Saturday, February 29, 2020

اقوام متحدہ کے امدادی مشن برائے افغانستان کا افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدے کا خیر مقدم

حکومت ملک میں برقی گاڑیاں متعارف کروا رہی ہے، اس اقدام سے ملک کے ماحول پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے، ای وی پالیسی کے بعد پاکستان میں بجلی سے چلنے والی گاڑیوں میں انقلاب آئے ... مزید

وزیر اعظم عمران خان نے ملکی ترقی و استحکام کیلئے سخت فیصلے کئے اور متعدد اقدامات اٹھائے، عوام کو ریلیف دینے کیلئے مہنگائی پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے، وزیر مملکت برائے ... مزید

حکومت نے فیس ماسک کی قیمتوں میں اضافہ کرنے اور بلیک مارکیٹنگ میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈائون شروع کر دیا ہے، حکومت اور تمام صوبے ایک پیج پر ہیں‘ ہم سب مل کر اس وباء سے ... مزید

ئ* صفائی میں کسی طرح کا کوتائی برداشت نہیں کریں گے، انسپکٹر میونسپل کمیٹی جلال مری

پنجاب یونیورسٹی لاہور میں بلوچ اور پشتون طلباء پر ایک متعصب اور انتہاء پسند تنظیم کی جانب سے تشدد کی مذمت کرتے ہیں،ترجمان نیشنل پارٹی

پی ٹی آئی حکومت میں جہانگیر ترین کی آمدن میں 18.7فیصد اضافہ ترین کی سالانہ آمدن 37ارب روپے سے بڑھ کر57ارب روپے ہوگئی، گزشتہ سال 2لاکھ ٹن جبکہ اس سال 1لاکھ ٹن چینی برآمد ... مزید

شین واٹسن نے کامران اکمل سے بڑا ریکارڈ چھین لیا کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مایہ ناز بلے باز نے پی ایس ایل میں سب سے زیادہ چھکے لگانے کا ریکارڈ اپنے نام کرلیا

سرکاری سکیم کے تحت 5 دنوں میںملک بھر سے 13 نامزد بینکوں میں مجموعی طورپر60206حج درخواستیں وصول ہوئیں‘ ترجمان وزارت مذہبی امور

وزیراعظم عمران خان نے ثابت کیا کہ وہ عوام کو ریلیف دینے پر یقین رکھتے ہیں،مالی مشکلات کے باوجود تیل کی قیمتوں میں کمی کرنا عوام کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کے حکومتی عزم ... مزید

ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کا امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کا خیر مقدم پاکستان ہمیشہ سے ہی بطورِ مسلم برادر ہمسایہ ملک افغانستان میں امن کا خواہاں رہا ہے‘ قاسم ... مزید

ّجرم ثابت ہونے پر سیشن کورٹ اور جوڈیشل مجسٹریٹ کورٹ کا ملزمان کو قید اور جرمانے کا حکم

امریکہ کوویلکم کہنے والے قوم پرست آج امریکہ کی شکست پر حواس باختہ ہوکرمٹھائیاں تقسیم کررہے ہیں ،جمعیت علما اسلام نظریاتی پاکستان

دستار کی شان کے سامنے امریکی غرور کا سرنگوں ہونا تھکی ہوئی مظلوم افغانیوں کی عظیم فتح ہے ،جمعیت علماء اسلام ضلع کوئٹہ !امریکی افواج کا انخلاء اور عالم دنیا کو گواہ بناکر ... مزید

کیچ، پک اپ گاڑی الٹ گئی متعدد افراد زخمی،جانی نقصان نہیں ہوا

ں*تربت،کورونا وائرس سے بچائو کیلئے انتظامیہ کی طرف سے شہریوں میں سرجیکل ماسک تقسیم Yماسک کے حصول کیلئے شہریوں کی لائنیں لگ گئیں

۹ کوروناوائرس سے بچائو کیلئے نصیرآباد ڈویژن میں بھی ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جا رہے ہیں، عابدسلیم قریشی گ* تاحال ڈویژن بھرمیں کوئی بھی کوروناوائرس کا کیس سامنے ... مزید

آج ایک تاریخی دن ہے‘ آج ہمارے مصالحانہ کردار کو دنیا سراہ رہی ہے‘ ہمیں بہت سی مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا رہا لیکن ہم ثابت قدم رہے اور اللہ کے فضل و کرم سے آج ہمارے ... مزید

پاکستان نہیں جاؤں گا، مشفیق الرحیم اپنی ضد پر قائم بنگلا دیشی ٹیم کو اپریل میں ایک ٹیسٹ اور ایک ون ڈے میچ کے لیے کراچی آنا ہے

م*فیصل آباد،میٹرک سالانہ امتحانات کے سنٹرز پر طلباء کو سہولیات کی چیکنگ کا سلسلہ

د* فیسکو ریجن میں کھلی کچہریوں کے انعقاد کی بجائے ریکوری ڈے منایا گیا

'سپورٹس کسی بھی معاشرے ، قوم اور ملک کیلئے نہایت اہمیت کی حامل ہیں، کھیلوں کے میدان آباد ہوں تو ہسپتال ویران ہوتے ہیں،چیف ایگزیکٹو فیسکوشفیق الحسن

-فیصل آباد،ڈویژنل کمشنر چوہدری عشرت علی کا الائیڈ ہسپتال کے آئسولیشن وارڈ کا دورہ ٓ کرونا وائرس کے ممکنہ مریضوں کے لئے علاج معالجہ کی دستیاب طبی سہولیات کا تفصیلی جائزہ ... مزید

Friday, February 28, 2020

ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ایبٹ آباد میں 38 بستروں پر مشتمل کورونا وارڈ قائم

پی ایس ایل میں سرفراز احمد بطور کپتان مصباح اور آفریدی سے آگے ایکسپریس اردو

کراچی: کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے کپتان سرفراز احمد نے پی ایس ایل میں نیا ریکارڈ قائم کردیا، وہ ایونٹ کی تاریخ کے کامیاب ترین کپتان بن گئے۔

سرفراز احمد نے پی ایس ایل کی تاریخ کے کامیاب ترین کپتان بننے کا سنگ میل گذشتہ دن راولپنڈی میں اسلام آباد یونائیٹڈ کیخلاف کامیابی کی بدولت عبور کیا۔

ویب سائٹ ’’کرکٹ پاکستان‘‘ کے مطابق سرفرازکی کامیابی کا تناسب 63.04 فیصد رہا ہے،کوئٹہ کی ٹیم نے47 میں سے29 میچز جیتے،17 مواقع پر حریف سائیڈزحاوی رہیں،ایک میچ غیرفیصلہ کن رہا۔

واضح رہےکہ سابق کپتان شاہد آفریدی کی بطور کپتان جیت کا تناسب60 اور مصباح الحق کا 57.69 فیصد رہا،یہ دونوں فہرست میں بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔

The post پی ایس ایل میں سرفراز احمد بطور کپتان مصباح اور آفریدی سے آگے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2PvEofu
via IFTTT

پاکستان نے ہمیشہ افغان مسئلے کے پُرامن حل کی حمایت کی ہے۔ سہیل شاہین روسی مداخلت کے وقت بھی پاکستان کا کردار رہا، 40 سال سے 40 لاکھ افغان باشندے پاکستان میں تھے، اب بھی پاکستان ... مزید

ایشیا کپ یو اے ای میں ہوگا، بھارت کا ’’فیصلہ‘‘ ایکسپریس اردو

 لاہور:  ایشیا کپ یو اے ای میں ہوگا، پاکستان سے پہلے ہی بھارت نے فیصلہ سنا دیا۔

پی سی بی کو ستمبر، اکتوبر میں ایشیاکپ کی میزبانی کرنا ہے، بھارتی ٹیم کے پاکستان میں کھیلنے سے انکارکے بعد2 راستے ہیں،یا تو ایونٹ کا انعقاد پڑوسی ملک کی شمولیت کے بغیر ہی ہو یا مقابلے یواے ای میں کرائے جائیں۔ چیئرمین پی سی بی احسان مانی متوقع آمدنی متاثر ہونے کے پیش نظر ایونٹ کسی نیوٹرل وینیو پر کرانے کا عندیہ دے چکے ہیں تاہم حتمی فیصلہ ایشین کرکٹ کونسل کو کرنا ہے۔

ایک بھارتی اخبار کے مطابق اے سی سی کا اہم اجلاس منگل3 مارچ کودبئی میں طلب کیاگیا ہے، اس میں پی سی بی کے چیئرمین احسان مانی اور چیف ایگزیکٹیو وسیم خان بھی شرکت کریں گے، بورڈ کے سربراہ ہفتے کو دبئی جا رہے ہیں جبکہ چیف ایگزیکٹیو کی روانگی اتوار کو ہوگی۔

اس سے قبل ہی بی سی سی آئی کے صدر سارو گنگولی نے ایونٹ یو اے ای میں ہونے کا اعلان کردیا، میڈیا سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ایونٹ میں بھارتی ٹیم بھی شریک ہوگی۔

دوسری جانب پی سی بی نے اس بیان کو یکطرفہ قرار دے دیا، ترجمان نے واضح کیاکہ اے سی سی کے صدر سارو گنگولی نہیں نظم الحسن ہیں ایشیاکپ کے میزبان کا فیصلہ 3 مارچ کو ہوگا۔

The post ایشیا کپ یو اے ای میں ہوگا، بھارت کا ’’فیصلہ‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/39aQjqY
via IFTTT

مغربی سرحدیں کھول دی ہیں، مہاجرین تسلی سے یورپ جائیں، ترکی

مضبوط خاندان، مضبوط معاشرہ ایکسپریس اردو

معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان ہے اور خاندان کی بنیادی اکائی مرد و عورت پر مشتمل ہے۔ خاندان کا ادارہ ان دو ستونوں کے بل پر کھڑا ہوتا ہے اور ان کی مضبوطی اور توازن میں ہی اس کی بقا پوشیدہ ہوتی ہے۔ انسانی جسم و روح دونوں کا مجموعہ ہے اور اسے جسمانی ضروریات کی تکمیل کے ساتھ روحانی خواہشات کی تسکین بھی درکار ہوتی ہے۔ معاشرے میں موجود انسانوں کے درمیان قائم رشتے اور ان رشتوں میں موجود پیار و محبت اس کی روحانی سیرابی کا باعث ہوتا ہے۔ ان رشتو ں کو نبھانے کےلیے اختیار کی جانے والی صفات ہی اقدار و روایات کو جنم دیتی ہیں، جو ہر معاشرے کی پہچان ہوتی ہیں۔

گزشتہ کئی سال سے عورت کو بااختیار بنانے کے جس عالمی ایجنڈے کے تحت پاکستان کی پالیسیز بنائی گئیں، ان میں سب سے زیادہ زور عورت کی معاشی خودانحصاری اور ہر شعبہ زندگی میں اس کی بڑی تعداد میں نمائندگی پر دیا گیا۔ آج بیس پچیس سال بعد ہم دیکھتے ہیں کہ بلدیاتی سطح ہو یا قومی و صوبائی اسمبلی کے ادارے، عدالت ہو یا میڈیا، سرکاری و نیم سرکاری ادارے ہوں یا پرائیویٹ کمپنیاں، تجارتی ایوان ہوں یا تعلیمی ادارے، ہر جگہ پاکستانی عورت پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں اپنے فرائض سرانجام دیتی نظر آرہی ہے۔ حکومتی سطح پر تھوڑی سی حوصلہ افزائی نے ہی اسے ایسی اڑان دی ہے کہ آج وہ تعلیم کے میدان میں لڑکوں کو پیچھے چھوڑتی نظر آتی ہے۔ نتیجتاً معاشی لحاظ سے بھی وہ آج بڑی حد تک خود انحصار اور مضبوط ہوچکی ہے۔

یہ مناسب وقت ہے کہ ہم اس بات کا تجزیہ کرسکیں کہ عورتوں کی بہتر تعلیم اور معاشی خودانحصاری نے کیا اس کو حقیقی مسرت عطا کی اور معاشرے کی مجموعی صورتحال میں اس سے کتنی بہتری آئی؟ اگرچہ اسلام گھر بیٹھی عورت کو بھی نان نفقہ کی ادائیگی، مہر اور وراثت کے ذریعے مالی طور پر مضبوطی عطا کرتا ہے، لیکن معاشرے نے عورت کو سبق پڑھایا کہ جب تک تم پڑھ لکھ کر کمانے کے قابل نہیں بنو گی، مضبوط نہیں کہلا سکتیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ آج کی پڑھی لکھی مالی خودمختار عورت بھی مسائل کے جنگل میں گرفتار ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معاشرے کی مجموعی فضا اور سانچے کو بہتر بنائے بغیر محض ایک اکائی کی بہتری پر سوچا گیا، جب کہ معاشرے کی ہر کڑی دوسری کڑی سے مربوط ہوتی ہے۔ دوسری بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ فکری تربیت کا عنصر معاشرے سے گویا ختم ہی ہو چلا ہے۔ پہلے ماں کی گود سے جس روحانی تربیت کا آغاز ہوتا تھا اور پھیلتے پھیلتے گھر والوں، ہمسایوں، استاد، خاندان کے بزرگوں اور کتابوں کے اسباق تک وسعت پا جاتا تھا اب بالکل سکڑ کر رہ گیا ہے۔ مال اور کیریئر کی دھن نے اخلاقی اقدار کو دھندلا دیا ہے۔ آج بچے کے امتحان میں نمبر کم آجائیں تو والدین انتہائی پریشان ہوجاتے ہیں لیکن اخلاق خراب ہوجائیں تو انہیں اس کی اتنی فکر نہیں ہوتی۔ تعلیمی ادارے بھی محض رسمی تعلیم فراہم کرنے کے مرکز بن گئے ہیں۔ استاد جس کردار کو جِلا بخشنے کا مرکز ہوتا تھا، وہ منصب آج اس سے چھن چکا ہے۔ وہ محض رسمی اسباق پڑھا دینے کو اپنی ذمے داری سمجھنے لگا ہے۔

اگرچہ فکری تربیت کی کمی لڑکے اور لڑکیوں دونوں کے لحاظ سے نقصان دہ ہے، لیکن ایک عورت چونکہ گھر اور نسل دونوں چلانے کی ذمے دار ہے۔ اس لیے اس کی فکری تربیت مزید اہم ہوجاتی ہے۔ گھر عورت کے صبر اور برداشت کے بل بوتے پر بنائے اور چلائے جاتے ہیں۔ ماں کی محبت اور قربانی کے باعث ہی اس کے اجر کو تین گنا رکھا گیا، جب کہ باپ معاش کمانے اور کھلانے کا ذمے دار ہوتا ہے۔ اگر عورت کی تعلیم اسے یہ شعور نہیں دے پائے کہ اس کے حقیقی فرائض کیا ہیں، خاندان میں اس کا کردار کیا ہونا چاہیے، رشتوں کو نبھانے کےلیے کون سی صفات درکار ہیں، تو یہ تعلیم اسے مادی خوشحالی تو دے سکتی ہے لیکن اس کی روح حقیقی خوشی حاصل نہیں کرسکتی۔

شوہر، بچے اور گھر پر عورت کی فطری خواہش ہے اور اسی میں اس کا سکون اور خوشی پوشیدہ ہے، لیکن یہ امر تشویشناک ہے کہ آج جیسے جیسے عورت کی تعلیم کا گراف بڑھ رہا ہے، گھر ٹوٹنے کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ اس میں محض عورت کی سوچ کی کمی کو ذمے دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، کیونکہ رشتوں کو نبھانا دو طرفہ عمل ہے۔ لیکن مردوں کو بھی یہ سوچ گھر سے ہی مل سکتی ہے۔ جو ماں رشتوں کو نبھانے والی ہوگی، وہی اپنے بچوں کو یہ درس دے سکے گی۔

لڑکیوں کے تعلیمی میدان میں آگے بڑھ جانے کے باعث شوہر کے انتخاب میں ان کا معیار بھی بلند ہوچکا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مرد و عورت کی برابری کا سبق پڑھنے والی عورت آج بھی شادی کے وقت اپنے سے زیادہ تعلیم یافتہ اور زیادہ کمانے والے مرد کو شادی کےلیے منتخب کرنا چاہتی ہے۔ تعلیم اور معاشی حالت میں کمزور رہ جانے والے لڑکوں کی تعداد میں اضافے کے باعث بہتر تعلیم یافتہ لڑکیوں کی شادیاں مسئلہ بنتی جارہی ہیں۔ ایک طرف ایسے لڑکے اور ان کے گھر والے اچھا کمانے والی لڑکی گھر لاکر مالی حالات بہتر بنانے کے خواہشمند ہوتے ہیں تو دوسری طرف لڑکی اپنی تعلیم اور کمائی کے زعم میں صبر و برداشت، تحمل اور گھر اور رشتے بنانے کےلیے درکار وقت، موڈ، مزاج، عادات کی قربانی دینے کےلیے تیار نہیں ہوتی۔ نتیجتاً گھر بسانا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اور اگر سمجھوتے کے تحت ساتھ رہیں بھی تو گھر میں وہ پرسکون ماحول نہیں بن پاتا جس میں اگلی نسل کی بہترین تربیت ہوسکے۔

لازم ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نصاب میں جہاں مردوں کےلیے عورتوں کے بارے میں ان کے فرائض کو بیان کریں، عورتوں کی عزت کا سبق دیں، رشتوں سے حسن سلوک کی ترغیب دیں، اُسوۂ رسولؐ کا سبق پڑھائیں، وہاں بچیوں کو ان کے فرائض کی تعلیم دیں۔ باپ، بھائی، شوہر کے پرتحفظ حصار کی اہمیت واضح کریں۔ اُسوۂ صحابیات کو سامنے رکھیں۔ گھرداری اور بچوں کی تربیت، اہل خانہ کی دیکھ بھال، خاندان کی اہمیت سامنے رکھیں۔ اس ضمن میں والدین، معاشرہ اور میڈیا پر بھی بہت ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے کو بہتر بنانا ہے تو اپنے اپنے فرائض کی بہترین بجاآوری پر توجہ دینی ہوگی۔ جب ہر ایک اپنے فرائض احسن طریقے سے ادا کرے گا تو سب کو اس کا حق بھی مل جائے گا۔ محض عورت یا مرد کی برتری اور ترقی کی بات کرنے کے بجائے ہمیں خاندان و معاشرے کی بہتری و فلاح کی بات کرنی چاہیے۔ مرد و عورت کو رشتوں سے بغاوت کے بجائے رشتوں سے محبت کا سبق دینے کی ضرورت ہے۔

’’تنہا انسان نہ روتا بھلا، نہ ہنستا بھلا‘‘۔ دنیا کی ہر خوشی اور اطمینان پیار کرنے والے رشتوں کی موجودگی ہی سے ہے۔ رشتے عطا کرنے والی ذات رب کی ہے، لیکن ان رشتوں کی محبت انسان خود ہی برقرار رکھنے کا ذمے دار ہے۔ عورت کے کندھوں کو مضبوط بنانے کے ساتھ مردوں کو بھی اونچی اڑان کا حوصلہ دیں کہ وہ عورتوں کے ضمن میں اپنی ذمے داریوں کو سمجھیں اور نان نفقہ، مہر اور وراثت کی ادائیگی سے ان کے حقوق کا تحفظ کریں۔ اللہ نے انہیں قوام بنا کر احترام، تحفظ اور نگرانی کا فرض سپرد کیا ہے۔ ان کی جانب سے عورتوں کی ذرا سی حوصلہ افزائی و شفقت کا معاملہ خاندان بھر کو رشتوں کی شیرینی عطا کرے گا۔ جس کا پھل وہ اور ان کی اگلی نسل چکھے گی۔ طاقت سے محض سر جھکائے جاسکتے ہیں جب کہ محبت سے دل فتح ہوجاتے ہیں۔ رشتوں کی خوبصورتی ایک دوسرے کی بات کو برداشت کرنے میں ہے۔ بے عیب انسان کی تلاش انسان کو تنہا کردیتی ہے۔

لڑکیوں کو چاہیے کی کیریئر اور خاندان میں سے ترجیح خاندان کو دیں اور خاندان والوں کو چاہیے کہ کیریئر بنانے میں لڑکیوں سے تعاون کریں۔ باہمی ادب و احترام اور اعتماد و حوصلہ افزائی سے معاشرہ کو انتشار سے بچایا جاسکتا ہے۔ اپنے کردار سے ان اخلاقی اقدار و روایات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے جو ہمارے معاشرے کا اثاثہ ہے۔ میڈیا کی ذمے داری ہے کہ وہ مرد و عورت کو متحارب فریق بنا کر پیش کرنے سے گریز کرے اور ان کے مابین رشتے کی مضبوطی کو اجاگر کرے۔ نیز حکمرانوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ عالمی ایجنڈے کو اپنے ملک میں نافذ کرتے وقت اپنے دین اور اپنی تہذیب کی تعلیمات کو نظر انداز نہ کریں۔ خاندان دوست قوانین اور پالیسیز کو نافذ کریں تاکہ معاشرہ بہتر روایات کے ساتھ پھل پھول سکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post مضبوط خاندان، مضبوط معاشرہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2PxofWS
via IFTTT

