے میں آفر آرڈر جاری کرنے کا حکم دے دیا،وزیر تعلیم نے ضلعی تعلیمی افسران سے پوچھا ہے کہ نئے اساتذہ کی بھرتیوں میں دیر کیوں ہوئی ہے جس پر ڈی ای اوز کا کہنا تھا کہ جے ای ایس ٹی اور ای سی ٹی اساتذہ کی ڈگریاں تصدیق کے لیے جامعات کو بھیجی گئی ہیں جو ابھی تک واپس نہیں آئیں اسی لیئے تعیناتی میں تاخیر ہوئی جس پر وزیر تعلیم نے کہا کہ ڈگریوں کی جامعات سے تصدیق کا عمل مکمل ہونے میں بہت دیر ہوجائے گی ان کا انتظار نہ کریں جامعات سے تصدیق کا عمل مکمل ہونے تک امیدواروں کو مشروط آفر آرڈر جاری کردیں اورآفر آرڈر میں تمام تعلیمی اسناد اور ڈومیسائل کی مکمل تصدیق کی مشروط شق شامل کرلیں اگر کسی کی ڈگری یا ڈومیسائل کی تصدیق نہ ہوئی تو اس کا آفر آرڈر کینسل سمجھا جائے گا، وزیر تعلیم نے واضح کیا کہ تمام اساتذہ کو پہلے سے طے شدہ یوسی اور تعلقہ اسکولوں میں ہی مقرر کیا جائے گا ۔

سندھ میں اساتذہ کی بھرتیوں کے لیے گزشتہ سال اکتوبر میں 6000 اسامیوں پر ٹیسٹ لیا گیا تھا اساتذہ بننے کے خواہشمند20 ہزار امیدواروں نے آئی بی اے سکھر کے تحت ٹیسٹ میں حصہ لیا تھا جبکہ صرف 2000 اساتذہ ٹیسٹ پاس کرسکے تھے اور 18000 امیدوار ٹیسٹ میں فیل ہوگئے تھے اور اس طرح محکمہ تعلیم 6000 افراد کی اسامیوں پر تعینانی میں ناکام رہا تھا اور4 ہزار اسامیوں پر تعیناتی باقی تھی جس کے بعد وزیر تعلیم نے وزیراعلی سندھ کو سمری ارسال کرکے موقف اختیار کیا کہ ٹیسٹ میں پاسنگ مارکس 60 سے کم کرکے 50 کردیے جائیں کیونکہ اگر 60 نمبر پاس ہونے والی شرط کو برقرار رکھا گیا تو پھر اساتذہ کی بھرتیوں کا عمل مکمل نہ ہوسکے گا اور اسکول ویسے ہی خالی رہیں گے۔

 

The post وزیرتعلیم کا ٹیسٹ پاس 6000 اساتذہ کو آفر لیٹرجاری کرنے کا حکم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/323LgFp
via IFTTT

جامعہ کراچی، لاکھوں طلبا کا حساس ریکارڈ غیر متعلقہ افراد تک جانے کا انکشاف ایکسپریس اردو

کراچی: جامعہ کراچی کے کئی ملین طلبہ کا 10 سالہ حساس امتحانی ریکارڈ غیر متعلقہ افراد کو فراہم کیے جانے اور 41 ہزار ڈگریا ں شعبہ امتحانات سے غیر قانونی طورپر کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کا بڑا اسکینڈل سامنے آیا ہے اور بتایا جارہا ہے کہ یہ غیر قانونی اقدام سابقہ انتظامیہ کے ناظم امتحانات ڈاکٹر عرفان عزیز کی جانب سے کیا گیا جس کے سبب جامعہ کراچی کی ڈگریاں اور طلبہ کا امتحانی ریکارڈ کے غلط یا مجرمانہ مقاصد کیلیے استعمال ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

اس اسکینڈل کا انکشاف جامعہ کراچی کے موجودہ ناظم امتحانات پروفیسر ڈاکٹر ارشد اعظمی کی جانب سے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی کو لکھے گئے خط میں ہوا ہے جس کے بعد وائس چانسلر ڈاکٹر خالد عراقی کی جانب سے اس معاملے کا انتہائی سخت نوٹس لیتے ہوئے ایک انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو 15 روز میں وائس چانسلر کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔کمیٹی کے کنوینر سابق ڈین فارمیسی پروفیسر ڈاکٹر اقبال اظہرجبکہ دیگر اراکین میں شعبہ سیاسیات کی پروفیسر ڈاکٹر نصرت ادریس اورشعبہ زولوجی کی پروفیسرناصرہ خاتون شامل ہیں۔ادھر وائس چانسلر جامعہ کراچی سے جب ایکسپریس نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ معاملہ سامنے آنے پر تحقیقاتی کمیٹی بنائی گئی ہے اور کوئی بھی فیصلہ اور مزید حقائق تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں ہی ممکن ہوںگے۔ ایکسپریس کو معلوم ہواہے کہ جامعہ کراچی کے موجودہ ناظم امتحانات پروفیسر ڈاکٹر ارشد اعظمی نے وائس چانسلر کو لکھے گئے اپنے خط میں حیرت انگیز انکشافات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب انھوں نے 17 مئی کو اپنے عہدے کا چارج لیا تو معلوم ہو ا کہ پاکستان پرنٹنگ پریس سے چھپوائی گئی جامعہ کراچی کی اسناد شعبہ امتحانات میں موجود نہیں،یہ سادہ اسناد شعبہ امتحانات سے غیر قانونی طورپر انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ میں منتقل کردی گئیں۔ان سادہ ڈگریوں کے 82 پیکٹ شعبہ امتحانات سے غائب تھے اور ہر پیکٹ میں 500 اسناد تھیں۔

اسناد کے یہ پیکٹ 3 جون کو سابق ناظم امتحانات ڈاکٹر عرفان عزیز نے ڈیڑھ سال کے عرصے کے بعد ڈپٹی کنٹرولر ظفر حسین کے حوالے کیے۔ڈاکٹر ارشد اعظمی نے خط میں مزید موقف اختیار کہ ڈیڑھ سال تک یہ اسناد شعبے سے غائب رہی ہیں، وہ یہ بات نہیں جانتے کہ واپس ملنے والی ڈگریوں کی تعداد کتنی ہے۔جبکہ یہ ڈگریاں شعبہ امتحانات کے اسٹور سے کس کی اجازت سے انسٹی ٹیوٹ آف سسٹین ایبل ہیلو فائٹ یوٹیلائزیشن منتقل کی گئیں۔خط میں آگے چل کر مزید انکشافات کیے گئے کہ شعبہ امتحانات کے آئی ٹی پروگرامر نوید جو تمام امتحانی ڈیٹا کی اسٹوریج کے ذمے دارہیں ان سے سابق ناظم امتحانات ڈاکٹر عرفان عزیز نے 2007 ء تا2017 ء دس سال کا امتحانی ڈیٹا لے کر کوالٹی انہانسمنٹ سیل کے ایک افسر جاوید اکرم کے حوالے کردیا۔جبکہ ان ہی دس برسوں کا سیمسٹر ایگزامینیشن کا امتحانی ڈیٹا بھی جاوید اکرم کے حوالے کیا گیا۔خط میں جاوید اکرم سے متعلق معلومات دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جاوید اکرم کا تقرر ایک سوالیہ نشان ہے، ان کی شہرت بہتر نہیں ہے اور انہیں ماضی میں وفاقی اْردو یونیورسٹی کی ملازمت سے فارغ کیا گیا تھا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ناظم امتحانات کی حیثیت سے ڈاکٹر ارشد اعظمی طلبہ کے امتحانی ڈیٹا کی حفاظت کے ذمے دار ہیں اور یہ بات ان کے لیے انتہائی پریشان کن اور مشکوک ہے کہ ہمارا امتحانی اور سیمسٹر کا ڈیٹاLeak ہوگیا ہے۔

یہ تمام امور ان کے چارج سنبھالنے سے قبل انجام پائے ہیں،لہذا وہ اس کے ذمے دار نہیں ہیں تاہم اس امر کے ذمے داروں کا تعین بھی ضروری ہے۔خط میں وائس چانسلر سے اس معاملے کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کی سفارش کی گئی ہے۔ادھر ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے ناظم امتحانات ڈاکٹر ارشد اعظمی نے بتایا کہ جامعہ کراچی کے ایک سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر کے دور میں پاکستان پرنٹنگ پریس سے یونیورسٹی کی اسناد چھاپنے کا معاہدہ طے پایا تھا میں اس وقت بھی ناظم امتحانات تھا۔تاہم سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اجمل خان کے دور میں جب مجھے عہدے سے سبکدوش کیا گیا اس وقت تک یہ ڈگریاں پاکستان پرنٹنگ پریس نے جامعہ کراچی کے حوالے نہیں کی تھیں۔ جب انہیں اس عہدے کا چارج موجودہ وائس چانسلر نے دوبارہ دیا تومعلوم ہوا کہ ڈگریاں شعبہ امتحانات کے بجائے انسٹی ٹیوٹ آف ہیلو فائٹ میں موجود ہیں۔قانونی طورپر یہ ڈگریاں یونیورسٹی کے وائس چانسلر یا ناظم امتحانات (کنٹرولرآف ایگزامینیشن) بھی اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہمارے طلبہ کی10 سالوں کی کمپیوٹرائز ٹیبولیشن بھی یہاں سے ایک افسر کو منتقل کردی گئی جو قانونی طورپر ایک سنگین جرم ہے،لہذا میں نے تحقیقات کی سفارش کی ہے۔دوسری جانب بتایا جارہا ہے کہ امتحانی ڈیٹا پی ایچ ڈی کرنے والے کچھ غیر متعلقہ افراد کے حوالے کیا گیاہے۔

The post جامعہ کراچی، لاکھوں طلبا کا حساس ریکارڈ غیر متعلقہ افراد تک جانے کا انکشاف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IZHZPY
via IFTTT

بلاول 6 جولائی کوڈیرہ اسماعیل خان میں جلسہ کریں گے ایکسپریس اردو

پشاور: پیپلزپارٹی نے حکومت مخالف رابطہ عوام مہم خیبرپختوا میں بھی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری 6 جولائی کو ڈیرہ اسماعیل خان میں جلسہ کرینگے۔ علاوہ ازیں بلاول کو ضم قبائلی علاقوں میں انتخابی مہم کے سلسلے میں جلسوں کی ابھی تک اجازت نہیں مل سکی جس کے باعث بلاول کے دورہ خیبرپختونخوا کی تاریخوں کا تعین نہیں کیا جاسکا۔ یہ انتخابات 20 جولائی کو ہونے جارہے ہیں ۔پیپلزپارٹی کی جانب سے ہر قبائلی ضلع کی مقامی انتظامیہ کو جلسے کیلیے درخواستیں دیدی گئی ہیں لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

The post بلاول 6 جولائی کوڈیرہ اسماعیل خان میں جلسہ کریں گے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2XagEPa
via IFTTT

2 جولائی کو سورج گرہن ہوگا، پاکستان میں دیکھا نہیں جا سکے گا ایکسپریس اردو

کوئٹہ: سورج گرہن برازیل، ارجنٹائن براعظم امریکا کے جنوبی حصوں میں دیکھا جاسکے گا۔

پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق 2 اور3 جولائی کی درمیانی شب سورج گرہن کا آغاز رات 10 بجے ہوگا جو رات 3 بجے تک جاری رہے گا۔  پاکستان اورایشیا میں رات ہونے کی وجہ سے سورج گرہن نظر نہیں آئے گا جبکہ چاند گرہن 16 اور17 جولائی کی درمیانی شب رات11 بجکر50 منٹ پر شروع ہوگا اور17 جولائی صبح5 بجکر20 منٹ طلوع آفتاب سے15 منٹ پہلے ختم ہوگا۔یہ گرہن جنوبی ایشیاء بشمول پاکستان،آسٹریلیا، افریقہ ، یورپ ، عرب ممالک، مشرق وسطیٰ، روس ، میں دیکھا جاسکے گا۔ دوسری جانب ماہر فلکیات ڈاکٹر ریاض احمد نے کہا ہے کہ اس سال پانچ سورج اور چاند گرہن ہوں گے ۔

The post 2 جولائی کو سورج گرہن ہوگا، پاکستان میں دیکھا نہیں جا سکے گا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2J0oQNZ
via IFTTT

ترک بارڈرفورسز کی کوچ پر فائرنگ، 10 پاکستانی جاں بحق ایکسپریس اردو

وزیر آباد:  ترکی سے یونان جاتے ہوئے بارڈرکے قریب ترک سیکیورٹی فورس کی فائرنگ سے کوچ الٹ گئی۔

گولیاں لگنے سے 10 پاکستانی جاں بحق اور 25 زخمی ہو گئے۔ مرنے والوں میں علی پور چٹھہ کا رہائشی 23 سالہ علی مرتضیٰ بھی شامل ہے، علی پور چٹھہ کاعلی مرتضیٰ بہتر مستقبل کی تلاش میں 3سال قبل ترکی گیا تھا، ترکی سے یونان جانے کیلیے دیگر پاکستانیوں کے ہمراہ کوچ میں سوار ہو کر جا رہاتھا، بارڈر کراس کرنے کے دوران سیکیورٹی اہلکاروں کے آتے ہی کوچ کا ڈرائیور خوفزدہ ہو گیا۔

فورسز کے نے کوچ روکنے کا اشارہ کیا مگر ڈرائیور نے کوچ کو بھگا دیا جس پر فورسز نے فائرنگ شروع کر دی، کو چ کا ڈرائیور چلتی گاڑی سے چھلانگ لگا کر فرار ہو گیا، اس دوران تارکین وطن کی بغیر ڈرائیور کوچ ایک عمارت سے جا ٹکرائی، فائرنگ اور کوچ کے ٹکرا نے سے 10 پاکستانی جاں بحق جبکہ 25 دیگر تارکین وطن زخمی ہوئے جنہیں بارڈر فورس نے حراست میں لے لیا۔ علی مرتضیٰ کے جاں بحق ہونے کی اطلاع ترکی میں موجود اس کے ہم پیشہ ساتھیوں نے علی پور چٹھہ میں اس کے والدین کو ٹیلی فون پر دی تاہم ابھی نعش کی واپسی کا کوئی شیڈول سامنے نہیں آیا ہے۔

The post ترک بارڈرفورسز کی کوچ پر فائرنگ، 10 پاکستانی جاں بحق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2YlLFkh
via IFTTT

میچ میں پاکستانیوں پرحملہ آوروں کو کچھ خاص لوگوں کی مدد حاصل تھی، ڈی جی آئی ایس پی آر ایکسپریس اردو

راولپنڈی  : ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے پاک افغان میچ کے دوران افغان شائقین کے پاکستانیوں پر حملے کے حوالے سے کہا ہے کہ کھیل کی گہما گہمی اور گرمی کے باوجود بہروپ بدل کر کچھ لوگوں نے اسٹیڈیم کے اندر اور باہر جو رویہ اپنایا وہ کھیل نہیں تھا۔

میجر جنرل آصف غفور نے ایک ا فغان لڑکے کی وڈیو بھی شئیر کی جو اسپورٹس مین شپ کا مظاہرہ نہیں کر پایا۔ انھوں نے اپنے ٹوئٹر اورانسٹاگرام پیغام میں لکھا کہ ایسا رویہ اپنانے والوں کو کچھ خاص لوگوں کی مدد حاصل تھی جن کے بارے میں ہمیں علم ہے، ہم پاکستانی اپنی اقدار سے جڑے رہے اور ہم نے اسٹیڈیم میں اسی رویے کا مظاہرہ کیا۔

The post میچ میں پاکستانیوں پرحملہ آوروں کو کچھ خاص لوگوں کی مدد حاصل تھی، ڈی جی آئی ایس پی آر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3255gYC
via IFTTT

پتریاٹہ کیبل کارمیں پھنسے 100 سیاحوں کو بحفاظت نکال لیا گیا ایکسپریس اردو

 راولپنڈی: رات بھر جوائنٹ ریسکیو آپریشن کے بعد پتریاٹہ چیئر لفٹ کیبل کار میں پھنسے 100 کے قریب سیاحوں کو بحفاظت نکا ل لیاگیا۔

