ہمارے درمیان ایک شخص ایسا ہے جسے دیکھ کر خوشی ہوتی ہے، حیرت ہوتی ہے اور رشک بھی آتا ہے۔ ماں باپ نے اس سے امیدیں وابستہ کیں،محنت مزدوری کر جو تھوڑا بہت جمع کر پائے، اس کی تعلیم پر لگا دیا، بچہ ہونہار نکلا، ذہن کا تیز تھا، اس پر مستزاد محنتی اور وہ بھی اتنا محنتی کہ چشمہ لگانا پڑ گیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ ایک روز انجینئر کی امتیازی ڈگری لیے گھر داخل ہوا۔ ماں باپ نے آگے بڑھ کر بلائیں لیں اور اللہ کا شکر ادا کر کے سوچا کہ مشقت کے دن ختم ہوئے، آگے اللہ مہربانی فرمائے گا۔ ہمارے متوسط طبقے کے گھرانوں کے حالات بھی ایسے ہوتے ہیں اور انداز فکر بھی۔ لڑکا صرف ذہین اور محنتی نہیں تھا، مزاج بھی تخلیقی پایا تھا۔ اس شخص کے تخلیقی مزاج کی کہانی بھی عجیب ہے۔
کراچی ایک عظیم شہر ہے، پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود اسے شہر بے کراں کہا کرتے ہیں۔ سبب یہ ہے کہ شہر کے اندر ہی فاصلے اتنے زیادہ ہیں کہ چلتے چلتے پہر بیت جاتے ہیں لیکن سفر ختم نہیں ہوتا۔ شہروں کے ایسے ہی مسائل ہوتے ہیں جن کی وجہ سے سواریاں ایجاد ہوئیں۔
سب سے آسان اور سستی سواری تو بائیسکل ہے لیکن کراچی کے فاصلوں سے نمٹنا ان دو پہیوں کے بس میں نہیں۔ کراچی شہر میں اس مشکل کا حل موٹر سائیکل ہے لیکن سستے زمانوں میں بھی موٹر سائیکل کی خریداری پر پانچ سات ہزار تو لگ ہی جاتے تھے۔
ہمارے عہد کے بچے اتنے پیسے تو سوچے سمجھے بغیر خرچ کر ڈالتے ہیں لیکن جس زمانے کا یہ واقعہ ہے، اتنے پیسے جمع کرنے کے لیے برسوں نہیں تو مہینے تو لگ ہی جایا کرتے تھے۔ ایسی صورت میں کے ٹی سی(کراچی ٹرانسپورٹ سروس) کی بس یا اڑے بیٹ(بیٹھ) یا آگے بڑ، آگے بڑ(بڑھ) والی منی بس کے کرایوں سے بھی کم پاکٹ منی پانے والا نوجوان کیا کرے؟ اس نونہال نے اس سوال پر غور کیا اور سوچا کہ چلو موٹر سائیکل خریدنا مشکل ہے تو مشکل ہی سہی، کیوں نہ اپنی بائیسکل کو ہی موٹر سائیکل بنا لیا جائے، پھر یہ نوجوان یہ کارنامہ کر گزرا۔ یہ شخص اپنی خداداد ذہانت کو کام میں لایا اور سائیکل کے پہیے کے ساتھ ایک ایسا چھوٹا سا انجن منسلک کرنے میں کامیاب ہو گیا جس نے پیڈل مار مار چند کلومیٹر فی گھنٹہ سفر کرنے والی بائیسکل کو تھکے بغیر میلوں بھاگنے والی آٹو سائیکل میں بدل دیا۔
ایک شام گھر کے ویران پچھواڑے میں اپنی ایجاد مکمل کرنے کے بعد جب وہ سڑک پر اسے لایا اور اس کی۔ قد ساختہ آٹو سائیکل زوں زوں کرتی ہوئی منی بس کی رفتار کا مقابلہ کرنے لگی تو دیکھنے والوں نے دانتوں میں انگلیاں داب لیں۔
اس کا یہی کارنامہ محبت کرنے والے والدین کے ذہن میں تھا، یہی سبب تھا کہ اس کے انجینئر بننے پر خوشی منائی گئی اور توقع رکھی گئی کہ یہ بچہ یقینا ہمارا نام روشن کرے گا۔ پھر یہی ہوا۔
اس لڑکے نے ماں باپ کا نام روشن کیا لیکن انجینئر بن کر نہیں بلکہ ایک اور کارنامہ انجام دے کر۔ اس شخص نے اپنی تعلیم، ذہانت اور محنت ایک طرف رکھی اور سیاح بن گیا۔ سیاح بننے کے بعد ایک اور دور کی ایک اور کوڑی اسے سوجھی، وہ سیاح کے ساتھ ساتھ سفر نامہ نگار بھی بن گیا، یوں وہ دیکھتے ہی دیکھتے آٹھ دس سفر ناموں کا مصنف بن گیا۔ آج اپنی اسی شہرت کی وجہ سے وہ یہاں وہاں معروف ہی نہیں، مقبول بھی ہے۔ یہاں تک کہ اس کی کتابوں نے اہل تحقیق کو بھی متوجہ کیا اور کرنے والوں نے ان پر ایم فل کر لیا۔
سیاح بننے کے بعد اس کے ذوق جہاں گردی میں سب سے بڑی رکاوٹ روزگار نے ڈالی۔ آپ نوکری بھی کریں اور بیگ اٹھا کر جب چاہے چل دیں، آج کے کارپوریٹ معاشرے میں کون آجر اس کی اجازت دیتا ہے؟ بس، وہ پہلا ہی دن ر
