Friday, April 30, 2021

یہ ہے شمالی امریکا کا ’مشین گن پرندہ‘ ایکسپریس اردو

کیوبا: فطرت کے کارخانے میں حیرت انگیز پرندے موجود ہے اور ایسا ہی ایک پرندہ کھٹ بڑھئی ہے جو اپنی چونچ سے درختوں میں سوراخ کرتا ہے۔ لیکن وڈ پیکر کی ایک قسم ایسی بھی ہے جسے اپنی خوفناک آواز کی بنا پر مشین گن وڈپیکر بھی کہا جاسکتا ہے۔

انہیں ناردرن فلِکرز کہا جاتا ہے جو وسطی و شمالی امریکہ، کیوبا اور کیمن جزائر میں عام پائے جاتےہیں۔ انہیں اپنی چونچ کسی دھاتی شے سے ٹکرانے کا جنون ہوتا ہے اور اسی بنا پر وہ جب تیزی سے چونچ مارتے ہیں تو مشین گن جیسی آواز پیدا ہوتی ہے جو دور دور تک سنائی دیتی ہے۔

اس پرندے کی لمبائی سات سے پندرہ سینٹی میٹر تک ہوتی ہے۔ موسمِ بہار سے موسمِ گرما کے دوران بھوری چونچ والا یہ خوبصورت پرندہ بہت شور کرتا ہے۔ اس کے چونچ مارنے کے عمل کو ڈرمنگ کہا جاتا ہے جس سے تیزرفتار فائرنگ کا گمان ہوتا ہے۔ لیکن یہ پرندہ دھات پر چونچ مارنا پسند کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس طرح سے وہ اپنے علاقے کا اعلان کرتا ہے۔ لیکن انسانی کان میں یہ شور کسی مشین گن کی طرح محسوس ہوتا ہے اسی بنا پر اس وڈ پیکر کو مشین گن پرندہ بھی کہا گیا ہے۔

دوسری جانب یہ آواز نر وڈ پیکر خارج کرتا ہے تاکہ وہ مادہ کو اپنی جانب راغب کرسکے۔ اس کے لیے وہ ایسی دھاتی سطح کا انتخاب کرتا ہے جہاں گونج پیدا ہوسکے اور آواز دور تک جاسکے۔ ایک سیکنڈ میں یہ 25 مرتبہ اپنی چونچ مارتا ہے اور عین اسی رفتار سے مشین گن بھی چلتی ہے۔

تاہم یہ پرندے اپنی مضبوط چونچ سے گھروں کی شہتیروں، ڈش اینٹینا ، چمنی کے دھاتی ڈھکنوں اور دیگر اشیا کو متاثر بھی کرتے ہیں۔ بسا اوقات اس کا شور بھی ناقابلِ برداشت ہوتا ہے جس کی بنا پر انہیں بھگانے کے کئی طریقے اختیار کئے جارہے ہیں۔

The post یہ ہے شمالی امریکا کا ’مشین گن پرندہ‘ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2QCGbmX
via IFTTT

یوم مزدور ; وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے مزدور کی کم از کم اُجرت بڑھا دی ... صوبائی حکومت نے محنت کشوں کو ریلیف دیتے ہوئے ورکرز کی کم از کم اجرت 20 ہزار روپے کرنے ... مزید

کورونا بے قابو ہو گیا ، مزید 146 اموات ہو گئیں ... گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں کورونا کے 4696 نئے مریض رجسٹرڈ ہوئے

یو اے ای کی پہلی اماراتی خاتون مکینک کو زندگی کا بہت بڑا سرپرائز مل گیا ... ابوظبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید نے اپنی شناخت بتائے بغیر ھُدیٰ المطروشی کو فون کیا،اپنی گاڑی ... مزید

سعودی شہرجدہ آج صبح بڑی تباہی سے بچ گیا ... حوثی ملیشیا کی جانب سے جدہ کی جانب میزائل داغا گیا، جسے ہدف پر پہنچے سے تھوڑی دیر پہلے تباہ کر دیا گیا

جمہوریت کے لیے سوال ایکسپریس اردو

کورونا بحران نے درحقیقت انسانی تہذیب اور نظام حیات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، مضبوط ترین جمہوریتیں سر توڑ کوششوں میں ہیں کہ اس وبا سے جان چھوٹ جائے، بھارت میں کورونا بحران سنگین شکل اختیار کر چکا ہے۔

امریکی تحقیقاتی رپورٹ ہولناک ہلاکتوں کی دل دہلا دینے والی قیاس آرائیوں سے بھری ہوئی ہے، میڈیا کے مطابق اگست تک یومیہ اٹھائیس ہزار ہلاکتیں ہونے کے انکشاف نے اسپتالوں پر دباؤ بڑھا دیا ہے، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں سب نے دیکھا کہ بھارت میں ایک بزرگ شہری سائیکل پر اپنی بیوی کی میت لیے دربدر گھوم رہا ہے، بڑی بے بسی کا عالم ہے۔

نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول آپریشن سینٹر کے مطابق 8 سے 16مئی تک گھر رہو، محفوظ رہو، کی حکمت عملی پر عملدرآمد کیا جائے گا، چاند رات بازاروں پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے، این سی او سی کے مطابق چاند رات کو مہندی، جیولری اور کپڑوں کے اسٹالز پر پابندی ہو گی، یوم علی، شب قدر، اعتکاف، جمعۃ الوداع کے لیے گائیڈ لائنز پر عملدرآمد یکم مئی سے ہوگا، تفریحی مقامات، ان کے اردگرد موجود ہوٹل، پبلک پارکس اور شاپنگ مالز بھی 8سے 16مئی تک بند رہیں گے۔

اس کے ساتھ ہی سیاحتی مقامات پر واقع ریزورٹس، تفریحی مقامات، پبلک پارکس، شاپنگ مالز، ہوٹل اور ریستوران بند رہیں گے، تاہم ضروری خدمات جن میں گروسری اسٹورز، میڈیکل اسٹورز، ویکسی نیشن سینٹرز، سبزیوں، فروٹس کی دکانیں، گوشت کی دکانیں، بیکریاں، پٹرول پمپس، ٹیک اوے اور ای کامرس (ہوم ڈلیوری) کے ساتھ یوٹیلیٹی سروسز جن میں بجلی، نیچرل گیس، انٹر نیٹ، سیلولر نیٹ ورکس/ٹیلی کام، کال سینٹرز اور میڈیا ہاؤسز شامل ہیں کھلے رہیں گے، سیاحتی مقامات، پکنک مقامات، پبلک پارکس، شاپنگ مالز، تمام ہوٹل اور ریسٹورنٹس جو تقریحی مقامات کے قریب ہیں بند رہیں گے۔

سیاحتی مقامات کی جانب جانے والے راستوں کو بھی بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، گلگت بلتستان اور آزاد جموں کشمیر کے مقامی افراد کو گھر واپس جانے کے لیے سفر کی اجازت ہوگی اور70 فیصد مسافروں کے ساتھ 7 مئی تک مسافروں کو لے جانے کے لیے اضافی ٹرینیں چلائی جائیں گی۔

عید پر بجلی کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنائی جائے گی، الیکٹرانک میڈیا کا عید کی چھٹیوں میں تفریحی پروگرام، فلمیں اور ڈرامے نشر کرنے کا مقصد لوگوں کو گھروں تک محدود رکھنا ہے، عید کی چھٹیوں کے دوران بین الصوبائی اور شہروں کے درمیان چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی رہے گی جب کہ نجی گاڑیوں، رکشوں اور ٹیکسیوں کو 50 فیصد سواریوں کے ساتھ اجازت ہوگی۔ این سی او سی اجلاس میں عالمی وبا کے پھیلاؤ میں اضافے کے پیش نظر5  تا20  مئی تک پاکستان میں آنیوالی پروازوں کو محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ان پابندیوں کے حوالے سے18  مئی2021  کو دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔ اس سے متعلق تفصیلی ہدایات سول ایوی ایشن کے ذریعے جاری کی جائیں گی۔ 10 مئی سے15 مئی تک عید الفطر کی تعطیلات کا اعلان کیا گیا ہے جس کا مقصد ملکی سطح پر نقل و حمل کو محدود کرنا ہے، وفاقی ملازمین کے لیے 8 مئی بروز ہفتہ سے 16 مئی اتوار تک 9 چھٹیاں بنیں گی جب کہ صوبائی ملازمین کے لیے عید الفطر کی8 چھٹیاں ہو جائیں گی۔

وفاقی وزیر اسد عمر کی زیر صدارت این سی او سی اجلاس میں ملک میں کورونا وبا کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ این سی او سی نے 40 سے 49 سالہ شہریوں کی کورونا ویکسینیشن 3 مئی سے شروع کرنیکا فیصلہ کیا۔

وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے ٹویٹ میں کہا کورونا ویکسین کا دوسرا کامیاب دن رہا، ایک لاکھ سے زائد ویکسی نیشن کی گئی، ویکسین کے لیے رجسٹریشن کی رفتار حوصلہ افزا ہے۔ پی آئی اے کے تین جہاز چین سے 10 لاکھ کورونا ویکسین لے کر پاکستان پہنچ گئے۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی قومی صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے ٹویٹ میں کہا کورونا سے بچاؤ کی ویکسین کی فراہمی کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے، جنوری میں5  لاکھ خوراکیں، فروری میں7 لاکھ، مارچ میں19لاکھ خوراکیں مل چکیں جب کہ مئی میں67لاکھ اور جون میں63 لاکھ خوراکیں ملنے کی توقع ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ محض تحفتاً دی گئی ویکسین پر انحصار کا تاثر گمراہ کن ہے۔ اسلام آباد میں گزشتہ15روز کے دوران مزید ایک ہزاربچے کورونا سے متاثر ہو چکے، ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کورونا سے بڑوں کے ساتھ بچے بھی زیادہ تعداد میں متاثر ہو رہے ہیں، ماں باپ ماسک کا استعمال کریں کیونکہ ملک بھر میں کورونا وبا بے قابو ہوگئی ہے، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ مکمل لاک ڈاؤن سے بچنا ہے تو ایس او پیز پر عمل کرنا ہوگا، غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق فیصل سلطان نے بتایا کہ ویکسین سائنوفارم، کینسینوبیو اور سائنو ویک سے منگوائی گئی ہیں۔

اس کے علاوہ غریب ممالک کے لیے کوویکس پروگرام کے تحت تقریباً 24 لاکھ خوراکیں بھی پاکستان کو حاصل ہوں گی، فائزر کے سی ای او البرٹ بورلا کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے علاج کے لیے بنائی جانے والی گولی رواں برس کے اختتام تک تیار کر لی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹیبلٹ گیم چینجر ثابت ہوگی۔ اس حوالے سے کلینیکل ٹرائلز اور ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔ البرٹ بورلا کا کہنا تھا کہ یہ ٹیبلٹ سامنے آنے کے بعد لوگوں کو کورونا وائرس کے علاج کے لیے اسپتال جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔

بھارت میں کورونا کا بحران صدی کا سب سے سنگین بحران قرار دیا گیا ہے، عالمی امداد مسلسل بھارت تک پہنچائی جا رہی ہے، پاکستان نے انسانی ہمدردی کے حوالے سے بھارت کو ہر ممکن مدد مہیا کرنے کا یقین دلایا ہے، فیصل ایدھی نے امداد دینے کی پیش کش کی ہے۔

لیکن سیاسی سیاق وسباق میں ملکی سیاست بے سمتی، کشیدگی اور الزام تراشی کے بہیمانہ دورانیہ سے گزر رہی ہے، سیاسی درجہ حرارت تھمنے کا نام نہیں لے رہا، کراچی کے بلدیہ ٹاؤن میں الیکشن پراسس تنازع کا شکار ہوا، پہلے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار مفتاح اسماعیل کی جیت کا امکان ظاہر کیا گیا پھر غیر حتمی سرکاری نتائج میں پیپلز پارٹی کے امیدوار قادر خان مندوخیل کی کامیابی کا اعلان ہوا، مسلم لیگی رہنما نے عدلیہ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا، یوں میٹروپولیٹن کراچی کے ایک اہم انتخابی دنگل میں بدمزگی اور خلفشار نے ملکی سیاست میں قیاس آرائیوں، اندیشوں اور جمہوری ہم آہنگی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، بالائی جمہوری اور آئینی حلقوں میں بھی تشویش بڑھ رہی ہے۔

پٹرول کی قیمتیں بڑھنے کی خبریں آ رہی ہیں، کراچی میں اسٹریٹ کرائم میں تیزی آئی ہے اس پر شہریوں میں خوف و ہراس بڑھ گیا ہے، ادھر ہر عمر کے پیشہ ور بھکاریوں کے قافلے کراچی پہنچ رہے ہیں، بیروزگاری، غربت و مہنگائی نے ملکی معیشت میں استحکام اور سماجی آسودگی کے خوابوں کو گہنا دیا ہے، اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق کورونا سے متاثرہ خواتین کو آٹھ سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے، مختلف عالمی سروے رپورٹوں میں کاروباری، تجارتی سرگرمیوں اور اجرتی مزدوروں کے حالات کی صورتحال ناگفتہ بہ بتائی گئی، ایک رپورٹ کے مطابق رمضان میں اجرتی مزدوروں کو شدید مصائب کا سامنا ہے، سماجی تنظیموں کی ویب سائٹس پر تنگدستی کی اندوہ ناک خبریں دل گرفتہ کر دیتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کورونا نے بیروزگاری اور مہنگائی میں لوگوں کے دل چھلنی کر دیے ہیں، لیکن سب سے افسوس ناک صورتحال سیاستدانوں اور ملک میں طرز حکمرانی کی ہے، اس تناظر میں سیاسی مبصرین نے امریکی صدر جوبائیڈن کے ایک بیان کا حوالہ دیا ہے جس میں بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکا از سر نو ابھر رہا ہے، امریکا پرواز کے لیے تیار ہے، ہم پھر سے کام کر رہے ہیں، خواب دیکھ رہے، پھر سے دریافت کر رہے ہیں اور پھر دنیا کی قیادت کر رہے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔

کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے پہلا خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ افغانستان سے فوج واپس بلانے کا یہی وقت ہے، ہمیں پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد بحال کرنا ہے۔ ہمارا مقصد افغانستان میں نسلوں تک لڑنا نہیں تھا بلکہ جنھوں نے 9/11 کو حملے کیے انھیں سزا دینا تھا، ہم نے دہشت گردی کے خطرے کو ختم کیا اور اب 20 سال بعد افواج کو گھر بلانے کا وقت آ گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ چین کے ساتھ تصادم اور روس سے کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتے۔

چینی صدر کو بتا چکا ہوں کہ ہم معیشت کے میدان میں مقابلہ کے لیے تیار ہیں تاہم امریکی مفادات کا ہر صورت میں دفاع کیا جائے گا، اس کے علاوہ بحر الکاہل میں امریکی افواج موجود رہیں گی، امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ہم صدی کے انتہائی سخت بحران سے گزر رہے ہیں۔

16 برس سے بڑی عمر کا ہر امریکی اس وقت ویکسین لگوا سکتا ہے، انھوں نے کہاکہ خانہ جنگی کے بعد ہماری جمہوریت پر بدترین حملہ ہوا، جمہوریت پر ہونے والے حملوں پر قابو پا لیں گے۔ بائیڈن نے اپنی صدارت کے سو دن مکمل ہونے کے حوالے سے حکومت کی ابتدا جمہوری اسپرٹ سے کی، وہ مشکلات کے باوجود مخالفین کے پاس گئے، ان سے مدد کی درخواست کی، ان میں ریپبلیکنز، کانگریس مین اور سینیٹرز شامل تھے، ٹرمپ کی دست درازی فراموش کی، انھوں نے یہ روایت بھی قائم کی کہ کانگریس کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے دو خواتین کی مشترکہ صدارت میں اجلاس سے خطاب کیا، واضح رہے ایوان نمایندگان کی نینسی پیلوسی اور سینیٹ کے اجلاس کی صدر ’نائب صدر‘ کملا ہیرس کے اس مشترکہ اجلاس کا منظر تاریخ ساز تھا۔

کاش ایسی دور اندیشی، بصیرت، جذبہ، تدبر اور وژن ہمارے رہنماؤں، منتخب نمایندوں میں پیدا ہو جو اپنے جوش انتقام اور برہمی کو جمہوریت کی طاقت میں بدل سکیں، پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کو آسودگی، معاشی طمانیت اور مستحکم پاکستان دیں، عوام بھی ان کے جوش قیادت کے ثمرات سے مستفید ہوں، ملک سے مہنگائی، غربت اور بیروزگاری ختم ہو۔ کورونا دفن ہو اور سیاست کی نئی صبح اہل وطن کو نصیب ہو، یہ کچھ ایسی فرمائش نہیں جو قبول نہیں ہو سکتی مگر اس کے لیے سیاسی لیڈر شپ سے قوم کا بچہ بچہ نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز مانگتا ہے۔

The post جمہوریت کے لیے سوال appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3taIA5n
via IFTTT

ملک میں کورونا وبا نے مزید 146 افراد کی جانیں لے لیں، 4696 نئے کیسز رپورٹ ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: ملک میں کورونا کی قاتل وبا نے مزید 146 افراد کی جان لے لی ہے جب کہ 4 ہزار 696 کیسز سامنے آئے ہیں۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ روز ملک بھر میں کورونا کی تشخیص کے لیے مجموعی طور پر 48740 ٹیسٹ کیے گئے۔  گزشتہ روز ملک میں مزید 4696 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔ اس طرح ملک میں کورونا کے مجموعی مصدقہ کیسز کی تعداد 8 لاکھ 25 ہزار 519 ہو گئی ہے۔

کورونا کی حالیہ لہر میں پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہے، جہاں اس وبا کے ظاہر ہونے سے اب تک کورونا کے 3 لاکھ 3 ہزار 182 مصدقہ کیسز سامنے آئے ہیں۔ سندھ میں 2 لاکھ 83 ہزار 560، خیبر پختونخوا ایک لاکھ 18 ہزار 413، بلوچستان 22 ہزار 369، اسلام آباد میں 75 ہزار 498، آزاد کشمیر 17 ہزار 187 اور گلگت بلتستان میں کوویڈ 19 کے مصدقہ کیسز کی تعداد 5 ہزار 310 ہے۔

گزشتہ روز ملک میں کورونا کے مزید 5544 مریضوں سے اس وبا کو شکست دے دی ہے، اس طرح اس اب تک کورونا کی وبا سے صحتیاب ہونے والے مصدقہ مریضوں کی تعداد 7 لاکھ 17 ہزار 9 ہوگئی ہے۔

کورونا نے ملک میں مزید 146 مصدقہ مریضوں کی جان لے ہے، جس کے ملک میں اس وبا سے لقمہ اجل بننے والوں کی مصدقہ تعداد 17 ہزار 957 ہوگئی ہے۔

کورونا سے سب سے زیادہ اموات پنجاب میں ہوئی ہیں جہاں 8 ہزار 500 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، اس کے علاوہ سندھ میں 4 ہزار 645، خیبر پختونخوا 3 ہزار 310، اسلام آباد 683، گلگت بلتستان 107، بلوچستان میں 236 اور آزاد کشمیر میں 476 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔

ملک میں اس وقت کورونا کے مصدقہ فعال مریضوں کی تعداد 90 ہزار 553 ہے، جن میں سے 5490 مریضوں کی حالت تشویشناک ہے، ملک بھر کے مختلف اسپتالوں میں کورونا کے 671 مریض وینٹی لیٹرز پر ہیں۔ مردان میں مختص 80 فیصد وینٹی لیٹرز پر کورونا مریض ہیں، اس کے علاوہ ملتان 76 فیصد، لاہور میں 69 فیصد، بہاولپور 67 وینٹیلیٹرز پر کورونا مریض زیر علاج ہیں،پشاور کے 72 ، صوابی 63 ،سوات 61 فیصد آکسیجن بیڈز پر کورونا مریض ہیں۔

کورونا وائرس اوراحتیاطی تدابیر

کورونا وائرس کے خلاف یہ احتیاطی تدابیراختیارکرنے سے اس وبا کے خلاف جنگ جیتنا آسان ہوسکتا ہے۔ صبح کا کچھ وقت دھوپ میں گزارنا چاہیے، کمروں کو بند کرکے نہ بیٹھیں بلکہ دروازے کھڑکیاں کھول دیں اور ہلکی دھوپ کو کمروں میں آنے دیں۔ بند کمروں میں اے سی چلاکربیٹھنے کے بجائے پنکھے کی ہوا میں بیٹھیں۔

