Thursday, December 31, 2020

منشاپاشا کا نیا فوٹوشوٹ جاری

مولانا فضل الرحمان کی محمد علی درانی سے ملاقات، پیپلزپارٹی نے سوالات اٹھا دیے ... اس وقت پیرپگاراکی کون سی حیثیت ہےجومذاکرات کرانے کی کوشش کررہے ہیں؟ اگر پی ڈی ایم کے ... مزید

وزیراعظم کے منصوبے نیا پاکستان ہاؤسنگ کی تکمیل میں قانونی رکاوٹ سامنے آگئی ... پنجاب میں نیا پاکستان ہاؤسنگ سکیم کی تکمیل غیر متعلقہ ادارے کے سپرد کر دی گئی

کورونا کے وار جاری ، سال کے آخری چوبیس گھنٹوں میں کورونا سے 71 اموات ... گذشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران کورونا کے مزید 2463 نئے کیسز سامنے آئے

شہباز شریف نے وکلا کو ضمانت نہ کروانے کی ہدایت کر دی ... مریم نواز کو جان بوجھ کے گرفتار نہیں کیا جارہا ہے تاکہ یہ مزید ایکسپوز ہوں۔ صحافی و تجزیہ کار عارف حمید بھٹی

شہباز شریف جیل میں رہنے کے خواہاں ، وکلاء کو ضمانت نہ کروانے کی ہدایت کردی ... نواز شریف کو اپنی صاحبزادی کو لیڈر بنانے کا شوق تھا ، مریم نواز لیڈر بن گئی ہے ، تو وہ اپنا ... مزید

یمن: عدن دھماکے کے بعد سعودی اتحاد کی صنعا پر بمباری

مالی: سابق وزیر اعظم پر بغاوت کا الزام

’کورکمانڈرز کی موجودگی میں مذاکرات کروں گا‘ مولانا فضل الرحمان نے شرط رکھ دی ... فوج سے مذاکرات کریں گے لیکن یہ بات چیت صرف آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف ہی سے نہیں ہوگی ... مزید

اب روبوٹ ڈانس کر کے لوگوں کو انٹرٹینمنٹ دیں گے ... ڈانس ایسا کہ انسان حیران رہ جائے،روبوٹ ڈانسرز ہر ایک کے دل میں گھر کر گئے

2021: روپیہ مستحکم، سونے کی چمک دھیمی پڑجانے کا امکان ایکسپریس اردو

کراچی: 2021ء میں پاکستانی کرنسی قدر میں بتدریج  2 تا 4 فیصد کمی متوقع ہے جس کے بعد ڈالر کے مقابلے میں اس کی قدر 164 تا 166 روپے کے لگ بھگ رہے گی، کیوں کہ اگلے ایک سال کے دوران  ڈالر کے طلب اور رسد کے درمیان فاصلہ کم رہے گا۔

آئی ایم ایف کی جانب سے قرضوں کی اقسام کی متوقع وصولی، یوروبانڈ اور سکوک کے اجرا، دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے نئے قرضے، تارکین  وطن کی بہتر ترسیلاتِ  زر اور  جاری کھاتے کے خسارے میں برائے نام خسارہ  2021 کے دوران روپے کو مستحکم رکھنے میں معاون ہوں گے۔

ٹینجنٹ کیپیٹل  ایڈوائزرز  کے سی ای او مزمل اسلم نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دسمبر 2021ء تک روپے کی قدر میں 2 تا 4 فیصد کمی  ہوسکتی ہے، یوں ڈالر کی قیمت 165 تا 166 کے اردگرد رہے گی۔ ادائیگیوں کا مثبت توازن روپے کو مستحکم رکھے گا۔

پاک کویت انویسٹمنٹ  کمپنی کے ریسرچ ہیڈ سمیع اﷲ طارق نے کہا کہ دسمبر 2021 تک روپے کی قدر میں 3فیصد تک کمی ہوسکتی ہے اور امریکی ڈالر کی قدر 165 روپے کے لگ بھگ رہے گا۔

 

The post 2021: روپیہ مستحکم، سونے کی چمک دھیمی پڑجانے کا امکان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2X3C2rq
via IFTTT

رات 12 بجتے ہی کراچی آتشبازی کے دھماکوں سے گونج اٹھا ایکسپریس اردو

کراچی: نئے سال کی امد کے موقع پر رات 12بجتے ہی شہر کے مختلف علاقے آتشبازی کے دھماکوں سے گونج اٹھا جب کہ گزری میں نوجوان لڑکی فائرنگ سے زخمی ہوگئی۔

منچلے نوجوان ٹولیوں کی شکل میں سی ویو سمیت شہر کے دیگر علاقوں میں نئے سال کا جشن مناتے ہوئے دکھائی دیے،ہوائی فائرنگ پر سختی سے پابندی کے باوجود شہر کے مختلف علاقوں میں نئے سال کی خوشی میں ہوائی فائرنگ بھی کی گئی۔نئے سال کا جشن منانے میں خواتین اور بچے بھی کسی سے پیچھے نہ تھے اور ان کی بھی بڑی تعداد گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر نئے سال کو خوش آمدید کہنے کے لیے گھروں سے نکل آئے۔

رات 12 بجتے ہی نئے سال کی خوشی میں سی ویو اور مزار قائد سمیت شہر کے مختلف علاقوں میں آتشبازی کے دھماکوں سے شہر گونج اٹھا جبکہ نئے سال کے موقع پر ہوائی فائرنگ کے واقعات کو روکنے کے لیے پولیس کی جانب سے گزشتہ ایک ہفتے سے مہم جاری تھی تاہم اس کے باوجود شہر کے مختلف علاقوں میں نامعلوم افراد کی جانب سے ہوائی فائرنگ کی گئی۔

گزری کے علاقے ڈیفنس میں سال نو کی خوشی میں کی جانے والی فائرنگ سے 17 سالہ گلنار نامعلوم سمت سے آنے والی گولی لگنے سے شدید زخمی ہوگئی، درخشاں چوکی کے قریب نامعلوم سمت سے آنے والی گولی لگنے سے 30 سالہ زبیر زخمی ہوگیا جسے رات گئے ایدھی کے رضا کاروں نے جناح اسپتال پہنچایا۔

سرسید کے علاقے نارتھ کراچی سیکٹر 9 باب السلام مسجد کے قریب گھر کے اندر نامعلوم سمت سے آنے والی گولی ہاتھ پر لگنے سے نوجوان زخمی ہوگیا جسے فوری طبی امداد کے لیے عباسی شہید اسپتال لیجایا گیا جہاں اس کی شناخت 22 سالہ نعیم الدین کے نام سے کی گئی۔

 

The post رات 12 بجتے ہی کراچی آتشبازی کے دھماکوں سے گونج اٹھا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2WXb3y1
via IFTTT

اسپیکر قومی اسمبلی نے 2 ن لیگی ارکان کے استعفے جعلی قرار دیدیے ایکسپریس اردو

اسلام آباد: اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ 2 ن لیگی ارکان کے استعفے جعلی ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق مسلم لیگ ن کے 2  ارکان قومی اسمبلی کے اسپیکر کو بھجوائے گئے استعفوں کی تحقیقات مکمل کرلی گئی، اسپیکر اسد قیصر نے مرتضیٰ جاوید عباسی اور سجاد اعوان کی استدعا منظور کر لی۔

اسپیکر قومی اسمبلی نے رولنگ دی کہ دونوں اراکین نے اپنے استعفوں کی تصدیق نہیں کی اور انھیں جعلی قرار دیا۔ اسپیکر نے قرار دیا کہ موصول ہونے والے استعفے متعلقہ ممبران کے ثابت نہیں ہوسکے، استعفوں کی تصدیق نہ ہونے کے باعث ان پر مزید کارروائی کی ضرورت نہیں لہذا انھیں جعلی قرار دیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ مرتضیٰ جاوید اورسجاد اعوان کے استعفے اْن کے سرکاری لیٹر ہیڈ پیڈ پر 14 دسمبر 2020 کو قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو موصول ہوئے تھے۔ استفعوں پر کارروائی قانون ، قواعد ، گائیڈ لائنز اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی عمل میں لائی گئی۔

 

The post اسپیکر قومی اسمبلی نے 2 ن لیگی ارکان کے استعفے جعلی قرار دیدیے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2WXnRUY
via IFTTT

2021 کا پہلا ٹریفک حادثہ،ایک شخص جاں بحق ایکسپریس اردو

کراچی: بن قاسم کے قریب ٹریفک حادثے میں ایک شخص جاں بحق، متوفی کی شناخت 31 سالہ عدیل احمد کے نام سے کی گئی۔

ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ متوفی پیدل جاتے ہوئے تیز رفتار موٹر سائیکل ٹکر سے جاں بحق ہوا ہے، دریں اثنا سال 2020 کے آخری ٹریفک حادثے میں شیر شاہ گلبائی کے قریب نامعلوم گاڑی کی ٹکر سے 3 افراد زخمی ہوگئے۔

ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ زخمیوں کی شناخت 35 سالہ محمد طاہر، 45 سالہ اللہ رکھا اور 23 سالہ ناصر کے نام سے ہوئی ہے جبکہ زخمی ہونے والے طاہر کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔

 

The post 2021 کا پہلا ٹریفک حادثہ،ایک شخص جاں بحق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3o5SmEe
via IFTTT

3 کشمیریوں کا قتل، پاکستان کا عالمی تحقیقات کا مطالبہ ایکسپریس اردو

اسلام آباد / سرینگر: پاکستان نے تین مزید کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل عام پر بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ زاہدحفیظ چوہدری نے کہا کہ ہم 3مزید نہتے کشمیریوں کے جعلی مقابلوں میں شہادت کی شدید مذمت کرتے ہیں،ان جعلی مقابلوں میں شہادت پانے والوں میں سری نگر کا ایک ہائی سکول کاطالبعلم شامل ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان ان ہولناک جرائم میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کرتا ہے، رواں برس ریاستی دہشتگردی کے واقعات میں بھارتی قابض افواج نے 300سے زائد نہتے کشمیریوں کو جعلی مقابلوں ، گھیراؤ و تلاش آپریشنز میں شہید کیا گیا،750 کشمیری زخمی ہوئے۔

بیان میں کہا گیا کہ پاکستان مسلسل اس بات کو اجاگر کررہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے انکوائری کی تفتیش کی متقاضی ہیں۔

علاوہ ازیں پولیس نے اعتراف کیاہے کہ شہید کشمیری نوجوانوں کے خلاف کوئی مقدمہ یا ان کی گمشدگی کی رپورٹ درج نہیں تھی،حریت کانفرنس نے شہید نوجوانوں کو خراج عقیدت کیلئے آج مکمل ہڑتال اور نماز جمعہ کے بعد احتجاجی مظاہروں کی اپیل کی ہے ۔جبکہ حریت رہنماؤں اور تنظیموںنے شہید کشمیری نوجوانوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔

The post 3 کشمیریوں کا قتل، پاکستان کا عالمی تحقیقات کا مطالبہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/38UpmJd
via IFTTT

کراچی میں سردی کی شدت کا دس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ایکسپریس اردو

کراچی: شہر قائد میں سردی کی شدت کا دس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا سال کے پہلے دن سردی کی شدت برقرار، کم سے کم درجہ حرارت 5.6 ریکارڈ کیا گیا۔

شہر میں رواں سال کا آغاز 10 سالہ سردی کا ریکارڈ ٹوٹنے سے ہوا۔ آج کا ریکارڈ کیا گیا درجہ حرارت دس سالوں میں کم ترین رہا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق سائبیرین ہواؤں نے شہر کے موسم کو مزید سرد بنادیا۔ آج شہر کا کم سے کم درجہ حرارت 5.6 ریکارڈ کیا گیا۔ اس سے قبل 2014 میں درجہ حرارت 6.5 ریکارڈ کیا گیا تھا۔

محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران شہر کا موسم خشک اور سرد رہنے کا امکان ہے۔ جب کہ کم سے کم درجہ حرارت 7 سے 9 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہے گا۔ شہر میں  شمالی سمت سے ہوائیں10کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہیں۔

The post کراچی میں سردی کی شدت کا دس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2WXlmC4
via IFTTT

کورونا سے مزید 71 افراد جاں بحق، 34 ہزار سے زائد فعال کیسز ایکسپریس اردو

اسلام آباد: ملک بھر میں کورونا وائرس سے ایک دن میں 71 افراد جاں بحق ہوگئے جب کہ فعال کیسز کی تعداد 34 ہزار سے زائد ہوگئی۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 41 ہزار 039 کورونا ٹیسٹ کئے گئے، جس کے بعد مجموعی کووڈ 19 ٹیسٹس کی تعداد 67 لاکھ 37 ہزار 107 ہوگئی ہے۔

کورونا کی مریضوں کی تعداد کتنی؟

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں مزید 2 ہزار 463 مثبت کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، اس طرح پاکستان میں کورونا کے مصدقہ مریضوں کی تعداد 4 لاکھ 82 ہزار 178 ہوگئی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک سندھ میں 2 لاکھ15 ہزار 679 ، پنجاب میں ایک لاکھ 38 ہزار 608، خیبر پختونخوا میں 58 ہزار 701، اسلام آباد میں 37 ہزار 888، بلوچستان میں 18 ہزار 168، آزاد کشمیر میں 8 ہزار 277 اور گلگت بلتستان میں 4 ہزار 857 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے۔

کورونا کے فعال مریضوں کی تعداد

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک بھر میں کورونا کے فعال مریضوں کی تعداد34ہزار773 ہوگئی ہے۔ جب کہ 2 ہزار 216 مریضوں کی حالت تشویشناک ہے۔

کورونا سے جاں بحق ہونیوالے افراد کی تعداد

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں کورونا سے مزید 71 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں جس کے بعد اب اس وبا سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد مجموعی طور پر 10 ہزار 176 ہوگئی ہے۔

صحت یاب مریضوں کی تعداد

این سی او سی کے مطابق کورونا سے ایک دن میں 2 ہزار 156 مریض صحت یاب ہوئے جس کے بعد صحت یاب ہونے والے مریضوں کی تعداد 4 لاکھ 37 ہزار 229 ہوگئی ہے۔

کورونا وائرس اوراحتیاطی تدابیر

کورونا وائرس کے خلاف یہ احتیاطی تدابیراختیارکرنے سے اس وبا کے خلاف جنگ جیتنا آسان ہوسکتا ہے۔ صبح کا کچھ وقت دھوپ میں گزارنا چاہیے، کمروں کو بند کرکے نہ بیٹھیں بلکہ دروازے کھڑکیاں کھول دیں اور ہلکی دھوپ کو کمروں میں آنے دیں۔ بند کمروں میں اے سی چلاکربیٹھنے کے بجائے پنکھے کی ہوا میں بیٹھیں۔

سورج کی شعاعوں میں موجود یو وی شعاعیں وائرس کی بیرونی ساخت پر ابھرے ہوئے ہوئے پروٹین کو متاثر کرتی ہیں اور وائرس کو کمزور کردیتی ہیں۔ درجہ حرارت یا گرمی کے زیادہ ہونے سے وائرس پرکوئی اثرنہیں ہوتا لیکن یو وی شعاعوں کے زیادہ پڑنے سے وائرس کمزور ہوجاتا ہے۔

پا نی گرم کرکے تھرماس میں رکھ لیں اورہرایک گھنٹے بعد آدھا کپ نیم گرم پانی نوش کریں۔ وائرس سب سے پہلے گلے میں انفیکشن کرتا ہے اوروہاں سے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتا ہے، گرم پانی کے استعمال سے وائرس گلے سے معدے میں چلا جاتا ہے، جہاں وائرس ناکارہ ہوجاتا ہے۔

The post کورونا سے مزید 71 افراد جاں بحق، 34 ہزار سے زائد فعال کیسز appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3rKmtU0
via IFTTT

نیا سال، نئی امیدیں ایکسپریس اردو

2020 کا آخری سورج ڈوبتے ہی پتا نہیں کیوں دل بھی ڈوب سا گیا۔ ایک بے نام سی اداسی چھا گئی۔ بلاشبہ 2020 پوری دنیا کےلیے بڑی آزمائشوں کا سال تھا۔ کورونا کا عفریب لاکھوں بے گناہوں کو کھا گیا۔ کروڑوں آج بھی اس کے ساتھ زندگی اور موت کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ بڑی بڑی سپر پاورز کہلانے والی حکومتوں کی معیشت پلک جھپکتے میں زمیں بوس ہوگئی، جس کے نتیجے میں کام، کاروبار اور دفاتر بند ہوئے تو کروڑں لوگ بے روزگار ہوگئے۔

اگر گزشتہ سال کو ایک مرتبہ Rewind کرکے اس کی فلم اپنے ذہن کے پردے پر چلائیں تو یقینی طور پر اعصاب شل ہوجائیں گے۔