نسیم شاہ کی بولنگ اسپیڈ سے زیادہ معیار پر توجہ مرکوز ایکسپریس اردو

 لاہور:  نسیم شاہ کی بولنگ اسپیڈ  سے زیادہ معیار پر توجہ مرکوز ہے،پیسر کا کہنا ہے کہ شعیب اختر کا ریکارڈ توڑنے کے بارے میں نہیں سوچتا، یارکر سمیت بولنگ میں اپنی مہارت بہتر بنانا چاہتا ہوں۔

پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ https://ift.tt/2QIuKoB کے پروگرام ’’کرکٹ کارنر ود سلیم خالق‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے نسیم شاہ نے کہا کہ میں شعیب اختر کا انٹرنیشنل کرکٹ میں تیز ترین گیند کرانے کا ریکارڈ توڑنے کے بارے میں نہیں سوچتا، میری توجہ یارکرز میں مہارت سمیت اپنی بولنگ کا معیار بہتر بنانے پر مرکوز ہے،ابھی تک ٹی ٹوئنٹی میچز میں ملک کی نمائندگی کا موقع نہیں ملا، اس فارمیٹ میں بھی قومی ٹیم میں جگہ بنانا چاہتا ہوں۔

پیسر نے کہا کہ بنگلہ دیش کیخلاف ٹیسٹ میں ہیٹ ٹرک کرنے والے کم عمر ترین بولر کا اعزاز حاصل کرنا یادگار لمحہ تھا، اپنی کامیابی کے سفر میں ہمیشہ محنت پر یقین رکھا،نوجوانوں کیلیے بھی پیغام ہے کہ یہی راستہ اختیار کریں۔

ایک سوال پر  نسیم شاہ نے کہا کہ پی ایس ایل میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرزکی نمائندگی کا موقع ملنا بڑے فخر کی بات ہے،ابتدائی دونوں میچز میں احتیاط برتتے ہوئے میدان میں اتارنے سے گریز کیا گیا لیکن اب مکمل فٹ ہوں، گذشتہ سال انجرڈ ہونے کی وجہ سے کوئی میچ نہیں کھیل پایا تھا لیکن پریشانی اس لیے نہیں ہوئی کہ ڈریسنگ روم میں خاندان جیسا ماحول تھا۔

انھوں نے کہا کہ سرفراز احمد بہترین کپتان اور کرکٹ کی گہری سمجھ بوجھ رکھتے ہیں،بولنگ کرتے ہوئے بھی ان کی رہنمائی کا بہت فائدہ ہوتا ہے،اس بار بھی کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کا کمبی نیشن بڑا متوازن اورپوری امید ہے کہ ٹائٹل کا دفاع کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

 

 

The post نسیم شاہ کی بولنگ اسپیڈ سے زیادہ معیار پر توجہ مرکوز appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2PxoeSO
via IFTTT

ملتان سلطانز مسلسل تیسری فتح کے لیے پُرعزم ایکسپریس اردو

 لاہور:  پی ایس ایل 5میں ہفتے کو ان فارم ٹیموں کا مقابلہ ہوگا جب کہ ملتان سلطانز ہوم گراؤنڈ پر مسلسل تیسری فتح کا عزم لیے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز سے نبرد آزما ہوں گے۔

ملتان سلطانز ہفتے کو ہوم گراؤنڈ پر مضبوط حریف کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مقابل ہوں گے، میزبان ٹیم نے 4میچز میں 3فتوحات حاصل کی ہیں، ان میں سے آخری 2اپنے شہر میں تھیں، معین علی بیٹنگ فارم بحال کرچکے،ذیشان اشرف جارح مزاج اوپنر ہیں،شان مسعود بھی ٹیم کی ضرورت کے مطابق ثابت قدمی کا مظاہرہ کررہے ہیں،رلی روسو طوفانی بیٹنگ کرسکتے ہیں،خوشدل شاہ کے ساتھ آل راؤنڈرز شاہد آفریدی اور روی بوپارا بھی موجود ہوں گے۔

عمران طاہر اسپن کا جادو جگائیں گے، پیس بیٹری میں سہیل تنویر اور محمد عرفان بیٹسمینوں کا امتحان لیں گے،کوئٹہ گلیڈی ایٹرز ابھی تک 3فتوحات کے ساتھ ایونٹ کی دوسری کامیاب ترین ٹیم ہیں، شین واٹسن فارم کے متلاشی جبکہ جیسن روئے ردھم میں آچکے ہیں،اعظم خان چھکے چھڑا سکتے ہیں، احمد شہزاد کو باہر بٹھانے کا امکان بڑھ گیا،سرفراز احمد امیدوں کا مرکز ہوں گے،محمد نواز اور بین کٹنگ بہترین آل راؤنڈر ہیں، ٹیم میں محمد حسین، نسیم شاہ اور ٹائمل ملز جیسے پیسرز بھی موجود ہیں۔

دوسری جانب رات کو راولپنڈی میں اسلام آباد یونائیٹڈ کو پشاورزلمی کیخلاف میچ میں دوبارہ فتح کے ٹریک پر آنے کا موقع ملے گا، میزبان ٹیم نے ابھی تک 4 میں سے 2میچز جیتے ہیں،اسے لیوک رونکی،کولن منرو، ڈیوڈ میلان، کولنگ انگرام اور آصف علی پر مشتمل طویل بیٹنگ لائن میسر ہے،کپتان شاداب خان، فہیم اشرف اور عماد بٹ آل راؤنڈ کارکردگی دکھاسکتے ہیں،پیسرز محمد موسیٰ اور رومان رئیس بھی موجود ہوں گے۔

پشاور زلمی کی بیٹنگ فارم میں واپسی کی منتظر ہے، کامران اکمل اور ٹام بینٹن سے اچھے آغاز کی امیدیں ہوں گی، وہاب ریاض، حسن علی اور ڈیرن سیمی بال کے ساتھ بیٹ سے بھی پرفارم کرسکتے ہیں۔

The post ملتان سلطانز مسلسل تیسری فتح کے لیے پُرعزم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3cfmbMV
via IFTTT

کراچی کنگز نے عمر خان کو فالتو پرزہ سمجھ لیا، بولنگ کرانے سے گریز ایکسپریس اردو

 لاہور:  کراچی کنگز نے عمر خان کو فالتو پرزہ سمجھ لیا۔

گذشتہ ایونٹ میں 16.13کی اوسط سے 15شکار کرنے والے اسپنر چوتھے کامیاب ترین بولر تھے، انھوں نے ڈی ویلیئرز سمیت کئی نامور بیٹسمینوں کو پریشان کیا لیکن رواں سیزن میں ایک گیند بھی نہیں کرا سکے۔ ملتان سلطانز کیخلاف جمعے کو پلیئنگ الیون میں شامل ہونے کے باوجود انھیں ایک اوور بھی نہیں دیا گیا۔

اس حوالے سے کپتان عماد وسیم نے وضاحت پیش کی کہ ہوا کا رخ مخالف اور میزبان ٹیم میں کئی لیفٹ ہینڈرز ہونے کی وجہ سے عمر کو بولنگ دینے کا خطرہ مول نہیں لیا گیا، اسی طرح کی وضاحت ہیڈ کوچ ڈین جونز نے بھی پیش کرتے ہوئے کہا کہ باصلاحیت بولر کو اگلے میچز میں موقع ملے گا۔

The post کراچی کنگز نے عمر خان کو فالتو پرزہ سمجھ لیا، بولنگ کرانے سے گریز appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2I7Py5Y
via IFTTT

کرکٹ کمیٹی کے چیئرمین نے 4 روزہ ٹیسٹ کی مخالفت کردی ایکسپریس اردو

نئی دہلی: آئی سی سی کرکٹ کمیٹی کے چیئرمین انیل کمبلے نے 4 روزہ ٹیسٹ کی مخالفت کردی۔

انیل کملبے نے کہا کہ چاردن میں میچ نہیں ہوسکتا، مجھے خوشی ہے کہ پلیئرز نے میرے موقف کی تائید کردی ہے، آئی سی سی بورڈ نے ٹیسٹ میچز کا دورانیہ 5 سے کم کرکے 4 روز تک کرنے کا فیصلہ کرکٹ کمیٹی کو سونپا ہوا ہے۔

کمبلے نے کہاکہ افغانستان، آئرلینڈ اور زمبابوے جیسے ممالک کے ساتھ اگر فل ممبران چاہیں تو باہمی ٹیسٹ میچز کو محدود کرسکتے ہیں، البتہ یہ معاملہ اس سے باہر نہیں ہونا چاہیے۔

The post کرکٹ کمیٹی کے چیئرمین نے 4 روزہ ٹیسٹ کی مخالفت کردی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3akZvJD
via IFTTT

6 ماہ سے پاک بھارت تجارت بند ہزاروں افراد بے روزگار ایکسپریس اردو

 لاہور:  پاکستان اور بھارت کے مابین مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کولیکر واہگہ اٹاری بارڈر کے راستے دوطرفہ تجارت کوبند ہوئے 6 ماہ ہونے کوہیں۔

پاکستان اور بھارت میں باہمی تجارت کی بندش سے جہاں دونوں ملکوں کی تجارت کی وجہ سے حاصل ہونیوالی آمدن بندہوئی ہے وہیں اس کام سے جڑے ہزاروں افراد بھی بیروزگار ہیں جبکہ واہگہ اور اٹاری سرحد کے قریب کاروباری سرگرمیاں ماندپڑچکی ہیں۔

فروری 2019 میں مقبوضہ کشمیرکے پلوامہ ضلع میں ہونے والے حملے کے بعد بھارت نے پاکستان سے تجارتی سامان کی درآمدپر 200 فیصد ڈیوٹی عائد کردی اورپاکستان سے موسٹ فیورڈنیشن کادرجہ واپس لے لیا تھا جبکہ اگست 2019 میں جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی توپاکستان نے بطور ردعمل بھارت سے تجارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے۔

The post 6 ماہ سے پاک بھارت تجارت بند ہزاروں افراد بے روزگار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2I68cvi
via IFTTT

کورونا وائرس سے اموات کی شرح صرف 2 فیصد ہے، ڈبلیو ایچ او ایکسپریس اردو

کراچی:  2ماہ قبل پھیلنے والا کورونا وائرس آج دنیا کیلیے خطرہ بن چکا ہے، پاکستان میں کورونا وائرس کے 2تصدیق شدہ کیسوں کے سامنے آتے ہی ملک بھر میں خوف و ہراس کی فضا پیدا ہوگئی۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق کورونا وائرس کی ایسی اقسام سے تعلق رکھتا ہے جو انسانوں اور جانوروں میں تنفس یعنی سانس لینے میں دشواری جیسے انفیکشن کا سبب بنتے ہیں،لوگ قدرتی طور پر خوفزدہ ہیں کیونکہ وائرس پوری دنیا میں پھیل رہا ہے جس میں روزانہ تصدیق شدہ کیسوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، رواں ماہ کے آخر تک دنیا بھر میں تقریباً82ہزار افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں۔ سب سے زیادہ تعداد چین میں ہے جہاں 78 ہزار سے زیادہ افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ 2663افراد ہلاک ہوچکے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق کورونا وائرس میں وبا کی صلاحیت موجود ہے۔کورونا وائرس کی کچھ عام علامات میں بخار ، خشک کھانسی اور تھکاوٹ شامل ہیں، ڈبلیو ایچ او کے مطابق متاثرہ افراد سر درد ، جسم میں درد ، ناک بہنا ، گلے میں سوزش یا اسہال کا بھی سامنا کرسکتے ہیں، علامات اچانک ظاہر نہیں ہوتیں، وائرس آہستہ آہستہ نشونما پاتا ہے جبکہ کچھ لوگ اس مرض سے بیمار ہو سکتے ہیں اور ان میں کوئی علامات بھی ظاہر نہیں ہوتیں وہ لوگ جو COVID-19 کی وجہ سے شدید بیمار ہو جاتے ہیں انھیں سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بیماری سنگین ہونے کی صورت میں اعضا کام کرنا بھی چھوڑ سکتے ہیں، ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ COVID-19- ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے عام طور پر جب کسی متاثرہ شخص کو کھانسی آتی ہے یا چھینک آتی ہے تو وہ اپنی ناک یا منہ سے چھوٹی بوندوں کے ذریعے وائرس پھیلاتے ہیں، وائرس ہوا کے ذریعے نہیں پھیلتا،یہ بیماری شدید صورتوں میں مہلک ہوسکتی ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق کورونا وائرس سے متاثرہ 80 فیصد مریض کسی خاص علاج معالجے کے بغیر صحتیاب ہو سکتے ہیں۔ ابھی تک کوویڈ 19 میں اموات کی شرح صرف 2فیصد ہے۔فی الحال کوویڈ 19 سے بچاؤ کی کوئی ویکسین موجود نہیں ہے لہٰذا وائرس سے روک تھام کے اقدامات کرنا انتہائی ضروری ہیں ،ڈبلیو ایچ او کے رہنما اصولوں کے مطابق لوگوں کو کورونا وائرس سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے چند اقدامات کرنے چاہئیں۔

The post کورونا وائرس سے اموات کی شرح صرف 2 فیصد ہے، ڈبلیو ایچ او appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3aijKro
via IFTTT

فساد میں انسانیت کی خاطر ہندو پڑوسی نے مثال قائم کردی ایکسپریس اردو

نئی دہلی:  دہلی فسادات کے دوران انسانیت کی خاطر ہندو پڑوسی نے لازوال مثال قائم کردی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے جنونی ہندو بلوائیوں کے حملے کے دوران زمانے سے محلوں میں ایک ساتھ رہنے والے ہندو اور مسلمان سخت امتحان سے دوچار ہوئے جہاں ہندو پڑوسیوں کو کسی بھی صورت اپنے مسلمان بھائیوں کی جان بچانی پڑی ایسی ہی ایک کہانی دلی کے حاجی مجیب الرحمن کی ہے جنھیں ان کے ہندو پڑوسی سنجیو بھائی نے اپنے گھر میں پناہ دی۔

بھارت کی نامور خاتون صحافی برکھا دت نے دلی میں مسلمانوں پر ہندو انتہا پسندوں کے بلوائی حملوں کے بعد اس واقعے کی تصدیق کے لیے حاجی مجیب الرحمن سے ملاقات کی جس میں انھوں نے صورتحال جاننے کی کوشش کی۔

حاجی مجیب الرحمن دہلی میں مٹھائی کی دکان چلاتے ہیں انھوں نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں ہندو آبادی کے بیچ صرف 3 مسلمانوں کے مکانات ہیں بلوائی اچانک جھتے کی شکل میں ہمارے مکانات کے پاس جمع ہوکر نعرے لگانے لگے کہ ملاؤں باہر نکلو ، ہم تمہیں دیکھ لیں گے۔

مغلظات بکنے لگے، وہ سب کے سب باہر سے آئے تھے جنھیں علاقے کا کوئی فرد نہیں پہچان سکا تھا جبکہ ہمارے پڑوسی ہندوؤں نے ہمیں تسلی دیتے ہوئے ہمارے گھروں کو باہر سے تالے لگاکر اندر رہنے کا کہا اور جب بلوائیوں نے مکانات پر حملے شروع کیے تو ہندو پڑوسیوں نے پچھلے راستے سے ہمیں گھروں سے نکال کر اپنے گھروں میں پناہ دی مکانات کو تالے دیکھ کر واپس چلے گئے قریباً ایک بجے رات کو بلوائی جتھہ دوبارہ محلے میں وارد ہوا اور اب کی بار انھیں یہ بھی پتہ لگ گیا تھاکہ پیشے سے سنار سنجیو بھائی نے پڑوسی مجیب الرحمن اور ان کے خاندان کو گھر میں پناہ دی ہے۔

بلوائی سنجیو بھائی کے گھر پر آدھمکے اور انھیں دھمکانے لگے کہ جن غداروں کو تم نے پناہ دی ہے انھیں باہر نکالو لیکن سنجیو بھائی نے تمام دھمکیوں کے باجود اپنے مسلمان پڑوسیوں کی حفاظت کی اور انھیں ہندو بلوائیوں کے حوالے نہیں کیا۔

حاجی مجیب الرحمن نے بتایا کہ جیسے تیسے وہ رات کٹی صبح فجر کی اذان کے وقت سنجیو بھائی نے گاڑیوں کا انتظام کیا اور مسلم اکثریت والے علاقے مصطفی آباد میں ہمارے رشتے داروں کے ہاں ہمیں چھوڑ دیا اسی دوران مجیب الرحمن نے بتایا کہ میرے بھتیجے کی بیوی حاملہ تھی اچانک سے اسے درد ہونے لگا اور باہر بلوائیوں کے حملے جاری تھے کہ اسی اثنا میں سنجیو بھائی نے حاملہ لڑکی کو موٹرسائیکل پر بٹھاکر اسپتال پہنچایا۔

صحافی برکھا دت اس کہانی کی تصدیق کے لیے سنجیو کمار سے بھی ملیں اور ان سے سوالات کیے کہ آپ نے کیسے مسلمان خاندان کی جان بچائی تو سنجیو بھائی کا کہنا تھا کہ انسانیت کے ناطے یہ ہمارا فرض ہے کہ کسی کی بھی جان بچائیں اسی دوران مجیب الرحمن بھائی کا مجھے فون آیا کہ ہماری جان خطرے میں ہے آج رات آپ اپنے گھر میں ہمیں پناہ دے دیں اسی اثنا محلے کے تمام رہائشی جمع ہوگئے اور مجیب الرحمن سے کہا کہ سنجیو کے گھر رکنا چاہیں تو رکیں ورنہ ہمارے گھروں میں چلیں ہم آپ کی حفاظت کریں گے۔

مجیب الرحمن نے کہا کہ پورا خاندان سنجیو بھائی کے گھر رکے گا رات گئے ان کے بھتیجے کی بیوی کو زچگی کا درد اٹھا جس پر مجیب الرحمن نے کہا کہ سنجیو بھائی آپ انھیں اسکوٹر پر اسپتال پہنچائیں اسی دوران سنجیو نے لڑکی کو ڈسپنسری پہنچایا جہاں ڈاکٹروں نے چیک اپ کے بعد علاج سے منع کرکے بڑے اسپتال لے جانے کا کہا اور باہر فساد برپا تھا۔

اسی اثنا حاجی مجیب الرحمن نے کہا کہ آپ لڑکی کو بابو نگر لے جائیں وہاں ہمارے کچھ رشتے دار ہیں وہ دیکھ لیں گے لیکن بابو نگر جس علاقے میں ہے وہاں جانے کی کسی میں ہمت نہیں تھی۔ وہاں آمنے سامنے ہندوؤں اور مسلمانوں کی آبادیاں ہیں اگر میں حاملہ لڑکی کو وہاں لے جاتا تو میں خود میں مشکل میں پھنس سکتا تھا میں اگر اللہ اکبر بولتا تو تب مرتا میں اگر شری رام بولتا تو تب بھی مرتا لیکن پھر میں نے لڑکی کو وہاں پہنچانے کا فیصلہ کیا۔

ایک سوال پر سنجیو نے کہا کہ اس واقعے کے بعد لوگ مسلمان پڑوسیوں کو پناہ دینے پر مجھے غدار اور دہشت گرد کہہ رہے ہیں یہ کہتے ہوئے سنجیو بھائی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ اپنے جذبات قابو کرتے ہوئے بولے کہ یہ مذہب کے نام پر تقسیم ہورہی ہے یہی ہمارے رونے کی وجہ ہے اور اسی سے یہ فساد بڑھ رہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ مجیب الرحمن کے خاندان کے ہمارے گھر سے جانے کے بعد میری بیٹی پریانچی نے 3 دن سے کھانا نہیں کھایا یہ اپنے مسلمان پڑوسیوں سے اتنا پیار کرتی ہے پریانچی نے آتے ہی رونا شروع کردیا برکھادت نے جب بچی سے سوال کرنا چاہا تو وہ زارو قطار رونے لگی پریانچی نے کہا کہ میرے والد نے مجیب الرحمن انکل اور ان کے خاندان کی جان بچائی جس پر میں اپنے والد پر فخر کرتی ہوں۔

The post فساد میں انسانیت کی خاطر ہندو پڑوسی نے مثال قائم کردی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2I4KTSj
via IFTTT

کورونا مریضوں کو کراچی سے باہر گڈاپ کے اسپتال منتقل کرنیکا فیصلہ ایکسپریس اردو

کراچی: محکمہ صحت نے کورونا وارئس کے مشتبہ مریضوں کو کراچی سے علیحدہ رکھنے کافیصلہ کرلیا، گڈاپ ٹاؤن میں وائرس سے متاثرہ مریضوں کیلیے پہلا 50 بستروں پر مشتمل اسپتال قائم کر دیا گیا جب کہ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف پر مشتمل 15 رکنی ہیلتھ ٹیم کو رونا وائرس کی مشتبہ صورتحال پر سہولتیں مہیا کرے گی۔

