سفر زندگی کا
مصنف: جسٹس (ر) بشیر ۔اے۔ مجاہد، قیمت:600 روپے، صفحات:240،
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ ، لاہور (03014568820)
حالات کیسے بھی ہوں محنتی ، ذہین اور حوصلہ نہ ہارنے والے اپنی منزل تک پہنچ ہی جاتے ہیں، زندگی میں آنے والے نشیب و فراز ان کا سفر مشکل ضرور بناتے ہیں مگر سفر روک نہیں سکتے ۔ جسٹس (ر) بشیر۔ اے۔ مجاہد کی زندگی بھی ایسی ہی ہے، انھوں نے اپنی زندگی بلاکم و کاست سب کے سامنے کھول کر رکھ دی ہے ۔
جسٹس ( ر) خلیل الرحمان رمدے کہتے ہیں ’’ان کے والد محترم نے ان کو تعلیم حاصل کرنے کی ہدایت کی اور وہ بچہ علم کے حصول کے لئے روزانہ دس کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرتا کچھ عرصے کے بعد اس معصوم بچے کے ننھے منے پائوں تھک جاتے ہیں اور وہ اس تعلیمی سلسلے کو ترک کر دیتا ہے لیکن جلد ہی وہ تازہ دم ہو کر ایک نئے عزم اور ولولے کے ساتھ اپنا تعلیمی سفر دوبارہ جاری کر دیتا ہے۔
وسائل کی کمی اور ہمہ قسم کی دیگر مشکلات اور رکاوٹوں کا جوانمردی سے مقابلہ کرتے ہوئے وہ بچہ بی اے اور پھر ایم اے کی ڈگری حاصل کرتا ہے۔ لنکنز ان سے بیرسٹر ایٹ لاء کی اعلٰی ڈگری حاصل کر کے وطن واپس لوٹتا ہے اور پیشہ وکالت سے منسلک ہو جاتا ہے۔ ان کی محنت ، قابلیت اور دیانت داری بھل لاتی ہے اور ان کو صوبہ پنجاب کی اعلیٰ ترین عدالت یعنی لاہور ہائیکورٹ کا جج مقرر کر دیا جاتا ہے‘‘۔
معروف صحافی میاں محمد اسلم کہتے ہیں ’’بشیر اے مجاہد کی زندگی ان نوجوانوں کے لیے روشنی کی کرن ہے جو اپنی ذاتی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس غیر منصفانہ نظام میں محدود وسائل کے ساتھ اپنا مقام بنانا چاہتے ہیں ۔
عام آدمی جو کچھ کرتا ہے وہ اسی گردوپیش کو قبول کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے مشکلات کو بہانہ تو ہر شخص بنا سکتا ہے قابل ذکر صرف وہ شخص ہوتا ہے جو مشکلات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی منزل کو پالے۔ بشیر احمد مجاہد بیرسٹری کے بعد برطانیہ ،کینیڈا اور امریکہ سیٹل ہو سکتے تھے مگر انھوں نے بیرون ملک تمام پرکشش مواقع رد کرتے ہوئے وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا اور مستقل طور پر اپنے معاشرہ سے وابستہ رہے۔‘‘ یہ آپ بیتی نوجوان نسل کے لئے مشعل راہ ہے ۔ کتاب میں رنگین تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں ۔ مجلد کتاب کو مصنف کے عکس کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
کیا کورونا کچھ نہیں؟
مصنف: محمد طاہر اشتیاق، قیمت:600 روپے، صفحات:148
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور 03014568820) (
کورونا کی وباء کیا پھیلی اس نے پوری دنیا کو بدل کر رکھ دیا ۔ حکومتوں کو مجبوراً لاک ڈائون کرنا پڑا تاکہ بھاگتی دوڑتی زندگی کو لگام دی جا سکے تاکہ تیزی سے پھیلتی ہوئی بیماری کو بریک لگ جائیں مگر اس سے نظام زندگی تلپٹ ہو کر رہ گیا ، معاشی پہیہ جو سو کی رفتار سے چل رہا تھا چیونٹی کی چال چلنے لگا ، وباء کا شکار ہو کر دنیا سے جانے والے تو چل دیئے مگر زندوں کو زندہ رہنا مشکل ہو گیا ۔
