کورونا وائرس کی تیسری لہر پہلی دو لہروں سے زیادہ مہلک اور خطر ناک واقع ہورہی ہے۔ متاثرین کی تعدادمیں آئے روز اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے اور کورونا کی شرح پھیلاؤ بھی تشویش ناک حد تک بڑھتی جارہی ہے۔
طبی ماہرین بہت پہلے سے ہی صورت حال کی سنگینی سے خبردار کرتے آرہے تھے لیکن ہمارے معاشرے میں حسب سابق کسی بھی بات پر توجہ نہیں دی گئی۔ گزشتہ سال کے اختتام پر جب کورونا کی شدت میں کافی حد تک کمی ہونے لگی تھی ، تبھی وبائی امراض کے ماہرین اس بات پر زور دیتے آرہے تھے کہ اس وائرس کی واپسی بڑی شدت کے ساتھ ہوسکتی ہے ، حفاظتی تدابیر کو نظر انداز نہ کیا جائے۔
اگر ہم ماسک کا باقاعدہ استعمال کرتے رہتے، سماجی فاصلے کا لحاظ اور غیر ضروری میل ملاپ سے احتراز کرتے تو شاید موجودہ خطرناک صورتحال سے بچا جا سکتا تھا لیکن ہمارے ہاں شروع دن سے ہی معدودے چند حساس اور پڑھے لکھے لوگوں کے سوا کورونا وائرس کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں گیا۔ وائرس کے حوالے سے طرح طرح کے افسانے اور ڈرامے پیش کیے جاتے رہے۔
ایک مخصوص طبقہ تو اسے انسانیت کے خلاف سازش قرار دیتا آرہا ہے حالانکہ اگر وبائی امراض کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو گزشتہ کئی صدیوں سے روئے زمین پر بہت سارے وبائی امراض کی پیدائش اور افزائش ہوئی اور پھر وہ لاکھوں کروڑوں انسانوںکی زندگیوں کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں۔
وبائی مرض اس بیماری کو کہا جاتا ہے جو کسی فضائی، ہوائی اور خلائی تعفن کے باعث رونما ہوا ہو، یہ انسانوں میں ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے میں منتقل ہونے کی صلاحیت وطاقت رکھتا ہے۔اب تک دنیا کے مختلف ممالک میں پھوٹنے والے وبائی یا متعددی امراض کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایک حقیقت مشترک سامنے آتی ہے کہ سبھی امراض پر ہجوم اور رش والے علاقوں سے ہی سامنے آئے۔ طاعون کا مرض ہو یا جذام کی بیماری، ہسپانوی زکام ہو یا ٹی بی، چیچک ہو یا خسرہ اور مرض ہیضہ کی شدت ہو یا ایڈز کی تباہ کاری یہ تمام امراض باہمی اختلاط ، میل جول اورسماجی رابطوں کے باعث ہی پھیلتے ہیں۔
کورونا وائرس کی تیسری لہر کا اس قدر خطرناک بن کر سامنا آنا طبی ماہرین کے لیے حیرت ناک ہے۔آئیے دیکھتے ہیں کہ کورونا کی شدت میں تیزی آنے کی وجوہات کیا ہیں اور ان سے کیسے نمٹا جا سکتا ہے؟
رواں موسم معمول سے ہٹ کر سرد اور خنکی لیے ہوئے ہے۔ ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ ہے جبکہ روزے کی حالت میں بدن انسانی کا درجہ حرارت میں اضافہ ہوجانے سے پیاس کی شدت اور بدن کی تلخی ٹھنڈے ماحول ، ٹھنڈے پانی کا تقاضا کرتے ہیں۔کتنی عجیب بات ہے کہ اپریل کے اختتام تک بھی ہم نہانے کے لیے نیم گرم پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں جبکہ افطار میں ٹھنڈے ٹھار مشروبات کا استعمال کر رہے ہیں۔
