Sunday, March 31, 2019

چین میں دھاتوں کی فیکٹری میں دھماکا، 7 ملازمین ہلاک ایکسپریس اردو

شنگھائی: چین میں ایک فیکٹری میں زوردار دھماکا ہوا ہے جس کے نتیجے میں 7 ملازمین ہلاک اور 5 زخمی ہوگئے ہیں۔

چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق شنگھائی کے نزدیک دھاتیں تیار کرنے والی فیکٹری میں ہونے والے زور دار دھماکے میں 7 ملازمین ہلاک اور 5 زخمی ہو گئے۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو اسپتال منتقل کردیا گیا ہے جہاں 2 زخمیوں کی حالت نازک بتائی جارہی ہے۔

دھماکا اس وقت ہوا جب  کمپنی میں لوہے کو پگھلانے کے لیے بھٹی میں ڈالا جا رہا تھا، دھماکا اتنا زوردار تھا کہ شعلے آسمان کو چھونے لگے، فیکٹری کے اطراف کے علاقے کو آمد و رفت کے لیے بند کردیا گیا جب کہ فیکٹری سے آتش گیر مادہ ہٹا دیا گیا۔

واضح رہے کہ چین کی فیکٹریوں میں احتیاطی تدابیر اور سیفٹی کے ضوابط ناقص تصور کیے جاتے ہیں۔ رواں ماہ ہونے والا یہ تیسرا دھماکا ہے اس سے قبل شنڈونگ صوبے کی فیکٹری میں ہونے والے دھماکے میں 5 افراد اور صوبے جیانگسو کی کیمیکل فیکٹری میں ہونے والے دھماکے میں 78 افراد ہلاک اور 650 زخمی ہو گئے تھے۔

The post چین میں دھاتوں کی فیکٹری میں دھماکا، 7 ملازمین ہلاک appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2TJZgPA
via IFTTT

کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں اور نہ فوجی طاقت اس کا حل ہے، بھارتی صحافی ایکسپریس اردو

دوحا: بھارتی صحافی اور مصنفہ ارون دھتی رائے نے کہا ہے کہ مودی سرکار کی نفرت آمیز پالیسیوں کے باعث بھارت میں انتہا پسندی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے اور انہی متنازع پالیسیوں کے باعث کشمیر میں بھی حالات خراب ہوئے۔

بین الاقوامی نشریاتی ادارے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے معروف بھارتی دانشور، مصنفہ اور صحافی ارون دھتی رائے نے کہا کہ فوجی طاقت کا استعمال مسئلہ کشمیر کا حل نہیں ہے اور نہ ہی کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ اس مسئلے کو وہاں کی عوام پر چھوڑ دیا جائے۔

مودی سرکار کی منافقت کا پردہ چاک کرتے ہوئے بھارتی مصنفہ کا کہنا تھا کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں وزیراعظم مودی کا رویہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ تھا۔ مودی کی پالیسیوں کے باعث بھارت انتہا پسندی کا شکار ہو گیا اور بھارتی میڈیا سے لیکر عوام تک جنگی جنون میں مبتلا ہوگئے۔

ایک سوال کے جواب میں  خاتون صحافی کا کہنا تھا کہ بھارت میں کسان، عدالتی نظام، تاجر اور طلباء سب پریشان ہیں کوئی بھی حکمراں جماعت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ تاہم بھارتی انتخابات ذات پات کی پیچیدگیوں میں جکڑے ہوئے ہیں اس لیے نتائج کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔

The post کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں اور نہ فوجی طاقت اس کا حل ہے، بھارتی صحافی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2JSTM56
via IFTTT

مقبوضہ کشمیر میں مسافر بس کے گہری کھائی میں گرنے سے 6 افراد جاں بحق ایکسپریس اردو

 سری نگر: مقبوضہ کشمیر میں مسافر بس خطرناک موڑ کاٹتے ہوئے گہری کھائی میں جا گری جس کے نتیجے میں 6 افراد جاں بحق ہوگئے جب کہ ایک مسافر شدید زخمی ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے ضلع راجوری میں مسافر بس ایک خطرناک موڑ کاٹتے ہوئے ڈرائیور کے قابو سے باہر ہوگئی اور گہری کھائی میں گر مکمل طور تباہ ہوگئی۔

مسافر بس حادثے میں تین افراد موقع پر ہی دم توڑ گئے جب کہ دو شدید زخمیوں نے اسپتال جاتے ہوئے اور ایک دوران علاج خالق حقیقی سے جا ملا۔ ایک شدید زخمی کو جموں کے اسپیشلائزڈ اسپتال منتقل کردیا گیا ہے جس کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔

مسافر بس حادثے کے بعد مقامی افراد نے پولیس اور ریسکیو اداروں کی مدد سے بس میں پھنسے افراد کو نکال کر قریبی اسپتال منتقل کیا۔ ہلاک و زخمی ہونے والوں کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ اس شاہراہ پر حادثے عام ہیں جس کی بنیادی وجہ ناہموار سڑکیں اور خطرناک موڑ ہیں جب کہ حفاظتی اقدام بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ڈرائیورز کی غفلت بھی ان حادثات کی بڑی وجہ ہے۔

 

The post مقبوضہ کشمیر میں مسافر بس کے گہری کھائی میں گرنے سے 6 افراد جاں بحق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2V7KCDb
via IFTTT

پشاور میں دھماکہ، 2افراد زخمی پشاور کے تھانہ خزانہ کے علاقے میں کباڑ گودام میں دھماکہ

”بگڑے شہزادے“ عمر اکمل کی دبئی میں موج مستیاں جاری مڈل آرڈر بلے باز متحدہ عرب امارات کے نائٹ کلب میں مزے کرتے رہے

ہزار روپے مالیت کے انعامی بانڈز کی قرعہ اندازی آج ہوگی

پاکستان سٹاک ایکس چینج میں گذشتہ ہفتے کاروبار حصص میں مجموعی طور پر تیزی کا رجحان رہا کاروباری تیزی کے سبب مارکیٹ کے سرمائے میں 22ارب 54کروڑ91لاکھ58ہزار172روپے کا اضافہ ریکارڈ ... مزید

ہفتہ رفتہ؛ روئی کی قیمتوں میں استحکام، کاروباری حجم میں اضافہ ریکارڈشیئرٹویٹ پھٹی کی عدم دستیابی کے سبب بلوچستان میں جننگ فیکٹریاں بند،فی من روئی کی اسپاٹ قیمت8600 روپے ... مزید

قائد اعظم انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر کھڑے ناکارہ جہازوں کے حوالے سے خبریں نشرہونے پر محکمہ کسٹم حرکت میں آگیا، ٹیکنیکل کمیٹی تشکیل دے دی گئی

شعبہ آرکیالوجی جامعہ پنجاب نے قدیم جگہ کی ثقافت اور تاریخ جاننے کے لئے کھدائی کا آغاز کر دیا

جماعت اسلامی پاکستان رابطہ عوام مہم کے سلسلے میں حلقہ خواتین پی پی160کاوحدت کالونی میں کیمپ

دیہی معیشت کو فروغ دینے کے لئے کئی منصوبوں پر کام شروع کردیا ہے‘محمد عدنان حکومت ریشم کے کیڑوں کی پرورش کیلئے ضروری معاونت فراہم کریگی ‘پارلیمانی سیکرٹری پنجاب

طلبا ء پاکستان کا مستقبل ہیں اور اساتذہ کا بچوں کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ہوتا ہے‘ اسلم اقبال بچوں میں سے مستقبل میں کئی نامور شخصیات ابھر کر سامنے آئیں گی جو پاکستان ... مزید

گورنر پنجاب نے لاہور، عبدالحکیم موٹروے ایم تھری کا افتتاح کر دیا

چین صحراں کو آباد کرنا چاہتا ہے انہیں چولستان میں بڑی اراضی دیں گے‘نعیم الحق آئندہ سالوں میں اربوں کی تعداد میں درخت لگائینگے ، ڈرون منگوا رہے ہیں جو ایک گھنٹے میں ایک ... مزید

حکومت اپنی غلطیوں کا بوجھ عوام پر ڈال رہی ہے،سردار اویس لغاری توانائی کے حل کیلئے کوئی عمل پالیسی نہیں،حکومت گردشی قرضے کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوچکی ہے،سابق وفاقی وزیر ... مزید

کراچی ،ایم کیو ایم کے رہنماخواجہ اظہارالحسن کی گاڑی کو حادثہ، خواجہ اظہارالحسن اور ان کے تین محافظ شدید زخمی خواجہ اظہارالحسن کو سر، کمر اورسینے میں چوٹیں آئی ہیں، ان ... مزید

ڈر ہے نیا پاکستان والے کرنسی سے قائداعظم کی تصویرنہ نکال دیں،سید خورشیدشاہ بے نظیر اِنکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے کیخلاف مزاحمت کریں گے، اس طرح کی حرکت کوئی کم ... مزید

’’پراجیکٹ غازی‘‘ شائقین کو متاثر کرنے میں ناکام ایکسپریس اردو

کراچی: دوروز قبل ریلیز کی گئی پاکستانی فلمی صنعت کی جدید ٹیکنالوجی سے مزین سپر ہیرو فلم ’’ پراجیکٹ غازی‘‘  شائقین کو متاثرکرنے میں ناکام رہی ہے۔

انٹرٹینمنٹ پی کے ڈاٹ کام اور گیلیکسی لالی ووڈ کے مطابق ریلیز کے پہلے روز ’’پراجیکٹ غازی‘‘ صرف 30 لاکھ کا بزنس کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ فلم کی کہانی محب وطن، دلیر اور ایسے جانثار فوجیوں کی زندگیوں کا احاطہ کرتی ہے جو اپنے ملک و قوم کے تحفظ کی خاطر نادیدہ قوتوں سے ٹکرانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: میکال ذوالفقار کی ’شیردل‘ نے ’لال کبوتر‘ کو پیچھے چھوڑ دیا

فلم’’پراجیکٹ غازی‘‘ کو دو سال قبل جولائی 2017 میں ریلیز ہونا تھا فلم کا پریمیئر بھی ہوچکا تھا تاہم کچھ تکنیکی وجوہات کی بنا پر فلم کو ریلیز نہیں کیاجاسکا۔ دو سال کے طویل عرصے کی تاخیر کے بعد فلمی شائقین کو ’’پراجیکٹ غازی‘‘ سے بے حد امیدیں تھیں، تاہم پاکستانی سپر اسٹار ہمایوں سعید، شہریار منور اورسائرہ شہروز جیسی بڑی کاسٹ بھی فلمی شائقین کو زیادہ تعداد میں سینما گھروں تک لانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔

واضح رہے کہ ’’پراجیکٹ غازی‘‘ سے ایک ہفتے قبل 23 مارچ کے موقع پر ریلیز ہوئی فلم ’’شیردل‘‘ ریلیز کے پہلے روز ایک کروڑ 15 لاکھ کا بزنس کرنے میں کامیاب ہوئی تھی جب کہ فلمی ناقدین کی جانب سے ’’پراجیکٹ غازی‘‘ کو ’’شیردل‘‘ کے لیے کڑا مقابلہ قرار دیا جارہا تھا تاہم ہمایوں سعید کی ’’پراجیکٹ غازی‘‘ توقع کے مطابق بزنس کرنے میں ناکام ہوگئی۔ تاہم امید کی جارہی ہے کہ فلم ویک اینڈ پر اچھا بزنس کرے گی۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: ’’جوانی پھر نہیں آنی 2‘‘ نے پاکستانی شائقین کے دل جیت لئے

دوسری جانب ’’پراجیکٹ غازی‘‘ ہمایوں سعید کی گزشتہ چند برسوں میں اتنا کم بزنس کرنے والی پہلی فلم ہے اس سے قبل گزشتہ برس ریلیز ہوئی ہمایوں سعید کی فلم’’جوانی پھر نہیں 2‘‘ ریلیز کے پہلے روز 3 کروڑ 22 لاکھ کا کھڑکی توڑ بزنس کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔

The post ’’پراجیکٹ غازی‘‘ شائقین کو متاثر کرنے میں ناکام appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2JTxYGR
via IFTTT

کیا ارمیلا ماٹونڈکر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئیں؟ ایکسپریس اردو

ممبئی: نامور بھارتی اداکارہ ارمیلا ماٹونڈکر کے بھارتی سیاسی جماعت کانگریس میں شامل ہونے کے 24 گھنٹے بعد ہی سوشل میڈیا پر ان کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی خبریں گردش کرنے لگیں۔

فلم’’رنگیلا ‘‘سے شہرت حاصل کرنے والی نامور بالی ووڈ اداکارہ ارمیلا ماٹونڈکر دوروز قبل ہی بھارتی سیاسی جماعت کانگریس میں شامل ہوئی ہیں اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وہ کانگریس کی طرف سے لوک سبھا کے الیکن میں حصہ لے سکتی ہیں۔ تاہم ان کی کانگریس میں شمولیت کے 24 گھنٹوں بعد ہی بھارتی سوشل میڈیا پر یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ ارمیلا دائرہ اسلام میں داخل ہوگئی ہیں اور انہوں نے اپنا نام بھی ارمیلا ماٹونڈکر سے تبدیل کرکے مریم اختر میر رکھ لیا ہے۔

بھارتی ویب سائٹ بوم لائیو ڈاٹ ان کے مطابق ارمیلا کی کانگریس میں شمولیت کچھ لوگوں کوہضم نہیں ہورہی اور انہوں نے اداکارہ کے خلاف پیروپیگنڈہ کرتے ہوئے ان کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی جھوٹی افواہیں پھیلاناشروع کردی ہیں۔ ارمیلا ماٹونڈ کرنے 2016 میں کشمیری بزنس مین اور ماڈل محسن اختر میر سے شادی کی تھی۔ جب اس حوالے سے ان کے شوہر سے پوچھاگیا تو انہوں نے ارمیلا کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا  کہ الیکشن سے قبل اس طرح کے گیم کھیلنا بہت عام بات ہوگئی ہے لیکن ہم اس  چیز سے پریشان نہیں ہیں، میری بیوی نے اسلام قبول نہیں کیاہ ے اور نہ ہی انہوں نے اپنا نام تبدیل کیا ہے۔

ارمیلا کے خلاف فیس بک پر کی جانے والی پوسٹ کے مطابق ارمیلا ماٹونڈکر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئی ہیں اور انہوں نے کشمیری بزنس مین محسن اختر میر سے شادی کی ہے جس کے بعد ان کا نام میریم اختر میر ہوگیا ہے لیکن الیکشن میں حصہ لینے کے باعث اور ہندوؤں کو بیوقوف بنانے کے لیے انہیں ارمیلا ماٹونڈ کر ہی لکھا جائے گا۔

دوسری جانب کانگریس کے ترجمان سچن ساونت نے ان افواہوں کا ذمہ دار بی جے پی کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس پروپیگنڈے سے ظاہر ہورہا ہے کہ بی جے پی ارمیلا کو اپنا سخت حریف سمجھ رہی ہے۔

The post کیا ارمیلا ماٹونڈکر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Um15Xa
via IFTTT

چین صحراؤں کو آباد کرنا چاہتا ہے انہیں چولستان میں بڑی اراضی دیں گے، نعیم الحق ایکسپریس اردو

 لاہور:  وزیراعظم کے سیاسی معاون خصوصی نعیم الحق کا کہنا ہے کہ چین صحراؤں کو آباد کرنا چاہتا ہے لہذا انہیں چولستان میں بڑی اراضی دیں گے۔

لاہور میں شجرکاری مہم کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کے سیاسی معاون خصوصی نعیم الحق کا کہنا تھا کہ شجرکاری آنے والی نسلوں کے لیے تحفہ ہوگا جو ہم چھوڑ کر جائیں گے، آئندہ سالوں میں اربوں کی تعداد میں درخت لگائیں گے، ڈرون منگوا رہے ہیں جو ایک گھنٹے میں ایک لاکھ بیج پھینکیں گے، چین صحراؤں کو آباد کرنا چاہتا ہے لہذا انہیں چولستان میں بڑی اراضی دیں گے۔

نعیم الحق نے کہا کہ عمران خان روزانہ شجر کاری کا ذکر کرتے ہیں، پرائیویٹ شعبے کو بھی اس کام میں آگے آنا ہے، سو ایکٹر پر اگر چھانگا مانگا جیسا جنگل لگائیں تو لاہور کے لیے بہترین ہوگا، ہر شہر کے اردگرد گرین بیلٹ ہونی چاہیے، اسلام آباد کے گرد گرین بیلٹ کو ہاوسنگ سوسائٹی بنادی گئی ہے۔

نعیم الحق نے کہا کہ تنخواہوں میں اضافے کا بل مکمل واپس لے لیا گیا ہے جب کہ عمران خان نہیں چاہتے کہ کہیں ان کے نام کی تختی لگائی جائے، آصف زرداری اور نواز شریف کے کیسز پر قانون کے پابند ہیں، شروع سے موقف ہے کہ جن لوگوں نے ملک لوٹا ان سے رقم واپس لی جائے۔

The post چین صحراؤں کو آباد کرنا چاہتا ہے انہیں چولستان میں بڑی اراضی دیں گے، نعیم الحق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2U4Oh8h
via IFTTT

مقبوضہ کشمیر میں 24 گھنٹے کے دوران بھارت کے 2 سیکیورٹی اہلکاروں کی خود کشی ایکسپریس اردو

 سری نگر: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیکیورٹی فورس کے ایک اور اہلکار نے خود کو گولی مار کر خود کشی کرلی اس طرح چوبیس گھنٹوں میں خود کشی کرنے والے اہلکاروں کی تعداد 2 ہوگئی ہے۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے علاقے سولینا میں انڈیا تبت بارڈر پولیس کے سیری کلچر آفس کیمپ میں اہلکار رام فل مینا نے سرکاری رائفل سے دوران ڈیوٹی خود کو گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا۔

بھارتی سیکیورٹی فورس کے اہلکار کو آرمی اسپتال لے جایا گیا جہاں اس کی موت کی تصدیق کردی گئی ہے۔ گزشتہ صبح ضلع بارہ مولا میں بھی انڈیا تبت بارڈر فورس کے ایک اور اہلکار سب انسپکٹر چندر مانی نے بھی اسی طرح خود کشی کرلی تھی۔

گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں بھارتی سیکیورٹی فورس کے دو اہلکاروں کی خود کشی کے بعد جنوری 2007 سے اب تک مقبوضہ کشمیر میں خود کشی کرنے والے بھارتی اہلکاروں کی تعداد 425 ہوگئی ہے۔ ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیکیورٹی فورس کے اہلکار ذہنی دباؤ اور خوف کا شکار ہیں۔

واضح رہے کہ بھارتی وزارت دفاع نے 2014 میں ایک سروے بھی جاری کیا تھا جس میں ہر تیسرے دن ایک بھارتی فوجی کے خود کشی کرنے کا انکشاف کیا گیا تھا۔

The post مقبوضہ کشمیر میں 24 گھنٹے کے دوران بھارت کے 2 سیکیورٹی اہلکاروں کی خود کشی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2I2A4kW
via IFTTT

بحریہ ٹاؤن سے ملنے والے 460ارب روپے پر سندھ حکومت کا حق ہے،وزیراعلیٰ سندھ اگر بحریہ ٹاؤن سے ملنے والا پیسہ سندھ حکومت کو نہ دیا گیا تو احتجاج کریں گے، مراد علی شاہ

ہارون آباد‘محکمہ زراعت کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر چوہدری لطیف اللہ کی سر براہی میں کسانوں کے لئے آگاہی کے حوالے سے واک اور ریلی نکالی گئی

مہنگاہی نے غریب عوام کی کمر تو ڑدی‘غریب اور سفید پوش آدمی کا اپنے بچوں کا پیٹ پالنا مشکل ہو گیا

برائلر گوشت اور فارمی انڈوں کے نرخ

دریائوں اور آبی ذخیروں میں پانی کی صورتحال

ماضی کی حکومتوں کی کرپشن نے عوام کو مسائل کی دلدل میں دھکیل دیا ‘ سعدیہ سہیل رانا اپوزیشن جماعتیں اکٹھے ہو کر اپنی کرپشن کیلئے حکومت پر دبائو بڑھانا چاہتی ہیں‘رکن پنجاب ... مزید

کم ظرف حکمرانوں کو بھٹو خاندان کے کارنامے ہضم نہیں ہورہے ‘ سید حسن مرتضیٰ عمران خان کابے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیلی کرنے کا اعلان ان کی تنگ نظری کا مظہر ہے

شیخوپورہ ،تیز رفتار ٹرک کی کار کو ٹکر کے نتیجے میں باپ اور بیٹا جاں بحق ،ماں شدید زخمی

رالپنڈی سے براستہ لاہور کراچی چلنے والی گرین لائن کے کرایوں میں اضافے کا فیصلہ

چائنہ موبائل فونز امپورٹرز شدید پریشان ہیںمسئلہ فوری حل کیا جائے‘بابر علی خان کاروبار شدید مندے کا شکار،ڈالر بے لگام، روپے کی بے قدری نے عوام کا معاشی نقشہ بگاڑ کے رکھ ... مزید

پٹرول ڈیزل مہنگا کرنے سے مہنگائی کا طوفان اُمد آئیگا‘ محمود الحسن خان عوام بجلی ، گیس اور اشیائے خوردونوش کی ہوشربا مہنگائی سے سخت پریشان ،یہ نہ ہو کہ مہنگائی کا سونامی ... مزید

پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے سودی معیشت کو ترک کرنا ہوگا‘رانا مبشر اقبال ملکی وغیر ملکی معاشی ماہرین مہنگائی میں مزید اضافے کی نوید سنارہے ہیں،مزدوروں کے ... مزید

حکمران تعصب کا شکا رہے ہیں ،کم ظرف حکمرانوں کو بھٹو خاندان کے کارنامے ہضم نہیں ہورہے ‘حسن مرتضی وزیر اعظم عمران خان کے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیلی کرنے کا ... مزید

حکومت عوام کے مسائل اور ان کے تدارک کے لئے ہنگامی بنیادوں پر عمل پیرا ہے ‘رفاقت علی گیلانی وزیر اعلیٰ کے شہریوں سے براہ راست رابطے سے گڈ گورننس اور پبلک ڈلیوری سسٹم کو ... مزید

لیگی رہنماؤں کی حکوت کی طرف سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی مذمت حکمرانوں سے ملکی معیشت بہتر اور مہنگائی کنٹرول نہیں ہو رہی ،غریب کیلئے ایک وقت کی روٹی ... مزید

