Wednesday, July 31, 2019

کشمیر: ثالثی سے آگے ایکسپریس اردو

اس ہفتے دو فکر انگیز موضوعات نے ذہن میں بسیرا کرلیا۔ ان میں ایک تو صدر ٹرمپ کی طرف سے بھارت کو ثالثی کی معنی خیز تجویز تھی جو صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے عمران کے حالیہ دورہ امریکا میں دی مگر میڈیا ٹاک یا پریس کانفرنس سے نکل کر ثالثی کے اس شریفانہ لفظ نے سفارت کاری کے شعبہ میں دھماکا کردیا۔

چین، ترکی اور ملائیشیا کی جانب سے خطے کے مسائل کے تناظر میں ثالثی کو بھارتی ایجنڈے پر لایا گیا جب کہ بھارتی میڈیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ثالثی سمیت مسئلہ کشمیر کے حل کی درجنوں صائب تجویزیں وقت کی مٹھی میں بند ہیں، ان میں متفرق سفارشات،آئیڈیاز، مفروضے، تجزیے ،کالم، پالیسیاں، وزرائے اعظم ، وزارت خارجہ اور سیکریٹریز سطح کے ان گنت مشترکہ اعلامیے، حکومتی ڈیلز، تھیوریز ،ان میں سازشی تھیوریز کو بھی شامل کرلیں ، سب پاک بھارت ریکارڈ روم میں ملیں گے ۔وقت نے ان پر منوں مٹی ڈال دی ہوگی ۔ کوئی ایسا بریک تھرو آج تک نہیں ہوا جو پاک بھارت تعلقات کو کشمیر کے سیاق وسباق میں یادگار بنادیتا۔

ایک کوشش ہمارے کمانڈو جنرل پرویز مشرف نے آگرہ جاکرکی تھی مگر اٹل بہاری باجپائی نے یہ طعنہ دیا کہ وہ تاریخ کا دھارا کیا موڑتے انھیں تو خود بھی تاریخ کا شعور نہ تھا، یہ کشمیر مسئلہ کے حل کا بقول خورشید محمود قصوری ایک قابل عمل، فیصلہ کن اور کثیر المقاصد فارمولہ تھا جسے بھارتی سفارت کاری نے بیدردی سے ضایع کردیا۔

بہرحال یہ بھی تاریخ کا ستم ہے کہ کشمیر نائن الیون کے بعد سے بدلی ہوئی سیاسی دنیا میں جہنم زار بنا ہوا ہے جہاں انسانی حقوق پامال ہورہے ہیں، بھارتی سیکولرازم اور جمہوریت عریاں و رسوا ہوئی ہے اور جرم ِحق ِ خودارادیت پر کشمیری عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں ۔ آج بھی انسانی حقوق کے حوالہ سے ایک عالمی رپورٹ بھارت کے خلاف عالمی ایف آئی آر اور جموں وکشمیر کے عوام کی طرف سے فرد جرم کا ناقابل تنسیخ صدائے ضمیر کا درجہ رکھتی ہے۔

اس تمہید کا ایک معروضی حوالہ آج کی ایک نجی گفتگو کا ہے جو لیاری کے جواں سال دانشوروں، سیاسی مکاتب فکر ، طالبعلموں اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ صحافیوں سے ہوئی جس میں کشمیر ، بھارت، پاکستان اور عالمی ذرایع ابلاغ کے جدید رجحانات اور نئے انداز نظر سے متعلق ان کے دل ودماغ میں سمائے ہوئے تھے۔ اچھا ہوا یہ کیتھارسس ہو ہی گیا ۔ ورنہ کہاں لیاری کے بے نام دانشور ، قلم کار، مقالہ نویس اور کہاں کشمیر پر سکہ بند خصوصی تجزیہ دان ۔

کسی دل جلے کا کہنا تھا کہ ایک زاویہ سے دیکھا جائے تو کشمیر ایشو کو سرکاری ذرایع ابلاغ نے بھی یرغمال بنا رکھا ہے۔ یہ گفتگو چند روزہ تھی مگر اس کا دائرہ وسیع اور متنوع تھا، اس میں بعض خیالات غیر متوقع اور غیر معمولی تھے اور زمینی حقائق سے جڑے رہنے کے باوصف کشمیر کی صورتحال، پاک بھارت اعلیٰ سطح کی بے نتیجہ ملاقاتوں، اس کی تاریخ اور بے فیض سفارتکاری کے نشیب وفراز سے مشروط و مربوط تھے۔

فکری و غیر رسمی گفتگو اس نکتہ پر ہوئی کہ ایسے کتنے نوجوان یا کہنہ مشق سیاستدان ، طالبعلم ،اسکالر اور ادیب و صحافی ہیں جن کے قلم سے کشمیر کے کوئی تاریخی انکشافات منظر عام پر آنے کو ہیں، یا ایسے کتنے لیاری یا کراچی کے طالبعلم ہیں جو کشمیر مسئلہ کے اصل سیاق وسباق کا ادراک رکھتے ہوئے اپنے نئے تھیسس اور ڈاکٹریٹ کے مقالوں کے لیے مواد کے حصول میں سرگرم عمل ہیں ان میں تحقیق کی تپش دیدنی ہے، اور اس کے لیے وہ پاکستان، مقبوضہ و آزاد کشمیر، بھارت اور مشرق وسطیٰ میں مقیم بھارتی اہل قلم یا سفارتکاروں اور سیاسی تنظیموں سے رابطہ کیے ہوئے ہیں چنانچہ اس گفتگو اور رابطہ سے لیاری کے طالب علموں، اہل قلم، دستاویزی فلمیں تیار کرنیوالے نوجوان فنکاروں اور دانشوروں نے اہم باتوں سے آگاہ کیا اور بعض نے پاک بھارت تعلقات،کشمیرکی حالت زار، اس کے لہو رنگ مستقبل اور ذرایع ابلاغ کے رول پر اپنے مستقبل کے امکانی پروگرواموں کا تذکرہ کیا مگر جن طالبعلموں، نوجوانوں اور ڈاکٹریٹ کی تیاریوں میں مصروفیت کا عنوان کشمیر ایشو سے جوڑ دیا انھوں نے بڑی چونکا دینے والی باتیں کیں لیکن ان اصحاب کا کہنا تھا کہ ثالثی کا ایشو ہو، کلبھوشن یادیو کے عالمی انصاف عدالت کا فیصلہ ہو یا افغان امن کے تنازع اور طالبان کو پھر سے مدعو کرنے میں پاکستان کے کلیدی کردار کا معاملہ ہو، ان سب کے راستے خطے کے مرکزی مسئلہ کشمیر سے جاکر ملتے ہیں۔پاکستان کو بند گلی میں پھر نہیں پھنسنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکا کی طویل جنگ بے نتیجہ ثابت ہوئی ہے،یہ بھی بھارت کی کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کے آئینہ میں بے نتیجہ بھارتی سامراجیت کا شاخسانہ ہے۔ بھارتی کردار افغانستان کے پیچیدہ بحران کی تہ میں بھی موجود ہے، یہی بھارت بلوچستان میں مداخلت کاری کا خاص ایجنڈا رکھتا ہے۔ بھارت نے کشمیر کی پوری سیاسی، سماجی، لسانی، ثقافتی اور معاشی تاریخ کو طاق نسیاں پر رکھنے کا ایک ظالمانہ سفر طے کیا ہے،دنیا پاک بھارت تعلقات کے سیاق وسباق میں کشمیر مسئلہ کو فلیش پوائنٹ سے بہت آگے دیکھ رہی ہے، وہ کہنے لگے کہ اسکالرز، ادیب، صحافی، سفارتکار، عسکری ادارے، تھنک ٹینک، سیاسی مفکرین اور محققین نئے موضوعات کو زیر بحث لائیں۔

کشمیر ایشو پاکستان کے ضمیر کے قیدیوں سے نیا انداز بیاں چاہتے ہیں، پرانی سٹیبلشمنٹ کی کہانی بے روح ہوچکی، ان کی رائے تھی کہ اردو اور انگریزی زبان میں کشمیر پر تحقیق اس انداز نظر سے ہو کہ بھارتی اور پاکستانی مائنڈ سیٹ ماضی کی رقابتوں سے الگ رہتے ہوئے ’’آج ‘‘ کے کشمیر اور افغانستان کو سامنے رکھے۔ ان کا کہنا تھا ریسرچ اسکالر An Indian Approach to Self Determination پر نئی تحقیق پیش کریں۔New dilemmas in Indian Initiative کا عنوان ان کی تحقیق کی بنیاد بنے۔

اسی طرح صحافی False Hopes and Modi failures  میں اہل قلم موجودہ بھارتی نقطہ نظر کا تجزیہ مکمل غیر جانبداری اور کشادہ نظری سے کریں۔ لیاری کے اسکالرز اور سیاسی ایکٹی وسٹوں کا کہنا تھا کہ Why Mediation? A new Password for india    جیسے سبجیکٹ نئی فکری اور سیاسی بحث کا نقطہ آغاز بنیں ۔ ٹرمپ کی تجویز سے ثالثی بحث کا معنی خیز آغاز ہو اور بحث قطعی فکری اور معروضی پیرائے میں ہو، اس میں پاک بھارت میڈیا کی 71 سالہ گلی سڑی باتوں، دوطرفہ سیاسی گھاتوںکہہ مکرنیوں، مخاصمت، یو ٹرنوں اور سفارتی قلابازیوں کی تکرار کی کوئی گونج نہ ہو،یہ ایک شفاف اور دھرتی اور خطے سے جڑے ہوئے مکالمہ کا پیش لفظ ہو جسے پاک بھارت ذہن کا سفارتی قبیلہ خندہ پیشانی سے قبول کرے اور اس پر آؤٹ آف باکس بات چیت پر راضی ہو۔

اس اسکالر کا اصرار تھا کہ یہت سارا وقت پاک بھارت سفارتکاری کی نذر ہوا اور کشمیر کے عوام سمیت پاک بھارت خلق خدا کو اس سے کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا، پاک بھارت نیا مکالمہ اگر خطے کو ریلیف نہیں دیتا تو ایسے مکالمہ سے گریز مناسب ہے۔ ایک نوجوان ریسرچ اسکالر کے مطابق پاک بھارت ماہرین ذرایع ابلاغ میں اس نکتہ پر سیمینار اور کانفرنس منعقد کریں۔ کشمیر کتب میلہ منعقد ہو۔ اسکالر Mediation: A Challenge or an Opportunity کے پہلوؤں پر روشنی ڈالیں۔

ایک صائب رائے یہ بھی سامنے لائی گئی کہ ڈاکٹریٹ کرنیوالے ریسرچ اسکالرز چاہے انگریزی زبان سے تعلق رکھتے ہوں یا اردو اور علاقائی زبان سے انھیں اپنا رابطہ بھارتی، بنگلہ دیشی، متحدہ امارات ، پاکستانی اسکالرز ، سابق سفارتکاروں، سینئر صحافیوں ،سیاسی مدبرین سے فیڈ بیک لینا چاہیے۔ وہ اپنے ہم منصبوں کو بتائیں کہ ان کا مقصد پاک بھارت انٹر ایکشن کی ڈائنامکس تبدیل کرنی ہیں، پرانی دشمنیوں کو دفن کرنا ہے۔

لوگوں کو قائل کریں کہ وہ اس بے نتیجہ مشق سفارتکاری سے تنگ آچکے،اب نئی شروعات ہونی چاہیے تاکہ مخاصمت ، تنگ نظری، بے نام سی دشمنی سے بالاتر رہتے ہوئے کشمیر کے مسئلہ پر تاریخی سچائی کے ساتھ روشن ضمیری پر مبنی دو طرفہ مکالمہ کی ابتدا ہو۔ گفتگو میں نوجوان دانشوروں نے کہا کہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ کشمیر سے متعلق انڈین لٹریچر، شاعری،فکشن اور سیاسی تجزیہ کاری کا سرمایہ دنیا کے سامنے لایا جائے، جموں وکشمیر کے پیدائشی ادیبوں اور شاعروں کا کلام اور ان کی تخلیقات تک رسائی حاصل کی جائے۔

دیکھنا چاہیے کہ اکیڈیمیا، انٹیلیجنشیا، بھارتی میڈیا نے کبھی کسی مقامی ادیب یا شاعر کی غیر معمولی تخلیق کو نمایاں پذیرائی دی ۔کسی دختر جموں و کشمیر کے بے رحم قلم سے کشمیر کا نوحہ کسی طلسم ہوشربا ناول کی صورت منصۂ شہود پر لایا گیا ہو؟ کشمیر تنازع پر ہزاروں مضامین اور بڑی درد انگیز شاعری کا ذخیرہ موجود ہے ۔ کشمیر ہمارے دور حاضرکا ایک دیومالائی موضوع ہے۔

دنیا کے اکثر قلم کار پوچھتے ہیں کہ مودی کے پاس کشمیر کا کیسا منڈیٹ ہے جسے وہ تعصب، نفرت اور دشمنی کے ترازو میں تولتے ہیں اور انسانی حقوق کا قتل عام کرتے ہیں۔ آج بھی نامور ادیب، صحافی، قلم کار ، بھارت کے سابق آرمی چیفس، اپوزیشن رہنما،کانگریس اور اروندھتی رائے جیسی جری و بے خوف سیاسی کارکن اور ادیب بھارتی سٹییلشمنٹ کی بے ضمیری کو للکارتی ہیں۔ مودی سوچیں کہ وہ تاریخ کے ٹائٹل پر ایک انسان دوست رہنما کے طور پر زندہ رہنا چاہتے ہیں یا اس کا حاشیہ ان کا مقدر و منتظر ہے؟

The post کشمیر: ثالثی سے آگے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Ms0zm9
via IFTTT

ٹیکس؟ کیوں؟ کس لیے؟ کب سے (دوسرا اور آخری حصہ) ایکسپریس اردو

بات کو بنیاد سے شروع کرتے ہیں اگرکسی کے گھر چوری ہوجائے ڈاکہ پڑے نوجوان بیٹا قتل ہوجائے یا بیٹی کے ساتھ کوئی مجرمانہ واقعہ پیش آ جائے تو حکومت کتنا تحفظ دیتی ہے؟پیشگی تحفظ کا تو کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا تھا لیکن لٹ جانے کے بعد کیاہوتا ہے؟ ظاہر ہے کہ آپ حکومت کے قائم کردہ قانون نافذ کرنے اور امن وامان قائم کرنیوالے اداروں میں جاکر فریاد کرینگے لیکن فریاد کیسے کریں گے َاور وہ سنیں گے کیسے؟

یہ توبتانے کی بات ہی نہیں کیونکہ ایک مرتبہ ہرکوئی اسی پل صراط سے گزرتا بھی رہاہے جو تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہے اور کسی کو ’’گزرتے‘‘ ہوئے دیکھ چکا ہوتا ہے یعنی ’’شنیدہ کے بود مانند دیدہ‘‘ اور۔عیاں راچہ بیان؟چنانچہ وہ سو سو بار سوچے گا کہ فریاد کرنے جاکر کئی کئی بار پھرلٹ جائے اور اپنی عزت کھوئے یاخاموش رہے۔

اور بزرگوں نے ’’خاموشی‘‘کو بہتر کہاہے لیکن جو ناسمجھ، ناآشنا اور ناواقف ہوتے ہیں اور صرف ’’بیانات‘‘ کی حد تک معلومات رکھتے ہیں یا انصاف کے صرف دکھانے والے دانتوں کو دیکھتے رہے ہوتے ہیں تو وہ ان اداروں کی زنجیر عدل ہلادیتا ہے اور پھر وہ کمبل کو چھوڑنا چاہتاہے لیکن کمبل بھی اسے چھوڑے تب نا۔چنانچہ آپ اپنا گھر لٹا بیٹھنے ،کھونے اور بیٹی کی عزت داغدار کرنے کے مراحل سے ایک مرتبہ پھر گزرتے ہیں اور تب تک گزرتے رہیں گے جب تک’’تعاون‘‘منہ مانگے داموں پر خرید نہیں لیتے۔آگے پھر وہ عدل وانصاف کا ہفت خواں آئے گا جسے رستم کا باپ زال اور نریمان بھی سر نہیں کرپائے گا۔

سوائے حضرت جناب کرنسی شریف کے۔اس بارے میں زیادہ تفصیل میں نہیں جائینگے کیونکہ جیسا کہ دانش مشرق میں کہاگیاہے کہ ’’خطائے بزرگاں گرفتن خطاست‘‘ویسے ہی مغربی بزرگوں نے بھی ’’توہین‘‘کی ایک دیوار کھڑی کی ہوئی ہے اور ایسی ’’پیش بندیاں‘‘وہی کرتاہے جسے یقین ہوکہ میں ’’خطا‘‘ کر رہا ہوں اس لیے پہلے ہی زبانوں پر مہرلگانا ضروری سمجھا گیا ہے۔

ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کرسی انصاف پرجو بیٹھا ہے اس نے یہاں تک پہنچنے کے لیے کتنی’’محنت‘‘کی ہے اور اپنی ’’کوالیفکشن‘‘ پرکتناکچھ خرچ کیا ہے یا خریدی ہے بلکہ یہاں جو ’’سیاہ وسفید‘‘ کے مجموعے نظر آتے ہیں ان کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہیں گے یہاں تک کہ جس کی طرف منہ کریں وہ سفید اور جس کی طرف پشت کریں وہ سیاہ بلکہ اس’’رادھا‘‘کے بارے میں بھی لب کشائی نہیں کرسکتے جو نومن تیل سے چھٹانک بھر کم تیل پر اپنے گھنگرو نہیں چھنکاتی۔ جسکی عرفیت ’’انصاف کی دیوی‘‘ہے۔اب گھر کی بھینس بکری کی چوری،ایک فالتو بیٹے کے مارے جانے اور ایک بیٹی کی عزت تار تار ہونے والا نومن تیل کہاں سے لائے گا؟وہ تو لٹا ہوا ہے۔

اب آتے ہیں شق نمبر دو ’’صحت‘‘،ایک پورا محکمہ اپنے تمام اسلحہ جات سے لیس بھی موجود ہے بہت بڑے اسپتال یہاں تک کہ دیہات کی سطح پر بی ایچ یو وغیرہ بھی ہیں، بے شمار کلینک بھی ہیں ریوڑھیوں کی طرح بٹنے والے صحت کارڈ بھی ہیں لیکن مریض پھر بھی عطائیوں ٹونا ٹونکہ کرنے والوں، دوم، درود پھونکنے والوں عاملوں جادوگروں پیروں فقیروں کا شکار ہے؟کیوں ؟کیا اسے نہیں معلوم کہ اتنے اسپتال اور صحت کارڈ موجود ہیں کیا وہ پاگل ہے جو یہاں وہاں بھٹکتا رہتاہے اور سیدھا سادا اسپتال نہیں جاتا؟

ایسا کچھ نہیں وہ سب کچھ جانتاہے بلکہ کچھ زیادہ جانتاہے اور یہ کہ جہاں’’صحت‘‘کے یہ ادارے قائم ہیں، وہاں امراض بیچے جاتے ہیں مریض کو دودھیل گائے بنایا جاتاہے اسے دواساز کمپنیوں کا بارآور کھیت بنایا جاتاہے اسے جعلی دوا ساز کمپنیوں کے ہاتھ فروخت کیاجاتاہے اس کے مرض کو اپنے لیے نعمت عظمیٰ بنایاجاتاہے اس کو لگی ہوئی’’آگ‘‘پر ہانڈیاں پکائی جاتی ہیں اس لیے وہ ان قتل گاہوں ،انسان فروشوں، امراض فروشوں سے دور رہ کر نوسربازوں عطائیوں اور ٹونے ٹوٹکے والوں کے ہتھے چڑھتا رہتاہے جو ان سے بھی زیادہ ظالم ہوتے ہیں۔

خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں

کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری

اور آخر میں ان سب باتوں کا یہ نچوڑ۔کہ جس ملک میں ہر ہر سطح پرعوام کے استحصال کے ’’مواقع‘‘حکومت نے پھیلا رکھے ہوں وہاں انسان بیمار اور مسائل کا شکار نہیں بنے گا تو کیا بنے گا۔مسائل جو ام الامراض ہوتے ہیں۔تیسرا آئٹم’’تعلیم‘‘

زبان پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا

کہ مرے نطق نے بوسے میری زباں کے لیے

لارڈ میکالے نے جو نظام تعلیم وضع کیاتھا وہ انسانوں کے لیے تھا ہی نہیں غلاموں یا دوسرے معنی میں کالانعاموں کے لیے تھا۔جو اب بھی ہے اور اپنی تمام خرابیوں اور برائیوں کے ساتھ رائج الوقت ہے۔یہ نظام تعلیم افسر بناتا ہے، انجینئر ڈاکٹر بناتاہے اکاؤنٹنٹ بناتاہے کلرک بناتا ہے چپراسی بناتا ہے اور سب سے زیادہ غنڈے بدمعاش بناتا ہے تاکہ حکومت کے دوسرے’’گلشنوں‘‘کا کاروبار بھی چلے لیکن اگر نہیں بناتا تو ’’انسان‘‘بالکل نہیں بناتا کیونکہ یہ بڑا خطرناک ہوتاہے خاص طور پر حکومت کے لیے۔