سورج کی شعاعوں میں موجود یو وی شعاعیں وائرس کی بیرونی ساخت پر ابھرے ہوئے ہوئے پروٹین کو متاثر کرتی ہیں اور وائرس کو کمزور کردیتی ہیں۔ درجہ حرارت یا گرمی کے زیادہ ہونے سے وائرس پرکوئی اثرنہیں ہوتا لیکن یو وی شعاعوں کے زیادہ پڑنے سے وائرس کمزور ہوجاتا ہے۔

پانی گرم کرکے تھرماس میں رکھ لیں اورہرایک گھنٹے بعد آدھا کپ نیم گرم پانی نوش کریں۔ وائرس سب سے پہلے گلے میں انفیکشن کرتا ہے اوروہاں سے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتا ہے، گرم پانی کے استعمال سے وائرس گلے سے معدے میں چلا جاتا ہے، جہاں وائرس ناکارہ ہوجاتا ہے۔

The post ملک میں کورونا وبا نے مزید 146 افراد کی جانیں لے لیں، 4696 نئے کیسز رپورٹ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2R9cqKd
via IFTTT

محنت کش فیصلہ کن معرکے کی جانب گام زن ایکسپریس اردو

 کورونا وبا نے سرمایہ داری کے بحران کو شدید تر کر دیا ہے اور اس کی بے حسی اور شقی القلبی کو ایک بار پھر عیاں کیا ہے۔

وبائی عفریت نے پیداواری عمل کو بڑی طرح متاثر کیا ہے جس سے روزگار کے ذرائع سکڑ کر رہ گئے ہیں۔ سماج کے دولت مند حصوں خصوصاً پیداوار کے منبع پر قابض گروہوں، ان کے زیرانتظام اداروں اور ریاستوں نے اس ناگہانی صورت حال میں جمع شدہ دولت کو نوع انسانی کی بقا کے لیے منصفانہ بنیادوں پر استعمال کرنے سے یکسر انکار کر رہے ہیں۔

آج اکیسویں صدی میں بھی صحت اور علاج جیسی بنیادی انسانی حق کا حصول دولت اور سرحدوں میں قید ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک سے لے کر غریب ممالک کی ریاستیں وبا سے نبردآزما ہونے کے لیے صحت کا موثر نظام فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں جس کے نتیجے میں لاکھوں معصوم انسان موت کے منہ میں جاچکے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ صحت سے متعلق موجودہ بین الاقوامی اور قومی طرز عمل نے یہ حقیقی خوف پیدا کر دیا ہے کہ مستقبل قریب میں اسی نوعیت کے وبائی خطرات میں کہیں نوع انسانی ہی اپنا وجود نہ کھو بیٹھے۔

سرمایہ دار ممالک وبا سے بچاؤ کی ویکسین کو انٹیلکچوئیل پراپرٹی حقوق کی آڑ میں منافع کمانے کے لیے استعمال کر تے ہوئے انسانی زندگی پر منافع کو ترجیح دے رہے ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ اخلاقیات کا ایک اور قبیح اظہار ہے جس کے خلاف آج سے 135 برس پہلے شکاگو کی “ھے مارکیٹ” میں مزدوروں نے علم مزاحمت بلند کیا تھا۔ وقت اور حالات ثابت کر رہے ہیں کہ نہ تو سرمایہ کا چلن اور اس پر استوار انسان دشمن سوچ بدلی ہے اور نہ ہی اس کو چیلینج کرنے کی مزدور طبقہ کی خو اور ریت بدلی ہے ۔ ہر دور میں ہر بار شکاگو کا نیا معرکہ جنم لیتا رہا ہے اور لیتا رہے گا۔

آج دنیا بھر میں معاشی بحران کے نتیجہ میں سیاسی و سماجی بحران ہر لحظہ شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے اور پاکستان کی بھی اس سے مستثنا نہیں۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی صورت حال نہایت ہی دگرگوں ہے کہ یہاں یہ بحران دوآتشہ ہے۔ ایک آئی ایم ایف کے معاہدہ کا زہریلا وار اور دوسرا کرونا وبا کا تسلسل سے حملہ۔ پہلی کرونا لہر سے پہلے ہی موجودہ حکومت کے آئی ایم ایف سے ملکی تاریخ کے بدترین معاہدے نے عام محنت کش کی زندگی کو اجیرن کر دیا تھا کہ رہی سہی کسر کرونا نے پوری کر دی۔ جہاں معاہدہ نے معاشی ابتری کے خوف میں مبتلا کر دیا تو وہاں وبا نے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے کا خوف مسلط کر دیا۔

حکومت کے ایسٹ انڈیا نما مالیاتی ادارے سے معاہدے نے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے جب کہ کورونا وبا نے سارے پیداواری عمل کو ہی وینٹی لیٹر پر لے جا لٹایا۔ معاہدوں کے نتیجہ میں نہ صرف بنیادی ضروریات زندگی پر ریاستی سبسڈی واپس لے لی گئی ہے بل کہ براہ راست ٹیکسوں کا بھی بوجھ عوام پر لاد دیا گیا ہے۔ اسی معاہدے کے تحت ملکی کرنسی کی قدر میں پینتیس فی صد کمی کی وجہ سے عوام کی حقیقی اجرتیں اور آمد نصف ہو کر رہ گئیں۔

اشیائے خورونوش، ادویات، بجلی، گیس ، ٹرانس پورٹ، صحت اور تعلیم پر اٹھنے والے اخراجات میں چالیس سے تین سو فی صد اضافہ نے ان ضروریات زندگی کا حصول محنت کشوں کے لیے مشکل ترین بنا دیا ہے۔ اس پر افتاد یہ کہ کورونا نے روزگار کے رہے سہے مواقع بھی ختم کر دیے ہیں۔ کورونا سے بچاؤ کے لیے اقدامات اور حکومت کے احتیاطی احکامات کی آڑ میں مزدور کو دھڑا دھڑ ملازمتوں سے برخاست کیا گیا اور حکومت خاموش تماشائی بنی رہی۔ ایک کروڑ اسی لاکھ سے زائد محنت کش مکمل طور یا پھر جزوی طور پر روزگار سے محروم کیے گئے۔ اب یہ محسوس ہو رہا ہے کہ وبا کی نئی لہر اور مالیاتی ادارے سے کئے جانے والے معاہدے کے نتیجے میں یہ بیروزگاری مزید بڑھے گی۔

اس بحرانی کیفیت میں ریاست شہریوں کو ہنگامی معاشی امداد فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی اور اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی بجائے مجرمانہ بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کروڑوں انسانوں کو معاشی بحران اور وبا کے عفریت کے سامنے بے یارومدگار چھوڑ دیا۔ ریاست نے طاقت ور طبقات کے لیے زبردست مراعات کا اعلان کیا جس سے اس کی ترجیحات کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

ملکی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین اور بین الاقوامی ادارے اس امر کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ گزرے اور آنے والے برسوں میں خاطر خواہ نمو کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ جس رفتار سے آبادی بڑھ رہے اس نسبت سے کم از کم 5 فی صد کی شرح سے معیشت میں بڑھوتری ضروری ہے جو موجودہ صورت حال اور حکومتی پالیسی کی بنا پر ناممکن لگتی ہے۔

ایک ایسی معیشت جو سال بھر میں چالیس ارب ڈالرز (جس میں ایکس پورٹ سے بیس ارب ڈالرز اور تارکین وطن کے بھیجے بیس ارب ڈالرز شامل ہیں) کا زرمبادلہ کمائے اور اس کا سالانہ امپورٹ بل ساٹھ ارب ڈالرز سے زائد کا ہوں اور اسے ہر سال دس سے پندرہ ارب ڈالرز غیرملکی قرضوں کی قسط کی ادائیگی کے لیے بھی درکار ہوں تو وہ کیوں کر ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے۔

ایسے میں اگر ایک بیمار اور لاغر معیشت کا شکار معاشرہ اپنی پہلی ترجیح اسلحہ، سیکورٹی اور حکم رانوں کی مراعات ہی کو قرار دے تو پھر تباہی اور بربادی اس کا مقدر ٹھہرتا ہے اور ایسا ہی ہوتا نظر رہا ہے۔ ایسا ملک جس کی نصف سے زائد آبادی مفلسی کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہو، جس کے ڈیڑھ کروڑ سے زائد بچے اسکول جانے سے محروم ہوں، نوے فی صد سے زائد شہریوں کے لیے صاف پانی کا حصول ناممکن ہو، جس کا شمار انسانی حقوق اور ترقی کے انڈیکس کی فہرست میں پست ترین ہو لیکن وہ اسلحے کی خریداری میں ایشیا پیسفک کے ممالک میں سر فہرست ہو اور اس کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے کرنے والے دس ممالک میں ہو تو پھر حکم رانوں کی سوچ پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔

یہ وہ سوچ ہے جس کی وجہ سے پاکستان خطہ میں پھیلی بدامنی و انتشار کا منبع گردانا جاتا ہے اور خود ہم بھی اس کی بھاری قیمت چکاتے آرہے ہیں۔ یہ اسی بیمار ذہنیت کا شاخسانہ ہے کہ تعلیم، صحت اور انسانی بہبود پر اٹھنے والے اخراجات نہ ہونے کے برابر ہیں اور آج ہم اپنے شہریوں کو لگائی جانے والی ویکسین کے لیے غیرملکی مدد کے منتظر ہیں۔

ایک جمہوری معاشرہ کے خدوخال ابھرنے سے پہلے ہی مٹا دیے جاتے ہیں، ہر اس عمل کو خطرہ تصور کیا جاتا ہے جو سماج کو ترقی و انصاف کی جانب لے جاتا ہے۔ جمہوری روایات کو کمزور کیا گیا ، انقلابی تنظیموں کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ طلبہ، مزدور، کسان، صحافی اور دیگر محاذوں کو طاقت کے زور پر دبایا گیا۔ منصوبہ بند طریقہ سے لسانی، مذہبی اور عوام دشمن گروہوں کی پشت پناہی کی گئی اور اسلحہ بردار لشکروں کو شہریوں پر مسلط کر دیا گیا۔

آج صورت حال یہ ہے کہ سات کروڑ سے زاید محنت کشوں کی اکثریت (ننانوے فی صد ) تنظیم سازی کے حق سے جبراً محروم کر دی گئی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر خصوصاً ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کے شعبہ میں یونین سازی کی موت واقع ہو چکی ہے۔ پانچ فی صد سے بھی کم محنت کش ملازمت کے تحریری تقررنامہ حاصل کر پاتے ہیں، یہ صورت حال سوشل سیکیوریٹی اور پینشن سے متعلق ہے۔

آٹھ گھنٹے روزانہ کام خواب ہے، فیکٹریوں، کارخانوں اور کار گاہوں میں بارہ سے چودہ گھنٹے روزانہ کام عام چلن ہے، سپریم کورٹ کے فیصلہ کے باوجود غیر قانونی ٹھیکے داری نظام رائج ہے، محنت کشوں کی اکثریت سرکاری طور پر اعلان کردہ کم اب کم اجرت سے محروم ہے، لیبر ڈپارٹمنٹ، نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن اور لیبر کورٹس مزدور حقوق ضمن میں مذبح خانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ملکی آئین، لیبر قوانین، پارلیمینٹ سے توثیق شدہ آئی ایل او کنونشنز، یورپی یونین سے کئے گئے جی ایس پی پلس معاہدہ تمام نقش بر آب ہیں۔

بین الاقوامی کمپنیاں ہوں یا یا کہ مقامی صنعت کار انہوں نے کارگاہوں کو جدید بندی خانے میں تبدیل کردیا ہے اور اس میں مزدور اس میں جدید غلام بن کر رہ گیا ہے۔ اسے نسل در نسل غیر انسانی ماحول میں کام کرنے اور رہنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ حکم رانوں نے منظم ہونے ، حقوق کے لئے قانون اور آئین کے دائرہ میں جدوجہد کے راستہ مسدود کردیے ہیں۔ نام نہاد میں اسٹریم پارٹیاں چاہیے وہ اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں وہ اپنے عمل سے ثابت کر رہی ہیں کہ وہ نظری طور پر بانجھ اور ظلم پر عبارت نظام ہی کا حصہ ہیں۔ ان کی ترجیحات کی فہرست میں محنت کش طبقہ کہیں بھی موجود نہیں۔ کوشش کی جارہی ہے کہ محنت کشوں کی بے چینی اور غصہ کو لسان اور فرقہ واریت میں بدل دیا جائے اور سماج میں فاشسٹ سوچ کو ایک بار پھر فروغ دیا جائے۔

اس سارے منظرنامہ میں محنت کش طبقہ اپنے حقوق کے لیے خود ہی منظم ہوگا اور وہ اپنی درخشاں روایات کا خود ہی امین بنے گا اور اپنے خلاف ہونے والی منصوبہ بندی کو ناکام بنائے گا۔ محنت کش طبقہ جہد مسلسل کی عظیم تاریخ کا وارث ہے۔

محنت کش طبقہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ محنت کشوں نے 1968 اور 1969 میں جنرل ایوب کی آمریت کو للکارا اور ملک میں جمہوری اداروں کے قیام کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کی، سندھ کے ہاریوں نے جاگیرداری کے خلاف لازوال قربانیوں کی تاریخ رقم کی، 1970 میں ہشت نگر (خیبرپختون خوا) کے کسانوں نے خوانین کو شکست سے دوچار کیا، 1971 اور 1972 میں سائیٹ، لانڈھی کراچی (سندھ) کے محنت کشوں نے اپنے خون سے مزاحمت کے پرچم کو بلند کیا، یہ کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان کے محنت کش ہی تھے جنہوں نے 1978 میں ضیاء الحق کی پیرا ملٹری فورسز کی فائرنگ کا سامنا کیا اور مزدور حقوق کے لیے 200 سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

اوکاڑہ کے مزارعین کی 2000 سے جاری جدوجہد ہو یا کہ 2012 میں بلدیہ فیکٹری سانحہ میں شہید ہونے والے 260 مزدور کے لواحقین کی انصاف کے لیے تحریک اور حالیہ دنوں میں محنت کشوں کی مختلف پرتوں کے منظم دھرنے جدوجہد کے وہ استعارے ہیں جو اس امر کی جانب اشارہ کر رہے کہ محنت کش طبقہ ایک فیصلہ کن معرکہ کی تیاری کی جانب بڑھ رہا ہے اور نئی صبح کے امکان روشن ہو رہے ہیں۔

The post محنت کش فیصلہ کن معرکے کی جانب گام زن appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3t6cpUM
via IFTTT

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟ ایکسپریس اردو

آج پاکستان میں بھی دنیا کے دیگر ممالک کی طرح’’عالمی یومِ محنت‘‘ منایا جارہا ہے۔ اس ضمن میں مختلف سیاسی جماعتیں، مزدور تنظیمیں اور محنت کشوں کے لیے حصّول انصاف کی عالمی جدوجہد سے تعلق رکھنے والی دیگر روشن خیال تنظیمیں اُن شہید مزدوروں کی یاد تازہ کریں گی کہ جنہوں نے اب سے 135سال قبل محنت کش طبقہ کو صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے ’’8گھنٹہ کام،8 گھنٹہ آرام اور 8گھنٹہ Socializingکا نعرہ بلند کیا۔‘‘

اس راہِ حق میں آوازِ حق بلند کرنے کی پاداش میں سات مزدور راہ نماؤں کو تختہ دار پر کھینچا گیا، جسے انہوں نے ہنستے مسکراتے قبول کیا مگر طاقت ور طبقے کے سامنے اپنا سر نہیں جھکایا اور اس طرح وہ تاریخ میں رہتی دنیا تک امر ہوگئے۔

ہم یومِ مئی کی تاریخ کے حوالے سے اگر آج اپنے ملک کے حالات پر ایک سرسری نگاہ ڈالیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ 135 سال گزرنے کے باوجود مزدور طبقہ کی زندگیوں میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد خاص طور پر پاکستان پیپلزپارٹی کے مختلف ادوار حکومت میں محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بڑے پیمانے پر قانون سازی کی گئی اور متعدد ادارے بھی قائم کیے گئے۔

اس حوالے سے شہید ذوالفقار علی بھٹو کا دور ایک سنہری دور کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں مزدور طبقہ کی تعداد آبادی کے لحاظ سے تقریباً سات کروڑ بتائی جاتی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک کی پارلیمان اور پالیسی ساز اداروں میں اُن کی کوئی حقیقی نمائندگی موجود نہیں، اتنی بڑی تعداد میں موجود ہونے کے باوجود کیوںکہ یہ طبقہ غیرمنظم ہے لہٰذا اُس کی کہیں کوئی مؤثر آواز سُنائی نہیں دیتی۔

مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے وضع کیے گئے قوانین کا اطلاق بالخصوص پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں میں شاد و نادر ہی نظر آتا ہے۔ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم از کم ماہانہ تنخواہ کی ادائیگی کے قانون پر عمل درآمد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 80% فی صد ادارے اس پر عمل ہی نہیں کرتے اور مزدور 17500/-روپیے ماہانہ کی بجائے 10سے 12ہزار روپئے ماہانہ پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

قانون کے تحت کسی بھی کارکن سے کسی بھی کارخانہ، دفتر یا انڈسٹری میں 8گھنٹہ یومیہ سے زائد بغیر اوور ٹائم کی ادائیگی کام نہیں لیا جاسکتا لیکن حقیقی صورت حال یہ ہے کہ مزدور 12,12گھنٹہ یومیہ کام کرنے پر مجبور ہیں اور اُن کی کوئی سنوائی نہیں۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں نے غلامی کے نئے نظام کو نافذ کردیا ہے اور کوئی پُرسانِ حال نہیں۔

عام طور پر صنعت کار اب اپنے اداروں میں ٹریڈ یونینز قائم ہونے ہی نہیں دیتے اور اس طرح بتایا جاتا ہے کہ 80% فی صد کارخانوں، فیکٹریز، دفاتر، کمرشل بینکس اور دیگر پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں میں ٹریڈ یونینز ناپید ہوچکی ہیں جب کہ 20% فی صد اداروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں اندر کی یونینز ہیں مطلب کہ پاکٹ یونین جو کہ انتظامیہ کے جیبوں میں پڑی ہوتی ہیں۔

ہم کوشش کرتے ہیں کہ مختلف صنعتوں میں محنت کشوں کے حالاتِ کار کا جائزہ لیں تاکہ ملازمت پیشہ طبقہ کو درپیش مجموعی صورت حال اور ٹریڈ یونین تحریک کی موجودہ شکل سامنے آسکے۔ بینکنگ انڈسٹری کی ٹریڈ یونینز کے موجود حالات کا تجزیہ کرنے کے لیے ہمیں کسی ایک ادارہ کو مثال کے طور پر لینا ہوگا۔ اس کے لیے بہتر ہوگا کہ ہم ملک کے سب سے بڑے اور قدیم بینک حبیب بنک کے حالات کو تجزیہ کی خاطر بطور مثال

لے لیں۔ پرائیویٹائزیشن سے قبل اور پہلی نام نہاد گولڈن ہینڈ شیک اسکیم آنے سے قبل ادارے میں ملازمین کی کُل تعداد جن میں افسران بھی شامل تھے تقریباً32 ہزار تھی جن میں کلریکل کیڈر کی تعداد تقریباً اٹھا رہ ہزار تھی۔ آج جب کہ حبیب بینک کی پرائیویٹائزیشن کو اٹھارہ سال مکمل ہوچکے ہیں تو صورت حال یہ ہے کہ ادارے میں اب  کلریکل کیڈر کی کل تعداد 1200رہ گئی ہے جو کہ ملازمین کی کل تعداد کا 10فی صد سے بھی کم ہے۔ حبیب بنک نے پچھلے اٹھارہ سالوں کے دوران سے ٹریڈ یونین کیڈر میں بھرتیوں پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے جب کہ بنک انتظامیہ نے یہ بھی کیا کہ نان کلریکل کیڈر کے ہزاروں افراد کو 2006؁ میں آؤٹ سورس کرکے اُنہیں تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ ایمپلائمنٹ سسٹم کے تحت بینک ملازمت سے فارغ کردیا۔

دوسری جانب گذشتہ تین سال کے دوران حبیب بینک کی انتظامیہ نے سی بی اے کو گذشتہ 45 سال سے حاصل تمام تر سہولیات سے محروم کردیا ہے۔ سی بی اے کے تمام دفاتر بند کردیے گئے، دفاتر کو دی گئی تمام تر سہولیات واپس چھین لی گئیں، سی بی اے کے تمام عہدے داران پر پابندی عائد کردی گئی کہ وہ آفس آوورز کے دوران ملازمین کو درپیش مسائل کے حل کے سلسلے میں انتظامیہ کے افسران سے کسی قسم کا رابطہ قائم نہ کریں بلکہ اس کے برعکس بینک کی جانب سے تفویض کردہ فرائض ادا کریں اور اس طرح پورے پاکستان میں وہ چند عہدے داران کہ جنہیں خود انتظامیہ نے یہ سہولت دی تھی کہ وہ ملازمین کے مسائل کے سلسلہ میں اعلیٰ افسران سے رابطہ کرسکتے ہیں۔

