Tuesday, April 27, 2021

شفاف انتخابات کا حصول ؟ ایکسپریس اردو

وزیر اعظم کو ڈاکٹر حفیظ شیخ کو سینیٹ کی نشست کے لیے منتخب کرانے میں ناکامی اور ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کو الیکشن کمیشن کی جانب سے منسوخ کرنے کے فیصلہ کے بعد انتخابی اصلاحات کی اہمیت کا احساس ہوا ، مگر فواد چوہدری کو یہ تجویز پسند آئی کہ ووٹنگ کے عمل کو الیکٹرونک مشین کے ذریعہ پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے تو انتخابات شفاف ہونگے۔

کروڑوں روپے کی اس جدید مشین کی خریداری کے حوالے سے اس تجویزکو وزیر اعظم نے منظورکیا اور توقع ہے کہ اگلے مالیاتی سال کے بجٹ میں ووٹنگ مشینوں کی خریداری کے لیے رقم مختص کردی جائے گی۔

18ویں ترمیم کے نتیجے میں الیکشن کمیشن کو مکمل خود مختاری حاصل ہوئی،کمیشن کے سربراہ اور اراکین کا تقرر وزیراعظم اور قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے منسلک ہوا۔ جسٹس ریٹائرڈ فخرالدین جی ابراہیم نے عمرکے آخری حصے میں چیف الیکشن کمشنرکی ذمے داریاں بغیرکسی معاوضہ کے سنبھالیں۔

الیکشن کمیشن نے انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے خاطرخواہ اقدامات سے انتخابی فہرستوں کو نادرا کی مدد سے مکمل کیا گیا اور ووٹرکی تصویر بھی فہرستوں میں آویزاں ہونے لگی۔ انتخاب والے دن جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم خاصے پرجوش اور مطمئن تھے مگر چند ہی دنوں بعد انھیں حقائق کا علم ہوا، پس پردہ  قوتوں نے پورے نظام کو قابو کرلیا تھا۔ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم اپنی آئینی مدت پوری کیے بغیر مستعفی ہوئے۔ بدقسمتی سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں فخر الدین جی ابراہیم کے استعفی پر بحث نہیں کی گئی اور یوں ان کی مایوسی کا معاملہ پس پشت چلا گیا۔

تحریک انصاف نے انتخابی نتائج کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ عمران خان نے پورے ملک میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کی۔  نئے چیف الیکشن کمشنر جسٹس رضا خان کی سربراہی میں انتخابی عمل کو جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعہ شفاف بنانے کا تجربہ کیا گیا۔ یوں پریزائیڈنگ افسروں کو اسمارٹ فون کے ذریعہ نتائج فوری طور پر ریٹرننگ افسر اور الیکشن کمیشن کے دفتر بھجوانے کی تربیت د ی گئی اور نادراکی مدد سے RTSکے نظام کو منظم کیا گیا۔

حساس پولنگ اسٹیشنوں پرکلوز ڈور کیمرے لگائے گئے اور پریزائیڈنگ افسروں کو فارم 45 نئی ترتیب کے ساتھ فراہم کیا گیا اور انتخابی قواعد وضوابط میں یہ بات واضح طور پر تحریرکی گئی کہ پریزائیڈنگ افسر ہر امیدوارکے کاؤنٹنگ ایجنٹ کو فارم 45 کی کاپیاں فراہم کرے گا اور اس کی ایک کاپی پولنگ اسٹیشن کے دروازہ پر بھی آویزاں کی جائے گی اور ہر امیدوارکے کاؤنٹنگ ایجنٹ کے دستخط کرائے جائیں گے مگر الیکشن والے دن RTS کا نظام مفلوج ہوا ، کلوز ڈورکیمروں کی ریکاڈ نگ انتخابی دستاویزات کا حصہ نہیں بنی، بہت سے امیدواروں کے ایجنٹوں نے تحریری شکایات کیں کہ انھیں ووٹوں کی گنتی کے وقت پولنگ اسٹیشن سے باہر نکال دیا گیا۔

پہلے یہ خبر آئی کہ نادرا کے نظام میں خرابی پیدا ہوئی تھی مگر نادرا کے ترجمان نے اس خبر کی تردید کی۔ ملک کے سب سے بڑے انگریزی کے اخبار میں یہ خبر شایع ہوئی کہ نامعلوم ٹیلیفون ملنے پر پریزائیڈنگ افسروں نے RTS کے نظام کو استعمال نہیں کیا۔

حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس بار یہ مطالبہ کیا کہ انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات پارلیمنٹ سے کرائی جائیں، یوں پارلیمنٹ کے دونوں طرف کے اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی قائم ہوئی۔ پارلیمانی روایات کے مطابق حکومت ان کمیٹیوں کو متحرک کرتی ہے مگر تحریک انصاف کے اراکین نے حیرت انگیز طور پر کمیٹی کو متحرک کرنے میں دلچسپی نہیں لی۔