تحقیقات کے احکام جاری کردیے گئے ، تحقیقات مکمل ہونے تک چیئر لفٹ آپریشنل نہیں کی جائے گی، ریسکیو آپریشن میں پاک فوج، ریسکیو 1122، راولپنڈی پولیس ، سول ڈیفنس کے اہلکاروں ، چیئر لفٹ کے اسٹاف اور مقامی افراد نے حصہ لیا۔ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی محمد علی رندھاوا و سی پی او فیصل رانا واقعے کی اطلاع ملتے ہی پتریاٹہ پہنچے۔انھوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا اﷲ تعالی کا شکر ہے کہ پتریاٹہ چیئر لفٹ واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ۔ ریسکیو آپریشن میں حصہ لینے والوں نے اندھیرے ، طوفان بادو باراں و دھند کے باوجود کھمبوں پر چڑھ کر فضا میں معلق کیبنز کو دوبارہ بحال کرنے کا مشکل ہدف مکمل کیا ۔

تحقیقات کے بعد اطیمنان بخش احتیاطی اقدامات کی یقین دہانی کے بغیر چیئر لفٹ کو آپریشنل نہیں کیا جائے گا ۔ چیئر لفٹ ریسکیو آپریشن کی تکمیل کے بعد جب مرد و خواتین اور بچوں کو بحفاظت ریسکیو کرلیا گیا تو وہ سجدہ شکر بجالائے اور بلا تاخیر امدادی کارروائیوں پر تمام متعلقہ اداروں کا شکریہ ادا کیا۔ ادھرکمشنر راولپنڈی ثاقب ظفر نے شاندار انداز میں خدمات سرانجام دینے پر تمام اداروں کی کارکردگی کو سراہا۔

The post پتریاٹہ کیبل کارمیں پھنسے 100 سیاحوں کو بحفاظت نکال لیا گیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/300Maku
via IFTTT

انگریزوں کی بنی پن چکیاں تاریخ کے قبرستان میں دفن ایکسپریس اردو

بونیر:  انگریزوں نے جب برصغیرمیں راج سنبھالا توانھوں نے مختلف شہروں میں نہروں، پلوں اوردیگرمثالی ڈھانچے کی شکل میں مواصلاتی چینلزکی تعمیر یقینی بنائی۔

یہ خطے کے تاریخی ورثے میں بڑااضافہ شمارہواجسے ریاست نے محفوظ کیا تاہم حکام نے کئی کونظراندازکیا۔اس کی بڑی مثال خیبر پختونخواکی ان گنت پن چکیاں ہیں جو انگریزوں نے1801ء سے 1860ء کے درمیان بنائیں مورخ نورالامین یوسف زئی نے ایکسپریس ٹریبیون کوبتایاکہ ماضی میں ضلعی انتظامیہ سماجی فلاح کیلیے ان تاریخی پن چکیوں کی دیکھ بھال اوراستعمال کرتی تھی، تب اس کے گردونواح میں گھوڑوں کے اصطبل اوران دیہاتیوں کیلیے رہائشی کمرے ہوتے تھے جوان پن چکیوں میں کام کرتے تھے۔

حکومت انھیں تنخواہ دیتی تھی۔ مورخین ٹیری ایس رینلڈز اورآرجے فاربس کے مطابق پن چکی میں پانی کے پہیے کاتصورتیسری صدی قبل ازمسیح سے ہوا ہوگا حبیب گل نامی شخص ،جس کے آباؤاجداد برسوں تک گندم پیسنے والی چار چکیاں چلاتے رہے، اس نے بتایاکہ 1830 میں والی سوات نے انگریزوں سے درخواست کی کہ اس کی ریاست میں بھی یہ پن چکی بنائی جائے،جس پرصوابی کے نزدیک بونیرکی سرحدپردریاکنارے پن چکی کی تعمیرشروع کی گئی جو1868میں مکمل ہوئی۔ حبیب گل ،جوخود ضلع بونیر سے ہے ، اس نے بتایاکہ پن چکی کی مددسے پیسی جانے والی گندم کے آٹے کاذائقہ اعلی معیار کاہوتاتھا۔اب ان میں سے چند فعال حالت میں بچی ہیں ۔صوابی میں موجود دوپن چکیوں میں سے صرف ایک فعال ہے، اسی طرح بونیرمیں ایک ، سوات اورپشاورمیں 2,2جبکہ مانسہرہ میں چند فعال ہیں۔

The post انگریزوں کی بنی پن چکیاں تاریخ کے قبرستان میں دفن appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2XKvIXQ
via IFTTT

رتودیرو؛ ایچ آئی وی ایڈزنے ایک اورمعصوم کی جان لے لی ایکسپریس اردو

لاڑکانہ:  رتودیرو میں ایچ آئی وی ایڈز نے ایک اور معصوم کی زندگی لے لی، میرل جکھرو محلہ کے رہائشی منظور شاہ کی 7 ماہ کی بیٹی بی بی ہما شاہ زندگی کی جنگ ہار گئی۔

3 ماہ میں مرنے والوں کی تعداد 25 ہو گئی 23 بچے شامل ہیں، ایچ آئی وی ایڈز میں مبتلہ 7 سالہ بچی ہما کو پی پی ایچ آئی نے ایچ آئی وی پازیٹو جبکہ سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام نے رپورٹ منفی دی تھی، تیسری بار بچی کی ایچ آئی وی رپورٹ آغا خان سے کروانے پر مثبت آئی جسے سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام نے ماننے سے انکار کیا، متوفی بچی بی بی ہما شاہ کے والد سید منظور شاہ کا کہنا ہے کہ تین بار ایچ آئی وی رپورٹ کروائی گئی، ایچ آئی وی آؤٹ بریک کی تحقیقات کے لئے آنے والے ماہرین بھی ہمارے گھر تشریف لائے بچی کی رپورٹس دیکھیں اور علاج کے لئے لاڑکانہ میں قائم ٹریٹمنٹ سینٹر بھیجا تاہم ہمیں ادویات نہیں دی گئیں۔

ادھر ادھر رلایا گیا لیکن علاج نہیں دیا گیا اور میری بیٹی فوت ہو گئی، واضح رہے کہ 3 ماہ کے دوران مرنے والے ایچ آئی وی متاثرین کی تعداد 25 ہو گئی جس میں 23 بچے شامل ہیں، 2 ماہ سے زائد عرصہ میں تحصیل اسپتال رتودیرو اور گردونواح میں 30 ہزار سے زائد افراد کی بلڈ اسکریننگ کی گئی ہے جس میں اب تک 877 افراد ایچ آئی وی پازیٹو آ چکے ہیں جس میں سب سے زیادہ تعداد بچوں کی ہے، علاوہ ازیں ایچ آئی وی صورتحال پر ذمہ داران موقف دینے دے انکاری ہیں بارہا فون اور میسجز کے باوجود جواب نہیں دیا جاتا ان کا کہنا ہے کہ انہیں کسی بھی موقف سے منع کیا گیا ہے۔

The post رتودیرو؛ ایچ آئی وی ایڈزنے ایک اورمعصوم کی جان لے لی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/300M2S4
via IFTTT

Saturday, June 29, 2019

’’ٹینجِن ‘‘ ایکسپریس اردو

چینی زبان کچھ ایسی ہے کہ اس کا رسم الخط اور صوتی نظام دونوں ہی مشکل سے پّلے پڑتے ہیں اور اگر انھیں انگریزی کی معرفت سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ بالکل ہی سمجھ سے باہر ہوجاتے ہیں ۔

کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارے ٹینجن والے ہوٹل کا تھا کہ اس کا انگریزی حروف میں نام  Tian Cai Hotel تھا جب کہ چینی میزبان اسے تھیان شائی بولتے تھے، یہ زبان دائیں یا بائیں کے بجائے کسی تیسرے طریقے سے لکھی جاتی ہے اور اس کا بنیادی ڈھانچہ ایک علامتی تصویری زبان کا سا ہے جس میں اطلاعات کے مطابق بیسویں صدی میں بہت سی تبدیلیا ں کی گئی ہیں تاکہ یہ مزید آسان ، قابل فہم اور لائقِ ترجمہ ہوسکے البتہ جہاں تک اس میں تحریر و اشاعت کا تعلق ہے یہ ایک باقاعدہ مضبوط اور امیرزبان کے طور پر دنیا کی کسی بھی زبان کے مقابلے میں رکھی جاسکتی ہے ۔

بیجنگ کی طرح ٹینجن میں بھی رائٹرز کے لیے ایک وسیع عمارت کا اہتمام کیا گیا تھا۔ ہمارے میزبانوں میں وانگ نامی خاتون پیش پیش تھی کہ صرف وہ گزارے لائق انگریزی بول سکتی تھی، یہ اور بات ہے کہ اُس کی مسکراہٹ اور گرم جوشی  زیادہ لیکن زبان پر دسترس اُسی قدر کم تھی اگرچہ گزشتہ دو تین دہائیوں سے چین میں انگریزی پڑھنے اور سیکھنے کا رجحاں بوجوہ تیزی سے بڑھ رہا ہے لیکن اب بھی ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو چینی کے علاوہ انگریزی یا کسی اور زبان میں آسانی سے بات چیت کرسکتے ہوں۔ قابلِ تعریف بات یہ ہے کہ انھوں نے انگریزی کو نظریہ ضرورت کے تحت تو مطلوبہ اہمیت دی ہے مگر ہماری طرح اسے اسٹیٹس سمبل نہیں بنایا۔ یہ لوگ اپنی زبان بولنے میں زیادہ فخر محسوس کرتے ہیںجو بلاشبہ ایک بہت قابل تعریف بات ہے۔

میٹنگ ہال میں رائٹرز ہائوس سے براہ راست متعلق میزبانوں کے علاوہ سینئر اور جونیئر ہر محفل کے ادیب جمع تھے البتہ ایک قدرے نوجوان نظر آنے والے یونیورسٹی پروفیسر کے علاوہ کسی کو بھی پاکستانی ادب کے بارے میں سِرے سے کچھ پتہ نہیں تھا۔ جو اپنی جگہ پر ایک تکلیف دہ اور قابلِ غور بات ہے کہ سات دہائیوں پر محیط طویل اور گہری دوستی کے دعووں کے پس منظرمیں اس صورتِ حال کو بہت بہتر ہوناچاہیے تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بھارتی فلموں کے لیے  چین اب ایک باقاعدہ منڈی کی شکل اختیار کر چکا ہے جب کہ نوے کی دہائی کے بعد سے اب تک (فلم ’’میرا نام ہے محبت‘‘ اور ٹی وی سیریل ’’وارث‘‘ سے قطع نظر) چینی عوام کو کوئی پاکستانی فلم یا ڈرامہ دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔

سفیر صاحب اور ان کے ساتھیوں سے معلوم ہوا کہ اب وہاں ائیرفورس کے پس منظر میں بنائی جانے والی ایک حالیہ فلم ’’پرواز ہے جنون‘‘ کی ریلیز پر کام ہو رہا ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں یہ تعلق مسلسل اور پائیدار ہوتا چلاجائے گا۔ اس میٹنگ کی سب سے زیادہ یاد رہ جانے والی بات میزبانوں کی گرمجوشی تھی کہ زبان و ادب کے حوالے سے دونوں طرف تقریباً ایک جیسی ناواقفیت چل رہی تھی۔

ہماری ساتھی شاعرہ بشریٰ فرخ نے حسبِ معمول چین میں خواتین لکھنے والیوں کی تعداد ،معیار اور پسندیدہ موضوعات پر سوال کیا جس کے جواب میں میٹنگ میں موجود چھ سات خواتین نے جو جواب دیا، اُس کا عمومی مفہوم یہی تھا کہ ’’ہم کسی سے کم نہیں‘‘ ڈاکٹر ادل سومرو کی سیلفیوں کا سلسلہ نہ صرف جاری رہا بلکہ میزبانوں کی گرمجوشی کے باعث اس میں مزید شدّت پیدا ہوگئی کہ مقامی مترجم میزبان بار بار یاد آرہا تھا کہ ’’یہ تبسم ّ یہ تکّلم مِّری عادت ہی نہ ہو‘‘ اس پر مستزاد اُس کا عمر چور اور خوش باش چہرہ تھا جو کسی بھی اجنبی کو مختلف قسم کے مخمصوں میں ڈال سکتا تھا۔

ہوٹل میں پہنچ کر واٹس ایپ کا رابطہ تو بحال ہوگیا مگر باقی کے سارے سسٹم یہاں بھی تقریباً معطل رہے ۔ جہلم سے بُک کارنروالے برادرم امر شاہد نے میری زیرِ طبع کتاب ’’ذرا سی بات‘‘ کا ٹائٹل اور ابتدائی صفحات رائے کے لیے بار بار بھجوائے مگر ہر بار وہ راستے ہی میں رہ گئے کہ تحریری پیغام اور تصاویر دونوں کا ٹیکنالوجی سے کوئی سمجھوتہ ممکن نہ ہو سکا۔ گھر والوں سے خیروعافیت معلوم کرنے کے بعد عائشہ بلال سے رابطہ کیا کہ جس کا شوہر اور میرا بہت عزیزی ڈاکٹر احمد بلال کسی مشکل سی بیماری میں مبتلا ہوکر میو اسپتال کے نیوروسرجری وارڈ میں زیرِ علاج تھا اور اُسے پانچ بارخون کی مکمل  صفائی کے عمل سے گزرنا تھا۔

معلوم ہوا کہ ڈاکٹرز کی رائے کے مطابق علاج کی سمت بھی صحیح ہے اوراُس کے مثبت اثرات بھی حسبِ توقع ہیں۔ رب کریم اُسے جلد صحت یاب فرمائے۔ اسی دوران میں کوریا میں مقیم ایک ادب دوست پاکستانی نسیم سے بھی رابطہ بحال ہوا اور ایک بار پھر دل اللہ کی رحمت کے بے پاباں احساس سے بھر گیا کہ اُس نے ہمیں کیسی کیسی نعمتوں اور محبتوں سے سرفراز کیا ہے کہ لاکھوں لوگ ہمیں اپنی دعائوں میں یاد رکھتے ہیں۔

اگلا دن یعنی 20 جون شہر کی سیر اور نامور چینی ادیب کا ویو کے میوزیم کی سیر کے لیے مختص تھا۔ یہ پہلی جگہ تھی جہاں تمام معلومات انگریزی زبان میں بھی فراہم کی گئی تھیں جس سے یہ فائدہ ہوا کہ کاویو کے ساتھ ساتھ جدید چینی ادب کی تاریخ اور اس کے اہم معماروں کی تحریروں اور تصویروں کو بھی دیکھنے اور جاننے کا موقع مل گیا۔ کاویوکا یہ آبائی مکان اس کے خاندان کی خوشحالی کا بھی غماز تھا کہ اس کا رقبہ، طرز تعمیر اور ظاہری وضع قطع بمع لوکیشن اس بات پر شاہد تھے کہ موصوف کا تعلق اپنے عہد کے متمول افراد کی برادری سے تھا، یہ اور  بات ہے کہ اس کا ادب عوام اور نچلے طبقوں سے محبت اور ان کے حقوق کی جدوجہد کی حمائت سے بھرپور تھا۔ بیرونی دروازے پر نصب اس کی تصویر کے ساتھ یہ عبارت درج تھی (ترجمہ)

’’کاویو (1910-1996)کا اصل نام وان جیا بائو عرف شائوشی تھا۔ وہ اپنے آبائی گھر ٹینجن شہر کے ایک علاقے کیاں جیانگ میں پیدا ہوئے جو صوبہ ہوبائی کا حصہ تھا۔ اُس نے بہت سے تاریخ ساز ڈرامے لکھے یا اُن کا ترجمہ کیا جن میں سے ’’طوفانِ بادوباران‘‘ ، ’’طلوعِ آفتاب‘‘،’بیجنگ کے عوامی گیت‘‘،’’وانگ زیائوجن‘‘ اور ’’رومیو جیولیٹ ‘‘ زیادہ مشہور ہوئے۔ کاویو نے اپنا بچپن اور نوجوانی کے دن اسی عمارت میں گزارے جس کا ماحول، محبت، جذبات، خلوص اور مسرت سے معمور تھا اور جس کے دوران اُس نے عوام اور معاشرے سے گہرا تعلق استوار کیا اور ابتدائی عمر سے ہی اس رنگ میں رنگتا چلا گیا۔ اس کے بیشتر کردار کم و بیش اس زمانے اور ماحول کی دین ہیں۔ یہ عمارت دو منزلوں پر مشتمل ہے جو کہ اٹالین انداز میں تعمیر کی گئی ہیں۔ عمارت کے اندر مختلف کمروں میں اس کی یادگاروں ، تصویروں اور کتابوں کو بہت عمدہ طریقے سے محفوظ کرکے رکھا گیا ہے ۔ہم سب نے یہاں تصویریں بنوائیں لیکن پہلا نمبر یہاں بھی ڈاکٹر ادل سومرو کی سیلفیوں ہی کا رہا۔

