ملکی معیشت کو حکمرانوں کی نظر سے دیکھیں تو سب اچھا کی نوید ہے۔جب کہ متوسط اور غریب طبقے کی آنکھوں سے دیکھیں توحالات گراؤٹ کا شکار نظر آتے ہیں۔
گیس کی بندش، پٹرولیم مصنوعات مہنگی، بجلی کے بل برداشت سے باہر، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی فیسیں، اشیاء ضروریہ کی مہنگائی برداشت سے باہر۔ اس صورتحال سے عوام کو شدید ذہنی دباؤ کا سامنا ہے مگر اس سے حکومت کے انداز حکمرانی بلکہ انداز بے نیازی میں رتی برابر فرق نہیں آیا، عوام نے کہرام برپا کر رکھا ہے۔
اپنے مسائل اور مطالبات کے اظہار میں شدت جذبات، فرسٹریشن اور بے بسی جس سطح پر نظر آئی وہ ملک میں بیروزگاری، مہنگائی اور غربت کے ایک مہیب منظرنامہ کی عکاسی کرتی ہے، عوام کے دکھ شیئر کرنے والا کوئی نہیں، حقیقت پسندی شاید حکمرانوں کے لیے جمہوری رویوں کا کوئی مسئلہ ہی نہیں، کے پی کے ایک سیاست دان کا کہنا تھا کہ ملک میں قطعی کوئی مہنگائی نہیں، وہ ایک نئی منطق لے آئے کہ اگر مہنگائی نہیں ہوگی تو معیشت کا پہیہ کیسے چلے گا، حیرت ہے کہ مہنگائی سے انکاری حکمران اپنے سیاسی تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔
میڈیا ایک سیاسی بیانیہ کے گرد گھوم رہا ہے، حکومت خطے کی سیاست کے نشیب و فراز میں اس بات کو فراموش کرچکی کہ غربت، مہنگائی اور بیروزگاری نے عوام کو اعصابی طور پر نڈھال کر دیا ہے، اس کے بازو بھی شل ہیں اور ذہن بھی مفلوج، غریب آدمی نان شبینہ کو محتاج ہوگیا ہے، ایک مزدور، دیہاڑی دار، راج مستری، چھوٹا بلڈر، کسی دکان پر بارہ پندرہ سو روپے ماہوار کی ملازمت کرنے والے کے لیے ایک دن کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہیں، چائے پراٹھا کے دام بڑھ گئے، تھڑے پر ملنے والی چائے کا کپ تیس روپے کا ہوگیا ہے۔
چوبیس روپے کلو میں فروخت ہونے والا ٹماٹر مارکیٹ میں عید الاضحی سے پہلے ہی سو روپے میں بک رہا ہے، مسالے مہنگے، دالیں، سبزیاں، ادرک، پیاز، دارچینی، الائچی، سونف، مچھلی، بیکری آئٹمز، جوسز، کیک، پیسٹریز، سموسے، کٹلس، پکوڑے اور فٹ پاتھ پر تلی ہوئی مچھلی کے دام آسمان سے باتیں کر رہے ہیں، دودھ ، دہی اورلسی مہنگی ہے۔ ایک زمانہ تھا، غریب آدمی گھر سے نکلتا تو صبح، دوپہر کو کسی چھوٹے ہوٹل سے پیٹ بھر کر کھانا کھا لیتا تھا اور اسے کراچی بندہ نواز اور سستا شہر لگتا تھا، لیکن آج وہی کراچی دنیا کا مہنگا ترین شہر بن گیا ہے۔
انسانوں کا سمندر ہے اور کنکریٹ کا جنگل ہے، کوئی خاتون خانہ ایسی نہیں ملے گی جو مہنگائی کے ہاتھوں تنگ نہ ہو، کاروبار ٹھپ، تاجر پریشان، نان، ڈبل روٹی کے ریٹ ہوشربا، گنے کا رس سستا ترین مشروب تھا، آج گرمیوں میں اس کے دام تیس روپے فی گلاس جب کہ بڑی دکانوں پر اسے خوبصورت گلاس، اسٹرا اور ریپر کے بعد ساٹھ یا ستر روپے میں پیش کیا جاتا ہے، غریب اور متوسط طبقہ مٹن کو بھول گیا ہے، بیف اور چکن بھی اس کی جیب پر بھاری پڑ رہا ہے۔
