Wednesday, June 30, 2021

ہدف کا تعین کیسے ہو؟ ایکسپریس اردو

انسانی نفسیات ایک ایسی پہیلی ہے جسے بوجھنے اور اس کی گتھیاں سلجھانے کاشوق ہمیں اس راہ پہ لے آیا کہ جس کی منزل ہسپتال کے شعبہ نفسیات کا ایک کمرہ تھا، اب اس کمرے میں داخل ہونے والے نفوس اپنی الجھنوں کی پوٹلیاں اٹھائے ہم تک آتے ہیں۔

مسائل کی اس پوٹلی سے جو برآمد ہوتا ہے وہ بعض اوقات بظاہر اتنا بے ضرر ہوتا ہے کہ مریض کو اس بات پہ قائل کرنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے کہ اس کے مسائل کی جڑ یہی ہے۔ میرے پاس سیشن کے لئے آنے والے بہت سے مریض ہدایت کردہ معمولات اور طے کردہ اہداف کے حصول میں ناکامی کی شکایت کرتے ہیں۔ ہدف کے تعین کی اہمیت نفسیاتی الجھنوں میں گرفتار ایک شخص کے ساتھ صحت مند انسان کی زندگی میں بھی مسلم ہے۔

ایک بچے کے دنیا میں آنکھ کھولتے ہی اس پر اس کے اردگرد کے ماحول، اس کے والدین ، عزیز و اقارب، مذہب ، معاشرے اور تہذیب و تمدن کی جانب سے توقعات کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے اور خاک کا پتلا اپنی زندگی کے شب و روز گزارتے ہوئے یہ بوجھ بھی ڈھوتا ہے۔ کوئی جرات مند ان میں سے کوئی ایک بوجھ ڈھونے سے انکار کرنے کی جرات تو کرسکتا ہے لیکن ان سب سے ایک ساتھ انحراف ممکن نہیں۔

یہ سب زندگی گزارنے اور جینے کے لوازمات ہیں۔ ان کے بغیر زندگی کے رنگ پھیکے ہیں۔ جب انسان ان توقعات کے دائروں میں گھِرتا ہے تو اپنی ذات کو کیسے فراموش کرسکتا ہے۔ وہ خود سے کچھ امیدیں وابستہ کرتا ہے، اپنی زندگی کے مقاصد کا تعین انہی عوامل سے کشید کرتا ہے۔ ان امیدوں اور توقعات کو مختصر ترین الفاظ میں سمویا جائے تو وہ ہے Goal Setting یعنی ہدف کا تعین۔

ہدف کیوں مقرر کیا جاتا ہے؟

اس کا مقصد ’’ کامیابی ‘‘ ہوتا ہے۔ اس کامیابی کی تعریف ہر انسان کے لئے مختلف ہے۔ کسی کے لئے دولت کے انبار کا حصول کامیابی ہے تو کسی دوسرے کے لئے اچھے نمبر حاصل کرنا ۔ کسی کے لئے کامیابی کی تعریف دوسروں کی نظروں میں اپنا معتبر وجود ہے تو کسی کو اپنی نظروں میں معتبر بننا اور خود کو ہر گزرے کل سے بہتر دیکھنا مقصود ہوتا ہے۔ غرض اس کامیابی کے ہزار رنگ ہیں بالکل اسی طرح ہدف کا تعین بھی ہر انسان کے نزدیک اس کی اپنی مقرر کردہ کامیابی کی تعریف کا عکاس ہوتا ہے۔

زندگی میں آپ کا کوئی بھی مقصد ہو، آپ کے ہدف کے سمت کوئی بھی ہو ، آپ کے نزدیک کامیابی کا چہر ہ جیسا بھی ہو کچھ چیزیں ایسی ہیں جنھیں ہدف کا تعین کرتے ہوئے ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو کامیابی کے امکانا ت بڑھ جاتے ہیں۔

1۔ ایسا ہدف مقرر کریں جو آپ کو متحرک رکھے

زندگی حرکت کا نام ہے اس لئے ہد ف ایسا ہونا چاہئیے جو اس حرکت کو یقینی بنائے۔ بستر پر دراز ہوکر آپ چھت سے نوٹوں کی بارش کی توقع میں ٹکٹکی باندھے اگر عمر بھی گزار دیں تو رائیگاں ٹھہرے گی لیکن اگر دولت کے حصول کے لئے آپ اپنی تعلیم کے معیار کو یقینی بنائیں گے۔ کتابیں رٹنے کی اور نمبروں کی دوڑ میں پڑنے کی بجائے سیکھنے کی کوشش کریں گے تو انشاء اللہ زندگی آپ کو مایوس نہیں کرے گی۔

ہدف مقرر کرتے ہوئے یہ اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ جو کچھ آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کی اہمیت کیا ہے؟ انسان کسی بھی شے کے حصول کی کوشش اپنی خواہش اور ضرورت کے مطابق کرتا ہے۔ وہ خواہش جتنی زور آور اور ضرورت جتنی زیادہ ہوگی حدف کے حصول کے امکانات اتنے ہی روشن ہوں گے۔

2۔ چھوٹے ہدف سے آغاز کرنا

ایک بچہ پیدا ہوتے ہی دوڑنا شروع نہیں کردیتا یا سکول کے پہلے دن ہی کتابیں اس کے دماغ میں نہیں سما جاتیں۔ کائنات کی ہرچیز میں ایک تسلسل ہے جس میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے چھوٹے چھوٹے عوامل بڑی تبدیلی میں ڈھلتے ہیں۔ رات سے دن کا سفر چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے جس میں چاند اور سورج لحظہ بہ لحظہ اپنی پوزیشن بدلتے دن اور رات کا باعث بنتے ہیں۔

بالکل اسی طرح ہدف کے حصول کے لئے لمبی چھلانگ لگانے سے پہلے چلنا ، دوڑنا اور چھوٹی چھلانگ لگانے کی زحمت کرنی پڑتی ہے۔ اپنی زندگی کے قابل حصول اہداف کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں بانٹ لیں اور اپنی تر جیحات کے مطابق ان کی فہرست بنائیں۔ ان میں سے پہلے تین ، پہلے پانچ یا اپنی سہولت کے مطابق ایک ہدف کو اپنی توجہ کا مرکز بنائیں اور اس کے حصول کے لئے اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لائیں۔

3۔ SMART ہدف مقرر کریں

ہدف مقرر کرتے وقت لفظ SMART کو ذہن میں رکھیے اور اپنے ہدف کو اس کی کسوٹی پر پرکھیے۔

……..S Specificیعنی ہدف مخصوص اور واضح ہونا چاہئیے۔ مخصوص ہدف کامیابی کے امکانات کو یقینی بناتا ہے کیونکہ ہدف کی مثال اس روشنی کی سی ہے جو کامیابی کی جانب جانے والے آپ کے راستے کو آپ کی سہولت اور آسانی کے لئے روشن کرتا ہے۔

M……Measurable ہدف ایسا ہو جسے پرکھا جاسکے۔

A …………….. Attainable ہدف قابلِ حصول ہونا چاہئیے۔

R …………….. Relevant   ہدف ایسا ہو جو آپ کی کامیابی کی تعریف سے مطابقت رکھتا ہو۔

T …………….. Time Boundہدف کے حصول کا وقت مقر ر ہو پھر بھلے وہ ایک دن ہو، ایک ہفتہ  ، ایک مہینہ ہو یا ایک سال۔

3۔ اپنے ہدف کو کاغذ پہ تحریر کریں

مطلوبہ ہدف کو کاغذ پہ تحریر کرنا اور گاہے بگاہے اس پر نظر ڈالتے رہنا آپ کو درست سمت میں رواں رکھتا ہے۔ دن کے آغاز کے ساتھ مطلوبہ اہداف کی فہرست مرتب کرنے اور دن کے اختتام کے ساتھ ان پر تنقیدی نگاہ ڈالنے سے آپ شعوری اور لاشعوری طور پر اپنی منزل کو پانے کے لئے متحرک رہتے ہیں۔ کاغذ پر تحریر کردہ ہدف کی تفصیلات کی مثال نقشے کی سی ہے جس طرح نقشہ آپ کو درپیش سفر کے لئے مدد فراہم کرتا ہے بالکل اسی طرح یہ مشق آپ کی مددگار ثابت ہوتی ہے۔

4۔ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

تمام تیاری کے بعد اب باری آتی ہے عمل کرنے کی۔ ان تمام باتوں اور منصوبہ بندی کے مطابق عمل کیجیے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ تفریح کا پروگرام بنائیں۔ سب سے پہلے آپ کو جگہ کا تعین کرنا ہے کہ آخر آپ جانا کہاں چاہتے ہیں۔ یہ فیصلہ آپ اپنے وسائل، ضرورت اور حالات کے مطابق کریں گے۔ جگہ کے تعین کے بعد آپ زادِ راہ تیار کریں گے اس میں سفر میں پیش آنے والے متوقع حالات کے مطابق تیاری اور backup پلان بھی شامل ہیں۔ یہ سب کرنے کے بعد سفر آسان بھی ہوگا اور خوبصورت بھی۔

کھول یوں مٹھی کہ اک جگنو نہ نکلے ہاتھ سے

آنکھ کو ایسے جھپک ، لمحہ کوئی اوجھل نہ ہو

پہلی سیڑھی پہ قدم رکھ، آخری پہ آنکھ

منزلوں کی جستجو میں رائیگاں اک پل نہ ہو

The post ہدف کا تعین کیسے ہو؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3qDqmK1
via IFTTT

بغیرہتھیاروں کے گلیڈی ایٹرزکیسے لڑتے ایکسپریس اردو

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم نے عروج سے زوال کا سفر بہت تیزی سے طے کیا ہے،2019میں ٹائٹل جیتنے کے بعد توقع تھی کہ وہ مزید ترقی ملے گی مگر اگلے برس6 ٹیموں میں پانچواں نمبر رہا، اب تو حد ہی ہو گئی اور آخری پوزیشن پر رہنا پڑا،10میں سے صرف 2 میچز ہی جیتے،اس کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو سب سے اہم متوازن کمبی نیشن نہ بن پانا نظر آتی ہے۔

اگرآپ اسکواڈ دیکھیں تومحسوس ہوگا کہ وہ دیگر ٹیموں کے مقابلے میں کمزور تھا، چند میچز کیلیے بڑے ناموں سے معاہدہ اور ایمرجنگ کیٹیگری میں بعض کرکٹرز کا انتخاب بھی غلط فیصلہ ثابت ہوا،پی ایس ایل4 کی فتح میں احمد شہزاد اورعمر اکمل کا نمایاں کردار رہا تھا، اب دونوں خود بھولی بسری داستان بن چکے، شین واٹسن ریٹائر ہو گئے،رلی روسو، سہیل تنویر اور فواد احمد ٹیم میں برقرار نہ رہ سکے، اس بار کرس گیل سے صرف 2 میچز کا معاہدہ ہوا، کہنے کو تو یہ بات ہو گئی کہ اتنا بڑا بیٹسمین ٹیم سے منسلک رہا لیکن اس کاکوئٹہ کو کیا فائدہ ہوا؟دونوں میچز میں شکست ہی ہوئی۔

گیل نے ایک ففٹی ضرور بنائی لیکن اگر وہ زیادہ میچز کیلیے آتے تو بات بنتی، ڈیل اسٹین اپنے کیریئر کا سنہری دور گذار چکے،انھوں نے صرف3 ہی میچز کھیلے اور کوئی تاثر نہ چھوڑ سکے،فاف ڈوپلیسی آئی ایل میں رنز کے ڈھیر لگاتے ہیں مگر پی ایس ایل میں ان کی بیٹنگ کو نجانے کیا ہوجاتا ہے،رسل بھی کامیاب نہ رہے،غیرملکی کرکٹرز میں دیگر انتخاب بھی کوئی اتنے اچھے نہیں تھے،پک آرڈر اور دستیاب کھلاڑیوں میں مناسب آپشنز کی کمی بھی مسئلہ بنی،اس کا ٹیم کو بیحد نقصان ہوا۔

گلیڈی ایٹرز کو لڑائی کیلیے ہتھیار ہی میسر نہ تھے، ماضی کی فتوحات میں کوچ معین خان اور کپتان سرفراز احمد کے مثالی تال میل کا اہم کردار رہا، معین نے سینئر وکٹ کیپر کوکیریئر میں ہمیشہ بہت سپورٹ کیا اور ہر مشکل میں ڈھال بن کر سامنے کھڑے نظر آئے، معاملہ تب خراب ہونا شروع ہوا جب انھوں نے اپنے بیٹے اعظم خان کو ٹیم میں انٹری دلائی،دونوں ہی وکٹ کیپرز ہیں،اعظم بہت محنت کر رہے ہیں۔

گوکہ انھوں نے کچھ وزن کم کیا مگر اب بھی انٹرنیشنل کرکٹر کے لحاظ سے وہ زائد الوزن ہی ہیں، اس وجہ سے فیلڈنگ میں مشکل ہوتی ہے، مگر سرفراز کی موجودگی میں وہ وکٹ کیپنگ بھی نہیں کر سکتے،کوچ نے مرضی کے برخلاف پہلے ہی میچ میں کپتان سے اوپننگ کرا دی اور وہ بڑی اننگز بھی نہ کھیل پائے،اس سے ظاہر ہوگیا کہ معاملات اتنے اچھے نہیں ہیں،بعد میں سرفراز نے ردھم پکڑا اور ایونٹ میں بہتر بیٹنگ کی۔

ٹورنامنٹ کے ٹاپ 10بیٹسمینوں میں 321 رنز کے ساتھ وہ چھٹے نمبر پر رہے، ٹیم کا کوئی دوسرا کھلاڑی200 رنز بھی نہیں بنا سکا، ٹاپ18میں کوئی دوسرا بیٹسمین موجود نہیں، اسی طرح نمایاں 14بولرز میں ڈھونڈنے سے بھی کوئی کوئٹہ کا کھلاڑی نہیں ملتا، سرفراز کو کھلاڑیوں سے اتنی سپورٹ نہ ملی جس کی وجہ سے کئی بار وہ اپنے نیچرل انداز سے نہیں کھیل پائے۔

اعظم خان کی بڑی ہائپ بنائی گئی مگر وہ 10 میچز میں 17 کی اوسط سے 174رنز ہی بنا سکے،ان کی میچ وننگ اننگز کے شائقین منتظر ہی رہے،اعظم کے ٹیلنٹ پر کسی کو شک نہیں مگر ایسے مواقع گنوانا نہیں چاہیئں، نوجوان صائم ایوب کو نام کمانے کا اس سے اچھا چانس کیا ملتا مگر وہ 7 میچز میں 16 کی اوسط سے 114 رنزہی بنا سکے۔

عثمان خان نے ملتان سلطانزکے خلاف اپنے پہلے میچ میں 81رنز کی عمدہ اننگز سے ٹیم کو فتح دلائی مگر پھر کچھ نہ کر سکے،پورے ٹورنامنٹ میں کوئٹہ کا کوئی بولر 10 وکٹیں بھی نہ لے سکا ایسی ٹیم کیسے میچ جیتتی؟ محمد نواز اور محمد حسنین قومی ٹیم میں بھی شامل ہیں مگر دونوں کی کارکردگی مایوس کن رہی،قومی ٹیسٹ اسکواڈ کے رکن زاہد محمود بھی کامیابی کو ترس گئے۔

کراچی میں صرف ایک فتح حاصل کرنے والی ٹیم سے ابوظبی میں بہتر کارکردگی کی توقع تھی مگرآب وہوا بدلنے سے بھی تقدیر نہ بدلی، واحد جیت عثمان شنواری اور خرم شہزاد کی بولنگ نے دلائی مگر اس میں بھی حریف لاہور قلندرز کی اپنی غلطیوں کا اہم کردار تھا، مسلسل 2 برس انتہائی غیرمعیاری کارکردگی ٹیم اونر ندیم عمر کیلیے بھی لمحہ فکریہ ہے، سرفراز بچپن سے ان کے ساتھ ہیں،معین خان سے بھی پرانی دوستی ہے،وہ شاید ہی انھیں تبدیل کریں مگر اب ان دونوں کا ساتھ چلناآسان نہیں لگتا۔

ایک آپشن یہ ہو سکتا ہے کہ اعظم خان کسی دوسری فرنچائز کو جوائن کر لیں اس سے نہ صرف ان پر والد کا پریشر کم ہوگا بلکہ کوچ اور کپتان کو بھی ورکنگ ریلیشن شپ بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ سرفراز کواپنی روایتی جارحیت میں بھی تھوڑی کمی لانا ہوگی۔

بعض اوقات ڈانٹ ڈپٹ کا کھلاڑی بْرا بھی مان جاتے ہیں جس کے بعد ان سے کام لینا آسان نہیں ہوتا، غصہ ضرور کریں مگر ایک حد بنا لیں، دیگر کپتان بھی تو اپنے اوپر کنٹرول رکھتے ہیں سرفراز کو بھی ایسا کرنا ہوگا،اگلے ایڈیشن کیلیے متوازن اسکواڈ کی تشکیل بھی بیحد ضروری ہے، کوئی کھلاڑی برسوں سے آپ کے ساتھ ہے تو ضروری نہیں کہ ہمیشہ رہے گا، اگر اب ماضی جیسا کارآمد نہیں تو اسے تبدیل کر لیں، غیرملکی کرکٹرز کے انتخاب میں نام نہیں زیادہ میچز کیلیے دستیابی اور کارکردگی دیکھیں۔

ماضی میں کئی اچھے کھلاڑی اسکواڈ کا حصہ بنے مگر کوئٹہ نے انھیں بعد میں خود ہی ریلیز کر دیا، آئندہ ڈرافٹ میں کسے برقرار رکھنا اور کسے ریلیز کرنا ہے یہ فیصلہ بھی بیحد سوچ سمجھ کر کریں،بطور ایمرجنگ کرکٹر کسی بیٹسمین کو لینا زیادہ اچھا نہیں رہتا، بولر کو لیں گے تو فائدہ ہوگا جیسے ملتان سلطانز کے شاہنواز دھانی ایونٹ کے بہترین بولر بن گئے۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی فرنچائز شائقین میں بیحد مقبول ہے، ندیم عمر، معین خان، سرفراز احمد اورمنیجر اعظم خان نے اسے کامیاب بھی بنایا مگر بدقسمتی سے اب کارکردگی کا معیار بہتر نہ رہا،ہر ٹیم پر بْرا وقت آتا ہے مگر اس سے باہر نکلنا درست فیصلوں سے ہی ممکن ہوتا ہے۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے بھی جو غلطیاں کیں انھیں نہ دہرایا تو آئندہ سال پھر ٹیم فتوحات کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے، امید ہے ایسا ہی ہوگا، نہ صرف فرنچائز بلکہ پی ایس ایل کیلیے بھی یہ بیحد ضروری ہے تاکہ شائقین کو مقابلوں سے بھرپور کرکٹ دیکھنے کو مل سکے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پرمجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

The post بغیرہتھیاروں کے گلیڈی ایٹرزکیسے لڑتے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3hiU3Mi
via IFTTT

پی ایس ایل، فرنچائزز کی خالی تجوریاں بھرنے کے اقدامات شروع ایکسپریس اردو

 کراچی: پی ایس ایل فرنچائززکی خالی تجوریاں بھرنے کے اقدامات شروع ہوگئے جب کہ نئے فنانشل ماڈل کے معاملات تیزی سے آگے بڑھنے لگے۔

