Tuesday, April 27, 2021

کورونا وبا نے شعبہ صحت کی اہمیت اجاگر کردی ایکسپریس اردو

بھارت میں کورونا وائرس نے قیامت برپا کردی ہے ، بین الاقوامی میڈیا کے مطابق فٹ پاتھوں پر لاشیں اور بیمار افراد موجود ہیں، نئی دہلی میں کورونا کی شرح 37فیصد تک پہنچ گئی ہے، بیشتراسپتالوں میں آکسیجن کی شدید قلت ہے،ٹرینیں اسپتالوں میں بدل گئیں۔

حالات اس قدر خوفناک ہیں کہ آکسیجن سلنڈرز کی حفاظت کے لیے پولیس اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں،اسپتالوں کے باہر آکسیجن کا انتظار کرتے مریض مررہے ہیں۔کورونا وائرس کی شدت نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے ، دنیا بھر میں اب تک تقریبا گیارہ لاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔

بھارت میں صحت کا انفرا اسٹرکچر کمزور ہے ، جو یہ بوجھ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتا ہے۔ بھارت اپنے بجٹ کا بہت بڑا حصہ دفاعی اخراجات پر خرچ کرتا ہے ۔ خطے کی سپرپاور بننے کے خبط اورجنگی سازوسامان کے انبار لگانے کی پالیسی نے بھارت کو آج یہ دن دکھائے ہیں کہ عوام کو صحت ،علاج ومعالجے کی  بنیادی سہولتیں میسر نہیں ہیں ، لوگ سڑکوں پر مر رہے ہیں ، یہ مناظر انتہائی دردناک ہیں ، ان ہولناک مناظر کی تصاویر اور فوٹیج دیکھ کر کسی بھی انسان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں اور کلیجہ منہ کو آجاتا ہے ،میڈیا کی اطلاعات کے مطابق  بھارت میں کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے باعث دولت مند افراد  نجی طیاروں کے ذریعے ملک سے چلے گئے۔

تقریبا آٹھ نجی طیاروں کو برطانیہ میں اترنے کی اجازت ملی جو تقریبا ستر ہزار پونڈ فی طیارے کی قیمت ادا کرکے پہنچے جب کہ دوسری جانب بھارت میں کورونا کی یلغار نے آئی پی ایل میں حصہ لینے والے کرکٹ کے کھلاڑیوںمیں خوف پیدا کردیا ہے اور وہ بھی ملک چھوڑ کر جارہے ہیں ۔

اتنے وسیع پیمانے پر ہونے  والی اموات کا ذمے دار وزیراعظم نریندرمودی کو ٹھہرایا جارہا ہے ، جو بروقت اقدامات کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں ۔ بھارت ،کورونا وائرس میں مبتلا مریضوں کی تعداد کے حوالے سے ایک بار پھر دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر آ گیا ہے، کورونا وائرس کے خوفناک پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے پاکستان پہلے ہی  بھارت کو ہر ممکن تعاون کی پیش کش کرچکا ہے ۔

پاکستان میں بھی کورونا وائرس کا پھیلاؤ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے ، عوام احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کررہے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ حکومت نے ملک کے تمام بڑے شہروں میں فوج  تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، روزانہ اموات کی شرح اور مثبت کیسز کی شرح بڑھتی جارہی ہے ، اگر صورت حال اسی نج پر رہی توآنے والے دنوں میں لاک ڈاؤن کیا جاسکتا ہے ، لاک ڈاؤن انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے تو ضروری ہے لیکن یہ ملکی معیشت کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہوگا۔

بیروزگاری اور غربت کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا ۔پاکستان کے عوام کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ کورونا ایس اوپیز پر عمل کرنا ان کی جانوں کے تحفظ کے لیے کتنا ضروری ہے ، جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ پاکستان کو درپیش ان گنت مسائل میں سے صحت کی سہولیات کی فراہمی شائد سب سے زیادہ سنگین ترین مسئلہ ہے، صحت کی سہولیات ہر فرد کا بنیادی انسانی حق ہے لیکن بدقسمتی سے صرف امیروں کو ہی پاکستان میں صحت کی معیاری سہولیات تک رسائی حاصل ہے۔ ریاست نے صحت کو نجی شعبے کے حوالے کردیا ہے اور اپنے شہریوں کو صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی میں اپنی ذمے داری ترک کردی ہے۔

پاکستان میں عام آدمی کے لیے صحت کی سہولیات انتہائی مہنگی ہوگئی ہیں، نجی شعبے نے صورت حال کا فائدہ اٹھایا اور دولت کمانے میں مصروف ہوگیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹرز نجی کلینکس پر ڈھائی ہزار سے چار ہزار روپے مریض کو چیک کرنے کے لے رہے ہیں۔ ایک لیبارٹری ٹیسٹ کرایا جائے تو اوسط 5ہزارروپے تک لاگت آتی ہے جب کہ درمیانے درجے کے نجی اسپتال میںکمرے کا کرایہ8تا 15ہزار روپے یومیہ ہوتا ہے جب کہ ایک انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) کا بستر روزانہ ایک لاکھ روپے تک ہوسکتا ہے۔

حکومت لوگوں کومیڈیکل کارڈ مہیا کررہی ہے جس کی ادائیگی بنیادی طور پر عوام کے پیسوں سے ہی ہوگی،حکومت کو سیاسی مقاصد کے بجائے طبی سہولیات کو بہتر بنانا چاہیے۔ ملک میں اس وقت کورونا وائرس کو ایک کمائی کا موقع سمجھ کر بھرپور کمائی کی جارہی ہے اور اس وقت چار ہزار سے لے کر آٹھ ہزار تک اور کہیں تو اس سے بھی زیادہ کورونا ٹیسٹ کی قیمت وصول کی جارہی ہے۔آنے  والے دنوں میں اگر کورونا کے مریضوں کی تعداد بڑھتی ہے ، تو پاکستان کا کمزور ترین نظام صحت بھی بیٹھ جائے گا اور خاکم بدہن ہمیں بھی بھارت جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ، لہٰذا اہل وطن احتیاط کا دامن تھام لیں ، اسی میں ان کی بقا اور سلامتی ہے ۔

