Sunday, October 31, 2021

پاکستان کا خوف ابھی سے انگلینڈ کے سر پر سوار ایکسپریس اردو

 دبئی:  آئی سی سی ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ میں انگلش ٹیم پر پاکستان کا خوف ابھی سے سوار ہوگیا۔

سابق کپتان مائیکل وان کا کہنا ہے کہ اس مرحلے پر صرف گرین شرٹس ہی انگلینڈ کا راستہ روک سکتے ہیں، دونوں ٹیموں نے اب تک اپنے گروپ میں اپنے ابتدائی تینوں میچز جیت کر 6، 6 پوائنٹس جوڑلیے ہیں، مائیکل وان سوشل میڈیا پر اپنے تبصروں کی وجہ سے خبروں کی بھی زینت بنے رہتے ہیں۔

پاکستان نے گروپ میچز میں اب تک بھارت، نیوزی لینڈ اور افغانستان کو ٹھکانے لگادیا ہے جبکہ انگلش ٹیم نے دفاعی چیمپئن ویسٹ انڈیز کیخلاف کامیابی سے کھاتہ کھولنے کے بعد بنگلہ دیش اور آسٹریلیا کو بھی دھول چٹارکھی ہے۔

اپنے پیغام میں مائیکل وان نے لکھا کہ یہ تمام ٹیموں کے لیے پیغام ہے کہ انگلینڈ بہترین اور حریفوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والی ٹیم ہے لیکن انھیں صرف پاکستان سے خطرہ درپیش ہوگا، انگلش ٹیم پیر کو شارجہ میں سری لنکا کا سامنا کرے گی جبکہ پاکستان منگل کو ابوظبی میں نمیبیا کیخلاف میدان سنبھالے گا، انگلش ٹیم نے گذشتہ دن آسٹریلیا کو مکمل طور پر آؤٹ کلاس کرتے ہوئے بڑی کامیابی اپنے نام درج کی ہے۔

The post پاکستان کا خوف ابھی سے انگلینڈ کے سر پر سوار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3bJ4ZRb
via IFTTT

نیوزی لینڈ سے میچ میں بہادری کا مظاہرہ نہیں کرپائے، کوہلی کا اعتراف ایکسپریس اردو

 دبئی:  بھارتی کپتان ویراٹ کوہلی نے اعتراف کیا ہے کہ ان کی ٹیم نیوزی لینڈ کے خلاف بیٹ اور گیند کے ساتھ بہادری کا مظاہرہ نہیں کرپائی۔

میچ کے بعد پریس کانفرنس کے دوران ویرات کوہلی کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس دفاع کے لیے زیادہ کچھ نہیں تھا، بیٹنگ کے بعد ہم بولنگ میں بھی زیادہ بہادری کا مظاہر نہیں کرپائے، بھارتی ٹیم سے سب کو توقعات بہت ہوتی ہیں، لہذا ہمارے کھیل میں ہمیشہ دباؤ رہتا ہے، ہم نے کئی برس اس کا عمدگی سے سامنا بھی کیا ہے، جو بھی ملک کے لیے کھیلتا ہے اس کیلیے اسے تیار رہنا ہوگا۔

کوہلی کا کہنا تھا کہ بطور ٹیم کسی بھی مسئلے پر قابو پایا جاسکتاہے، کیویز کے خلاف ہم سے یہ سب کچھ نہیں ہوسکا، توقعات کا مطلب یہ نہیں کہ آپ مختلف انداز سے کھیلنا شروع کردیں، مجھے لگتا ہے ہماری سمت درست ہے، ابھی بہت کرکٹ کھیلنی باقی ہے۔

The post نیوزی لینڈ سے میچ میں بہادری کا مظاہرہ نہیں کرپائے، کوہلی کا اعتراف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3mv7BYL
via IFTTT

عمران نذیر کو پاکستان سے ٹرافی لانے کی امید ایکسپریس اردو

 لاہور:  سابق ٹیسٹ کرکٹر عمران نذیر نے پاکستانی ٹیم سے ورلڈکپ ٹرافی جیتنے کی امید لگالی، آصف علی کی صورت میں پاکستان کو میچ فنشر مل گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مدت بعد پاکستانی ٹیم کو اس کے اصل روپ میں دیکھا، تینوں شعبوں میں مثالی کارکردگی دکھانے کا مزہ آرہاہے۔ پاکستان کی سب سے  بڑی کرکٹ ویب سائٹ کرکٹ پاکستان ڈاٹ کام ڈاٹ پی کے،  کو انٹرویو میں ماضی کے جارج مزاج اوپنر نے کہا کہ پاکستانی ٹیم نے بھارت، نیوزی لینڈ اور افغانستان کو آؤٹ کلاس کرکے برتری ثابت کردی اور اگر باقی میچز میں کارکردگی کا تسلسل برقرار رکھنے میں کامیاب رہتی ہے تو مجھے یقین ہے کہ اس بار پاکستان ورلڈ چیمپئن ہوگا۔

عمران نذیر سے جب محمدآصف کی دھواں دھار اننگز کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہاکہ آصف کی اننگز لاجواب تھی،ان میں ہر بال کو باؤنڈری لائن کے پار پہنچانے کی اہلیت ہے اور افغانستان کے خلاف میچ میں انھوں نے یہ ثابت بھی کیا، اس سے پہلے نیوزی لینڈ  کے خلاف بھی آصف نے عمدہ پرفارمنس دی، ان دونوں میچز میں اس کی پرفارمنس دیکھ کر بلاشبہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ پاکستان کو اب حقیقی میچ فنشر مل گیا ہے،اگر وہ لمبی ہٹنگ کے ساتھ میچ کی ڈیمانڈ کے مطابق سنگل رنز بنانے کی اہلیت کو مزید بہتر کرلے تو پھر وہ کسی بھی ٹیم کے لیے زیادہ خطرناک بیٹر ہوسکتاہے۔

ورلڈکپ کے شروع ہونے سے پہلے وہ اچھی فارم میں نہیں تھا لیکن اس نے محنت کی اور اب اس کواس کا پھل مل رہاہے۔ دائیں ہاتھ کے اوپنر کے مطابق میچ میں اصل چیلنج ایسی اننگز کھیلنی ہی ہے جس سے ٹیم کو فائدہ ہو، پوزیشن  اہم نہیں ہوتی کہ آپ کسی نمبرپر کھیل رہے ہیں۔

عمران نذیر نے شائقین کومشورہ دیا کہ وہ آصف پر توقعات کا بوجھ کم رکھیں، ایک دو میچ کی پرفارمنس سے کوئی ہیرو بنتاہے اور نہ ہی اسے زیرو بنانا چاہیے، آصف کو بھی اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگاکہ اب لوگ ہرمیچ میں اس سے بہتر سے بہتر پرفارمنس چاہتے ہیں، لوگوں کی توقعات پر پورااترنے کے لییآصف کو پہلے سے زیادہ محنت کرنا پڑے گی۔

عمران نذیر کے خیال میں بابر اعظم اور رضوان نے بڑی محنت کے ساتھ مقام بنایاہے، بیٹنگ میں وہ مرکز نگاہ ہوتے ہیں، شاٹ سلیکشن میں انھیں خاصا محتاط ہونا پڑے گا۔ عمران نذیر نے شاہین شاہ آفریدی اور حارث رؤف کی پرفارمنس کو بھی سراہا تاہم ان کا موقف تھا کہ حسن علی ابھی اس ردھم میں دکھائی نہیں دیے جس کے لیے وہ مشہور ہیں۔

ابھی ان کے پاس دو میچز ہیں، سیمی فائنل  سے پہلے اگر وہ فارم حاصل کرلیتے ہیں تو سونے پر سہاگہ والی بات ہوجائے گی، عمران نذیر نے فائنل میں پاکستان کے ساتھ بھارت کو دیکھنے کی خواہش کی، ان کا یقین تھا کہ فائنل میں بھارت مدمقابل ہو تو مزہ آجائے گا لیکن کوئی دوسری ٹیم بھی پہنچی تو جیت پاکستان کی ہی ہوگی۔

The post عمران نذیر کو پاکستان سے ٹرافی لانے کی امید appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3nNYrpM
via IFTTT

شاہ سلمان کاجی سی سی رہ نمائوں کے ساتھ لبنان سے سفارتی تنازع پرتبادلہ خیال ... دونوں لیڈروں کا لبنان سے سفارتی تنازع میں سعودی عرب کے موقف اور اقدامات کی حمایت پر شکریہ

یمن کی حوثی ملیشیا کے لبنانی وزیراطلاعات قرداحی کے حق میں پوسٹرآویزں ... حوثی جنگجو صنعا کی ایک سڑک جارج قرداحی سے منسوب کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں،ذرائع

امارا ت خواتین کے تحفظ میں سرفہرِست،افغانستان کا آخری نمبر ... عالمی سطح پر ہرتین میں سے ایک عورت کو گھریلوتشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے،جی آئی ڈبلیو پی ایس کی رپورٹ

جنوبی انگلینڈ میں ٹرینوں کی ٹکر، متعدد مسافر زخمی ... حادثے کا شکار ایک ٹرین کی آخری بوگی پٹری سے اتر گئی،غیرملکی میڈیا

دنیا کا امیر ترین آدمی بھوک کے خاتمے کے لیے پرعزم ... ایلون مسک دنیا بھر سے بھوک ختم کرنے کے لیے 6 ارب ڈالر کے شیئرز بیچنے کو تیارہوگئے

سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ نیشنل پارٹی کے بلامقابلہ صدر منتخب ایکسپریس اردو

 کوئٹہ: سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ نیشنل پارٹی کے بلامقابلہ صدر منتخب ہوگئے ہیں۔  

کوئٹہ میں نیشنل پارٹی کی چھٹی قومی کانگریس اور میر حاصل خان بزنجوکی یاد میں کنونشن تیسرے روز بھی جاری رہا۔ کنونشن میں پارٹی کارکنان، سینئر رہنمائوں ، مرکزی، صوبائی اور ضلعی کونسلروں نے شرکت کی، اس دوران انٹرا پارٹی الیکشن میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نیشنل پارٹی کے بلامقابلہ صدر اور جان محمد بلیدی جنرل سیکرٹری منتخب ہوگئے ۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے ڈاکٹر عبد المالک بلوچ کوصدر اور میر جان محمد بلیدی کو جنرل سیکرٹری منتخب ہونے پر مبارکباد دی ۔

The post سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ نیشنل پارٹی کے بلامقابلہ صدر منتخب appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3q9y7th
via IFTTT

سیاسی عدم استحکام سے اقتصادی غیریقینی میں اضافہ ایکسپریس اردو

 لاہور:  اکتوبر کے دوران سیاسی عدم استحکام میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

دوسری جانب اقتصادی محاز پر آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی بھی رپورٹنگ ہوتی رہی ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے لیے پیشگی اقدامات بھی کرتی رہی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام معطل ہونے کے بعد حکومت  نے پیٹرول اور یوٹیلٹی کے نرخوں میں اضافہ بھی کیا۔ اس کا حکومت نے یہ جواز پیش کیا کہ پاکستان کی نسبت دیگر ممالک میں نرخ بلند ہیں۔

کووڈ کے دوران جب تجارتی سرگرمیاں نسبتاً سست تھیں  تو روپیہ ڈالر کے مقابلے میں مستحکم رہیں۔ تاہم 2021کے آغاز سے روپے کی قدر میں نشیب و فراز کا سلسلہ شروع ہوا، اور پھر مختلف وجوہات کی بنا پر ڈالر کی مانگ میں اضافے کے ساتھ روپے کی قدر گرتی چلی گئی۔  کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ برآمدات کے فروغ کے نقطۂ نظر سے کرنسی کی لچکدار شرح مبادلہ ضروری ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا وزارت خزانہ سے آزاد ہونا ضروری ہے۔  لچکدار شرح مبادلہ کے مثبت نتائج آنے میں وقت درکار ہوگا۔ روپے کا اوور ویلیو ہونا  درآمدات کو ارزاں اور برآمدات کو مہنگا کردیتا ہے جس  کی وجہ سے تجارتی خسارے میں بھی نمایاں اضافہ ہوجاتا  ہے۔

اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ  روپے کی قدر میں گراوٹ کے باوجود برآمدات کے مقابلے میں درآمدات نمایاں طور پر بڑھ جاتی ہیں۔ روپے کی قدر میں کمی بیشی نے  صنعتی سرمایہ داروں کو  مشکلات سے دوچار کردیا ہے کیوں کہ وہ غیریقینی صورتحال کا شکار ہیں۔ مختصراً  یہ کہ  سیاسی  عدم استحکام اقتصادی غیریقینی میں اضافہ کررہا ہے۔ برآمدات  بڑھانے کے لیے ملک میں برآمداتی مصنوعات سرپلس ہونی چاہییں۔ سوال یہ ہے کہ  روپے کی قدر میں گراوٹ کب برآمدات میں اضافے کا باعث بنے گی۔

The post سیاسی عدم استحکام سے اقتصادی غیریقینی میں اضافہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3buhJuG
via IFTTT

بلوچستان میں سیاسی تبدیلی ایکسپریس اردو

سابق وزیراعلیٰ بلوچستان عوامی پارٹی  کے جام کمال کے مستعفی ہونے کے بعد عبدالقدوس بزنجو بلوچستان کے بلامقابلہ نئے وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پچھلے ایک ماہ میں جو بلوچستان میں جام کمال کے خلاف سیاسی کچھڑی پک رہی تھی جو ان ہی کی اپنی سیاسی جماعت کی پیدا کردہ تھی وہ نئے وزیر اعلیٰ کے بعد ختم ہوگئی ہے۔

کیونکہ سابق وزیر اعلیٰ جام کمال کے بقول وہ اپنے تمام تر اختلافات کو بھول کر نئی حکومت کی حمایت کریں گے ۔اگر واقعی ایسا ہوتا ہے اور جا م کمال سمیت ان کے حامی افراد نئی حکومت کی حمایت کرتے ہیں تو اس سے اختلافات کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ کیونکہ جام کمال نے بطور وزیر اعلیٰ اپنے خلاف اپنی ہی جماعت اور کچھ اتحادی جماعتوں کی سیاسی سازشوں پر بات کی تھی جو ان کے مستعفی ہونے کا سبب بھی بنی ہیں ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جام کمال کے خلاف نئے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کو نہ صرف اپنی ہی جماعت میں ایک بڑی حمایت حاصل تھی بلکہ ان کو حزب اختلاف کی جماعتوں کی بھی مکمل حمایت حاصل تھی ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آخر میں جام کمال نے اپنے مخالفین کی طرف سے تحریک عدم اعتماد کا سامنے کرنے کے بجائے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ۔ کیونکہ ان کو جب یقین ہوگیا کہ وہ اپنی اکثریت کھوچکے ہیں تو ان کے پاس مستعفی ہونے کے سوا کوئی سیاسی آپشن موجود نہیں تھا ۔

حالانکہ پہلے جام کمال نے ڈٹ کا تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنیکا فیصلہ کیا تھااور اسی تناظر میں ان کی اسلام آباد سیاسی یاترا بھی ہوئی تھی ۔ ان کا خیال تھا کہ وہ وفاقی حکومت اوراپنے مصالحتی مشن اسلام آباد کی مدد سے حکومت بچانے میں کامیاب ہوجائیں گے ، مگر ایسا نہیں ہوسکا اور ان کو اپنے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں سیاسی پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔

بلوچستان میں سیاسی تبدیلی کا یہ کھیل کوئی نیا نہیں بلکہ ہمیشہ سے مختلف سیاسی اور غیر سیاسی ادوار میں ہم یہ دیکھتے رہے ہیں کہ مختلف نوعیت کی سیاسی تبدیلیوں یا سازشوں کو بنیاد بنا کر بلوچستان میں سیاسی استحکام کے نام پر سیاسی بحران پیدا کیا گیا ۔ کوئی بھی وزیر اعلیٰ منتخب ہوتا ہے تو اسے اول تو کام نہیں کرنے دیا جاتا یا دوئم اس کے خلاف حکومت میں شامل افراد ہی مختلف سیاسی یا اسٹیبلیشمنٹ کی پشت پناہی کی بنیاد پر سازشوں سے حکومت کو گھر بھیجنے کا کھیل شروع کردیتے ہیں۔

جام کمال کو بھی حکومت سنبھالتے ہی اسی طرز کے بحران کا سامنا تھا اور اب یہ بحران ان کی حکومت کے خاتمہ کی صورت میں سامنے آیاہے ۔بلوچستان میں بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں کی حیثیت ہمیشہ سے کمزور رہی ہے اور وہاں سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں سرداری نظام زیادہ مضبوط رہا ہے۔ اس لیے اسلام آباد میں بیٹھی سیاسی قیادت یا بڑی جماعتوں کی بھی اہمیت سیاسی جماعتیں کم اور سرداری سیاست کی اہمیت زیادہ رہتی ہے ۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نئے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی کامیابی میں ایک فیکٹر ان کی اپنی جماعت کے ساتھیوں کی معاونت تھی تو ان کو حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی اور وہ ان کی حمایت سے ہی وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ہمارے سیاسی کھیل میں بلوچستان کی حزب اختلاف اپنی اس سیاسی حمایت کی کیا قیمت نئے وزیر اعلیٰ یا بلوچستان حکومت سے وصول کرتی ہے۔

اگرچہ یہ امکان کم ہے کہ ان کو کابینہ میں شامل کیا جائے لیکن اس بات کی ان کو مکمل ضمانت دی جائے گی کہ بلوچستان حکومت اور وزیر اعلیٰ ان کے تمام سیاسی مفادات جن میں ترقیاتی فنڈز، نوکریوں یا تبادلوں میں مدد اور ان کے حلقوں میں اہم تقرری میں ان کی مرضی کو شامل کیا جائے گا ۔

یہ بات بھی واضح تھی کہ جام کمال کے دور میں حزب اختلاف سمجھتی تھی کہ ان کو دیوار سے لگایا گیا ہے اور ہمیں جام کمال وہ اہمیت نہیں دیتے جو ہمیں ملنی چاہیے تھی ۔ نئے وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے لیے حزب اختلاف کے سیاسی نخرے اٹھانا بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا اور اگروہ ان کے تمام مطالبات پورے نہیں کریں گے تو ان کی کمزور حکومت کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ عبدالقدوس بزنجو کے وزیر اعلیٰ بننے کے سیاسی کھیل میں کون ان کی سیاسی سرپرستی کررہا تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ جام کمال کو مستقبل کی سیاست اور بالخصوص بلوچستان عوامی پارٹی کے تناظر میں خطرہ سمجھتے تھے ۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اگرچہ ایسا لگتا تھا کہ وہ جام کمال کے ساتھ تھے ، لیکن پس پردہ حقایق بتاتے ہیں کہ اس کھیل میں صادق سنجرانی کا کردار نمایاں تھا اور کہا جاتا ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کے طور پر بھی سامنے آنا چاہتے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جام کمال جیسی مضبوط سیاسی شخصیت کوتبدیل کرنا سیاسی ضرورت بنتا تھا ۔

اس وقت بلوچستان کی ضرورت بڑے کرداروں کے لیے ایک کمزور وزیراعلیٰ کی تھی اور نئے وزیر اعلیٰ کی عملی کمانڈ ان کے مقابلے میں کسی اور کے ہاتھوں میں ہی ہوگی۔ اس لیے جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیںکہ بلوچستان کا بحران ٹل گیا ہے وہ درست نہیں اور کچھ عرصہ کے بعد ہمیں بلوچستان ہی کے تناظر میں نئے بحران بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ ویسے دلچسپ بات یہ ہے کہ حزب اختلاف جو ہمیشہ سے بلوچستان عوامی پارٹی کو اسٹیبلیشمنٹ کی بنائی ہوئی بی ٹیم کے طور پر پیش کرتی رہی ہیں اور بالخصوص مولانا فضل الرحمن تو باپ پارٹی کے خلاف سخت گیررویہ رکھتے تھے لیکن اس نئی تبدیلی کے کھیل میں فضل الرحمن کی جماعت سمیت پی ڈی ایم نے وہی کھیل کھیلا ہے جو ہمیشہ سے پاکستان کی مفاداتی سیاست کے کھیل کا حصہ ہے ۔

