Wednesday, October 27, 2021

عشق نبی ﷺکے تقاضے ایکسپریس اردو

کم و بیش ساڑھے 14صدیاں بیت چکی ہیں کہ رب العالمین نے ظلمت کدہ عالم کو نور بخشنے والا وہ پیغمبر بھیجا جس کے ہاتھ میں سیادت رسل کا علم اور سرپرختم نبوت کا تاج رکھا۔

اللہ جل جلالہ نے اپنے پیغمبر کو ایسی شریعت مطہرہ عطا فرمائی کہ اس کے بعد قیامت تک نوع انسانی کے لیے کسی شریعت کی ضرورت نہیں، ایسی نبوت عطا فرمائی کہ اب قیامت تک کسی نئی نبوت کی ضرورت نہیں، ایسی کتاب دی جو قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے دستور حیات ہے،آپﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں اور آپ پر نازل ہونے والی کتاب آخری آسمانی کتاب ہے، اب قیامت تک جھوٹے تو شاید بہت آئیں گے اور ذلیل و رسوا ہو کر جہنم واصل ہوتے رہیں گے لیکن نبی کوئی نہیں آسکتا۔

نبی رحمتﷺ پر قربان جاؤں جن پر اللہ تعالیٰ نے ظہور اسلام سے خطبہ حجۃ الوداع تک اپنا دین مکمل کیا اور نبی رحمتﷺ  نے اپنی امت کو ایک ایک چیز بتا دی،کسی چیز کو امت سے پوشیدہ نہ رکھا، آپﷺ نے اپنے ایک ایک عمل سے امت کو بتا دیا کہ کیا دین ہے اور کیا دین نہیں۔

اب کسی ایسی شے کو ہم دین سمجھ کر اس پر عمل کریں گے جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں تو یہ حقیقت میں اللہ کے نبی کی توہین ہوگی، نبی رحمتﷺ پر نعوذ باللہ بہتان باندھنے کی کوشش ہوگی، اللہ کریم ہمیں ایسے کسی بھی عمل سے محفوظ رکھے جو نبیﷺ کا دین نہیں، لیکن ہم دین سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہیں۔

ربیع الاول کا دوسرا عشرہ اپنے اختتام کی جانب تیزی سے گامزن ہیں، یہ قیامت تک آنے والے ہر مسلمان کے لیے مبارک مہینہ ہے کیونکہ اسی ماہ ربیع میں اللہ رب العزت نے ہمیں اپنا محبوب عطا کیا، وہ محبوب جسے اللہ نے کہیں یٰسین کہا، کہیں طہٰ کہا، کہیں مدثر کہا، کہیں مزمل کہا۔ یہ میرے نبی رحمتﷺ  کی ولادت با سعادت کا مہینہ ہے۔ کون مسلمان ہے جسے نبیﷺ کی ولادت کی خوشی نہ ہو، اللہ نے بنی نوع انسان کوکروڑوں نعمتوں سے نوازا، لیکن آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی نعمت کوئی نہیں، آپﷺ کی آمد سے بڑھ کر کوئی خوشی نہیں ہو سکتی۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:

حضور آئے تو سرِآفرینش پا گئی دنیا

اندھیروں سے نکل کر روشنی میں آگئی دنیا

سٔتے چہروں سے زنگ اترا بجھے چہروں پے نور آیا

حضور آئے تو انسانوں کو جینے کا شعور آیا

وجہ تخلیق کائنات نبی رحمت کا آنا اور نبوت کے منصب پر فائز ہونا تاروز قیامت ہر مسلمان کے لیے رحمت، عزت، برکت ہے اور اس نعمت عظیم پر ہم جتنا شکر اور امت محمدی کا حصہ ہونے پر جتنی خوشی منائیں وہ کم ہے مگر خوشی کیسے اور کس انداز سے منائیں یہ بات بہت قابل غور ہے۔

نبی اکرمﷺ کی ذات اقدس اور انسانی خوبیوں کو تو کفار مکہ سے لے کر آج کے یہود و نصارٰی بھی مانتے ہیں اور غیر متعصب کفار آج بھی حضور اکرمﷺ کو انسانیت کی معراج پر فائز مانتے ہیں اور یہ اقرار کرتے ہیں کہ آج تک ان کے لیول کا کوئی انسان دنیا میں نہیں آیا اور ہمارا ایمان ہے کہ قیامت تک نہیں آسکتا، ہر مسلمان کے لیے اللہ رب العزت کے بعد نبی مکرمﷺ کی ذات اقدس سب سے اعلیٰ و ارفع ہے۔