میزبان سے گفتگو کے د وران معلوم ہوا کہ اس شہر میں نہ صرف مسلمانوں کی دو مسجدیں ہیں بلکہ ایک ایسا علاقہ بھی ہے جہاں اُن کی کثر ت ہے اور وہاں حلال کھانا فراہم کرنے والے ریستوران بھی موجودہیں ۔ اب ظاہر ہے اس کے بعد ہمارا  وہاں جانا ہر اعتبار سے بنتا تھا سو ہم میوزیم کے بعد پہلے مسجد اور پھر مسلم ریستوران میں گئے۔ مسجد اُس وقت بند تھی سو اُسے تو صرف باہر سے ہی دیکھ سکے مگر مسلم ریستوران کا تجربہ خاصا مایوس کن رہا کہ ایک تو وہاں صفائی کا انتظام خاصا ناقص تھا اور دوسرے یہ بھی آخر تک پتہ نہ چل سکا کہ جو کچھ ہم نے کھایا وہ ذبیحہ تھا بھی یا نہیں؟۔

کھانے کے بعدہمیں ایک بار پھر بہت سی سڑکوں پر بار بار گھمانے کے بعد شاپنگ کے لیے ایک اربن مارکیٹ نما جگہ پر لے جایا گیا جہاں یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ دھوپ زیادہ تیز ہے یا اشیاء کے نرخ۔میں نے ایک قہوہ دانی خریدی جو بلاشبہ بہت خوبصورت تھی مگر جس کی قیمت پاکستانی روپیوں میں تقریباً سات ہزار بتائی گئی جب کہ سودا سوا چار ہزار پر طے ہوا ۔ سودے بازی میں اس قدر گنجائش پر بہت حیران بھی ہوئے لیکن یہ حیرت اگلے روز ایک بڑے شاپنگ مال  میں خریداری پر بہت کم رہ گئی، اس کی تفصیل انشاء اللہ اگلے اور اس سلسلے کے آخری کالم میں ۔

The post ’’ٹینجِن ‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/321Ua6o
via IFTTT

درویش صحافت ایکسپریس اردو

پرویزحمید صاحب بھی قافلۂ اجل کے ہمسفر بن چکے ہیں، وہ ان محنت کش صحافیوں میں سے تھے، جو  زندگی بھر لکھتے رہتے ہیں اور ایک روز سنگل کالمی خبر میں سما کر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔

روزانہ وہ اپنے اسکوٹر پر گھر سے نکلتے اور رات گئے شہر کی ساری رنگا رنگ محفلیں بھگتا کر ہی واپس پہنچتے۔ سمن آباد، گلبرگ، کوئنز روڈ، مال روڈ پر اورکبھی اس حال میں کہ سڑک سے ہٹ کر اسکوٹرکو کک پرکک مار رہے ہیں، وہ اسٹارٹ نہیں ہو رہا۔ پرویز حمید صاحب سے پہلی ملاقات سمن آباد لاہور میں ہفت روزہ ’’ندا‘‘ کے دفتر میں ہوئی؛ گورا چٹا رنگ، گول مٹول صفا چٹ چہرہ، بڑی بڑی آنکھیں، درمیانہ قد، ڈیل ڈول پہلوانوں جیسا، بال سفید مگردرمیان سے سر ’’فارغ البال‘‘ سردیوں میں سر پرچترالی ٹوپی ان کا ٹریڈ مارک تھی۔

بھٹو صاحب اور فیضؔ صاحب کے بڑے مداح تھے۔ ان کی وساطت سے پیپلزپارٹی سے وابستہ جن شخصیات سے راہ ورسم پیدا ہوگئی، ان میں محمد حنیف رامے بھی تھے۔ پرویز حمید صاحب کی ان سے خاصی بے تکلفی تھی۔ پھر ایک روز وہ  مجھے اپنے ساتھ گھر لے گئے، جو دفتر کے عقبی گلی میں تھا۔ انھوں نے مجھے اپنے بچوں ارشد، عادل اور بیٹی سے ملوایا، جو سب کے سب ان دنوں اسکول میں پڑھتے تھے اور پھر بڑی شفقت سے مجھے کہا، ’’ آج سے یہ تینوں آپ کے شاگرد ہیں۔‘‘ گھر آنا جانا ہوا تو معلوم ہوا کہ ان کے بچے بھی انھی کی طرح ہنس مکھ، خوش اخلاق اورملنسار ہیں۔

روزنامہ ’’مساوات‘‘ کے دفتر میں بھی ان سے  ملاقات ہوتی رہی۔ پرویزحمید صاحب نے اپنی وضعداری برقرار رکھی۔کوئی دفتر کے مالی حالات کے بارے میں پوچھتا تو مسکراتے اور کہتے، ’’بندہ پرور، آپ کے سامنے ہی ہیں سارے حالات۔‘‘ ’’بندہ پرور‘‘ ان کا تکیہ کلام تھا، مساوات کا دفتر ان دنوں پنجاب اسمبلی کے عقب میں ایک پیلی سی بلڈنگ میں ہوتا تھا۔ ایک روز ان سے ملنے کے لیے پہنچا۔ وہ نیوز روم میں بیٹھے تھے کہ چار پانچ نوجوان سب ایڈیٹر سے اندر آئے اور آتے ہی ان کے سامنے پھٹ پڑے، کہ فلاں شعبہ کو تنخواہ مل چکی، ہمیں اکاونٹنٹ ٹرخا رہا ہے، پرویزحمید نے پہلی مرتبہ نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا اورکہا، ’’بندہ پرور تنخواہ تو ابھی مجھے بھی نہیں ملی، پرویز حمید صاحب نے تمام بڑے صحافتی اداروں میں کام کیا، لیکن دفتروں کی اندرونی سیاست سے خود کو ہمیشہ الگ رکھا، ادھر دفتر کا وقت ختم ہوا، ادھر ان کاا سکوٹر اسٹارٹ ہوا اور وہ سڑک کی بھیڑ میں گم ہو گئے۔

پرویزحمید صاحب کی فعال صحافت کا آخری دور مجید نظامی صاحب کی زیر ادارت ’’نوائے وقت‘‘ میں گزارا، جہاں میں بھی تھا۔ ان کی شگفتہ مزاجی کی وجہ سے ماحول خوشگوار رہتا تھا۔ صرف سیاست نہیں، شوبز میں بھی ان کے تعلقات کا دائرہ بہت پھیلا ہوا ہے۔ محمد علی زیباکی جوڑی سے ان کو دلی  لگاو تھا۔ ایک روز ان سے انٹرویو کے لیے ہم ویسپا پرکوئنز روڈ سے گلبرگ لاہور کی طرف روانہ ہوئے۔ سخت گرمی کے دن تھے۔ راستے میں پرویز حمید صاحب نے ایک دوبار اپنے سرکو ہلکا سا جھٹکا دیا، تو مجھے احساس ہوا کہ غنودگی کے ساتھ ان کی آنکھ مچولی شروع ہو چکی ہے۔ سڑک پر مجھے ایک جگہ کافی مقدار میں موبل آئل گرا ہوا نظر آیا۔

میرے سر میں خطرے کی گھنٹی بجی۔ میں نے چیخ کر کہا، پرویز صاحب، آگے دیکھیں؛ لیکن دیر ہو چکی تھی۔ یہ عین وہی لمحہ تھا، جب انھوں نے سر کو جھٹکا تھا۔میری چیخ پرانھوں نے اچانک جو بریک لگائی تو اسکوٹر اس وقت موبل آئل کے بالکل اوپر تھا۔ بریک لگتے ہی اسکوٹر ہمارے نیچے سے نکل کر پھسلتا ہوا فٹ پاتھ کی طرف جا رہا تھا، اور اس کے پیچھے پیچھے میں اور پرویز حمید صاحب بھی رواں دواں تھے۔ ’’بندہ پرور بریک تو لگائی تھی‘‘ پرویز حمید صاحب نے مسکرانے کی ناکام کوشش کی، چونکہ خراشیں ان کو بھی کافی آئی تھیں۔

میرا خیال تھا، اب انٹرویو کے لیے جانا مشکل ہے؛ مگر انھوں نے کپڑے جھاڑے، اسکوٹر کو اٹھایا، اور کک لگاتے ہوئے کہا، ’’چلتے ہیں، علی بھائی کا گھر اب زیادہ دور نہیں۔‘‘ اور کچھ ہی دیر میں ہم علی بھائی کے ساتھ ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ انھیں معلوم ہوا کہ ابھی ہم ایک حادثہ سے بال بال بچے ہیں، تووہ ہم سے بھی زیادہ پریشان ہو گئے، کہنے لگے، حمید صاحب، یہ آپ نے کیا کیا، آج رہنے دیتے، اس حالت میں خواہ مخواہ تکلیف کی۔‘‘

پرویز حمید صاحب کے چہرے پر وہی ان کی ملائمت آمیز مسکراہٹ ابھری، لیکن وہ کچھ بولے نہیں اور علی بھائی کی طرف دیکھتے رہے۔ علی بھائی کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں، بولے، ’’زمانہ بدل گیا، آپ بالکل نہیں بدلے حمید صاحب۔‘‘ نوائے وقت میں پرویز حمید صاحب کے ساتھ جو وقت گزرا، اس کی کھٹی میٹھی یادوں ایسی ہیں کہ ایک دو یا چند کالموں میں نہیں سما سکتیں، یہ تو کبھی اپنی یادداشتوں میں ہی لکھوں گا۔

بہرحال یہ وقت بھی دبے پاوں گزر گیا۔ ’’نوائے وقت‘‘ چھوڑا تو پرویز حمید صاحب کا ساتھ بھی چھوٹ گیا۔ اس وقت لیکن یہ معلوم نہ تھا کہ اب یہ ساتھ ہمیشہ کے لیے چھوٹ چکا۔اس کے بعد ان کو آخر ی بار ہی دیکھا۔ پریس کلب میں پولنگ ہو رہی تھی۔ ووٹ ڈال کر نکلا تو دیکھا کہ باہر ایک کرسی پر اکیلے بیٹھے ہیں۔ معلوم ہوا کہ کافی بیمار رہے ہیں۔ چہرے پر نقاہت کے آثار اب بھی موجود تھے۔ ادھر ادھر گھوم پھر کر دوبارہ ان کو دیکھنے کو جی چاہا، واپس آیا تو ان کی کرسی خالی تھی۔ پھر فیس بک کے ذریعہ پتہ چلا کہ وہ اسپتال میں داخل ہیںاورکافی بیمار ہیں۔ میں نے ارشد کو فون کیا۔ کہنے لگا، ابو کی حالت سخت خراب ہے، لیکن ہوش میں آنے پر دوست احباب کو پہچان لیتے ہیں۔ آپ آ جائیں۔

سوچا کہ ان کی طبیعت  کچھ سنبھل جائے تو حاضر ہوں گا؛ ادھر ان کا وقت پورا ہو چکا تھا۔ چند روز بعدارشدکاایس ایم ایس ملا کہ ’’ انکل ابو رخصت ہو گئے ہیں۔‘‘ دل کو ایک دھکا سا لگا۔ ارشد کہنے لگا،’’میں نے ابوکو آپ کے آنے کے بارے میں بتایا تھا۔ چند روز میں آپ نہیں پہنچ پائے توانھوں نے پوچھا بھی کہ اصغر آیا نہیں۔ میں نے کہا، آ جا ئیں گے‘‘ ؛مگر اس جہان فانی میں ان سے ملنااب قسمت میں نہ تھا۔ لاہور کے قبرستان میانی صاحب کے ایک گوشے میں ان کی لحد پر مٹی ڈالتے ہوئے میں سوچ رہا تھا،

منیرؔ اس خوب صورت زندگی کو

ہمیشہ ایک سا ہونا نہیں ہے

The post درویش صحافت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2YlFtcg
via IFTTT

میثاق معیشت ایکسپریس اردو

کبھی کبھی ہمارے اپنے بنائے بیانیے وبال جان بن جاتے ہیں،کیونکہ یہ بیانیے ہماری قومی روح کے عکاس بن جاتے ہیں۔ ہم اس بیانیہ کو بصیرت کے تناظر میں پرکھتے ہیں ،اسے حقیقت سمجھتے ہیں۔

ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ معیشت کس طرح پروان چڑھتی ہے یا سیاست کس طریقے سے مثبت ہوسکتی ہے یا ہمارا سیاسی بیانیہ یا بنائی ہوئی نظریاتی حیثیت کس طرح معیشت کو بنا بھی سکتی ہے اور بگاڑ بھی سکتی ہے۔ معیشت ہی دراصل ہمارے گرد تمام حقائق میں سب سے اہم ومعنی خیز حقیقت ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لے کرکئی طرح کے سروسزسیکٹر میں نئے نئے اضافے اور جدید تبدیلیاں ہورہی ہیں،نئے نئے ہنر ایجاد ہوئے ہیں۔ مگر ہمارا اب بھی اہم ذریعہ پسماندہ طریقہ کی پیداوار والی زراعت ہے جو سب سے زیادہ روزگار دیتی ہے۔

ہماری صنعت بیٹھ گئی ہے رواں سال میں تو اس کی کارکردگی منفی رہی اور اس کے بعد زراعت بھی دوسرے نمبر پر بد حال رہی۔ ادھر ہمارے اخراجات زیادہ اور آمدنی کم ہے۔ ہم نے یہ خلاء قرضے لے کر بھرا ۔  ہم انسانی وسیلوں کی ترقی نہیں کرسکے، ہمیں ترقی کا اصل مغز سمجھ میں نہیں آیا۔ ہم نے موٹر وے اور ایئرپورٹ بنانے کو ترقی سمجھا۔ اسپتال اور اسکول گئے بھاڑ میں، آج سندھ سے زیادہ تو سائوتھ پنجاب میں ایچ آئی وی پلس کے ستائے ہوئے نکل رہے ہیں یہ وہی بیانیہ ہے۔ پیروں، وڈیروں والا بیانیہ ،کاروکاری، ستی کا بیانیہ۔ ہمیں جہادی چاہیے تھے، ہم نے بیانیہ بھی ایسا بنایا۔

ہمارا تیسرا اور سب سے اہم ستون ہے کہ ہم درآمدات کتنی اور برآمدات کتنی بڑھاتے ہیں اور یہ دونوں کام روپے میں نہیں ڈالر میں کیے جاتے ہیں۔ ہم برآمدکم اور درآمد زیادہ کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں قرضہ ڈالر میں لینا پڑتا ہے اور اب یہ قصہ کچھ اس طرح ہوگیا ہے کہ ہمیں قرضہ اتارنے کے لیے قرضہ لینا پڑ رہا ہے۔ روپے کا قرضہ روپے لے کر اور ڈالرکا قرضہ ڈالر لے کر اتارتے ہیں۔ روپے کے نوٹ ہم چھاپ سکتے ہیں اور ہم نے روپے کا قرضہ اس طرح  روپے میں اتارا۔ ڈالر ہم نہیں چھاپ سکتے۔ ہم روپے کا قرضہ ٹیکس لے کر بھی اتارتے ہیں مگر ہمارا ٹیکس نظام امیروں سے ٹیکس لینے میں بالکل ناکام گیا ہے، جب کہ غریبوں پر ٹیکس یا دوسرے الفاظ میں ان ڈائریکٹ ٹیکس لگا کرکام چلائے جاتے ہیں۔غریبوں کے پاس جوکچھ بچتا ہے وہ ہم ان ڈائریکٹ ٹیکسز لگاکر ان سے چھین لیتے ہیں۔