جام کمال بھی خوب جانتے ہیں کہ ان کو اقتدار کی سیاست سے کیسے الگ کیا گیا ہے اور اس کے پیچھے کون لوگ ہیں جو کوئٹہ اور اسلام آباد کے درمیان سیاسی کھیل کھیلنے کے ماہر ہیں۔ اگرچہ وقتی طور پر انھوں نے سیاسی خاموشی اختیار کرلی ہے اور اس کی وجہ یہ ہی ہے کہ وہ موجودہ نئی سیاسی تبدیلی کو قبول کرکے پارٹی معاملات پر اپنی گرفت قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ کیونکہ وہ بھی جانتے ہیں ۔

ان کی تبدیلی کو بنیاد بنا کر جو کھیل کوئٹہ میں مستقبل کی سیاست کے تناظر میں بنایاجارہا ہے وہ اس میں خود کو سیاسی طور پر تنہا لڑنے کے بجائے سیاسی میدان اور بالخصوص اپنی جماعت میں رہ کر یہ لڑائی لڑنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ان کا مسئلہ اب بلوچستان میں بننے والی نئی حکومت نہیں ہوگی بلکہ وہ اپنے سیاسی کارڈ 2023کے انتخابات کے تناظر میں کھیلنے کی کوشش کریں گے تاکہ وہ سیاسی طور پر اپنی اہمیت کو برقرار رکھ سکیں ۔

بلوچستان کا مسئلہ ایک مضبوط سیاسی حکومت ہے کیونکہ جو مسائل بلوچستان اور وہاں کی عوام کو درپیش ہیں ان کا حل بھی ایک مضبوط سیاسی اور جمہوری نظام سے وابستہ ہے۔ بلوچستان میں سیاسی کٹھ پتلیوں کا کھیل وہاں کے عوام کوکوئی بڑا سیاسی اور معاشی فائدہ نہیں دے سکے گا ۔

یہ جو بلوچستان میں محرومی کی سیاست ہے اس کا علاج مصنوعی سیاسی تبدیلیوں کا کھیل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے بڑے لوگوں کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ وہ بلوچستان کا مستقل علاج سیاسی اور جمہوری فریم ورک میں رہ کر ہی تلاش کریں ۔بظاہر بلوچستان کا بحران ٹل گیا ہے لیکن یہ عمل عارضی ہے اور مستقل وہاں بحران کی مختلف شکلیں عدم استحکام کی سیاست کو پیدا کرتے رہیں گی۔کیونکہ ڈرائنگ روم کی طرزپر ہونے والی سیاست کے تانے بانے بھی مصنوعی ہوتے ہیں اور اس کھیل کا بڑا دار مدار پس پردہ سازشوں اور جوڑ توڑ کی سیاست کے علاوہ بڑی یا طاقت ور کے کھیل کا حصہ ہوتی ہے۔

اب دیکھنا ہوگا کہ بلوچستان کا بحران کس کروٹ بیٹھتا ہے او رکون کس کی پراکسی وار کھیل کر کھیل میں اپنے لیے نیا سیاسی حصہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ کیونکہ بندوبست کی سیاست ہمیشہ قومی سیاست کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہے اوراس سے قومی سیاست کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے ۔

The post بلوچستان میں سیاسی تبدیلی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Y3vCNf
via IFTTT

رنگ لاوے گی ہماری قرضہ مستی ایک دن ایکسپریس اردو

قرض لینا کبھی ہماری مجبوری ہوا کرتی تھی لیکن اب ایک عادت اور خصلت بن چکی ہے۔ کوئی بھی حکومت ہو برسر اقتدار آنے کے بعد اس کا پہلا بیانیہ یہی ہوا کرتا ہے کہ پچھلی حکومت سارا خزانہ خالی چھوڑ گئی ہے اور ہمارے لیے قرض مانگنے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔

موجودہ حکومت نے تو اس معاملے میں پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے، حکمران جماعت قرض کو زبانی و کلامی طور پر جتنا برا سمجھا کرتی تھی عملی طور پر ایسا نہیں ہوا۔ شروع شروع میں تو قوم نے سمجھا کہ واقعی بہت مجبوری ہوگی اور حکمران جو قرض کو انتہائی برا اور ناگوار سمجھا کرتے تھے بلکہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ وہ کسی سے قرض نہیں مانگیں گے ،کبھی اپنا عہد نہ توڑتے ۔

2018 کے انتخابات کے بعد جب ہماری یہ حکومت برسر اقتدار آئی تو خزانے کے خالی ہونے کا گلہ سابقہ حکومتوں کی طرح اس نے بھی شروع کردیا ، حالانکہ الیکشن سے پہلے ایک عبوری حکومت بھی قائم کی گئی تھی لیکن اس حکومت نے کبھی ایسا تاثر ظاہر نہیں کیا کہ ایک دن کا بھی گذارا ناممکن ہے۔

وہ جب انتخابات کروا کے واپس گئی تو اُس وقت بھی قومی خزانے میں 18ارب ڈالرز سے زائد فارن ایکسچینج موجود تھا۔ جولائی 2018 میں ملک پر غیر ملکی قرضوں کا انبار تقریباً 25 یا 26 ارب ڈالرکے قریب تھا۔ حکومت نے کہا کہ ملک قرضوں میں ڈوب چکا ہے اور ہمیں قرض کی رقم بمع سود ادا کرنے کے لیے طوعاً و کرہاً دوست ممالک سے امداد مانگنی پڑے گی۔

حکمران قیادت نے ہمت کرکے قرض لینے کا فریضہ نبھایا اور سعودی عرب اور یو اے ای سے امداد لی۔ عوام کو یہ نوید سنائی گئی کہ الحمد للہ ہم قرض حاصل کرنے کے ایک بہت بڑے مشن میں کامیاب و سرخرو ہوئے ہیں ، مگر یہ سلسلہ یہیں پر نہیں رک گیا بلکہ ہم چائنا کے ساتھ ساتھ IMF سے بھی قرض لینے کے طریقے ڈھونڈنے لگے۔

اس مقصد کے لیے وزیر خزانہ اسد عمر کی بھی قربانی دینا پڑی اور باہر سے امپورٹ کرکے حفیظ شیخ کو اس اہم عہدے پر براجمان کروانا پڑا۔ ساتھ ہی ساتھ اسٹیٹ بینک کے گورنر کے عہدے کے لیے بھی IMF کے ایک نمایندے کو بھی نامزد کرنا پڑا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہمیں ابھی تک معاشی طور پر سکھ چین کا ایک سانس بھی نصیب نہیں ہوا۔ ہر تھوڑے دنوں بعدIMF کے معاہدے کے مطابق قرض کی قسط حاصل کرنے کے لیے گفت و شنید کرنا پڑتی ہے اور جواب میں عوام پر بے تحاشہ مہنگائی کے بم بھی گرانے پڑتے ہیں۔ پچھلے قرض اتارنے کے لیے نئے قرض لینا پڑتے ہیں اور اُن کے بارے میں عوام کو بتانے سے بھی گریز کرنا پڑتا ہے۔

اپنے روپے کو مزید بے توقیر اور بے عزت بھی کرنا پڑتا ہے اور گھر کی چیزیں بھی گروی رکھنا پڑتی ہیں ، وہ موٹر ویز جو بنتے وقت تحریک انصاف کی قیادت کی زبردست تنقید کا شکار رہی آج گروی رکھ کر قرض حاصل کرنے کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ گھر کے مالی معاملات ہیں کہ سدھر ہی نہیں پا رہے۔ پی آئی اے اور اسٹیل ملز ایسے سفید ہاتھی ہیں جو منافع تو درکنا مسلسل خسارے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

ہر چند ماہ بعد انھیں بیچنے کی باتیں تو ضرورکی جاتی ہیں لیکن کوئی خریدار نہ ملنے کی صورت میں جوں کا توں رکھنے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے ، یہ حلق کا وہ کانٹا ہے جو نہ نکالا جاتا ہے اورنہ نگلاجاتا ہے۔

وزیراعظم صاحب ابھی چند روز پہلے سعودی عرب کے دورے پر تشریف لے گئے اور واپسی پر پھر ایک نیا پیکیج لے آئے۔ کہا گیا کہ ریاض میں وہ انویسٹمنٹ فورم کے اجلاس میں شرکت کرنے جارہے ہیں لیکن اجلاس سے پہلے ہی وہ چار ارب ڈالرز کی امداد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ، وہ ملک جو ابھی چند ماہ پہلے ہم سے اپنے پرانے قرض کے پیسوں کی واپسی کا تقاضا کررہا تھا، یہ اچانک پھر کیسے تین چار ارب ڈالر دینے پر راضی ہوگیا۔

وزیراعظم جانے سے پہلے قوم کو باور کروا رہے تھے کہ ملک ترقی کی راہ پر چل پڑا ہے اور مشکل وقت گذر چکا ہے ، پھر یہ امداد اور قرض لینے کی وجہ کیا ہے۔ کیا قرض لینا ہماری عادت بن چکی ہے ، یعنی جب اس کی ضرورت بھی نہ ہو لیکن ہمیں ہرچند ماہ بعد ہر کسی سے قرض لینا ضروری ہے۔ کہنے کو ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہیں مگر ہم پھر بھی قرض لے رہے ہیں۔

ایسا لگتا ہے ہم جب بھی کسی غیر ملکی دورے پر جاتے ہیں تو ہماری پہلی ترجیح یہی ہوتی ہے کہ کس طرح اس ملک سے بھی کچھ پیسے ادھار یا مستعار کر لیے جائیں۔ تین سال سے زائد کاعرصہ بیت چکا ہے ہم قوم کو یہ خوش خبری سنا نہیں سکے ہیں کہ ہم نے اب قرض لینے کو خیر باد کہہ دیا ہے۔

قوم اب امداد اور قرضوں کے بغیر ترقی و خوشحالی کی منازل طے کریگی۔ ایک اندازے کے مطابق 2018 میں جو غیر ملکی قرضہ 26 ارب ڈالرز کے لگ بھگ تھا اب بڑھ کر صرف ان تین سالوں میں 46ارب ڈالرز تک پہنچ چکا ہے اور ہماری حالت مرزا غالب کے اس شعر کی مانند ہوچکی ہے۔

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

The post رنگ لاوے گی ہماری قرضہ مستی ایک دن appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3pScHAD
via IFTTT

کراچی جو ایک شہر تھا ایکسپریس اردو

ہمارے درمیان ایک شخص ایسا ہے جسے دیکھ کر خوشی ہوتی ہے، حیرت ہوتی ہے اور رشک بھی آتا ہے۔ ماں باپ نے اس سے امیدیں وابستہ کیں،محنت مزدوری کر جو تھوڑا بہت جمع کر پائے، اس کی تعلیم پر لگا دیا، بچہ ہونہار نکلا، ذہن کا تیز تھا، اس پر مستزاد محنتی اور وہ بھی اتنا محنتی کہ چشمہ لگانا پڑ گیا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ ایک روز انجینئر کی امتیازی ڈگری لیے گھر داخل ہوا۔ ماں باپ نے آگے بڑھ کر بلائیں لیں اور اللہ کا شکر ادا کر کے سوچا کہ مشقت کے دن ختم ہوئے، آگے اللہ مہربانی فرمائے گا۔ ہمارے متوسط طبقے کے گھرانوں کے حالات بھی ایسے ہوتے ہیں اور انداز فکر بھی۔ لڑکا صرف ذہین اور محنتی نہیں تھا، مزاج بھی تخلیقی پایا تھا۔ اس شخص کے تخلیقی مزاج کی کہانی بھی عجیب ہے۔

کراچی ایک عظیم شہر ہے، پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود اسے شہر بے کراں کہا کرتے ہیں۔ سبب یہ ہے کہ شہر کے اندر ہی فاصلے اتنے زیادہ ہیں کہ چلتے چلتے پہر بیت جاتے ہیں لیکن سفر ختم نہیں ہوتا۔ شہروں کے ایسے ہی مسائل ہوتے ہیں جن کی وجہ سے سواریاں ایجاد ہوئیں۔

سب سے آسان اور سستی سواری تو بائیسکل ہے لیکن کراچی کے فاصلوں سے نمٹنا ان دو پہیوں کے بس میں نہیں۔ کراچی شہر میں اس مشکل کا حل موٹر سائیکل ہے لیکن سستے زمانوں میں بھی موٹر سائیکل کی خریداری پر پانچ سات ہزار تو لگ ہی جاتے تھے۔

ہمارے عہد کے بچے اتنے پیسے تو سوچے سمجھے بغیر خرچ کر ڈالتے ہیں لیکن جس زمانے کا یہ واقعہ ہے، اتنے پیسے جمع کرنے کے لیے برسوں نہیں تو مہینے تو لگ ہی جایا کرتے تھے۔ ایسی صورت میں کے ٹی سی(کراچی ٹرانسپورٹ سروس) کی بس یا اڑے بیٹ(بیٹھ) یا آگے بڑ، آگے بڑ(بڑھ) والی منی بس کے کرایوں سے بھی کم پاکٹ منی پانے والا نوجوان کیا کرے؟ اس نونہال نے اس سوال پر غور کیا اور سوچا کہ چلو موٹر سائیکل خریدنا مشکل ہے تو مشکل ہی سہی، کیوں نہ اپنی بائیسکل کو ہی موٹر سائیکل بنا لیا جائے، پھر یہ نوجوان یہ کارنامہ کر گزرا۔ یہ شخص اپنی خداداد ذہانت کو کام میں لایا اور سائیکل کے پہیے کے ساتھ ایک ایسا چھوٹا سا انجن منسلک کرنے میں کامیاب ہو گیا جس نے پیڈل مار مار چند کلومیٹر فی گھنٹہ سفر کرنے والی بائیسکل کو تھکے بغیر میلوں بھاگنے والی آٹو سائیکل میں بدل دیا۔

ایک شام گھر کے ویران پچھواڑے میں اپنی ایجاد مکمل کرنے کے بعد جب وہ سڑک پر اسے لایا اور اس کی۔ قد ساختہ آٹو سائیکل زوں زوں کرتی ہوئی منی بس کی رفتار کا مقابلہ کرنے لگی تو دیکھنے والوں نے دانتوں میں انگلیاں داب لیں۔

اس کا یہی کارنامہ محبت کرنے والے والدین کے ذہن میں تھا، یہی سبب تھا کہ اس کے انجینئر بننے پر خوشی منائی گئی اور توقع رکھی گئی کہ یہ بچہ یقینا ہمارا نام روشن کرے گا۔ پھر یہی ہوا۔

اس لڑکے نے ماں باپ کا نام روشن کیا لیکن انجینئر بن کر نہیں بلکہ ایک اور کارنامہ انجام دے کر۔ اس شخص نے اپنی تعلیم، ذہانت اور محنت ایک طرف رکھی اور سیاح بن گیا۔ سیاح بننے کے بعد ایک اور دور کی ایک اور کوڑی اسے سوجھی، وہ سیاح کے ساتھ ساتھ سفر نامہ نگار بھی بن گیا، یوں وہ دیکھتے ہی دیکھتے آٹھ دس سفر ناموں کا مصنف بن گیا۔ آج اپنی اسی شہرت کی وجہ سے وہ یہاں وہاں معروف ہی نہیں، مقبول بھی ہے۔ یہاں تک کہ اس کی کتابوں نے اہل تحقیق کو بھی متوجہ کیا اور کرنے والوں نے ان پر ایم فل کر لیا۔

سیاح بننے کے بعد اس کے ذوق جہاں گردی میں سب سے بڑی رکاوٹ روزگار نے ڈالی۔ آپ نوکری بھی کریں اور بیگ اٹھا کر جب چاہے چل دیں، آج کے کارپوریٹ معاشرے میں کون آجر اس کی اجازت دیتا ہے؟ بس، وہ پہلا ہی دن ر
ہا ہو گا جب کوئی باس اس کی سیاحت میں رکاوٹ بنا تو اس نے معاش کے اس ذریعے یعنی نوکری کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا۔ اب وہ پشاور جاتا ہے، شہد خریدتا ہے اور اپنی شہد جیسی باتوں کے ساتھ شہد کی بوتلیں بیچ ڈالتا ہے۔

اس میں کچھ کمی رہ جائے تو اونے پونے کے نام وہ چیزیں جو ہم کبھی خریدتے ہیں، ایک آدھ بار استعمال کرتے ہیں پھر انھیں بھول جاتے ہیں یا کچھ ایسی کتابیں جنھیں لوگ پڑھ کر کسی کونے کھدرے میں پھینک دیتے ہیں، یہ سب چیزیں دوست احباب اس تک پہنچا دیتے ہیں اور وہ انھیں اونے پونے کے نام سے بیچ دیتا ہے۔ میں خود تھرڈ کلاس الیکٹرک ایکسٹینشنز خرید خرید کر تنگ آچکا تھا، اس کے اونے پونے اسٹور سے مجھے تھوڑے سے پیسوں سے ایک ایسی ایکسٹینشن مل گئی کہ سارے دلدر دور ہو گئے۔

یہ تذکرہ تھوڑا طویل ہو گیا، اصل میں بتانا یہ تھا کہ سفر نامے لکھتے لکھتے ہمیشہ کی طرح اس کے ذہن میں ایک اور سودا سمایا، اس نے اپنے بچپن سے اب تک کے کراچی کی لفظی تصویریں بنانی شروع کر دیں جو کچھ عرصہ قبل ’’کراچی جو ایک شہر تھا‘‘کے عنوان سے شایع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں۔ اصل میں انسانوں کی طرح شہروں پر بھی بچپن، جوانی اور بڑھاپے کی طرح اچھے برے ادوار آتے ہیں۔

یہ سب کیفیات شہروں کے چہروں پر کندہ ہوتی ہیں، بس، انھیں پڑھنے والا چاہیے۔ خوش قسمتی سے ہمارے اس دوست یعنی عبیداللہ کیہر میں یہ صلاحیت موجود تھی۔ عبید کی یہ کتاب پڑھئے تو لگتا ہے، جیسے آپ فلم دیکھ رہے ہیں۔ ایک ہی نشست میں وہ شہر بھی آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے، ماہی گیروں کی بستی کے نام سے تاریخ میں جس کے تذکرے ملتے ہیں۔ وہ راستے گلی محلے اور جھونپڑ جھونپڑیاں بھی دکھائی دیتی ہیں جو کھوکھراپار کے راستے پاکستان ہجرت کرنے والوں نے بنائی ہوں گی اور ان بلوچوں اور سندھیوں اور ان کی بستیوں سے بھی ملاقات ہو جاتی ہے جن کے پرکھوں نے اس شہر کی بنیاد رکھی ہوگی۔

اس کتاب میں وہ آثار بھی دکھائی دیتے ہیں جن کی مدد سے قیام پاکستان کے بعد اس شہر نے چٹکیوں میں ترقی کی اور اس تباہی کے مناظر دیکھنے کا موقع بھی ملتا ہے جو اسی اور نوے کی دہائیوں میں اس شہر کی تباہی کا باعث بنے۔ سب سے بڑھ کر ملیر کی بارشیں جن سے بھیگ کر یہاں کے لوگوں میں زندہ دلی پیدا ہوئی اور زمینوں میں زرخیری۔

سچ پوچھئے تو یہ کتاب پڑھ کر یقین آ جاتا ہے کہ کراچی ایک شہر خوباں ہے۔ حسنیوں کو قدرت کی طرف سے اگر حسن کی دولت ملتی تو یہ بھی حقیقت ہے کہ انھیں آزمائشوں کا سامنا بھی دوسروں سے بڑھ کر کرنا پڑتا ہے۔ اس شہر پر بھی یہی کچھ بیتا ہے۔