اگر کوئی غلطی سے انسان بن گیا تو پھر وہ ڈاکٹر انجینئر افسر کلرک سپاہی وغیرہ جو بھی بنے گا اس کے ساتھ ’’انسان‘‘بھی ہوگا یعنی خطرناک چنانچہ اس نظام تعلیم کی روح اس کی بنیاد اس کی رگ وپے میں سے ’’انسان بنانے‘‘کے عناصر نکال دیے گئے ہیں اور صرف کالانعام بنائے جاتے ہیں۔اوپر سے جب ستر سال پہلے حکمرانوں کو آزادی اور محکوموں کو مزید غلامی کی ’’نعمت عظمیٰ‘‘ملی تو ہر حکمران نے درسگاہوں کو اپنا ووٹ بینک پیدا کرنے کی ’’نرسری‘‘سمجھ کراپنے اپنے ’’زہر‘‘ سے اس کی آبیاری کی۔ یوں غلاموں کی جگہ اب اس میں ’’غنڈے‘‘ بنائے جانے لگے جن کا کل ملاکر نظریہ لینا جھپٹنا اور کسی بھی طرح کچھ بھی حاصل کرناتھا۔

’’اخلاق‘‘نامی چیز کو تو اس کے اندر انتہائی ممنوع قرار دیاگیا ہے بلکہ معاشرے میں سے بھی ہر اخلاقی قدر کو نکال باہر کرنا۔ خاندان کو مسمار کرنا،بزرگوں کا احترام گناہ سمجھنا حتی الوسع ہر دوسرے اور اس کی کسی چیز کو مذاق کا نشانہ نہ بنانا اور کسی طرح بھی دوسرے سے چھین لینا اور پھر محکماتی انقلاب بھی تو آزادی کے ساتھ آیاتھا۔ اسلامائزیشن کی رو سے تجارت انبیاء اور اولیا کا پیشہ ہے اس لیے تعلیم کو بھی مال تجارت بنانا۔ صحت کا انتظام اور عدل وانصاف تو پہلے ہی مال تجارت بنا چکے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تجارت مفادات این جی اوز منافقانہ سیاست نے ’’بیروزگار اور جاہل بذریعہ تعلیم‘‘ بنانے کا ایک کارخانہ بنا دیا ہے۔

کسی کوکسی بات کی پروا نہیں ہے کہ اس بیروزگاری کے اتنے بڑے کارخانے کا ’’مال‘‘ کہاں کھپایا جائے گا کیونکہ ’’روزگار‘‘کو بھی حکومت کی ذمے داری سے نکالا جاچکاہے بلکہ یہ بھی دانستہ کیاگیاہے تاکہ بے روزگاری بڑھے اور ساتھ ہی سرکاری ملازمتوں کی قیمت بھی بڑھے اور افسروں، منتخب نمایندوں اور وزیروں کے ذرایع آمدن میں اضافہ ہو۔ہم پورا حساب تو نہیں لگاسکتے لیکن اندازے سے بتاسکتے ہیں کہ اس وقت پولیس کے سپاہی سے لے کر بڑے افسروں اور یہاں تک کہ عدلیہ میں ایسا بندہ مشکل سے ملے گا جس نے اپنی پوسٹ خریدی نہ ہو بلکہ درسگاہوں کی سیٹیں تک بیچی اور خریدی جاتی ہیں الیکشن تو پہلے ہی سب سے اعلیٰ درجے کی تجارت اور منڈی؟اب ایسے حالات میں ’’ٹیکس‘‘کیا واقعی دو طرفہ ایک شریفانہ معاہدہ ہے؟یا باقاعدہ گن پوائنٹ پرلوٹ مارہے؟

یہ فیصلہ ہر کوئی کرسکتا ہے بلکہ اس معاہدے کی سب سے گھناؤنی صورت یہ ہے کہ حکومت اگر کہیں کسی کو کچھ دیتی بھی ہے تو وہ ’’حق‘‘ کے بجائے، بھیک کی طرح دیتی ہے، وہ بھی سارے عوام کو نہیں بلکہ اپنی اپنی پارٹی یا گینگ ممبرز‘‘کو۔کیونکہ پارٹیوں کو اب گینگ بنایا گیا ہے۔

The post ٹیکس؟ کیوں؟ کس لیے؟ کب سے (دوسرا اور آخری حصہ) appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ytkyZs
via IFTTT

ریلوے میں بہتری کی ضرورت ایکسپریس اردو

ہر محکمے میں بنیادی کردار وزیر کا ہوتا ہے‘ ریلوے مرکزی حکومت کا ادارہ ہے اور اس کے وزیر محترم شیخ رشید ہیں‘ ان کو جناب عمران خان نے اس محکمے کو بہتر کرنے کے کام پر لگایا ہے۔ میرے خیال میں ریلوے کے بجائے ان کے لیے بہتر وزارت اطلاعات تھی۔ آج تک انھوں نے کبھی بھی ریلوے کے مسائل پر بات نہیں کی‘ بس حکومت مخالفین پر برستے رہتے ہیں۔

ایک طبقے کی رائے ہے کہ خواجہ سعد رفیق نے سنجیدگی سے ریلوے کے نظام کو بہتر بنانے پر کام شروع کیا تھا‘ ان کے اقدامات بھی پس پشت ڈال دیے گئے ہیں۔ ریلوے ہمارے ملک میں انگریزوں کا چھوڑا ہوا بہت بڑا اثاثہ تھا‘اس نظام کو ہندوستان نے ترقی دی اور اب بھی زیادہ تر مسافر اور سامان کی ترسیل اسی ذریعے سے ہوتی ہے‘ بنگلہ دیش نے بھی ریلوے کو ترقی دی‘ پاکستان میں ریلوے کی آدھی لائنیں کباڑ میں بیچ دی گئیں اور جو باقی بچا تھا اس کو زنگ نے ختم کر دیا‘ ملک کے اندر ریلوے کے بہت سے حادثات ہو رہے ہیں۔

اس مہینے 20 افراد ہلاک اور بہت سے زخمی ہو گئے جب اکبر ایکسپریس صادق آباد کے اسٹیشن پر ایک مال گاڑی سے ٹکرا گئی‘ اسی طرح پچھلے مہینے مکلی شاہ اسٹیشن پر ایک مسافر ٹرین مال گاڑی سے ٹکرا گئی‘ جس میں تین افراد مارے گئے‘ ان حادثات کے بعد روٹین کی تحقیقات‘ چند تبدیلیاں اور بس۔ اطلاعات کے مطابق ریلوے کو شدید مالی مشکلات درپیش ہیں‘ تیل کی خریداری بھی مشکل ہو گئی ہے‘ حالات بہت خراب ہیں‘ ان حادثات اور خراب انتظامی صورتحال کی وجہ سے عام لوگوں کا اعتماد مجروح ہو رہا ہے۔

ماضی میں 7600 کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ریلوے کے ذریعے سے مغربی پاکستان کے بڑے شہر‘ قصبے اور دور دراز کے علاقے آپس میں منسلک تھے ‘ انگریز کے زمانے کے تربیت یافتہ انجینئر‘ افسر اور انتظامی عملہ بہت ہی بہتر طریقے سے پورے نظام کو چلا رہا تھا‘ سول انجینئر‘ سگنل‘ ٹریفک اور کمرشل کیڈر کے ساتھ ساتھ میکنیکل اور الیکٹریکل انجینئرنگ کا بہترین عملہ موجود تھا‘ مسافر اور سامان کی ترسیل ریلوے کے دو اہم ترین شعبے تھے ‘مال کی ترسیل کے ذریعے جو کمائی ہوتی تھی اس سے مسافروں کو رعایت دی جاتی تھی۔

ریلوے حکام کی غفلت نے مسافروں کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے‘ کراچی میں ٹرینوں کی آمد اور روانگی کو مقررہ اوقات میں لانے پر محکمہ ریلوے ناکام ہو گیا ہے‘ مسافر موجودہ حکومت اور وزیر ریلوے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ بہتری کے بجائے صورت حال دن بدن بدتر ہو رہی ہے‘ بدانتظامی کا خمیازہ مسافر بھگت رہے ہیں‘ لوگوں کا کہنا ہے کہ نئی گاڑیاں چلانے کے بجائے پہلے سے چلنے والی ٹرینوں کی کارکردگی بہتر بنائی جائے۔

میرا ایک رشتہ دار کراچی سے گاؤں آ رہا تھا ‘ اس نے سارا دن گاڑی کے انتظار میں کراچی اسٹیشن پر گزارا ‘ وہ بتا رہا تھا کہ اتوار 21 جولائی کو کراچی ایکسپریس8 گھنٹے‘ تیزگام 4 گھنٹے‘ ہزارہ ایکسپریس2 گھنٹے‘ شاہ حسین ایکسپریس5 گھنٹے‘ پاکستان ایکسپریس 3 گھنٹے اور پشاور سے آنے والی عوامی ایکسپریس 5 گھنٹے تاخیر سے کراچی پہنچیں‘ اسی طرح متعدد گاڑیاں 3 سے 7 گھنٹے تاخیر سے کراچی سے روانہ ہوئیں اور یہ اب روز کا معمول بن گیا ہے۔

ہر اسٹیشن پر عوام پریشانی کا شکار ہوتے ہیں لیکن ریلوے حکام ٹرینوں کو معمول پر لانے میں ناکام ہیں‘ جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے‘ مسافروں کو شکایت ہے کہ ریلوے کا عملہ بھی انھیں درست معلومات فراہم کرنے سے قاصر ہے ‘ انکوائری کا نمبر بھی نہیں ملتا۔

ایک اخباری اطلاع کے مطابق11 جولائی کو اکبر ایکسپریس کے حادثے کے بعد خراب سگنلز اور ٹریک کی وجہ سے ریلوے کے ڈرائیور اب تک چھ خطرناک حادثات کو بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں‘ ایک روز لاہور جانے والی خیبر میل کے ڈرائیور نے بڑی ہوشیاری سے ایمرجنسی بریک استعمال کر کے ایک بڑے حادثے کو بچایا‘ اس وقت نوشیرو فیروز سندھ کے محراب پور اسٹیشن کے لوپ لائن پر پہلے سے فرید ایکسپریس کھڑی تھی۔ اخبارات میں شایع خبروں کے مطابق ڈرائیوروں اور اسسٹنٹ ڈرائیوروں نے مطالبہ کیا تھا کہ نئی گاڑیاں چلانے سے قبل ریلوے لائن اور سگنلز کو ٹھیک کیا جائے ۔

پاکستان ٹرین ڈرائیور ایسوسی ایشن کے چیئرمین چوہدری شمس پرویز نے انگریزی معاصر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ریلوے کے حکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سسٹم کی ناکامی کے ذمے داروں اور ان لوگوں کو جو ریلوے کی بگڑتی ہوئے خراب لائنوں کے باوجود غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں‘ ان کو ایکسپوز کیا جائے‘حالانکہ ریلوے لائنوں کی دو سال میں لازمی مرمت کرنا ہوتی ہے ‘ریلوے کی یہ ایسوسی ایشن 2600 ڈرائیوروں کی نمایندگی کرتی ہے۔ جب سگنل کا سسٹم خراب ہو اور ریلوے لائن کی حالت بھی بدتر ہو تو ڈرائیور اپنے مسافروں کو کیسے بچا سکتے ہیں‘ ان حالات میں جب کہ ہر وقت حادثات کا خطرہ ہوتا ہے‘ تو بجائے خرابیاں دور کرنے کے حکمران نئی ٹرینیں چلا رہے ہیں‘یہ درست عمل نہیں۔

ہر شخص جانتا ہے کہ میانوالی ایکسپریس کا اجراء صرف وزیر اعظم کو خوش کرنے کی کوشش ہے ورنہ یہ لائن برسوں سے بند ہے کیونکہ مسافروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی‘ کیا مسافر ایسی گاڑی میں سفر کریں گے جو میانوالی سے لاہور پانچ گھنٹے میں پہنچتی ہے‘ جب کہ سڑک کے راست سفر دو گھنٹوں کا ہے۔ اب تو گاڑیوں میں چوہوں اور کھٹملوں کی بھرمار کی وجہ سے بھی لوگ سفر کرنے سے خوفزدہ ہیں‘ یہ تصویریں ٹی وی پر بھی دکھائی جا رہی ہیں۔

وزیر ریلوے کو معلوم ہونا چاہیے کہ ریلوے کے نظام کو چلانے کے لیے بنیادی ضروریات فراہم کرنا ضروری ہوتی ہیں‘ ان میں بہتر ریلوے اسٹیشن سب سے ضروری ہیں‘ ہمارے اسٹیشنوں کی حالت انتہائی خراب ہے‘ کھانا بھی خراب ہوتا ہے‘ بیٹھنے کے لیے انتظار گاہیں بدترین حالت میں ہیں‘ آرام اور اچھی خوراک کا تصور محال ہے‘ ایسے حالات میں مسافروں کا سوچنا بھی محال ہے۔ حالانکہ ریلوے دنیا بھر میں سفر کا بہترین ذریعہ جانا جاتا ہے‘ یورپی ممالک‘ چین اور جاپان اپنے ریلوے نظام کو بہتر بنانے میں اربوں ڈالر لگا رہے ہیں‘ اب تو تیز ترین ٹرینوں کا مقابلہ ہو رہا ہے ‘یہ زمینی ذریعہ سفر کم خرچ اور ماحول دوست ہے ‘چین کی طرف سے ریلوے کی بہتری کا منصوبہ ML1 کافی عرصے میں مکمل ہو گا‘ اس سے قبل موجودہ نظام ٹھیک کرنا ضروری ہے۔

سب سے اہم مسئلہ تو ریلوے کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے خواہش ہونی چاہیے‘ صرف بیانات سے مسئلہ حل ہونے کے بجائے اور بھی خراب ہوتا ہے‘ اس وقت بھی ریلوے کا خسارہ 24 ارب سے زیادہ ہے۔ ریلوے کی ملکیت میں ایک اندازے کے مطابق 166,000 ایکڑ اراضی ہے‘ موجودہ حکومت اس قیمتی اثاثے کو نیلام کرنے کا سوچ رہی ہے حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اس اراضی کا بہتر استعمال کر کے اس سے مالی فائدہ اٹھائے‘ یہ اراضیات ریلوے کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے مختص کی گئی تھی۔

The post ریلوے میں بہتری کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2MoXvaq
via IFTTT

حسن ظن ایکسپریس اردو

یاردوستوں کی رائے ہے کہ ہمارا روئے سخن ہمیشہ موجودہ ’’سلیکٹیڈ‘‘ حکومتی پالیسیوں پر تلخ یا تند و تیز ہوتاہے، ہمارے احباب کا خیال ہے کہ ہم’’سلیکٹیڈ‘‘حکومت کے لیے تھوڑا ’’حسن ظن‘‘ رکھیں اور موجودہ اسٹیبلشمنٹ زدہ حکومت کی کارگزاریوں کو بھی مثبت انداز سے دیکھنے کا ہنر جانیں۔ان کے خیال میں ’’حسن ظن‘‘ رکھنے سے ہمیں موجودہ سلیکٹیڈ حکومت کے شاید کچھ مثبت کام بھی نظر آجائیں،ہمارے احباب کی بات کسی طور غیر معقول بھی نہیں لگتی،مگر ہمارے ہاں کی اردو کا چلن ’’آنگن ٹیڑھا‘‘ کی مانند دن بدن ترقی کے زینے طے کررہا ہے، سو ہمارے لیے ’حسن ظن‘ نوجوان نسل تک پہنچانا ایک سوہان روح بن چکا ہے۔

ہم ابھی تک اس مخمصے میں گرفتار ہیں کہ ہماری اردو سے نا بلد نسل کے لیے ہم ’’حسن ظن‘‘ کی شروعات ’ظ ‘ سے کریں یا ’ز‘ ۔ لہذا بہتر ہے کہ ہم اردو کی املا کے گورکھ دھندوں میں پڑے بغیر موجودہ سلیکٹیڈ کی چند کارگزاریوں پر نظر ڈال لیں۔

ہم ایک سال قبل قطعی نہیں جانتے تھے کہ تحریک انصاف کے 126دن والے دھرنے سے ہمارے کپتان لندن کے بی بی سی والی کی محبت میں ایک نئے رشتے سے جڑ جائیں گے اور نہ ہی ہم اس سے باخبر نہ تھے کہ الیکشن سے قبل ہمارے کپتان کی زندگی پھر کروٹ) U TURN ( لے گی اور وہ خانقاہوں پر ماتھا ٹیکتے ملیں گے، ہم تو بڑے خوش تھے کہ دھرنوں کے دوران راگ رنگ کی محافل سجانے والوں کے طفیل کم از کم موسیقی، لے، سر اور تال سے محروم کردی گئی قوم میں لطیف جذبے جاگیں گے اور ہر سو ساز راگ اور سر تال کے نغمے ہوں گے جس سے زندگی میں موسیقیت روح تک جا کر کم از کم مذہبی ٹھیکیداروں کی چودھراہٹ ختم کرنے کا تو سبب بنے گی، مگر اس دم ہمارے جذبات پہ اوس پڑ گئی جب ہمارے کپتان حجاب کے اسیر ہوئے اور مدینہ کی ریاست کے خواب کی تعمیر میں مکمل طور پر حکم کے پتے مانند ہو گئے، گو حجاب کی ہر صورت معاشرے میں عزت و تکریم کا سبب ہوتی ہے۔

لہذا ہم نے بھی چپ سادھ لی کہ حسن زن کی نجانے اور کونسی اقسام سے پالا پڑے۔ ’سو جان بچی تو لاکھوں پائے کے‘ مصداق ہم نے دم سادھے خانقاہی کرامات کے جوہر دیکھنے پر ہی اکتفا کیا۔ اسی دوران ملک میں انتخابات کی گھن گرج ہوئی اور الیکشن کمیشن نے اپنے نظام کی خرابی کا عندیہ دے کر خانقاہوں پہ ماتھا ٹیکنے کی کرامات دکھانے کے لیے عوام کو نوید دی کی تحریک انصاف اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی ہے،گو تحریک انصاف وفاق اور پنجاب میں اپنی حکومت قائم کرنے کی پوزیشن میں نہیں، مگر حکومت کی باگ دوڑ ہر صورت جوڑ توڑ کرکے ’تحریک انصاف‘ ہی کو دلوانی ہے۔

خیر سے یہ مرحلہ بھی اپوزیشن پارٹی نے ’’ٹیکنیکل دھاندلی‘‘ کے الزام تحت متنازعہ کیا مگر خانقاہی کرامات نے آخر کار تحریک انصاف کی حکومت تبدیلی کے سہانے خواب کی آڑ میں ملک کے مقدر میں لکھ دی۔حکومت کے ابتدائی مرحلوں میں عوام سے کیے گئے بلند بانگ دعوؤں کی تکمیل کا سوال آیا تو ہمارے خانقاہی وزیراعظم نے تاریخی اصطلاح U TURN کی فلاسفی عوام کو سمجھائی کہ ’’ہر وعدہ تکمیل کے لیے نہیں ہوتا اور بڑا لیڈر اپنے فیصلوں پرکسی بھی وقت U TURN لے سکتا ہے کہ یہی ایک عظیم لیڈر کی پہچان اور اعلی صلاحیت ہے‘‘بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ ہٹلر بیوقوف شخص تھا کہ جس نے جرمنی کی شکست کو قبول کر لیا مگر U TURNکا سہارا نہ لیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہٹلر ایسا عظیم رہنما آج تک تاریخ میں راندہ درگاہ ہے، ہمارے ادب اور صحافت کے ساتھی سے جب گفتگو میں مذکورہ بات کا ذکر ہوا تو انھوں نے اپنے خاص پنجابی لہجے میں ہمیں سمجھایا کہ ’’ایویں ئی بوگیاں مار دا اے، تسی سنجیدہ نہ لو اس نوں‘‘ ہم بونگی مارنے پر بھونچکا سے صرف انھیں تکتے ہی رہے۔

ملکی عوام کو اس پورے عرصے میں تحریک انصاف کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج نے ’’احتساب اور کرپشن‘‘ کی ایسی ہوشربا داستانیں سنائیں کہ اب عوام ان پر بھی کان دھرنے پر تیار نظر نہیں آتے، بلکہ ہمارے خانقاہی کرامات کے صلے میں بننے والے وزیراعظم جب سعودی عرب، چین، ملائیشیا، دبئی، قطر، اور حتی کے امریکا گئے تو وہاں بھی بگڑتی ہوئی ملکی معاشی صورتحال کا ذمے دار ملک میں سابقہ حکمرانوں کی بد عنوانیوں کو ٹہرایا اور اس کی بالکل پرواہ نہ کی کہ عالمی دنیا میں بطور وزیراعظم ان کا امیج کیا بن رہا ہے، یا کون سے ملک کے سرمایہ دار ایک کرپٹ ملک میں سرمایہ لگائیں گے جہاں کے سربراہ کسی بھی وقت U TURN کا سہارا لے کر بیرونی سرمائے کو ضبط کر لیں، کہ دنیا عالمی عدالت سے ریکوڈک معاہدے پر جرمانے کی سزا کا فیصلہ دیکھ چکی تھی۔