جس طرح حادثے اچانک جنم نہیں لیتے،اسی طرح معاشی بحران بھی ہمارے سامنے اچانک کھڑے نہیں ہوجاتے ہیں۔ یونان جب یورپی یونین کا ممبر بنا تو اسے بہت سے قرض یورو میں ملنے لگے اور بہت سستے دام پر یونان قرضے لیتا گیا۔خصوصا فرانس اور جرمنی کے بینک ان کو قرض دیتے گئے۔ یونان کے شرفاء یہ سستے دام پر ملنے والے قرض کھپاتے گئے اور پھر یونان کے بینک دیوالیہ ہونے لگے۔ یونان ڈیفالٹ کرگیا اورجس کی وجہ سے  فرانس اور جرمنی کے بینکوں کے لیے بھی مسائل پیدا ہوئے۔ ان کے قرض Reschedule کیے گئے۔ یونان کے بینکوں نے بھاری رقم نکالنے پر پابندی عائدکردی اور اس طرح ’’اعتماد‘‘ بھسم ہوکر گر پڑا۔ یہ معیشت بیچاری ’’اعتماد‘‘ پرچلتی ہے۔ میں مزدوری کر رہا ہوں اس یقین پرکہ مجھے اجرت ملے گی۔ میں نے مکان کرایے پر دیا ہے اور مجھے اس کا کرایہ ملے گا اورمعیشت کے محور پے رہتا ہے Contract۔

ہم روزمرہ کی زندگی میں پچاسوں Contract  تحریری کرتے رہتے ہیں ۔ ہمارا ہر خرید اور فروخت خود ایکContract  ہی ہوتا ہے اور پھر اسی طرح یہ سارے کانٹریکٹ ٹوٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔ میں نے ایک پچاس لاکھ کا بیانیہ دے کر پانچ کروڑکا گھرخریدا کہ باقی رقم دو مہینے کے بعد ادا کروں گا۔روپے کی قدر اتنی گرگئی کہ ان دو مہینوں میں حقیقی قیمت وہ نہ رہی۔ معاہدہ ٹوٹ گیا اور میرے پچاس لاکھ ڈوب گئے۔ لوگ بے روزگار ہوتے ہیں۔افراط زرمیں پے در پے اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس پوری جنگ میں امیروں کے کاروبار ٹوٹتے  ہیں جب کہ غریبوں کے گھر میں فاقے بسیرا کرنے لگتے ہیں۔

اس سارے تناظر میں اب ایک نئی طرح کی بازگشت سننے میں آئی کہ میثاق معیشت ہونا چاہیے۔اس کے پیچھے بھی ایک تاریخ ہے۔ جب مدینہ میں میثاق جمہوریت ہوا تھا، دوگروہوں کے درمیان کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہوں گے اور جمہوریت پرکوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، جب کہ ہمارے پاس آج یہ تیسرا دور ہے کہ جمہوریت اب بھی پٹڑی پر ہے۔اب کی بار میثاق معیشت کے معنی یہ ہیں کہ سب کے سب سرجوڑکے بیٹھیں کہ آخر اس ملک کو اس معاشی بحران سے نکالاجائے اور اس کے لیے ایک متفقہ حکمت عملی بنائی جائے۔

ہم جس موڑ پر آج پہنچے ہیں، یہ حالات عمران خان یا اس کی حکومت نے پیدا نہیںکیے،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خان صاحب کی سمجھ سے بہت بڑا بحران ہماری دہلیز پر آن کھڑا ہے۔ یہ وہ بحران ہے جو اکیلے حکومت سے حل نہیں ہوگا۔اس بحران کو مل کر حل کرنے کے لیے سب کو آن بورڈ ہونا ہوگا۔

یہ تمام بحران حل طلب ہیں، ہماری برآمدات اور درآمدات میں جو عدم توازن ہے وہ کم ہورہا ہے۔ہمارے اخراجات اگرکم نہیں ہورہے لیکن ہماری محصولات بڑھیں گی۔اب ٹیکس نظام میں انقلابی تبدیلی آرہی ہے۔ ہم اپنے نان ڈاکومینٹیڈ معیشت کو ڈاکیومینٹیڈ کرتے جائیں گے۔ ہمارے اندرونی قرضے بھی اتنا بڑا مسئلہ نہیں مگر ہم نے جو قرضے ڈالر میں اتارنے ہیں وہ کیسے اتاریں، اتنا ڈالرکہاں سے لائیں؟

مجھے یاد ہے میاں صاحب نے اپنے پہلے دور میں ’’قرض اتارو ملک سنوارو‘‘ کا نعرہ لگایا مگر وہ سب نعرے ہی تھے۔ دوسرے دور میں ڈالر اکائونٹ مجمند کرنا پڑگئے  مگر اس اقدام سے غریب طبقے پر اثرات کم ہوئے تھے۔ پھر تیسرے دور میں ڈالر میں جتنے قرضے لیے گئے،اس کی بھی کوئی مثال نہیں۔کہاں گیا game changer  والا vision  جو احسن اقبال کی کپتانی میں ہورہا تھا۔

جی ہاں قرضے لے کر ترقی ہوسکتی ہے مگر اپنے بینکوں اور روپے میں قرضے لے کر۔ ڈالر میں بھی قرضے لیے جاسکتے ہیں اگر آپ کے پاس ایک دو سال کے امپورٹ بل ادا کرنے جتنے بیرونی ذخائر ہوں۔کوئی بھی واضح تشریح نہیں میثاق معیشت کی اب تک۔ جب فوج کے پیسے اس مرتبہ نہیں بڑھے، یہ ان کی طرف سے میثاق جمہوریت ہے،اس طرح سے اپوزیشن کا کوئی بھی کردار نہیں کہ وہ اس میں کیا کرسکتے ہیں کیونکہ ان کو بجٹ میں سے کچھ نہیں ملتا۔ وہ میثاق معیشت میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ سب لوگ اپنے اثاثے ظاہرکریں اور ٹیکس دیں، مگر اس سے ڈالر تو نہیں آئے گا۔ ڈالر آئے گا ایکسپورٹ سے اور ہماری قوم بائیس کروڑ ہے۔ اتنی بد ترین ایکسپورٹ دنیا میں کسی کی بھی نہیں ہوگی،اتنی آبادی کے تناسب سے۔ ہماری ایکسپورٹ کا براہ راست تعلق ہے انسانی وسیلوں کی ترقی سے، ہنر سے اور ہم نے ان لوگوں کے ہنرکے لیے اس قوم کو مدرسوں کے چکر میں لگا دیا۔ یہ ہمارا بیانیہ تھا ۔ ہمیں کسی اور نے نہیں بلکہ اپنے بیانیہ نے مارا ہے۔

ایک صحت مند پاکستان کے لیے میثاق معیشت ضروری ہے اور اس میثاق معیشت کی بنیاد ایک یہ بھی ہونی چاہیے کہ اس بیانیے کو اب بندکیا جائے جس سے معیشت متاثر ہو۔ ہماری صحت مند انسانی اور مثبت سوچ رکھنے والا skilled آدمی ہمارے ڈالرکمانے کی ضمانت ہے اور یہی ہے پاکستان اور اس کی میثاق معیشت ۔ ہم اپنے ہنرسے، اپنے  skills سے، بہترین انسانی وسیلوں سے صحت مند ومثبت بیانیہ والے پاکستانی شہری کے بل بوتے پر ڈالر کمائیں گے۔ عزت والا ڈالر۔ نہ کہ وہ ڈالر جو افغان جہاد کے لیے ملا تھا،اسی ڈالر نے ہمیں اس منزل پر پہنچایا۔اْسی ڈالر پر پنپ کے اس اشرافیہ نے یہ پاکستان بنایا ہے۔ ہم  اپنی تاریخ پر پہرے نہیں بٹھا سکتے۔ ہمیں حقیقی پاکستان اور حقیقت سے ملنا ہوگا، میثاق جمہوریت کی خاطر، میثاق معیشت کی خاطر۔

The post میثاق معیشت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2LrweU7
via IFTTT

غافل قاتل… ایکسپریس اردو

’’ ٹھیک ہیں انکل آپ؟ ‘‘ میں نے ان کے بیڈ کے پاس سے گزرتے ہوئے پوچھا اور انھوں نے ایک دردیلی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، وہ مسکراہٹ جو جانے کتنے درد چیر کر لبوں تک آئی تھی۔ وہاں لیٹا ہوا کوئی بھی شخص ٹھیک کیسے ہو سکتا تھا، انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں جو پہنچتا ہے، وہ شخص ہوتا ہے جو حیات اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہوتا ہے ۔ ساتھ والے بیڈ پر محو استراحت وہ خوبصورت سی بزرگ خاتون مجھے پہلے سے بہت بہتر لگیں، میں انھیں بھی چار دن سے دیکھ رہی تھی۔

اپنی والدہ کے اسپتال میں ہونے کے باعث ہم سارے بہن بھائی اسپتالوں کے کاریڈورز، انتظار گاہوں، انتہائی نگہداشت کے یونٹ اور وارڈوں میں ہی مل رہے تھے۔ وہ جو یہیں مقیم ہیں اور وہ بھی جو ان کی یوں اچانک علالت کا سن کر تکلیف دہ سفر کر کے غیر ممالک سے پہنچے تھے۔ وہ جنھیں ان سب کو اپنے ارد گرد دیکھ کر خوش ہونا تھا، وہ ہر غم اور خوشی سے بے نیاز تھیں اور ہم جو ہوش و حواس میں تھے، ان کے لیے دعا گو اور دل میں خوفزدہ بھی۔

ان برآمدوں اور انتظار گاہوں میں سب ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہوئے خاموش بیٹھ کر زیر لب کچھ نہ کچھ پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ہم ایک ایک کر کے ’’ انتہائی نگہداشت کے یونٹ‘‘ کے اندر جاتے اور واپس آ کر باقیوںکو بتاتے کہ اب والدہ کی طبیعت کیسی ہے اور راہ میں آنیوالے باقی مریضوں کی بابت بھی کچھ نہ کچھ نوید یا وعید ہمارے پاس ہوتی تھی۔ ہم میں سے جو بھی اندر جاتا، وہ واپسی پر یہ بھی آ کر ضرور بتاتا کہ اندر موجود ڈاکٹروں اور نرسوں نے پھر ناراضی کا اظہار کیا ہے کہ ہم بار بار اور بہت زیادہ اندر جاتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ نرس سے بات کرونگی کہ جو لوگ اتنی دور دور سے دکھ اور تکلیف کی کیفیت میں آئے ہیں، کم از کم ان کو اندر جانے سے نہ روکیں۔

اگلے روز میں گئی تو اپنی باری پر اندر جا کرحسب معمول جائزہ لیا، چند مریضوں کا اضافہ ہو چکا تھا، وہ آنٹی نظر نہیں آئیں۔ والدہ کے بارے میں پوچھتے ہوئے میں نے نرس سے ان آنٹی کی بابت دریافت کیا، دل میں یقین تھا کہ انھیں حالت بہتر ہونے پر وارڈ میں منتقل کیا جا چکا ہو گا ۔ اس کے انکشاف نے میرے قدموں میںسے رہی سہی طاقت بھی کھینچ لی… ’’مگر کیوں، کیسے؟؟ وہ تو کل بہت بہتر لگ رہی تھیں؟ ‘‘’’ آپ سب لوگوں کی وجہ سے… ‘‘ اس نے کہا، ’’یہاں زندگی اور موت کے مابین جنگ چل رہی ہے میڈم، ہر لمحہ صورتحال بدلتی رہتی ہے۔ چند لمحوں میں بگڑی ہوئی صورتحال سنور جاتی ہے تو چند لمحوں میں بہتر ہوتا ہوا مریض موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے! ‘‘ اس نے بتایا۔

ایک دن پہلے ہی تو ہم نے مایوسی کی اس انتہا کو چھوا تھا جس میں ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ کوئی بھی نرس باہر آکر ہمیں کوئی بری خبر دے سکتی ہے۔ چند منٹ پہلے والدہ باتیں کر رہی تھیں اور اس کے دوران ہی انھیں ایک اور سٹروک ہوا جسکے بعد ان کے جسم کا ردعمل زیرو ہو گیا، ڈاکٹروں اور نرسوں کی دوڑیں لگ گئیں اور ہم مایوسی کی اس اتھاہ تاریکی میں روشنی کی کرن کو ڈھونڈ رہے تھے۔ ان کی حالت سنبھلی اور ہمارا اندر جانا مکمل طور پر بین کر دیا گیا تھا۔

’’ آپ سب لوگ… آپ کو علم ہی نہیں ہوتا کہ کس طرح آپ غفلت میں ایک بہتر ہوتے ہوئے مریض کو موت کے منہ میں پہنچا دیتے ہیں !! ‘‘ لو جی ، آج تک اس ملک میںقائد اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف کی گئی قاتلانہ سازشوں، لیاقت علی خان کے قتل اور ان کے قاتل کے قتل، بہاولپور میں ضیاالحق سمیت فوج کی اعلی قیادت کا اجتماعی قتل، بینظیر کا قتل… سب کچھ بے تحقیق اور بے ثمر گیا اور اس نے اتنی آسانی سے مجھے قاتل کہہ دیا، بلکہ غافل قاتل کہ جو قتل کرے اور اسے علم بھی نہ ہو۔گھر واپسی کے سفر میں، میں مسلسل سوچ رہی تھی کہ اس نے اتنا بڑا الزام لگا دیا اور میرے پاس اسے کہنے کو کچھ نہ تھا۔ خود ہی سوچنے لگی کہ صبح سے میرا معمول کیا تھا۔

میں نے صبح اپنے کمرے کی صفائی کے ساتھ ساتھ کھانا بنایا تھا، مشین لگا کر میلے کپڑے بھی دھوئے تھے۔ اس کے بعد شاور لینے سے پہلے غسل خانہ بھی صاف کیا اور ظاہر ہے کہ شاور لینے کے بعد تو میں اتنی مصفا ہو چکی تھی کہ اسپتال جا سکتی تھی۔ تیار ہو کر جوتے پہننے لگی تو وہ ذرا گندے دکھے، گیلا سوکھاکپڑا لے کر انھیں صاف کیا، ہاتھ کھنگال کر نکلی ہی تھی کہ منے صاحب سامنے کھڑے نظر آئے… اپنا ڈائپر تبدیل کروانے کے لیے وہی خوشامدانہ مسکراہٹ منہ پر سجائے، اسے فارغ کیا۔ پچھلے روز جو کپڑے پہنے تھے وہ صاف ہی تھے، انھیں استری کیا ، لباس تبدیل کیا، بال بنائے اور میں اسپتال جانے کے لیے تیار۔ اپنا کمرہ لاک کیا، لاؤنج میں بچوں نے کھلونوں کا میلہ لگا رکھا تھا، غصے میں ، جلدی جلدی انھیں سمیٹا اور گاڑی کی طرف لپکی، بارش کے چھینٹوں سے ونڈ اسکرین گدلی سی لگ رہی تھی، ملازم کو بتاتی تو مزید وقت لگ جاتا اس لیے اسے خود ہی صاف کیا۔

گاڑی سے نکل کر اسپتال کے اندر جانے میں تو پسینے میں بھیگ گئی ، بارش کے چند چھنٹے پڑنے کے بعد جب سورج چمکتا ہے تو یوں بھی زمین کی بھڑاس اپنی گرمی میں شامل کر لیتا ہے۔ ہاتھوں کی ہتھیلیوں تک پسینہ آ رہا تھا۔اسپتال پہنچنے کے بعد اندر اے سی کی خنکی سے پسینہ تو جلد ہی سوکھ گیا۔ میں نے اندر جانے سے پہلے باہر کرسی پر بیٹھ کر اپنے پیروں پر نیلے مومی کور چڑھائے، وہاں موجود بوتل میں Sanitiser کی زیادہ سی مقدار اپنے ہاتھوں پر رگڑی۔

ظاہر ہے کہ یہاں تک آنے میں کتنے ہی دروازوں کے ہینڈل چھوئے تھے، اس سے پہلے گاڑی کا سٹیئرنگ، اپنے ماتھے سے پسینے صاف کیے تھے۔ اس سارے کے دوران میرے ہاتھ میں میرا فون مسلسل رہا تھا کہ جسکے بغیر اب زندگی ادھوری لگتی ہے، باورچی خانے سے لے کر غسل خانے تک… اسپتال کے ان برآمدوں میں بھی اور اندر جاتے ہوئے بھی وہ ساتھ ہی رہتا ہے۔ یہ  sanitiser کیا ان سارے جراثیم کو مار دیتا ہے، مار کر ہمارے ہاتھوں سے اتار دیتا ہے؟ میںنے اس لمحے خود سے سوال کیا۔

