Sunday, July 28, 2019

روشن آنکھیں اور دم توڑتی امیدیں ایکسپریس اردو

میری گلی کے نکڑ پر ایک انتہائی نحیف و نزار بزرگ سبزی کا ٹھیلا لگاتے ہیں۔ اُن کی جھکی کمر، زرد آنکھیں، لرزتے ہونٹ، جھریوں بھرا چہرہ اور کپکپاتے ہاتھ، زندگی کی جدوجہد، مشقت اور کوششوں کی داستاں کا عکاس ہیں۔ میں نے جب بھی ان کے موٹے چشمے کے اندر پتھرائی ہوئی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی، مجھے ہر بار ایک امید کا پیغام نظر آیا۔ وہ امید، جس سے پتھروں سے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں، وہ آس جو انہیں روزانہ سبزی منڈی تک لے کر جاتی ہے، زندگی کی وہ جوت جو ان کی اُکھڑتی سانسوں کو سہارا دیتی ہے۔ ان کے کپکپاتے ہاتھ جب ترازو کی جانب بڑھتے ہیں تو مجھے اپنی زندگی کے ماہ و سال اسی ترازو کے پلڑے کی مانند نظر آتے ہیں۔ نہیں معلوم کہ وہ کتنے سال سے یہاں اپنا ٹھیلا لگا رہے ہیں۔ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ وہ کل کا سورج دیکھ نہیں پائیں گے، لیکن وہ روزانہ توکل اور بھروسے کے ساتھ پھر اپنے ٹھیلے پر موجود ہوتے ہیں۔

انسان بچپن میں ہو یا پچپن میں، ہر گزرتا دن اس کی زندگی میں مایوسی اور اکیلے پن کے گھٹاٹوپ اندھیرے لے کر آتا ہے۔ اس کے ہر دن کا اختتام حوصلہ شکن ہوتا ہے۔ لیکن اگلی ہی صبح ان تاریکیوں کا سینہ چاک کرتے ہوئے ایک نیا عزم، حوصلہ اور امید اس کے منتظر ہوتے ہیں۔

بچپن جہاں شرارتی پن، مستقبل کے خوف سے مبرا اور نتائج سے بے پرواہی کا نام ہے۔ جوانی کا زمانہ جوش و جذبات، انسانی اعضا اور اعصاب کی قوتوں کے حوالے سے عروج کی علامت ہوتا ہے اور اس مرحلے پر انسان کو اپنے مستقبل کی فکر بھی لاحق ہوتی ہے۔ وہیں بڑھاپا زندگی کے گھڑیال کی گرتی سوئیوں کی ٹِک ٹِک سننے میں گزر جاتا ہے۔ بڑھاپے میں روشن آنکھیں دیوانے کا خواب معلوم ہوتی ہیں۔ اس عمر میں انسان کے چہرے پر خوشی کے بجائے فکر نمایاں ہوتی ہے۔ بالوں کی سفیدی میں گزرے لمحات کے تجربات اور آئندہ زندگی کی فکر جھلک رہی ہوتی ہے۔

گزشتہ چند دنوں سے یہ بڑھاپا میرے اعصاب پر سوار ہے۔ گویا اس نے تو میری راتوں کی نیند غارت کردی ہے۔ چند روز قبل سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر فیس ایپ کے فلٹرز کا خوب چرچا رہا۔ ہر فرد اپنے آپ کو مستقبل کے آئینے میں دیکھنے کی جستجو میں مگن تھا۔ ہر فرد نے اس فلٹر کے ذریعے اپنی شبیہہ بدل کر اپنی عمرِ رواں کو ماضی اور مستقبل کے کینوس پر رکھ کر دیکھا۔ عمر کے اس شوخ و چنچل حصے میں، ٹُکر ٹُکر اپنی بوڑھی آنکھوں کو دیکھنا بظاہر جس قدر دلکش اور دلفریب نظر آتا ہے، اس کی حقیقیت اتنی ہی بھیانک ہے۔

میرے نزدیک بڑھاپا محض جھریوں کا چہرے پر وارد ہوجانا نہیں ہے۔ ناں ہی بالوں میں چاندی اتر آنے کو بڑھاپا کہتے ہیں۔ بڑھاپا تو تھکی ہوئی شکست خوردہ سوچوں کے بھنور کا نام ہے۔ جس میں انسان کی تمام سانسیں ڈوبتی چلی جاتی ہیں۔ نہیں معلوم ہوتا کہ کب زندگی کی شام ہوجائے۔