ْحکومت ماحولیاتی آلودگی سے بچائو کے لئے درست سمت میں اقدامات اٹھا رہی ہے‘سعید الحسن شاہ قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کیلئے شجرکاری مہم کو تحریک سمجھ کر آگے بڑھا رہے ... مزید

افغان کرکٹ سٹاراغواء، رہائی کے بدلے 3لاکھ ڈالرتاوان کا مطالبہ ’اگر پیسے نہ دیے گئے تو اغواکار میری انگلیاں کاٹ دیں گے اور پھر مجھے قتل کر دیں گے‘افغان کرکٹر کا ویڈیو ... مزید

پی آئی اے نے حج آپریشن کی تیاریاں شروع کردیں،300 خصوصی اور شیڈول پروازیں 65ہزار سے زائد عازمین کو حجاز مقدس پہنچائیں گی قومی ایئرلائن نے پنجاب اور کے پی کے سے ایک لاکھ ... مزید

پوری قوم جاگ رہی ہے،دھرتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرینگے،شہر یار آفریدی کسی ٹیلیفون کال پر ڈو مور کا فیصلہ نہیں ہوگا ، اب پاکستان کے فیصلے پاکستان کے اندر ہونگے، وزیر مملکت ... مزید

انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی تاریخ میں 30 اپریل تک توسیع اب نان فائلرز 30 اپریل تک ٹیکس ریٹرن جمع کراسکتے ہیں، ایف بی آر

بھارت نے تحریک آزادی کشمیر کو دبانے کیلئے نیا ہتھکنڈا آزمانے لگا مقبوضہ کشمیر کیلئے ٹیررازم مانیٹرنگ گروپ (ٹی ایم جی)یعنی مخصوص دہشتگردی نگرانی گروپ تشکیل دیدیا، ہفتہ ... مزید

ذاتی طورپربے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بدلنے کے حق میں نہیں، شاہ محمود قریشی

حکومت نے آف شور کمپنی کے ایک اکائونٹ سے 10.7 ملین روپے برآمد کیے ہیں،شہزاد اکبر نیب کی کار کر دگی بہتر بنانے کیلئے قوانین میں مزید بہتر لانا چاہتے ہیں ، کرپٹ عناصر کا ... مزید

پاکستان اور چین سرحد پر واقع خنجراب ٹاپ بارڈر (آج) دوبارہ کھول دیا جائیگا

سپریم کورٹ میں اصغر خان عمل درآمد کیس (کل) منگل کو ہوگی ، فریقین کو نوٹسز جاری جسٹس شیخ عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الا حسن پر مشتمل بینچ کیس کی سماعت کریگا

سعود ی وفد (آج)پاکستان پہنچے گا ،وفد روڈ ٹو مکہ منصوبہ کے لئے پاکستانی ائیرپورٹس پر انتظامات کا جائزہ لے گا چاروں ائیر پورٹس کو منصوبے میں شامل کرنے سے عازمین حج کو سہولت ... مزید

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)نے عوام کا پیسہ لوٹا ہے ، حکومت اور عوام دونوں کو معاف نہیں کرینگے ،عثمان ڈار دونوں پارٹیاں اکٹھی بھی ہو جائیں تب بھی وزیراعظم نہیں چھوڑینگے ... مزید

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے کی حکومتی تیاریاں مکمل، نئے ناموں پر غور شروع وزیراعظم نے ساتھیوں سے مشاورت شورع کر دی، قائد اعظم سپورٹ پروگرام یا پاکستان ... مزید

ورلڈ کپ میچ کا بائیکاٹ، بھارتی صرف دکھانے کیلئے باتیں کرتے ہیں:احسان مانی خطرناک پہلو یہ ہے کہ بی سی سی آئی کی کمیٹی آف ایڈمنسٹریٹرز سیاستدانوں کے ساتھ مل گئی ہے:چیئر ... مزید

مصر کے چرچ پر حملے کی سازش، 30 افراد کو10 سال سے عمر قید تک جیل کی سزائیں فیصلے کے اعلان کے وقت 20 مدعاعلیہان حاضر تھے، اپنے خلاف سزاؤں پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا

بھارتی فضائیہ کا ایک اور طیارہ گر کر تباہ ایکسپریس اردو

جودھ پور: جنگی جنون میں مبتلا بھارتی حکومت ایک جانب اپنی فوجی طاقت کے حوالے سے بڑھکیں مار رہی ہے تو دوسری جانب اس کے طیاروں کا حال ہے کہ وہ سوکھے پتوں کی طرح گرتے ہی جارہے ہیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق انڈین ایئر فورس کے ایک پائلٹ والے مگ 27 یو پی جی طیارے نے راجستھان کے شہر جودھ پور میں واقع ایئر بیس سے معمول کے مطابق اڑان بھری لیکن کچھ ہی دیر بعد طیارہ گر کر تباہ ہوگیا۔ طیارہ زمین بوس ہونے سے قبل پائلٹ اس میں سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ 2 ماہ کے دوران بھارتی فضائیہ کے 4 طیارے حادثات کی نذر ہوچکے ہیں، 3 ہفتوں قبل راجستھان میں ہی بھارتی فضائیہ کا مگ 21 گر کر تباہ ہوگیا تھا،اس سے علاوہ فروری میں پاک بھارت کشیدگی کے دوران پاک فضائیہ نے بھی بھارت کے 2 طیاروں کو مار گرایا تھا۔

The post بھارتی فضائیہ کا ایک اور طیارہ گر کر تباہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2WCbLhF
via IFTTT

بے نظیر اِنکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے کیخلاف مزاحمت کریں گے، خورشید شاہ ایکسپریس اردو

سکھر: خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ بے نظیر اِنکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے کیخلاف مزاحمت کریں گے۔

سکھر میں کارکنوں اور میڈیا سے بات کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا کہ ذوالفقارعلی بھٹو نے ایٹم بم بنا کرسرحدوں کی حفاظت کا اعلان کیا تھا، کوئی دشمن ملک پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا، لیکن ہمارے حکمران کشکول اٹھا کر گھومتے ہیں، آج کے حکمران قرضہ لیتے وقت شرماتے نہیں بلکہ مسکراتے ہیں، یہ کہتے تھے کہ مہنگائی کم کریں گے، لوگوں کو روزگار اور غریبوں کو گھر دیں گے، کہاں ہیں یہ ساری چیزیں۔

خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ بینظیر اِنکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے کی خبر ٹی وی پر دیکھی، اس طرح کی حرکت کوئی کم ظرف انسان ہی کر سکتا ہے، سلیکٹڈ وزیراعظم سے اسی طرح کے کاموں کی ہی توقع کی جا سکتی ہے، ضیاالحق اور پرویز مشرف بھی بے نظیر بھٹو کے نام سے خوف زدہ تھے، موجودہ حکومت بھی مشرف کی بی ٹیم ہے اس لئے وہ بے نظیر بھٹو کے نام سے خوف زدہ ہیں ۔

رہنما پیپلزپارٹی نے کہا کہ بے نظیر بھٹو نے ملک میں جمہوریت کی خاطر جام شہادت نوش کیا، ان کے نام سے خوف زدہ نام نہاد سیاستدانوں کو عوام نے ہمیشہ مسترد کیا ہے، بے نظیر بھٹو اور بھٹو خاندان پاکستان کے عوام کے دلوں پر راج کرتا ہے، بے نظیر بھٹو ایک نظریہ کا نام ہے پرویز مشرف کی بی ٹیم کچھ بگاڑ نہیں سکتی، بے نظیر اِنکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے کے خلاف مزاحمت کریں گے۔

The post بے نظیر اِنکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرنے کیخلاف مزاحمت کریں گے، خورشید شاہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2OCE8tt
via IFTTT

بھارتی فضائیہ کا ایک اور طیارہ مگ27 گر کر تباہ

آرمی چیف کی دعوت پر قومی اسمبلی کی دفاعی کمیٹی 4اپریل کو جی ایچ کیو کا دورہ کرے گی آرمی چیف کمیٹی کو پاک بھارت کشیدگی پر بریفنگ دیں گے اور پاک فوج کے اقدامات سے آگاہ کریں ... مزید

6 ٹیموں پر مشتمل آسٹریلین طرز کا ڈومیسٹک کرکٹ ماڈل تیار سندھ، بلوچستان ،پختونخوا کی1،1، پنجاب کی 2 ، اسلام آباد، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان ،پنڈی ریجن پر مشتمل ایک ٹیم تیار ... مزید

ذاتی طور پہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام کی تبدیلی نہیں چاہتا،شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ وہ ذاتی طور پر یہ نہیں چاہتے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ... مزید

پانچویں اور آٹھویں جماعت کے نتائج کا اعلان کر دیا گیا پانچویں اور آٹویں جماعت میں لاہور کے کسی طالب علم کی کوئی پوزیشن نہ آ سکی

حکومت غریب کو ریلیف دینے کیلئے رمضان بازاروں کی بجائے براہ راست ملز کو سبسڈی دے ‘کریانہ مرچنٹ ایسوسی ایشن رمضان بازاروں سے صرف 25سی29فیصد لوگ مستفید ہوتے ہیں، اشیاء کی ... مزید

پاک چین سرحدخنجراب ٹاپ کے راستے (آج)دوبارہ کھول دی جائیگی

ہزار روپے مالیت کے انعامی بانڈز کی قرعہ اندازی (آج)ہو گی

روپے کی قدر میں مسلسل کمی سے مہنگائی میں اضافہ اور معاشی اہداف کا حصول ناممکن ہو جائیگا‘ خواجہ حبیب الرحمان بیرون ملک سے منگوائی جانے والی پر تعیش اشیاء پر فی الفور پابندی ... مزید

مارک اپ ریٹ بڑھنے سے سرمایہ کاری کے رجحان میں کمی ،کاروباری سرگرمیاں منجمد ہو جائینگی‘ اشر ف بھٹی بجلی ، گیس اور پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کے رجحان سے تمام شعبے شدید ... مزید

سرگودھا‘المناک حادثہ میں جاںبحق افراد کو سپردخاک کر دیا گیا اجتماعی نماز جنازہ مولانا موسی طاہر نے پڑھائی‘ ڈپٹی کمشنر،ڈی پی او، ایم پی اے، ایم این اے سمیت معززین کی ... مزید

محکمہ پولیس کے تھانوں، دفاتر، رہائشگاہوں اور لائنز کے لئے پنجاب پولیس کے سالانہ ترقیاتی بجٹ میں 33 فیصد اضافہ کیا جائے گا

ْسرگودھا ریجن کے علاقہ مٹھہ ٹوانہ پولیس نے نوجوان جعلی کیپٹن کوگرفتارکرکے حوالات بندکردیا

بہت جلد تحصیل بھلوال کے عوام کیلئے ایسی تبدیلی لائیں گے جس سے تحصیل کے عوام کا فائدہ ہوگا‘ندیم افضل چن

مسلم لیگ (ن) کی حکومت ملک کو 30ہزار ارب روپے کی مقروض کیا‘ندیم افضل چن بھلوال کو ضلع بنانے کے حوالے سے کسی کو دکان نہیں چمکانے دی جائے گی بھلوال ضلع ہم ہی بنائیں گے جسکے لئے ... مزید

عبدالحکیم ‘ زمین کے تنازعہ پر بھتیجوں نے سگے چچا کو فائرنگ کرکے قتل کردیا

اٹھارویں ترمیم ہدف ہونے کی حقیقت عمران خان کی زبان پر آہی گئی ‘ ترجمان بلاول بھٹو ٹیکس وصولیوں میں 450 ارب کے شاٹ فال کی ذمہ دار اٹھارویں ترمیم کیسے ہی ‘مصطفی نواز کھوکھر

حکومت کارکردگی بہتر بنانے ،حزب اختلاف مقدمات میں بچائو کیلئے نیب قوانین میں ترامیم چاہتی ہے‘ شہزاد اکبر حکومت کوسزایافتہ افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے ہٹانے پر تشویش ... مزید

موودی سرکار مقبوضہ کشمیر میں تمام تر حربوں کے استعمال کے باوجود ناکام ہو چکی ہے جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ اور جماعت اسلامی کی تحریک آزادی کشمیر میں بڑی جدوجہد ہے‘چوہدری ... مزید

سیڈز فاونڈیشن یو کے آزاجموں کشمیر کے زیر اہتمام متاثرین لا ئن آ ف کنٹرول کے لیے چناری کے مقام پر سیڈز فری میڈیکل کیمپ لگایا گیا

آنے والا وقت پی ٹی آئی کا ہے اس کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا‘صاحبزادہ نور حسین

ریڈفاونڈیشن نے سی سی سسٹم متعارف کرایا ہے جو تعلیمی میدان میں ایک انقلاب برپا کرے گا‘مفتی مسرور مغل ریڈ فاونڈیشن ان بے سہارا اور یتیم بچوں کا تعلیمی اخراجات برداشت کررہی ... مزید

سرکاری ادارہ جات پرعوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیئے تمام تروسائل بروئے کار لارہے ہیں‘ ملک الطاف حسین اعوان عوام ہم پراعتمادکرتے ہوئے اپنے بچوں کو قریبی سرکاری ادارہ ... مزید

ہٹیاں بالا‘گورنمنٹ ہائی سکول گوئر آباد میں سالانہ رزلٹ ڈے پر پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا شاندارتقریب کا انعقاد کرکے تمام پرائیویٹ وسرکاری ادارہ جات کو مات دی والدین ... مزید

نالہ ماہل نے دو طالب علم نگل لیے‘ باغ سوگ میں ڈوب گیا طالب علم امان اللہ خان اور احسن نہانے کی غرض سے نالے پر گئے جہاں نالہ کی طغیانی کا مقابلہ نہ کرسکے اور بے رحم موجوں ... مزید

ْضلع باغ کا نوجوان محمد خرم سوپور میں بھارتی فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گیا غنی آباد کا یہ نوجوان اس سے قبل افغانستان میں بھی کفریہ طاقتوں کے خلاف جہاد میں ... مزید

مقبوضہ کشمیر :بھارتی پیرا ملٹری کے ایک اور اہلکار نے خود کشی کر لی

مقبوضہ کشمیر : سڑک حادثے میں چھ افراد کی جانیں ضائع

مقبوضہ کشمیر: ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن کو جلیل اندرابی شہید کی برسی پر سیمینار کے انعقاد سے روک دیاگیا

اشفاق مجید، شبیر صدیقی اور دیگر شہداء کے عظیم مشن کو اسکے منطقی انجام تک پہنچایا جائیگا، لبریشن فرنٹ برطانیہ بھی پابندیوں، گرفتاریوں اور ظلم و ستم کے ذریعے بھارت کو آزادی ... مزید

حکومت کا سہیل محمود کو نیا سیکریٹری خارجہ مقرر کرنے کا فیصلہ ایکسپریس اردو

اسلام آباد: حکومت نے نئی دلی میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر سہیل محمود کو نیا سیکریٹری خارجہ مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ آج ریٹائرڈ ہورہی ہیں اور حکومت نے ان کی جگہ سہیل محمود کو نیا سیکریٹری خارجہ مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے، سہیل محمود اس وقت نئی دلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر ہیں۔

وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ سہیل محمود کو نیا سیکرٹری خارجہ مقرر کر رہے ہیں اور سہیل محمود کی تعیناتی کا فیصلہ وزیراعظم عمران خان سے مشاورت کے بعد ہوا جب کہ خارجہ امور کے مشکل حالات میں تہمینہ جنجوعہ نے بہترین معاونت کی، سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ عمدہ کارکردگی کی حامل اورذی شعور خاتون ہیں، انھوں نے مشکل خارجہ امور میں مسکراتے ہوئے سامنا کیا، آج وہ ریٹائرڈ ہورہی ہیں۔

The post حکومت کا سہیل محمود کو نیا سیکریٹری خارجہ مقرر کرنے کا فیصلہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2FE8Xd7
via IFTTT

پریانکا اورنک کے درمیان شادی کے تین ماہ بعد طلاق ؟ ایکسپریس اردو

اداروں کی تباہی میں سب سے بڑا حصہ خورشید شاہ کا ہے،فواد چوہدری ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ اداروں کی تباہی میں خورشید شاہ کا سب سے بڑا حصہ ہے۔

اپنی ٹوئٹ میں فواد چوہدری نے کہا کہ خورشید شاہ اپنے اعمال کو سامنے رکھتے ہوئے بے نظیراور ذوالفقار بھٹو کے ناموں کو بیچنا بند کریں، اداروں کی تباہی میں سب سے بڑا حصہ خورشید شاہ کا ہے۔

فواد چوہدری نے مزید کہا کہ خورشید شاہ اس کمیٹی کے سربراہ تھے جس نے اداروں میں میرٹ کے برعکس سیاسی بھرتیوں کا انبار لگایا، جو دیمک اداروں کو لگی اس کا سب سے بڑا کیڑا خورشید شاہ ہیں۔

The post اداروں کی تباہی میں سب سے بڑا حصہ خورشید شاہ کا ہے،فواد چوہدری appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2WxEqEH
via IFTTT

عمران خان نہ ڈھیل کے قائل ہیں اور نہ ڈھیل پر آمادہ، وزیرخارجہ ایکسپریس اردو

ملتان: وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ 6 ماہ پہلے (ن) لیگ اور پی پی دست و گریباں تھے آج ایک جھولی میں بیٹھ گئے ہیں لیکن عوام مک مکا کی سیاست کے خلاف آج عوام اٹھارہے ہیں۔

ملتان میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پی پی 218 ضمنی الیکشن میں (ن) لیگ اور پی پی کا گٹھ جوڑ سب کے سامنے ہے، 6 ماہ پہلے (ن) لیگ اور پی پی دست و گریباں تھے آج ایک جھولی میں بیٹھ گئے، گٹھ جوڑ کی سیاست کے خلاف لوگ آواز اٹھا رہے ہیں، جنوبی پنجاب صوبہ نعرے نہیں ضرورت ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، پاکستان کو گرے سے بلیک لسٹ میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہیں لہذا ملکی مفاد کے لیے سب کو اکٹھے ہونا ہوگا، اپوزیشن رہنماؤں کو قومی سلامتی امور پر ایک ہونے کی پھر دعوت دیتا ہوں۔

وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ مہنگائی پر لوگ چلا رہےہیں، یہ ماحول کس کا پیدا کیا ہوا ہے، پاکستان کو معاشی طور پر ان حالات میں کس نے کھڑا کیا، ڈالر مہنگا ہونے سے مہنگائی بڑھے گی لیکن سب جانتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت مصنوعی طور پر کس نے روکے رکھی،  عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، مشکل حالات کےباوجودعوام پر کم بوجھ ڈالنا چاہتے ہیں، ایسے اقدامات اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں جس سے مہنگائی نہ ہو اور جتنا ہوسکے عوام کو اتنا رلیف ملے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ نیب سب کا احتساب کرنے کا استحقاق رکھتا ہے،  نیب کے معاملات میں مداخلت کرنا حکومت کا کام نہیں ہے، نیب ہمارے لوگوں کے خلاف بھی تحقیقات کررہا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ محترمہ کے نام سے بنے ادارے سے کوئی مسئلہ نہیں اور ذاتی طور پر ادارے کا نام تبدیل کرنے کے حق میں نہیں ہوں لیکن اتحادیوں نے بے نظیر انکم فنڈز پروگرام کے غلط استعمال پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

The post عمران خان نہ ڈھیل کے قائل ہیں اور نہ ڈھیل پر آمادہ، وزیرخارجہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2HPCxzM
via IFTTT

آمروں نے صوبائی خودمختاری چھینی اب وہی کام عمران خان کرنے آئے ہیں، ترجمان بلاول ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا ہے کہ آمروں نے صوبائی خودمختاری چھینی اور اب وہی کام عمران خان کرنے آئے ہیں۔

اپنے بیان میں مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ آمروں نے صوبائی خودمختاری چھینی اور اب وہی کام عمران خان کرنے آئے ہیں،انہیں حکومت میں لانے کا اصل ایجنڈا سامنے آگیا ہے، عمران خان کی زبان پرحقیقت آہی گئی کہ ان کا ہدف اٹھارویں ترمیم ہے ،عمران خان اپنی معاشی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے اٹھارویں ترمیم پر الزام عائد کر رہے ہیں، اٹھارویں ترمیم سے دس سال تک وفاق دیوالیہ نہیں ہوا تواب کیسے ہو گیا ؟، اسٹاک مارکیٹ میں مندی اور کاروباری طبقے کی بدحالی کی ذمہ دار حکومت ہے اٹھارویں ترمیم نہیں۔ عمران خان بتائیں کہ ٹیکس وصولیوں میں 450 ارب کے شارٹ فال کی ذمہ دار اٹھارویں ترمیم کیسے ہے؟

مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ ڈالر، پیٹرول، بجلی ، گیس، ادویات کی قیمتوں میں اضافہ حکومت کی ناکام پالیسیوں کا نتیجہ ہے، بدترین معاشی صورتحال قومی سلامتی کیلئے بھی مسئلہ بن چکی ہے، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام برداشت نہ ہوناآمرانہ سوچ کاثبوت ہے۔

ترجمان بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ عمران خان پانچ سال خیبرپختونخوا میں حکومت میں تھے تب تو فنڈز لے کر اڑاتے رہے، دس سال میں سندھ میں عالمی معیار کے اسپتال، تعلیمی ادارے اور سڑکیں بنی ہیں، تھر کے کوئلے سے بجلی کا منصوبہ بھی سندھ حکومت کا ہی کارنامہ ہے، عمران خان بتائیں کہ انہوں نے خیبرپختونخوا میں بی آر ٹی کے ناکام منصوبے کے علاوہ کیا بنایا ؟۔

The post آمروں نے صوبائی خودمختاری چھینی اب وہی کام عمران خان کرنے آئے ہیں، ترجمان بلاول appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2I1NFZJ
via IFTTT

لکس اسٹائل ایوارڈ 2019 کی نامزدگیوں کا اعلان کردیا گیا ایکسپریس اردو

کراچی: 18 ویں لکس اسٹائل ایوارڈ 2019 کی نامزگیوں کی فہرست جاری کردی گئی ہےاس بار مہوش حیات، علی ظفر اور اقرا عزیز سمیت  شوبز کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی شخصیات ایوارڈ کی دوڑ میں شامل ہیں۔

بہترین فلم

کیک

جوانی پھر نہیں آنی2

لوڈ ویڈنگ

موٹر سائیکل گرل

طیفا ان ٹربل

بہترین اداکار

عدنان ملک(کیک)

احمد علی بٹ(جوانی پھر نہیں آنی2)

علی ظفر(طیفا ان ٹربل)

فہد مصطفیٰ(لوڈ ویڈنگ)

محمد احمد(کیک)

بہترین اداکارہ

آمنہ شیخ(کیک)