اس سہولت کو بھی ختم کردیا گیا ہے۔ بہ الفاظ دیگر ادارے میں صورت حال یہ ہے کہ سی بی اے یونین تو موجود ہے مگر اُسے انتظامیہ کی جانب سے قوانین کے غلط اور من مانے اطلاق کے ذریعہ مکمل طور پر غیر فعال اور اس طرح ٹریڈ یونین تحریک کا گلا مکمل طور پر گھونٹ دیا گیا ہے۔ سرکاری بینکوں کو چھوڑ کر دیگر تمام پرائیویٹ کمرشل بینکس میں کم و بیش یہی صورت حال پائی جاتی ہے اور اس انڈسٹری میں ٹریڈ یونین تحریک کو انتظامیہ نے اپنی بھرپور طاقت اور جارحانہ حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے اسے ماضی کا قصہِ پارینہ بنادیا ہے۔

مزدور طبقہ آج بھی اس ملک میں بحیثیت مجموعی بدترین حالات سے تو دو چار ہے ہی لیکن بعض شعبوں میں صورت حال انتہائی دگر گوں ہے۔ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے حالاتِ کار اور اُن کی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے تو انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

اخبارات میں آئے دن خبریں ظاہر ہوتی رہتی ہیں کہ درجنوں مزدور اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے کسی کان میں داخل ہوئے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔ اگر اعدادوشمار ایمان داری سے اکھٹے کیے جائیں تو ہر سال ہمارے ملک میں سیکڑوں مزدور اپنی زندگیوں سے پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر آگ اور حبس کی نظر ہوجاتے ہیں۔ ان حادثات کا سلسلہ ایسا ہے کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لیتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئلے کے کانوں کے ٹھیکے دار اور حکومتی مشینری اس ضمن میں کیا کردار ادا کر ررہی ہے؟

پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے اس سلسلہ میں پہل قدمی کرتے ہوئے “Occupational Safety And Health”کا قانون کو وضع کیا ہے لیکن یہاں بھی اصل مسئلہ اس کے اطلاق کا ہے کہ اس کے بارے میں مثبت اطلاعات نہیں ملتیں۔ کوئلے کے کان کنوں، محنت کشوں کی زندگیاں ہی ہمارے معاشرے میں عذاب سے نہیں گزر رہیں بلکہ دیگر شعبہ جات میں بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے ماہی گیروں کی زندگیوں اور حالات کار کا جائزہ لیں تو وہا ں بھی دکھ اور غم کے سوا مشکل سے ہی کچھ ملتا ہے۔

سمندر کی لہروں سے لڑنے والوں اور لاکھوں انسانوں کے لیے بہترین غذا کے حصول کے لیے اپنی زندگی سے کھیل جانے والوں کی خود اپنی زندگیاں، زندگی کی حرارت سے محروم ہیں۔ پاکستان میں دیہاڑی دار مزدوروں کی تعداد لاکھوں سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔

اس معاشرے نے اُن کے لیے کیا کیا؟ طبی سہولیات، روزگار کا تحفظ، تین وقت کی روٹی کی ضمانت، اُن کے زیرکفالت بچوں کا مستقبل یہ سب اُن کے لیے خواب و خیال ہیں۔ دوسری جانب ہم مزدوروں کے ویلفیئر کے لیے قائم اداروں جن میں ای و بی آئی، سوشل سیکیوریٹی ورکرز ویلفیئر بورڈز اور بحیثیت مجموعی لیبر ڈیپارٹمنٹس کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو ان اداروں کی صورت حال بھی دیگر سرکاری اداروںسے بہتر نہیں ہے۔

ملک میں محنت کش طبقے کی تعداد کو اگر سات کروڑ تسلیم کرلیا جائے تو ہم مزید مایوسیوں سے اس لیے بھی دوچار ہوجائیں گے کہ کارکنوں کی ویلفیئر کے لیے قائم کسی بھی ادارے میں چند لاکھ سے زائد کارکن رجسٹر نہیں اور اس طرح بہ آسانی کہا جاسکتا ہے کہ نوے فی صد محنت کش اپنے قانونی حقوق اور سہولیات سے محروم ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ قائداعظم کے تصورپاکستان کے مطابق اس ملک کو ایک فلاحی ریاست ہونا چاہیے جو کہ بدقسمتی سے ابھی تک بن نہیں پائی۔ اس سلسلے میں ہم قائد اعظم کی ایک تقریر کے اقتباس کو پیش کریں تو ہم زیادہ بہتر انداز میں بانی پاکستان کی سوچ کو سمجھ سکیں گے۔

24 مارچ 1943میں مسلم لیگ کے اجلاس منعقد ہ دہلی سے خطاب کرتے ہوئے بیرسٹر محمدعلی جنا ح نے کہا کہ’’میں ضروری سمجھتا ہوں کہ زمینداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کردوں کہ اس طبقے کی خوش حالی کی قیمت عوام نے ادا کی ہے اس کا سہرا جس نظام کے سر ہے وہ انتہائی ظالمانہ اور شرانگیز ہے اور اس نے اپنے پروردہ عناصر کو اس حد تک خود غرض بنادیا ہے کہ انہیں دلیل سے قائل نہیں کیا جاسکتا۔ اپنی مقصد برآوری کے لیے عوام کا استحصال کرنے کی خوئے بد ان کے خون میں رچ گئی ہے۔

وہ اسلامی احکام کو بھول چکے ہیں۔ حرص و ہوس نے سرمایہ داروں کو اتنا اندھا کردیا ہے کہ وہ جلب منفعت کی خاطر دشمن کے آلۂ کار بن جاتے ہیں۔ آج یہ سچ ہے کہ ہم اقتدار کی گدی پر متمکن نہیں۔ آپ شہر سے باہر کسی جانب چلے جائیے۔ میں نے دیہات میں جاکر خود دیکھا ہے کہ ہمارے عوام میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جنہیں دن میں ایک وقت بھی پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہوتا کیا آپ اسے تہذیب اور ترقی کہیں گے؟ کیا یہی پاکستان کا مقصد ہے؟

کیا آپ نے سوچا کہ کروڑوں لوگوں کا استحصال کیا گیا ہے اور اب ان کے لیے دن میں ایک بار کھانا حاصل کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ اگر پاکستان کا حصول اس صورت حال میں تبدیلی نہیں لاسکتا تو پھر اسے حاصل نہ کرنا ہی بہتر سمجھتا ہوں اگر وہ (سرمایہ دار) عقل مند ہیں تو وہ نئے حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیں گے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر خُدا اُن کے حال پر رحم کرے، ہم ان کی کوئی مدد نہیں کریں گے۔‘‘

قائداعظم کے یہ ارشادات ہمارے معاشرے اور ریاست کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوسکتے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک میں غربت، افلاس، بھوک، ننگ اور بے روزگاری جیٹ اسپیڈ کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ تمام جمہوری سیاسی جماعتوں کے لیے مستقبل کے حالات ایک بڑے چیلینج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عوام کے مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں ملک کی اقتصادی و معاشی صورت حال ناگفتہ بہ ہے مگر ہمیں مایوسی سے دو چار ہونے کے بجائے ان حالات کا حل تلاش کرنا ہوگا۔

مزدوروں، کسانوں اور دیگر کچلے اور پسے ہوئے طبقات کو اپنے ساتھ جوڑ کر اس بحران سے نکلا جاسکتا ہے۔ مزدور تنظیموں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ کم سے کم نکات کی بنیادوں پر متحد اور منظم ہونے کی جدوجہد کو جاری رکھیں اور سیاست کے قومی دھارے میں شامل ہوکر اپنا کردار ادا کریں تاکہ محنت کشوں کے مسائل ختم نہیں تو کم سے کم کیے جاسکیں۔

The post کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2RcSruj
via IFTTT

اسلام اور مزدوروں کے حقوق ایکسپریس اردو

حضرت عبداﷲ ابنِ عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مزدور کو اُس کی مزدوری اُس کے پسینے کے خشک ہونے سے پہلے ادا کردو۔‘‘

اِسلام نے مزدور و مالکان کے حقوق و فرائض کو بھی واضح طور پر بیان کردیا ہے اور ہر ایک کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنے فرائض کی ادائی میں ذرا برابر بھی کوتاہی نہ کریں۔ اِسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگی کہ شریعتِ مطہرہ نے صدیوں پہلے ظلم کی چکی میں پسے ہوئے مزدوروں کو اُن کا جائز حق دیا اور مالکان کو پابند کیا کہ مزدوروں کو کم تر نہ سمجھیں، جب کسی مزدور سے کام لیا جائے تو اُس کا حق فوراً دے دیا جائے۔

رسول اکرم ﷺ نے حکم فرمایا کہ مزدور کو اُس کی مزدوری اُس کے پسینے کے خشک ہونے سے پہلے ہی ادا کردو یعنی اُس کا حقِ خدمت معاہدے کے مطابق وقت پر ادا کردیا جائے۔ یہ رسول اﷲ ﷺ کی معروف حدیثِ مبارک ہے، جو ہر شخص چاہے وہ مزدور ہو یا مالک سب کو یاد ہے۔ مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے اِس حدیث مبارک کے علاوہ ایک حدیثِ قدسی بھی بڑی معروف ہے کہ اﷲ تعالیٰ یہ ارشاد فرماتا ہے کہ میں قیامت کے دن تین لوگوں کے لیے خود مدَّعی بنوں گا، اُن میں سے ایک وہ مزدور ہوگا، جس نے اپنا کام تو پورا کرلیا لیکن اُسے اُس کی اُجرت نہیں دی گئی۔

ہمارے معاشرے میں اوَّل تو مزدوروں کو ان کی محنت کی جائز اُجرت نہیں دی جاتی اور اگر دی بھی جائے تو اتنی کہ مزدوروں کو دوبارہ پسینہ آجاتا ہے۔ آج مزدوروں کو اتنی اجرت دی جاتی ہے کہ اُس سے اُن کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام نہیں ہوسکتا۔ پورا دن کارخانوں اور بھٹیوں میں کام کرنے والے معاشی اعتبار سے کم زور ہیں جب کہ اُن کی محنت کی آمدن سے سرمایہ دار اور مالکان امیر تر ہوتے جارہے ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر مزدور اور مالکان کے درمیان نفرتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔

جب مزدوروں کو اُن کی محنت کا صحیح اور بروقت معاوضہ نہیں ملتا تو پھر وہ ہڑتال کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، مالکان اُن سے بدلہ لینے کے لیے کارخانوں کی تالا بندی کردیتے ہیں جس کی وجہ سے ایک طرف بے قصور صارفین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو دوسری طرف ملکی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ رسول کریم ﷺ کی درجِ بالا حدیث مبارک مزدوروں کو معاشی تحفظ فراہم کرتی ہے اور مالکان کو تنبیہ کرتی ہے کہ وہ مزدوروں کے استحصال سے۰۰۰۰۰۰۰۰۰ رک جائیں۔

وگرنہ قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ کی عدالت میں ان پر مقدمہ قائم کیا جائے اور اس مقدَّمہ میں رب تعالیٰ خود ہی مزدوروں کی طرف سے مدّعی ہوگا۔ رسول اﷲ ﷺ کی ایک حدیث مبارک میں ہے کہ تمہارے خادم، ملازم، مزدور اور غلام تمہارے بھائی ہیں، لہٰذا تم میں سے جس کے پاس اس کا کوئی بھائی ہو، تو اُسے چاہیے کہ وہ اس کو ویسا ہی کھلائے اور پہنائے جیسا کہ وہ خود کھاتا اور پہنتا ہے۔ اپنے مزدور کو کوئی ایسا کام کرنے کو نہ کہے، جسے وہ خود نہیں کرسکتا اور اگر ایسا کام کرانے کی ضرورت ہو، تو خود بھی اُس کا ساتھ دے۔ (صحیح بخاری)

اِس حدیث شریف سے مزدوروں سے کام لینے کے متعلق کئی اصول ہیں۔ ایک یہ کہ مزدور و مالکان کے درمیان بھائی چارے کا رشتہ ہے۔ لہٰذا مالک کے لیے مستحب ہے کہ وہ جو اپنے لیے پسند کرے، وہی اپنے مزدور بھائی کے لیے بھی پسند کرے۔ اِس حدیث مبارک میں مالکان کو عیش و عشرت کی زندگی سے روکا جارہا ہے اور سادگی اختیار کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ کیوں کہ جب وہ اپنے ساتھ دوسروں پر بھی خرچ کرے گا تو ظاہر ہے کہ اس کے اخراجات دو حصوں میں تقسیم ہوجائیں گے اور وہ کفایت کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔

آج ہم دیکھتے ہیں کہ مزدوروں کو بہ مشکل دال روٹی میسر ہوتی ہے جب کہ مالکان کے ایک وقت کے کھانے پینے کا بل مزدوروں کی پوری تن خواہ کے برابر ہوتا ہے۔ مزدور بہ مشکل سال میں ایک مرتبہ نئے کپڑے سلوا پاتا ہے اور کئی تو ایسے بھی ہیں، جنہیں سال ہا سال نئے کپڑے نصیب نہیں ہوتے، اِس کے برعکس سرمایہ دار روزانہ نئے کپڑے زیبِ تن کرتا ہے۔ شریعت کا منشاء یہ ہے کہ مزدوروں کی تن خواہ اتنی ہونی چاہیے کہ جس سے ان کی بنیادی ضرورتیں آسانی سے پوری ہوسکیں۔ اِس سے ناصرف مزدوروں کا فائدہ ہوگا بل کہ مالکان کو بھی فائدہ ہوگا، کیوں کہ ایسی صورت میں مزدور بہ خوشی اور احسن طریقے سے اپنی ذمے داریوں کو انجام دیں گے اور کاروبار خوب ترقی کرے گا۔

مزدوروں سے اُن کی طاقت کے مطابق کام لیا جائے، ان پر اتنا بوجھ نہ ڈالا جائے کہ ان کے لیے کرنا مشکل ہوجائے۔ اِس سے مزدوروں سے معاہدہ کے برخلاف مقررہ وقت سے زاید کام لینے کی ممانعت کا بھی علم ہوتا ہے۔ کئی جگہوں میں آٹھ گھنٹوں کی بہ جائے بارہ بل کہ سولہ گھنٹے کام لیا جاتا ہے اور اگر مزدور زیادہ وقت کام کرنے سے انکار کرتا ہے تو اُسے ملازمت سے فارغ کردینے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ لہٰذا مزدور بہ حالتِ مجبوری اپنی طاقت سے زیادہ محنت و مشقت کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔

اگر مزدوروں سے اُن کی طاقت اور مقررہ وقت سے زاید کام لیا جائے تو اُن کا ہاتھ بٹایا جائے یا پھر اُسے زاید وقت کی اجرت بھی دی جائے۔ یہ کتنی عجیب بات ہوگی کہ زاید وقت کے منافع کا پورا حق دار وہ شخص ٹھہرے، جس نے کچھ محنت نہ کی ہو، صرف اپنا سرمایہ لگایا ہو۔ اور وہ شخص جو منافع حاصل کرنے کے لیے اپنا خون پسینا بہا رہا ہے، اُسے کچھ بھی نہ ملے، زیادہ سے زیادہ چند تعریفی کلمات سے نواز دیا جائے۔

اِنسانی جسم کو راحت و آرام کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ انسانی جسم کا فطری تقاضا بھی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے دن کو معاش کا ذریعہ بنایا تو تھکاوٹ دور کرنے کے لیے رات کو سکون اور راحت کے لیے پیدا فرمایا۔ اب اگر کوئی شخص زیادہ یا مسلسل کام ہی کرتا رہے اور کچھ وقت آرام نہ کرے تو پھر اس سے کئی نفسیاتی اور سماجی مسائل جنم لیتے ہیں۔ صحت خراب ہوجاتی ہے اور بیماریاں جنم لیتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بیوی، بچوں، ماں باپ اور دیگر رشتے داروں کو وقت نہ دینے سے آپس میں رنجشیں بڑھتی ہیں۔

ابھی تک مزدوروں کے جن حقوق پر لکھا گیا، ان میں سے ہر ایک کا تعلق ان حقوق سے ہے، جو مزدور کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ جہاں تک حقوق اﷲ کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں فقہائیِ کرام نے فرمایا کہ جس طرح مزدوروں کو ان کی اجرت کا دینا لازم اور ضروری ہے بالکل اسی طرح مالکان پر یہ بھی لازم ہے کہ دورانِ کام فرائض و واجبات مثلاً نماز وغیرہ کا وقت آجائے، تو مزدوروں کو اس کی ادائی کے لیے ناصرف وقت دیا جائے بل کہ اِن امور کی انجام دہی کے لیے بہتر جگہ بھی فراہم کی جائے۔

اسی طرح رمضان المبارک میں ان سے اتنا ہی کام لیا جائے کہ وہ آسانی کے ساتھ روزے رکھ سکیں۔ کسی بھی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو ایسے حقوق اﷲ سے روکے، جن کی ادائی انفرادی طور پر ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے اور اگر کسی نے ایسا کیا تو ملازمین پر اپنے مالک کی اطاعت لازم نہیں ہوگی، کیوں کہ حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ کسی کی اطاعت اسی وقت تک کی جاسکتی ہے، جب تک وہ شریعت کے مطابق ہو، وگرنہ اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی پر کسی کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔

The post اسلام اور مزدوروں کے حقوق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3vLIa7p
via IFTTT

کورونا وبا مہنگائی، رمضان میں عوام کی قوت خرید جواب دے گئی ایکسپریس اردو

 کراچی:  کورونا کی تباہ کاریاں ، خراب معاشی صورت حال اور مہنگائی پہاڑ جیسے بڑے مسائل رواں رمضان المبارک میں عوام کی قوت خرید ہی جواب دے گئی ہے۔

کورونا ایس او پیز کے تحت جلد کاروبار بند ہونے کے سبب کراچی میں روایتی افطار کی خریداری کے حوالے سے گہما گہمی نہ ہونے کے برابر ہے، اس صورت حال کے سبب شہر کے متوسط اور غریب علاقوں میں پکوڑے ، سموسے اور دیگر افطار کے لوازمات کی فروخت کے اسٹالز انتہائی محدود پیمانے پر لگائے گئے ہیں اوراس کام سے منسلک 60 سے 70 فیصد کاریگر اپنے آبائی علاقوں میں رمضان کی چھٹیاں گزارنے اور عید منانے کے لیے چلے گئے ہیں۔

کاریگروں کے اپنے آبائی علاقوں میں جانے کی اصل وجہ کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز اور شہر قائد میں کاروباری اوقات کار محدود ہونا بتایا جاتا ہے۔

پکوڑے، سموسے اور افطار کے لوازمات تیار کرنے والے ایک کاریگر محمد رضا نے ایکسپریس کو بتایا کہ کورونا کی عالمی وباکو دوسرا برس شروع ہو چکا ہے، یہ دوسرا رمضان ہے  جو ہم کورونا کے ساتھ گزار رہے ہیں، گزشتہ رمضان میں سخت لاک ڈاؤن تھاکاروباری سرگرمیاں بند تھیں اوران حالات کے سبب افطار کے لوازمات کا اہتمام بڑے پیمانے پر نہیں ہو سکا،مارکیٹیں اور بازار جلدی بند ہو رہے ہیں۔

کھانے کی اشیاکی تیاری کے طریقوں میں جدت آ گئی

کورونا ایس او پیزکے احکام جاری ہونے کے بعد شہریوںکی بڑی تعداد گھروں پر روزہ کھولنے کو ترجیح دیتی ہے ، رواں رمضان المبارک میں بھی 70 سے 80 فیصد خواتین افطاری کے لوازمات اپنے گھروں پر خود تیارکرتی ہیں۔

گھریلو خاتون سحر طارق نے بتایا کہ زمانہ جیسے جیسے ترقی کر رہا ہے، ویسے ہی کھانے پینے کی اشیاکی تیاری کے طریقوں میں بھی جدت آ گئی ہے، اب تو تیار سموسے اور رولز کے پیکٹ بازاروں میں مل جاتے ہیں یا پھر سموسے اور رول کی تیاری میں استعمال ہونے والی پٹیاں بھی تیار شدہ مل جاتی ہیں، یہ پٹیاں 200 فی کلو فروخت ہوتی ہیں جبکہ رول اور سموسے کے پیکٹ میں یہ اشیا ایک درجن ہوتی ہیں اور بغیر تلا تیار شدہ سموسہ اور رول 10 سے 15 فی دانے کے حساب سے ملتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ گھروں میں زیادہ تر سبزی اور چکن کے رول تیارکیے جاتے ہیںگھروں میں تیار کی جانے والی افطاری معیاری اور صحت بخش ہوتی ہے۔