نئے سال کے موقع پر میں مبارکباد وغیرہ کے پیغامات بھیجنے میں عام طور پر سست اور بخیل واقع ہوئی ہوں، لیکن اس مرتبہ نہ جانے کیا دل میں آئی کہ میں نے موبائل اٹھایا اور ایک جاندار سا حوصلہ افزا پیغام گزشتہ سال کے شکریے اور نئے سال کی مبارکباد کے ساتھ اپنی تمام تر لسٹ کو بھیج دیا۔

دسمبر تو ویسے بھی ہمیشہ سے اداس کردینے والا مہینہ رہا ہے اور اس آخری سورج کے ڈوبنے کے ساتھ پتا نہیں کتنے دل ڈوب رہے ہوں گے اور جتنی حوصلہ افزائی کی ضرورت اس سال ہمیں ہے، شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔

کورونا کے دوران مجھے پاکستان میں اپنے لوگوں کے ساتھ پیش آنے والی مشکلات سے ہرگز انکار نہیں، لیکن آپ لوگ جو اپنے اپنے گھروں میں، اپنے پیاروں کے درمیان، اپنے وطن کی مٹی کی خوشبو کے ساتھ موجود ہیں، ان کےلیے تو پھر بھی کچھ نہ کچھ ریلیف تھا کہ وہ ان سخت ترین حالات کا مقابلہ کرسکیں۔ لیکن ایک لمحے کےلیے پردیس میں پھنسے اپنے ان ہم وطنوں کا خیال ذہن میں لائیے، جو دو وقت کی حلال روزی کےلیے گھر سے بے گھر ہوئے۔ کورونا کے دوران جن کی ملازمتیں چلی گئیں۔ فلائٹس بند ہوئیں تو وہ واپس بھی نہ جاسکے۔ ویزے ختم ہوگئے۔ گھروں اور فلیٹس کے کرایے سر پر آگئے۔ روٹی، پانی، ہوا، بجلی، چھت… سب کے اخراجات۔ اوپر سے نہ کوئی دوست احباب، رشتے دار جو حوصلہ بڑھا سکے، اُمید دِلا سکے، ہمت بندھا سکے، دلاسہ اور ایک تھپکی دے سکے کہ ’’ہمت مت ہارو، سب ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔

یقین کیجئے پردیس میں موجود لوگوں کے حالات اس سے بھی زیادہ خراب تھے۔ میں نے بڑے بڑے کڑیل جوانوں کو پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا۔ انٹرنیٹ پر آپ کو ایسی کئی ویڈیوز مل جائیں گی۔ ایک نوجوان نے جب نوکری چلے جانے کے بعد اپنے حالات بتائے تو میں نے کہا تم گھر کیوں نہیں چلے جاتے؟ ان حالات میں کم از کم اپنوں کے درمیان تو ہوگے؟ اس پر وہ بولا آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ میں بھی گھر جانا چاہتا تھا لیکن گھر والوں نے کہا کہ بیٹا مت آنا، ابھی تو وہ قرضہ بھی نہیں اُترا جو ادھار لے کر تمہارے ویزہ اور ٹکٹ کا بندوبست کیا تھا۔

قارئین! پاکستان میں تو پھر چھت ہمارے سر پر ہوتی ہے، اپنا ملک، اپنے لوگ اور ان گنت آسانیاں، جن کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں۔ لیکن یہاں تو ہم ایک ایک سانس کےلیے ادائیگی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم ہمت نہیں ہارتے، ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک صحافی اور قلمکار ہونے کے ناتے میری کوشش رہی کہ میں جتنا بھی ہوسکے ان شدید ترین حالات میں بھی لوگوں کی رہنمائی کرسکوں۔ ذہنی اور جذباتی طور پر شکستہ لوگوں کی کاؤنسلنگ کرسکوں۔ انہیں سمجھا سکوں کہ ’’گرنا نہیں… نہ معیار سے، نہ تھک کر اور نہ ہار کر‘‘۔ حالانکہ مجھے خود بھی اسی طرح کی توانا حوصلہ افزائی کی ضرورت ہوتی تھی۔

آپ تو پھر خوش قسمت ہیں کہ اپنے ملک میں اپنے پیاروں کے ساتھ ہیں، تو پھر آپ کیوں مایوس ہیں؟ آپ کے دل کیوں ڈوب رہے ہیں؟ یاد رکھیے! رات جتنی مرضی طویل ہو، آخر اس کی ایک صبح ضرور ہوتی ہے۔ حبس جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو بارش ہوتی ہے اور تقدیر محنت کرنے والوں کا معاوضہ ہرگز نہیں روکتی۔

آگے بڑھیے۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کیجئے۔ اپنی ناکامیوں کا الزام دوسروں پہ دھرنے کے بجائے بہادری سے اپنا محاسبہ کیجئے۔ حقائق کو قبول کیجئے۔ گزرے وقت کو، حالات کو اور گزرے سال کو کوسنے کے بجائے نئے سال کو نئی امید، نئے عزم اور نئے حوصلے کے ساتھ خوش آمدید کہیے۔ اگر آپ منزل پر پہنچنا چاہتے ہیں تو راستے میں بار بار رک کر پیچھے دیکھنا چھوڑ دیجئے۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ حقیقی کامیابی تک پہنچنے کےلیے کوئی لفٹ موجود نہیں ہوتی، ہمیں ہمیشہ سیڑھیاں چڑھنا پڑتی ہیں۔ جتنا آپ کے بس میں ہے وہ تو کیجئے۔ اپنا اور اپنے قریبی رشتوں کا حق ادا کیجئے۔ ایک اچھا شہری ہونے کا فرض نبھائیے۔

خدا کرے آنے والا یہ سال ہم سب کی زندگیوں میں خوشیوں کی نوید لے کر آئے۔ (آمین)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post نیا سال، نئی امیدیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/38V6FVT
via IFTTT

شام میں دہشت گردوں کا فوجی قافلے پر حملہ ... حملے میں 37اہلکار ہلاک جبکہ13زخمی ہو گئے ہیں

عمران خان ایک بڑی جنگ لڑ رہا ہے،اگر اس نے مایوس ہو کر ہتھیار ڈال دیے تو وہ ہمارے لیے بدقسمت ترین دن ہو گا ... لاہور چیمبر آف کامرس اور کراچی چیمبر آف کامرس کے مافیاز کی بلیک ... مزید

پاکستانی اشرافیہ کا 150 ارب ڈالر کا کالا دھن دبئی اور سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں پڑا ہے ... باہر کے بینک اس رقم پر ایک روپے کا منافع بھی نہیں دیتا،اس پیسے کو واپس لانا چاہیے،، ... مزید

افغانستان میں لڑنے والے امریکی فوجیوں کو چین نے قتل کرنے کی سازش کی ... چین نے افغانستان میں امریکی افواج پر حملے کے لیے مسلح گروہوں کو پیسوں کی پیشکش کی تھی،امریکی حکام

جرمنی کا امریکہ فوجی اڈا جنرل قاسم سلیمانی کے قتل میں ملوث تھا ... 45 افراد سلیمانی کے قتل میں ملوث ہیں جنہیں انٹرپول کے ذریعے گرفتار کروائیں گے،ایران حکومت

Wednesday, December 30, 2020

چینی کمپنی ’سائنوفارم‘ سے کورونا ویکسین کی 12 لاکھ ڈوسزخریدی جائیں گی، فواد چوہدری ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: وفاقی وزیرسائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ چین کی کمپنی سائنوفارم سے ویکسین کی بارہ لاکھ ڈوسزخریدی جائیں گی۔

وفاقی وزیرسائنس ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ کابینہ کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ کورونا وبا کے خاتمے کے لیے ابتدائی طورپرچین کی کمپنی سائنوفارم سے ویکسین کی بارہ لاکھ Doses خریدی جائیں گی جو 2021 کی پہلی سہ ماہی میں فرنٹ لائن ورکرزکو مفت مہیا کی جائیں گی۔

فواد چوہدری نے کہا کہ پرائیویٹ سیکٹراگرکوئی اوربین الاقوامی طورپرمنظور شدہ ویکسین امپورٹ کرنا چاہےتو وہ بھی کرسکتا ہے۔

The post چینی کمپنی ’سائنوفارم‘ سے کورونا ویکسین کی 12 لاکھ ڈوسزخریدی جائیں گی، فواد چوہدری appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/381Jz0h
via IFTTT

انسان سے بہتر ڈانس کرنے والے روبوٹ کی ویڈیو وائرل ایکسپریس اردو

بوسٹن: انسان نما روبوٹ بنانے والی مشہور کمپنی بوسٹن ڈائنامکس کی جانب سے روبوٹس کو ڈانس سکھایا گیا ہے۔ ویڈیو میں روبوٹس انتہائی ماہرانہ انداز میں رقص کی ادائیں دکھاتے ہیں اور اچھلتے کودتے روبوٹ اس طرح قدم رکھتے ہیں جو ماہر ڈانسر بھی نہیں کرسکتے۔

اس کی وائرل ہوتی ہوئی ویڈیو ہزاروں لاکھوں افراد نے دیکھی ہے۔ اس سے قبل بوسٹن ڈائنامکس کے روبوٹ مختلف کرتب دکھانے، الٹی چھلانگ لگانے، پارکر، برتن دھونے اور دروازے کھولنے جیسے کام کرچکے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ انہوں  نے 1960 کے ایک مشہور گانے ’ ڈو یو لوو می‘ پر ڈانس کرکے دنیا کو حیران کردیا ہے۔ روبوٹ کی اس مہارت کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ آخر وہ کسطرح اپنا توازن قائم رکھتےہیں۔


اس ویڈیو کو دیکھتے وقت کئی مرتبہ یہ خیال آتا ہے کہ انسان کسطرح کی مشینوں سے زبردست ڈانس کرواسکتا ہے اور کئی مرتبہ تو ان پر سی جی آئی اینی میشن کا گمان ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ بوسٹن ڈائنامکس کمپنی ہیونڈائی کار ساز کمپنی نے ایک ارب ایک کروڑ ڈالر میں خرید لی ہے۔ بوسٹن ڈائنامکس کی بنیاد 1992 میں رکھی گئی تھی جس نے پہلے چوپائے روبوٹ بنائے تھے۔

The post انسان سے بہتر ڈانس کرنے والے روبوٹ کی ویڈیو وائرل appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2JxkUHz
via IFTTT

یہ دوا سرطان زدہ خلیوں کو بھوک سے ہلاک کردیتی ہے! ایکسپریس اردو

اسٹاک ہوم: سویڈن اور جرمنی کے سائنسدانوں نے مشترکہ تحقیق کے بعد ایسا مرکب تیار کیا ہے جو سرطان زدہ خلیوں کو غذا ’ہضم‘ کرکے توانائی پیدا کرنے کے قابل ہی نہیں چھوڑتا۔ نتیجتاً یہ خلیے فاقہ زدہ ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

ابتدائی تجربات میں یہ مرکب چوہوں پر کامیابی سے آزمایا جاچکا ہے اور امید ہے کہ آئندہ سال اس کی انسانی طبّی آزمائشوں کی اجازت بھی مل جائے گی۔

یہ تحقیق اسٹاک ہوم کے مشہور ’’کیرولنسکا انسٹی ٹیوٹ‘‘ کی سربراہی میں کی گئی جس میں کولون، جرمنی سے ’’میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار بائیالوجی آف ایجنگ‘‘ اور سویڈن کی گوٹنبرگ یونیورسٹی کے ماہرین بھی شریک تھے۔

اس تحقیق کے دوران انہوں نے کچھ ایسے حیاتی سالمات (بایو مالیکیولز) دریافت کیے جو خلیے کے ایک اہم حصے ’’مائٹوکونڈریا‘‘ کو متاثر کرتے ہیں اور اسے خلیے کےلیے توانائی پیدا کرنے سے روکتے ہیں۔

واضح رہے کہ مائٹو کونڈریا کو ’’خلیے کا بجلی گھر‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ غذا کے سالمات کو ’ہضم‘ کرکے نہ صرف توانائی پیدا کرتا ہے بلکہ جسمانی بافتوں (ٹشوز) اور اعضا کے درست طور پر کام کرنے کےلیے ضروری سالمے بھی تیار کرتا ہے۔

مزید یہ کہ مائٹوکونڈریا کا اپنا ڈی این اے ہوتا ہے جو باقی خلیے سے بالکل الگ ہوتا ہے۔ اگر مائٹوکونڈریا اپنا کام کرنا بند کردے تو خلیوں میں غذا ہضم ہونے کا عمل بھی رک جائے گا اور وہ فاقہ زدہ ہو کر مرنے لگیں گے۔

ہر صحت مند خلیہ اپنی مخصوص عمر پوری کرنے کے بعد خود کو ختم کرلیتا ہے اور اس کی جگہ، وہی کام کرنے والا دوسرا خلیہ آجاتا ہے۔ لیکن سرطان (کینسر) میں مبتلا خلیے خود کو ختم نہیں کرتے بلکہ اپنی تعداد میں اضافہ کرتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں متاثرہ مقام پر ’’سرطان زدہ پھوڑا‘‘ (ٹیومر) وجود میں آجاتا ہے جس کا علاج تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔

طبّی ماہرین کے سامنے برسوں سے یہ امکان موجود تھا کہ اگر سرطان زدہ خلیوں میں مائٹوکونڈریا کو نشانہ بنا کر کام کرنے سے روک دیا جائے تو سرطان زدہ خلیے بھی ’’فاقہ زدگی‘‘ کا شکار ہو کر مرنے لگیں گے۔ اس طرح نہ صرف سرطان کو بڑھنے سے روکا جاسکے گا بلکہ ممکنہ طور پر مکمل ختم بھی کیا جاسکے گا۔

البتہ اس امکان کو یقین بنانے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ حائل تھی: مائٹوکونڈریا کو نشانہ بنانے والی دوائیں عموماً بہت زہریلی ہوتی ہیں کیونکہ وہ اپنے راستے میں آنے والے ہر خلیے پر حملہ کر دیتی ہیں چاہے وہ سرطان زدہ ہو یا نہ ہو۔ کینسر کا علاج کرنے کےلیے ادویہ (حیاتی کیمیائی سالمات) کو لازماً اس قابل ہونا چاہئے کہ وہ صحت مند خلیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف اور صرف سرطان زدہ خلیوں ہی کو نشانہ بنائیں۔

جرمن اور سویڈش سائنسدانوں نے برسوں تحقیق کے بعد یہی کامیابی حاصل کی ہے۔

انہوں نے کچھ مخصوص بایوکیمیکلز کے ساتھ ساتھ وہ پورا نظام بھی دریافت کیا ہے جس کے تحت بطورِ خاص کینسر زدہ خلیوں میں مائٹوکونڈریا کے ڈی این اے (mtDNA) سے پروٹین بننے کے عمل میں رکاوٹ ڈالی جاتی ہے اور یوں مائٹوکونڈریا کو ناکارہ بنایا جاتا ہے۔

ان بایوکیمیکلز کے اثرات کچھ دیر بعد ارد گرد کے صحت مند خلیوں تک پہنچنا شروع ہوتے ہیں لیکن تب تک ان کی شدت میں خاصی کمی آچکی ہوتی ہے اور وہ دوسرے خلیوں کےلیے بڑی حد تک بے ضرر ہو چکے ہوتے ہیں۔

ابتدائی تجربات میں ان بایوکیمیکلز کو سرطان زدہ چوہوں پر آزمایا گیا۔ ان آزمائشوں کے دوران چوہوں میں سرطانی رسولیوں کا سائز کم ہوا جبکہ ان کی مجموعی صحت بھی بہت زیادہ متاثر نہیں ہوئی۔

ریسرچ جرنل ’’نیچر‘‘ کے ایک حالیہ شمارے میں اس حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹ میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ اس دوا کو جلد ہی عالمی اداروں کی جانب سے انسانی آزمائشوں کی اجازت مل جائے گی۔

The post یہ دوا سرطان زدہ خلیوں کو بھوک سے ہلاک کردیتی ہے! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/38J7y3C
via IFTTT

امید کا دیا اور دکھ کے سائے ایکسپریس اردو

کہتے ہیں کہ زندگی کوئی پھولوں کی سیج نہیں جو ہمہ وقت مہکتی رہے اور خوشیاں ہی خوشیاں ہماری جھولی میں ڈالتی رہے۔ بلکہ زندگی تو سکھ اور دکھ کا ایک ایسا مجموعہ ہے کہ اگر ایک پل میں ہم دکھ سے رنجور ہیں تو اگلے پل ہمیں ایسی خوشی بھی نصیب ہوتی ہے کہ پچھلے تمام دکھوں، تکالیف اور غموں کا مداوا ہوجاتا ہے۔ اور ہم پھر سے ایک امید کے سہارے آگے بڑھنا شروع کردیتے ہیں۔ دکھوں کے سائے بڑھتے جاتے ہیں مگر امید کا دیا جلتا رہتا ہے۔

کیوں اَٹا ہوا ہے غبار میں، غم زندگی کے فشار میں
وہ جو درد تھا ترے بخت میں، سو وہ ہوگیا، اسے بھول جا