جو تندرست تھے وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو گئے ، روزانہ کمانے والوں کے لئے چولہا جلانا مشکل ہو گیا ۔ مگر ہمارے معاشرے میں پھر بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو ابھی تک کورونا کی وبائی حیثیت کو ماننے کے لئے تیار نہیں بلکہ اسے اغیار کی سازش قرار دیتا ہے۔ زیر تبصرہ ناول بھی اسی صورتحال سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہے ۔ یہ ایک خاندان کی کہانی جس میں ایک شخص اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کورونا کا شکار ہو جاتا ہے۔ حتی کہ گھر والوں کی بات بھی نہیں مانتا۔ علاج میں ٹال مٹول سے کام لیتا ہے جس کا نتیجہ بالآخر موت کی صورت میں نکلتا ہے۔
یوں اس کی لاپروائی کی وجہ سے اس کا خاندان بے آسرا ہو جاتا ہے۔ موجودہ حالات میں اس ناول کا لکھا جانا بہت ضروری تھا کیونکہ ادب ہی معاشرے کی سمت کا تعین کرتا ہے۔ مصنف کی یہ کاوش لائق تحسین ہے ۔ کیونکہ اس سے ہمارے معاشرتی رحجانات کی بھرپور عکاسی ہو رہی ہے۔ ناول کے شوقین قارئین کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیئے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
اپنی شوگر اپنا علاج
مصنف : فیاض احمد قادری، قیمت:400 روپے، صفحات:103
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ ، لاہور 03014568820) (
بیماری کوئی سی بھی ہو تکلیف کا باعث ہے، معمولی سے سردرد کو ہی لے لیں، زندگی کے معمولات بدل کر رہ جاتے ہیں اور انسان اس تکلیف سے چھٹکارہ پانے کے لئے ہر ممکن طریقے اپناتا ہے ۔ جبکہ شوگر تو ایسی بیماری ہے جو بہت سی بیماریوں کا باعث بنتی ہے، جس شخص کو شوگر کی بیماری لاحق ہو جائے تو اس کی زندگی کے طور طریقے ہی بدل جاتے ہیں کیونکہ شوگر میں جتنا زیادہ پرہیز کیا جاتا ہے اتنا ہی بہتر خیال کیا جاتا ہے، یوں شوگر کا مریض پرہیز کی وجہ سے عام لوگوں کی طرح کھا نے پینے سے بھی دور ہونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کہ مریض کے عزیز و اقارب بھی اس کے پرہیزی کھانے کی طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں ۔
مصنف ایک سرکاری ادارے سے ریٹائر ملازم ہیں ، یہ ان کی کوئی پہلی تصنیف نہیں، وہ اس سے قبل ’’میں اور میرا گائوں ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھ چکے ہیں جو پسند کی گئی ۔ زیر تبصرہ کتاب لکھنے کا خیال انھیں اس وقت آیا جب وہ شوگر کے مرض میں مبتلا ہوئے اور پھر صحتیاب ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ شوگر جیسے موذی مرض سے چھٹکارہ پانے کے بعد انھیں فکر لاحق ہوئی کہ اپنے تجربات کو دوسروں سے بھی بانٹا جائے تاکہ دوسرے بھی اس سے مستفید ہو سکیں ۔ ان کی سوچ بہت مثبت ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے پوری روداد بیان کی ہے کہ کیسے وہ اس بیماری سے لڑتے رہے۔
انھوں نے ڈاکٹر ہوتے ہوئے بھی اس بیماری پر خود تحقیق کی جس کا ذریعہ انٹرنیٹ بنا اس کے علاوہ مختلف رسالے بھی ان کے زیر مطالعہ آئے ۔ دنیا بھر کی تحقیق ان کے سامنے تھی ۔ مصنف اس کتاب میں اپنی تحقیق کو بھی قاری کے سامنے رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ قاری کو خود تحقیق کرنے کو موقع بھی دیتے ہیں جس کے لئے انٹرنیٹ کے لنگ بھی دیئے گئے ہیں ، شوگر کنٹرول کرنے کے دیسی طریقے بھی بیان کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ورزشیں بھی بتائی گئی ہیں جو کافی مفید ہیں ۔ شوگر کے مریضوں کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
ڈھاکہ! میں آئوں گا (ناول)
مصنف : سہیل پرواز ، قیمت :900 روپے
ناشر : بک کارنر، جہلم ، رابطہ : 03215440882