متوسط طبقہ کھجور اور پانی سے روزہ کھول رہا ہے

بے روزگاری ، خراب معاشی صورت حال اور مہنگائی کے سبب غریب اور متوسط طبقے کے شہریوں کی بڑی تعداد کھجور اور پانی سے روزہ کھول کراپنی حیثیت کے مطابق کھانا کھالیتے ہیں اس طرح ان کی افطاری بھی ہو جاتی ہے اور وہ رات کا کھانا بھی کھالیتے ہیں،اس رمضان میں بڑی بیکریوں اور مٹھائی کی دکانوں پر تو رش نظر آ رہا ہے لیکن غریب اور متوسط علاقے میں اس کام سے منسلک دکاندار اور کاریگر بہت پریشان ہیں۔ اسی وجہ سے اس کام سے منسلک بیشتر کاریگر اپنے آبائی علاقوں میں رمضان سے قبل ہی چلے گئے ہیں۔

محمد رضا نے بتایا کہ قوت خرید کم ہونے کی وجہ سے بے روزگار نوجوانوں کی بڑی تعداد نے محدود پیمانے پر پکوڑے سموسے کی تیاری کے عارضی اسٹالز لگائے ہیں، زیادہ تر نوجوان اور بیروزگار افراد پھل فروخت کر کے روزی کمارہے ہیں کورونا کے سبب یہ کام مختصر ہو کر 40 سے 50 فیصد تک رہ گیا ہے۔

افطارلوازمات میں شامل اشیاکی قیمتیں ہرعلاقے میں الگ الگ ہیں

افطار لوازمات میں شامل اشیاکی قیمتیں ہر علاقے میں الگ الگ ہیں، مختلف علاقوں میں مکس پکوڑے 300 سے 350 روپے فی کلو ، مختلف اقسام کے سموسے اور رول 15روپے سے 25 روپے تک میں دستیاب ہیں، جلیبی اور امرتی 320 سے 450 روپے فی کلو ، چکن اسٹیک فی عدد40 روپے سے 55 روپے ، دہی بھلے 350 سے 400 روپے، چنا چاٹ فی پلیٹ 50 سے 80 روپے کے درمیان ہے جبکہ فروٹ چاٹ کی فی فلیٹ 50 سے 100 روپے تک فروخت کی جا رہی ہے۔

کوروناکے باعث ہوم کچن کا کاروبار بہت متاثر ہوا

مختلف ہومز کچن سروس آرڈرکے مطابق افطار باکس یاافطار لوازمات تیار کرکے متعلقہ مقامات پر پہنچانے کے لیے اپنی خدمات فراہم کر رہے ہیں ہوم کچن سروس کے کام سے وابستہ ہمایوں خاتون نے بتایا کہ ہوم کچن سروس کا کام رمضان سے قبل بہتر انداز میں جاری تھا کیونکہ کئی دفاتر اور اداروں میں دوپہر یا رات کا کھانا ان ہوم کچن سے فراہم کیا جاتا تھا لیکن کورونا ایس او پیز کے تحت مارکیٹیں جلدی بند ہونے اوردفاتر میں 50 فیصد عملے کے کام کرنے کی پالیسی کی وجہ سے ہوم کچن کے کام پر بھی بہت فرق پڑا ہے۔

کاروباری اور معاشی سرگرمیاں محدود ہونے کے سبب ہوم کچن سروس میں کھانوں کی تیاری کے آرڈرز میں 80 فیصد کمی آ گئی ہے تاہم شہر کے مختلف علاقوں میں ان ہوم کچن کے ذریعہ مختلف گھروں میں افطار لوازمات کی فراہمی کا کام آرڈر کے مطابق کیا جاتا ہے اور آرڈر کے مطابق رول سموسے ، پکوڑے ، دہی بھولے ، فروٹ چاٹ تیار کرکے مختلف رائیڈنگ ایپس کے ذریعہ متعلقہ مقام پہنچایا جاتا ہے یا پھر آرڈر کے مطابق افطار باکس بھی تیار کیے جاتے ہیں۔

ایک افطار باکس100 روپے سے لے کر 150 روپے تک میں تیار ہوتا ہے اور اگر افطار باکس کے ساتھ کھانا بھی ہو تو یہ 250 روپے تک تیار ہوتا ہے جس میں افطار کے ساتھ بریانی یا پھر ایک سالن اور دو روٹی موجود ہیں۔

افطار لوازمات کی تیاری کاکام صبح 6بجے شروع ہو جاتا ہے

افطار لوازمات کی تیاری سے منسلک کام کا آغاز سحری کے بعد صبح 6 بجے شروع ہو جاتا ہے ، جو مغرب کے بعد تک جاری رہتا ہے کاریگر محمد رضا کے مطابق افطار لوازمات میں مختلف اقسام کے مکس پکوڑے ، قیمے ، آلو ، چکن اور سبزی کے رول ، سموسے ، ون ٹون ، دہی بھلے ، جلیبی ، امرتی اور دیگر اشیا تیار کی جاتی ہیں یہ کام انتہائی محنت طلب ہوتا ہے۔

محمد رضا نے بتایا کہ کورونا ایس او پیز کے سبب شہر میں بڑے افطار دسترخوان لگانے پر پابندی ہے جس کی وجہ سے روایتی عوامی دسترخوان کا اہتمام رواں رمضان المبارک میں نہ ہونے کے برابر ہے مارکیٹیں اور کارو بار جلد بند ہونے کی وجہ سے بھی افطار لوازمات کی فروخت میں کمی آئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ افطار دسترخوان نہ لگنے کی وجہ سے اس کاروبار پر بہت فرق پڑا ہے تاہم کچھ علاقوں میں محدود پیمانے پر افطار باکسز تیار کروا کرتقسیم کیے جارہے ہیں جس میں یہ افطار لوازمات فراہم کیے جاتے ہیں۔

The post کورونا وبا مہنگائی، رمضان میں عوام کی قوت خرید جواب دے گئی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3t6ql0L
via IFTTT

بجلی کے نرخ برقرار رکھنے کیلیے چینی قرض ری شیڈول کیا جائیگا ایکسپریس اردو

 اسلام آباد:  وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی و پٹرولیم تابش گوہر نے کہا ہے کہ بجلی کے فی یونٹ نرخ میں ڈیڑھ روپے اضافے کو روکنے کیلیے سی پیک توانائی منصوبوں کے 3ارب ڈالر چینی قرضے کو ری شیڈول کیا جائے گا۔

ایکسپریس ٹریبیون سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے معاون خصوصی نے بتایا کہ پاکستان نے 12چینی آئی پی پیز کو 3سال میں 3ارب ڈالر ادا کرنے ہیں،حکومت پاکستان چین سے مذکورہ ادائیگی کو 10 سے 12 سال کیلئے ری شیڈول کرنے کی درخواست کرے گی،جس سے بجلی کے فی یونٹ نرخوں میں ڈیڑھ روپے کا اضافہ نہیں کرنا پڑے گا۔

انھوں نے بتایاکہ اس تجویز کو پاکستان میں چین کے سفیر کے سامنے رکھا جا چکا ہے، اب اس کو دونوں ممالک کے اعلیٰ سطح حکام زیر غورلائیں گے۔

تابش گوہر کا کہنا تھا کہ ہم اپنے دوست ملک چین کو پریشان نہیں کرنا چاہتے تاہم امر واقعہ یہ ہے کہ آئی پی پیز کے نصف ادائیگی چینی پاور پراجیکٹس سے متعلقہ ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے محمد علی انکوائری رپورٹ کی روشنی میں چین کے ساتھ آئی پی پیز معاہدوں پر ازسرنو مذاکرات کرنے کی کوشش کی تھی تاہم چین نے بند کمروں کے اجلاسوں میں ان معاہدوں کو دوبارہ طے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

پاکستان کو جن پاور پراجیکٹس کی قرض ادائیگی کرنی ہے ان میں کوہالہ ہائیڈروپاور پراجیکٹ،کروٹ ہائیڈروپاور پراجیکٹ،سکی کناری پاور پراجیکٹ،پورٹ قاسم پاور پراجیکٹ،ساہیوال پاور پلانٹ،حبکو پاور پلانٹ ،اینگروپاور جنریشن پراجیکٹ شامل ہے۔

The post بجلی کے نرخ برقرار رکھنے کیلیے چینی قرض ری شیڈول کیا جائیگا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3nNRi8N
via IFTTT

اسٹیل ملز کرپشن ریفرنس کا 11سال بعد فیصلہ، تمام ملزم بری ایکسپریس اردو

 کراچی:  اسٹیل ملز میں کرپشن کے ریفرنس کا فیصلہ 11 سال بعد سنا دیا جب کہ احتساب عدالت نے تمام ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے باعزت بری کردیا۔

کراچی کی احتساب عدالت نے اسٹیل ملز میں کرپشن سے متعلق ریفرنس کا فیصلہ سنادیا۔ عدالت نے تمام ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے باعزت بری کردیا۔ ملزمان میں ثمین اصغر، اصغر جمیل رضوی، چوہدری شفیق عباس، طارق ارشاد اور دیگر شامل ہیں۔

نیب کے مطابق ملزمان نے ٹھیکوں کی مد میں خورد برد کرکے کرپشن کی۔ ملزمان کی کرپشن کی وجہ سے اسٹیل ملز کو 13 ملین سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ ملزمان کیخلاف ریفرنس 2012 میں قائم ہوا تھا۔

 

The post اسٹیل ملز کرپشن ریفرنس کا 11سال بعد فیصلہ، تمام ملزم بری appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3xCzsK5
via IFTTT

TLP پرپابندی، نظرثانی درخواست کیلیے جائزہ کمیٹی قائم ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشیدنے وفاقی حکومت کیطرف سے کالعدم تحریک لبیک پاکستان پر پابندی کے فیصلے کیخلاف نظرثانی درخواست کا قانونی پہلوؤں سے جائزہ لینے کیلیے3رکنی کمیٹی قائم کردی ہے۔

وزارت داخلہ ذرائع کے مطابق وزیرداخلہ نے کالعدم ٹی ایل پی کیطرف دائر زیردفعہ 11سی(رائٹ آف ریویو )اورانسداددہشتگردی کے ایکٹ 11 ای ای (پروسکرپشن آف پرسن )کی نظرثانی کی درخواست کے بعد اجلاس کی صدارت کی۔

وزیرداخلہ نے انسداددہشتگردی ایکٹ کی زیردفعہ 11 سی سی کے تحت کمیٹی قائم کی ہے جوتین حکومتی افسران جن میں ایک وزارت قانون وانصاف کے نمائندہ اوروزارت داخلہ کے 2 جوائنٹ سیکرٹریز بھی کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔ یہ کمیٹی تیس دن کے اندردرخواستوں پرنظرثانی کریگی۔

شیخ رشید کی زیرصدارت اجلاس ہوا،مشاورتی اجلاس میں کالعدم ٹی ایل پی سے متعلق امور پر مشاورت کی گئی، اجلاس میں کالعدم تحریک لبیک پاکستان کی درخواست کا جائزہ بھی لیا گیا۔ وفاقی حکومت نے جو دوہفتے پہلے ٹی ایل پی کوتحلیل کرنے کیلئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائرکرنے کا کہاتھا لگتاہے، اس میں حکومت ناکام ہوگئی ہے ،15اپریل کو جب حکومت نے ٹی ایل پی پر پابندی لگائی تو وزیرداخلہ نے اعلان کیاتھاکہ حکومت ٹی ایل پی کی تحلیل کیلئے اقدامات کریگی۔

وزیرداخلہ نے یہ بھی کہاتھاکہ 16اپریل کو وفاقی کابینہ کو ایک الگ سمری بھیجی جائیگی اور اسکی منظوری کے بعددوتین دن میں ٹی ایل پی کی تحلیل کیلئے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائرکیاجائیگاتاہم یہ نہ ہوسکا،اس سے لگتاہے کہ وزیرداخلہ نے بغیرقانونی راستہ اختیارکئے یہ اعلان کردیاتھا، انسداددہشتگردی ایکٹ کے تحت ٹی ایل پی 30 دن کے اندروزارت داخلہ کے سامنے ریویوکرسکتی ہے۔

وفاقی وزیراطلاعات ونشریات فوادچودھری نے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ اگرٹی ایل پی کی تحلیل کے حوالے سے سمری کابینہ ارکان کو بھیجی جاسکتی ہے توپھرٹی ایل پی کیخلاف ریفرنس کیوں نہیں دائرہوسکتا۔

وزیراطلاعات نے کہاکہ ٹی ایل پی نے اپنے حقوق کو ایکسرسائزکیاہے تواب اس معاملے سے نمٹنااب وفاقی کابینہ کا نہیں وزارت داخلہ کا کام ہے،فوادچودھری نے زوردیاکہ قانون کے تحت سمری بھیجنے سے پہلے تیس دن کا عرصہ ضروری ہوتاہے۔

حکومت میں ظاہری تبدیلی اس وقت آئی جب اس نے اعلان کیاکہ ٹی ایل پی کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں،یہ بھی شواہدہے کہ جب حکومت نے ٹی ایل پی کے مطالبے پر فرانسیسی سفیرکی بیدخلی کے حوالے سے پیش قراردادپر بحث کیلئے قومی اسمبلی کا فوری اجلاس بلایا۔ یہ بھی سب کچھ ہواجب حکومتی وزراء نے بیانات دیئے کہ حکومت بلیک میل نہیں ہوگی اورخلاف ورزی پر سخت ایکشن لیاجائیگا۔

حکومت کا موقف مضبوط ہوتاگیاخصوصاًجب لاہورمیں قانون نافذکرنیوالے اداروں اورٹی ایل پی کارکنوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئیں۔ تاہم اس کے بعد فوری مذاکرات کرناپڑے اور حکومت نے ٹی ایل پی کے کارکنوں کو رہاکرناشروع کردیا،پلڈاٹ کے صدراحمدبلال محبوب نے کہاکہ ٹی ایل پی کے ردعمل پر حکومت کا اندازہ ٹھیک نہ تھا ،حکومت اس حوالے کمزورنظرآئی کیونکہ انہوں نے جو کہاتھااس پرعمل کرتی نظرنہ آئی ۔

صدرپلڈاٹ نے کہاکہ مذاکرا ت کے دوران یہ فیصلہ ہواکہ حکومت ٹی ایل پی کی تحلیل پر موثرکارروائی نہیں کریگی اورجلد ہی نظرثانی درخواست کو لے لیاجائیگا۔انہوں نے کہاکہ جلد بازی کا کوئی بھی فیصلہ عالمی سطح پر حکومت کیلئے مسائل کھڑے کرسکتاہے جیساکہ یورپی پارلیمنٹ جی ایس پی پلس سٹیٹس پرپاکستان کو ریویوکیلئے کچھ کرسکتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ حکومت نااہل اورحساس معاملات پر اس کوڈیل کرنانہیں آتا،اوریہی وجہ ہے کہ اس کو یورپی یونین اورملک کے اندرسے مسائل کا سامناہے۔

The post TLP پرپابندی، نظرثانی درخواست کیلیے جائزہ کمیٹی قائم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3gTkqd2
via IFTTT

آج یوم مزدور، ملک بھر میں عام تعطیل ہو گی ایکسپریس اردو

 لاہور /  اسلام آباد: ملک بھر میں آج (یکم مئی ) یوم مزدور منایا جا رہا ہے اور ملک بھر میں عام تعطیل ہوگی۔

دنیا بھر کی طرح ملک بھر میں بھی شکاگو میں مزدوروں کی شاندار جہدوجہد اور قربانیوں کو خراج تحسین پیشن کرنے کیلیے آج (یکم مئی ) یوم مزدور منایا جا رہا ہے اور ملک بھر میں عام تعطیل ہوگی۔ دن کی مناسبت سے لاہور سمیت ملک بھر میں حکومتی ایس او پیز پر عملدرآمد کرتے ہوئے سیمینار منعقدہ ہوں گے۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے پیغام میں کہا کہ ہم مزدوروں اور محنت کشوں کی جدو جہد کو سلام پیش کرتے ہیں، حکومت خصوصی طور پر مزدور کی فلاح و بہبود اور تحفظ کے لئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے۔

The post آج یوم مزدور، ملک بھر میں عام تعطیل ہو گی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2QNFSFR
via IFTTT

مسجد الحرام میں موجود عمرہ زائرین پر ابرِ رحمت برس پڑا ... بارش کے دوران خانہ کعبہ کے طواف اور نماز کے مناظر کی ویڈیوز اور تصاویر وائرل، زائرین بارش میں سجدہ ریز ہو کر رب ... مزید

معروف یوٹیوبرزکو چھوٹے سے جرم کی پاداش میں بالی جیسے خوبصورت جزیرے سے ملک بدر کر دیا گیا ... پرینک کرنے والے یوٹیوبرز کے خلاف انڈونیشیا کے جزیرے پر رہنے کے حوالے سے بڑا ... مزید

وزیراعظم عمران خان نے امریکہ میں کہا تھا کہ شاہد خاقان عباسی نے مجھے کہا کہ جیل میں ڈال دو تو میں نے اسے جیل میں ڈال دیا ... خان صاحب نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ راہنماؤں سمیت ... مزید

شہباز شریف جیل سے باہر کیوں آئے،عمران خان سخت غصے میں ہیں ... بہت سارے الیکیٹبلز عمران خان کو چھوڑنے کے لیے تیار کھڑے ہیں اور خان صاحب بھی ٹیکنو کریٹس کو زیادہ پسند کررہے ... مزید

کراچی جس کے ساتھ کھڑا ہو جائے وہ کبھی نہیں ہارتا،مفتاح اسماعیل کو اب کراچی کو نہیں چھوڑنا چاہیے ... عمران خان صاحب نے کراچی کے ساتھ وفا نہیں کی اس لیے کراچی کے عوام نے بھی ... مزید

بشیر میمن کو ریٹائرمنٹ سے چند دن قبل جبری طورپر حکومت نے عہدے سے فارغ کر دیا تھا ... ان کی پینشن اور مراعات روک دی گئی تھیں اور عدالت سے کیس جیتنے کے باوجود بھی ان کا حق انہیں ... مزید

خان صاحب!کراچی سے سیالکوٹ اور نوشہرہ تک عوام آپ سے ناراض ہیں ... کراچی این اے 245 نوشہرہ پی کے 63 گجرانوالہ PP 51 ڈسکہ NA 75 نتائج دیکھ لیں نوشتہ دیوار ہے،سینئر صحافی کامران خان

میں دن میں دو دو مرتبہ وزیراعظم ہاؤس میں گپیں لگانے نہیں جاتا تھا ... میں پولیس والا ہوں بغیر ثبوت کے کوئی کام یا بات نہیں کرتا،ثابت کروں گا کہ کس نے مجھے کیا کرنے کا کہا ... مزید

Thursday, April 29, 2021

سینئرصحافی مرزا خرم بیگ کورونا سے انتقال کرگئے ایکسپریس اردو

 کراچی:  سینئرصحافی مرزاخرم بیگ کورونا وائرس کی وجہ سے گذشتہ روز ( جمعرات کو) انتقال کر گئے، ان کی عمر 49سال تھی، ان کا انتقال مقامی اسپتال میں کووڈ 19کے باعث ہونے والی طبی پیچیدگیوں کی وجہ سے ہوا۔

KB کی عرفیت سے مشہور مرزا خرم بیگ طویل عرصے تک ایکسپریس میڈیا گروپ سے وابستہ رہے۔ ابتدا میں وہ ایکسپریس میڈیا کے میگیزین @ انٹرنیٹ کے ایڈیٹر تھے، پھر گروپ کے اخبار بزنس ٹوڈے کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ بعدازاں 2010ء  میں دی ایکسپریس ٹریبیون کی ٹیم کا حصہ بن گئے۔

ایکسپریس ٹریبیون میں شمولیت سے قبل مرزا خرم بیگ  ڈان نیوز ٹی  وی اور بعدازاں ایک انگریزی چینل سے وابستہ رہے جہاں انھوں  نے اسپورٹس ایڈیٹر کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔ یہاں وہ  اسپورٹس شو کی میزبانی کرتے رہے  اور نیوزاینکر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ مرزا خرم بیگ کے صحافتی کیریئر کا آغاز  پاکستان پریس انٹرنیشنل (پی پی آئی ) سے ہوا۔