عبید کی اس کتاب میں ہمیں یہ سب مناظر دیکھنے اور پڑھنے کو ملتے ہیں۔ میں نے یہ سب پڑھا اور دیکھا تو اس پر لکھنے کی خواہش نے سر اٹھایا لیکن معلوم ہوا کہ یہ شخص بہت تیز رفتار ہے جتنی دیر میں ہم لوگ کالم لکھتے ہیں، یہ کتاب مکمل کر لیتا ہے۔ میں ابھی کراچی کے تذکرے سے ہی لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اتنے میں اس کی دو تین کتابیں مزید سامنے آگئیں۔ کیا کیا جائے، یہ شخص ہے ہی اتنا تیز رفتار۔ ابھی میں اس کی کتابوں سے نمٹ نہیں پایا تھا کہ اب اس نے کرا چی کے دلچسپ محاوروں پر پروگرام شروع کر دیے ہیں اور بتایا ہے کہ ’’الاہٹ‘‘ کوئی لفظ یاترکیب ہو یا نہ ہو لیکن کراچی میں اس کا مطلب ہوتا ہے،تیز رفتار۔

The post کراچی جو ایک شہر تھا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Y1zluI
via IFTTT

چلغوزے کی قیمت میں حیرت انگیز کمی، قیمت 10 ہزار روپے سے گھٹ کر 3600 پر آ گئی ایکسپریس اردو

 پشاور:  2 ماہ میں چلغوزے کی قیمت 6400 روپے کلو سے کم ہو کر 3600 روپے کلو پر آ گئی ہے۔

دو ماہ قبل چلغوزہ 10 ہزار روپے کلو فروخت ہو رہا تھا، جو چند یفتے قبل چھ ہزار روپے کلو پر آ چکا تھا، گزشتہ روز مزید 2400 روپے سستا ہو کر 3600 روپے کلو تک آ گیا۔

مقامی تاجر سعید خان کہنا ہے قیمتیں گرنے کی بڑی وجہ افغانستان اور وزیرستان میں فصل کی اچھی پیداوار ہے، اگر چین و دیگر ممالک کو برآمد نہ ہوا تو قیمت مزید کم ہو سکتی ہے۔

The post چلغوزے کی قیمت میں حیرت انگیز کمی، قیمت 10 ہزار روپے سے گھٹ کر 3600 پر آ گئی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ZDbu5d
via IFTTT

مکھیاں بھی مرض سے بچنے کے لیے سماجی فاصلہ رکھتی ہیں ایکسپریس اردو

 لندن: جب جب شہد کے چھتے میں کوئی طفیلیہ (پیراسائٹ) آجاتا ہے تو مکھیاں اس سےسماجی فاصلہ اختیار کرلیتی ہیں۔ اس پر یونیورسٹی کالج لندن اور اٹلی کی جامعہ سیساری نے مشترکہ تحقیق کی ہے۔

تحقیق میں شریک ماہر پروفیسر ایلی سانڈرو سائنی کہتے ہیں کہ ’ یہ عام طفیلیے (پیراسائٹ) کی چھتے پر موجودگی اور مکھیوں کے سماجی تعلقات میں تبدیلی کی پہلی واضح شہادت ہے۔ـ

مکھیاں سماجی جاندار ہوتی ہیں اور ایک دوسرے کو پروان چڑھاتی ہیں۔ لیکن جب جب ان کے سماجی روابط میں کسی انفیکشن کا خطرہ ہوتا ہے تو وہ باہمی فاصلے سمیت کئی باتوں پر عمل کرتی ہیں۔

اس سے قبل ببون بندروں اور چیونٹیوں میں اسی طرح کا رویہ دیکھا گیا ہے۔ نئی تحقیق کے مطابق واروا نامی ایک جوں نما کیٹرا عموماً شہد کے چھتوں پر حملہ کرتا ہے۔ یہ وائرس پھیلا کر مکھیوں اور چھتے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ چھتے کو دو حصوں میں بانٹا جاسکتا ہے۔ بیرونی چھتے پر خوراک، رس اور نگرانی کرنے والی مکھیاں رہتی ہیں اور اندرونی حصے میں بچوں کی دیکھ بھال کرنے والی نرس مکھیاں، ملکہ مکھی اور بچہ مکھیاں اور انڈے ہوتے ہیں۔ تاکہ انہیں بیرونی حملوں اورامراض سے محفوظ رکھا جاسکے۔

سائنسدانوں نے ایک چھتے کو جب کیڑے سے آلودہ کیا تو باہر والی مکھیوں نے اسے محسوس کرلیا اور اپنا مشہور رقص روک دیا کیونکہ اس طرح کیڑے دیگر حصوں تک پھیل سکتے تھے۔ عین یہی حال چھتے کے مرکزی حصے کا بھی تھا۔ جہاں نرس مکھیاں بچوں کو لے کر مزید اندر چلی گئیں اور دونوں اقسام کی مکھیوں کے درمیان فاصلہ مزید بڑھ گیا۔

یہ تحقیق بلاشبہ مکھیوں کی اس عقلمندانہ عادت کو ظاہر کرتی ہیں جس کی بدولت وہ جراثیم اور طفیلیوں سے بچی رہتی ہیں۔

 

 

The post مکھیاں بھی مرض سے بچنے کے لیے سماجی فاصلہ رکھتی ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3GDTsRm
via IFTTT

رنگ بدل کر امراض شناخت کرنے والی نینوٹیک پٹی ایکسپریس اردو

 میلبورن: اس کی تیاری میں پانچ سال لگے ہیں لیکن اب مرض لاحق ہونے کی صورت میں رنگ بدلنے والی سلائیڈ کو خردبین سے دیکھ کر بہت آسانی سے مرض کی شدت معلوم کی جاسکتی ہے۔

اسے نینوایم سلائیڈ کا نام دیا گیا ہے جسے پلازمون فزکس کی بنیاد  پر بنایا گیا ہے جس میں چارج شدہ ذرات میں الیکٹرون کی طرح تھرتھراہٹ ہوتی ہے۔ اس میں چاندی کے ذرات کی باریک پرت چڑھائی جاتی ہے اور آزاد پھرنے والے الیکٹرون کے لئے فیلڈ بن جاتا ہے۔ جب ان پر روشنی پڑتی ہے تو وہ ایک خاص ترتیب میں آجاتے ہیں۔

چاندی کی پرت میں نینوپیمانے کے باریک سوراخ پر جب روشنی پڑتی ہے تو وہ خلوی نمونے (سیمپل) سے گزرتی ہے اور یہاں کئی رنگ منتخب ہوجاتے ہیں۔ اس طرح رنگوں کا ایک طیف بنتا ہے جو فیلڈ میں موجود آزاد الیکٹرون کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے۔ اس طرح یہ نینوسلائیڈ جب خردبین کے نیچے رکھی جاتی ہے تو ایک طرح کا سینسر بن جاتی ہے۔ یوں کینسر زدہ خلیات مخصوص رنگ میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح نمونے میں مرض کی شناخت آسان ہوجاتی ہے۔ اس سے نمونوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا اور بہت آسانی سے کینسر زدہ خلیات (سیلز) کی شناخت ہوجاتی ہے۔

یہ کارنامہ آسٹریلیا کی لا ٹروب یونیورسٹی کی بیلنڈا پارکر نے انجام دیا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ اس تجربے میں کینسرذدہ خلیات اطراف سے بالکل الگ دکھائی دیئے جنہیں شناخت کرنا بہت آسان تھا۔ اس سے قبل یہ کام بھوسے کے ڈھیر میں سوئی ڈھونڈنے جیسا ہی مشکل تھا۔

ماہرین پرامید ہیں کہ ٹیکنالوجی کو بڑھا کر ایسے تجارتی آلات بنائے جاسکتے ہیں جن کے طبی اور غیرطبی دونوں طرح کے استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نمونوں پر مبنی سلائیڈ کو صرف دس منٹ میں تیار کیا جاسکتا ہے۔

The post رنگ بدل کر امراض شناخت کرنے والی نینوٹیک پٹی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3CxJ5fb
via IFTTT

’ہم تو فنا ہوگئے، آپ خود کو بچائیے،‘ اقوامِ متحدہ میں ڈائنوسار کا پیغام ایکسپریس اردو

 نیویارک: ’معدومیت کو منتخب نہ کیجیے!‘ یہ اہم پیغام کمپیوٹر گرافکس سے بنے ایک ڈائنوسار کی ویڈیو میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ ویڈیو بدلتے ہوئے موسمی اور ماحولیاتی تناظر میں عالمی تقریب، یعنی ’کانفرنس آف پارٹیز‘ (سی او پی)26 کے موقع پر جاری کی گئی ہے جسے خود عالمی ادارے نے سراہا اور ٹویٹ کیا ہے۔

ویڈیو میں فرینکی نامی ڈائنوسار نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اندرداخل ہوتا ہے۔ سیکیورٹی گارڈ سے مضحکہ خیز مکالمے کے بعد فرینکی ڈائس پر جاتا ہے اور اپنی مختصر تقریر کرتا ہے جسے وہ انسانیت کے لیے ایک سبق قرار دیتا ہے۔

ڈائنوسارفرینکی کہتا ہے کہ ’ میں ناپیدگی (ایکسٹنکشن) کے متعلق ایک دو باتیں جانتا ہوں۔ میں کہنا چاہوں گا کہ ناپید ہونا ایک خوفناک عمل ہے۔ ہم تو آسمانی پتھر یعنی شہابی ٹکر سے فنا ہوئے لیکن اب آپ انسانوں کے پاس کیا عذر ہے؟ آپ موسمیاتی تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ عالمی حکومتیں ہر سال رکازی ایندھن پر کروڑوں اربوں ڈالر کی سبسڈی دے رہی ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ کوئی زمین سے ٹکرانے کے لیے آسمانی پتھر کو خود دعوت دے۔ ـ

ڈائنوسار نے اقوامِ متحدہ میں اپنے خطاب میں کووڈ 19 وبا کا بھی ذکر کیا اور دنیا سے کہا کہ وہ اس سیارے کو بچانے کے لیے سنجیدہ کوشش کرے۔

واضح رہے کہ سی اوپی کانفرنس میں دنیا کے سربراہان اور دیگر ماہرین بدلتی ہوئی آب وہوا سے انسانیت کو لاحق ہونے والے خطرات اور ان کے حل پر غور کرے گی جس کے بعد عالمی بیانیہ جاری کیا جائے گا۔

The post ’ہم تو فنا ہوگئے، آپ خود کو بچائیے،‘ اقوامِ متحدہ میں ڈائنوسار کا پیغام appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ZEBGwJ
via IFTTT

کوئی 911 پرکال کرے، نیوزی لینڈ اور بھارت کے میچ کے بعد ڈیرن سیمی کی ٹوئٹ ... میں نے ابھی ابھی 'برائے مہربانی کوئی 911 پر کال کرے، میں مصیبت میں ہوں ،میں واقعی بڑی مصیبت میں ... مزید

نیشنل بینک پر سائبر حملے کا خاتمہ، صارفین کو آج سے خدمات کی فراہمی بحال ایکسپریس اردو

 کراچی: نیشنل بینک کے نظام پر سائبر حملہ کے خدشات کا خاتمہ ہوگیا، آئندہ چند روز میں خدمات مکمل طور پر بحال کردی جائیں گی، نیشنل بینک کی شاخیں معمول کے مطابق کھلیں گی اور کسٹمرز کو حتی الامکان خدمات فراہم کی جائیں گی۔

نیشنل بینک آف پاکستان کی انتظامیہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ نیشنل بینک کے سسٹم کے متاثرہ حصوں کو بحال کرلیا گیا ہے، اے ٹی ایم آپریشن، پنشنرز کو پنشن اور تنخواہوں کی ادائیگی یکم نومبر سے معمول کے مطابق ہوگی۔

یہ بھی پڑھیے : قومی بینک کے سرورز پر سائبر حملہ، صارفین کو خدمات کی فراہمی معطل

ترجمان نیشنل بینک کی تمام شاخیں یکم نومبر کو معمول کے مطابق کھلیں گی اور کسٹمرز کو خدمات فراہم کی جائیں گی، نیشنل بینک کی ہیلپ لائن بھی بحال کردی گئی ہے جب کہ بینک کے کھاتے داروں کا مالیاتی ڈیٹا بھی محفوظ ہے۔

The post نیشنل بینک پر سائبر حملے کا خاتمہ، صارفین کو آج سے خدمات کی فراہمی بحال appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3GDm6BQ
via IFTTT

آج کا دن کیسا رہے گا ایکسپریس اردو

حمل:
21مارچ تا21اپریل

مایوسی کے اندھیرے اجالوں کی دبیز چادر تلے دم توڑ سکتے ہیں ہمت و استقلال کی بنیادوں پر کاروبار کو ابھارنے کی کوشش کیجئے پھر دیکھیں ہر مسئلہ بفضل خدا حل ہوتا چلا جائے گا۔

ثور:
22 اپریل تا 20 مئی

راہ چلتے اور گاڑی چلاتے ہوئے محتاط رہیں اپنے اخراجات بھی گھٹا دیجئے تاکہ موجودہ آمدنی میں اضافہ ہو سکے اور آپ خوشحال رہ سکیں۔

جوزا:
21 مئی تا 21جون

ہر بات کا فیصلہ خود کرنے کی بجائے بہتر ہے شریک حیات کی رائے کو اولیت دیں تاکہ آپ کے تعلقات مضبوط ہو سکیں اپنی رقم کی حفاظت کریں۔

 

سرطان:
22جون تا23جولائی

دماغ پر جنسی خیالات کو غالب نہ آنے دیں اس طرح آپکی اعلیٰ صلاحیتوں کو زنگ لگ سکتا ہے کاروبار میں خصوصی دلچسپی لے لیں تاکہ نقصان کا احتمال نہ رہے۔

اسد:
24جولائی تا23اگست

اپنے دل کا راز آج آپ کسی سے بھی نہ کہیں چاہے یہ آپ کا کتنا ہی بھروسے مند ساتھی ہی کیوں نہ ہو کیونکہ اگر آپ نے ایسا کیا تو بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

 

سنبلہ:
24اگست تا23ستمبر

ملازمت پیشہ افراد پوری یکسوئی سے اپنے فرائض انجام دیں دوستوں کی تعداد میں خاطر کواہ اضافہ ہو سکتا ہے مگر ان سے فائدہ نہ ہو سکے گا۔

میزان:
24ستمبر تا23اکتوبر

ان گنت رکاوٹیں آپ کے راستے میں حائل رہیں گی مگر بلاشبہ آپ ان رکاوٹوں کو گِرا کر کامیابی کا سفر طے کرتے جائیں گے رہائش کی تبدیلی ممکن ہے۔

عقرب:
24اکتوبر تا22نومبر

ہمارے سابقہ دئیے ہوئے مشوروں کو اپنا نصب العین بنائے رکھیں تاکہ زندگی بہتر انداز سے گزار سکیں کسی بھی معاملے میں جلد بازی ہرگز نہ کریں۔

قوس:
23نومبر تا22دسمبر

اگر آپکا تعلق گارمنٹس کے شعبے سے ہے تو خاطر خواہ آمدنی میں اضافہ ہونے کی توقع ہے آمدنی بڑھ جانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اسے فضول کاموں میں خرچ کر دیں لہٰذا احتیاط برتیں۔

جدی:
23دسمبر تا20جنوری

ذہنی انتشار بڑھے گا خود کو جذباتیت سے آزاد رکھیں تو بہتر ہے آج آپ کو چھوٹی سی چھوٹی چیز کیلئے بھی تگ و دو کرنا پڑسکتی ہے اس لئے ہمت سے کام لیجئے۔

دلو:
21جنوری تا19فروری

بلاشبہ آپ اپنے زوربازو سے بہت کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے نزدیکی سفر آپ کے مقاصد کی تکمیل کا باعث بن سکتا ہے ضرور کریں۔

حوت:
20 فروری تا 20 مارچ

لڑائی جھگڑے کے معاملات سے خود کو دور ہی رکھیں تو بہتر ہے کہیں یہ نہ ہو کہ لڑائی آپ کے گلے کا ہار بن جائے محبوب سے وابستہ توقعات پوری ہوں گی۔

The post آج کا دن کیسا رہے گا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3iwZBVb
via IFTTT

آئندہ ووٹوں پر ڈاکا ڈالا گیا تو بغاوت کردیں گے، فضل الرحمان ایکسپریس اردو

ڈی جی خان: پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ آئندہ حکومت ہوگی تو عوام کے ووٹ کے بنیاد پر ہوگی، دوبارہ ووٹوں پر ڈاکا مارا گیا تو بغاوت کریں گے۔

پی ڈی ایم کی جانب سے ڈیرہ غازی خان میں منعقدہ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ 25 جولائی 2018ء پاکستان کی جمہوریہ اور سیاسی تاریخ کا سیاہ دن تھا، موجودہ حکمران پہلے تو ناجائز تھے اب نالائق اور نااہل بھی ثابت ہوئے ہیں اور ہم نے دنیا کو بتا دیا کہ حکومت جعلی ہے، ایک کروڑ نوکری دینے والوں نے لوگوں کو بے روزگار کر دیا، آج کسان، ڈاکٹر، وکیل غرض سب پریشان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا حکمران جہاں جاتا ہے بھکاری کی طرح جاتا ہے، ہمارے حکمران کو شرم نہیں آتی لیکن ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے، جس ملک کی معیشت گر جاتی ہے وہ اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا جب کہ ملکی سالانہ ترقی کا تخمینہ صفر سے بھی نیچے جا چکا ہے، ہمیں ابھی اس ملک کو بچانا ہے۔

فضل الرحمان نے کہا کہ ملک کا نظام نیب کے ذریعے چلایا جا رہا ہے، ملک پر آج ایک آمرانہ حکومت ہے، عمران خان نے کشمیر کو بیچ دیا، سی پیک کے منصوبے کو خراب کر کے چین کو ناراض کر دیا، نیو یارک میں دنیا کا کوئی حکمران عمران خان سے ہاتھ ملانے کے لیے تیار نہیں تھا، ایشیاء کا کوئی ملک پاکستان سے تجارت کر نے کو تیار نہیں ہے۔

سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ آئندہ حکومت ہوگی تو عوام کے ووٹ کے بنیاد پر ہوگی، دوبارہ ووٹوں پر ڈاکا مارا گیا تو بغاوت کریں گے، پی ڈی ایم کی تحریک انشاءاللہ آگے بڑھے گی، پی ڈی ایم کا پیغام ملک کے ہر شہر، گلی اور چوکوں میں پھیلانا ہے۔

The post آئندہ ووٹوں پر ڈاکا ڈالا گیا تو بغاوت کردیں گے، فضل الرحمان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ZFqUpf
via IFTTT

بھارت و کیویز پاکستانی شکست بھلانے کے خواہاں ایکسپریس اردو

دبئی: بھارت اور کیویز کوپاکستانی شکست بھلانے کا چیلنج درپیش ہے جب کہ  دونوں ٹیمیں آج سیمی فائنل میں رسائی کی امیدوں کا دیا جلانے کی کوشش کریں گی۔

آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ میں اتوار کے روز گروپ 2 میں پاکستان سے شکست کھانے والی 3 ٹیمیں ایکشن میں ہوں گی اور تینوں کی نگاہیں میگا ایونٹ کے سیمی فائنل میں رسائی کی امیدوں کا دیا جلانے پر مرکوز ہوں گی۔

بڑا مقابلہ بھارت اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہوگا، دونوں ہی اپنے ابتدائی میچز میں گرین شرٹس کے ہاتھوں شکست کا منہ دیکھ چکی ہیں، دونوں کو ہی اسی ناکامی کے اثرات سے باہر آنے کا سخت چیلنج درپیش ہوگا۔ ٹاس اور اوس دونوں ہی اس مقابلے میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔

کیویز اپنے فاسٹ بولنگ اٹیک سے بھارت کی مضبوط بیٹنگ لائن کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی تیار کیے ہوئے ہے، فاسٹ بولر ٹم ساؤدی کہتے ہیں کہ بھارت ایک بہترین ٹیم اور وہ بھی ہماری طرح فتح کیلیے بے چین ہوں گے، اس لیے یہ ایک زبردست مقابلہ ثابت ہونے والا ہے، پہلا میچ ہمیشہ ہی کافی مشکل اور ہمیں پاکستان کی بہترین ٹیم کے ہاتھوں ناکامی ہوئی مگر اب ہم اس مختصر ٹورنامنٹ میں آگے کی جانب دیکھ رہے ہیں۔

دوسری جانب بھارت بھی اپنے تجربہ کار بیٹسمینوں کی مدد سے فتح حاصل کرنے کیلیے پراعتماد ہے، ٹیم میں فوری طور پر کسی ردوبدل کا امکان بظاہر کم ہے، جیت سے ویرات کوہلی بھی گرین شرٹس سے ملنے والی شکست کا غم کچھ کم کرنا چاہتی ہے۔

آج پہلے میچ میں پاکستان سے زیر ہونے والی افغان ٹیم کا سامنا نمیبیا سے ہوگا، افغانستان اور نمیبیا دونوں ہی اسکاٹ لینڈ کے خلاف سپر 12 راؤنڈ میں فتح کی بدولت 2، 2 پوائنٹس حاصل کرچکے ہیں، دونوں ہی ایک اور فتح سے اپنے سیمی فائنل میں رسائی کے امکانات کو تقویت پہنچانے کی کوشش کریں گے۔

The post بھارت و کیویز پاکستانی شکست بھلانے کے خواہاں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3w0QuRI
via IFTTT

Saturday, October 30, 2021

وزیر اعظم نے موجودہ صورتحال میں وزراء کو سخت بیان بازی سے روک دیا ... مذاکرات تک سخت بیان بازی سے گریزکیا جائے‘ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے یہ ہدایات علماء کی شکایت پر ... مزید

نیشنل بینک کے سرور پر سائبر حملہ ، صارفین کو خدمات کی فراہمی روک دی گئی ... نیشنل بینک کے سرور پر سائبر حملہ 29 اور 30 اکتوبراکتوبر کی رات کے درمیان کیا گیا ، متاثرہ سسٹم کو ... مزید

اپنی بیٹی کی لاش کو 5سال تک باتھ روم میں چھپانے والی ماں گرفتار ... پولیس کو تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ لڑکی 2016 میں ہی مر گئی تھی، پولیس نے ماں بیٹے دونوں کو گرفتار کر لیا، ... مزید

سوشل لیڈرز سماجی ترقی کے سفیر ایکسپریس اردو

لیڈرشپ ایک بہت وسیع اور دل چسپ موضوع ہے۔ جدید ریسرچ نے اس کے کئی نئے پہلوئوں کو واضح کیا ہے۔

اسی کی ایک شاخ سوشل لیڈرشپ ہے۔ ہماری دُنیا میں اس وقت سوشل لیڈرز کی اشد ضرورت ہے۔ مذہبی اور سیاسی قیادت کی عالمی سطح پر پرفارمنس کے بعد اس چیز کو بڑی شدت سے محسوس کیا گیا کہ سوشل لیڈرز کیسے دُنیا میں تبدیلی لاسکتے ہیں؟

دُنیا کو ایسے لیڈرز کی ضرورت ہے جو رنگ، نسل، مذہب وملک کی تفریق کے بغیر انسانیت کی بھلائی اور معاشرتی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرسکیں۔ آج کے اس مضمون میں ہم سماجی قیادت کیا ہے؟ اس کا معاشرے میں کیا کردار ہے اور کون لوگ سوشل لیڈرز بن سکتے ہیں؟ پر تفصیلی گفتگو کریں گے۔

٭ سوشل لیڈرشپ کیا ہے؟
سوشل لیڈرشپ، لیڈرشپ کا ایک انداز ہے جو سماجی دُنیا کے لیے موزوں ترین ہے، آج ہم مسلسل بدلتی دُنیا میں رہتے ہیں۔ سماجی قیادت معاشروں میں حاصل کردہ اختیار کی ایک شکل ہے اور فرد کی ذاتی تشخیص کی بنیاد پر قائم ہے۔ یہ کسی بھی سماجی راہ نما کی رسمی اتھارٹی کو ایک درجہ بندی کے اندر تکمیل دے سکتی ہے، لیکن یہ ان لوگوں کے لیے بھی موزوں ہے جن کے پاس کوئی رسمی طاقت نہیں ہے۔

دُنیا بھر میں افراد اور ٹیموں کے لیے سماجی لیڈرشپ کی صلاحیت کو تیار کرنے کے لیے مختلف کورسز تیار کیے جاتے ہیں جن کا مقصد لوگوں کو سماجی دور کے ذریعے اُن کے سفر میں راہ نمائی فراہم کرنا اور اُن کو سماجی تعاون اور تخلیق کا تجربہ فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنی اپنی کمیونٹی کے روزمرہ کے کاموں، چیلنجوں کو حل کرسکیں۔

علاوہ ازیں سماجی راہ نما کی کسی تنظیم کو ترقی کی منازل طے کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ سماجی قیادت عاجزی، انصاف اور مہربانی پر بنائی جاتی ہے، لیکن یہ طاقت کی کوئی عام شکل نہیں ہے۔ یہ ایک طاقت ہے جو کمائی جاتی ہے اور اس کی وجہ سے اس کا بہت زیادہ وزن ہوتا ہے۔ یہ اعتماد سے بنائی گئی مضبوط عمارت ہے۔ ہم سب کے پاس علم اور تجربے کا قیمتی خزانہ ہے اور ہماری ذمے داری ہے کہ ہم اس علم اور تجربے کو ان لوگوں تک پہنچائیں جو اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

اگر آپ بطور مینیجر کام کر رہے ہیں، مثال کے طور پر ٹیم لیڈر یا پراجیکٹ مینیجر۔ اگر آپ سنیئر مینجمنٹ سے لے کر مڈل مینجمنٹ تک کی تنظیم یا کمیونٹی ریسپونڈر کے رکن ہیں، تو سماجی قیادت کی صلاحیت آپ کو ایسی مہارتیں پیدا کرنے میں بھی مدد دے گی جو آپ کو انسانی زندگی کے مختلف شعبوں میں روایتی انداز سے کام کرنے سے بڑھ کر پرفارم کرنے کے لیے متحرک کرے گی تاکہ آپ دوسرے انسانوں کو زندگی میں آگے بڑھنے میں راہ نمائی کر سکیں۔

کیا آپ بھی سوشل لیڈرز بن سکتے ہیں؟ جی ہاں ہر وہ انسان جو معاشرے میں دوسرے انسانوں کے ساتھ سماجی تعلقات رکھتا ہے اور سماجی شعور کا حامل ہے وہ اپنے اندر چند بنیادی صلاحیتوں کو پروان چڑھا کر ایک بہترین سماجی لیڈر بن سکتا ہے۔

سماجی لیڈر کے لیے یہ چند صلاحیتیں ہونی چاہئیں۔ دوسرے لفظوں میں اپنی ذات کا SWOT تجزیہ کرنا ہے ۔اپنی بہترین مہارتوں کا پتا لگائیں۔ خاص طور پر جن پر آپ کام کرنا چاہتے ہیں ان کی شناخت کریں۔ایسی کمیونٹی کو تلاش کریں جس میں شامل ہوکر آپ اپنا خاص شعبہ میں نام ومقام حاصل کرتے ہیں۔اپنے رویے سے معاشرے میں مثبت اثر پیدا کریں۔اپنے ذاتی، مذہبی، علاقائی اور سیاسی اختلافات کو پس پردہ رکھ کر معاشرے کی بہتری کیلئے سماجی راہ نما بنیں۔

سماجی راہ نماؤں کے لیے کاروباری اور سماجی معاملات کو چلانے کے لیے ضروری مہارت، نقطہ نظر اور خود آگاہی سے روشناسی حا صل کریں۔

یاد رکھیں ہماری دُنیا کو سماجی راہنماؤں کی اشد ضرورت ہے۔ سماجی قیادت ایک ابھرتی ہوئی قیادت کا انداز ہے جو جدید معاشرے کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کیوںکہ سماجی راہ نما معاشرے میں مضبوط تعلقات قائم کرسکتے ہیں۔

ہم ڈیجیٹل تبدیلی کے درمیان راہ نماؤں کے ساتھ مزید ردِعمل اور مضبوط انسانی تعلقات کی توقع کرتے ہیں۔ اس سماجی دور میں، راہ نما نہ صرف اپنے ملازمین اور صارفین کے ساتھ حقیقی مکالمہ کرتے ہیں، بلکہ انہیں معاشرے میں اپنے کردار پر نظرثانی کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ سماجی راہ نما سماجی اثرات کی اسٹریٹجک قدر کو سمجھتے ہیں۔

اپنے پائے دار اہداف کو پورا کرنے کے لیے تنظیموں اور معاشروں کو ایسے سماجی راہ نماؤں کی ضرورت ہوتی ہے جن کے پاس کاروباری نتائج اور سماجی اثرات دونوں کو چلانے کے لیے مہارت، نقطہ نظر اور قابلیت ہو۔ سماجی راہ نما سمجھتے ہیں کہ مشترکہ قدر پیدا کرنے اور مثبت معاشرتی اثرات کے نتیجے میں کاروباری کارکردگی مضبوط ہوتی ہے۔ سماجی راہ نما دوسروں کی کام یابی کے لیے ضروری ماحول قائم کرتے ہیں۔

دُنیا علم کی کمی سے علم کی کثرت کی طرف بڑھ گئی ہے۔ اب یہ فرق نہیں پڑتا کہ میں وہ نہیں جانتا جو آپ جانتے ہیں لیکن اس سے فرق پڑتا ہے کہ آپ جو کچھ جانتے ہیں اس کے ساتھ آپ کیا کرسکتے ہیں۔ مواد پر مہارت اب کافی نہیں ہے۔ راہ نماؤں کو ان چیزوں کو فلٹر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو وہ سنتے، دیکھتے اور پڑھتے ہیں، مختلف نمونوں کو پہچانتے ہیں اور دوسروں کو کام یاب ہونے کے لیے موثر ترتیب دیتے ہیں۔ ہمیں مؤثر سماجی راہ نما بنانے کے لیے منظم منصوبہ سازی اور تنظیم سازی کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں تنظیموں کو اپنے سماجی مقصد کو اپنے لوگوں کے ذریعے زندگی میں حا صل کرنے میں مدد کرنی ہے۔ ہمیں ایک ایسی دُنیا بنانے میں مدد کرنی چاہے جہاں تمام تنظیموں کی قیادت ان لوگوں کی طرف سے کی جائے جو دوسروں کو عظمت کی طرف راغب کرتے ہیں۔ ایسے تجربات کے ذریعے جو لوگوں میں خود آگاہی پیدا کرتے ہیں، ان کے عالمی نقطہ نظر کو وسعت دیتے ہیں اور ان کی ہنرمندی کو تقویت بخشتے ہیں، ہمیں ایسے راہ نما تیار کرنے ہیں جو پوری تنظیم کو ایک مشترکہ مقصد کے گرد ترتیب دینے کے لیے تیار ہوں۔

٭ سماجی قیادت کس طرح ہماری قیادت کا انداز بدل رہی ہے؟
ایک وقت تھا، اور اب بھی ہے، جب جذباتی یا ہمدرد ہونے کو کمزور مہارت کے طور پر دیکھا جاتا تھا جس کا موثر انتظام میں کوئی مقام نہیں تھا۔ آج کے کاروباری ماحول میں، کام یاب قیادت میں تیزی سے پیچیدہ عوامل کو سمجھنے بلکہ راہ نماؤں کو نہ صرف ذہین اور مضبوط فیصلہ ساز ہونے کی ضرورت ہے، بلکہ ان کے پاس بہترین سماجی مہارتوں بھی ہونی چا ہیں۔

٭ سماجی قیادت کیوں ضروری ہے؟
ایک سماجی راہ نما ہونے کی حیثیت سے، سب سے پہلے، ہمیں یہ تسلیم کرنا کہ لوگوں کی ایک ٹیم ہے جو تمام فیصلوں، نظریات کی تخلیق اور نفاذ کے لیے ذمہ دار ہے۔ ایک راہ نما کے طور پر ’’میں‘‘ کی بجائے ’’ہم‘‘ کے ساتھ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ایک سماجی راہ نما ہونا صرف یہ جاننے سے زیادہ ہے کہ ہم ایک ٹیم ہیں، ایک سماجی راہ نما کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ٹیم کے اندر اعتماد، باہمی اشتراک اور احترام کیسے پیدا کیا جائے۔

ٹیم کے اندر یہ اقدار تمام اراکین کو خیالات کو تبادلہ کرنے یعنی مکالمہ کرنے اور تعاون کرنے بدولت ہی پروان چڑھے گا۔ ایسا ماحول ایک کھلی فضا پیدا کرے گا جہاں سے ہر ایک کو بدلتی ہوئی ہوا کے ذریعے راہ نمائی میں زیادہ حصہ داری حاصل ہوگی۔ تعلقات کی تعمیر اور کمیونٹی کے ذریعے سماجی قیادت کی مہارت حاصل کرنا، ایک مؤثر راہ نما بننا اور پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔

کچھ لوگ بہت متاثر کن سماجی مہارتوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، جب کہ دوسروں کے لیے یہ ایک جدوجہد ہوسکتی ہے۔ لیڈر سماجی راہ نما کے طور پر پیدا ہوتا ہے یا نہیں، یہ ایک الگ سوال ہے ۔ لیکن سماجی مہارتیں سیکھی اور ان پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ کچھ کے لیے یہ مشکل ہوسکتا ہے، لیکن وہ ایک کام یاب ٹیم کو منظم کرنے کے لیے اہم مہارت رکھتے ہیں۔ بہت سی خصوصیات ہیں جو قدرتی سماجی راہ نماؤں میں ہوتی ہیں۔

ان میں چند کا ذکر مندرجہ ذیل ہے۔
احساس کا جذبہ: سماجی راہ نما دوسروں کا احساس اور ان کی فلاح وبہبود کا خیال رکھتے ہیں۔
تعاون: سماجی راہ نما یہ سمجھتے ہیں کہ فیصلے ایک ٹیم کے طور پر کیے جاتے ہیں اور وہ دوسروں کی رائے کا احترام کرتے ہیں۔
شفافیت: سماجی راہ نما اپنے ارد گر لوگوں کے ساتھ دیانت دار اور مستند ہونے کے قابل ہوتے ہیں۔
ہمدردی: سماجی راہ نما یہ دیکھنے کی اہلیت رکھتے ہیں کہ فیصلے دوسرے لوگوں پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں اور واقعات کو سمجھنے کے لیے دوسرے شخص کے نقطہ نظر سے استفادہ حاصل کرتے ہیں۔
خود آگاہی :سماجی راہ نما خود کو جاننے اور اپنی طاقت، کم زوریوں، احساسات اور اقدار کا جائزہ لینے کے قابل ہوتے ہیں۔
متوازن: سماجی راہ نما مشکلات حالات اور دبائو کے دوران متوازن رہتے ہیں۔
لوگ سے مضبوط تعلقات: سماجی راہ نما جانتے ہیں کہ لوگ اور رشتے کسی تنظیم کی ترقی کے لیے اہم ہوتے ہیں، اور تنظیم کے سماجی پہلو کو مضبوط بنانے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں۔
ہمت: سماجی راہ نما درست کام کرنے کی جرأت اور قابلیت رکھتے ہیں، حالاںکہ یہ آسان نہیں ہوتا ہے۔
ان میں سے بہت سی خصوصیات اعلٰی سطح کی جذباتی ذہانت کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جو بہتر انتظام کے لیے اراکین کی بہتر کارگردگی کا باعث بن سکتی ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جن ملازمین کے پاس اعلٰی EQ کے مینیجرز تھے ان کی کمپنی چھوڑنے کے امکانات چار گنا کم تھے اور کمپنی کلچر کے بارے میں ان کے 70 فی صد سے زیادہ متاثر ان مینیجر کی جذباتی ذہانت کی سطح کے نتیجے میں ہوئے تھے۔

٭ تو کیا آپ سماجی راہ نما ہیں؟
یہ 10 سوالات کے ساتھ آپ کو ایک عام احساس ہوگا کہ آپ میں سماجی راہ نما کی خصوصیات ہیں یا نہیں اور اگر آپ انہیں اپنے قائدانہ اسٹائل میں استعمال کر رہے ہیں:
کیا آپ عام طور پر اپنے ملازمین پر مکمل کام کرنے اور صحیح کام کرنے پر اعتماد کرتے ہیں؟
کیا آپ مسائل سے قبل ازوقت بچائو کے طریقوں کے بارے میں سوچتے ہیں یا مسائل درپیش ہونے پر عمل کرتے ہیں؟
جب آپ کوئی فیصلے کرتے ہیں تو کیا دوسروں کے خیالات سننا پسند کرتے ہیں؟
کیا آپ تبدیلی پسند کرتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ چیزیں کیسے مختلف اور بہتر ہو سکتی ہیں؟
کیا آپ اپنے ملازمین کے ساتھ اقدار کو فروغ دینے اور انسانی عظمت کی حوصلہ افزائی کے لیے کام کرنا پسند کرتے ہیں؟
کیا آپ عام طور پر روشن پہلو دیکھنے کو تیار ہوتے ہیں؟
کیا آپ اپنی غلطیوں کی ذمے داری قبول کر سکتے ہیں؟
کیا آپ اپنے سے مخالف نقطہ نظر کے حامل افراد کے ساتھ بات چیت کرسکتے ہیں؟
کیا آپ انفرادی نقطہ نظر پر ٹیم کے نقطہ نظر کی قدر کرتے ہیں؟
کیا آپ گروپ کو آئیڈیاز اور مثبت نتائج کا کریڈٹ دینے کے قابل ہیں؟

اگر آپ نے ان میں سے بیشتر یا تمام سوالات کے ہاں میں جواب دیے ہیں تو آپ میں پہلے ہی سے سماجی راہ نما کی بہت سی خوبیاں موجود ہیں۔ ان سوالات کے لیے جہاں آپ کا جواب نہیں تھا، یہ جاننے کی کوشش کریں کہ یہ معیار آپ کے ساتھیوں کو کس طرح متاثر کرتا ہے۔

اگر یہ ایسی چیز ہے جسے آپ مزید ترقی دینے اور بہتر کرنے میں دل چسپی رکھتے ہیں تو، ان سوالات کو اپنی ٹیم کے ساتھ شیئر کریں اور دیکھیں کہ ان کے جوابات کیا ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ اس مشق کو اپنے لیے بھی استعمال کریں، تاکہ ان کی اپنی سماجی قیادت کی صلاحیت کا بھی جائزہ لیا جا سکے۔

سماجی راہ نما بننا ایک طویل اور مسلسل جاری رہنے والا عمل ہے۔ ہم سب سماجی ہیں، لہٰذا ہر ایک میں سماجی راہ نما ہونے کے عناصر موجود ہوتے ہیں۔ لیکن اگر مذکورہ بالا سوالات کے بہت سے جوابات دوسری صورت میں بیان کیے گئے ہیں تو، کچھ چیزیں ایسی ہیں جن پر عمل کرکے کسی کو بھی بہتر سماجی راہ نما بنایا جا سکتا ہے۔ ایک سماجی لیڈر سننے اور سمجھنے کے قابل ہوتا ہے تاکہ دوسرے لوگ اس مسئلے کو تیزی سے اور آسانی سے آگے بڑھا سکیں۔ راہ نماؤں کو ملازمین سے اتفاق کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے اور ان کے پاس تمام جوابات بھی نہیں ہوتے ہیں، لیکن وہ سن سکتے ہیں اور مشورے دے سکتے ہیں۔

تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ زیادہ تر لوگ کہتے ہیں کہ سپورٹیو باس کے لیے کام کرنا بہت زیادہ پیسہ کمانے سے زیادہ اہم ہے۔ ایسے لیڈر جو اپنے ملازمین کا خیال رکھتے ہیں وہ اُن پیداواری صلاحیت کو بڑھاتے ہیں۔ کام اور لوگوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ہم دردی سے سننا اور جواب دینا سیکھنا نہ صرف ایک بہتر لیڈر بننے کے لیے، بلکہ ٹیم کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کے بہترین ذریعہ ہے۔

٭ پاکستانی معاشرے میں سماجی لیڈر، عملی مثالیں:
پاکستانی معاشرہ ایک متحرک اور منفرد معاشرہ ہے۔ اس میں کئی اہم اور مثبت پہلو ہیں جو اسے توانا رکھے ہوئے ہیں۔ صحت مند اور بھرپور معاشروں میں سماجی راہ نما وہ افراد ہوتے ہیں جو معاشرے کی اجتماعی فلاح و بہتری کے لیے رول ماڈلز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان میں عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر روتھ فائو، ڈاکٹر ادیب رضوی، ڈاکٹر امجد ثاقب، دارالسکون کی سسٹر روتھ لوئیس اور ایسے بے شمار نام ہیں جنہوں نے اپنی گراں قدر خدمات سرانجام دیں ہیں۔

بنیادی طور پر اُن کے پاس کو مذہبی اور سیاسی اختیار اور عہدہ نہ تھا لیکن اُن کے خیالات کا اثر ضرور معاشرے پر مثبت اندازہ ہوتا۔ ہمیں اپنے معاشرے میں بہتری، ترقی اور رواداری اور بھائی چارے کو قائم کرنے کے لیے نوجوانوں کو سماجی قیادت کی افادیت سے آگاہ کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہمارا معاشرہ سماجی برائیوں کے خلاف ایک موثر، منظم اور مستحکم دیوار بن سکے۔

The post سوشل لیڈرز سماجی ترقی کے سفیر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3pSVGGr
via IFTTT

باغبانی کے انسانی صحت پر 10حیرت انگیز فوائد ایکسپریس اردو

باغبانی کے فوائد کے بارے میں سوچیں تو گھر کے خوبصورت لان کا پورا منظر کھل جاتا ہے۔ درخت ، پودے ، پھول، گھاس کا ایک خوبصورت قطعہ اور مزے کی تازہ سبزیاں طبیعت کو خوش کر دیتی ہیں۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ باغبانی ان چند مشاغل میں سے ایک ہے جو صحت کے لئے سب سے زیادہ مفید ہیں۔ باغبانی آپ کے مدافعتی نظام کو مضبوط بناتی ہے، یہ آپ کے دماغ کو تیز طرار بناتی ہے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ اس کے مزید بہت سے فوائد ہیں، جنھیں جان کر نہ صرف آپ حیران رہ جائیں گے بلکہ باغبانی کے لئے فوراً پرجوش ہو جائیں گے۔

عمومی طور پر جو لوگ توانا اور صحت مند رہنا چاہتے ہیں، وہ ورزش کو ترجیح دیتے ہیں ۔ یقیناً ورزش اچھی چیز ہے کیونکہ آپ اس کے ذریعے اپنے پٹھوں کو مضبوط کر سکتے ہیں، آپ یوگا کے ذریعے نہ صرف اپنی جسمانی لچک بڑھا سکتے ہیں بلکہ جسم میں توازن کو بھی برقرار رکھ سکتے ہیں لیکن اگر آپ کو بتایا جائے کہ یہ سب فوائد آپ باغبانی سے بھی حاصل کر سکتے ہیں؟ تو آپ کیسا محسوس کریں گے!!

چلیے ! بات کرتے ہیں پھر باغبانی کی ، جو ایک ایسی جسمانی سرگرمی ہے جس سے آپ وہ شاندار نتائج بھی حاصل کر سکتے ہیں جو آپ کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوں گے ۔ یہ فوائد ہر فرد کو حاصل ہوں گے چاہے اس کی عمر کچھ بھی ہو ۔

نیویارک شہر میں ’ این وائی یو لینگون میڈیکل سینٹر ‘ کے شعبہ ’ رسک ری ہیبیلیٹیشن ‘ میں ہارٹیکلچرل تھراپی کے مینجر گوئن فرائیڈ کہتے ہیں : ’’ جب میں باغبانی سے حاصل ہونے والے فوائد کے بارے میں سوچتا ہوں تو ان میں سب سے پہلا فائدہ باہر جانا اور تازہ ہوا میں رہنا ہے۔‘‘ اب اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے طبی فوائد بیش بہا ہیں۔ آپ شمار کرتے جائیں گے تو ختم ہونے میں نہیں آئیں گے۔ یہ سب فوائد آپ کے جسم ، ذہن اور روح کو بیک وقت حاصل ہوں گے۔

یہ بات آپ پہلے ہی سے جانتے ہوں گے کہ آپ اپنے باغیچہ میں ایسی جڑی بوٹیاں اُگا سکتے ہیں جو بطور دوا استعمال ہو سکتی ہیں ۔ مثلاً پودینہ ، دھنیا ، سونف اور بہت کچھ ۔آپ کو بس ! کیاری تیار کرنی ہے، بیج بونا ہے اور روزانہ اسے پانی دینا ہے۔

آئیے ! ہم ہم باغبانی سے حاصل ہونے والے دیگر فوائد پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

1۔ سبزیوں سے محبت ہو جاتی ہے
باغبانی سے آپ اور آپ کے بچوں میں سبزیوں اور پودوں سے محبت پیدا ہوتی ہے ۔ ممکن ہے کہ آپ بچپن میں گھر میں پکی ہوئی سبزی والدین سے چھپ کر کھانے کے بجائے ضائع کردیتے ہوں! ممکن ہے کہ آپ کو بھی بند گوبھی دیکھ کر ’’ پیٹ میں بہت زور سے درد ‘‘ شروع ہو جاتا ہو ۔ ممکن ہے کہ آپ اب تک یہی سوچتے ہوں کہ سبزیاں کھانا تو صرف بوڑھوں کا کام ہے۔

’ جرنل آف دی اکیڈمی آف نیوٹریشن اینڈ ڈائیٹیٹیکس ‘ (Journal of the Academy of Nutrition and Dietetics ) میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق جو بچے باغبانی سے متعارف ہوتے ہیں، وہ پھل اور سبزیاں زیادہ کھاتے ہیں۔ آپ کوسبزیاں اور پھل کھانے سے حاصل ہونے والے فوائد بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔آپ ہزار مرتبہ پڑھ ، سن چکے ہوں گے۔ مختصراً یہ سبزیاں اور پھل ہی تو ہیں جو آپ کو زندگی میں صحت کے لطف کا مزہ دیتی ہیں۔

2۔ وزن کم ہوتا ہے
باغبانی وزن کو قابو میں رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ امریکن جرنل آف پبلک ہیلتھ (American Journal of Public Health ) میں 2013ء میں شائع والی رپورٹ کے مطابق ہر فرد چاہتا ہے کہ وہ وزن کو بڑھنے سے روکے یا وزن میں چند پائونڈز کمی کر لے ۔ خواتین تو وزن کے حوالے سے بہت زیادہ متفکر ہوتی ہیں ۔کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ مقصد باغبانی سے بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ محققین کے مطابق باغبانی کرنے والے افراد کا بی ایم آئی ( باڈی ماس انڈیکس ) دوسرے افراد کی نسبت کم ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ موٹاپے کا کم ہی شکار ہوتے ہیں ۔ باغبانی کی مدد سے عورتیں 11پائونڈز اور مرد 16پائونڈز تک اپنے اوسط وزن میں کمی کر سکتے ہیں۔

3۔ باغبانی ایک تفریح
باغبانی بطور ورزش جسمانی سرگرمی کے علاوہ تفریح کا بھی ایک ذریعہ ہے ۔ ذرا سوچیں کہ آپ کا بوڑھا پڑوسی جب بور ہوتا ہے تو وہ کیوں باغیچہ میں چلتا پھرتا نظر آتا ہے،اس سوال پر ذرا زیادہ تفصیل سے سوچیں۔ باغ میں پودوں کے لئے کیاریاں بنانا، گھاس تراشنے والی مشین لے کر چلنا پھرنا، وزنی گملے اٹھا کر اِدھر سے اُدھر کرنا ، بیج بونا ، پانی دینا ، باغبانی کے اوزار اِدھر سے اُدھر منتقل کرنا ، کھاد ڈالنا یہ سب ورزشیں ہی تو ہیں۔ امریکی جریدے ’سوسائٹی فار ہارٹی کلچرل سائنس ‘ ( American Society for Horticultural Science)کے مطابق باغبانی ورزش کے ساتھ ساتھ ایک مقصد بھی ہے، فرائیڈ کا کہناہے کہ یہ ایک ایسی با مقصد سرگرمی ہے جو آپ کو طویل عرصے تک زندہ رہنے کے لئے تیارکرتی ہے۔

4۔ باغبانی روح کی غذا ہے
باغبانی ہماری روح کی پرورش کرتی ہے اور ہمیں روشنی مہیا کرتی ہے۔ یہ ایک بہت دلچسپ حقیقت ہے کہ پودے ہمارے ذہنی تنائو کو ختم کرتے ہیں، یہ ہماری حسیات میں مثبت تحریک پیدا کرتے ہیں۔اسی چیز نے ناسا کو ایک تجربہ کرنے پر قائل کرلیا جو اس نے2016ء میں کیا ۔ اس تجربے سے یہ ثابت ہوا کہ باغبانی خلا بازوں کو زمین سے بہت دور ، ایک سخت ماحول میں ذہنی طور پر چست اور خوش رکھ سکتی ہے ۔ ان کی تحقیق سے پتہ چلا کہ پودے لگانا اور بیج بونا انسان کے موڈ کو بہتر بناتا ہے اور ذہنی دبائو کو کم کرتا ہے۔ اگر یہ تجربہ خلابازوں کے لئے مفید ہوسکتا ہے تو یہ ان لوگوں کے لئے زیادہ مفید ثابت ہوگا جو خلابازوں کو ٹی وی پر دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ آپ پلاٹس اور کیاریوں میں بیج بوئیں یا پودے لگائیں۔ آپ چھوٹے چھوٹے برتنوں میں بھی یہ کام کرکے فوائد حاصل کرسکتے ہیں۔ ذرا ! آپ اپنے ادھر ادھر دیکھیں ، کتنے ہی گھروں میں باغبانی کے لئے عجیب و غریب طریقے اختیار کئے جاتے ہیں ۔

5۔ دل کو خطرات کم لاحق ہوتے ہیں
باغبانی دل کی بیماریوں کے خطرات کم کرتی ہے۔ بے شک یہ دل کی صحت کے لئے مطلوبہ ورزشوں کے برابر تو نہیں تاہم پھر بھی دل کو صحت مند رکھنے میں کافی حد تک مدد دیتی ہے۔ 2013ء میں ’ برٹش جرنل سپورٹس میڈیسن ‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق باغبانی دل کے دورے اور فالج کے خطرات کو کم کرتی ہے اور 30 فیصد تک مزید جینے کے امکانات بڑھاتی ہے۔ مٹی میں کام کرنے سے ایک طرف جسم سرگرم ہوتا ہے، دوسری طرف ذہنی تنائو کم ہوتا ہے۔ فرائیڈ کا کہنا ہے کہ ’’ باغبانی دراصل ہمیںقدرتی دنیا سے جوڑ کر ذہنی تنائو کم کرتی ہے۔‘‘ مٹی کھودنا ، گوڈی کرنا ، پودوں کو پانی دینا یہ سب ذہنی تنائو ختم کرنے والے کام ہیں۔کسی میز پر پڑے ہوئے پودے کی دیکھ بھال کرنے ، سبزیوں کا باغ لگانے کا عمل انسان کو ایک سرسبز اور صحت افزا ماحول میں گم ہونے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔

6۔ باغبانی ماحولیاتی تبدیلیوں کی رفتار کو کم کرتی ہے
باغبانی موسمی تبدیلیوں کی رفتار کو سست روکر دیتی ہے۔ اس باب میں بہتری کے لئے آپ انفرادی طور پر بھی بہت سے کام کر سکتے ہیں ۔آپ اس کے لئے ری سائیکلنگ کے ذریعے ، کارپولنگ کے ذریعے ، کم توانائی پر چلنے والی چیزیں استعمال کرکے ، ہائبرڈ کاروں کے ذریعے یہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کیا آپ کو علم ہے کہ اگر آپ گھر کے پچھلے حصے میں باغبانی کریں گے تو یہ بھی مذکورہ بالا کاموں جیسا مفید عمل ہے۔ ’ نیشنل وائلڈ لائف فیڈریشن‘ کی رپورٹ کے مطابق آپ باغیچہ لگا کر گرین ہائوس گیسوں میں بھی کمی لا سکتے ہیں،باغبانی کے نتیجے میں کئی چیزیں بازار سے خریدنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ، وہ گھر میں ہی دستیاب ہوں گی، آپ بہت سی چیزوں کو ری سائیکل کرکے استعمال کر سکتے ہیں۔ اسی طرح مزید کئی ایسے کام کرسکتے ہیں جو ہماری زمین کے لئے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔

7۔ مضبوط قوت مدافعت
باغبانی کے دوران ہاتھوں اور ناخنوں میں گھسنے والی مٹی سے یقیناً صفائی کی حالت متاثر ہوتی ہے لیکن سائنس دان کہتے ہیں کہ مٹی میں پائے جانے والے بیکٹیریاز ناخنوں میں پہنچ کر انسان کے مدافعتی نظام کو مضبوط بناتے ہیں۔ جی ہاں ! ہے نا حیرت کی بات !! 2015ء میں جریدے ’ امیونو ٹارگٹس اینڈ تھراپی‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ باغبانی آپ کی قوت مدافعت کو مضبوط کرتی ہے۔ یوں آپ کم سے کم بیمار ہوں گے ، وبائوں سے بہ آسانی لڑ سکیں گے ۔

8۔ ہاتھوں کی گرفت میں مضبوطی
باغبانی ہاتھوں کو مضبوط کرتی ہے ۔ بلند و بالا چٹانوں پر چڑھنے یا لوگوں سے نہایت مضبوط ہاتھوں سے مصافحہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہاتھوں کی گرفت مضبوط بنائی جائے۔ ہاتھوں کی مضبوطی ، لچک ، ان کے درمیان ہم آہنگی روزمرہ کے معمولات میں نہایت ضروری ہوتی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا ہاتھوں کی مضبوط گرفت کے بغیر آپ جار کا ڈھکن کھول سکتے ہیں؟ سامان اٹھا سکتے ہیں ؟ بچوں کو اٹھا سکتے ہیں؟ باغبانی آپ کی حرکیاتی صلاحیتوں کو بہتر اور پٹھوں کو مضبوط بناتی ہے۔ چند منٹ کی گوڈی آپ کو ایسی صلاحیت کو بہتر بناتی ہے جس کی مدد سے آپ روز مرہ کے بہت سے کام کرتے ہیں ۔

9۔ باغبانی مستقبل کے لئے پرامید بناتی ہے
یہ بات ایک مضبوط دلیل سے کہی جا سکتی ہے کہ باغبانی آپ کو آنے والے وقت کے لئے پرامید بناتی ہے۔ بقول فرائیڈ ’’ جب آپ کچھ بوتے ہیں تو آپ اس کے بڑھنے اور اس میں مسلسل تبدیلی کی توقع رکھتے ہیں۔‘‘ بھلا کیسے؟ اس کا کہنا ہے کہ جب کوئی ایک بیج بوتا ہے، اسے پانی دیتا ہے ، تو اسے یقین ہوتا ہے کہ بیج زمین میں جڑیں بنائے گا ، جو اس کے تنے کو طاقت بخشیں گی اور پھر اوپر اس کی شاخیں اور پتے بنیں گے۔‘‘ جب کوئی ایمان کے نتیجے میں پھل حاصل کرتا ہے تو پھر یہی ایمان اور امید اس کی روزمرہ زندگی میں بھی موجود ہوتی ہے۔

10۔ ذہنی صلاحیت میں تیزی پیدا ہوتی ہے
اچھی ورزش کے نتیجے میں آپ کے جسم کو جس قدر فوائد حاصل ہوتے ہیں، اس سے کئی گنا زیادہ فوائد باغبانی سے آپ کے ذہن کو ملتیہیں۔ یہ بات2019ء میں ’ انٹرنیشنل جرنل آف انوائرنمنٹل ریسرچ اینڈ پبلک ہیلتھ ‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں شامل تھی۔ محققین کے مطابق باغبانی ان دماغی اعصاب کی کارکردگی میں بہتری لاتی ہے جو یادداشت سے متعلق ہوتے ہیں۔ بڑی عمر کے کچھ افراد کے دماغی اعصاب کی کارکردگی کا لیول نوٹ کیا گیا ، پھر انھیں کچھ عرصہ باغبانی کرنے کو کہا گیا ، اس کے بعد دوبارہ ان کی کارکردگی چیک کی گئی تو تمام بزرگوں کی دماغی صلاحیت میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے کو ملا۔

فرائیڈ کے مطابق باغبانی کا سب سے حیران کن فائدہ یہ ہے کہ باغبانی کرنے والے پوری زندگی سیکھنے کی صلاحیت زیادہ رکھتے ہیں ، یہ زندگی میں دماغ کو متحرک رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ باغبانی کے ذریعے انسان نت نئے پودوں کے بارے میں سیکھتا ہے، نئی تدابیر ، ماضی کے تجربات اور پودوں سے منسوب لوک باتیں بھی ہمارے دماغ کو متحرک رکھتی ہے۔

The post باغبانی کے انسانی صحت پر 10حیرت انگیز فوائد appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3GBWoh4
via IFTTT

بُک شیلف ایکسپریس اردو

سفر زندگی کا
مصنف: جسٹس (ر) بشیر ۔اے۔ مجاہد، قیمت:600 روپے، صفحات:240،

ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ ، لاہور (03014568820)


حالات کیسے بھی ہوں محنتی ، ذہین اور حوصلہ نہ ہارنے والے اپنی منزل تک پہنچ ہی جاتے ہیں، زندگی میں آنے والے نشیب و فراز ان کا سفر مشکل ضرور بناتے ہیں مگر سفر روک نہیں سکتے ۔ جسٹس (ر) بشیر۔ اے۔ مجاہد کی زندگی بھی ایسی ہی ہے، انھوں نے اپنی زندگی بلاکم و کاست سب کے سامنے کھول کر رکھ دی ہے ۔

جسٹس ( ر) خلیل الرحمان رمدے کہتے ہیں ’’ان کے والد محترم نے ان کو تعلیم حاصل کرنے کی ہدایت کی اور وہ بچہ علم کے حصول کے لئے روزانہ دس کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرتا کچھ عرصے کے بعد اس معصوم بچے کے ننھے منے پائوں تھک جاتے ہیں اور وہ اس تعلیمی سلسلے کو ترک کر دیتا ہے لیکن جلد ہی وہ تازہ دم ہو کر ایک نئے عزم اور ولولے کے ساتھ اپنا تعلیمی سفر دوبارہ جاری کر دیتا ہے۔

وسائل کی کمی اور ہمہ قسم کی دیگر مشکلات اور رکاوٹوں کا جوانمردی سے مقابلہ کرتے ہوئے وہ بچہ بی اے اور پھر ایم اے کی ڈگری حاصل کرتا ہے۔ لنکنز ان سے بیرسٹر ایٹ لاء کی اعلٰی ڈگری حاصل کر کے وطن واپس لوٹتا ہے اور پیشہ وکالت سے منسلک ہو جاتا ہے۔ ان کی محنت ، قابلیت اور دیانت داری بھل لاتی ہے اور ان کو صوبہ پنجاب کی اعلیٰ ترین عدالت یعنی لاہور ہائیکورٹ کا جج مقرر کر دیا جاتا ہے‘‘۔