ملکی عوام کو انصاف اور برابری کا درس دینے والے خانقاہی وزیراعظم اور ان کے رفقا نے پہلے احتساب کا ایسا نعرہ لگایا کہ عوام احتساب کو ایک ریاستی گالی کے سواکچھ نہ سمجھ پائی،جب عوام نے دیکھا کہ حکومتی صفوں میں بیٹھے بابر اعوان اور اطلاعات کی زن وزیر کے احتساب کے کیسز کو ’’نیب‘‘ نے صرف اس وجہ سے خارج یا دبا دیا کہ دونوں موصوف ریاست مدینہ کے متوقع والی کے نمک خوار بھونپو ہیں۔

اسی طرح حکومت میں وزیر با عصمت بنائے جانے والے علیم خان،پرویز خٹک پر متعدد بدعنوانی کے کیسسز ابھی موجود ہیں مگر ان کیسز کو چلانے کی رفتار کچھوے کی مانند کر دی گئی ہے جب کہ اپوزیشن اور خاص طور مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے ہر اس فرد کو نیب احتساب عدالتوں کے چکر لگوا رہی ہے،جس پر ذرا سا بھی شائبہ ہے،ریاست مدینہ میں انصاف کا بول بالا ایسا ہے کہ ابھی چند دنوں پہلے سابق وزیر اعظم کے مشیر اور صحافی عرفان صدیقی کو ایک بے سروپا الزام میں ’’ہتھکڑی‘‘ لگا کر رسوا کیا اور جیل یاترا کروائی،موصوف چونکہ درس و تدریس کے استاد بھی رہ چکے ہیں سو ریاست کے والی نے سبکی ہونے کے پیش نظر عدالت کے حکم پر لات مار کر عدالتی چھٹی والے روز عرفان صدیقی کو رہا کروا دیا،اسی طرح ریاست مدینہ کے جھوٹ کی پول کھولنے میں منہ کھولنے کی سزا نون لیگ کے رانا ثنا اللہ کو یہ دی گئی کہ ان پر منشیات اسمگلنگ کا کیس بنا دیا جس کا چالان عدالتی تاریخ پر مذکورہ محکمہ جب نہ دے سکا تو عدالتی جج نے قانوں کے تحت عدالتی کارروائی روک کر چالان کا تقاضا کیا،جس کے نتیجے میں مذکورہ جج کا تبادلہ وزارت قانون نے فوری کرنا مناسب سمجھا کہ کہیں حقائق منظر عام پر نہ آجائیں۔

ریاست مدینہ میں اظہار رائے کی صورتحال ہی عجیب و غریب بنا دی گئی ہے،ہر وہ اخبار یا چینل جو کہ سب کا نکتہ نظر دے رہا ہے یا تو وہ چینل بند کر دیا جاتا ہے یا پھر کیبل مافیا کے غلام مالکان سے کہہ کر اسے ایسے نمبر پر پھینک دیا جاتا ہے کہ عوام کی رسائی اس چینل پر آسانی سے نہ ہوسکے،دوسری جانب غیر منتخب اور میڈیا پر پابندیوں کی ذمے دار وزارت کی ’’زن وزیر اطلاعات‘‘ایسے طمطراق سے کراچی پریس کلب بلائی جاتی ہیں کہ چشم زدن میں وزیر موصوف تمام بیروزگار صحافیوں کی ادائیگیاں کر وادیں گی یا میڈیا کی آزادی کا اعلان تاریخی طور پر جمہوری روایات کے پریس کلب سے کریں گی۔۔مگر ڈھاک کے تین پات۔۔ کے مصداق انھوں نے کراچی پریس کلب کی جمہوری تاریخ کو بڑی شان سے لتاڑا اور صحافیوں کی رال ٹپکاتی تنظیموں سے رائے یا مشورہ تو درکنار انھیں بھنک بھی نہیں پڑنے دی کہ وہ اگلے روز صحافتی آزادی کا مزید گلاگھونٹنے کا منصوبہ ’’میڈیا کورٹس‘‘ کی شکل میں سب کے سامنے لائیں گی، شکر ہے صحافیوں کے سواد اعظم نے میڈیا کورٹس کو مسترد کردیا۔ ہمیں کراچی پریس کلب اور صحافتی تنظیموں سے ہمدردی ہے کہ وہ غیر سیاسی تربیت کی بنا بہت جلدی افراد پر اعتبار کر لیتے ہیں۔

The post حسن ظن appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2SYHJnV
via IFTTT

پاکستان ریلوے کا وجود ناگزیر ایکسپریس اردو

پاکستان ریلوے میں ناگہانی حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے ادارے کے ملازمین کے جسمانی، دماغی اور طبی سمیت جملہ ٹیسٹ کروانے اور تمام ڈرائیوروں کی کارکردگی جانچنے کے لیے مانیٹرنگ کیمرے نصب کرنے کی سفارش کی ہے تاکہ ڈرائیور اور معاون ڈرائیورکو مانیٹرکیا جاسکے۔ جہاں انٹرنیٹ سہولیات ہیں وہاں براہ راست کوریج ہوگی جب کہ دور دراز علاقوں کی ریکارڈنگ محفوظ کی جائے گی۔

سینیٹر مرزا محمد آفریدی نے بتایا کہ اکثر حادثات میں سامنے آیا ہے کہ ڈرائیور سوگیا تھا۔ جب بسوں میں کیمرے لگ سکتے ہیں تو ٹرینوں میں کیوں نہیں لگ سکتے؟ ڈرائیوروں کو لازمی آرام کرنے کی پابندی پر بھی سختی سے عملدرآمد کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ کمیٹی نے حالیہ حادثے پر وزارت ریلوے سے ڈرائیور اور اسٹیشن ماسٹرکی میڈیکل ٹیسٹ رپورٹ بھی طلب کرلی ہیں تاکہ نشے کے استعمال کا پتہ بھی چلایا جاسکے۔

مکمل فٹنس، مضبوط اعصاب، بیداریٔ مغز، قوت فیصلہ اور کسی ممکنہ خطرے سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت ٹرین ڈرائیور کے پیشے کی بنیادی ضروریات ہیں، ان میں سے کسی ایک صلاحیت کی کمی بھی حادثات کے امکانات بڑھا دیتی ہے۔ دوران سفر ایک ڈرائیور کے ہاتھ میں ہزاروں زندگیاں اور اربوں کی املاک ہوتی ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پیش کردہ سفارشات کی روشنی میں ہمیں جنوری 1990ء میں سانگی میں پیش آنیوالا ٹرین حادثہ یاد آگیا۔

جب ہم راولپنڈی سے کراچی کے لیے تیزگام میں سوار ہوئے اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر سانگی ٹرین حادثے سے متعلق چھپی تھی جسے مجھ سمیت دیگر مسافروں نے ایک عمومی سی خبر گردانتے ہوئے کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ ٹرین روانہ ہوئی اور آہستہ آہستہ لیٹ ہوتی گئی ہر اسٹیشن پر حادثے سے متعلق خبریں اور تفصیلات موصول ہوتی رہیں یہاں تک کہ سندھ کے مختلف اسٹیشنوں پر رکتے رکاتے بالآخر گھوٹکی پر ٹرین نے مستقل ڈیرہ ڈال دیا۔

مسافروں کے کھانے پینے کی اشیا ختم ہوچکی تھیں۔ ڈائننگ کار میں بھی کچھ موجود نہیں تھا۔ حتیٰ کہ شیر خوار بچوں کا دودھ تک ختم ہوچکا تھا۔ کچھ خدا ترس لوگ بچوں کے لیے دودھ لے کر،کچھ اچارکے ٹین اور ہاتھوں میں روٹیاں تھامے لوگوں کو روٹی پر اچار رکھ کر کھانے کے لیے دے رہے تھے۔اس دوران ریلوے انتظامیہ کا کوئی کردار نظر نہیں آرہا تھا نہ کوئی کوآرڈینیشن تھا نہ کوئی انفارمیشن کا سلسلہ صرف افواہیں، قیاس آرائیاں اور رائے زنی کی فضا قائم تھی کسی کوکچھ پتہ نہیں تھا کہ کیا ہوا اور کیا ہونے جا رہا ہے۔

ذکریا ایکسپریس کے اس حادثے میں 700 کے قریب مسافر اپنی جانیں گنوا بیٹھے تھے ہزاروں زخمی تھے۔ حادثے کا شکار ٹرینوں کو دیکھ کر وحشت ہو رہی تھی تمام ریلوے نظام جام ہو چکا تھا۔ ریلوے ٹریک پر کئی گاڑیاں آگے پیچھے اور برابر برابر کھڑی ہوئی تھیں۔ ان کے ڈرائیور ریلوے لائنوں پر بیٹھے آپس میں بات چیت کر رہے تھے کچھ مسافر بھی ان کی گفتگو میں شریک تھے۔

ڈرائیور حضرات اپنی پریشانیاں اور مسائل بیان کر رہے تھے جو واقعی غور اور اصلاح طلب تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان سے لمبی لمبی ڈیوٹیاں لی جاتی ہیں ٹرین لیٹ ہوجائے تو ذمے داری ڈرائیوروں پر ڈال دی جاتی ہے۔ ٹرین کا گارڈ بار بار ہارن بجانے کے باوجود ہری جھنڈی نہیں ہلاتا، سامان لوڈ کروانے کے چکر میں رہتا ہے۔ ٹرین کی تاخیر کو اس کی رفتار بڑھا کرکورکرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ پٹریاں اس قابل نہیں ہوتیں کہ ان پر زیادہ تیز رفتاری سے چلا جائے۔ اگرکوئی حادثہ رونما ہوجائے تو ریلوے کے مختلف شعبہ جات کے سربراہان اپنی اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے آسان راستہ یہ اختیار کرتے ہیں کہ ساری ذمے داری ڈرائیور پر ڈال دی جائے جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ہے۔

اگر کوئی واردات ہوجائے تو پولیس اہلکار سیٹوں کے نیچے چھپ کر اپنی جانیں بچانے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ ہم نے ڈرائیور سے دریافت کیا کہ آپ کی ٹرین میں وائرلیس یا کمیونی کیشن کا نظام تو ہوگا جس سے آپ اپنے کنٹرول روم یا آپریشن روم سے رابطے میں رہتے ہوں گے تو ہم پر پہلی بار اس بات کا انکشاف ہوا کہ ٹرین میں ایسا کوئی نظام نہیں ہوتا وہ صرف اللہ کے آسرے، سگنل کی بتی اورکیبن سے ہلائی جانیوالی لائٹوں کے اشارے پر اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔

ہم نے ڈرائیور سے سوال کیا کہ اگر آپ کی ٹرین درمیان میں خراب ہوجائے تو آپ کیسے رابطہ کرتے ہیں کیونکہ غلطی سے اس لائن پر دوسری ٹرین بھی آسکتی ہے تو اس نے بتایا کہ ریلوے انتظامیہ انھیں پٹاخے فراہم کرتا ہے اگر ٹرین خراب ہوجائے تو وہ دوڑتے ہوئے جاتے ہیں اور چند فرلانگ کے فاصلے پر ریلوے لائن پر ایک پٹاخہ باندھ دیتے ہیں پھر کچھ فاصلے پر دوسرا اور اسی طرح تیسرا پٹاخہ بھی باندھ دیا جاتا ہے تاکہ غلطی سے کوئی ٹرین آجائے تو پہلا پٹاخہ بجنے سے ڈرائیور خبردار ہوجائے گا کہ آگے کوئی بریک ڈاؤن ہے اس طرح دوسرا اور تیسرا پٹاخہ اسے مزید خبردار کردے گا تاکہ وہ ٹرین روک لے۔ جو ڈرائیور حضرات مسافروں سے بات چیت کر رہے تھے ان کی صحت کا معیار بھی اچھا نظر نہیں آ رہا تھا۔ ہم سب حیران و پریشان تھے کہ جدید سائنسی ترقی کے اس دور میں ہماری ٹرینوں میں کمیونی کیشن کا کوئی نظام ہے نہ ڈرائیوروں کی صحت اس کی دیکھ بھال اور جانچ پڑتال کا عملی نظام ہے۔

2012ء میں تو پاکستان ریلوے حکام کی نااہلیوں، بدعنوانیوں اور بداعمالیوں کی وجہ سے اس نہج پر پہنچ چکی تھی کہ رقم کی عدم ادائیگیوں پر اسے PSO نے تیل کی ترسیل بند کردی تھی۔ تیل، انجن اور اسپیئر پارٹس نہ ہونے کی وجہ سے ٹرینیں راستوں میں رکنے لگی تھیں۔ مختلف ٹرینوں کو ایک انجن سے چلایا جا رہا تھا ٹرینیں منسوخ کی جا رہی تھیں گھنٹوں کی تاخیر دنوں پر محیط ہوگئی تھی ٹرین روٹس بند کیے جا رہے تھے جس پر نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے ان کی بندش رکوا دی۔ ملازمین کی تنخواہ اور پنشن تک کے لیے رقم نہیں تھی۔ مسافر پلیٹ فارموں پر سراپا احتجاج اور توڑ پھوڑ پر مجبور تھے۔ یونینز انتظامیہ پر کرپشن کے سنگین الزامات اور ان کی نشاندہی کر رہی تھیں۔ وزیر ریلوے کی ذمے داری کا یہ عالم تھا کہ فرما رہے تھے کہ یہی حالت رہی تو انشا اللہ ریلوے بند ہوجائے گی۔ موصوف کا کہنا تھا کہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں ریلوے نظام نہیں ہے۔ وہاں بھی تو لوگ سفرکرتے ہیں۔

وزیر موصوف کے اس بیان اور سوچ پر سر پیٹنے کو جی چاہتا تھا۔ ریلوے جس سے روزانہ لاکھوں اور سالانہ کروڑوں افراد سفر کرتے ہیں جس سے سالانہ 6 ملین ٹن سے زائد سامان کی ترسیل ہوتی ہے، جس سے صرف مسافروں سے کرایہ کی مد میں 35 ملین روپے سالانہ کی آمدن ہوتی ہے سب سے بڑھ کر اس کی ایک دفاعی نوعیت بھی ہے کیا اس کا متبادل کوئی ٹرانسپورٹ نظام ہوسکتا ہے؟

بلاشبہ سابقہ وزیر ریلوے سعد رفیق کے دور میں ریلوے کی حالت میں کافی بہتری آئی نئی ٹرینوں کا اجرا ہوا، کئی مرتبہ کرایوں میں کمی اور سہولیات میں اضافہ کیا گیا۔ خسارے کو کنٹرول کرکے ریلوے کو رواں دواں کر دیا گیا مگر موجودہ وزیر ریلوے کے آتے ہی اکھاڑ پچھاڑ شروع کردی گئی۔ اجلاسوں میں افسران کی کردار کشی اور تذلیل کی گئی کچھ کو جبری رخصت پر بھیجنے اور کچھ کی طویل رخصت اور ریٹائرمنٹ کی خبریں آتی رہی ہیں جس سے ادارے کی کارکردگی پھر رو بہ زوال ہے۔ ان کے دور میں 40 سے زائد حادثات میں قیمتی جانوں کے علاوہ اربوں کی املاک بھی ضایع ہوئی۔

ادارہ اس وقت مستحکم ہو سکتا ہے جب اس میں اہل و دیانت دار افسران کی رائے کو اہمیت دی جائے۔ ادارے کے مسائل کو سمجھنے والے اہل، مخلص اور دیانت دار شخص کو بغیر کسی مداخلت کے اپنے فرائض سرانجام دینے کے لیے تعینات کیا جائے جو اپنی صلاحیت و قابلیت کے ذریعے ادارے کے نظام کو جدید تقاضوں سے ہم کنار کرکے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرکے پاکستان ریلوے سے براہ راست لاکھوں افراد کا معاشی مفاد و مستقبل اور کروڑوں کا سفری مفاد وابستہ ہے یہ دفاعی اہمیت کا بھی حامل ہے جس کا متبادل کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہو سکتا ہے۔

کراچی سرکلر ریلوے کی مثال ہمارے سامنے ہے جسے کئی عشرے قبل غیر ضروری اور غیر منافع بخش قرار دے کر ختم کردیا گیا تھا لیکن آج اس کی بحالی کے لیے بیرونی ممالک سے قرضہ اور امداد لے کر دوبارہ شروع کرنے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔

The post پاکستان ریلوے کا وجود ناگزیر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2YBnIsI
via IFTTT

ٹرین، بھوت اورکتاب ایکسپریس اردو

رات تاریک تھی۔ ریل کے ڈبے میں دو ہی مسافر تھے۔ خاموش، منتظر کہ کوئی ایک گفتگو کا آغازکرے۔آخر ایک شخص کھنکارکر اپنا گلا صاف کرتا ہے، سامنے والے سے پوچھتا ہے ’’جناب کیا آپ بھوتوں پر یقین رکھتے ہیں؟‘‘

دوسرا شخص اطمینان سے جواب دیتا ہے ’’ نہیں‘‘ اور اگلے ہی پل غائب ہو جاتا ہے۔

اگر زندگی کے کسی موڑ پر ملنے والا کوئی شخص اِس طرح ، اچانک ، جدا ہو جائے تو آپ مرتے دم تک اسے نہیں بھولیں گے، لیکن ایسا خال خال ہی ہوتا ہے کہ ملاقاتی آپ کے ذہن پے نہ مٹنے والے نقوش چھوڑ جائے۔ عام طور پر ملاقاتیں، عام سی ہوتی ہیں۔ لوگ تقریبات میں ملتے ہیں، گپ شپ کرتے ہیں، فون پر طویل مکالمہ ہوتا ہے اور پھر وہ، کچھ عرصے بعد،ایک دوسرے کو بھول جاتے ہیں۔ بھول جاتے ہیں کہ وہ کس تقریب میں ملے تھے، کس موضوع پر انھوں نے گپ شپ کی، مکالمے کا موضوع کیا تھا اور یہ قابل فہم ہے۔

عام زندگی میں ، عام ملاقاتوں میں کبھی کوئی شخص یوں پراسرار، چونکا دینے والے انداز میں غائب نہیں ہوتا ۔ ہاں، اگر وہ شخص صاحب کتاب ہو، ایک لکھاری، ایک تخلیق کار ہو، تو اس کے پاس ایک ایسا ذریعہ بہ ہرحال ہوتا ہے ہے ، جس سے وہ اپنی یاد آپ کے ذہن کے محفوظ ترین گوشے میں پہنچا دے۔ اور ایسا وہ اپنی کتاب کے وسیلے سے کرتا ہے۔

جی، کتاب کے وسیلے۔ جب آپ اسے بھول بھی جاتے ہیں، تب بھی وہ کہیں نہ کہیں موجود ہوتا ہے،آپ کے شیلف میں، آپ کے بستر کے سرہانے،گھر میں کہیں بہت سی کتابوں کے نیچے دبا ہوا یا پھر اس ڈبے میں بند ، جسے آپ نے ایک سے دوسرے مکان میں منتقل ہونے کے بعد تاحال نہیں کھولا۔ تو وہ موجود رہتا ہے، آپ کے پاس۔ خاموش۔ انتظار کرتا ہوا۔ ٹھیک ویسے ہی، جیسے آدم شیر میرے ساتھ موجود ہے، اپنی کتاب’’اک چپ سو دکھ‘‘ کے وسیلے سے ۔ ایک ایسی کتاب جسے پڑھ کے ہمیں یہ ادراک ہوتا ہے کہ اس کا لکھنے والا تلخی حیات کا ترجمان ہے۔

ایک سچا، کھرا صحافی ہے ۔ وہ صحافی ، جس کی زبان پرگرفت متاثرکن ہے، فکشن لکھنے کے لیے موزوں۔ کہانی سے انصاف کرنے کو تیار۔ اور پھر اس کے پاس ایک حساس دل ہے، جو اوروں کا کرب، اوروں کی تکالیف یوں محسوس کرتا ہے، جسے وہ اس کی اپنی تکلیف ہو۔ اوروں کے المیوں سے اس کا قلم خوب انصاف کرتا ہے، بالخصوص جب موضوع معصوم بچے ہوں۔

بیماری، ہراسگی، زیادتی جیسے سانحوں کے آس پاس منڈلاتے معصوم بچے۔ آدم کے دل میں بھی ایک بچہ چلتا پھرتا ہے، جسے وہ ایک فکشن نگارکی نگاہ سے دیکھ سکتا ہے، اسے لکھ سکتا ہے۔ اس کے فکشن میں حساسیت کے ساتھ ساتھ ہمارا سامنا یاسیت سے بھی ہوتا ہے، جو اگرچہ قاری کے لیے دل پذیر نہیں، مگر بہ ہرحال زندگی کا حصہ ہے۔ اچھا، اسی ٹرین میں ہم ایک اور افسانہ نگار سے ملتے ہیں، جس کا نام ہے، ظفر عمران۔ قلم اس کا رواں۔ انداز میں شوخی اور شرارت ۔زندگی کا تجربہ بھی، اور مشاہدہ بھی۔