پی سی بی اور پی ایس ایل فرنچائزز میں مالی معاملات پر کافی عرصے سے اختلافات چل رہے ہیں، معاملہ جب گذشتہ برس عدالت پہنچا تو سب کو سنگینی کا اندازہ ہوا، بعد میں مسائل حل کرنے کی سنجیدہ کوششوں کا آغاز ہوا،ٹیم مالکان کا موقف ہے کہ لیگ کے آغاز سے ہی وہ مالی نقصانات کا شکار ہیں،فنانشل ماڈل کو ہر حال میں ٹھیک کرنا چاہیے،پس پردہ بورڈ حکام بھی ان کے موقف سے متفق نظر آتے ہیں۔

وہ تبدیلی پر آمادہ مگر ساتھ یہ خدشات بھی ستا رہے ہیں کہ اگر مستقبل میں حکومت یا بورڈ کی تبدیلی ہوئی توکہیں انھیں نیب اور ایف آئی اے کے سامنے اس حوالے سے پیشیاں نہ بھگتنی پڑ جائیں، نئے ماڈل کو قانونی تحفظ دینے کیلیے مختلف اقدامات ہو رہے ہیں۔

بورڈ ذرائع کے مطابق انگلینڈ روانگی سے قبل گذشتہ دنوں چیئرمین احسان مانی نے وزیر اعظم عمران خان کو بھی فرنچائزز کے تحفظات سے آگاہ کیا تھا، انھوں نے  ریلیف دینے کی صورت میں ممکنہ مسائل کا تذکرہ کیا۔

سرپرست اعلیٰ  نے ’’جوڈیشل ریویو‘‘ کی تجویز دی جس پر پی سی بی نے سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کی خدمات حاصل کر لی ہیں،اس سے قبل ایک بزنس مینجمنٹ کنسلٹنٹ کمپنی ای وائی فورڈ رہوڈز سے معاہدہ کیا گیا جس نے تمام فرنچائزز سے اکاؤنٹس کی تفصیلات حاصل کیں،اس کی رپورٹ ریٹائرڈ جج کو دی جائیں گی جو حتمی تجاویز پیش کریں گے،پھر بورڈ فرنچائزز کو فیصلے سے آگاہ کرتے ہوئے اتفاق کی صورت میں نئے فنانشل ماڈل کو لاگو کر دے گا۔

گذشتہ عرصے تشکیل کردہ تیسرے مجوزہ ماڈل کے مطابق فیس کیلیے 31 دسمبر 2020کا ڈالر ریٹ آئندہ 14برس کیلیے فکسڈ کرنے، اخراجات نکال کرسینٹرل انکم پول میں 7 ارب روپے جمع ہونے یا پی ایس ایل 20 میں سے جو بھی پہلے ہو فیس لینے کا طریقہ کار برقرار رکھنے، اس دوران تمام معاہدوں میں سے92.5 فیصد حصہ فرنچائزز اور باقی7.5 بورڈ کو دینے کا ذکر ہے، اس کے بعد آئندہ 30 برس تک فیس نہیں لی جائے گی مگر تمام معاہدوں میں سے70 فیصد حصہ پی سی بی اور باقی 30 فیصد فرنچائزز کا ہوگا۔

ٹیم اونرز نے چند ماہ قبل ڈالر ریٹ کو پھر فکسڈ کرنے کے حوالے سے بورڈ کو ای میل بھیجی ہے،155 کا نرخ اگلے چند برس کیلیے مختص کرنے کی تجویز دی گئی،اس میں 5 فیصد اضافہ یا کمی ہی ہو سکے گی، ابھی تک انھیں اس کا کوئی  جواب نہیں ملا۔

رابطے پر ایک ٹیم اونر نے کہا کہ پی سی بی ہمارے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہے، خاص طور پر چیئرمین احسان مانی کا رویہ بڑا مثبت نظر آتا ہے، وہ چاہتے ہیں کہ بورڈ اور فرنچائززکے تعلقات مثالی ہوں،اس کے لیے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں،اگر مالی معاملات ایک بار طے ہو گئے تو پی ایس ایل مزید ترقی کرے گی۔

The post پی ایس ایل، فرنچائزز کی خالی تجوریاں بھرنے کے اقدامات شروع appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3hreBlK
via IFTTT

ڈربی میں موجود پاکستانی کرکٹرز کی مشقوں میں تیزی آگئی ایکسپریس اردو

 لاہور: ڈربی میں موجود پاکستانی کرکٹرز کی مشقوں میں تیزی آگئی۔

پہلے روز بارش کی وجہ سے انڈور پریکٹس تک محدود رہنے والے کھلاڑیوں نے منگل کو میدان کا رخ کرتے ہوئے ہاتھ کھولے تھے، بدھ کو بھی مشقوں کا سلسلہ 4 گھنٹے تک جاری رہا۔

کرکٹرز نے وارم اپ سے آغاز کرنے کے بعد جسمانی استعداد بہتر بنانے کیلیے مختلف ڈرلز کیں، فیلڈنگ سیشن کے دوران باؤنڈری کے قریب کیچز اور وکٹوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رہا،نیٹ میں پہلے ٹاپ آرڈر بیٹسمینوں نے نئی گیند کا سامنا کیا، اس کے بعد مڈل آرڈر اور ٹیل اینڈرز نے بھی صلاحیتوں کو نکھارا۔

ہیڈ کوچ مصباح الحق نے انگلش کنڈیشنز میں بہتر کارکردگی کے نسخے بتائے، پیسرز بڑے پْرجوش انداز میں بولنگ کرتے نظر آئے، شاہین شاہ آفریدی اور حسن علی نوجوان پیسرز کی رہنمائی بھی کرتے رہے، اسپنرز نے لائن و لینتھ بہتر بنانے پرکام کیا۔

The post ڈربی میں موجود پاکستانی کرکٹرز کی مشقوں میں تیزی آگئی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3jxd00k
via IFTTT

اسلام آباد میں ملک کا سب سے بڑا اسٹیڈیم بنے گا ایکسپریس اردو

 اسلام آباد:  اسلام آباد میں ملک کا سب سے بڑا کرکٹ اسٹیڈیم بنایا جائے گا جب کہ اسٹیٹ آف دی آرٹ منصوبے کی تکمیل کیلیے پیش رفت کا آغاز ہوگیا۔

وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر اسلام آبا د میں ملک کا سب سے بڑا کرکٹ اسٹیڈیم تعمیر ہوگا، اسٹیٹ آف دی آرٹ منصوبے میں پی سی بی کے زیر اہتمام ہائی پرفارمنس سینٹر قائم ہوگا، ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل میچز کی میزبانی بھی کی جائے گی۔

بورڈ کے سربراہ احسان مانی اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین عامر علی احمد میں اسٹیڈیم کی تعمیر کے حوالے سے معاملات طے پا گئے ہیں، سی ڈی اے کے ڈائریکٹر لینڈ، پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ نے اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں ممکنہ طور پر دستیاب اراضی کا سروے مکمل کرلیا، آئندہ ماہ وزیر اعظم کو رپورٹ پیش کی جائے گی، منظوری کے بعد منصوبہ پبلک، پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت مکمل کیا جائے گا۔

پی سی بی نیشنل ہائی پرفارمنس کے ڈائریکٹر ندیم خان کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ آف دی آرٹ اسٹیڈیم کی تعمیر سے ملک میں کرکٹ کو فروغ حاصل ہوگا، یہ جنوبی ایشا کا جدید ترین سہولیات سے آراستہ وینیو بنے گا۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں نمائندہ ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ منصوبے کے حوالے سے تیزی سے کام جاری ہے، سنگ بنیاد وزیر اعظم رکھیں گے، چیئرمین پی سی بی کی ہدایت پر بورڈ عہدیدار سی ڈی اے حکام سے رابطے میں ہیں، رواں برس فیصل آباد اور پشاور میں بھی ہائی پرفارمنس سینٹرزقائم کیے جائیں گے۔

The post اسلام آباد میں ملک کا سب سے بڑا اسٹیڈیم بنے گا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2UdLdHY
via IFTTT

دورہ انگلینڈ؛ صہیب مقصود بے خوف کرکٹ کھیلنے کیلیے پرُعزم ایکسپریس اردو

 لاہور:  صہیب مقصود نے قومی ٹیم میں کم بیک یادگار بنانے کیلیے بے خوف کرکٹ کھیلنے کا عزم کر لیا۔

صہیب مقصود نے پی ایس ایل میں شاندار کارکردگی کی بدولت قومی ٹیم میں جگہ بنائی، گزشتہ روز ورچوئل پریس کانفرنس میں انھوں نے کہا کہ ابوظبی کی سخت گرمی میں کھیلنے کے بعد اب ہم انگلینڈ کی کنڈیشنز سے مطابقت لانے کی کوشش کررہے ہیں،ہمیں یہاں جتنے بھی دن میسر ہیں ان میں اچھی پریکٹس کرکے بہترین پرفارمنس کی کوشش کریں گے، میں اپنے کم بیک کو یادگار بنانے کے لیے کسی ناکامی کا خوف دل سے نکال کر میدان میں اتروں گا۔

انھوں نے مزید کہا کہ میری ساڑھے 5 سال بعد ٹیم میں واپسی ہوئی، کوشش ہوگی کہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی جگہ پکی کرلوں، پی ایس ایل میں اچھی کارکردگی کے بعد میرے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے، ٹیم کی ضرورت کے مطابق کسی بھی پوزیشن پر کھیلنے کے لیے تیار ہوں، ڈومیسٹک کرکٹ اور پی ایس ایل میں بے خوف ہوکر کھیلا، اسی سوچ کے ساتھ بغیر کوئی دباؤ لیے پاکستان کی نمائندگی کرؤں گا، نیچرل انداز میں کھیل کر ناکام بھی ہوا تو کوئی دکھ ہوگا نہ ہی کرکٹ کا سفر ختم ہونے کا خدشہ ہے۔

صہیب مقصود نے کہا کہ میں انگلش کنڈیشنز سے واقف اور یہاں لیگ کرکٹ کھیل چکا ہوں، اینڈی فلاور ایک زبردست کوچ ہیں، انھوں نے تمام کھلاڑیوں کے ساتھ اپنا تجربہ شیئر کیا،ان کی ہدایات اور مشوروں سے مجھے بھی پرفارمنس میں بہتری لانے کاموقع ملا، کوشش ہوگی کہ پاکستان کی جانب سے کھیلتے ہوئے اسی فارم کو برقرار رکھتے ہوئے توقعات پر پورا اتروں۔

The post دورہ انگلینڈ؛ صہیب مقصود بے خوف کرکٹ کھیلنے کیلیے پرُعزم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3h9DRhK
via IFTTT

فرانس کا یورو کپ سے اخراج،فٹبالرز کی فیملیز آپس میں الجھ پڑیں ایکسپریس اردو

 لاہور:  فرانس کے یورو کپ سے اخراج کے بعد فٹبالرز کی فیملیز آپس میں الجھ پڑیں۔

سوئٹزرلینڈ کیخلاف بخارسٹ میں کھیلے جانے والے میچ کے دوران ہی ایڈرائن کی والدہ ویرونیکا ریبوئیٹ اور ساتھ موجود رشتہ داروں نے پوگبا کی فیملی سے جھگڑا شروع کردیااور جلی کٹی سنائیں۔

میچ ختم ہونے کی وسل بجتے ہی ویرونیکا نے اپنی توپوں کا رخ میباپے کے والد کی طرف کرتے ہوئے کہا کہ اپنے بیٹے کو سمجھاؤ، اس میں بڑا غرور ہے مگر بڑے مواقع پر تو ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

تلخی کی یہ صورتحال نہ صرف اسٹینڈز میں نظر آئی بلکہ پلیئرز آپس میں بھی ایک دوسرے پر ملبہ ڈالنے کی کوشش کرتے رہے،ان کی آپس میں چپقلش بھی جاری تھی، ساتھی کھلاڑی میباپے کے رویے سے خوش نہیں تھے، ہوٹل میں سہولیات اور فیملیز سے ملاقات کا موقع نہ ملنے کے حوالے سے بھی کھلاڑی شکوے کرتے نظر آتے تھے۔

The post فرانس کا یورو کپ سے اخراج،فٹبالرز کی فیملیز آپس میں الجھ پڑیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Uhv9F6
via IFTTT

ومبلڈن ٹینس، انجرڈ سرینا ولیمزنمناک آنکھوں کے ساتھ رخصت ایکسپریس اردو

 لندن: ومبلڈن ٹینس میں سرینا ولیمز نمناک آنکھوں سے رخصت ہوگئیں۔

سرینا ولیمز کو انجرڈ ہونے پرپہلے راؤنڈ میں الیکسینڈرا سیسانوچ کیخلاف میچ ادھورا چھوڑنا پڑگیا، وہ ریکارڈ برابر کرنے کے لیے 24 ویں گرینڈ سلم ٹرافی کی راہ 2017 سے دیکھ رہی ہیں لیکن ومبلڈن میں بھی اس بار یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوپایا۔

سرینا نے پانچویں گیم میں اپنی ٹانگ پر پٹیاں باندھ کر میچ جاری رکھنے کی ناکام کوشش کی لیکن ساتویں گیم میں وہ ایک بار پھر گرپڑیں اور آخرکار ریٹائر ہونا پڑگیا۔

اس موقع پر ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے تھے، سینٹر کورٹ سے واپسی پر شائقین نے نشستوں سے اٹھ کر انھیں خراج تحسین پیش کیا، ویمنز سنگلز کے دیگر میچز میں آلیز کورنیٹ نے 5 سیڈ بیانکا اینڈریسکو کیخلاف کامیابی سمیٹ لی، وکٹوریا آذرنیکا نے کیٹرینا کوزولووا کو واپسی کا راستہ دکھادیا۔

مینز سنگلز میں ٹاپ سیڈ نووک جوکووک نے کیون اینڈرسن کو مات دے کر تیسرے راؤنڈ میں قدم رکھ دیے،نک کریگوئس نے یوگو ہمبرٹ کو مات دی۔

The post ومبلڈن ٹینس، انجرڈ سرینا ولیمزنمناک آنکھوں کے ساتھ رخصت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3qBwd2J
via IFTTT

لاہور میں 266 مرتبہ ٹریفک قوانین توڑنے والی گاڑی پکڑلی، لاکھوں روپے جرمانہ عائد ... کار ڈرائیور نے 180 مرتبہ ٹریفک سگنل، 58 مرتبہ اوور اسپیڈنگ کی خلاف ورزی کی

احسن اقبال نے شہباز شریف سے متعلق بلاول کا بیان بچگانہ قرار دیدیا ... حکومت نے سب منصوبوں کو سفید ہاتھی بنا دیا، تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت کو بجٹ میں اتنے یوٹرن لینے ... مزید

سی پیک کے کسی منصوبے کی تحقیقات نہیں ہو رہیں ... نیب معیشت دوست ادارہ ہے جو زیرو کرپشن پر یقین رکھتا ہے،چیئرمین نیب

اسٹیبلشمنٹ کو علیحدہ کیے بغیر الیکشن اصلاحات کامیاب نہیں ہو سکتیں ... الیکشن اصلاحات کرنا چاہتے ہیں تو رات کے اندھیرے میں آرڈننس نہیں لائے جاتے، بلاول بھٹو

ایران کو قابو میں رکھنے کیلئے فضائی حملے کیے ... حملے کا مقصد صورت حال کو خراب ہونے سے بچانا اور مزید حملوں کو روکنا تھا،امریکی صدر جو بائیڈن

شہریوں کی جانوں کے ساتھ کھیلا جانے لگا،بھارت میں جعلی کورونا ویکسین لگائے جانے کا انکشاف ... فراڈیے اور جعلساز بھارتی عوام کو سیلائن واٹر یا اینٹی بائیوٹکس کے انجیکشن ... مزید

ہڈیوں کے عارضے میں مبتلا بچی کی وزیرِاعظم عمران خان سے مدد کی اپیل ایکسپریس اردو

 کراچی:  تباہ حال غزہ سے تعلق رکھنے والے شہری یوسف حسن نے پاکستانی وزیرِ اعظم اور دیگر شخصیات سے اپیل کی ہے کہ ان کی بیٹی ولاء یوسف کے پاکستان میں علاج میں مدد کی جائے۔

یوسف حسن نے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کہا ہے کہ ان کی بیٹی ہڈیوں کے ایک تکلیف دہ لیکن قابلِ علاج عارضے ’ملٹی پل آرتھروگرائپوسِس‘ کی شکار ہیں۔ اس میں ہڈیوں کی نشوونما رک جاتی ہے اور ہڈیاں مڑنے لگتی ہیں۔ اسی بنا پر ننھی ولاء سخت تکلیف میں ہے۔ وہ اٹھنے، بیٹھنے اور چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہے۔ یہ مرض پیدائشی طور پر ہی حملہ آور ہوتا ہے۔ اس میں کئی آپریشن سے ہڈیوں کے جوڑوں کو درست کیا جاتا ہے۔ مریض کو مختلف فزیوتھراپی سے گزارا جاتا ہے اور علاج سے خاصی حد تک افاقہ ہوجاتا ہے۔

اسی لیے پوری امید کے ساتھ ولاء یوسف کےوالد نے اپنی 15 سالہ بیٹی کے لیے وزیرِ اعظم عمران خان سے مدد کی اپیل کی ہے۔ ولاء یوسف کے والد انتہائی کسمپرسی کے شکار ہیں۔ اول ناکافی وسائل اور دوم جدید طبی سہولیات نہ ہونے کی بنا پر وہ اپنی بیٹی کا فلسطین میں علاج کرانے سے قاصر ہیں۔

 

فلسطین میں ایک جانب تو سادہ انفراسٹرکچر بھی تباہ ہوچکا ہے اور دوم صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہزاروں معصوم فلسطینی بچے کینسر کے شکار ہیں اور ادویہ اور مہنگے علاج سے قاصر ہیں۔ دوسری جانب قابض اسرائیلی افواج نے 14 برس سے غزہ کا محاصرہ کررکھا ہے جس کی بدولت دوا تو درکنار، اشیائے خوردونوش کا کال پڑچکا ہے۔

حال ہی میں ماہِ رمضان میں فلسطین پر وحشیانہ بمباری کی گئی ہے جس سے رہے سہے مکانات اور کاروباری مراکز مٹی کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ اس سے قبل 2017 میں فلسطین پر ہولناک بمباری کی گئی تھی جس  سے 50 فیصد رہائشی مکانات تباہ ہوگئے تھے۔

مظلوم فلسطینی پیچیدہ امراض کے علاج کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں اور بہت مشکل سے مصر تک ہی پہنچ پاتےہیں۔

The post ہڈیوں کے عارضے میں مبتلا بچی کی وزیرِاعظم عمران خان سے مدد کی اپیل appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3dsPi1K
via IFTTT

پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو کی ترک دفاعی صنعتوں کے صدر پروفیسر ڈاکٹر اسماعیل دمیر سے ملاقات

ایمریٹس بزنس ریوارڈز پروگرام پر محدود مدت کے لئے چھوٹے و درمیانی کاروباروں دلچسپ آفر ... پروگرام میں رجسٹرڈ نئے ممبرز زیادہ تیزرفتاری سے فضائی سفر کے لئے 10ہزار بزنس ریوارڈز ... مزید

