عنان اقتدار سنبھالتے ہی حکومت نے سوئس بینکوں میں رکھے ہوئے پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالر واپس لانے کے بلند بانگ دعوے کیے تھے، مگر یہ اب صرف ’’ دعویٰ برائے فرضی رقم واپسی‘‘ قرار پائے گا،کیونکہ سوئٹزز لینڈ سینٹرل بینک اور سوئس نیشنل بینک کی جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانیوں کی یہ رقم 34 فیصد کمی کے ساتھ 73 کروڑ 80 لاکھ ڈالر رہ گئی ہے۔گیارہ ماہ بیت گئے، وزیراعظم سمیت کابینہ کے متعدد اراکین کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے کیونکہ عوام کو تو یہ نوید سنائی گئی تھی کہ یہ رقم واپس آنے سے ملکی قرضوں کا بوجھ کم کرنے میں مدد ملے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ اس ضمن میں گزشتہ 11 ماہ کے دوران کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ لوگوں کو اثاثے ظاہرکرنے کی اسکیم سے فائدہ اٹھانا چاہیے، 30 جون کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد آیندہ لائحہ عمل48گھنٹوں میں سامنے لایا جائے گا، عوام کا پیسہ ان پر خرچ ہوگا، ہماری حکومت بزنس فرینڈلی ہوگی۔ ہم ایف بی آر میں اصلاحات لائیں گے، ٹیکس جمع کیے بغیر پاکستان ترقی نہیں کرسکتا۔
وزیراعظم کے خیالات صائب ہیں وہ انتہائی دردمندی سے ملک کو معاشی بحران سے نکالنا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں خاصے پر امید بھی ہیں، وہ بار بار قوم سے خطاب بھی کر رہے ہیں اور قوم سے نہ گھبرانے کی تلقین کرتے ہوئے مشکلات سے نکالنے کا مژدہ جانفزا بھی سنا رہے ہیں۔ان کے خلوص نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا، لیکن دوسری جانب اثاثے ظاہرکرنے کی اسکیم کی مدت ختم ہونے میں صرف دو دن باقی ہیں تاہم تاجر برادری کے ایمنسٹی اسکیم کے بارے میں تحفظات، خدشات اور سوالات ختم نہیں ہو پا رہے۔
مارکیٹوں میں کاروبار بند پڑا ہے، افواہوں نے رہی سہی کسر بھی پوری کر ڈالی ہے، ملک سے کثیر سرمایہ منتقلی کی اطلاعات بھی ہیں۔ تاجر برادری کا مطالبہ ہے کہ اگر ایمنسٹی کی مدت میں توسیع نہیں ہوسکتی تو اسکیم کے تحت ظاہرکردہ اثاثوں کی مالیت یا تفصیلات میں ردوبدل کی اجازت دی جائے تاکہ تاجر برادری ایمنسٹی کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد کسی سقم یا کمی کی صورت میں اپنے ڈکلیریشن ریوائزکرسکے۔ ہم سمجھتے ہیں یہ مطالبہ اور تجویز مناسب ہے اس پر حکومت کو فی الفور توجہ دینی چاہیے۔
چیئرمین ایف بی آرکا کہنا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ صرف خالص آمدن پر ٹیکس لیا جائے گا، اب کوئی نان فائلر نہیں ہوسکتا جس پر ٹیکس لاگو ہے وہ ٹیکس دے گا، کوئی ٹیکس دینے سے نہیں بچ سکتا، جس شخص کا نام ایکٹو ٹیکس پیئر لسٹ میں نہیں اس سے ہم دگنا ٹیکس لیںگے،اگر اس پر ٹیکس ود ہولڈ ہوگا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
تاجروں اور عوام کو ایف بی آر سے کافی جائز شکایت بھی ہیں اور بہت سے معاملات میں وہ عدم تحفظ کا شکار بھی ہیں، ایف بی آر کے چیئرمین کو پہلے یہ دوری ختم کرنی ہوگی۔وزیر مملکت ریونیو نے کہا ہے کہ اوورسیز پاکستانی پیسہ بینک اکاؤنٹس کے ذریعے ملک بھیجیں، بینکوںکے ذریعے پیسہ بھیجنے سے آپ کے پاس منی ٹریل دستیاب ہوگی، ایمنسٹی اسکیم شہریوں کے لیے اثاثے ظاہرکرنے کا بہترین موقع ہے۔
ایک جانب وزراء کے امید افزا بیانات ہیں تو دوسری طرف امریکی ڈالرکی اونچی اڑان بھی جاری ہے، انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالرکی قدر مزید1روپے 89 پیسے کے اضافے سے 164 روپے05پیسے جب کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر59پیسے کے اضافے سے 163روپے 50پیسے کی نئی بلندترین سطح پر پہنچ گئی۔
بین الاقوامی کریڈٹ ایجنسی ’’فچ‘‘ نے پاکستان کی معیشت کے حوالے سے کہا ہے کہ کاروباری طبقے کا اعتماد کم ہو رہا ہے اور سرمایہ کاری منفی اثر لے رہی ہے۔ جس تیزی سے روپیہ گراوٹ کا شکار موجودہ حکومت کے گیارہ ماہ میں ہوا ہے، اس کی نظیر نہیں ملتی۔
پاکستانی کرنسی کی جاری بے قدری پرماہرین معاشیات نے مرکزی بینک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اس وقت بین الاقوامی ادائیگیوں کے بحران سے گزررہا ہے اور ان حالات میں ڈالرکو آزاد چھوڑنا درست حکمت عملی نہیں۔ روزبروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کردیا ہے،عام آدمی کی قوت خرید میں بہت زیادہ کمی ہوئی، متوسط طبقہ ملک سے ختم ہورہا ہے۔ حکومت سے التماس ہے کہ وہ معیشت کو سنبھالے ورنہ زمانہ چال قیامت کی چل جائے گا۔
The post سوئس بینکوں کی رقوم میں کمی appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Xcd5b4
via IFTTT
No comments:
Post a Comment