اندر مریضوں کی بہتری کے لیے وہ درجہ حرارت رکھا جاتا ہے کہ جس سے عام بندہ کانپ جاتا ہے، اتنی ٹھنڈ کہ جی چاہتا ہے اس گرمی کے موسم میں بھی کوٹ پہنا ہوتا تو بہتر ہوتا۔ اندر جاتے ہی چھینکوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، کبھی کھانسی بھی آجاتی ہے ۔ اپنے مریض کے علاوہ باقی مریضوں کے قریب سے گزرتے ہوئے بھی ہم اپنی کھانسی اور چھینکوں کے ساتھ کیا نقصان کرتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے کرلیں ۔ کھانسی کے ساتھ ہم لگ بھگ تین ہزار چھوٹے چھوٹے قطرے، پچاس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوا میں چھوڑتے ہیں اور چھینک کے ساتھ لگ بھگ ایک لاکھ قطرے ، سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوامیں پھیلاتے ہیں ۔

کھانسی یا چھینک کا بطور خود کوئی نقصان ہو یا نہ ہو مگر ہم سب اپنے جسموں میں کسی نہ کسی بیماری کے جراثیم لیے پھر رہے ہوتے ہیں، کسی بیماری سے چند دن پہلے صحت یاب ہوئے ہوتے ہیں یا عنقریب مبتلا ہونیوالے ہوتے ہیں ۔ ہمارے گھر میں کوئی ایسا شخص جو کسی بیماری میں مبتلا ہو گا اور ہمارا اس کے ساتھ قریبی واسطہ ہو گا اور ہم اس کی بیماری کے جراثیم بھی ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ ہوا سے ہمارے کپڑوں اور فرشوں سے جوتوں کے ساتھ کئی طرح کے جراثیم چپک جاتے ہیں جن میں سے زیادہ تر اس وقت وہ ہونگے جو ہم اسپتال میں کسی مریض کے پاس سے گزرتے ہوئے اپنے ساتھ لے لیتے ہیں اور انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں ان مریضوں تک پہنچاتے ہیں جو اس وقت کمزور ترین قوت مدافعت کے ساتھ اپنی بیماری کے خلاف بقا کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔

ہمیں اس اسپتال میں یہ بات سمجھ میں آئی کہ ہمارا اور ہمارے اہل خاندان کا اپنی والدہ کو دیکھنے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم انھیں مضبوط قوت مدافعت فراہم کریں اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم بیرونی دنیا سے جراثیم اپنے ساتھ اٹھا کر، اس مضبوط حفاظتی حصار والے علاقے میں نہ پہنچائیں ۔ ان کی صحت اور زندگی کے لیے ہمارا ان سے دور رہنا، ان کے قریب رہنے سے بہتر ہے ۔ جہاں ہمارے مریض موجود ہوتے ہیں، وہ اس وقت بہترین نگہداشت پا رہے ہوتے ہیں اور صحت کے لحاظ سے بھی ان کا ہم سے زیادہ خیال رکھا جا رہا ہوتا ہے، ہم ان کے لیے کیا کر سکتے ہیں اگر ہم انھیں ، باقی مریضوں اور اسپتال کے عملے کو بار بار تنگ کریں اور انھیں چڑائیں ۔ آخرکار ان کا کچھ نہیں جاتا، ہمارا اپنا مریض زیادہ خطرے میں ہوتا ہے، ہمارے تنگ کرنے سے عملے کے لوگ چڑیں گے تو نقصان کس کا ہو گا؟؟

یہ سب باتیں ہم سنتے، کتابوں میں پڑھتے اور سیکھتے ہیں مگر جب عمل کا وقت آتا ہے تو اس وقت ہم سیکھے ہوئے سارے اسباق بھول جاتے ہیں ۔ آپ سے التماس ہے کہ میری والدہ ماجدہ کی کلی صحت کے لیے ایک بار آیت کریمہ پڑھ کر دعا فرما دیں ۔ شکریہ!!

The post غافل قاتل… appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2xlSUgq
via IFTTT

قوم اور قومیت کی اہمیت ایکسپریس اردو

مشہور مفکر لاسکی نے قومیت کی تعریف اس طرح کی ہے، قومیت ایک مخصوص نوعیت کا اتحاد ہے اور جو اس گروہ میں پیدا ہوتا ہے جو اس احساس میں شریک ہو اور یہ احساس اتحاد کی بدولت انھیں دوسرے گروہوں سے علیحدہ کرتا ہے اور اس کی وجہ بقول گل کرائسٹ یہ ہے کہ قومیت ایک روحانی احساس اور اصول ہے جو لوگوں کے ایسے گروہوں میں جنم لیتا ہے جن کا تعلق ایک ہی نسل سے ہو، ایک ہی جگہ ان کی رہائش ہو، ان کی زبان ایک ہو اور ایک ہی مذہب کے ماننے والے ہوں ان کی روایات، رسم و رواج میں یکسانیت پائی جاتی ہو، ان کے مفادات اور سیاسی روابط کا مقصد ایک ہو۔

قومیت ابتدائی شکل اور قوم اس کی ترقی یافتہ شکل کا نام ہے۔ قوم پرستی کی تعریف مشہور مورخ شیول اس طرح کی ہے، قوم پرستی ایسا جذبہ ہے جس کی بنیاد زبان، مذہب اور رسم و رواج کے اشتراک پر استوار ہوتی ہے۔ بے شک قوم پرستی کے جذبات ایک دوسرے میں محبت و اتفاق کا سبب بنتے ہیں، اس جذبے کے تحت بہت سے ملک غلامی سے آزاد ہوئے ہیں۔ خصوصاً پاکستان کی ہی مثال ہمارے سامنے ہے ایک مذہب کے پیروکاروں نے اپنا ملک بنانے کی تگ و دو قائد اعظم کی رہنمائی میں کی، تاکہ آزادی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرسکیں۔

اسی طرح فیوڈل زمانے کے عروج میں یورپ کے تین ملکوں میں قومی جذبات ابھر کر سامنے آئے ان ممالک پر غیر ملکیوں نے جو مسلح تھے حملے کیے تھے جس کی وجہ سے ہر ملک کو نقصان اٹھانا پڑا ۔ ان حالات میں حب الوطنی کے احساس کے تحت ہر شخص کا ایک ہی نظریہ تھا اور وہ تھا دشمنوں سے اپنے ملک کو بچانا اور اس کی حفاظت کے لیے نت نئی تدبیریں کی جانے لگیں۔ اسپین پر آٹھویں صدی میں عربوں نے قبضہ کرلیا۔ ان کے خلاف طویل جدو جہد کی گئی اسی انتشار کی بدولت ہسپانوی عوام میں قوم پرستی کا جذبہ پیدا ہوا، مخالفین کے درمیان جنگ جاری رہی اس طرح عربوں کے آخری قلعہ غرناطہ پر 1492 میں عیسائیوں کا قبضہ ہوگیا۔ ان حالات میں مسلمانوں کا تقریباً آٹھ سو سالہ دور اختتام کو پہنچا اور اسپین ہاتھ سے نکل گیا۔

قوم پرستی کی ایک اور مثال فرانس ہے اور اس قوم کی علامت جون آف آرک تھی جس نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی، انگریزوں نے اس سے اس طرح انتقام لیا کہ اسے زندہ جلا دیا گیا جون آف آرک کی قربانی ضایع نہیں گئی بلکہ فرانسیسی عوام کے دلوں میں قوم پرستی اور اپنے تحفظ کے احساس کو بیدارکیا اور وہ سب ایک طرح سوچنے لگے اور دشمن سے مقابلے کے لیے ایک بڑی طاقت بن کر سامنے آئے اور پھر انھوں نے غیر ملکی دہشت گردوں کو مار بھگایا، فرانسیسی عوام کے دلوں میں جون آف ارک آج بھی حکومت کرتی ہے اور وہ لوگ اسے اپنا ہیرو مانتے ہیں کہ اس کی آگہی نے آزادی کے بہت سے چراغ روشن کیے۔

فرانسیسیوں کی کوشش کو دیکھتے ہوئے انگریزوں نے قومی گروہی شعورکو اجاگر کیا اور جب اسپین کے بادشاہ نے انگلستان کو فتح کرنے کے لیے ایک زبردست بحری بیڑا آرمیڈا روانہ کیا تو انگلستان کے لوگوں نے مل کر اسپین کے حملے کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کیا اس وقت انھیں اپنا مذہب اور مذہبی عقائد کا بالکل احساس نہ تھا، بس وہ ایک جگہ اور ایک ملک کے رہنے والے تھے، اور اپنے ملک کو بچانا مقصود تھا یورپ میں رومن عہد وحشی حملہ آوروں کی یاد کو تازہ کرتا ہے، یورپ کو ان دہشت گردوں نے اس قدر تباہ و برباد کیا کہ وہاں کی آبادی دیہی علاقوں کی آبادی کا نقشہ کھینچنے لگی ۔

دسویں اور گیارہویں صدی عیسوی میں شہری آبادیاں وجود میں آگئیں، شہری خوشحال ہوگئے، مگر یورپ بد امنی اور انارکی میں مبتلا تھا، مضبوط حکومت نہ ہونے کی وجہ سے شہروں کو اپنی حفاظت کا انتظام خود کرنا پڑتا تھا لہٰذا اپنی مدد آپ کے تحت شہریوں نے فوجی دستوں کا بندوبست کیا اس کے ساتھ شہروں کے اطراف فصیلیں تعمیرکیں ان حفاظتی اقدامات کے بعد شمالی جرمنی کے 80بڑے شہروں نے اپنے کاروبار کی حفاظت کے لیے ایک جماعت بھی بنائی جو ہنسیٹک لیگ کے نام سے پہچانی جانے لگی، مگر اس کی سلامتی زیادہ عرصے تک برقرار نہ رہ سکی، شہروں کی ہی بدولت یورپی تہذیب و تمدن کو ترقی نصیب ہوئی بعد میں یہ شہر سیاسی آزادی کا مرکز بن گئے۔

یہ بات بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے کہ انتظامی معاملات میں بھی شہر کے مقتدر حضرات کسی کے حکم کے تابع نہ تھے بلکہ آپس میں ہی محبت کے جذبات پروان چڑھنے لگے، ملک کا مختار کل بادشاہ ہوتا تھا اور وہ قوم کے مجموعی وجود کا مظہر تھا، اس رویے سے عوام اور بادشاہ کے درمیان ایک طرح کا جذباتی عنصر پیدا ہوگیا اور جو قوم پرستی کے جذبے کے فروغ کی وجہ بن کر سامنے آیا۔

ایک سنہری دور وہ بھی تھا جب پاکستان میں رہنے والے تمام پاکستانی اپنے آپ کو ایک قوم کہتے تھے،کسی کا اپنا الگ قبلہ نہ تھا، ایک اللہ اور ایک رسولؐ کے ماننے والے تھے، ہر مشکل گھڑی میں اتحاد کی صورت میں سب ایک ہوجاتے تھے۔ آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہندوستان کی دشمنی یا ہندوستان سے میچ ہو پاکستانی ایک قوم بن کر سامنے آتے ہیں اور پھر جیسے ہی حالات بدلتے ہیں تنکوں کی طرح بکھر جاتے ہیں۔ اپنے عقائد اپنی عبادت گاہیں اور نظریات اور آپس کی چپقلش نفرت اور تعصب سب الگ لیکن فوجی آپریشن کی بدولت تخریب کاروں کا نیٹ ورک ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور ایک بار پھر قومیت کا تصور زندگی کی طرف لوٹ آیا۔ بغیر قومیت کے تصور کے کسی بھی ملک کے لوگ جانوروں کے ریوڑ یا لوگوں کے گروہوں اور ٹولوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔

یورپ میں تو وقت کے ساتھ ساتھ جذبہ قومیت ابھرا اور اسے تقویت ملی لیکن اسلام نے آج سے چودہ سو سال کے عرصے سے زیادہ وقت میں قوم اور قومیت کے احساس کو اجاگر کیا، بھائی چارہ، اخوت، اتحاد یہ وہ جذبات تھے جن کی ادائیگی سے آپس کی محبت میں مزید اضافہ ہوا، ہجرت مدینہ کے وقت ایسے مناظر دیکھنے میں آئے کہ خون کے رشتوں سے زیادہ رسول پاکؐ کا امتی ہونے کا حق ادا کردیا اور پھر قرآن کی یہ آیت ’’تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں‘‘ اس پر عمل کرتے ہوئے مسلمان ایک دوسرے ایثار و قربانی کی بدولت اسلامی تاریخ میں روشن مثال بن کر سامنے آئی۔ حضرت آدمؑ کی پیدائش کے بعد توحید کے ماننے والے کفار کی سختیاں برداشت کرتے لیکن اپنے مسلم بھائیوں کے ساتھ مذہبی رشتے کو ہرگز کمزور نہ کرتے۔

موجودہ حالات پر ہم ایک نظر ڈالیں تو عجیب و غریب سانحات سامنے آتے ہیں جنکے وجود نے ترقی کی راہوں کو مسدود کردیا ہے۔ سابقہ حکمرانوں کو کل بھی پاکستان سے محبت نہیں تھی اور آج بھی نہیں ہے، اگر معاشی طور پر پاکستان مسائل اور غربت کا شکار ہے تو یہ وہ وقت ہے کہ وہ ثابت کریں کہ وہ اقتدار سے نہیں بلکہ اپنے وطن سے مخلص ہیں اور اپنا تمام پیسہ جو انھوں نے ناجائز طریقے سے کمایا ہے حکومت اور ملک کے استحکام کے لیے واپس کردیں، ان کے اس رویے سے انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور ایک بار پھر اقتدار کے حصول کے لیے قطار میں کھڑے ہوسکیں گے، یورپ کے اتحاد اور ان کی معاشی ترقی کو مد نظر رکھیں کہ کس طرح وہ اپنے عہدوں سے دستبردار ہوجاتے ہیں اور ملک و قوم کی لوٹی ہوئی رقم واپس کردیتے ہیں چونکہ وہ جانتے ہیں کہ بحیثیت ایک قوم اپنے ہی ملک میں مرنا جینا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں تو سارے امور باہر کے ملکوں میں انجام دیتے ہیں بس قبر پاکستان کے قبرستان میں چاہتے ہیں اور بس۔

The post قوم اور قومیت کی اہمیت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2LrWca1
via IFTTT

کراچی ، ترقی کے خوش آئند اعلانات، ثمرات کب ملیں گے؟ ایکسپریس اردو

لیجیے جناب! پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اور سندھ میں پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے اپنے اپنے بجٹ پیش کردیے۔ ان میں ظاہری طور پر عوام کے فائدے کیلیے، علاقوں کی ترقی وخوشحالی کے لیے بہت سے منصوبوں کو مکمل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جب کہ جاری منصوبوں کے علاوہ نئے منصوبے بھی شروع کرنے کی نوید سنائی گئی ہے۔

یہ اور بات ہے کہ وفاقی حکومت کے بجٹ کو شہر اقتدار میں موجود حزب اختلاف اچھا نہیں سمجھ رہی جب کہ سندھ صوبے کے لیے پیش کردہ بجٹ پر صوبے کی اپوزیشن جماعتوں کو شدید تحفظات ہیں۔ وفاقی بجٹ ہو یا سندھ کا صوبائی بجٹ ، دونوں میں شہرکراچی کے حوالے سے بھی بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے اور ان کے لیے خطیر رقوم مختص کی گئی ہیں ۔

یہ منصوبے سننے میں بہت شاندار اور اچھے نظر آرہے ہیں اور لوگوں کی رائے بھی یہ ہے کہ اگر شہرِ قائد کے ترقیاتی منصوبے مکمل ہو جائیں تو نہ صرف عوام کی بہت سی مشکلات کم ہوجائیں گی بلکہ شہرکا امیج بھی مزید اچھا ہو جائے گا۔ کراچی شہر کو دیکھا جائے تو اس وقت تقریباً نصف سے زائد شہر ترقیاتی کاموں کی وجہ سے اُدھڑا پڑا ہے، یہ جملہ گو کہ کچھ سخت لگ رہا ہے لیکن تلخ حقیقت بھی یہ ہے کہ شہر کے مختلف علاقے کئی سال سے مختلف نوعیت کے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے متاثر ہیں، کہیں سڑکیں بند ہیں تو کہیں ملبے کا ڈھیر نظر آتا ہے۔