آج کا دن کیسا رہے گا ایکسپریس اردو

حمل:
21مارچ تا21اپریل

بے شک اس وقت آپ ایک مضبوط پوزیشن اختیار کیے ہوئے ہیں لیکن اپنے اردگرد نظر رکھیں تاکہ کوئی آپ کے خلاف سازش نہ کر سکے۔

ثور:
22 اپریل تا 20 مئی

کھانسی، نزلہ و زکام کی بدولت آج آپ کی طبیعت ناساز ہو سکتی ہے لہٰذا محتاط رہیں مزاج کی تلخی کو بھی کم کر دیں تو زیادہ بہتر ہے۔

جوزا:
21 مئی تا 21جون

اپنے خیالات پر کنٹرول کیجئے کامیابی آپ کے ہمراہ چلے گی لیکن شرط یہ ہے کہ آپ ہمت نہ ہاریں بسلسلہ جائیداد مایوسی کا سامنا ہو سکتا ہے۔

سرطان:
22جون تا23جولائی

آپ کا مخالف میدان سے بھاگتا نظر آرہا ہے جیت آپ کی ہوگی اور یقینا ہو سکتی ہے اس کامیابی کے نشے میں آپ اپنے اچھے ساتھیوں کو ہرگز نہ بھولیں۔

اسد:
24جولائی تا23اگست

محبت کے حالات قدرے بہتر ثابت ہو سکتے ہیں اس نئے کاروبار کو ہرگز نہ بھولیں جو آپ نے دوسروں کے بھروسے شروع کیا تھا لہٰذا شریک کاروبار پر بھی نظر رکھیں۔

سنبلہ:
24اگست تا23ستمبر

چونکہ آپ وفادار ہیں اس لیے دوسروں سے بھی وفا کی ہی توقع رکھتے ہیں جبکہ ایسا ہوتا نہیں لہٰذا ہر ایک پر اعتماد کرنے والی عادت کو ختم کر دیجئے۔

میزان:
24ستمبر تا23اکتوبر

کاروبار آپ کا کوئی بھی ہے ان دنوں آپ کو غیر معمولی ذہانت سے کام لینا ہو گا اور بلاشبہ آپ ایک با صلاحیت انسان ہیں۔

عقرب:
24اکتوبر تا22نومبر

چند رشتہ دار آپ کو آپ کے شریک حیات کے بارے میں بہکا سکتے ہیں بہتر ہے ان کی باتوں میں نہ آیئے ورنہ آپ کے گھر کا رہا سہا سکون بھی برباد ہو جائے گا۔

قوس:
23نومبر تا22دسمبر

اگر آپ نے غلطیاں نہ کیں اور اپنی صلاحیتوں کو حقیقی معنوں میں بروئے کار لے آئے تو پھر یقین کیجئے کہ آپ کے قدموں میں لا تعداد کامیابیاں ڈھیر ہو سکتی ہے۔

جدی:
23دسمبر تا20جنوری

بسلسلہ شادی اپنے والدین کے فیصلے کو بہتر کر لینا آپ کے حق میں بہتر ثابت ہو سکتا ہے غیر شادی شدہ افراد عشق و محبت کے ڈراموں کو حقیقی کردار بنانے کی غلطی نہ کریں۔

دلو:
21جنوری تا19فروری

صدقہ خیرات کرتے رہنا آپ کے لیے کافی بہتر ہے آج کل حالات بالکل بھی آپ کیلئے سازبار نہ ہیں اچھے بھلے دوست بھی مخالفت پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔

حوت:
20 فروری تا 20 مارچ

بسلسلہ تعلیم توجہ کی ضرورت ہے مفت کی دولت ملنے کا امکان ہے سیاسی و سماجی کارکن آج کے دن اپنی سرگرمیوں کو محدود ہی رکھیں تو بہتر ہے۔

The post آج کا دن کیسا رہے گا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3qbNSxv
via IFTTT

Infinix نے 160W کے جدید فاسٹ چارجنگConcept اسمارٹ فون کی رونمائی کر دی ... Infinix نے اپنے پہلےConcept اسمارٹ فون کی رونمائی کر دی جو جدید ٹیکنالوجی اور تخلیقی خصو صیات کا حامل ہے

لیگ اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے، پیپلز پارٹی دیہی سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے، خواجہ فاروق احمد

ایل پی جی کی قیمت میں ایک بار پھر اضافہ ایکسپریس اردو

 کراچی: اوگرا نے ایل پی جی کی قیمت میں ایک بار پھر 19 روپے فی کلو اضافہ کر دیا ہے

اوگرا نے ایل پی جی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔  اضافے کے بعد ایل پی جی کے گھریلو سلنڈر کی قیمت224 روپے اور کمرشل سلنڈر کی قیمت میں 863 روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔

اس بارے میں ایل پی جی انڈسٹریز ایسوسی کے چیئرمین عرفان کھوکھر کا کہنا ہے کہ ایل پی جی کی قیمت میں رواں ماہ  چوتھی بار اضافہ کیا گیا ہے۔ وسم گرما کے دوران پہلی بار ایل پی جی کی قیمت میں اتنا خطیر اضافہ اضافہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 60 فیصد ایل پی جی کی درآمد بہت ضروری ہے، درآمدی ایل پی جی پر ٹیکس ختم کیا جائے تاکہ عوام کو سستی ایل پی جی ملے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ زمینی راستے سے ایل پی جی پر ٹیکس عائد ہونے کی وجہ سے اسے درآمد نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے او جی ڈی سی ایل سمیت دیگر اداروں نے قیمت میں اضافہ کردیا۔

انہوں نے بتایا کہ جام شورو جوائنٹ وینچر ایک سال سے بند ہے، جس کی وجہ سے اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ ہم نے ایل پی جی پر ٹیکس کے خاتمےکے لیے حکومت کو31 جولائی تک کی مہلت دے دی ہے اور اگر ٹیکس ختم نہیں ہوا توپھر ہم ملک گیر ہڑتال کریں گے ۔

The post ایل پی جی کی قیمت میں ایک بار پھر اضافہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3AeMBdN
via IFTTT

ایف بی آر نے تاریخ رقم کر دی، برسوں بعد پہلی مرتبہ ہدف سے اربوں روپے زائد ٹیکس اکٹھا کر لیا ... کل محصولات کا حجم 4700 ارب سے تجاوز کر گیا، گزشتہ سال کے مقابلے میں 700 ارب روپے ... مزید

پیشہ ورانہ مہارت اور فرض شناسی پاک فوج کا طرہ امتیاز ہے، آرمی چیف ایکسپریس اردو

 راولپنڈی: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ پیشہ ورانہ مہارت اور فرض شناسی پاک فوج کا طرہ امتیاز ہے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کا دورہ کیا جہاں انہوں نے نیشنل سیکیورٹی اینڈ وار کورس کے شرکاء سے خطاب کیا۔ اسٹریٹیجک اور بدلتی علاقائی صورتحال پر تفصیلی اظہار خیال کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان ہر سطح پر امن کیلیے کوشاں ہے، پاکستان خطوں کے درمیان پل کا کردار ادا کر رہا ہے۔

آرمی چیف نے کہا کہ افغان مفاہمتی عمل میں پاکستان نے سنجیدہ کردار ادا کیا، افغانستان میں امن کے دشمن خطے میں عدم استحکام چاہتے ہیں، کشمیر کے مسئلے کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق فوری پرامن اور دیرپا حل ہونا چاہیے، مقبوضہ کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کی جدوجہد کی حمائیت کرتے ہیں۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ موجودہ ڈاکٹرائن کو بہتر سے بہتر بنانے کیلیے کوشاں ہیں، مختلف نوعیت کے خطرات سے مؤثر انداز میں نمٹنے کیلئے پرعزم ہیں، پیشہ ورانہ مہارت اور فرض شناسی پاک فوج کا طرہ امتیاز ہے۔

آرمی چیف نے تربیتی اور آپریشنل تیاریوں کو مزید نکھارنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ماڈرنائزیشن اور جدید ٹیکنالوجی اختیار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، بہترین تربیت یافتہ اور متحرک فوج کسی بھی چیلنج سے نمٹ سکتی ہے۔ آرمی چیف نے واضح کیا کہ مسلح افواج اور قوم کے اعتماد کے بندھن کو توڑنے کے خواہشمند ناکام ہوں گے۔

آرمی چیف نے کورس مکمل کرنے والوں کو مبارکباد دی اور افسران کو بہترین مہارتیں اور صلاحیتیں بروئے کار لانے کی ہدایت کی۔ قبل ازیں این ڈی یو پہنچنے پر صدر این ڈی یو لیفٹیننٹ جنرل محمد سعید نے آرمی چیف کا استقبال کیا۔

The post پیشہ ورانہ مہارت اور فرض شناسی پاک فوج کا طرہ امتیاز ہے، آرمی چیف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2UU12DX
via IFTTT

Tuesday, June 29, 2021

اب سے 75 برس پہلے ایکسپریس اردو

ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹمی تجربات کے معاملات ان دنوں ذرا کم کم خبروں میں آتے ہیں، لیکن ایران کے سبب یہ مسئلہ زندہ ہے اور حالیہ ایرانی انتخابات کے بعد یہ ایک بار پھر اخبارکی شہ سرخی بن گیا ہے۔ چند دنوں پہلے کی بات ہے ، جب ایران نے اپنے جوہری پلانٹ تک عالمی تنظیم انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے معائنہ کاروں کو رسائی دینے سے انکارکردیا ہے۔

2015 میں ایران کے دوسرے چھ ملکوں سے امریکا کی علیحدگی پر ہونے والے مذاکرات کھنڈت میں پڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایران کا کہنا ہے کہ وہ ان مذاکرات کو بہت زیادہ طوالت کا شکار نہیں کرسکتا۔ ایران کا موقف ہے کہ ہم اس جوہری سمجھوتے کو بچانے کا پختہ عزم رکھتے ہیں، لیکن امریکا اس کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔

یہ سطریں جب آپ کی نظر سے گزریں گی تو 30جون ہوگی۔ اس تاریخ کی اہمیت کو بیان کرنے سے پہلے، یہ عرض کردوں کہ اس موضوع سے دلچسپی مجھے کم عمری میں کیوں اور کیسے ہوئی۔ یہ بات میں اس سے پہلے بھی لکھ چکی ہوں کہ بچپن میں ایک انگریزی نظم پڑھی تھی جس میں لکھا تھا۔ لندن کی تمام سڑکیں سونے کی ہیں اور دنیا کے تمام راستے لندن کو جاتے ہیں۔

پھر جب پہلی مرتبہ ہندوستان جانا ہوا اور اپنے نانا احسن علی خان مرحوم کی لائبریری میں سیکڑوں کتابوں ، قلمی نسخوں اور مجلد یاد داشتوں کے ساتھ خطوط کے وہ پلندے بھی نظر آئے جو لندن سے بھیجے گئے تھے جو خاندان کے ان نوجوانوں کے لکھے ہوئے تھے جن میں سے کچھ بیسویں صدی کے اختتامی برسوں اور کچھ بیسویں صدی کے آغاز میں حصول تعلیم کے لیے وہاں مقیم تھے تو ان خطوط نے کسی مقناطیسی کی طرح مجھے اپنے طرف کھینچا تھا اور لندن شہر کے نقش و نگار میں کچھ زیادہ ہی دلفریب اور پرکشش رنگ بھر دیے تھے۔

ان میں سے بیشتر خطوط صاحب نانا، یعنی میرے نانا کے چھوٹے بھائی افسر علی خان صاحب کے لکھے ہوئے تھے جو اس وقت حیات تھے۔ صاحب نانا نے اپنے خطوط میں جگہ جگہ برٹش میوزیم لائبریری کا ذکر کیا تھا۔ یہ نام چونکہ میرے لیے بالکل نیا تھا ، اس لیے اس کے بارے میں تجسس بھی بہت ہوا تھا ، چنانچہ میں نے صاحب نانا سے اس لائبریری اور میوزیم کے بارے میں کرید کرید کر پوچھا تھا اور انھوں نے جوکچھ مجھے بتایا تھا وہ کسی ناقابل یقین الف لیلوی داستان سے کم نہ تھا۔

شاید بچپن کی انھی یادوں اور باتوں کا اثر تھا کہ 87ء میں جب میں لندن پہنچی تو دوسرے ہی دن برٹش میوزیم لائبریری کا رخ کیا اور وہاں لائبریری کارڈ حاصل کیا۔ برٹش میوزیم لائبریری آج اس لیے یاد آرہی ہے کہ ایٹمی تجربوں، ان سے ہونے والی تباہ کاریوں اور سارے یورپ میں ایٹمی تجربات کے خلاف کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کا اتفاق مجھے اسی لائبریری کے ذریعے ہوا۔

آج30جون ہے۔ یہ دن ایٹمی تجربات پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کرنے والی تنظیموں کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ آج سے 75 برس پہلے 30جون 1946 کو امریکا نے بکنی آئی لینڈ اور اس کے آس پاس کے جزائر کو اپنے ایٹمی تجربات کی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرنے کا آغاز کیا تھا اور ان جزائر پر بسنے والے انسانوں، ان جنت نظیر جزیروں پر کلیلیں کرنے والے جانوروں، ان پر اگنے والے پیڑ اور پودوں اور ان پر رینگنے والے حشرات الارض کی زندگی کے بارے میں سوچنے کی زحمت نہیں کی تھی۔

یہ تجربات جن کا آغاز30 جون سے ہوا تھا ، پھر ایک روز مرہ کا معمول ہوگئے۔ جون کو ہونے والا تجربہ زمانہ امن میں ہونے والا پہلا ایٹمی تجربہ تھا۔ جون 1946 کے آخری دن اور پھر جولائی میں ہونے والے تجربات اس لیے کیے گئے کہ ایٹمی دھماکے سے ہونے والے نتائج کا اندازہ کیا جاسکے اور بطور خاص بحری جہازوں پر ان دھماکوں کے اثرات دیکھے جاسکیں۔

پچیس میل لمبی سمندری جھیل میں عظیم الشان بحری جہاز ، سرنگ سمیٹ جہاز ، طیارہ بردار جہاز اور آبدوزیں اکٹھی کی گئیں۔ ان جہازوں اور بگتی جزیرے پر ہزاروں کی تعدادمیں بکریاں، سؤر، چوہے ، خرگوش اور دوسرے چھوٹے اور بڑے جانور اکٹھے کیے گئے پھر ایک خوبصورت صبح ان تمام چیزوں کو ایٹمی دھماکے کی نذرکردیا گیا۔ اس مہم کو Cross Road کا نام دیا گیا۔ اس مہم میں بیالیس ہزار افراد نے حصہ لیا۔

30 جون اور یکم جولائی کے ایٹمی تجربات کے بعد 25 جولائی کو دنیا کا پہلا زیر آب ایٹمی دھماکا کیا گیا اور تجربات کا یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ یکم مارچ 1954 کو بکنی جزیرے پر ایک ایسا طاقتورایٹمی دھماکا کیا گیا جس کے نتائج اس لیے بہت تباہ کن ثابت ہوئے کہ جس لمحے ایٹمی دھماکا کیا گیا۔ اس کے چند منٹ بعد ہوا نے اپنا رخ بدل لیا ، جس کے نتیجے میں مہلک تابکار گرد و غبار دو سو چالیس میل لمبے اور چالیس میل چوڑے علاقے میں پھیل گیا اور اس نے تجربے میں حصہ لینے والے 31 امریکی کارکنوں اور ’’رونگی لاپ‘‘ کے 236 باشندوں کو بری طرح متاثرکیا۔

میں آپ کو اس جزیرے کی کہانی سنانا چاہتی ہوں جو سات میل لمبا تھا اور ایک میل چوڑا ، یہ دنیا میں باغ عدن کی تصویر تھا۔ اس میں 82 مرد ، عورتیں اور بچے رہتے تھے۔ یہ لوگ صدیوں سے اس جزیرے پر رہتے آئے تھے۔ یہ ان کے پرکھوں کی زمین تھی، ان کے پاس ان کی کشتیاں تھیں۔ جن میں بیٹھ کر یہ پاس کے دوسرے جزیروں میں اپنے رشتہ داروں سے ملنے جاتے تھے۔ اپنی کشتیوں میں بیٹھ کر یہ مچھلیاں، جھینگے اور گھونگھے پکڑتے تھے۔ انھی کشتیوںمیں نوجوان محبتیں کرتے اور ایک دوسرے کوگیت سناتے تھے۔

پھر ایک روز جب صبح اس جزیرے پر پوری طرح نمودار بھی نہ ہوئی تھی۔ جزیرے پر رہنے والوں میں کچھ جاگ رہے تھے اور کچھ سوتے تھے کہ ساحلی جھیل کے مغربے حصے سے انھوں نے سورج کو بلند ہوتے دیکھا لیکن سورج تو آسمان سے طلوع ہوتا ہے ، پھر بھلا وہ سمندر کے اندر سے کیسے نکل سکتا ہے۔

اس ناقابل یقین منظر نے ان سب کے قدم تھام لیے۔ وہ عالم حیرت میں دیکھتے رہے کہ گول اور ان کے سورج سے کہیں بڑا اور کہیں چمکدار اور کہیں زیادہ گرم سورج ساحلی جھیل کے اندر سے نکلا اور آسمان کی طرف بلند ہوتا چلا گیا۔ پھر وہ سورج پھٹا اور اس کے اندر سے نارنجی رنگ کی ایک مہیب سانپ چھتری بلند ہوئی، پھر اس میں سے ایک اور سانپ چھتری بلند ہوئی اور پھر ایک اور … آسمان کی بلندیوں پر نارنجی سانپ چھتریوں کی سیڑھی بلند ہوتی گئی۔

جزیرے کے لوگ اس سیڑھی کو دیکھ رہے تھے۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کی آبائی داستانوں کے دیوتا اب اس سیڑھی سے اتر کر ان تک آئیں گے لیکن ایسا نہ ہوا۔ فوراً ہی ایک قیامت خیز طوفان نے انھیں آ لیا ، ان کے گھروں کی چھتیں اڑ گئیں، ناریل کے پیڑ ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ کشتیاں ریت میں دھنس گئیں ، پانی کناروں سے ابل کر جزیرے میں پھیل گیا اور پھر اسی لمحے انھوں نے وہ آواز سنی۔ ایسی مہیب آواز جس سے ان میں سے بہتوں کے کان کے پردے پھٹ گئے اور پھر ان پر گرم راکھ برسی اور جس ، جس پر وہ گرم راکھ برسی اس نے تڑپ کر اور ایڑیاں رگڑ کر جان دے دی۔

وہ تین دن تک موت کے ساتھ زندہ رہے اور مرنے کی دعائیں کرتے رہے ، تب چوتھے دن جہازوں میں بھرکر سفید فام سپاہی آپہنچے۔ وہ انھیں اس جزیرے سے لے جانے کے لیے آئے تھے کیوں کہ یہ جزیرہ اب انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ جس زمین پر ان کے پرکھ دفن تھے وہ اب ان کی نہیں رہی تھی ، وہ اب زہر کی زمین ہوگئی تھی۔ وہ اپنی قبریں، اپنے گھر ، اپنے کھیت ، اپنے جانور سب کچھ پیچھے چھوڑ آئے تھے لیکن پھر بھی وہ زہر ان کے ساتھ گیا اور ان کی عورتیں برسوں تک ایسے بچوںکو جنم دیتی رہیں جن کے بدن میں کوئی ہڈی نہیں ہوتی تھی اور جن کے چہرے نہیں ہوتے تھے،جو پیدا ہونے کے چند گھنٹوں بعد مر جاتے تھے کیوں کہ یہ زہر زدہ بچے تھے۔ انھیں ان کے پیدائش سے پہلے ہوس اقتدار میں مبتلا انسانوں نے ڈس لیا تھا۔