محکمہ صحت نے کورونا وارئس کے مشتبہ مریضوں کو کراچی سے علیحدہ رکھنے کا فیصلہ کرلیا ،یہ فیصلہ حفاظتی اقدامات کے پیش نظر کیا گیا ہے، جمعہ کو سیکریٹری صحت اور ڈائریکٹر صحت نے بھی گڈاپ ٹاؤن میں50 بستروں پر مشتمل پہلے کورونااسپتال کا دورہ بھی کیا اور کو مریضوں کو مستقبل میں فراہم کی جانے والی طبی سہولتوں کا جائزہ بھی لیا اور تمام اسپتالوں کی انتظامیہ کو ہدایت دی ہے کہ پیر سے وائرس سے متاثرہ اور مشتبہ مریضوں کو گڈاپ اسپتال منتقل کیاجائے، اسپتال میں انتہائی نگہداشت یونٹ بھی قائم کردیا گیا ہے۔

حکومت سندھ کی جانب سے کراچی کے گڈاپ ٹاون میں وائرس سے متاثرہ مریضوں کیلیے مختص کیا جانے والا پہلا 50 بستروں پر مشتمل اسپتال قائم کردیا تاکہ متاثرہ اور مشتبہ مریضوں کو کراچی سے علیحدہ رکھا جاسکے، حکومت سندھ نے یہ فیصلہ عوام کی حفاظتی اقدامات کے پیش نظر کیا ہے کیونکہ شہر میں قائم سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کے ہجوم اوربے پناہ رش ہوتا ہے کورونا وائرس ایک سے دوسرے صحت مند افراد میں منتقل ہوتا ہے اس لیے حکومت نے ایسے مریضوں کو آبادی سے دور گڈاپ اسپتال میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

دریں اثنا ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف پر مشتمل 15 رکنی ہیلتھ ٹیم کورونا وائرس کی مشتبہ صورتحال پر سہولتیں مہیا کرے گی، ٹیم کی ذمے داریوں میں اسکریننگ اور نشاندہی اور دیگر ذمے داریاں شامل ہیں، سیکریٹری ہیلتھ سندھ نے کہا کہ ہیلتھ ٹیم علامات ظاہر ہونے پر مریض کو مکمل حفاظت کے ساتھ اسپتال منتقل کرے گی۔

The post کورونا مریضوں کو کراچی سے باہر گڈاپ کے اسپتال منتقل کرنیکا فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3cijTg9
via IFTTT

امریکا طالبان امن معاہدے پر آج دوحا میں دستخط ہوں گے ایکسپریس اردو

 اسلام آباد / کراچی: امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر آج دوحہ میں دستخط ہوں گے، طالبان چاہتے ہیں کہ معاہدے پر صدر ٹرمپ یا سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو دستخط کریں تاہم آخری وقت تک یہ واضح نہ ہو سکا کہ امریکا کی جانب سے کون معاہدے پر دستخط کرے گا۔

طالبان کے نائب امیر سراج الدین حقانی نے نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے حالیہ مضمون میں کہا تھا کہ طالبان عالمی معاملات پر قرآن و سنت کی روشنی سمجھوتہ کرنے کیلیے تیارہیں ،جن میں خواتین کے حقوق اور یورپی ملکوں سے تعلقات شامل ہیں۔

افغان امن معاہدے کے بعد دوسرا مرحلہ ممکنہ طور پر مارچ کے اوائل میں شروع ہوگا تاہم اس میں تبدیلی بھی ممکن ہے۔افغان مفاہمتی عمل کا دوسرا مرحلہ ’’انٹرا افغان مذاکرات ‘‘ہیں،اس مرحلے میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوں گے،مذاکراتی مرکز کا تعین فریقین مشاورت سے کریں گے۔

ان مذاکراتی مرحلے کوآگے بڑھانے کے لیے ’افغان امن کانفرنس ‘ کا انعقادبھی باہمی مشاورت سے ہوگا۔ افغان امن معاہدے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی بھارتی کوششیں ناکام ہو گئیں۔50 ملکوں کے نمائندے اس تقریب میں شریک ہوں گے، اس وقت دو موضوع زیر بحث ہیں۔

لوگ سوال کر رہے ہیں کہ کیا یہ بھارت کا سیکولر چہرہ ہے،انصاف کرنے والے جج کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔صدر ٹرمپ کے دورے کے وقت خیال تھا کہ تجارتی معاہدہ ہو گا۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی معاہدے پر اتفاق نہ ہو سکا۔ صدر ٹرمپ کی موجودگی میں پولیس کا سہارا لے کر آ ر ایس ایس کے غنڈے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے تھے اور مساجد پر اپنے جھنڈے لگا رہے تھے۔ دنیا یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔

مائیک پومپیو نے ایوان نمائندگان کی امور خارجہ کمیٹی کو بتایا ہے کہ گزشتہ چھ دنوں میں افغانستان میں تشدد کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے،تاہم ہم افغانستان میں ایران کی مداخلت پر نظر رکھے ہوئے ہیں، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی تقریب میں شرکت کیلئے دوحہ میں موجود ہیں۔ افغان امن معاہدہ پاکستان کے لیے اعزاز اور پاکستان کی کوششوں کا اعتراف ہے، افغانستان میں قیام امن کے لیے آج دنیا پاکستان کے کردار کی تعریف کر رہی ہے۔

دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے ایکسپریس ٹریبون سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں پاکستان نے ’’سہولت کار ‘‘ کا کردار ادا کیا ہے۔

The post امریکا طالبان امن معاہدے پر آج دوحا میں دستخط ہوں گے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/39aSRFw
via IFTTT

ریاست کا آئینہ اور اختیاراتی کرچیاں ایکسپریس اردو

ریاست بنانے کا مقصد ہی یہی تھا کہ وہ انفرادی آزادیوں پر کچھ پابندیوں اور روزمرہ انتظام چلانے کے اخراجات کی وصولی کے عوض تمام شہریوں کو بلا امتیاز جان و مال کے تحفظ سمیت بنیادی سہولتیں فراہم کرے اور کسی اور کو ریاست کے اندر ریاست نہ بننے دے۔ عرض یوں ہے کہ خدا کو چھوا تو نہیں جاسکتا لیکن طرح طرح سے محسوس ضرور کیا جاسکتا ہے۔بالکل اسی طرح ریاستی اختیار نام کی شے آپ کو کسی ٹھیلے پر نہیں ملے گی۔

اگر ریاست مساویانہ و منصفانہ پالیسی بنانے اور نفاذ کرنے میں ناکام ہو گی تو پھر یا تو وہ ظلم کا سہارا لے گی یا پھر اس کا اختیار مٹھی میں بند ریت کی طرح گرتا اور لٹتا چلا جائے گا۔یہ وہ پھسل منڈا ہے جس سے اگر ریاست کا پیر رپٹ جائے تو اپنے ہی بوجھ سے خود کو نیچے ہی نیچے جانے سے نہ روک پائے۔

اس کے بعد ریاستی رٹ کو دلی کے محلوں میں دندناتے ہجوم کے ہاتھوں میں یا پھر لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کے آگے دیکھا جا سکتا ہے۔

ایسے حالات میں ریاستی اختیار اس موٹر سائیکل سوار کے پاس آجاتا ہے جو کسی بھی چوک پے باوردی کانسٹیبل کی شکل میں کھڑی ریاست کو دھتا بتاتے ہوئے یوں سگنل توڑتا ہے گویا کفر توڑ رہا ہو۔یا شائد اسٹیٹ رٹ راجھستان کے ان چار لوگوں کے پاس چلی جاتی ہے جنھوں نے خود فیصلہ کیا کہ گائے بھینسوں کی تجارت کرنے والے پہلو خان کا جرم کیا ہے اور اس جرم کی سزائے موت سنا کر اس پر کیسے عمل درآمد کرنا ہے۔ تماشائی یہ بات سوچنے سے ہی عاری ہیں کہ انھوں نے پہلو خان کے قتل کی شکل میں دراصل ریاست اور عدالت کا سر اتارے جانے کا منظر دیکھا۔

یا پھر اسٹیٹ رٹ اس سادہ کپڑوں والے کی داشتہ بن جاتی ہے جو کسی بھی شہری کو جیپ میں ڈالنے کا خود ساختہ حق رکھتا ہے اور پھر نہ شہری کا پتہ ملتا ہے نہ سادے کا۔

سنا ہے رٹ کسی زمانے میں بس ریاست کے پاس ہوا کرتی تھی۔لگتا ہے اب ریاست نے اس کی بھی نجکاری کرکے اپنا اختیار کروڑوں شئیرز میں بانٹ کے بیچ دیا تاکہ ریاست کو دیگر ضروری کاموں کے لیے وقت مل سکے۔ جب کہ مغربی ممالک کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہاں ریاست دراصل کارپوریٹ مفادات کی فرنٹ کمپنی بن چکی ہے۔

لیکن روزمرہ زندگی میں ریاستی اختیار کیسے کیسے  اور کن کن چھٹ بھئیوں کے ہاتھوں بے آبرو ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں آپ روزانہ کئی کئی مرتبہ کئی کئی شکلوں میں دیکھ دیکھ کر اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ اب کوئی پامالی پامالی نہیں لگتی۔

مثلاً ملاوٹ خدا کو ناپسند ہے اور ریاست کو بھی۔ لیکن خدائی اور حب الوطنی کا دم بھرنے والے ہی جانے سب کو کیا کیا کس کس نام سے ہم سے ہی پورے پیسے لے کر ہمی کو کھلا پلا رہے ہیں اور ریاست بس استغفراللہ کا ورد کرتی جا رہی ہے۔

خیانت خدا کے نزدیک بھی حرام اور ریاستی آئین کے تحت بھی جرم۔ مگر کون سا ایسا شہری یا ادارہ ہے جو خیانت کے انفرادی و اجتماعی اثرات سے بچ پایا۔یا تو آپ خائن ہے یا پھر خیانت گزیدہ۔

چودہ سو سے زائد برس سے کہا اور سنا جارہا ہے کہ خرابی ہے ان لوگوں کے لیے جنھوں نے مال جمع کیا اور گن گن کے رکھا۔مگر مملکتِ خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسی فیصد آمدنی بیس فیصد لوگوں کے پاس ہے اور باقی اسی فیصد لوگ بیس فیصد پر گزارہ کررہے ہیں۔ ٹیکس وصولی کی شرح میں یہ ریاست ناکام ترین ممالک میں شمار ہوتی ہے۔جو سب سے زیادہ ٹیکس کھانے والے ہیں وہی باقیوں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ان کا ایک دوسرے پر تو بس نہیں چلتا اس لیے تنخواہ داروں اور مٹی کے تیل پرگذارہ کرنے والوں پے مالیاتی مردانگی اتاری جاتی ہے۔

جھوٹ ، غلط بیانی اور آدھا سچ نہ خدا کے ہاں حلال ہے نہ کسی ریاستی کتاب میں اجازت۔لیکن جھونپڑی سے محل تک ، ٹھیلے والے سے پیش امام تک ، بچے سے حکمرانِ اعلی تک ہے کوئی جو جھوٹ کی سلطنت سے باہر ہو۔

ریپ کی کوئی فاسق و فاجر بھی وکالت نہیں کرتا۔ اس پاکستان میں اینگلو سیکسن لا ، قوانینِ حدود اور جرگہ روایات تک کون سا قانون لاگو نہیں۔مگر کون سا ایسا دن کسی کو یاد ہے جب کسی جگہ سے ریپ کی خبر نہ آئی ہو۔

دہشت گردی کو خدائی لغت میں فتنہ اور فساد فی الارض کہا گیا ہے اور سزا ایک ہی ہے۔قلع قمع۔لیکن جو شکار ہیں وہی اس کی فارمنگ بھی کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ دنیا گول ہے ، جو برآمد کرو گے وہی شے لوٹ پھر کے گھر آئے گی۔

اس دنیا میں کوئی اکثریت میں نہیں۔سب اقلیت ہیں۔کہیں ایک گروہ تو کہیں دوسرا گروہ۔اسی لیے تمام مذاہب اقلیتوں اور اکثریت کے حقوق و فرائض واضح طور پر بیان کرتے ہیں۔دعوے سب کے اپنی جگہ لیکن دنیا پر کوئی نظریہ آج تک پورا غالب نہیں آ سکا نہ فوری امکان ہے۔اسی لیے کہا گیا کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ تمہارے لیے تمہارا راستہ میرے لیے میرا۔یہی پرامن بقائے باہمی کا فلسفہ ہے۔مگر اس کا کیا کریں کہ انسان سب سے آسان بات سب سے زیادہ مشکل سے سمجھتا ہے۔

عقیدے کے بدلاؤ کے لیے تبلیغ کی تو اجازت ہے ، جبر ، ترغیب و تحریص ، دھمکی یا خاص اہداف اور مفادات ذہن میں رکھ کے ایسی قانون سازی کی اجازت نہیں جن کی زد میں آ کر ریاست کا کوئی بھی گروہ سیاسی، مذہبی یا سماجی طور پر درجہ دوم کا شہری بن جائے۔

تلوار کی نوک گردن پے رکھ کے عقیدہ بدلوانے کی اجازت نہیں۔اپنوں یا غیروں کی عبادت گاہیں ڈھانے یا مسخ کرنے کی اجازت نہیں۔ سوائے اپنے دفاع کے کسی کو عقیدے ، رنگ ، نسل کی بنیاد پر کسی بھی طرح کی زک پہنچانے کی اجازت نہیں۔لیکن کیا خدائی قوانین کی مسخ شدہ تشریح کو کبھی کسی نے روکنے کی کوشش کی۔کیا ریاست اس نفرت پرور کھیل میں فریق ہے یا غیرجانبدار؟

کیا فوجداری و دیوانی قوانین کی نوعیت ایسی ہے کہ ریاست کا ہر شہری دل سے خود کو اس سرزمین کا فرزند سمجھے اور اس کے تحفظ کے لیے سب کچھ کرنے پر آمادہ ہو جائے۔کیا خدا کی جانب سے اس شاخسانے کو پھلنے پھولنے کی اجازت ہے۔کیا سب لوگ (بالخصوص صاحب الرائے حضرات) واقعی آسمانی احکامات کو ایک بڑی اور مکمل تصویر کے طور پر دیکھنے، پڑھنے اور ان میں پوشیدہ حکمتی اشارے سمجھنے کے قابل ہیں یا پھر اپنی اپنی پسند کے احکامات کو آدھا پورا بیان کرکے اس تشریح کو شریعتِ خدا کہنے اور منوانے پر تلے بیٹھے ہیں۔

کل تک سامنے والے اسٹور میں عام سا سرجیکل ماسک بیس روپے کا مل رہا تھا۔آج ساٹھ کا ہے۔اس جملے کا ریاستی رٹ والی بات سے کوئی براہِ راست لینا دینا نہیں۔بس کالم کا اختتامیہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا تو لکھ دیا۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

The post ریاست کا آئینہ اور اختیاراتی کرچیاں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2TaOwfK
via IFTTT

کرانچی والا تھری ایکسپریس اردو

موہن جودڑوکو تو ٹیلوں میں دبنے اور پھر دریافت ہونے میں پانچ ہزار برس لگے، مگر اپنا کراچی تو تہتر برس میں ہی ایک جدید جیتی جاگتی صاف ستھری تہذیبی بستی کے پائیدان سے پھسل کے شکستگی و بے حسی کے کچرے تلے دب گیا۔ موہن جو دڑو کی خوش قسمتی کہ اسے سر جان مارشل مل گیا۔

سر جان مارشل کے ہم قوم انگریزوں نے سندھ کے ساحل پر برصغیر کا جو پہلا جدید شہر ریزہ در ریزہ، اینٹ در اینٹ اٹھانوے برس میں ( اٹھارہ سو انچاس تا انیس سو سینتالیس) میں اٹھایا تاکہ اس میں یہودی، مسیحی، پارسی ، ہندو ، مسلمان نہ صرف بستے جائیں بلکہ اس کی مالکی کو بھی اپنائیں۔ مگر اس شہر کو پچھلے تہتر برس میں  جس جانفشانی اور محنت سے پستی میں پہنچا کر اس کے تاریخی ورثے کو وقت کے کوٹھے پر نو دولتیے تماش بین کی طرح اجتماعی بے وفائی کے قدموں پر نچھاورکیا گیا، اس کی مثال بعد از منگول جدید تمدنی تاریخ میں شاید ہی مل سکے۔

معروف صحافی وسعت اللہ خان نے اختر بلوچ کی کتاب کرانچی والا سوئم کے پیش لفظ میں یہ تحریر قلمبندکی ہے۔ 208 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا مفہوم بیان کر دیا ہے۔ اختر بلوچ نے اس کتاب کا انتساب بلوچ قوم کے چار عظیم سپوتوں آئی اے رحمان، صبا دشتیاری، نادر شاہ عادل اور شبیر شاکر کے نام منسوب کیا ہے۔

اختر بلوچ کی کتاب ایک انگریزی روزنامے کی اردو ویب سائٹ میں شایع ہونے والے بلاگزکا یہ تیسرا حصہ ہے۔ کتاب کا پہلا بلاگ پاکستان کے یوم آزادی سے متعلق ہے کہ یہ چودہ اگست ہے یا پندرہ اگست ہے؟ ان کے مطابق حکومت برطانیہ کی ویب سائٹ legislation.co.uk پر موجود انڈیا ایکٹ کی دفعہ نمبر 1سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ایکٹ کے تحت 15اگست 1947کو دوخود مختار ریاستیں تشکیل پائیں جو انڈیا اور پاکستان کہلا ئیں گی۔

کراچی کے سابق مئیر جمشید نسروانجی جن کا پورا نام جمشید نسروانجی رستم جی مہتا تھا ۔ وہ 1886میں کراچی میں پیدا ہوئے ۔ ان کا انتقال آٹھ اگست 1952کو کراچی میں ہوا۔ 1919 میں جب کراچی میں انفلوئنزا نے وبائی شکل اختیار کی تو انھوں نے دن رات عوام کی خدمت میں وقت صرف کر دیا۔ وہ 1922میں کراچی میونسپلٹی کے صدر منتخب ہوئے اور 1932تک اس عہدے تک کام کرتے رہے۔

وہ نا صرف انسانوں سے پیار کرتے تھے بلکہ جانوروں کو بھی تکلیف میں مبتلا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ جمشید نسر وانجی کے بارے میں پیر علی محمد راشدی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’ میں (علی محمد راشدی) 1930 کے آس پاس میں بندر روڈ (حالیہ ایم اے جناح روڈ) سے گذر رہا تھا۔ دیکھا کہ جمشید مہتہ پیدل ایک گدھے کو جانوروں کے اسپتال کی طرف لے جا رہے ہیں۔ ان کی موٹر کار ڈرائیور پیچھے چلاتا آرہا تھا۔ تماشا دیکھنے کے لیے میں بھی اسپتال کے برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔ جمشید مہتہ نے اپنے سامنے گدھے کی مرہم پٹی کرائی۔ ڈاکٹر کو بار بار کہتے رہے کہ زخم کو آہستہ صاف کریں تاکہ بے زبان کو ایذا نہ پہنچے۔ مرہم پٹی ختم ہوئی تو ڈاکٹر کو ہدایت کی کہ گدھے کو ان کے ذاتی خرچ پر اسپتال میں رکھا جائے۔

چارے کے لیے کچھ رقم بھی اسپتال میں جمع کرا دی۔ دوسری طرف گدھے کے مالک کو ہدایت کی کہ جب تک گدھا پوری طرح صحت یاب اور گاڑی میں جوتنے کے قابل نہ ہوجائے، اُس وقت تک وہ اپنی مزدوری کا حساب ان سے لے لیا کرے۔ یہ کہتے ہی کچھ نوٹ پیشگی ہی اسے دے دیے اور اسے ہدایت کی کہ جب تک گدھا مکمل طور صحت یاب نہ ہو جائے اپنی مزدوری کے پیسے وہ ان سے لیتا رہے۔‘‘مصنف نے حاتم علوی کے مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ اپنی والدہ سے بہت عقیدت رکھتے تھے۔

غالباً یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کراچی کے مختلف علاقوں میں میٹرنٹی ہوم قائم کیے۔ فریئر ہال کے بارے میں لکھتے ہیں کہ فریئر ہال کو باغ جناح، صادقین گیلری،لیاقت لائبریری کے چار ناموں سے پکارا جاتا ہے۔فریئر ہال عبداللہ ہارون روڈ اور فاطمہ جناح روڈ کے درمیان واقع ہے۔ فریئر کی ایک اور نمایاں بات اس میں موجود ملکہ برطانیہ کا مجسمہ تھا جو اب ٹوٹے ہوئے ہاتھوں موہٹہ پیلس کے ادبی حصے میں موجود ہے۔ کتاب کا اور دلچسپ موضوع کلیم کے بارے میں ہے کہ پاکستان بننے کے بعد جو املاک خالی تھیں ان پر قبضہ کرنے کی دوڑ شروع ہو چکی تھی ۔ لوگ ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں کوشاں تھے۔ جھوٹے کلیموں کے ذریعے کتنے ہی لوگ راتوں رات بنگلوں اور جائیدادوں کے مالک بن گئے اور بے شمار لوگ اپنے جائز کلیم بھی ثابت نہ کر سکے۔