’ آئینہ نما‘ کی صورت عمران اپنا فن ہمارے سامنے لاتا ہے۔ اس کے پاس سنانے کو کہانیاں ہیں، ان کرداروں کی کہانیاں، جنھیں اس نے اپنے ارد گرد شناخت کیا، جن سے وہ ملا، جن کے ساتھ جیا، جن کے ساتھ سفر کیے۔ اور اُن حقیقی کرداروں کی افسانوی کہانی ہمارے سامنے آتی ہے۔ جمی ہوئی زبان میں، جہاں املا کی صحت کا خاص خیال رکھا گیا۔ اتنا کہ کبھی کبھی پڑھنے والے کو کھلنے لگتا ہے ۔جنس اس کے بیش تر افسانوں کا موضوع ہے، عورت بیش تر افسانوں کا کردار۔ یوںجنس اور عورت کے وسیلہ وہ پہلے ہی مرحلے میں اپنی توجہ ہماری جانب مبذول کرا لیتا ہے۔ افسانوں کے عنوانات توجہ مہمیز کرتے ہیں۔

اسکرپٹ رائٹنگ میں ہمارے دوست کی خوب گرفت۔ ان افسانوں میں بھی اسکرپٹ رائٹنگ کا ڈھب کار فرما۔ تکنیک کے بھی تجربات ملتے ہیں، جو چند افسانوں کی اہمیت کو دو چندکر دیتے ہیں۔ ہاں، ان افسانوں کو پڑھتے ہوئے یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آخر بار بار افسانہ نگار (ظفر عمران کی صورت) ہمارے سامنے کیوں آ جاتا ہے؟ بہ ظاہر اس میں کوئی خامی نہیں، لیکن یہ چیز قارئین کو متوجہ ضرورکرتی ہے۔

قصہ مختصر، جنس ،عورت اور مصنف ایک تکون بناتے ہیں، جس کی چوتھی جہت دل چسپ کہانیاں ہیں، جن کی رفتار تیز ہے۔ یہ پیپر بیک کتاب بڑی دل کش ہے۔ بھلی لگتی ہے۔ٹرین آگے بڑھ رہی ہے، ایک کے بعد دوسرا اسٹیشن، دوسرے کے بعد تیسرا۔ شام اتر آتی ہے،آسمان پر تارے ہیں اور پھر ڈبے میں ایک ایسا فکشن نگار داخل ہوتا ہے، جس کے ماتھے پر دانائی کی چمک ہے۔ یہ کراچی کا باسی ہے، جس کا نام ارشد رضوی ہے۔یہ کئی برس پہلے کی بات ہے، کراچی پریس کلب میں ہونے والی ایک تقریب میں، جناب زیب اذکار حسین صاحب نے راقم کو افسانہ پڑھنے کی دعوت دی۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب افسانہ نگاری شروع کیے تین چار برس ہوئے تھے، ترقی پسند رنگ غالب تھا۔ اس روز اے خیام کی صدارت تھی۔ تقریب میں پہنچے، دھڑکتے دل کے ساتھ افسانہ سنایا۔

پھر ہم نے دیگر کو سنا۔ ان ہی لکھنے والوں میں، پڑھنے والوں میں ڈاکٹر ارشدرضوی بھی موجود تھے۔ ان کے افسانے میں ایسا رنگ تھا، جو پوری مجلس پر چھاگیا۔ سننے والوں کو انھوں نے گرویدہ بنا لیا۔ تجریدی افسانے لکھنے والے اس شخص سے یہ میرا پہلا تعارف تھا، اور متاثر کن تھا۔ بعدازاں روزنامہ ایکسپریس کے لیے ان کا ایک انٹرویوکیا، جس میں ان کے افسانے اور ان کی شخصیت کے درمیان ایک ربط دریافت ہوا۔ ایک اداس ربط۔ افسانے میں دانش کی جھلک شرط تو نہیں ہیں، مگر اس کی موجودگی فکشن کو ایک نئی جہت ضرورت عطا کرتی ہے، یہ حقیقت ڈاکٹر ارشد رضوی کی تازہ کتاب ’’ بے ترتیب کہانیاں‘‘ میں بھی دکھائی دیتی ہے۔

یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ آج کراچی میں اخلاق احمد ، اجمل اعجاز، محمد امین الدین اور جناب ارشد رضوی جیسے افسانہ نگار موجود۔ رفاقت حیات اور سید کاشف رضا بھی اپنے ناولزکے ساتھ ہمیں میسر۔اسد محمد خان، ڈاکٹر حسن منظر، زاہدہ حنا اور اے خیام جیسے ناموں کی فہرست تو معتبر ٹھہری، اگر ارشد رضوی اسی ڈھب پر مسلسل لکھتے رہے، تو وہ ان بزرگوں اور نئی نسل کے درمیان پل کا کا کردار دار ادا کر سکتے ہیں۔صاحب، آج کا سفر تمام ہوا۔آج کی کہانی اختتام کو پہنچی۔ پھر ملیں گے،کسی ریل کے ڈبے میں، ایک اجنبی سے، جو صاحب کتاب ہوگا اور یوں ایک مختصر سی ملاقات بھی اپنے اختتام کے بعد۔۔۔ جاری رہے۔

The post ٹرین، بھوت اورکتاب appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ytWOo8
via IFTTT

سورائسس (PSORISIS) ایکسپریس اردو

انسانی جسم کو اس کی ساخت دینے میں ہماری جلد اہم کردار ادا کرتی ہے۔ انسانی جلد تین تہوں پر مشتمل ہوتی ہے اور سب سے بیرونی تہہ غیر معمولی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔

ہماری جلد (Skin) بہت سی چیزوں سے مل کر بنتی ہے جن میں پانی، پروٹین اور معدنیات وغیرہ شامل ہیں۔ ہم اپنے آپ کو دوسروں کی نظر میں خوبصورت بنانے کے لیے اپنی جلد کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ناقص غذا اور آلودہ پانی بہت سے جلدی امراض کا باعث بنتے ہیں۔ انہی جلدی امراض میں سے ایک مرض سورائسس (Psorisis) ہے۔ اسے مقامی طور پر ’چنبل‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مرض صدیوں پرانا ہے۔

حالیہ دور میں ناقص غذا اور آلودہ پانی اس کی بنیادی وجوہات میں شامل ہیں۔ یہ مرض جسم کے ایک حصے سے شروع ہوکر پورے جسم کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ یہ جلد کی عام بیماری ہے جو جلد کے خلیات (Cells) کی زندگی کو کم کردیتی ہے جس کے باعث جلد پر بڑھاپے کی علامات تیزی سے نمودار ہونے لگتی ہیں یعنی جلد کے خلیے اپنی معمول کی عمر پوری ہونے سے پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اس بیماری میں جلد کا چھوٹا سا حصہ سفید سرخی مائل رنگ کا ہو جاتا ہے۔اس جگہ پر شدید خارج ہوتی ہے اور سردیوں میں یہ خارش انتہائی اذیت ناک صورت اختیار کر جاتی ہے۔ جلد پر بنے ان دھبوں کو خارش کرنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ زیادہ کھجانے سے یہ مزید پھیلتے ہیں۔

جسم کے جس حصے پر دائرہ نما نشان بن جائیں وہاں سورائسس (چنبل) پھیلتی ہے اور اپنی جڑیں اور مضبوط کرتی ہے۔

’’علاج کا اولین مقصد جلدی خلیات کی تیز نشوونما کو سُست کرنا ہے‘‘

یہ ایک عام دائمی بیماری ہے جو جلد پر نمایاں ہوتی ہے۔ بیماری کی شدت میں متاثرہ جگہوں پر سکیلز بن بن کر جھڑتے رہتے ہیں۔ گرمی کے موسم میں سورائسس کی شدت میں کمی ہوتی ہے کیونکہ گرمی میں جلد خشک نہیں ہوتی اس کے برعکس موسم سرما میں خشکی کے باعث اس مرض کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔

سورائسس کی علامات:۔

(1یہ داغ جسم پر ایک چھوٹے دانے کی صورت میں ابھرتے ہیں جو مزید خارش کرنے کے باعث بڑے داغوں اور سفید سرخی مائل زخموں اور جھالوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔

(2 جلد پر سرخ دھبے جن پر رطوبتی (Secreation of Pus) مادہ جم کر سفید چھلکے بنتے اور اترتے ہیں۔

(3 جلد کا خشک ہونا، دراڑیں پڑنا اور کھجانے سے زخموں میں سے خون کا رسنا۔

(4 خارش، جلن اور زخم بننا

(5 جوڑوں کی سختی اور سوجن

(6 ناخنوں میں درد اور ٹوٹ پھوٹ،  بے رنگ ہو کر پیلے پڑجانا۔

چنبل (سورائسس) جسم کے کسی بھی حصے پر نمودار ہوسکتا ہے، جیسے ہاتھ، پاؤں، گردن، کان کے پیچھے، سر اور منہ پر، یہاں تک کے پورے جسم پر۔

مرض کی وجوہات:۔

عام طور پر سورائسس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔

o… حیاتیات، جنسی (Human Genetics)  وراثتی

o… مدافعتی نظام (Immune System)

وراثتی (Gentical Disease)

عام طور پر چنبل کو ایسی بیماری سمجھا جاتا ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی ہے۔

مدافعتی نظام

مدافعتی نظام میں خرابی کے باعث بھی یہ بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔ سائنس تاحال اسبیماری کو پوری طرح نہیں سمجھ سکی لیکن طبی ماہرین کا ماننا ہے کہ اس بیماری کا تعلق مدافعتی نظام کے ٹی سیلز اور سفید سیلز کی قسم نیوٹرو فلز Neuterphylls کے ساتھ ہے۔ ٹی سیلز جسم میں داخل ہونے والے نقصان دہ بیکٹریا اور وائرس سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے رواں دواں رہتے ہیں۔اگر کسی کو یہ بیماری لاحق ہو تو اُس کے جسم کت ٹی سیلز غلط فہمی میں اپنی ہی جلد کے صحت مند خلیوں پر ’نقصان دہ خلیے سمجھ کر‘ حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ اور جیسے کسی انفیکشن کو ختم کرنے یا زخم کو بھرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے جلدی جلدی انہیں تباہ کرنے لگتے ہیں۔  لہٰذا ضروری ہے کہ مدافعتی نظام درست طریقے سے کام کرے کیونکہ یہ بیٹکیریل اور وائرل انفیکشن سے بچاؤ کرتا ہے۔

یہ ایک ایسی دائمی بیماری ہے جو متعدی مرض نہیں یعنی ایک سے دوسرے کو منتقل نہیں ہوتا۔

سورائسس کی مختلف اقسام

o… پلاک سورائس (Plaque Psorisis) سب سے عام قسم ہے۔ اس میں جلد خشک، سرخ اور کھردری ہوجاتی ہے جس سے رطوبت (Secreation) کا اخراج ہوکر جلد پر جمتا ہے اور چھلکے بن کر اترتے ہیں۔ اس سے جو دھبے جلد پر نمایاں ہوتے ہیں ان دھبوں میں خارش اوردرد محسوس ہوتا ہے۔

o…ناخن سورائس (Nail Psorisis) اس قسم کی سورائس میں ہاتھ اور پاؤں کے ناخن بدنما، بے رنگ، پیلے، کھردرے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اکثر اوقات مرض کی شدت بڑھنے سے ناخن ٹوٹنے لگتے ہیں جو شدید درد کا باعث بنتے ہیں۔ اس قسم کا سورائسس مردوں کی نسبت عورتوں میں زیادہ ہے۔ اس کے باعث ناخنوں تک خون کی رسائی میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے اور ناخنوں کی جڑیں کمزور ہوجاتی ہیں۔

o… سر کا سورائسس (Head/Scalpprosisis)

اس میں سورائسس سر کے کسی مخصوص حصے یا پھر پورے سر میں ہوتی ہے۔ عام طور پر یہ سرخ رنگ کی ہوتی ہے جس کو چھلکوں نے گھیرا ہوتا ہے۔ کچھ لوگوں میں یہ خطرناک حد تک پہنچ جاتی ہے جس کی وجہ سے سر کے بال تک گر جاتے ہیں۔

o… جوڑوں کا درد (Joint Psorisis)

بظاہر سورائسس جلد پر نظر آتی ہے لیکن اس کا اثر سیدھا جوڑوں پر پڑتا ہے۔ ہاتھوں اور پاؤں کے جوڑ، انگلیوں کے جوڑ، کہنیوں اور پاؤں کے ٹخنوں پر بہت بری طرح سے اثر انداز ہوتی ہے۔ اسے اکروپسٹولوس سورائسس بھی کہا جاتا ہے۔

سورائسس (چنبل) کا علاج وقت پر کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ ایک ایسی دائمی بیماری ہے جس سے اور کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں جن میں موٹاپا، ہائی بلڈ پریشر، گردوں کی خرابی جگر میں گرمی، دل کی بیماریاں اور جوڑوں کا کھچاؤ شامل ہے۔

احتیاطی تدابیر:۔

چنبل(سورائسس) کے مریض کو اپنے جسم اور جلد کی صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہیے جلد کو ملائم رکھنا بہت ضروری ہے۔

o… خشک صابن سے گریز کریں۔

o… ویزلین (Vaselline) کا دن میں 2 سے 3 بار استعمال کریں۔

o…  اونی کپڑے کی نسبت سوتی کپڑے کو ترجیح دینی چاہیے۔

o… اینٹی بیکٹریل ادویات اور صابن سے گریز کریں۔

oo… جوڑوں کی سوزش سے بچنے کے لیے روزانہ 10 سے 15 منٹ دھوپ میں بیٹھیں۔

o… ٹی۔ ٹری آئل (Tea-Tree-Oil) ایک مخصوص درخت کا تیل لگانے سے خارش پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

گھر بیٹھے بھی کافی حد تک اس کی تکلیف سے چھٹکارا ممکن ہے۔

-1 ٹی۔ٹری آئل کا استعمال کیا جائے

-2 سیب کا سرکہ بہرین اینٹی بیکٹیریل ہے۔

-3 کچا پپیتا۔

کچے پپیتے میں موجود اجزا انفیکشن کو ٹھیک کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

-4 سبزیوں اور پھلوں کا زیادہ سے زیادہ استعمال اور گاجر کا جوس کافی مفید ہے۔ ان تمام اجزا سے پانی کی کمی کو پورا کرکے جسم کو خشک ہونے سے بچایا جاسکتا ہے اور اس سے جگر کی گرمی بھی دور ہوتی ہے۔

غذائی پرہیز:۔

وہ شخص جو سورائسس (چنبل) کا مریض ہے اسے چاہیے کہ صحت مند (Health Food) کا استعمال زیادہ سے زیادہ کرے۔

مریض کو بازاری اشیاء، تلی ہوئی اشیا، الکوحل اور ٹماٹر جیسی خوراک لینے سے گریز کرنا چاہیے۔

خوراک کا چنبل سے کوئی تعلق نہیں مگر اچھی خوراک مرض کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔

o… ایسی خوراک لینی چاہیے جس میں زیادہ پروٹین ہو جیسے مچھلی، انڈا، دودھ، دہی وغیرہ۔

o… خشک میوہ جات کا استعمال زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے۔

o… زیادہ سے زیادہ پھل، دودھ، سبزیوں اور جوس کا استعمال نہایت مفید ہے۔

(1 وہ شیمپو جن میں ایلوویرا جیسے اجزاء ہوں وہ سرکی خشکی کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

(2 صابن جن میں سوڈیم، گلائسرین، سڑک ایسڈ اور میتھائل سیلولوز جیسے اجزا موجود ہوں انہیں جلد کو ملائم رکھنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ وہ تمام تیل استعمال کیے جاسکتے ہیں جن میں Fluinolone Acetone 0.011 موجود ہو۔

(3 لوشن اور تیل جو اپنے اندر Salicylicacid رکھتے ہوں وہ سر اور جسم کے لیے نہایت مفید ہیں۔

بنیادی اصول

جلد کو صحت مند رکھنے کے لیے بنیادی اصول یہ ہے کہ اسے صاف رکھنے کے لیے باقاعدگی سے دھوئیں لیکن خشک صابن لگانے سے گریز کریں (ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر نہیں) اور نہ ہی اتنا زیادہ دھوئیں کہ جلد کی ضروری نمی اور چکنائی ختم ہوجائے اور زیادہ سے زیادہ موئسچرائزر کا استعمال کریں۔ جتنا زیادہ ہوسکے ذہنی تناؤ سے بچیں۔صحت مند خوراک لیں اور پانی کا استعمال کریں جو ایک مریض کے لیے بہت ضروری ہے اور ضرورت سے زیادہ سورج کی روشنی سے بچیں۔

آمنہ تعارف
لاہو کالج فار ویمن یونیورسٹی

The post سورائسس (PSORISIS) appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2MvCnPW
via IFTTT

خواتین میں موٹاپے کی وجوہات ایکسپریس اردو

موٹاپا، جسے انگلش میں Obesity کہتے ہیں آج کے دور کے اہم جسمانی مسائل میں سے ایک ہے۔

’’موٹاپا انسانی جسم میں فالتو چربی کے اکٹھے ہوکر جسم کو بدنما کردینے کا نام ہے‘‘ موٹاپا بذات خود تو بیماری نہیں ہوتا مگر یہ کسی بیماری کے نتیجے میں ہوسکتا ہے اور اس کی وجہ سے بھی کافی بیماریاں پیدا ہونے کا امکان ہوسکتا ہے۔

موٹاپے کا تعلق صرف اور صرف کھانے، پینے سے نہیں بلکہ اس کی دیگر پوشیدہ وجوہات بھی ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں اگر کسی اضافی وزن کی خاتون کو دیکھا جائے تو یہی سوچا جاتا ہے کہ اس کی خوراک زیادہ اور کام کم ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کچھ ایسی خواتین بھی ہوتی ہیں جو کھاتی کم ہیں مگر پھر بھی ان کا وزن بڑھتا جاتا ہے۔

موٹاپے کی عمومی وجوہات:۔

موٹاپے کی بہت سی وجووہات ہوسکتی ہیں جس میں سب سے زیادہ پائی جانے والی خوراک کی بے اعتدالی ہے۔ مگر خواتین میں سب سے بڑی وجہ ہارمونز کی بے قاعدگی ہوتی ہے۔کاربونیٹڈ مشروبات کا بے تحاشہ استعمال جسم کو بھاری کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ چکنائی والی اشیاء بھی موٹاپے کا سبب بنتی ہیں۔ موٹاپے کا ایک بڑا سبب جسم میں پانی کی مقدار کا کم ہونا بھی ہے۔

وزن بڑھنے کی مزید چند وجوہات پر نظر ڈالتے ہیں جیسا کہ:۔

-1 توانائی میں توازن کی کمی:۔

اس سے مراد یہ ہے کہ جسم میں داخل ہونے والی توانائی اور جسم سے خارج ہونے والی توانائی میں توازن نہیں ہے۔ جسم میں داخل ہونے والی توانائی وہ ہوتی ہے جو ہم غذا اور پانی سے حاصل کررہے ہوتے ہیں جبکہ باہر نکلنے والی توانائی وہ ہوتی ہے جسے ہم اپنے روزمرہ کاموں کے لیے استعمال کررہے ہوتے ہیں جس میں سانس لینا، ہضم کرنا اور جسمانی طور پر فعال رہنا شامل ہے۔ اگر جسم میں جانے اور باہر نکلنے والی توانائی برابر ہوگی تو آپ کا وزن اتنا ہی رہے گا جتنا کہ ہے۔ اگر باہر نکلنے والی توانائی اندر جانے والی توانائی سے زیادہ ہوگی تو آپ کا وزن گھٹنا شروع ہوجائے گا۔

-2 ماحول:۔

جس ماحول میں آپ زندگی گزار رہے ہیں اس کا آپ کے وزن پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ جن جگہوں پر تازہ اور صاف ستھری غذا مہیا نہیں ہوتی یا زیادہ تیل والے کھانے کھانے کا رواج ہوتا ہے وہاں اکثر لوگوں کا وزن زیادہ ہوتا ہے۔

-3 ادویات:۔

بعض ادویات کے استعمال سے بھی انسان موٹا ہوجاتا ہے۔ اینٹی ڈپرینسٹ یا اسٹریس دور کرنے کی ادویات عموماً وزن بڑھاتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھوک بڑھانے والی دواؤں سے بھی وزن بڑھتا ہے۔

-4 مناسب نیند نہ لینا:۔

بہت سی خواتین مناسب نیند نہ لینے کی وجہ سے بھی موٹاپے کا شکار ہوجاتی ہیں۔ آپ کی نیند کا محض ایک گھنٹہ کم ہونے سے جسم میں لیپئن اور گریلن کا لیول بڑھنے لگتا ہے۔ یہ بھوک کی شدت میں اضافے کا محرک ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کم سونے والے افراد عام طور پر ایسی غذائیں لینے لگتے ہیں جن میں کیلریز یا کیلشیم زیادہ ہو۔ جسم میں لیپٹن اور گریلن کا حد سے زیادہ بڑھ جانا بھوک کو بڑھا دیتا ہے جو اکثر موٹاپے کا سبب بنتے ہیں۔

-5 ہارمونل عدم توازن:۔

عورت اپنی زندگی میں مختلف مراحل سے گزرتی ہے جس کی وجہ سے ہارمونز میں عدم توازن آجاتا ہے۔ عورت کے جسم میں ہونے والی تبدیلیوں کے باعث ہارمونل عدم توازن موٹاپے کا سبب بن سکتا ہے۔

-6 تھائی رائڈ:۔

تھائی رائڈ ایک عام مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ خواتین میں بھائی رائڈ کا بڑھنا وزن میں اضافے کا سبب بنتا جارہا ہے۔ اگر آپ کا وزن بڑھ رہا ہو اور اس مرض کی علامات ظاہر ہوں تو اس کا ٹیسٹ لازمی کروائیں تاکہ صحت سے بھرپور زندگی جی سکیں۔