یہ وہ لوگ تھے جنھیں انسانوں کی نفرتوں اور انسان کی خباثتوں کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہ تھا اور پھر وہ دنیا کے پہلے زیر آب ایٹمی دھماکے کا نشانہ بنے۔ یکم مارچ 1954کو ہونے والے اس پہلے زیر آب ایٹمی دھماکے اور تیس جون 1946کو حالت امن میں  ہونے والے پہلے زمینی دھماکے میں آٹھ برس کا فرق ہے۔ لیکن یہ وہی تسلسل ہے یہ وہی نقطہ نظر ہے کہ جس کے تحت بڑی طاقتیں انسانوں اور دنیا کے ماحول کے بارے میں سوچے بغیر فیصلے کرتی ہیں احکامات صادرکرتی ہیں اور ان کے احکامات انھیں انسانوں کو تباہ کردینے کی بھیانک طاقت عطا کرتے ہیں اور کمزور و بے بس اقوام اور ملکوں سے جینے کا اختیار چھین لیتے ہیں۔

بکنی کا جزیرہ اور اس کے آس پاس کے جزیرے بحرالکاہل میں واقع ہیں اور ’’مارشل جزائر‘‘ کے نام سے پہنچانے جاتے ہیں۔ 1947 سے یہ باقاعدہ طور پر امریکا کے زیر انتظام ہے اور یہ بکنی کا بدبخت جزیرہ ہے جس پر 1956 میں امریکا نے ہائیڈروجن بم گرایا اور اس جزیرے کو یہ ’’ شرف ‘‘ عطا کیا کہ ہائیڈروجن بم کا پہلا دھماکا بھی اسی پر ہوا۔

آج بھی لوگوں کو بار بار بتانے کی ضرورت ہے کہ ایٹمی ہتھیار خوبصورت، پرکشش اور مہنگے کھلونے نہیں جنھیں خرید کر یا جنھیں اپنی زمین پر تیار کرکے اپنے ہتھیار خانوں میں رکھ لیا جائے اور پھر ان پر ناز کیا جائے۔ یہ انسانیت کو ڈسنے والے وہ مہیب اژدھے ہیں جن کی پھنکار فاتح و مفتوح دونوں کو جلا کر بھسم کرسکتی ہے اور جن کا زہر دو چار اور دس پانچ برسوں تک نہیں، صدیوں تک ہماری زمین کی رگوں تک پھیلا رہے گا اور اسے بانجھ رکھے گا۔ کیا اب بھی ہمیں اس بارے میں کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں؟

The post اب سے 75 برس پہلے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2TchQFR
via IFTTT

انسانی حقوق کی پامالی کا ایک اور سال ایکسپریس اردو

ایچ آر سی پی نے اپنی سالانہ رپورٹ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہارکیا ہے۔ ایچ آر سی پی کے شریک چیئر پرسن اسد اقبال بٹ، سندھ کے وائس چیئر پرسن قاضی خضر اور سابق چیئرپرسن زہرہ یوسف نے 2021 میں رپورٹ کے اجراء کے وقت کہا کہ گزشتہ سال کورونا وائرس نے تباہی مچائی۔

وفاقی حکومت نے ایک مربوط حکمت عملی کے لیے NCOC قائم کی۔مگر اس ادارے کی کارکردگی زیادہ متاثرکن نہیں رہی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے پوری دنیا میں SOPs پر عمل درآمد کیا گیا، مگر وفاقی حکومت ان SOPs پر مکمل عمل درآمد میں سنجیدہ نظر نہیں آئی۔ مذہبی اداروں اور مذہبی جلسوں میں ان SOPs پر عملدرآمد نہیں کرایا گیا۔ اسد بٹ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے لاک ڈاؤن کی مخالفت کی تھی ، اگر وائرس نامعلوم وجوہات کی بناء پر کمزور نہیں ہوتا تو پاکستان میں بھارت سے بھی زیادہ بدترین حالات ہوتے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال بھی میڈیا کا بحران جاری رہا۔ اس بحران کے نتیجے میں کئی ہزار میڈیا ورکرز بے روزگار ہوئے ، معاشی بحران کے دباؤ کی بناء پر کئی نوجوان صحافی جاں بحق ہوئے اور بہت سے ذہنی دباؤ ، بلڈ پریشر اور شوگر جیسی بیماریوں میں مبتلا ہوئے۔ اسد بٹ نے اس بحران کی براہِ راست ذمے داری حکومت پر عائد کی۔

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ چاروں صوبوں میں منتخب بلدیاتی اداروں کا وجود نہیں ہے۔ پنجاب حکومت نے بغیر کسی جواز کے بلدیاتی اداروں کو ان کی مدت پوری ہونے سے پہلے توڑ دیا، صرف سندھ میں بلدیاتی اداروں نے اپنی آئینی معیاد پوری کی۔ سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کے بلدیاتی اداروں کو توڑنے کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیا مگر حکومت  پنجاب نے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر عملدرآمد نہیں کیا اور بلدیاتی ممبرز نے اپنے دفاتر کو واپس لینے کی کوشش کی تو پولیس نے تشدد کا راستہ اختیارکیا۔

سندھ میں حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے تیار نہیں ہے۔ سندھ کا بلدیاتی اداروں کا قانون اتنا ناقص ہے کہ منتخب اداروں کے پاس کوڑے، سیوریج اور صفائی کے اختیارات نہیں، جس کے نتیجہ میں سندھ کے کوڑے کا مسئلہ اب بین الاقوامی شہرت اختیار کرچکا مگر حکومت سندھ پیپلز پارٹی کے اساسی دستاویز میں درج حقوق کو تسلیم کرنے اور ان پر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہی ہے۔

ملک میں مجموعی طور پر تعلیم کا شعبہ پسماندہ ہے۔ سندھ کے وزیر تعلیم کا دعوی ہے کہ سندھ میں35 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے ۔ ایچ آر سی پی سندھ کے وائس چیئرمین قاضی خضر کہتے ہیں کہ حقیقی طور پر سندھ میں 70 سے 80 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔ یہی صورتحال باقی صوبوں کی ہے۔

چاروں صوبائی حکومتوں نے بچوں کو چائلڈ لیبر سے بچا کر اسکول میں داخلے دلوانے کے لیے وہ اصلاحات نہیں کیں جو پہلے امریکا اور یورپی ممالک نے بچوں اور ان کے والدین کے لیے اسکول میں داخلوں کے عمل کو پرکشش بنانے کے لیے نافذ کی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک خواندگی کا تناسب صد فی صد نہ ہوسکا اور آج بھی کئی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال چاروں صوبوں میں سیاسی کارکنوں کے اچانک لاپتہ ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ انسانی حقوق کی وفاقی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری کا کہنا ہے کہ شہریوں کو لاپتہ ہونے کو فوجداری جرم قرار دینے کے لیے مسودہ قانون کو قانون میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے مگر بعض عناصر اس بل کے حق میں نہیں۔ اسد بٹ اور قاضی خضر نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قانون سازی انتہائی ضروری ہے۔

فوری طور پر مکمل کرنے اور مجوزہ قانون کو عملی طور پر نافذ کرنے پر زور دیا ہے۔ایچ آر سی پی کی اس رپورٹ میں غیر مسلم پاکستانیوں کی لڑکیوں کی زبردستی مذہب کی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو تشویش ناک قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں تحریرکیا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس مسئلہ کاجامع حل نکالنا چاہیے ۔ پاکستان کے آئین میں غیر مسلم پاکستانیوں کے حقوق کا مکمل تحفظ موجود ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی آئین کے تحفظ اور آئین کی ہر شق پر عملدرآمدکی ذمے داری ہے۔

ایچ آر سی پی کے رہنماؤں کا مدعا ہے کہ چاروں صوبوں میں کم از کم اجرت کا قانون تو نافذ ہے مگر اس قانون پر ملک کے کسی علاقے میں عملدرآمد نہیں ہوتا۔ رپورٹ کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مختلف محکموں اور خود مختار اداروں میں کم از کم اجرات کے قانون پر عملدرآمد نہیں کرایا جاتا۔ چاروں صوبائی حکومتوں نے کم از کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد کے لیے کارآمد میکنزم نہیں بنایا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کارکنوں کو ملازمت کی 3 ماہ مدت مکمل ہونے پر مستقل کرنے کے قانون پر عملدرآمد کرانے کو تیار نہیں ہیں۔

تمام حکومتیں کارکنوں کو معاہداتی بنیادوں پر ملازمت دینے یا تھرڈ پارٹی جیسی غیر قانونی پریکٹس کے خاتمہ کے لیے قانون سازی پر آمادہ نہیں ہیں۔ سندھ میں باؤنڈ لیبر کا مسئلہ کسی نہ کسی صورت ختم ہوتا جارہا ہے۔ اگرچہ حکومت نے بھٹوں میں کام کرنے والی خواتین کی بہبود کے لیے جامع قانون سازی کی ہے، ایسی ہی قانون سازی چاروں صوبوں میں ہونی چاہیے۔

انسانی حقوق کے کارکن، وزیر اعظم عمران خان کے فحاشی کے حوالہ سے ٹی وی انٹرویو میں دیے گئے ریمارکس کو خواتین کی توہین قرار دے رہے ہیں۔ اسد بٹ ، خضر قاضی اور زہرا یوسف کا متفقہ مؤقف ہے کہ وزیر اعظم عمران خان خواتین کو اپنے ریپ کا ذمے دار قرار دے کر قرون وسطیٰ کی ریاستوں کی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان رہنماؤں کا مدعا ہے کہ ریپ کے بیشتر واقعات میں غریب خواتین متاثر ہوتی ہیں۔ ریپ کرنے والے مرد ایک خاص قسم کے نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔

یہ مرد صرف خواتین کو ہی نہیں بلکہ بچوں کو بھی نشانہ بناتے ہیں۔  اس کی سیکڑوں مثالیں ہیں۔ عمران خان کے اس انٹرویو سے ایسے نفسیاتی مریضوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ تحریک انصاف میں شامل باشعور رہنماؤں کو اپنے قائد کے اس بیان کا نوٹس لینا چاہیے۔ یہ محض ایک سیاسی جماعت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملک کی آدھی سے زائد آبادی کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کا مسئلہ ہے۔

پاکستان انسانی حقوق کے بین الاقوامی انڈیکیٹرزمیں خاصا پیچھے ہے، جو ریاست انسانی حقوق کا تحفظ نہیں کرتی اس ملک کے عوام اور ریاست میں فاصلے بڑھتے ہیں جس کے نتیجہ میں ترقی کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ زندگی کا حق، تعلیم اور صحت حاصل کرنے کا حق جب پامال ہوگا تو لوگ محنت سے منہ چرائیں گے اور جس کے نتیجہ میں پیداوار پر فرق پڑے گا اور غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد اضافہ ہوگا اور ترقی یافتہ قوموں کو انسانی حقوق کی پامالی کے ذمے داری ریاستوں کو کنٹرول کرنے کے مواقع ملیں گے اور ہمارا ملک پسماندگی کا شکار رہے گا۔

The post انسانی حقوق کی پامالی کا ایک اور سال appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3dsweAA
via IFTTT

عشق بیچارہ! نہ واعظ ہے، نہ ملا ،نہ حکیم ایکسپریس اردو

نام تو اس کاکچھ اورہونا چاہیے لیکن نام رکھنے کااختیار بھی اس کے پاس ہے، اس لیے خود کو ’’اشرافیہ‘‘کہتی ہے جس طرح انسان نے خود ہی خود کوحیوانات میں ’’فیلڈمارشل‘‘کا عہدہ دے رکھا ہے ورنہ حقیقت دیکھی جائے اورفیصلہ اعمال کی بنیاد پر ہوتو نہ تو انسان کے لیے اشرف المخلوقات کاٹائٹل درست ہے اورنہ ہی اس بقلم خود اشرافیہ کا۔ مشہورکہاوت ہے، نام زنگی نہد کافور،زاغ کی چونچ میں انگور اورحوردر پہلو لنگور،سارے انسان مل کربھی یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ انھوں نے دنیا کو ، باقی حیوانات کو ، دھرتی ماں کو یا خود انسانوں کوکوئی ایک بھی فائدہ پہنچایا ہو۔

جانور پالتا ہے تو اپنی غرض کے لیے، دھرتی کو پارہ پارہ اورغار غار کرتا ہے تو اپنے لیے ،کوئی تعمیریاکوئی ایجاد کرتاہے تو صرف اپنے لیے، اچھے بھلے آزاد حیوانات کو پکڑ کر یاتو غلام بناتاہے یا ہڑپ کرت اہے یا ان کا کوئی اور فائدہ،دودھ انڈے وغیرہ چھینتا ہے۔

اچھی بھلی صاف ستھری زمین ،پانی ،ماحول اور سب کچھ کو گندہ کرتاہے، درخت، پودے ، پھل پھول اورہمہ روئیدگی کاٹتاہے، جلاتاہے اوربرباد کرتا ہے، کوئی ایک بھی ایسی مثال پیش نہیں کرسکتا کہ اس نے محض شرافت کامظاہرہ کرکے کسی حیوان بلکہ جمادات تک کے ساتھ کوئی بھلائی کی ہو۔

اوراشرافیہ؟،جی ہاں! شرافت کی یہ فیلڈمارشل تو اس اشرف المخلوقات کی بھی ’’اشرافیہ‘‘ ہے۔ گویا اسی دودھ کی بالائی اوراس پیڑکا میوہ ہے۔تو بھلا اس سے کسی بھلائی کی توقع کرنا پتھر سے تیل اوربھینسے، بیل سے دودھ کی توقع کرناہے۔ یہ ہمہ صفت، موصوف اشرافیہ جو دنیا اورانسان کے پندرہ فی صد ہونے کے باوجود پچاسی فی صد وسائل ہڑپتی ہے، ایک عجیب بلکہ عجوبہ عجائب قسم کی چیز تو ہے لیکن ’’غریب‘‘بالکل نہیں ہوتی بلکہ غربت پیداکرنے کی مشین ،کارخانہ یاکھیتی ہے۔

اگر آج ہی کوئی اس کم بخت کو ختم کر ڈالے تو دنیا میں غربت کانام ونشان نہ رہے۔لیکن عجب اس لیے ہے کہ یہ وہ چیزہے جو ہوتی بھی ہے اورنہیں بھی ہوتی، ہرہرمقام پر جلوہ گر بھی ہے اورغائب ازنظر بھی ہے، یہ نر ہے نہ مادہ لیکن نر بھی ہے اورمادہ بھی ،کہنے کویہ زندہ بھی ہے اورمردہ بھی ،بلکہ ہرچند ہے کہ نہیں ہے، رہے سامنے اوردکھائی نہ دے،یہ جو کہتی ہے وہ کرتی نہیں اورجو کرتی ہے وہ کہتی نہیں ہے،یہ جب ہنستی ہے تو لوگوں کو رلاتی ہے،صرف رلاتی ہے، ہنساتی کبھی نہیں،اور اگر کبھی ہنسابھی لے تووہ رلانے سے زیادہ درد ناک ہوتی ہے،اس کی خوشی دوسروں کے غم سے نکلتی ہے اوردوسروں کی خوشی سے اسے غم پہنچتا ہے لیکن اتنی کھلاڑی ہے کہ دیوار کی طرح اس غم کی گیند کو اوربھی زورسے دوسروں کے کورٹ میں پہنچاتی ہے ۔

یہ وہ گوالاہے جو گائے کو جی بھر کر دوہتا ہے اورجب اس گائے کے اپنے بچھڑے یہاںوہاں گھاس میں چرکر بیل بن جاتے ہیں تو ان کے لیے بھی الگ سے جوئے (یوک) تیار رکھتی ہے۔

ویسے یہ کبھی کبھی ’’نیک‘‘بھی ہوجاتی ہے۔ اپنے ’’خون پسینے‘‘ سے کمائی ہوئی دولت کو خیرات  میں زکواۃ میں اورلنگرخانوں میں غریب غربا کو مفت کھلاتی ہے،محض’’ثواب‘‘ کے لیے ؟اس ثواب کے لیے کہ اگر بھوکے مرجائیں تو اس کے لیے کمائے گا کون؟

سنا ہے انصاف بھی کرتی ہے اوربہت کمال کا انصاف کرتی ہے، جب چڑیوں میں ان بن ہوجاتی ہے تویہ بلی کا جذبہ انصاف اورخیرسگالی لے کر آگے بڑھتی ہے اوردونوں کو کھالیتی ہے کہ کہیں جھگڑا بڑھ نہ جائے اوروہ ایک دوسرے کو زخمی نہ کردیں۔

یہ وہبلا ہے جس کی ’’بوہی بو‘‘ ہے، آدمیت کہیں نہیںاوروہ بویابدبو اتنی تیز ہے کہ دوردورتک زہرکی طرح ہواؤں میں پھیل جاتی ہے اور نسل انسانی کو بے دم کردیتی ہے، یہ کورونا بھی شاید اسی اشرافیہ کی بدبو ہے جو سب کچھ ہے لیکن اشرافیہ بالکل نہیں ہے۔کسی بزرگ نے بھی کہاہے کہ شریف اور پرہیزگار وہ ہے جو شریف اور پرہیز گار بالکل نہ ہو، باقی سب کچھ ہو۔ فریدہ خانم نے بھی کہاہے جو ہمیں پورایاد نہیں آرہاہے لیکن کچھ یوں ہے کہ ۔

سب کچھ ہے کچھ نہیں ہے یہ حالت بھی خوب ہے

رذالگی کا نام شرافت بھی خوب ہے

سب سے بڑی اورآخری بات یہ کہ آج تک کسی نے بھی اسے نہ دیکھا ہے نہ پہچاناہے کیوں کہ بھیس بدلنے میں بھی اس کاکوئی ثانی نہیں۔

عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے

عشق بیچارہ! نہ واعظ ہے، نہ ملا ،نہ حکیم

The post عشق بیچارہ! نہ واعظ ہے، نہ ملا ،نہ حکیم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3h2yArY
via IFTTT

پاکستانیت ایکسپریس اردو

آج پاکستان امریکا کے لیے دوست نہیں، شاید ناپسندیدہ ملک ہے جہاں امریکا کی خود ساختہ اصطلاح کے مطابق دہشت گرد پلتے اور جوان ہوتے ہیں اور پھر تربیت پاکر دنیا بھر میں دہشت گردی کرتے ہیںحالانکہ بیس برس پہلے گیارہ ستمبر کو امریکا کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا، اس میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا۔