دن اور رات میں ائیر کنڈیشنرز اور روم کولرز کا استعمال بھی عام کیا جارہا ہے ، جب انسانی بدن کے درجہ حرارت اور ماحولیاتی ٹمپریچر میں توازن نہیں رہتا تو بدن انسانی نفیس ہونے کے باعث اثر قبول کیے بنا نہیں رہتا۔ افطاری میں یخ ٹھنڈے مشروبات کے استعمال سے گلے اور حلق کے مسائل پیدا ہونا عام اور معمول کی بات ہے۔ جب حلق میں ورم اور سوزش پیدا ہوتی ہے تو بدن کا بخار میں لپیٹ میں لازمی ہوجاتا ہے۔ ناک،حلق ،کان اور آنکھوں کا مقام اتصال مشترکہ ہے جس سے لامحالہ سانس کی نالی سمیت ناک کی جھلیوں کی سوزش اور کانوں کا سسٹم متاثر ہونا فطری امر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا و ائرس کے مریضوں میں گلا ، ناک سانس کی نالی کانوں کا متاثر ہونا عام علامات میں سے ہے۔
موجودہ صورتحال میں کورونا سے بچاؤ کے لیے ہم اپنی غذائی عادات اور روز مرہ خوراک میں تبدیلیاںپیدا کر کے خاطر خواہ حد تک اس کے ممکنہ حملے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ سحری میں ترش دہی، برف اور پراٹھے کا استعمال ترک کردیں۔ سادہ روٹی سالن اور سادہ پانی پینے کو معمول بنالیں۔ اسی طرح افطاری میں ٹھنڈے اور میٹھے مشروبات ، سموسے، کچوریاں اور تلی و بھنی غذاؤں سے پرہیز کریں۔
کھجور، سادہ پانی اور روٹی سالن سے ہی روزہ افطار کرنے کو معمول بنالیں۔ سحری اور افطاری میں ادرک والی چائے پینا بھی بے حد فوائد کا سبب بنتی ہے۔ فضا و ہوا میں خنکی اور نمی کے باعث ائیر کنڈیشنر اور ائیر روم کولرز کا استعمال بھی ابھی ہفتہ وعشرہ نہیں کرنا چاہیے۔ مئی کے وسط سے موسم میں شدت پیدا ہوجانے سے انسانی بدن کا درجہ حرارت اور موسمی ٹمپریچر میں توازن قائم ہوجانے سے بیماری کے اثرات میں کمی آنے لگے گی۔
درج ذیل گھریلو غذائی تدابیر اپنا کر صحت مند و توانا زندگی سے بھرپور لطف اٹھا سکتے ہیں۔
افطاری میں مغز بادام 20 عدد، کشمش20 دانے عرق گلاب میں بھگو ئے ہوئے دودھ ملا کر شیک بنا کر بطور مشروب استعمال کرنا توانائی بحال کرنے اور بدن کی قوت مدافعت میں اضافہ کرنے کے لیے بہترین غذا ہے۔ اسی طرح ڈیڑھ پاؤ دودھ میں 5 سے 7 کھجوریں تر کر کے چار کیلے ملاکر شیک بنا کر افطار کرنا بھی بہترین غذائیت کا سبب بنتا ہے۔ بعض امراض میں مبتلا افراد بھی کورونا کا آسان ہدف ہوسکتے ہیں جن میں شوگر، ہیپاٹائٹس،امراض قلب، امراض گردہ، سانس کی پرابلم، دمہ، موسمی الرجی وغیرہ شامل ہیں۔
ان افراد کو اپنے معالج کے ساتھ ہمیشہ مشاورت میں رہتے ہوئے اپنی دوا اور غذا پر بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ ایسے افراد جنہیں دائمی قبض کا مسئلہ ہو انہیں چاہیے کہ عمدہ انجیر 3 سے 5عدد عرق گلاب میں بھگو کر حسب ضرورت دودھ شامل کر کے شیک بنا لیں اور رات سوتے وقت نوش جام کریں۔اس مرکب سے نہ صرف دائمی قبض سے نجات ملے گی بلکہ جسمانی کھوئی ہوئی توانائی کی بحالی کے لیے بھی بہترین ٹانک ہے۔