اس کے علاوہ کچرے کے ڈھیر، گندے پانی کا جگہ جگہ جمع ہونا ، ٹریفک کی خلاف ورزیوں کی صورت میں مختلف مقامات پر ٹریفک جام ہونا ، پانی اور بجلی کی عدم فراہمی پر پریشان حال لوگوں کے احتجاج کی وجہ سے حالات کشیدہ ہونا بھی روزمرہ کا معمول ہے جو لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ کررہا ہے۔ وفاقی اور صوبائی بجٹ کے بعد شہریوں کو جہاں یہ امید ہے کہ اب صورتحال کچھ بہتر ہوگی وہاں اُن کی ارباب اقتدار سے یہ التجا بھی ہے کہ بے شک نئے منصوبوں کو فوری طور پر شروع نہ کیا جائے لیکن کئی برسوں اور مہینوں سے جاری ترقیاتی کاموں کو جلد ازجلد پایہ تکمیل تک پہنچادیا جائے۔

وفاقی بجٹ میں کراچی کے 9 ترقیاتی منصوبوں کے لیے45.5 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے جب کہ سندھ کے بجٹ میں شہر قائد کے لیے 40 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان ہوا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر عالمی اداروں اورکمپنیوں کی جانب سے بھی شہرکی تعمیر و ترقی کے منصوبے پائپ لائن میں ہیں۔ سندھ حکومت کے بجٹ کی دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ عالمی اداروں کے تعاون سے آیندہ 5 سال میں شہر کراچی مزید 226 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔’’کراچی والا ‘‘ ہونے کے ناتے ہمیں وزیر اعظم عمران خان کی وفاقی حکومت اور وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کی سربراہی میں سندھ حکومت سے صرف یہ کہنا ہے کہ جن منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے، اُن کا شکریہ لیکن ضروری ہے کہ پہلے قلیل مدتی منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔

شہر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی، ہر علاقے میں بجلی اور گیس کی بلا تعطل ترسیل ، جگہ جگہ پڑے کچرے کے ڈھیروں کی صفائی، نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانا اور ٹرانسپورٹ کے ابتر نظام کو جدید اور موثر کرنا کوئی آسان کام نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں ہے۔ بہت سے منصوبے کئی سال سے جاری ہیں لیکن مختلف وجوہ کی بنا پر مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ اس طرف توجہ دینا وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

یہ بھی ایک المناک حقیقت ہے کہ اسلام آباد اور کراچی سے آنیوالے بجٹ غریبوں کے آنسو بھی پونچھنے کے قابل نہیں۔ لاکھوں اورکروڑوں روپے کے اعلانات، اعداد وشمارکا گورکھ دھندہ کاغذات کی حد تک تو بہت اچھا کہا جاسکتا ہے لیکن حقیقی معنوں میں انھیں ہم اُس وقت اچھا سمجھیں گے جب غریب و متوسط طبقے کے مسائل کے حل کا آغاز ہو جائے۔ سندھ کے بجٹ میں ٹرانسپورٹ کے شعبے کے لیے 5 ارب روپے سے زائد کی رقم مختص کی گئی ہے جس کا بڑا حصہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کی سہولتوں میں اضافے، اُن میں بہتری اور دیگر انفرا اسٹرکچر کی بہتری پر خرچ ہونا ہے۔

فراہمی و نکاسی آب کے منصوبوں پر بھی خطیر رقم خرچ کرنے کا منصوبہ ہے لیکن عوام صرف یہ پوچھ رہے ہیں کہ یہ سب کب ہو گا؟ ہر سال بجٹ آتا ہے، بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات کیے جاتے ہیں، کچھ علاقوں میں منصوبوں پر کام بھی شروع ہوجاتا ہے لیکن وہ منصوبے تعداد میں بہت کم ہیں جو وقت مقررہ پر پایہ تکمیل تک پہنچے ہوں۔ شہر بھر میں لاکھوں لوگ روزانہ شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے کا سفر کرتے ہیں اور گھنٹوں ٹریفک جام کی اذیت، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر سفرکی مشقت اور خستہ حال پبلک ٹرانسپورٹ کے عذاب کو جھیلتے ہیں ۔ اس کے علاوہ گھر آتے ہوئے اور گھر سے جاتے ہوئے قلت آب، طویل لوڈشیڈنگ اور دیگر مسائل بھی ہر شہری کے ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں ، ایسے میں ایئرکنڈیشنڈ کمروں اور ایوانوں میں مہنگے سوٹ پہن کر عوام کی خدمت اور سہولت کے لیے کیے گئے اعلانات اور وعدوں پر کون کیوں اور کیسے یقین کریگا۔

اس وقت حالت یہ ہے کہ ایک منصوبہ مکمل نہیںہوتا کہ دوسرے کا اعلان ہوجاتا ہے۔ منصوبے بے شک کم ہوں لیکن اگر وقت پر مکمل کرلیے جائیں تو کسی بھی شہر کے باسیوں کو پریشانی نہیں ہوگی۔کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے ، یہاں آبادی بھی بہت ہے اور مسائل بھی لاتعداد ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس کی بحالی کے کاموں پر سب سے پہلے توجہ دیں۔ میں نے پہلے بھی کہیں اپنی اس رائے کا ذکر کیا تھا کہ کراچی میں بالخصوص اور ملک بھر میں بالعموم اکثر ترقیاتی منصوبے سیاست کی نذر ہوکر ادھورے رہ جاتے ہیں یا اُن پر کام ہی شروع نہیں کیا جاتا۔ ملک کے حکمرانوں اور ’’عوامی نمائندوں ‘‘ کو اس ’’بیماری ‘‘ کا علاج خلوص دل، اجتماعی سوچ کے سہارے اور قومی مفاد میں ڈھونڈنا ہوگا۔کراچی سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اور یہاں کی تجارتی سرگرمیوں کی چمک ملک بھر میں اجالا پھیلانے کا ذریعہ بنتی ہے۔

اس شہر کا اتنا تو حق ہے کہ یہاں کے رہنے والے پُرسکون انداز میں گھر سے کام کی جگہ اور وہاں سے واپس اپنے گھر آسکیں۔ شہر میں ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر ہوجائے۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ بیشک ہو لیکن وقت پر ہو۔ امن و امان کی صورتحال مزید اتنی اچھی ہوجائے کہ گھر سے نکلتے وقت کوئی دھڑکا نہ لگا ہے کہ پتہ نہیں خیریت سے گھر واپسی ہوگی بھی یا نہیں، اگر صاف پانی ہرگھر تک باقاعدگی سے پہنچے اور شہر کی گلیوں، راستوں، سڑکوں اور تفریحی مقامات کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے بھی موثر انتظامات کیے جائیں تو شہری پلٹ کر بھی نہیں پوچھیں گے کہ کون حاکم ہے ؟ اور کیا کررہا ہے؟

The post کراچی ، ترقی کے خوش آئند اعلانات، ثمرات کب ملیں گے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2xvcWoZ
via IFTTT

شکرگذار ہونا چاہیے ایکسپریس اردو

مورخہ 20 جون 2019ء کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے مشہور و معروف العزیزیہ ریفرنس میں میاں صاحب کو طبی بنیادوں پر سزا معطلی کی درخواست مسترد کر دی۔اِس سے پہلے بھی اِسی عدالت نے تمام میڈیکل رپورٹس کو دیکھتے ہوئے اُنہیں ایسا کوئی ریلیف دینے سے انکار کیا تھا لیکن نجانے میاں صاحب بار بار بیرون ملک علاج کی درخواست لے کر عدالت کیوں پہنچ جاتے ہیں جب کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ فی الحال نہ حالات اُن کے لیے اتنے سازگار ہیں اور نہ اُن کی صحت اتنی تشویشناک ہے کہ عدالت اُنہیں اپنے طور پرکوئی ریلیف دیدے ۔

وہ ایسا کرکے خود اپنے لیے بھی سبکی کا سامان پیدا کرتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کے لیے بھی۔سپریم کورٹ اپنے ایک فیصلے کے تحت میاں صاحب کو پہلے ہی 6 ہفتوں کے لیے ضمانت پر عارضی ریلیف دے چکی ہے جسکے دوران میاں صاحب کسی اسپتال میں اپنا علاج کروانے کی بجائے صرف اپنے ٹیسٹ ہی کرواتے رہے۔ پورے چھ ہفتے اِس تشخیصی عمل میں گذر گئے اورکسی لمحہ اسپتال میں داخل ہونے کی حاجت اور ضرورت محسوس نہیں ہوئی لہٰذا اب ایک بار پھر علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی درخواست ویسے ہی بے معنی ہوکر رہ گئی تھی۔ ایسی صورتحال میں دیکھا جائے تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جو فیصلہ سنایا ہے، وہ خلاف توقع ہرگزنہ تھا۔

میاں صاحب آج قیدوبند کی جن صعوبتوں سے گذر رہے ہیں وہ اُن کے لیے کوئی نئی نہیں ہیں۔ وہ اِس سے پہلے بھی 1999ء میں ایسی ہی بلکہ اِس سے بھی سخت سزاؤں کو بھگت چکے ہیں۔ اُنہیں تو شکرگذار ہونا چاہیے کہ اِس وقت ملک میں کوئی غیر جمہوری حکومت نہیں ہے۔ باقاعدہ جمہوری انتخابات کی نتیجے میں ایک ایسی سویلین حکومت برسر اقتدار ہے جس نے ملکی قوانین اور آئین ودستورکی پاسداری کا حلف اُٹھایا ہوا ہے۔ وہ مروجہ قوانین اور دستور سے ماورا کوئی اقدام کر ہی نہیں سکتی۔ ہماری عدالتیں اپنے دائرہ اختیارکے اندر ر ہتے ہوئے آزادانہ اور خود مختارانہ فیصلے کرنے کی کلی طور پر مجاز ہیں ۔

میاں صاحب آج گرچہ اپنے کچھ کردہ اور ناکردہ گناہوں کے سبب عدلیہ کی تاریخ کے ایک فیصلے کے تحت دس سالوں کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیے گئے ہیں لیکن اِسکے باوجود اُن کے شعور اور لاشعور میں ایک آس و اُمید ہر وقت لگی رہتی ہے کہ اُنہیں اگر کچھ ریلیف ملا تووہ بھی اِنہی عدالتوں سے ملے گا۔ 1999ء میں تو میاں صاحب کو ایوان وزیراعظم سے اُٹھاکے سیدھا کسی ایسے نامعلوم مقام پر بھیج دیا گیا تھا جہاں سے کسی دوست احباب کو توکیا اُنکے اپنے گھر والوں کو بھی کوئی شدھ بدھ اورخبر نہ تھی۔

وہ اٹک کے کسی سنسان قلعہ میں کئی ہفتوں کے لیے ڈال د یے گئے جہاں پرندوں کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی تھی، خدا کا شکر ہے آج ویسی صورتحال نہیں ہے۔ وہ اپنی مرضی و منشاء سے کوٹ لکھپت جیل میں ایئرکنڈیشن کمرے میں بند ہیں جہاں اُنکے گھر والے ہر ہفتے اُنکی خیریت دریافت کرنے آجاسکتے ہیں۔

ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ اُس وقت کے مطلق العنان حکمراں پرویز مشرف سے ایک پریس کانفرنس میں کسی نڈر اور بیباک صحافی نے یہ پوچھنے کی جسارت کردی کہ سابق وزیراعظم اِن دنوں کہاں قید ہیں تو جواباً بڑی رعونت اور تکبر سے ارشاد فرمایا کہ ’’جہاں بھی قید ہیں ہمیں آپ کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے ‘‘ کوٹ لکھپت میں قید ہونا، دور آمریت میں اٹک کے قلعہ میں قید ہو جانے سے کئی درجہ بہتر ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قید تو آپ نے خود اپنی مرضی سے قبول فرمائی ہے۔ جب اعلیٰ عدالت کا فیصلہ آیا تو آپ اپنی زوجہ محترمہ کی بیماری کی غرض سے لندن میں قیام پذیر تھے۔

آپ چاہتے تو بہانہ بناکر واپس آنے سے انکار بھی کرسکتے تھے لیکن آپ نے کچھ سوچ کر ہی واپس آنے کا فیصلہ کیا ہوگا۔ الیکشن سے صرف چند دن پہلے وطن واپسی کا فیصلہ کر کے جہاں آپ نے اپنے نڈر اور دلیر ہونے کا ثبوت دیا ہے تو دوسری جانب اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا سامنا عدالتوں میں کرکے ملکی عدلیہ پر اپنے اعتماد کا اظہار بھی کیا ہے حالانکہ آپ کو معلوم تھا کہ جن قوتوں نے نااہل قرار دلوا کر وزارت عظمیٰ سے معزول کیا ہے وہ آپکو آپکی سرکشی اور بغاوت کا پورا پورا مزہ بھی چکھانا چاہتی ہیں لیکن آپ پھر بھی واپس آئے اور بخوشی قید وبند کی مصیبتوں کو گلے لگایا۔

میاں صاحب کو شکرگذار ہونا چاہیے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قید ہیں قطع نظر اِس کے کہ آپ پر لگائے گئے الزامات کتنے سچے اوردرست تھے ورنہ تیسری دنیا کے کئی ملکوں میں آپکی طرح اپنے ضمیروں کے کئی قیدی آج بھی زندگی و موت کی کشمکش سے دوچار ہیں جن کی کوئی خبر کسی اخبار یا الیکٹرانک چینل پر لائی بھی نہیں جاتی۔ مصر کے سابق صدر محمد مرسی بھی ایسے ہی قیدیوں میں سے ایک قیدی تھے۔ وہ چھ سال سے اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا خاموشی سے برداشت کر رہے تھے۔

اُن کی اکا دکا خبرکبھی کبھار اخبارات کی زینت بن جایا کرتی تھی لیکن انسانی حقوق کی کوئی تنظیم اُن کے لیے آواز اُٹھانے کو تیار نہ تھی۔ اُن کا جرم کیا تھا، وہ بھی عوام کی تائیدوحمایت سے برسر اقتدار آئے تھے اور اُسی زعم میں اپنے ملک کو اُن قوتوں سے آزاد کروانا چاہتے تھے۔ وہ اُس نظام کو بدلنا چاہتے تھے جس نے ایک عرصہ سے اُنکے ملک کو جکڑ رکھا ہے۔ وہ بھی شاید ووٹ کو عزت دلوانا چاہتے تھے لیکن شاید غلطی کر گئے اُنہیں شاید معلوم نہ تھا کہ اُنکے عوام ابھی اِس کام کے لیے ابھی تیار نہ تھے۔ وہ غلامی کے دور سے ابھی نکلنا نہیں چاہتے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ 51 فیصد ووٹوں سے جیت جانے کے باوجود کوئی شخص اُنکی مدد کو نہیں آیا ۔ صرف ایک سال میں وہ تخت سے معزول بھی ہوئے اور سزائے موت کے حقدار بھی قرار دیدیے گئے۔ وہ جب اپنے ملک کی ایسی ہی کسی عدالت کے روبرو زندگی و موت کی کشمکش سے گذر رہے تھے اور اپنے بیگناہ ہونے کی صفائیاں پیش کر رہے تھے تو خدا کو اُن پر ترس آگیا اور اُنہیں عدالتوں سے انصاف کی بھیک مانگنے کی بجائے اپنی عدالت میں بلا لیا لیکن اِن سارے دلخراش واقعات پر حیران کن طور پر اُنکے اپنے ملک میں کوئی معمولی سا احتجاج بھی نہیں ہوا ۔

اُن کی موت پرکسی نے آنسو نہیں بہائے ۔کسی نے سوگ نہیں منایا ۔ ایسی بے بسی اور لاچارگی کی موت شاید ہی کسی کی ہو ۔ میاں صاحب اِس لحاظ سے بڑے خوش قسمت ہیں کہ یہاں اُنہیں اُن حالات کا سامنا نہیں ہے جن حالات کاسامنا محمد مرسی کو تھا ۔ یہاں آج بھی عدل و انصاف کا کوئی مؤثر نظام رائج ہے ۔ یہاں میڈیا پر وہ قدغنیں نہیں لگی ہوئی ہیں جیسے محمد مرسی کے دیس میں لگی ہوئی ہیں ۔ یہاں عوام کی ایک بہت بڑی تعداد آپ کو اپنا لیڈر اور رہنما مانتی ہے اورآپ کے لیے آج بھی سڑکوں پر نکلنے کو تیار بیٹھی ہیں ۔ میاں صاحب کے لیے چاہنے والوں اور جاں نثاروں کی کوئی کمی نہیں۔