اختر بلوچ نے اردو کی عظیم ناول نگار قرۃالعین حیدر کی ہندوستان منتقلی پر’مگر عینی ہندوستان کیوں گئی‘کے موضوع سے لکھا ہے کہ قرۃ العین نے پاکستان میں قیام کے دوران اپنا شہرہ آفاق ناول ’’آگ کا دریا‘‘ لکھا۔ یہ ناول صدیوں کی تاریخ کا احاطہ کرتا ہے۔ قرۃ العین اس میں ناول نگار کے بجائے ایک ایسی مورخ نظر آتی ہیں جن کا صدیوں کی تاریخ گہرا مطالعہ اور مشاہدہ تھا۔ مصنف لکھتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان میں اس ناول کے حوالے سے ایک عجیب و غریب متھ Mythتیار ہونا شروع ہو گئی ۔ ایک باب میں، میں نے محض دو الفاظ لکھے تھے ۔ ہندوستان 1947۔یعنی تھوڑا لکھو کو بہت جانیے۔ لیکن ایک بوجھ بھجکڑ نے اپنے تبصرے میں تحریر کیا کہ تقسیم سے متعلق پورا باب مارشل لاء کے سنسر نے حذف کر دیا، صرف ایک جملہ باقی بچا ہے۔ سب سے عبرتناک افواہ جو ہندوستان میں پھیلی وہ یہ تھی کہ حکومت پاکستان نے آگ کا دریا پر پابندی لگا دی ہے۔

دوسری روایت ہندوستان میں یہ تیار ہوئی کہ مصنفہ کو اس ناول کی اشاعت کے بعد بھاگ کر ہندوستان میں پناہ لینی پڑی ۔ دوسری جانب یہ جھوٹی یقینی کہانی تیار ہوئی کہ اس کتاب کی رائلٹی میں دونوں جانب مصنفہ کو مالا مال کر دیا ہے۔ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ دسمبر 1959سے لے کر آج تک مکتبہ جدید لاہور نے اس ناول کے قطعی فری ایڈیشن شایع کیے اور اس کی رائلٹی کا ایک پیسہ اس کے لکھنے کو آج تک نہیں ملا۔ عینی کی پاکستان سے ہندوستان منتقلی کے حوالے سے ایک ہی کہانی مشہور ہے کہ آگ کا دریا ان کی انڈیا منتقلی کا سبب بنا لیکن اس بارے میں قرۃ العین کا قلم اور زبان دونوں خاموش رہیں۔

اختر بلوچ کے مطابق ایک سینئر ادیب اور کالم نگار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتا یا کہ معاملہ صرف آگ کا دریا نہیں تھا بلکہ عینی خوش شکل تھی، غیر شادی شدہ تھی۔ نا صرف رائٹرز گلڈز بلکہ جن محکموں میں انھوں نے ملازمت کی وہاں کے افسران ان سے شادی کرنا چاہتے تھے یا ان سے رسم و راہ رکھنا چاہتے تھے وہ دونوں صورتوں کے لیے تیار نہیں تھیں۔ ایک اور پہلو یہ بھی تھا کہ عینی کے والد سنی العقیدہ تھے اور ان کی والدہ اہل تشیع۔ لہذا کس عقیدے والے کا رشتہ قبول کیا جائے؟ عینی ہمیشہ ایسے سوالوں سے اجتناب برتتی تھی۔ جن میں ان کی شادی اور انڈیا منتقلی کا ذکر ہوتا تھا۔

عینی کی انڈیا منتقلی کی بڑی وجہ سے تو ’’آگ کا دریا‘‘ نظر آتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے پدر سری معاشرے میں جی رہی تھی۔اس کتاب کا ایک اور اہم بلاگ ’’جناح کے ساتھ بھی دھوکا؟‘‘ ہے۔ اس بلاگ میں بیرسٹر عزیز اللہ شیخ کی کتا ب Story untold کے حوالے سے لکھا ہے کہ جسٹس طیب جی نے ایک چشم کشا کہانی اس وعدے پر بیان کی کہ میں ان کے انتقال سے قبل میں کوئی انکشاف نہیں کروں گا۔ طیب جی کے مطابق جناح اور میں ایک ہی وقت میں ممبئی میں وکالت کرتے تھے۔ جناح صاحب کے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل ہونے کے فیصلے کا اعلان ہوا۔ میں اس وقت دہلی میں تھا تو میں ان سے ملا۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ ہم نے کچھ وقت پرانی یادوں کو تازہ کیا۔

جناح نے مجھ سے کہا کہ میری حلف برادر ی کراچی میں تم کرو گے۔ میں نے جواباً کہا کہ یہ میرے لیے باعث افتخار ہوگا۔ ٹھیک پچیس دن بعد رجسٹرار جے ڈیسا نے مجھے بتایا کہ محکمہ خارجہ کے کچھ افسران مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ان کے ہمراہ ایک درزی بھی تھا، جس نے میرے لیے گاؤن کا ناپ بھی لیا۔ بعد میں رجسٹرار ڈیسا کے ذریعے معلوم ہوا کہ پنجا ب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سر عبد الرشید قائد اعظم سے حلف لیں گے۔ پھر انھوں نے کہا کہ اگر تم حلف برادری کی تقریب کی تصاویرکو غور سے دیکھو تو جوگاؤن سر رشید نے پہنا ہوا ہے وہ میری ناپ کا ہے۔ اختر بلوچ نے کرانچی والا۔سوئم میں کئی تاریخی انکشافات کیے ہیں لیکن اس سے مکمل آگاہی کے لیے کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔

The post کرانچی والا تھری appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3cj7Wa0
via IFTTT

بھارت کی کھلی دھاندلی ایکسپریس اردو

1947 میں تقسیم کے موقع پر بھارت میں جو فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے وہ ایک ایسا المیہ تھے جسے بھلایا نہیں جاسکتا، جن شہروں کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا گیا تھا، ان میں بھارت کا پایہ تخت دہلی بھی تھا ویسے تو اس دوران ہندو بلوائیوں نے بار بار فرقہ وارانہ فسادات کا بازار گرم کیا لیکن 25 فروری کو دلی میں ایک بار پھر مذہبی شیطانوں نے آگ اور خون کی ہولی کھیلی اس بار 8 مسلمان شہید ہوئے اور زخمیوں کی تعداد نامعلوم، ظالموں نے ایک مسجد کو بھی شہید کر دیا۔

پولیس کی سرپرستی میں ہندو مذہبی شیطانوں نے مسلمانوں کے گھر، دکانیں اور گاڑیاں جلا دیں اشوک نگر مسجد میں بلوائیوں نے مینار پر چڑھ کر توڑ پھوڑ کی اور آگ لگا دی۔ اس جگہ بربریت کا شدید مظاہرہ کیا گیا جس میں 150 مسلمان زخمی ہوگئے۔

بھارت کے حالیہ دورے پر آئے ہوئے امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ کشمیر ایک کانٹا ہے جب کہ بھارت کے وزیر اعظم اچھے آدمی ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشمیر ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ میرے دونوں وزرائے اعظم سے اچھے تعلقات ہیں، ٹرمپ نے ایک بار پھر کہا کہ میں دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت کرانے کو تیار ہوں۔ ٹرمپ بڑے دلچسپ آدمی ہیں۔ دنیا کے کئی ملکوں میں ان کی لگائی ہوئی آگ جل رہی ہے اور وہ کشمیر کی آگ بجھانے کی آفرکر رہے ہیں۔ بھارت کے شمال مشرقی علاقے چھاؤنیوں میں بدل گئے ہیں، تعلیمی ادارے بند ہیں۔

انسان پیدائشی طور پر معصوم اور محبت کرنے والا جاندار ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اس معصوم انسان کو عوام دشمن طاقتوں نے مختلف حوالوں سے بانٹ کر ان کے دلوں کو نفرتوں سے بھر دیا ہے اس دیوتا سمان انسان کو شیطان بنا دیا گیا ہے۔ آج دلی میں جو قتل و غارت کا بازارگرم کیا گیا اور معصوم لوگوں کی جانیں لی گئیں اور بہت سارے بے گناہوں کو زخمی کیا گیا اس کی وجہ یہی ہے کہ معصوم انسان کو مذہبی شیطانوں نے اپنی بے جواز نفرت کا نشانہ بنا کر اپنی ناپاک ذہنیت کی تسکین کی اور یہ سب اس لیے ہوا کہ پاپیوں کا لشکر بڑا تھا اور لشکری مسلح بھی تھے ان جاہلوں نے جن جن لوگوں کی جان لی ان کا تعلق کسی نہ کسی خاندان سے ہوگا اس کے عزیز رشتے دار بھائی ، بہن ،ماں باپ ہوں گے، کیا دلی کے یہ دو پائے حیوان ان بے گناہ باقی رہ جانے والوں کی زندگیوں کی کٹھنائیوں کا اندازہ کرسکتے ہیں؟

ان انسانوں کو شیطان بنانے والے سیاست کاروں کو احساس ہے کہ نفرت کونفرت ، ظلم ، ظلم کو جنم دیتا ہے72سال ایک طویل عرصہ ہوتا ہے لمبے عرصے تک ایک ساتھ رہنے والے جانور بھی ایک دوسرے سے مانوس ہو جاتے ہیں لیکن یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ صدیوں سے نسل در نسل ایک ساتھ رہنے والوں میں انسانیت کا رشتہ پیدا نہ ہو سکا کیونکہ ہر مذہب و ملت کے ماننے والوں میں بلاشبہ اکثریت انسانوں کی ہوتی ہے اور وہ اسی رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔

یہ بات بڑی حوصلہ افزا ہے کہ پاکستانی عوام نسبتاً صابر ہیں اگر یہ صابر نہ ہوتے تو دلی کے مسلمانوں کا بدلہ لینے کے لیے آٹھ مسلمانوں کے بدلے وہ سولہ ہندوؤں کو قتل کرچکے ہوتے لیکن پاکستانی مسلمانوں نے جس درگزر اور صبر و برداشت کا مظاہرہ کیا اس سے وہ دنیا کی نظروں میں قابل تعریف اور قابل احترام ہی ٹھہرے۔

اس حوالے سے مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کی قیادت ہی مذہبی انتہا پسند ہے بھارت کا حکمران طبقہ جس میں بھارت کا وزیر اعظم نریندر مودی بھی شامل ہے مذہبی انتہا پسند جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں اور تو اور بھارت کا ’’ چائے والا ‘‘ وزیر اعظم جس کا تعلق بھارت کے نچلے ترین طبقے سے ہے اسے پہلے ہی سے گجراتی مسلمانوں کے قاتل کا تمغہ ملا ہوا ہے اور جسے آر ایس ایس سے فنڈ بیک ملتی ہے وہ کس قدر متعصب ہے اس کا اندازہ پاکستانی فنکاروں کے ساتھ کیے جانے والے بدترین سلوک سے کیا جاسکتا ہے۔ بھارت آبادی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اسے اپنے بڑپن کا خیال رکھنا چاہیے لیکن بھارت کی مذہبی انتہا پسند طاقتوں نے مودی کو بھی اندھا کردیا ہے۔ وہ وہی کرتا ہے جو آر ایس ایس چاہتی ہے۔

پاکستان ایک مذہبی ملک ہے اور ملک میں درجنوں انتہا پسند مذہبی جماعتیں ہیں لیکن ان میں صبر و بردباری ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں ہندو مسلم فسادات نہیں ہوتے جب کہ بھارت اپنے آپ کو سیکولر کہتا ہے لیکن اس سیکولر ملک پر غلبہ آر ایس ایس جیسی وحشی مذہبی انتہا پسند جماعت کا ہے حالانکہ بھارت کی مذہبی صورتحال یہ ہے کہ ان کے درجنوں بھگوان ہیں جو پتھر کو تراش کر بنائے جاتے ہیں ایسے  مذہب کے ماننے والے اگر دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ بربریت کا مظاہرہ کرتے ہیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔دیوی دیوتاؤں کا تعلق آج کی ترقی یافتہ دنیا سے قطعی نہیں ہوسکتا یہ دور جہالت کی باقیات ہیں۔

کشمیری مسلمانوں پر بھارتی حکومت جو مظالم ڈھا رہی ہے اس کا اندازہ کشمیر میں نافذ پانچ ماہ سے زیادہ عرصے سے نافذ کرفیو سے لگایا جاسکتا ہے لیکن یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ دنیا کو کشمیر پر لاگو پانچ ماہ سے زیادہ عرصے کا نہ کرفیو نظر آتا ہے نہ درجنوں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں سے مارے جانے والے غریب مسلمان۔ آج کل امریکا کے صدر ٹرمپ بھارت کا دورہ کر رہے ہیں دلی کے فسادات کے حوالے سے ٹرمپ نے زبان بند کر رکھی ہے۔ اگر ٹرمپ میں غیر جانبداری اور رواداری ہوتی تو وہ احتجاجاً بھارت کا دورہ مختصر کرکے اپنے وطن لوٹ جاتے لیکن آج کی ترقی یافتہ دنیا میں ملکوں کے درمیان ہر رشتہ مفادات سے بندھا ہوا ہوتا ہے جو سچ اور انصاف کی راہ میں دیوار بن کر کھڑا رہتا ہے۔

حیرت اس بات پر ہے کہ دنیا کے ممالک کی طرف سے نہ ان مظالم کی مذمت کی گئی نہ احتجاج کیا گیا۔ کشمیری عوام 70 سال سے یہ مظالم سہتے آ رہے ہیں اقوام متحدہ کے پاس اتنی فرصت نہیں کہ وہ کشمیری عوام کے مسئلے پر متحرک ہو ٹرمپ بار بار ثالثی کی پیشکش کرکے نمبر تو بنا رہے ہیں لیکن وہ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ بھارت پر ان کی ثالثی آفر کا کوئی اثر نہیں ہوگا، پاکستان مقدور بھر کوشش کر رہا ہے۔

The post بھارت کی کھلی دھاندلی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2voFOl2
via IFTTT

جھوٹ اور باطل کو پامال کر دینے والے ایکسپریس اردو

جماعت اسلامی کے قائدین کو معلوم ہے کہ ان کے ساتھی جس حال میں بھی ہوں وہ جنگل ہوں یا صحرا یا کوئی ویرانہ ان کے ساتھی ہر حال میں جماعت کا ساتھ دیں گے۔ ان ساتھیوں کی تربیت میں یہ جوہر شامل ہے کہ قائد جہاں سے بھی آواز دے اس پرلبیک کہا جائے یہ ان کے ایمان کا حصہ ہے ۔

یہ راہ حق کے وہ مسافر ہیں جو ہر حال میں صبر شکر کرتے ہیں ان کے اس جذبے کو دیکھ کر لوگ حیران ہوتے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں لیکن جماعت کے لوگوں کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ افغانستان میں روسی سامراج کے پاکستان کی طرف بڑھتے ہوئے ناپاک قدموں کو روکنا ہو ، کشمیر میں کفار کے قبضہ کے خلاف جہاد ہو، دنیا کے کسی بھی حصے میں مظلوم مسلمانوں کی مدد ہو، پاکستان کے شہریوں کی  زندگیوں میں کوئی آسانی پیدا کرنے کا کوئی موقعہ ہو وہ ہر جگہ پہنچتے ہیں، ان کا ہر قدم اس راستے کی جانب اٹھتا ہے جو فلاح کا راستہ ہو۔

واضح سمت، واضح ذہن اور واضح نصب العین اور اس کی طرف پیش قدمی کے لیے واضح قیادت اس کانام نعمت اللہ خان تھا جنھوں نے جب کراچی کی باگ ڈور سنبھالی تو اس لٹے پٹے شہر کو نئی زندگی دے دی۔ پاکستان کے اس شہرعظیم کو برباد کرنے والوں کے چنگل سے آزاد کرانے کے بعد وہ کراچی کے شہریوں کے لیے نجات دہندہ بن کر سامنے آئے۔ کراچی کے عوام اپنے سابقہ قائدین سے دھوکا کھانے کے بعد اگر کسی کی ذات پر متفق ہوئے تو وہ نعمت اللہ خان تھے جنھوں نے اپنے عمل اور کردار سے اپنے انتخاب کا حق ادا کیا۔ انھوںنے قربانی اور جانثاری کی ایسی مثالیں قائم کیں جن سے کراچی کے شہری نا بلد تھے ۔

ان کا ماضی کراچی والوں کے سامنے تھا اس لیے انھوں نے اپنے مستقبل کی ضمانت کے طور پر اپنی قیادت نعمت صاحب کے حوالے کی ۔ ان کو یہ معلوم تھا کہ جماعت کے لوگ وفا کرنے والے لوگ ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو کسی دنیاوی ڈر سے نہیں بلکہ اپنے اللہ سے خوفزدہ رہتے ہیں جس کے سامنے انھیں جوابدہ ہونا ہے۔انھوں نے کراچی کے لوگوں کی خدمت کر کے یہ پیغام دیا کہ اس ملک کو بچانے ، اسے اس کا اصل مقام دلانے کے لیے اور اس کی قوت کو سلامت رکھنے کا صرف ایک طریقہ ہے کہ آپ سیاست کے ان خداؤں سے نجات پائیں اور خدا کے بندوں کے سپرد اپنی قیادت کر دیں اور کراچی کے عوام نے یہی کیا تھا وہ گوشت پوست کھانے کے بعد ہڈیاں تک چبا جانے والے لٹیروں کو پہچان چکے تھے اس لیے انھوں نے اپنی قیادت نعمت صاحب کے سپرد کی تھی۔

نعمت اللہ خان اپنے انتخاب کے بعد دو ٹوک اور فیصلہ کن کردار ادا کرتے رہے ۔ڈر اور خوف تو ان کے اندر کبھی تھا ہی نہیں بس وقت کے تقاضے تھے کہ کس وقت کیا کہنا اور کیا کرنا ہے۔ نعمت صاحب نے کراچی کا اقتدار سنبھالتے ہی اپنی تلوار میان سے نکال لی اور روشنیوں کے اس خوبصورت شہر کی بربادی میں حصہ ڈالنے والوں کے خلاف کھڑے ہو گئے وہ کراچی کے باسیوں کے لیے ترقیاتی کاموں میں جت گئے اور پوری طاقت اور زور شور سے اجڑے شہر کو دوبارہ بسانے کی منصوبہ بندی کر لی ۔ انھوںنے بطور ناظم جتنے کام کراچی کے لیے کیے اس کی مثالیں ہی دی جا سکتی ہیں ان کے بعد آنے والے ان کی ہمعصری کا دعویٰ بھی نہیں کر سکتے۔ ان کے ترقیاتی کاموں کی آواز پورے پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں سنائی دیتی رہی اور کراچی کے باشندے حیرت بھری آنکھوں سے اس کرشماتی شخصیت کو دیکھتے رہے ۔

میرے مرشد سید مودودی نے نہ جانے کس مبارک لمحے میں اس جماعت کی بنیاد ڈالی تھی کہ آج اس کی گھن گرج دنیا میں سنائی دیتی ہے ۔ اس جماعت کے کارکنان نے اپنے عمل سے دنیا کو یہ دکھایا ہے کہ ان کی جماعت کی طاقت کیا ہے اس کا جذبہ کیا ہے وہ کہاں کھڑی ہے کن جدید تقاضوں کو لبیک کہنے کی صلاحیتوں سے آراستہ ہے اس کے ساتھیوں اور حامیوں میں کیا جذبہ موجزن ہے وہ اپنے مقصد کے لیے کتنی قربانی دے سکتے ہیں یہ معتدل اور متوازن مزاج کے اسلامی انقلابی ہیں، آج کی دنیا میں زندہ رہنے کی کتنی صلاحیت رکھتے ہیں پاکستان کے اندر ان کی کتنی سیاسی طاقت ہے اور وہ اس طاقت کو کس دانش و حکمت اور سلیقہ مندی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ ایسے میں کیا اس جماعت کے کارکنان کو ٹھکرایا جا سکتا ہے یا اسے کوئی دوسرا مقام دیا جا سکتا ہے مگر دنیا کچھ بھی کہہ لے کچھ بھی اندازے قائم کرے لیکن جو طاقت اور وفاداری جماعت کے کارکنوں کا خاصہ ہے وہ آج کی اس مادی دنیا میں ندارد ہے ۔

بات بڑی واضح ہے کہ پاکستانیوں کو اس پر غور ضرور کرنا چاہیے کہ کیا وہ اپنے حال اور مستقبل کو پھر انھی لوگوں کے سپرد کر دینا چاہتے ہیں جنھوں نے ان کے ملک کو کمزور اور فقیر بنا دیا ہے ۔ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اس کی توہین کی جاتی ہے عالمی ادارے کے اہلکار اس ملک کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں۔