ہا ہو گا جب کوئی باس اس کی سیاحت میں رکاوٹ بنا تو اس نے معاش کے اس ذریعے یعنی نوکری کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا۔ اب وہ پشاور جاتا ہے، شہد خریدتا ہے اور اپنی شہد جیسی باتوں کے ساتھ شہد کی بوتلیں بیچ ڈالتا ہے۔
اس میں کچھ کمی رہ جائے تو اونے پونے کے نام وہ چیزیں جو ہم کبھی خریدتے ہیں، ایک آدھ بار استعمال کرتے ہیں پھر انھیں بھول جاتے ہیں یا کچھ ایسی کتابیں جنھیں لوگ پڑھ کر کسی کونے کھدرے میں پھینک دیتے ہیں، یہ سب چیزیں دوست احباب اس تک پہنچا دیتے ہیں اور وہ انھیں اونے پونے کے نام سے بیچ دیتا ہے۔ میں خود تھرڈ کلاس الیکٹرک ایکسٹینشنز خرید خرید کر تنگ آچکا تھا، اس کے اونے پونے اسٹور سے مجھے تھوڑے سے پیسوں سے ایک ایسی ایکسٹینشن مل گئی کہ سارے دلدر دور ہو گئے۔
یہ تذکرہ تھوڑا طویل ہو گیا، اصل میں بتانا یہ تھا کہ سفر نامے لکھتے لکھتے ہمیشہ کی طرح اس کے ذہن میں ایک اور سودا سمایا، اس نے اپنے بچپن سے اب تک کے کراچی کی لفظی تصویریں بنانی شروع کر دیں جو کچھ عرصہ قبل ’’کراچی جو ایک شہر تھا‘‘کے عنوان سے شایع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں۔ اصل میں انسانوں کی طرح شہروں پر بھی بچپن، جوانی اور بڑھاپے کی طرح اچھے برے ادوار آتے ہیں۔
یہ سب کیفیات شہروں کے چہروں پر کندہ ہوتی ہیں، بس، انھیں پڑھنے والا چاہیے۔ خوش قسمتی سے ہمارے اس دوست یعنی عبیداللہ کیہر میں یہ صلاحیت موجود تھی۔ عبید کی یہ کتاب پڑھئے تو لگتا ہے، جیسے آپ فلم دیکھ رہے ہیں۔ ایک ہی نشست میں وہ شہر بھی آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے، ماہی گیروں کی بستی کے نام سے تاریخ میں جس کے تذکرے ملتے ہیں۔ وہ راستے گلی محلے اور جھونپڑ جھونپڑیاں بھی دکھائی دیتی ہیں جو کھوکھراپار کے راستے پاکستان ہجرت کرنے والوں نے بنائی ہوں گی اور ان بلوچوں اور سندھیوں اور ان کی بستیوں سے بھی ملاقات ہو جاتی ہے جن کے پرکھوں نے اس شہر کی بنیاد رکھی ہوگی۔
اس کتاب میں وہ آثار بھی دکھائی دیتے ہیں جن کی مدد سے قیام پاکستان کے بعد اس شہر نے چٹکیوں میں ترقی کی اور اس تباہی کے مناظر دیکھنے کا موقع بھی ملتا ہے جو اسی اور نوے کی دہائیوں میں اس شہر کی تباہی کا باعث بنے۔ سب سے بڑھ کر ملیر کی بارشیں جن سے بھیگ کر یہاں کے لوگوں میں زندہ دلی پیدا ہوئی اور زمینوں میں زرخیری۔
سچ پوچھئے تو یہ کتاب پڑھ کر یقین آ جاتا ہے کہ کراچی ایک شہر خوباں ہے۔ حسنیوں کو قدرت کی طرف سے اگر حسن کی دولت ملتی تو یہ بھی حقیقت ہے کہ انھیں آزمائشوں کا سامنا بھی دوسروں سے بڑھ کر کرنا پڑتا ہے۔ اس شہر پر بھی یہی کچھ بیتا ہے۔
عبید کی اس کتاب میں ہمیں یہ سب مناظر دیکھنے اور پڑھنے کو ملتے ہیں۔ میں نے یہ سب پڑھا اور دیکھا تو اس پر لکھنے کی خواہش نے سر اٹھایا لیکن معلوم ہوا کہ یہ شخص بہت تیز رفتار ہے جتنی دیر میں ہم لوگ کالم لکھتے ہیں، یہ کتاب مکمل کر لیتا ہے۔ میں ابھی کراچی کے تذکرے سے ہی لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اتنے میں اس کی دو تین کتابیں مزید سامنے آگئیں۔ کیا کیا جائے، یہ شخص ہے ہی اتنا تیز رفتار۔ ابھی میں اس کی کتابوں سے نمٹ نہیں پایا تھا کہ اب اس نے کرا چی کے دلچسپ محاوروں پر پروگرام شروع کر دیے ہیں اور بتایا ہے کہ ’’الاہٹ‘‘ کوئی لفظ یاترکیب ہو یا نہ ہو لیکن کراچی میں اس کا مطلب ہوتا ہے،تیز رفتار۔
The post کراچی جو ایک شہر تھا appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Y1zluI
via IFTTT
No comments:
Post a Comment