آج ایسے لوگ موجود ہیں جو ظالمانہ نظام کے خلاف جب چاہیں سینہ سپر ہوسکتے ہیں۔ وہ ڈٹ جاتے ہیں اور ضمیر کا سودا نہیں کرتے۔ مارشل لا دور میں کئی ہمارے کئی منصفوں نے اپنے منصب اور اختیارات کے چھن جانے کی پرواہ نہ کی لیکن حق بات کہنے سے باز نہ آئے۔ میاں صاحب کوکوئی این آر او دے یا نہ دے لیکن اُن کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنا کیس اور مقدمہ عدالتوں کے روبرو لڑکر ہی سرخرو اور کامیاب ہوں ۔ اس کے علاوہ ریلیف کے تمام آپشنزمبہم ، مشکوک اور ناپائیدار ہی رہیں گے۔ اُنہیں اگر عوام کی نظروں میں سرخرو اور سر بلند ہونا ہے تو عدالتوں میں صحت کے ایشو کو بنیاد بنا کر رہائی سے بہتر ہے کہ مقدمہ کے قانونی تقاضوں کو پورا کر کے عدالتوں سے انصاف حاصل کیا جائے۔

The post شکرگذار ہونا چاہیے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2LrIzaV
via IFTTT

سندھ پھر محمد بن قاسم کے انتظار میں ایکسپریس اردو

برسوں پہلے حبیب جالب نے کہا تھا:

ہر بلاول ہے دیس کا مقروض

پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

آج کئی دہائیوں کے بعد بھی سندھ کے اکثر علاقوں اور بالخصوص دیہی آبادی میں یہی صورتحال موجود ہے، سندھ میں سندھیوں کی حکمرانی کو بھی برسوں گزرگئے لیکن آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی سندھ زبوں حالی، ٹوٹی پھوٹی کچی مٹی کی دیواروں اور کھلی غلیظ گندی نالیوں اور بوسیدہ ٹوٹے ہوئے مکانوں اور جھونپڑیوں کے ساتھ موجود ہے۔ ہیپاٹائٹس سی، ذہنی معذوری اور ایڈز کے مرض میں لوگ کثرت سے مبتلا ہو رہے ہیں اور یہاں بسنے والے اجڑ رہے ہیں یا پھر یہاں کے در و دیوار کی طرح بے حس و حرکت، شکست و ریخت کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔

ستم بالائے ستم غریب اور بے نوا لوگوں کی عزتیں تک محفوظ نہیں۔ غربت، اثر و رسوخ اور لاقانونیت یہاں سر چڑھ کر بول رہی ہے۔صاف دکھائی پڑتا ہے سندھ کے دیہی منظرنامے کو دیکھ کر کہ راجہ داہر کا خوف صوبہ سندھ میں رہنے والے لوگوں کا شاید مقدر بن گیا ہے اور اب تو جو واقعات کسی نہ کسی طور میڈیا پر رپورٹ ہوتے ہیں، ان کے تناظر میں محسوس ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ راجہ داہر اور اس کے ’’حواری‘‘ اکیس ویں صدی کی جدید سہولتوں سے آراستہ بھی ہوگئے ہیں۔

کالی پراڈو ہو یا سفید لینڈ کروزر یا پھر چمکتی ڈبل کیبن گاڑی اور ان میں بیٹھا ہر بڑا چھوٹا رئیس، سائیں یا وڈیرہ وہ ننگے پاؤں اور پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ہر مرد و زن کے لیے خوف دہشت اور بربریت کی علامت بن کر رہ گیا ہے۔ جسے غریبوں کے حقوق کی پرواہ ہے اور نہ ان کے روزگار و علاج و تعلیم کی فکر۔ پہلے تو سندھ دھرتی کے مظلوم لوگوں کے لیے ایک ہی راجہ داہر تھا لیکن اب تو ایسے راجہ داہروں کی قطاریں سندھ کے ہر شہر، دیہات اور گاؤں میں لگ گئی ہیں اور ان کا خوف اس صوبے میں رہنے والوں کے ڈی این اے میں ایسا رچ بس گیا ہے کہ آزاد دیش کے یہ غلام ابن غلام سسک رہے ہیں، بلک رہے ہیں، تڑپ رہے ہیں لیکن نہ ان کی فریاد سنی جا رہی ہے اور نہ ہی انھیں انصاف میسر آتا ہے، ان کے حقوق تو جائیں چولہے بھاڑ میں۔

حال ہی میں میڈیا میں سندھ کی ایک نڈر پڑھی لکھی مظلوم لڑکی ایڈووکیٹ ام رباب چانڈیو کو ایک عدالت سے باہر آتے ہوئے ننگے پاؤں دیکھا گیا۔ پولیس کمانڈوز کے پہرے میں یہ نوجوان خاتون وکیل احتجاجی طور پر اپنے پاؤں ننگے کیے ہوئے ہے کیونکہ اس کے دادا، اس کے والد اور اس کے چاچا کے تہرے قتل میں ملوث ملزمان پر اب تک فرد جرم عائد نہیں ہوئی اور خود اسے مسلسل جان سے مار دینے کی دھمکیاں بھی مل رہی ہیں۔

ام رباب کو انصاف نہیں مل سکا، یوں ام رباب کی کہانی سندھ کے تقریباً ہر بڑے چھوٹے شہر اور گاؤں کے لوگوں کی کہانی ہے اور رباب شاید انصاف ملنے تک ننگے پاؤں رہے یا پھر وہ شاید ایسا نہ کرے؟ اسی سندھ دھرتی کی سب سے پہلی اور قدیم سیاسی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کی وزیر اعظم بھی ایک بار اپنے بھائی کے قتل کا سن کر ننگے پاؤں سندھ کراچی کے مڈ ایسٹ اسپتال پہنچی تھیں لیکن نہ وزیر اعظم زندہ بچی اور نہ ہی اس کا بھائی اور نہ ہی ان کے قاتل آج برسوں گزر جانے کے بعد کیفر کردار تک پہنچے۔

کتنی دلخراش حقیقت ہے کہ سندھ نے اس کے ارباب اختیار کو جو کچھ دیا اس کا عشر عشیر بھی وہ سندھ کو نہ دے سکے اور یہ ایک تاریخی سچائی ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک سندھ مسلسل قربانیاں دیتا آرہا ہے۔ لاکھوں مہاجرین کا استقبال انھوں نے انصار بن کر کیا پھر آمریتوں کے دور میں جمہوریت کی بحالی کے لیے تحریکیں سب سے موثر اور تادیر سندھ کے شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں چلی ہیں لیکن جمہوریت سہولتوں، آسائشوں کے پھل رئیسوں، وڈیروں، سرداروں نے کھائے، ان سے کھانے پینے اور مال بنانے میں جو کسر رہ گئی تھی وہ مہاجروں کے نام پر بنائی گئی ایک جماعت نے پوری کردی۔ یہ ایک مسلم امر ہے کہ سندھ کا اصل مسئلہ ’’خراب حکمرانی‘‘ ہے۔

کراچی سندھ کا دارالحکومت ہے، ملک کا سب سے بڑا تجارتی مرکز اور وفاقی حکومت کو سب صوبوں سے زیادہ ریونیو دینے والا شہر بھی لیکن اس کا استحصال ہر دور حکومت میں ہوتا رہا ہے۔ نعمت اللہ اور مصطفی کمال کے دور میں یہ جتنا خوبصورت اور سہولتوں سے آراستہ شہر تھا اب برسوں سے اتنا ہی بدصورت اور بری انتظامی مشینری کا شکار چلا آرہا ہے۔ دراصل وفاق نے ہمیشہ سندھ کے ساتھ سوتیلی ماں کا سا سلوک روا رکھا ہے اور دونوں کے درمیان تنازعات یہاں رہنے بسنے والوں کے لیے سوہان روح بن کر رہ گئے ہیں۔ جس طرح صدر، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پورے پاکستان اور سب صوبوں کے ہوتے ہیں اسی طرح انھیں بلاامتیاز اپنے فرائض سرانجام دینے چاہئیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا یوں خرابی اور بربادی جاری و ساری چلی آرہی ہے۔

عمران خان کی حکومت نے بھی سندھ اور کراچی کے لیے جو کرنا تھا اپنے منشور اور اعلان کے تحت وہ نہیں کیا البتہ لوگوں کے بسے بسائے کاروبار اور گھر اجاڑ کر ضرور رکھ دیے۔ حکومت سندھ واحد اپوزیشن حکومت ہے لیکن اسلام آباد میں اس کی کوئی لابی یا ترجمانی نہیں ہے۔ خود سندھ میں شہری اور دیہی علاقوں میں لسانی امتیاز بھی بہت سے تنازعے پیدا کر چکا ہے۔ اسی طرح دیگر چھوٹے بڑے مسائل اور تنازعوں نے وفاق (مرکزی حکومت) اور سندھ (کراچی) کے درمیان خلیج پیدا کردی ہے۔ اور سندھ اور وفاقی حکومت میں تعلقات کا بگاڑ اس نہج تک پہنچ گیا ہے کہ اب دونوں نے ایک دوسرے سے بات چیت بھی ختم کردی ہے۔

وزیر اعظم کراچی آتے ہیں لیکن سندھ کے وزیر اعلیٰ ان کا خیر مقدم کرنے نہیں آتے، عمران خان سرکاری خرچے پر عمرے پر جہاز بھر کر لے جاتے ہیں لیکن سندھ کے وزیر اعلیٰ کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ شہری اور دیہی سندھ میں ویسے ہی فاصلے بڑھ رہے تھے۔ رہی سہی کمی عمران خان کی ’’تبدیلی‘‘ یا ’’نئے پاکستان‘‘ کی منطق نے پوری کردی۔اور دروغ بر گردن راوی اب تو لوگ کہنے لگے ہیں کہ ہمارا پرانا پاکستان ہی ہمارے لیے اچھا تھا اور ہمیں ایسی تبدیلی نہیں چاہیے جس میں جسم و جاں کا رشتہ بھی برقرار نہ رہ سکے۔

تحریک انصاف کے دور میں بھی پورے خطے میں انصاف سے قاتل زیادہ بڑا نظر آتا ہے اور بااثر لوگوں کے لیے قانون اب بھی کچے دھاگے اور موم کی مانند ہے جسے وہ جب چاہیں توڑ دیں یا اپنی مرضی کے مطابق اسے موڑ دیں۔ہمیں اس سے انکار نہیں ہے کہ اختلاف کو جمہوریت کا حسن بتایا گیا ہے لیکن اگر یہ انسانی زندگی یا پھر کروڑوں لوگوں کے لیے مصائب و آلام کا سبب بن جائے تو یہ کرب بن کر رہ جاتا ہے۔

The post سندھ پھر محمد بن قاسم کے انتظار میں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IYeaQ0
via IFTTT

میں ٹیکس کیوں دوں ؟ ایکسپریس اردو

آج کے عام آدمی کے ذہن میں یہی سوال بار بار ابھرتاہے کہ وہ ٹیکس کیوں دے ؟حال ہی میں ہمارے منتخب وزیراعظم نے قوم سے ٹیکس دینے کی اپیل کی اورساتھ یہ بھی کہا جب تک بھرپور طریقے سے ٹیکس ادا نہیں کریں گے تب تک پاکستان قرضوں کی دلدل سے نہیں نکل سکتا۔

اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ ریاست کا نظام چلانے کے لیے حکومت کو خطیر سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اس کا ایک بڑا حصہ ٹیکس سے اکٹھا کرتی ہے،لہٰذا عوام کا بھی فرض عین ہے کہ وہ ریاست کا نظام بہتر انداز میں چلانے کے لیے ٹیکس ادا کریں۔ وزیراعظم کی مخلصانہ اپیل سرآنکھوں پرمگرعام آدمی کے دل میں شک وشبہات بہرحال موجود ہیں۔

جب ایک عام آدمی یہ سوچتاہے کہ اس کی بنیادی ضروریات بھی حکومت پوری نہیں کر رہی تو آخروہ ٹیکس کیوں ادا کرے ؟مثال کے طورپر کون نہیں جانتا کہ آپ سرکاری اسپتال اسکول میں چلے جائیں تو آپ سے کس قسم کا برتائو کیا جاتاہے اورکس درجے کی سہولیات موجود ہیں؟ شاید ہی کوئی کھاتا پیتا شخص سرکاری اسپتال میں جاکر اپنا علاج کرانا پسند کرے یاکوئی صاحب حیثیت شخص اپنے بچوں کو سرکاری اسکول بھیجے اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں اورکالجزمیں داخلے کے لیے میرٹ اتنا زیادہ ہے کہ بہت سارے بچے وہاں داخلہ لینے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔

غربت کی وجہ سے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکول بھی نہیں بھیج پاتے۔ کچھ دانشورمغربی یورپ کی مثال دیتے ہیں کہ وہاں پر عوام اپنی آمدن کانصف حصہ ٹیکس ادا کرتے ہیں آخرکارپاکستانی شہری ایساکیوں نہیں کرسکتے ؟دراصل مغربی یورپ کے اندر بیشک ٹیکس بہت زیادہ ہے لیکن وہ ایک واضح مکمل ویلفیئر ریاستیں ہیں پچھلے سال دنیا کے مایاناز پولیٹیکل اسکالر ٹام چومسکی سے ملاقات ہوئی۔

ان سے پوچھنے پر کہ کونساملک بہترین ریاست کا نمونہ ہے تووہیں پر انھوں نے بتایاکہ ویسٹرن یورپ کے بہت سے ممالک اوربالخصوص ناروے اس کی ایک اچھی مثال ہے۔ توآپ دیکھیں توناروے یا ڈنمارک جیسے ممالک کے اندر عوام کو صحت ،تعلیم اور ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں بہترین سہولتیں میسر ہیں ۔اسی طرح اگر آپ امریکا جائیں تو وہاں پر سرکاری اورپرائیویٹ یونیورسٹیوں کے معیار میں فرق کرنا انتہائی مشکل ہوجاتاہے مثال کے طورپر دنیاکی مایاناز ہارورڈاوربرکلے یونیورسٹی ہیں جہاں سے مجھے خود تعلیم حاصل کرنے کاشرف ملا۔امریکا میںیہ دنیا کی دومایاناز یونیورسٹیاں ہارورڈ اوربرکلے موجود ہیں ۔

یہ ہارورڈ ایک پرائیویٹ یونیورسٹی ہے جب کہ برکلے ایک سرکاری یونیورسٹی ہے لیکن اگر آپ دونوں میں تعلیم حاصل کرکے دیکھیں توشاید ہی کوئی بال برابر فرق دونوں میں ہوجب کہ بہت سارے معاملات میں برکلے یونیورسٹی ہارورڈ سے سبقت لے جاتی ہے ۔کیاایسا ہمارے ملک میں بھی ہوتاہے ؟ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں میں دن بدن معیار گرتاچلاجارہاہے ۔ہماری چند سرکاری یونیورسٹیاں ابھی بھی اچھاتعلیم کامعیار چند شعبوں میں رکھتی ہیں مثلاًآج بھی پنجاب یونیورسٹی پنجاب میں نسبتاً اچھی سمجھی جاتی ہے لیکن اس کے اندر بھی بہت سارے ایسے شعبے ہیں جن پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

روز بروز اسی طرح ہمارے بہت سارے سرکاری تعلیمی ادارے تنزلی کاشکارہیں۔ایسی صورتحال ہمارے اسپتالوں کی ہے جنوبی پنجاب کے آپ نشتر اسپتال چلے جائیں تو وہاں پر آپکو دل دہلا دینے والے مناظر دکھائی دینگے ۔وہاں پر اکثر آپ کو مریض اپنی ہی ڈرپ خود ہاتھ میں پکڑے ہوئے دکھائی دینگے اورساتھ میں ضروری ادویات کامیسر نہ ہونا اب ایک عام بات بن چکی ہے۔اسی طرح زیادہ ترسرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹرحضرات شام کو اپنے پرائیویٹ کلینک پر موٹی فیس لے کر علاج کرتے ہیں۔