ناول نگار ایک ادبی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ زندگی کے کئی برس پاک فوج کا حصہ رہے۔ اس دوران ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات کے لئے لکھتے رہے لیکن محدود انداز میں۔ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ میں گئے تو کھل کر لکھنا شروع کر دیا اور پھر بطور میجر ریٹائر ہوئے۔ بعدازاں میڈیا سے کل وقتی منسلک ہوئے۔ ریڈیو اور ٹی وی کے لئے ڈاکومنٹریز اور قومی اردو ، انگریزی اخبارات کے لئے کالم لکھتے رہے۔
پاکستان کے حالات پر انگریزی ناول The Cornered Rogue لکھا ۔ اردو میں ایک سرگزشت لکھی ’ جو تنہا کر گئی مجھ کو‘۔ اور اب یہ زیرنظر ناول، جس کا عنوان ہی اس کا بنیادی تعارف ہے۔
مصنف اپنے ناول کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’اس ناول میں نہ تو سیاست کی جزئیات کو چھیڑا گیا ہے اور نہ ہی فوجی آپریشنز پر پیشہ وارانہ بحث کی گئی ہے۔ اس میں صرف اس حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ایک بنگالی بھی اتنا ہی محب وطن ہو سکتا ہے جتنا کہ کوئی پنجابی، پشتون، سندھی اور بلوچ … کہانی بنیادی طور پر تین موضوعات کا احاطہ کرتی ہے، وطن سے محبت، ذات سے محبت اور ناقابل یقین عزم و استقامت کا مظاہرہ۔ کہانی میں چند مختصر کہانیاں اور دیگر واقعات ساتھ ساتھ چلتے ہیں جو اس کہانی کو مہمیز کرتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ المیہ مشرقی پاکستان کے بعد جنم لینے والی دو نسلیں جنھیں سقوط ڈھاکہ کے بارے سچ نہیں بتایا گیا یا سرے سے اندھیرے میں رکھا گیا ہے، یہ ناول پڑھ کر نہ صرف اہل بنگال کے بارے میں اپنے ذہنوں میں پلنے والے شکوک و شبہات اور دلوں میں جنم لینے والی بدگمانیوں دور کر لیں گے بلکہ ان کے دلوں میں نرم گوشہ بھی پیدا ہو گا۔ پاک فوج کی بھی سن اکہتر کے حوالے سے جس طرح چند مخصوص حلقوں نے تضحیک کی یا اب بھی کوئی موقع جانے نہیں دیا جاتا، اس کا بھی بہت حد تک مداوا ہوگا ۔‘‘
اس ناول کا ہیرو ایک سچا محب وطن بنگالی گوریلا افسر ہے۔ اس کے احساسات بھی ثابت کرتے ہیں کہ وطن سے محبت کسی کی میراث نہیں ہوتی ۔ اس ناول میں کئی ایسے خوبصورت اتار چڑھائو آتے ہیں کہ پڑھنے والا سرزمین بنگال میں پلنے والی کہانیوں کا حصہ بننے کے لئے مچلتا ہے۔ بڑے عرصہ بعد مشرقی پاکستان کے تناظر میں ایسا شاندار ناول دیکھنے کو ملا ۔ آپ ضرور پڑھئے گا ۔
اشرافیہ اور عوام
مصنف : سعید آسی ، قیمت : 1500 روپے
ناشر : قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل ، یثرب کالونی ، بینک سٹاپ ، والٹن روڈ، لاہور کینٹ ، رابطہ :0300 0515101
سعید آسی صف اول کے سینئر صحافی ہیں۔ انھوں نے ساری زندگی اسی شعبے میں بسر کی ۔ 70ء کی دہائی سے صحافت کا آغاز کیا۔ طویل عرصہ ’ نوائے وقت ‘ میں گزارا۔ اس دوران شاعری بھی کرتے رہے اور کالم بھی لکھتے رہے۔ بلامبالغہ ہزاروں کالم لکھے۔ زیر نظر مجموعہ میں ان کے صرف ڈیڑھ سو سے کچھ زیادہ کالم شامل ہیں۔
مصنف لکھتے ہیں : ’’آئین اور قانون کے تحت قائم کسی سسٹم پر مجھے انسانی نخوت و تکبر حاوی ہوتا نظر آتا ہے تو میرا قلم بھی اس پر سراپا احتجاج بن جاتا ہے۔ میں نے اپنے قلم کے اس احتجاج کو ہی اپنے منتخب کالموں کے نئے مجموعہ ’ اشرافیہ اور عوام ‘ کے صفحات میں سمویا ہے۔
جس عرصے کے دوران یہ کالم لکھے گئے اس میں کورونا وائرس کی غضب ناکیوں سے انسانی معاشروں اور معیشتوں میں رونما ہوتی اتھل پتھل کے مناظر بھی شامل ہیں اور وزیراعظم عمران خان کے ریاست مدینہ کی طرز پر پاکستانی معاشرہ تشکیل دینے کے دعوئوں کے برعکس انسانی کسمپرسی اور بے حالی و بدحالی کے اندوہناک مناظر بھی اسی عرصہ کا خاصہ بنے ہیں جس کی جھلک آپ کو ’’ اشرافیہ اور عوام‘‘ میں شامل میرے کالموں میں نظر آئے گی۔‘‘