پاکستان کے چند ایک قصورایسے ہیں جو بہت واضح ہیں ایک تو یہ کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا جانے والا واحد اسلامی ملک ، دوسرا ایٹمی طاقت کا حامل ہونا اور تیسرا دنیا بھر کے ملکوں میں اسلام کی تبلیغ بھی پاکستان سے ہوتی ہے، یہی وہ قصور ہیں جو امریکا کی نظر میں ناقابل معافی ہیں اور اس کمزور معیشت والے ملک کی کمر توڑنا بہت ضروری سمجھی جاتی ہے تاکہ یہ زندگی بھر محتاج رہے اور دنیا سے بھیک مانگ مانگ کر گزرا کرے۔

سیاست مقامی ہویا عالمی اس کا مزاج ایک ہی ہوتا ہے ۔ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، آج کی اگر بات کی جائے تو سیاست کی آنکھوں میں حیا بھی نہیں ہوتی۔ ہم سیاست کی اس کے نمونے اپنی سیاست میں دیکھتے رہتے ہیں ۔ ہماری حد تک امریکا نے ایک بار پھر آنکھیں ماتھے پر ہی نہیں رکھیں بلکہ انھیں سرے سے ہی غائب کر دیا ہے ۔

ایف اے ٹی ایف نے صرف ایک ہدف کی کمی پر پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے سے انکار کر دیا ہے جو اس بات کو واضح کرتا ہے امریکا کو پاکستان کی خود مختاری کے بیانات ناپسند ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے امریکا کی جانب سے ڈور مور سے انکار کر کے برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے پر زور دیا ہے۔ جناب وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ پچھلی حکومتوں نے وہ مطالبات بھی پورے کرنے کی کوشش کی جو ممکن نہیں تھے اور یہی وجہ ہے کہ امریکا ایک بار پھر ڈو مور کا مطالبہ کر رہا ہے۔

امریکا کے ہاں پاکستان کے لیے کوئی رعایت نہیں ہے ۔ یہ بات بھی واضح ہو چکی ہے کہ افغانستان میں امریکا کی کامیابی کل بھی پاکستان کے مرہون منت تھی اور آج افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا بھی پاکستان کا محتاج ہے۔ امریکی پاکستان کی جانب سے کبھی انکار کے عادی نہیں رہے، جب بھی امریکا نے اپنے مفادات کی خاطر دوستی کا مطالبہ کیا تو ہم ایک لمحہ کا توقف کیے بغیر ہر قسم کے تعاون پر آمادہ ہو گئے ۔

خود سپردگی کے اس فوری اور والہانہ انداز میں امریکی بھی حیرت زدہ رہ گئے ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ امریکا کے ساتھ تعاون کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے اور امریکا نے ہمیشہ ہماری قیمت لگائی ہے جب کہ اکثر اوقات تو ہم نے اپنی قیمت وصول کیے بغیر اپنا آپ امریکیوں کے سپرد کر دیا ۔

اس وقت پھر وہی مرحلہ درپیش ہے اور امریکا افغانستان سے سے فوجیں واپس بلا رہا ہے لیکن وہ پاکستان کو ہمیشہ کی طرح زیر اثر رکھنا چاہتا ہے تا کہ اس خطے میں اس کے مفادات کا تحفظ یقینی بن سکے۔ گو بھارت اس کا اصلی دوست ہے جو اس خطے میں امریکا کے مفادات کے تحفظ کی خاطر اپنے قدم جمائے ہوئے ہے لیکن پاکستان کی جغرافیائی حیثیت اسے بھارت سے منفرد اورممتاز کرتی ہے، اس لیے امریکا ہر قیمت پر پاکستان کو اپنا ’’دوست ‘‘ بنائے رکھنا چاہتا ہے۔

اس وقت امریکا کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ آن پڑی ہے کہ پاکستان کی حکومت کی باگ دوڑ عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔ انھوں نے امریکا سے جب بھی بات کی، اس کی آنکھوں میں آنکھیںڈال کر کی ہے، چاہے وہ امریکا میں پاکستانیوں سے خطاب کر رہے ہوں یا جنرل اسمبلی میں ان کا مخاطب دنیا بھر کے لیڈر ہوں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی جرات بھی آج کے پاکستانی حکمران کے حصے میں آئی ہے۔

وہ صحیح اور معروف معنوں میں پاکستانیت کو فروغ دینے کی بات کر رہے ہیں۔ انگریزی بولنا اور انگریزی کپڑے پہننے کو وہ احساس کمتری گردانتے ہیں اور اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ دنیا اسی کی عزت کرتی ہے جو اپنی عزت کرے۔

مجھے یہ علم تو نہیں عمران خان کب تک پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کے حامل رہیں گے البتہ یہ بات ان کے کریڈٹ پر جاتی ہے کہ وہ کبھی کبھار کوئی ایسی بات کر جاتے ہیں جو ان کے دل کی آواز ہوتی ہے جسے پاکستانی عوام پسند کرتے ہیں اور ان کی پاکستانیت کی یہی باتیں حکومت کی گرتی ساکھ کے سہارے کا باعث بن جاتی ہے ۔بہر حال پاکستانیت کو فروغ دینا اور پاکستانیت کی بات کرنا آج کل ایک جہاد کے زمرے میں آتا ہے ۔ اب یہ ہمارے لیڈروں پر منحصر ہے کہ وہ پاکستان اور اس کے عوام کو کون سی زندگی بسر کرنے دینا چاہتے ہیں۔

ہمیں ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو خالصتا ً پاکستانی ہو جس کے دل میں پاکستان ہو، جس کے اہل و عیال اور عزیز واقارب کی زندگی صرف پاکستان کے ساتھ وابستہ ہو۔ ایسا لیڈر کوئی درویش ہی ہو سکتا ہے اور ابھی تک ہمیں اپنے لیڈروں میں کوئی درویش منش اور فقیر لیڈر نظر نہیں آتا۔درویشی اور پاکستانیت کایہ فیصلہ ہمارے لیڈروں نے خود کرنا ہے اور ہم عوام تو اپنے لیڈروں کے وعدوں پر ہمیشہ لبیک کہتے آئے اور آیندہ بھی کہتے رہیں گے۔ وماعلینا اللبلاغ ۔

The post پاکستانیت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3jt4lw8
via IFTTT

معاشی بریک تھرو ناگزیر ایکسپریس اردو

ملکی معیشت کو حکمرانوں کی نظر سے دیکھیں تو سب اچھا کی نوید ہے۔جب کہ متوسط اور غریب طبقے کی آنکھوں سے دیکھیں توحالات گراؤٹ کا شکار نظر آتے ہیں۔

گیس کی بندش، پٹرولیم مصنوعات مہنگی، بجلی کے بل برداشت سے باہر، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی فیسیں، اشیاء ضروریہ کی مہنگائی برداشت سے باہر۔ اس صورتحال سے عوام کو شدید ذہنی دباؤ کا سامنا ہے مگر اس سے حکومت کے انداز حکمرانی بلکہ انداز بے نیازی میں رتی برابر فرق نہیں آیا، عوام نے کہرام برپا کر رکھا ہے۔

اپنے مسائل اور مطالبات کے اظہار میں شدت جذبات، فرسٹریشن اور بے بسی جس سطح پر نظر آئی وہ ملک میں بیروزگاری، مہنگائی اور غربت کے ایک مہیب منظرنامہ کی عکاسی کرتی ہے، عوام کے دکھ شیئر کرنے والا کوئی نہیں، حقیقت پسندی شاید  حکمرانوں کے لیے جمہوری رویوں کا کوئی مسئلہ ہی نہیں، کے پی کے ایک سیاست دان کا کہنا تھا کہ ملک میں قطعی کوئی مہنگائی نہیں، وہ ایک نئی منطق لے آئے کہ اگر مہنگائی نہیں ہوگی تو معیشت کا پہیہ کیسے چلے گا، حیرت ہے کہ مہنگائی سے انکاری حکمران اپنے سیاسی تنازعات میں الجھے  ہوئے ہیں۔

میڈیا ایک سیاسی بیانیہ کے گرد گھوم رہا ہے، حکومت خطے کی سیاست کے نشیب و فراز میں اس بات کو فراموش کرچکی کہ غربت، مہنگائی اور بیروزگاری نے عوام کو اعصابی طور پر نڈھال کر دیا ہے، اس کے بازو بھی شل ہیں اور ذہن بھی مفلوج، غریب آدمی نان شبینہ کو محتاج ہوگیا ہے، ایک مزدور، دیہاڑی دار، راج مستری، چھوٹا بلڈر، کسی دکان پر بارہ پندرہ سو روپے ماہوار کی ملازمت کرنے والے کے لیے ایک دن کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہیں، چائے پراٹھا کے دام بڑھ گئے، تھڑے پر ملنے والی چائے کا کپ تیس روپے کا ہوگیا ہے۔

چوبیس روپے کلو میں فروخت ہونے والا ٹماٹر مارکیٹ میں عید الاضحی سے پہلے ہی سو روپے میں بک رہا ہے، مسالے مہنگے، دالیں، سبزیاں، ادرک، پیاز، دارچینی، الائچی، سونف، مچھلی، بیکری آئٹمز، جوسز، کیک، پیسٹریز، سموسے، کٹلس، پکوڑے اور فٹ پاتھ پر تلی ہوئی مچھلی کے دام آسمان سے باتیں کر رہے ہیں، دودھ ، دہی اورلسی مہنگی ہے۔ ایک زمانہ تھا، غریب آدمی گھر سے نکلتا تو صبح، دوپہر کو کسی چھوٹے ہوٹل سے پیٹ بھر کر کھانا کھا لیتا تھا اور اسے کراچی بندہ نواز اور سستا شہر لگتا تھا، لیکن آج وہی کراچی دنیا کا مہنگا ترین شہر بن گیا ہے۔

انسانوں کا سمندر ہے اور کنکریٹ کا جنگل ہے، کوئی خاتون خانہ ایسی نہیں ملے گی جو مہنگائی کے ہاتھوں تنگ نہ ہو، کاروبار ٹھپ، تاجر پریشان، نان، ڈبل روٹی کے ریٹ ہوشربا، گنے کا رس سستا ترین مشروب تھا، آج گرمیوں میں اس کے دام تیس روپے فی گلاس جب کہ بڑی دکانوں پر اسے خوبصورت گلاس، اسٹرا اور ریپر کے بعد ساٹھ یا ستر روپے میں پیش کیا جاتا ہے، غریب اور متوسط طبقہ مٹن کو بھول گیا ہے، بیف اور چکن بھی اس کی جیب پر بھاری پڑ رہا ہے۔

بیکری، ہو یا دکان اور محلے کی مارکیٹیں سب عوام کی جیبیں خالی کراتی ہیں، ہر طرف مہنگائی، افلاس اور مجبوریوں کے قصے ہیں۔ ایک ملک گیر معاشی مس مینجمنٹ پر عوام کے دل کی بھڑاس نکال سکتی ہے، لوگ اقتصادی ترقی، ڈالروں کی برسات  جیسے بیانات سنتے ہیں اور اپنے شب وروز سے کرتے ہیں تو انھیں افسوس ہوتا ہے کہ ارباب اختیار زمینی حقائق سے کس قدر بے بہرہ ہیں، یا اتنے سنگ دل اور بے حس ہیں کہ انھیں پتا ہی نہیں کہ ملک میں غریب خانے، مسافر خانے، مفت کھانے کھلا کر ملکی معیشت یا اقتصادی نظام کے مضبوط قلعے نہیں بنا ئے جاسکتے، باتیں تو حکمران غربت کے خاتمہ اور ایشین ٹائیگر بننے کی کرتے ہیں لیکن اپنے عوام کو معاشی آسودگی نہیں دے سکتے، مہنگائی کے لیے جس ٹائیگر فورس کو لائے تھے، اس کا کسی کو علم نہیں ہے کہ کہاں گئی ٹائیگر فورس۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت نے 3سال میں مشکل حالات کا سامنا کیا، مہنگائی ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے، تاہم اس پر بہت جلد قابو پا لیں گے، کمزور طبقے کو ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، مشکل دور گزر گیا، آگے بہتری اور اصلاحات نظر آئیں گی، انھوں نے ان خیالات کا اظہار پیر کو ارکان پارلیمنٹ کے اعزاز میں دیے گئے عشائیہ سے خطاب میں کیا، عشائیے میں ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق)، جی ڈی اے سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کے اراکین اسمبلی نے شرکت کی، اس موقع پر وزیر اعظم نے شرکاء سے مختصر خطاب میں کہا کہ مشکل حالات میں ملک چلا رہے ہیں۔

حکومت نے 3سال میں مشکل حالات کا سامنا کیا، پاکستان کھانے پینے کی اشیا بھی درآمد کر رہا ہے، گندم اور دالیں بھی امپورٹ کرنا پڑ رہی ہیں، ہم اب زرعی شعبے کی ترقی کے لیے پیکیج لا رہے ہیں، کسانوں کو منڈیوں اور صارفین سے جوڑنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، امید ہے کہ ملکی معاشی حالات اتحادیوں کی سپورٹ سے بہتر بنا لیں گے، اتحادیوں نے ہر مشکل وقت میں حکومت کا بھرپور ساتھ دیا ہے اور آج بھی ان کی شرکت باعث تحسین ہے۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کی جانب سے کورونا پابندیوں میں مزید نرمی کر دی گئی ہے۔ سربراہ این سی او سی اور وفاقی وزیر اسد عمر کی زیر صدارت نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا اہم اجلاس ہوا۔ جس میں کورونا صورتحال اور این پی آئیز کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ شادی کی تقریب آؤٹ ڈور 400 افراد کی گنجائش سے کرنے کی اجازت ہوگی۔

200 تک ویکسینیٹڈ افراد ان ڈور شادی کی تقریب میں شریک ہوسکیں گے۔ کاروباری مراکز کی ٹائمنگ رات 10 بجے تک کرنے کا فیصلہ، آوٹ ڈور ڈائن ان کی اجازت، ان ڈور پر 50 فیصد کی پابندی عائد ہوگی۔ صرف ویکسین لگوانے والے افراد ہی ان ڈور ڈائن ان کی سہولت حاصل کر سکیں گے۔ این سی او سی کے مطابق پٹرول پمپ، میڈیکل اسٹور سمیت ضروریات کے اہم کاروباروں کو 24/7 کھلنے کی اجازت ہوگی۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمراں تعمیراتی شعبے میں مہنگائی کا نوٹس لیں، تعمیراتی میٹیریل، سریا، ریتی بجری، اینٹیں، لکڑی کا سامان، شیشہ، ٹائلز، رنگ و روغن، تعمیراتی مزدور کو درپیش مسائل، حکومتی و ریاستی طاقتیں، ملک میں تعمیرات، معاشی ترقی، ملک کے پڑھے لکھے نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے طوفان کا راستہ روکنے کی تدبیر کریں، سٹیک ہولڈرز اس خاموش دراڑ اور کٹاؤ کے عمل کی تباہ کاریوں کا جائزہ لیں جو سیاست کو پراگندہ اور آلودہ کر رہی ہیں۔

ایک طرف بلند افلاک رہائشی اسکیموں کے نظارے ہیں دوسری طرف شہر قائد میں انہدام کی کارروائیوں سے پیدا شدہ معاملات ہیں، منتخب ایوانوں میں جمہوریت کے جنازے دھوم سے اٹھائے جانے کی باتیں ہیں، سیاسی کشیدگی میں کمی نہیں آ رہی، بحث ومباحثہ کا وہی تماشا لگا ہوا ہے۔

عوام روز الزامات اور اربوں کے سکینڈلز کا شور سنتے ہیں۔ بجٹ سے عوام کو امیدیں تھیں، اب بھی ہیں لیکن کوئی ایسی تقریر بھی سنائی دے جس سے غریب کو یقین آجائے کہ وہ صبح ضرور آئے گی، اچھے دن بھی آئیں گے، لیکن عوام صرف دستک کے انتظار میں نہیں رہیں گے، وہ فرسودہ سیاست، اپنی بے منزل زندگی سے آگے اور بچوں کے روشن مستقبل کے لیے افق کے پار نظریں جمائے ہوئے ہیں۔

معیشت دلفریب باتوں یا بے جا ٹیکس عائد کرنے سے بہتر نہیں ہوتی۔ معاشی ترقی کے لیے اولین شرط اکنامک منیجرز اور امور مملکت چلانے والوں کی ذہانت‘ دور اندیشی اور منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ پاکستان کی معیشت کو جس انداز میں چلایا جا رہا ہے‘ اس سے معاشی خود کفالت کی منزل تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ ایک غریب اور ترقی پذیر ملک کو آگے بڑھنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں رائج مارکیٹ اکانومی کے بجائے منصوبہ بند معاشی ماڈل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ غریب ملک بے لگام مارکیٹ فورسز کے ہوتے ہوئے کبھی معاشی خود کفالت کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔

سالانہ میزانیہ میں توانائی اور ذرایع نقل و حمل کے نرخ سالانہ بنیاد پر متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے اثرات معیشت پر یوں پڑیں گے کہ کاروباری طبقے اور زرعی طبقے کے اخراجات میں استحکام آئے گا۔ صنعتی ترقی کے لیے ہمیں سبسڈی بیسڈ انڈسٹری کے بجائے ایسی صنعتوں کو فروغ دینا ہو گا جو حکومت سے سبسڈی لینے کے بجائے حکومت کو ٹیکس کی مد میں ریونیو دے۔ شوگر اور کھاد انڈسٹری حکومت سے سبسڈی بھی لے رہی ہیں اور اپنی پروڈکٹ کی قیمتیں بھی من مرضی کی مقرر کر رہی ہیں۔

مارکیٹ میں مڈل مین کے کردار کو ختم کرنا ضروری ہے۔ زرعی اجناس کی خریداری گاؤں میں ہی کی جانی چاہیے۔ اس طریقے سے چھوٹے کسان کو ٹرانسپورٹ کے اخراجات‘ مڈل مین کی مفت بری اور سرکاری اہلکاروں کی لوٹ مار سے نجات ملے گی اور وہ اپنی فصل کی پوری قیمت وصول کر سکے گا۔یوں ہمارے دیہات خوشحال ہوں گے اور اس کے اثرات شہروں پر بھی آئیں گے۔5سالہ منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے ایسا طریقہ وضح کیا جانا چاہیے جس میں بیوروکریسی پر کڑی نگرانی کا چیک ہو تاکہ 5سالہ منصوبہ اپنے مقررہ اہداف مقررہ وقت میں حاصل کر سکے۔

The post معاشی بریک تھرو ناگزیر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3duZ2Zj
via IFTTT

زرعی پیکج کا صرف اعلان ہی کافی نہیں، عملدرآمد بھی ضروری ہے ایکسپریس اردو

 لاہور:  وزیر اعظم عمران خان اپنے اقتدار کی نصف سے زیادہ مدت گذر جانے کے بعد آخری دو برس میں کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں کہ پہلے کے تین برس کی ناکامیوں اور خامیوں کا ازالہ بھی ہو جائے اور ہر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ووٹرزبھی راضی ہو جائیں۔

تین برس تک تو معیشت شدید دباو میں رہی ہے، ابتداء میں حکومت نے غلط فیصلے کئے اور پھر کورونا وائرس کی تباہ کاریوں نے مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔ حکومت کے تیسرے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کا دعوی ہے کہ اس مرتبہ جو بجٹ تیار کیا گیا ہے وہ ہر لحاظ سے منفرد ہے ،ملکی تاریخ میں پہلی بار عام آدمی کو ریلیف دینے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ہے ،حکومت کے تمام دعوے اپنی جگہ لیکن زمینی صورتحال اس کے برعکس ہے۔