ہاجرہ یامین(پنکی مہم صاب)

مہوش حیات(لوڈ ویڈنگ)

صنم سعید(کیک)

سوہائے علی ابڑو(موٹر سائیکل گرل)

بہترین ہدایت کار

احسن رحیم (طیفا ان ٹربل)

عاصم عباسی(کیک)

حسیب حسن(پرواز ہے جنون)

نبیل قریشی(لوڈ ویڈنگ)

ندیم بیگ(جوانی پھر نہیں آنی2)

بہترین ٹی وی ڈراما

ایسی ہے تنہائی(اے آروائے)

ڈر سی جاتی ہے صلہ(ہم ٹی وی)

دل موم کا دیا(اے آر وائے)

خانی(جیو)

سنو چندا(ہم ٹی وی)

بہترین ٹی وی اداکار

بلال عباس (بالا)

فیروز خان(خانی)

نعمان اعجاز (ڈر سی جاتی ہے صلہ)

قوی خان(آنگن)

سمی خان(خود غرض)

بہترین ٹی وی اداکارہ

اقرا عزیز(سنو چندا)

نیلم منیر(دل موم کا دیا)

ثنا جاوید(خانی)

سونیا حسین(ایسی ہے تنہائی)

اُشنا شاہ(بالا)

ماڈل آف دی ایئر(فی میل)

انعم ملک

فہمین انصاری

رباب علی

صدف کنول

زاراعابد

ماڈل آف دی ایئر(میل)

ایمل خان

چیمپ ایمی

حسنین لہری

شہزاد نور

The post لکس اسٹائل ایوارڈ 2019 کی نامزدگیوں کا اعلان کردیا گیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2OCytDJ
via IFTTT

آرمی چیف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بریفنگ دیں گے ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 4 اپریل کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بریفنگ دیں گے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی دعوت پر قومی اسمبلی کی دفاعی کمیٹی امجد خان کی سربراہی میں 4 اپریل کو جی ایچ کیو کا دورہ کرے گی جہاں آرمی چیف دفاعی کمیٹی کو کنٹرول لائن، ورکنگ باونڈری اور انٹرنیشنل بارڈرز کی صورت حال پر بریفنگ دیں گے۔

بریفنگ کے دوران قومی اسمبلی کی دفاعی کمیٹی کو بھارتی جارحیت اور اشتعال انگیزیوں پر پاک فوج کے جوابی اقدام کے بارے میں آگاہ کیا جائے گا اور جی ایچ کیو سمیت مسلح افواج کے امور پر بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔

آرمی چیف کی بریفنگ کے بعد کمیٹی اراکین یادگار شہدا پر بھی حاضری دیں گے جب کہ قومی اسمبلی کی 21 رکنی کمیٹی میں تمام پارلیمانی جماعتوں کے اراکین شامل   ہیں۔

The post آرمی چیف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو بریفنگ دیں گے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2OEiXYc
via IFTTT

جرمنی میں دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی کے الزام میں 10 افراد گرفتار ایکسپریس اردو

برلن: جرمنی میں پولیس نے دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی کے الزام میں 10 افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔

غیر ملکی خبر اجنسی کے مطابق جرمنی کی پولیس نے مختلف شہروں سے 10 مشتبہ افراد کو حراست میں لیا ہے، حراست میں لئے گئے تمام افراد مسلمان ہیں، ان میں سے ایک تاجک شہری شامل ہے جب کہ دیگر کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔ ان تمام افراد پر دہشت گرد حملے کی منصوبہ بندی کا شبہ ظاہر کیا گیا ہے۔

جرمنی کے شہر ڈسلڈورف میں استغاثہ کے ترجمان نے گرفتاریوں کی تصدیق کی ہے تاہم جاری بیان میں نا تو کسی مخصوص مقام پر دہشت گردی کی منصوبہ بندی کارروائی کا ذکر کیا گیا ہے اور نہ ہی زیر حراست افراد کے داعش کے ساتھ روابط کے حوالے سے تصدیق کی گئی ہے۔

The post جرمنی میں دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی کے الزام میں 10 افراد گرفتار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2FLlLQ6
via IFTTT

ہے جرم ِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات؛ مقتول بھی ہم، مجرم بھی ہم ایکسپریس اردو

15 مارچ 2019 مسلمانوں کی تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا۔نیوزی لینڈ جیسے پُر امن ملک میں بھی دو مساجد میں مسلمان نمازیوں کو سفید فام دہشتگرد نے بے دریخ فائرنگ کرکے اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا، اس دلخراش واقعہ میں 50 سے زائد مسلمان شہید ہوئے۔اس میں 9 پاکستانی بھی شامل تھے، یورپی راہنماؤں نے رسمی بیانات دئیے۔

آہستہ آہستہ یہ المناک اور دلخراش واقعہ بھی وقت کی دھول میں گم ہو جائے گا، اگر یہی واقعہ غیر مسلموں کے خلاف ہوتا اور اس میں کوئی مسلمان ملوث ہوتا تو دنیا میں کہرام مچ گیا ہوتا اور مسلمان ممالک پر حملہ کر دیا جاتا۔ مگر۔۔۔؟

مقبوضہ کشمیر میں 1989سے لے کر اب تک ایک لاکھ بیس ہزار سے زائد مسلمان کشمیریوں کو شہید کیاجا چکا ہے۔ 2 لاکھ سے زائد زخمی ہوئے، ان میں سے کم از کم سات ہزارکشمیری مستقل طور پر معذور ہو چکے ہیں، 2016 سے لے کر اب تک پیلیٹ گنز کے استعمال سے ساڑھے پانچ ہزار لوگ اندھے ہو چکے ہیں ۔ جولائی 2016 میں حزب المجاہدین کے کمانڈ ربرہان وانی کی شہاد ت سے تحریک آزادی میں نیا موڑ پیدا ہوا تھا۔ جولائی 2016 سے اب تک تقریباً 6344 کشمیری شہید ہو چکے ہیں ۔ کشمیر میں ساڑھے سات لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں، یعنی ہر دس کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی تعینات ہے۔

کشمیر میں موت اتنی ارزاں ہو چکی ہے کہ گبھرو جوان شہید ہونے پر مائیں اور بہنیں ماتم کرنے کی بجائے اس کے جنازے پر سہرے کے گیت گاتی ہیں، شہید کو دلہا بنایا جاتا ہے۔ یہ اتنا دلخراش منظر ہوتا ہے کہ زمین کا کلیجہ پھٹ جاتا ہے مگر عالمی برادری کے کان پر جوں نہیں رینگتی، بعض ممالک تو بھارت کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں ۔ آزادی مانگنے والے کشمیریوں کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ کمزور مسلمان ہیں ۔

٭ پاکستان میں ہونے والی دہشت گرد انہ کاروائیوں میں ستر ہزار (70,000)افراد جام ِ شہادت نوش فرما چکے ہیں، کنٹرول لائن پر شہیدہونے والے بے گناہ شہریوں کی تعداد 400 سے تجاوزکر چکی ہے۔

٭ 2003 میں جب امریکا اور اتحادی افواج نے صدام حسین کے دور ِحکومت میں عراق پر حملہ کیا تو تقریباً چھ لاکھ عراقی شہید ہوئے۔

٭ شام میں اب تک 5 لاکھ 67 ہزار شہری شہید ہو چکے ہیں جن میں 42 ہزار خواتین اور بچے بھی شامل ہیں ۔ صرف 8سالوں میں 3 لاکھ 70 ہزار مسلمان شہید ہوئے ہیں۔

٭ کچھ سال قبل بھارت کے شہر گجرات میں دس ہزار مسلمانوں کو جلا کر راکھ کر دیا گیا اس کے بعد بھارت کے باقی شہروں میں مسلم کش فسادات میں صرف بیس سالوں میں 1750مسلمانوں کو شہید کیا گیا ہے۔

٭ برما میں سات لاکھ مسلمانوں کو ہجرت کے لیے مجبور کیا گیا۔ سات ہزار مسلمانوں کو شہید کیا گیا ۔ 4000 سے زائد ڈوب کر شہید ہو گئے۔ 2700 مختلف حادثات کا شکار ہو ئے۔ بہت بڑی تعداد نے بنگلہ دیش میں پناہ لی۔ میانمار (برما) کا سرکاری مذہب بدھ مت ہے جو کہ اپنے ماننے والوں کو امن کا پیغام دیتا ہے اس کے باوجود مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔

٭ افغانستان میں اب تک 3 لاکھ سے زائد مسلمان شہید ہو چکے ہیں، اس کے علاوہ بھی مختلف ممالک میں سینکڑوں مسلمانوں کو نسلی تعصب کا شکار بنا یا گیا ہے۔

٭ عراق کویت کی جنگ، ایران عراق کی جنگ ، لیبیاء فلسطین اور دوسرے اسلامی ممالک میں ہونے والے حملوں میں بھی ایک لاکھ 75 ہزار مسلمان شہید ہو چکے ہیں ۔

پاکستان ، مقبوضہ کشمیر، فلسطین ، برما، بھارت، عراق، شام، افغانستان اور دوسرے اسلامی ممالک میں لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کو شہید کیا جا چکا ہے مگر اس کے باوجود مسلمانوں کو ہی ظالم ، دہشت گرد اور مجرم قرار دیا جا رہا ہے، صورتحال کا اصل رخ یہ ہے کہ مسلمانوں نے کسی بھی غیر مسلم ملک کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا نہ کسی ملک پر چڑھائی یا لشکر کشی کی،کسی بھی غیر مسلم ملک پر بمباری بھی نہیں کی ۔

امریکا کی طرف سے 9/11 کے حملوں کا الزام لگایا جاتا ہے، جبکہ بعد کے شواہد سے یہ بات منظر عام پر آئی کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور دوسری عمارات پر حملوں کے ذ مہ دار صرف یہودی تھے، امریکا میں صرف یہودی لابی ہی سائنس اور ٹیکنالوجی پر اتنا عبور رکھتی ہے کہ جو حملوں کے خلاف مدافعانہ نظام کو بے اثر بنا سکے۔ ان حملوں کی اصل وجہ یہ بنی کہ امریکی انتخابات میں ٹونی الگور جو کہ یہودیوں کا حمایت یافتہ تھا کو زبر دستی ہرا دیا گیا، یہودی جو کہ امریکی معیشت اور تجارت پر چھائے ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی اور جنگی سازو سامان کے شعبے میں بھی اجارہ داری قائم کر چکے ہیں انھوں نے اس بات کا شدید اثرلیا کہ ٹونی الگور کو صرف اس لیے حکومت میں نہیں آنے دیا گیا کہ وہ یہودیوں کا حمایت یافتہ تھا اور یہود کے لیے نرم گوشہ رکھتا تھا، 9/11 کا واقعہ اصل میں یہودی اور عیسائیوں کی باہمی چپقلش کا نتیجہ تھا جس کی تمام تر ذمہ داری اُسامہ بن لادن پر ڈال دی گئی۔

اُسامہ بن لادن افغان روسِ جنگ میں امریکا اور اس کے حواریوں کی آنکھ کا تارا تھا، اس نے اپنی دولت اور اپنی افرادی قوت افغانِ جنگ میں دل کھول کر خرچ کی، روس کی شکست میں پاکستان کے بعد اسامہ بن لادن بھی ایک بہت بڑا کردار تھا جس نے امریکا کی دوستی میں افغانِ جنگ میں اپنا بہت کچھ جھونک دیا۔ افغانِ جنگ کے خاتمے کے بعد امریکا کو پاکستان اور افغان مجاہدین کے علاوہ اسامہ بن لادن بھی کھٹکنے لگا تھا ۔ جن مجاہدین نے افغانِ جنگ لڑی اب وہ امریکا کی نظر میں دہشت گرد ٹھہرے تھے۔

ملا عمر کے دورِ حکومت میں طالبان ٹریپ ہوئے اور انھوں نے اسلامی تعلیمات کو لے کر مذہبی انتہا پسندی کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کی ساکھ بھی متاثر ہوئی۔ جب 9/11 کا واقعہ ہوا تو امریکا اور وہاں بسنے والے عیسائی دہل کر رہ گئے، یہودیوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا مخصوص ایجنڈا امریکی حکومت کے سامنے رکھا۔ پھر دنیا میں ایک نئی جنگ شروع ہو گئی امریکی، نیٹو اور ایسافٖ فورسز اسامہ بن لادن کا مقابلہ کرنے کے لیے براستہ پاکستان، افغانستان میں داخل ہو گئیں۔ افغانِ جنگ میں حصہ لینے والے پاکستانی مجاہدین جو کہ امریکا کی نظر میں دہشت گرد ٹھہرے اس صورتحال سے خاصے بددل ہوئے انھوں نے جارحانہ کاروائیاں شروع کر دیں ۔کہا جاتا ہے کہ مجاہدین کو اس نہج تک لانے میں غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کا بہت بڑا کردار تھا۔ مجاہدین بھی ٹریپ ہو گئے، انھوں نے غیر ملکی قوتوں کے خلاف اپنا غصہ نکالنے کی بجائے پاکستانی عوام، فورسز اور اداروں پر غصہ نکالنا شروع کر دیا۔ پاکستان کی سیاسی و عسکری قوتوں کی حکمتِ عملی کی وجہ سے ملک عراق، شام، لیبیاء اور افغانستان بننے سے بچ گیا۔

ایک طویلِ جنگ نے پاکستان کو نئی زندگی اور قوت بخشی، ملک کی اہم قوتوں کو احساس ہوا کہ ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا ء مرگِ مفا جات ‘‘چنانچہ اب ہر پہلو کی اصلاح کرنے کا ارادہ کیا گیا، ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھ دی گئی ہے، دنیا بھر کے مسلمانوں کی کسمپرسی اورِ بِے بسی کا اندازہ لگاتے ہوئے کچھ سخت فیصلے بھی کیے گئے، دہشت گردی سے آہنی ہاتھوں سے نپٹا گیا، ملک کو اندرونی طور پر کمزور بنانے کی تمام سازشیں ناکام بنائی گئیں، جب پاکستان نے ایسی جنگ جیتی کہ جس کی کسی کو بھی ا’مید نہ تھی، انڈیا پیٹھ ٹھونک کر میدان میںآ گیا، مگر پاکستان کے عسکری ادا روں کی پیشہ ورانہ مہارت اور پاکستان میں تیار کیے گئے جدید اسلحہ اور جے ایف 17تھنڈرکی وجہ سے پیٹھ پھیر کر بھاگ گیا ۔

فوجی محاذ پر تو ہماری مضبوطی کو بھانپ بھی لیا گیا ہے اور فوجی صلاحیت کو سراہا بھی جا رہا ہے مگر ابھی تک ہمارا اقتصادی محاذ خاصا کمزور ہے۔اگر دیکھا جائے تو اس وقت مسلمان ممالک میں صرف پاکستا ن ہی ایٹمی قوت ہونے کے علاوہ مضبوط عسکری قوت بھی ہے، مگر ابھی بہت سے محاذوں پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے، قوم کو باشعور بنانے کی ضرورت ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے علاوہ جدید ریسرچ پر شدید توجہ دینے کی بھی اشد ضرورت ہے، افرادی قوت اور وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی ہوگی۔ اقتصادی حالت بہتر کرنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے ۔

یہ بات نہایت اہم ہے کہ اگر چہ اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں آزادی کی تحرکیں چل رہی ہیں، مگر سب سے کامیاب تحریک مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کی ہے، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ مقبوضہ وادی کے عوام اپنے آپ کو پاکستان سے جڑا ہوا سمجھتے ہیں، جبکہ دنیا کے دوسرے حصے کے مسلمان مظلومیت اور بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں، انتہا تو یہ ہے کہ یہی مسلمان دشت گردی کا شکار ہیں، برما میں باقاعدہ وہاں کی فوج نے نہتے روہنگیا مسلمانوں کو بے گھر ہونے پر مجبور کیا، فلسطین میں اسرائیلی گرفت مضبوط ہو رہی ہے، عراق اور شام پر امریکی اور نیٹو بمباری کے باوجود احتجاج کا ایک لفظ بھی نہ ادا کر سکے، صرف افغانستان میں مزاحمت جاری ہے مگر یہ مزاحمت بھی خاصی کمزور ہے وگرنہ نیٹو اور ایساف کی افواج چند ماہ سے زیادہ وہاں قدم نہیں جما سکتی تھیں۔

مسلمانوں کی کسمپرسی کی اصل وجہ جدید علوم سے دوری ہے، بے پناہ دولت وسائل اور افرادی قوت ہونے کے باوجود انھیں استعمال کا طریقہ نہیں آتا۔ انہی اقوام کی محتاجی ہے کہ جو انھیں نیست و نابود کرنے پر تلے ہوئے ہیں جو کہ ان کی دولت لوٹ کر اپنے خزانے بھر رہے ہیں، کئی اہم مسلم ممالک عالمی قوتوں کی کالونی بنے ہوئے ہیں، اس وقت سیٹلائٹ ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کرنا اہم ضرورت ہے۔ خلیجی ممالک کے پاس اس قدر دولت ہے کہ وہ اپنی دولت کا معمولی سا حصہ خرچ کرکے اس ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کر سکتے ہیں مگر اس مقصد کے لیے انھیں جدید علوم کو بہت زیادہ اہمیت دینی ہوگی ۔

جدید ترین تعلیمی اداروں کا جال بچھانا پڑے گا، مگر اس وقت خلیجی ممالک اپنے اختلافات میں الجھے ہوئے ہیں آپس میں متحارب ہیں، کبھی ان ممالک میں دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) جیسی تنظیمیں پیدا کی جاتی ہیں، حوثی گروپ کو ہلہ شیری دے کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر حملہ کر دیا جاتا ہے، کبھی شیعہ سنی کا مسئلہ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ عراق نے کویت پر حملہ کر کے ایسی غلطی کی کہ جس کا خمیازہ عراقی عوام ابھی تک بھگت رہی ہے ، ایران، عراق جنگ میں بھی مسلمانوں کو ہی نقصان پہنچا، اب افغانستان غیر ملکی ایجنڈے کو پورا کرتے ہوئے ہر قدم پر پاکستان کی مخالفت کر رہا ہے۔ اس وقت صرف مسلم ممالک ہی میدان جنگ بنے ہوئے ہیں، بے پناہ دولت اور وسائل ہونے کے باوجود ہر معاملے میں اغیار کے مختاج ہیں، مسلمانوں کی اس ذلت کی اصل وجہ اسلام سے دوری ہے، اسلام کی بنیادی تعلیمات سے انخراف ہے، اسلام میں امتِ مسلمہ کا تصور ہے، ہماری تمام عبادات اجتماعیت کا درس دیتی ہیں مگر دنیا بھر کے مسلمان بکھر چکے ہیں بیت المال کا تصور خاصا کمزور ہو چکا ہے۔

اسلام انسانیت کے لیے سراسر بھلائی ہے، اسلا م انفرادیت کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، عبادات کے ذریعے اور اجتماعی زندگی کا تصور واضح کردیا گیا ہے کہ تمام فرض عبادات میں اجتماعیت کا ہونا ضروری ہے، نماز میں بھی فرض اجتماعی طور پر اور نفل اور سنتیں انفرادی طور پر ادا کی جاتی ہیں، اسلام میں بیت المال کا تصور ہے مگر مسلمان اپنے ذاتی خزانے اور تجوریاں بھر رہے ہیں، تیل اور اللہ تعالی کی نعمتوں سے حاصل ہونے والی دولت یہود و نصاریٰ بنکوں میں جمع کروائی جا رہی ہے۔

اسلام میں دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں کرنے سے منع کیا گیا ہے اور واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اللہ تعالی کے دئیے ہوئے مال پر تمام مسلمانوں کاحق ہے، قرآن پاک میں اللہ تعالی کے دیئے ہوئے رزق کو بانٹنے کا حکم دیا گیا ہے مگر عرب ممالک سمیت تمام اسلامی ممالک میں اس حکم سے انخراف کرتے ہوئے ذاتی مال و دولت میں اضافہ کیا جا رہا ہے، یہ دولت مسلمانوں کی اجتماعی حالت بہتر بنانے کے لیے استعمال نہیں ہو رہی۔ حد تو یہ ہے کہ سعودی عرب جیسا مسلمان ملک بھی پاکستان کو بھی سود پر رقم اور ادھار تیل دے رہا ہے۔ مسلمانوں میں طبقاتی تفریق بڑھ رہی ہے ، کئی ممالک میں مسلمانوں کی حالت نا گفتہ بہ ہے ،کئی ممالک میں دولت کی فراوانی ہے، دولت اور سونے کے انبار لگے ہوئے ہیں مگر ان ممالک کو یہ منظور ہے کہ ان کی دولت سے اغیار فائدہ اٹھائیں، بہانے سے ان کی دولت ہڑپ کر جائیں مگر غریب مسلمان ممالک کی حالت بہتر بنانا منظور نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی دولت سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید ریسرچ پر استعمال کرنا منظور نہیں ہے۔

اگر مسلمان متحد ہو جائیں اور امت ِ مسلمہ کاتصور واضح ہو جائے، دولت پر نادار مسلمان ممالک اور ضرور ت مند مسلمانوں کا حق سمجھ لیا جائے، یہ دولت مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کی بجائے، تعلیم، صحت اور بہتر خوراک کے لیے خرچ کی بجائے۔ یہ دولت باہمی جھگڑوں پر خرچ کرنے کی بجائے امتِ مسلمہ کی ترقی و سرفرازی کے لیے خرچ کی جائے تو نہ صرف مسلم ممالک میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکات نازل ہوںگی بلکہ کچھ عرصہ بعد وہ دنیا میں ’’لیڈنگ رول‘‘ ادا کرتے نظر آئیںگے۔

اس وقت جن اسلامی ممالک کے پاس دولت ہے وہ اپنی دولت عیش و عشرت پر خرچ کر رہے ہیں، خلیجی ممالک میں انفرادی طور پر لوگ اربوں ڈالر کے مالک ہیں، جب سعودی عرب میں کرپشن کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا تو صرف چند شہزادوں نے دو سو ارب ڈالر حکومت کو واپس کر دئیے، دولت بے انتہا مگر بے بسی ، کسمپرسی اور مختاجی بھی بے انتہا ہے، اس کی وجہ اجتماعیت کے درس کو فراموش کر کے انفرادی زندگی گزارنا ہے،خود غرضی اور نفسانفسی کے ان جذبات کی وجہ سے مسلمان دنیا بھر میں دوسری اقوام کے ظلم و استحصال کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ان کی دولت سے اسلام دشمن ممالک فائدہ اٹھا رہے ہیں مگر پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے ممالک میں مسلمان امت کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے۔ اُمت کو متحد ہو کر آگے بڑھنا ہوگا۔ جب غریب مسلم ممالک میںمعاشی استحکام پیدا ہوگا تو یہاں اخلاقی وسماجی برائیاں بھی ختم ہونگی، ترقی کی دوڑ میں یہ ممالک شامل ہونگے، اللہ کی برکات بھی شامل ہوں گی اور موجودہ ذلتِ اور رسوائی بھی ختم ہوگی۔