معروف صحافی میاں محمد اسلم کہتے ہیں ’’بشیر اے مجاہد کی زندگی ان نوجوانوں کے لیے روشنی کی کرن ہے جو اپنی ذاتی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس غیر منصفانہ نظام میں محدود وسائل کے ساتھ اپنا مقام بنانا چاہتے ہیں ۔

عام آدمی جو کچھ کرتا ہے وہ اسی گردوپیش کو قبول کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے مشکلات کو بہانہ تو ہر شخص بنا سکتا ہے قابل ذکر صرف وہ شخص ہوتا ہے جو مشکلات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی منزل کو پالے۔ بشیر احمد مجاہد بیرسٹری کے بعد برطانیہ ،کینیڈا اور امریکہ سیٹل ہو سکتے تھے مگر انھوں نے بیرون ملک تمام پرکشش مواقع رد کرتے ہوئے وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا اور مستقل طور پر اپنے معاشرہ سے وابستہ رہے۔‘‘ یہ آپ بیتی نوجوان نسل کے لئے مشعل راہ ہے ۔ کتاب میں رنگین تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں ۔ مجلد کتاب کو مصنف کے عکس کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

کیا کورونا کچھ نہیں؟
مصنف: محمد طاہر اشتیاق، قیمت:600 روپے، صفحات:148
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور 03014568820) (


کورونا کی وباء کیا پھیلی اس نے پوری دنیا کو بدل کر رکھ دیا ۔ حکومتوں کو مجبوراً لاک ڈائون کرنا پڑا تاکہ بھاگتی دوڑتی زندگی کو لگام دی جا سکے تاکہ تیزی سے پھیلتی ہوئی بیماری کو بریک لگ جائیں مگر اس سے نظام زندگی تلپٹ ہو کر رہ گیا ، معاشی پہیہ جو سو کی رفتار سے چل رہا تھا چیونٹی کی چال چلنے لگا ، وباء کا شکار ہو کر دنیا سے جانے والے تو چل دیئے مگر زندوں کو زندہ رہنا مشکل ہو گیا ۔

جو تندرست تھے وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئے ، روزانہ کمانے والوں کے لئے چولہا جلانا مشکل ہو گیا ۔ مگر ہمارے معاشرے میں پھر بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو ابھی تک کورونا کی وبائی حیثیت کو ماننے کے لئے تیار نہیں بلکہ اسے اغیار کی سازش قرار دیتا ہے۔ زیر تبصرہ ناول بھی اسی صورتحال سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے ۔ یہ ایک خاندان کی کہانی جس میں ایک شخص اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کورونا کا شکار ہو جاتا ہے۔ حتی کہ گھر والوں کی بات بھی نہیں مانتا۔ علاج میں ٹال مٹول سے کام لیتا ہے جس کا نتیجہ بالآخر موت کی صورت میں نکلتا ہے۔

یوں اس کی لاپروائی کی وجہ سے اس کا خاندان بے آسرا ہو جاتا ہے۔ موجودہ حالات میں اس ناول کا لکھا جانا بہت ضروری تھا کیونکہ ادب ہی معاشرے کی سمت کا تعین کرتا ہے۔ مصنف کی یہ کاوش لائق تحسین ہے ۔ کیونکہ اس سے ہمارے معاشرتی رحجانات کی بھرپور عکاسی ہو رہی ہے۔ ناول کے شوقین قارئین کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیئے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

اپنی شوگر اپنا علاج
مصنف : فیاض احمد قادری، قیمت:400 روپے، صفحات:103
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ ، لاہور 03014568820) (

بیماری کوئی سی بھی ہو تکلیف کا باعث ہے، معمولی سے سردرد کو ہی لے لیں، زندگی کے معمولات بدل کر رہ جاتے ہیں اور انسان اس تکلیف سے چھٹکارہ پانے کے لئے ہر ممکن طریقے اپناتا ہے ۔ جبکہ شوگر تو ایسی بیماری ہے جو بہت سی بیماریوں کا باعث بنتی ہے، جس شخص کو شوگر کی بیماری لاحق ہو جائے تو اس کی زندگی کے طور طریقے ہی بدل جاتے ہیں کیونکہ شوگر میں جتنا زیادہ پرہیز کیا جاتا ہے اتنا ہی بہتر خیال کیا جاتا ہے، یوں شوگر کا مریض پرہیز کی وجہ سے عام لوگوں کی طرح کھا نے پینے سے بھی دور ہونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کہ مریض کے عزیز و اقارب بھی اس کے پرہیزی کھانے کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں ۔

مصنف ایک سرکاری ادارے سے ریٹائر ملازم ہیں ، یہ ان کی کوئی پہلی تصنیف نہیں، وہ اس سے قبل ’’میں اور میرا گائوں ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھ چکے ہیں جو پسند کی گئی ۔ زیر تبصرہ کتاب لکھنے کا خیال انھیں اس وقت آیا جب وہ شوگر کے مرض میں مبتلا ہوئے اور پھر صحتیاب ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ شوگر جیسے موذی مرض سے چھٹکارہ پانے کے بعد انھیں فکر لاحق ہوئی کہ اپنے تجربات کو دوسروں سے بھی بانٹا جائے تاکہ دوسرے بھی اس سے مستفید ہو سکیں ۔ ان کی سوچ بہت مثبت ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے پوری روداد بیان کی ہے کہ کیسے وہ اس بیماری سے لڑتے رہے۔

انھوں نے ڈاکٹر ہوتے ہوئے بھی اس بیماری پر خود تحقیق کی جس کا ذریعہ انٹرنیٹ بنا اس کے علاوہ مختلف رسالے بھی ان کے زیر مطالعہ آئے ۔ دنیا بھر کی تحقیق ان کے سامنے تھی ۔ مصنف اس کتاب میں اپنی تحقیق کو بھی قاری کے سامنے رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ قاری کو خود تحقیق کرنے کو موقع بھی دیتے ہیں جس کے لئے انٹرنیٹ کے لنگ بھی دیئے گئے ہیں ، شوگر کنٹرول کرنے کے دیسی طریقے بھی بیان کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ورزشیں بھی بتائی گئی ہیں جو کافی مفید ہیں ۔ شوگر کے مریضوں کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔

ڈھاکہ! میں آئوں گا (ناول)
مصنف : سہیل پرواز ، قیمت :900 روپے
ناشر : بک کارنر، جہلم ، رابطہ : 03215440882


ناول نگار ایک ادبی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ زندگی کے کئی برس پاک فوج کا حصہ رہے۔ اس دوران ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کے لئے لکھتے رہے لیکن محدود انداز میں۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ میں گئے تو کھل کر لکھنا شروع کر دیا اور پھر بطور میجر ریٹائر ہوئے۔ بعدازاں میڈیا سے کل وقتی منسلک ہوئے۔ ریڈیو اور ٹی وی کے لئے ڈاکومنٹریز اور قومی اردو ، انگریزی اخبارات کے لئے کالم لکھتے رہے۔

پاکستان کے حالات پر انگریزی ناول The Cornered Rogue لکھا ۔ اردو میں ایک سرگزشت لکھی ’ جو تنہا کر گئی مجھ کو‘۔ اور اب یہ زیرنظر ناول، جس کا عنوان ہی اس کا بنیادی تعارف ہے۔

مصنف اپنے ناول کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’اس ناول میں نہ تو سیاست کی جزئیات کو چھیڑا گیا ہے اور نہ ہی فوجی آپریشنز پر پیشہ وارانہ بحث کی گئی ہے۔ اس میں صرف اس حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ایک بنگالی بھی اتنا ہی محب وطن ہو سکتا ہے جتنا کہ کوئی پنجابی، پشتون، سندھی اور بلوچ … کہانی بنیادی طور پر تین موضوعات کا احاطہ کرتی ہے، وطن سے محبت، ذات سے محبت اور ناقابل یقین عزم و استقامت کا مظاہرہ۔ کہانی میں چند مختصر کہانیاں اور دیگر واقعات ساتھ ساتھ چلتے ہیں جو اس کہانی کو مہمیز کرتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ المیہ مشرقی پاکستان کے بعد جنم لینے والی دو نسلیں جنھیں سقوط ڈھاکہ کے بارے سچ نہیں بتایا گیا یا سرے سے اندھیرے میں رکھا گیا ہے، یہ ناول پڑھ کر نہ صرف اہل بنگال کے بارے میں اپنے ذہنوں میں پلنے والے شکوک و شبہات اور دلوں میں جنم لینے والی بدگمانیوں دور کر لیں گے بلکہ ان کے دلوں میں نرم گوشہ بھی پیدا ہو گا۔ پاک فوج کی بھی سن اکہتر کے حوالے سے جس طرح چند مخصوص حلقوں نے تضحیک کی یا اب بھی کوئی موقع جانے نہیں دیا جاتا، اس کا بھی بہت حد تک مداوا ہوگا ۔‘‘

اس ناول کا ہیرو ایک سچا محب وطن بنگالی گوریلا افسر ہے۔ اس کے احساسات بھی ثابت کرتے ہیں کہ وطن سے محبت کسی کی میراث نہیں ہوتی ۔ اس ناول میں کئی ایسے خوبصورت اتار چڑھائو آتے ہیں کہ پڑھنے والا سرزمین بنگال میں پلنے والی کہانیوں کا حصہ بننے کے لئے مچلتا ہے۔ بڑے عرصہ بعد مشرقی پاکستان کے تناظر میں ایسا شاندار ناول دیکھنے کو ملا ۔ آپ ضرور پڑھئے گا ۔

اشرافیہ اور عوام
مصنف : سعید آسی ، قیمت : 1500 روپے
ناشر : قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل ، یثرب کالونی ، بینک سٹاپ ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ ، رابطہ :0300 0515101

سعید آسی صف اول کے سینئر صحافی ہیں۔ انھوں نے ساری زندگی اسی شعبے میں بسر کی ۔ 70ء کی دہائی سے صحافت کا آغاز کیا۔ طویل عرصہ ’ نوائے وقت ‘ میں گزارا۔ اس دوران شاعری بھی کرتے رہے اور کالم بھی لکھتے رہے۔ بلامبالغہ ہزاروں کالم لکھے۔ زیر نظر مجموعہ میں ان کے صرف ڈیڑھ سو سے کچھ زیادہ کالم شامل ہیں۔

مصنف لکھتے ہیں : ’’آئین اور قانون کے تحت قائم کسی سسٹم پر مجھے انسانی نخوت و تکبر حاوی ہوتا نظر آتا ہے تو میرا قلم بھی اس پر سراپا احتجاج بن جاتا ہے۔ میں نے اپنے قلم کے اس احتجاج کو ہی اپنے منتخب کالموں کے نئے مجموعہ ’ اشرافیہ اور عوام ‘ کے صفحات میں سمویا ہے۔

جس عرصے کے دوران یہ کالم لکھے گئے اس میں کورونا وائرس کی غضب ناکیوں سے انسانی معاشروں اور معیشتوں میں رونما ہوتی اتھل پتھل کے مناظر بھی شامل ہیں اور وزیراعظم عمران خان کے ریاست مدینہ کی طرز پر پاکستانی معاشرہ تشکیل دینے کے دعوئوں کے برعکس انسانی کسمپرسی اور بے حالی و بدحالی کے اندوہناک مناظر بھی اسی عرصہ کا خاصہ بنے ہیں جس کی جھلک آپ کو ’’ اشرافیہ اور عوام‘‘ میں شامل میرے کالموں میں نظر آئے گی۔‘‘

زیرنظر کتاب کے بارے میں عطاالحق قاسمی لکھتے ہیں :’’ سعید آسی کالم لکھتا ہے جس سے اتفاق بھی کیا جاتا ہے اور اختلاف بھی۔ اس کا تعلق میڈیا کی لفافہ کلاس سے نہیں ہے۔ اس کی اپنی کلاس ہے اور یوں سعید آسی اپنی ’’ کیتی کرائی‘‘ کا خود ذمہ دار ہے۔‘‘ مجیب الرحمن شامی کی رائے میں بھی ’’سعید آسی سو فیصد دیانت دار صحافی ہیں جنھوں نے متانت اور وقار کے ساتھ زندگی گزاری ہے اور مجید نظامی کی مسند پر بیٹھنے کا حق ادا کر دیا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ ہم اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جس میں سعید آسی بھی شامل ہے۔ سعید آسی نے اپنے کالموں میں ہمیشہ یہ پیغام دیا کہ امید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑو ۔‘‘

رہ نوردان شوق
مصنف : محمد الیاس کھوکھر ایڈووکیٹ، قیمت : 600 روپے
ناشر: مکتبہ فروغ فکر اقبالؒ ،970 نظام بلاک ، اقبال ٹائون لاہور ۔ رابطہ : 03328076918
مصنف درد دل رکھنے والے انسان ہیں، اور انسانوں کی حالت زار پر شب و روزکڑھتے ہیں، غور وفکر کرتے ہیں، مسائل کا تذکرہ کرتے ہیں ، ان کا حل بتاتے ہیں ۔ درجن بھر کتابوں کے مصنف ہیں ۔ ’’ بوستان اقبال‘‘ ،’’ اقبال کا ایوان دل‘‘ ، ’’آیات الٰہی کا نگہبان‘‘ ، ’’دیدہ دل‘‘ ، ’’دن جو گزر گئے‘‘ ، ’’تو کجا من کجا ‘‘ ، ’’پدر جان پسر‘‘ ، ’’نوائے پریشان‘‘ ، ’’مرضی خدا کی‘‘ ، ’’ نور کی داستان‘‘ ، ’’ سن مجھ سے داستان میری‘‘ اور زیر نظر کتاب ۔ ان کی یہ سب تصانیف دل درمند کی آوازیں ہیں ۔

مصنف مسلسل تڑپتے ہیں کہ حالانکہ یہ دور نبوت محمدی ﷺ ہے ۔ رسالت محمدیﷺ جاری و ساری ہے، نور کا ایک روان کبیر ہے جو مسلمانوں کے دلوں کی کھیتیوں کو آج بھی سیراب کر رہا ہے، تاہم ایسے مردان عظیم کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے جو اللہ کے آخری پیغمبر ﷺ کی نیابت کا حق ادا کر سکیں ۔ جو چند ایک تھے یا ہیں، ان کا تذکرہ زیر نظر کتاب کے مختلف ابواب کی صورت میں قارئین کے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔

بقول مصنف :’’ میں نے مے خانہ محمدیﷺ کے چند شعلہ آشاموں کو اس کتاب میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے … نظریاتی اعتدال ان سب شخصیات کا حسن ہے جن کا میں گرویدہ ہوں ۔ جس منزل تک ہمیں پہنچنا ہے اس منزل کے راستوں میں لگے ہوئے یہ خوش نصیب انسان سنگ میل ہیں ۔ یہ سمندر میں لگے ’’ لائٹ ہائوس ‘‘ ہیں جنھیں دیکھ کر جہاز اپنی منزل کا تعین کرتے ہیں ۔‘‘ ان رہ نوردان شوق میں علامہ محمد اقبال، غازی علم دین ، مولانا طارق جمیل ، محمد متین خالد ، علامہ خادم رضوی ، سید قطب ، مولانا محمد اکرم اعوان ، ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم ، سرور قریشی ، اعجاز الحق ملک اور مصنف کے والد محترم ہیں ۔

کتاب ایک منفر انداز میں لکھی گئی ہے ، جو یقیناً ہر پڑھنے والے کی برسوں کی تشنگی دور کرے گی اور اسے ایک عجب جذبے سے سرشار کرے گی جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا مطلوب ہے اور موجودہ انسانوں کی ضرورت۔

کتاب: خلا کے اُس پار سفر
مترجم: محمد عبدہ، ناشر: گرین ہارٹ پبلشرز، فیصل آباد
قیمت: 900، صفحات: 436، سن اشاعت: 2021،


ترجمہ نگاری ایک بڑا فن ہے۔ترجمہ نگار پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ناصرف پورے مضمون کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کر کے آپ کے سامنے رکھتا ہے بلکہ اس مضمون کو آپ ہی کی زبان میں اس طرح سے بیان کرتا ہے گویا قاری کو یہی گمان ہوتا ہے کہ یہ کتاب اسی کی زبان میں لکھی گئی ہے۔ یہی ایک بڑے ترجمہ نگار کی کامیابی ہے کہ اصل مصنف کا بیان کردہ پورا مدعا آپ کے سامنے آپ ہی کی زبان میں رکھتا ہے کہ کتاب میں روانی بھی خوب رہے اور مصنف کی کہی ہوئی بات بھی آپ تک پہنچ جائے۔

ان تمام ذمہ داریوں کو محمد عبدہ نے ایرک شپٹن کی کتاب Blank on the Map کا اردو زبان میں ترجمہ کر کے بہ خوبی پورا کیا ہے۔ انگریزی زبان میں لکھی گئی کتاب کا نام اس کتاب کے اسلوب و بیاں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اردو میں مترجم نے ”خلا کے اُس پار سفر” منتخب کیا۔ یہ کتاب احاطہ کرتی ہے اس تمام سفر کا جو مصنف نے اپنی ٹیم، دارجلنگ کے سات شرپا اور سکردو کے چند قلیوں کی مدد سے کیا۔

یہ سفر دراصل 1937 میں کیا گیا۔ اس سفر کی خاص بات یہ تھی کہ تب ایرک اور اس کی ٹیم کے پاس کوئی نقشے نہ تھے اور اس ٹیم کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا K-2 کے شمال اور شمال مغربی حصے میں موجود گلیشئیائی نظام کو سمجھا جائے، گزرگاہوں کے نقشے بنائے جائیں، دریائے شکسگام کے منبع اور اس کی گزرگاہوں کو تلاش کی جائے اور درہ آغیل کے اصل جغرافیائی مقام کا تعین کیا جائے۔

یہ کتاب ایک سفر نامہ سے زیادہ تحقیق پر مشتمل ہے۔ گلگت بلتستان کے آج بھی بہت سے مقامات ایسے ہیں جن کے بارے لوگ بہت کم جانتے ہیں، ان تمام جگہوں کے بارے یہ کتاب مکمل معلومات رکھتی ہے۔ ایک خوشگوار حیرت یہ بھی ہے کہ 1937 میں بنا کسی ٹیکنالوجی کے ایرک نے ان تمام علاقوں کے جو نقشے بنائے، معلومات فراہم کیں وہ آج بھی نا صرف درست مانی جاتی ہیں بلکہ بڑی مہمات پر جانے والے اس کتاب سے بھرپور استفادہ بھی کرتے ہیں۔ پہلے ایک غیر ملکی زبان ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ اس سے استفادہ نہیں کر پا رہے تھے۔

اسی بات کو مترجم محمد عبدہ نے سمجھا اور کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا۔ محمد عبدہ خود بھی ایک مایہ ناز ٹریکر ہیں اور بہت سے غیر ملکی ان کی سربراہی میں مختلف مہمات سر انجام دے چکے ہیں۔ کتاب کے آخری دو ابواب خصوصی طور پر مجھ جیسے بہت سے ان طلباء کے لئے شامل کئے گئے ہیں جو تحقیق، تاریخ اور معلومات تینوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان دونوں ابواب میں پوری مہم کی نقشہ سازی اور ارضیاتی تحقیق کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں ٹیم کے کام کرنے کے طریقہ کار کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ معلومات اور تحقیق کے علاوہ اس کتاب کا ایک خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ اس کتاب میں 1937 کے گلگت بلتستان کی وادیوں، دریاؤں اور موسموں کو بیان کیا گیا ہے۔ اب یقیناً بہت کچھ بدل چکا ہے۔