معاشی ماہرین کے تجزیوں میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وفاقی بجٹ میں پوشیدہ ٹیکسز سے مہنگائی کی نئی لہر آسکتی ہے بالخصوص آئندہ کچھ عرصہ میں حکومت جب عالمی اداروں کے دباو پر پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرے گی تب ’’منی بجٹ‘‘ آئے گاجس کا نمایاں اثر فوڈ آئٹمزکی قیمتوں پر آ سکتا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے ارکان پارلیمنٹ کے اعزاز میں دیئے گئے عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود کھانے پینے کی اشیاء مثلا گندم اور دالیں امپورٹ کرنا پڑ رہی ہیں، حکومت زرعی شعبے کی ترقی کیلئے پیکج لیکر آ رہی ہے، کمزور طبقے کو سبسڈی دیں گے جبکہ کسانوں کو منڈیوں اور صارفین کے ساتھ براہ راست جوڑا جائے گا۔

وزیر اعظم شاید بھول رہے ہیں کہ ان کی ہی حکومت نے 2019 ء میں 309 ارب روپے مالیت کا ’’وزیر اعظم زرعی ایمرجنسی پروگرام‘‘ شروع کیا تھا جسے ان کے ’’سابق‘‘ دوست جہانگیر ترین نے تیار کیا تھا ،یہ پروگرام اپنی ترجیحات اور حکمت عملی کے لحاظ سے ایک جامع اور فائدہ مند پروگرام تھا لیکن جس تیزی سے عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان فاصلے بڑھتے گئے ویسے ہی اس پروگرام پر عملدرآمد کی رفتار سست ہوتی چلی گئی اور عملی طور پر اس پروگرام پر کام رک چکا ہے ۔

وزیر اعظم جس نئے زرعی  پیکج کی ’’نوید‘‘ سنا رہے ہیں اس کے مرکزی تخلیق کار وفاقی وزیر نیشنل فوڈ سیکیورٹی سید فخر امام اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی جمشید اقبال چیمہ ہیں۔ سید فخر امام بذات خود ایک بڑے کاشتکار ہیں جبکہ جمشید چیمہ ایک مضبوط زرعی پس منظر سے منسلک ہیں، ان کا ذاتی بزنس بھی زرعی ادویات اور بیجوں سے متعلق ہے ،اپنے کاروبار کی وجہ سے انہیں مختلف ممالک بالخصوص چین میں ہونے والی زرعی ٹیکنالوجی پیش رفت سے بخوبی آگاہی ہے، وہ کسان کے بنیادی مسائل کی وجوہات سے واقف ہیں لیکن یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ یہ سب خوبیاں اور مہارت تو جہانگیر ترین کے پاس بھی موجود تھی اور جمشید چیمہ سے کہیں زیادہ انہیں زراعت پر عبور حاصل ہے تو پھر ان کا زرعی پیکج کیوں ترک کیا گیا۔ ارباب اقتدار کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مسئلہ منصوبہ سازی میں نہیں بلکہ عملدرآمد کا نہ ہوناہے ۔

جتنا بھی اچھا پروگرام ہو جب تک اس پر درست انداز میں عملدرآمد نہیں ہوگا، وہ ناکام ہی رہے گا۔ اب آخری دو برسوں میں جب کہ سیاسی دباو بڑھ رہا ہے اور عوام حکومت سے بہت ناراض دکھائی دیتے ہیں تو ایسے میں ایک نئے زرعی پیکج پر کامیابی اور تیزی سے عمل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اس مرتبہ ملک میں گندم کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود حکومت 40 لاکھ ٹن گندم امپورٹ کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر چکی ہے اور سب سے زیادہ تشویش اس بارے میں ہے کہ گزشتہ برس کی مانند اس مرتبہ بھی ملک میں گندم آٹا کی قیمتوں کا بحران آ سکتا ہے۔

وزیر اعظم یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ کمزور طبقہ کو براہ راست سبسڈی دینا چاہتے ہیں ،اس حوالے سے ان کی مشیر ڈاکٹر ثانیہ نشتر کام کر رہی ہیں۔وزیر اعظم اور ان کی حکومت کے بہت سے لوگ آٹا چینی وغیرہ پر ہر خاص وعام کو سبسڈی دینے کی بجائے ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کے حق میں ہیں لیکن اراکین اسمبلی، وزراء اور پارٹی رہنماؤں کی اکثریت موجودہ سیاسی صورتحال اور الیکشن کا وقت نزدیک آنے کی وجہ سے یہ رائے دے رہے ہیں کہ فی الوقت ٹارگٹڈ سبسڈی پروگرام ملتوی کردیا جائے اور آئندہ لیکشن جیتنے کے بعد اس پر کام شروع ہونا چاہئے۔

حکومت کی بوکھلاہٹ کا یہ عالم ہے کہ وفاقی فنانس بل جب اسمبلی میں پیش کیا گیا تو اس میں فلورملز پر ٹرن اوور کی کم ازکم شرح کو ختم کردیا گیا جبکہ چوکر پر سیلز ٹیکس میں اضافہ کردیا گیا۔ ٹیکسز کے اس اضافہ سے عام آدمی کو بیس کلو آٹا تھیلا خریدتے وقت مزید 100 روپے دینا پڑنے تھے، پاکستان فلورملز ایسوسی ایشن کی قیادت نے معاملے کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے پوری طاقت کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا، اس معاملے میں فلورملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عاصم رضا، لیاقت علی خان، حافظ احمد قادر، میاں ریاض، حاجی یوسف، نعیم بٹ، بدرالدین کاکڑ نے لیڈنگ رول ادا کیا جبکہ حکومتی سائیڈ سے وفاقی سیکرٹری نیشنل فوڈ سیکیورٹی غفران میمن نے بحران کے خاتمہ میں نمایاں کردار نبھایا ،غفران میمن نے فلورملز ایسوسی ایشن کے ساتھ بھی رابطہ کیا اور انہوں نے ایف بی آر حکام کے ساتھ بھی بات کی۔

فلورملز کی دو روزہ علامتی ہڑتال شروع ہونے پر ایف بی آر نے ٹیکسز میں اضافے کو ’’تحریری غلطی‘‘ قرار دیتے ہوئے ٹیکس اضافہ واپس لیا۔یہ واقعی تحریری غلطی تھی یا پھر دانستہ طور پر ایک کوشش کی گئی اس بحث کو اب چھوڑ دیتے ہیں لیکن حکومت کو چاہئے کہ مستقبل میں ایسی ’’غلطی‘‘ سے بچنے کیلئے فلورملز ایسوسی ایشن اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بامعنی مشاورت کا ایک موثر نظام بنائے،اب تو یہ عالم ہے کہ چند ہفتے قبل وزیرا عظم نے فلورملز ایسوسی ایشن کے ساتھ ملاقات میں گندم کی ایکسپورٹ برائے ایکسپورٹ کی اصولی منظوری دیتے ہوئے رزاق داود کو فلورملز ایسوسی ایشن کے ساتھ ملکر اس پر حتمی طریقہ کار تیار کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن کئی ہفتوں بعد بھی رزاق داود کو ملاقات کی فرصت نہیں ملی ہے۔

کسانوں کو منڈیوں اور صارفین تک براہ راست رسائی دینے کی حکومتی سوچ عمدہ ہے لیکن قابل عمل نہیں ہے۔بیوپاری یا آڑھتی دیہاتوں میں کسانوں کیلئے ’’مائیکرو فنانس بنک‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے، فصل کی کاشت کیلئے بیج کھاد اور پیسٹی سائیڈ کی خریداری سے لیکر خوشی غمی کی تقریبات کے اخراجات کیلئے چھوٹا کاشتکار اپنے بیوپاری سے رقم لیکر استعمال کرتا ہے اور پھر جب زرعی جنس کی پیداوار آتی ہے تو اسی بیوپاری کو اسے فروخت کر کے حساب کتاب کلیئر کیا جاتا ہے۔حکومت اگر سنجیدہ ہے تو پھر نچلی سطح پر کسانوں کی مالی ضروریات کی تکمیل کیلئے سود سے پاک قرضوں کا اہتمام کرے۔

سیاسی نعرے بازی اورد عوے اپنی جگہ لیکن بیوپاری کا کردار ختم کرنا ممکن نہیں اس لئے زیادہ مناسب یہی ہوگا کہ بیوپاری کو زرعی نظام میں باضابطہ طور پر ایک اہم سٹیک ہولڈر تسلیم کر کے اسے ریگولیٹ کیا جائے تا کہ کسانوں کی حق تلفی نہ ہو ویسے بھی مہنگائی منڈیوں میں نہیں ہو رہی بلکہ اصل مہنگائی شہروں میں انتظامیہ کی جانب سے موثر پرائس کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔زرعی پیداوار بڑھانے کیلئے بیجوں کی نئی اقسام کی دریافت سب سے اہم ہے اور بدقسمتی سے آج تک اسی کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا ہے۔

اربوں روپے سالانہ بجٹ استعمال کرنے والے زرعی تحقیقاتی اداروں سے کبھی باز پرس نہیں کی گئی۔ یکم جولائی کو وزیرا عظم اسلام آباد میں ایک کسان کنونشن سے خطاب کرنے والے ہیں، اس موقع پر انہیں سیاسی طفل تسلیوں کی بجائے عملی اقدامات کا اعلان کرنا چاہئے۔جو بھی زرعی پیکج آئے اس پر مکمل سنجیدگی اور رفتار کے ساتھ عمل کرنے سے ہی زرعی ترقی ممکن ہو سکتی ہے۔

The post زرعی پیکج کا صرف اعلان ہی کافی نہیں، عملدرآمد بھی ضروری ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2SCNBrh
via IFTTT

بڑھتی ہوئی سیاسی محاذ آرائی، جمہوریت کیلئے خطرہ، عوام پریشان ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: حکومت کی جانب سے اعلان کردہ اگلے مالی سال کا بجٹ وفاقی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد رواں ہفتے ایکٹ کی صورت لاگو ہو جائے گا جس کے اصل اثرات تو یکم جولائی کے بعد ظاہر ہونا شروع ہونگے مگر اس سے پہلے بجٹ کے  پارلیمنٹ میں ہونے کے فوری بعد سے ہی آفٹر شاکس محسوس ہونا شروع ہو چکے ہیں اور بجٹ نافذ ہونے سے پہلے ہی پٹرول،آٹا، چینی، دال،گھی سمیت تمام اشیائے خورونوش عوامی دسترس سے دور ہوگئے ہیں۔

بجٹ سے ایک روز قبل تک مہنگائی کا گراف نیچے آرہا تھا مگر بجٹ کے پیش ہوتے ہی پھر سے اوپر جانا شروع ہوگیا، جس کا اظہار وفاقی ادارہ شماریات کے اعداد وشمار سے واضح ہے۔ بجٹ سے ایک رو قبل ختم ہونے والے ہفتے کے دوران مہگائی کی شرح میں کمی واقع ہوئی تھی لیکن بجٹ پیش ہونے کے بعد والے پچھلے دوہفتوں کے دوران مہنگائی کا گراف مسلسل اوپر جا رہا ہے ابھی بجٹ منظور نہیں ہوا مہنگائی کو بڑھوتری دینے کے اسباب پہلے سے پیدا کر دیئے گئے ہیں ۔

یکم جولائی سے پھر سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تو اضافے کے آثار نظر آہی رہے ہیں لیکن اب  توانائی کے سر اٹھاتے ہوئے بحران سے بچنے کیلئے پاور پلانٹس کو فرنس آئل درآمد کرانے کے لیے این او سی جاری کر کے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں بجلی مہنگی کرنے کا سامان بھی مہیاکر دیا گیا ہے جس کیلئے ملک بھر میں گیس کا بحران بڑھنے سے پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی بند، وزارت توانائی نے بجلی کی پیداوار برقرار رکھنے کے لیے پاور پلانٹس کو فرنس آئل درآمد کرانے کے لیے این او سی جاری کردیا ہے۔

پاور پلانٹس کو فرنس آئل پر چلانے سے بجلی کے بحران پر قابو پانے میں تو مدد ملے گی مگر اس کی قیمت مہنگی بجلی کی صورت عوام چکائیں گے کیونکہ فرنس آئل پر پیدا ہونے والی مہنگی بجلی کی کا بوجھ بھی ماہانہ فیول پرائس کی مد میں صارفین برداشت کریں گے، یاد رہے کہ کے الیکٹرک کو اکتوبر 2020 میں بھی 50 ہزار میٹرک ٹن فرنس آئل امپورٹ کی اجازت دی گئی تھی، اب  یہ فرنس آئل مافیا کی طاقت کا کمال ہے  یا ناقص منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے کہ گیس سے سستی بجلی پیدا کرنے پر فرنس آئل سے مہنگی بجلی پیدا کرنے کے آپشن کو اختیار کیا جا رہا ہے۔

حکومت مخالفین کا خیال ہے کہ حکومت نے  چونکہ بروقت ایل این جی درآمد کرنے کے سودے نہیں کئے  اس لئے فرنس آئل کا مہنگا متبادل ذریعہ اختیار کیا جا رہا ہے جو آٹا،چینی، ادویات سکینڈل کی طرح مستقبل کا بڑا سکینڈل بننے جا رہا ہے۔

دوسری طرف اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ملک میں جاری گیس بحران کی وجہ سے بجلی بنانے والے پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی بند ہونے سے بجلی کی رسد میں کمی ہو سکتی ہے اور حکومت نے گیس بحران میں شدت کے باعث پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مختلف سیکٹرز کی گیس بند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، سی این جی سمیت دیگر سیکٹرز کو پانچ جولائی تک گیس کی فراہمی معطل رہے گی۔

سوئی ناردرن گیس کمپنی انتظامیہ کی جانب سے نان ایکسپورٹ انڈسٹری، سی این جی سیکٹر کو گیس کی سپلائی بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان سطور کی اشاعت تک اس فیصلے پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہوگا اور پانچ جولائی تک گیس کی فراہمی معطل رہے گی جس سے یقینی طور پر ملک کی صنعتی پیداوار متاثر ہوگی اور لگ یہ رہا ہے کہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے  جادو کی چھڑی گھما کر عوام کو جن اقتصادی اعشاریوں کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا تھا اب وہ جادو بھی اترنے کو ہے کیونکہ ابھی جو اشاریئے آرہے ہیں ان میں کرنٹ اکاونٹ کی صورتحال بھی خراب ہو رہی ہے، مالیاتی خسارہ بھی بڑھ رہا ہے اور قرضوں کا تو کوئی حال ہی نہیں ہے۔

اقتصادی امور ڈویژن کے اپنے اعدادوشمار بتا رہے ہیں کہ رواں مالی سال کے دوران پاکستان نے مجموعی طور پر 12 ارب 13 کروڑ ڈالر سے زائد کا بیرونی قرض لیا ہے اور جولائی سے مئی کے دوران کثیر الجہتی معاہدوں کے تحت 3 ارب 37 کروڑ ڈالر موصول ہوئے، سب سے زیادہ قرض اے ڈی بی کی جانب سے 1 ارب 28کروڑ ڈالر قرض جاری کیا گیا، دوطرفہ معاہدوں کے تحت مختلف ممالک سے 41 کروڑ 70 لاکھ ڈالر موصول ہوئے،پاکستان نے کمرشل بنکوں سے بھی 3 ارب 60 کروڑ ڈالر کا قرض لیا ہے۔

دوسری جانب متحدہ اپوزیشن بھی ان حکومتی اعدادوشمار کو غلط ثابت کرنے کیلئے پورا زور لگا رہی ہے، کسی ملک کی مجموعی ترقی اور خوشحالی دیکھنی ہو تو معاشی اشاریوں کے علاوہ انسانی وسائل،جمہوری حقوق،آزادی اظہار اور غربت کے پیمانوں کو دیکھا جاتا ہے، گو ابھی پاکستان میں معیشت بہتر ہو رہی ہے لیکن سیاست کے فرنٹ پر فی الحال بہتری کا امکان نظر نہیں آرہا ۔

اگر تو ملک کی مجموعی صورتحال میں بہتری لانی ہے تو پھر سیاست اور معیشت سمیت تمام محاذوں پر بہتری لانا پڑے گی جوکہ دور دور تک نظر نہیں آرہا  ہے اور یوں لگ رہا ہے کہ جیسے کپتان اور اسکی ٹیم نے ہاتھ کھڑے کر دئیے یا انہیں معلوم پڑ گیا ہے کہ شاید کارکردگی ان کے بس کا روگ نہیں ہے، لہذا زیادہ وقت گذر گیا ہے، تھوڑا باقی رہ گیا ہے۔ وزراء اور ترجمانوں کی فوج کو اپوزیشن پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ اب یہ دو سال شکوہ جواب شکوہ میں ہی گزارنا ہے بس اپوزیشن رہنماؤں کے بیانات کے جوابات دینا ہیں پریس کانفرنس کرنا ہے۔

وہی پی ائی ڈی جس پر ن لیگ کے دور میں تحریک انصاف کے رہنما چڑھ دوڑا کرتے تھے اور سرکاری ادارے پر صرف ن لیگ کے وزراء کو ہی پریس کانفرنس کرنے پر اعتراض ہوا کرتا تھا اور تحریک انصاف کے لوگ پی آئی ڈی پہنچ جایا کرتے تھے، زبردستی پریس کانفرنس کیلئے دھمکایا جاتا تھا آج اسی پی آئی ڈی کو ن لیگ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے کپتان کی ٹیم اسی طرح مخالفین کے جوابات دینے کیلئے پریس کانفرنس کیلئے استعمال کر رہی ہے لیکن مجال ہے کہ کسی کو ماضی یاد آیا ہو اور خود آگے بڑھ کر ماضی کی روایات کے بت توڑنے کا خیال آیا ہو اور اپوزیشن کیلئے پی آئی ڈی کے دروازے کھولنے کی پیشکش کر کے انہیں بتاتے کہ کل آپ کا رویہ کیا تھا اور ہمارا کیا ہے۔

یہ ہوتی ہے اصل تبدیلی ، مگر شائد یہ سب کتابی باتیں ہیں، ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، دنیا کے ہر ملک میں حکومت اور اپوزیشن ہوتی ہے ان کے آپس میں اختلافات بھی فطری ہیں لیکن مہذب جمہوری ممالک اور پسماندہ ممالک میں فرق یہ ہے کہ وہاں حکومت خارجہ پالیسی اور مالیاتی پالیسی سمیت ہر اہم ریاستی معاملے پر اپوزیشن سے ڈائیلاگ کرتی ہے۔