2004 سے 2006 تک وہ دی نیوز انٹرنیشنل کے سیٹی ایڈیٹر ( کراچی) بھی رہے۔ مرزا خرم بیگ کے انتقال پر ان کے رفقائے کار نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ ان کی بے وقت موت پر  کمال صدیقی نے، جو 2013 میں  ایکسپریس ٹریبیون میں ان کے ایڈیٹر تھے،  کہا کہ خرم بیگ ایک شاندار انسان تھے۔

وہ انتہائی محنتی اور اپنے کام میں ماہر تھے اور ہمیشہ کام کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ مرزا خرم بیگ نے میڈیا کنسلٹنٹ اور  کونٹینٹ اسٹریٹجسٹ کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ وہ مطالعے سے گہرا شغف رکھتے تھے اور ایک اچھے لکھاری بھی تھے۔ کاروباری اور کھیل کے موضوعات کے علاوہ ٹیکنالوجی پر ان کی تحریریں باقاعدگی سے شایع ہوتی تھیں۔  چار برس تک وہ  ایک  بین الاقوامی آرگنائزیشن Qineqt سے بطور بزنس ایڈیٹر وابستہ رہے۔

پچھلے دو سال سے وہ کے الیکٹرک کے  کونٹینٹ اینڈ کمیونی کیشن ڈپارٹمنٹ میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ انھوں نے پسماندگان میں بیوہ اور تین بیٹے چھوڑے ہیں۔

کراچی یونین آف جرنلسٹس کے سینئر رکن اور ایکسپریس ٹریبون سے وابستہ سینئر صحافی خرم بیگ کے انتقال پر صدر کے یو جے اعجاز احمد، جنرل سیکریٹری عاجز جمالی، نائب صدور لبنیٰ جرار، ناصر شریف، جوائنٹ سیکریٹری طلحہ ہاشمی، رفیق بلوچ ، خازن یاسر محمود، کے یو جے کے سینئر اراکین حسن عباس، سید جان بلوچ، شاہد غزالی، اکبر جعفری اور دیگر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

The post سینئرصحافی مرزا خرم بیگ کورونا سے انتقال کرگئے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3eGQEFV
via IFTTT

این اے 249 : ن لیگ کا نتائج ماننے سے انکار ، 15 پولنگ اسٹیشنز کے فارنزک آڈٹ کا مطالبہ کردیا ... مسلم لیگ ن کو 190 پولنگ اسٹیشنز تک برتری حاصل تھی ، تاخیر سے آنے والے نتائج میں ... مزید

این اے 249 کا ضمنجی انتخاب، ن لیگ کے بعد پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور پی ایس پی نے بھی نتائج مسترد کردیے ... کرپٹ پیپلزپارٹی اور صوبائی الیکشن کمیشن کا کرپشن میں چولی دامن کا ... مزید

فلسطین: صدر محمود عباس نے انتخابات ملتوی کر دیے

یکم مئی سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کا امکان ... پیٹرول کی قیمت میں پونے 6 روپے فی لیٹر تک اضافے کی تجوزی دی گئی ہے جب کہ ڈیزل کی قیمت میں بھی 6 روپے فی لیٹر تک اضافے ... مزید

کورونا وائرس مزید 131 جانیں لے گیا ، 5 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ ... ملک بھر میں مجموعی اموات کی تعداد 17 ہزار 811 ہوگئی ، س وقت ملک بھر میں کورونا کے فعال مریضوں کی تعداد91 ... مزید

مکہ مکرمہ میں صفائی ناقص سامان تیار کرنے والے 6 پاکستانی گرفتار کر لیے گئے ... ملزمان معروف برانڈ کی پیکنگ میں جعلی کلینزنگ پاؤڈر بھر کر فروخت کر رہے تھے، پانچ ہزار ڈبے ... مزید

پولیس نے عوام کو کورونا سے بچاؤ کی ہدایات پر عمل کرانے کے لیے ٹھمکے لگانے شروع کر دیے ... کورونا ایس او پیز پر عمل کرنے کی ہدایات پر مبنی گانے کی ویڈیوسوشل میڈیا پر وائرل ... مزید

یوم الفُرقان غزوۂ بدر ایکسپریس اردو

غزوۂ بدر اسلام کا سب سے پہلا اور عظیم الشان معرکہ ہے۔ بدر میں حضور اکرم ﷺ اپنے تین سو تیرہ جان نثاروں کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔17رمضان المبارک، جمعۃ المبارک کے دن جنگ بدر کی ابتدا ہوئی۔

بدر ایک گاؤں کا نام ہے، جہاں ہر سال میلہ لگتا تھا۔ یہ مقام مدینہ طیبہ سے تقریبا اسّی میل کے فاصلے پر ہے، جہاں پانی کے چند کنویں تھے اور ملک شام سے آنے والے قافلے اسی مقام پر ٹھہرا کرتے تھے۔

حضور سید عالم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ نے جب ہجرتِ مدینہ فرمائی تو قریش نے ہجرت کے ساتھ ہی مدینہ طیبہ پر حملے کی تیاریاں شروع کردی تھیں۔ اسی اثناء میں یہ خبر بھی مکہ معظمہ میں پھیل گئی تھی کہ مسلمان قریش مکہ کے شام سے آنے والے قافلے کو لوٹنے آ رہے ہیں اور اس پر مزید یہ کہ عمرو بن حضرمی کے قتل کا اتفاقیہ واقعہ بھی پیش آگیا، جس نے قریش مکہ کی آتش غضب کو مزید بھڑکا دیا۔

حضور نبی کریم ﷺ کو جب ان حالات کی خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کرامؓ کو جمع کیا اور امر واقعہ کا اظہار فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ نے جواب میں نہایت جان نثارانہ تقریریں کیں۔

حضرت سعد بن عبادہؓ (خزرج کے سردار) نے عرض کیا: ’’یارسول اﷲ ﷺ! خدا کی قسم! اگر آپؐ حکم فرمائیں تو ہم سمندر میں کودنے کو بھی تیار ہیں۔‘‘حضرت مقدادؓ نے کہا: ’’ہم موسیؑ کی امت کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ آپ ﷺ اور آپ کا رب خود جاکر لڑیں، ہم تو یہیں بیٹھے ہوئے ہیں بل کہ ہم آپ ﷺ کے دائیں سے، بائیں سے، سامنے سے اور پیچھے سے لڑیں گے پھر آپ نے اعلان کیا کہ ہم لوگ واقعی آپ ﷺ کے تابعدار ہوں گے، جہاں آپ ﷺ کا پسینہ گرے گا وہاں ہم اپنا خون بہا دیں گے۔ آپ ﷺ بسم اﷲ کیجیے اور جنگ کا حکم فرمائیں، ان شاء اﷲ اسلام ہی غالب آئے گا۔‘‘

حضور سرکارِ دو عالم ﷺ نے جب صحابہ کرامؓ کے اس سرفروشانہ جذبے اور جوش ِایمانی کو دیکھا تو آپؐ کا چہرہ اقدس فرط ِمسرت سے چمک اٹھا۔ پھر آپؐ نے اپنا چہرہ مبارک آسمان کی طرف اٹھا کر ان سب کے لیے بارگاہِ خداوندی میں دعا خیر فرمائی، اور ارشاد فرمایا: ’’خداوند قدوس نے مجھ سے قافلہ و لشکر میں سے کسی ایک پر فتح عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔

بلاشبہ اﷲ تعالی کا وعدہ سچا ہے اور قسم ہے اﷲ کی! میں ابھی سے کفار کے سرداروں کی قتل گاہ دیکھ رہا ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ اس جگہ فلاں کافر قتل ہوگا، اس جگہ فلاں کافر قتل ہوگا۔ آپؐ نے مقتولوں میں سے ہر ایک کی قتل کی جگہ کی نشان دہی فرمادی۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جہاں جہاں حضور سید عالم ﷺ نے فرمایا تھا، وہ کافر وہیں پر قتل ہوا۔ (مشکوۃ ، مدارج النبوت)

حضور سید عالم ﷺ 12رمضان المبارک 2  ہجری کو اپنے تین سو تیرہ جان نثار ساتھیوں کو ساتھ لے کر میدانِ بدر کی طرف روانہ ہوئے۔ جب آپؐ اپنے مختصر سے لشکر کو لے کر مدینہ طیبہ سے تھوڑی دور پہنچے تو آپؐ نے لشکر اسلام کا جائزہ لیا اور جو اس کارواں میں کم سن اور نوعمر تھے، انہیں واپس فرما دیا۔ حضرت عمیر بن ابی وقاصؓ ایک کم سن سپاہی بھی اس میں شامل تھے، انہیں جب واپسی کے لیے کہا گیا تو وہ رو پڑے، حضور اکرم ﷺ نے ان کا یہ جذبہ جہاد و شوقِ شہادت دیکھ کر انہیں شاملِ جہاد رہنے کی اجازت عطا فرما دی۔

لشکر اسلام کی کل تعداد 313 تھی، جس میں سے 60 مہاجرین اور 253 انصار تھے۔ یہ بے نظیر و بے مثال لشکر اسلام 16رمضان المبارک بہ روز جمعرات2 ہجری کو میدان بدر پہنچ گیا۔ ادھر مکہ معظمہ سے قریشِ مکہ بڑے ساز و سامان کے ساتھ نکلے تھے۔ ایک ہزار آدمیوں کا لشکر اور سو سواروں کا دستہ تھا۔ قریش کے امراء سب شریکِ جنگ تھے اور امرائِ قریش ہر روز دس اونٹ ذبح کرتے تھے۔ عتبہ بن ربیعہ جو قریش کا سب سے معزز رئیس تھا، کو اس طاغوتی فوج کا سپہ سالار بنایا گیا تھا۔

17رمضان المبارک کی مبارک شب تھی، تمام مجاہدینِ اسلام آرام فرما رہے تھے جب کہ حضور رحمت عالم ﷺ نے ساری رات عبادت و ریاضت اور دعا میں گزاری۔ صبح کو نماز فجر کے لیے تمام سرفروشان اسلام مجاہدین کو بیدار کیا اور نمازِ فجر کی ادائی کے بعد قرآن مجید کی آیاتِ جہاد تلاوت فرما کر ایسا ولولہ انگیز خطاب فرمایا کہ مجاہدینِ اسلام کی رگوں میں خون کا ہر قطرہ جوش و جذبے کا سمندر بن کر طوفانی موجیں مارنے لگا اور مجاہدین جلد از جلد جنگ کے لیے تیار ہونے لگے۔

حضور نبی کریم ﷺ کے دست اقدس میں ایک تیر تھا، اس کے اشارے سے آپ مجاہدین کی صفیں قائم فرما رہے تھے۔ مہاجرین کا علم حضرت مصعب بن عمیرؓ کو، خزرج کے علم بردار حباب بن منذرؓ اور اوس کے علم بردار سعد بن معاذؓ مقرر فرمائے۔ چناںچہ لشکر اسلام کی صف آرائی ہوئی اور مشرکین مکہ بھی مقابل میں صفیں باندھے کھڑے تھے۔ حضور سید عالم ﷺ نے میدانِ بدر میں اپنے جان نثار سپاہیوں کو دیکھا اور ان کی قلیل تعداد اور بے سرو سامانی کو بھی دیکھا تو بارگاہِ خداوندی میں یوں التجا کی: ’’اے اﷲ! تُونے مجھ سے جو وعدہ فرمایا ہے، وہ پورا فرما۔ اے اﷲ! اگر آج یہ مٹھی بھر نفوس ہلاک ہوگئے تو پھر قیامت تک تمام روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔‘‘ (صحیح بخاری، مسلم)

حضور سرور دوعالم ﷺ کچھ اس طرح خشوع و خضوع سے دعا کر رہے تھے کہ آپ ؓ کی چادر مبارک آپؐ کے دوش اقدس سے گرگئی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے چادر مبارک اٹھا کر آپؐ کے کاندھے مبارک پر ڈال دی اور عرض کی یارسول اﷲ ﷺ! اﷲ تعالی نے جو فتح عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، وہ ضرور پورا فرمائے گا۔ (البدایہ و النہایہ)

دستور عرب کے مطابق جب جنگ کی ابتداء ہوئی تو مشرکین میں سے عتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور اپنے بیٹے ولید بن عتبہ کے ساتھ میدانِ کارِزار میں نکلا۔ لشکر اسلام میں سے حضرت امیر حمزہ، حضرت علی المرتضی اور حضرت عبیدہ رضی اﷲ عنہم، عتبہ، ولید اور شیبہ کے مقابل ہوئے اور یوں دست بہ دست جنگ شروع ہوئی تو حضرت امیر حمزہؓ نے عتبہ بن ربیعہ کو واصل جہنم کر دیا جب کہ حضرت علیؓ نے ولید بن عتبہ کو جہنم رسید کیا، حضرت عبیدہؓ شیبہ کے ہاتھوں زخمی ہوگئے، یہ دیکھ کر حضرت علی المرتضیؓ آگے بڑھے اور اپنی ضربِ کے ایک ہی وار سے شیبہ بن ربیعہ کو بھی جہنم رسید کر دیا۔

تینوں مشرکین سرداروں کی لاشیں زمین پر ڈھیر ہوگئیں۔ آنِ واحد میں مشرکین کے تین سورماؤں کے قتل سے ہل چل مچ گئی، کیوں کہ قریش کے جب یہ تینوں سرداروں کو اسلام کے شاہینوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا تو اس اندیشے سے کہ کفار حوصلہ نہ ہار دیں، ابوجہل نے بلند آواز سے یہ نعرہ لگایا: ’’ہمارا مددگار عزیٰ ہے اور تمھارے پاس کوئی عزیٰ نہیں جو تمھاری مدد کرے۔‘‘

حضور سید عالم ﷺ نے فرزندانِ اسلام کو حکم دیا کہ اس کے جواب میں یہ نعرہ بلند کریں۔

’’اﷲ ہمارا مددگار ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں ہے۔ ہمارے مقتول جنّت میں ہیں اور تمہارے مقتول جہنم کا ایندھن بنیں گے۔‘‘

اس کے بعد پھر عام لڑائی شروع ہوگئی تو حضور اکرم ﷺ نے باہر نکل کر ایک مٹھی کنکروں کی اٹھائی اور لشکر کفار کی طرف پھینکی اور فر مایا: ’’شاھت الوجوہ‘‘ یعنی بُرے ہوگئے یہ چہرے۔ چناںچہ کوئی کافر ایسا نہیں بچا جس کی آنکھوں اور ناک میں ان سنگ ریزوں سے کوئی چیز نہ پہنچی ہو۔ یہ سنگ ریزے ہر ایک کافر جنگ جُو کو لگے اور ان کی قوت و طاقت بالکل ٹوٹ گئی اور لشکر کفار میں بھگدڑ مچ گئی۔

قرآن پاک میں اﷲ تبارک و تعالی نے ان کنکریوں کا مارنا یوں بیان فرمایا ہے، مفہوم: ’’اور (اے حبیبؐ) آپ نے (حقیقتاً وہ خاک) نہیں پھینکی، جس وقت (بہ ظاہر) آپ نے (خاک) پھینکی تھی، لیکن وہ (خاک) اﷲ تعالی نے پھینکی۔‘‘ (الانفال)

جب دست بہ دست عام لڑائی شروع ہوگئی تو لشکر اسلام کا ہر سپاہی پورے جوش و جذبے کے ساتھ لڑ رہا تھا اور سر دھڑ کی بازی لگا رہا تھا۔ اسلام کا ہر سپاہی کفار کے بیسیوں سپاہیوں پر بھاری تھا اور ان کو جہنّم رسید کر رہا تھا۔ ایسے ہی جاںباز و جان نثار اپنی شجاعت و بہادری اور جذبہ جان نثاری کی وجہ سے اپنے ملک و ملت اور دین پر پروانوں کی طرح اپنی قیمتی جان قربان کرکے اﷲ تعالی کے دربار میں سرخ رُو ہوتے ہیں۔

میدانِ بدر میں لشکر اسلام کے پاسبان و محافظ اور جاں باز و جان نثار سپاہی کچھ اس بے جگری سے لڑے کہ تھوڑے ہی وقت میں کفار کی کثرت کو کچل کر واصل جہنّم کر دیا۔ حضور نبی کریم ﷺ کی مستجاب دعاؤں کے صدقے خدائے رب ذوالجلال کی تائید و نصرت کی بہ دولت کفار کو ایسی شکست فاش ہوئی کہ جس کی مثال تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔

کفار کے تقریبا ستّر آدمی قتل ہوئے اور تقریبا اتنے ہی افراد کو قیدی بنا دیا گیا اور کفار کے وہ سردار جو شجاعت و بہادری میں بے مثال سمجھے جاتے تھے اور جن پر کفار مکہ کو بڑا ناز تھا، وہ سب کے سب مسلمان مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوکر جہنّم کا ایندھن بن گئے اور جو کافر زندہ رہ گئے، وہ میدان چھوڑ کر ایسے بھاگے کہ پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھا اور سیدھا مکہ میں اپنے گھروں میں جا کر دم لیا۔ لشکر اسلام میں سے صرف 14 خوش نصیب سرفروش مجاہدوں نے شہادت کا عظیم منصب حاصل کیا اور جنت الفردوس میں داخل ہوگئے، جن میں سے چھے مہاجرین اور آٹھ انصار تھے۔

مورخین اس معرکہ کو غزوۂ بدرالکبری اور غزوۂ بدرالعظمی کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن اﷲ تبارک و تعالی نے اپنے لا ریب اور لافانی کلام قرآنِ مجید میں اس معرکہ کو یوم الفرقان (یعنی حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے دن) کے نام سے تعبیر فرمایا ہے، یعنی یہ وہ دن ہے جب حق و باطل، خیر و شر اور کفر و اسلام کے درمیان فرق آشکار ہوگیا اور اقوامِ عالم کو بھی پتا چل گیا کہ حق کا علم بردار کون ہے اور باطل کا نقیب کون۔

The post یوم الفُرقان غزوۂ بدر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3t5NiBh
via IFTTT

غزوہ بدر ایکسپریس اردو

17 رمضان المبارک سن 2 ہجری مدینہ منورہ سے80 میل کے فاصلے پر واقع بدر نامی مقام پر مسلمانوں اور قریش مکہ کے درمیان پہلا غزوہ ہوا۔

حضور نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرامؓ کے ہم راہ جب مدینہ ہجرت فرمائی تو قریش نے ہجرت کے ساتھ ہی مدینہ منورہ پر حملے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔  ہجرت کے محض دو سال بعد ہی انہوں نے مدینہ کی چراگاہ پر حملہ کیا اور لوٹ مار کر کے فرار ہوگئے۔

اسی اثناء میں نبی کریم ﷺ کو قریش کے تجارتی قافلے کی خبر ملی جو شام سے واپس آ رہا تھا۔ آپؐ اپنے اصحابؓ کے ساتھ اس تجارتی قافلے کو تلاش کرنے نکلے، جنگ کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن قریش اس خبر کو سنتے ہی اپنے قافلے کی حفاظت کے لیے امڈ پڑے اور یوں مسلمانوں پر جنگ مسلط کر دی گئی۔

تاریخی روایات کے مطابق مسلمانوں کی کل تعداد تین سو تیرہ تھی اور ساز و سامان میں 60 اونٹ، 60 زرہیں اور چند تلواریں تھیں۔ جب کہ دشمن کی تعداد ایک ہزار نفوس پر مشتمل تھی اور وہ ہر طرح سے لیس تھے۔ اُن کے پاس 700 زرہیں، 70 گھوڑے، لاتعداد اونٹ، بے شمار تلواریں اور نیزے تھے۔ دنیاوی سازوسامان کی قلّت کے باوجود مسلمانوں نے ایک ہی دن میں معرکہ جیت لیا۔ کافروں کے نام ور70 سردار مارے گئے اور اتنے ہی گرفتار ہوئے۔

غزوۂ بدر وہ تاریخ ساز اور فیصلہ کن لڑائی تھی، جس میں ملّت اسلامیہ کی تقدیر اور دعوت حق کے مستقبل کا فیصلہ ہوا۔ اس کے بعد آج تک مسلمانوں کو جتنی فتوحات نصیب ہوئیں وہ سب اسی ’’ فتح مبین‘‘ کی مرہونِ منت تھیں جو بدر کے میدان میں اس مٹھی بھر جماعت کو حاصل ہوئی۔

اﷲ رب العزت نے قرآن مجید میں اسے ’’یوم الفرقان‘‘ حق و باطل میں فرق کا دن قرار دیا ہے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح نے واضح کر دیا کہ اسلام حق ہے اور حق فتح یاب ہوتا ہے، کفر و شرک باطل ہے اور باطل مٹ جانے والا ہے۔ اس فیصلہ کن فتح نے اسلام اور مسلمانوں کو عرب میں ایک طاقت کے طور پر متعارف کروایا اور اس جنگ کے بہت ہی دُور رس اور دیرپا اثرات مرتب ہوئے، جنہوں نے اسلامی ریاست کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا۔