ہر مسلمان نبی رحمتﷺ سے محبت اس لیے کرتا ہے کہ اللہ رب العزت کے آخری پیغمبر، شفیع الامت اور شافع محشر ہے تو ان سے محبت کا حق تو تب ادا ہوگا جب ان کی تعلیمات پر عمل کریں گے اور دوسروں کو اس پر عمل کی تلقین کریںگے، ان کی احادیث مبارکہ کو بیان کریںگے اور ان کی سیرت طیبہ اور اخلاق حسنہ کو اپنائیں گے تو رب العالمین بھی راضی ہوگا اور رحمت العالمین بھی۔

ہر مسلمان کو نبی رحمتﷺ کی آمد کی خوشی ہے اور ہر مسلمان کو نبی رحمتﷺ سے محبت ہے لیکن ہمیں علم ہونا چاہیے کہ آنحضرتﷺ سے محبت کے کچھ تقاضے ہیں۔ ان تقاضوں پر پورا اترنا اور اس کے لیے پوری کوشش کرنا ہی عشق ومحبت کی حقیقی علامت ہے، نبی رحمتﷺ سے محبت کا حقیقی اور اہم تقاضا اطاعتِ رسول ہے، یعنی آپﷺ کے ارشادات پر عمل کیا جائے، آپﷺ نے جن باتوں کے کرنے کا حکم فرمایا ہے ان پر عمل کیا جائے اور جن کاموں سے روکا ہے ان سے یکسر اجتناب کیا جائے۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 31میں اللہ کریم فرماتے ہیں:

’’(اے پیغمبر) آپ فرما دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور اللہ بہت معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے۔‘‘

بدقسمتی سے ہم نے نبی رحمتﷺ کی اتباع کو چھوڑ دیا، آپ کی سنتوں سے دور ہوگئے اور یہ سمجھ بیٹھے کہ شاید ربیع الاول میں ایک دن میلاد منانے سے اللہ اور اللہ کا رسولﷺ ہم سے راضی ہوجائیں گے، ایسا ہرگز نہیں ہوگا، میلاد کے ساتھ اتباع رسولﷺ لازم ہے۔ یہودی سال بھر اپنے نبی کی تعلیمات کے خلاف زندگی گزارتے ہیں اور سال میں ایک دن اپنے نبی کی پیدائش کا دن منا کر سمجھتے ہیں کہ شاید ہمارے سال بھر کے گناہ معاف ہوگئے، باقی ادیان کے لوگوں کا طرز عمل بھی یہی ہے اور اب تو ہم مسلمان بھی اسی ڈگر پر چل پڑے ہیں۔

اللہ کریم نے ہم مسلمانوں کو نبیوں کا سردار عطا کردیا اور ہم ان کی ولادت کی خوشی کو ایک دن تک کیسے محدود کرسکتے ہیں، ہم تو ہر فرض اورنفل نماز میں نبی رحمت پر درود و سلام بھیجتے ہیں اگر ہم ہر قدم اٹھانے اور ہر سانس لینے پر نبی رحمت پر درود و سلام بھیجیں تو شاید حق ادا نہ کرسکے لہٰذا سال کے 365دن اس کی خوشی منانی چاہیے۔

آپﷺ کی ایک ایک سنت کو زندہ کرنا چاہیے، محافل و سیرت کے جلسوں کا انعقاد کرنا چاہیے، درود و سلام کی مجلسیں سجانی چاہئیں، کائنات کا ذرہ ذرہ آپﷺ کی آمد کی خوشی منارہا ہے اور قیامت کی صبح تک مناتا رہے گا، تو اشرف المخلوقات ہو کر ہمیں بھی ہر لمحہ نبی رحمتﷺ کی آمد کی خوشی منانی چاہیے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دیکھا کہ آپﷺ ہر پیر کا روزہ بڑے اہتمام سے رکھتے ہیں، وجہ دریافت کی تو آپﷺ  نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بتایا کہ ’’اسی روز میری ولادت ہوئی اور اسی روز میری بعثت ہوئی اور اسی روز مجھ پر قرآن نازل کیا گیا”۔ سبحان اللہ۔ سبحان اللہ۔

ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو نبی رحمتﷺ کی ولادت کی خوشی میں ہر پیر کو روزہ رکھتے ہیں؟خوشی منانے کا یہ طریقہ تو نبی رحمتﷺ خود بتا گئے ہیں، پھر ہم اتنے اعلی طریقے سے خوشی کیوں نہیں مناتے؟

ہم جن طریقوں سے خوشی منانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ ہمارے لیے ثواب کے بجائے گناہ کا سبب بن جاتے ہیں، شریعت مطہرہ کو مسخ کرنے کا سبب بن جاتے ہیں، مثال کے طور پر اس بار ملتان میں بارہ ربیع الاول کے ایک جلوس میں ایک خاتون کو حور بنا کر پیش کیا گیا۔حضور اکرمﷺ جس مقصد کے لیے تشریف لائے تھے ہمیں اسے مضبوطی سے تھامنا چاہیے کیونکہ اس مقصد کی ضرورت تو ہمیں قبر تک ہے۔ نبی رحمتﷺ کی سنتوں کو زندہ کرنے سے ہی ہماری نجات ممکن ہے۔

رحمت العالمین کی آمد اور بعثت کی خوشی کسی دن یا مہینے تک محدود نہیں ہونا چاہیے، اصولًا تو 365 دن تا قیامت ہر مسلمان کو نبی کریم کی آمد پر جشن ان کی اتباع کرکے منانا چاہیے۔ پھر نبی رحمتﷺ کی ولادت کے دن پر خوشی منانے کے طریقے کو شریعت مطہرہ کے دائرے میں لایا جانا چاہیے، ہر مسلمان کو اپنی شکل و صورت سے لے کر کردار کو سنت نبوی کے سانچے میں ڈال کر اس امت اور پوری انسانیت کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق رحمت بن کر زندگی گزارنے کا اہتمام کرکے عشق محمد کے خاکے کو حقیقی رنگوں سے بھر دے اور نبی کریم کی سنت اپنانے اور ان کے پیغام کو پوری دنیا تک پہنچانے کا اہتمام 365 دن ہونا چاہیے۔

جشن عید میلاد النبیؐ کے موقع پر سادہ لوح مسلمان بعض اوقات حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں خصوصاً نوجوان ہلہ گلہ کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ تہذیب اور شریعت کے دائرے میں رہنا چاہیے۔ بلاشبہ یہ سب کچھ عشق مصطفیٰﷺ میں ہورہا ہے لیکن لوگوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ آپ لاعلمی میں عشق مصطفیٰﷺ میں دین کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کررہے ہیں۔ اللہ کریم مجھ سمیت سب مسلمانوں کو عشق محمدی میں اس مقام پر لے جائے جہاں ہم حقیقی معنوں میں اپنی جان، مال، اولاد اور ماں باپ کو نبیﷺکی ذات اقدس پر قربان کرنے کے لیے تیار رہیں۔

آخر میں تحریک لبیک کے احتجاجی دھرنے اور مظاہروںکے حوالے سے ذکر ضروری ہے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ احتجاج بھی عشق مصطفیٰﷺ میں ہے، یہاں عشاق کوئی غلطی نہیں کررہے بلکہ حکومت غلطی کررہی ہے۔

احتجاج کسی بھی شہری کا آئینی حق ہے جسے نہیں چھینا جاسکتا، تحریک انصاف نے اس آئینی حق کو سب سے زیادہ استعمال کیا، سالہاسال تک اپنے احتجاج کو ناصرف برقرار رکھا بلکہ لوگوں کو سول نافرمانی پر اکساتے رہے۔ اگر اس وقت کی حکومت بھی ان کے خلاف طاقت کا استعمال کرتی تو کیا ہوتا؟ بدقسمتی سے آج کالعدم تحریک لبیک کے کارکنوں کو اس حق سے طاقت کے ذریعے روکا جارہا ہے۔

حکومت ہوش کے ناخن لے اور ان کے ساتھ مذاکرات کرے اور اس معاملے کو حل کرے۔

The post عشق نبی ﷺکے تقاضے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3vQKvz5
via IFTTT

No comments:

Post a Comment