ایسے حالات میں نعمت اللہ خان جیسے جماعتی کارکنان غنیمت ہیں جو اپنے پاکستانی مظلوم بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں دن رات ایک کیے رکھتے ہیں ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا ہم پھر اپنے آپ کوانھی چور ڈاکوؤں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں جن کی وجہ سے خود کشیاں کی جارہی ہیں ہمیں اپنے ارد گرد دیکھ کر یہ فیصلہ کرنا ہے لیکن جو بھی فیصلہ کریں اب اس ملک کو دکھ دینے والوں سے جان چھڑا لیں اور سکھ دینے والوں کا ساتھ دیں ۔ اس میں برکت ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنی زندگی تیاگ دیتے ہیں اور اللہ کی راہ پر چلتے ہیں تو وہ جھوٹ اور باطل کو پامال کر دیتے ہیں ۔ نعمت صاحب انھی لوگوں میں سے تھے ۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں۔ آمین۔

The post جھوٹ اور باطل کو پامال کر دینے والے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/39aKXfo
via IFTTT

دانہ گندم اور جنت ایکسپریس اردو

یہ بات ایک مرتبہ پھرصاف ہو گئی، شفاف ہو گئی ہے اور فائز بہ انصاف ہو گئی ہے کہ یہ جو دانۂ گندم ہے نان گندم ہے یا خمار گندم۔ یہی ہمارا دشمن نمبر ایک ہے۔ کیونکہ یہ بات تاریخ جغرافیہ اور روایات سب سے ثابت ہو گئی ہے کہ ہم جب بھی کوئی موقع فراغت کا مسرت کا اور بے غمی کا پاتے ہیں یہ دانہ گندم اسے کھنڈت کر دیتا ہے۔ بلکہ کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں اور شاید ہمیشہ کی طرح غلط سوچتے ہیں کہ کہیں یہ دانہ گندم بھی تو ہمارا دشمن نمبر ایک نہیں ہے جس کے نام بے شمار ہیں لیکن کام یہی ایک ہے۔

آدم اور اولاد آدم کو فردوس سے نکلوانا۔ یاد کرو فردوس نمبر ایک میں بھی جب ہمارے جد محترم اور جدہ محترمہ نہایت ہی بافراغت پرمسرت اور بے زحمت و مشقت و محنت کے دن گزارنے لگے مقام گل و گلزار ہر طرف بہار ہی بہار اور سب کچھ بست و بسیار نہ غم نہ آزار نہ فکر نہ افکار۔ تو اس وقت بھی ذرا سوچیے کہ کس نے یہ سب کچھ تلپٹ کیا، نام کوئی بھی لے دیجیے کام کسی کا بھی سمجھیے لیکن سب کچھ تو دانہ گندم کا کیا دھرا تھا۔

اور اب جب کہ ہم فردوس نمبر دو۔ ریاست مدینہ نمبر دو اور نیا مقام نمبر دو حاصل کر چکے تو پھر وہی دانہ گندم؟ خمار گندم اور شرار گندم۔ کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں اور شاید ہمیشہ کی طرح غلط سوچتے ہیں لیکن پھر بھی سوچتے ہیں اور اسی لیے سوچتے ہیں کہ ان ناخلف کپوتوں میں سے ایک ہم بھی ہیں کہ اپنے اس ازلی ابدی خاندانی اور جدی پشتی دشمن کو ہمیشہ سینے سے لگاتے رہے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا اور غیرت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ ہم اس اپنے جد محترم اور جدہ محترمہ کو جنت سے نکلوانے والے ’’دانہ گندم‘‘ کو کبھی منہ نہیں لگاتے۔ سوچیے تو نہایت اصولی بات ہے بھلا خاندانی دشمن کو کوئی اتنا ’’عزیز‘‘ رکھتا ہے جتنا ہم نے اس کم بخت دانہ گندم کو عزیز رکھا ہے بلکہ اپنا سب کچھ اس کے حوالے کیا ہے۔ یہ ہمیں جنت بدر کرتا رہتا ہے رلاتا ہے ترساتا ہے اور ذلیل دربدر کرتا رہتا ہے اور ہم اسی کو سینے اور پیٹ سے لگائے ہوئے ہیں۔

کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں اور ہمیشہ کی طرح شاید غلط سوچتے ہیں کہ کسی نے ہمارے جد محترم کو چیلنج کیا تھا کہ میں تمہیں ہرگز ہرگز اور کبھی اور کہیں بھی چین سے رہنے نہیں دوں گا، تو وہ آواز بھی کہیں اس دانہ گندم کی تو نہیں تھی؟ حالات و واقعات، تمام شہادتوں، روایتوں اور ہمارے اندر کے وکیلوں کی بحث سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ یہی دانہ گندم ہی ہمارا دشمن نمبر ایک تھا۔ رہا ہے اور اب بھی ہے۔

فردوس نمبر ایک سے شروع ہونے والی یہ دشمنی اب فردوس نمبر دو ریاست مدینہ نمبر دو میں بھی ثابت ہو گئی۔ کہ یہی ہے یہی ہے اور یہی ہے ہمارا وہ جدی پشتی دشمن جسے ہم نے ہمیشہ سینے سے لگایا اور اس نے ہمارے پہلو بلکہ ’’پیٹ‘‘ میں چھرا گھونپا۔ فردوس نمبر دو عرف ریاست مدینہ نمبر دو میں جب اس نے دیکھا کہ ایک مرتبہ پھر ہم اپنے اجداد جیسی زندگی شروع کرنے والے ہیں سب کچھ تیار ہے حالات سازگار ہیں اور معمار بہ شکل سرکار تعمیر کی ابتدا کرنے والا ہے تو دیکھیے کیا کیا اس کم بخت نے؟ فردوس نمبر دو کے معمار صد ہزار مرتبہ گفتار کرچکے ہیں کہ سب کچھ بست و بسیار ہے۔

گندم کا انبار ہے روٹیوں کی قطار ہے اور آٹا بست و بسیار ہے اتنا زیادہ کہ ملک سے باہر نکلنے کو تیار اور بے قرار ہے لیکن پھر بھی یہ کم بخت دانہ گندم آمادہ پیکار ہے وہی اس کا کاروبار ہے اور آزار ہی آزار ہے۔ کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں اور ہمیشہ کی طرح شاید غلط سوچتے ہیں کہ کیوں نہ ہم بھی جوابی کارروائی کر کے اس دانہ گندم کے منہ پر طمانچہ مار دیں اور اسے مکمل طور پر تیاگ کر اپنی فردوس نمبر دو عرف ریاست مدینہ نمبر دو سے نکال باہرکریں اسے منہ لگانا چھوڑ دیں دوستی ترک کر دیں اور باغیرت اولاد بن کر اس جدی پشتی دشمن سے دشمنی کا آغاز کر دیں کہ بس بہت ہو گیا مروت اور لحاظ کا سلسلہ۔

ادھر تم ادھر ہم، اے وجہ غم بھاگ جا ورنہ ہم تجھے چیل کوؤں اور کتے بلیوں اور گدھوں خچروں کو کھلانا شروع کر دیں اور بھولے سے بھی تمہیں منہ نہیں لگائیں گے۔ ہم شکاری کے نلکے پر کبھی  نہیں بیٹھیں گے اور اگر بیٹھیں گے تو پھڑپھڑا کر اڑ جائیں گے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا ہو گا کیسے؟ دوسرا آپشن کیا ہے؟ اور ہم اس کم بخت کو اتنا اوڑھنا بچھونا بنا چکے ہیں کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔

دل سے مٹنا ترے انگشت حنائی کا خیال

ہو گیا گوشت کا ناخن سے جدا ہو جانا

لیکن اس کا حل ہے ہمارے پاس۔ اور ایسا حل ہے کہ ہم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سدا سدا کے دشمن کے منہ پر طمانچہ مار کر اس کے طلسم ہوشربا سے آزاد ہو جائیں گے۔ اور یہ حل کوئی نیا نہیں یاد کرو کسی نے کہا تھا بلکہ تم سب نے بھی کہا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹمی دھماکا کر کے رہیں گے تو اب یوں سمجھیے کہ ہم گندمی دھماکے کرنے والے ہیں اور گھاس بھی حاضر ہے نوش جاں فرمایے۔ جتنا جی چاہے اور یہ کوئی نیا کام بھی نہیں ہے ہمارے اجداد کرتے رہے ہیں۔ بلکہ وہ تو گھاس پھوس کے ساتھ پتے اور جڑیں بھی کھود کر کھایا کرتے تھے تو کیوں نہ ہم بھی بسم اللہ کریں گھاس تو ہے ہی جڑیں بھی کم نہیں ہیں اس ملک کی۔ بلکہ ستر سال سے یہ جڑیں نکال نکال کر اور کھود کھود کر ’’کچھ لوگ‘‘ کھا بھی رہے ہیں۔ اور پھر یہ سبزیاں ساگ اور نباتات بھی تو ہم کھا ہی رہے ہیں جو گھاس ہی ہیں۔ بلکہ اس سلسلے میں ایک مسجد کے ملا جی کا واقعہ بھی ہے۔

کہ جب پورا ہفتہ ایک شخص کے گھر سے اس کے لیے ساگ ہی آتا رہا تو اس نے کھانا بلکہ ساگ لانے والے بچے سے کہا کہ بیٹا اپنے باپ سے کہنا کہ اتنی تکلیف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں صرف مجھے تھوڑا سا نمک لادیں اور اس کھیت کی نشاندہی کریں میں خود ہی نمک ڈال کر چر لیاکروں گا۔

اور یہ اب بھی ہو سکتا ہے حکومت کوبھی اتنی تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ کھیت دکھانے کی بھی ضرورت نہیں، سامنے پورے ملک کی شکل میں موجود ہے بلکہ نمک بھی موجود ہے صرف زخموں پر چھڑکنے سے تھوڑا بچا کر دیا جا سکتا ہے، بظاہر یہ مشکل سا لگتاہے لیکن ہے نہیں انسان بہت جلد عادی ہو کر حالات کے مطابق خود کو ڈھال لیتا ہے مثال بھی ہمارے سامنے موجود ہے کئی خطے اس دنیا میں موجود ہیں جہاں گندم نہیں کھائی جاتی بلکہ اگرکوئی کھائے تو بیمار ہو جاتا ہے اب وہ کیا کھاتے ہیں یہ بھی کوئی بتانے والی بات نہیں جوچیز وہاں وافر اور دستیاب ہوتی ہے اور پھر ہم سترسال سے صرف’’بیانات‘‘پربھی تو گزارہ کر رہے ہیں، بیانات کے ساتھ ساتھ گھاس کے بھی عادی ہوجائیں گے سبزرنگ توویسے بھی ہمارا فیورٹ اور پھرجھنڈے کا جزو اعظم ہے۔

The post دانہ گندم اور جنت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2TnWjWF
via IFTTT

ڈرو اس دن سے، اس سے پہلے کہ …! ایکسپریس اردو

اس سے پہلے کہ کچلے ہوئے غریب عوام کے صبرکا پیمانہ لبریز ہو جائے۔ بد عنوانی، مہنگائی، بے روزگاری ، دن دیہاڑے لوٹ مار، جان ومال کے عدم تحفظ، عدم مساوات پر مبنی مہنگا انصاف، حکمرانوںکی نا لائقی، حزب اختلاف کی مکارانہ رویے سے نالاں عوام تنگ آمد، بجنگ آمد کے مصداق اپنے مسائل کا حل نکالنے کے لیے سڑکوں پر آجائیں ۔

ریاستی پولیس ان کا راستہ روکنے کی حتی الامکان کوششں کرے، لیکن وہ نہ رکیں، آگے بڑھتے جائیں، حکمراں دم توڑتی ہوئی اپنی رٹ کے آگے ایمر جنسی لگانے کا اعلان کریں، مگر سب بے سود ہوجائے، پولیس اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے آنسوگیس، پانی کی توپیں، فلیش گرینڈ، ربڑکی گولیاں اور آخری چارے کے طور پر بالآخر فائر کھول دے اور خدانخواستہ دیکھتے ہی دیکھتے مظاہرین اور پولیس کے درمیان یہ تصادم خونی انقلاب کی صورت اختیارکر لے۔

اس سے پہلے کہ نوجوانوں کی ٹولی بکتر بندگاڑیوں کا استعمال کرتے ہوئے محلات کے دروازے توڑنے کی کوشش بھی کریں۔ ڈرو اس دن سے ، اس سے پہلے کہ لوگ ہاتھوں میںحق کا جھنڈا لہراتے ہوئے ’’اقتدارچھوڑ دو‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے سرکاری عمارتوں پر قابض ہوجائیں، محلوں کو محاصرے میں لیں اور حالات سے گھبرائے ہوئے ظالم حکمراں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں۔ ڈرو اس دن سے، اس سے پہلے کہ خدا نخواستہ جھڑپوں کے بعد اسپتال زخمیوں سے بھر جائیں، ڈاکٹرز لہولہان افراد کے سیلاب کے آگے بے بس نظر آئیں، اسپتال کے فرش خون سے بھر نہ جائیں، ڈرو اس دن سے، اس سے پہلے کہ کچلے ہوئے غریب عوام زندگی کی بجائے موت کو ترجیح دیں۔

یہ کوئی دھمکی نہیں اور نہ ہی عوام کو اکسانے کی کوشش ہے اور نہ ہی یہ کسی مار دھاڑ والی فلم کی کہانی ہے اور نہ ہی کوئی فسانہ ہے۔ یہ وہ خدشات اور وسوسے ہیں جو مجھے بے کل کر دیتے ہیں ملک میںغریبوں کی حالت زار دیکھ کر، مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں یہ لوگ جان لیوا مہنگائی، بیروزگاری، مسائل کے حل کے لیے ریاستی بیگانگی ، اس کی بے زاری، بے نیازی، مظالم، نا انصافی اور عیاشیوں سے تنگ آکر غربت سے بغاوت کر نہ جائیں۔

جب بپھرے ہوئے لوگ محلات کے کھڑکی اور دروازے اکھاڑ رہے ہونگے، مجھے ڈر لگ رہا ہے اس دن سے جب عوامی جاہ وجلال اس وقت بھڑاس نکالنے کی انتہا کرتے ہوئے قبروں سے ان مردوں کا ڈھانچہ نکال کر انھیں کسی بانس کے ساتھ باندھ کر اس ڈھانچے کا احتجاجی جلوس نہ نکالیں اور ان زندہ بے پروا لیڈروں کا گھیراؤ نہ کریں جنھوں نے ملک کی دولت لوٹ کھوسٹ کر ملک اور قوم کو اس قدر بدحال کردیا ہے کہ جس وجہ سے ملک وقوم کی آزادی اور خود مختاری غیروں کے پاس رہن رکھی جاچکی ہے۔ ہم اپنی مرضی سے نہ کسی بین الاقوامی اجلاس میں شرکت کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ یہ کیسی آزادی، کیسی خود مختاری ہے؟ افسوس ہے ایسے لیڈروں پر جنھوں نے ملک وقوم کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے۔

پاکستانی عوام کا کہنا ہے کہ موجودہ جمہوری حکومت جوکہ نیا پاکستان اور تبدیلی کے نعرہ کے ساتھ برسر اقتدار آئی ہے، سابقہ جمہوری اور آمرانہ حکومتوں کا تسلسل ہی ہے چند ایک کو چھوڑ کر وہی پرانے چہرے ہیں یعنی پرانی شراب، نئی بوتل والی بات ہے یہ کہنا بجا ہوگا کہ بد سے بدترکی طرف گامزن ہیں، سابقہ دورکی نسبت مہنگائی میں بے انتہا اضافہ ہوچکا ہے لوگوں کو روٹی کی لالے پڑگئے ہیں ہر چیز کی قیمت انتہا کو پہنچ چکی ہے جو چیز پہلے عوام کی دسترس میں تھی اب وہ قوت خرید سے باہر ہے۔

مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ لوگوں کی خودکشیوں میں اضافہ ہوچکا ہے، غریب عوام آسمان کی طرف منہ کرکے حکمرانوں کو جو بد دعائیں دے رہے ہیں، اس سے یقینا آسمان بھی کانپتا ہوگا پھر بھی وزیر اعظم عمران خان فرماتے ہیں کہ ’’گھبرانا نہیں ہے۔‘‘  حال ہی میں مہنگائی میں کمی لانے کے لیے جو اعلانات اور اقدامات کیے گئے ہیں وہ غریب سے ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں، سرکاری یوٹیلیٹی اسٹورزکے اجناس کی قیمتوں میں کمی کی باتیں اونٹ کے منہ میں زیرے والی بات ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عام بازاروں میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی کی جاتی، ملک بھر میں قائم چند یوٹیلیٹی اسٹورزکروڑوں غریبوں کی دسترس سے باہر ہیں۔ ملک میں بیروزگاری کا عالم یہ ہے کہ لوگ اپنے ہی ہاتھوں اپنی جانیں لینے پر مجبور ہیں،آمدنی محدود ہیں اخراجات میں بے پناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ قرض دینے والے عالمی اداروں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان کی شرائط سے غریب مزید کس قدر غریب ہو سکتے ہیں۔

ان عالمی اداروں کو صرف اپنی آمدنی سے واسطہ ہوتا ہے، جو سود پر مبنی ہوتی ہے۔ اپوزیشن لیڈران اپنی جانیں اور مال بچانے پر مصروف ہیں، ان کے ایک آدھ اخباری بیان دینے سے غریبوں کی غریبی میں کمی نہیں آنی، غریبوں کو پتہ ہے کہ یہ سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔

کل کی طرح یہ جب بھی حکومت میں آئیں گے، تب ان کا بھی یہی کہنا ہوگا کہ یہ سب کچھ پچھلی حکومت کا کیا دھرا ہے، ہمیں خزانہ خالی ملا ہے۔ یہ تماشا عوام مدتوں سے دیکھتے آرہے ہیں۔ کرپشن ،کرپشن کا کھیل تماشا بہت ہوگیا ہے، سزا کسی کو نہیں ملنی،کیوں اپنا اور عوام کا وقت برباد کیا جا رہا ہے؟ٓ آج جنھیں چور، ڈاکو اور لٹیرا کہا جا رہا ہے آنے والے وقتوں میں وہ دوبارہ اقتدار میں آ سکتے ہیں اور آج جو خود کو فرشتہ سمجھ رہے ہیں کل کلاں کو ان پر بھی کرپشن کا الزام عائد کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ سیاسی کھیل تماشا پہلے بھی کھیلا جاچکا ہے،اب عوام پہلے والے نہیں رہے،اس بار عوام سے جو ہاتھ ہوگیا ہے اس سے عوام کو جو سبق ملا ہے اس سے ان کے چودہ طبق روشن ہو چکے ہیں۔ اب انھوں نے کسی نام نہاد مسیحا کا خواب دیکھنا چھوڑ دیا ہے، اب وہ آخری فیصلہ کرنے کے موڈ میں ہیں، روک سکو تو روک لو ، عوام کے صبرکا پیمانہ لبریز ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

حکمرانوں کی غریبوں سے ہمدردی کا یہ عالم ہے کہ کوئی کہتا ہے کہ ’’ ٹماٹر مہنگا ہے تو دہی استعمال کرو‘‘ کوئی کہتا ہے کہ ’’اگر روٹی مہنگی ہے تودوکی بجائے ایک روٹی کھالی جائے‘‘کوئی کہتا ہے کہ ’’سردیوں میں روٹی زیادہ کھائی جاتی ہے، اس لیے روٹی مہنگی ہوگئی ہے‘‘ شرم آنی چاہیے ایسے نام نہاد عوامی لیڈروں کو جو غریبوں کو ریلیف دینے کی بجائے غریبوں کی غربت کا مذاق اڑاتے ہیں۔

ڈرو اس دن سے جب عرش الٰہی پر غریبوں و بے کسوں کی آہ و بکا سنی جائے گی تو اس وقت تمہیں پروٹوکول دینے والا کوئی نہیں ہوگا،تمہارا گریبان ہوگا اور غریب کا ہاتھ ہوگا۔ اس سے پہلے کہ روز محشر تم سزا وار بن جاؤ، ابھی سے غریبوں کی دعائیں لو، ان کی زندگیاں آسان کرنے کی تدبیرکریں، انھیں ان کا بنیادی حق دو، یہ ملک غریبوں کے خون سے بنا ہے اور غریب ہی اس کے حقدار ہیں۔ ملک کو ریاست مدینہ بنانے کے لیے غریبوں کے دکھ درد کوکم کرنا ہوگا، ورنہ دیگر سب جھوٹ ہے۔

The post ڈرو اس دن سے، اس سے پہلے کہ …! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2I6TgwQ
via IFTTT