یہ بات اس لیے بھی حیرت انگیز تھی کہ تحریک انصاف کی قیادت 10برسوں سے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف رائے عامہ ہموار کر رہی تھی۔ متحدہ حزب اختلاف نے سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی اور نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل بزنجو کو امیدوار نامزد کیا۔

اس وقت بھی سینیٹ میں حزب اختلاف کے اراکین کی تعداد زیادہ تھی۔ موجودہ وزیر داخلہ شیخ رشید نے فرمایا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہوگی۔ پارلیمنٹ کی تاریخ میں حیرت انگیز واقعہ ظہور پزیر ہوا۔ جب صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سینیٹ کے ایوان میں پیش ہوئی تو حزب اختلاف کے 64ارکان نے کھڑے ہو کر قرارداد کی تائید کی مگر جب یہ اراکین ووٹ ڈالنے گئے تو سب کچھ بدل گیا۔ قرارداد کے حق میں مطلوبہ ووٹ نہیں آئے ۔ یہ موجودہ حکومت کے دور میں ایک بدترین انتخابی دھاندلی تھی۔

تحریک انصاف میں لڑائی تیز ہوئی، جہانگیر ترین زیر عتاب آئے۔ سینیٹ کے درمیانی مدت کے انتخابات کا مرحلہ آیا تو حکومت نے اوپن ووٹنگ کی تجویز پیش کی مگر نہ تو الیکشن کمیشن اور نہ ہی سپریم کورٹ نے فوری طور پر اس تجویز پر عملدرآمد کی ہدایت کی اور قومی اسمبلی میں سینیٹ کی نشست کے لیے پیپلز پارٹی کے امیدوار یوسف رضا گیلانی ان ہی تعویزوں کے استعمال سے کامیاب ہوئے جو حکومت نے سنجرانی کو کامیاب کرانے کے لیے استعمال کیے تھے۔ ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں پریزائیڈنگ افسر لاپتہ ہوئے۔

70 کی دہائی سے انتخابات کورکرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ پریزائیڈنگ افسروں کا لاپتہ ہونا انتخاب والے دن معمول کی بات ہے مگر تاریخ میں پہلی دفعہ الیکشن کمیشن نے اس معاملہ کو ریکارڈ کا حصہ بناکر ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا، یوں پہلی دفعہ الیکشن کمیشن کا کردار واضح ہوا مگر حکومت کو یہ سب کچھ پسند نہ آیا۔ وزیر اعظم عمران خان اور کچھ وزراء نے چیف الیکشن کمشنر پر حملے شروع کیے، پھر یہ سلسلہ رک گیا۔ کسی خیرخواہ نے مشورہ دیا ہوگا کہ جولائی تک الیکشن کمیشن کے دو ارکان ریٹائر ہوںگے اور حکومت اپنے حامیوں کو الیکشن کمیشن کا رکن بناسکے گی۔

حکومت نے سنجیدگی سے الیکٹرونک مشین کی خریداری پر توجہ دی۔ الیکٹرونک مشین کسی صورت شفاف انتخابات کا حل نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں بجلی کی عدم فراہمی ، ڈیٹا میں غلطیاں، ہر فرد کا اس مشین کوا ستعمال کرنے کا طریقہ سیکھنا ، خاص طور پر بوڑھوں اور خواتین کو اس مشین کے ذریعہ ووٹ ڈالنے کی آزمائش اور پھر ووٹر کے ووٹ کا افشاں ہونا بڑے اہم معاملات ہیں۔ امیدوار کی طرف سے مشین کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا مسئلہ ہمیشہ موجود رہے گا۔

بھارت میں بھی اب اس مشین کی غیر جانبداری اور کارکردگی پر اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔ جب تک پارلیمنٹ طویل بحث و مباحثہ کرکے ان اداروں کا تعین نہیں کرے گا جو انتخابی عمل کو سبوتاژ کرتے ہیں اور الیکشن کمیشن کی بالادستی تمام ریاستی ادارے قبول نہیں کریں گے تو الیکٹرونک مشین کے ذریعہ ووٹنگ ہو یا پرانے طریقہ کار کے مطابق انتخابات کے نتائج مشکوک رہیں گے۔

جب تک RTS بند کرانے، پریزائیڈنگ افسروں کو لاپتہ کرنے اور پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ اسٹیشن سے بے دخل کرنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون سازی نہیں ہوگی اور ان خلاف ورزیوں کے مرتکب افراد کو سزائیں نہیں ہونگی اور بجلیاں گرانے والی قوتیں مفلوج نہیں ہونگی شفاف انتخاب کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔

The post شفاف انتخابات کا حصول ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3sXLni8
via IFTTT

No comments:

Post a Comment