عسکری قیادت نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ مسلح افواج کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دے گی، جامع سیکیورٹی حکمت عملی کے تحت ہر خطرے کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا ، مسلح افواج تمام دفاعی اور سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کا اجلاس چیئرمین جنرل ندیم رضا کی زیرصدارت منعقد ہوا ۔اجلاس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، نیول چیف ایڈمرل محمد امجد خان نیازی اور پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر مارشل ظہیراحمد بابر سدھو شامل تھے ۔
اجلاس میں سیکیورٹی امور بشمول اسٹرٹیجک اور روایتی پالیسیوں کے امور پر تبادلہ خیال ہوا جب کہ خطے بالخصوص افغانستان کی تازہ صورتحال اور امن کی اہمیت پر بھی گفتگو ہوئی ۔اجلاس میں درپیش چیلنجزاور ان سے نبردآزما ہونے کے مسلح افواج کے ورک پلان پر غور کیا گیا ۔
اس سچائی سے کسی طور انکار ممکن نہیں کہ افواجِ پاکستان نے نہ صرف زمانہ جنگ بلکہ زمانہ امن میں بھی پاکستان کی سربلندی اور تعمیر کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔دفاعی معاملات کی نزاکتوں اور حساسیت سے باخبر طبقے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم تاریخ کے ایک نازک ترین موڑ پر کھڑے ہیں ، جہاں قومی سلامتی اور دفاع کے تقاضے بڑھ چکے ہیں ، خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال کے براہ راست اثرات پاکستان پر مرتب ہورہے ہیں۔
اسی علاقائی اورعالمی تناظر میں ہمارے عسکری ادارے اِس امر کا پورا اِدراک رکھتے ہیں کہ ففتھ جنریشن وار فیئر کے طورطریق یکسر بدل گئے ہیں۔ فوج کی اہمیت اور اس کا کردار آج بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور محفوظ دفاع کے لیے آج بھی انتہائی مضبوط فوج ازبس ضروری ہے۔ پاکستان جس کا پڑوسی بھارت ایک ازلی دشمن ثابت ہو رہا ہے، اپنے دفاع کے لیے بجٹ میں بھاری رقوم رکھنے پر مجبور ہے۔
اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ہماری فوج ملک کا سب سے مستحکم اور باوقار اِدارہ ہے جسے پوری قوم کی تائید حاصل ہے۔ یہ ادارہ ہر مشکل وقت میں عوام کی مدد کو پہنچتا اور تعمیری کاموں میں حصہ لیتا رہتا ہے۔ اِسی فراخ دلانہ اور صحت مند رویے کے باعث عوام اور فوج اعتماد کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔
پاکستان کا دشمن بڑا مکار اور سازشی ہے اسے پتہ ہے کہ میدان جنگ میں پاکستان کو زیر کرنا بہت مشکل ہے لہٰذا وہ پاکستان کے خلاف تسلسل کے ساتھ سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔ بھارت نے پہلے افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور پاکستان پر دہشت گردی کی جنگ مسلط کی لیکن پاکستان نے دنیا کی پیچیدہ ترین جنگ لڑ کر اس میں بھی کامیابی حاصل کی اور بھارت کے تمام منصوبے خاک میں ملا دیے۔
بھارت نے پاکستان کے خلاف بلوچستان میں حالات خراب کرنے اور سی پیک روٹ کو ڈسٹرب کرنے کے لیے جو جال بچھایا تھا وہ سارا منصوبہ برباد ہو گیا ہے جس سے آج کل بھارت کی چیخیں ساتویں آسمان کو چھو رہی ہیں اب وہ طالبان پاکستان کو نتھی کر کے پروپیگنڈا وار لڑ رہا ہے جس میں سب سے بڑا ہتھیار سوشل میڈیا کا ہے قوم میں انتشار پیدا کرنے کے لیے پاکستان اور طالبان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں متوقع مداخلت کا پروپیگنڈا کر کے جعلی خود ساختہ آڈیو وڈیو کلپ بنا کر کنفیوژن پیدا کی جا رہی ہے۔ معاشرے کے مختلف طبقات کو آپس میں لڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے دشمن ہم پر ہائیبرڈ وار اور ففتھ جنریشن وار مسلط کر رہا ہے ۔
دوسری جانب پاکستان کی جانب سے پرامن طریقے سے تنازعات کا حل تلاش کرنے کا موقف اخلاقی اور اصولی طور پر دنیا میں پذیرائی پا چکا ہے، اس کے باوجودبھارتی اشتعال انگیزیوں پر عالمی قوتوں کی خاموشی ناقابل فہم ہے، امریکا خود افغانستان میں قیام امن اور پرامن انخلا کے ضمن میں پاکستانی پالیسی سے فائدہ اٹھا چکا ہے، لیکن پاک بھارت تنازع پر حقیقی ثالثی سے گریزاں ہے۔ پاکستان نے دو طرفہ اور کثیر الفریقی سطح پر بھارت کے ساتھ تنازعات کو ہمیشہ بات چیت سے حل کرنے کی بات کی ہے۔
اقوام متحدہ ،یورپی یونین بین الاقوامی عدالت انصاف ’شنگھائی تعاون تنظیم‘ سارک اور دولت مشترکہ کے اجلاسوں میں پاکستان اپنے اس موقف کو دہراتا رہا ہے، اس کا مقصد عالمی برادری کو باور کروانا ہے کہ پاکستان خطے میں امن و امان کا خواہاں ہے، بھارت جب بھی کوئی شرارت کرتا ہے تو پاکستان عالمی برادری کی توجہ اس کی حرکات کی جانب مبذول کرواتا ہے، جس کا مقصد خطے کے حالات کو معمول پر رکھنا ہوتا ہے۔