بیکری، ہو یا دکان اور محلے کی مارکیٹیں سب عوام کی جیبیں خالی کراتی ہیں، ہر طرف مہنگائی، افلاس اور مجبوریوں کے قصے ہیں۔ ایک ملک گیر معاشی مس مینجمنٹ پر عوام کے دل کی بھڑاس نکال سکتی ہے، لوگ اقتصادی ترقی، ڈالروں کی برسات جیسے بیانات سنتے ہیں اور اپنے شب وروز سے کرتے ہیں تو انھیں افسوس ہوتا ہے کہ ارباب اختیار زمینی حقائق سے کس قدر بے بہرہ ہیں، یا اتنے سنگ دل اور بے حس ہیں کہ انھیں پتا ہی نہیں کہ ملک میں غریب خانے، مسافر خانے، مفت کھانے کھلا کر ملکی معیشت یا اقتصادی نظام کے مضبوط قلعے نہیں بنا ئے جاسکتے، باتیں تو حکمران غربت کے خاتمہ اور ایشین ٹائیگر بننے کی کرتے ہیں لیکن اپنے عوام کو معاشی آسودگی نہیں دے سکتے، مہنگائی کے لیے جس ٹائیگر فورس کو لائے تھے، اس کا کسی کو علم نہیں ہے کہ کہاں گئی ٹائیگر فورس۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حکومت نے 3سال میں مشکل حالات کا سامنا کیا، مہنگائی ہمارے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے، تاہم اس پر بہت جلد قابو پا لیں گے، کمزور طبقے کو ٹارگٹڈ سبسڈی دینے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، مشکل دور گزر گیا، آگے بہتری اور اصلاحات نظر آئیں گی، انھوں نے ان خیالات کا اظہار پیر کو ارکان پارلیمنٹ کے اعزاز میں دیے گئے عشائیہ سے خطاب میں کیا، عشائیے میں ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق)، جی ڈی اے سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کے اراکین اسمبلی نے شرکت کی، اس موقع پر وزیر اعظم نے شرکاء سے مختصر خطاب میں کہا کہ مشکل حالات میں ملک چلا رہے ہیں۔
حکومت نے 3سال میں مشکل حالات کا سامنا کیا، پاکستان کھانے پینے کی اشیا بھی درآمد کر رہا ہے، گندم اور دالیں بھی امپورٹ کرنا پڑ رہی ہیں، ہم اب زرعی شعبے کی ترقی کے لیے پیکیج لا رہے ہیں، کسانوں کو منڈیوں اور صارفین سے جوڑنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، امید ہے کہ ملکی معاشی حالات اتحادیوں کی سپورٹ سے بہتر بنا لیں گے، اتحادیوں نے ہر مشکل وقت میں حکومت کا بھرپور ساتھ دیا ہے اور آج بھی ان کی شرکت باعث تحسین ہے۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کی جانب سے کورونا پابندیوں میں مزید نرمی کر دی گئی ہے۔ سربراہ این سی او سی اور وفاقی وزیر اسد عمر کی زیر صدارت نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کا اہم اجلاس ہوا۔ جس میں کورونا صورتحال اور این پی آئیز کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ شادی کی تقریب آؤٹ ڈور 400 افراد کی گنجائش سے کرنے کی اجازت ہوگی۔
200 تک ویکسینیٹڈ افراد ان ڈور شادی کی تقریب میں شریک ہوسکیں گے۔ کاروباری مراکز کی ٹائمنگ رات 10 بجے تک کرنے کا فیصلہ، آوٹ ڈور ڈائن ان کی اجازت، ان ڈور پر 50 فیصد کی پابندی عائد ہوگی۔ صرف ویکسین لگوانے والے افراد ہی ان ڈور ڈائن ان کی سہولت حاصل کر سکیں گے۔ این سی او سی کے مطابق پٹرول پمپ، میڈیکل اسٹور سمیت ضروریات کے اہم کاروباروں کو 24/7 کھلنے کی اجازت ہوگی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمراں تعمیراتی شعبے میں مہنگائی کا نوٹس لیں، تعمیراتی میٹیریل، سریا، ریتی بجری، اینٹیں، لکڑی کا سامان، شیشہ، ٹائلز، رنگ و روغن، تعمیراتی مزدور کو درپیش مسائل، حکومتی و ریاستی طاقتیں، ملک میں تعمیرات، معاشی ترقی، ملک کے پڑھے لکھے نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کے طوفان کا راستہ روکنے کی تدبیر کریں، سٹیک ہولڈرز اس خاموش دراڑ اور کٹاؤ کے عمل کی تباہ کاریوں کا جائزہ لیں جو سیاست کو پراگندہ اور آلودہ کر رہی ہیں۔