کیا اب کبھی تار کول سے بنے پُل پر سے دریائے شگر کو چند سیکنڈوں میں پار کرتے ہوئے آپ نے سوچا ہے کہ دریائے شگر پر کبھی یاک کے بالوں سے بنا ہوا پل تھا اور دریا کو اسی پُل کی مدد سے پار کیا جاتا

تھا۔ ایسی بے شمار خوشگوار باتیں پڑھنے کو آپ کو اس کتاب میں ملیں گی۔ اس لئے آپ کو یہ کتاب پہلی فرصت میں ہی پڑھنی چاہئے۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ZI6r3H
via IFTTT

کیمیکل جو موت کا پیغام بن رہے ہیں ایکسپریس اردو

این وائی یو لینگون ہیلتھ(NYU Langone Health)امریکی شہر نیویارک میں واقع جدید طبی تحقیق کا مشہور ادارہ ہے۔

ادارے میں پروفیسر لیونارڈ ٹرسنڈین امراض اطفال، ماحولیاتی اور انسانی صحت کے ماہر ہیں۔پچھلے دنوں ان کی زیرنگرانی ہوئی ایک تحقیق نے امریکا میں خاصی ہلچل مچا دی۔

اس رپورٹ نے انکشاف کیا کہ تھلیٹس ( phthalates)نامی مصنوعی کیمیکل ہر سال ایک لاکھ سے زائد امریکیوں کی جانیں لے لیتے ہیں۔جبکہ لاکھوں بچوں اور بڑوں کو بیمار کر ڈالتے ہیں۔اس چشم کشا طبی تحقیق کے بعد امریکا اور یورپ میں عوام اپنی حکومتوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ تھلیٹس کے استعمال پہ پابندی عائد کر دی جائے۔

انسان ساختہ کیمیائی مادے
پچھلے پچاس ساٹھ برس کے دوران دنیا بھر میں رنگ برنگ بیماریاں وجود میں آ چکیں۔ماہرین طب کی رو سے ان کے پیدا ہونے کی مختلف وجوہ ہیں۔مثال کے طور پہ ضرورت سے زیادہ کھانا، حرکت میں بہت کمی آ جانا، غذائیت بخش کھانے نہ کھانا اور نیند پوری نہ لینا۔اب طبی تحقیق سے انکشاف ہو رہا ہے کہ انسان ساختہ کیمیکل کا بھی امراض جنم دینے میں اہم کردار ہے۔پچھلے پچاس سال سے انسان کی روزمرہ زندگی میں کئی اقسام کے مصنوعی کیمیکل داخل ہو چکے۔یہ عام اشیا سے لے کر غذا میں شامل ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت امراض قلب دنیا میں سب سے زیادہ انسانوں کی جان لیتے ہیں۔اس کے بعد فالج، امراض تنفس، پیدایشی بیماریوں اور دیگر امراض مثلاً کینسر، ذیابیطس ،موٹاپے وغیرہ کا نمبر آتا ہے۔اب جدید طبی سائنس انکشاف کر رہی ہے کہ یہ سبھی بیماریاں جنم دینے میں مصنوعی کیمیکل بھی کچھ نہ کچھ کردار ادا کرتے ہیں۔

وجہ یہ ہے کہ خاص طور پہ جب انسانی جسم میں مصنوعی کیمیکل بڑی تعداد میں جمع ہو جائیں تو وہ ہمارے سبھی نظاموں میں گڑبڑ پیدا کر دیتے ہیں۔گویا جب انسان کے بدن میں مسلسل یہ مصنوعی کیمیکل داخل

ہوتے رہیں تو وہ آخر کار کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔جیسے انسان مسلسل سگریٹ پیتا رہے تو اس کے پھیپھڑے گل سڑ جاتے ہیں۔اسی طرح کیمیکل انسانی جسم میں جمع ہوتے رہیں تو انسان کا کوئی نہ

کوئی قدرتی نظام خراب ہو جاتا ہے۔یہی خرابی پھر نیا مرض پیدا کر ڈالتی ہے۔

بنیاد خام تیل
انسان ساختہ مصنوعی کیمیکلوں میں ایک اہم گروہ ’’تھیلٹس‘‘ کہلاتا ہے۔یہ کیمیکل تھالک تیزاب(phthalic acid)سے بنتے ہیں۔تھالک تیزاب بذات خود نفتھاتھلین( naphthalene) یا آرتھوزیلین( ortho-xylene) نامیاتی مرکبات سے بنایا جاتا ہے۔اور خود یہ دونوں مرکب خام تیل (آئل) سے بنتے ہیں۔گویا تھلیٹس کیمیکلز کی بنیاد خام تیل ہے۔ چونکہ خام تیل انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے، اسی لیے اس سے بنی اشیا بھی انسانی صحت پر مضر اثرات ضرور مرتب کرتی ہیں۔

عالمی سطح پہ صنعتوں میں تھلیٹس کا بطور پلاسٹائزر( plasticizers) استعمال عام ہے۔مطلب یہ کہ یہ کیمیکل پلاسٹکس سے بنائی گئی اشیا میں شامل کیے جاتے ہیں۔مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اشیا لچک دار،صاف شفاف اور مضبوط ہو سکیں۔تھلیٹس پی وی سی ( polyvinyl chloride )کو نرم کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ پی وی سی پلمبنگ،الیکٹریکل انسولیشن،چمڑے کی مصنوعات تیار کرنے ،فلورنگ اور کئی دیگر چیزیں بنانے میں مستعمل ہے۔

دنیا بھر میں انسان روزانہ ایسی کئی اشیا استعمال کرتے ہیں جن کی تیاری میں تھلیٹس برتی جاتی ہیں۔اسی لیے انھیں ’’ہر جگہ ملنے والے کیمیکل‘‘ (Everywhere chemicals) کا خطاب مل چکا۔مگر ان کیمیائی مادوں کی خرابی یہ ہے کہ آہستہ آہستہ اپنے ذرات خارج کرتے رہتے ہیں۔یہی ذرات اگر انسانی جسم میں مجتمع ہو جائیں تو مختلف طبی خلل اور امراض پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں۔

پاکستان کی نسبت امریکا میں قوانین پہ سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے۔وہاں تمام کارخانے اور صنعتیں قانون کے مطابق چلتی ہیں۔پاکستان میں قوانین پہ عموماً عمل نہیں ہوتا۔اور کسی بھی طرح پیسا کمانے کو انسانی بھلائی پہ ترجیح دی جاتی ہے۔اس باعث پاکستان میں مختلف اشیا کی تیاری میں تھیلٹس عام استعمال ہوتے ہیں۔چناں چہ یہ مصنوعی کیمیکل ہر سال لاکھوں ہم وطنوں کی جانیں لے رہے ہیں۔مرنے والوں اور ان کے لواحقین کو عام طور پر پتا ہی نہیں چل پاتا کہ تھلیٹس مقتول کی موت کے ذمے دار ہیں۔

صنعتی شعبے میں مستعمل
تھلیٹس کے گروہ میں پچیس چھبیس کیمیکل شامل ہیں۔بعض بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔دیگر کا استعمال کم ہے۔ہر کیمکل شدت و تیزی میں مختلف ہے۔چونکہ ان کیمیکلوں کی تعداد کافی زیادہ ہے، اس لیے تقریباً ہر صنعتی شعبے میں مستعمل ہیں۔مثلاً دوائیں تیار کرتے ہوئے ان کے اوپر جو کوٹنگ کی جاتی ہے، اس میں تھلیٹس استعمال ہوتے ہیں۔

دنیا بھر میں کروڑوں لوگ غذائیت بخش ادویہ کھاتے ہیں۔ان میں تھیلٹس گاڑھا پن کنٹرول کرنے کی خاطر شامل کیے جاتے ہیں۔جیل(Gel)کی تیاری میں انھیں استعمال کیا جاتا ہے۔

گوند،کیڑے مار ادویہ،عمارتیں بنانے کا میٹریل،میک اپ اشیا(یعنی نیل پالش، موائسچر، ہئیر اسپرے، پرفیوم وغیرہ)، صابن اور کپڑے دھونے کا پائوڈر، پیکنگ میں استعمال ہونے والا میٹریل،بچوں کے کھلونے،دیواروں پہ ہونے والا پینٹ، سیاہی (انک)، ڈبہ بند غذائیں،ملبوسات، ٹائلیں، غذائیں لپیٹنے والی فلم… ان تمام مصنوعات کی تیاری میں تھیلٹس مصنوعی کیمیکل مستعمل ہیں۔یہ الیکٹرونکس اشیا اور میڈیکل آلات میں بھی ملتے ہیں۔

ایک رپورٹ کی رو سے ہر سال دنیا میں75لاکھ ٹن تھیلٹس تیار کیے جاتے ہیں۔ پلاسٹک سے بنی اشیا میں 10سے 60فیصد حصہ انہی کیمیکلز کا ہوتا ہے۔بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ ان پلاسٹک اشیا سے تھلیٹس کے ذرات رفتہ رفتہ الگ ہو کر ماحول یعنی مٹی،ہوا اور پانی میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔

یہ کیمیکل پھر ناک،کان اور منہ کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو سکتے ہیں۔مثلاً سانس لینے سے یا غذا میں شامل ہو کر۔بچے اکثر اشیا چھو کر منہ میں انگلیاں ڈالتے ہیں۔اس لیے ان کے بدن میں بکثرت تھیلٹس جمع ہو سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے،یہ کیمیکل سب سے زیادہ بچوں کے لیے خطرناک ہیں۔ویسے بھی ان کا نظام مامون(immune system)سب سے کمزور ہوتا ہے اور وہ سبھی مصنوعی کیمیکلوں کے مضر اثرات کا مقابلہ نہیں کر پاتا۔اس باعث وہ جلد بیمار ہو جاتے ہیں۔

پروفیسر لیونارڈ ٹرسنڈین نے اپنی تازہ ترین تحقیق سے یہ تشویش ناک نتیجہ نکالا ہے کہ جس انسان کے جسم میں تھیلٹس کی مقدار زیادہ ہو جائے، وہ کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہو کر جلد مر سکتا ہے۔آج ہم پاکستانی معاشرے میں بھی دیکھ رہے کہ ادھیڑ عمر تو ایک طرف، نوجوان بھی اچھے بھلے صحت مند ہوتے ہیں کہ اچانک بیمار پڑ کے چل بستے ہیں۔ ان کی موت سبھی کو ہکّا بکّا کر دیتی ہے۔ایسی اچانک اموات جنم دینے میں تھیلٹس کا کردار ہو سکتا ہے۔

پچھلے دس برس کے دوران دنیا بھر کی یونیورسٹیوں اور طبی مراکز سے منسلک ماہرین نے تحقیق کی ہے کہ تھیلٹس انسانی جسم کے کن کن نظاموں اور اعضا پہ مضر اثرات ڈالتے ہیں۔ان تحقیقات کے نتائج درج ذیل

ہیں۔

چربی کا کردار
جدید تحقیق سے افشا ہو چکا کہ انسان کے جسم میں چربی یا چکنائی(fat)اور کولیسٹرول کا جمع ہونا انتہائی نقصان دہ ہے۔اسی خرابی سے دل کی بیماریاں،ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس جیسے موذی امراض جنم لیتے ہیں۔

ماہرین نے تجربات و تحقیق سے جانا ہے کہ تھیلٹس میں شامل کئی کیمیکل انسانی بدن میں چربی اور کولیسٹرول جذب کرنے کا نظام خراب کر دیتے ہیں۔اس خرابی کے بعد ہمارا جسم زائد چربی اور کولیسٹرول سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پاتا۔زیادہ چربی پھر انسان کو موت کے منہ میں لے جانے والی بیماریوں میں گرفتار کرا دیتی ہے۔

تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جب انسانی جسم میں تھیلٹس کی مقدار زیادہ ہو جائے تو وہ ہمارے جسم میں چربی ذخیرہ کرانے والے نظام پہ قبضہ کر لیتے ہیں۔ وہ پھر اسے ہدایت دیتے ہیں کہ جسم میں چربی جمع کرتے

رہو… انسان چاہے جتنی مرضی حرکت کرے یا ورزش کرتا رہے۔یہی وجہ ہے، بہت سے مردوزن دن میں مسلسل حرکت کرتے رہتے ہیں پھر بھی موٹے دکھائی دیتے ہیں۔ایسے مردوزن میں دراصل چربی ذخیرہ کرنے والا نظام خراب ہو جاتا ہے۔ اور دور جدید میں اس خرابی کے ذمے دار تھیلٹس ہو سکتے ہیں۔

یاد رہے، شریانوں اور وریدوں میں جب چربی جم جائے تو یہ خون کا بہائو متاثر کرتی ہے۔اسی خرابی سے پھر دل اور شریانوں کی طبی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔جب دل میں خون پہنچانے والی شریانوں میں چربی جمع

ہو جائے اور کبھی خون کے بہائو میں رکاوٹ آئے تبھی ہارٹ اٹیک انسان کو آ دبوچتا ہے۔بعض اوقات یہ کیفیت جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔

ذیابیطس
انسان جب کھانا کھائے تو معدے کے تیزاب غذا کو شکر(شوگر)میں بدل دیتے ہیں۔یہ شکر پھر خون میں شامل ہونے لگتی ہے۔تب ہمارا جسم ایک ہارمون، انسولین خارج کرتا ہے۔اس ہارمون کے حکم پہ جسمانی خلیے شکر استعمال کرنے لگتے ہیں تاکہ توانائی پیدا کر سکیں۔

ذیابیطس مرض میں ہمارا بدن مطلوبہ انسولین نہیں بنا پاتا یا پھر انسولین اپنی ذمے داریاں ادا نہیں کر پاتی۔ چناں چہ شکر خون میں بدستور موجود رہتی ہے۔اگر یہ کیفیت مسلسل رہے تو انسان کئی بیماریوں کا نشانہ بن جاتا ہے جیسے امراض قلب،گردے کی بیماریاں اور بینائی کا متاثر ہونا۔

تحقیق سے پتا چلا ہے کہ انسانی جسم میں تھلیٹس کی کثرت ہو تو وہ پتے سے انسولین کا اخراج متاثر کرنے لگتے ہیں۔تب مصنوعی کیمیکلز کی بدولت پتہ کم انسولین خارج کرتا ہے۔ انسولین کی مقدار کم ہونے سے خون میں شکر موجود رہتی ہے اور انسان ذیابیطس اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔چونکہ بڑی عمر کے مردوزن کے بدن میں تھلیٹس زیادہ ہوتے ہیں لہذا وہی ذیابیطس کا زیادہ شکار بھی بنتے ہیں۔

ہائی بلڈ پریشر
دل کی نالیوں اور شریانوں میں چربی جمع ہونے سے ہی ہائی بلڈ پریشر یا ہائپرٹینشن کے طبی خلل بھی انسان کو چمٹ جاتے ہیں۔اس کیفیت میں دل کی نالیاں سکڑ جاتی ہیں۔جبکہ دل معمول کے مطابق خون پمپ کرتا رہتا ہے۔چونکہ خون کو سکڑی نالیوں سے گذرنے کا راستہ کم ملتا ہے لہذا نالیوں کی دیواروں پہ دبائو بڑھ جاتا ہے۔یہ کیفیت پھر انسان میں درد وسوزش کی کیفیات پیدا کرتی اور ہائی بلڈ پریشر کہلاتی ہے۔

جب ہائی بلڈ پریشر مسلسل رہے تو انسان نہ صرف دل کی بیماریوں میں مبتلا ہوتا بلکہ اس پہ فالج بھی گر سکتا ہے۔اس کیفیت میں مبتلا مردوزن سانس لینے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ان کے سر میں درد رہنے لگتا ہے۔اکثر نکسیر پھوٹ جاتی ہے۔چونکہ انسانی جسم میں چربی اور شکر کی مقدار بڑھانے میں تھیلٹس کا کردار عیاں ہو چکا لہذا ہائی بلڈ پریشر بھی یہی کیمکل پیدا کر سکتے ہیں۔

نظام مامون
کورونا وائرس پھیپھڑے خراب کر کے سانس کا مرض پیدا کرتا ہے۔امراض تنفس دنیا میں انسان کو قبر میں اتارنے والی چوتھی بڑی بیماریاں ہیں۔یہ امراض بنیادی طور پر کمزور مامون نظام کی وجہ سے جنم لیتی ہیں۔

ہمارے بدن میں مختلف اقسام کے انسان دوست خلیے اور سالمات ہمیں خطرناک جراثیم،وائرسوں اور دیگر مضر صحت خرد نامیات سے بچاتے ہیں۔ان خلیوں و سالمات کا نیٹ ورک مامون نظام کہلاتا ہے۔تحقیق سے پتا چلا ہے کہ انسانی جسم میں اگر تھیلٹس اور دیگر کیمیکل کی کثرت ہو جائے تو وہ مامون نظام سے منسلک خلیے اور سالمے مار ڈالتے ہیں۔چناں چہ مامون نظام کمزور ہو کر جراثیم اور وائرسوں کا مقابلہ نہیں کر پاتا۔

گویا پچھلے پچاس برس سے کیمکلوں کے ماحول میں زندگی گذارنے کی وجہ سے انسان کا مامون نظام مسلسل کمزور ہو رہا ہے۔یہی وجہ ہے، جب کورونا وائرس امریکا سے لے کر چین تک انسانوں میں پھیل گیا تو اسے کہیں مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔اس نے ہر جگہ خوفناک تباہی مچا دی۔گویا تھیلٹس اور دوسرے کیمیکلز نے وائرس کو کھل کھیلنے کا موقع عطا کر دیا۔

افرازی نظام
ہمارے جسم میں مختلف غدود اور اعضا ہارمون خارج کرتے ہیں۔یہ پورا نظام ’’افراز سسٹم‘‘(Endocrine system)کہلاتا ہے۔غدہ درقیہ(thyroid) اور غدہ برگردہ(adrenals)اس کے اہم رکن ہیں۔ان کے علاوہ ہماری ہڈیاں، گردے،دل ،جگر اور اعضائے تولید بھی متفرق ہارمون خارج کرتے ہیں۔پیدائش سے لے کر موت تک یہ ہارمون انسان کی نشوونما کرتے اور ہمیں صحت مند رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

افرازی نظام میں کوئی گڑبڑ ہو جائے تو انسان کی صحت متاثر ہوتی ہے۔کئی جدید طبی تحقیقات سے منکشف ہو چکا کہ تھیلٹس اس نظام کو خاص طور پہ نشانہ بناتے ہیں۔وہ خصوصاً تولیدی اعضا سے ہارمونوں کا اخراج کم یا زیادہ کر دیتے ہیں جو جسم میں متفرق اہم فعل انجام دیتے ہیں۔اس باعث نشوونما پاتے لڑکے لڑکیوں کی بڑھوتری پہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔وہ درست طریقے سے بالغ نہیں ہو پاتے اور ان میں کوئی نہ کوئی کمی رہ جاتی ہے۔حتی کہ بعض بچوں میں تولیدی اعضا صحیح طریقے سے نہیں بن پاتے۔جبکہ تولیدی ہارمونوں کا توازن بگڑنے کی وجہ سے بالغ مرد وخواتین میں جنسی رویّہ بدل جاتا ہے۔ان میں خواہش بہت کم رہ جاتی ہے۔

مختلف تجربات اور تحقیق سے یہ بھی افشا ہوا کہ تھیلٹس کی وجہ سے دنیا بھر کے مردوں میں بانجھ پن بڑھ رہا ہے۔یہ کیمیکل ان میں تولیدی مادے کی افزائش کم کر دیتے ہیں۔نیز اس کی کوالٹی بھی خراب کر ڈالتے ہیں۔اسی باعث تھیلٹس سے زیادہ متاثر مرد بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتے۔مردانہ و نسوانی تولیدی اعضا پہ تھیلٹس اور دیگر انسان ساختہ کیمیائی مادوں کے پورے اثرات جاننے کی خاطر دنیا بھر میں تحقیقات جاری ہیں۔