سی پیک:اہمیت، افادیت اور اثرات (حصہ اول) ایکسپریس اردو

ڈیووس 2020 میں پاتھ فائنڈر اور مارٹن ڈو گروپ کے زیر اہتمام پینل ڈسکشن میں عبدالحفیظ شیخ نے سی پیک کی اہمیت اور اس کی کامیابی سے متعلق اظہار خیال کیا۔ انھوں نے سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ کے اہم پہلو، موجودہ بین الاقوامی معیشت، اور پاکستان اور چین کی معیشتوں سے متعلق اہم حقائق پیش کرتے ہوئے سی پیک کا سیاق و سباق فراہم کیا۔ اپنے خطاب میں انھوں نے منصوبے سے متعلق ارادوںکی تکمیل اور اس کام سے متعلق دیگر اہم پہلوؤں کا احاطہ کیا۔

پاکستان اور چین کے مابین مضبوط سفارتی، سیاسی اور عسکری تعلقات ہیں۔ البتہ ماضی میں تجارتی تعلقات محدود رہے۔ چین کی عظیم معاشی تبدیلی کی جھلک ہمارے معاشی نظام میں ظاہر نہیں ہوئی۔ اب سی پیک دونوں معیشتوں میں تعلق پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اگر اس منصوبے کا موثر انداز میں اطلاق ہوتا ہے، تو یہ پاکستان، مغربی چین اور اس خطے میں بڑی تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس وقت چین کی آبادی 1.4 بلین اور اس کی جی ڈی پی 12 ٹریلین(کھرب)ڈالر ہے۔ یہ جاپان، روس، انڈیا اور برازیل کی مشترکہ GDP سے زیادہ ہے،اس محاذ پر فقط امریکا ہی 19ٹریلین کے ساتھ چین سے آگے دکھائی دیتا ہے۔

عالمی سطح پر مربوط معیشت کی حیثیت سے اس کی سالانہ تجارت چار ٹریلین ڈالر سے تجاویز کرچکی ہے۔ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی ایف) 1.4ٹریلین ڈالر ہے۔ممتاز چینی رہنما دنگ شا وپنگ کی اختیار کردہ معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں ہمیں 70 کی دہائی میں معاشی ترقی پہلے پہل نظر آئی تھی۔

چین کی کامیابی کو مندرجہ بالا کلیوں سے پرکھا جاسکتا ہے۔1۔1978 سے اب تک، تقریباً چالیس سال کے دوران، اوسط سالانہ شرح نمو 10 فی صد کے قریب رہی۔ 2۔  800 ملین افراد کو غربت سے نجات دلانا اِس کا دوسرا اہم وصف تھا۔

اپنے خطاب میں ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ اگرافراد کی تعداد کے لحاظ سے معاشی اثرات کا جائزہ لیا جائے، تو بیسویں صدی میں دنگ شاوپنگ بے مثال تھے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ کے مطابق چین کو فی کس جی ڈی پی (GDP per capita) بہتر بنانے کے حوالے سے سنجیدہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ اپنی موجودہ نو ہزار ڈالر کیپٹل جی ڈی پی کے ساتھ چین گلوبل فہرست میں 71 ویں نمبر پر ہے۔اس فہرست میں سوئٹرزلینڈ 80 ہزار ڈالر، امریکا 60 ہزار ڈالر، سنگاپور57 ہزار ڈالر، جرمنی 44 ہزار ڈالر، جاپان 39ہزار ڈالر، یہاں تک کہ ترکی اور ملائیشیا بھی دس دس ہزار ڈالر کے ساتھ نمایاں نظر آتے ہیں۔

چین کی موثر کارکردگی نے ملک سے آمدنی کے تفاوت کوکچھ ریجنز میں نمایاں نہیں ہونے دیا۔ شنگھائی، بیجنگ، تیانجن اورشنزین باقی حصوں سے بہتر نظر آتے ہیں۔ شہری اور دیہی علاقوں میں فرق 3:1، جب کہ ساحلی اور اندرونی پٹی میں فرق کی شرح 2:1 ہے۔ اگر خطے پر نظر ڈالیں، تو ایک طرف20 ہزار ڈالر اوردوسری طرف پانچ ہزار ڈالر آمدنی نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر شیخ نے اس علاقائی فرق کو معاشی ہم آہنگی کے لیے قابل تشویش ٹھہرایا۔

چین کی اقتصادی کامیابی کے پیچھے معاشی اور سیاسی استحکام، قیادت کی موثر تبدیلی، منظم اور سستی افرادی قوت نمایاں ہے۔ اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری ملک میںلانا، بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ اتحاد اور دیگر ممالک کو اپنی مصنوعات فروخت کرنے کی چینی قابلیت بھی اس فہرست میں شامل ہے۔ اس کی برآمدات اس وقت 2.3 ٹریلین ہیں۔ چین کسی ملک کے ساتھ شدید سیاسی تنازع کے باوجود تجارتی افادیت کو پیش نظر رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس کی ایک مثال چین اور بھارت کے تجارتی تعلقات ہیں۔ 85 بلین ڈالر کے حجم کے ساتھ چین انڈیا کا سب سے بڑا بزنس پارٹنر ہے۔ صرف گزشتہ برس ہی بھارت میں چینی برآمدات میں چالیس فی صد اضافہ ہوا۔

ڈاکٹر حفیظ شیخ نے مزید کہا ہے کہ پاکستان میں حکومتوں اور بزنس کمیونٹی کی بڑی اور مسلسل ناکامیاں نہ صر ف عالمی، بلکہ علاقائی سطح پر بھی پاکستانی معیشت کو مربوط کرنے میں ناکام رہیں۔ پاکستان کبھی دیگر ممالک کو  بڑی سرمایہ کاری پاکستان لانے پر آمادہ نہیں کرسکا۔ دیگر ملک کے ساتھ اتحاد اور معاشی تعلقات بنانے میں ہماری ناکامی چین اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں کے تجربات کے بالکل برعکس ہے۔ یہ پاکستانی معاشی تاریخ کے دو اہم حقائق ہیں، جنھوں نے ملک کی معاشی رفتار کو متاثر کیا اور اسے معاشی مقاصد کے حصول کی نچلی سطح تک محدود رکھا۔

ادھر چین کی کامیابی کے پیچھے اپنی پراڈکٹ دیگر ممالک کو فروخت کرنا اور بین الاقوامی کمپنیوں سے اتحاد قائم کرکے اربوں ڈالرز کا سرمایہ ملک میں لانے کے لیے قائل کرنے کی قابلیت کارفرما رہی۔پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ قیام کے بعد ہی سے یہ مسلسل حالت جنگ میں رہا۔ اس میں سرحدی محاذ، کشمیر تنازع، 1971کی جنگ، سرد جنگ، افغان جنگ اور نام نہاد ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ شامل ہے۔

یہ تنازعات پاکستانی معیشت کے لیے گراں ثابت ہوئے اور بڑے معاشی اداروں کو پاکستان کے ساتھ طویل المدتی معاہدوں سے روکے رکھنے کا باعث بنے۔اپنی پوری تاریخ میں پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا۔کسی منتخب وزیر اعظم نے مدت پوری نہیں کی، جس کا خمیازہ ملک نے بھگتا۔اس کے باعث معاشی ترقی رفتار نہیں پکڑ سکی۔ البتہ آخری چند برس میں آئین کی بحالی، انتخابات کا انعقاد، طاقت اور اقتدار کی موثر منتقلی، اظہار کی آزادی اور سول سوسائٹی کی صورت ایک مثبت پیش رفت ہوئی۔

قدرتی وسائل سے مالامال اس ملک میں پوٹینشل کی کمی نہیں۔ یہ کوئلہ، گیس، آبی وسائل کے ساتھ ساتھ جغرافیائی اہمیت کا بھی حامل ہے۔کیا اب سی پیک پاکستان کے لیے ایک بڑا معاشی موقع بن سکتا ہے؟ 75 ٹریلین کی گلوبل جی ڈی پی کے ساتھ 2017 میں شرح نمو 3.5 فی صد رہی تھی۔ اور آئی ایم ایف کا 2018  کے لیے شرح نمو کا تخمینہ 3.9 فی صد تھا۔ اس کی نسبت معاشی میدان میں بہتری کی واضح مثالیں ہمیں دنیا بھر میں دکھائی دیتی ہیں۔

زیریں سطح کیفیت پریشان کن ہے۔ ڈاکٹر شیخ کے بہ قول، ’’ہمارے پاس خطرہ مول لینے اور داؤ لگانے کے امکانات خاصے کم ہیں۔‘‘ شرح سود پہلے ہی نچلی سطح پر ہے۔ اس وقت Fed ٹارگٹ ریٹ 1.5 فی صد ہے، جب کہ  ECBریٹ صفر کے لگ بھگ ہے، جس کی وجہ سے مونٹیری پالیسی کے اثرات محدود ہوجاتے ہیں۔ ٹیکس میں 1.5 ٹریلن کی کٹوتی عوامی قرضے میں خطرناک حد تک بڑھوتی کا سبب بن سکتی ہے۔ چین میں پرائیویٹ قرضے کی شرح بہت بلند ہے۔ چند ممالک اس معاملے میں دائمی عدم تواز ن کا شکار ہیں۔ چین، جرمنی اور جاپان میں chronic Current Account surpluses کا تصور رائج ہے، جب کہ برطانیہ میں دائمی Current Account deficits کا نظام موجود ہے۔

امریکا اور یورپ کے کچھ حصوں میں ’’ ہائپر نیشنلسٹ ‘‘اور’’پروٹیکشنسٹ‘‘ کی بابت بڑھتے مکالموں کے ساتھ عالمی مالیاتی ڈھانچے پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے بعد کچھ یورپی ممالک میں رائے شماری میں سخت گیر طبقات نے کامیابی حاصل کی۔ امریکا کے ساتھ پیرس معاہدہ، شمالی امریکا آزاد تجارتی معاہدہ (NAFTA)   اور Trans-Pacific Partnership دراصل ماضی کی پالیسیوں میںایک بڑی اور واضح تبدیلی ہے، چند اشیاء پر محصولات نافذ کرتے ہوئے مزید محصولات کی دھمکی دی گئی ہے۔

(سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار، اکرام سہگل کا ڈیووس 2020 میں 21 جنوری کو عشائیہ پر ہونے والی گفتگو کے اقتباسات پر مشتمل مضمون کا یہ پہلا حصہ ہے)

The post سی پیک:اہمیت، افادیت اور اثرات (حصہ اول) appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2VxiLiA
via IFTTT

درد اتنے ہیں خلاصے میں نہیں آئیں گے ایکسپریس اردو

ہر حکومت کی طرح ہماری موجودہ حکومت نے بھی پولیس اور تھانہ کلچر تبدیل کرنے کا وعدہ اور دعویٰ کیا تھا۔ دو تین ماڈل تھانوں کے افتتاح بھی وزیر اعظم نے کیے لیکن پولیس ڈپارٹمنٹ میں اصلاحات کا نزول ہنوز دلی دور است والی بات ہی نظر آتی ہے۔ پولیس کے نظام میں انقلابی تبدیلی توکیا ہوتی نمائشی تبدیلیوں پر ہی اکتفا کر لیا گیا ہے۔

نتیجے میں لاقانونیت ، جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ نومبر 2019ء کے آخر میں سب سے بڑے صوبے پنجاب کا آئی جی پانچویں مرتبہ تبدیل کیا گیا اور سندھ کراچی کے نئے آئی جی کی تقرری کے لیے جو کچھ کیا جاتا رہا وہ بھی سبھی جانتے ہیں۔ ماورائے عدالت قتل اور جعلی پولیس مقابلے ملک بھر میں اسی طرح ہوتے چلے آئے ہیں۔ ملک کے اکثر تھانوں میں پولیس تشدد سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اسٹریٹ کرائم، بچوں اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی جرائم اور تشدد کے واقعات بھی بڑھتے جا رہے ہیں اور بے بس و بے کس عوام دہائیاں دیتے چلے آ رہے ہیں لیکن نہ انھیں انصاف مل پا رہا ہے اور نہ ہی ان کا تحفظ ممکن ہو پا رہا ہے۔

ہماری دانست میں اگر پولیس آرڈر 2002ء اپنی اصلی شکل میں نافذ ہو جاتا تو شاید صورتحال یہ نہ ہوتی جیسے نظر آ رہی ہے۔ پولیس کو جب تک سیاسی چھت یا چھتری تلے رکھا جائے گا ملک میں امن و امان اور جرائم کی شرح میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا اور امن وامان کی صورت گری ایسی ہی رہے گی جیسی کہ تھی۔ پولیس افسران جب تک سیاست دانوں کے ریموٹ کنٹرول پر آپریٹ ہوتے رہیں گے جب تک انصاف عام آدمی تک نہ تو پہنچ پائے گا اور نہ ہی لوگ چین سکون سے رہ سکیں گے۔ پولیس کو نہ سیاسی ہونا چاہیے اور نہ ہی سیاست دان کو غیر سیاسی۔ کیونکہ سیاست خدمت کا نام ہے، اپنی اور اپنے خاندان کی نہیں بلکہ عوام اور ان کی جان و مال کی یہی اصل جمہوریت ہے۔

ملک کا سب سے بڑا تجارتی اور بین الاقوامی شہر کراچی ’’ میگا پرابلم سٹی‘‘ بن گیا ہے جہاں شہری، صوبائی حد تو یہ کہ وفاقی حکومت تک کام نہیں کر رہی۔ وزیر اعظم عمران خان جو خود کراچی سے منتخب ہوئے تھے۔ اپنی پارٹی کی کراچی سے اتنی بڑی کامیابی کے باوجود جب بھی اس شہر میں آتے ہیں (ویسے وہ کبھی کبھار ہی آتے ہیں) تو کراچی کے ’’ریڈ زون‘‘ سے باہر ہی نہیں آتے۔ جس شہر نے پہلی بار ایک ایسی جماعت کو ووٹ دیا جس نے مرکز میں حکومت بنائی مگر اس نے بھی کراچی کو لاوارث چھوڑ دیا۔

کراچی اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا شیلٹر ہوم بن گیا ہے جہاں سبھی پناہ لے سکتے ہیں مگر خود کماؤ اور خود کھاؤ کی صورت میں۔ اگر ایسا شہر جو معاشی ہب کہلائے، منی پاکستان ہو، بین الاقوامی شہروں میں شمار قطار ہو، ہر نسل و رنگ اور زبان بولنے والوں کو خوش آمدید کہے لیکن اس کی آدھی سے زیادہ آبادی انسانی ضروریات اور سہولیات سے محروم رکھی جا رہی ہو تو یہ زیادتی نہیں تو پھرکیا کہلائے گی۔

نہ ہی وفاقی حکومت، نہ ہی صوبائی حکومت اور نہ ہی شہری (بلدیاتی حکومت) اس کے مسائل حل نہ کرنے صرف اس سے حاصل ہونے والی آمدنی (ریونیو) کو ہی ہڑپتی جائے تو وہی حال اس کا ہوگا جو ہو چکا ہے۔ پانی، بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ کی دشواری، گندے ابلتے گٹر اور نالے، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، کسی کو روزگار سے بے دخل کرنے، نئے نئے ٹیکسز کمپنی فیکٹریوں میں لگانے اور لوگوں کو ملازمتوں سے نکالنے کے ستم اس شہر اور اسی شہر کے باسیوں پر توڑے جا رہے ہیں۔

جس شہر کی بین الاقوامی اہمیت یا شناخت مسلم رہی ہو اس شہر میں ہر جگہ کسی مافیا کا راج ہو وہاں کیا جمہوریت ، انصاف اور سیاست باقی رہے گی۔ بس ہر زبردست کے آگے زیردستی اس شہر کا المیہ ہے، سانحہ ہے، کہرام ہے، نوحہ ہے اور ماتم ہے۔ اب تو یہ شہر نہ ہی حکومت کا لگتا ہے اور نہ ہی اپوزیشن کا بس ’’شہر نا پرساں‘‘ اسے کہا جا سکتا ہے جہاں طاقت کا سرچشمہ یہاں کے عوام نہیں بلکہ کوئی اور ہی ہیں۔ دراصل اس ملک میں جس کے پاس طاقت ہے چاہے وہ کسی بھی قسم کی ہو وہ کسی مافیا سے کم نہیں۔

اس حقیقت سے کسی طور انکار ممکن نہیں کہ کراچی میں طاقتور اشرافیہ سے لے کر فقیروں تک کی مافیا موجود ہے۔ کراچی میں ٹرانسپورٹ مافیا اتنی طاقتور ہے کہ اچھی سے اچھی ٹرانسپورٹ بھی یہاں کبھی نہیں چل سکتی۔ سرکلر ٹرین، اورنج لائن، لیمو لائن کوئی سی بھی لائن کی گاڑی یہ مافیا کراچی کے کسی روڈ پر چلنے نہیں دیتی اور اس المیے کی تاریخ بھی اب بہت پرانی ہو چکی ہے۔ ٹرانسپورٹ مافیا کے آگے کوئی بھی سرکاری مشینری اپنے فاضل پرزہ جات کو بریک لگا دیتی ہے اسے آپ ٹرانسپورٹ مافیا کا احترام کہہ لیں یا اس کا خوف جو چاہے نام دے لیں۔ ٹرانسپورٹ مافیا کے بعد لینڈ مافیا بھی اس شہر کی دوسری طاقتور مافیا ہے الغرض یہ کہ اس شہر میں مافیاز کا جال بچھا ہوا ہے، یہاں تک کہ پارکنگ کی مافیا بھی ہے۔

یہ بھی اس ملک یا بڑے شہر کی لاچاری یا بے بسی کہہ لیں کہ کراچی میں آج تک کوئی میگا پروجیکٹ کامیاب نہیں ہوا کیونکہ یہ مافیاز اسے کامیاب نہیں ہونے دیتی ہیں۔ خود پاکستان کے طاقتور وزیر اعظم عمران خان ایسی طاقتور مافیا کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جس سے وزیر اعظم کو خدشہ ہے کہ وہ انھیں گرا دے گی، سپریم ادارے کے سربراہ تک کہہ چکے ہیں کہ اگر ایکشن لیا تو مجھ سمیت سبھی فارغ ہو جائیں گے۔

یہ باتیں یا ہولناک سچائیاں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ اس ملک کی باگ ڈور کھینچنے والے ہاتھ کسی کے بھی ہوں حکمرانوں کے نہیں ہو سکتے جنھیں ووٹوں کی عزت یا اہمیت کے ڈھونگ پر سامنے لایا گیا تھا۔ اس ملک یا پھر اس شہر کا نظام و انتظام ان طاقتوروں کے ہاتھ میں ہے جن کے کارندے یا اہلکار ہر جگہ موجود ہیں، جو سسٹم کو آگے نہیں بڑھنے دے رہے اور اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ ہماری موجودہ حکومت انتظامی حماقتوں کا ایک شاندار گل دستہ ہے۔

یہ اتنے بابرکت لوگ ہیں کہ جس ایشو کو ہاتھ لگاتے ہیں وہ بحران بن جاتا ہے اور یہ ہاہا کار، یہ ہنگام، یہ افراتفری اور یہ قیامت یا یہ بگاڑ کوئی دو چار سالوں کی بات نہیں۔ اس ’’کارِ بد‘‘ میں خیر سے کئی نسلوں، کئی آمروں، کئی سیاستدانوں، کئی بھائیوں اور کئی بااثر لوگوں کی بھرپور ’’حصہ داری‘‘ رہی ہے۔ یوں بڑی جدوجہد اور بڑی کاوشوں کے بعد ملک عزیز کو اس حال تک پہنچایا گیا ہے وگرنہ یہ مملکت خداداد اتنی آسانی سے تو اس بدحالی تک پہنچنے والی ہرگز نہ تھی۔

اسے وطن کے رکھوالوں کی بے حسی یا بے بسی کہہ لیں یا ہمارا ملکی منظر نامہ یا معاشرہ ذہنی طور پر پسماندگی کا شکار ہو گیا ہے جس کی فکر اور سوچ ایک جگہ ٹھہر کر رہ گئی ہے۔ تبدیلی، ریاست مدینہ یا پھر نئے پاکستان کے نام پر کھیل تماشا ہی لگا ہوا ہے۔ عوامی مفاد میں کوئی نئی قانون سازی تو دور کی بات پرانے قوانین پر عملدرآمد کے ضمن میں بھی کوئی مثبت پیشرفت نہیں دیکھی جا رہی۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن ہو یا سانحہ ساہیوال یا سانحہ ماڈل ٹاؤن یا پھر پنجاب کے ایک اسپتال میں کالے اور سفید کوٹوں والوں کے تصادم کا سانحہ لے لیں۔ سارے کے سارے سانحات قانون کی کمزوری، لچک اور انصاف اور قانون کی عدم پاسداری کے منہ بولتے ثبوت ہیں اور ملکی تاریخ کے منہ پر کالک ہی کہے جا سکتے ہیں۔ الغرض ایسے میں فقط اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ:

درد اتنے ہیں خلاصے میں نہیں آئیں گے

غم زیادہ ہیں لفافے میں نہیں آئیں گے

The post درد اتنے ہیں خلاصے میں نہیں آئیں گے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3cgoGP7
via IFTTT