2020 کا سال بھی کچھ ایسے ہی خوشی اور غم کے واقعات سے بھرپور گزرا کہ ان کی یاد پر جہاں دل خون کے آنسو بہاتا ہے تو وہیں موہوم سی امید اسے دھڑکنے پر مجبور بھی کرتی ہے۔

سال کا آغاز ایک خوفناک دھماکے کی شکل میں ہوا اور پھر پورا سال ہی اس دھماکے کی دھمک ہمارے کانوں کے پردوں پر دستک دیتی رہی۔ 7 جنوری 2020 کو کوئٹہ کے لیاقت بازار میں ایک موٹر سائیکل کے ذریعے بم دھماکا ہوا جس سے دو افراد زندگی کی بازی ہار گئے اور 14 کے قریب زخمی ہوئے۔ اور اس کے صرف تین دن بعد اسی شہر کوئٹہ کے سیٹلائٹ ٹاؤن میں واقع غوث آباد کے قریب ایک مسجد میں بم دھماکا ہوا۔ یہ سانحہ مغرب کی نماز کے وقت پیش آیا جس سے اللہ کے گھر کے مہمانوں میں سے 15 افراد بشمول معصوم بچوں کے شہید ہوئے اور 19 کے قریب زخمی ہوئے۔اس حادثے نے ملک کے تمام باشندوں کو اداسی کی لپیٹ میں لے لیا۔

اسی دن 10 جنوری کو ہی سال کا پہلا چاند گرہن بھی پیش آیا۔

9 فروری 2020 سے ملک میں کبڈی ورلڈ کپ کا آغاز ہوا اور 16 فروری کو پاکستان نے اپنے روایتی حریف بھارت کو ہرا کر کبڈی ورلڈ کپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا، جس سے ملک بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مگر خوشی کا دورانیہ ہمیشہ ہی بہت کم ہوتا ہے اور اگلے دن ہی، یعنی 17 فروری کو دہشت گردوں نے پھر اسی شہر کوئٹہ کو نشانہ بنایا اور موٹر سائیکل پر جاتے ایک خودکش حملہ آور نے اس وقت اپنے آپ کو اڑا لیا جب پولیس نے اسے روکنے کی کوشش کی، کیونکہ وہ مذہبی ریلی میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ اس حادثے میں دو پولیس اہلکاروں سمیت 10 افراد نے جام شہادت نوش کیا اور 35 کے قریب زخمی ہوئے۔

20 فروری کو فیصل آباد کے رہائشی باکسنگ کے اولمپک کھلاڑی عثمان اللہ خان کی وفات ہوئی۔ 25 فروری کو الخدمت فاؤنڈیشن کے چیئرمین نعمت اللہ خان کا انتقال پُرملال ہوا۔ 26 فروری 2020 کو پاکستان میں عالمی وبا کورونا کی پہلی بار دو افراد میں تشخیص ہوئی اور پھر اس وبا نے ہمارے ملک میں بھی اپنے پنجے گاڑ لیے، جس نے ابھی تک جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ 6 مارچ 2020 کو قہقہوں کے بادشاہ امان اللہ ہم سے بچھڑ گئے اور پہلی بار اس شخص کےلیے لوگ اداس ہوئے جس نے ساری زندگی انہیں ہنسانے میں ہی گزار دی۔

21 مئی کو کاون کی ملک بدری کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے دیا۔

22 فروری کو پاکستان میں ایک لرزہ خیز حادثہ پیش آیا جس نے ہر آنکھ کو نم کردیا۔ لاہور سے کراچی آنے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن فلائٹ 8303 کی ایک ائیر بس ’’اے۔320‘‘ کراچی کی ماڈل کالونی میں کریش ہوگئی۔ اس جہاز میں 91 مسافر اور عملے کے 8 افراد سوار تھے، جن میں سے 97 افراد کو موت نے اپنی آغوش میں لے لیا اور دو افراد زخمی حالت میں زندہ رہ جانے میں کامیاب رہے۔ ماڈل ٹاؤن ایک گنجان آباد علاقہ ہے جس کی وجہ سے عمارتوں کے نقصان کے علاوہ وہاں کے رہائشیوں میں سے بھی آٹھ افراد زخمی ہوئے، جن میں سے ایک بعد ازاں چل بسا۔ پاکستانیوں کےلیے یہ ایک روح فرسا حادثہ تھا۔

13 جون کو معروف اداکارہ صبیحہ خانم کا انتقال ہوا۔ 17 جون کو طارق عزیز نے دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کے ساتھ اپنی جاں، جان آفریں کے سپرد کی۔ 20 جون کو مفتی محمد نعیم اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور 22 جون کو علامہ طالب جوہری کا انتقال پُرملال ہوا۔ ان دونوں علمائے کرام کی رحلت سے پاکستان میں علم کے دو روشن مینار بجھ گئے۔ 26 جون کو منور حسن جو کہ جماعت اسلامی کے سابقہ امیر تھے، ہم سے جدا ہوگئے۔

29 جون کو پاکستان اسٹاک ایکسچینچ کراچی پر دہشت گردوں نے حملہ کیا، جس میں چاروں دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس واقعے میں چار شہری بھی جاں بحق ہوئے۔

30 جون کو نگار جوہر پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ بطور عورت لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر فائز ہوئیں۔

5 اگست کو جماعت اسلامی کی ریلی پر گلشن اقبال میں گرینیڈ سے حملہ ہوا، جس سے 39 افراد زخمی ہوئے جبکہ 10 اگست کو چمن بلوچستان میں بم سے حملہ ہوا، جس سے 5 افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے۔ 20 اگست کو میر حاصل خان بزنجو کی رحلت ہوئی اور 26 اگست کو مظفر حسن شاہ بھی خالق حقیقی سے جاملے۔

7 ستمبر کو مہمند ایجنسی میں سنگ مرمر کی کان میں دھماکے سے 19 افراد جاں بحق اور 20 افراد زخمی ہوئے۔ 16 اکتوبر کو بلوچستان میں دہشت گردوں کے حملے میں 7 فوجی جوانوں اور سات سیکیورٹی گارڈز نے جام شہادت نوش کیا اور اسی دن شمالی وزیرستان میں ہماری جان و مال کی حفاظت پر مامور فوج کے چھ افراد بم دھماکے میں شہید کردیے گئے۔

21 اکتوبر کو کراچی میں ایک بلڈنگ میں دھماکے سے پانچ افراد جاں بحق اور 27 کے قریب زخمی ہوئے۔ 27 اکتوبر کو پشاور کے ایک مدرسہ جامعہ زبیریہ میں دہشت گردوں نے بم دھماکا کیا، جس سے آٹھ طالب علم شہید اور 110 زخمی ہوئے۔

12 نومبر کو جسٹس وقار احمد سیٹھ کی وفات ہوئی اور 20 نومبر کو علامہ خادم حسین رضوی اپنے خالق حقیقی سے جاملے، جنہوں نے حب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع روشن کر رکھی تھی۔ اس عظیم سانحے سے پاکستان میں ہر آدمی رنج کے سمندر میں ڈوب گیا اور ان کے جنازہ میں ملک کے ہر علاقے سے لوگوں نے شرکت کی۔ 2 دسمبر کو میر ظفراللہ خاں جمالی کا انتقال پُرملال ہوا اور 4 دسمبر کو جج ارشد ملک وفات پاگئے۔

سال 2020 پاکستانی عوام کےلیے ایک ایسا سال تھا جس میں دکھوں کے سائے ہر طرف چھائے رہے، کہیں سے کوئی سکھ کی روشنی چھنتی نظر نہیں آئی، مگر امید کا دیا روشن رہا۔

اور امید سحر برقرار ہے کہ مالک الملک آنے والے سال میں ہمارے ملک کےلیے بہتری لائے گا، ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق دے گا۔ جو ہم سے بچھڑ گئے ان کی مغفرت اور ہم پر اپنی رحمت نازل کرے گا۔ (ان شاء اللہ)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post امید کا دیا اور دکھ کے سائے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3o3QLif
via IFTTT

نیوزی لینڈ کا واحد سفید کیوی علاج کے دوران چل بسا ایکسپریس اردو

ویلنگٹن: نوبرس قبل نیوزی لینڈ کی سرزمین پر دورانِ نگہداشت پیدا ہونے والا واحد سفید کیوی جراحی کی ناکامی کے بعد مرگیا ہے جس پر لوگوں نے شدید تاسف کا اظہار بھی کیا ہے۔

مئی 2011 میں جنم لینے والی سفید مادہ کیوی کو ’منکورا‘ (یعنی بلند رتبہ) کا نام دیا گیا۔ اس کی پیدائش دارالحکومت ویلنگٹن سے 125 کلومیٹر دور پیوکاہا وائلڈ لائف مرکز میں ہوئی تھی۔ نایاب جینیاتی کیفیت کی وجہ سے منکورا مکمل طور پر سفید تھی۔ اس کی پیدائش کو مقامی قبائل نے خوش بختی کی علامت جانتے ہوئے خوشیاں منائی تھیں۔

اس پر بچوں کے ایک مصنف جوئے کاؤلی نے منکورہ نامی ایک کتاب بھی لکھی تھی اور اس پر کئی کارٹون اور کھلونے بھی بنائے گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے اس کی موت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

مسلسل دس برس تک یہ سفید کیوی خبروں میں رہی اور اس کا خاص خیال رکھا جاتا رہا۔ دسمبر کے اوائل میں اس نے کھانا پینا چھوڑدیا اور اس کا وزن تیزی سے گرنے لگا تھا۔ پھرانہوں نے نوٹ کیا کہ منکورا نے ایک انڈہ دیا ہے جو نامکمل تھا۔ اس کے بعد ماہرین کی تشویش بڑھی اور پورے ملک سے پرندوں کے بہترین ماہرین طلب کئے گئے۔

اس کے بعد ایک اور انڈہ دیکھا گیا جسے نکالنے کے لیے سرجری کی گئی اور ہزار کوشش کے باوجود آپریشن ناکام ہوگیا۔ نیوزی لینڈ میں جانوروں کے تحفظ کے ماہرین کے مطابق اب دنیا میں صرف 68 ہزار کیوی ہی باقی بچے ہیں۔ ہر سال ان کی 2 فیصد آبادی گھٹ رہی جن میں وہ کتے، بلیوں اور جنگلی جانوروں کا شکار بن جاتےہیں۔ یہ اموات جنگلات اور فطری ماحول میں ہوتی ہیں اسی وجہ سے کیوی کی بڑی تعداد کو باقاعدہ ایک حصار میں رکھ کر ان کا خیال رکھا جاتا ہے۔

The post نیوزی لینڈ کا واحد سفید کیوی علاج کے دوران چل بسا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3o1gVSM
via IFTTT

2020 آزمائشوں اورسختیوں کا سال رہا اب امید کی کرن نظر آرہی ہے، یواین سیکرٹری جنرل ایکسپریس اردو

نیو یارک: یواین سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے کہا کہ 2020 آزمائشوں اورسختیوں کا سال رہا اب امید کی کرن نظر آرہی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے نئے سال کی آمد پروڈیوپیغام میں کہا کہ 2020 آزمائشوں اورسختیوں کا سال رہا، کووڈ 19 نے ہماری زندگیوں کومتاثرکیا اورتکالیف دیں، وبا پھیل رہی ہے جوموت نئی نئی شکلوں میں سامنے آرہی ہے۔ یواین سیکرٹری جنرل نے کہا کہ دنیا میں غربت، عدم مساوات اوربھوک بڑھ رہی ہے۔

یواین سیکرٹری جنرل نے کہا کہ پوری دنیا کونیا سال مبارک ہو، نئے سال میں امید کی کرن نظرآرہی ہے۔

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ کاربن سے پاک گیسوں کے اخراج کا ہدف 2050 تک حاصل کرنے کیلئے عالمی اتحاد قائم کیا جائے، آئیے مل کرماحولیاتی بحران کا مقابلہ کریں اورکورونا کے پھیلاؤ کوروکیں۔

The post 2020 آزمائشوں اورسختیوں کا سال رہا اب امید کی کرن نظر آرہی ہے، یواین سیکرٹری جنرل appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2MgytvX
via IFTTT

ڈرٹی پالیٹکس ایکسپریس اردو

جواہر لال نہرو کے والد موتی لال نہرو کام یاب وکیل‘ بزنس مین اور سیاست دان تھے‘ وہ دہلی‘ الٰہ آباد اور کلکتہ میں پریکٹس کرتے تھے اور 1900 کے شروع میں لاکھوں روپے ماہانہ کماتے تھے‘ وہ دوبار آل انڈیا کانگریس کے صدر بھی رہے‘ بڑے نہرو صاحب خود سیاست دان تھے مگر وہ اپنے بیٹے جواہر لال نہرو کو سیاست سے دور رکھنا چاہتے تھے۔

وہ انھیں صرف وکیل دیکھنے کے خواہاں تھے‘ انھیں لاٹھی اور جیل سے بچائے رکھنا چاہتے تھے‘ والد نے بیٹے کو شاہی خاندان کی طرح پڑھایا‘ نوابوں جیسی پرورش کی تھی‘ کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم دلائی اور یہ جب بیرسٹر بن کر ہندوستان واپس آگئے تو انھیں الٰہ آباد میں اچھے کلائنٹس لے کر دیے لیکن جواہر لال نہرو کمیونسٹ ذہنیت کے مالک تھے‘ وہ سیاست میں آکر معاشرے میں مساوات پیدا کرنا چاہتے تھے‘ والد نے بہت سمجھایا مگر جب دال نہ گلی تو اس نے ایک دن جواہر لال نہرو کی الماری سے سارے قیمتی سوٹ‘ جوتے اور سگار نکالے اور دوستوں کے بچوں میں تقسیم کر دیے اور ان کی جگہ کھدر کے دو پائجامے اور تین کرتے لٹکا دیے اور ہاتھ سے بنی ہوئی دیسی جوتی رکھوا دی‘ جواہر لال کے کمرے سے سارا فرنیچر بھی اٹھوا دیاگیا۔

فرش پر کھردری دری اور موٹی چادر بچھا دی اور خانساماں کو حکم دے دیا تم کل سے صاحب زادے کو جیل کا کھانا دینا شروع کر دو اور بیٹے کا جیب خرچ بھی بند کر دیا گیا‘ جواہر لال نہرو رات کو مسکراتے ہوئے والد کے پاس آئے‘ بڑے نہرو صاحب اس وقت اسٹڈی میں ٹالسٹائی کا ناول ’’وار اینڈ پیس‘‘ پڑھ رہے تھے‘ بیٹے نے پوچھا ’’آپ مجھ سے خفا ہیں‘‘ موتی لال نے نظریں کتاب سے اٹھائیں اور نرم آواز میں جواب دیا ’’میں تم سے ناراض ہونے والا دنیا کا آخری شخص ہوں گا‘‘ چھوٹے نہرو نے پوچھا ’’پھر آپ نے اتنا بڑا آپریشن کیوں کر دیا‘‘ والد نے بیٹے سے کہا ’’صاحب زادے تم نے جو راستہ چنا ہے۔

اس میں جیل‘ بھوک اور خواری کے سوا کچھ نہیں‘ میں چاہتا ہوں تم آج ہی سے ان تمام چیزوں کی عادت ڈال لو‘ دوسرا غریب کے پاس اعتبار کے سوا کچھ نہیں ہوتا لہٰذا یہ انتہائی سوچ سمجھ کر دوسروں پر اعتبار کرتے ہیں‘ تم اگر عام آدمی کی بات کرنا چاہتے ہو تو پھر تمہیں خود بھی عام آدمی ہونا چاہیے‘ تم انگلینڈ کے سوٹ اور اٹلی کے جوتے پہن کر غریب کی بات کرو گے تو تم پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا‘ میں نہیں چاہتا دنیا میرے بیٹے کو منافق کہے چناں چہ تم آج سے وہ کپڑے پہنو گے جو غریب پہنتا ہے اور تم اتنے پیسے خرچو گے جتنے غریب کی جیب میں ہوتے ہیں‘‘ جواہر لال نہرو نے والد کا ہاتھ چوما اور پھر مرنے تک کھدر کے کپڑے اور دیسی جوتے پہنے اور غریبوں جیسا سادہ کھانا کھایا۔

ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ ایسی لیڈر شپ کا فقدان ہے‘ پوری دنیا میں لیڈروں کا تعلق عموماً بڑے گھرانوں سے ہوتا ہے‘ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہوتے ہیں‘ان کا گلوبل ایکسپوژر بھی ہوتا ہے اور یہ اندر سے رجے ہوئے ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ جب سیاست میں آتے ہیں تو یہ سادگی اور غریب پروری کا تحفہ ساتھ لے کر آتے ہیں‘ یہ عام آدمی کی صرف باتیں نہیں کرتے یہ عام آدمی نظر بھی آتے ہیں مگر ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے‘ ہم ’’ڈرٹی پالیٹکس‘‘ کے ایک خوف ناک جوہڑ میں غوطے کھا رہے ہیں۔

ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں غریبوں کی باتیں ضرور کرتی ہیں لیکن ان کے لیڈروں کا لائف اسٹائل اور ان کی شخصیت ان باتوں سے میچ نہیں کرتی‘یہ پارٹیاں سیاسی پارٹیوں کی طرح نہیں‘ یہ سیاسی خاندانوں اور پولیٹیکل کارپوریشنز  کی طرح چل رہی ہیں‘ میرا خیال تھا یہ صورت حال وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جائے گی‘ پارٹیوں کا ارتقاء ہو جائے گا اور ان میں سے بھی کوئی جواہر لال نہرو یا اندرا گاندھی نکل آئے گی مگر افسوس ایسا نہیں ہو سکا اور ملک خوف ناک سیاسی بحران کا شکار ہو گیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن ماضی میں کیا کرتی رہیں؟ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں‘ ان دونوں پارٹیوں نے اقتدار تک پہنچنے اور اقتدار میں رہنے کے لیے کیا کیا نہیں کیا؟ یہ سب جانتے ہیں اور یہ اسٹیبلشمنٹ کا کون کون سا کندھا استعمال نہیں کرتے رہے‘ یہ بھی پوری دنیا جانتی ہے لیکن جب بلاول بھٹو اور مریم نواز آئے تو میرا خیال تھا یہ دونوں جماعتیں ماضی سے بہت کچھ سیکھ چکی ہیں‘ یہ اب ایک دوسرے کو سیاسی دھوکا نہیں دیں گی۔

یہ صاف ستھری اور بااصول سیاست کریں گی اور ان کی نئی نسل ماضی کی غلطیاں نہیںدہرائے گی لیکن بدقسمتی سے ماضی کی غلطیاں زیادہ قوت کے ساتھ واپس آئیں اور انھوں نے سیاسی جوہڑ میں تعفن بھی پیدا کر دیا‘ اس بار دونوں پارٹیوں کے بزرگوں نے اپنی اپنی بندوقیں نوجوان قائدین کے کندھوں پر رکھ کر چلائیں اور ان دونوں نئے لیڈروں کی کریڈیبلٹی بھی تباہ کر دی‘ میدان میں مریم نواز اور بلاول بھٹو لڑتے رہے‘ یہ استعفوں استعفوں کی گردان کرتے رہے اور دوسری طرف آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف مذاکرات مذاکرات کھیلتے رہے۔

کیا یہ وہ اصولی اور نظریاتی سیاست تھی جس کے لیے آپ عوام کے سمندر کو سڑکوں پر دیکھنا چاہتے ہیں؟ ہمیں یہ ماننا ہوگا دونوں جماعتوں کے بزرگ قائدین نے نئی نسل کا سیاسی کیریئر تباہ کر دیا‘ آج اگر پی ڈی ایم کام یاب نہیں ہوتی‘ آج اگر دونوں جماعتوں کے ارکان استعفے نہیں دیتے اور آج اگر یہ گورنمنٹ نہیں جاتی تو بلاول بھٹو اور مریم نواز دونوں کی کریڈیبلٹی ختم ہو جائے گی اور یہ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے‘ اسٹیبلشمنٹ اور تینوں سیاسی جماعتوں کا ایشو بہت کلیئر ہے‘ اسٹیبلشمنٹ کہتی ہے آپ اگر ہماری مدد سے اقتدار میں آتے ہیں تو پھر ہمیں تسلیم کریں۔

ہماری جڑیں کاٹنے کی کوشش نہ کریں‘یہ کہتے ہیں ہم آپ کی تعیناتی کرتے ہیں‘ ہم بڑے ہیں‘ ایشو صرف یہ ہے اور ملک کا بیڑا غرق ہو رہا ہے‘ ن لیگ کو مسلسل پیغام دیا جا رہا ہے پارٹی شریفوں کو سائیڈ پر کر دے‘ نواز شریف اور مریم نواز دونوں کسی قیمت پر قبول نہیں ہیں‘ پارٹی شریف خاندان کے علاوہ کسی کو بھی وزیراعظم نامزد کر دے‘ کوئی اعتراض نہیں کیا جائے گا‘ میاں نواز شریف ایک وقت پر اس آپشن پر راضی ہو گئے تھے لیکن پھر پارٹی کے اندر پانچ وزیراعظم پیدا ہو گئے اور ان میں سے ہر ’’وزیراعظم‘‘ نے ’’مین گرڈ‘‘ سے ڈائریکٹ کنڈا لگا لیا‘ یہ اپنے لیے ووٹ بھی جمع کرنے لگ گئے۔

یہ کوشش میاں نواز شریف کو بری لگی چناں چہ انھوں نے پانچوں سے ہاتھ کھینچ لیا‘ میاں شہباز شریف پر بھی سمجھوتہ ہو گیا تھا لیکن عمران خان دیوار بن کر کھڑے ہو گئے‘یہ مہرہ یا دوٹیموں کا بلا بننے کے لیے تیار نہیں تھے‘ ہمیں آج عمران خان کو داد دینی ہو گی‘ یہ اس صورت حال کے سب سے بڑی بینی فیشری بن گئے ہیں‘ عمران خان کو جو لوگ سیاسی اناڑی کہتے تھے میرا خیال ہے اب ان لوگوں کو اپنی اصلاح کر لینی چاہیے‘ خان اب تک آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کو بھی ٹھیک ٹھاک انگیج رکھنے میں کام یاب رہے ہیں۔

یہ بلاول بھٹو اور مریم نواز دونوں کو اپنا مہرہ بنا کر کھیل رہے ہیں‘ بلاول بھٹو پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کر رہے تھے‘ مریم نواز بھی اپنے انکلز کی بیساکھیوں سے نکل کر بھائیوں پر انحصار کر رہی تھیں‘ یہ اپنی ٹیم بنا رہی تھیں‘ ان میں عوامی اپیل بھی ہے اور یہ کراؤڈ کو بھی پُل کر رہی ہیں چناں چہ یہ دونوں مستقبل کے قائد تھے لیکن عمران خان نے دونوں پارٹیوں کے استعفوں کے موقف اور ’’حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے‘‘ کے دعوؤں سے ہوا نکال کر دونوں نئے قائدین کا سیاسی کیریئر داؤ پر لگا دیا‘ حکومت مریم نواز کو گورباچوف کہتی ہے۔

یہ لوگ سمجھتے ہیں مریم نواز اگر اسی طرح چلتی رہیں تو یہ سال دو سال میں پوری پارٹی تباہ کر دیں گی‘ آپ دیکھ لیں پاکستان مسلم لیگ ن کے سارے انکل جانتے تھے پاکستان پیپلز پارٹی استعفے نہیں دے گی‘ مریم نواز نے اس ایشو پر انکلز کی رائے مسترد کر کے ایکسٹریم پوزیشن لے لی اور اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ بلاول بھٹو بھی اپنے استعفوں کو اٹامک استعفے کہتے رہے مگر اس بڑھک کا کیا نتیجہ نکلا؟ زرداری فیکٹر جیت گیا اور بلاول بھٹو کی سوچ ہار گئی۔

مولانا فضل الرحمن سے دوسری بار بھی دھوکا ہو گیا‘ پہلی بار ن لیگ نے فائدہ اٹھا لیا تھا‘ میاں نواز شریف ملک سے باہر چلے گئے تھے اور اس بار پاکستان پیپلز پارٹی نے ’’سندھ حکومت پانچ سال پورے کرے گی اور گورنر راج نہیں لگے گا‘‘ کا وعدہ لیا اور پیچھے ہٹ گئی اور یہ ہے سیاست‘ ہمارے ملک کی ڈرٹی پالیٹکس۔

ملک کی دونوں سیاسی جماعتیں واقعی اپنی نئی قیادت کو قائد بنانا چاہتی ہیں تو پھر انھیں دو کام کرنا ہوں گے‘ یہ ان سے اپنے گندے کپڑے نہ دھلائیں‘ یہ اگر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو کریں اور اگر نہیں کرنا چاہتے تو پھر صاف انکار کریں‘ اپنی نئی نسل کو دھوکا نہ دیں‘عوام کے سامنے ان سے وہ وعدے نہ کرائیں جن سے آپ نے یوٹرن لے لینا ہے اور دوسرا دنیا اب بدل چکی ہے‘ ہم ساٹھ اور ستر کی دہائی میں نہیں ہیں‘ یہ لوگ اب ہیلی کاپٹروں اور جہازوں سے اتر کر اور بارہ بارہ لاکھ روپے کے بیگ اور جوتے پہن کر میرے بھائیو اور میری بہنوں کے دعوؤں سے لوگوں کو دھوکا نہیں دے سکیں گے۔

آپ اگر انھیں واقعی لیڈر بنانا چاہتے ہیں تو پھر آپ انھیں جواہر لال نہرو کی طرح مصیبتوں اور مشکلوں کے سمندر میں دھکیل دیں‘ یہ اہل ہوئے تو یہ کام یاب ہو جائیں گے‘ آپ ان سے ڈرٹی پالیٹکس نہ کرائیں‘ ان کا اور عوام دونوں کا جمہوریت سے یقین مکمل ختم ہو جائے گا اور آخری مشورہ‘ آپ یہ بھی فیصلہ کر لیں آپ کی پارٹیاں آخر چلانی کس نے ہیں؟ آپ کے گھروں میں اٹھارہ اٹھارہ لیڈر ہیں‘ یہ سب بھٹو اور نواز شریف ہیں اور پارٹی اور عوام ان سب کو حیرت سے دیکھ رہے ہیں‘ ان کو سمجھ نہیں آ رہی یہ کس بھٹو اور کس نواز شریف پر یقین کریں!۔

The post ڈرٹی پالیٹکس appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3rJV1FC
via IFTTT

کراچی سے کوئی مخلص نہیں ہے ایکسپریس اردو

ایم کیو ایم پاکستان کا کہنا ہے کہ کراچی کی درست مردم شماری ہمارے لیے زندگی و موت سے اہم مسئلہ ہے، جس میں شہری سندھ کے عوام کو دھوکا دیا گیا۔

وفاقی کابینہ کی جانب سے مردم شماری کو درست تسلیم کیے جانے کے بعد وزیر اعظم بتائیں کہ اب ہمارا حکومت میں رہنے کا کیا جواز باقی رہا ہے۔ ایم کیو ایم نے اس سلسلے میں سڑکوں پر آنے کا جو فیصلہ کیا ہے، اس پر سندھ حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے اہم مسئلے پر سڑکوں پر آنے کی بجائے ایم کیو ایم وفاقی کابینہ سے باہر آئے اور سندھ کے عوام کا ساتھ دے۔

پیپلز پارٹی کے علاوہ مردم شماری درست نہ ہونے پر جماعت اسلامی اور پی ایس پی  اور دیگرکو بھی تحفظات ہیں مگر یہ تینوں پارٹیاں اس بات پر بھی حیران ہیں کہ درست مردم شماری کو اپنی زندگی و موت سے اہم قرار دینے والی ایم کیو ایم وفاقی کابینہ میں مردم شماری کو درست قراردیے جانے اور اپنی شرط اولین تسلیم نہ کیے جانے کے بعد بھی وفاقی کابینہ میں کیوں موجود ہے اور اپنے سب سے اہم مطالبے کو تسلیم نہ کیے جانے کے بعد بھی وفاقی حکومت کی حلیف کیوں ہے، اسے تو وفاقی کابینہ میں اپنا موقف مسترد کیے جانے کے فوری بعد حکومت کی حمایت چھوڑ دینی چاہیے تھی۔

ایسا نہ کرکے ایم کیو ایم نے پھر ثابت کردیا ہے کہ وہ دکھاوا کر رہی ہے اور کراچی سے مخلص نہیں اور اقتدار میں ہی رہنا چاہتی ہے۔ وفاقی کابینہ نے ایم کیو ایم کے ایک اہم مطالبے کوٹہ سسٹم کو ختم نہیں کیا تھا جس کے بعد وفاقی حکومت نے درست مردم شماری کا اہم مطالبہ مسترد کردیا جب کہ ایم کیو ایم کنوینر کے بقول پی ٹی آئی حکومت اور وزیر اعظم نے دو سالوں میں ایم کیو ایم سے کیا گیا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا جس میں تنظیم کے دفاترکھولے جانے اور ایک اور وزارت دینے کی یقین دہانی بھی شامل تھی۔

کراچی کی مردم شماری کو درست قرار دیے جانے کے بعد جماعت اسلامی نے شہر میں بینرز آویزاں کیے ہیں اور شہر کی حقیقی آبادی گنتی میں نصف دکھائے جانے پر احتجاج شروع کر رکھا ہے اور غلط مردم شماری تسلیم کیے جانے کوکراچی کے ساتھ ظلم اور ناانصافی قرار دیا ہے اورکراچی کی حقیقی آبادی کے مطابق شہر کو اس کے حقوق دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

وفاقی کابینہ میں کراچی سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے تین وزیر بھی شامل ہیں۔ تینوں نے کراچی کی نمایندگی کرنے کی بجائے کابینہ اجلاس میں کوئی بات نہیں کی اور تینوں نے خاموش تماشائی کا ثبوت دیا جب کہ ایم کیو ایم کی دھمکی ملنے کے بعد پی ٹی آئی رہنما اور گورنر سندھ نے ایم کیو ایم کو منانے کے لیے بیان دیا کہ کراچی کی مردم شماری میں واقعی ابہام ہے اور جو آبادی ظاہر کی گئی ہے اسے میں بھی درست نہیں سمجھتا جب کہ ان کی وفاقی کابینہ مردم شماری کو درست قرار دے کر ایم کیو ایم کا سب سے اہم مطالبہ مسترد کرچکی ہے جس پر ایم کیو ایم نے دو پریس کانفرنسیں کرکے معمولی اور دکھاوے کا احتجاج کیا ہے اور حکومت چھوڑنے کا فیصلہ عوام پر چھوڑ کر حکومت میں رہنے کو ترجیح دی ہے۔

مردم شماری میں کراچی کی آبادی نصف دکھائی گئی ہے جب کہ آبادی تین کروڑ سے زیادہ ہے اور اس غلط مردم شماری کو وفاقی کابینہ درست قرار دے چکی ہے جب کہ حکومت چاہے تو 2017 کی مردم شماری کو متنازعہ قرار دے کر سات سال قبل دوبارہ مردم شماری کرا سکتی ہے جو آئینی طور پر ہر دس سال بعد ہونی چاہیے مگر موجودہ غلط مردم شماری 18 سال بعد کی گئی جو اب قبل از وقت کرائی جاسکتی ہے مگر وفاقی حکومت جان بوجھ کر مردم شماری درست نہیں کرائے گی۔ کراچی میں تین کروڑ کے قریب نادرا شناختی کارڈ جاری کر چکا ہے مگر مردم شماری میں آبادی تقریباً پونے دوکروڑ کیسے درست ہو سکتی ہے۔

یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ کراچی سے تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی  کی نمایندگی جعلی ہے ،اس لیے وہ مردم شماری دوبارہ کرانے کی بات نہیں کرتے۔ اپنی نشستیں چھینے جانے کے بعد بے بس ایم کیو ایم دکھاؤے کے لیے عوام سے رجوع کرنے کی جو بات کی ہے وہ حکومت میں رہنے کا محض بہانہ ہے کیا پی ٹی آئی کا حلیف بننے، خالد مقبول کی جگہ امین الحق کی تبدیلی لانے کا فیصلہ عوام سے رجوع کرکے کیا گیا تھا؟ اہم فیصلے رابطہ کمیٹی کرتی ہے نام عوام کا لیا جاتا ہے۔

سیاسی حلقے چہ میگوئیاں کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی ہی نہیں ایم کیو ایم بھی عوام کو دھوکا دے رہی ہے اور کراچی سے وہ بھی مخلص نہیں اور آج جو کراچی سے مخلصی دکھا رہے ہیں وہ بھی حکومت میں ہوتے تو ان کا رویہ بھی تحریک انصاف جیسا ہوتا اور درست مردم شماری وہ بھی نہ ہونے دیتے اور ملک اور سندھ کو پالنے والے کراچی کو اس کے جائز حقوق کبھی نہیں دیتے، ماضی سے یہی ہوتا آ رہا ہے کیونکہ کراچی سے کوئی مخلص نہیں ہے۔

The post کراچی سے کوئی مخلص نہیں ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2WXu4Aj
via IFTTT