1۔ جب حضوراکرم ﷺ کا وصال ہوا تو ضرورت کی چند اشیاء کے سوا گھر میں کچھ بھی نہ تھا مگر دیوار پر سات تلواریں لٹکی ہوئی تھیں ۔
۲۔ فتح ایرا ن کے بعد جب مال غنیمت مدینہ لا یا گیا تو خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق ؓ آبدیدہ ہو گئے لوگوں نے وجہ پوچھی تو کہا کہ جس مال و دولت نے ایرانیوں کو عیش پسند بنا دیا مجھے خوف ہے کہ مسلمان بھی اس دولت کی وجہ سے عیش پسند نہ ہو جائیں۔
۳۔ اُموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز ؒ نے اپنے خاندان کی ساری جائیداد اور ذاتی مال بیت المال میں جمع کرا دیا، اب تو انفرادی طور پر بے شمار مسلمانوں کے خزانے بھر ے ہوتے ہیں ۔
۴۔ کہا جاتا ہے کہ اگر خلیجی ممالک اپنی تمام تر دولت مغربی ممالک اور امریکا وغیرہ سے نکال لیں تو ان ممالک میں فوراً بحرانی کیفیت پیدا ہو جائے گی ۔
۵۔ اگر مسلم ممالک متحد ہو جائیں اور بھارت کا جنگی جنون اور پاگل پن ختم ہو جائے تو ترقی یافتہ ممالک کی اسلحہ صنعت کو اس قدر زِک پہنچے گی کہ یہ ممالک اپنے پائوں پر کھڑے نہیں رہ پائیں گے ۔

The post ہے جرم ِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات؛ مقتول بھی ہم، مجرم بھی ہم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ODaRPb
via IFTTT

کوچۂ سخن ایکسپریس اردو

غزل


بجھا کے رقص کیا رات بھر چراغ کی لَو
جلی ہے دیکھیے اس بات پر چراغ کی لو
یہ میرا عکس گریزاں ہے کس لیے مجھ سے
ہے جب چراغ کے نزدیک تر چراغ کی لو
مجھے پتا نہیں چلتا کہ کون کون ہے ساتھ
شبِ بلا میں نہ گُل ہو اگر چراغ کی لَو
وہاں کے لوگ تھے ترسے ہوئے اندھیرے کو
میں رک گیا تھا جہاں دیکھ کر چراغ کی لَو
اُسے ہَوا نہیں دوری بجھانے والی ہے
مجھے جو لگنے لگی ہے شرر چراغ کی لو
گزارا کرنا پڑا رات کی طوالت پر
میں کرسکا نہ بڑی کھینچ کر چراغ کی لَو
(مسعود صدیقی، فیصل آباد)


غزل
سماعتوں میں گھولنے لگا تھا رَس بیان سے
وہ خوش بیان بولنے لگا تھا جب زبان سے
وہ وقت بھی چلا گیا، وہ شام بھی گزر گئی
مگر وہ شخص جا نہیں رہا ہے میرے دھیان سے
وہ زود رنج تھا کسی کی کج ادائی سے مگر
نکال نہ سکا وہ خود کو شاید اس گمان سے
وہ خوش خصال جب ملا نظر جھکائے ہی ملا
وہ لگ رہا تھا سلجھے ہوئے، نیک خاندان سے
کسی کی معذرت سے بھی نہ بھر سکیں گے گھائو یہ
پلٹ کے تیر آیا کب جو چل چکا کمان سے
رہے گا کون، کب تلک، کسے دوام ہے بھلا
چلے ہی جانا ہے، چلے ہی جائیں گے جہان سے
(حنا کوثر، منڈی بہاؤ الدین)


غزل


مرنے والوں سے پوچھتا ہوں مَیں
جانے کس کے گلے لگا ہوں میں
نامہ بر خط ترا نہیں آیا
بس! اسی سوچ میں مرا ہوں مَیں
مطلبی دوست ہیں تمام یہاں
آخری بات پر اڑا ہوں میں
تیری پوجا نہیں کروں گا سُن
ایک آدم کی ہاں خطا ہوں میں
تیز بارش میں دشت کی جانب
اک مسافت کو لے گیا ہوں مَیں
اپنے ہاتھوں میں لے کے سورج کو
تیری دہلیز پر کھڑا ہوں میں
دشمنی آپ سے ارے توبہ
کس کی باتوں میں آگیا ہوں میں
پھر خیالِ ندیمؔ میں کھو کر
ایک مدت جیا گیا ہوں مَیں
(ندیم ملک، کنجروڑ، نارو وال)


غزل


لبوں پر گُل تسلی کے نمایاں کیوں نہیں ہوتے
پریشانی پہ میری تم پریشان کیوں نہیں ہوتے
ہمارے گھر میں دیکھو ایک مدت سے اندھیرا ہے
محبت کے چراغ آخر فروزاں کیوں نہیں ہوتے
قدم اپنے خیالِ یار ہی سے لڑکھڑاتے ہیں
تو ہم نذرِ نگاہِ جانِ جاناں کیوں نہیں ہوتے
اگر وہ غم کی دنیا میں رہے ہوتے تو کیوں کہتے
غریبوں کے مکانوں پر چراغاں کیوں نہیں ہوتے
سمجھ بیٹھے ہیں شاید چاندنی وہ اپنے دامن کو
میں اب سمجھا کہ چاک ان کے گریباں کیوں نہیں ہوتے
جو گھبراہٹ سے کانپے تھے ہمارے نام پر معراجؔ
ستم کرتے ہوئے وہ ہاتھ لرزاں کیوں نہیں ہوتے
(محمد معراج صدیقی، آصف نگر، کراچی)


غزل


خواہش تھی جس کی آج تک حاصل نہیں ہوا
شاید میں دردِ عشق کے قابل نہیں ہوا
بیگانگی رہی ہے مجھے اپنی ذات سے
تجھ سے تو ایک لمحہ بھی غافل نہیں ہوا
اس بار تیری شوخیِ چشمِ غضب نہیں
اس بار میں تو پہلے سا گھائل نہیں ہوا
نکلا تھا تیرے حکم پہ جنت سے ایک روز
پھر اپنی ضد پہ آج تک داخل نہیں ہوا
میں گر ترے وجود میں شامل نہیں تھا دوست
تو بھی مرے وجود میں شامل نہیں ہوا
شہباز ؔ اس کو تجھ پہ تو راسخ یقین تھا
پھر کیوں وہ تیری بات پہ قائل نہیں ہوا
(شہباز راجہ، سرگودھا)


غزل


تم وسعتِ بے انت، جہاں سرِ نہاں ہو
تم کوئی حقیقت بھی ہو یا ویسے گماں ہو؟
میں ڈار سے بچھڑے ہوئے پنچھی کی طرح ہوں
تم اس کے لیے چلتی ہوا، پھیلا جہاں ہو
میں شام کے منظر میں ہوں تحلیل شدہ اور
تم دور کسی گاؤں کی، مغرب کی اذاں ہو
میں چلنے سے پہلے کا کوئی تیر ہوں رکھا
تم مجھ کو چلانے کے لیے کوئی کماں ہو
میں پھیلے ہوئے دشت کی بے انت فضا ہوں
تم چھوڑے ہوئے لوگوں کا ویران مکاں ہو
(زاہد خان، ڈیرہ اسماعیل خان)


غزل


ہوا غبارے میں ڈھیر ہونے سے پھٹ گیا ہے
وہ چار زخموں پہ مجھ سے آ کے لپٹ گیا ہے
میں زندگی کا یہ روزنامہ پڑھوں تو کیسے؟
مرا ستارہ مری نظر سے جو ہٹ گیا ہے
جہاں ہماری محبتوں میں نہ تھی جدائی
وہ شہر خوابوں کے جاگنے سے اُلٹ گیا ہے
جو ہجر پر امتحاں میں کوئی سوال آیا؟
وہ کیا لکھے گا کہ وصل کا باب رٹ گیا ہے؟
جو تیر پھینکا تھا اس نے مجھ پر جفا نما سا
وہ تیر دیکھو وہیں سے واپس پلٹ گیا ہے
یہی ہے شاہ میر جو کہیں پر سمٹ نہ پایا
تری جو بانہوں میں آ کے جاناں سمٹ گیا ہے
(شاہ میر ایلیا، سرگودھا)


غزل


کیسے آباد یہ گُل زار ہے، میں جانتا ہوں
حافظِ گُل بھی تو اک خار ہے، میں جانتا ہوں
جو نظر کے لیے دھوکہ ہے سب کے سامنے ہے
پر حقیقت پسِ دیوار ہے میں جانتا ہوں
طشت میں پھول دکھا کر مجھے گمراہ نہ کر
کہ ترے بغل میں تلوار ہے، میں جانتا ہوں
زلزلہ تو نہیں آیا ہے مگر غور سے سن!
کانپتا کیوں در و دیوار ہے، میں جانتا ہوں
میں کفن باندھ کے لڑنے کے لیے نکلا ہوں
دشمنوں میں بھی مرا یار ہے میں جانتا ہوں
میں کبھی ٹوٹ کے بکھروں تو تسلی دے گا
میرا مَن میرا پرستار ہے، میں جانتا ہوں
یونہی بھٹکا نہیں یہ راہ سے اپنی یاسرؔ
نااہل قافلہ سالار ہے، میں جانتا ہوں
(یاسر یاروی، اسکردو)


غزل


گلی گلی میں ستارہ شناس پھرتے ہیں
تمھارے شہر میں شاعر اداس پھرتے ہیں
یہ لوگ میری معیت میں بھی رہے ہیں کبھی
یہ لوگ اب جو ترے آس پاس پھرتے ہیں
غزال آنکھیں، تو ہیں ملگجی بدن اُن کے
جو فاقہ مست و دریدہ لباس پھرتے ہیں
فرات ان کے لیے مضطرب ہے صدیوں سے
اٹھا کے مشک میں اپنی جو پیاس پھرتے ہیں
کوئی بھی تجھ سا نہیں ہے مری نگاہوں میں
جہاں میں تیرے کئی التباس پھرتے ہیں
یہ کون ہیں یہ مرے شہر کے نہیں ہیں اسدؔ
عجیب صورتوں میں بد حواس پھرتے ہیں
(اسد اعوان، سرگودھا)


غزل


اک مصوّر نے بچھایا آئنہ
چاند کو پورا بنایا آئنہ
پوری دنیا دیکھ سکتا ہوں ابھی
اک نجومی نے دلایا آئنہ
خود کو میں تنہا سمجھتا ہی نہیں
جب سے کمرے میں لگایا آئنہ
ساری بستی کو خبر یہ ہوگئی
شہر سے کس نے چرایا آئنہ
میرے عیبوں کو چھپائے، اس لیے
اپنے ہاتھوں سے بنایا آئنہ
پورا کمرہ روشنی سے بھر گیا
آئنے کو جب دکھایا آئنہ
حُسن زادی مر بھی سکتی تھی نذیر
جھونپڑی سے کیوں ہٹایا آئنہ
(نذیر حجازی، نوشکی۔ بلوچستان)


غزل


خوش خیالوں کے امیں ہیں سائیں
نور والوں کے امیں ہیں سائیں
ہم تو خورشید بکف پھرتے ہیں
ہم اجالوں کے امیں ہیں سائیں
جو بھرے نور سے رہتے ہیں سدا
انہی پیالوں کے امیں ہیں سائیں
دور بستی میں یہ پھیلے کھنڈر
خستہ حالوں کے امیں ہیں سائیں
پائے نازک میں پڑے تھے جو کبھی
انہی چھالوں کے امیں ہیں سائیں
لبِ یاسین پہ جم ہیں جو گئے
انہی نالوں کے امیں ہیں سائیں
(ایم یاسین آرزو، لاہور)


غزل


بہاروں کا عالم بہاروں سے پوچھو
مری بے کسی چاند تاروں سے پوچھو
بجایا تھا کیوں میں نے سازِ محبت
یہ قصہ مرے دل کے تاروں سے پوچھو
ہوا کس طرح غرق میرا سفینہ؟
یہ موجوں سے پوچھو، کناروں سے پوچھو
کہاں تک گئے ہیں تیری جستجو میں
ہمیں کیا خبر بے سہاروں سے پوچھو
کہاں تک جلے گا چراغِ تمنا
یہ وعدوں سے اور انتظاروں سے پوچھو
کہاں میں نے اپنی جوانی فدا کی؟
کسی کی حسیں رہ گزاروں سے پوچھو
(صابر میاں، ٹوبہ ٹیک سنگھ)


غزل
دردِ دل کیوں بڑھاتا جاتا ہے
کون سا غم ہے جو چھپاتا ہے
رنگ کیا کیا نہ ہم نے دیکھ لیے
کون سا رنگ اب دکھاتا ہے
قدر چاہت کی کسی نے پائی یاں
ہاں مگر دل تو خون رلاتا ہے
وقت جو مسکرانے میں گزرا
اس کی قیمت کوئی چکاتا ہے؟
اونچا اڑنے میں ہو پروں میں زور
خواب تو دل بہت دکھاتا ہے
پاس تھے جب تو کوئی قدر نہ تھی
فاصلہ تشنگی بڑھاتا ہے
عمر کافی گنوا لی ہم نے اب
زیست کا دیپ ٹمٹاتا ہے
(سائرہ حمید تشنہ، فیصل آباد)


غزل


یاد آتا ہے تجھے دل میں بسائے رکھنا
اپنی آنکھوں کو محبت سے جھکائے رکھنا
موت حیران ہوئی ایسا بھلا ممکن ہے؟
بوجھ خود نعش کا کاندھوں پہ اٹھائے رکھنا
رات کے پچھلے پہر تم جو چلے آئے ہو
تم پہ لازم ہے سنو راز چھپائے رکھنا
ڈال دیتا ہے تعجب میں کئی لوگوں کو
شوق کے بحر کو سینے میں سمائے رکھنا
جانچ کر ہجر کے ابواب حسّانی نے کہا
یار کی یاد سے فرقت کو مٹائے رکھنا
(حسن رضا حسانی، سیالکوٹ)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کر سکتے ہیں۔ معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچۂ سخن‘‘
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے میگزین)،5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ، کراچی
arif.hussain@express.com.pk

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Wz1QcL
via IFTTT

سانحہ کرائسٹ چرچ ہمیں سبق دے گیا نفرت کا مقابلہ محبت سے! ایکسپریس اردو

جنوبی افریقہ کے لیجنڈری رہنما، نیلسن منڈیلا کا خوبصورت قول ہے ’’کوئی بھی انسان اس طرح پیدا نہیں ہوتا کہ وہ رنگ، نسل یا زبان کی بنیاد پر دوسرے انسانوں سے نفرت کرے… اسے نفرت کرنا سیکھنی پڑتی ہے۔ اگر ایک انسان نفرت کرنا سیکھ سکتا ہے، تو اسے محبت کرنا بھی سکھایا جاسکتا ہے۔ محبت کو اپنانا ویسے بھی آسان ہے کہ انسان کا دل قدرتی طور پر اسی کی جانب کھنچتا ہے۔‘‘

یہ حقیقت ہے کہ نفرت کے مقابلے میں محبت کہیں زیادہ طاقتور جذبہ ہے۔ نیوزی لینڈ کی مساجد پر حملوں کے بعد پوری دنیا میں اسی جذبے کی فقید المثال کارفرمائی نظر آئی۔ اپنے پرائے سبھی نے نفرت کے ہرکارے، برینٹن ٹیرنٹ کے اقدام کی مذمت کی اور اسے اور اس کی طرز فکر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ دنیائے مغرب میں قوم پرست اور انتہا پسند اس کی تعریف میں رطب للسان رہے مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک برابر تھی۔

دنیائے اسلام میں یہ تاثر جنم لے چکا تھا کہ کوئی مغربی باشندہ قتل عام کا ارتکاب کرے تو اسے مغربی میڈیا میں ’’جنونی‘‘، ’’پاگل‘‘ اور ’’لون و لف‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس بات کا چرچا ہوتا ہے کہ یہ ایک انفرادی فعل تھا۔ لیکن جب کوئی مسلمان کسی بھی ردعمل میں فائرنگ کر ڈالے، تو مغربی میڈیا سبھی مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے لگتا ہے۔ سب مسلمان فوراً دہشت گرد قرار پاتے ہیں۔ لیکن کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملے کے بعد یہ تاثر کچھ حد تک ضرور زائل ہوگیا۔

اس کی ایک اہم وجہ وہ طریق کار ہے جسے اپنا کر برینٹن ٹیرنٹ نے نہتے اور معصوم نمازیوں کو نشانہ بنایا۔ وہ پہلے اطمینان سے کار چلاتا مسجد پہنچا۔ لگ رہا تھا کہ وہ انسانوں کو قتل کرنے نہیں پکنک منانے اور سیروتفریح کرنے جارہا ہے۔ گویا وہ سادیت پسندی (Sadism) کو نئی انتہا پر لے گیا۔ (سادیت پسند لوگ دوسروں کو دکھ و تکلیف دے کر لذت محسوس کرتے ہیں)۔ برینٹن نے پھر بڑی سنگ دلی سے انسانوں پر گولیاں برسائیں اور ننھے بچوں اور بوڑھے افراد کو بھی نہیں بخشا۔ یہ سارا خوفناک منظر وہ دنیا والوں کے سامنے لائیو پیش کررہا تھا۔

وحشت و بربریت کے اسی زندہ مظاہرے نے پتھر دل لوگوں کو بھی جھنجھوڑ ڈالا اور وہ برملا برینٹن کو دہشت گرد کہنے لگے۔ یہ دہشت گردی ہی تھی جس نے مسلمانوں سے تعصب و نفرت رکھنے کی بنا پر جنم لیا۔ برینٹن ہوش و حواس رکھنے والا نوجوان ہے۔ اگرچہ تعصب و نفرت نے اسے اتنا بے حس اور اندھا بنا دیا کہ وہ محبت و پیار جیسے لطیف انسانی جذبوں سے محروم ہوگیا۔

اس دلدوز سانحے کے بعد مگر پوری دنیا میں محبت، ہمدردی، غم خواری اور دلجوئی کے یادگار مناظر سامنے آئے۔ اجنبی بھی بڑھ کر سانحہ کرائسٹ چرچ کے متاثرین اور اسلامی برادری کو تسلی و تشفی دینے لگے۔ ان کو نہ صرف جذباتی سہارا دیا گیا بلکہ مالی مدد کے لیے چندہ مہمات بھی شروع کی گئیں۔ دنیا بھر میں ایسے کئی اقدامات اٹھائے گئے جن کے ذریعے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کرنا اور انہیں پیغام محبت دینا مقصود تھا۔

انسان دوستی کے اقدامات

دلوں کا حال اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں مگر لاکھوں غیر مسلموں کے طرز عمل سے عیاں ہوا کہ دنیا بھر میں انسانیت پسندی آج بھی مضبوط و توانا اور جاری و ساری ہے۔ جب کسی برداری پر غم و اندوہ کے پہاڑ ٹوٹے، تو سبھی دوسری اقوام تمام تعصبات اور اختلافات بھلا کر اس کی مدد کرنے پر کمربستہ ہوجاتی ہیں۔

مثال کے طور پر سانحے کے بعد نیوزی لینڈ کی سرکاری اور نجی تنظیموں نے ان ویب سائٹس پر فنڈز جمع کرنے کی خاطر خصوصی پیج بنا دیئے جن پر چندے کی اپیل کی جاتی ہے۔ ایک ایسا ہی پیج ’’گیواے لٹل‘‘ (Givealittle) نامی ویب سائٹ پر بنایا گیا۔ اگلے دو دن میں اس پیج نے پچاس لاکھ ڈالر جمع کرلیے۔ گیواے لٹل کی تاریخ میں یہ سب سے بڑی ڈونیشن بن گئی۔

اس طرح دیگر سماجی ویب سائٹس پر بھی مختلف پیجوں کے ذریعے لاکھوں ڈالر جمع ہوئے۔ سب سے زیادہ امداد نیوزی لینڈ کے باشندوں سے موصول ہوئی۔ انہوں نے دل کھول کر عطیات دیئے تاکہ متاثرین کی مالی مدد کا انتظام ہوسکے۔ امدادی مہمات شروع کرنے والی تنظیموں کا کہنا تھا کہ گزر جانے والوں کو واپس لانا ممکن نہیں لیکن ہم ان کے زندہ پیاروں کی کسی نہ کسی طرح مدد کرنا چاہتے ہیں۔

ایک پیج کیوی حکومت کے ادارے، کونسل آف وکٹم سپورٹ گروپس نے قائم کیا تھا۔ ادارے کی سربراہ، کیون ٹسو بتاتی ہے ’’نیوزی لینڈ اور دنیا بھر کے مردوزن نے کمال کی سخاوت اور فیاضی کا مظاہرہ کیا۔ اسے دیکھ کر میرا یہ ایمان پختہ ہوگیا کہ انسان بنیادی طور پر خیرو نیکی کی سمت زیادہ مائل ہوتا ہے۔‘‘

کرائسٹ چرچ میں مقامی سطح پر ہزارہا لوگوں نے ہر قسم کا سامان جمع کرکے متاثرین کے خاندانوں تک پہنچایا۔ اس سامان میں کھانے پینے کی اشیا اور ملبوسات شامل تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ سانحے کے موقع پر کئی غیر مسلموں نے نمازیوں کی جانیں بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

انڈونیشیا کا طالب علم، عرفان یونیتو بتاتا ہے ’’جب گن مین نے حملہ کیا، تو میں خطبہ جمعہ سن رہا تھا۔ تبھی گولیوں کی تڑتڑ اور لوگوں کی چیخیں سنائی دیں۔ میں جان بچانے کے لیے مسجد کے پچھلے حصے کی طرف دوڑ پڑا۔ مسجد کی دیوار پھلانگ کر پھر میں ایک گھر میں گھس گیا۔‘‘

مسجد کے نزدیک واقع اس گھر میں ایک ریٹائرڈ غیر مسلم اور سفید فام ڈاکٹر مقیم تھا۔ عرفان بتاتا ہے ’’جب میں وہاں پہنچا، تو دیکھا گھر میں پندرہ سولہ اور نمازی چھپے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر نے ہمارے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا۔ ہمیں مشروبات پلائے اور ہمیں آرام کرنے کی خاطر جگہ فراہم کی۔ اس کی مہمان نوازی سے ہم بہت متاثر ہوئے۔‘‘