بلڈ پریشر اور شوگر میں مبتلا افراد کو چاہیے کہ عرق گاؤزبان پون کپ اور عرق گلاب چار چمچ ملا کر سحری میںپئیں۔ امراض قلب میں مبتلا افراد مربہ بہی 50 گرام تک پانی سے اچھی طرح دھو کر لازمی استعمال کریں۔ امراض گردہ کے مریضوں کو پانی میں سونف ابال کر پانی استعمال کرنا چاہیے۔ موسمی الرجی کے مریضوں کو روزانہ بھاپ لازمی لینی چاہیے اور مرض میں شدت پیدا نہ ہونے دی جائے۔ جسمانی کمزوری میں مبتلا افراد کو چاہیے کہ وہ درج ذیل اجزاء مغز بادام، مغز اخروٹ،مغز پستہ، مغز چلغوزہ اور مغز فندق ہم وزن سفوف بنا کر محفوظ کرلیں۔
پانی میں تیار شدہ جوکے دلیے میں حسب گنجائش ملاکر بطور ڈنر استعمال کریں۔ یہ مرکب، دماغی ، اعصابی، عضلاتی اور جسمانی قوت میں بے بہا اضافے کا سبب ثابت ہوگا۔ اسی طرح سحر و افطار میں سیاہ یا سفید چنوں کے شوربے میں چپاتی بطور سرید استعمال کریں۔ چائے میں ادرک ، دار چینی اور لونگ کا مناسب مقدار اور حسب ذائقہ شامل کرنا بھی مفید ثابت ہوگا۔ سبز چائے کے پتوں میں ادرک پکا کر پینا بھی بے حد فوائد کا ذریعہ ہے۔ موسمی پھل حسب ضرورت اور گنجائش بھی لازمی کھائیں۔
پھلوں کے جوسز کا پینا زیادہ مفید ثابت ہوا کرتا ہے لہٰذ پھلوں کے جوسز بدنی ضرورت اور گنجائش کو مد نظر رکھتے ہوئے سحر و افطار میں لازمی شامل کیے جائیں۔کورونا وائرس سمیت دوسرے امراض سے بچاؤ کے لیے برف کے استعمال سے بچتے ہوئے پانی تازہ ہی پیاجانا چاہیے،جب تک کورونا کی وبا ء ہے رات سوتے و قت پانی کی بھاپ لازمی لیں اور صبح وشام نیم گرم پانی نمک اور شہد ملا کر غرارے کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔ افطاری کے بعد کھانا لازمی کھائیں خواہ دو چار لقمے ہی کیوں نہ ہوں۔
پہلے سے بلغمی امراض میں مبتلا افراد کو بادی مرغن اور ترش غذائی اجزاء کے استعمال سے پرہیز کرنا لازم ہے۔ البتہ ایسے لوگ جنہیں بلغم کی شکایت نہ ہو تو دودھ چاول اور کھچڑی بہترین غذائیں ہیں۔ وباکے دنوں میں اس کے اثرات سے بچاؤ کے لیے کلونجی اور شہد، روغن زیتون، دودھ میں دار چینی ، لونگ اور ادرک کا قہوہ، پیازکا پانی اور شہد ہم وزن اورکالی مرچ و شہد وغیرہ بہترین گھریلو مرکبات ہیں۔ علاوہ ازیں انگور، کشمش، پپیتہ، مربہ آملہ، مربہ ہرڈ، مغز بادام، ایلو ویرا وغیرہ کا مناسب استعمال بھی بہترین نتائج کا حامل ہوتا ہے۔
دھیان رہے کہ عام طور پر کورونا جیسے زیادہ تر امراض سردی اور خشکی بڑھ جانے سے پیدا ہوا کرتے ہیں، ان حالات میں غذائی مینیو بناتے وقت اپنے مزاج اور بدن کی غذائی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔
کورونا سے بچاؤ کی فطری تراکیب
گلے میں خراش اور حلق کی سوزش دور کرنے کے لیے لسوڑیاں 7 دانے، عناب 5 عدد اور بہی دانہ 3 گرام آدھ کلو پانی میں اچھی طرح پکا کر بطور جوشاندہ دن میں تین بار پینے سے ہی حلق کی سوزش اور خراش میں نمایاں کمی محسوس ہونے لگتی ہے۔املتاس کا گودا پانی میں پکا کر ایک چمچ شہد ملا کر بطور شربت پینا بھی گلے کی سوزش اور خراش سے نجات دلاتا ہے۔ پھیپھڑوں سے جمی بلغمی رطوبات نکالنے کے لیے ایک گرام ادرک، ایک گرام سنا مکی اور چند گلاب کی پتیاں ایک کپ پانی میں پکا کر دو چمچ شربت زوفا ملا کر پینے سے پھیپھڑے بلغمی مواد سے صاف ہونے لگتے ہیں۔