شمس الرحمن فاروقی ایکسپریس اردو

شمس الرحمن فاروقی بھائی کی تحریروں سے تعلق تو یونیورسٹی کے دنوں سے تھا مگر اُن سے پہلی بالمشافہ ملاقات شامِ بہار ٹرسٹ انبالہ والے راجندر ملہوترہ کے مشاعرے کے توسط سے 1981 میں ہوئی اُن دنوں وہ دہلی میں فیڈرل پوسٹل سروس کے ایک اعلیٰ افسر کے طور پر کام کر رہے تھے اور اُن کا جاری کردہ رسالہ ’’شبِ خون‘‘ اپنے پورے جوبن پر تھا اگرچہ وہ بہت خوش گفتار انسان تھے مگر اُن کا عمومی مزاج بظاہر قدرے خشک اور کم آمیزی کی طرف مائل تھا جسے پہلی نظر میں Snobbery پر بھی محمول کیا جاسکتاتھامگر اپنی پسند کے لوگوں یا محفل میں وہ بہت جلدRelaxہوجاتے تھے۔

البتہ جہالت کی کسی بات پر اُن کی طبیعت کی تیزی دیکھنے لائق ہوتی تھی وہ مروتاً بھی کسی جاہل شخص کو معاف کرنے کے قائل نہیں تھے، مجھے بہت سے ایسے مواقع یاد ہیں جب اُن کے علم وفضل کا دریا اپنے جوش اور بہاؤ میں کُشتوں کے پُشتے لگاتا چلا جارہا تھا اُن کا یہ مزاج ہمیں اُن کی بیشتر تحریروں میں بھی غالب نظر آتا ہے، اُردو ادب میں ایک سے زیادہ اصناف میں قابلِ قدر کام کرنے والوں کی فہرست خاصی طویل ہے مگر گنتی کے چند لوگ ہی فاروقی صاحب کی صف میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔

وہ بیک وقت شاعر بھی تھے ،ادیب بھی ، ناقد بھی تھے ا ور محقق بھی، مدیر بھی تھے اور شارع بھی ، مرّتب بھی تھے اور مفسّر بھی اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہزاروں صفحات اور چار جلدوں پر محیط اُن کی تصنیف ’’شعر شور انگیز‘‘ ہو یا سو ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل ادبی جریدہ ’’شب خون‘‘ ہر میدان میں وہ یکتا نظر آتے ہیں۔ چند ماہ قبل بُک کارنر جہلم کے دوستوں نے اُن کے شاہکار ناول ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کا نیا اور خصوصی ایڈیشن بھجوایا تو ایک بار پھر اُس طلسماتی فضا میں سانس لینے کا موقع ملا جس کی تخلیق اپنی گُوناگوں خوبیوں کے باعث کسی معجزے سے کم نہیں، اُردو فکشن میں ایسی غضب کی کردار نگاری اور ایسی دلکش نثر نایاب ہونے کی حد تک کمیاب ہے۔

اُن کے تخلیقی کارناموں، ہمسفری اور ملاقاتوں کی یادوں کو سمیٹنے کے لیے شائد ایک ضخیم کتاب بھی کم پڑجائے کہ یہ اپنی جگہ پر ایک بحرِ بے کراں سے کم نہیں۔ اب گزشتہ پندرہ بیس برس سے (موبائل فون اور کمپیوٹر کے فروغ کے بعد) خط لکھنے کا رواج بہت کم رہ گیاہے البتہ اس سے پہلے کے لکھے ہوئے اُن کے کئی خطوط میرے پاس محفوظ ہیں جن سے اُن کی طبیعت کی گہرائی شگفتگی، علمیت، مطالعے اور فکری رجحانات کو کوزے میں سمندر بند کرنے کے مصداق دیکھا جاسکتا ہے، مثال کے طور پر 21اکتوبر1992 کا لکھنوء سے لکھا ہوا ایک خط اس وقت میرے سامنے ہے ، لکھتے ہیں،

’’پیارے امجد اسلام امجد، السلام علیکم، تمہاری نہائت خوب صورت کتابیں ’’نئے پرانے‘‘، ’’خزاں کے آخری دن‘‘(In the last days of autumn) ملی تھیں ، بہت بہت شکریہ ’’نئے پرانے‘‘ نے میرا دل خاص طورپر موہ لیا کہ میں بھی گزشتہ کئی برسوں سے انھی لوگوں سے اُلجھتا رہا ہوں تم نے انتخابات عمدہ کیے ہیں اور مضامین خوب لکھے ہیں خاص کر مصحفی ، غالب اور میرؔ پر تم نے بہت اچھا لکھا ہے کوئی جدید شاعر ہمارے کلاسیکی شعرا کو جی لگا کر پڑھے اور ان کو نکھار چمکا کر نئے انداز میں لائے یہ میری شدیدتمنا تھی اس تمنا کو تمہاری کتاب نے ایک حد تک پورا کیا ہے۔

بہت خوب ، بہت ہی خوب، تمہاری شاعری کا میں پرانا مداح ہوں اس لیے اس ضخیم اورحسین کلیات کا تحفہ میرے لیے نہایت قیمتی ہے۔ میں نے جواب لکھنے میں یوں دیر کی کہ ’’شعرِ شور انگیز‘‘ کی جلد سوم کا انتظار تھا اب خدا خدا کرکے وہ آئی ہے تو تینوں جلدیں اکٹھی بھجوارہا ہوں دُعا کرو کہ چوتھی بھی آجائے اور میری مصیبت کٹے۔ گزشتہ دس پندرہ برس میں زیادہ تر اسی میں لگا رہا ہوں، میری طبیعت ابھی پوری طرح ٹھیک نہیں ہوئی ، سفر سے اب گھبرانے لگا ہوں ورنہ لاہوربہت یاد آتاہے ، کیا تم نے بھی اِدھر کے مشاعرے پڑھنا چھوڑ دیے؟

سب دوستوں کو سلام کہو، کتابوں کی رسید سے مطلع کرنا ’’ شب خون‘‘ بھیجا تھا سلیم اختر کی معرفت ملا ہوگا

تمہارا ۔۔۔شمس الرحمن فاروقی

اُن کی نثر کی طاقت اور شور میں اُن کی شاعری بہت حد تک دب کر رہ گئی ہے اس میں کچھ ہاتھ اُن کے منفرد شعری مضامین اور اُس مخصوص طرز ادا کا بھی ہے جس میں اُن کی علمِ عروض پر دسترس اور طرز ادا کا دخل بھی ہے کہ وہ فطرتاً بنے بنائے اور آزمودہ راستوں پر چلنے سے گریزاں تھے ا ور اپنی بات کو اپنے رنگ میں کہنے پر زور دیتے تھے جو بیشتر سہل طلب قارئین کے لیے ایک طرح کی رکاوٹ کا کام کرتا تھا مگر اس میدان میں بھی اُن کی فتوحات اُن کے بیشترہم عصر مقبول شاعروں سے کسی طور کم نہیں۔

کالم کی محدود گنجائش کے پیش نظر میں اُن کے ایک شعری مجموعے’’محراب آسمان‘‘سے صرف ایک نظم اور غزل کے چند اشعار ہی درج کرسکوںگا تاکہ اُن کے فنی کمالات کا یہ منظر بھی ہم سب کے دھیان میں رہ سکے جو اس وقت ان کو شدّت اور محبت سے یاد کر رہے ہیں، نظم ’’آخری تماشائی‘‘ کا یہ منظر دیکھیے۔

اُٹھو کہ وقت ختم ہوگیا

تماش بینوں میں تم آخری ہی رہ گئے ہواَب چلو

یہاں سے آسمان تک ، تمام شہر، چادریںلپیٹ

لی گئیں، زمین سنگ ریزہ سخت

دانت سی سفید ملگجیدکھائی دے رہی ہے ہر طرف

تمہیں جہاںگمانِ سبزہ تھا

وہاں جھلک رہی ہے کہنہ کاغذوں کی برف

وہ جو چلے گئے

انھیں تو اختتامیئے کے سب سیاہ منظروں کا علم تھا

وہ پہلے آئے تھے اسی لیے وہ عقل مند تھے

تمہیں تو صبح کا پتہ ، نہ شام کی خبر، تمہیںتو

اتنا بھی پتہ نہیں کہ کھیل ختم ہو تو اس کو شام

کہتے ہیں اے ننھے شائقانِ رقص

اب گھروں کو جاؤ

اور اب آخر میں اُردو ادب کے دورِ حاضر کے اس معتبر ترین نمائندے کی غزلوں سے چند اشعار

اب رِیت ہوچکی ہے پچھلے برس کی بارش

بادل نے راہ بدلی پھر گھوم کر نہ دیکھا

اٹھی تھی قصرِ خرد سے جو احتساب کی لے

اُڑا کے لے گئی آکر فغانِ دل زدگاں

ابھی کتنوں سے لگ چلتی، نہ جانے کتنے گھر کرتی

ذرا کچھ اور بھی دن رنگِ دنیا دیکھ لینا تھا

صفحہ خاک تھا میں سات سمندر وہ شخص

ایک بھی لفظ نہ بولا ،مجھے پڑھ کر وہ شخص

آگ نے دل کو دھو دیا آنکھ نے اشک پی لیے

لوگو چلواُٹھو بھی اب ، حد سے زیادہ جی لیے

The post شمس الرحمن فاروقی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3hvN4iD
via IFTTT

عوام پریشان ہیں ایکسپریس اردو

حکومت کی مسلسل کوششوں کے باوجود عوام مختلف حوالوں سے پریشان ہیں۔ ویسے تو عوام کی پریشانی کی دس ہزاروجوہات ہیں لیکن کرپشن اور مہنگائی یہ دو ایسی بڑی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن ہوکر رہ گئی ہے بلکہ ان وجوہات کی بنا پر عوام حکومت سے سخت نالاں ہوگئے ہیں۔

وزیر اعظم ٹی وی پر بتا رہے ہیں کہ ہم تیزی سے ترقی کر رہے ہیں ایسے وقت جب کہ ساری دنیا میں معاشی ابتری بڑھ رہی ہے پاکستان کے بجٹ خسارے میں کمی آ رہی ہے، ترسیلات زر میں اضافہ ہو رہا ہے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں، ہماری برآمدات بڑھ رہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن مارکیٹ میں چاول، آٹا، چینی، دالیں، سبزیوں کی قیمتیں آسمان پر پہنچ رہی ہیں۔

عوام درآمد وبرآمد کے فائدے نقصان کو نہیں سمجھتے وہ تو بس یہ دیکھتے ہیں کہ سبزی مارکیٹ میں پیاز کی قیمت کیا ہے، آلوکس بھاؤ بک رہا ہے، گوشت کی فی کلو قیمت کیا ہے، دالیں کس بھاؤ مل رہی ہیں، تیل گھی کی قیمتیں کیا ہیں، ان اشیائے صرف کی قیمتوں کے حوالے سے وہ کسی حکومت کے اچھی یا بری ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں اور بدقسمتی سے مذکورہ ساری اشیا کی مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔

اس تناظر میں مہنگائی کے بڑھتے ہوئے عفریت کو جب وہ دیکھتے ہیں تو وہ حکومت سے بدظن ہو کر رہ جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اور حکمران اس حقیقت کو کیوں نہیں سمجھتے کہ زرمبادلہ میں اضافہ، برآمدات میں اضافے اور ملک کے معاشی اعشاریوں میں بہتری کو عوام نہیں سمجھتے، وہ تو بس اتنا جانتے ہیں کہ کل گوشت چار سو روپے کلو مل رہا تھا اور پیاز 20 روپے کلو مل رہی تھی، آج گوشت چھ سو روپے کلو مل رہا ہے، پیاز 80 روپے کلو مل رہی ہے۔ عوام انھی قیمتوں کی کمی زیادتی کے حوالے سے کسی حکومت کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

جب ہم اشیا صرف کی قیمتوںکے حوالے سے حکومت کی ڈھائی سالہ کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں تو نہ صرف مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں بلکہ حکومت اور حکمرانوں کے بارے میں عوام کی رائے منفی اور مایوسی کا مجموعہ بن جاتی ہے۔

اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ پچھلی حکومت کرپٹ تھی اور حکمران طبقے نے اربوں روپوں کی کرپشن کی لیکن عوام اس حکومت سے اس قدر مایوس اور بے زار نہ تھے جس قدر آج کی حکومت سے مایوس اور بے زار ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ نئی حکومت ان کے اندازوں اور توقعات پر پوری نہیں اتری۔ اس کے آنے سے ان کے مسائل اور سنگین ہوگئے۔

اشیائے صرف کے دام بڑھ گئے، پہلے کسی کام کے لیے اگر پانچ سو روپے رشوت لی جاتی تھی تو اب اس کام کے لیے ہزار روپے رشوت لی جا رہی ہے حالانکہ اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے میں بھی ایلیٹ اشرافیہ کا ہاتھ ہے اور دیگر وہ مسائل جن سے عوام ناراض ہوتے ہیں ان میں اپوزیشن کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن اس اسرار سے عوام ناواقف ہوتے ہیں۔

عوام کو اس حقیقت سے واقف ہونا چاہیے کہ اداروں کی ایک عزت ہوتی ہے اور وہ اپنی اس عزت کو ہرحال میں برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ویسے تو ہمارے ملک میں تقریباً تمام ہی جمہوری حکومتوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ مقتدر اداروں سے تعلقات اچھے رہیں لیکن موجودہ حکومت کی ہم اسے نالائقی ہی کہیں گے کہ وہ اداروں کی بدنامی کا باعث بن رہی ہے۔

پاکستان پر ایلیٹ یعنی دولت مند طبقات ہی حکومت کرتے آرہے ہیں بلکہ اب ایلیٹ نے اقتدار اور سیاست پر اپنی اجارہ داریاں قائم کرلی تھیں اور شاہوں نہیں شہنشاہوں کی زندگی گزار رہے تھے غریبوں کے بچوں کو سرکاری اسکول میسر نہیں اور امیروں کے بچے برطانیہ، فرانس، امریکا اور جرمنی کے اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ حکومت کے برسر اقتدار آنے سے ان کی بادشاہتیں خطرے میں پڑگئی ہیں اور یہ عوام دشمن طبقات حکومت کو ہر قیمت پر نکال باہر کرنا چاہتی ہے۔ آج کل ملک میں جلسوں کا جو سلسلہ چل رہا ہے وہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ کسی طرح حکومت کو مفلوج کرکے رکھ دیا جائے۔

ہماری اشرافیہ یہ سمجھتی ہے کہ یہ ملک اس کا اقتدار ہمارے باپ کی جاگیر ہے، اسی فکری برتری کی وجہ اشرافیہ آج حکومت کے خلاف ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے کہ کسی طرح عمران خان کی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی حکومت کو ختم کردیا جائے۔ اس لالچ میں یہ عوام کے دشمن اسٹیبلشمنٹ سے براہ راست ٹکرا رہے ہیں ، اب بھی اگر عوام نہ اٹھیں تو یہ ایک المیہ ہوگا۔

The post عوام پریشان ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3rDTmS6
via IFTTT

موج ہے دریا میں، بیرون دریا کچھ نہیں ایکسپریس اردو

میں جب بھی پاکستان کے سیاسی افق پر نظر ڈالتا ہوں مجھے مولانا فضل الرحمن سے زیادہ معتبر سیاستدان نظر نہیں آتا۔ کوئی کچھ بھی کہے لیکن میں نے مولانا فضل الرحمٰن کو جب بھی پایا ایک عالم باعمل پایا، انھیں جب بھی دیکھا عارف باللہ دیکھا، باضمیر سیاستدان دیکھا اور باکمال انسان پایا۔ انھوں نے پاکستان میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کا علم بلند کیا، مروجہ سیاسی نظام کی ڈسی ہوئی سیاسی قوتوں نے ان کی آواز پر لبیک کہااور ان کی اقتداء میں اس کھوکھلے نظام کے خلاف صف بندی کرلی، کراچی سے لے کے خیبر تک ’’مولانا آرہا ہے۔

مولانا آرہا ہے‘‘ کے ترانوں کی گونج سنائی دے رہی ہے، چاہے کسی کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے یا مسلم لیگ (ن)  سے، کوئی اسفند یار ولی کا پیروکار ہے یا محمود خان اچکزئی کا، سب کے سب مولانا کو اپنا نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے عوامی طاقت کامظاہروں کا شیڈول بنایا تو ان کے جلسوں میں آنے والے عوامی سیلاب سے بڑے بڑے ایوانوں میں ہلچل مچ گئی، ہر آنے والا دن حکومتی مشکلات میں اضافے کا باعث بنتا گیا۔ اس بوکھلاہٹ میں نادیدہ قوتیں بھی دیدہ ہوچکی ہیں۔

مولانا کا راستہ روکنے کے لیے سوچا سمجھا منصوبہ بنایا گیا اور اس پر عمل کا آغاز ہوگیا۔ کبھی مولانا کے بارے تھریٹ الرٹس جاری کرکے انھیں ڈرانے کی کوشش کی گئی، تو کبھی ان کے خلاف نیب کیسز بنا کر ان کی کردار کشی کی گئی،کوئی حربہ کام نہ آیا تو انھی کی جماعت سے چند لوگوں کو ان کے خلاف کھڑا کرکے جھنڈا مولانا محمد خان شیرانی کے ہاتھ میں تھما دیا گیا۔ میںحیران ہوں اس کو مولانا فضل الرحمن کی کرامت مان لوں یا اللہ تبارک و تعالیٰ کی خصوصی نصرت کہ مولانا شیرانی نے اپنی ’’تحریک‘‘ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے شروع کی اور پھر مولانا فضل الرحمن کی ذات کی مخالفت پر ختم کردی۔