معرکہ بدر کے اثرات میں سے ایک امر مسلمانوں کی خود اعتمادی میں اضافہ ہونا ہے۔ وہ مسلمان جو تیرہ سال تک مکہ میں کفار کے ہر طرح کے ظلم کا سامنا کرتے رہے، ایمان لانے کے جرم میں جن کی زندگی اجیرن کر دی گئی، ان پر آبائی سرزمین تنگ کر دی گئی اور انہیں ہجرت پر مجبور کیا گیا۔ ان حالات میں اہلِ مکہ کے خلاف ناصرف جنگ لڑنا بل کہ اس میں فتح یاب بھی ہونا مسلمانوں کے لیے خوشی، مسرت اور اعتماد کا وہ ذریعہ بنا جو اور کسی طریقے سے کبھی حاصل نہ ہو سکتا تھا۔ اﷲ کی رحمت سے وقت نے یوں پلٹا کھایا کہ مظلوم مسلمان فاتح بنے اور جیت کے احساس کے ساتھ رب کے سامنے شُکرگزار ہوئے۔

ظاہری حالات کے مطابق مسلمانوں کی ناکامی یقینی تھی۔ محض تین سو تیرہ افراد، جن کے پاس ہتھیار بھی پورے نہیں تھے اور مقابلہ اس لشکرِ جرار سے تھا، جو سر سے پاؤں تک لوہے کے حفاظتی لباس میں ڈوبا ہوا تھا اور ان کے پاس ہتھیاروں اور گھوڑوں کی کوئی کمی نہ تھی، کھانے کے لیے ایک دن نوّے اور دوسرے دن سو اونٹ ذبح ہوتے تھے۔ ان حالات میں قرآن مجید کے مطابق یہ محض حق کی قوت تھی، جس نے مسلمانوں کو فتح سے ہم کنار کیا۔

تاقیامت قائم رہنے والی اس امت میں شہدائے بدر وہ خوش قسمت افراد ہیں، جن جیسا نصیب پانے کی خواہش ہی کی جاتی رہے گی۔ بعض روایات کے مفہوم میں آتا ہے کہ یہ لوگ جب جنّت میں داخل کیے گئے تو وہاں کی نعمتیں دیکھ کر حیران ہوگئے اور اﷲ تعالیٰ سے عرض گزار ہوئے کہ ہمیں تھوڑی دیر کو دنیا میں بھیج دے تاکہ ہم پیچھے رہ جانے والوں کو تیری جنّت کے بارے میں بتا سکیں۔

اﷲ رب العزت نے جواب دیا کہ یہ میری سنّت کے خلاف ہے تو عرض کیا: اے رب العالمین! ہمارا پیغام کسی طرح ان تک پہنچا دے۔ چناں چہ یہ آیات نازل ہوئیں جن میں فرمایا گیا کہ جو لوگ اﷲ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مردہ مت کہو، وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں سے رزق پاتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ نے انہیں دیا ہے، اس پر خوش و خرم اور مطمئن ہیں اور پیچھے رہ جانے والوں کو خوش خبری دے رہے ہیں کہ ان کے لیے نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ کوئی غم۔

تاقیامت اہل ایمان اصحابِ بدرؓ کو قدر اور رشک کی نگاہ سے دیکھتے اور ان کے مقدر کی تمنا کرتے رہیں گے۔ اس عظیم معرکے کے ہر پہلو میں ہمارے لیے اسباق پوشیدہ ہیں اور ہم انہی اسباق و عوامل کو اپنا کر ہی دنیا اور آخرت میں کام یاب ہو سکتے ہیں۔

The post غزوہ بدر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3gUKowP
via IFTTT

آبروئے عفت و عصمت:  سیّدہ عائشہ صدیقہؓ ایکسپریس اردو

سترہ رمضان المبارک حضور ختمی مرتبت سیّدالمرسلین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہؓ کا یوم وصال ہے جسے حضورؐ پیار سے حمیرا کے لقب سے یاد فرمایا کرتے تھے۔ یہی وہ پاک باز اور پاک نگاہ ہستی ہے جس کے نام کے ساتھ عفت و عصمت، تقدس و تحرم اور پاک نگاہی و پاک دامنی کی آبرو وابستہ ہے۔

یہی وہ مہتمم بالشان شخصیت ہے جس کے والد ماجد کو سرکار رسالت مآبؐ کی حیات طیبہ میں ہی سترہ نمازیں آپؐ کے مصلّے پر کھڑے ہو کر پڑھانے کا اعزاز حاصل ہے۔ آقائے گیتی پناہؐ کی یہی وہ بلند مرتبہ زوجہ محترمہ ہے جس کے حجرہ مبارکہ میں دیگر ازواج مطہراتؓ سے مشورے کے بعد حضور ؐ وصال سے چند یوم قبل اپنی حیات عارضی کے لمحے گزار کر حیات جاوداں کی طرف عازم سفر ہوئے اور خالق حقیقی سے جا ملے۔

یہی وہ حضورؐ کی محبوب ترین زوجہ ہے جب شدید عالم علالت میں عبدالرحمن بن ابی بکر ؓ بارگاہ رسالتؐ میں حاضر ہوئے تو ان کے ہاتھ میں مسواک دیکھ کر آپ نے مسواک کرنے کی تمنا کا اظہار فرمایا تو سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ ؓ نے پہلے مسواک خود چبا کر نرم کرنے کے بعد اپنے شوہر محترم ؐ کو پیش کی۔ یہ لامثال سعادت بھی حضور ؐ کی انہی زوجہ محترمہؓ کو حاصل ہے کہ بہ وقت وصال رحمۃ للعالمینؐ کا سر اقدس ان کی آغوش میں تھا۔ حتیٰ کہ رفعت و عظمت حجر ہ عائشہؓ کے کیا کہنے کہ وہ مدفن رسالتؐ بھی بن گیا۔

اور طلوع آفتاب قیامت تک یہاں ناصرف غلامان محمد عربیؐ کی جبین ارادت جھکتی رہے گی بل کہ صبح و مسا ان گنت ملائکہ کا نزول رہے گا۔ انہی زوجہ محترمہؓ کو پیدائشی مسلمان ہونے کا شرف بھی حاصل ہے کیوں کہ معتبر روایات میں آیا ہے کہ جب سیّدہ عائشہ ؓ نے آنکھ کھولی تو اپنے والدین کو مسلمان پایا۔ والد ماجد بھی ناصرف مسلمان تھے بل کہ قربت بارگاہ رسالت مآبؐ میں غایتوں کی غایت اولیٰ پر تھے۔ والدہ ماجدہ ام رومانؓ بھی ممتاز صحابیات میں شامل تھیں۔ ہمشیرہ حضرت اسماءؓ اور بھائی محمد بن ابوبکرؓ بھی دولت ایمان سے بہرہ یاب تھے۔

معلوم ہوتا ہے کہ ان ایمان افروز سعادتوں سے مشرف ہونے کی وجہ سے عہد طفولیت سے ہی آپؓ پر کفر و شرک کا سایہ تک نہیں پڑا تھا۔ تمام ازواج مطہراتؓ میں مجرد آپؓ کو یہ سعادت اور انفرادیت حاصل ہے کہ حضور سرور کونین ؐ کو نکاح سے قبل ہی حضرت جبریل امینؑ کے توسط سے حضرت عائشہ ؓ کے حبالہ زوجیت کی اطلاع دے دی گئی تھی۔ چناچہ بخاری شریف باب مناقب عائشہؓ میں اس کی صراحت آئی ہے کہ عالم رویاء میں کوئی فرشتہ ریشم میں ملبوس آپؐ کو کوئی چیز پیش کر رہا ہے۔

حضور ؐ نے وہ کھول کر دیکھا تو سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓ تھیں۔ روایات میں آتا ہے کہ حضورؐ کی سیّدہ عائشہ ؓ کے ساتھ غایت محبت کا ادراک دیگر ازواج کو بھی تھا۔ اور اس احساس کا عملی اظہار حضورؐ کے آخری ایام میں حجرہ عائشہ ؓ کا انتخاب تھا۔ جس کی اجازت دیگر امہات المومنینؓ نے بہ رضا و رغبت دی تھی۔ انہی زوجہ محترمہؓ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ کنج عزلت میں رفاقت نبوتؐ میسر ہوتی تو متعدد مرتبہ وحی کا نزول بھی ہوتا۔ مستدرک الحاکم میں آپؓ کی یہ فضلیت بھی رقم ہے کہ آپؓ نے جبریل امینؑ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ آپؓ تمام ازواج رسولؐ میں اس اعتبار سے بھی ممیز تھیں کہ آپؓ کنواری تھیں۔

اور سب سے بڑا اعزاز جو تنہا آپؓ کو حاصل ہے وہ کلام اﷲ کا آپؓ کی تقدیس و تحریم پر گواہ ہونا ہے اور صرف ایک دو آیات نہیں سورۃ نُور کا پورا ایک رکوع آپؓ کی شان عصمت کے سلسلے میں نازل ہوا۔ اس کا اجمالی پس منظر یہ ہے کہ جب معاندین اسلام کو معرکہ ہائے حق و باطل میں پے در پے ہزیمت اٹھانا پڑی اور تخت و تاج و کفر کی دھجیاں ہوائے بسیط میں بکھرنے لگیں تو منافقین نے حضورؐ کی ایسی محبوب ترین زوجہ کی ردائے عصمت کو اپنے شر کے ناپاک چھینٹوں سے آلودہ کرنے کی جسارت کی جسے آپؐ احساس محبت سے لبریز لہجے میں حمیرا کہہ کر پکارا کرتے تھے۔

کتب سیرہ میں لفظی اختلاف سے یہ واقعہ درج ہے: ( مفہوم) کہ غزوہ بنو المصطلق میں رفاقت رسولؐ معظمؐ کے لیے قرعہ فال سیّدہ عائشہؓ کے نام نکلا۔ واپسی پر آپؓ فطری تقاضے کے لیے پڑاؤ سے دور نکلیں تو ان کے گلے کا ہار جو ان کی ہمشیرہ نے تحفتاً دیا تھا، گم ہوگیا۔

اس اثناء میں لشکر اسلام آگے نکل گیا آپ ایک عجیب عالم تذبذب میں وہیں لیٹ گئیں اور نیند غالب آگئی۔ حضور ؐ کے صحابی صفوان بن معطلؓ سب سے پیچھے رہ کر جیش اسلام کی گری پڑی چیزیں تلاش کرتے وہاں پہنچ گئے آپؓ نے زوجہ رسولؐ کو محو استراحت دیکھا تو انا ﷲ و انا علیہ راجعون پڑھا تاآنکہ سیّدہ بیدار ہوگئیں، صفوان نے سواری آپؓ کے قریب کھڑی کی تو آپ اس پر سوار ہوگئیں اور لشکر کی اگلی قیام گاہ تک پہنچ گئیں۔ اب ذریت طاغوت کا دجل و فریب اور عیارانہ طرز عمل دیکھیے کہ ان کے ہاتھ ایسا شر پسندانہ ہتھیار آگیا جس نے مزاج نبوتؐ پر زبردست گراں باری پیدا کر دی۔

مگر امام الانبیاءؐ نے اپنی بے مثال فطرت سلیمہ اور رفیع الشان شکیبائی کا عدیم لانظیر مظاہرہ فرمایا اور ناقابل بیان تکلیف کے باوجود جس ضبط نفس، بے پایاں عزیمت و حوصلے اور کمال قوت برداشت کا مظاہرہ فرمایا وہ یقینا دانائے سبل، ختم الرسل اور مولائے کُل ﷺ کے ارتفاع تدبّر کا ہی کمال تھا اس حد درجہ حساس معاملے سے عہدہ برآ ہونا خصائص آدمیت کی معراج پر ہونے کے باوجود کسی عام آدمی کے بس کا روگ نہیں تھا۔

آپؐ نے اپنی محبوب زوجہؓ کی انتہائی تشویش اور اپنے انتہائے تذبذب کو کمال بردباری سے برداشت کرتے ہوئے معاملہ وحی حق پر چھوڑ دیا۔ جب بے قراری نبوتؐ حد سے بڑھنے لگی تو سورۃ نور کی آیات کا نزول ہوا جس میں خود خالق ارض و سما نے سیدہ عائشہؓ کی طہارت و عصمت کا ایسا اعلان فرمایا جو حقیقت میں شر پسندوں کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ تھا۔ اﷲ رب العزت کی گواہی کے نزول کے ساتھ ہی حضور ؐ کے رخ انور پر مسرت و ابتہاج کی لہر دوڑ گئی اور لب مصطفی ؐ پر تسکین و طمانیت کا ایک ہالہ سا بن گیا۔ اب قیامت تک ان آیات مقدسہ کی تلاوت ہوتی رہے گی اور رفعت و مقام عائشہؓ آشکار ہوتی رہے گی۔

تیری عصمت کی گواہی دی کلام اﷲ نے

تیری عزت کے نشاں ہیں گردش ایام پر

جس کو بخشا تھا پیمبر نے حمیرا کا لقب

مہر و ماہ کی رونقیں قربان اس کے نام پر

جس پہ باندھا تھا خدا کے دشمنوں نے اتہام

آج تک انسان شرمندہ ہے اس الزام پر

سیّدہ عائشہ صدیقہؓ طبعا ً فیاض فطرت تھیں ایسا کیوں نہ ہوتا آپ اس عظیم باپ کی لخت جگر تھیں جس نے اسلام کے دور ابتلاء میں گھر کی کل کائنات بانی اسلام حضور سید المرسلینؐ کے قدموں پر نچھاور کر دی۔ آپؓ اس ذی شان ہستیؐ کی اہلیہ تھیں جو سائل کے دست طلب دراز کرنے پر ریوڑ کے ریوڑ عطا کر دیتا اور خود فاقہ کشی اختیار کرتا۔ چناں چہ فراخ دلی اور وسعت قلبی کے وہی اثرات آپؓ کی فطرت مطہرہ میں پائے جاتے تھے۔ بالخصوص رمضان المبارک میں تو آپ کا دست فیض اور بھی کشادہ ہو جاتا۔ سیّدہ عائشہ زہد و اتقاء، محبت و خشیت الٰہی سے معمور تھیں۔

فقہی امور میں بڑے نام ور اور جلیل القدر صحابہ کرام آپؓ سے مشورہ و راہ نمائی حاصل کرتے۔ اسی لیے سیرت نگار اس بات پر متفق ہیں کہ علمی کمالات، دینی اور خانگی امور کی تشریحات اور حضور سرور کائناتؐ کی تعلیمات کی اشاعت میں تمام ازواج مطہراتؓ میں سیّدہ عائشہ ؓ کا کوئی اور حریف نہیں ہو سکتا۔ آپؐ نے سترہ رمضان المبارک داعی اجل کو لبیک کہا اور جنّت البقیع میں آسودہ ہوئیں۔

The post آبروئے عفت و عصمت:  سیّدہ عائشہ صدیقہؓ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3vuBaeL
via IFTTT

چراغِ حرم نبوی ﷺ: امُ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ ایکسپریس اردو

ام المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ وہ خوش قسمت ترین خاتون ہیں کہ جنہیں حضور نبی کریم خاتم الانبیاء ﷺ کی زوجہ محترمہ اور ’’ام المومنین‘‘ ہونے کا شرف اور ازواج مطہراتؓ میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔

قرآن و حدیث اور تاریخ کے اوراق آپؓ کے فضائل و مناقب سے روشن ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ پر اﷲ تعالیٰ کا یہ خاص انعام ہے کہ انہوں نے کبھی کفر و شرک کی آواز تک نہیں سنی، چناں چہ وہ خود ہی ارشاد فرماتی ہیں:

’’جب سے میں نے اپنے والد کو پہچانا ان کو مسلمان پایا۔‘‘ (بخاری)

حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ سے شادی سے قبل حضور ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں کوئی چیز لپیٹ کر آپؐ کے سامنے پیش کر رہا ہے۔ آپؐ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: آپ ﷺ کی بیوی ہے۔ آپؐ نے کھول کہ دیکھا تو حضرت عائشہؓ ہیں۔ (از صحیح بخاری مناقب عائشہؓ)

امُ المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ خود فرماتی ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے نو باتیں ایسی عطا فرمائی ہیں جو دنیا میں میرے سوا کسی کو عطا نہیں ہوئیں۔

(1) خواب میں حضور ﷺ کے سامنے فرشتے نے میری تصویر پیش کی۔

(2) جب میں سات برس کی تھی تو آپ ﷺ نے مجھ سے نکاح کیا۔

(3) نو برس کی عمر میں میری رخصتی ہوئی۔

(4) میرے سوا آپ ﷺ کی خدمت میں کوئی اور کنواری بیوی نہ تھی۔

(5) حضور ﷺ جب میرے پاس ہوتے تب بھی وحی آتی تھی۔

(6) میں آپ ﷺ کی محبوب ترین بیوی تھی۔

(7) میری شان میں قرآنی آیات نازل ہوئیں۔

(8) میں نے حضرت جبرائیلؑ کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

(9) آپؐ نے میری گود میں سر مبارک رکھے ہوئے دنیا سے پردہ فرمایا۔ (مستدرک حاکم)

آپؐ کو حضرت عائشہ صدیقہؓ سے بہت محبّت تھی، ایک مرتبہ حضرت عمرو ابن عاصؓ نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ آپؐ دنیا میں سب سے زیادہ کس کو محبوب رکھتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا کہ عائشہؓ کو۔ عرض کیا گیا کہ اے اﷲ کے رسول ﷺ! مردوں کی نسبت سوال ہے! آپؐ نے فرمایا کہ عائشہ کے والد (ابُوبکر صدیقؓ) کو۔ (صحیح بخاری)

آپؓ کا نام عائشہ، لقب صدیقہ اور حمیرا، خطاب ام المؤمنین اور کنیت اُم عبداﷲ ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کا ’’کاشانہ نبوتؐ‘‘ میں حرم نبوی ﷺ کی حیثیت سے داخل ہونے کے بعد قرآن مجید کا ایک بڑا حصہ نازل ہوا۔ آپؓ کو کم و بیش دس سال حضور اکرم ﷺ کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپؓ خود صاحبِ قرآن ﷺ سے قرآن سنتیں، جس آیت کا مطلب سمجھ میں نہ آتا، اس کا مفہوم سمجھ لیتیں۔ آپؓ نے کلامِ الٰہی کی معرفت، ارشاداتِ رسالت ﷺ کا علم، رموز و اسرار دین کی عظیم الشان واقفیت حاصل کی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ علم دینیہ کے علاوہ تاریخ، ادب اور طب کے علوم کی بھی ماہر تھیں۔ اﷲ رب العزت نے آپؓ کی ذاتِ اقدس میں علم انساب، شاعری، علوم دینیہ، ادب و تاریخ اور طب جیسے علوم جمع فرما دیے تھے۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ کا سات سال کی عمر میں حضورؐ سے نکاح ہوا، اور نو برس کی عمر میں رخصتی ہوئی۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ جس گھر میں دلہن بن کر آئی تھیں، وہ کوئی عالی شان اور بلند و بالا عمارت پر مشتمل نہ تھا، مسجد نبویؐ کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے متعدد حجرے تھے ان ہی میں ایک حجرہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کا مسکن تھا۔ یہ حجرہ مسجد کی شرقی جانب تھا، اس کا دروازہ مسجد کے اندر کھلتا تھا، گھر یا حجرے کا صحن ہی مسجد نبوی ﷺ کا صحن تھا۔ حضور ﷺ اسی دروازے سے مسجد میں تشریف لے جاتے، جب آپ ﷺ مسجد میں اعتکاف کرتے تو سر مبارک حجرے کے اندر کر دیتے، حضرت عائشہؓ اسی جگہ سے بالوں کو کنگھا کردیتی۔ (صحیح بخاری بہ حوالہ سیّدہ عائشہؓ)

حجرے کی وسعت چھے، سات ہاتھ سے زیادہ نہ تھی، دیواریں مٹی کی تھیں، چھت کو کھجور کی ٹہنیوں سے ڈھانک کر اوپر کمبل ڈال دیا گیا تھا کہ بارش سے محفوظ رہے۔ بلندی اتنی تھی کہ آدمی کھڑا ہوتا تو ہاتھ چھت کو لگ جاتا۔ گھر کی کل کائنات ایک چارپائی، ایک چٹائی، ایک بستر، ایک تکیہ (جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی) آٹا اور کھجوریں رکھنے کے لیے دو برتن تھے۔ پانی کے لیے ایک بڑا برتن اور پانی پینے کے لیے ایک پیالا تھا۔ کبھی کبھی رات کو چراغ جلانا بھی استطاعت سے باہر تھا، چالیس، چالیس راتیں گزر جاتیں اور گھر میں چراغ نہیں جلتا تھا۔ (از مسند طیالسی)