Thursday, February 27, 2020

سندھ حکومت نے یکساں نصاب تعلیم منصوبے کی حمایت کردی ایکسپریس اردو

کراچی:  وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے جمعرات کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں اپنے اجلاس میں وفاقی وزارت تعلیم کی جانب سے پورے پاکستان میں تیار کردہ یکساں نصابِ تعلیم متعارف کرانے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔

وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد اسکول کے نصاب کو ڈیزائن کرنا صوبائی سبجیکٹ ہوگیاہے لیکن وفاقی وزیر تعلیم نے اس مقصد کے ساتھ ہی ایک قدم اٹھایا ہے کہ پورے پاکستان میں یکساں نصاب متعارف کرایا جاسکے، انھوں نے انھیں یقین دلایا کہ ان کی حکومت اس منصوبے کی حمایت کرے گی۔ وزارت تعلیم کے ذریعے تیار کردہ نصاب پورے پاکستان کے تمام سرکاری ، نجی اور انگریزی میڈیم اسکولوں میں پڑھایا جائے گا۔

وفاقی وزیر نے وزیر اعلیٰ سندھ کو بتایا کہ انھوں نے مدرسوں کی رجسٹریشن کے لیے وفاقی مدرس اور دیگر متعلقہ علماکو اعتماد میں لیا ہے، انھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے تعلیمی منصوبے پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے متعلقہ کمشنرز کے ماتحت ڈویڑنل کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔

انھوں نے کہا کہ علما حکومت کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں، وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہمارے مدارس کے لوگ امن کے فروغ اور مذہبی نصاب کے ساتھ باضابطہ تعلیم کو متعارف کرانے میں حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں، اس سے قبل وفاقی وزیر تعلیم نے صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی کے ساتھ پورے پاکستان میں یکساں نصاب متعارف کروانے سے متعلق تفصیلی ملاقات کی۔

The post سندھ حکومت نے یکساں نصاب تعلیم منصوبے کی حمایت کردی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2wM9nxh
via IFTTT

گوشوارے جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: ایف بی آر نے گوشوارے جمع کروانے کی تاریخ میں ایک بار پھر توسیع کردی۔

ایف بی آر نے جنوری 2020 کیلیے سیلز ٹیکس و فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے گوشوارے جمع کروانے کی تاریخ میں ایک بار پھر توسیع کردی۔ ایف بی آر سرکلر کے مطابق گوشوارے آج 28 فروری تک جمع کرواسکیں گے۔

The post گوشوارے جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Vuuoqw
via IFTTT

پلاسٹک مصنوعات کی 3 روزہ نمائش آج سے کراچی میں شروع ہوگی ایکسپریس اردو

کراچی: پاکستان کی پلاسٹک انڈسٹری کی جانب سے کیا جانے والا پلاسٹک پراڈکٹس شو آج سے کراچی ایکسپو سینٹر میں شروع ہورہا ہے۔

پلاسٹک پراڈکٹس شو کی کراچی ایکسپو سینٹر میں 3 روزہ نمائش کا افتتاح گورنر سندھ عمران اسماعیل کریں گے جبکہ ایف پی سی سی آئی کے صدر انجم نثار سمیت دیگر اہم شخصیات بھی افتتاحی تقریب میں شرکت کریں گی۔

نمائش کا انعقاد ایکسپو پاک کے تحت کیا جارہا ہے جس میں 50سے زائد کمپنیاں گھریلو، کمرشل اور انڈسٹریل پلاسٹک مصنوعات کے ساتھ حصہ لے رہی ہیں۔

The post پلاسٹک مصنوعات کی 3 روزہ نمائش آج سے کراچی میں شروع ہوگی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2VAJcE2
via IFTTT

ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر 4 افراد کو قتل کرنیوالا گروہ گرفتار ایکسپریس اردو

کراچی: رینجرز اور پولیس نے مشترکہ کارروائیاں کرتے ہوئے اسکول ٹیچرسمیت4 شہریوں کے قتل میں ملوث 5 رکنی گروہ کو گرفتارکرلیا، گرفتار گروہ کے کارندے اسٹریٹ کرائم، گھروں اوردکانوں میں ڈکیتیوں کے ساتھ ساتھ بینک یا منی چینجر سے رقم نکلوانے والے افراد کو لوٹنے کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔

رینجرز سندھ اورپولیس نے انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر لائنز ایریا، کورنگی، لیاقت آباد اور ناظم آباد کے علاقوں میں کارروائی کرتے ہوئے 5 افراد پرمشتمل گروہ کوگرفتار کرلیا،گرفتار ملزمان میں کامران امجد، وقارعلی عرف بنٹو، اسد عرف چھوٹا، شیراز عرف شیری اورعدنان عرف عدی شامل ہیں جومختلف علاقوں میں اسٹریٹ کرائم، گھروں اور دکانوں میں ڈکیتیوں کے ساتھ ساتھ بینک یا منی چینجر سے رقم نکلوانے والے افرادکولوٹنے کی وارداتوں میں بھی ملوث ہیں۔

ملزمان کے قبضے سے5پستول بھی برآمدکیے گئے جنھں وہ دوران ڈکیتی واردات میں استعمال کرتے تھے،ملزمان ڈکیتی مزاحمت پر قتل کی 4 وارداتوں میں بھی ملوث ہیں۔

ملزمان نے 28 دسمبر کو جیکب لائن میں محمد عماد السلام ، 30 ستمبر کو شاہرقائدین پر توفیق اور 19 نومبر جیکب لائن میں محمد عمران کو دوران ڈکیتی مزاحمت کرنے پر فائرنگ کر کے قتل کردیاتھا۔

ترجمان سندھ رینجرز کے مطابق گرفتار ملزمان نے 31 جنوری کو سولجر بازار نمبر میں ویتنام سے آنے والے اسکول ٹیچر انعام علی کو اس کی بہن ڈاکٹر فرحین کے سامنے دوران ڈکیتی مزاحمت پر فائرنگ کر کے قتل کردیاتھا، مقتول اوراس کی بہن منی چینجر سے رقم تبدیل کرواکرگھرواپس آرہے تھے،ملزمان کے قبضے سے اسلحہ بر آمد کر لیا گیا ہے اورانھیں قانونی کارروائی کے لییپولیس کے حوالے کردیاگیاہے۔

The post ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر 4 افراد کو قتل کرنیوالا گروہ گرفتار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Ptv0sD
via IFTTT

کورونا کے دو مریضوں کی پاکستان میں تصدیق ایکسپریس اردو

کورونا وائرس نے پاکستان کو بھی ٹارگٹ کر لیا۔ پاکستان میں کورونا وائرس کے دومریضوں کی تصدیق ہوئی ہے، جس کے بعد بلوچستان میں 15 مارچ تک جب کہ سندھ میں دو روزکے لیے تعلیمی ادارے بند کردیے گئے ہیں۔

محکمہ صحت سندھ کے مطابق22 سالہ یحییٰ جعفری میں بیماری کی تصدیق ہوئی، اس نے ایران سے کراچی کا سفرکیا ، متاثرہ شخص اور فیملی کو نجی اسپتال داخل کر دیا گیا، اس کے ساتھ آنے والے8 سے 10 مزید لوگوں کو زیرمشاہدہ رکھا گیا ہے، ایران سے آنے والے دیگر افراد کا بھی ٹیسٹ کیا جا رہا ہے۔

دوسرامریض اسلام آباد میں سامنے آیا،اس کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے، اسے پمز کی آئی سولیشن وارڈ میں رکھا گیا ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا نے کوئٹہ میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے ساتھ پریس کانفرنس میں بتایا کہ دونوں مریضوں نے گزشتہ چودہ دنوں میں ایران کا سفرکیا تھا تاہم ہمیں بلا ضرورت پریشان ہونا چاہیے، نہ خوف ودہشت پھیلانی چاہیے، احتیاط اور ذمے داری سے کام لینا چاہیے، اس سے بھی زیادہ یہ ضروری ہے کہ ہیلپ لائن 1166پر رابطہ کریں۔

کورونا وائرس کی ملکی سطح پر تصدیق کے ساتھ ہی صوبائی حکومتوں نے وائرس سے نمٹنے کے لیے طبی سہولتوں کے فقدان کا اعتراف کیا، ادھر غیر محسوس طور پر خوف وہراس کا پیدا ہونا بھی فطری تھا کیونکہ کورونا وائرس پوری دنیا کو متاثرکر رہا ہے، عالمی اقتصادی صورتحال بھی متاثر ہونے لگی ہے، سرمایہ کاروں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے،کورونا نے مشرق وسطیٰ کے ممالک کو بھی خبردارکردیا ہے، سعودی عرب نے عمرہ پر عارضی پابندی لگا دی ہے، لاہور ایئرپورٹ سے عمرہ زائرین کو آف لوڈ کیا گیا، میڈیا کے مطابق اسپتالوںمیں خصوصی لباس غائب کر دیے گئے، کراچی میں کورونا وائرس کی وبا کی تصدیق سے شہریوں نے ملنے جلنے سے گریزکیا۔

بچوں میں کورونا وائرس کے غیر ضروری خطرے کی افواہوں اور مناسب تدابیر کی سائنسی تشہیر کے فقدان کے باعث عوامی رابطوں اور روزمرہ تعلقات میں بھی احتیاط کی تلقین کی جاتی رہی۔ عالمی سطح پر بھی کورونا وائرس سے متاثرہ گروپوں کی چین کے شہر ووہان سے واپسی کا عمل بھی جاری ہے، بھارت نے ایئر انڈیا سے اپنے شہریوں کی واپسی کا انتظام کیا، متعدد یورپی اور ایشیائی ممالک کے شہری واپسی کے بعد مختلف اسپتالوں میں قرنطینہ میں رکھوائے گئے۔ عالمی ادارہ صحت کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ قرنطینہ میں رکھے جانے کی مدت 14دن ہوگی تاہم انتہائی تشویشناک حالت میں مریض دو سے تین ہفتے تک زیر علاج رہ سکتا ہے۔

جاپان میں خاتون دوسری مرتبہ کورونا کا شکار ہوئی۔ WHOکی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ایلوارڈ کا کہنا ہے کہ دنیا کا کوئی سائنس دان یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں کہ کورونا وائرس کتنا خطرناک ہے، کیونکہ اس کی پر اسراریت پھیلتی گئی ہے، اصل میں اسے مینج کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کہا کورونا وائرس سے متعلق مکمل احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں گی۔ زائرین کی آمدورفت اور اسکریننگ کو مانیٹر کیا جا رہا ہے، کوئٹہ میں چند دنوں میں وائرس کے ٹیسٹ کی سہولت شروع ہوجائے گی۔

ایران اور افغانستان کے ساتھ اشیائے خورونوش کی تجارت کرنے والوں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہونے لگا، ایران اور عراق جانے والے کینو بڑی تعداد میں خراب ہوگئے جب کہ پاکستان آنے والے اجناس ضایع اور چائے کی پتی 400 روپے فی کلو تک مہنگی ہوگئی،دونوں اطراف ہزاروں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔ کراچی میں وائرس کے کیس سامنے آنے پر نیواسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ سمیت ملک بھر کے ہوائی اڈوں پر ہائی الرٹ کردیا گیا۔

محکمہ صحت خیبرپختونخوا نے پشاور ایئرپورٹ ، طورخم اور ایران سے آنے والوں کی اسکریننگ شروع کر دی ہے جب کہ صوبے میں مشتبہ کیسزکی تعداد 16 ہوگئی ہے تاہم کسی میں وائرس کی تصدیق نہیں ہوئی۔کورونا وائرس کی نئی قسم کووڈ انیس کا کئی ملکوں میں پھیلاؤ تیزی سے جاری ہے۔

چین میں چوبیس گھنٹوں کے دوران 52  مزید افراد کی اموات ہوئی ہیں، وہاں اب تک 2,715 ہلاکتیں ہوچکی ہیں جب کہ مریضوں کی تعداد 78,000 ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے خبردارکیا ہے کہ دنیاکووڈ انیس (COVID-19) کے لیے تیار رہے، یہ عالمی وبا کی صورت اختیارکر سکتی ہے، غریب ممالک میں جانی نقصان کا زیادہ خطرہ ہے۔

چین کا دورہ کرنے والی عالمی ماہرین کی ٹیم واپس صدر دفتر پہنچ چکی ہے ،اس کے سربراہ بروس ایلوارڈ نے چینی اقدامات کو بہتر قرار دیا۔ انھوں نے واضح کیا دنیا اس وبا کے لیے تیار نہیں اور اسے قابو کرنے میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔

The post کورونا کے دو مریضوں کی پاکستان میں تصدیق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3abHNIb
via IFTTT

پرندوں کی چہک اور پھولوں کی مہک،آپ کومسرور رکھتی ہے ایکسپریس اردو

 لندن: سبزے میں وقت گزارنے، پھولوں کو چھونے اور سونگھنے اور پرندوں کی چہکار سننے سے انسانی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

دوسری جانب جو بچے قدرتی ماحول میں وقت گزارتے ہیں وہ بڑے ہوکر ماحول کےتحفظ میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں اور جنگلی حیات کے محافظ بن سکتے ہیں۔ اسی سروے میں کہا گیا ہے کہ ہر شخص کو ہفتے میں چار گھنٹے کسی باغ، سبزے یا پرفضا مقام پر گزارنا چاہیے۔

یہ تحقیق برٹش نیشنل ٹرسٹ اور یونیورسٹی آف ڈربی میں مشترکہ طور پر کی گئی ہے جس میں شہریوں سے سبزے اور جنگلی حیات کے درمیان گزارے گئے وقت کے بارے میں سوالات کیے گئے۔  نتیجہ یہ سامنے آیا کہ جو لوگ فطرت سے قریب ہوتے ہیں وہ بقیہ افراد کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ خوش اور مطمئن ہوتے ہیں۔

اسی طرح سروے میں شامل اکثر بچوں اور بڑوں نے اعتراف کیا کہ وہ باغ میں نہیں جاتے، نہ ہی پرندوں کی چہکار سنتے ہیں اور نہ ہی پھول سونگھتے ہیں۔ ایسے افراد کی تعداد 70 سے 80 فیصد تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے شہری فطرت اور قدرتی نظاروں سے کس قدر دور ہیں۔

اس ضمن میں دس میں سے سات بچوں نے کہا کہ انہوں نے سراٹھا کر بادل کو نہیں دیکھا۔ ماہرین نے سروے کے بعد کہا ہے کہ بالخصوص بچوں کو سکھائیں کہ پودا کیسے اگایا جاتا ہے۔ انہیں تتلیاں دکھائیں، سورج طلوع ہوتے وقت جگا کر منظر دکھائیں اور پرندے کا گھر بنانے میں مدد کریں۔

اس موقع پر سروے میں شامل ماہر، پروفیسر مائلس رچرڈسن نے کہا ہے کہ روزمرہ کے سادہ معمولات اور باہر وقت گزارنے سے زندگی پر بہت فرق پڑسکتا ہے اور اس کے صحت مندانہ نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں کا اصرار ہے کہ سبزے میں وقت گزارنے سے زندگی میں بامعنی فرق آسکتا ہے۔

The post پرندوں کی چہک اور پھولوں کی مہک،آپ کومسرور رکھتی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2T51vQ8
via IFTTT

ہانگ کانگ حکومت معیشت کی بحالی کے لیے عوام کو نقد رقم دے گی ایکسپریس اردو

ہانگ کانگ میں کئی مہینے تک جاری رہنے والے حکومت مخالف مظاہروں اور سرکاری و نجی املاک کی توڑ پھوڑ کی وجہ سے جو کساد بازاری پھیل چکی ہے، اس کے خاتمے اور معیشت کو ازسر نورواں دواں کرنے کے لیے ہانگ کانگ حکومت نے عوام میں بھاری نقد رقوم تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مخالفانہ مظاہروں کے علاوہ حال ہی میں کورونا وائرس جیسے ہلاکت خیز وائرس کی وجہ سے بھی ہانگ کانگ کی معیشت پر بہت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

ہانگ کانگ کے مالیاتی سیکریٹری پال چان نے بھاری نقدی کی صورت میں عوام کے لیے تحفے کا اعلان سالانہ بجٹ میں کیا، واضح رہے ہانگ کانگ کے بجٹ کا عمومی حجم 120 بلین (ارب) ڈالر کے لگ بھگ ہے۔

سرکاری نقد رقم کی تقسیم کا مقصد معیشت کے پہیے کو ’’جمپ اسٹارٹ‘‘ کرنا ہے جو  عوام کی ذمے داری اور خلوص پر منحصر ہو گا، اس اقدام سے ایک بین الاقوامی ہب کی حیثیت رکھنے والا ہانگ کانگ از سر نو عالمی معیشت میں اپنی کھوئی ہوئی حیثیت اختیار کر لے گا۔ ہانگ کانگ کے پاس محفوظ رقوم کا بھی ایک بہت بڑا اثاثہ موجود ہے اور خوشحالی کے دور میں اس کی محفوظ معیشت ایک ٹریلین ڈالر (کھرب) ڈالر سے زائد تھی۔

سرکاری طور پر جس بھاری رقم کی تقسیم کا فیصلہ کیا گیا ہے وہ ہانگ کانگ کے مستقل رہائشیوں میں تقسیم کی جائے گی۔ سرکاری افسروں کا اندازہ ہے کہ عوام میں تقسیم کی جانے والی رقوم اور زیادہ منافع کے ساتھ واپس سرکاری خزانے میں آئیں گی۔ انھوں نے بتایا کہ نقد رقوم 18 سال یا اس سے زیادہ عمر کے مستقل رہائشیوں کو دی جائے گی۔

انھوں نے مزید بتایا کہ بیرون ملک مقیم  ہانگ کانگ کے باشندوں کو بھی یہ امدادی رقوم دی جائیں گی۔ سرکاری حکام نے اس امر کا بھی اظہار کیا ہے کہ ہانگ کانگ کے بجٹ کا حجم 139 بلین ڈالر سے بھی تجاوز کر جائے گا۔ سرکاری اطلاعات کے مطابق گزشتہ 15 سال میں یہ پہلی مرتبہ ہے جس میں ہانگ کانگ کا بجٹ خسارے کا شکار ہوا ہے مگر اس کی ٹھوس اور واضح وجوہات موجود ہیں۔

مسٹر چانگ نے بتایا کہ ہانگ کانگ کی معیشت پر زیادہ منفی اثر چینی امریکی تجارتی مخاصمت کی وجہ سے پڑا، علاوہ ازیں ہانگ کانگ کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ غیر ملکی سیاحت بھی تھا جو کئی ماہ کے پر تشدد ہنگاموں کی وجہ سے معطل ہو کر رہ گئی تھی تاہم اب جلد ہی حالات دوبارہ معمول پر آ جائیں گے۔

The post ہانگ کانگ حکومت معیشت کی بحالی کے لیے عوام کو نقد رقم دے گی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2wg60yg
via IFTTT

کراچی اسٹاک ایکسچینج میں مندی ایکسپریس اردو

کراچی اسٹاک ایکسچینج میں مندی کے سبب 72 اعشاریہ 12 فیصد حصص کی قیمتیں گرنے سے غیر یقینی صورتحال نے جنم لیا جس سے مندی کا تسلسل برقرار رہا۔ تین ماہ کی کم ترین سطح پر520 پوائنٹس کی کمی۔91 ارب ڈوب گئے۔

اسٹاک ایکسچینج بھی ایک کلیدی پیمانہ ہے، ملکی معیشت اور اس کی ترقی کو جانچے اور ناپنے کا۔ کسی بھی حکومت کی پالیسیاں براہ راست اسٹاک ایکسچینج پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس صورتحال کو بین السطور دیکھا جائے تو ریجنل مارکیٹوں میں مندی، پاکستان کا آئی ایم ایف سے مختلف معاملات پر ڈیڈ لاک اور حصص کی فروخت پر شدت برقرار رہنا سمجھ میں آتا ہے۔

گزشتہ روز کا احوال درج کرتے ہوئے رپورٹر نے لکھا ہے کہ غیر ملکیوں، میوچل فنڈز کی جانب سے سرمائے کے انخلا سے مذکورہ تیزی ایک موقع پر 784 پوائنٹس کی مندی میں تبدیل ہوگئی لیکن اختتامی لمحات میں دوبارہ خریداری سرگرمیاں بڑھنے سے مندی کی شدت میں کمی واقع ہوئی ۔ جس کے باعث بدھ کو تیسرے دن بھی پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں اتار چڑھاؤ کے بعد مندی کا تسلسل قائم رہا۔ مندی کے اس تسلسل  پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

حکومت کی معاشی پالیسیاں درست سمت میں ہوں تو ملکی معیشت کا پہیہ چلتا رہتا ہے لیکن اگر ان میں جھول ہو تو پھر اسٹاک ایکسچینج سمیت دیگر اشاریے معاشی نظام میں خرابی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ہم آئی ایم ایف کے پاس چلے تو گئے لیکن عوام کے لیے مہنگائی کا سونامی آگیا ہے۔ اس سونامی سے بچنے کے لیے حکومت کو معاشی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔

The post کراچی اسٹاک ایکسچینج میں مندی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2T78fgu
via IFTTT

کائنات میں بلیک ہول کا سب سے بڑا دھماکہ ریکارڈ ایکسپریس اردو

 واشنگٹن: امریکی ماہرینِ فلکیات انسانی معلومہ تاریخ میں سب سے بڑا دھماکہ نوٹ کیا ہے جو ایک بہت بڑے بلیک ہول سے نمودار ہوا ہے۔ سائنسدانوں نے مطابق یہ اوفی یوکس نامی کہکشانی جھرمٹ میں دریافت ہوا ہے جو ہماری زمین سے 39 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔

یہ دھماکہ اتنا ضخیم تھا کہ اس اس سے پیدا ہونے والے گرم گیسوں کے دائرے کے اندر ہماری ملکی وے کہکشاں جیسی 15 کہکشائیں سما سکتی ہیں۔

واشنگٹن میں واقع نیول ریسرچ لیبارٹری کی ماہرِ سائمونا گیاسنٹوشی کے مطابق تحقیق میں ناسا کی چندرا ایکسرے دوربین سے مدد لی گئی ہے۔ اس سے قبل جو دھماکہ دریافت ہوا تھا یہ اس سے بھی پانچ گنا بڑا ہے۔ دوسری جانب یورپی خلائی دوربین اور زمین پر لگی ریڈیائی دوربینوں نے بھی اس کی تصدیق اور تحقیق میں اہم کردارادا کیا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اوفی یوکس جھرمٹ کے عین قلب سے خارج ہورہا ہے جہاں بہت بڑی بڑی کہکشائیں موجود ہیں اور ان میں بہت بڑے بلیک ہول بھی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ بلیک ہول نہ صرف مادے کو اپنی جانب کھینچتے ہیں بلکہ توانائی اور مادے کی بوچھاڑ بھی خارج کرتے ہیں۔

یہ کوئی نئی دریافت نہیں بلکہ اس کی تصدیق ابھی ہوئی ہے۔ 2016 میں اوفی یوکس کہکشاں میں کہکشانی جھرمٹ کے کنارے غیرمعمولی خمیدہ دیکھے گئے تھے۔ اس پر ماہرین کا خیال تھا کہ غیرمعمولی توانائی کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔ اس کے بعد ماہرین نے دن رات تحقیق کی اور ڈیٹا کا جائزہ لیا۔ ماہرین کے مطابق سارا ڈیٹا ابتدائی مفروضے کی تصدیق کرتا ہے اور یہ ایک بہت بڑا بلیک ہول دھماکہ ہے۔

The post کائنات میں بلیک ہول کا سب سے بڑا دھماکہ ریکارڈ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Px5TVW
via IFTTT

پچیس برس سے روزانہ 5 لیٹر کولا مشروب پینے والا تُرک شہری ایکسپریس اردو

عثمانیہ: ترک شہری نے انکشاف کیا ہے کہ وہ گزشتہ 25 برس سے روزانہ پانچ لیٹر کولا مشروب پی رہا ہے اور اس کے علاوہ کچھ اور کھاتا پیتا نہیں۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق 35 برس کے اسماعیل اوتلو نے بتایا کہ وہ دس برس کی عمر سے روزانہ ایک خاص برانڈ کا کولا مشروب پیتا ہے۔ ابتدا میں یہ مقدار ایک سے دو لیٹر تھی جو بڑھ کر اب پانچ لیٹر تک پہنچ چکی ہے۔

اسماعیل صبح بیدار ہونے کے بعد ہی کولا مشروب پینا شروع کردیتا ہے اور پانی بھی نہیں پیتا۔ وہ ایک بیکری کا مالک ہے اور شام کے وقت ایک خاص طرح کی پیسٹری کے علاوہ کچھ اور نہیں کھا پاتا۔

اس  کا کہنا ہے کہ اسے کولامشروب کی لت لگ چکی ہے اور یہ سگریٹ نوشی سے بھی بدتر ہے۔ اسماعیل اپنے ملنے والوں کو بھی یہ مشروب پینے کی دعوت دیتا ہے اور اس کا ایک دوست بھی روزانہ ایک لیٹر کولا مشروب پینے کا عادی ہوچکا ہے۔

The post پچیس برس سے روزانہ 5 لیٹر کولا مشروب پینے والا تُرک شہری appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/32AGO1W
via IFTTT

شامی حکومت کے فضائی حملے میں 29 ترک فوجی شہید ایکسپریس اردو

ادلب: شامی حکومت کے فضائی حملے میں 29 ترک فوجی شہید ہو گئے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق شام کے شمال مغربی صوبہ ادلیب میں شامی حکومتی دستوں کے فضائی حملے میں کم از کم 29 ترک فوجی شہید ہو گئے جب کہ جنوب مشرقی صوبے ہاتے کے گورنر نے اپنے بیان میں کہا کہ ترک فوجیوں کی شہادتوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کے بعد تنازعہ میں اضافے کا بھی خطرہ ہے۔

واضح رہے کہ ترکی کی طرف سے حالیہ ہفتوں میں ہزاروں فوجیوں کو ادلیب بھیجے جانے کے بعد ایک ہی دن میں یہ شہادتوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ اسی دوران روس کی حمایت یافتہ شامی حکومت نے جنگ سے متاثرہ ملک کے آخری مخالف گڑھ پر قبضہ کرنے کیلیے کارروائی کی جو کہ 30 لاکھ سے زائد لوگوں کا شہر ہے۔

ادھر نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے بھی ایک بیان جاری کیا جس میں شامی حکومت اور روسی افواج کے اندھا دھند فضائی حملوں کی مذمت کی گئی ہے۔

قبل ازیں ترکی کے جنوب مشرقی صوبے ہاتے کے گورنر رحمی ڈوگن نے اعلان کیا کہ شامی حکومت کے اس حملے میں 22 فوجی ہلاک ہوئے تاہم حملے کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوان نے انقرہ میں ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں وزراء اور فوجی عہدیداروں نے شرکت کی جب کہ ترک وزیر خارجہ میلوت کاووسلو نے نیٹو کے اسٹولٹن برگ سے فون پر رابطہ بھی کیا۔

دوسری جانب ترک فوج شامی حکومتی اہداف پر توپ خانے سے جوابی کارروائی کررہی ہے اور اس حوالے سے ترک مواصلات کے ڈائریکٹر فرحتین التون نے کہا کہ شام کے تمام معروف اہداف کو ترکی کے ہوائی اور زمینی امدادی یونٹوں کے ذریعہ آتش زد کیا جارہا ہے۔

The post شامی حکومت کے فضائی حملے میں 29 ترک فوجی شہید appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2TkaLyQ
via IFTTT

شام کےعلاقےادلب میں فضائی حملہ، 29 ترک فوجی جاں بحق، 36 زخمی صدر رجب طیب اردوان کی زیر صدارت قومی سلامتی کا ہنگامی اجلاس جاری، وزراء اور فوجی حکام کی شرکت

پاکستان میں کورونا وائرس کے دونوں مریض خطرے سے باہر کورونا وائرس کے دونوں مریضوں کی حالت خطرے سے باہر ہے، اہل خانہ اور دوستوں کے ٹیسٹ بھی منفی آئے ہیں۔ معاون خصوصی برائے ... مزید

بارش برسانے والا سسٹم بلوچستان میں داخل چمن اور گردونواح میں گرج چمک کیساتھ بارش اور ژالہ باری

انسانی جسم پر ادرک کے جادوئی اثرات جسم میں جاکر یہ کیا اثرات مرتب کرتی ہے؟

بن کٹنگ کو غلط بالیں کرائی گئیں جس کی وجہ سے سکور پڑے، سعید اجمل

شائقین کرکٹ کا پی ایس ایل کے دوران سکیورٹی کے شاندار انتظامات پر پاک فوج اور اداروں کو زبردست خراج تحسین پیش

میچ کے دوران سٹیڈیم پاکستان زندھ باد، پاک فوج زندھ باد اور کشمیر کے حق میں نعروں سے گونجتا رہا

اسلام آباد یونایٹڈ اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے درمیان میچ میں پنڈی کرکٹ سٹیڈیم کھچا کھچ بھر گیا

دہلی پولیس کس کے حکم پر مسلمانوں کے خلاف ہندوانتہاپسندوں کی سرپرستی کررہی ہے؟ مودی پورے بھارت کو گجرات بنانا چاہتے ہیں‘فسادات پورے ملک میں پھیلتے نظر آرہے ہیں. تجزیہ ... مزید

موجودہ حکومت قومی احتساب بیورو کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے کوششیں کر رہی ہے، اٹارنی جنرل کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں ،بار کونسل کے لئے کام کرنے والے تمام وکلاء میرے دوست ... مزید

پاکستان میں کرونا وائرس کے دونوں مریضوں کی حالت خطرے سے باہر ہے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا ٹویٹ

پوپ فرانسس بھی مبینہ طور پر کورونا وائرس کا شکار ہوگئے حصص کی مارکیٹوں کو 3 کھرب ڈالر سے زائد کا نقصان

Wednesday, February 26, 2020

سعودی عرب میں عمرہ اور زیارتوں کے لیے داخلے پر پابندی عائد سعودی حکام نے کورونا وائرس پھیلنے کے خدشات کے حامل ممالک کے شہریوں کے سیاحتی ویزا پر بھی پابندی عائد کر دی

امریکہ میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے کیمپس پر فائرنگ سے 7 افراد ہلاک ملٹی نیشنل کمپنی مولسن کورز کے میلواکی کیمپس میں فائرنگ کے تبادلے کے دوران حملہ آور سمیت 7 افراد ہلاک ... مزید

مقبوضہ کشمیر میں بیسیوں نوجوان گرفتار ’’این آئی اے‘‘ کے بڈگام ، پلوامہ میں گھروں پر چھاپے

بھارت نے مقبوضہ کشمیرمیں خوف و ہراس کا ماحول قائم کر رکھا ہے، یوسف نقاش

محمد فاروق رحمانی کی بھارت میں مسلم کش فسادات کی مذمت

مقبوضہ کشمیر : صمد انقلابی کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا

مقبوضہ کشمیر :یاسین ملک ، شوکت بخشی ویڈیو کانفرسنگ کے ذریعے ٹاڈا عدالت میں پیش

بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ایک بڑی جیل میں تبدیل کر دیا ہے، بلال صدیقی

مقبوضہ کشمیر : ’’این آئی اے‘‘ کے ضلع بڈگام ، پلوامہ میں چھاپے

مقبوضہ کشمیر : بھارتی فورسز نے ضلع پلوامہ میں تلاشی کی کارروائیوں میں تیزی لائی،دو نوجوان گرفتار

کرونا وائرس ،کراچی میں شہریوں کے تحفظ کیلئے آغا خان، سول اور جناح ہسپتال میں آئسولیشن وارڈز قائم کر دیئے گئے ہیں ، وزیر اطلاعات سندھ

اشیائے خورد نوش میں ملاوٹ کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ،ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر

فروری کو پا ک فضائیہ نے ملک کی سر حدوں کا دفا ع کر کے دشمن سمیت پو ری دنیا کو پیغا م دے دیا تھا، عثما ن ڈا ر

نواز شریف وعدہ کر کے گئے اب واپس آ جائیں ،موجودہ حکومت نے کسی کے خلاف کیسز نہیں بنائے ،موثر خارجہ پالیسی کی بدولت تمام ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں پی ٹی آئی رہنما ... مزید

پاکستان میں توانائی وخدمات اور ای کامرس کے شعبوں میں بے پناہ صلاحیت ہے، پاکستان افغان امن عمل میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے، امریکی سرمایہ کار پاکستان میں تجارت اور سرمایہ ... مزید

بھارت، راجستھان میں شادی کی تقریب میں شرکت کیلیے جانے والی منی بس کو حادثہ، 24 افراد ہلاک، 5 شدید زخمی

ترکی میں داعش کے 9 دہشت گردگرفتار

انڈونیشیا کے مشرقی علاقے میں 5.9شدت کا زلزلہ

آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے وفد کی حکومتی ٹیم سے ملاقات

پاکستان میں توانائی وخدمات اور ای کامرس کے شعبوں میں بے پناہ صلاحیت ہے، پاکستان افغان امن عمل میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے، امریکی سرمایہ کار پاکستان میں تجارت اور سرمایہ ... مزید

پاکستان میں کرونا وائرس کے دو مریضوں کی تشخیص ہوئی ہے ،دونوں کا علاج جاری ہے عوام پریشان ہونے کی بجائے ذمہ دارانہ کردار ادا کریں ، حکومت نے وائرس کی روک تھام کیلئے موثر ... مزید

جکارتہ میں سیلاب سے 5 افراد ہلاک ، 3 لاپتہ

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگرعالمی تنظیمیں مظلوم کشمیریوں اور مسلمانوں کے خلاف بھارتی ظلم و جبرکو بے نقاب کر رہی ہیں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی نجی ٹی وی ... مزید

Tuesday, February 25, 2020

واہ نوبل کیمیکلزکے منافع میں تین ماہ کے دوران 9.68 فیصد اضافہ

لاکھ جعلی ریال برآمد، جعل ساز گرفتار

’’مضبوط اعصاب‘‘ والے مردوں میں خودکشی کا زیادہ رجحان ہوتا ہے، تحقیق ایکسپریس اردو

نیو یارک: مضبوط اعصاب کا مالک ہونا مردانگی کی دلیل ہے جس کےلیے ہمارے یہاں ’’مرد کو درد نہیں ہوتا‘‘ جیسے جملے بھی مشہور ہیں لیکن ایک حالیہ مطالعے میں انکشاف ہوا ہے کہ ’’مضبوط‘‘ ہونے کے دعوے کرنے والے مردوں میں خودکشی کا رجحان بھی اپنے کمزور ہونے کا اعتراف کرنے والے آدمیوں کے مقابلے میں تقریباً ڈھائی گنا زیادہ ہوتا ہے۔

یہ تحقیق گریجویٹ اسکول آف سوشل سروسز، فورڈہام یونیورسٹی، نیویارک سٹی میں کی گئی جس میں بیس سال تک جاری رہنے والے ایک مطالعے میں 20,700 افراد سے حاصل شدہ معلومات سے استفادہ کیا گیا۔ 1995 میں یہ مطالعہ ایسے امریکی لڑکے اور لڑکیوں پر شروع کیا گیا جو اُس وقت 13 سے 17 سال تک کے، یعنی ’’نوبالغ‘‘ تھے۔

2014 تک جاری رہنے والے اس مطالعے میں ان تمام افراد سے ان کی عادت، مزاج، رہن سہن، خاندانی پس منظر، ارد گرد کے ماحول، چلنے پھرنے اور پڑھنے لکھنے سمیت، زندگی کے تقریباً ہر پہلو سے متعلق سوالنامے بھروائے جاتے رہے تاکہ ان کی جسمانی اور نفسیاتی صحت پر نظر رکھی جاسکے۔

ان تمام معلومات کا تجزیہ کرنے پر انکشاف ہوا کہ مطالعے میں حصہ لینے والے 22 لوگ اس دوران خودکشی کرچکے تھے جن میں سے 21 مرد تھے۔

جب مزید کھنگالا گیا تو یہ بھی معلوم ہوا کہ خودکشی کرنے والے زیادہ تر لوگ وہ تھے جنہوں نے مطالعے کے دوران اپنے بارے میں کہا تھا کہ وہ نہیں روتے، جذباتی نہیں ہوتے، اپنے موڈ کی غلامی نہیں کرتے، جسمانی طور پر خود کو مضبوط اور صحت مند رکھتے ہیں، اور ’’خطروں کے کھلاڑی‘‘ ہیں۔ دوسرے الفاظ میں وہ ’’مضبوط اعصاب‘‘ والے ’’بہادر مرد‘‘ ہونے کے دعویدار تھے۔

ان کے برعکس وہ لوگ تھے جنہوں نے خود کو کمزور قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ وہ جلد ہی جذباتی ہوجاتے ہیں، رو پڑتے ہیں اور مشکل کا احساس کرتے ہی فوراً کسی نہ کسی سے مدد مانگنے پہنچ جاتے ہیں۔

جب ان ’’مضبوط‘‘ اور ’’کمزور‘‘ افراد کا آپس میں موازنہ کیا گیا تو پتا چلا کہ کمزور لوگوں کی نسبت مضبوط ’’مردوں‘‘ میں خودکشی کا رجحان 240 فیصد (تقریباً ڈھائی گنا) زیادہ تھا۔

ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مطالعے کے سربراہ ڈینیئل کولمین کا کہنا ہے کہ دنیا میں ’’مردانگی‘‘ پر فخر کے نتیجے میں ایسے لوگ اپنی حقیقی جذباتی کیفیت چھپانے کے عادی ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے نفسیاتی الجھنیں ان کے اندر ہی اندر پروان چڑھتی رہتی ہیں۔ نتیجتاً یہ لوگ جذباتی طور پر کھوکھلے ہوجاتے ہیں اور دوسروں کے سامنے اپنا حالِ دل بیان کرنے کے بجائے مایوسی کی دلدل میں اترتے چلے جاتے ہیں؛ اور بالآخر خودکشی کرلیتے ہیں۔

اس مطالعے کی تفصیلات تحقیقی مجلے ’’جاما سائیکیاٹری‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔

The post ’’مضبوط اعصاب‘‘ والے مردوں میں خودکشی کا زیادہ رجحان ہوتا ہے، تحقیق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2w5MODs
via IFTTT

ہمیں بطور قوم پی ایس ایل کے ہر گانے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، علی عظمت ایکسپریس اردو

کراچی: پی ایس ایل سیزن 5 کا آفیشل گانا ’’تیار ہیں‘‘ گانے والے گلوکار علی عظمت نے کہا ہے کہ ہمیں بطور قوم پی ایس ایل کے ہر گانے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے۔

پی ایس ایل سیزن 5 کا آفیشل گانا ریلیز ہوتے ہی لوگوں نے گانے کو سوشل میڈیا پر مسترد کردیا تھا اور یہ معاملہ اس وقت تنازع کی صورت اختیار کرگیا تھا جب گلوکارعلی عظمت نے ایک پروگرام میں الزام لگایا کہ علی ظفر نے پیسے دے کر بلاگرز خریدے اور جان بوجھ کر گانے پر تنقید کروائی۔

یہ بھی پڑھیں:  پی ایس ایل کا نیا گانا سن کر لوگوں کو علی ظفر کی یادستانے لگی

اس معاملے کو مزید ہوا جب ملی جب علی عظمت کے الزامات کے جواب میں علی ظفر نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا اور طنزیہ انداز میں کہا کہ اگر آپ کا گانا لوگ پسند نہیں کررہے تو اس کا ذمہ دار میں ہوں۔ بعد ازاں لوگوں کے پرزور اصرار پرعلی ظفر نے خود پی ایس ایل کا گانا بنانے کا اعلان کیا جس کے وہ اب تک دو ٹیزر ریلیز کرچکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: علی عظمت کی تنقید

علی عظمت نے گزشتہ روز پی ایس ایل کے گانے پر ہونے والے تنازع پر لب کشائی کرتے ہوئے کہا پی ایس ایل ہر سال ایک ترانہ جاری کرتا ہے جس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کا موازنہ پچھلے گانے سے کیا جائے۔ ہر سال نیا گانا نئے ایونٹ کے لیے بنتا ہے۔ اس موقع کے لیے بننے والا گانا صرف جشن میں اضافہ کرتا ہے اور ہمیں بطور قوم پی ایس ایل کے ہر گانے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے۔

یہ بھی پڑھیں: علی عظمت  کی عزت کروں گا

علی عظمت نے کہا ہم پی ایس ایل کے گانے میں دکھایا جانے والا اتحاد کا پیغام بھول کر اس پر زیادہ غور کرنے لگتے ہیں کہ گانا کس نے گایا ہے۔ ہمیں ہر فنکار کے گانے کو خوش آمدید کہنا چاہیئے جو گانے کے ذریعے کرکٹ اورپاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے۔ پاکستان ہے ہمارا، پاکستان ہے تمہارا، پاکستان زندہ باد۔‘‘

یہ بھی پڑھیں:  ’’بھائی آرہا ہے‘‘

واضح رہے کہ علی ظفر کی جانب سے جاری کیے جانے والے پی ایس ایل کے نئے گانے کے ٹیزر لوگوں میں اتنے مقبول ہوئے کہ پورے سوشل میڈیا پر صرف علی ظفر اور ان کے ٹیزر ہی چھائے ہوئے ہیں اور لوگ بے صبری سے پورے گانے کا انتظار کررہے ہیں۔

The post ہمیں بطور قوم پی ایس ایل کے ہر گانے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، علی عظمت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2HWKaCF
via IFTTT