جب میں اس سوال کے جواب کی تلاش میں نکلتا ہوں تو میرے قلب و ذہن سے ایک ہی آوازآتی ہے کہ مولانا فضل الرحمن پر جو بھی الزامات لگائے گئے، اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والے کسی ایک فرد نے انھیں معتبر نہیں مانا، ان کے دل پر ان الزامات کا کوئی اثر نہیں ہوا، البتہ مولانا شیرانی نے اسرائیل کی حمایت میں جو بیان دیا، یہ بیان دینی و سیاسی حلقوں میں بے چینی کا باعث بن گیا۔ ادھر اْس مرد قلندر کو دیکھئے جس نے اتنے سنگین الزامات سہنے کے باوجود ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا شیرانی میرے بزرگ ہیں، میں نے ہمیشہ اپنی ذات کی حد تک انھیں برداشت کیا۔

پھر وہ اپنی جماعت کے اس اجلاس میں بھی شریک نہیں ہوئے جو مولانا شیرانی اور ان کے ہمنواؤں کے جماعتی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر ایکشن لینے کے لیے طلب کیا گیا تھاکہ کہیں انصاف کے تقاضوں پر حرف نہ آجائے؟ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے یعنی ’’دن رات سے اور روشنی تاریکی سے‘‘۔ اسی تناظر میں مولانا فضل الرحمن پر تنقید کرنے والوں کو پرکھا جاسکتا ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کچھ عرصے سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے درپردہ بڑی تیزی سے کام جاری ہے، اس کام کی سب سے پہلے نشاندہی مولانا فضل الرحمن نے ہی کی تھی اور آج تک پاکستانی سیاسی منظر نامے پر اسرائیل کی مخالفت میں کوئی شخصیت ڈٹ کر کھڑی ہے تو وہ مولانا فضل الرحمن ہی ہیں لیکن دیکھیں نادیدہ قوتوں نے کیسے جے یو آئی کی صف سے ہی اسرائیل کا حامی نکلا۔ اس سے جے یو آئی اور اس کی قیادت کو رتی برابر بھی نقصان نہیں پہنچا بلکہ ان پر لوگوں کا اعتماد مزید بڑھا لیکن کچھ چہرے قوم کے سامنے ضرور آگئے۔

مولانا شیرانی اور دوسرے صاحبان نے جو الزامات لگائے ان کا جواب اپنے دل سے پوچھیں وہاں سے بھی یہی جواب آئے گا کہ پورے ملک میں جمعیت کے کارکنان کی نظر میں ایک ایسا بندہ جس پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کیا جاسکتا ہے تو وہ مولانا فضل الرحمن کی ذات ہے۔ صرف جمعیت ہی نہیں پاکستان کی تمام دیوبندی جماعتیں اور شخصیات مولانا کو اپنا رہنما سمجھتی ہیں، صرف دیوبندی ہی نہیں، پاکستان میں موجود تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی معتبر دینی جماعتیں اور ان کے قائدین مولانا کی اقتداء کو تسلیم کرتے ہیں، اس کی سب سے بڑی مثال متحدہ مجلس عمل ہے جس میں تمام مکاتب فکر کی نمایندہ جماعتیں شامل ہیں اور مولانا فضل الرحمن ان سب کے قائد ہیں۔

دینی ہی نہیں، ملک کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کے نزدیک بِالاتفاق مولانا فضل الرحمن معتبر سیاسی لیڈر ہیں، اور ان سب نے پی ڈی ایم میں مولانا کو اپنا قائد تسلیم کیا ہے۔ کیا جمعیت علماء اسلام میں کوئی دوسری ایسی شخصیت موجود ہے جسے اتنی عزت ملی ہو؟ مولانا شیرانی صاحب اور ان کے ساتھیوں نے جماعتی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرکے خود اپنے ہی پاؤں پر کہلاڑی ماری ہے، اتنے جہاندیدہ سیاستدان کیسے بھول گئے کہ وہ جن مسائل اور تحفظات کا اظہار کررہے ہیں۔

اس کے لیے بہترین فورم ان کی جماعت ہے، پھر انھوں نے اپنے گندے کپڑے بیچ چوراہے دھونے کی کوشش کیوں کی؟ حالات اس بات کا پتہ دے رہے ہیں کہ ان ’’مجبوروں‘‘ کی مجبوری کا فائدہ کسی اور نے اٹھا لیا ہے اور مزید اٹھانے کی کوشش ہورہی ہے، اتوار کے روز کچھ لوگوں کو نظریاتی گروپ کا رہنما بنا کر ان سے پریس کانفرنس کرائی گئی حالانکہ نظریاتی گروپ والوں کا مولانا فضل الرحمن سے توکوئی اختلاف تھا ہی نہیں، وہ تو سبھی بعد میں جمعیت میں واپس آچکے تھے، پھر یہ پریس کانفرنس میں کون تھے؟ جو بھی تھے کامیابی ان کا مقدر نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مولانا شیرانی اور ان کے ہمنواؤں کو آج نہیں تو کل اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ

موج ہے دریا میں، بیرون دریا کچھ نہیں

آخر میں حکومت کے ان ترجمانوں کا تذکرہ ضروری ہے جن کے دل میں اچانک مولانا شیرانی کے لیے محبت کا جذبہ پیدا ہوا اور وہ ان کے بیان کے اس حصے کو لے کر اُچھل کُود کررہے ہیں جس میں مولانا فضل الرحمن پر تنقید کی گئی ہے، اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے بیان پر ایسے خاموش ہیں جیسے کچھ جانتے ہی نہیں، یہ خاموشی کہیں اس لیے تو نہیں کہ ان کے مطلب کی بات کردی گئی ہے؟ علی امین گنڈا پور کہتے ہیں مولانا تنقید برداشت نہیں کرسکے اور مولانا شیرانی و حافظ حسین احمد کو جماعت سے نکال دیا، ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں کہ ان کے خلاف کارروائی جمعیت کے اکابرین نے کی۔

ان میں مولانا شامل نہیں تھے، یہ کارروائی بھی اس لیے کی گئی کہ انھوں نے جماعت کے اندر بات کرنے کے بجائے غیر متعلقہ پلیٹ فارم استعمال کیا۔ دوسری بات یہ کہ پی ٹی آئی کے کسی لیڈر کو ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں کیونکہ تنقیدبرداشت نہ کرنے کی روایت کی امین صرف پی ٹی آئی ہے، جو بات کرتا ہے اسے اٹھا کے باہر پھینک دیا جاتا ہے ، جسٹس وجیہہ الدین سے حامد خان، جاوید ہاشمی سے گلالئی تک کئی داستانیں پی ٹی آئی کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ جے یو آئی میں کسی آواز کو دبانے کا کوئی رواج نہیں وہاں سب کھل کر بات کرتے ہیں اور بات چیت کے ذریعے ہی آگے بڑھنے کی راہیں تلاش کی جاتی ہیں۔

The post موج ہے دریا میں، بیرون دریا کچھ نہیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2X13V3m
via IFTTT

پیپلزپارٹی سینٹرل ایگز یکٹو اور پی ڈی ایم کے درمیان ایکسپریس اردو

پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا جس پر ہم حیران پریشان ہو جائیں۔ سینٹرل ایگز یکٹو کے جو بھی فیصلے سامنے آئے ہیں آپ پاکستان میں کسی عام فہم کے حامل شخص سے بھی سینٹرل ایگز یکٹو کے اجلاس سے پہلے پوچھ لیتے وہ یہی بتا دیتا۔

شاید پیپلزپارٹی کے پاس بھی ان فیصلوں کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔ وہ اس کے علاوہ کوئی فیصلے کر ہی نہیں سکتے تھے۔ اس لیے اگر عام آدمی ان فیصلوں سے حیران نہیں ہوا تو پی ڈی ایم میں شامل باقی جماعتیں ان فیصلوں سے حیران و پریشان کیوں ہوئی ہونگی۔

پیپلزپارٹی نے سینیٹ اور ضمنی انتخابات لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی اس بات میں بھی سچائی ہے کہ جب پی ڈی ایم معرض وجود میں آئی تھی تو اس وقت جو روڈ میپ اور ایکشن پلان طے ہوا تھا اس میں ضمنی انتخابات اور سینیٹ انتخابات نہ لڑنے کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ اس لیے پی ڈی ایم اس بارے میں ابھی تک خاموش ہے۔

پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اس ضمن میں اپنی اپنی رائے ضرور دے رہی ہیں کہ کیا ضمنی انتخابات اور سینیٹ انتخابات میں حصہ لینا چاہیے کہ نہیں لیکن اجتماعی طور پر پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر ابھی تک کوئی باقاعدہ فیصلہ نہیں ہوا۔ اس لیے جہاں پی ڈی ایم خاموش ہے وہاں سیاسی جماعتوں کو اپنی مرضی کا فیصلہ کرنے کی اجازت ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ پیپلز پارٹی واقعاتی طور پر درست بات کر رہی ہے۔ شاید جب پی ڈی ایم معرض وجود میں لانے کے لیے اے پی سی منعقد ہوئی تب اپوزیشن کی ان جماعتوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ درمیان میں ضمنی انتخابات اور سینیٹ انتخابات آجائیں گے۔یہ سارا کھیل اس سے پہلے کھیلنے کی ہی سوچ رہے تھے۔

لانگ مارچ پہلے کرنے کی سوچ تھی۔ شائد موسم کی سختی کا کسی کو کوئی اندازہ ہی نہیں تھا اور استعفوں پر ایک رسمی اتفاق کافی سمجھا گیا۔ لیکن کوئی باقاعدہ طریقہ کار اور حکمت عملی بھی طے نہیں کی گئی۔ بس اتنا ہی کافی سمجھا گیا کہ استعفیٰ دینے پر اتفاق ہو گیا۔ لیکن حکومت نے درمیان میں ضمنی انتخاب کا اعلان کر کے پی ڈی ایم کو سرپرائز دے دیا ہے۔ اور پی ڈی ایم سرپرائز میں پھنس گئی ہے اور اس میں سے نکلنے کی راہ نہیں نکال سکی۔

اگر اے پی سی میں جب پی ڈی ایم بنی تھی اور ایک ایکشن پلان پر سب نے دستخط کیے تھے تب ہی یہ بھی طے کر لیا جاتا کہ اب جب تک یہ حکومت ختم نہیں ہوتی تب تک ملک میں کسی بھی انتخابات میں حصہ نہیں لیا جائے گا۔ تو شاید آج پیپلزپارٹی یہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی۔ یہ بات بھی کافی حد تک جائز ہے کہ بلاول اور آصف زرداری سینٹرل ایگزایکٹو کو اب اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہیں۔ ورنہ جب پی ڈی ایم میں شامل ہوئے تھے ، جب پی ڈی ایم کے مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کیے تھے تب کون سی سینٹرل ایگز یکٹو سے اجازت یا رائے لی گئی تھی۔

اس لیے آپ کہہ سکتے ہیں کہ اب بلاول اور آصف زرداری کسی نئے کھیل کی تیاری میں اپنی سینٹرل ایگز یکٹو کو استعمال کر رہے ہیں تا کہ کوئی بہانہ تو موجود ہو۔ ورنہ پی ڈی ایم اور اپوزیشن کی باقی جماعتوں کو کیا منہ دکھائیں گے۔ جب پہلے فیصلے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر سینٹرل ایگزیکٹو کی مرضی کے بغیر کیے گئے ہیں تو اب پی ڈی ایم کی بجائے سینٹرل ایگز یکٹو کیسے اہم ہو گئی۔ اس لیے کھیل بہت سادہ ہے اور بچے بچے کو سمجھ آرہا ہے۔

لیکن اس سب کے ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ پیپلزپارٹی اور بلاول زرداری کی جوڑی کو یہ بات بھی بخوبی علم ہے کہ ان کی تما م تر اہمیت پی ڈی ایم کی وجہ سے ہی ہے۔ اگر پی ڈیم نہ ہو تو وہ پہلے کی طرح دوبارہ جیل جا سکتے ہیں۔ ان کے جیل سے باہر رہنے کی ضمانت پی ڈی ایم ہے۔ جتنا جتنا پی ڈی ایم حکومت اور اسٹبلشمنٹ کے خلاف سخت رویہ اپنائے گی اتنی ہی پیپلزپارٹی بلاول اور زرداری کی اہمیت بن جائے گی۔ لیکن اگر آج پی ڈی ایم ان کو نکال دے تو یہ ساری اہمیت ختم ہو جائے گی۔

میں سمجھتا ہوں کہ بلاول اور زرداری پی ڈی ایم سے باہر نکلنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ انھیں اندازہ ہے کہ عمران خان ان کو گلے نہیں لگائے گا۔ کوئی وقتی ریلیف تو مل سکتا ہے لیکن وقت نکلنے کے بعد وہ ریلیف بھی واپس ہو جائے گا۔ اور وہ دوبارہ انھیں مشکلات میں پھنس جائیں گے جیسا کے پہلے ہوا ہے۔ اس لیے ریلیف کی تلاش میں پی ڈی ایم سے نکلنا ان کا آپشن نہیں ہے۔ وہ دونوں کھیل ساتھ ساتھ چلانا چاہتے ہیں۔ ایک ٹکٹ میں دو مزے لینا چاہتے ہیں۔ دونوں سائیڈ کو بیوقوف بنانا چاہتے ہیں۔ ایک عام فہم ذہن کا یہ خیال ہے کہ یہ ایک حد تک تو ممکن ہے لیکن ایک حد سے آگے پیپلز پارٹی کے ساتھ وہی ہوگا کہ یا تو انھیں ایک گھر کا فیصلہ کرنا ہوگا یا وہ دونوں گھروں سے جائیں گے۔

ویسے تو میں نہیں سمجھتا کہ پی ڈی ایم ضمنی انتخابات اور سینیٹ انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کرے گی۔ اگر پیپلزپارٹی سینٹرل ایگز یکٹو کی بجائے پی ڈی ایم کے سامنے بھی اپنے دلائل رکھتی تو یہ فیصلہ ممکن تھا۔ لیکن شاید پوائنٹ اسکورنگ اور دوسری طرف کو اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے انھوں نے ایسا کیا ہے۔ ن لیگ بھی گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے ضمنی انتخابات چھوڑنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ن لیگ پیپلزپارٹی کا یہ فیصلہ اب پیپلزپارٹی کے سر پر احسان کر کے مان لے گی۔ کہ ہم آپکی بات کا بھرم رکھ رہے ہیں۔ ورنہ ہم اس کے لیے تیار نہیں تھے۔ اتحادی سیاست میں کڑوی گولی کھانی پڑتی ہے۔ اس لیے ہم نے کھا لی ہے۔

ن لیگ اور مولانا فضل الرحمن کو یہ علم ہونا چاہیے اور میں سمجھتا ہوں کہ سب کو علم ہو گا کہ لانگ مارچ تک پیپلزپارٹی ان کے ساتھ ہے۔پیپلزپارٹی لانگ مارچ کے نتائج تک پی ڈی ایم کا ساتھ نہیں چھوڑے گی۔ اگر لانگ مارچ کامیاب ہوگیا۔

واقعی ن لیگ اور فضل الرحمن لاکھوں لوگ اسلام آباد لانے میں کامیاب ہو گئے اور کھیل نئے انتخابات کی طرف لے گئے تو پیپلزپارٹی ساتھ کھڑی رہے گی۔ لیکن اگر لانگ مارچ ناکام ہو گیا مطلوبہ تعداد میں لوگ نہ آئے تو وہ رنگ بدلنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ پیپلزپارٹی کو دوسرے فریق کے بارے میں بخوبی علم ہے کہ وہ مشکل میں کوئی بھی بڑی رعایت اور معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے۔ اس لیے پیپلزپارٹی خود کو اس بڑی رعایت اور معاہدہ کے کھیل سے باہر نہیں کرے گی۔ اس کا بھر پور چانس لے گی۔ چاہے ان کا اپنا اندازہ اور سوچ یہی ہو کہ اس کے امکانات کم ہیں۔ لیکن وہ کم امکانات کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔

آصف زرداری کوشش کر رہے ہیں کہ وہ پی ڈی ایم کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ جائیں۔ لیکن شائد ایسا ممکن نہ ہو سکے۔ اگر مجھے اور آپ کو یہ بات سمجھ آرہی ہے تو سب کو سمجھ آرہی ہے۔ اس لیے ن لیگ اور باقی سب جماعتیں ان کو کبھی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے نہیں دیں گے۔ اسی لیے تو شدید کوشش کے باوجود آصف زرداری پی ڈی ایم کے سربراہ نہیں بن سکے۔ کیونکہ باقی جماعتوں کو ان پراعتبار نہیں تھا۔ اعتبار کے اس کھیل میں زرداری صاحب تو پہلے ہی ہار چکے ہیں۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ بلاول کیا کرتے ہیں۔