زیرنظر کتاب کے بارے میں عطاالحق قاسمی لکھتے ہیں :’’ سعید آسی کالم لکھتا ہے جس سے اتفاق بھی کیا جاتا ہے اور اختلاف بھی۔ اس کا تعلق میڈیا کی لفافہ کلاس سے نہیں ہے۔ اس کی اپنی کلاس ہے اور یوں سعید آسی اپنی ’’ کیتی کرائی‘‘ کا خود ذمہ دار ہے۔‘‘ مجیب الرحمن شامی کی رائے میں بھی ’’سعید آسی سو فیصد دیانت دار صحافی ہیں جنھوں نے متانت اور وقار کے ساتھ زندگی گزاری ہے اور مجید نظامی کی مسند پر بیٹھنے کا حق ادا کر دیا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ ہم اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جس میں سعید آسی بھی شامل ہے۔ سعید آسی نے اپنے کالموں میں ہمیشہ یہ پیغام دیا کہ امید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑو ۔‘‘
رہ نوردان شوق
مصنف : محمد الیاس کھوکھر ایڈووکیٹ، قیمت : 600 روپے
ناشر: مکتبہ فروغ فکر اقبالؒ ،970 نظام بلاک ، اقبال ٹائون لاہور ۔ رابطہ : 03328076918
مصنف درد دل رکھنے والے انسان ہیں، اور انسانوں کی حالت زار پر شب و روزکڑھتے ہیں، غور وفکر کرتے ہیں، مسائل کا تذکرہ کرتے ہیں ، ان کا حل بتاتے ہیں ۔ درجن بھر کتابوں کے مصنف ہیں ۔ ’’ بوستان اقبال‘‘ ،’’ اقبال کا ایوان دل‘‘ ، ’’آیات الٰہی کا نگہبان‘‘ ، ’’دیدہ دل‘‘ ، ’’دن جو گزر گئے‘‘ ، ’’تو کجا من کجا ‘‘ ، ’’پدر جان پسر‘‘ ، ’’نوائے پریشان‘‘ ، ’’مرضی خدا کی‘‘ ، ’’ نور کی داستان‘‘ ، ’’ سن مجھ سے داستان میری‘‘ اور زیر نظر کتاب ۔ ان کی یہ سب تصانیف دل درمند کی آوازیں ہیں ۔
مصنف مسلسل تڑپتے ہیں کہ حالانکہ یہ دور نبوت محمدی ﷺ ہے ۔ رسالت محمدیﷺ جاری و ساری ہے، نور کا ایک روان کبیر ہے جو مسلمانوں کے دلوں کی کھیتیوں کو آج بھی سیراب کر رہا ہے، تاہم ایسے مردان عظیم کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے جو اللہ کے آخری پیغمبر ﷺ کی نیابت کا حق ادا کر سکیں ۔ جو چند ایک تھے یا ہیں، ان کا تذکرہ زیر نظر کتاب کے مختلف ابواب کی صورت میں قارئین کے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔
بقول مصنف :’’ میں نے مے خانہ محمدیﷺ کے چند شعلہ آشاموں کو اس کتاب میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے … نظریاتی اعتدال ان سب شخصیات کا حسن ہے جن کا میں گرویدہ ہوں ۔ جس منزل تک ہمیں پہنچنا ہے اس منزل کے راستوں میں لگے ہوئے یہ خوش نصیب انسان سنگ میل ہیں ۔ یہ سمندر میں لگے ’’ لائٹ ہائوس ‘‘ ہیں جنھیں دیکھ کر جہاز اپنی منزل کا تعین کرتے ہیں ۔‘‘ ان رہ نوردان شوق میں علامہ محمد اقبال، غازی علم دین ، مولانا طارق جمیل ، محمد متین خالد ، علامہ خادم رضوی ، سید قطب ، مولانا محمد اکرم اعوان ، ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم ، سرور قریشی ، اعجاز الحق ملک اور مصنف کے والد محترم ہیں ۔
کتاب ایک منفر انداز میں لکھی گئی ہے ، جو یقیناً ہر پڑھنے والے کی برسوں کی تشنگی دور کرے گی اور اسے ایک عجب جذبے سے سرشار کرے گی جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا مطلوب ہے اور موجودہ انسانوں کی ضرورت۔
کتاب: خلا کے اُس پار سفر
مترجم: محمد عبدہ، ناشر: گرین ہارٹ پبلشرز، فیصل آباد
قیمت: 900، صفحات: 436، سن اشاعت: 2021،