-7 پیدائش اور اس میں وقفہ:۔

بچوں کی پیدائش کے بعد خواتین کی اکثریت موٹاپے کا شکار اور کچھ خواتین دبلی ہوجاتی ہیں اسی طرح بچوں کی مسلسل پیدائش یا ان میں وقفے کے لیے لی جانے والی ادویات بھی بعض اوقات دبلے پن، کمزوری، وزن میں اضافے اور دیگر مسائل کا سبب بنتی ہیں۔

نمرہ شاہد
لاہو کالج فار ویمن یونیورسٹی

The post خواتین میں موٹاپے کی وجوہات appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2YxRdYn
via IFTTT

الحمرا تھیٹر کا دوسرا روز ’’نہلے پے دہلہ‘‘ ڈرامہ پیش ایکسپریس اردو

 لاہور:  لاہور آرٹس کونسل میں الحمرا تھیٹر فیسٹیول کے دوسرے روز ڈرامہ نہلے پے دہلہ پیش کیا گیا۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر الحمرا اطہر علی خان نے تھیٹر فیسٹیول میں خصوصی شرکت کی اور کہا کہ ڈرامہ نہلے پے دہلہ میں ہمارے معاشرتی المیوں کو جس انداز میں موضوع بنایا گیا ہے اس سے عوام کو بے حد مثبت پیغام گیا ہے۔

لاہورآرٹس کونسل میں یوم آزادی پاکستان کی تقریبات کے حوالے سے 6روزہ الحمرا تھیٹر فیسٹیول کے ساتھ8روزہ چوتھی ’’چائلڈآرٹ اینڈ کرافٹ ورکشاپ‘‘ کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے۔اس حوالے سے میوزک پروگرام ’’آزادی کے رنگ،میوزک کے سنگ‘‘ بھی الحمرا میں پیش کیا جائے گا جس میں صوبائی وزیر اطلاعات و ثقافت میاں محمد اسلم اقبال مہمان خصوصی ہونگے۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر الحمرا اطہر علی خان نے یوم آزادی پاکستان کی تقریبات کے حوالے سے بتایا کہ پاکستانی محب الوطن قوم ہے جواپنے ملک سے بے پناہ محبت کرتی ہے اوراس کی ترقی و خوشحالی کیلیے پر عزم ہے،الحمرا نے بھی معاشرتی و سماجی مثبت تبدیلیوں کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے جس کے لیے مختلف نوعیت کے پروگرام پیش کیے جارہے ہیں۔

The post الحمرا تھیٹر کا دوسرا روز ’’نہلے پے دہلہ‘‘ ڈرامہ پیش appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ytWMN2
via IFTTT

فلم ’’ہیرمان جا‘‘ کا ایک اور رومانوی گیت ’’کچھ تو ہوا ہے‘‘ ریلیز ایکسپریس اردو

 لاہور: سنیما گھروں کی رونق دوبالا کرنے کیلیے پیش کی جانے والی فلم ’’ہیرمان جا‘‘ کا ایک اور رومانوی گیت ’’کچھ تو ہوا ہے‘‘ ریلیز کردیا گیا ہے۔

عید الاضحی کے پْر مسرت موقع پر سنیما گھروں کی رونق دوبالا کرنے کیلیے پیش کی جانے والی فلم ’’ہیرمان جا‘‘ کا ایک اور رومانوی گیت ’’کچھ تو ہوا ہے‘‘ ریلیز کردیا گیا ہے۔

اس گیت نے بھی منظر عام پر آتے ہی موسیقی سے دلچسپی رکھنے والوں کے دِل میں گھر کرنا شروع کردیا ہے۔ اس گانے کے بول کشف اقبال اور فاطمہ نجیب نے لکھے ہیں جسے گلوکار رمیز خالد اورآئمہ بیگ نے اپنی سریلی آوازوں سے گا کر چار چاند لگادیے ہیں۔

احمد علی کی موسیقی نے اس گیت میں ایسی جان ڈال دی کہ شائقین اس گانے کو سن کر لطف اندوز ہورہے ہیں۔

The post فلم ’’ہیرمان جا‘‘ کا ایک اور رومانوی گیت ’’کچھ تو ہوا ہے‘‘ ریلیز appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Mwu9qC
via IFTTT

سپر ہائی وے ڈیمز میں شگاف، گرڈ اسٹیشن، آبادیاں اور مویشی منڈی زیر آب ایکسپریس اردو

کراچی: لٹھ اور تھڈو ڈیم میں شگاف پڑنے سے سپرہائی وے سے متصل کے ڈی اے گرڈ اسٹیشن ، رہائشی گوٹھ ، سوسائٹیاں اور مویشی منڈی کا بیشتر حصہ زیر آب آگیا۔

گڈاپ ٹاؤن میں لٹھ ڈیم اور تھڈو ڈیم میں شگاف پڑنے سے برساتی پانی کا ریلا سپر ہائی وے تک پہنچ گیا جس کسے باعث کراچی سے حیدرآباد جانے والا ٹریک زیر آب آگیا اور ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا، سیلابی ریلا موٹروے ایم نائن کے نیچے پانی کی نکاسی کے راستوں سے ہوتا ہوا سعدی گارڈن گلشن عثمان ، سعدی ٹاؤن ، اسکیم 33 میں کے ڈی اے گرڈ اسٹیشن سے ہوتا ہوا مدینہ کالونی اور اس کے اطراف میں درجن سے زائد گوٹھوں میں داخل ہوگیا۔

اسکیم 33 میں کے الیکٹرک کے 220 کے وی کے گرڈ اسٹیشن میں بھی پانی بھرجانے کی وجہ سے ہنگامی صورتحال پیدا ہوگئی، فوج کے دستوں نے مٹی کے بند بناکر مزید پانی گرڈ اسٹیشن میں داخل ہونے سے روکا مگر پمپ کی مدد پہلے سے جمع پانی کو نکالنے میں 18 گھنٹے سے زائد وقت لگ گیا۔

صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے فوج نے ریسکیو آپریشن شروع کردیا فوج کے جوانوں نے سب سے پہلے گرڈ اسٹیشن کے چاروں طرف مٹی کے ڈھیر لگاکر پانی کے جانے کا راستہ روک کر گرڈ اسٹیشن سے پانی کی نکاسی شروع کردی، سیلابی ریلے کے راستے میں آنے والے گوٹھوں کے مکینوں کو لائف بوٹ کی مدد سے محفوظ مقامات پر منتقل کرنا شروع کردیا۔

ریسکیو آپریشن میں فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن ، این ایچ اے اور علاقہ مکینوں کی بڑی تعداد نے حصہ لیا، پانی کی نکاسی کے بعد کئی گھنٹے معطل رہنے والے سپر ہائی وے کے ٹریک کو ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔

مدینہ کالونی کے مکینوں کا کہنا تھا کہ سعدی گارڈن میں اثر رسوخ والے لوگ رہتے ہیں جس کے باعث سپرہائی وے سے آنے والا پانی وہاں سے جانے سے روک کر مویشی منڈی ، اور سپر ہائی وے کے اطراف میں واقع گوٹھوں کی طرف موڑ دیا گیا ہے جس سے علاقے کے گھروں میں پانی داخل ہوگیا ان کا کہنا تھا کہ پانی کے آنے کی رفتار کو دیکھتے ہوئے علاقے کے بیشتر رہائشیوں نے نقل مکانی شروع کردی ہے جبکہ گھر کا ایک فرد صرف چوکیداری کے لیے رک گیا ہے۔

لٹھ ڈیم اور تھڈو ڈیم سے برساتی پانی کے ریلے نے ضلع ملیرکی اسکیم 33 کے کئی علاقوں میں تباہی مچادی، سعدی ٹاؤن، سعدی گارڈن، مدینہ کالونی، عبداللہ شاہ غازی گوٹھ جی بلاک، قریشی سوسائٹی، محمد خان گوٹھ، گلشن عثمان، پی ایس 99 اور پی ایس 100 کی کئی آبادیوں میں برساتی ریلا گھس گیا۔

منگل کی شب لٹھ اور تھڈو ڈیم سے آنے والے برساتی پانی نے چند گھنٹوں میں ہی ان علاقوں کو دریا میں بدل دیا، سعدی ٹاؤن اور مدینہ کالونی کے مکینوں کا کہنا تھا کہ مویشی منڈی کے ایک بیوپاری نے بتایا کہ وہ ڈھرکی سے 35 جانور کے ساتھ منڈی آیا تھا جہاں منڈی میں اس نے 38 نمبر بلاک میں 80 ہزار روپے میں جگہ حاصل کی تھی۔

انتظامیہ نے جگہ دیتے وقت تمام سہولتیں دینے کا وعدہ کیا تھا تاہم سیلاب کے آتے ہی انتظامیہ کہیں نظر نہیں آرہی اس نے بتایا کہ وہ اپنی 10 گائے بمشکل پانی میں سے نکال سکا ہے جبکہ دیگر گائے اور کھانے پینے کا سامان وہیں پھنسا ہوا ہے گھوٹکی کے بیوپاری کا کہنا تھا کہ سیلاب کے باعث 100 کے قریب بیل اور گائیں مرچکی ہیں مویشی منڈی کے کوآرڈی نیٹر نے ایکسپریس کو بتایا کہ38 نمبر بلاک کے کوئی پیسے نہیں لیے گئے وہ جگہ بیوپاریوں کو فری دی گئی ہے۔

کراچی میں پیر اور منگل کو ہونے والی موسلادھار بارشوں کے بعد سپر ہائی وے پر سبزی منڈی بھی زیر آب آگئی، سبزی منڈی میں پانی کی نکاسی نہ ہونے سے گھٹنوں گھٹنوں پانی جمع ہوگیا، گندگی اور کچرے نے کیچڑ کی شکل اختیار کرلی،کیچڑ سبزی منڈی کی گلیوں میں دور تک پھیلا ہوا ہے۔

سبزی سیکشن کے تاجروں کے مطابق مارکیٹ کمیٹی انٹری اور دکانوں کے کرایے کی مد میں کروڑوں روپے وصول کرتی ہے لیکن نکاسی آب کا نظام بہتر نہیں بنایا جاتا سبزی سیکشن کی گلیاں کچی ہیں اس لیے بارشوں کے علاوہ عام دنوں میں بھی یہاں پانی کھڑا رہتا ہے۔

حالیہ بارشوں میں منڈی میں جگہ جگہ بارش کا پانی کھڑا ہے منڈی کے داخلی دروازوں پر گڑھوں میں بارش کا پانی اور کیچڑ جمع ہے جس کی وجہ سے گاڑیوں کی آمدورفت متاثر ہے، منڈی میں صفائی اور پانی کی نکاسی نہ ہونے پر آلودہ ماحول میں ہی سبزیاں فروخت کی جارہی ہیں جس سے بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے، منڈی میں جگہ جگہ گندگی اور گلی سڑی سبزیوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں جن سے بدبو اور تعفن اٹھ رہا ہے۔

تاجروں کے مطابق منڈی میں کاروبار کے لیے آنے والوں کا اپنی دکانوں تک پہنچنا محال ہوگیا ہے ایسے میں شہر سے کوئی خریدار کیسے آئے گا، دکانوں کے سامنے پانی کھڑا ہے اور دکانوں کے تھڑوں پر کیچڑ پھیل گئی ہے آڑھتی مال اونے پونے فروخت کررہے ہیں۔

ملیر ندی : برساتی ریلا آنے سے کورنگی کا رابطہ شہر سے کٹ گیا

بدھ کی صبح ملیر ندی سے برساتی پانی کا بڑا ریلا گزرنے کے باعث کورنگی کاز وے اورکورنگی کراسنگ روڈ کو ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا ہے جس کے باعث کورنگی صنعتی ایریا جانے والے 2 مرکزی راستے بند ہونے سے بلوچ کالونی پل ،ایکسپریس وے،قیوم آباد چورنگی،کورنگی کراسنگ،کورنگی روڈ، بروکس چورنگی اور ڈیفنس روڈ پر بدترین ٹریفک جام ہوگیا، گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں اور صبح سویرے دفاتر اور روز مرہ کے کاموں کے لیے گھر سے نکلنے والے ہزاروں شہری ٹریفک جام میں پھنس گئے۔

کورنگی صنعتی ایریا جانے کے لیے واحد راستہ قیوم آباد چورنگی سے جام صادق پل ہے جہاں ٹریفک کا شدید دبائو ہے ٹریفک جام میں پھنسے شہریوں کی مدد کے لیے ٹریفک اہلکار سڑکوں پر موجود رہے لیکن صورتحال ٹریفک پولیس اہلکاروں کے بس سے باہر رہی، قیوم آباد چورنگی اور ایکسپریس وے پر جگہ جگہ بارش کا پانی جمع ہونے اور نکاسی نہ ہونے سے ٹریفک کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔

ٹریفک پولیس حکام کے مطابق ٹریفک پولیس نے کے پی ٹی انٹرچینج اورجام صادق پل کے درمیان جمع پانی کی نکاس کے لیے ہیوی مشینری سے فٹ پاتھ توڑ کر پانی کو نکالا جا رہا ہے۔

برساتی ریلے میں 2 بچے ڈوب کر ہلاک، ایک لاپتہ، دوسری بچی کو بچا لیا گیا

سپر ہائی وے نیو سبزی منڈی پاور ہاؤس کے قریب برساتی پانی کے ریلے میں کمسن لڑکا ڈوب گیا جس کی اطلاع پر ایدھی کے غوطہ خور موقع پر پہنچ گئے اور سخت جدوجہد کے بعد ڈوبنے والے لڑکے کی لاش نکال کر قریب ہی اسپتال پہنچائی جہاں متوفی کی شناخت 3 سالہ امجد کے نام سے ہوئی ہے جو کہ اسی علاقے کا رہائشی تھا،ملیر میمن گوٹھ عثمان خاصخیلی گوٹھ میں برساتی پانی کے ریلے میں 2 بہنیں ڈوب گئیں جس کی اطلاع ملتے ہی ایدھی بحری خدمات کے رضا کاروں نے موقع پر پہنچ کر ڈوبنے والی 12 سالہ مسکان دختر حکیم کی لاش نکال لی۔

دوسری بہن کو تشویش ناک حالت میں نکال کر قریب اسپتال پہنچایا جہاں ڈاکٹر اس کی جان بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں ،اسکیم 33 کے قریب برساتی پانی میں نوعمر لڑکا ڈوب کر لاپتہ ہوگیا جس کی اطلاع ملتے ہی ایدھی کے رضا کار موقع پر پہنچ گئے، اس کی تلاش شروع کر دی تاہم کامیابی نہ مل سکی۔

واضح رہے کہ پیر سے شروع ہونے والی موسلا دھار بارشوں کے بعد شہر کے بیشتر علاقوں میں پانی جمع ہے ،بلدیاتی اداروں اور واٹر بورڈ کی جانب سے نکاسی آب کے انتظامات نہ کیے جانے کے باعث برساتی پانی میں کمسن بچے اور راہ گیر ڈوب کر ہلاک ہوچکے ہیں۔

شہرمیں 172ملی میٹر بارش ریکارڈنارتھ کراچی میں88 ملی میٹر بارش ہوئی

محکمہ موسمیات کے مطابق سرجانی ٹاون میں 2مختلف مراحل کے دوران 100 ملی میٹر سے زیادہ بارش ریکارڈ ہوئی ہے،اس سے قبل محکمہ موسمیات کی جانب سے زیادہ سے زیادہ 164 ملی میٹر بارش ہونے کی پیش گوئی کی گئی تھی تاہم منگل اور بدھ کی درمیانی شب سرجانی ٹائون میں مزید بارش ریکارڈ ہوئی، سب سے کم بارش کیماڑی میں 31.3ملی میٹر(ڈیڑھ انچ کے لگ بھگ) ریکارڈ ہوئی۔

شہر کے دیگر علاقوں نارتھ کراچی88،گلشن حدید78، بیس فیصل 87،یونیورسٹی روڈ 74.6،جناح ٹرمینل 69.4 ،بیس مسرور82،ناظم آباد 65.7، لانڈھی59، ایئرپورٹ 62.3ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئیں۔

The post سپر ہائی وے ڈیمز میں شگاف، گرڈ اسٹیشن، آبادیاں اور مویشی منڈی زیر آب appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ytWJkk
via IFTTT

ٹنڈو جام، ٹول پلازہ انتظامیہ نے 50 ملازمین برطرف کر دیے ایکسپریس اردو

ٹنڈو جام: میرپور خاص حیدرآباد روڈ پر ٹول پلازہ انتظامیہ نے 50 ملازمین کو ملازمت سے برطرف کردیا۔

میرپور خاص حیدرآباد روڈ پر ٹول پلازہ انتظامیہ نے 50 ملازمین کو ملازمت سے برطرف کردیا جبکہ مزید150 ملازمین کو فارغ کرنے کے لیے فہرستوں کی تیاری کی اطلاعات ملی ہیں۔ برطرف کیے گئے ملازمین میں سپروائزر،آپریٹرز، سیکیورٹی گارڈز ودیگرشامل ہیں۔

متاثرین نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایاکہ وہ سڑک بنانے والی نجی کمپنی کے ملازم تھے اور گزشتہ 8 سال سے ڈیوٹی کر رہے تھے۔ ٹول منیجر نے من پسند افراد کو مقرر کرنے کے لیے انہیں بلاجواز نوکریوں سے فارغ کر دیاہے جو سراسر ظلم ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ انھیں بحال کیا جائے۔ بصورت دیگر احتجاج کیا جائیگا۔

The post ٹنڈو جام، ٹول پلازہ انتظامیہ نے 50 ملازمین برطرف کر دیے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/332eSnk
via IFTTT

نامعلوم افراد نے درسی کتب کے بنڈل نالے میں پھینک دیئے ایکسپریس اردو

جام صاحب:  محکمہ تعلیم کی نا اہلی، نامعلوم افراد درسی کتابوں کے بنڈل سیم نالے میں پھینک گئے۔

جام صاحب گپچانی روڑ پر اسٹیڈیم کے مقام پر گورنمنٹ فقیر غلام رسول ہائر سیکنڈری اسکول کے قریب نامعلوم موٹر سائیکل سوار چھٹی، ساتویں، آٹھویں اور نویں جماعت کی اردو، سندھی، اسلامیات اور دیگر مضامین کی درسی کتب کے بنڈل سیم نالے میں پھینک کر فرار ہوگئے۔

رابطہ کرنے پر پرنسپل مسعود احمد سہتو نے ایکسپریس کو بتایا کہ وہ درسی کتابیں ایک ماہ قبل ہی طلبہ میں تقسیم کر چکے ہیں۔ یہ اسکول اور اساتذہ کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

دوسری جانب واقعے کی شفاف تحقیقات کے لیے محکمہ تعلیم نے ڈی او سیکنڈری غلام علی برہمانی کی سربراہی میں5 رکنی کمیٹی قائم کردی ہے۔

The post نامعلوم افراد نے درسی کتب کے بنڈل نالے میں پھینک دیئے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Kgr4Iv
via IFTTT

کراچی کے دکھ کون شیئر کرے گا؟ ایکسپریس اردو

طوفانی بارشوں نے ملک کے معاشی مرکز کی جڑیں ہلا دیں۔ ایسا فزیکل اور ڈیموگرافیکل دردناک منظر نامہ کسی برسات میں نظر نہیں آیا۔ہر طرف کثیر جہتی بے بسی اور شہریوں کی حرماں نصیبی یاد آئی۔ بلاشبہ بارش نے کراچی کو اپنے تاریخی شہر آشوب سے دوچار کردیا ہے۔

شہر قائد میں دو دن کی بارش نے سات عشروں کے درد والم کی داستان یوں رقم کردی کہ میئر کراچی وسیم اختر نے بے بس ہوکر وفاق سے مدد مانگ لی، شہر میں دوسرے روز بھی بارش ہوئی،مزید 10 جاں بحق ہوئے، سیلابی ریلے سے موٹر وے کا ایک حصہ زیر آب آیا ، جن ماہرین نے اربن فلڈ کا خطرہ ظاہر کیا تھا وہ اپنے اس استدلال پر قائم رہے کہ بدھ کو بھی بارش کا سلسلہ جاری رہتا تو شہر کے ڈوبنے ہی کی حسرت باقی رہ جاتی۔

میئر کراچی کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے تعاون نہیں کیا،اور نہ ہی کام کرنے دیتی ہے ، شہر کا انفرا اسٹرکچر زبوں حال ہے اور موجودہ صورتحال کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ ادھر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے شہر کے متاثرہ علاقوں کے دورے کے بعد بتایا کہ فلڈ کو روکنا اصل مسئلہ تھا، حکومت اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش اور انتظامات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کررہی ہے۔