بعض تجربات سے افشا ہوا ہے کہ یہ کیمیکل خواتین کے تولیدی نظام پر بھی منفی اثر پیدا کرتے ہیں۔مثال کے طور پہ پچھلے چند عشروں سے دنیا بھی میں لڑکیاں جلد جوان ہونے لگی ہیں۔جدید تحقیق سے افشا ہوا ہے

کہ گرم غذا کی فراوانی اور آزادانہ ماحول عام ہونے کے علاوہ تھیلٹس جیسے انسان ساختہ کیمیائی مادے کے بہت زیادہ استعمال ہونے سے بھی اس تبدیلی نے جنم لیا۔گویا یہ کیمیکل مرد وعورتوں میں تولیدی ہی نہیں بلوغت پانے کا نظام بھی خراب کر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے، اب ماضی کی نسبت جلد بچے بچیاں نوجوان ہو جاتے ہیں۔یاد رہے، بچپن اور لڑکپن میں لڑکے لڑکیوں میں تولیدی ہارمونوں کی افزائش بہت کم ہوتی ہے۔مگر تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ دور جدید کی قباحتوں کے باعث ان میں ہارمونوں کی افزائش بڑھ رہی ہے۔ ابھی تک اس تبدیلی کے منفی عواقب پوری طرح سامنے نہیں آئے۔

تولیدی بیماریاں
یہ واضح رہے کہ انسان میں افرازی نظام اور اس سے منسلک تولیدی سسٹم بہت حساس نوعیت کے ہیں۔یہی وجہ ہے، مصنوعی کیمیائی مادوں کی وجہ سے ان میں تھوڑی سی بھی تبدیلی آ جائے تو صحت وتندرستی کا قدرتی نظام بگڑ جاتا ہے۔ اسی خرابی کی وجہ سے دنیا بھر میں بستے مردوں اور خواتین کے افرازی و تولیدی نظام میں ایسی خرابیاں جنم لے رہی ہیں جو پہلے زمانے میں عنقا تھیں۔انھیں پیدا کرنے میں مصنوعی کیمیکلز کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔

پولی سسٹک اووری سائنڈروم(Polycystic Ovary Syndrome) لڑکیوں میں جنم لینے والے ایک طبی خلل ہے۔یہ خلل چمٹ جانے سے لڑکی میں تولیدی ہارمونوں کا فطری نظام گڑبڑا جاتا ہے اور وہ مرادانہ ہارمون، اینڈروجن زیادہ بنانے لگتا ہے۔اس خرابی کے باعث لڑکی کے چہرے پہ بال نکل آتے ہیں۔ماہورای باقاعدہ نہیں رہتی۔اور شادی کے بعد وہ حاملہ نہیں ہو پاتی۔تحقیق سے پتا چلا ہے کہ تھیلٹس کی وجہ سے لڑکیوں میں یہ سنگین طبی خلل جنم لینے کی شرح بڑھ رہی ہے۔انسان کے ماحول میں پائے جانے والے دیگر مصنوعی کیمیائی مادے بھی یہ خلل پیدا کرنے کے ذمے دار ہیں۔

اینڈومیٹریوسیس(Endometriosis)خواتین سے مخصوص ایک اور بیماری ہے۔اس میں رحم کے استر کو جنم دینے والی بافتیں بیض دانی اور فیلوپی ٹیوبوں پر بھی نمودار ہونے لگتی ہیں ۔یہ ایک غیر قدرتی عمل ہے۔اس مرض میں ماہواری تکلیف سے آتی ہے اور عورت بانجھ بھی ہو سکتی ہے۔تحقیق سے منکشف ہوا ہے کہ جب سے روزمرہ زندگی میں تھلیٹس کا استعمال بڑھا ہے، پہلے کے مقابلے میں خواتین کی اکثریت اس بیماری میں مبتلا ہونے لگی ہے۔

زمانہ حمل میں تبدیلیاں
امریکا اور یورپ میں ماہرین طب نے اس امر پہ تحقیق کی ہے کہ دوران حمل تھیلٹس پرورش پاتے بچوں کی نشوونما پر کس قسم کے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ان تحقیقات سے بھی تشویش ناک نتائج سامنے آئے۔معلوم ہوا کہ جن خواتین کے بدن میں تھیلٹس اور دیگر مصنوعی کیمیائی مادوں کی مقدار زیادہ ہو، ان کے بچے کمزور پیدا ہوتے ہیں۔نیز ان میں حمل کا دوارنیہ بھی بڑھ جاتا ہے جو ایک غیر فطری بات ہے۔

مختلف تجربات سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ تھیلٹس اور دیگر کیمیکل لڑکوں کے جسم میں زیادہ جمع ہو جائیں تو ان میں جلد بلوغت لے آتے ہیں۔جبکہ یہ کیفیت زمانہ حمل میں نر بچے میں کرپٹورچڑڈزم (Cryptorchidism)طبی خلل پیدا کر دیتی ہے۔اس خلل میں مبتلا لڑکے بچے پیدا نہیں کر پاتے۔تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ساٹھ ستر سال پہلے دنیا کے لڑکوں میں یہ طبی خلل جنم لینے کی شرح 1سے 3فیصد تھی۔آج 7سے 10فیصد لڑکے اس کا نشانہ بننے لگے ہیں جو ایک فکرانگیز تبدیلی ہے۔

ہائپوسپاڈیاس(Hypospadias) مردوں سے مخصوص ایک طبی خلل ہے۔اس طبی کیفیت میں مثانے سے پیشاب لانے والی ٹیوب کا راستہ بدل جاتا ہے اور قدرتی حالت میں نہیں رہتا۔یہ غیر فطری کیفیت حمل کے دوران ہی جنم لیتی ہے۔دنیا بھر میں پیدا ہونے والے ہر 250بچوں میں سے ایک بچے کو یہ حالت متاثر کرتی ہے۔یہ خرابی سرجری سے درست کرنا پڑتی ہے۔قابل ذکر بات یہ کہ ہمارے ماحول میں انسان ساختہ کیمیائی مادوں کے بڑھتے دخل کی وجہ سے اب زیادہ بچے اس طبی خلل میں مبتلا ہونے لگے ہیں۔خاص طور پہ جن مائوں کے بدن میں تھلیٹس کی مقدار زیادہ ہو، ان میں دوران حمل بچے کو کوئی نہ کوئی پیدائشی بیماری چمٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

زمانہ حمل کے دوران بچے کی دماغی نشوونما پر بھی تھیلٹس اثرانداز ہوتے ہیں۔چناں چہ ان کی وجہ سے نوزائیدہ بچوں میں دماغی خلل پیدا ہوسکتے ہیں۔مثال کے طور پہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جن بچوں کے ماں باپ کے جسموں میں تھیلٹس کی مقدار زیادہ ہو، ان کے بچے جارحانہ اور غصیلا مزاج رکھتے ہیں۔وہ جوان ہو کر ڈپریشن کے مریض بن جاتے ہیں۔عموماً معاشرہ دشمن سرگرمیوں میں ملوث رہتے ہیں۔

ایک تحقیق سے افشا ہوا کہ ماں میں اگر تھیلٹس کی مقدار زیادہ ہو تو اس کی بیٹیاں جارحانہ مزاج کی حامل ہوتی ہیں۔تاہم اس کے بیٹوں میں یہ کیفیت نہیں پائی گئی۔یہ انکشاف بھی ہوا کہ جن والدین کے بدن میں تھیلٹس زیادہ ہوں، ان کے بچوں کا آئی کیو لیول کم ہوتا ہے۔گویا وہ کم ذہین ہوتے ہیں۔نیز وہ کسی بات پہ توجہ مرکوز نہیں کر پاتے۔ان کا موڈ آسانی سے خراب ہو جاتا ہے۔وہ اجنبیوں سے بات چیت کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔

ماہرین طب اب تحقیق کر رہے ہیں کہ تھیلٹس بالغ مردوزن پہ کس قسم کے نفسیاتی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ابتدائی نتائج نے منکشف کیا ہے کہ جن بالغوں میں تھلیٹس کی زیادتی ہو، وہ عموماً چھوٹے چھوٹے مسائل سے پریشان ہو جاتے ہیں۔ان میں صبر وبراشت کامادہ کم ہوتا ہے۔وہ عام طور پہ مثبت نہیں منفی رویّہ دکھاتے ہیں۔

درقیہ کے امراض
درقیہ ہمارے جسم کا ایک اور اہم غدہ ہے۔یہ تین ہارمون خارج کرتا ہے جو ہمارے جسم میں مختلف افعال انجام دیتے ہیں۔ان کی تفصیل یہ ہے:
نظام استحالہ (metabolic system) میں یہ ہارمون حرارے (کیلوریز) جلانے میں جسم کی مدد کرتے ہیں۔اسی لیے پورے بدن کی بافتوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ہمیں بھوک لگنا، کھانے کا ہضم ہونا، اور آنتوں کو صحت مند رکھنا…ان تمام افعال میں یہ ہارمون حصہ لیتے ہیں۔ان کی مدد ہی سے آنتیں کھانا بہ آسانی ہضم کرتی ہیں۔نیز خلیے کھانے سے پیدا ہوئی شکر جذب کرتے ہیں۔درقیہ کے ہارمون چربی تحلیل کرنے میں جسمانی نظام کی مدد کرتے ہیں۔اور کولیسٹرول کی سطح کم کرنے میں بھی کام آتے ہیں۔

یہ ہارمون دل کے عضلات مضبوط بناتے ہیں۔اس باعث ہمارے دل کی دھڑکن میں بہتری آتی ہے۔سانس لینے میں بھی انسان کے مددگار بنتے ہیں۔ان کی مدد سے آکسیجن انسانی جسم میں آسانی سے جذب ہوتی ہے۔اس طرح خون کی روانی میں رکاوٹ نہیں آتی اور جسم کا درجہ حرارت معمول پہ رہتا ہے۔

غدہ درقیہ کے ہارمون انسان کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔پلتے بڑھتے بچے بچیوں کے قد میں میں اضافہ کرتے ہیں۔انسانی دماغ کے خلیوں کو تندرست وتوانا بناتے ہیں۔جدید تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ زمانہ حمل اور زندگی کے ابتدائی چند برسوں تک بچے کی دماغی نشوونما میں درقیہ کے ہارمون سرگرمی سے حصّہ لیتے ہیں۔

یہ ہارمون انسان میں تولید کی صلاحیت برقرار رکھتے ہیں۔نیند لانے میں معاون بنتے ہیں۔دیکھا گیا ہے کہ جس انسانی جسم میں درقیہ کے ہارمون زیادہ تعداد میں بننے لگیں تو انسان میں کثرت سے خیالات پیدا ہوتے ہیں۔تاہم وہ اس حالت میں توجہ مرکوز کرنے کی کچھ صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔خواتین میں خواہش اور ماہواری کے اعمال پہ یہ ہارمون کافی اثرانداز ہوتے ہیں۔

پچھلے دس سال کے دوران تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ اگر انسانی جسم میں تھلیٹس کی زیادتی ہو تو درقیہ سے ہارمونوں کے اخراج کا قدرتی نظام متاثر ہو جاتا ہے۔کبھی ہارمون ضرورت سے زیادہ بننے لگتے ہیں۔کبھی ان کی تعداد بہت کم ہو جاتی ہے۔یہ قدرتی نظام بگڑنے سے انسان مختلف عوارض کا نشانہ بن جاتا ہے۔ مثلاً اس کا موڈ خراب رہنے لگتا ہے۔ڈپریشن بھی حملہ آور ہوتا ہے۔ہاتھ پیر میں درد رہتا ہے۔انسان اگر درقیہ کے مسائل کی وجہ سے ایسی علامات کا شکار ہو تو اس خرابی کی وجہ تھیلٹس ہو سکتے ہیں۔

تھیلٹس سے بچاؤکے طریقے
خوش قسمتی سے انسان جب تھیلٹس والی اشیا استعمال کرنا چھوڑ دے تو یہ کیمیکل رفتہ رفتہ جسم سے نکل جاتے ہیں۔چناں چہ ان کیمیائی مادوں سے بچنے کے گر درج ذیل ہیں۔
٭…پلاسٹک والے ڈبوں کے بجائے گلاس،سرامک،اسٹین لیس اسٹیل یا لکڑی کے ڈبوں میں غذائیں محفوظ کریں۔یہ ممکن نہ ہو تو غذا پہلے ٹھنڈی کر لیں۔پھر پلاسٹک ڈبوں میں محفوظ کیجیے۔
٭…پلاسٹک برتن پہ رکھ کر کوئی غذا مائکروویو اوون میں گرم نہ کریں۔اس طرح پلاسٹک میں شامل تھیلٹس پگھل کر غذا میں شامل ہو جاتے ہیں۔
٭…غیر خوشبو دار صابن، لوشن اور کپڑے دھونے والے ڈیٹرجنٹ استعمال کریں۔
٭…ڈبہ بند غذائوں کے بجائے تازہ سبزیاں و پھل کھائیے۔
٭…وقتاً فوقتاً ہاتھ دھوئیے تاکہ کیمیکل دھل جائیں۔
٭…ایسے ائر ریفریشنر نہ خریدیں جن پہ لیبل 3، 6اور 7 لکھا ہو۔ان میں تھلیٹس ہوتے ہیں۔

The post کیمیکل جو موت کا پیغام بن رہے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3bro3TJ
via IFTTT

مہمان پرندوں کا خیال رکھیں ایکسپریس اردو

ندی نالوں کا کیا ہے ان میں طغیانی آتی ہے تو وہ زورشور سے بہتے ہیں اور پھر کہیں کھو جاتے ہیں۔ یہ جھیلیں ہی تو ہیں جو اپنے اندر تہذیب اور اپنائیت کو جنم دیتی انہیں پالتی ہیں۔ اپنی آغوش میں رکھتی ہیں۔

جھیلیں اپنے اندر ایک کائنات سموئے ہوئے ہیں۔ ان کی وسعتیں مستقل ہوتی ہیں۔ یہ مہمان نواز ہوتی ہیں۔ اپنے دل کو وسیع رکھتی ہیں۔جھیلیں قدرتی حسن کا ایک انمول حصہ تصور کی جاتی ہیں جو بے شمار خوب صورتی سے مزین ہوتی ہیں۔ یہ آبی حیات کا بہترین مسکن ہوتی ہیں۔

اپنے اندر انواع اقسام کی مچھلیوں و دیگر آبی مخلوقات کو پناہ دیتی ہیں۔ انہیں وسعتیں فراہم کرتی ہیں اپنے چہرے پر آبی پرندوں کو اٹکھیلیاں کرنے کی اجازت دیتی ہیں اور ان کی خوشی میں خود کو مدہوش کرلیتی ہیںاور اپنے آپ کو کھو کر ان کو زندگی بخشتی ہیں۔ جھیلیں اللہ کی نعمتوں میں سے ایک خوب صورت نعمت ہیں جو انسانی زندگی کے لیے گوہر نایاب سے کم نہیں۔

اس کائنات پر کئی خوب صورت جھیلیں اپنا وجود رکھتی ہیں بعض جھیل اپنی انفرادی حیثیت محلِ وقوع اور فطری تقاضوں کی وجہ سے منفرد مقام رکھتی ہیں۔ انہی جھیلوں میں سے ایک جھیل “ہالیجی” بھی ہے جو نہایت خوب صورت اور دل کش قدرتی نظاروں سے بھرپور ہے۔ہالیجی جھیل پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارالحکومتکراچی سے تقریباً 70 کلو میٹر کے فاصلے پر نیشنل ہائی وے کے بائیں جانب ضلع ٹھٹھ میں واقع ہے۔

ایشیا کی یہ خوب صورت ترین جھیل اپنی قدرتی حسن اور مہاجر پرندوں کی کثرت کی وجہ سے دوسری جھیلوں سے ممتاز مقام رکھتی ہے۔ ماضی میں یہ جھیل ایک چھوٹی سی جھیل ہوا کرتی تھی لیکن دوسری عالمی جنگ کے دوران اس وقت کے برطانوی گورنر نے اس جھیل کی گنجائش میں اضافہ کیا اور دریائے سندھ سے ایک فیڈر کے ذریعے اس کی وسعت میں خاطر خواہ تبدیلیکی تاکہ اس کا پانی کراچی میں مقیم امریکی و برطانوی فوجیوں کے لییاستعمال میں لایا جاسکے۔

چناںچہ یہ جھیل اس وقت سے ایک بڑی جھیل میں تبدیل ہوگئی۔ موجودہدور میں ہالیجی جھیل کی لمبائی تقریباً 2 کلومیٹر، چوڑائی 2 کلومیٹر اور سطح آب تقریباً 4 اسکوائر کلومیٹراور زیادہ سے زیادہ گہرائی 250 میٹر ہے۔جھیل اور اس کے اطراف کے علاقے درختوں، قدرتی جڑی بوٹیوں اور جھاڑیوں سے پُر ہیں جو پرندوں اور دیگر جنگلی حیات کی آماج گاہ ہیں۔

ہالیجی جھیل اپنی قدرتی خوب صورتی اور پرندوں کی بہتات کی وجہ سے ایشیا میں سب سے زیادہ ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کی آماج گاہ والی جھیل تصور کی جاتی ہے۔

اس جھیل کی سب سے بڑی خوب صورتی اور انفرادیت یہ ہے کہ نومبر کے مہینے میں جب سائبیریا اور قریب وجوار کے علاقے میں موسم انتہائی سرد ہونا شروع ہوجاتا ہے، تو اس علاقے میں رہنے والے پرندے بہتر موسم کی تلا ش میں ہجرت کرنا شروع کردیتے ہیں اور پھر انہیں ہالیجی جھیل اپنی آغوش میں یہ ماحول فراہم کر دیتی ہے۔ اور یہ عمل برسوں سے چلا آرہا ہے۔ ہجرت کا یہ عمل نومبر سے فروری تک جاری رہتا ہے اور جب موسم قدرے بہتر ہوتا ہے تو یہ مہمان واپس اپنے اپنے علاقوں میں چلے جاتے ہیں۔

ہالیجی جھیل ان مہمان پرندوں کی اپنی بساط سے بڑھ کر خاطر مدارات کرتی ہے۔ اپنے آغوش میں ان خوب صورت پرندوں کو ماں کی طرح سمو لیتی ہے اور بلاخوف و خطر یہ پرندے جھیل کے سطح آب پر اٹکھیلیاں کرتے نظر آتے ہیں اور ان کی حرکات و سکنات فطرت سے محبت کرنے والے لوگوں کے لئے ٹانک سے کم نہیں۔

سائبیریا اور سینٹرل ایشین ممالک سے۔ ہجرے کرکے آنے والے پرندوں میں بلیک کوٹ، یورپیئن ویگن، ڈائمن پلیکون وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 223 اقسام کے آبی پرندے ہالیجی جھیل کی پہچان ہیں جن میں مشہور اقسام کے پالاس فش ایگل، ٹیلاس، ہیرس آنے والے پرندوں کی اکثریت اسی جزیرے پر ڈیرے ڈالتے ہیں۔ یہ جزیرے پیلکون اور کارمونیٹکے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔

دور اُس پار سے یہ جزیرے قابلِ دید نظارہ پیش کرتے ہیں اور کیا خوب صورت منظر ہوتا ہے۔ کچھ پرندے فضا کے سفر پر روانہ ہو رہے ہوتے ہیں تو کچھ اترتے نظر آتے ہیں۔ اس خوب صورت لمحے کا اندازہ تو

آپ بذاتِ خود دیکھ کر ہی کرسکتے ہیں لفظوں میں بیان کرنا ناممکن سی بات ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان پرندوں کو خاطر خواہ قدرتی ماحول فراہم کریں تاکہ یہ خوشی خوشی اپنے گھروں کو واپس لوٹ سکیں۔

The post مہمان پرندوں کا خیال رکھیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ZD6vlp
via IFTTT