ترجمہ نگاری ایک بڑا فن ہے۔ترجمہ نگار پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ناصرف پورے مضمون کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کر کے آپ کے سامنے رکھتا ہے بلکہ اس مضمون کو آپ ہی کی زبان میں اس طرح سے بیان کرتا ہے گویا قاری کو یہی گمان ہوتا ہے کہ یہ کتاب اسی کی زبان میں لکھی گئی ہے۔ یہی ایک بڑے ترجمہ نگار کی کامیابی ہے کہ اصل مصنف کا بیان کردہ پورا مدعا آپ کے سامنے آپ ہی کی زبان میں رکھتا ہے کہ کتاب میں روانی بھی خوب رہے اور مصنف کی کہی ہوئی بات بھی آپ تک پہنچ جائے۔
ان تمام ذمہ داریوں کو محمد عبدہ نے ایرک شپٹن کی کتاب Blank on the Map کا اردو زبان میں ترجمہ کر کے بہ خوبی پورا کیا ہے۔ انگریزی زبان میں لکھی گئی کتاب کا نام اس کتاب کے اسلوب و بیاں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اردو میں مترجم نے ”خلا کے اُس پار سفر” منتخب کیا۔ یہ کتاب احاطہ کرتی ہے اس تمام سفر کا جو مصنف نے اپنی ٹیم، دارجلنگ کے سات شرپا اور سکردو کے چند قلیوں کی مدد سے کیا۔
یہ سفر دراصل 1937 میں کیا گیا۔ اس سفر کی خاص بات یہ تھی کہ تب ایرک اور اس کی ٹیم کے پاس کوئی نقشے نہ تھے اور اس ٹیم کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا K-2 کے شمال اور شمال مغربی حصے میں موجود گلیشئیائی نظام کو سمجھا جائے، گزرگاہوں کے نقشے بنائے جائیں، دریائے شکسگام کے منبع اور اس کی گزرگاہوں کو تلاش کی جائے اور درہ آغیل کے اصل جغرافیائی مقام کا تعین کیا جائے۔
یہ کتاب ایک سفر نامہ سے زیادہ تحقیق پر مشتمل ہے۔ گلگت بلتستان کے آج بھی بہت سے مقامات ایسے ہیں جن کے بارے لوگ بہت کم جانتے ہیں، ان تمام جگہوں کے بارے یہ کتاب مکمل معلومات رکھتی ہے۔ ایک خوشگوار حیرت یہ بھی ہے کہ 1937 میں بنا کسی ٹیکنالوجی کے ایرک نے ان تمام علاقوں کے جو نقشے بنائے، معلومات فراہم کیں وہ آج بھی نا صرف درست مانی جاتی ہیں بلکہ بڑی مہمات پر جانے والے اس کتاب سے بھرپور استفادہ بھی کرتے ہیں۔ پہلے ایک غیر ملکی زبان ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ اس سے استفادہ نہیں کر پا رہے تھے۔
اسی بات کو مترجم محمد عبدہ نے سمجھا اور کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا۔ محمد عبدہ خود بھی ایک مایہ ناز ٹریکر ہیں اور بہت سے غیر ملکی ان کی سربراہی میں مختلف مہمات سر انجام دے چکے ہیں۔ کتاب کے آخری دو ابواب خصوصی طور پر مجھ جیسے بہت سے ان طلباء کے لئے شامل کئے گئے ہیں جو تحقیق، تاریخ اور معلومات تینوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان دونوں ابواب میں پوری مہم کی نقشہ سازی اور ارضیاتی تحقیق کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں ٹیم کے کام کرنے کے طریقہ کار کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ معلومات اور تحقیق کے علاوہ اس کتاب کا ایک خوبصورت پہلو یہ بھی ہے کہ اس کتاب میں 1937 کے گلگت بلتستان کی وادیوں، دریاؤں اور موسموں کو بیان کیا گیا ہے۔ اب یقیناً بہت کچھ بدل چکا ہے۔
کیا اب کبھی تار کول سے بنے پُل پر سے دریائے شگر کو چند سیکنڈوں میں پار کرتے ہوئے آپ نے سوچا ہے کہ دریائے شگر پر کبھی یاک کے بالوں سے بنا ہوا پل تھا اور دریا کو اسی پُل کی مدد سے پار کیا جاتا
تھا۔ ایسی بے شمار خوشگوار باتیں پڑھنے کو آپ کو اس کتاب میں ملیں گی۔ اس لئے آپ کو یہ کتاب پہلی فرصت میں ہی پڑھنی چاہئے۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ZI6r3H
via IFTTT
No comments:
Post a Comment