اسلام آباد: مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے تناظر میں داخلی و خارجی سطح پر سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔
خارجی سطح پر مستقبل میں کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے اوراس میں بھی دورائے نہیں کہ مستقبل کے حوالے سے جو بھی ہونے جا رہا ہے پاکستان کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔ اس میں پاکستان کا کردار کلیدی ہوگا اور جو ہوگا اس کے نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت اور سیاست پر بھی گہرے اثرات ہونگے کیونکہ ایک جانب افغانستان سے امریکی انخلاء ہونے جا رہا ہے۔
دوسری جانب چین کے ایران کے ساتھ سی پیک کے تحت کھربوں ڈالر کے معاہدے ، روس کے عالمی پاور کوریڈور میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ ، اسی طرح ترکی، ملائشیا، سعودی عرب اور یو اے ای سمیت دوسرے ممالک کے حوالے سے معاملات میں تیزی آگئی ہے اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والی تمام تر سرگرمیوں کا مرکز جنوبی ایشیاء ہے جس میں جیو سٹریٹجک پوزیشن کے باعث عالمی طاقتوں کیلئے پاکستان کے بغیر فیصلہ سازی ممکن نہیں ہے۔
یہی صورتحال افغانستان سے امریکی انخلاء کے معاملے پر ہے، ٹرمپ کے جانے کے بعد امریکی پالیسی میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے افغانستان کے معاملے میں بھی امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ رواں سال 11 ستمبر تک تمام امریکی فوجی دستوں کو افغانستان سے واپس بلا لیا جائے گا اور پاکستان بھی اس پیش رفت کی باریکی سے نگرانی کر رہا ہے کیونکہ اس فیصلے سے جن ملکوں پر سب سے زیادہ اثر پڑ سکتا ہے۔
ان میں پاکستان شامل ہے۔ یہی وجہ ہے پاکستان کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کو امن عمل سے جوڑنا ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے افغان امن عمل میں سہولت فراہم کر کے اہم کردار ادا کیا ہے اور امریکی اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اس صورت میں اصولی فیصلے کی حمایت کرتا ہے جس میں ’افغانستان میں موجود سٹیک ہولڈرز کے تعاون کے ساتھ فوجی انخلا ذمہ داری سے کیا جائے گا۔
اس میں بے احتیاطی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے جس کیلئے امریکہ کو افغان رہنماؤں کو باور کرانا گا کہ ملک میں سیاسی حل کیسے ممکن ہے لیکن اگر ایسا نہ ہو سکا تو امریکی انخلاء کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کا خطرہ ہے جو نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گی اس حوالے سے امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل کیتھ ایف میکنزی نے بھی حال ہی میںافغانستان میں القاعدہ اور داعش کے دوبارہ فعال ہو جانے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ خطے کے ملکوں اور خاص طور پر پاکستان کے لیے شدید تشویش کی بات ہے اور ان تنظیموں کا افغانستان میں دوبارہ فعال ہو جانے کا امکان، وسطی ایشیائی ریاستوں اور ایران کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے۔
امریکہ کے مشرق وسطی میں اعلی ترین فوجی کمانڈر نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس سال گیارہ ستمبر تک افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد امریکہ کی فوج کے لیے افغانستان میں القاعدہ جیسے دہشت گردی کے خطروں پر نظر رکھنا اور ان کا تدارک کرنا انتہائی مشکل ہو گا۔ جنرل میکنزی نے کہا کہ خطے کے تمام ملکوں کے مفاد میں ہے کہ افغانستان میں استحکام ہو اور شدت پسند گروہوں القاعدہ اور نام نہاد دولت اسلامیہ کو جگہ نہ دی جائے۔
دوسری جانب پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی اب برف پگھلنے لگی ہے جس کا اب دونوں طرف سے اعتراف بھی ہونا شروع ہو گیا ہے لیکن اس میں سفارتی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان نے تو ہمیشہ بھارت کے ساتھ امن اور مذاکرات سے معاملات کے حل کی راہ اختیار کی ہے مگر بھارت ہمیشہ مکاری سے کام لیتا رہا ہے۔
لہذا ابھی بھی پاکستانی حکام کو بھارت کے ساتھ مذاکرات میں محتاط رہنا ہوگا کیونکہ بعض تجزیہ کار بھارت کے ساتھ مذاکرات کو امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے ہی تناظر میں دیکھ رہے ہیں اور سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ بھارت کی پاکستان سے تعلقات میں اچانک دلچسپی کی وجہ بھی کہیں امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد افغانستان میں اثر و رسوخ کا بڑھانا اور پاکستان کے ذریعے بلاتعطل تجارتی روٹ حاصل کرنا تو نہیں؟ اور پھر اس کے بدلے پاکستان کو کیا ملنے کی یقین دہانی ہے؟