عرفان اور دیگر نمازی چار گھنٹے تک ڈاکٹر کے گھر چھپے رہے۔ خوف و دہشت نے ان کے حواس سن کردیئے تھے۔ انہیں خطرہ تھا کہ اگر وہ باہر گئے، تو کوئی چھپا حملہ آور ان کو مار ڈالے گا۔ جب پولیس آئی، تو وہ اس کی حفاظت ہی میں باہرنکلے۔ یوں ریٹائرڈ ڈاکٹر کے جذبہ ہمدردی نے نمازیوں کی قیمتی زندگیاں بچالیں۔

اسی طرح جب حملہ ہوا، تو بعض سفید فاموں نے اپنی گاڑیاں روک لیں۔ انہوں نے زخمی مسلمانوں کو اپنی گاڑیوں میں سوار کرکے انہیں ہسپتال پہنچایا۔ تب انہوں نے اپنی جانوں کی بھی پروا نہیں کی۔یہ امکان موجود تھا کہ حملہ آور کے ساتھی انہیں بھی نشانہ بنا دیتے۔ لیکن وہ زخمی مسلمانوں کی زندگیاں بچانے کے لیے رک گئے۔ ان کے اس طرز عمل نے ثابت کردیا کہ ہر قوم میں اچھے یا برے، دونوں قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ حقیقتاً ہر قوم میں اچھے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ مگر ’’ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے ‘‘کے مصداق برے لوگوں کی سرگرمیاں ہی زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اچھے مردوزن کے کارناموں کو زیادہ بڑھا چڑھا کر نمایاں کیا جائے تاکہ دنیا میں نیکی کا بول بالا ہوسکے۔

مساجد پر حملے کے بعد کرائسٹ چرچ میں مقیم دو ہزار مسلمان شدید خوفزدہ ہوگئے اور سڑک پر نکلنے سے گھبرانے لگے۔ تبھی شہر و لنگڈن کی رہائشی، لیانسی نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا:

’’اگر ولنگڈن میں کوئی مسلم خاتون باہر نکلنے سے گھبرا رہی ہے، تو وہ پریشان مت ہو… میں اس کے ساتھ پیدل چلوں گی۔ اس کے ہمراہ بس سٹاپ پر انتظار کروں گی۔ بس میں ساتھ بیٹھوں گی۔ خریداری کرنے میں مدد کروں گی۔‘‘

اس پوسٹ کو نیٹ پر بہت شہرت ملی اور ہزارہا لوگوں نے اسے شیئر کیا۔

اس قسم کی سرگرمیوں نے عیاں کیا کہ اگر دنیائے مغرب میں تعصب کا شکار مردوزن مسلمانوں کو دق کرتے ہیں، تو مغربی معاشروں میں ان کے حمایتی بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ضرورت پڑنے پر وہ مصیبت کا شکار مسلمانوں کی ہر ممکن مدد کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔

مسلم برادری سے اظہار یکجہتی

سانحے کے اگلے دن نیوزی لینڈ کا پرچم سرنگوں کردیا گیا۔ نیوزی لینڈ اور دیگر مغربی ممالک میں مساجد، چرچوں اور سرکاری اداروں میں تعزیتی اور تقاریب دعائیہ منعقد ہوئیں۔ ان میں محبت کا پیغام پھیلایا گیا۔ لوگوں کو تلقین کی گئی کہ وہ برداشت اور رواداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ نیز مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے والے اقدامات انجام دیں۔ آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں رات کے وقت اہم تاریخی عمارات پر روشنیوں کی مدد سے نیوزی لینڈ کا جھنڈا بنایا گیا۔ فرانس کے مشہور ایفل ٹاور میں رات کو اظہار افسوس کے لیے بتیاں گل کردی گئیں۔ نیوزی لینڈ کی تاریخ میں پہلی بار یہود نے مسلم برادری سے اظہار یکجہتی کے لیے اپنی عبادت گاہیں(صومعے)یوم سبت پر بند رکھیں۔

پچیس سالہ کارٹونسٹ، روبی جونز ویلنگڈن شہر کی رہائشی ہے۔ اس نے کرائسٹ چرچ واقعے سے متاثر ہوکر ایک یادگار کارٹون بنایا جس میں سفید فام لڑکی ایک مسلم لڑکی کو گلے لگا کر کہہ رہی ہے ’’یہ تمہارا گھر ہے۔ اور تمہیں یہاں محفوظ ہونا چاہیے۔‘‘

اس کارٹون کے متعلق روبی جونز کہتی ہے ’’میں ایک پیشہ ور کارٹونسٹ ہوں۔ جب مساجد میں دہشت گردی ہوئی تو یہ دیکھ کر میں صدمے سے گنگ رہ گئی۔ میری آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوگئیں۔ اس موقع پر میں متاثرین کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھی۔ تبھی میں یہ کارٹون بنانے کا خیال آیا۔ اس کے ذریعے میں مسلم ہم وطنوں کو تسلی دینا اور ان سے ہمدردی کرنا چاہتی تھی۔ گلے لگانا معمولی سا عمل ہے مگر یہ پیار، محبت، بھائی چارے اور گرم جوشی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔‘‘

سوشل میڈیا میں روبی کے بنائے کارٹون کو بہت شہرت ملی اور ہزارہا مردوزن نے اسے شیئر کیا۔ ان میں 2017ء کی مشہور فلم ’’تھور: رگنا روک(Thor: Ragnarok) کا ڈائریکٹر، تیکا وتیتی بھی شامل تھا۔ یہ نیوزی لینڈ کا باشندہ ہے۔ اس نے کارٹون شیئر کرتے ہوئے لکھا:۔

’’میرا دل ٹوٹ چکا۔ میرا وطن آنسو بہا رہا ہے اور میں بھی۔ مجھے یہ سننے سے نفرت ہے کہ یہ سانحہ میرے دیس میں رونما ہوا۔ میں سبھی متاثرین اور مسلم کمیونٹی سے اظہار یکجہتی کرتا ہوں جنہوں نے ہمارے خوبصورت جزائر کو اپنا دیس بنایا۔ ایسا کرنا ہمارا وتیرہ نہیں۔‘‘

آسٹریلیا میں ایک کمیونیکیشن سٹرٹیجکس، لیچ ڈرمنڈ نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے مسلمانان عالم کے ساتھ منفراد انداز میں اظہار یکجہتی کیا۔ اس نے غروب آفتاب کے وقت اذان سنائی اور اپنی پوسٹ میں لکھا:’’میں آسٹریلیا میں رہتا ہوں۔ میں (دکھ و افسوس کے ان لمحوں میں) سبھی مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔ ان کا درد بٹاتے ہوئے میں گھر میں اذان سنا رہا ہوں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ میں مسلمانوں کے ساتھ ہوں۔‘‘

ٹویٹر کی یہ پوسٹ بھی دنیا بھر میں ہزاروں لوگوں نے شیئر کی جن میں پاکستانی بھی شامل تھے۔ ایک پاکستانی صحافی عباس نصیر نے اسے شیئر کرتے ہوئے لکھا ’’اس نے مجھے دوبارہ رونے پر مجبور کردیا۔‘‘ ایک ٹی وی پروڈیوسر، عالیہ چغتائی نے لکھا ’’یہ دنیا مضحکہ خیز بن چکی۔ مگر اس قسم کے عمل عیاں کرتے ہیں کہ لوگوں میں ندرت و خوبصورتی ابھی باقی ہے۔ ‘‘جب لیچ ڈرمنڈ کو مسلمانوں میں زبردست پذیرائی ملی، تو اس نے دوسری پوسٹ میں لکھا: ’’سب کا بہت شکریہ۔ تاریکی کے باوجود مجھے جو محبت اور مثبت باتیں ملیں، انہوں نے مجھے مغلوب کردیا۔ مجھے یقین ہے، میرے چھوٹے سے عمل سے امن، محبت اور عزت کو پھیلنے میں مدد ملی۔‘‘

کرائسٹ چرچ کے لرزہ خیز واقعے نے ہالی وڈ کو بھی ہلا ڈالا۔ گائے اوسیرے مشہور گلوکارہ، میڈونا اور یوٹوبینڈ کا مینجر ہے۔ اس نے ویب سائٹ، گوفنڈمی میں مسلمان متاثرین کی امداد کے لیے فنڈز دینے کی اپیل کردی۔اس اپیل کے جواب میں ہالی وڈ کی مشہور شخصیات نے چندہ دیا۔ میڈونا نے دس ہزار ڈالر دیئے۔ ممتاز اداکار بن سٹلر اور ایشن کچر نے دو دو ہزار ڈالر دیئے۔ کامیڈی اداکار کرس راک کی طرف سے پانچ ہزار ڈالر آئے۔ یوں اوسیرے اپنی مہم کے ذریعے ڈیڑھ لاکھ ڈالر جمع کرنے میں کامیاب رہا جو متاثرین کو نیوزی لینڈ بھجوا دیئے گئے۔

دنیائے مغرب کی ممتاز سیاسی، سماجی، علمی اور سپورٹس و فلم سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے بھی بیان دے کر مسلمانان عالم سے اظہار تعزیت کیا۔ اکثر لوگوں کا کہنا تھا کہ کرائسٹ چرچ واقعہ بڑھتے اسلاموفوبیا کی وجہ سے رونما ہوا۔ سابق امریکی صدر، بارک اوباما نے لکھا: ’’میں اور میخائیل مسلم کمیونٹی سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔ دنیا کے تمام لوگوں کو ہر قسم کی نفرت کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔‘‘

امریکا کی ایمی ایوارڈ یافتہ اداکارہ، ڈیبرا میسنگ نے ٹویٹ کیا ’’مسلمانان عالم کے لیے… نیوزی لینڈ میں جو سانحہ رونما ہوا، اسے دیکھ کر میں صدمے اور غم سے نڈھال ہوں۔ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم سفید فام انتہا پسندی اور اسلاموفوبیا کے خلاف جنگ کریں گے حتیٰ کہ ہم سب خوف و دہشت سے نجات پالیں۔‘‘

معاشی طور پر دنیا کے ایک طاقتور ملک، سنگاپور کے وزیراعظم لی ہسین لونگ نے اپنے بیان میں کہا ’’یہ حادثہ ہمیں خبردار کرتا ہے کہ عالمی امن کے لیے دہشت گردی ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ اس دلدوز سانحے کے ذریعے کوشش کی گئی کہ انسانی معاشروں میں خوف اور نفرت پھیل سکے اور انسانوں کے مابین تقسیم جنم لے۔ ہم سب کو اس کا جواب اتحاد، محبت، رواداری اور برداشت سے دینا چاہیے۔‘‘

ترکی کے وزیراعظم طیباردغان نے بھی کرائسٹ چرچ واقعے کی مذمت کی۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا ’’پچھلے کئی برس سے عالمی سطح پر مسلمانوں کا استحصال ہورہا ہے اور دنیا والے ہاتھ پر ہاتھ رکھے بے پروائی سے سارا منظر دیکھتے رہے۔ پہلے انتہا پسند انفرادی طور پر مسلمانوں کو تنگ کرتے تھے، اب بات قتل عام تک پہنچ چکی۔ اگر مسلم دشمن قوتوں کے خلاف اقدامات نہیں کیے گئے، تو اس قسم کے مزید حادثات رونما ہوں گے۔‘‘

میری بیٹی کے نام پر نہیں

کرائسٹ چرچ شوٹنگ کے مرتکب، بدبخت برینٹن ٹیرنٹ نے ایک ویب سائٹ پر اپنا منشور پوسٹ کیا تھا۔ اس میں برینٹن نے لکھا کہ وہ سویڈش لڑکی، ایبا ایکرلنڈ کی موت کا بھی بدلہ لے رہا ہے۔ اس نے ایبا کا نام اپنی ایک گن پر بھی کندہ کیا۔

اپریل 2017ء میں ایک ازبک باشندے نے اسٹاک ہوم میں اپنا ٹرک راہ چلتے لوگوں پر چڑھا دیا تھا۔ اس افسوسناک واقعے میں گیارہ سالہ ایبا سمیت پانچ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ بعد میں پتا چلا کہ سویڈش حکومت نے ازبک باشندے کی درخواست پناہ گزینی مسترد کردی تھی۔ اس پر اسے اتنا غصہ آیا کہ وہ قاتل اور خونی بن گیا۔

ایبا کی والدہ، جینت اکرلینڈ نے مگر بیان دیا کہ منشور میں اپنی بیٹی کا نام پڑھ کر میں دم بخود رہ گئی۔ میری بیٹی کسی سے نفرت نہیں کرتی تھی۔ وہ امن و محبت کی پرستار تھی جو ایک ناراض روح کے غصّے کی بھینٹ چڑھ گئی۔ میں سانحہ سے متاثر خاندانوں کے دکھ درد کو سمجھ سکتی ہوں اور ہر قسم کی نفرت پر لاکھ بار لعنت بھیجتی ہوں۔‘‘

برینٹن نے اپنے منشور میں اطالوی باشندے، لوکا تیرانی کو بھی خراج تحسین پیش کیا اور اپنی ایک بندوق پر اس کا نام جلی حروف سے لکھا۔ لوکا نے 2018ء میں نسلی تعصب کی بنیاد پر چھ افریقی مہاجرین کو گولیاں مار دی تھیں تاہم ان کی جانیں بچ گئیں۔ لوکا اس جرم کے باعث بارہ سال کی جیل کاٹ رہا ہے۔

سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد لوکا تیرانی کے وکیل، گیانوکا گیولیانی نے صحافیوں کو بتایا کہ اس کے موکل نے سانحے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ وجہ یہ کہ لوکا اپنے کیے پر پچھتا رہا ہے اور اب وہ نفرت سے تائب ہوچکا۔

مسلمانانِ عالم کے نئے ہیرو

سفاک برنیٹن ٹینٹ نے کرائسٹ چرچ کی مساجد میں زیادہ سے زیادہ نمازیوں کو شہید کرنے کا پورا گرام بنا رکھا تھا۔ وہ چار جدید گنوں اور لا تعداد گولیوں سے مسلح تھا۔ یہی وجہ ہے وہ جیسے ہی النور مسجد پہنچا‘ بے دریخ فائرنگ کرنے لگا۔ موت کو قریب دیکھ کر بڑے بڑے جی داروں کا پتا پانی ہو جاتاہے۔ اس صورتحال میں غیر معمولی انسان ہی دلیری‘ بے غرضی اور ایثار کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کرائسٹ چرچ کی دونوں مساجد میں ایسے بہادر انسان ہی سامنے آئے۔

برنیٹن النور مسجد کے مرکزی کمرے میں داخل ہوا‘ تو گولیوں اور کراہوں کی آوازیں سن کر وہاں بیٹھے نمازی دائیں اور بائیں کونوں میں سمٹ گئے تھے۔ برنیٹن دیوانہ وار ان پر فائرنگ کر رہا تھا۔ جب وہ دائیں سمت متوجہ تھا‘ تو بائیں طرف موجود پچاس سالہ نعیم راشد قاتل کی جانب لپکے ۔ وہ اسے قابو کرنا چاہتے تھے لیکن برنیٹن نے انہیں دیکھ لیا اور ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔نعیم بعدازاں ہسپتال پہنچ کر دم توڑ گئے۔

نعیم راشد کا تعلق ایبٹ آباد سے تھا۔ وہ ملکی حالات سے گھبرا کر اور اچھی زندگی کی تلاش میں نو سال پہلے نیوزی لینڈ چلے گئے تھے۔ وہاں کے حالات سے ہم آہنگ ہونے کی خاطر پورے خاندان کو جد وجہد کرناپڑی۔ آخر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور زندگی آرام و آسائش سے گذرنے لگی۔ ان کے بڑے بیٹے‘ طلحہ کوکچھ عرصہ قبل ہی ملازمت ملی تھی۔ اب کچھ عرصے بعد اس کی شادی تھی۔ مگر النور مسجد میں وہ بھی اپنے ساتھیوں کی جانیں بچاتے ہوئے شہید ہو گیا۔ یوں پاکستانی باپ بیٹے نے دلیری و ایثار کا نیا باب رقم کر ڈالا۔

نعیم اور طلحہ کی بہادری کو پوری دنیا میں سراہا گیا۔ وزیراعظم نیوزی لینڈ نے پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران پاکستانی سپوت کا ذکر کیا۔ وزیراعظم پاکستان نے اعلان کیا کہ نعیم راشد کو زبردست شجاعت کا مظاہر کرنے پر قومی ایوارڈ ملے گا۔ نعیم اپنے ساتھیوں کی جانیں تو نہ بچا سکے مگر نہتے ہونے کے باوجود انہوں نے جس دلیرانہ اندازمیں مسلح اور جنونی حملہ آور کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی وہ اس کا ثبوت ہے کہ برائی کے مقابلے میں اچھے لوگ ہمیشہ آگے بڑھتے رہیں گے چاہے انہیں اپنی جان ہی کی قربانی دینا پڑے۔

النور مسجد میں بیالیس نہتے نمازی شہید کرنے کے بعد جنونی قاتل لن وڈ مسجد پہنچا۔ یہ چند میل دور تھی۔ لگتا ہے کہ حملہ آور قریب سے اس مسجد کی ’’ریکی‘‘ نہیں کر سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے وہ مسجد کا مرکزی دروازہ ڈھونڈنے میںناکام رہا۔برنیٹن پھر فٹ ہاتھ پر چلتے نمازیوں پر فائرنگ کرنے لگا۔ اس نے کھڑکیوں کے ذریعے بھی مسجد میں موجود نمازیوں کو نشانہ بنایا۔ اس وقت افغانستان سے آیا عبدالعزیز بھی مسجد کے باہر کھڑا تھا۔ اندر اس کے چار بچے نماز جمعہ پڑھنے آئے ہوئے تھے۔

48 سالہ عبدالعزیز سمجھ گیا کہ اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کرنے والا کوئی انتہا پسند مسجد میں سبھی نمازیوں کو شہید کرنا چاہتا ہے۔ اس نے اپنے بچوں اور ہم مذہبوں کی زندگیاں بچانے کا تہیہ کر لیا۔ اس نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ حملہ آور کو مسجد کے اندر داخل نہ ہونے دیں۔ چنانچہ وہ چیخ کر اور ہاتھ ہلا کر برنیٹن کو اپنی سمت متوجہ کرنے کی کوشش کرنے لگا۔

جب برینٹن بدستور کھڑکیوں کے ذریعے مسجد میں فائرنگ کرتا رہا‘ تو عبدالعزیز نے قریب ہی نصب کریڈٹ کارڈ مشین اکھاڑی اور حملہ آور کی جانب پھینک دی۔ اب برینٹن اس کی طرف متوجہ ہو کر عبدالعزیز پر گولیاں چلانے لگا ۔ اس نے پھرتی سے گاڑیوں کے پیچھے ہو کر اپنی جان بچائی۔

اس دوران برینٹن دوسری گن لینے اپنی کار کی جانب گیا۔ اس نے پہلی گن راہ میں پھینک دی تھی۔ عبدالعزیز تیزی سے چلی گن کی جانب لپکا اور اسے اٹھا کر لبلبی دبائی تاہم گولیاں ختم ہو چکی تھیں۔ادھر برینٹن دوسری گن سنبھال کر دوبارہ نمازیوں پر فائرنگ کرنے لگا۔ مگر تب تک سب نمازی کہیں نہ کہیں پناہ لے چکے تھے۔ اب برینٹن مسجد کے اندر جا کر ہی مزید نمازی شہید کر سکتا تھا۔ مگر بہادر عبدالعزیز اس کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔

جب برینٹن تیسری گن لینے گیا‘ تو عبدالعزیز نے اس سنہرے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اس نے ہاتھ میں پکڑی گن اس کے کار کے شیشے پر دے ماری۔ شیشہ چھناک سے ٹوٹ گیا۔ زور دار آواز نے برینٹن کو خوفزدہ کر دیا۔ وہ سمجھا کہ عبدالعزیز بھی کوئی اسلحہ رکھتا ہے ۔ لہٰذا اس نے افغان باشندے کو گالیاں بکیں اور پھر وہاں سے فرار ہو گیا۔

یوں بہادر عبدالعزیز یوں اپنی ذہانت اور دلیری کے ذریعے جنونی قاتل کو بھگانے اور مسجد میں موجود سینکڑوں نمازیوں کی جانیں بچانے میں کامیاب رہا۔ اگر خدانخواستہ برینٹن لن وڈ مسجد کے اندر پہنچ جاتا‘ تو النور مسجد کی طرح وہاں بھی کئی معصوم نمازی ظلم کا شکار ہو جاتے۔ عبدالعزیز کی حاضر دماغی نے لیکن صورتحال خراب ہونے سے بچا لی۔ یوں وہ مسلمانوں کا ہیرو بن گیا۔النور مسجد میں 42سالہ حسن آرا بھی اپنے خاوند فریدالدین کے ساتھ آئی ہوئی تھیں۔ ان کا تعلق بنگلہ دیش سے تھا۔ فریدالدین کی طبیعت خراب تھی‘ اس لیے وہ وہیل چیئر پر مسجد آئے تھے۔ جب حملہ ہوا تو حسن آرا خواتین کے حصّے میں تھیں۔ گولیوں اور چیخوں کی آوازیں سن کر قدرتاً اسی حصے میں خوف و دہشت کا ماحول بن گیا۔

حسن آرا نے تاہم اپنے اوسان بحال رکھے۔ اس حصّے سے ایک دروازہ پچھلی سمت کھلتا تھا۔ حسن آرا نے اس دروازے کے ذریعے کئی خواتین اور بچوں کو کمرے سے باہر نکال دیا۔ چنانچہ جب برینٹن دندناتا ہوا اس حصّے میں پہنچا‘ تو صرف حسن آرا اور چند دیگر بوڑھی خواتین ہی وہاں موجود تھیں۔ وحشی نے انہیں گولیاں مار کر شہید کر دیا۔

اسی طرح حسن آرا بھی مسلمانان عالم کی نئی ہیرو بن گئی ۔وہ چاہتی تو باآسانی دروازے سے نکل کر اپنی زندگی بچا سکتی تھیں۔ لیکن انہوں نے زبردست ایثار کا مظاہر کیا اور اپنی ساتھیوں اور بچوں کی جانیں بچانے کو ترجیح دی۔ یہ دراصل اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کا نتیجہ تھا۔ اسلام ہی مسلمانوں کو بے غرضی‘ دلیری اور دوسروں کے کام آنے کی تلقین کرتا ہے۔ کامل مومن مصیبت میں ہمیشہ دوسر وں کی زندگیاں اپنی جان پر مقدم رکھتا ہے۔ وہ پہلے دوسروں کو بچاتا پھر اپنا تحفظ کرتا ہے۔ اسی اصول پر گامزن رہتے ہوئے حسن آراء نے بھی اپنی جان ہم مذہبوں پر قربان کر دی۔