کیا  اپوزیشن کی جماعتوں میں اپنا جو مقام بنایا ہے وہ اس کو قائم رکھیں گے۔ مریم اور بلاول کے درمیان جو اعتماد کا رشتہ نظر آرہا ہے اس کو ایک دھچکا ضرور لگا ہے۔ لیکن یہ ابھی ٹوٹا نہیں ہے۔ لیکن بلاول کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ بار بار یہ کھیل کھیل کر اس رشتہ کو بھی قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ یہ رشتہ زیادہ دھچکے برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اور شاید جب ن لیگ نے جوابی دھچکا دیا تو پیپلزپارٹی کا کافی نقصان ہو جائے گا۔

The post پیپلزپارٹی سینٹرل ایگز یکٹو اور پی ڈی ایم کے درمیان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3n6cAfv
via IFTTT

مردم شماری پر اتفاق رائے کی ضرورت ایکسپریس اردو

سپریم کورٹ نے تجاوزات کیس میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی مہلت کی استدعا منظور کرتے ہوئے ایک ماہ میں عملدرآمد رپورٹ طلب کرلی جب کہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو کچھ مردم شماری میں کراچی کے ساتھ کیا گیا، سب نے دیکھا۔

چیف جسٹس نے مردم شماری کے حوالہ سے جو حقائق بیان کیے بلاشبہ انھیں شہر آشوب اور ’’گنجینۂ معنی کا طلسم ‘‘ کہا جاسکتا ہے، عدلیہ کے سامنے شہر قائد کی ڈیموگرافیکل تاریخ، حکومتوں کے سنگدلانہ طرز عمل اور اس کے شہریوں کی زندگی سے روا رکھے جانے والے غیر انسانی رویے پر چیف جسٹس کی معروضات دراصل عروس البلاد کراچی کے دکھوں کی حقیقی ترجمانی تھی، چیف جسٹس نے کئی چشم کشا ریمارکس دیے، انھوں نے قرار دیا کہ سارا شہر گاؤں میں تبدیل ہوگیا ہے، تمام محکمے سمجھوتہ کرلیتے ہیں، کام نہیں کرتے۔

انھوں نے طرز حکمرانی پر سوال اٹھائے اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے استفسار کیا کہ کیا انھوں نے عدالتی آرڈر پڑھا ہے؟ وہ ہمیں بتائیں گے کتنا عمل ہوا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم نے مئی 2019 میں حکم دیا تھا، اس کا کیا ہوا ؟ مراد علی شاہ نے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد کر رہے ہیں، معذرت چاہتا ہوں اگر درست رپورٹ پیش نہیں کرسکے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آپ کی معذرت کی ضرورت نہیں، سادہ سی بات بتائیں ہمارے حکم پر عمل ہوا یا نہیں؟ مراد علی شاہ نے کہا کہ میں معذرت کے ساتھ اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ کچھ نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کورٹ سے عدم اتفاق نہیں کرسکتے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ میں عدالتی زبان نہیں جانتا، پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔ فٹ پاتھ تک کلیئر کرایا، سی ایم ہاؤس کے پاس کنٹینرز ہٹا لیے۔ میئر کے پاس تجاوزات ختم کرنے کا اختیار تھا، انھوں نے نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میئر تو جا چکا، آپ کے وزرا اور سیکریٹریز کیا کر رہے ہیں؟ کے ڈی اے، کے ایم سی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی آپکے محکمے ہیں، کیا کیا ہے۔ شاہراہ فیصل کی صورتحال اچھی نہیں ہے۔ مٹی، کچرا پڑا ہے، درخت نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے ڈی جی ایس بی سی اے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کیا آپ لوگوں کو معمولی زلزلے کا انتظار ہے، خدانخواستہ ایک زلزلہ آیا توآدھا شہر ختم ہوجائے گا، ایک کروڑ 40 لاکھ لوگ مر جائیں گے، چیف جسٹس کے مطابق بس 3،3 ماہ کے عہدے بانٹ رکھے ہیں، پھر کوئی لندن، کوئی امریکا، کوئی دبئی بھاگ جاتا ہے۔ ایس بی سی اے مال بنانے والا ادارہ بن گیا، ایک ایک آدمی کے ساتھ پورا مافیا چلتا ہے۔

مردم شماری کے تناظر میں عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ شہر کو عمارتوں کا قبرستان بنا کر تباہ کر دیا۔ اس شہر پر فاتحہ پڑھنا شروع کر دیں۔ آپ لوگوں نے غیر قانونی طریقے سے زمینیں بیچ دیں۔ عدالت نے کراچی سرکلر ریلوے کی مکمل بحالی، ریلوے کی تمام زمینیں واگزار کرانے، لیز پر دی گئی اراضی خالی کرانے اور ڈی جی رینجرز، آئی جی سندھ کو ریلوے حکام کی مدد کرنے کا حکم دیتے ہوئے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی۔ دوران سماعت وکیل میاں رضا ربانی کی بار بار مداخلت پر چیف جسٹس برہم ہوگئے۔ عدالت نے جون2021 تک گرین لائن بسیں چلانے کا حکم دیدیا۔

شہر قائد کے اجڑنے پر چیف جسٹس کی اداسی ان کے دل گرفتہ استفسارات اور بعض شخصیات کے طرز عمل پر بھی نمایاں تھی، یہ حقیقت ہے کہ شہر میں تجاوزات ایک ناسور کی صورت پھیلے ہیں، ایشیا کا یہ مثالی شہر واقعی گاؤں بنا ہوا ہے، اسے کنکریٹ کا جنگل بنانے کا عمل 1970 میں شروع ہوا جب پیپلز پارٹی کے سابق وزیر بلدیات جام صادق علی نے رہائشی اور تجارتی اسکیموں میں بلاامتیاز سب کو اس کا موقع دیا کہ وہ اس بہتی گنگ میں ہاتھ دھوئیں، عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ان دنوں جامعہ کراچی شہر سے 12 میل دور تھا، کلفٹن کے کولمبس ہوٹل تک دلدلی ریت، جھاڑیاں اور ویران علاقے تھے۔

قدیم کاروباری خاندانوں، تاجروں اور رؤسا کے قدیم طرز کے بنگلوز قائم تھے، اسی طرح ماری پور، گلشن، ریس کورس، کینٹ اسٹیشن جب کہ صدر ایمپریس مارکیٹ، کراچی کی شناخت کا سب سے مرکزی بازار تھا، یوں منگھوپیر، ٹاور، لیاری، کیماڑی، پی آئی ڈی سی، گزری، بہار کالونی، آگرہ تاج کالونی، کھارادر اور قدیمی علاقے ٹھیکیداروں اور بلڈرز نے گراکر وہاں فلیٹس تعمیر کیے۔

شاپنگ مالز بنے، تاہم شہر کی صورت گری میں اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ شہر کی آبادی کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے منصوبے تیار کیے جائیں جو شہریوں کی سفری، تجارتی، تعلیمی، صحت اور تفریحی سہولتوں کی تمدنی اور تہذیبی شناخت کا حوالہ بن سکیں، مگر بعد میں شہر کا بے ہنگم تعمیراتی کلچر نودولتیوں، کرپٹ مافیاؤں اور گینگز کے ہاتھوں خوب لٹا، اقدار زمین بوس ہوئیں جن پر اہل کراچی کو ناز تھا، اس شہر کو بندہ نواز شہر کی حیثیت حاصل تھی، بلدیاتی ادارے ہندو، پارسی اور مسلمان میئرز کے پاس تھے۔

انھوں نے شہر کا نظم ونسق بہتر سے بہتر کیا، لیکن کراچی کی آبادی میں ہوشربا اضافہ پر حکمرانوں نے کوئی توجہ نہ دی، مسئلہ سیاسی معاملات کا تھا، جمہوریت کتابوں، تصورات میں گم ہوگئی، فنون لطیفہ میں ایسی قوتیں دخل در معقولات کرنے لگیں جن کا کبھی ادب و ثقافت سے دور کا بھی رشتہ نہ تھا، سیاسی خلفشار، حکومتوں کی ’’ آنیاں تے جانیاں‘‘ اسی تیز رفتاری کا شکار رہیں کہ ایک مستحکم جمہوری نظام خواب وخیال بن کر رہ گیا۔

مردم شماری بھی ہمارے سیاسی سسٹم کا ایک ورثہ ہے جس کے ساتھ ہونے والے کھلواڑ نے آبادی کے مختلف طبقات، سیاسی جماعتوں اور شہری سٹیک ہولڈرز کو بھی مردم شماری کی اہمیت پر ایک ڈیبیٹنگ سوسائٹی بنا دیا ہے، مردم شماری کے تنازع میں ایم کیو ایم کے تمام دھڑے، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، سندھ حکومت، وفاق اور قوم پرست جماعتیں اپنا الگ انداز نظر رکھتی ہیں، معاملات عدلیہ میں زیر سماعت ہیں۔ شہر کے اقتصادی، ماحولیاتی، تجارتی، سیاسی اور انسانی حوالوں سے مردم شماری کا مسئلہ انتہائی حساس ہے۔

قطع نظر اس کے کہ مردم شماری کے نتائج پر سیاسی اختلاف رائے سیاسی حوالہ سے حل ہونا چاہیے، لیکن ملکی سیاست میں چونکہ ہر چیز تقسیم در تقسیم کی طرف چلی گئی ہے، کوئی سیاسی اتفاق رائے کا امکان بھی پیدا نہیںہوتا، ایم کیو ایم کا مردم شماری پر جو موقف ہے، اس پر بھی بحث کی گنجائش ہے۔

پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، وفاق اور دیگر اربن ماہرین کا کہنا ہے کہ مردم شماری ایک تکنیکی، اقتصادی اور انسانی مسئلہ ہے، اسے سیاسی بنانے کی ضرورت اسے مزید الجھا دے گی، سیاسی جماعتوں اور مسئلہ میں فریق قوتوں کے اہداف بھی مختلف ہیں، ان کے تنازعات اور تضادات کا بھی معاملہ پیچیدہ ہے، ایم کیو ایم کا معاملہ یہ ہے اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا، وہ پی ٹی آئی کی وفاق اور صوبہ میں حلیف ہے مگر آجکل ناراض ہے۔

پاک سر زمین پارٹی بھی چومکھی لڑائی میں مصروف ہے۔ اس حقیقت کو مردم شماری کے وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ میئر کراچی وسیم اختر سمیت ایم کیو ایم کو صوبہ سندھ اور خاص طور پر کراچی پر حکمرانی کا حق حاصل رہا ہے، اس وقت سندھ حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے سے زیادہ اپنے دور اقتدار کا بھی ایم کیو ایم کو جائزہ لینا چاہیے، کچھ خود احتسابی کرنی چاہیے، دوسروں پر تنقید کو مائنڈ سیٹ نہیں بنانا چاہیے۔

کل جو کام نہیں ہوسکے انھیں آج بھی ایجنڈہ پر رکھنے کی ضرورت ہے، ایم کیو ایم کے تین وفاقی وزرا ہیں، میئر وسیم اختر پر تو چیف جسٹس صاحب کتنی بار برہمی کا اظہار کرچکے، آج بھی ان کا کہنا تھا کہ وہ میئر تو چلے گئے، لہٰذا کراچی کی حالت زار کی ذمے داری کسی نہ کسی کو تو لینا پڑیگی، شہر لاقانونیت کی زد میں ہے، گینگز، مافیاؤں کا اس پر حکم چلتا ہے، ادھر پی ٹی آئی کے اراکین قومی وصوبائی اسمبلی ہیں، سینیٹر اور مشیر و معاونین کی فوج ظفر موج ہے، وہ کراچی کے ٹرانسفارمیشن پلان کے خطیر پیکیج پر عمل کرائیں، پلان کو موخر کرانا مناسب حکمت عملی نہیں، ٹرانسفارمیشن پلان سے شہر کی ڈیموگرافی میں تبدیلی ایک اہم پیش رفت ہوگی۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ سٹیک ہولڈرز مردم شماری پر اتفاق رائے سے کام لیں، سنجیدگی کے ساتھ مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر غور کریں، اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ اسے بھی شہر کی آبادی، اقتصادی، سماجی، رہائشی، تعلیمی، اور صحت سمیت روزگار اور ٹرانسپورٹ سسٹم سے جوڑیں، مردم شماری کے مصدقہ نتائج کے بغیر شہر کی ترقی اور معلومات زندگی کی پیچیدگیاں کبھی ختم نہیں ہوسکتیں، صوبہ سندھ ہی نہیں بلکہ پورے ملک کو آبادی میں بے پناہ اضافہ کے مسائل کا سامنا ہے، غربت، بیروزگاری اور مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔

کورونا وائرس نے عوام کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے، لوگ دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں اور ہما رے منتخب نمائندوں کو سیاسی لڑائی جھگڑوں سے فرصت نہیں، منی پاکستان کے لیے مردم شماری ایک غیر معمولی چیلنج ہے، جس کا اثر سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں پر یکساں پڑتا ہے۔

لہٰذا ایک اقتصادی، طبیعاتی اور انسانی مسئلہ کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے الگ رکھنا ہی صائب عمل ہوگا۔ کم از کم مردم شماری کو سیاسی ایشو بنانے سے کہیں بہتر ہے کہ شہر قائد کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سیاسی رہنما اپنے ہر قسم کے اختلافات ترک کرکے ایک دیرپا اتفاق رائے پیدا کریں اور سیاسی دوراندیشی کا تقاضہ ہے کہ افہام وتفہیم اور بات چیت سے معاملات طے کیے جائیں۔

The post مردم شماری پر اتفاق رائے کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/38PJKew
via IFTTT

کورونا کی تیسری لہر زیادہ خطرناک ایکسپریس اردو

آج 31 دسمبر 2020ہے، سال کا آخری دن۔ 2020کا پورا سال ہنگامہ خیز رہا۔ کورونا کی وبا ایک قہر بن کر ٹوٹی جس نے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں نگل لیں۔

عالمی معیشت تباہ و برباد ہوگئی۔ اب تک دُنیا بھر میں کروڑوں لوگ کورونا سے متاثر ہو چکے ہیں، 17 لاکھ سے زائد اس کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ پاکستان میں بھی لاکھوں لوگوں کو کورونا نے متاثر کیا مگر مجموعی طور پر اللہ کی خاص کرم نوازی رہی کہ زیادہ اموات نہ ہوئیں۔ مرنے والوں میں بھی زیادہ  تر وہ لوگ تھے جو پہلے سے دل کی بیماریوں، سانس کی بیماریوں، شوگر یا کسی دوسرے مرض میں مبتلا تھے۔

اللہ کی یہ بھی بڑی کرم نوازی رہی کہ پاکستان کے دور دراز دیہاتی علاقوں اور گاؤں میں کورونا کے کیسز نہ ہونے کے برابر منظر عام پر آئے۔ اگر کورونا پاکستان کے دیہات اور دور دراز علاقوں میں پھیلتا تو پھر اس پہ قابوپانا انتہائی مشکل ہوتا کیونکہ دور دراز علاقوں میں طبی سہولتوں کا فقدان ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر بڑے شہروں مثلاً کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں کیسز سامنے آئے جبکہ دیہی اور دور دراز کے علاقوں میں اللہ کا کرم رہا اور غریب لوگ اس سے متاثر نہ ہوئے۔

بڑے شہروں میں لوگوں نے کسی حد تک احتیاطی تدابیر پر عمل کیا لیکن دور دراز کے علاقوں میں لوگوں نے اسے بالکل سنجیدہ مسئلہ نہ سمجھا۔ مجھے سرکاری فرائض کی ادائیگی اور رفاہی کاموں کے سلسلے میں اکثر خیبر پختوانخوا اور تھر کے علاقوں میں جانا ہوتا تھا، وہاں کم ہی کسی کو ماسک پہنے دیکھا۔ نومبر کے مہینے میں جنوبی وزیرستان جانے کا اتفاق ہوا ، وہاں میڈیکل کیمپ لگائے۔ جنوبی وزیرستان کے لوگ ہمیں ماسک پہنے دیکھ کر ہنستے تھے۔ جب ہم نے انھیں ماسک پہننے کو دیے تو انہوں نے اس پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔

زیادہ تر نے ماسک پہننے سے گریز کیا۔ وانا DHQ کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے بتایا کہ ہمارے ہاں ابھی تک کورونا کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ اسی طرح تھر پار کے میں بھی اگرچہ لاک ڈاؤن لگا رہا مگر الحمد للہ تاحال وہاں کورونا کا کوئی مثبت کیس رپورٹ نہیں ہوا۔