گلے کے امراض میں ملٹھی بہترین دوا ہے۔ ملٹھی چوسنا اور ملٹھی کا جوشاندہ پینا مفید ثابت ہوتا ہے۔ دیسی انڈا ، دیسی مرغ کی یخنی، چنوں کا شوربہ ، مٹن پائے کی تری وغیرہ کا استعمال بھی گلے کے امراض سے بچنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ سانس کی نالیوں کی سوزش اور تنگی کے لیے گل زوفا ایک گرام، گل بنفشہ ایک گرام، برگ بانسہ ایک گرام اور پٹھکنڈ ایک گرام ایک کپ پانی میں اچھی طرح پکا خالص شہد کی چمچ ملا کر پلانے سے سانس کی بحالی میں مدد ملتی ہے۔ اسی طرح چھاتی پر پھیپھڑوں کے مقام پر سامنے اور پیچھے کیسٹر آئل کا مساج کر کے لونگ کی بھاپ لینا بھی سانس کی تنگی دور کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
بخار کی شدت میں کمی لانے کے لیے شربت بنفشہ ، خمیر ہ بنفشہ ، شربت عناب اور خمیرہ گاؤزبان بہترین قدرتی ادویات ہیں۔ پیٹ کو نرم رکھنے کے لیے نیم گرم دودھ میں بادام روغن کے تین سے چار چمچ پلانا بھی بے حد مفید ہوتا ہے۔ بادام روغن بدن کی خشکی ختم کرنے، دائمی قبض کا ازالہ کرنے اور جسمانی کمزوری دور کرنے کا بہترین قدرتی ذریعہ ہے۔ وبا کے دنوں میں پیاز،ٹماٹر، سبز مرچ ،سلاد کے پتوں کو بطور سلاد استعمال مرض کے اثرات سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے کہ ہمارے ہاں لیمن کا استعمال بہت زیاد ہ تجویز کیا جاتا ہے لیکن بلغمی امراض میں ترش اجزاء کا استعمال مرض کی شدت اور نوعیت میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ لہٰذا رواں صورتحال میں لیمن کے غیر ضروری استعمال سے بچنے میں ہی عافیت ہے۔اسی طرح کیلا بھی بلغمی رطوبات کی افزائش میں اضافے کا ذریعہ بنتا ہے۔ نزلے،زکام اور کھانسی کی حالت میں کیلا،چاول، چکنائیاں اور بازاری مٹھائیاں استعمال کرنے سے دور رہنے میں ہی فائدہ ہے۔
نزلے، زکام اور بخار کی حالت میں اے سی یا روم کولرز کے سامنے لیٹنے سے بھی گریز کرنا آپ کی صحت کے لیے فائدہ مند ہوگا۔ بطور حفظ ما تقدم نیم گرم پانی میں نمک ملا کر غرارے کرتے رہنا ، نہانے کے لیے نیم گرم پانی استعمال کرنا، برف اور برف کی مصنوعات سے بچنا بھی وبائی اور موسمی امراض سے حفاظت کا بہترین ذریعہ ہے۔انجانے خوف سے دور رہنا،ذہنی دباؤ اور اعصابی تناؤ سے بچ کر بھی ہم بیماریوں کے حملوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
سب سے اہم بات یہ کہ اللہ پر بھروسہ کرنا ہے اور اللہ کے ذکر و اذکار سے جسمانی و روحانی مسائل سے حفاظت میں مدد طلب کرنا ہے۔ ماہ صیام کی با برکت ساعتوں میں قبولیت عام ہے ہم اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لیے دعائیں مانگ کر بھی اللہ کریم کی رحمت کے حصار میں آسکتے ہیں۔ اللہ کریم ہمیں اپنی رحمت کے حصار میں رکھے۔آمین۔
The post کورونا کی تیسری لہر کیوں زیادہ خطرناک ہوئی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3nua4l6
via IFTTT
No comments:
Post a Comment