تاہم حقیقت یہ ہے کہ سندھ اور مقامی حکومت کراچی کے اقتصادی،طبعی،افرادی اور انسانی و بلدیاتی مسائل سے لاتعلقی اوربلیم گیم کے گھناؤنے چکر سے ابھی تک باہر نہیں نکل سکی ہیں ،اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ واقعی سندھ حکومت نے وسائل اور انتظامات کی شیئرنگ بارش سے پہلے کی ہوتی،بارش سے بچاؤ کے موثراقدامات دو طرفہ بنیادوں پرہوتے ،ندی نالوں کی صفائی ایک ماہ پہلے مکمل کی جاچکی ہوتی، سالڈ ویسٹ سمیت انجینئرنگ سمیت نکاسی آب کے انتظامات کی شفافیت کویقینی بنایا جاتا تو اتنا بڑا ڈزاسٹر ہرگز نہ ہوتا، پھر سوال سندھ حکومت اور مقامی گورنمنٹ کے درمیان چپقلش کا ہے۔

فنڈز کی عدم فراہمی اور بلدیاتی و دیگر اہم اداروں کی افراط وتفریط پر میئر کراچی کی برہمی بھی قابل غور ہے، لیکن کسی کو اس بنیادی اسٹرکچر پر بھی غورکرنا چاہیے کہ واٹر بورڈ کی ذمے داری کیاہے، کیا ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے پاس سفید ہاتھیوں کی فوج ظفر موج کسی آفت کا سدباب کرنے کے لیے سڑکوں پر نہیں آسکتی تھی، وہ جدید ترین آلات ، پمپ کہاں غائب رہے جو نکاسی آب کے لیے لازمی سمجھے جاتے ہیں، سیلابی ریلا نشیبی علاقوں ، گھروں اور متصل آبادیوں میں داخل ہوتا رہا اور ریسکیوکے لیے پاک فوج حاضر تھی ، ان کا آپریشن جاری رہا،گوٹھوں کے مکینوں کو لائف بوٹوں کی مدد سے محفوظ مقامات پر پہنچایا گیا۔

کاروبار زندگی مفلوج رہا، کوئی ہولناک اور مسلسل موسلادھار یا طوفانی بارشوں کا قیامت خیز منظر ایسا کچھ نہ تھا کہ سندھ حکومت اور مقامی حکومتوں کے ہاتھ پیر پھول جاتے۔میڈیا کے مطابق اولڈ سٹی ایریا میں گندا پانی دکانوں اور گوداموں میں داخل ہوگیا، 80فیصدمارکیٹوں کی دکانیں بند رہیں، ٹرانسپورٹ اور ٹریفک سسٹم زمیں بوس ہوگیا۔ بدھ کو قیوم آبادچورنگی پرہولناک ٹریفک جام رہا ۔کراچی میں بارش میں کرنٹ لگنے سے 5 بچوں سمیت 17افراد جاں بحق ہوئے، ادھر کراچی میں مون سون کی متواتر بارشوں سے گڈاپ اور کیماڑی کے تمام ڈیم برساتی پانی سے بھر گئے ہیں۔

گڈاپ ٹاؤن میں واقع تھڈو ڈیم اور لٹھ ڈیم اوورفلو ہونے سے سپرہائی وے ، لنک روڈ ، سعدی ٹاؤن و دیگر رہائشی علاقے زیر آب آگئے ہیں، سکھن نالے پر قائم ڈھنڈو ڈیم میں خطرناک حد تک بڑا شگاف پڑنے سے برساتی پانی کے ریلے دیہہ ڈھنڈو اور دیہہ درسنہ چنوکے کئی گوٹھوں میں داخل ہوگئے ہیں جس سے سیکڑوں مکین متاثر ہوگئے ہیں، لٹھ ڈیم سے سیلابی ریلہ آبادی کی جانب بڑھنے پر پاک فوج نے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا ، کراچی میں اوسطاً بارش 71ملی میٹر ریکارڈ کی گئی، کراچی کے تمام تعلیمی ادارے بند رہے، بارش بند ہونے کے متعددگھنٹے گزرنے کے بعد بھی زیریں سندھ کے مختلف شہروں میں مکمل طور پر بجلی بحال نہ ہو سکی،بجلی کی طویل بندش کے خلاف شہری سڑکوں پر نکل آئے۔

یہ الم ناک کتھا اس شہر قائد کی ہے جو پاکستان کا اقتصادی انجن اور وطن عزیز کی امنگوں کا مرکز ہے۔ شہری کراچی کی کس کس بات کا رونا روئیں ،ہزاروں ہیں شکوے کیا کیا بتائیں۔کوئی سننے والا بھی تو ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مائنڈ سیٹ ہے جس نے کراچی کو نظر انداز کیا ہے، ذمے دار اسٹیک ہولڈرز بھی شہر کے دکھ کو محسوس نہیں کرتے۔ یہ صورتحال تو حکمرانوں کے لیے سوالیہ نشان ہے آخر کب کراچی کا مقدر چمکے گا۔کب اسے ایک بار پھر ایشیا کے صاف ستھرے اور گریٹ میگا سٹی کا اعزاز حاصل ہوگا۔

The post کراچی کے دکھ کون شیئر کرے گا؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/332ePb8
via IFTTT

بلوچستان میں دہشت گردی کی بزدلانہ واردات ایکسپریس اردو

بلوچستان اس وقت دہشت گردوں کے نشانے پر ہے، دہشت گرد اپنی بزدلانہ کارروائیاں کرنے سے باز نہیں آرہے ہیں۔ تازہ ترین واقعے میں، کوئٹہ باچاخان چوک میں پولیس موبائل کے قریب بم دھماکے میں دو پولیس اہلکاروں سمیت پانچ افراد شہید جب کہ ایڈیشنل ایس ایچ او سمیت تیس سے زائد زخمی ہوگئے، پولیس موبائل گشت پر تھی کہ قریب کھڑی موٹرسائیکل میں نصب دھماکا خیز مواد دھماکے سے پھٹ گیا۔

دھماکے کی شدت سے قریبی عمارتوں،دکانوں کے شیشے ٹوٹ گئے جب کہ متعدد گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو بھی نقصان پہنچا۔ مصروف گزرگاہ پر دھماکے کا مقصد زیادہ سے زیادہ جانی اور انسانی نقصان کرنا ہوتا ہے۔

بلوچستان جب سے سی پیک میں شامل ہوا ہے اور طویل ترین شاہراہیں بنی ہیں، ترقی کی رفتار تیز ہوئی ہے اورگوادر بندرگاہ فنکشنل ہوئی ہے، تو پڑوسی ملک نے بلوچستان میں اپنی سازشوں کے جال بچھا دیے ہیں، وہ بد امنی کو جنم دے کر بلوچستان کی ترقی کے عمل کو روکنا چاہتا ہے۔یہ بزدلانہ عمل ہے۔ اسے معلوم ہے کہ بلوچستان کی ترقی پورے ملک میں ایک انقلاب لا سکتی ہے اور پاکستان ترقی کی دوڑ میں بہت آگے نکل سکتا ہے۔

آئے دن بلوچستان میں کہیں نہ کہیں دہشت گردی کی واردات رونما ہوتی رہتی ہے جس کا واضح مقصد سیکیورٹی فورسز کے دہشت گردی کے خلاف عزم کو کمزور کرنا اور اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہے۔

سیکیورٹی فورسز کے بہادر جوان یہ عزم کیے ہوئے ہیں کہ وہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھیں گے،خواہ اس مقصد کے لیے انھیں کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں۔ان کے اسی غیر متزلزل عزم کا نتیجہ ہے کہ سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا رہی ہیں۔شمالی وزیرستان میں شکست کھانے کے بعد دہشت گردوں نے بلوچستان کو اپنی آماج گاہ بنا لیا ہے،یہاں ان کی تخریبی کارروائیاں اس امر کی اغماز ہیں کہ کچھ مقامی قوتیں بھی ان کا ساتھ دے رہی ہیں۔

بھارتی جاسوس کلبھوش یادیوکی گرفتاری اس بات کا بڑا ثبوت ہے کہ بدامنی پھیلانے اور دہشت گرد گروہوں کی سرپرستی میں بھارت کی مودی سرکار ملوث ہے، پاکستان اس کے ثبوت متعدد بار عالمی سطح پر پیش کر چکا ہے، عالمی طاقتوں کے مذموم مقاصدکو ہماری بہادر اور جری سیکیورٹی فورسز نے ناکام بنا دیا ہے،اب تو چند بزدل عناصر ’’ہٹ اینڈ رن‘‘ والی اسٹرٹیجی کو اختیارکرکے عوام میں خوف وہراس پھیلانا چاہتے ہیں لیکن وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ مادر وطن کے دفاع کے لیے بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز اور عوام نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں اور ان کی مذموم سازشوں کو ناکام بنایا ہے، لہذا دہشت گردوں کے ہاتھ ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں آیا۔

دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے ان کے سہولت کاروں کو بھی قانون کی گرفت میں لانا پڑے گا تاکہ جرائم کی اس زنجیر کو توڑا جا سکے۔ وہ دن دور نہیں جب سیکیورٹی فورسزکی قربانیاں رنگ لائیں گی اور بلوچستان کے چپے چپے میں امن قائم ہوگا۔

The post بلوچستان میں دہشت گردی کی بزدلانہ واردات appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2KfdFAA
via IFTTT

آرمی کے تربیتی طیارے کو حادثہ، 18 افراد شہید ایکسپریس اردو

آرمی ایوی ایشن کا ایک تربیتی طیارہ گزشتہ روز راولپنڈی کے نواحی علاقے ڈھوک کلوکنترالی گاؤں کی آبادی پر گر کر تباہ ہو گیا، اس افسوسناک حادثے میں پاک فوج کے دو افسروں اور 3 جوانوں سمیت 18 افراد شہید جب کہ 9 زخمی ہو گئے۔

اطلاعات کے مطابق پیر اور منگل کی درمیانی شب قاسم آرمی ایوی ایشن سے اڑنے والا طیارہ کنترالی گاؤں کی آبادی میں گر کر تباہ ہوگیا، طیارہ زمین پر گرنے سے قبل بہت دیر تک غیر ہموار پرواز کرتا رہا، پھر ایک زوردار دھماکے سے گاؤں میں گھروں پر گر کر تباہ ہوا۔ طیارے میں سوار پاک فوج کے دو لیفٹیننٹ کرنل اور تین جوان شہید ہوگئے۔ شہید ہونے والے سویلینزمیں 4 خواتین اور 6 بچے بھی شامل ہیں۔

طیارے حادثے کی ابتدائی رپورٹ تھانہ سہالہ میں درج کر لی گئی، مزید کارروائی متعلقہ اداروں کی انکوائری اور فیکٹ فائنڈنگ کے بعد عمل میں لائی جائے گی۔ بظاہر ایسا لگتا ہے جیسے تربیتی طیارے میں کوئی تکنیکی نقص تھا جس کی وجہ سے وہ حادثے کا شکار ہوا۔

لیفٹیننٹ کرنل کے رینک کے دو اعلی افسروں کی طیارے میں موجودگی اس تربیتی پرواز کو ہائی پروفائل بنانے کی غماز ہے۔اس لیے سبوتاژ اور تخریبی کارروائی کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ اس حادثے میں دوسری المناک بات اس گاؤں کے مردوں، عورتوں اور بچوں کا اپنے گھروں میں آدھی رات کو سوتے میں موت کے منہ میں چلے جانا ہے۔

طیارے کے حادثے میں پاک فوج کے افسروں ، جوانوں اور شہریوں کی شہادت پر قوم سوگوار ہے۔حکام بالا کو چاہیے کہ وہ اس حادثے کی مکمل تحقیقات کرائیں اور ہر پہلو پر غور کیا جائے۔

The post آرمی کے تربیتی طیارے کو حادثہ، 18 افراد شہید appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2LUP8Uo
via IFTTT

چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ آج ایکسپریس اردو

 اسلام آباد:  چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے مستقبل کا فیصلہ آج سینیٹ کے اہم اجلاس ہوگا اور دونوں کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوگی۔

سینیٹ کا اجلاس آج دوپہر دو بجے طلب کیا گیا ہے، پہلے چیئرمین سینیٹ اور پھر ڈپٹی چیئرمین کیخلاف تحریک عدم اعتماد پرکارروائی ہو گی۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلیے اپوزیشن کو 53 ارکان کی ضرورت ہے جبکہ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس 64 ارکان ہیں، رائے شماری خفیہ طریقے سے ہوگی۔ بیلٹ پیپر کی چھپائی مکمل کر لی گئی ہے۔ پریذائیڈنگ افسر محمد علی سیف اجلاس کی صدارت کرینگے۔ حکومتی اور اپوزیشن بینچوں نے اپنے اپنے ارکان کو اجلاس میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔

بلاول بھٹو نے اپوزیشن سینیٹرز کے اعزاز میں ظہرانہ دیا جس میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے حکمت عملی طے کی گئی۔ رضا ربانی نے ووٹنگ کے عمل بر بریفنگ دی۔

میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول نے کہا عزت بچانے کیلیے اچھا ہے صادق سنجرانی استعفیٰ دیدیں ورنہ جمعرات کو تو وہ جا رہے ہیں، مستعفی ہونے کا فیصلہ ان کے لیے اچھا ہوگا۔ سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا ہے کہ میں اسی دن جیت گیا تھا جس روز میرا نام تجویز کیا گیا تھا۔ اپوزیشن کے65 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ چودھری تنویر بیرون ملک دورے کے باعث غیر حاضر ہیں،کامران مائیکل پروڈکشن آرڈر پر ووٹ ڈالنے آئیں گے۔

حاصل بزنجو نے ایک انٹرویو میں کہا آج جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کے درمیان مقابلہ ہو رہا ہے، جمہوری قوتیں کامیاب ہونگی۔ ن لیگ کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی زیر صدارت لیگی سینیٹرز کی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا۔

شہباز شریف نے کہا چئیرمین سینٹ کے انتخاب میں جمہوریت اور آئین کی فتح ہوگیبعدازاں شہبازشریف سے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی ملاقات ہوئی۔ شہبازشریف نے کامیاب یوم سیاہ پر فضل الرحمان کو مبارکباد دی۔ ملاقات میں سیاسی صورتحال اور تحریک عدم اعتماد پر بھی مشاورت ہوئی۔ اپوزیشن کے امیدوار حاصل بزنجو کی جانب سے اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں و سینیٹرز کے اعزاز میں عشائیہ دیا گیا جس میں شہباز شریف، مریم نواز، بلاول بھٹو اور فضل الرحمان بھی شریک ہوئے۔

عشائیہ میں اپوزیشن کے62سینیٹرز نے شرکت کی۔ حاصل بزنجو نے کہا کہ میرا چیئرمین بننا نہ بننا اہم نہیں۔ ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ کل بہت بڑا اہم دن ہے جمہوریت پر جو وار ہوا تھا اس کا ازالہ کل ہوگا کل سیاسی جماعتوں کو توڑنے کیلیے حربے استعمال کرنے والے مائینڈ سیٹ کیلیے بہت بڑی شکست ہوگی۔

سینیٹ میں قائد ایوان شبلی فراز نے کہا کہ اپوزیشن والے مقابلہ تو کر نہیں سکتے، امیدوار کے مستعفی ہونے پر ہی جیت سکتے ہیں، وہ سنجرانی کے مستعفی ہونے کی افواہیں پھیلا رہی ہے جو آج دم توڑ جائیں گی۔ صادق سنجرانی کیخلاف اقدام پر خود اپوزیشن کی اکثریت ناخوش ہے۔ تحریک عدم اعتماد کو شکست ہوگی۔ اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کا اجلاس اکرم درانی کی صدارت میں ہوا جس میں تحریک عدم اعتماد پر مشاورت کی گئی۔ اکرم درانی نے کہا ایک تبدیلی آج آئیگی، دوسری تبدیلی بھی آپ جلد دیکھیں گے۔

دوسری ضانب چیئرمین صادق سنجرانی نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے صادق سنجرانی نے کہا تحریک عدم اعتماد کا بھرپور مقابلہ کرونگا، اپوزیشن کیلیے سیاسی میدان کھلا نہیں چھوڑا جائیگا۔

ایک بیان میں انھوں نے کہا خفیہ رائے شماری کا آپشن اسی لیے ہے کہ ارکان آزادانہ اور ضمیر کے مطابق فیصلہ کریں۔ جن بڑے دماغوں نے آئین بنایا، انھوں نے 20، 20 دن کی سوچ بچار کے بعد خفیہ رائے شماری کا آپشن رکھا۔ میں نے ہاؤس کو غیر جانبداری سے چلایا، دیکھنا چاہتا ہوں کہ ممبران کسٹوڈین آف دی ہاؤس کیلیے ضمیر کے مطابق آزادانہ فیصلہ کرتے ہیں یا نہیں۔

The post چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ آج appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2YyCP6i
via IFTTT

بیٹے کی پیدائش پروالدین کے لیے زبردست انعام دنیا کا ایسا گاﺅں جہاں گزشتہ دس برس سے لڑکے پیدا نہیں ہوئے

خاتون نے زیوارت پہننے کی بجائے نگل لیے آپریشن کر کے خاتون کے پیٹ سے چین، بندے اور لاکٹس نکال لیے گئے

اسامہ کے بیٹے حمزہ بن لادن مارے گئے امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اس کے سر کی قیمت دس لاکھ ڈالر طے کر رکھی تھی

طالبان سے زیادہ نیٹو فورسز نے افغان شہری ہلاک کئے راہِ فرار ڈھونڈنے والے امریکہ نے افغانستان میں بے گناہوں کے لاشے بچھائے

دنیا کا پہلا آل اسکرین اسمارٹ فون موبائل میں راﺅنڈ گلاس استعمال کر کے مکمل فون کو سکرین میں بدل دیا جائے گا

ویڈیوز سے پیسے کما کر6 سالہ بچی نےایک ارب کی عمارت خرید لی دنیا بھر میں درجنوں افراد گھر بیٹھے دولت سمیٹ رہے ہیں

Tuesday, July 30, 2019

بینک صارفین دھوکے بازوں اورفراڈیوں سے ہوشیار رہیں فون پر بینک کا نمائندہ پاسورڈ پوچھے تو مت بتائیں، اسٹیٹ بینک

بینک صارفین دھوکے بازوں اورفراڈیوں سے ہوشیار رہیں فون پر بینک کا نمائندہ پاسورڈ پوچھے تو مت بتائیں، اسٹیٹ بینک

آغا سراج درانی بھی جعلی اکائونٹس کیس میں ملوث نکلے منی لانڈرنگ اور کرپشن کے علاوہ جعلی اکاﺅنٹ کیس میں بھی کارروائی کا فیصلہ

ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے کفن میں بھی جیبیں لگی ہیں،یہ مر جائیں گے پیسے نہیں دیں گے مولانا فضل الرحمان شوق سے اسلام آباد آئیں مگر آئین میں ترمیم کاخیال ذہن سے نکال دیں، ... مزید

آج قوم متحد ہے، سیاسی اور عسکری قوتیں بھی ایک صفحے پر ہیں شرپسند قوتیں کبھی بھی اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتیں،اعجاز شاہ

مریم اورنگزیب کو نوکری بچانے کیلئے شور کرنا پڑتا ہے الٹاچور کوتوال کو ڈانٹے،ن لیگ ہمیں کہتی ہے کہ ہم مقدمہ کریں، شہبازگل

اپوزیشن کے احتجاج کا مقصد احتساب سی بچنا ہے ، فواد

پیپلز پارٹی پی ایم ایل ( ن)کی قیادت بدعنوانی کے الزامات باعث جیل میں ہے، مراد سعید

اسلامی تعلیمات اور آئین پاکستان کے مطابق اقلیتوں کو مکمل تحفظ حاصل ہے، چیئرمین پاکستان کونسل فار سوشل ویلفیئر اینڈ ہیو من رائٹس

پاکستان گلوز ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام سیالکوٹ میں تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا

حکومت ٹیکس پالیسی 2018ء پر سختی سے کاربند ہے،اسسٹنٹ کمشنر انلینڈ ریونیو سیالکوٹ

تحریک انصاف کی قیادت ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور میرٹ کے فروغ کے لئے کوشاں ہے،سینئر رہنما تحریک انصاف چودھری ممتاز باجوہ

ماڈل کورٹ سیالکوٹ نے فوجداری مقدمات کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرکے 12روزمیں 169مقدمات کا فیصلہ کیا سیالکوٹ کی ماڈل عدالت صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ فیصلے کرنے والی عدالت ... مزید

وزیراعلیٰ جام کمال خان کی زیر صدارت اجلاس میں بلوچستان عوامی انڈومنٹ فنڈ کی گزشتہ مالی سال میں مختص کئے گئے فنڈز کے فوری اجراء کی منظوری

صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو کا کوئٹہ میزان چوک پر بم دھماکے کی شدید مذمت

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان اور صوبائی کابینہ کی کوئٹہ میں میزان چوک کے قریب بم دھماکے کی شدید مذمت

تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری جنرل عامر محمود کیانی کا کوئٹہ دہشت گردی میں معصوم لوگوں کی شہادت پر گہرے دکھ کا اظہار

وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات کی کوئٹہ دھماکے کی شدید مذمت ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی شہداء کے درجات کی بلندی اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کیلئے دعا

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی کوئٹہ میں دھماکے کی شدید مذمت

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں کے ٹیرف کے لحاظ سے رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ فعال صارفین کے اعداد و شمار جاری کر دیئے

چیئرمین سینیٹ کا کوئٹہ بم دھماکے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر گہرے دکھ اور افسوس وتعزیت کا اظہار