جس نے مسلمانوں کا دل موہ لیا
کرائسٹ چرچ کی مساجد پر حملہ کرنے والے جنونی کو یقین تھا کہ بے گناہوں کو مارنے سے وہ بین الاقوامی شہرت حاصل کر لے گا۔مگر کاتب ِتقدیر نے تو کچھ اور ہی طے کر رکھا تھا۔اس سانحے کے بعد نفرت کے ہرکارے نہیں محبت کی علامت،وزیراعظم نیوزی لینڈ،جیسندا آرڈرن نے عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں جگہ پائی اور اپنے مثالی انداز ِحکمرانی کی وجہ سے مسلمانان ِعلم کی ہیرو بن گئیں۔

37سالہ جیسندا دنیا کی سے سے کم عمر حکمران ہیں۔سانحے کے بعد اکثر مغربی حکمرانوں کے برعکس انھوں نے اسے ’’دہشت گردی‘‘کا واقعہ قرار دیا۔برینٹن کوئی پاگل یا نفسیاتی مریض نہیں ’’دہشت گرد‘‘قرار پایا۔وزیراعظم نے پھر نیوزی لینڈ میں بسنے والے تقریباً پچاس ہزار مسلمانوں کی دلجوئی کرنے اور انھیں تسلی وتشفی دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔یوں وہ ایک ہمدرد وشفیق حکمران کی حیثیت سے نمایاں ہوئیں۔

جیسندا نے پھر مسلمانوں سے اظہار ِیکجہتی کی خاطر غیرمعمولی اقدامات کیے۔تقاریب میں حجاب اوڑھ کر شریک ہوئیں۔گفتگو کا آغاز السلام علیکم سے کیا۔پارلیمنٹ میں تلاوت قران پاک سے اذان نشر ہوئی۔یہ مہم بھی چلائی گئی کہ تعزیتی تقریبوں میں غیرمسلم خواتین حجاب لے کر شریک ہوں۔غرض جیسندا آرڈرن نے ہر ممکن وہ قدم اٹھایا جس سے انتہاپسندی اور قوم پسندی کے مبنی بر تعصب نظریات وخیالات کو ضعف پہنچے۔جبکہ رواداری،برداشت،محبت اور امن کے مثبت نظریات کا بول بالا ہو جائے۔

وزیراعظم نیوزی لینڈ زبانی دعوی کرنے تک محدود نہیں رہیں ،انھوں نے چند دن کے اندر اندر خودکار ہتھیاروں کی عوام میں فروخت پر پابندی لگا دی۔ان کے عملی اقدامات سے ملک بھر میں افہام وتفہیم اور بھائی چارے کی فضا نے جنم لیا۔نیوزی لینڈ کے غیرمسلموں نے اپنی رہنما کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے بڑی تعداد میں انتہا پسندی کے خلاف مظاہرے کیے اور مسلم قوم سے اظہار یک جہتی کیا۔غرض جیسندا نے بڑی حکمت وتدبر سے سنگین حالات میں نہ صرف اپنی ریاست میں امن برقرار رکھا ،نفرت کے شعلوں کو بھڑکنے نہیں دیا بلکہ دنیا کے سبھی حکمرانوں کو یہ نہایت اہم پیغام دیا کہ آفت ومصبیت کے سمے ایک حکمران کو کس قسم کے برتاؤ اور طرزعمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

معاشی،مذہبی،تہذیبی ،معاشرتی اختلافات کے باعث آج دنیا میں نفرت ودشمنی کی آگ پھیل رہی ہے۔جیسندا آرڈرن جیسے ہمدرد،مخلص اور انسان دوست لیڈر ہی محبت و امن کے ٹھنڈے میٹھے اقدامات سے یہ بھڑکتی آگ بجھا سکتے ہیں۔

The post سانحہ کرائسٹ چرچ ہمیں سبق دے گیا نفرت کا مقابلہ محبت سے! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2FNsp8F
via IFTTT

سابق صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خان کا عہد ایکسپریس اردو

25 مارچ 1969 میں کوئٹہ کے سنڈمن ہائی اسکول میں آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا، ملک میں سیاسی بحران عروج پر تھا۔ صدر جنرل ایوب خان کے خلاف مشرقی اور مغربی پاکستان میں احتجاج اور تحریک شدت اختیار کر گئی تھی کہ اِس روز صدر مملکت ایوب خان نے قوم سے آخری خطاب کیا اور اقتدار چھو ڑ دیا اور ملک میں دوسرا مارشل لاء کمانڈر انچیف جنرل یحیٰ خان نے نا فذ کردیا اور چیف مار شل لا ایڈمنسٹر یٹرکے ساتھ صدربھی بن گئے۔

صدر ایوب کی تقریر کے بعد عوام کی ایک بڑی اکثریت اداس تھی کیو نکہ یہ حقیقت تھی کہ صدر ایو ب خان کے دور حکومت میں ملک نے بے مثال ترقی کی تھی۔ دوسری جانب وہ عوام تھے جو غربت کا شکار تھے اِن کو سابق سوویت یونین کے اشتراکی نعرے بھی بھا تے تھے اور قوم پرستی کے نظریات بھی۔ پھر ایک واضح اکثریت وہ تھی جو مسلمان ہو نے کے ساتھ اس بات کی متقاضی تھی کہ اسلامی نظام ملک میں نافذ العمل ہو۔ ہم آٹھویں جماعت کے ایک بے فکر سے طالب علم کی طرح یہ سب کچھ دیکھتے اور سنتے رہے۔

آج ٹھیک پچاس برس بعد ایک ایک بات یاد آرہی ہے، حقائق آج زیادہ عیاں اور واضح ہیں۔ آج پچاس سال گزرنے کے بعد بھی بعض ٹرکوں، بعض گھروں اور دکانوں میں سابق صدر ایوب خان کی تصاویر گیت کے  اس مصرعے کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں ( تیرے جانے کے بعد تیری یاد آئی )۔ یوں یہ واحد فوجی حکمران ہیں جن کی یاد، بہر حال اب بھی آتی ہے اور یہ بھی ہے کہ ایک حلقہ ایوب کو اب بھی فوجی آمر ہی کہتا ہے۔

جدید تاریخ میں ایوب خان کی شخصیت بہت منفرد ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جو 1914 ء سے 1918ء تک جاری رہی اور اس میں مسلمانوں کی آخری خلافت ترکی عثمانیہ تھی جب جنگ ختم ہوگئی تو اُس وقت دنیا میں صرف تین اسلامی ملک ہی آزاد رہ گئے تھے جن میں افغانستان جس کو روس اور برطانوی ہندوستان کے درمیان بفر اسٹیٹ یعنی حائلی ریاست کے طور پر دو بڑی قوتوں کے درمیان چھوڑ دیا گیا تھا، آج کا سعودی عرب جس کو بڑی قوتوں نے اس لیئے کسی حد تک آزاد رکھا تھا کہ اگر حجاز مقدس پر قبضہ کرتے تو اس کا امکان تھا کہ پوری دنیا کے مسلمان اس پر ردعمل ظاہر کرتے اور صرف ترکی ایسا اسلامی ملک تھا جس کی عثمانیہ سلطنت یا خلافت کے دیگر ممالک تو برطانیہ اور دوسرے اس کے اتحادیوں نے اُس سے چھین لیئے تھے مگر مصطفی کمال پا شا نے ترکی کی آزادی کو بچا لیا تھا اور یوں باقی تمام اسلامی ممالک غلام تھے اور نو آبادیا تی نظام کی زنجیروں میں جکڑے ہو ئے تھے۔

14 اگست 1947 ء کو پاکستان بنا تو یہ اُس وقت نہ صرف آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک تھا بلکہ فوجی قوت کے اعتبار سے بھی دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک تھا مگر اس کی آزادی حقیقی معنوں میں اس وقت ہوئی جب پاکستان میں انگریز جنرل میسروری اور جنرل ڈیگلس گریسی کے بعد 1951ء میں ایوب خان ملک کے پہلے مسلمان کمانڈر انچیف بنے۔

واضح رہے کہ 1914ء سے 1945ء تک کا دور دنیا کا انتہائی اہم دور تھا جس کے دوران دنیا کی بڑی بڑی مملکتیں، ان کی حکومتیں، باشاہتیں بنیں بھی اور برباد بھی ہوئیں۔ یوں ایسے تغیراتی دور کا تقاضا بھی تھا کہ تاریخ ساز شخصیات پیدا ہوں، یوں ان دونوں عظیم جنگوں کے درمیان دنیا کی تاریخ کے اہم ترین لیڈر انقلابی اور جنرل پیدا ہوئے اور بہت سے ایسے جنرل اور فوجی افسران تھے جوخصوصاً دوسری جنگ عظیم میں مختلف محاذوں پر لڑے بھی اور پھر دوسری جنگ عظیم کے کچھ عرصے بعد میں اپنے اپنے ملکوں میں کہیں بغاوت یا انقلاب کے ذریعے کہیں جمہوری بنیادوں پر انتخابات کے ذ ریعے اقتدار میں آئے۔

انقلاب یا بغاوت کی زیادہ صورت ترقی پذیر اور اُن ملکوں میں رہی جو برطانوی نوآبادیات کی بجائے فرانس، پرتگال، اسپین، ہالینڈ یا اٹلی کی نو آبادت تھے جہاں اُن ملکوں کے عوام نے نوآبادیاتی قوتوں کے خلاف مسلح جدوجہد کے بعد آزادی حاصل کی۔ برطانیہ نے اپنی نو آبادیات میں حقائق کو تسلیم کرتے ہو ئے بہت ہوشیاری سے اپنے اقتدار کو طول دیا اور ساتھ ہی اِن نوآبادیات میں عوام کو خصوصاً پہلی جنگ عظیم کے بعد حکومتی اختیارات کے ساتھ مرحلہ وار اور محدود انداز میں حکومتی اور جمہوری عمل میں شامل کرنا شروع کردیا۔

جنگ عظیم اوّل کے بعد فوجی افسراں بھی مقامی طور پر برطانوی رائل فوج میں شامل کئے جانے لگے۔ اسی دور میں 14 مئی 1907ء میں ریحانہ نامی گائوں ضلع ہزارہ میں پیدا ہونے والے ایوب خان جنگ عظیم اوّل کے آٹھ سال بعد اور جنگ عظیم دوئم کے آغاز سے 13 سال پہلے 1926ء میں برٹش رائل آرمی میںکیڈٹ منتخب ہوئے اور دوسال کی تربیت کے بعد 2 فروری 1928ء کو سیکنڈ لیفٹیننٹ ہوئے۔ 2 مئی 1930ء کو لیفٹیننٹ اور پھر 2 فروری 1937ء کو کیپٹن ہوگئے اور اس دوران یعنی 1933ء سے1939ء تک وہ وزیرستان میں تعینات رہے۔ اس کے بعد دوسری عالمی جنگ 1939ء میں شروع ہوگئی تو وہ اس جنگ میں شامل ہوگئے۔ 1942ء میں برما کے محاذ پر بطور کرنل جنگ میں مصروف رہے۔ 1945ء میں بطور کرنل کمانڈ برما میں اہم ذمہ داریا ں نبھائیں اور 1946ء میں اِن کی پوسٹنگ خیبرپختو نخوا میںکر دی گئی ۔

قیام پاکستان کے وقت وہ ون اسٹار بریگیڈئر ہو چکے تھے۔ یوں وہ 1926ء سے 1946ء بیس سال تک برٹش رائل آرمی کے افسر رہے اور پاکستان کی آزادی کے وقت وہ بریگیڈئر ہو گئے تھے۔ 1947ء کے بعد 1951ء تک وہ جی ایچ کیو سنٹرل کمانڈ سنٹرل کمانڈر، جی او سی ایسٹرن کمانڈ ڈھاکہ، جی او سی انفینٹری اور کمانڈر ایسٹ بنگال رہے۔ فوج میں اُن کا بنیادی تعلق 19/5th Punjab Regiment سے تھا اور 1951ء کو وہ پاکستان کے پہلے مقامی کمانڈر انچیف ہو گئے، 16 اکتوبر1951ء میں ملک کے پہلے وزیر اعظم لیا قت علی خان کو شہید کردیا گیا۔ ان کی شہادت کے بعد گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو ملک غلام محمد جو اس وقت وزیر خزانہ تھے نے وزیر اعظم بنا دیا اور خود قائد اعظم اور خواجہ ناظم الدین کے بعد پاکستان کے تیسرے گورنر جنرل بن گئے۔

چونکہ 1945-46 کے مشترکہ ہندوستان کے آخری انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہو نے والی اسمبلی 1935ء کے قانون ہند کی جگہ اپنا آئین نہیں بنا سکی تھی اس لیے ملک غلام محمد کو سیاسی کھیل کھیلنے کا موقع مل گیا اور اس کے بعد اسمبلیاں اور حکومتوں کو توڑنے اور برخاست کرنے کا سلسلہ شرع ہو گیا جس سے ملک میں جمہوریت اور جمہوری عمل کمزور سے کمزور ہوتا چلا گیا۔ اِس کی ایک بڑی وجہ قیام پاکستان کے فوراً بعد ملک کو درپیش بڑے مسائل بھی تھے۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے سابق سوویت یونین سے  1927ء سے تعلقات تھے، دوسری اہم وجہ روس سے پاکستان کی دوری کی یہ تھی کہ پاکستان اسلا می اعتبار سے دوقومی نظریے کے تحت بنا تھا اور روس کے لیے ایسا نظریاتی ملک ، نظریاتی لحاظ سے ایک چیلنج تھا۔ 1949ء میں چین سے بھی بھارت کے تعلقا ت بہت گہرے اور مضبوط ہو گئے۔ یوں خارجی محاذ پر ملک کو اس صورتحال میں روس، بھارت اور چین تینوں سے مقابلے کے لیے ایک مضبوط اور بڑی قوت کی ضرورت تھی اور یہ مجبوری لیا قت علی خان کے فوراً بعد پاکستان کو امریکہ کے قریب لے گئی۔

دنیا کی بد قسمتی یہ بھی رہی کہ دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد ہی سرد جنگ چھڑ گئی اور دنیا کے ترقی پذیر اور پسماند ہ ممالک اس سرد جنگ کا شکار ہوگئے۔ مغربی پاکستان کی اسٹرٹیجک پوزیشن بہت اہم ہے مگر اس وقت مشرقی پاکستان کے اعتبار سے بھی پاکستا ن دنیا کا  ایک منفرد ملک تھا کہ اس کے دو حصوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا۔ آزادی کے فوراً بعد ہی کشمیر کی جنگ ہوئی، مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان کے مقابلے میں کچھ زیادہ تھی جب کہ مغربی پاکستان رقبے میں تقریباً سات گنا بڑا تھا، اُس وقت مغربی پاکستان کی آبادی میںہندو ں کا تناسب ایک فیصد تھا اور مشرقی پاکستان میں ہندو آبادی کاتناسب تقریباً 22% تھا جو وہاں کی بنگالی مسلم آبادی کے مقابلے میں زیادہ تعلیم یا فتہ اور اہم سرکاری عہدوں پر فائز تھے اور اس صورتحا ل کو بھارت کی نہرو حکومت نے بہت گہری سازش کے ذریعے پروان چڑھایا۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک میں خصوصاً مشرقی پاکستان کے اعتبار سے سیاسی بحران بڑھنے لگا ۔خواجہ ناظم الدین کے بعد محمد علی بوگرہ 17 اپریل1953 سے 12 اگست 1955 تک وزیر اعظم رہے تو ان کے زمانے میں 1954 ء میں مشرقی پاکستان میں صوبائی انتخابات کروائے گئے جس میں مسلم لیگ کو بری ظرح شکست ہوئی۔ مسلم لیگ 307 نشستو ں میں سے صرف 10 نشستیں حاصل کر سکی۔

عوامی لیگ نے اپنی 143 نشستوں کے ساتھ دیگر جماعتوں کے اشتراک سے اے کے فضل الحق کو وزیر اعلیٰ منتخب کیا مگر چھ ہفتوں میں جتو فرنٹ کی اس حکومت کو برطرف کرکے صوبائی اسمبلی کو تحلیل کردیا گیا اور فضل الحق کو گھر میں نظر بند کر دیا گیا اور یوں یہ بحران شدت اختیار کرتا رہا مگر اس کو غیر جمہوری انداز سے خصوصاً 1951ء کے بعد سے دبایا جاتا رہا۔ اس وقت ہی امریکہ نے دفاعی نوعیت کے لحاظ سے فائدہ اٹھانا چاہا اور اس کے لیے پاکستان میں امریکہ کی حمایت اس وقت کی اہم سیاسی جماعتیں اورشخصیات بھی کرنے لگیں جن میں پیش پیش ملک غلام محمد اور دوسرے اہم بیوروکریٹ اسکندر مرزا تھے جو ملک غلام محمد کے بعد گورنرجنرل اور پھر 1956ء کے آئین کے نافذ العمل ہونے کے بعد پاکستان کے پہلے صدر مملکت بنے۔

اس دوران 1953ء سے 1958ء تک فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان پاکستان کی فوج کے کمانڈر انچیف کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر ِداخلہ اور وزیر دفاع بھی رہے، لیا قت علی خان کی شہادت کے بعد خوا جہ ناظم الدین، محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، ابراہیم اسماعیل چندریگر اور آخر میں فیروز خان نون پاکستا ن کے وزرا، اعظم رہے۔ حسین شہید سہروردی کے دور میں امریکہ نے پاکستان میں پشاور کے نزدیک بڈ بیر کے مقام پر سابق سوویت یونین کی فضائی جاسوسی کے لیے ہوائی اڈہ حاصل کر لیا جب کہ چوہد ری محمد علی نے 1956 ء کا پارلیمانی آئین بنایا اور آخری وزیر اعظم فیروز خان نون کے اپنے اقتدار کے آخری مہینوں میں گوادر کے علاقے کو مسقط سے خرید کر پاکستان میں شامل کر لیا۔

کہا جاتا ہے کہ اس کے لیے برطانیہ میں فیروز خان نون کے ذاتی تعلقات کے علاوہ کسی امریکی سروے رپورٹ کی بھی بڑ ی اہمیت رہی تھی پھر جب 1956 میں آئین کے نافذ العمل ہونے کے بعد 1935 کے قانون ہند میں گورنر جنرل کو اسمبلی تحلیل کرنے اور حکومت برخاست کرنے کے اختیارات ختم کر دئیے گئے اوراسکندر مرزا نئے آئین کے تحت گورنر جنرل کی بجائے صدر مملکت ہو گے تو انہوں نے اسمبلی کے بعض اراکین کے ساتھ مل کر یہ سازش کی کہ وہ آئین کے تحت عام انتخابات نہ ہونے دیں اور جب سیاسی بحران انتہاکو پہنچ گیا تو اُنہوں نے کمانڈر انچیف  فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کو ملک میں مارشل لاء نافذ کرنے کا حکم دیا۔

ایوب خان نے7 اکتو بر 1958 کو مارشل لا ء نافذ کر کے بطور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر 1956 ء کے آئین کو منسوخ کر دیا اور پھر صدر اسکندر مرزا کو بھی برطرف کر کے 27 اکتوبر سے صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا، یہ ملک کا پہلا مارشل لاء تھا جو آزادی کے گیارہ سال بعد حکومتوں کی مسلسل ناکامیوں، سیاست کے ایوانوں میں ہونے والی جوڑ توڑ اور مقررہ مدت کے دوران عام انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے بھی لگایا گیا اور یہ تلخ حقیقت ہے کہ عوام کی اکثریت نے اس کو قبول کیا اور بدقسمتی سے مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں میں اُس وقت اس مارشل لا کے خلاف کوئی آواز کوئی تحریک نہیں چلی۔ ایوب خان نے مارشل لا کے خوف کو پوری طرح اور بہت کم مدت میں فوج کے ذریعے استعمال کیا اور چند مہینوں میں فوج کو واپس چھائونیوں میں بلوایا اور باقی انتظام سول ایڈمنسٹریشن سے بہت خوبی سے لیا اور بیوروکریسی اس لیے بھی ان سے خوف زدہ رہی کہ انہوں نے 303 اعلیٰ سول سروس افسران کو فارغ کر دیا تھا پھر ایوب خان کی یہ خوش قسمتی تھی کہ انہیں جنرل محمد موسیٰ جیسا کمانڈر انچیف ملا تھا جس نے ایوب خان کا پوری طرح ساتھ دیا۔

ایوب خان کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ عمومًا قابلیت اور اہلیت کی بنیادوں پر اپنے وزرا اور اعلیٰ افسران کو تعینات کرتے تھے اور اس عمل میں اندیشوں کو بھی نظرانداز کردیتے تھے اس کی بڑی مثال ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں شمولیت تھی حالانکہ ایوب خان کو یہ معلوم تھا کہ سابق صدر اسکندر مرزا کی اہلیہ ناہید اضفانی اور بھٹو کی اہلیہ نصرت بھٹو آپس میں کزن تھیں اور اسکندر مرزا ہی نے بھٹو کو صرف 24 یا 25 سال کی عمر میں پاکستانی وفد میں شامل کرکے اقوام متحدہ میں بھیجا تھا اور پھر کابینہ میں بھی بطور وفاقی وزیر شامل کیا تھا۔

ایوب خان اس دوران بھٹو کی کارکردگی اور ذہانت سے واقف ہوگئے تھے اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی کابینہ میں شامل کیا، اس طرح اُن کی کابینہ میں جتنے بھی لوگ شامل تھے تقریبًا سبھی میرٹ کی بنیاد پر شامل کئے گئے تھے۔ جمہوریت پسندوں کے بالکل برعکس وہ پاکستان میں مکمل یا عوامی اعتبار سے براہ راست جمہوریت کے قائل نہیں تھے اور اسی لیے انہوں نے اقتدارمیں آتے ہی صدراتی نظام حکومت کے تحت بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کروایا۔ یوں اُنہوں نے بنیادی جمہوریت کے تحت جو پہلے انتخابات کروائے وہ بلدیاتی طرز پر تھے اور اس کے لیے مشرقی اور مغربی پاکستان چالیس، چالیس ہزار چھوٹے حلقوں سے بی ڈی ممبران نے الیکشن میں کامیابی حاصل کی، بنیادی جمہوریت کے اِن منتحب اراکین کو الیکٹرول کالج کا درجہ دیا گیا پھر ان چالیس، چالیس ہزار بی ڈی ممبران نے صوبہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو منتخب کیا۔