ایک طرف بلند افلاک رہائشی اسکیموں کے نظارے ہیں دوسری طرف شہر قائد میں انہدام کی کارروائیوں سے پیدا شدہ معاملات ہیں، منتخب ایوانوں میں جمہوریت کے جنازے دھوم سے اٹھائے جانے کی باتیں ہیں، سیاسی کشیدگی میں کمی نہیں آ رہی، بحث ومباحثہ کا وہی تماشا لگا ہوا ہے۔
عوام روز الزامات اور اربوں کے سکینڈلز کا شور سنتے ہیں۔ بجٹ سے عوام کو امیدیں تھیں، اب بھی ہیں لیکن کوئی ایسی تقریر بھی سنائی دے جس سے غریب کو یقین آجائے کہ وہ صبح ضرور آئے گی، اچھے دن بھی آئیں گے، لیکن عوام صرف دستک کے انتظار میں نہیں رہیں گے، وہ فرسودہ سیاست، اپنی بے منزل زندگی سے آگے اور بچوں کے روشن مستقبل کے لیے افق کے پار نظریں جمائے ہوئے ہیں۔
معیشت دلفریب باتوں یا بے جا ٹیکس عائد کرنے سے بہتر نہیں ہوتی۔ معاشی ترقی کے لیے اولین شرط اکنامک منیجرز اور امور مملکت چلانے والوں کی ذہانت‘ دور اندیشی اور منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ پاکستان کی معیشت کو جس انداز میں چلایا جا رہا ہے‘ اس سے معاشی خود کفالت کی منزل تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ ایک غریب اور ترقی پذیر ملک کو آگے بڑھنے کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں رائج مارکیٹ اکانومی کے بجائے منصوبہ بند معاشی ماڈل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ غریب ملک بے لگام مارکیٹ فورسز کے ہوتے ہوئے کبھی معاشی خود کفالت کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔
سالانہ میزانیہ میں توانائی اور ذرایع نقل و حمل کے نرخ سالانہ بنیاد پر متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے اثرات معیشت پر یوں پڑیں گے کہ کاروباری طبقے اور زرعی طبقے کے اخراجات میں استحکام آئے گا۔ صنعتی ترقی کے لیے ہمیں سبسڈی بیسڈ انڈسٹری کے بجائے ایسی صنعتوں کو فروغ دینا ہو گا جو حکومت سے سبسڈی لینے کے بجائے حکومت کو ٹیکس کی مد میں ریونیو دے۔ شوگر اور کھاد انڈسٹری حکومت سے سبسڈی بھی لے رہی ہیں اور اپنی پروڈکٹ کی قیمتیں بھی من مرضی کی مقرر کر رہی ہیں۔
مارکیٹ میں مڈل مین کے کردار کو ختم کرنا ضروری ہے۔ زرعی اجناس کی خریداری گاؤں میں ہی کی جانی چاہیے۔ اس طریقے سے چھوٹے کسان کو ٹرانسپورٹ کے اخراجات‘ مڈل مین کی مفت بری اور سرکاری اہلکاروں کی لوٹ مار سے نجات ملے گی اور وہ اپنی فصل کی پوری قیمت وصول کر سکے گا۔یوں ہمارے دیہات خوشحال ہوں گے اور اس کے اثرات شہروں پر بھی آئیں گے۔5سالہ منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے ایسا طریقہ وضح کیا جانا چاہیے جس میں بیوروکریسی پر کڑی نگرانی کا چیک ہو تاکہ 5سالہ منصوبہ اپنے مقررہ اہداف مقررہ وقت میں حاصل کر سکے۔
The post معاشی بریک تھرو ناگزیر appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3duZ2Zj
via IFTTT
No comments:
Post a Comment