ام المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کو حضور ﷺ سے ناصرف محبّت تھی بل کہ شغف و عشق تھا۔ ام المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ، حضور ﷺ کی اطاعت و فرماں برداری اور آپ ﷺ کی مسرت و رضا کے حصول میں شب و روز کوشاں رہتیں۔ اگر ذرا بھی آپ ﷺکے چہرے پر حزن و ملال کا اثر نظر آتا تو بے قرار ہوجاتیں۔ حضور ﷺ کے قرابت داروں کا اتنا خیال تھا کہ ان کی کوئی بات نہیں ٹالتی تھیں۔

ام المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ نے بچپن سے جوانی تک کا زمانہ اس ذاتِ اقدس ﷺ کی صحبت میں بسر کیا جو دنیا میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے آئی تھی۔ چناں چہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کا اخلاق نہایت ہی بلند تھا، آپؓ نہایت سنجیدہ، فیاض، قانع، عبادت گزار اور رحم دل تھیں۔ آپؓ زہد و قناعت کی وجہ سے صرف ایک جوڑا پاس رکھتی تھیں، اسی کو دھو دھو کر پہنتی تھیں۔ آپؓ عام مسلمانوں کے بچوں کو اور زیادہ تر یتیموں کی پرورش کیا کرتی تھیں، ان کی تعلیم و تربیّت کرتی اور ان کی شادی بیاہ کے فرائض انجام دیتی تھیں۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ عبادت الٰہی میں اکثر مصروف رہا کرتی تھیں، دیگر نمازوں کے ساتھ نماز تہجّد کا بھی اہتمام کیا کرتی تھیں۔ حضور ﷺ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ عورتوں کے لیے حج ہی جہاد ہے، اس لیے حضرت عائشہ صدیقہؓ حج کی بہت زیادہ پابندی فرمایا کرتی تھیں اور تقریباً ہر سال حج کے لیے تشریف لے جاتیں۔ (بخاری شریف)

حج کے بعد عمرہ بھی ادا کرتیں، جب حضور نبی کریم ﷺ اعتکاف فرماتے تو حضرت عائشہ صدیقہؓ بھی اتنے ہی دن صحن میں خیمہ نصب کروا کر اعتکاف میں گزارتیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی ذات اقدس میں قناعت کی صفت بہ درجہ اتم موجود تھی۔ آپؓ کی تقریباً ساری زندگی ہی عسرت و تنگی اور فقر و فاقہ میں گزر گئی۔ حضرت عائشہؓ خود فرماتی ہیں کہ ہم پر پورا مہینہ گزر جاتا اور گھر میں آگ تک نہ جلاتے، ہماری غذا پانی اور چھوہارے ہوتے تھے مگر کہیں سے تھوڑا سا گوشت آ جاتا تو ہم کھالیتے۔ (بخاری شریف)

ام المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کے اخلاق کا سب سے ممتاز جوہر ان کی فیاضی اور کشادہ دستی تھی۔ جو موجود ہوتا سائل کی نذر کر دیتیں۔

حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کی صفائی میں سترہ قرآنی آیات نازل ہوئیں۔ اسی طرح غزوہ ذات الرقالح کے موقع پر بھی حضرت عائشہ صدیقہؓ کی وجہ سے تیمم کا قرآنی حکم نازل ہوا۔ ام المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کا امت مسلمہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ ان کے مبارک توسط سے امت کو دین کا بڑا حصہ نصیب ہوا، صحابہ کرام ؓ کی ربانی جماعت کے وہ قابل فخر و ناز افراد جنھوں نے حضور اکرم ﷺ کے ارشادات و فرمودات اور آپؐ کی قدوسی حرکات و سکنات کثرت سے نقل کیں، ان میں حضرت سیدہ عائشہؓ کا چھٹا نمبر ہے۔ حضرت عائشہؓ سے حضور اکرم ﷺ کی دو ہزار دو سو دس حدیثیں مروی ہیں۔

حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ ہم اصحابِ رسول ﷺ کو کوئی ایسی مشکل کبھی پیش نہیں آئی جس کو ہم حضرت عائشہؓ سے پوچھا ہو اور ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی معلومات ہم کو نہ ملی ہوں۔

امام زہریؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عالم تھیں، بڑے بڑے صحابہؓ ان سے پوچھا کرتے تھے۔

58 ھ میں حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کی عمر67 سال کی ہوچکی تھی۔ اسی سال ہی رمضان المبارک میں آپؓ بیمار ہوئیں، چند روز علیل رہیں اور17 رمضان المبارک کی رات، رحمت دو عالم ﷺ کی حرم اور تمام مسلمانوں کی ماں حضرت عائشہ صدیقہؓ اپنے فرزندوں پر بے شمار احسانات کی بارش فرما کر رخصت ہوگئیں۔ سیّدنا حضرت ابوہریرہؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپؓ کو وصیت کے مطابق جنّت البقیع میں سپرد خاک کیا گیا۔

The post چراغِ حرم نبوی ﷺ: امُ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہؓ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3u7jUfs
via IFTTT

شاہین آفریدی نے وسیم اکرم کے برابر16 ٹیسٹ میں 50 شکار مکمل کر لیے ایکسپریس اردو

 لاہور:  شاہین شاہ آفریدی نے وسیم اکرم کے برابر16 ٹیسٹ میں 50شکارمکمل کر لیے۔

گزشتہ روز ہرارے ٹیسٹ میں انھوں نے ٹینڈائی چسورو کو آؤٹ کرکے یہ سنگ میل عبور کرلیا،وکٹوں کی ففٹی مکمل ہونے کے وقت شاہین شاہ آفریدی کی طرح وسیم اکرم کی عمر بھی 21سال تھی۔

یاد رہے کہ تیز ترین 50وکٹوں کا پاکستانی ریکارڈ یاسر شاہ کے نام ہے،لیگ اسپنر نے صرف 9ویں ٹیسٹ میں یہ ہدف عبور کرلیا تھا، عالمی ریکارڈ ہولڈر آسٹریلوی بولرچارلس ٹرنرنے صرف 6ٹیسٹ میں ہی 50وکٹیں مکمل کرلی تھیں۔

The post شاہین آفریدی نے وسیم اکرم کے برابر16 ٹیسٹ میں 50 شکار مکمل کر لیے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3u8uRgF
via IFTTT

ساجد خان پاکستان کے 244ویں ٹیسٹ کرکٹر بن گئے ایکسپریس اردو

 لاہور:  ساجد خان نے پاکستان کے 244ویں ٹیسٹ پلیئر کے طور پر اپنا نام درج کرالیا،اسپنر نے زمبابوے کیخلاف ہرارے ٹیسٹ میں ڈیبیو کیا۔

بابر اعظم نے ساتھیوں کھلاڑیوں کی موجودگی میں ساجد خان کو گرین کیپ پہناتے ہوئے کیریئر میں کامیابیوں کیلیے نیک خواہشات کا اظہار کیا،یاد رہے کہ ساجد خان کو انجرڈ یاسر شاہ کا خلا پْر کرنے کیلیے پلیئنگ الیون کا حصہ بنایا گیا ہے۔ پاکستان نے پروٹیز سے ہوم سیریز کا آخری میچ کھیلنے والی ٹیم میں اورکسی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

دوسری جانب کپتان شین ولیمز کی انجری کے سبب زمبابوے کی کمان برینڈن ٹیلر نے سنبھالی، میزبان ٹیم نے روئے کایا، رچرڈ نگاراوا اور ملٹن شمبا کو ڈیبیو کا موقع فراہم کیا۔ توقعات کے برعکس ٹی ٹوئنٹی سیریز میں پاکستانی بیٹسمینوں کو سخت پریشان کرنے والی لیوک جونگوے کو کیریئر کا پہلا ٹیسٹ کھیلنے کیلیے منتخب نہیں کیا گیا۔

The post ساجد خان پاکستان کے 244ویں ٹیسٹ کرکٹر بن گئے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3xyUr0z
via IFTTT

حسن علی دوسرے اینڈ سے بھرپور سپورٹ ملنے پر مسرور ایکسپریس اردو

 لاہور:  حسن علی دوسرے اینڈ سے شاہین شاہ آفریدی کی بھرپور سپورٹ ملنے پر مسرور ہیں۔

ہرارے ٹیسٹ کے پہلے روز کا کھیل ختم ہونے کے بعد میڈیا کانفرنس میں حسن علی نے کہا کہ ہرمیچ میں اچھی کارکردگی سے میرے اعتماد میں اضافہ ہورہا ہے،میں شاہین شاہ آفریدی کے ساتھ بولنگ کرتے ہوئے ہمیشہ ہی بہت لطف اندوز ہوتا ہوں، ایک اینڈ پر نوجوان پیسر ایکشن میں ہوں اور دوسرے پر مجھے بولنگ کا موقع ملے تو اچھا کمبی نیشن بن جاتا ہے، شاہین کے ساتھ کامیاب جوڑی پہلے سے بن چکی، وہ بہت پْرجوش اور باکمال  بولر ہیں، میری دعا ہے کہ ٹیسٹ میچ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے کا سنگ میل بھی عبور کریں۔

حسن علی نے کہا کہ ہرارے کی پچ سلو ہے، پہلی اننگز میں اچھی سبقت لینے کے بعد ہماری کوشش ہوگی کہ دوسری باری میں بھی حریف بیٹسمینوں کو جلد آؤٹ کریں،میں ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کے بعد ٹیسٹ میں اچھی بولنگ کرنے میں کامیاب ہوا جس پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں،میں خود پر ہونے والی تنقید کا برْا نہیں مناتا، اس کو مثبت انداز میں لیتا ہوں تاکہ کھیل میں مزید نکھار لاکر توقعات پر پورا اترسکوں۔

انھوں نے کہا کہ وقاریونس میرے رول ماڈل ہیں، ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، اننگز کے آخری اووز میں یارکرز کرنا سب کو آتا ہے،ہم سلو بال بھی کرنے میں مہارت رکھتے ہیں، سب میچ کی صورتحال اور ٹیم پلان کے مطابق بولنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حسن علی نے کہا کہ میں بطور بیٹسمین بھی پاکستانی کی جیت میں اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہوں،ہرارے ٹیسٹ میں  موقع ملا تو رنز بنانے کی کوشش کروں گا،میں ایک آل راونڈ کے طور پر اپنی پہچان بنانے کیلیے پْر عزم ہوں۔

The post حسن علی دوسرے اینڈ سے بھرپور سپورٹ ملنے پر مسرور appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2PGzlMI
via IFTTT

پی ایس ایل؛ امور سنبھالنا پی سی بی کیلیے چیلنج بن گیا ایکسپریس اردو

 لاہور:  پی ایس ایل کے امور سنبھالناپی سی بی کیلیے چیلنج بن گیا۔

پی ایس ایل 6 کو کورونا کیسز بڑھنے کی وجہ سے مارچ کے پہلے ہفتے میں روک دیا گیا تھا،اس کے بعد میڈیکل پینل کے سربراہ ڈاکٹر سہیل سلیم نے استعفیٰ دے دیا، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی گئی البتہ انتظامی امور میں بہتری لانے کیلیے پی سی بی کی فکر مندی بڑھ گئی اور اب پی ایس ایل کیلیے الگ ڈائریکٹر کا تقرر کرنے کیلیے اشتہار جاری کردیا گیا ہے۔

قبل ازیں پی سی بی کے ڈائریکٹر کمرشل بابر حمید ہی ذمہ داریاں بھی سنبھالے ہوئے تھے، وہ اضافی چارج کے طور پر انتظامی سیٹ اپ کی سربراہی کرتے رہے مگر ناکام ثابت ہوئے،یہ باڈی پی ایس ایل ملتوی ہونے پر معطل کردی گئی تھی،ان سے قبل بطور پروجیکٹ ایگزیکٹیو شعیب نوید بھی کامیاب نہ رہ سکے اورمستعفی ہو گئے تھے۔

ڈائریکٹر کیلیے اشتہار میں بتایا گیا ہے کہ تقرری پانے والے کو پی ایس ایل کی حکمت عملی تیار کرنے کے ساتھ اس پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا، ٹیم تشکیل دے کر اس سے کام لینا بھی فرائض میں شامل ہوگا،اسے فرنچائزز سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز اور پی سی بی مینجمنٹ کے ساتھ کام کرتے ہوئے ان میں رابطہ پل کا کردار ادا کرنا ہوگا،ایونٹ کے بغیر کسی رکاوٹ کامیاب انعقاد کیلیے اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

لیگ کے فروغ اور بزنس میں اضافہ،مختلف رائٹس اور ریکوریز کے امور بھی  ذمہ داریوں میں شامل ہوں گے۔امیدواروں کیلیے ماسٹرز ڈگری کا حامل ہونا ضروری ہے، متعلقہ شعبوں میں کام کا 10 اور کسی اعلیٰ انتظامی حیثیت میں ملازمت کا 5سالہ تجربہ ہونا چاہیے، کرکٹ یا کسی دوسرے کھیل کے شعبوں میں ذمہ داریوں کا پس منظر رکھنے والوں کو ترجیح دی جائے گی،درخواستیں جمع کرانے کی آخری تاریخ 13مئی مقرر کی گئی ہے۔

The post پی ایس ایل؛ امور سنبھالنا پی سی بی کیلیے چیلنج بن گیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3aSbHEd
via IFTTT

فضل الرحمن کی پھر دعوت، اے این پی کا واپس نہ جانیکا فیصلہ ایکسپریس اردو

 پشاور:  پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے پیپلزپارٹی اور اے این پی کو اتحاد میں واپسی کی دعوت کے باوجود اے این پی نے اپنے فیصلہ پر قائم رہتے ہوئے پی ڈی ایم میں واپس نہ جانے پر اتفاق کیا ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے گزشتہ دنوں پی ڈی ایم اجلاس کے بعد اے این پی اور پیپلزپارٹی کو ایک مرتبہ پھر پی ڈی ایم میں واپس آنے کی دعوت دی تاہم اس سلسلے میں تاحال ان کی جانب سے اے این پی کی قیادت کے ساتھ کسی قسم کا کوئی براہ راست رابطہ نہیں ہوسکا ،اس بارے میں اے این پی کے مرکزی ترجمان زاہدخان نے ایکسپریس کوبتایا کہ اے این پی اور پیپلزپارٹی کے معاملات الگ ہیں۔

پیپلزپارٹی نے صرف پی ڈی ایم کے عہدوں سے استعفے دیئے ہیں اور وہ اتحاد کوچھوڑ کر باہر نہیں گئی جبکہ اے این پی تو پی ڈی ایم کو چھوڑ کر باہر آگئی ہے اور ہم نے جو بھی فیصلہ کیاہے وہ بڑی سوچ سمجھ اور مشاورت کے بعد کیا اس لیے ہماری واپسی کا کوئی امکان نہیں۔

The post فضل الرحمن کی پھر دعوت، اے این پی کا واپس نہ جانیکا فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3vActOf
via IFTTT

پاکستان، سعودی عرب میں 50 کروڑ ڈالر قرض کا معاہدہ جلد ہونے کا امکان ایکسپریس اردو

 اسلام آباد:  پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان 50 کروڑ ڈالر مالیت کے نئے قرض کے لیے معاہدہ ہونے کا امکان ہے۔

پاکستان سعودی عرب سے 50 کروڑ ڈالر مالیت کا نیا قرض لے گا اور اس سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان وزیر اعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہونے کا امکان ہے۔

اس سلسلے میں وزیر اعظم کے ایک معاون خصوصی کا کہنا ہے کہ دورے کے دوران دونوں ممالک ے درمیان پاکستان میں نئی آئل ریفائنری کے قیام کے حوالے سے بھی بات چیت کا امکان ہے تاہم 7 ارب ڈالر مالیت کے اس منصوبے پر کوئی فوری پیش رفت کا امکان نظر نہیں آتا۔

وزارت معاشی امور کے ایک اہلکار نے ایکسپریس کو بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان کے دورے سے قبل وفاقی کابینہ نے رواں ہفتے ہی پاکستان اور سعودی فنڈ برائے ترقی کے لیے مفاہمت کی یادداشت کے فرہم ورک کی منظوری دی ہے جس کے تحت سعودی فنڈ برائے ترقی مہمند ڈیم، جاگران بجلی منصوبہ، شونتر بجلی منصوبہ، جامشورو بجلی گھر، مانسہرہ فراہمی آب کا منصوبہ اور ایبٹ آباد اور مظفر آباد کے درمیان سٹرک کی تعمیر نو کے منصوبوں کے لیے طوی مدتی 50 کروڑ ڈالر مالیت کے قرض فراہم کرے گا۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی تابش گوہر نے ایکسپریس کو بتایا کہ دورے کے دوران پاکستان کی جانب سے سعودی عرب کو نئی آئل ریفائنری پالیسی سے بھی آگاہ کیا جائے گا جس کی منظوردی پیٹرولیم ڈویڑن نے حال ہی میں دی ہے اور پاکستان سعودی آرامکو کی جانب سے ڈھائی لاکھ بیرل یومیہ آئل ریفائنری کے قیام میں سرمایہ کاری کا خیرمقدم کرے گا۔

The post پاکستان، سعودی عرب میں 50 کروڑ ڈالر قرض کا معاہدہ جلد ہونے کا امکان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3uiFHRz
via IFTTT

لوگوں نے عمران خان کو مکمل طور پہ مسترد کردیا ہے،خان صاحب پاکستان کی جان چھوڑ دیں ... کراچی میں PTI کو 14 سیٹیں کیسے ملی تھی اسکا ایک نظارہ آج حلقہ 249 میں پوری قوم دیکھ سکتی ... مزید

میمو گیٹ اسکینڈل میں قاضی فائز عیسیٰ سے پیپلز پارٹی ناراض ہوئی،کوئٹہ بم دھماکہ انکوائری میں ن لیگ ناراض ہوئی اور فیض آباد دھرنا کیس میں ان سے پی ٹی آئی ناراض ہو گئی تھی ... مزید

میں نے عمران خان کو بہت سپورٹ کیا مگر وہ میری توقعات پر پورے نہیں اترے ... مجھے اندیشہ ہے کہ اب کے پی کے میں بھی پی ٹی آئی کے ساتھ یہی ہو گا جو کراچی کے ضمنی الیکشن میں ہوا،جنرل ... مزید

پی ٹی آئی خدا حافظ،اب عمران خان کراچی میں پی ٹی آئی کی فاتحہ پڑھ لیں ... پی ٹی آئی ن لیگ کے قریب تر بھی نہیں آ سکی،ن لیگ نے کراچی میں تاریخ رقم کر دی،کامران خان

سرکاری حدود میں ریڑھی کیوں لگائی سرکاری ملازمین نے غریب مزدور پر دھاوا بول دیا ... سی ڈی اے کے ملازمین نے غریب شخص کی ریڑھی پر پڑے پھل اٹھا کر سرکاری ڈالے میں انڈیل دیے،ویڈیو ... مزید

Wednesday, April 28, 2021

مزاحیہ اداکارمنورظریف کو دنیا سے رخصت ہوئے 45 برس بیت گئے ایکسپریس اردو

لاہور: شہنشاہ ظرافت کا خطاب پانے والے نامور مزاحیہ اداکار منور ظریف کو دنیا سے رخصت ہوئے 45برس بیت گئے۔

منور ظریف نے اپنے 15 سالہ فلمی کیریئر میں 321 فلموں میں کام کیا اور اپنی جاندار اور شاندار مزاحیہ اداکاری سے لاکھوں پرستاروں کے دلوں پر خوب راج کیا۔ اپنی بے ساختہ اداکاری سے شائقین کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے والے منور ظریف25 دسمبر1940 کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ چار بھائی تھے ان کا نمبر دوسرا تھا۔

منور ظریف سے بڑے بھائی ظریف نے قیام پاکستان کے بعد کی فلموں میں ظریف کے نام سے اداکاری شروع کی۔ منور ظریف سے چھوٹے دو بھائی مجید ظریف اور رشید ظریف نے بھی فلموں میں کام کیا۔منور ظریف کے والد ایک سرکاری آفیسر تھے، اپنے بھائی ظریف کی بھری جوانی میں وفات کے بعد محمد منور نے فلمی دنیا میں قدم رکھا اور منور ظریف کا فلمی نام اختیار کیا۔

ان کی شادی تحصیل کامونکی میں رشتہ داروں کے ہاں خاندانی رضامندی سے ہوئی۔فنی کیرئیر کا آغاز تو 1961میں فلم ’ڈنڈیاں‘ سے کیا تاہم پہلی سپر ہٹ فلم ’ہتھ جوڑی‘ تھی جو 1964ءکو ریلیز ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے پلٹ کر نہ دیکھا اور اپنی ہر فلم میں اپنی جگتوں اور بے ساختہ فقروں سے لبریز اداکاری کی وجہ سے پنجابی فلموں کے سب سے بڑے مزاحیہ اداکار کے طور پر تسلیم کئے جانے لگے۔