سوال یہ بھی ہے کہ انڈیا سے بات کرنا ضروری تو ہے تاہم یہ طے کرنا ہو گا کہ بات چیت کا آغاز کہاں سے ہو گا کیونکہ خطے کی بدلتی صورتحال میں فیصلے نہ تو تنہائی میں لیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی بند کمروں میں پالیسیاں بنائی جا سکتی ہیں۔
موجودہ فوجی قیادت کی نیت اور خلوص دونوں کو شک کی نگاہ سے نہیں دیکھا جا سکتا لیکن انڈیا پر کس حد تک اعتماد کیا جا سکتا ہے اس پر بات ضرور ہونی چاہیے۔ ادھر چین نے ایران کے ساتھ کھربوں ڈالر کے معاہدے کئے ہیں اور بعض حلقوں کا خیال ہے کہ اس معاملے میں چین بھی خاموش مگر موثر کردار ادا کر رہا ہے کیونکہ خطے میں امن چین کے بہترین مفاد میں ہے اور سی پیک روٹ بھرپور طریقے سے فعالؒ ہونے سے پر امن تجارت کو فروغ ملے گا جو چین کوتجارت میں عالمی طاقت بننے کی راہ ہموار کرے گا اور پھر روس ،ترکی اور ملائشیاء بھی بدلتے عالمی حالات میں اہم اسٹیک ہولڈر ہیں۔
اس بدلتے عالمی سیاسی منظر نامے کے پاکستان کی سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب ہونگے اور سیاسی منظرنامہ بدلتے دیر نہیں لگتی ہے، ابھی ملکی سیاست میں بھی تیزی آئی ہے تمام سیاسی جماعتیں ارتقائی عمل سے دوچار ہیں اور توڑ پھوڑ جاری ہے حکومت کے خلاف بننے والے اپوزیشن کے بڑٖے اتحاد پی ڈی ایم کا شیرازہ بکھرنے کے بعد سے حکومت دفاعی پوزیشن سے باہر آگئی تھی لیکن اسکے بعد پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات شدت اختیار کرگئے اور پاکستان تحریک انصاف میں جہانگیر ترین کی قیادت میں ایک بڑا دھڑا کھل کر سامنے آگیا ہے۔
دوسری جانب شاہ محمود قریشی بھی سیاست کے پرانے اور منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں ، پیر کو ملتان میں وزیراعظم کی موجودگی میں شاہ محمود قریشی نے دھواں دار تقریر میں مخالف دھڑے کو آڑے ہاتھوں لیا اور واضح کیا ہے کہ آدھا تیتر اور بٹیر نہیں چلے گا، شاہ محمود قریشی جب یہ آگ اگل رہے تھے اس وقت عمران خان کے چہرے پر سجی ذومعنی مسکراہٹ بھی معنی خیز تھی، اب جبکہ جہانگیر ترین گروپ کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہونے جا رہی ہے لیکن اطلاعات ہیںکہ خود جہانگیر ترین اس وفد میں شامل نہیں ہونگے اور ان سطور کی اشاعت تک ممکن ہے کہ اس ملاقات کی تفصیلات بھی منظر عام پر آجائیں گی۔ ادھر جسٹس فائز عیسی کیس میں سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ سامنے آیا ہے۔
یہ تحریک انصاف کی حکومت کیلئے ایک اور دھچکا ہے، تجزیہ کار اس فیصلے کو عدالتی تاریخ کا ایک بڑا بریک تھرو سمجھتے ہیں اور ا نکا خیال ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے کو مدنظر رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں عدالتیں آزاد اور خود مختار ہیں وگرنہ اس کیس میں جتنے اسٹیک ہولڈر شامل تھے یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حق میں ہوتا۔ چونکہ اس کیس میں ایف بی آر کی تحقیق بھی شامل کی گئی تھیں اور اس فیصلے کے مطابق وہ سب انکوائری رپورٹس خارج کر دی گئی ہیں اور اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیس کو کہیں بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری جانب پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ایک بار پھر سے پی ڈی ایم کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور پی ڈی ایم سے نکلنے والی جماعتوں کو پھر سے پی ڈی ایم مین شامل ہونے کیلئے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی دعوت دے رہے ہیں لیکن اب یہ بیل منڈھ چڑھتی دکھائی نہیں دے رہی ہے کیونکہ شریف خاندان کے تمام اسیر لوگ اب باہر آچکے ہیں اور ن لیگ کے بیانیہ میں بھی نرمی نہیں تو کم ازکم سائلنٹ موڈ پر ضرور لگ گیا ہے اور مریم نواز کے حالیہ انٹرویو سے تو معلوم ہو رہا ہے کہ اب اپوزیشن کا ایک ہونا مشکل ہے کیونکہ حکومت کو گھر بھجوانے کے جس ایک پوائنٹ پر پی ڈی ایم قائم ہوئی تھی ن لیگ اب حکومت کو گھر بھجوانے کے موڈ میں نظر نہیں آرہی ۔
The post تیزی سے بدلتا عالمی منظر نامہ، سفارتی محاذ پر چوکنا رہنے کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3vumTin
via IFTTT
No comments:
Post a Comment