اس کے بعد دونوں صوبوں یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان کے کل 80000 بی ڈی ممبران جو اپنے چھوٹے حلقوں کے کو نسلر بھی تھے انہوں نے پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین کو منتخب کیا اور انہی اسی ہزار اراکین نے براہ راست محمد ایوب خان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر مملکت منتخب کیا، اس طرح صدر ایوب خان سب سے زیادہ بااختیار صدر ہو گئے اور جب انہوں نے 1962ء کا آئین نافذ کیا تو یہ بنیادی جمہوریت کا صدارتی نظام قومی اور عالمی سطح پر تسلیم بھی کیا گیا لیکن جہاں تک ملک میں پارلیمانی جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کا تعلق ہے تو اُنہوں اس کی بھر پور مخالفت کی اسی دور میں انقلابی شاعر حبیب جالب کی یہ نظم مشہور ہو ئی تھی (ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا ) ۔

اگرچہ پاکستان امریکہ کے تعلقات پاکستان کے لیے نا گزیر تھے اور لیاقت علی خان نے3 مئی تا 26 مئی 1950ء کو ایک بڑے وفد کے ساتھ امریکہ کا سر کاری دورہ کیا تھا لیکن 1953 تک پاکستان نے ان تعلقات کو کافی حد تک متوازن رکھا تھا، مگر خواجہ ناظم الدین کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقا ت بہت گہرے اور مضبو ط تو کہلانے لگے مگر یہ تعلقات متوازن نہیں تھے۔ 1954ء اور 1955ء میں پاکستان SEATO اور CENTO جیسے معاہدوں پر دستخط کر کے اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت ختم کر چکا تھا اور یہ تلخ حقیقت ہے کہ صدر ایوب خان جیسے بااختیار اور طاقتور صدر کے اقتدار کے زمانے میں جب سوویت یونین کے وارسا پیکٹ گروپ اور امریکہ اور نیٹو اتحاد کے تحت دنیا میں سرد جنگ شدت اختیار کر گئی تھی پاکستان ایک عجیب کشمکش کا شکار ہوا اور شائد اس کی ابتدا اُس وقت ہوئی تھی جب قائد اعظم وفات سے پہلے بیمار ہوکر بلوچستان کے علاقے زیارت میں زیر علاج تھے اور یہاں انہوں نے تقریباًدو ماہ دس دن گزارے اورکہا جاتا ہے کہ اس دوران وہ لیا قت علی سے قدرے ناراض تھے کہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان کو کسی قسم کی لچک اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، اور صدر ایوب خان جب 1958ء میں اقتدار میں آئے تو مسئلہ کشمیر گیارہ برس پرانا ہو چکا تھا۔

دوسری جانب مشرقی پاکستان کی 21% ہندو آبادی کے ساتھ وہاں سیاسی بحران کی شدت یوں بڑھ گئی تھی کہ ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا نے مسلم لیگ کے بہت سے پرانے رہنمائوں کو اقتدار کے لالچ کی بنیادوں پر سیاسی گروپ بندی میں الجھا کر فائدے اٹھائے اور یوں سیاستدان جمہوری راستے سے بھٹک گئے تھے اس لیے ایوب خان کو دو بنیادی چیلنجوں کا سامناتھا ایک جانب مشرقی پاکستان کی آبادی کو مطمئن کرنا تھا کہ اُن کے ساتھ نا انصافی نہیں ہوگی تو دوسری جانب بھارت سے کشمیر کے مسئلے کو حل کروانا تھا۔ مسئلہ کو خود بھارت اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں لے گیا تھا اور اس کی قرار دادوں کے مطابق کشمیر کے عوام کی مرضی سے ریفرنڈم کی بنیاد پر کشمیریوں نے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں سے کس کے ساتھ رہنا پسند کر یں گے۔

صدر ایوب خان کی حکومت کو دو، ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور 1958 ء سے 1964ء تک ہے جس میں مغربی پاکستان میں ایوب خان بہت مقبول رہے اور مشرقی پاکستان میں بھی اِن کو قبول کیا گیا، اس دوران ملکی، قومی سطح پر سیاست دان تقربیًا خاموش رہے اور بہت حد تک بے بس نظر آئے۔ سیاسی سرگرمیاں ماند پڑگئیں تھیں اس کی ایک بنیادی وجہ حکومت کی سختی اور خوف بھی تھا۔ ملک بھر میں بیوروکریسی اور پولیس حکومت سے بھر پور تعاون کرتی رہی، اظہار خیال پر اس حد تک پابندی تھی کہ عام ریستورانوں میں یہ نو ٹ آویزاں کئے جاتے تھے کہ سیاسی گفتگو کرنا منع ہے، ایوب خان نے اقتدار میں آتے ہی بھارت سے پانی کی تقسیم کا تنازعہ سندھ طاس معاہد ے کے تحت 1960-61 میں طے کر لیا اس معاہدے میں بھارت اور پاکستان فر یق اور ورلڈ بنک ضامن ہے۔

سندھ طاس معاہدے کے مطابق تین مشرقی دریا، راوی، ستلج اور بیاس بھارت کے حوالے کردئیے گئے اور تین مغربی دریائوں، سندھ، جہلم اور چناب کے پانیو ں پر پاکستان کے حق کو تسلیم کرلیا گیا، تین مشرقی دریائوں کے پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے منگلا اور تربیلا ڈیمز کی تعمیر کا فیصلہ ہو ا۔ اگر چہ کچھ لوگ سندھ طاس معاہدے پر اب بھی تنقید کرتے ہیں مگر پا کستان سمیت دنیا بھرکے ماہرین سندھ طاس معاہدے کو پانی کی تقسیم کا ایک بہترین معاہدہ قرار دیتے ہیں۔ ایوب خان کے دور اقتدار میں برصغیر کا بیشتر علاقہ سیلابوں ، سیم تھور، ٹڈی دل جیسی قدرتی آفات کا شکار رہا اس دوران امریکہ نے پی ایل480 کے تحت پاکستا ن کو غذائی اجناس خصوصًا گندم فراہم کی۔ حکومت کا امریکی مالی امداد پر بھی زیادہ انحصار رہا اور 1958ء سے 1969ء تک پاکستان نے اقتصادی امداد  لی، یو ایس ایڈ اور امریکی فوجی امداد کے حوالے سے کل 31208.86 ملین ڈالر کی امداد حاصل کی۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 1958 تک اقتصادی امداد کا حجم 968.22 ملین ڈالر یوایس ایڈ 589.59  ملین ڈالر اور فوجی امداد کی مد میں 533.13 ملین ڈالر تھا مگر 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد امریکہ کی جانب سے امداد میں کمی آنے لگی اور جب 1969ء میں ایوب خان اقتدار سے رخصت ہو رہے تھے تو اس سال امریکہ کی جانب سے اقتصادی امداد کا کل حجم 541.76 ملین ڈالر یو ایس ایڈ 504.31 ملین ڈالر اور فوجی امداد صرف 0.5 ملین ڈالر تھی۔ جہاں تک تعلق  پاکستان کی معیشت کا ہے تو صنعت و تجارت کے شعبوں سمیت پاکستان کے تمام شعبوں میں ایوب خان کے زمانے میں بے مثال ترقی ہوئی اور ایشیا میں پاکستان ترقی کے لحاظ سے جاپان کے بعد دوسرے نمبر پر تھا۔ اِن کے دور حکومت میں 1958ء سے 1969ء تک امریکی ڈالر تین روپے سے پانچ روپے کے درمیان رہا اور سونے کی قیمت 160 روپے سے 200روپے فی تولہ رہی اور ڈالر اور سونے کی قیمت میں جو اضافہ ہوا وہ بھی 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد ہوا۔ ملک میں ہزاروں چھوٹے بڑے کارخانے اور فیکٹریاں لگیں۔

اُس زمانے میں کسی ملک کی مستحکم ترقی کی بنیاد صنعتی ترقی ہی کو سمجھا جاتا۔ جہاں تک تعلق زراعت کا تھا تو اُس وقت تک ٹڈی دل،سیلاب اور خشک سالی ،فصلوں کی دیگر بیماریوں پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں نے قابو نہیں پایا تھااور آج کے مقابلے فی ایکڑ پیداوار نصف سے بھی کم تھی ،بد قسمتی سے ایوب خان کے دور میں صنعتی ترقی کے مقابلے میں زرعی ترقی پر اتنی توجہ نہیںدی گئی جتنی ضرورت تھی جب کہ صنعتی ترقی کے لیے صنعتکاروںاور سرمایہ کاروں کو بے پناہ مراعات اور فائدے دیئے گئے ڈیوٹی ٹیکسوں میں ضرورت سے زیادہ چھوٹ دی گئی مزدورں کی تنخواہیں کم رہیں سوشل سیکورٹی کے قوانین مزدورں کے حق میں نہیں تھے اور سرمایہ دار وں ،کارخانہ داروں کے نفع کی شرح بہت زیادہ رہی، کراچی اور چند بڑے شہروں کی آبادیوں میں تیزی سے اضافہ ہونے لگااُس وقت پاکستان میںدیہی آبادی کا تناسب76% تھا،مگر سالانہ قومی بجٹ کا 80% شہری نوعیت کے منصوبوں پر خرچ ہوتا تھا۔

اِن تمام باتوں کے باوجود صدر ایوب خان اپنے اقتدار کے پہلے دور میں یعنی 1958 سے 1964 تک مقبول اور کامیاب صدر تھے اس کی بنیادی وجوہات یہ تھیں کہ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے بعد قومی رہنمائوں اور سیاست دانوں نے عوام کو مایوس کیا تھا 1958 میں مارشل لا کے آغاز پر ملک بھر میں منافع خوروں ذخیرہ اندوزوں ، اسمگلروں ،غنڈوں ،بدمعاشوں ،ڈاکوئوںکے خلاف سخت ایکشن لیا گیا تھا مارشل لا قوانین کے تحت کوڑے بھی لگائے گئے ،پھانسیاں بھی ہو ئیں،اگر چہ اس دور میں اظہار خیال پر بھی پابندیاں رہیں اورفیض احمد فیض ، حبیب جالب، میاں افتخارالدین،احمد ندیم قاسمی ، ضمیر علی اور دیگر شاعروں، ادیبوں،دانشوروں ،صحافیوں نے بھی بہت جبر سہا لیکن ملک میں مجموعی طور پر امن و امان اور عام سطح پر انصاف اور قانون کی حکمرانی رہی البتہ یہ سوال آج بھی جواب طلب ہے کہ کیا اُس وقت کا قانون جمہوریت اور اظہار رائے کے تقاضے پورے رکرتا تھا؟لیکن یہ ضرور تھا کہ حکومت کی رٹ بہت سختی سے برقرار تھی، پولیس کا ایک سپاہی چارپائی کی رسی سے بیس ،بیس آدمیوں کو باندھ کر لے جا تا تھا عام طور پر سفارش،اقربا پروری، رشوت ستانی ختم کر د ی گئی تھی ،پہلے دور میں آٹا سولہ روپے کا من گوشت چھوٹا دو روپے سے تین روپے سیر،بڑا گوشت ایک روپے سے ڈیڑھ روپے سیر، خالص گھی چار روپے سیر، دودھ ایک روپے سیر تھا۔

اس دورحکومت کو عوامی اعتبار سے پاکستان کا سنہری دور بھی کہا جاتا ہے مگر خارجہ پالیسی اور انٹر نیشنل ریلیشن کے لحاظ سے پاکستان کی بڑی مجبوری رہی کہ پاکستان مکمل طور پر برطانیہ اور امریکہ کے زیر اثر رہا ،اُس وقت بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہرلا ل نہرو تھے جنہوں نے سوویت یونین کے ،اشتراکی ممالک کے وراسا پیکٹ گروپ اور امریکی اتحاد نیٹو گروپ سے ہٹ اُس وقت کے دیگر عالمی رہنمائوں سے مل کر غیر جانبدار ممالک کی تنظیم کے تحت نہ صرف پروپیگنڈا کی بنیاد پر بھارت نے خود کو خارجی محاذ پر غیرجانبدار ظاہر کیا تھا توساتھ ہی بھارت کے لیے ایک کامیاب متوازن خارجہ پالیسی اپنائی تھی اورغیر جانبدار ممالک کی اس تنظیم میں شامل ملکوں کو تیسری دنیا کا نام بھی دیا تھا ،اور اِن اہم پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں پر بھارت نے اس اعتبار سے خود کو لیڈر منوالیا تھا ۔ یہ نہر و سیاست کا ایک رخ اور دوسرا رخ یہ تھا کہ وہ امریکہ سے اور سابق سویت یونین سے بھی مفادات حاصل کر ہا تھا اور چین سے بھی اُ س کے تعلقات 1962ء تک بہت دوستانہ اورمضبوط تھے۔

صدر ایوب خان کے دور اقتدار میں فرانس میں چارلس ڈیگال صدر تھے چین میں مازے تنگ لیڈر اور وزیراعظم چواین لائی تھے سابق سویت یونین میں خروشیف،اور برزنیف برسراقتدار رہے ،برطانیہ میںہارلڈمیکلین،الیک ڈیگلس ہوم،اور ہارلڈ ویلسن وزرااعظم رہے جب کہ امریکہ میں1958ء تا 1969ء آئزن آور،جان ایف کینڈی اور لنڈن بی جانسن صدر رہے ،ایوب خان نے 1960 میں برطانیہ کا سرکاری دورہ کیا تو اُن کا فقید المثال استقبال کیا گیا ،1961ء میں ایوب خان نے امریکہ کا دورہ کیا اور یہاں بھی صدر جان ایف کینڈی نے اُن کا شاندار استقبال کیا ،امریکہ صدرجانسن نے 1967ء میں پاکستان کا دورہ کیا جب کہ نہرو نے1949 ، 1956 ،1960 اور1961 کو امریکہ کے سرکاری دورے کئے اور اِن کا بھی بہت گرم جو شی سے ستقبال کیا گیا 1956ء کے دورے میں نہرو نے بھارت کے لیے سالانہ اوسطا ً 822 ملین ڈالر کی امداد حاصل کرلی اور صدر آئزن ہاور سے تعلقات بڑھے اور1959ء میں آئزن ہاورنے انڈیا کا دورہ کیا۔

پاکستان کو 1960ء اور1962ء میں خارجہ پالیسی کے اعتبار سے مشکلات سامنا کرنا پڑا،یکم مئی 1960ء کو جب سویت یونین سے پاکستان کے تعلقات قدرے بہتر ہورہے تھے تو پاکستان کے علاقے سے اڑنے والے امریکی جاسوس طیارے U-2 کو سویت یو نین نے روسی علاقے کوسولینومیں مارگرایا اور اس کے پائلیٹFrancis Gary فر انسس گرے کو زندہ گرفتار کرلیا اور روس نے احتجاج کرتے ہوئے ایک جانب پیرس میں سویت یونین،فرانس،برطانیہ،اور امریکہ کے درمیان ہونے والی کانفرنس کا بائکاٹ کردیا تو دوسری جانب پاکستان کو دھمکی دی کہ روس نے پشاورکے گرد سرخ دائرہ لگا دیا ہے 1962 میں چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعہ پر جنگ چھڑی اسی دور میں کیوبا پر روسی میزائل نصب کرنے پر امریکہ اور روس کے درمیان نہایت خطرناک تنائو پید ا ہوا قدرت اللہ شہاب کے مطابق رات کو 2 بجے چینی سفارت خانے کی جانب سے یہ اطلاع ملی کہ صدر ایوب خان کو بتائو کہ چین اور بھارت جنگ ہو چکی ہے۔

غالباً یہ اشارہ تھا کہ پاکستان کشمیر کے لیے بھارت سے جنگ کردے ،لیکن ایوب خان نے ناگواری سے کہا کہ انہیں اس کی اطلاع ہے اس سوال پر اب تک بحث کی جاتی ہے مگر لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ خارجہ پالیسی ایک دن میں تشکیل نہیں پاتی ،یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ چین جو اپنی آزادی کے بعدسے 13 سال تک تو بھارت کا دوست رہا اب اچانک جنگ پر یہ چاہے کہ پاکستان بھی بھارت پر حملہ کردے ،دوستی کا اعتبار قائم ہونے میں آخر کچھ وقت لگتا ہے پھر بطور صدر وہ یہ جانتے تھے کہ امریکہ نے انہیں واضح کردیا تھا بھارت بہرحال ایک غیر اشتراکی ملک ہے اور اس کی جنگ چین جیسے اشتر اکی ملک سے ہے اس لیے پاکستان اِس وقت اُس پر حملہ کرنے کی غلطی نہ کرے اور بعض اطلاعات کے مطابق امریکہ نے صدر ایوب کو یقین دلایا تھا کہ بعد میں وہ مسئلہ کشمیر حل کرنے کی کوشش کرئے گا۔

27  اکتوبر1958 کو صدر ایوب نے ذولفقار علی بھٹوکواپنی کابینہ میںتجارت اور اطلاعات کا وفاقی وزیر بنایاتھا اس کے بعد ،1962 میں کابینہ میں ردو بدل کی تو منظور قادر کی جگہ سابق وزیر اعظم محمد علی بوگرا، کو وزیر خارجہ بنا دیا اِن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا وہ 23 جنوری 1963 میں انتقال کر گئے تو پھر کچھ عرصے بعد ذولفقار علی بھٹو کو وزیر خارجہ بنادیا گیا جو خارجہ امورمیں ایوب خان کو پہلے ہی مفید مشورے دیتے تھے۔

واضح رہے کہ ایوب خان کو آج تک فرینڈ آف امریکہ کے خطاب سے بھی یاد کیا جا تا ہے جب کہ ایوب خان کی کتاب کا نام فرینڈز۔ ناٹ ماسٹر ہے جس کا ترجمہ تو اقبال کے اس مصرع سے کیا گیا کہ ’’اُس رزق سے موت اچھی،، لیکن اِس کا لفظی ترجمہ کچھ یو ں بنتا ہے ’’دوست۔ مالک نہیں‘‘یوں جب ذولفقار علی بھٹو وزیر خارجہ بنے تو انہوں نے ایوب خان کے دل میں دبی ہوئی آرزو کو ابھارا ،اب چین واقعی بھارت سے دور ہو گیا تھا نہرو نے اُس وقت ہی بھارت کے وسیع رقبے اور اس کی آبادی کے پیش نظر یہ محسوس کر لیا تھا کہ مستقبل قریب میں علاقائی اور عالمی سطح پر معاشی اقتصادی، سیاسی میدان میں اُس کا مقابلہ ہمسایہ ملک چین سے ہو گا اور چین سے کیونکہ روس کے اختلافات بھی بہت بڑھ گئے تھے تو نہروکی بھارتی خارجہ پالیسی کا تقاضہ یہی تھا کہ چین سے دشمنی کی وجہ سے اُسے روس اور امریکہ دونوں سے امداد اور فائدے حاصل ہونگے ،اور پاکستان کے لیے بہتر صورت یہ پیدا ہو رہی تھی کہ اُسے علاقے میں بھارت کے مقابلے میں اُس سے ذرا بڑی قوت کی حمایت حاصل ہو گئی تھی مگر اُس وقت چین ترقی پزیر ملکوں کی صف میں بھی بہت آگے نہیں تھا اورچین 1964 میں ایٹمی قوت بناتھا یوں صدر ایوب خان اور اِن کے جوانسال باصلاحیت اور ذہین وزیر ِ خارجہ بھٹونے چین سے تعلقات کو مضبوط کیا اور کسی حد تک خارجہ پالیسی کو متوازن کرنے کی کوشش کی اس دوران چین سے اقتصادی معاشی ترقی اور اس میں تعاون کے معاہدے ہونے لگے ۔

مگر اہم اوربڑے ترقیاتی منصوبے امریکہ ،برطانیہ اور فرانس وغیرہ ہی سے کئے جاتے رہے ایوب خان کے دورحکومت کے پہلے نصف حصے میں 1961ء میں پاکستان میں ریلوے کا صد سالہ جشن منایا گیا اور لاہور تا خانیوال الیکٹریک ٹرین شروع کی گئی ،سکھر میں ریلوے کا نیا پل بنایا گیا اسلام آباد جیسا خوبصورت شہر اور دارالحکومت تعمیر کیا گیا اس دور میں پاکستان ایشیا میںجاپان کے بعد ترقی میں دوسرے نمبر پر تھا صدر ایوب خان نے ملک کی متوازن اور مستحکم ترقی کے لیے جنوبی ایشیا میں سب سے پہلے خاندانی منصوبہ بندی کے تحت تیزی سے بڑھتی ہو ئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر سالانہ بجٹ میں معقول رقم رکھی ایوب حکومت نے اپنا پہلا سالانہ قومی بجٹ مالی سال 1959-60 پیش کیا جس کا مجموعی ہجم ایک ارب 56 کروڑ 8 لاکھ تھا یہ خسارے کی بجائے بچت کا بجٹ تھا جس میں 2 کروڑ 63 لاکھ کی بچت تھی اور آخر ی بجٹ  مالی سال 1968-69 کا تھا جس کا مجموعی حجم 6 ارب88 کروڑ93 لاکھ تھا اور خسارے کی بجائے بچت 2 ارب 52 کروڑ73 لاکھ روپے تھی۔ صدر ایوب خان نے اپنے دور اقتدار میں دس قومی بجٹ پیش کئے یہ تمام بجٹ خسارے کی بجا ئے بچت کے بجٹ تھے۔

صد ر جنرل ایوب خان کی حکومت کا دوسرا دور اُن کے لیے بہتر ثابت نہیں ہوا۔ بھارتی وزیر اعظم کی موت کے ایک سال بعد،1965 میں مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں نے جدو جہدآزادی تیز کر دی ،اور پاکستان کی سیاسی اور اخلاقی حمایت اُن کے ساتھ تھی ایوب خان کو بھٹو نے یہ یقین دلایا تھا کہ نوے فیصد امید ہے کہ بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا اور اس طرح اگر یہ جدو جہد آزادی اسی رفتار سے جاری رہی تو بھارت کو مجبوراً  مقبوضہ کشمیر چھوڑنا پڑے گا مگر 6 ستمبر 1965ء کو بھارت نے مغربی پاکستان میں کشمیر میں جنگ بندی لائن کے علاوہ سندھ اور پنجاب سے ملنے والی بین الاقوامی سرحدوںسے پوری قوت سے اور اچانک حملہ کردیا،بھارت نے مشرقی پاکستان کا محاذ نہیں کھولا تھا اُس زمانے میں پاکستان اور بھارت دونوں شدید غذ ائی قلت کا شکار ہورہے تھے اور گندم کی فی ایکڑ ز تین گنا پیداوار کا بیچ ،میکسی پاک، امریکی ماہرین نے بنا لیا تھا جس کے جہاز اس پاک بھارت سترہ روزہ جنگ کی وجہ سے روک دیئے گئے اور یہ جنگ صرف 17 دن بعد اس لیے بند کرنی پڑی کہ امریکہ نے پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کو اسلحے کی سپلائی روک دی تھی ۔