منور ظریف جب بھی پردہ اسکرین پرنمودار ہوتے، فلم بین ان کی اداکاری پرلوٹ پوٹ ہوجاتے، ان کی ہر نئی آنے والی فلم میں لوگوں کے لیے قہقہوں کا وافر مقدار میں سامان ہوتا تھا۔ پرستاروں نے انہیں شہنشاہ ظرافت کا خطاب دیا۔ ان کی فلمیں دیکھ کر لوگ وقتی طور پر اپنے غم بھلا کر مسکرا لیتے تھے۔

منور ظریف نے جب فلمی دنیا میں قدم رکھا تو اس وقت مزاحیہ اداکاروں میں ،نرالا،سلطان کھوسٹ، ایم اسماعیل، زلفی، خلیفہ نذیر اور دلجیت مرزا جیسے کامیڈین فلمی صنعت پر چھائے ہوئے تھے۔ ان مزاحیہ اداکاروں کے ہوتے ہوئے منور ظریف نے منفرد مزاحیہ اداکاری سے اپنی جگہ بنائی۔

16 سالہ فلمی کیریئرمیں 300 سے زائد اردو اور پنجابی فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔منور ظریف نے اداکار رنگیلا کے ساتھ جوڑی بنائی جو برصغیر پاک و ہند کی کامیاب ترین مزاحیہ جوڑیوں میں سے ایک سمجھی جاتی تھی۔منور ظریف پر زیادہ تر مسعود رانا کے گائے گانے فلمائے گئے۔

ایک مزاحیہ اداکار ہوتے ہوئے بھی منور ظریف نے گانوں کو خوبصورت انداز میں پکچرائز کرایا۔ سڈول جسم ہونے کی وجہ سے وہ اچھا ڈانس کرلیتے تھے،خاص کر مزاحیہ سونگ کو فلماتے ہوئے اپنی منفرد اور مزاحیہ اداکاری سے ایک خوبصورت مزاح پیدا کردیتے تھے جو تماش بین کو ہنسانے کے لیے بہت ہوتا تھا۔ عمدہ کردار نگاری کے ساتھ ساتھ منور ظریف کا گیٹ اپ بھی منفرد ہوتا تھا۔

منور ظریف کے کیریئر کی لازوال فلم ’بنارسی ٹھگ‘ رہی جس میں وہ مختلف گیٹ اپ میں دکھائی دیئے اور اپنے ورسٹائل ہونے پر مہر ثبت کی۔ جیرا بلیڈ، رنگیلا اور منور ظریف، ‘نوکر ووہٹی دا‘، ’خوشیاں‘، ’شیدا پسٹل‘، ’چکر باز‘، ’میراناں پاٹے خاں‘، ’حکم دا غلام‘، ’نمک حرام‘، ’بندے دا پتر‘ اور ’اج دامہینوال‘ ان کی ایسی فلمیں ہیں جن کے ذریعے اداکاری کے خوب جوہر دکھا کر منور ظریف نے شائقین کے دلوں پر راج کیا۔

انہیں عشق دیوانہ، بہارو پھول برساﺅ اور زینت میں بہترین مزاحیہ اداکاری پر نگار ایوارڈز دیئے گئے،انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علی اعجاز، ننھا اور عمر شریف نے کئی عرصے اسکرین پر راج کیا۔منور ظریف 29 اپریل 1976ءکو دنیا سے رخصت ہو گئے، وہ لاہور میں بی بی پاک کے قبرستان میں سپرد خاک ہیں مگر ان کی جاندار مزاحیہ اداکاری آج بھی انہیں مداحوں کے دلوں میں زندہ رکھے ہوئے ہے۔

The post مزاحیہ اداکارمنورظریف کو دنیا سے رخصت ہوئے 45 برس بیت گئے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/32V4Vcq
via IFTTT

''امریکا پھر سے چل پڑا ہے''، جو بائیڈن

پاکستان میں کورونا بے قابو، گذشتہ چوبیس گھنٹوں میں 151 اموات ہوئیں ... ملک بھر میں کورونا کے 5 ہزار 480 نئے کیسز سامنے آگئے

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ایک بار پھر انسانیت کے دل جیت لیے ... رمضان المبارک کے دوران امدادی سامان بھجوانے میں سعودیہ اور یو اے ای سب سے آگے ہیں

کورونا کی تیسری لہر کیوں زیادہ خطرناک ہوئی؟ ایکسپریس اردو

کورونا وائرس کی تیسری لہر پہلی دو لہروں سے زیادہ مہلک اور خطر ناک واقع ہورہی ہے۔ متاثرین کی تعدادمیں آئے روز اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے اور کورونا کی شرح پھیلاؤ بھی تشویش ناک حد تک بڑھتی جارہی ہے۔

طبی ماہرین بہت پہلے سے ہی صورت حال کی سنگینی سے خبردار کرتے آرہے تھے لیکن ہمارے معاشرے میں حسب سابق کسی بھی بات پر توجہ نہیں دی گئی۔ گزشتہ سال کے اختتام پر جب کورونا کی شدت میں کافی حد تک کمی ہونے لگی تھی ، تبھی وبائی امراض کے ماہرین اس بات پر زور دیتے آرہے تھے کہ اس وائرس کی واپسی بڑی شدت کے ساتھ ہوسکتی ہے ، حفاظتی تدابیر کو نظر انداز نہ کیا جائے۔

اگر ہم ماسک کا باقاعدہ استعمال کرتے رہتے، سماجی فاصلے کا لحاظ اور غیر ضروری میل ملاپ سے احتراز کرتے تو شاید موجودہ خطرناک صورتحال سے بچا جا سکتا تھا لیکن ہمارے ہاں شروع دن سے ہی معدودے چند حساس اور پڑھے لکھے لوگوں کے سوا کورونا وائرس کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں گیا۔ وائرس کے حوالے سے طرح طرح کے افسانے اور ڈرامے پیش کیے جاتے رہے۔

ایک مخصوص طبقہ تو اسے انسانیت کے خلاف سازش قرار دیتا آرہا ہے حالانکہ اگر وبائی امراض کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو گزشتہ کئی صدیوں سے روئے زمین پر بہت سارے وبائی امراض کی پیدائش اور افزائش ہوئی اور پھر وہ لاکھوں کروڑوں انسانوںکی زندگیوں کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں۔

وبائی مرض اس بیماری کو کہا جاتا ہے جو کسی فضائی، ہوائی اور خلائی تعفن کے باعث رونما ہوا ہو، یہ انسانوں میں ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے میں منتقل ہونے کی صلاحیت وطاقت رکھتا ہے۔اب تک دنیا کے مختلف ممالک میں پھوٹنے والے وبائی یا متعددی امراض کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایک حقیقت مشترک سامنے آتی ہے کہ سبھی امراض پر ہجوم اور رش والے علاقوں سے ہی سامنے آئے۔ طاعون کا مرض ہو یا جذام کی بیماری، ہسپانوی زکام ہو یا ٹی بی، چیچک ہو یا خسرہ اور مرض ہیضہ کی شدت ہو یا ایڈز کی تباہ کاری یہ تمام امراض باہمی اختلاط ، میل جول اورسماجی رابطوں کے باعث ہی پھیلتے ہیں۔

کورونا وائرس کی تیسری لہر کا اس قدر خطرناک بن کر سامنا آنا طبی ماہرین کے لیے حیرت ناک ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ کورونا کی شدت میں تیزی آنے کی وجوہات کیا ہیں اور ان سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے؟

رواں موسم معمول سے ہٹ کر سرد اور خنکی لیے ہوئے ہے۔ ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ ہے جبکہ روزے کی حالت میں بدن انسانی کا درجہ حرارت میں اضافہ ہوجانے سے پیاس کی شدت اور بدن کی تلخی ٹھنڈے ماحول ، ٹھنڈے پانی کا تقاضا کرتے ہیں۔کتنی عجیب بات ہے کہ  اپریل کے اختتام تک بھی ہم نہانے کے لیے نیم گرم پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں جبکہ افطار میں ٹھنڈے ٹھار مشروبات کا استعمال کر رہے ہیں۔

دن اور رات میں ائیر کنڈیشنرز اور روم کولرز کا استعمال بھی عام کیا جارہا ہے ، جب انسانی بدن کے درجہ حرارت اور ماحولیاتی ٹمپریچر میں توازن نہیں رہتا تو بدن انسانی نفیس ہونے کے باعث اثر قبول کیے بنا نہیں رہتا۔ افطاری میں یخ ٹھنڈے مشروبات کے استعمال سے گلے اور حلق کے مسائل پیدا ہونا عام اور معمول کی بات ہے۔ جب حلق میں ورم اور سوزش پیدا ہوتی ہے تو بدن کا بخار میں لپیٹ میں لازمی ہوجاتا ہے۔ ناک،حلق ،کان اور آنکھوں کا مقام اتصال مشترکہ ہے جس سے لامحالہ سانس کی نالی سمیت ناک کی جھلیوں کی سوزش اور کانوں کا سسٹم متاثر ہونا فطری امر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا و ائرس کے مریضوں میں گلا ، ناک سانس کی نالی کانوں کا متاثر ہونا عام علامات میں سے ہے۔

موجودہ صورتحال میں کورونا سے بچاؤ کے لیے ہم اپنی غذائی عادات اور روز مرہ خوراک میں تبدیلیاںپیدا کر کے خاطر خواہ حد تک اس کے ممکنہ حملے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ سحری میں ترش دہی، برف اور پراٹھے کا استعمال ترک کردیں۔ سادہ روٹی سالن اور سادہ پانی پینے کو معمول بنالیں۔ اسی طرح افطاری میں ٹھنڈے اور میٹھے مشروبات ، سموسے، کچوریاں اور تلی و بھنی غذاؤں سے پرہیز کریں۔

کھجور، سادہ پانی اور روٹی سالن سے ہی روزہ افطار کرنے کو معمول بنالیں۔ سحری اور افطاری میں ادرک والی چائے پینا بھی بے حد فوائد کا سبب بنتی ہے۔ فضا  و ہوا میں خنکی اور نمی کے باعث  ائیر کنڈیشنر اور ائیر روم کولرز کا استعمال بھی ابھی ہفتہ وعشرہ نہیں کرنا چاہیے۔ مئی کے وسط سے موسم میں شدت پیدا ہوجانے سے انسانی بدن کا درجہ حرارت اور موسمی ٹمپریچر میں توازن قائم ہوجانے سے بیماری کے اثرات میں کمی آنے لگے گی۔

درج ذیل گھریلو غذائی تدابیر اپنا کر صحت مند و توانا زندگی سے بھرپور لطف اٹھا سکتے ہیں۔

افطاری میں مغز بادام 20 عدد، کشمش20 دانے عرق گلاب میں بھگو ئے ہوئے دودھ ملا کر شیک بنا کر بطور مشروب استعمال کرنا توانائی بحال کرنے اور بدن کی قوت مدافعت میں اضافہ کرنے کے لیے بہترین غذا ہے۔ اسی طرح ڈیڑھ پاؤ دودھ میں 5 سے 7 کھجوریں تر کر کے چار کیلے ملاکر شیک بنا کر افطار کرنا بھی بہترین غذائیت کا سبب بنتا ہے۔ بعض امراض میں مبتلا افراد بھی کورونا کا آسان ہدف ہوسکتے ہیں جن میں شوگر، ہیپاٹائٹس،امراض قلب، امراض گردہ، سانس کی پرابلم، دمہ، موسمی الرجی وغیرہ شامل ہیں۔

ان افراد کو اپنے معالج کے ساتھ ہمیشہ مشاورت میں رہتے ہوئے اپنی دوا اور غذا پر بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ ایسے افراد جنہیں دائمی قبض کا مسئلہ ہو انہیں چاہیے کہ عمدہ انجیر 3 سے 5عدد عرق گلاب میں بھگو کر حسب ضرورت دودھ شامل کر کے شیک بنا لیں اور رات سوتے وقت نوش جام کریں۔اس مرکب سے نہ صرف دائمی قبض سے نجات ملے گی بلکہ جسمانی کھوئی ہوئی توانائی کی بحالی کے لیے بھی بہترین ٹانک ہے۔

بلڈ پریشر اور شوگر میں مبتلا افراد کو چاہیے کہ عرق گاؤزبان پون کپ اور عرق گلاب چار چمچ ملا کر سحری میںپئیں۔ امراض قلب میں مبتلا افراد مربہ بہی 50 گرام تک پانی سے اچھی طرح دھو کر لازمی استعمال کریں۔ امراض گردہ کے مریضوں کو پانی میں سونف ابال کر پانی استعمال کرنا چاہیے۔ موسمی الرجی کے مریضوں کو روزانہ بھاپ لازمی لینی چاہیے اور مرض میں شدت پیدا نہ ہونے دی جائے۔ جسمانی کمزوری میں مبتلا افراد کو چاہیے کہ وہ درج ذیل اجزاء مغز بادام، مغز اخروٹ،مغز پستہ، مغز چلغوزہ اور مغز فندق ہم وزن سفوف بنا کر محفوظ کرلیں۔

پانی میں تیار شدہ جوکے دلیے میں حسب گنجائش ملاکر بطور ڈنر استعمال کریں۔ یہ مرکب، دماغی ، اعصابی، عضلاتی اور جسمانی قوت میں بے بہا اضافے کا سبب ثابت ہوگا۔ اسی طرح سحر و افطار میں سیاہ یا سفید چنوں کے شوربے میں چپاتی بطور سرید استعمال کریں۔ چائے میں ادرک ، دار چینی اور لونگ کا مناسب مقدار اور حسب ذائقہ شامل کرنا بھی مفید ثابت ہوگا۔ سبز چائے کے پتوں میں ادرک پکا کر پینا بھی بے حد فوائد کا ذریعہ ہے۔ موسمی پھل حسب ضرورت اور گنجائش بھی لازمی کھائیں۔

پھلوں کے جوسز کا پینا زیادہ مفید ثابت ہوا کرتا ہے لہٰذ پھلوں کے جوسز بدنی ضرورت اور گنجائش کو مد نظر رکھتے ہوئے سحر و افطار میں لازمی شامل کیے جائیں۔کورونا وائرس سمیت دوسرے امراض سے بچاؤ کے لیے برف کے استعمال سے بچتے ہوئے پانی تازہ ہی پیاجانا چاہیے،جب تک کورونا کی وبا ء ہے رات سوتے و قت پانی کی بھاپ لازمی لیں اور صبح وشام نیم گرم پانی نمک اور شہد ملا کر غرارے کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔ افطاری کے بعد کھانا لازمی کھائیں خواہ دو چار لقمے ہی کیوں نہ ہوں۔

پہلے سے بلغمی امراض میں مبتلا افراد کو بادی مرغن اور ترش غذائی اجزاء کے استعمال سے پرہیز کرنا لازم ہے۔ البتہ ایسے لوگ جنہیں بلغم کی شکایت نہ ہو تو دودھ چاول اور کھچڑی بہترین غذائیں ہیں۔ وباکے دنوں میں اس کے اثرات سے بچاؤ کے لیے کلونجی اور شہد، روغن زیتون، دودھ میں دار چینی ، لونگ اور ادرک کا قہوہ، پیازکا پانی اور شہد ہم وزن اورکالی مرچ و شہد وغیرہ بہترین گھریلو مرکبات ہیں۔ علاوہ ازیں انگور، کشمش، پپیتہ، مربہ آملہ، مربہ ہرڈ، مغز بادام، ایلو ویرا وغیرہ کا مناسب استعمال بھی بہترین نتائج کا حامل ہوتا ہے۔

دھیان رہے کہ عام طور پر کورونا جیسے زیادہ تر امراض سردی اور خشکی بڑھ جانے سے پیدا ہوا کرتے ہیں، ان حالات میں غذائی مینیو بناتے وقت اپنے مزاج اور بدن کی غذائی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔

کورونا سے بچاؤ کی فطری تراکیب

گلے میں خراش اور حلق کی سوزش دور کرنے کے لیے لسوڑیاں 7 دانے، عناب  5 عدد اور بہی دانہ 3 گرام آدھ کلو پانی میں اچھی طرح پکا کر بطور جوشاندہ دن میں تین بار پینے سے ہی حلق کی سوزش اور خراش میں نمایاں کمی محسوس ہونے لگتی ہے۔املتاس کا گودا پانی میں پکا کر ایک چمچ شہد ملا کر بطور شربت پینا بھی گلے کی سوزش  اور خراش سے نجات دلاتا ہے۔ پھیپھڑوں سے جمی بلغمی رطوبات نکالنے کے لیے ایک گرام ادرک، ایک گرام سنا مکی اور چند گلاب کی پتیاں ایک کپ پانی میں پکا کر دو چمچ شربت زوفا ملا کر پینے سے پھیپھڑے بلغمی مواد سے صاف ہونے لگتے ہیں۔

گلے کے امراض میں ملٹھی بہترین دوا ہے۔ ملٹھی چوسنا اور ملٹھی کا جوشاندہ پینا مفید ثابت ہوتا ہے۔ دیسی انڈا ، دیسی مرغ کی یخنی، چنوں کا شوربہ ، مٹن پائے کی تری  وغیرہ کا استعمال بھی گلے کے امراض سے بچنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ سانس کی نالیوں کی سوزش اور تنگی کے لیے گل زوفا ایک گرام، گل بنفشہ ایک گرام، برگ بانسہ ایک گرام اور پٹھکنڈ ایک گرام  ایک کپ پانی میں اچھی طرح پکا خالص شہد کی چمچ ملا کر پلانے سے سانس کی بحالی میں مدد ملتی ہے۔ اسی طرح چھاتی پر پھیپھڑوں کے مقام پر سامنے اور پیچھے کیسٹر آئل کا مساج کر کے لونگ کی بھاپ لینا بھی سانس کی تنگی دور کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

بخار کی شدت میں کمی لانے کے لیے شربت بنفشہ ، خمیر ہ بنفشہ ، شربت عناب اور خمیرہ گاؤزبان بہترین قدرتی ادویات ہیں۔ پیٹ کو نرم رکھنے کے لیے نیم گرم دودھ میں بادام روغن کے تین سے چار چمچ پلانا بھی بے حد مفید ہوتا ہے۔ بادام روغن بدن کی خشکی ختم کرنے، دائمی قبض کا ازالہ کرنے اور جسمانی کمزوری دور کرنے کا بہترین قدرتی ذریعہ ہے۔ وبا کے دنوں میں پیاز،ٹماٹر، سبز مرچ ،سلاد کے پتوں کو بطور سلاد استعمال مرض کے اثرات سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے کہ ہمارے ہاں لیمن کا استعمال بہت زیاد ہ تجویز کیا جاتا ہے لیکن بلغمی امراض میں ترش اجزاء کا استعمال مرض کی شدت اور نوعیت میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ لہٰذا رواں صورتحال میں لیمن کے غیر ضروری استعمال سے بچنے میں ہی عافیت ہے۔اسی طرح کیلا بھی بلغمی رطوبات کی افزائش میں اضافے کا ذریعہ بنتا ہے۔ نزلے،زکام اور کھانسی کی حالت میں کیلا،چاول، چکنائیاں اور بازاری مٹھائیاں استعمال کرنے سے دور رہنے میں ہی فائدہ ہے۔

نزلے، زکام اور بخار کی حالت میں اے سی یا روم کولرز کے سامنے لیٹنے سے بھی گریز کرنا آپ کی صحت کے لیے فائدہ مند ہوگا۔ بطور حفظ ما تقدم نیم گرم پانی میں نمک ملا کر غرارے کرتے رہنا ، نہانے کے لیے نیم گرم پانی استعمال کرنا، برف اور برف کی مصنوعات سے بچنا بھی وبائی اور موسمی امراض سے حفاظت کا بہترین ذریعہ ہے۔انجانے خوف سے دور رہنا،ذہنی دباؤ اور اعصابی تناؤ سے بچ کر بھی ہم بیماریوں کے حملوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

سب سے اہم بات یہ کہ اللہ پر بھروسہ کرنا ہے اور اللہ کے ذکر و اذکار سے جسمانی و روحانی مسائل سے حفاظت میں مدد طلب کرنا ہے۔ ماہ صیام کی با برکت ساعتوں میں قبولیت عام ہے ہم اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لیے دعائیں مانگ کر بھی اللہ کریم کی رحمت کے حصار میں آسکتے ہیں۔ اللہ کریم ہمیں اپنی رحمت کے حصار میں رکھے۔آمین۔

The post کورونا کی تیسری لہر کیوں زیادہ خطرناک ہوئی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3nua4l6
via IFTTT