قانون سازی کے معاملے میں تو حکومت اور اپوزیشن میں مسلسل تعاون اور مشورہ جاری رہتا ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں بات تک کرنے کو تیار نہیں، حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ہم اپوزیشن سے بات کرتے ہیں تو وہ این آر او مانگتے ہیں یہ بھی ایک عجیب اور غور طلب مسئلہ ہے، حزب اختلاف کے بیش تر اراکین نیب زدہ ہیں، حکومت کا کہنا ہے نیب ایک غیر جانبدار ادارہ ہے اگر اس مفروضہ کو مان لیا جائے تو حکومت کے اس دعویٰ کا کیا کہ ’’ہم جب بھی مذاکرات کی بات کرتے ہیں حزب اختلاف این آر او مانگتی ہے اگر واقعی نیب حکومت کے زیر اثر نہیں تو پھر حزب اختلاف یہ بے وقوفانہ مطالبہ کیوں کرتی ہے؟ گوکہ نیب اپنے عمل اور کارکردگی سے حزب اختلاف کے ان بیانات کو سچ ثابت کرتی ہے، یہاں تک پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں بھی اس کا اظہار کر چکی ہیں الزام و شک کے شعبے میں حزب اختلاف کے اراکین گرفتار ہو کر پہلے جیل جاتے ہیں اور جبکہ حکومتی اراکین کی صرف تحقیق ہوتی ہے اور وہ سیر سپاٹے کرتے پھرتے ہیں۔

اپوزیشن یہ کہتی ہے کہ ایک طرف یہ ہمیں جیلوں میں ڈال رہے ہیں دوسری طرف ہم سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، یہ دو عملی کیوں؟ حکومت کچھ عرصے سے قانون سازی پر مذاکرات کرنا چاہتی ہے لیکن اپوزیشن کو ماضی میں ایسے تلخ تجربات ہو چکے ہیں کہ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنے کو تیار نہیں ہیں۔

The post بڑھتی ہوئی سیاسی محاذ آرائی، جمہوریت کیلئے خطرہ، عوام پریشان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3w6ZaEA
via IFTTT

صلاحیتوں پریقین نے ملتان سلطانز کو ٹائٹل جتوایا ایکسپریس اردو

اسپن بولنگ کوچ مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ صلاحیتوں پر یقین نے ملتان سلطانز کو ٹائٹل جتوایا جب کہ محمد رضوان کی بہترین قیادت کا بھی اہم کردار رہا۔

پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pkکے پروگرام ’’کرکٹ کارنر ود سلیم خالق‘‘ میں مشتاق احمد نے کہاکہ شاہنواز دھانی کا بولنگ اور فیلڈنگ کرنے کے ساتھ وکٹ پر جشن منانے کا انداز سب کھلاڑیوں میں جوش برقرار رکھتا،وہ اپنی انگریزی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے غیر ملکی کرکٹرز کے ساتھ گفتگو میں لگے رہتا۔

انہوں نے کہا کہ رلی روسو و دیگر پلیئرز اس کے ساتھ نظر آتے، کبھی چوکا اور چھکا بھی پڑ جاتا تو زیادہ عزم کے ساتھ اگلی گیند کیلیے تیارہوتا، وہ پوری ٹیم سے دباؤ کم کرنے کا ذریعہ بنتا، گاؤں میں ٹینس بال کھیلتے ہوئے کھیل سے لطف اندوز ہونے کا رویہ انھوں نے پی ایس ایل میں بھی برقرار رکھا، اسی وجہ سے ان کا اعتماد عروج پر رہا،در اصل شاہنواز دھانی کے جوش و جذبہ نے پوری ٹیم کا حوصلہ جوان رکھا، وہ بولنگ پلان کو بہت جلد سمجھتے ہوئے اس پر عمل درآمد بھی بہتر انداز میں کرتے ہیں،ایک روشن مستقبل پیسر کا منتظر ہے۔

مشتاق احمد نے کہا کہ صہیب مقصود نے ٹیم سے دوری کے دور میں اندازہ کرلیا کہ اب جو بھی کرکٹ ہے اس کا لطف اٹھاؤں اور نیچرل کھیل کا مظاہرہ کرؤں،ان میں پختگی بھی آئی اور ذہنی طور پرکھل کر اپنے اسٹروکس کھیلنے کیلیے تیار ہوئے، کوئی بھی کھلاڑی اپنے کردارکو سمجھتے ہوئے یقین کے ساتھ ایکشن میں آئے تو کامیابی ملتی ہے، یہ چیز صہیب مقصودکے کھیل میں نظر آئی۔

پی ایس ایل 6میں ٹائٹل فتح کے حوالے سے بات کرتے ہوئے اسپن بولنگ کوچ نے کہا کہ کھلاڑی پلانزکو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوں تب ہی کوچز موثر ثابت ہوسکتے ہیں،ملتان سلطانز نے ایسا کردکھایا،اس فتوحات میں محمد رضوان کی بہترین قیادت کا بھی اہم کردار رہا،کسی بھی فارمیٹ میں مومینٹم کامیابی کی کنجی ہے،کراچی میں بھی ہماری ٹیم اچھی تھی مگر میچز نہ جیت پائے،پہلے میچ میں فتح حاصل ہونے سے ملتان سلطانز کا اپنی صلاحیتوں پر یقین بحال ہوا کہ وہ ٹورنامنٹ جیت سکتے ہیں۔

انگلینڈ میں پاکستان ٹیم شکست کا خوف دل سے نکال کر میدان میں اترے

مشتاق احمد نے کہا ہے کہ دورئہ انگلینڈ میں پاکستان کو شکست کا خوف دل سے نکال کر میدان میں اترنا چاہیے،مہمان ٹیم کے پاس کھیل کا نقشہ بدلنے کی صلاحیت رکھنے والے میچ ونرز موجود ہیں،میرے خیال میں انگلینڈ کی بولنگ کمزور اور پاکستان اس کا فائدہ اٹھا سکتا ہے،میزبان سائیڈ کی مضبوط بیٹنگ لائن کو پیش نظر رکھتے ہوئے گرین شرٹس کو 5 بولرز کے ساتھ میدان میں اترنا چاہیے۔

سری لنکن ٹیم کیخلاف انگلینڈ کی عمدہ کارکردگی کے سوال پر انھوں نے کہا کہ پاکستانی کرکٹرز کو 70فیصد کنڈیشنز اپنے ملک جیسی میسر آئیں گی، ان پچز پر کسی ایک بیٹسمین کی کارکردگی بھی میچ جتوا سکتی ہے،گذشتہ سیریز میں محمد حفیظ نے ایسی ہی اننگزکھیلی تھیں،اپنی صلاحیتوں پر یقین اور حریف کی قوت کو سامنے رکھتے ہوئے پلان تیار ہونا چاہیے جس پر عمل درآمد ہی فتح کی ضمانت ہوگا۔

انجریزسے شاداب کی بولنگ متاثرہوئی،ایکشن بہتر بنانا ہوگا

مشتاق احمد نے کہا کہ شاداب خان گذشتہ 6ماہ میں انجریز کا شکار رہے ہیں،اس سے ان کی بولنگ متاثر ہوئی،ردھم واپس کرنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ اسپنر 4روزہ کرکٹ میں طویل اسپیل کروائیں،لیگ اسپن ایک مشکل فن ہے، اگر اعتماد کھوجائے تو بولر غیر موثر ہوجاتا ہے،شاداب خان ایک ذہین کرکٹر اور کھیل کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں،مجھے پوری امید ہے کہ وہ زیادہ مضبوط ہوکر واپس آئیں گے،اپنے مثبت رویے کی وجہ سے ہی شاداب پاکستان کرکٹ کا اثاثہ ہیں،ان کو اپنا بولنگ ایکشن اس قابل بنانا چاہیے کہ گیند کہاں گرے گی یہ پروا نہ رہے، دائیں اور بائیں بازو کی حرکات میں توازن رہا تو صرف اس بات پر توجہ مرکوز ہوگی کہ وکٹیں کیسے حاصل کرنا ہیں۔

محمد رضوان کی بیٹنگ کا انداز اوپننگ کیلیے زیادہ موزوں ہے

مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ محمد رضوان کی بیٹنگ کا انداز اوپننگ کیلیے زیادہ موزوں ہے،وکٹ کیپر بیٹسمین آٹھویں یا نویں نمبر پر جاکر چوکے چھکے نہیں لگا سکتے،وہ وائٹ بال کرکٹ میں فاسٹ بولرز کا اچھے انداز میں سامنا کرتے اور اننگز کو آگے لے کر چلتے ہیں،ان کی حالیہ کامیابیاں بھی موزوں نمبر پر بیٹنگ کرنے کی وجہ سے ہیں۔ اسی طرح بابر اعظم بھی اسٹروک میکر ہیں مگر ان کو پانچویں نمبر پر بھیج کر چھکے لگانے کا ٹاسک دینا مناسب نہیں۔

ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ اعصاب مضبوط اور ٹمپرامنٹ ہو تب ہی کوئی بڑا کھلاڑی بنتا ہے،محمد رضوان بطور کپتان بھی مشورہ سب سے لیتے مگر فیصلہ خود کرتے ہیں،اسی وجہ سے انھوں نے ملتان سلطانز کو پی ایس ایل کا چیمپئن بنوانے میں اہم کردار ادا کیا۔

The post صلاحیتوں پریقین نے ملتان سلطانز کو ٹائٹل جتوایا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3jshfdR
via IFTTT

چلتے رکشے میں پیدا ہونے والی دیپیکا نمبر ون تیرانداز بن گئیں ایکسپریس اردو

نئی دہلی: چلتے رکشے میں پیدا ہونے والی بھارتی دیپیکا نمبرون تیرانداز بن گئیں۔

دیپیکا نے گزشتہ دنوں پیرس میں منعقدہ آرچری ورلڈ کپ (اسٹیج تھری) میں 3 گولڈ میڈلز جیتنے کے بعد عالمی درجہ بندی میں پہلی پوزیشن پائی، وہ آئندہ ماہ ٹوکیو اولمپکس میں شرکت کے لے جاپان بھی جائیں گی۔

ایک برطانوی نیوز ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ جھارکھنڈ کے انتہائی غریب گھرانے کی27 سالہ دیپیکا نے پچھلے 14 برسوں میں ایک طویل سفر طے کیا۔

دیپیکا نے بتایاکہ وہ چلتے ہوئے رکشے میں پیدا ہوئیں کیونکہ والدہ اسپتال نہیں جا سکی تھیں۔ انھوں نے 14 سال کی عمر میں تیر کمان اٹھائی،کیریئر کا آغاز بانس سے بنے ایک کمان اور تیر سے کیا تھا، پچھلے 13 برسوں میں دیپیکا نے بہت سے طلائی تمغے جیتے ہیں، وہ اپنے کنبے کی مالی حالت میں بہتری لائی ہیں اورگزشتہ سال تیر انداز آتنو داس سے شادی کرلی تھی۔

The post چلتے رکشے میں پیدا ہونے والی دیپیکا نمبر ون تیرانداز بن گئیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3y6zOYT
via IFTTT

گندم کی عالمی قیمت کم، پاکستان کو 9 ارب روپے کی بچت، آٹے کی قلت کا خدشہ ختم ایکسپریس اردو

 لاہور: عالمی سطح پر گندم کی قیمتوں میں 15 ڈالر فی میٹرک ٹن کمی ہونے سے پاکستان کو 40 لاکھ ٹن گندم کی درآمد میں 9 ارب روپے سے زیادہ کی بچت متوقع ہے۔

بڑی مقدار میں گندم کی درآمد سے ملک میں گندم اور آٹے کی قلت کا خدشہ مکمل ختم ہوگیا ہے جس سے ذخیرہ اندوزوں کو بھاری مالی نقصان ہوگا، تاہم قیمتوں میں اُتار چڑھاؤ کا سلسلہ جاری رہنے کا خدشہ موجود ہے۔

وفاقی وزارت نیشنل فوڈ سیکیورٹی نے گزشتہ روز 40 لاکھ ٹن گندم امپورٹ کرنے کیلیے سرکلر جاری کردیا ہے، 20 لاکھ ٹن گندم ٹریڈنگ کارپوریشن جبکہ 10 لاکھ ٹن وفاقی محکمہ پاسکو امپورٹ کرے گا، نجی شعبہ کو بھی 10 لاکھ ٹن گندم امپورٹ کی اجازت دے دی گئی ہے۔

خیبر پختونخواہ حکومت نے پاسکو سے 10 لاکھ ٹن گندم فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے جس میں سے 5 لاکھ ٹن امپورٹڈ اور 5 لاکھ ٹن دیسی گندم مہیا کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔

پنجاب میں فلورملز کے پاس اس مرتبہ وافر مقدار میں گندم موجود ہونے کے سبب نجی شعبہ کی جانب سے امپورٹ کی جانے والی 10 لاکھ ٹن گندم کی پنجاب میں کھپت نہیں ہوگی ، یہ گندم کراچی کی ملیں  خریدیں گی۔

علاوہ ازیں پنجاب حکومت نے سہولت بازاروں میں سستا آٹا  فروخت کرنے والی فلورملز کو 1530 روپے فی40 کلوگرام بمعہ  باردانہ گندم فروخت کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

The post گندم کی عالمی قیمت کم، پاکستان کو 9 ارب روپے کی بچت، آٹے کی قلت کا خدشہ ختم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3jFVWpl
via IFTTT

شہباز شریف آج اسمبلی کیوں نہیں آئے؟ وجہ سامنے آگئی ... بجٹ اجلاس کے لیے جارہے تھے کہ راستے میں انہیں کزن کی وفات کی خبر ملی،لہٰذا وہاں چلے گئے

بھارت میں مساجد پر بلا معاوضہ قرآنی آیات لکھنے والا ہندو خطاط ... انیل کمار اب تک 200 سے زائد مساجد کی محرابوں اور دیواروں پر دلکش انداز سے تحریریں لکھ چکے ہیں

وزیراعظم عمران خان آج بجٹ اجلاس سے خطاب کریں گے ... اپوزیشن وزیراعظم کے خطاب میں رکاوٹ نہ ڈالے،حکومت نے حکمت عملی طے کر لی

ہنی مون سے واپسی پر ولیمے کی تقریب منعقد کریں گے ... میرے شوہر اپنی ناراض بیوی کو ایک ہفتے میں منالیں گے،حریم شاہ

طالبان نے تشدد اور قبضے کا سلسلہ نہ روکا تو فضائی حملوں کیلئے تیار رہیں ... امریکی فوج کے کمانڈر نے افغان طالبان پر حملہ کرنے کی دھمکی دے دی

آج کا دن کیسا رہے گا ایکسپریس اردو

حمل:
21مارچ تا21اپریل

اگر آپ سیاستدان ہیں تو پھر فوری طور پر خود کو بدلنے کی کوشش کیجئے۔ ورنہ حالات آپ کو ایسے چوراہے پر لا کر کھڑا کر دیں گے جہاں سے کوئی راستہ بلندی کی طرف نہیں جاتا۔

ثور:
22 اپریل تا 20 مئی

ملازمت کرنے والے احباب عجیب و غریب حالات سے دوچار ہو سکتے ہیں لہٰذا اپنے مزاج پر قابو رکھتے ہوئے فرائض انجام دیں کسی سے بھی نہ الجھیں۔

جوزا:
21 مئی تا 21جون

آج آپ ذہنی طور پر کافی فریش رہیں گے۔ آج آپ اپنے ذاتی منصوبوں پر عملدرآمد نہ ہی کریں تو زیادہ بہتر ہے۔ البتہ آمدنی معقول رہے گی۔

سرطان:
22جون تا23جولائی

کاروبار کی گرتی ہوئی ساکھ کو کسی حد تک سہارا مل سکتا ہے اگر آپ نے اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس موقع سے استفادہ کریں تو پریشانیوں سے نجات مل سکے گی۔

اسد:
24جولائی تا23اگست

گھریلو حالات پرسکون رہیں گے۔ اپنے اس دوست سے ہوشیار رہیں جو ظاہر طور پر آپ کی ہاں میں ہاں بہت زیادہ ملا رہا ہے اور درپردہ آپ کو غلط راستوں پر چلانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

سنبلہ:
24اگست تا23ستمبر

بسلسلہ تعلیم مقاصد بہت حد تک پورے ہو سکتے ہیں، کسی غیر ملکی فرم کے ساتھ طویل المیعاد معاہدہ ہو سکتا ہے، سیاسی و سماجی کارکن بھی عروج حاصل کر سکیں گے۔

میزان:
24ستمبر تا23اکتوبر

ہمارے گزشتہ دیئے گئے مشوروں کو اپنا نصب العین بنائے رکھئے تاکہ زندگی بہتر انداز سے گزر سکے۔ عشق و محبت کے میدان میں جلدبازی نہ کریں۔

عقرب:
24اکتوبر تا22نومبر

کھانسی، نزلہ، زکام کی بدولت آج طبیعت ناساز ہو سکتی ہے۔ لہٰذا محتاط رہیں۔ مزاج کی تلخی بھی کم کرم دیں تاکہ کوئی نقصان نہ ہو سکے۔

قوس:
23نومبر تا22دسمبر

کوئی دیرینہ دشمن کھل کر سامنے آ سکتا ہے جس کی وجہ سے آپ کا کاروبار بھی متاثر ہو سکتا ہے لہٰذا اس آستین کے سانپ کا پتا لگائیں تاکہ آپ بچ سکیں۔

جدی:
23دسمبر تا20جنوری

آپ کے گھریلو حالات بہت زیادہ بہتر رہیں گے، شریک حیات آپ کی ہر خواہش پوری کرنے کے لئے ہمہ وقت مستعد رہیں گے آج آپ خوش دکھائی دیں گے۔

دلو:
21جنوری تا19فروری

کسی کو بھی رقم بصورت قرض نہ دیں وصولی ہونے کا امکان بہت کم ہے رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات مضبوط ہو سکتے ہیں کسی نزدیکی سفر کا نتیجہ بہت شاندار ثابت ہو سکتا ہے۔

حوت:
20 فروری تا 20 مارچ

سیاست سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھ کر فیصلے کریں کسی بھی قسم کا فیصلہ جلدبازی میں نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔

The post آج کا دن کیسا رہے گا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3qbNSxv
via IFTTT

حکومت اور کے الیکٹرک کے درمیان معاہدہ پبلک نہیں کیا جاسکتا، پاکستان انفارمیشن کمیشن کا فیصلہ ایکسپریس اردو

 کراچی: پاکستان انفارمیشن کمیشن نے اطلاعات تک رسائی کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حکومت اور کے ای ایس سی کی نجکاری کا معاہدہ خفیہ ہے اسے پبلک نہیں کیا جاسکتا، وزرات نجکاری آئندہ ایسے معاہدے کرتے ہوئے عوامی مفاد کو پیش نظر رکھے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق پاکستان انفارمیشن کمیشن کے چیف انفارمیشن کمشنر محمد اعظم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے یہ فیصلہ دیا۔ بنچ کے ممبران میں فواد ملک اور زاہد عبداللہ شامل تھے۔

معاہدہ خفیہ رکھنے کی باقاعدہ شق شامل کی گئی، وزارت نجکاری کا اعتراف

ایکسپریس کو دستیاب پاکستان انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کی کاپی کے مطابق کیس کی سماعت کے دوران وزارت نجکاری نے کے ای ایس سی نجکاری معاہدہ خفیہ رکھنے کا بڑا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ کے ای ایس سی نجکاری کا معاہدہ خفیہ ہے اس کی تفصیلات عوام کے سامنے نہیں لاسکتے، معاہدہ خفیہ رکھنے کے لیے باقاعدہ شق شامل کی گئی۔

معاہدہ پبلک کردیا تو نجی پارٹی عالمی عدالت انصاف جاسکتی ہے، وزارت نجکاری

وزرات نجکاری کا مزید کہنا تھا کہ معاہدہ پبلک کردیا تو پرائیوٹ پارٹی کے عالمی ثالثی عدالت جانے کا خدشہ ہے، معاہدے کی خلاف ورزی پر ملک کو بڑے مالی جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