آپ خود سوچیے جب ایک طرف انھیں موٹے پیسے مل رہے ہوں تووہ کس طرح سے اپنے سرکاری اسپتال میں اپنے فرائض کے اوپر توجہ دیں سکتے ہیں؟معاملہ صحت اور تعلیم تک ختم نہیں ہوتابلکہ ٹرانسپورٹ اورسب سے بڑھکر سیکیورٹی اورانصاف کے معاملات سب سے اہم ہیں افسوس کامقام ہے کہ ایک عام شہری کو ایک ایف آئی آردرج کرانے کے لیے آج بھی پیسہ دینا پڑتاہے اورپھر تفتیش کے مراحل سے گزرنے کے بعد ماتحت عدالتوں کے اندر دھکے کھا کھا کر جوتے ٹوٹ جاتے ہیں مگر انصاف نہیں ملتا۔ایسی صورتحال کے اندر عام شہری یہی سوچتاہے کہ آخر وہ ٹیکس کیوں اداکرے ؟

اگر سرکاردیگر سہولیات فراہم نہیں کرپاتی توناسہی کم ازکم حکومت کو فوری اورسستا انصاف عام شہریوں کو فراہم کرنا انتہائی ضروری ہے اور اس انصاف کے حصول کے متمنی ہرطبقے کے لوگ ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے تعلیم اورصحت تو لوگ پرائیویٹ اداروں میں حاصل کرسکتے ہیں پر عدل وانصاف کے کورٹس اورپولیس اسٹیشنر وغیرہ پرائیویٹ طورپر میسر نہیں ہیں توگویاہر طبقے کا شخص ہمارے عدالتی نظام سے شدید متاثرہورہاہے اوراس کے بلواسطہ منفی اثرات ہماری معیشت پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔اب اس معیشت اورٹیکس کے حصول کے پیچھے ایک اوربھی سیاسی کشمکش جاری ہے ۔

اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت کے پاس فنڈز کی کافی کمی آگئی کیونکہ بہت سارے پیسے صوبوں کو دیے گئے ۔اب اس چیز کابھی اندیشہ کیاجاتاہے کہ وفاقی حکومت اٹھارویں ترمیم میں ردوبدل یا رول بیک کر کے اپنا حصہ بڑھانے کی کوشش کریگی جوکہ انتہائی نامناسب اقدام ثابت ہوگا۔

دراصل پاکستان کے آئین کی رو سے تمام اختیارات اورفنانسز اورفنڈز کو نچلی سطح پر منتقل کرنا لازمی ہے اور اختیارات صوبائی اورمزید لوکل باڈیز یاضلع کونسل کے اورکارپوریشن کی سطح پر لے جایاجائے توپھر وہاں پر ٹیکس حاصل کرنا کافی آسان ہوجاتاہے بالخصوص اگر ضلع کونسل اوربلدیاتی اداروں کے پاس شہریوں کے تمام مسائل حل کرنے کے اختیارات آجائیں توپھر یہی بلدیاتی ادارے زیادہ سے زیادہ ٹیکس لے سکتے ہیں بشرطیکہ تمام ٹیکس کازیادہ تر حصہ اسی علاقے کے اوپر خرچ کیاجائے ۔

افسوس کی بات ہے جب دوردراز علاقوں سے ٹیکس وصول کرکے وفاقی اورصوبائی ادارے لے جاتے ہیں پھر وہ عام عوام کے خون پسینے کی کمائی ان اداروں کی تجوریوں میں چلی جاتی ہے پھر وہاں سے سرکاری افسران اورحکمرانوں کی عیاشیوں پر خرچ ہوجاتی ہے۔یہ نظام کچھ اس طرح سے کام کرتاہے کہ فنڈز کہاں جارہے، کہاں خرچ ہورہے ہیں اس پر عام آدمی یا ٹیکس ادا کرنیوالا نگاہ رکھ ہی نہیں سکتا۔

تواگر حکومت وقت کو ٹیکس بڑھاناہے توپھر انھیں پاکستانی آئین اور اٹھارویں ترمیم پر من وعن عمل کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے ہونگے اور اس طرح کی پالیسی مرتب کرنی ہوگی کہ زیادہ ترٹیکسز ضلع کونسل لیول پر موصول کیے جائیں اورپھر ان ٹیکسز کا زیادہ تر حصہ اسی علاقے یااسی شہر یا تحصیل کے اندر خرچ ہو تاکہ عوام کو اپنے پیسے اپنے اوپر ہی خرچ ہوتے ہوئے دکھائی دیں تاکہ ان کاحکومت پر اعتماد بحال ہو ۔ساتھ ہی عوامی نمائندوں اورسرکاری افسران کی کارکردگی ان کی نگاہ کے سامنے کھل کر آجائے ۔بہرحال جس طرح عوام اورحکمرانوں میں اس وقت دوریاں بہت بڑھ چکی ہیں ۔ایسی صورتحال کے اندر لوگوں سے ٹیکس وصول کرنا حکومت کے لیے نہایت مشکل ہوگا۔

The post میں ٹیکس کیوں دوں ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2XeM9ax
via IFTTT

حادثوں کی پیداوار ایکسپریس اردو

والیٹر نے کہا تھا ’’ میں جب ارسٹوفینیزکے طربیہ ڈرامے پڑھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے میں ڈرامے نہیں، اس زمانے کا اخبار پڑھ رہا ہوں جس میں ایتھنزکے حالات بڑی تفصیل کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں‘‘ والیٹرکی ارسٹو فینیز کے بارے میں یہ رائے بالکل درست تھی۔

آپ اس کے ڈرامے اٹھا کر دیکھ لیں تو آپ کو ایسا آئینہ دکھائی دے گا ، جس میں اس عہد کا ایتھنز چلتا پھرتا نظر آئے گا، اس دورکے سیاست دان ، ٹیکس کے بوجھ تلے دکان دار، آسمانی فلسفے پر یقین رکھنے والے لوگ، سقراط ، اس کے شاگر د، جنس زدہ لوگ ، عورتوں کا احتجاج ، مذہب کے خلاف احتجاج کرنے والے ان کا راستہ روکنے والے ، عورتوں کے رسیا ، یہ ہی وہ سب کردار ہیں جو ارسٹو فینیز کے ڈراموں کو اپنے افعال اور مکالموں سے سنوارتے ہیں آج آپ بھی جب ان ڈراموں کو پڑھیں گے تو آپ بھی یہ کہنے پر مجبورہوجائیں گے کہ میں ارسٹوفینیزکے ڈرامے نہیں بلکہ آج کا پاکستان کاکوئی اخبار پڑھ رہا ہوں ، جس میں پاکستان کے حالات بڑی تفصیل کے ساتھ لکھے ہوئے ہیں۔

آپ کو ان ڈراموں میں آج کا پاکستان چلتا پھرتا دکھائی دے گا۔آپ اس کے ایک ڈرامے Wasps کا آغاز دیکھیے وہ کس انداز سے ایتھنزکے شہریوں کو ان کی کمزوریوں اور خامیوں سے آگا ہ کرتا ہے۔ ارسٹو فینیز کے زمانے میں فنکار ڈراما دیکھنے والے لوگوں سے آگاہ ہوتے تھے آبادی کم ہونے کے سبب وہ لوگوں کے ناموں اور ان کے شجرہ نسب سے بھی واقف ہوتے تھے۔ Wasps کاآغاز دو نوکروں کی بات چیت سے ہوتا ہے، دونوں اپنے آقا کی خامیوں اورکمزوریوں کے بارے میں بات چیت کررہے ہیں۔

پہلا نوکر۔’’ہمارے آقا کو ایک عجیب و غریب بیماری لگ گئی ہے۔‘‘دوسرا نوکر ۔ ’’کونسی بیماری ہے وہ‘‘ پہلا نوکر۔ ’’اس کا کسی کونہیں پتہ تم ہی بتائو ۔‘‘ دوسرا نوکر۔ تماشائیوں کی طرف دیکھ کر کہتا ہے ’’سامنے Pronapes کا بیٹا بیٹھا ہے کہہ رہا ہے اسے جوا کھیلنے کی بیماری لگ گئی ہے۔‘‘پہلا نوکر۔’’ وہ دیکھو Sosias بیٹھا ہے، اس کا خیال ہے ، ہمارا مالک شراب پینے کا عادی ہوگیا ہے۔‘‘ دوسرا نوکر ۔’’ وہ یہ اپنی بیماری اور عادت بتلا رہا ہے۔‘‘

اور پھر اسی طرح وہ لوگوں کو ان کی عادات و خصائل بتلاتے ہیں جب ڈرامہ ختم ہوتا ہے، دوسرے شوکے تماشائی آتے ہیں تو ڈرامے کے کردار انھیں دیکھ کر نام بدلتے رہتے ہیں اور ان کی کمزوریاں بتلا تے رہتے ہیں اور اس طرح پورے ایتھنزکے لوگوں کی کمزوریاں سامنے آجاتی ہے سیاسی شخصیتوں اور عبادت گاہوں کے مجاوروں پر ذرا اس کا طنز دیکھیں۔ ڈرامے کا نام Plutus ہے ڈرامے میں دکھایاگیا ہے کہ ایک نابینا آدمی جا رہا ہے،ایک ادھیڑ آدمی اور اس کا نوکر اس کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں نوکر اپنے آقا سے پوچھتا ہے کہ ’’ہم ایک اندھے آدمی کا پیچھا کیوں کر رہے ہیں‘‘ آقا۔ ’’تم میرے غلاموں میں سب سے ذہین ہو اور سب سے اچھے چور بھی ہومیں ہمیشہ سے ایک مذہبی آدمی رہا ہوں اور ہمیشہ سے مفلس اور غریب ہوں ‘‘ غلام۔ ’’ہاں ایسا ہی ہے آقا ۔جب کہ عبادت گاہوں کے پجاری ، ڈاکو اور سیاست میں شامل چور ہمیشہ دولت مند اور امیر رہے ہیں۔‘‘

یہ ہی غلام ڈرامے میں آگے چل کر ایک سیاست دان سے ملتا ہے اوراس سے پوچھتا ہے غلام ۔ ’’ تم اچھے آدمی ہوکیا تم محب وطن ہو۔‘‘ سیاست دان ۔ ’’ ہاں اگر اس کاکوئی وجود ہے‘‘ غلام۔ ’’ تو پھر تم کسان ہو،کھیتی باڑی کرتے ہو۔‘‘ سیاست دان ۔’’ میں پاگل نہیں ہوں کہ یہ کام کروں۔‘‘ غلام۔ ’’ تو پھر تم ضرور تجارت کرتے ہو تاجر ہو۔‘‘ سیاست دان ۔ ’’کبھی تجارت کرتا تھا ، مگر اب نہیں‘‘ غلام ۔’’ تو پھر تم کیا کاروبارکرتے ہو۔‘‘ سیاست دان ۔ ’’ کوئی کام نہیں کرتا۔‘‘ غلام۔’’ تو پھرگذارا کیسے ہوتاہے۔‘‘ سیاست دان ۔’’ اس کا جواب یہ ہے کہ میں حکومت میں سپر وائز جنرل ہوں میں نجی اور عوامی اداروں کی دیکھ بھال کر تاہوں‘‘ غلام۔’’ واہ ، واہ ، بڑا عہدہ ہے، اس عہدے کو حاصل کرنے کے تم اہل ہو؟‘‘ سیاست دان۔ ’’ بالکل نہیں ، میں نے چاہا اوریہ مجھے مل گیا۔‘‘

پاکستان دنیاکا وہ واحد ملک ہے ، جہاں مقتول کا فیصلہ ، قاتل عورت کا فیصلہ ، مرد بچے کا فیصلہ ، بڑا محکوم کا فیصلہ حاکم مظلوم کا فیصلہ ، ظالم اور بائیس کروڑ عوام کا فیصلہ، نااہل اورکر پٹ حکمران کرتے ہیں۔ آپ کو پاکستان میں چند کو چھوڑ کر باقی سب کے سب حادثاتی یا اتفاقی طور پر اعلیٰ عہدوں اور رتبوں پر بیٹھے ہوئے نظر آئیں گے وہ حضرات فیصلے بھی کررہے ہونگے ملک وقوم کے بارے میں سوچ وبچارکا کام بھی کررہے ہوں گے ۔ قانون سازی کے عمل میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہونگے ۔اگر ان تمام حضرات کی قابلیت ، اہلیت اور شرافت کا کسی بھی بین الاقوامی ماہرین سے ٹیسٹ کروا لیاجائے تو ٹیسٹ لینے والے غیر ملکی ماہرین اپنے ہوش و حواس کھوبیٹھیں گے اور پھرکسی بھی کام کے لائق نہیں رہیں گے اور ساری زندگی ان کے گھروالے آپ کوکوستے رہیں گے جتنی بھی بد دعائیں دے سکتے ہیں دیتے رہیں گے۔

ایک چھوٹا سا تجربہ آپ بھی کرکے دیکھ سکتے ہیں، کسی روز آپ اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کرلیں اور تمام گھر والوں کو ہدایات جاری کردیں کہ کوئی بھی ڈسٹرب نہ کرے ۔ پھر آپ تمام ملک کی اعلیٰ شخصیات کا ایک ایک کرکے احتساب کرنا شروع کر دیں اور پھر گھنٹوں بعد آپ کا بھی وہ ہی حشر نشر ہو جائے گا جو غیر ملکی ماہرین کا ہوگا۔ اب اس صورتحال پر اپنا سر نہ پیٹا جائے توکیا کیاجائے۔ ہمارے نااہل اورکرپٹ سیاست دانوں ، جاگیرداروں ، سرمایہ داروں ، نام نہاد ملائوں، راشی اعلیٰ افسران نے اس ملک کو مال غنیمت سمجھ رکھاہے لوٹ مارکا مال سمجھ رکھا ہے جس کی جب مرضی آتی ہے اور دل چاہتاہے، لوٹتا ہے، بربادکرتا ہے اور مزے سے ساری زندگی عیش وعشرت سے گذارتا ہے۔

ان تمام حضرات کے ابتدائی معاشی حالات کو ٹٹول لیں اور ان کے موجودہ معاشی حالات کو دیکھ لیں زمین اور آسمان سے زیادہ فرق آپ کو ملے گا۔ حلال کی آمدنی سے محلات ، ملیں ، جاگیریں ،کبھی نہیں بنتی ہیں ۔ ملک سے باہر ممالک میں گھر اور بینک بیلنس نہیں بنتے ہیں ۔ مشتاق احمد یوسفی نے کیاخو ب کہا ہے ’’ میرا خیال ہے کہ حالت حاضرہ پر تبصرہ کرتے وقت جو شخص اپنے بلڈ پریشر اورگالی پر قابو رکھ سکے وہ یا تو ولی اللہ ہے یا پھر خود حالات کا ذمے دار ہے‘‘ مزے کی بات یہ ہے کہ ان حضرات کا یہ کہنا یہ سب ہمارے آبائو اجداد اور بزرگوں کی چھوڑی ہوئی نشانیاں ہیں۔ معاف کیجیے گا، جناب عالیٰ یہ راگ بہت پرانا ہے جو ہم ہر راشی اورکرپٹ سے برسوں سے سنتے آرہے ہیں ۔

ہمیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ انگریزوں نے جائیدادیں ، سر اور خان بہادرکے خطابات اپنوں کی مخبروں پر، ان کی خوشامد ، خدمات اور جی حضوری پر خیرات میں بانٹی تھیں اور رہی بات نو دولتوں کی تو ان کے کرتوت اور حرکات پر تو بات کرنا ہی شرمناک ہے۔اس ساری صورتحال کو بغور دیکھنے والے اور اس پر غورو فکر کرنے والے اگر اپنا ہوش وحواس کھوبیٹھتے ہیں تو اس پر حیران و پریشان ہونے کی کیا بات ہے؟ لہذا جو حضرات اس کے باوجود ابھی تک اپنا ذہنی توازن برقرار رکھے ہوئے ہیں اور ان کا شعور اور ضمیر ابھی تک زندہ ہے تو وہ اٹھتے بیٹھتے ہر وقت خدا کا شکر ادا کرتے رہیں ۔ ہماری دعا ہے خدا باقیوں کو اپنی امان و حفاظت میں رکھے ذہنی طورپر بھی اور جسمانی طورپر بھی ۔

The post حادثوں کی پیداوار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2IZyksX
via IFTTT