اس وقت ملک اندورنی اور بیرونی خطرات میں گھرا ہے، بھارت بیرونی محاذ پر اشتعال انگیزی کررہا ہے جب کہ ملک کے اندر سیاسی محاذآرائی انتہا تک جاپہنچی ہے، اس سیاسی محاذ آرائی میں قومی ریاستی اداروں کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے کی سازش کی جا رہی ہے، جو دشمن کو ملک کی سلامتی کے خلاف کھل کر اپنی سازشوں کی تکمیل کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہے، اگر بھارت ہم پر سرجیکل اسٹرائیک کی علانیہ منصوبہ بندی کیے بیٹھا ہے تو اس کا ٹھوس جواب قومی اتحاد کے بل بوتے پر دینا ہے، نہ کہ سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنیوں تک لے جا کر اپنے دشمن کو قومی انتشار کی جھلک دکھائیں اور اسے ملک کی سلامتی پر اس کے منصوبے کے مطابق وار کرنے کا نادر موقع فراہم کریں۔
ہمیں اپنی سلامتی ناقابل تسخیر بنانے کی ٹھوس منصوبہ بندی کرنی ہے جو قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا میں ہی ممکن ہے، اس لیے قومی سیاسی قیادت باہم دست و گریباں ہونے کے بجائے، باہم سرجوڑ کر بیٹھیں اور دفاع وطن کے تقاضے نبھانے کے لیے عساکر پاکستان کے ہاتھ مضبوط بنائیں، سیاسی قیادت کو سیاسی دکانداریاں چمکانے سے زیادہ ملک کا دفاع یقینی بنانا ہوگا، کیو نکہ ملک ہوگا تو سیاست کے بازار میں بھی رونق لگی رہے گی۔
پاکستانی فوج نے ہمیشہ وطنِ عزیز کا وقار بلند کرنے کے لیے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔نائن الیون کے بعد پاکستان کو بے حد نازک صورتحال کا سامنا تھا چنانچہ ایسے نازک لمحات میں وقت کے تقاضے کو دیکھتے ہوئے حکومت نے خالصتاً ملک و قوم کے مفاد میں ساری دنیا کو باور کروایاکہ عالمی امن کے لیے پاکستان ہر قسم کی کوششوں کا حصہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے،یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے عالمی سطح پر اپنا کھویا ہوا مقام واپس پا لیا اور یہ بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ ہماری فوج دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی سطح پرپیش پیش رہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف اعلانِ جنگ سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستان امن پسند ملک ہے۔
افواجِ پاکستان کے جوانوں اور افسروں نے ٹڈی دل کے حملو ں سے لے کر سیلابوں اور زلزلوں جیسی نا گہانی آفات میں اپنے بھائیوں کی مدد کی ہے اور اپنے فرائض کی بجا آوری میں اپنی جا ن کی بھی پرواہ نہ کی۔جس کے لیے قوم اپنے مجاہدوں کی شجاعت، شہدا ء اور غازیوں کے عظیم جذبوں کی قدر کرتی ہے۔ہر آڑے وقت میں پوری قوم اور مسلح افواج نے اتحاد‘تنظیم اور یقین کا لازوال مظاہرہ کیا ہے۔
دکھ اس بات کا ہے کہ دشمن کا تو کام ہی سازشیں کرنا ہوتا ہے لیکن جب اپنے ہی اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر اور اپنی انا اور ضد کی وجہ سے دشمن کے آلہ کار بن جائیں تو اس کا ازالہ بہت مشکل ہوتا ہے۔
انتہائی بدقسمتی ہے کہ پاکستان نے ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر تاریخ کا رخ موڑا ہے اور اللہ نے پاکستان کو ایک بار پھر موقع دیا ہے کہ ہم ایک قوم بن کر ملک وقوم کی تقدیر بدل سکیں لیکن اس موقع پر بھی ہمارے کچھ مفاد پرست سیاستدان ان کے پروردہ دانشور چاہتے ہوئے اور نہ چاہتے ہوئے دشمن کی پالیسیوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں وہ قوم کو سیدھا راستہ دکھانے کے بجائے قوم میں الٹے سیدھے بیانیوں کے ذریعے انتشار پیدا کرنے کی طرف لے کر جا رہے ہیں وہ فرضی قصے کہانیاں گھڑ کر لوگوں کے ذہنوں میں انتشار پیدا کر رہے ہیں لوگوں کو قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف اکسا رہے ہیں، یہ رویہ ملک دشمن عناصر کا ایجنڈا تو ہو سکتا ہے کسی محب وطن قوت کا نہیں ہو سکتا۔
بحیثیت ایک ذمے دار قوم یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم قائد کے فرمان اتحاد،ایمان اور تنظیم کو ہمیشہ یاد رکھیں اور وطن عزیز کی سلامتی،استحکام،دفاع اور ترقی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہیں۔وقت آ پہنچا ہے کہ دنیا پر ایک بار پھر ثابت کر دیں کہ افواجِ پاکستان اور پاکستانی عوام کسی بھی اندرونی،بیرونی،جغرافیائی و نظریاتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے باہم یک دل و یک جان ہیں اور دشمن کے جھوٹے پراپیگنڈے کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
The post قومی سلامتی اور دفاع کے تقاضے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3141pib
via IFTTT
No comments:
Post a Comment