چہروں کی عمر بدلتی یہ ایپ 2017 میں تیار کی گئی، جس نے ابتدا میں نسل پرستانہ فلٹرز متعارف کرائے، جنہیں عوام نے مسترد کردیا تھا۔ تاہم چند دن قبل سے ایک بار پھر یہ ایپ دنیا بھر میں مقبول ہورہی ہے اور اس نے سوشل میڈیا پر تہلکہ مچا دیا ہے۔ بڑے، بچے اور بزرگ کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں۔ کیونکہ اب انسانی نفسیات کے مطابق کمپنی نے فلٹرز شامل کرکے اپنی مقبولیت بڑھالی ہے۔ اس کے ذریعے کوئی بھی فرد مختلف فلٹرز لگا کر اپنا ماضی، حال اور مستقبل کا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔ ایک امریکی سائنسی جریدے نے انکشاف کیا ہے کہ یہ فیس ایپ 10 کروڑ سے زائد لوگ ڈاؤن لوڈ کرچکے ہیں، جبکہ 121 ممالک میں یہ ٹاپ رینکنگ ایپ کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔

یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کمپنی اس وقت تک 15 کروڑ لوگوں کی تصاویر اور ڈیٹا تک رسائی حاصل کرچکی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ کمپنی یہ ڈیٹا کبھی بھی اور کسی بھی پلیٹ فارم پر استعمال کرسکتی ہے۔ صارفین کا ذاتی ڈیٹا جہاں لیک ہوا، وہیں اس ایپ کی خرافات سے بسے بسائے گھر بھی اجڑنے لگے۔ ایک اور سائنسی میگزین نے خدشہ ظاہر کیا کہ فیس ایپ صارفین کی جاسوسی کررہی ہے۔ امریکی سینیٹر نے بھی الزام عائد کیا ہے کہ یہ روسی ایپ صارفین کی جاسوسی کررہی ہے اور انہوں نے اس پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ خواتین خوبصورتی کے معاملے میں بہت محتاط ہوتی ہیں، چاہے معاملہ شوہر کا ہو، چہرے کی خوبصورتی کا یا پھر رنگ برنگ کے پہناوے کا۔ حال ہی میں پیش آنے والا ایک واقعہ، جسے سن کر آپ محظوظ تو ہوں گے مگر قابل غور بات ہمارے رویے، طرزِ زندگی اور معیاری زندگی میں ان فیس ایپس اور ٹک ٹوک جیسی خرافات کا چپکے سے آجانا ہے۔ ایک نیوز ویب سائٹ کے مطابق گذشتہ دنوں ایک نوبیاہتا دلہن نے اپنے میاں کی بڑھاپے والی تصویر دیکھ لی۔ پھر کیا تھا، ایک ہنگامہ برپا ہوگیا، محلے، برادری اور دوستوں میں خوب شور مچا اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی۔ پوچھنے پر جواز یہ دیا گیا کہ بیس سال بعد میں ایک ایسے بھدے چہرے والے مرد کے ساتھ کیسے گزارا کروں گی۔ اس واقعے کی آزادانہ ذرائع اور دیگر میڈیا سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے، لیکن اگر یہ معاملہ حقیقت ہے تو میرا مشورہ ہے کہ ہر مرد و خاتون کو شادی سے قبل ایک مرتبہ ضرور اس ایپ کا استعمال کرنا چاہیے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ فی الوقت معاملے کی سنجیدگی کو سمجھتے ہوئے اس فیس ایپ کو فوری بند کیا جائے، کیونکہ ہماری نوجوان نسل کو شدت پسندی، ڈپریشن، فیس بک پر دوستیوں کے توڑ جوڑ، مصنوعی شاہانہ طرز زندگی اور کئی قسم کے جدید دکھ اور ڈیجیٹل غم وقت سے قبل ہی بوڑھا کردینے کےلیے کافی ہیں۔ لیکن آپ اگر ایسی تصویروں سے خوش ہیں تو خوش رہیے۔ یہ خوشی بڑھاپے کی دشمن ضرور ہے، مگر ایک لمحے کو یہ ضرور سوچیں کہ آپ اپنی آنے والی نئی نسلوں کو وراثت میں کیا دے رہے ہیں؟ جوانی میں بڑھاپا، ٹِک ٹوک پر پندرہ سیکنڈ کی اوچھی ویڈیوز، ذہنی معذوری، فیس بک کی دوستیاں، انسٹا گرام کے فالورز یا ٹویٹر کے ہیش ٹیگ؟ اور پھر گلہ کہ آج کی مائیں کوئی قائد، کوئی اقبال، کوئی سائنسدان، کوئی قابل انجینئر کیوں پیدا نہیں کررہیں۔ تبدیلی آگئی ہے۔ آج کی ڈیجیٹل مائیں ڈیجیٹل بچوں کو جنم دے رہی ہیں، جو کوکھ سے ہی موبائل چلانے کا ہنر سیکھ کر اس دنیا میں آتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post روشن آنکھیں اور دم توڑتی امیدیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2yj7eXF
via IFTTT

No comments:

Post a Comment