دنیا کورونا وائرس کے ہاتھوں بے بس ہوچکی ہے ، کونساملک ہے جو اس بھیانک صورت حال سے دوچار نہیں ہے ،امریکا، برطانیہ ،فرانس ، اٹلی میں بھی موت کا رقص جاری ہے ۔ ایک جانب دنیا میں وحشت اور خوف کا راج ہے تو دوسری جانب سن دو ہزار بیس  کے اعدادوشمار میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں دفاعی اخراجات کی مد میں مجموعی طور پر تقریبا 2کھرب ڈالر خرچ کیے گئے۔

62فیصد مالی وسائل امریکا، چین، بھارت، روس اور برطانیہ نے خرچ کیے،جی ڈی پی میں تنزلی کے باوجود جنگی مقاصد کے لیے پہلے سے بھی زیادہ مالی وسائل خرچ کیے گئے،ان میں سے بھی امریکا، جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت بھی ہے ، وہ واحد ملک تھا، جس نے فوجی مقاصد کے لیے دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ رقوم خرچ کیں۔

سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں قائم امن پر تحقیق کرنے والے بین الاقوامی ادارے سِپری (SIPRI) کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ 2020میں پوری دنیا میں دفاع کے نام پر فوجی بجٹ اور ہتھیاروں پر کل 1981 بلین ڈالر خرچ کیے گئے، تقریباً دوکھرب امریکی ڈالر کی یہ رقوم 1.65 ٹریلین یورو کے برابر بنتی ہیں۔

یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ آج بھی دنیا کے ممالک کی ترجیحات میں اسلحے کی دوڑ شامل ہے ، جب کہ انسانیت سسک رہی ہے، لاکھوں افراد ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں جارہے ہیں ، کورونا وائرس نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ دنیا کی ترجیحات انتہائی غیرانسانی ہیں ۔ اقوام عالم کو مل بیٹھ کر انسان اور انسانیت کے بارے میں سوچنا ہوگا، اربوں، کھربوں ڈالر یہ رقم گولہ وباروڈ کے ڈھیر لگانے کے بجائے اگر ویکسین کی تیاری اور مریضوں کو طبی سہولتوں کی فراہمی پر خرچ کی جاتی تو اتنے وسیع پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہوتا ۔

کورونا وائرس کے پھیلاؤ نے شعبہ صحت کی جانب ہماری حکومتوں کی عدم توجہی کو بے نقاب کیا ہے ۔صحت کا بجٹ صرف400 ارب روپے ہے ،اگر موجودہ حکومت اصلاحات کا نفاذ چاہتی ہے تو اسے سب سے پہلے نجی اسپتالوں، ادویات ساز کمپنیوں اورلیبارٹریوں کو احتساب کے کٹہرے میں لانا ہوگا کیونکہ نجی اسپتالوں میں محض کمیشن کے لیے غیر ضروری ٹیسٹ تجویز کیے جاتے ہیں۔اس وقت حکومت کو طبی شعبے کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے جس میں اسپتالوں کی رجسٹریشن، ٹیکس، فیسوں کے ڈھانچے، معیار اور مریضوں کی شکایت کا نظام شامل ہونا چاہیے۔

جب تک حکومت مہنگے اورغیر منظم نظام کی اصلاح نہیں کرتی تب تک صحت کارڈز جیسے اقدامات کبھی ہماری طبی ضروریات کو پورا کرسکتے ہیں نہ غریبوں کو سستی اور معیاری صحت کی سہولیات تک رسائی حاصل ہوگی۔

صحت کے بجٹ میں ہر سال اضافہ بھی ہونا چاہیے۔تمباکو، بیوریج اور جنک فوڈ انڈسٹری سے جمع ہونے والے تمام ٹیکسز 120 سے 150 ارب روپے صحت کے شعبے پر خرچ کیے جائیں ۔ صحت عامہ کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے قومی اور صوبائی سطحوں پر ہیپاٹائٹس بی /سی، ایچ آئی وی ایڈز، تمباکونوشی پر کنٹرول، ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، کینسر کی روک تھام، دماغی صحت اور نومولود اور ماں کی صحت جیسے شعبوں کو ترجیح میں رکھنا چاہیے۔

صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے مربوط ماڈل تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس میں سرکاری و نجی ادارے اور این جی اوز باہم اشتراک کریں۔EPI ویکسی نیشن پاکستان میں تقریباً 80 فیصد آبادی کا احاطہ کرتی ہے،اس کی کوریج 98 سے 100 فیصد تک یقینی ہونی چاہیے،تاکہ ایسے امراض جو ویکسین کے ذریعے روک تھام کے قابل ہیں، ان پر قابو پایا جا سکے۔

یہ تسلیم شدہ امرہے کہ دنیا میں وہی ممالک ترقی کی منازل طے کرتے ہیں جو تعلیم صحت اور انفرااسٹرکچر کے شعبوں کو مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار کرتے ہیں ، ہماری سیاسی قیادت کی فہم وفراست اورتدبر کا امتحان ہے کہ وہ کیسے کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں روکنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور مستقبل میں ملک وقوم کو ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں ۔

The post کورونا وبا نے شعبہ صحت کی اہمیت اجاگر کردی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3tZDom9
via IFTTT

No comments:

Post a Comment