واضح رہے کہ بھارت اپنی فوج کے لیے بڑی مقدار اور تعدا د میں اسلحہ سویت یونین سے بھی خریدتا تھا اس لیے اُس کی مشکلات  پاکستان کے مقابلے میں کم تھیں،پاکستان کو ا س جنگ میں بھارت پر برتری حاصل تھی ،خصوصًا کشمیر میں پاکستان جنگ بندی لائن سے آگے بڑھ گیا تھا ،اور جب تاشقند میں معاہدہ طے پارہاتھا تو بقول ذولفقار علی بھٹونے صدر ایوب خان کو یہ مشورہ دیا تھا کہ بین الاقوامی دبائو کے تحت یہ ضروری ہے کہ دونوں ملک اپنی اپنی فوجیں زمانہ امن کی پو زیشن پر سرحد وں پرلے آئیں لیکن کشمیر اقوام متحد ہ کی سیکورٹی کو نسل کے تحت ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ہی حل ہو ناہے اور یہاں عالمی سطح کی تسلیم شدہ سرحد نہیں اس لیے مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی فوجیں جہاں تک آگے بڑھ چکی ہیں وہاں نئی جنگی بندی لائن قرار دی جائے اور بقول ذوالفقار علی بھٹو یہاں جب اُن کے اس اعتراض کے باوجودپاکستان اور بھارت کے درمیان معاہدہ تاشقند پر دستخط ہوگئے تو ذولفقار علی بھٹو نے اس کے تھوڑے عرصے بعد وازارت خارجہ سے استعفیٰ دے دیا اور پھر پاکستان پیپلز پارٹی بنا کر صدر ایوب خان کے خلاف تحریک شروع کردی یہ تحریک اس لیے بھی زیادہ قوت اختیار کر گئی جنوری1965 میں ایوب خان نے بنیادی جمہور یت اور صدارتی نظام کے لیے 1962 کے آئین کے تحت دوسرے انتخابات کروائے تھے۔

جس میں متحد ہ اپوزیشن نے محترمہ فاطمہ جناح کو مشترکہ طور پر صدارتی امیدوار نامزد کیا تھا بھٹو ایوب خان کی اس صدارتی انتخابی مہم میں ایوب خان کے ساتھ تھے اِن انتخابات میں بی ڈی ممبران کی تعداد دگنی کردی گئی تھی، انتخابات کے نتائج کے بعد صدر ایوب خان پر انتخابات میں خصوصاً مشرقی پاکستان اور کراچی میں دھاندلی کے شدید الزامات بھی لگے تھے اور اب تاشقند معاہدے میں ملکی مفادات کے خلاف فیصلے کا الزام تھا یوں بھٹو ،مجیب الرحمن ، مولانا بھاشانی،اور دیگر تقریباً تمام سیاسی رہنمائوں نے مل کر ایوب خان کے خلاف کامیا  ب تحریک چلائی اور ایوب خان نے 25 مارچ 1969ء کو اقتدارچھوڑدیا۔ انہیں کچھ عرصہ بعد دل کی تکلیف لا حق ہو گئی تھی اور 19 اپریل 1974ء کو اسی عارضہ قلب کی وجہ سے 66 سال کی عمر میں اسلام آباد میں وفات پائی ،اُن کی وفات کو آج 45 سال گزر گئے ہیں اور اقتدار چھوڑے آج پوری نصف صدی گزر گئی ہے،آج بھی اُن کے لیے یہ مصرع لکھا نظر آتا ہے ’’ تیرے جانے کے بعد تیری یاد آئی۔‘‘

 ڈاکٹر عرفان احمدبیگ  ( تمغۂ امتیاز)

The post سابق صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خان کا عہد appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2U5KzLz
via IFTTT

سارے رنگ ایکسپریس اردو

کوئی تعلق سی ’لاتعلقی‘ ہے۔۔۔!
خانہ پُری
ر۔ ط ۔ م

عام طور پر سردمہری کی اگلی شکل کو ’لاتعلقی‘ کہا جاتا ہے۔ جو تعلق اعلانیہ نہ ہو، تو اکثر اس سے ’لاتعلقی‘ بھی غیراعلانیہ ہی ہوتی ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اعلان ’لاتعلقی‘ سننے والے حیران ہوتے ہیں، اچھا یہ ’تعلق‘ بھی تھا یا یہ کہ فریقین کے درمیان جو آج سے پہلے تک تھا وہ ’تعلق‘ تھا۔۔۔!

عام زندگی کے بعد سب سے زیادہ لاتعلقی کا ’کھیل‘ میدان سیاست میں کھیلا جاتا ہے، اگر چہ ہجر اور وصل کے مختلف ذائقے لیے ہوئے اس پر ہمارے شعر ونثر میں بہتیرا مواد ہے، بقول ساحر لدھیانوی ؎

تعارف روگ بن جائے، تو اس کو بھولنا بہتر

تعلق بوجھ بن جائے، تو اس کو توڑنا بہتر

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک فریق کی جانب سے ’تعلق‘ کا دعویٰ کیا جانے لگتا ہے، دوسرا فریق چلّاتا پھرتا ہے کہ ’’یہ ہم نہیں۔۔۔!‘‘ اور دیکھنے والے صحیح غلط اندازے ہی لگاتے رہ جاتے ہیں۔ ابھی 28 فروری 2019ء کو ہمارے وزیراعظم عمران خان نے ٹیپو سلطان کی مدح کرتے ہوئے ہندوستان کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر سے ’لاتعلقی‘ کا اظہار کر ڈالا اور کہا ’بہادر شاہ ظفر نے غلامی کا انتخاب کیا اور ٹیپو سلطان نے آزادی کے لیے لڑنے کو ترجیح دی، اس ملک کا ہیرو بہادر شاہ نہیں، بلکہ ٹیپو سلطان ہے۔۔۔!‘

بھئی یہ درست ہے کہ انگریز آقا کے سامنے دونوں راہ نماؤں کے طریقۂ کار میں بہت فرق تھا، لیکن انگریز نے تو دونوں کو ہی دشمن تصور کیا، اُس نے ٹیپو کو شہید کیا، تو بہادر شاہ کو بڑھاپے میں اذیت ناک موت کے لیے رنگون میں قید کیا۔۔۔ شاید ’جناب‘ کے مصاحبین نے بہادر شاہ ظفر کا تعلق آج کی ’حزب اختلاف‘ سے بتا دیا ہو، جس پر چارو ناچار ’اعلان لاتعلقی‘ کرنا پڑا۔

جس طرح ’باپ‘ اپنی نافرمان اولاد سے ’اعلان لاتعلقی‘ کرتا ہے، اسی طرح سیاست میں (سیاسی جماعتوں کے علاوہ بھی) بہت سے ’’باپ‘‘ اپنی کردہ اور ناکردہ ’’چیزوں‘‘ سے بہ امر مجبوری یا کبھی تنگ آکر ’لاتعلقی‘ کی منادی کرا دیتے ہیں، اس کے بعد وہ ’بچے‘ کبھی باپ کے مقابل بھی آن کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔ ہمارے ملک کی شاید ہی کوئی سیاسی جماعت ہو، جس نے کبھی نہ کبھی ’لاتعلقی‘ سے استفادہ نہ کیا ہو۔۔۔ لیکن جس طرح ’متحدہ قومی موومنٹ‘ نے 23 اگست 2016ء کو اپنے قائد سے لاتعلقی کا اعلان کیا، اُس کی مثال جدید سیاسی تاریخ میں بہت مشکل سے ہی ملے گی۔۔۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ انہی قائد پر یہ الزام لگایا جاتا تھا کہ وہ ’گرفت‘ میں آجانے والے اپنے ’بندوں‘ سے ’لاتعلقی‘ کا اعلان کر دیتے تھے، اب یہ دن بھی آیا کہ یہاں موجود ان کی پوری جماعت نے اپنے قائد سے ’اعلان لاتعلقی‘ کر دیا۔۔۔!

آخر میں بہ عنوان ’لاتعلقی‘ ایک ’رواں نثر‘ پیش خدمت ہے، جسے ’نثری نظم‘ کہنے والوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، البتہ ہم ایسا سمجھنے والوں سے ’لاتعلقی‘ کا اعلان بھی نہیں کرتے، بلکہ مَن ہی مَن میں اُن کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ ’پھر سے کہو۔۔۔ کہتے رہو۔۔۔!‘ :

میں مسلسل بہتے اِن آنسوؤں سے

لاتعلقی کا اعلان کرتا ہوں۔۔۔!

میں جھومتا ہوا بدن ہوں

میرا دھڑکنوں سے کوئی تعلق نہیں!

میں مسکراتا ہوا چہرہ ہوں۔۔۔

میرا اشکوں سے کوئی تعلق نہیں!

وہ گئے وقتوں کے خواب تھے۔۔۔

جو کھلی آنکھوں نے دیکھے۔۔۔

سو یہ دیتی رہیں اس ’دیکھے‘ کا خراج۔۔۔

میرا اب سپنوں سے کوئی تعلق نہیں!

یہ نم آنکھیں تھک رہی ہیں۔۔۔

میں روح ہوں۔۔۔

میرا جسم سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔!

۔۔۔

صد لفظی کتھا
ہولی

رضوان طاہر مبین
لال، نیلے، ہرے، پیلے اور گلابی رنگوں نے ’خانہ بدوش‘ کے چہرے اورکپڑوں کو رنگ برنگا کیا ہوا تھا۔۔۔
اس کے لباس اور جلد کی رنگت میں اب کوئی فرق نہ تھا۔
’’کیا تم ہندو ہو۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔
اس نے ایک نظر اپنی قمیص پر ڈالی اور جواب دیا: ’’نہیں صاحب۔۔۔!‘‘
’’پھر یہ ہولی کے رنگ۔۔۔؟‘‘ میں نے سوالیہ انداز میں اُسے دیکھا۔
’’اچھا لگ رہا ہے صاحب۔۔۔!
اتنے سارے رنگوں سے ہمارے کپڑے بھی آج ’بابو لوگ‘ کے موافق کتنے اُجلے لگ رہے ہیں ناں۔۔۔!‘‘
وہ ہاتھ پر لگے ہوئے ایک داغ پر رنگ لگاتے ہوئے بولا۔

۔۔۔

ماں کی ممتا پہ
سوال۔۔۔
اویس شیخ، ٹوبہ ٹیک سنگھ
میں جس دفتر میں کام کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ گھر کی دیوار میں ایک کھڑکی ہے، جس میں سے اکثر اوقات بچوں کے کھیلنے کودنے اور رونے دھونے کی آوازیں آتی رہتی ہیں۔ ایک سہ پہر میں کام میں مصروف تھا کہ ایک بچی کی آواز سنائی دی، وہ اپنے بھائی سے کہہ رہی تھی ’’احمد، چلو ہم کھیلتے ہیں۔ میں آپ کی مما بن جاتی ہوں اور آپ میرے بے بی!‘‘ یہ جملے اس بچی کے منہ سے نکلے، جسے ابھی اسکول کا پتا تک نہیں، لیکن اس کے یہ الفاظ سیدھے میرے دل و دماغ پر آ لگے تھے۔

اس کے جملے سن کر میرا خدا کی ربویت پر ایمان مزید پختہ ہوگیا کہ اس نے کتنی خوب صورتی سے ایک چھوٹی سی بچی کے دل میں ممتا کا احساس جگایا، لیکن میں سوچتا ہوں کہ 24 فروری 2019ء کو جس ماں نے گھریلو اور شوہر کے جھگڑے سے تنگ آکر اپنی سات اور تین سال کی دو بیٹیوں کو نہربرد کر دیا وہ کون سی ماں تھی؟ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک کم سن بچی ممتا کے احساس سے آشنا ہے، لیکن ایک حقیقی ماں ایسے کس موڑ پر جاپہنچی کہ اس نے اپنی دو کلیوں کے ساتھ ایسا قبیح فعل کیا، یقیناً یہ کسی بھی سماج کے لیے بہت انتباہی صورت حال ہے کہ ایک ماں اپنی بیٹیوں کی جان کے درپے ہو جائے۔

وہ ماں جس کے لیے رب کی بندوں سے محبت کی مثال دی جاتی ہے کہ رب العزت ایک ماں سے 70 گنا زیادہ اپنے بندوں کو چاہتا ہے۔ ماہرین سماجیات کو ان محرکات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہوگا۔

پانی گدلا کیوں۔۔؟
مرسلہ: ظہیر انجم تبسم، خوشاب
’’اس شاہ راہ پر آگے دور تک کوئی اور پنکچر والا نہیں۔ اس لیے پنکچر والے نے لکھا ہوا تھا ’آگے جانے سے پہلے احتیاطاً اپنی ٹائرٹیوب چیک کروا لیجیے، تاکہ کسی زحمت سے بچ سکیں‘ عجیب بات تھی کہ معائنے کے دوران ہر ٹیوب میں ’پنکچر‘ برآمد ہوجاتا۔۔۔ اور لوگ مطمئن ہوتے کہ چلو آگے ویرانے میں گاڑی پنکچر ہونے کی زحمت سے بچ گئے۔ بہت سے لوگ اسے درویش تک کہنے لگے۔ مجھے یہ ماجرا کچھ سمجھ میں نہ آیا۔

ایک دن میں اُس پنکچر والے کے پاس جا پہنچا، اس نے ٹیوب چیک کرنے کے لیے برتن میں گدلا پانی ڈالا ہوا تھا۔ میرے پوچھنے پر کہنے لگا صاحب، گدلے پانی میں پنکچر جلد ’نظر‘ آتا ہے، میں حیران ہوا، جب وہ دکان سے باہر نکلا میں نے پنکچر چیک کرنے والا برتن انڈیل دیا۔ دیکھا تو اس برتن کے پیندے میں ایک عدد سوئی لگی ہوئی ہے، جب بھی کوئی پنکچر لگوانے آتا تو وہ گدلے پانی میں ٹیوب ڈبوکر سوئی چبھو کر اس میں پنکچر کردیتا۔ گدلے پانی کی وجہ سے سوئی نظر نہ آتی تھی، یہی وجہ ہے، وہ صاف پانی برتن میں نہیں ڈالتا تھا۔

دسترخوان کا جزو ’’ثقل دان‘‘ کیا تھا؟
مرسلہ: سارہ شاداب، لانڈھی، کراچی
کوشش کی جاتی ہے کہ دسترخوان خوب صورت اور جاذب نظر انداز میں لگایا جائے۔ اس صورت خال کا منطقی تقاضا یہ بھی ہے کہ کھانے کے دوران منہ سے نکالی جانے والی فاضل، گراں بار، اور ناپسندیدہ اشیا، مثلاً گرم مسالے کے اجزا، ہڈی، ٹماٹر کے چھلکے، دھنیہ یا کسی قسم کی ادھ چبی اشیا، جو بعض اوقات ناگوار ذائقے کی بنا پر منہ سے نکالنا پڑ جاتی ہیں، انہیں ٹھکانے لگانے کے لیے کوئی معقول اور نفیس انتظام ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں عام طور پر ایسی اشیا کے لیے کھلے برتن، طشتری یا رکابی وغیرہ استعمال کی جاتی ہے۔

وہ بھی صرف بہت شائستہ قسم کے لوگوں میں، ورنہ اکثر و بیش تر دسترخوان پر ہی اس کا ڈھیر لگا دیا جاتا ہے، جو ہمارے خیال میں انتہا درجے کی بدذوقی ہے۔ برصغیر پاک و ہند جہاں ریاستوں کے نوابوں، مہاراجوں کے ہاں قسم قسم کے دسترخوان بچھانے اور سجانے کی روایت بڑی مضبوط رہی ہے، ان معاشروں میں بھی ایسے کسی خاص برتن کا سراغ نہیں ملتا، جس میں کھانے کے دوران نکالی جانے والی ناگوار اور گراں بار اشیا رکھی جاسکیں۔

اس کے لیے دلی کے داستان گو میر باقر علی پر لکھے گئے ایک خاکے سے لفظ ’ثقل دان‘ دریافت ہوا۔ قدیم دلی میں ہر دسترخوان پر ’ثقل دان‘ رکھا جاتا تھا اور یہ مثل مرتبان کے ہوتا تھا کہ منہ سے نکلی ہوئی ادھ چبی اور ناگوار اشیا اسی ’ثقل دان‘ کے تہہ نشیں ہوجائیں، دسترخوان پر کھانے والوں کی نگاہوں سے اوجھل رہیں۔ کاش اس لفظ کو عام کر کے لوگوں کو ایسے برتن کے استعمال پر راغب کیا جائے، تاکہ ہم مکمل آداب دسترخوان اور شائستگی کے ساتھ کھانا تناول کر سکیں۔

’’آم‘‘آدمی۔۔۔
محمد فراز
بابو اپنی عمر کے 39 سال تک ایک عام آدمی تھا ایک ’’عام‘‘ آدمی جسے لکھا ’’ع‘‘ سے جاتا ہے مگر برتا ’’آ‘‘ سے جاتا ہے۔ بابو بھی 39 سال سے اس تماشے کا حصہ تھا اور پُرامید تھا کہ جب 39 سال گزار دیے، تو اگلے 20، 25 سال بھی گزر ہی جائیں گے اس عذاب سے جان چھوٹ جائے گی۔ اب وہاں جنت میں تو بچوں کے پوتروں کا خرچہ نہیں کرنا پڑے گا، نہ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننے کی فکر اور نہ ہی کسی سیٹھ کی غلامی، کتنا سکون ہو گا نا وہاں، جنت میں رہنے کا کوئی کرایہ بھی نہیں دینا پڑے گا، نہ بجلی کا بل اور نہ لوڈ شیڈنگ، اسے پورا یقین تھا کہ جنت میں یہ سب کچھ ہوگا، مگر وہ جنت میں جائے گا یا نہیں اس بات کا یقین ڈگمگاتا رہتا۔ بابو کو اپنے سارے کرتوتوں کا علم جو تھا، مگر وہ یہ کہہ کر خود کو مطمئن کر تا کہ انسان تو ہے ہی خطا کا پتلا اور اللہ تو توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

بابو اتنا غریب تھا نہ جاہل۔۔۔ انٹر تک پڑھا تھا، مگر اس نے آرٹس لی تھی، اس لیے ملنے ملانے والے اس کے ’انٹر‘ کو کسی خاطر میں نہ لاتے۔۔۔ اب ظاہر ہے انٹر آرٹس کی کیا ’ویلیو‘۔

اب بابو نے یہ بات گرہ سے باندھ لی کہ اپنے بچوں کو مدرسوں میں ڈلوا دوں گا، مگر آرٹس نہیں پڑھائوں گا۔ وہ اپنی پرچون کی دکان پر اکثر ادھار پر ادھار سودا لے جانے والے استاد سے اپنے بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھتا اور وہ اسے ہمیشہ ’اوکے‘ کی ہی رپورٹ دیتا۔ ایک دن جب بابو کو یہ پتا چلا کہ وہ ٹیچر ہی اسکول کے پرچے آئوٹ کرا کے بچوں کو پاس کراتا ہے، تو اسے بہت غصہ آیا، مگر پھر وہ بچوں کے مستقبل کی خاطر اپنے غصے کو پی گیا۔

غصہ وہ واحد حرام چیز تھی، جسے وہ برسوں سے پی رہا تھا۔ اب تو اگر اسے کسی دن الٹی ہوتی تو جانے کون کون اس ’سیلاب‘ میں ’بہہ‘ جاتا۔۔۔! ہر شریف آدمی کی طرح اسے بھی یہ مان تھا کہ شریف آدمی جب غصے میں آتا ہے، تو اینٹ سے اینٹ بجا دیتا ہے، اس لیے اس نے کبھی اپنی شرافت کا بند ٹوٹنے نہ دیا! محلے میں اس کے اخلاق کی قسمیں کھانے والوں کی کمی نہ تھی، مگر گھر والے ’بے قدر‘ تھے۔ وہ تُنک کر کہتا کہ جب میں نہیں رہوں گا ناں، تب تم لوگوں کو میری قدر ہوگی، جس پر بیوی چڑ کر کہہ دیتی کہ ہاں ہاںِ تب ہی ہوگی۔

بابو زیادہ بحث نہیں کرتا تھا، کبھی کسی ’’سنجیدہ مسئلے‘‘ پر غور کرنا ہو تو وہ علاقے کے چند ایسے چیمپیئن لوگوں کے بیچ چلا جاتا، جو سارے جہاں کے بارے میں سب ’’جانتے‘‘ تھے۔۔۔ وہ اسے زندگی کے ’’مفید مشورے‘‘ بھی دیتے، جیسا کہ بیوی کو قابو میں کیسے رکھیں، سسرالیوں میں عزت کیسے بنائیں، بچوں پر نظر کیسے رکھیں وغیرہ۔ وہ ان کے ساتھ تاش کھیلتے، ایک داڑھ میں پان دبائے، آدھے منہ سے چائے پیتے ہوئے گھنٹوں اس ’سیر حاصل گفتگو‘ کا حصہ بنا رہتا۔ گھر آتا تو بیوی نیند سے جاگ کر دروازہ کھولتی جس پر وہ ناراض ہوتا کہ وہ اتنی بے فکر ہے کہ اس کے آنے سے پہلے ہی سوگئی۔

بات یہ تھی کہ 39 سال تک وہ ایک عام آدمی رہا اور اس کی کہانی میں کچھ بھی نئی بات نہ ہوئی۔ 39 واں سال اس کی زندگی کا سب سے اہم سال ثابت ہوا۔ سب ہی ملنے ملانے والے اس کی تعریفوں کے پُل باندھنے لگے، لوگ اس کے قرضے لوٹانے لگے، یہی نہیں اس کے گھر کھانے پکا پکا کر بھیجنے لگے، اس کی بیوی کو تو چولھا جلانے کی ضرورت بھی نہ پڑتی، اس کے گھر کی صفائی کی ذمہ داری بھی رشتہ داروں نے لے لی، اس کے اہل خانہ کے تو ٹھاٹ ہی اور ہوگئے، کسی شاہی خاندان کی طرح ان کی دل جوئی کی جانے لگی، اور پھر۔۔۔

پھر سوگ کے تین دن پورے ہوگئے۔۔۔ پھر وہی ہوا اس کے بیوی بچوں کے دلوں میں بابو کی قدر جاگ گئی!

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2FCYpeu
via IFTTT