اوگرا نے اگست کیلئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردوبدل پر نظرثانی کیلئے سمری پٹرولیم ڈویژن کو ارسال کر دی

بابا گرونانک کی 550 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کیلئے 500 بھارتی سکھ یاتریوں کا وفد پاکستان پہنچ گیا

Monday, July 29, 2019

بلوچستان کے نوجوان اپنی تمام تر توجہ اور صلاحیتیں تعلیم پر مرکوز رکھیں،چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اختر حسین لانگو

قلعہ عبداللہ کی خوبصورتی کی بحالی کیلئے تجاوزات ،غیر ضروری پارکنگ کاخاتمہ کرینگے ،ڈپٹی کمشنر قلعہ عبداللہ شفقت انور شاہوانی

تاجروں اورصنعت کاروں کا ملکی معیشت کی ترقی میں اہم کردار ہے ، موجودہ حکومت تمام ممکنہ جائز سہولیات فراہم کرنے پر بھرپور توجہ دے رہی ہے، گورنر بلوچستان امان اللہ خان یاسین ... مزید

بلوچستان میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعلیم و ہنر کو سماجی اور خاص طور سے مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق بنایا جانا وقت کا اہم تقاضا ہے،گورنر بلوچستان امان اللہ خان یاسین زئی

ریسرچ کے ذریعہ محکمہ بلوچستان کے موزوں موسموں کے مطابق کم پانی کے استعمال والی زیادہ پیداوار کی حامل نئی فصلیں متعارف کرائے، زمینداروں کی رہنمائی کرتے ہوئے پھولوں کی ... مزید

اسحاق ڈار کا جو گھر ضبط کیا گیا ہے وہ انہوں نے سیاست میں آنے سے پہلے خریدا تھا: علی ڈار ہم اسی گھر سے سکول جاتے تھے اور یہ گھر والد نے ہماری والدہ کو ہبہ کیا ہوا ہے: صاحبزادہ ... مزید

مولانا فضل الرحمان کو حکومت کیخلاف تحریک کیلئے افغانستان سے مدد حاصل ہوگئی مولانا کے حکومت کیخلاف مارچ کیلئے وزیرستان میں کافی کام کیا جا رہا ہے، احتجاج پرامن نہیں ہوگا، ... مزید

ویرات کوہلی، روہت شرما تنازعہ بھارتی ٹیم کیلئے بڑی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے دونوں سینئر کھلاڑیوں کے درمیان جاری تنازعہ جلد حل نہ ہوا تو دونوں میں سے کسی ایک کھلاڑی کو ... مزید

ویرات کوہلی اور روہت شرما کے درمیان تنازع، کوہلی بھی بول پڑے جھوٹی باتوں کو قابلِ یقین بنایا جا رہا ہے، ان خبروں میں کوئی سچائی نہیں ہے: بھارتی کپتان

ضلعی انتظامیہ کی اشیاء خوردونوش کی فراہمی سے متعلق منڈیاں اور جناح آباد میں کارروائی صفائی و ستھرائی نہ ہونے سمیت ریٹ لسٹ کی خلاف ورزی کرنے والے دکانداروں کے خلاف کارروائی ... مزید

ضلعی حکومت نے تربیلا جھیل میں ملاحوں پر 60 روز کیلئے دفعہ 144 نافذ کر دی

ڈپٹی کمشنر ہری پور کی خصوصی ہدایت پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کا غازی تربیلہ روڈ پر پٹرول پمپوں کا معائنہ

بٹگرام میں یوم شہدائے پولیس 4 اگست کو پورے عقیدت و احترام سے منایا جائے گا

تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح اضافہ کے بعد لیول 1525.75 فٹ ہو گئی، بجلی کی پیداوار 3468 میگاواٹ تک پہنچ گئی

یوم شہدائے پاکستان پولیس کے حوالے سے شہداء پولیس کو خراج تحسین پیش کرنے کا سلسلہ جاری

ایبٹ آباد پریس کلب کا جنرل باڈی اجلاس، ترمیم شدہ نئے آئین کی منظوری اورر نئی ممبر شپ کیلئے درخواستیں طلب

ضلعی انتظامیہ نے سجی کورٹ حویلیاں میں واقع آبشار کو انسانی جانوں کیلئے خطرناک اور جان لیوا قرار دیدیا

شہداء پولیس کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے پولیس لائنز مانسہرہ میں تقریب کا انعقاد، ڈی آئی جی ہزارہ مہمان خصوصی تھے ہم شہیدوں کے خون کو راہیگاں نہیں جانے دیں گے، پاکستان ... مزید

ضلعی انتظامیہ کی (ن) کے ماڈل ٹائون سیکرٹریٹ کے باہر بنائے گئے شیڈختم کرا نیکی کوشش ،رہنمائوں اور کارکنوںکا احتجاج

/’’سب کو اندر آنے دیں ‘‘ ظ*وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے گورنمنٹ ہائوس مری کے دروازے عوام کے لئے کھلوا دئیے

چ*ڈیر ہ ، انٹر میڈیٹ اینڈ سکینڈر ی ایجوکیشن کی2019 کے نتائج کا اعلان

# مون سون کی ممکنہ طوفانی بارشیں، ممکنہ طغیانی سے پیدا شدہ ہنگامی صورتحال سے موثر طور پر نمٹنے کیلئے تمام محکمے تیاریاں مکمل رکھیں،صوبائی وزراء

ض*عمران خان حکومت دن بدن ’’ یزیدی لشکر ‘‘ کا روپ دھار رہی ہے،ملک شکیل اعوان ٴْنواز شریف کا اے سی اور ٹی وی بند کرنے والوں کا بس چلے تو وہ انکا ’’پانی‘‘ بھی بند کردیں ... مزید

Sunday, July 28, 2019

پروفیسر ڈاکٹر سید منظور حسین شاہ نے بحیثیت وائس چانسلر ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ کا چارج سنبھال لیا

ہزارہ یونیورسٹی کے سبکدوش وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد ادریس نے نئے وی سی پروفیسر ڈاکٹر سید منظور حسین شاہ کے حوالہ کر دیا

اپنے اردگرد ماحول کا احوال ٹویٹ کرنے والا درخت ایکسپریس اردو

میسا چیوسیٹس: امریکا میں ایک ایسا درخت ہے جس پر ان گنت سینسر لگے ہیں۔ یہ درخت ماحولیات اور آب و ہوا میں تبدیلی کا احوال ٹویٹ کرتا رہتا ہے۔

شاہِ بلوط کا یہ درخت میساچیوسیٹس کے ایک تحقیقی پارک میں موجود ہے۔  اس پر ایک خاتون مصنف جیسیا لی ہیسٹر نے ان گنت سینسر لگوائے ہیں جسے ناردرن ایریزونا یونیورسٹی کے طالبعلم ٹِم ریڈمشر نے تیار کیا ہے۔ 85 فٹ طویل یہ درخت اطراف کے ماحول کو نوٹ کرتا ہے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا احوال ٹویٹ کرتا رہتا ہے۔ حقیقی وقت میں نمی، درختوں میں پانی کے بہاؤ، تنے اور پتوں کی معلومات اور دیگر ڈیٹا بھیجتا رہتا ہے۔

درخت کی معلومات اگرچہ عملہ ٹویٹ کرتا ہے لیکن ٹویٹس پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ درخت خود اپنا ماجرا سنا رہا ہے۔ مثلاً ایک ٹویٹ میں درخت نے بتایا کہ،’ اس مہینے میری شاخوں میں 0.278 ملی میٹر اور تنے کے گھیر میں 0.256 ملی میٹر اضافہ ہوا ہے۔

ایک اور ٹویٹ میں درخت اپنی سالانہ کارکردگی بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ اس موسمِ گرما میں میرا تنا مجموعی طور پر 1.5 ملی میٹر بڑھا ہے ۔ میرے درخت کے دائرے اب سیاہی مائل رنگت اختیار کررہے ہیں کیونکہ ان کے اندر کاربن کی مقدار بڑھی ہے۔ سائنسدانوں نے اس پورے نظام کے ذریعے درخت کو احساس اور آواز دینے کی کوشش کی ہے۔ ماہرین اس معلومات میں کسی طرح کی کمی بیشی نہیں کرتے لیکن اس کی معلومات ہارورڈ فاریسٹ آرکائیو میں بھی جمع ہوتی رہتی ہے۔

مثلاً 21 جولائی کو درخت نے ٹویٹ کیا کہ’ جہاں تک مجھے یاد ہے یہ میری زندگی کا 24 واں گرم ترین دن ہے اور اس کا ریکارڈ اس جنگل کے 55 سالہ ڈیٹا میں موجود ہے۔ اسی طرح اگر گرمی بڑھ جائے اور درخت میں مائعات کا بہاؤ سست پڑجائے تو درخت گرمی کی لہر کی صدا بھی لگاتا ہے۔

اگر آپ اس درخت کے ٹویٹس پرھنا چاہتے ہیں تو @witnesstree پر اسے فالو کیجئے۔

The post اپنے اردگرد ماحول کا احوال ٹویٹ کرنے والا درخت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Gztukq
via IFTTT

مرچیں کم کھائیں، یادداشت بچائیں ایکسپریس اردو

دوحہ، قطر: ایک نئے مطالعے سے یہ عجیب و غریب نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ مرچ مصالحے والے کھانے کی مسلسل عادت آگے چل کر یادداشت میں کمی کی وجہ بن سکتی ہے۔

یہ تحقیق قطر، آسٹریلیا اور امریکا میں کی گئی جس میں 55 سال یا اس سے زائد عمر کے 4,582 چینی باشندوں کا مسلسل 1991 سے 2006 تک مطالعہ کیا گیا۔ اس طرح مجموعی طور پر یہ تحقیق 15 سال تک جاری رہی تھی۔

اس دورانیے میں کالی مرچ اور میٹھی کیپسیسم مرچ کو ہٹاکر تازہ یا سفوف کی صورت میں سرخ اور ہری مرچ کھانے والوں کا جائزہ لیا گیا۔ پورے مطالعے میں چھ مرتبہ تین تین دن کےلیے ان اقسام کی مرچ کے استعمال کرنے والوں کے ٹیسٹ کیے گئے۔ پورے 15 برس میں تمام رضاکاروں کی یادداشت اور حافظے کو مختلف ٹیسٹ سے جانچا گیا۔

اس کی تفصیلات تحقیقی جریدے نیوٹریئنٹس میں شائع کی گئی ہیں۔ ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کئی سال تک روزانہ 50 گرام مرچ کھانے والوں میں دیگر کے مقابلے میں یادداشت میں کمی کا خطرہ دوگنا ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے افراد میں سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ یہ کمی ان افراد میں زیادہ دیکھی گئی ہے جن کا باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) کم تھا لیکن زیادہ بی ایم آئی کے حامل افراد میں اس کے کم اثرات مرتب ہوئے۔

معلوم ہوا کہ زیادہ مرچیں کھانے والے افراد کی آمدنی کم، بی ایم آئی کم اور وہ دیگر کے مقابلے میں زیادہ کام کرنے والے اور پھرتیلے ثابت ہوئے تھے۔ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ تعلیمی استعداد کم یا زیادہ مرچ کے استعمال کی وجہ بھی ہے تاہم ماہرین نے کہا ہے کہ اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

قطر یونیورسٹی کے پروفیسر زیومن شائی نے کہا ہے کہ مرچیں جسمانی چربی گھلاتی ہیں، وزن گھٹاتی ہیں اور بلڈ پریشر کو قابو میں رکھتی ہیں۔ لیکن عمررسیدہ افراد میں یادداشت کی کمی کی وجہ بھی بن سکتی ہے۔

اس تحقیقی سروے سے یہ تو معلوم ہوگیا کہ مرچوں سے حافظہ کمزور ہوتا ہے لیکن اس کی سائنسی وجہ اب تک معلوم نہیں ہوسکی ہے۔ ماہرین اگلے مرحلے میں مرچوں اور یادداشت کے درمیان تعلق کی وضاحت کرنے پر مزید غور کریں گے۔

The post مرچیں کم کھائیں، یادداشت بچائیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2yo5dco
via IFTTT

پاکستانی سائنسدانوں نے سائیکلوپیا مرض کا جانور ماڈل تیار کرلیا ایکسپریس اردو

 کراچی: پاکستانی ماہرین نے انسانی پیدائشی نقص پر مبنی ایک جانور کا ماڈل تیار کیا ہے جس سے اس مرض کو سمجھنے میں غیرمعمولی مدد ملے گی۔

اس پیدائشی نقص کو سائیکلوپیا کہا جاتا ہے جس کا ماڈل عام پھل مکھی میں بنایا گیا ہے اور اب یہ مکھی عین انسانی پیدائشی نقص کا ایک چھوٹا ماڈل ہے۔

یہ ماڈل ڈاکٹر مشتاق حسین اور ان کی پوسٹ گریجویٹ شاگرد ثانیہ شبیر اور فوزیہ رضا نے تیار کیا ہے۔ ان کا تعلق ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسِس کے انسٹی ٹیوٹ آف بایوٹیکنالوجی اینڈ بایومیڈیکل سائنسِس کی بایوانفارمیٹکس اور سالماتی ادویہ کی تجربہ گاہ سے ہے۔

ڈاکٹر مشتاق حسین اور ان کی ٹیم نے پھل مکھی میں ماڈل بنایا ہے جس کا حیاتیاتی نام ڈروزوفیلا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انسان کے 75 فیصد جین ڈروزوفیلا میں پائے جاتے ہیں۔ اسی بنا پر انسانی بیماریوں کی آزمائش کے لیے پھل مکھی یا ڈروزوفیلا ایک بہترین جانور ثابت ہوئی ہے۔ اب تک ماہرین اس مکھی پر 150 سے زائد امراض پیدا کرکے انسانی بیماریوں کی تحقیق آگے بڑھا چکے ہیں۔ ان میں زیادہ تر جینیاتی امراض ہے۔ اسی بنا پر تجربہ گاہوں میں چوہے کے ساتھ ساتھ پھل مکھی بھی ایک بہت اہم تحقیقی معاون سمجھی جاتی ہے۔

چند ماہ قبل یونیورسٹی آف جنیوا میڈیکل اسکول کے ماہرینِ جینیات اور لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسس، جامشورو کے ماہرین نے کئی پاکستانی خاندانوں کے ایک اہم جین ’ مارک تھری‘ میں تبدیلی اور اس سے آنکھوں کے ڈیلوں کے خاتمے کے درمیان تعلق بھی دریافت کیا تھا۔

پاکستان میں کئی ایسے افراد دیکھے گئے  جن کی آنکھوں کے ڈیلے دھیرے دھیرے سکڑ کر ان میں اندھے پن کی وجہ بن رہے تھے۔ اسی بنا پر اس پراسرار مرض کو سمجھنا بہت ضروری تھا۔ ماہرین کا قیاس تھا شاید یہ مرض ایک جین ’ مارک تھری‘ کی خرابی یا اس میں نقص کی وجہ سے پیدا ہورہا تھا۔

اس کے لیے پھل مکھی یعنی ڈروزوفیلا کو ہی آزمایا گیا۔ ماہرین نے انتہائی احتیاط سے ڈرزوفیلا کے مارک تھری جین میں نقائص یا تبدیلیاں پیدا کیں۔ اس کا نتیجہ وہی برآمد ہوا جس کی توقع کی جارہی تھی۔ پھل مکھی کے آنکھوں کی ڈیلوں میں کمی اور نابینا پن دیکھا گیا۔

اسی بنا پر دنیا بھر کی تجربہ گاہوں میں چوہوں کے ساتھ ساتھ پھل مکھی کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

اب ڈاکٹر مشتاق حسین کی تجربہ گاہ میں شیشے کے بکس میں ایک مکھی رینگتی اور پرواز کرتی دکھائی دیتی ہے۔ اگر اسے غور سے دیکھا جائے تو حیرت کی انتہا نہیں رہتی کیونکہ اس مکھی کی دائیں اور بائیں آنکھوں کی بجائے سر کے مرکز میں صرف ایک ہی آنکھ ہے جو اسے سائیکلوپیا بناتی ہے۔

یہ مکھی مسلسل نسل خیزی کے دیگر طریقوں سے گیارہویں پشت سے پیدا ہوئی ہے۔ اس کی پیدائش کا طریقہ اب پیٹینٹ کرایا جائے گا۔ اس طرح پاکستانی ماہرین نے سائیکلوپیا مکھی کی پیدائش ممکن بنادی ہے۔

واضح رہے کہ انسانی بچے بہت سے نقائص کے ساتھ بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ اندازاً ہر لاکھ بچوں میں سے ایک بچہ سائیکلوپیا کے پیدائشی نقص کے ساتھ جنم لے سکتا ہے۔ اس طرح کے بچوں کی دونوں آنکھیں نہیں ہوتیں اور پیشانی کی اطراف ایک آنکھ یا دوحصوں میں منقسم ایک آنکھ ہوسکتی ہے۔ ایسے نومولود کے منہ اور ناک یا تو مکمل طور پر نہیں بنے ہوتے یا پھر غائب ہوتے ہیں ۔ اسی بنا پر ان اپنی پیدائش کے صرف چند گھنٹوں بعد ہی یہ دم توڑدیتے ہیں۔

 

سائیکلوپیا بچے اکثر مردہ پیدا ہوتے ہیں اور اسی بنا پر ان میں اس کیفیت کی درست وجہ جاننے میں دقت پیش آتی رہی ہے جس کے تحت اب مکھی ماڈل بنایا گیا ہے۔ بعض افراد کا خیال ہے کہ دورانِ حمل ذیابیطس، بعض زہریلے مرکبات اور دیگر وجوہ سے بھی سائیکلوپیا بچے پیدا ہوسکتے ہیں۔ سالماتی سطح پر بعض پروٹین کے غلط اظہاریوں (ایکسپریشن) کی وجہ سے بھی یہ نقص سامنے آتیا ہے۔

ڈاکٹر مشتاق حسین اور ان کی ٹیم کا خیال ہے کہ اگر مزید سائیکلوپیا مکھیاں بن سکیں تو اس سے نقص کے جینیاتی اور فعلیاتی تفصیل جاننے میں بہت مدد مل سکے گی۔

’ اگر یہ تبدیل شدہ سائیکلوپیا مکھی یکساں جینیاتی خواص کی حامل مزید سائیکلوپیا مکھیوں کو جنم دیتی ہے تو اس سے سائیکلوپیا مکھی کا پورا جینوم تیار کرنا ممکن ہوگا ۔ اس کی بدولت سائیکلوپیا کیفیت کو سمجھنے میں مدد ملے گی،‘ ڈاکٹر مشتاق حسین نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا۔

ماہرین سائیکلوپیا مکھی کے جین کو پڑھ کر اس کا موازنہ صحت مند اور نارمل مکھی کے جین سے کریں گے اور اس طرح سائیکوپیا کے مسئلے کو تفصیل سے سمجھنے میں مدد ملے گی۔

دوسری جانب ڈاکٹر مشتاق حسین کی ٹیم نے اپنے تجربات کے دوران بعض دلچسپ باتیں بھی نوٹ کی ہیں۔ بعض ڈروزوفیلا مکھیوں کے رنگ مکمل طور پر الٹ گئے، کچھ مکھیوں کی آنکھوں کا رنگ بھی بدلا اور بعض مکھیاں ایسی پیدا ہوئیں جن کے منہ کے دہانے مکمل طور پر غائب تھے۔

پاکستان میں بھی سائیکلوپیا بچے پیدا ہوتے ہیں لیکن ملک میں رجسٹری نہ ہونے کی وجہ سے ان کی درست تعداد معلوم کرنا قدرے مشکل ہے۔

’پاکستان میں پیدائشی نقائص رپورٹ نہیں ہوتے کیونکہ اس سے شرم اور ندامت جیسے احساسات وابستہ ہوتے ہیں۔ بسا اوقات ماں اور خاندان کو اس کے لیے طنز کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے،‘ ڈاکٹر مشتاق نے بتایا۔

The post پاکستانی سائنسدانوں نے سائیکلوپیا مرض کا جانور ماڈل تیار کرلیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2yjdWN0
via IFTTT

حکومت کے ادارہ جاتی اصلاحات کے پروگرام میں متعدد خامیاں ایکسپریس اردو

 اسلام آباد:  عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے جاری کردہ حالیہ رپورٹ میں لفظ SOE ( سرکاری ملکیتی ادارے ) 40 سے زائد بار استعمال ہوا ہے۔

یہ رپورٹ آئی ایم ایف بورڈ کو پاکستان کے توازن ادائیگی میں معاونت کی منظوری کے لیے جمع کرائی گئی تھی۔ رپورٹ میں لفظ SOE کی تکرار سے یہ مطلب بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ آئی ایم ایف اور حکومت ریاستی ملکیتی اداروں میں اصلاحات لانے میں سنجیدہ ہیں۔تاہم رپورٹ میں حکومت کی جانب سے ظاہر کیے گئے عزائم ( کمٹ منٹس ) کا بہ غور جائزہ لینے سے ریاستی اداروں کے اصلاحی ایجنڈے میں متعدد خامیاں سامنے آتی ہیں۔ رپورٹ میں صراحت کردہ کلیدی اقدام میں سرکاری اداروں کو مختلف زمروں ( کیٹیگریز) میں تقسیم کرنا، نئے آڈٹ کے ذریعے شفافیت بڑھانا، کچھ اداروں کی نجکاری اور اداروں کے لیے لیگل فریم ورک کو جدید بنانا شامل ہیں۔ ان اقدام میں بہت سی خامیاں اور کمزوریاں ہیں۔ سب سے پہلے آڈٹ کا اقدام بالکل بے مصرف اور صرف باکس کو چیک کرنے کے مترادف ہے۔

پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل ملز کا آڈٹ باقاعدگی سے ہوتا ہے۔ اس کی رپورٹس نجکاری کمیشن کے پاس دستیاب ہوں گی۔ نجکاری کا عمل شروع کرنے کی عجلت میں حکومت نے ان کمپنیوں کو فراموش کردیا ہے جنھیں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اصل ایشو پاور سیکٹر کی ڈسٹریبیوشن اور پاور جنریشن کمپنیوں، پی آئی اے، پاکستان ریلوے، کموڈیٹ مارکیٹ آپریشن اور اسٹیل ملز کا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان اداروں کی نجکاری یا پبلک پراؤیٹ پارٹنرشپ کے لیے کوئی روڈمیپ نہیں دیا گیا۔آئی ایم ایف کی رپورٹ میں نئے ایس او ای قانون کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ یہ قانون کیوں ضروری ہے۔

The post حکومت کے ادارہ جاتی اصلاحات کے پروگرام میں متعدد خامیاں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ygjIPJ
via IFTTT

تقسیم آب کا ابتر نظام : کراچی ضرورت کے مطابق پانی سے محروم ایکسپریس اردو

کراچی:  تقسیم آب کے ابترنظام کے باعث کراچی ضرورت کے مطابق پانی سے محروم ہے، ضرورت918ایم جی ڈی ہے جبکہ سپلائی صرف406ایم جی ڈی ہے، پمپ ہاؤسز تک 580ایم جی ڈی پانی پہنچتا ہے،30فیصدپانی ضائع ہوجاتاہے، سندھ حکومت اور واٹر بورڈ کی غفلت کے باعث فراہمی آب کا نظام13سال سے اپ گریڈ کیا گیا اورنہ ہی اضافی پانی کی کوئی اسکیم مکمل کی جاسکی۔ ایم ڈی واٹر بورڈ کاکہناہے کہ شارٹ فال512ایم جی ڈی ہے، وزیر بلدیات سعید غنی فراہمی آب منصوبوں کی تکمیل میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں۔

کراچی کے شہری گذشتہ کئی سال سے اپنے جائز منظور کردہ پانی کے شیئر سے محروم ہیں اور ایک عشرے سے پانی کے بدترین بحران کا شکار ہیں۔ دریائے سندھ اور حب ڈیم سے کراچی کو مجموعی طور پر 750ملین گیلن پانی یومیہ فراہم ہونا چاہیے تاہم واٹر بورڈ کے نہری نظام میں گنجائش نہ ہونے، دھابے جی پمپمنگ اسٹیشن کے پمپس میں استعداد کی کمی کی وجہ سے کراچی کے پمپ ہاؤسز تک صرف580ایم جی ڈی (million galon per day)پانی پہنچتا ہے۔ واٹر ڈسٹری بیوشن سسٹم میں30فیصد پانی کے زیاںکی وجہ سے 174ایم جی ڈی پانی کراچی کو نہیں مل پاتا جس کے سبب صرف406 ایم جی ڈی واٹر بورڈکے سسٹم میں باقی رہ جاتا ہے۔

سندھ حکومت اور واٹر بورڈ کی غفلت کی وجہ سے فراہمی آب کا نظام 13سال سے اپ گریڈ کیا گیا اورنہ ہی اضافی پانی کی کوئی اسکیم مکمل کی جاسکی ہے۔ واٹر بورڈ انتظامیہ اپنے کمزور ڈسٹری بیوشن سسٹم کے ذریعے2کروڑ سے زائد آبادی والے شہر میں پانی کی یہ معمولی مقدار گھریلو، کمرشل و انڈسٹریل صارفین میں تقسیم کرتی ہے جس کی اگرچہ کوئی جامع و مستند رپورٹ نہیں بنائی گئی ہے تاہم پانی کی فراہمی بیشتر بلک کنزیومرز کو میٹرز نصب کرکے اور 6 اضلاع کے تمام رہائشی علاقوں یعنی ریٹیل کنزیومر کو بغیر میٹر کی جاتی ہے، کچھ بلک کنزیومر کوبھی بغیر میٹر پانی کی فراہمی کی جاتی ہے، وہ رہائشی و کمرشل علاقے جہاں بغیر میٹر پانی کی فراہمی کی جاتی ہے وہاں پانی کی مقدار معلوم کرنے کے لیے پائپ کے سائز، پانی کی رفتار اور ٹائمنگ کا فارمولا استعمال کیا جاتا ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت واٹر بورڈ کے پائپ لائن سسٹم سے کراچی کے صنعتی و کمرشل کنزیومرز کو 32.5ایم جی ڈی اور کراچی کے شہریوں کو355.5ایم جی ڈی پانی فراہم ہورہا ہے۔

شہر میں ٹینکرز سروسز کے ذریعے 18ایم جی ڈی پانی رہائشی علاقوں اور کمرشل مقامات کے لیے فراہم ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ٹینکرز سروسز کے ذریعے رہائشیوں کو صرف8ایم جی ڈی پانی فروخت کیا جاتا ہے جبکہ بقیہ10ایم جی ڈی پانی کمرشل کنزیومرز کو فروخت ہوتا ہے۔ اس طرح کراچی کے شہریوں کو مجموعی طور پر 363.5ایم جی ڈی پانی گھریلو استعمال کے لے فراہم کیا جارہا ہے اور کمرشل و انڈسٹریز کو42.5ایم جی ڈی پانی فراہم ہورہا ہے۔ واٹربورڈکے ایک انجینئر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ واٹر بورڈ کا فراہمی آب کا پورا نظام میٹر کے تحت نہیں ہے اس لیے بالکل درست اعداد وشمار کا تعین مشکل ہے میٹرزbaseبلک کنزیومرز میں کمرشل و انڈسٹریز، وفاقی و صوبائی سرکاری ادارے، رہائشی علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، کنٹونمنٹ بورڈز، پرائیویٹ سوسائٹیز، ہائی رائز بلڈنگز، سرکاری رہائشی کالونیاں وغیرہ شامل ہیں، ان بلک کنزیومرز کو پائپ لائن سسٹم سے126ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جارہا ہے اور6اضلاع کے18ٹاؤن کے رہائشیوں کو پائپ لائن سسٹم سے262ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جارہا ہے۔

ان18ٹاؤن میںکہیں بھی میٹرز نصب نہیں ہیں، بلک کنزیومرزکوکمرشل اور رہائشی میں اگر مزید تقسیم کیا جائے تو کمرشل و انڈسٹریز کو 32.5ایم جی ڈی اور رہائشیوں علاقوں کو93.5ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ گذشتہ دنوں وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے کراچی میں پانی کے بحران کے حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کی کانفرنس طلب کی تھی جس میں فراہمی آب کے جو اعداد وشمار پیش کیے گئے ہیں اس کے تحت 406ایم جی ڈی پانی فراہم ہورہا ہے تاہم اس کانفرنس میں سندھ حکومت نے یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ پانی کے اس بحران کا ذمے دار کون ہے۔

اتنا عرصہ گذر جانے کے باوجود فراہمی آب کا نظام بہتر کیوں نہیں کیا جارہا، سابق صدر جنرل پرویزمشرف کے دور میں وفاقی حکومت کی معاونت سے سابق ناظم مصطفیٰ کمال کی زیرنگرانی فراہمی آب کا عظیم منصوبہK-III تقریباً13سال قبل مکمل کیا گیا جس کی بدولت100ایم جی ڈی پانی کراچی کو فراہم کیا جارہا ہے، اس کے بعد فراہمی آب کا کوئی منصوبہ ابھی تک مکمل نہیں کیا گیا، 65ایم جی ڈی فراہمی کا منصوبہ ، دھابے جی پر نئے پمپ ہاؤس کا منصوبہ2سال سے سست روی کا شکار ہے، حب کینال کی تعمیر ومرمت کا کام آج تک شروع نہیں ہوسکا، کینجھر جھیل سے پانی کی مقدار بڑھانے کے لیے سائفن ون سے دھابے جی پمپ ہاؤس تک 13کلومیٹر کی لائن کی تنصیب کرنی ہے۔

اس پر ابھی تک پی سی ون ہی تشکیل نہیں دیاجاسکا، پانی چوری اور لائنوں میں رساؤ کو ختم کرنے کے لیے بھی کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا جارہا۔ پیپلزپارٹی نے وفاق میں 5 سال حکومت کی اور سندھ میں11سال سے حکومت کررہی ہے اس دوران کراچی کے لیے ایک قطرہ پانی کا اضافہ نہیں ہوسکا۔واٹر بورڈ سے ملنے والے دستاویزات اور متعلقہ انجیئنرز کے مطابق کینجھر جھیل کے ذریعے واٹر بورڈ کا منظور کردہ کوٹا650ایم جی ڈی ہے تاہم نہری نظام میں گنجائش نہ ہونے اور دھابے جی اسٹیشن میں پمپس میں استعداد کی کمی کی وجہ سے کراچی کے گیٹ وے تک صرف494ایم جی ڈی پانی فراہم ہورہا ہے جس میں دھابے جی پمپنگ اسٹیشن کو 450ایم جی ڈی ، گھارو پمپنگ اسٹیشن کو30ایم جی ڈی، نہری نظام کے ذریعے براہ راست پاکستان اسٹیل مل کو 9ایم جی ڈی اور پورٹ قاسم اتھارٹی کو5ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جا رہا ہے، گذشتہ مہینوں بلوچستان میں بارشوں کے سبب حب ڈیم کا لیول300فٹ تک بڑھ گیا ہے ، اس ذخیرے کی وجہ سے تقریباً 4سال کے بعد حب ڈیم سے کراچی کے لیے100ایم جی ڈی پانی فراہم کیا جارہا ہے لیکن حب کینال کی خستہ حالی اور ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے بڑی مقدار میں پانی ضائع ہوجاتا ہے۔

ایم ڈی واٹر بورڈ اسد اللہ خان نے پانی کے بحران کے حوالے سے ایکسپریس کو بتایاکہ واٹر بورڈشہر سے پانی کا بحران ختم کرنے میں سنجیدہ ہے،کراچی کے لیے پانی کی ضرورت 918ایم جی ڈی ہے اور شارٹ فال512ایم جی ڈی ہے۔ ایم ڈی واٹر بورڈ نے کہاکہ دھابے جی پمپ ہاؤس کی استعداد بڑھانے کے منصوبے پر ترقیاتی کام تیزی سے جاری ہے، یہ منصوبہ رواں سال ستمبر میں مکمل کرلیا جائے گا جس کے بعد 40ایم جی ڈی پانی کی فراہمی میں بہتری آئے گی، 65ایم جی ڈی منصوبے کے2ترقیاتی پیکجز پر کام جاری ہے اور نظرثانی شدہ پی سی ون سندھ حکومت کو منظوری کے لیے بھیجی جاچکی ہے جیسے ہی منظوری ملتی ہے بقیہ پیکیجز پر بھی ترقیاتی کام شروع کردیا جائے گا اور کوشش کی جائے گی کہ جلد یہ منصوبہ مکمل کرلیا جائے۔

اسد اللہ خان کا کہنا ہے کہ وزیر بلدیات سعید غنی فراہمی آب کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں بالخصوص ان کی ہدایت پر کینجھر جھیل سے ملنے والے پانی کی مقدار کو بڑھانے کے لیے سائفن ون سے دھابے جی پمپنگ اسٹیشن تک13کلومیٹرٹرانسمیشن لائن کی تنصیب کے لیے پی سی ون بنایا جارہا ہے جسے30جولائی تک سندھ حکومت کو بھجوادیا جائے گا۔

The post تقسیم آب کا ابتر نظام : کراچی ضرورت کے مطابق پانی سے محروم appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Mko2FP
via IFTTT

روشن آنکھیں اور دم توڑتی امیدیں ایکسپریس اردو

میری گلی کے نکڑ پر ایک انتہائی نحیف و نزار بزرگ سبزی کا ٹھیلا لگاتے ہیں۔ اُن کی جھکی کمر، زرد آنکھیں، لرزتے ہونٹ، جھریوں بھرا چہرہ اور کپکپاتے ہاتھ، زندگی کی جدوجہد، مشقت اور کوششوں کی داستاں کا عکاس ہیں۔ میں نے جب بھی ان کے موٹے چشمے کے اندر پتھرائی ہوئی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی، مجھے ہر بار ایک امید کا پیغام نظر آیا۔ وہ امید، جس سے پتھروں سے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں، وہ آس جو انہیں روزانہ سبزی منڈی تک لے کر جاتی ہے، زندگی کی وہ جوت جو ان کی اُکھڑتی سانسوں کو سہارا دیتی ہے۔ ان کے کپکپاتے ہاتھ جب ترازو کی جانب بڑھتے ہیں تو مجھے اپنی زندگی کے ماہ و سال اسی ترازو کے پلڑے کی مانند نظر آتے ہیں۔ نہیں معلوم کہ وہ کتنے سال سے یہاں اپنا ٹھیلا لگا رہے ہیں۔ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ وہ کل کا سورج دیکھ نہیں پائیں گے، لیکن وہ روزانہ توکل اور بھروسے کے ساتھ پھر اپنے ٹھیلے پر موجود ہوتے ہیں۔

انسان بچپن میں ہو یا پچپن میں، ہر گزرتا دن اس کی زندگی میں مایوسی اور اکیلے پن کے گھٹاٹوپ اندھیرے لے کر آتا ہے۔ اس کے ہر دن کا اختتام حوصلہ شکن ہوتا ہے۔ لیکن اگلی ہی صبح ان تاریکیوں کا سینہ چاک کرتے ہوئے ایک نیا عزم، حوصلہ اور امید اس کے منتظر ہوتے ہیں۔

بچپن جہاں شرارتی پن، مستقبل کے خوف سے مبرا اور نتائج سے بے پرواہی کا نام ہے۔ جوانی کا زمانہ جوش و جذبات، انسانی اعضا اور اعصاب کی قوتوں کے حوالے سے عروج کی علامت ہوتا ہے اور اس مرحلے پر انسان کو اپنے مستقبل کی فکر بھی لاحق ہوتی ہے۔ وہیں بڑھاپا زندگی کے گھڑیال کی گرتی سوئیوں کی ٹِک ٹِک سننے میں گزر جاتا ہے۔ بڑھاپے میں روشن آنکھیں دیوانے کا خواب معلوم ہوتی ہیں۔ اس عمر میں انسان کے چہرے پر خوشی کے بجائے فکر نمایاں ہوتی ہے۔ بالوں کی سفیدی میں گزرے لمحات کے تجربات اور آئندہ زندگی کی فکر جھلک رہی ہوتی ہے۔

گزشتہ چند دنوں سے یہ بڑھاپا میرے اعصاب پر سوار ہے۔ گویا اس نے تو میری راتوں کی نیند غارت کردی ہے۔ چند روز قبل سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر فیس ایپ کے فلٹرز کا خوب چرچا رہا۔ ہر فرد اپنے آپ کو مستقبل کے آئینے میں دیکھنے کی جستجو میں مگن تھا۔ ہر فرد نے اس فلٹر کے ذریعے اپنی شبیہہ بدل کر اپنی عمرِ رواں کو ماضی اور مستقبل کے کینوس پر رکھ کر دیکھا۔ عمر کے اس شوخ و چنچل حصے میں، ٹُکر ٹُکر اپنی بوڑھی آنکھوں کو دیکھنا بظاہر جس قدر دلکش اور دلفریب نظر آتا ہے، اس کی حقیقیت اتنی ہی بھیانک ہے۔

میرے نزدیک بڑھاپا محض جھریوں کا چہرے پر وارد ہوجانا نہیں ہے۔ ناں ہی بالوں میں چاندی اتر آنے کو بڑھاپا کہتے ہیں۔ بڑھاپا تو تھکی ہوئی شکست خوردہ سوچوں کے بھنور کا نام ہے۔ جس میں انسان کی تمام سانسیں ڈوبتی چلی جاتی ہیں۔ نہیں معلوم ہوتا کہ کب زندگی کی شام ہوجائے۔

چہروں کی عمر بدلتی یہ ایپ 2017 میں تیار کی گئی، جس نے ابتدا میں نسل پرستانہ فلٹرز متعارف کرائے، جنہیں عوام نے مسترد کردیا تھا۔ تاہم چند دن قبل سے ایک بار پھر یہ ایپ دنیا بھر میں مقبول ہورہی ہے اور اس نے سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا دیا ہے۔ بڑے، بچے اور بزرگ کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں۔ کیونکہ اب انسانی نفسیات کے مطابق کمپنی نے فلٹرز شامل کرکے اپنی مقبولیت بڑھالی ہے۔ اس کے ذریعے کوئی بھی فرد مختلف فلٹرز لگا کر اپنا ماضی، حال اور مستقبل کا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔ ایک امریکی سائنسی جریدے نے انکشاف کیا ہے کہ یہ فیس ایپ 10 کروڑ سے زائد لوگ ڈاؤن لوڈ کرچکے ہیں، جبکہ 121 ممالک میں یہ ٹاپ رینکنگ ایپ کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔

یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کمپنی اس وقت تک 15 کروڑ لوگوں کی تصاویر اور ڈیٹا تک رسائی حاصل کرچکی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ کمپنی یہ ڈیٹا کبھی بھی اور کسی بھی پلیٹ فارم پر استعمال کرسکتی ہے۔ صارفین کا ذاتی ڈیٹا جہاں لیک ہوا، وہیں اس ایپ کی خرافات سے بسے بسائے گھر بھی اجڑنے لگے۔ ایک اور سائنسی میگزین نے خدشہ ظاہر کیا کہ فیس ایپ صارفین کی جاسوسی کررہی ہے۔ امریکی سینیٹر نے بھی الزام عائد کیا ہے کہ یہ روسی ایپ صارفین کی جاسوسی کررہی ہے اور انہوں نے اس پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ خواتین خوبصورتی کے معاملے میں بہت محتاط ہوتی ہیں، چاہے معاملہ شوہر کا ہو، چہرے کی خوبصورتی کا یا پھر رنگ برنگ کے پہناوے کا۔ حال ہی میں پیش آنے والا ایک واقعہ، جسے سن کر آپ محظوظ تو ہوں گے مگر قابل غور بات ہمارے رویے، طرزِ زندگی اور معیاری زندگی میں ان فیس ایپس اور ٹک ٹوک جیسی خرافات کا چپکے سے آجانا ہے۔ ایک نیوز ویب سائٹ کے مطابق گذشتہ دنوں ایک نوبیاہتا دلہن نے اپنے میاں کی بڑھاپے والی تصویر دیکھ لی۔ پھر کیا تھا، ایک ہنگامہ برپا ہوگیا، محلے، برادری اور دوستوں میں خوب شور مچا اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ پوچھنے پر جواز یہ دیا گیا کہ بیس سال بعد میں ایک ایسے بھدے چہرے والے مرد کے ساتھ کیسے گزارا کروں گی۔ اس واقعے کی آزادانہ ذرائع اور دیگر میڈیا سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے، لیکن اگر یہ معاملہ حقیقت ہے تو میرا مشورہ ہے کہ ہر مرد و خاتون کو شادی سے قبل ایک مرتبہ ضرور اس ایپ کا استعمال کرنا چاہیے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ فی الوقت معاملے کی سنجیدگی کو سمجھتے ہوئے اس فیس ایپ کو فوری بند کیا جائے، کیونکہ ہماری نوجوان نسل کو شدت پسندی، ڈپریشن، فیس بک پر دوستیوں کے توڑ جوڑ، مصنوعی شاہانہ طرز زندگی اور کئی قسم کے جدید دکھ اور ڈیجیٹل غم وقت سے قبل ہی بوڑھا کردینے کےلیے کافی ہیں۔ لیکن آپ اگر ایسی تصویروں سے خوش ہیں تو خوش رہیے۔ یہ خوشی بڑھاپے کی دشمن ضرور ہے، مگر ایک لمحے کو یہ ضرور سوچیں کہ آپ اپنی آنے والی نئی نسلوں کو وراثت میں کیا دے رہے ہیں؟ جوانی میں بڑھاپا، ٹِک ٹوک پر پندرہ سیکنڈ کی اوچھی ویڈیوز، ذہنی معذوری، فیس بک کی دوستیاں، انسٹا گرام کے فالورز یا ٹویٹر کے ہیش ٹیگ؟ اور پھر گلہ کہ آج کی مائیں کوئی قائد، کوئی اقبال، کوئی سائنسدان، کوئی قابل انجینئر کیوں پیدا نہیں کررہیں۔ تبدیلی آگئی ہے۔ آج کی ڈیجیٹل مائیں ڈیجیٹل بچوں کو جنم دے رہی ہیں، جو کوکھ سے ہی موبائل چلانے کا ہنر سیکھ کر اس دنیا میں آتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post روشن آنکھیں اور دم توڑتی امیدیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2yj7eXF
via IFTTT