پاکستان انفارمیشن کمیشن کا اظہار بے بسی

وزارت نجکاری کے اس بیان پر پاکستان انفارمیشن کمیشن نے بے بسی کا اظہار کیا۔ کمیشن نے فیصلے میں کہا کہ معاہدے میں خفیہ شق کے باعث معاہدہ پبلک نہیں کیا جاسکتا اور معاہدہ پبلک کرنے سے ملک کو بڑے مالی نقصان کا خدشہ ہے۔ البتہ کمیشن نے سیکریٹری نجکاری کو اداروں کی نجکاری کے معاہدوں میں توازن رکھنے کی ہدایت دی۔

نجکاری معاہدہ میں کمرشل اور عوام کے مفاد میں توازن رکھا جائے

کمیشن نے وزارت نجکاری سے مزید کہا ہے کہ نجکاری معاہدوں میں نجی اداروں کے کمرشل اور عوام الناس کے مفاد میں توازن رکھنا جائے نجکاری معاہدوں میں شہریوں کو معلومات تک رسائی قانون کو مد نظر رکھا جائے۔

چیف انفارمیشن کمشنر محمد اعظم نے ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے فیصلے کی تصدیق کی اور کہا کہ کے الیکٹرک کی نجکاری سے متعلق کیس سمیت سول ایوی ایشن اور کنٹونمنٹ بورڈ کراچی سے متعلق شکایات بھی نمٹائی گئی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ کے ای ایس سی کی نجکاری کی منظور شدہ شقوں میں ترمیم کے معاملے پر فیصلہ دیا گیا ہے اور اس کی کاپی سیکریٹری وزیراعظم، سیکریٹری نجکاری کو بھی ارسال کردی ہے، کمیشن نے وزرات نجکاری کو ایک ماہ میں فیصلے پر عمل درآمد کرنے کا حکم دیا ہے۔

درخواست کیا تھی؟

کمیشن کو دی جانے والی درخواست میں سینئر وکیل طارق منصور نے موقف اختیار کیا تھا کہ 2005ء میں کے ای ایس سی کی نجکاری کا معاہدہ ہوا جس کے بعد 2008ء اور 2009ء میں خلاف ضابطہ معاہدے برائے ناقابل تنسیخ چھوٹ و رضامندی کیے گئے۔

درخواست میں مزید کہا گیا تھا کہ کے ای ایس سی معاہدہ نجکاری کی تسلیم شدہ شقوں میں ترمیم کے لیے کیا گیا، شدہ معاہدہ خلاف آئین و قانون کیا گیا اور بادی النظر میں 2008ء ، 2009ء ترامیمی معاہدہ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے لیے کیا گیا لہذا ترامیمی معاہدوں کی تفصیلات عوام الناس کے سامنے رکھی جائیں اور بتایا جائے کے ای ایس سی نجکاری میں شفافیت کو کتنا مد نظر رکھا گیا؟

سول ایوی ایشن اور کنٹونمنٹ بورڈ سے متعلق فیصلے بھی کیے، چیف انفارمیشن کمیشن

ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے چیف انفارمیشن کمشنر محمد اعظم نے کہا کہ کمیشن کو قانون کے مطابق 60 دن میں کیس نمٹانا ہوتا ہے، کمیشن کے پاس 1300 کے لگ بھگ شکایات آئیں اور کمیشن اب تک 700 کے قریب شکایات نمٹا چکا ہے۔

چیف انفارمیشن کمشنر کا کہنا تھا کہ سول ایوی ایشن کی جانب سے ایئر پورٹس پر سروسز آوٹ سورس کر رکھی تھی اس پر سب کنٹریکٹرز اپنے ملازمین کو کم اجرت دے رہے تھے جس پر کمیشن کو شکایت موصول ہوئی، کمیشن نے کنٹریکٹرز کے معاہدوں کو پبلک کیا اور معلوم ہوا کہ ’’سب کنٹریکٹرز‘‘ کا کنٹریکٹرز سے معاہدے میں اجرت زیادہ طے تھی مگر سب کنٹریکٹرز اسٹاف کو کم اجرت دے رہا تھا جس پر فیصلہ دیا گیا کہ ملازمین کو حکومت کی مقرر کردہ کم سے کم اجرت ملے گی اس سے ہزاروں ملازمین کا فائدہ ہوا۔ اسی طرح کنٹونمنٹ بورڈ سے متعلق شکایات پر فیصلہ دیا۔

The post حکومت اور کے الیکٹرک کے درمیان معاہدہ پبلک نہیں کیا جاسکتا، پاکستان انفارمیشن کمیشن کا فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3w53BQr
via IFTTT

حکومت نے ایف بی آر کو ٹیکس چوروں کی گرفتاری کے مشروط اختیارات دے دیے ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: حکومت نے ایف بی آر کو ٹیکس چوروں کی گرفتاری کے مشروط اختیارات دیتے ہوئے ایک کمیٹی قائم کردی جو گرفتاری سے قبل اجازت دے گی، کمیٹی میں وزیر خزانہ، چیئرمین ایف بی آر اور سینئر ممبران شامل ہوں گے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق حکومت نے ٹیکس چوری میں ملوث عناصر کی گرفتاری کے لیے ایک کمیٹی قائم کردی جس کی تحریری اجازت لازمی ہوگی، کمیٹی کی تحریری منظوری کے بغیر مقررہ حد سے زائد کی ٹیکس چوری میں ملوث کسی ٹیکس چور کو گرفتار نہیں کیا جاسکے، ان اختیارات کا اطلاق فنانس ایکٹ کے لاگو ہونے پر یکم جولائی سے ہوگا۔

پارلیمنٹ کی جانب سے گزشتہ روز منظور کیے جانے والے ترمیمی فنانس بل میں ڈھائی کروڑ روپے اور اس سے زائد کی ٹیکس چوری پر آمدنی چھپانے والے نان فائلرز اور آمدنی چھپا کر 10 کروڑ روپے اور اس سے زائد کی ٹیکس چوری کرنے والے فائلرز کو گرفتار کرنے کی منظوری کے اختیارات اعلی سطح کی کمیٹی کو دے دیے ہیں۔

یہ کمیٹی وزیر خزانہ، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور ایف بی آر کے دیگر سینئر ارکان پر مشتمل ہوگی جس کے لیے پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے ترمیمی فنانس بل کے ذریعے انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن 203 اے میں ترمیم اور سیکشن 203 بی شامل کی گئی ہیں۔

اس ترمیم میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر کے آڈیٹرز کی جانب سے انکم ٹیکس آرڈی ننس کے سیکشن 177، سیکشن 214 سی، سیکشن 121 اور سیکشن 122 کے تحت کیے جانے والے آڈ ٹ اور ترمیمی اسیسمنٹ آرڈرز میں کسی بھی ٹیکس دہندہ کے ٹیکس چوری میں ملوث اور آمدنی چھپانے کے شواہد پائے گئے تو ان شواہد کے نتیجے میں کیس اعلی سطح کی کمیٹی کو منظوری کے لیے بھجوایا جائے گا۔

کمیٹی کی منظوری کے بعد ٹیکس چوری میں ملوث لوگوں کو گرفتار کیا جاسکے گا لیکن اس کے لیے ٹیکس چوری کی رقم کی حد کا تعین کردیا گیا ہے جس کے تحت نان فائلرز کے ٹیکس چوری میں ملوث ہونے پر صرف ان نان فائلرز کے کیس گرفتاری کے لیے کمیٹی کو بھجوائے جائیں گے جو آمدن چھپا کر اڑھائی کروڑ روپے یا اس سے زائد کی ٹیکس چوری میں ملوث ہوں گے۔

اسی طرح ٹیکس چور کے فائلر ہونے کی صورت میں آمدنی چھپا کر 10 کروڑ روپے اور اس سے زائد کی ٹیکس چوری کرنے والوں کے کیس کمیٹی کو بھجوائے جاسکیں گے جب کہ اس سے کم کی ٹیکس چوری پر ایف بی آر معمول کے قانون کے مطابق کارروائی کرے گا۔

اس آرڈی ننس کے تحت تمام گرفتاریاں کوڈ آف کریمنل پروسیجر ایکٹ 1898ء کی متعلقہ شقوں کے مطابق عمل میں لائی جائیں گی اور اگر کوئی کمپنی آمدنی چھپانے میں ملوث پائی جائے گی تو اس صورت میں اس کمپنی کے ہر مجاز ڈائریکٹرز اور افسر جوآمدنی چھپانے کا ذمہ دار ہوگا اسے گرفتار کیا جاسکے گا۔

مجوزہ قانون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کسی کمپنی کے افسر کو کمپنی کی آمدنی چھپانے کا ذمہ دار ہونے پر گرفتار کرلیا جاتا ہے تو اس صورت میں کمپنی پر واجب الادا ٹیکس واجبات اور ڈیفالٹ سرچارج اور جرمانے کا مسئلہ حل نہیں ہوجائے گا۔

The post حکومت نے ایف بی آر کو ٹیکس چوروں کی گرفتاری کے مشروط اختیارات دے دیے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3dp94Ly
via IFTTT

غربت کی وجہ سے سڑک کنارے آم بیچنے والی 11 سالہ بچی کو 1 درجن آموں کے عوض ڈھائی لاکھ روپے مل گئے ... کاروباری شخص نے سڑک کنارے بیٹھی علم حاصل کرنے کی خواہش مند بچی کی کہانی سن ... مزید

گھریلو رنجش کا نتیجہ، لاہور میں 2 شادیاں کرنے والا پولیس کانسٹیبل اپنے ہی بیٹوں کے ہاتھوں قتل ... 45 سالہ کانسٹیبل عبدالقیوم کو سگے بیٹوں نے سر میں ڈنڈے مار کر قتل کیا، دوران ... مزید

فیکٹری یا عقوبت خانہ؟ بلدیہ فیکٹری میں مالک کی ورکرز پر تشدد کرنے کی ویڈیو منظر عام پر آ گئی ... مالک جب چاہے کسی کو تھپڑ جڑ دے، مرغا بنائے اور ڈنڈوں سے پٹائی کر دے، فیکٹری ... مزید

23 سالہ نوجوان جنسی قوت بڑھانے والی دوا "ویاگرا" کے دھوکے میں زہریلی گولی کھا بیٹھا ... مصری نوجوان فصلوں کیلئے استعمال ہونے والے زہریلے کیمیکل کو "ویاگرا" کی گولی سمجھ کر ... مزید

پولیس کانسٹیبل کے قتل کا ڈراپ سین ہوگیا، بیٹے ہی قاتل نکل آئے ایکسپریس اردو

 لاہور: ماڈل ٹاؤن میں پولیس کانسٹیبل کے قتل کا ڈراپ سین ہو گیا، قتل میں کانسٹیبل کے اپنے بیٹے ہی ملوث نکل آئے۔ 

ایس پی انویسٹی گیشن ماڈل ٹاؤن ذوہیب نصراللہ رانجھا کے مطابق 45 سالہ کانسٹیبل عبدالقیوم کو قتل کرنے والے دونوں بیٹوں کو گرفتارکر لیا گیا، ملزم حمزہ اور اسد نے گھریلو ناچاکی پر اپنے والد کوسر پرڈنڈے مار کر قتل کر دیا تھا، مقتول نے دو شادیاں کر رکھی تھیں اور دونوں ملزمان اس کی پہلی بیوی سے ہیں۔

ذوہیب نصراللہ رانجھا نے بتایا کہ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور شارق جمال خان نے مقتول کانسٹیبل کے قاتلوں کی فوری گرفتاری کے احکامات دیے تھے۔  کانسٹیبل عبدالقیوم جوڈیشل ونگ پولیس لائنز میں تعینات تھا، ملزمان قتل کی واردات کے بعد اپنے والد کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے پولیس پر دباؤ ڈالتے رہے، انچارج انویسٹی گیشن کاہنہ عبدالحبیب نے اپنی ٹیم کے ہمراہ ملزمان کو گرفتار کیا، جنہوں نے اعتراف جرم کرلیا ہے۔

سی سی پی او لاہور کی طرف سے ملزمان کی گرفتاری پر پولیس ٹیم کو شاباش دی گئی جب کہ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن شارق جمال خان کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

The post پولیس کانسٹیبل کے قتل کا ڈراپ سین ہوگیا، بیٹے ہی قاتل نکل آئے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3606kjt
via IFTTT

Monday, June 28, 2021

اسلامی ترقیاتی بینک پاکستان کو 4.5 ارب ڈالر قرض فراہم کرے گا ایکسپریس اردو

 اسلام آباد:  پاکستان اسلامی ترقیاتی بینک سے 4.5 ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کریگا جب کہ معاہدے پر دستخط ہوگئے۔

حکومت پاکستان اور اسلامی ترقیاتی بینک ( آئی ڈی بی ) کے درمیان 3سالہ فریم ورک ایگریمنٹ پر دستخط ہوگئے ہیں جس کے تحت بینک تیل اور گیس کی درآمد کے لیے  4.5 ارب ڈالر کا کمرشل قرضہ فراہم کرے گا۔

وزارت اقتصادی امور  کے اعلامیہ کے مطابق اسلامی ترقیاتی بینک  کے تجارتی سرگرمیوں کے لیے قرضہ مہیا کرنے والے ذیلی ادارے  انٹرنیشنل اسلامک ٹریڈ فنانس کارپوریشن (  آئی ٹی ایف سی ) نے  پاکستان کو خام تیل، ریفائنڈ پٹرولیم مصنوعات، ایل این جی اور یوریا جیسی بنیادی اشیاء کی درآمد کے لیے 3سال کے دوران 4.5 ارب ڈالر کا قرضہ فراہم کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے۔

معاہدے پر دستخط کی تقریب آن لائن منعقد کی گئی جس میں آئی ٹی ایف سی کے سی ای او ہانی سلیم سونبول اور سیکریٹری اقتصادی امور نوراحمد نے معاہدے پر دستخط کیے۔ وزیراقتصادی امور  عمرایوب خان بھی اس تقریب میں ورچوئل  طور پر موجود تھے۔

معاہدے کے تحت حاصل ہونے والی قرضے کی رقم سے پاکستان اسٹیٹ  آئل ( پی ایس او)، پاک عرب ریفائنری لمیٹڈ ( پارکو) اور  پاکستان ایل این لمیٹڈ ( پی ایل ایل) خام تیل، ریفائنڈپٹرولیم مصنوعات اور ایل این جی درآمد کریں گی۔

اس موقع پر عمرایوب خان نے قرض کی فراہمی پر آئی ٹی ایف سی کا شکریہ ادا کیا۔ وزارت اقتصادی امور کے مطابق  حکومت نے  2018-20  کے عرصے کے لیے بھی اتنی ہی مالیت کے  قرض کے معاہدے پر دستخط کیے تھے مگر  اس عرصے کے دوران 2.5 ارب ڈالر ( 55 فیصد )  قرضہ ہی کام میں لایا جاسکا تھا۔ حکومت سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر  کے بجائے 83.3 کروڑ ڈالراستعمال کرسکی تھی۔

وزارت اقتصادی امور کے مطابق اس کی وجہ  کورونا کی وبا کا پھوٹ پڑنا اور تیل کی کم ہوتی قیمتیں تھیں۔

The post اسلامی ترقیاتی بینک پاکستان کو 4.5 ارب ڈالر قرض فراہم کرے گا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3hhJUPP
via IFTTT

سندھ کابینہ، بغیر اجلاس نسیم میمن کی چیئرمین لاڑکانہ بورڈ تقرری کی منظوری ایکسپریس اردو

 کراچی:  سندھ کابینہ نے نسیم احمد میمن کو ثانوی و اعلی  ثانوی تعلیمی بورڈ لاڑکانہ کا چیئرمین مقرر کرنے کی منظوری دے دی۔

سندھ کابینہ نے عدالتی احکامات کے بعد نسیم احمد میمن کو ثانوی و اعلی  ثانوی تعلیمی بورڈ لاڑکانہ کا چیئرمین مقرر کرنے کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے نسیم میمن کی تقرری کا نوٹیفکیشن آج منگل کو جاری کرے گا۔

یہ منظوری سندھ کابینہ کے اجلاس کے انعقاد کے بغیر اراکین کابینہ کو “سرکولیشن” کے ذریعے بھیجی گئی تھی اور by way of circulation کابینہ کے 20 میں سے 15 اراکین نے وزیر اعلی سندھ کی جانب سے بھجوائی گئی اس سمری سے اتفاق کیا جبکہ 5 اراکین شہر میں موجود نہ ہونے کے سبب اپنی رائے نہ دے سکے۔

واضح رہے کہ دو روز قبل عدالت نے نسیم میمن کی  بحیثیت چیئرمین لاڑکانہ بورڈ عدم تقرری پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز میں تعینات ڈائریکٹر لیگل مدثر خان کی باز پرس کی تھی جبکہ سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز قاضی شاہد پرویز اور ڈائریکٹر لیگل مدثر خان کو شو کاز  نوٹس جاری کرتے ہوئے 29 جون تک وضاحت طلب کی تھی جسٹس جنید غفار کی سربراہی میں جسٹس مسز راشدہ اسد پر مشتمل دو رکنی بینچ نے چیئرمین میٹرک و انٹر بورڈ لاڑکانہ تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے کے خلاف پروفیسر نسیم میمن کی دائر توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کی۔

The post سندھ کابینہ، بغیر اجلاس نسیم میمن کی چیئرمین لاڑکانہ بورڈ تقرری کی منظوری appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3drknCL
via IFTTT

ترسیلات زرمیں 29.4 فیصد، برآمدات میں 10.4فیصد بڑھوتری ایکسپریس اردو

 اسلام آباد:  وزارت خزانہ کا کہناہے کہ قومی معیشت کے اشاریے نمایاں اقتصادی بحالی کی عکاسی کررہے ہیں جب کہ اقتصادی حرکیات میں تیزتراضافہ ہو رہا ہے۔

نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں حکومت نے بڑھوتری پرمبنی اقدامات تجویز کیے ہیں جس سے اقتصادی بڑھوتری کی رفتار جاری رہے گی اور اس سے معیشت میں مسابقت کی فضا کوتقویت ملے گی۔

جاری مالی سال میں سمندرپارپاکستانیوں کی ترسیلات زرمیں 29.4 فیصد، برآمدات میں 10.4، مجموعی غیرملکی سرمایہ کاری میں 107فیصد، محصولات میں 17.5 فیصد اورکیپٹل مارکیٹ میں سرمایہ اورکاروباری سرگرمیوں کے حوالہ سے نمایاں بڑھوتری قومی معیشت کی بحالی کا مظہرہے۔

وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کردہ ماہانہ اقتصادی اپ ڈیٹ کے مطابق جاری مالی سال کے پہلے 11ماہ میں سمندرپارپاکستانیوں کی ترسیلات زرمیں گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلہ میں 29.4 فیصدبڑھوتری ہوئی،26.7 ارب ڈالر زرمبادلہ ہوگیا۔

وزارت خزانہ کے مطابق جاری مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں براہ راست سرمایہ کاری میں گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلہ میں 27.7 فیصد کی کمی ہوئی ۔

The post ترسیلات زرمیں 29.4 فیصد، برآمدات میں 10.4فیصد بڑھوتری appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3hieOHU
via IFTTT