کورونا کی پہلی لہر گزری تو جون جولائی کے مہینوں میں کورونا کے کیسز خال خال رہ گئے۔ بہت کم تعداد میں لوگ وینٹی لیٹر پہ تھے جبکہ اسی دوران پڑوسی ملک بھارت میں روزانہ سینکڑوں اموات ہو رہی تھی اور ہزاروں لوگ کورونا سے متاثر ہو رہے تھے۔ پاکستان میں کورونا کی دوسری لہر اکتوبر کے مہینے میں شروع ہوئی جب روزانہ ایک ہزار سے دو ہزار تک لوگ پازٹیو رپورٹ ہونے لگے۔ پچھلے تین ماہ میں تین ہزار سے زائد لوگ کورونا کی وجہ سے انتقال کرگئے۔ ان میں کئی نامور ڈاکٹر بھی شامل ہیں جو کورونا کے خلاف جنگ کرتے ہوئے اور اس کے مریضوں کا علاج کرتے ہوئے بیماری کا شکار ہوئے۔

چین کے شہر ووہان میں کورونا وائرس شروع ہوا تو چین نے ایسا سخت لاک ڈاؤن کیا کہ ووہان سے آنے جانے پر ابھی تک پابندی ہے۔ چین کے ڈاکٹروں نے قدرتی علاج کر کے مرض پہ قابو پایا۔ چین نے ستمبر 2020ء میں کورونا پہ قابو پانے کا جشن منایا۔ چینی صدر نے کورونا کے خلاف فرنٹ لائن ورکرز ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کو اعزازات سے نوازا۔ چین نے ستمبر کے مہینے میں ہی ویکسین بھی بنا لی جس کے کامیاب ٹرائل جاری ہیں، اس کی وجہ سے چین میں نئے کیسز بہت کم نظر آئے۔

کورونا کی دوسری لہر نے سب سے زیادہ امریکہ، برازیل اور برطانیہ کو متاثر کیا۔ برطانیہ میں بھی ویکسین تیار کر لی گئی ہے مگر وہاں کورونا کی نئی قسم نے تباہی پھیلانی شروع کردی ہے۔ اس وجہ سے دُنیا بھر کے ممالک نے برطانیہ سے فلائٹس کی آمدورفت پر پابندی لگا دی ہے۔ پاکستان میں بھی برطانیہ سے آنے والی پروازوں پر پابندی ہے۔ برطانیہ سے آنے والوں کے لیے لازم ہے کہ 72 گھنٹے پہلے ان کی کورونا کی منفی رپورٹ ہو۔ برطانیہ میں ویکسین کے ٹرائل شروع ہو چکے ہیں۔ ویکسین لگتے ہی اس کے مضر اثرات منظر عام پر آنا شروع ہو گئے ہیں۔

بعض لوگوں میں اس کی وجہ سے الرجک Reaction ہوئے ہیں۔ کچھ مریضوں میں Bells Palsyہوگئی ہے اور ویکسین لگتے ہی ایک دو اموات بھی ہوئی ہیں۔ پاکستان میں بھی مختلف جگہوں پر ویکسین کے ٹرائل جاری ہیں۔ جہاں ویکسین کے ٹرائل جاری ہیں وہیں کورونا کی نت نئی اقسام بھی سامنے آ رہی ہیں جیسا کہ برطانیہ میں ہوا۔ نئی اقسام زیادہ خطرناک ہیں۔ اس سے انفیکشن بہت جلد پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے اور مریض علاج سے پہلے ہی موت کا شکار ہو جاتا ہے۔

کورونا کی تیسری لہر زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حفاظتی تدابیر پر سختی سے عمل کیا جائے۔ کورونا سے بچنے کے لیے مندرجہ ذیل حفاظتی تدابیر پر عمل کریں:

٭ اگر آپ کو فلو، کھانسی ، نزلہ و زکام بیمار ہے اور آپ کا سانس بھی پھول رہا ہے تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں، اپنے آپ کو چند دن کے لیے گھر تک محدودکر لیں۔

٭ دن میں تین بار بھاپ لیں۔ بھارت میں چند ایک ہسپتالوں میں صرف بھاپ لینے سے کورونا کے مریضوں کا علاج ہوگیا۔

٭ سردیوں کے دنو ں میں خصوصی طور پر گرم پانی کا استعمال کریں۔

٭ سردیوں میں ڈرائی فروٹ کا استعمال آپ کی قوت مدافعت بڑھاتا ہے۔ ان دنوں ڈرائی فروٹ کا استعمال خوب کریں ۔

٭ وٹامن سی کے لیے اورنج جوس لیں یا تازہ مالٹے اور کنو استعمال کریں۔

٭ سوپ، قہوہ اور پینے والی اشیاء زیادہ استعمال کریں۔

٭ ماسک کا استعمال بہت ضروری ہے۔ ماسک آپ کی Ultimate ویکسین ہے۔ ماسک پہننے سے آپ خود بھی کورونا سے بچتے ہیں اور دوسروں کو بھی بچاتے ہیں۔ خصوصی طور پر ایسی جگہوں پر جہاں زیادہ لوگ جمع ہوں وہاں ماسک پہننا بہت ضروری ہے، اس کے علاوہ آپس میں سماجی فاصلہ رکھنا ضروری ہے۔

٭ کورونا سے بچنے اور اس کے علاج کے لیے کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کی طرف سے ہلدی، شہد اور زیتون کا تیل کا مرکب شربت متعارف کروایا گیا جس کی وجہ سے ہزاروں مریضوں کو افاقہ ہوا ۔آپ یہ شربت گھر میں بھی بنا سکتے ہیں۔عوام الناس کے لیے اسے بنانے کا طریقہ درج ذیل ہے:

ایک کپ گرم پانی یا دودھ لیں۔ اس میں ایک چمچ شہد ڈالیں، ایک چمچ ہلدی ڈالیں اور ایک چمچ زیتون کا تیل۔ ان تینوں اشیاء کو اچھی طرح ملا لیں۔ آپ کا کورونا مدافعاتی شربت تیار ہے۔ کورونا کے مریض اس شربت کا  ایک کپ صبح شام استعمال کریں۔ اس سے بچنے کے لیے آدھا کپ صبح شام لیں۔ چھوٹے بچے ایک چمچ صبح دوپہر لے سکتے ہیں۔

جوں جوں سردی میں کمی آئے گی کورونا کے کیسز بھی کم ہوں گے۔ سال 2021ء کے دوران انشاء اللہ کورونا کی وبا سے نجات مل جائے گی اور دُنیا بھر کی رونقیں پھر سے بحال ہو جائیںگی۔ اللہ تعالیٰ سے خصوصی دُعا ہے کہ وہ ایسی ہوا چلائے جس سے کورونا کا وائرس ہواؤں میں تحلیل ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ پھر سے مسجد نبوی اور مسجد حرام کی رونقیں بحال کر دے۔ لاکھوں مسلمان کعبتہ اللہ اور روضہ رسولؐ کے دیدار کو ترسے ہوئے ہیں۔

The post کورونا کی تیسری لہر زیادہ خطرناک appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/350vyye
via IFTTT

وباء اور موسم سرما ایکسپریس اردو

بہت سے لوگوں کے لیے گزشتہ چند مہینے انتہائی تکلیف دہ ثابت ہوئے ہوں گے۔

عالمی وباء  کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کو دکھ، تکالیف، صدموں، مالی پریشانیوں، بے روزگاری اور مسلسل تنہائی کا سامنا رہا ہے۔ اب موسم سرما کے طویل تاریک مہینے ہیں جو عام دنوں میں بھی بہت سے لوگوں کے لیے گزارنا بہت کٹھن ہوتے ہیں لیکن صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ ایسے طریقے ہیں جن کو اختیار کر کے آپ ذہنی طور پر ہشاش بشاش اور مطمئن رہ سکتے ہیں۔چند ایسے اہم گر ذیل میں پڑھیے۔

اپنے آپ کو متحرک اور مصروف رکھیں

موسم سرما میں بہت سے ملکوں میں ورزش یا کسرت کی غرض سے گھر سے باہر قدم رکھنا ٹھنڈ کی وجہ سے محال ہوجاتا ہے لیکن تقریباً تمام ماہرین اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند رہنے کا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا۔ لندن کی یونیورسٹی کنگز کالج کے پروفیسر ڈاکٹر برینڈن سٹبز کا کہنا ہے کہ ’ہمارے جسم اور دماغ کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔‘ ورزش کرنے سے ہمارے خون میں ’اینڈورفن‘ نامی کیمیائی مرکبات کا اخراج ہوتا ہے جس سے درد میں کمی اور راحت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر سٹبز کی تحقیق کے مطابق ورزش کرنے سے انسانی ذہن کے ان حصوں میں جو احساسات سے متعلق ہیں ان میں برقی تحریک تیز ہو جاتی ہے خاص طور پر ’ہپو کیمپس‘ اور ’پری فرونٹل کورٹیکس‘ میں۔

ان کا کہنا ہے کہ دماغی صحت کے لیے یہ انتہائی اہم ہے۔ یہ ذہن کے ان حصوں کو متحرک اور ہشاش بشاش رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ ’اگر آپ ورزش نہیں کرتے تو ذہن کے ان حصوں میں حرکت کم ہو جاتی ہے۔‘

ورزش نہ کرنے یا کم کرنے کی وجہ سے آپ کے ذہنی دباؤ اور مایوسی کا شکار ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ورزش کرنے سے آپ کے جسم میں پروٹین یا نامیاتی مرکبات، ’برین ڈیراوئڈ نیروٹروفک فیکٹر‘ یا بی ڈی این ایف کی افزائش بڑھ جاتی ہے جو کہ دماغی صحت کے لیے بہت اہم ہے۔

ڈاکٹر سٹبز کا کہنا ہے کہ ’آپ اسے دماغ کی کھاد کہہ سکتے ہیں۔ یہ آپ کے ذہن کے بعض حصوں کی افزائش کرتا ہے۔ ڈاکٹر سٹبز کے مطابق صرف 10 منٹ کی ورزش بھی کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔ ’ایسا کوئی بھی کام جس سے آپ کا سانس پھول جائے مثلاً تیز تیز چلنا، یا باغبانی کرنا یا پھر سائیکل چلانا یہ سب مؤثر ہو سکتے ہیں۔‘

زیادہ مت سوچیں

صحت مند مصروفیات کے اختیار کرنے سے آپ فکر کرنا چھوڑ دیتے ہیں جو آکسفورڈ یونیورسٹی کی ماہر نفسیات پروفیسر جینفر وائلڈ کے مطابق ایک بہترین طریقہ ہے۔ وہ اسے ’ذہن سے نکال دینا‘ کہتی ہیں۔ لوگ اکثر اپنے مسائل کے ساتھ زندہ رہتے ہیں اور اپنے منفی خیالوں کو بار بار یاد کرتے رہے ہیں۔ پروفیسر وائلڈ کے پاس کچھ سادہ سے مشورے ہیں جن سے اس مسئلے کا حل کیا جا سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ اگر آپ کسی مسئلہ کے بارے میں متفکر ہیں اور آدھے گھنٹے تک سوچنے کے باوجود آپ کو اس کا کوئی حل نہیں ملتا یا آپ کسی مسئلے کے بارے میں بار بار سوچتے رہتے ہیں اور آپ کو کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی تو اس کو بھول جائیں۔

اصل میں کسی بات کے بارے میں پریشان یا متفکر ہونے کے بجائے اس کا حل نکالنے کی طرف توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے۔ آپ کو متفکر ہونے کے بجائے اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ اس مسئلے کا کیا حل ممکن ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے کہ آپ سوچنا یا متفکر ہونا چھوڑ دیں۔

کچھ لوگ آپ کو مشورہ دیں گے کہ آپ جسمانی طور پر متحرک رہیں اس سے آپ کو اپنا ذہن بدلنے میں مدد ملتی ہے۔ بہرصورت اس کے لیے تریبت کی ضرورت ہے۔ کسی چیز کے بارے میں متفکر ہونا ایک قدرتی بات ہے۔ لیکن آپ کی بہت سی پریشانیاں حقیقی نہیں ہوتیں۔

ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ذہنی پریشانیوں کے مریضوں کی صرف 10 میں سے ایک پریشانی حقیقی ثابت ہوئی ہے۔ اس کی ایک توجیہ یہ دی جاتی ہے کہ جس ارتقائی عمل سے انسان گزرا ہے، یہ اس کے سبب ہے۔ اس کی وجہ سے انسانوں میں منفی سوچ اور خوف گھر کر گیا جو کہ ہمارا ایسے خطرات سے دفاعی نظام ہے جو کہ جسمانی معذوری یا موت کا باعث بن سکتے ہیں۔ پروفیسر وائلڈ کے مطابق ہمارے ذہنوں میں خطرہ زیادہ رہتا ہے۔ اگر آپ یہ سوچنا شروع کر دیں کہ آپ بلاوجہ پریشان ہو رہے ہیں اور آپ حقائق پر غور کرنا شروع کر دیں تو آپ ذہنی طور پر پرسکون رہ سکتے ہیں۔

نئے اہداف مقرر کریں

کارڈف یونیورسٹی کے نیورو سائنٹسٹ ڈاکٹر ڈین برنٹ کہتے ہیں کہ اپنی زندگیوں میں نئے اہداف مقرر کرنے سے بھی آپ کو زندگی میں بہت مدد ملتی ہے۔ یہ کوئی نئی زبان سیکھنے کا بڑا ہدف بھی ہو سکتا ہے اور کھانے کی کسی نئی ترکیب کا تجربہ کرنے کا چھوٹا سا ارادہ بھی۔ اگر کوئی بڑا ہدف آپ کے لیے مشکل ہو تو پھر کوئی چھوٹا اور آسان ہدف مقرر کر لیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا کام جس کے لیے ذرا زیادہ کوشش درکار ہو تو اس سے زندگی میں آگے بڑھنے میں مدد ملتی ہے اور آپ کو ذہنی یکسوئی حاصل ہوتی ہے اور فخر کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

بہت سے لوگوں کے لیے اپنی ذہنی حالت درست رکھنے میں یہ بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ڈاکٹر برنٹ کے نزدیک جدت بنیادی طور پر بہت سود مند ثابت ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئی چیزیں جلد سیکھنے سے ہم میں اپنی اہمیت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

بات کریں

کووڈ 19 کی وبا کی وجہ سے ملنا جلنا مشکل ہو گیا ہے اور سردی نے اسے اور مشکل بنا دیا ہے۔ یہ لاکھوں لوگوں کے لیے بڑا مسئلہ بن گیا ہے اور اس سے ان کے لیے سنگین ذہنی مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ لہٰذا جتنے بھی سماجی رابطے میسر ہیں ان کو بڑھایا جائے۔

لندن کے کنگز کالج میں پروفیسر ایمرٹا الزبتھ کیوپرز کہتی ہیں کہ ’ہمیں اپنے آپ تک رہنے کے لیے تخلیق نہیں کی گیا ہے۔‘ ’ہمارا مزاج سماجی ہے اور ہم سماجی رابطے رکھنے میں خوش رہتے ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ اپنے مسائل پر دوسروں سے بات کرنا ایک اچھا طریقہ ہو سکتا ہے لیکن ہم یہ کیسے کرتے ہیں وہ بہت اہم چیز ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اپنے مسائل پر بار بار سوچتے رہنے سے آپ اپنے ساتھ اچھا نہیں کرتے۔ کسی ایسے شخص سے جو آپ کو کوئی اچھا مشورہ دے سکے یا آپ کی مشکل حل کرنے میں کوئی مدد دے سکے ہمیشہ اچھا ہوتا ہے۔‘

پروفیسر کیوپرز کا کہنا ہے کہ تنہائی کے شکار لوگ اپنے بارے میں سوچتے یا متفکر رہتے ہیں اور اس سے زیادہ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ جب ممکن ہو آپ ایسے لوگوں سے رابطہ کریں۔

اگر کووڈ 19 کی وباء کی وجہ سے آپ ان سے مل نہیں سکتے تو ان سے فون پر رابطہ رکھیں یا آئن لائن گفتگو کرنے کا بندوبست کریں۔

غلط طریقے سے ہی کریں، مگر کریں

کیمبرج یونیورسٹی کی اولیویا ریمز کہتی ہیں کہ خوش امید لوگوں کی زندگیاں لمبی ہوتی ہیں، ان کے تعلقات بہتر ہوتے ہیں اور ان کا مدافعتی نظام بہتر ہوتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ آپ خوش امیدی پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ذہنی عنصر ہے جس سے آپ کی زندگی میں فرق پڑ سکتا ہے اور یہ کوئی ایسی شے نہیں جو آپ کے بس سے باہر ہو۔ کس طرح پروفیسر ریمز کے نسخے میں پہلا اصول ’ڈو اٹ بیڈلی‘ یعنی غلط طرح ہی کرو، مگر کرو۔

دوسرے لفظوں میں، کبھی کسی کام کو بہترین طریقے سے انجام دینے کا انتظار مت کریں کہ جب ٹھیک وقت اور ٹھیک دن ہوگا جب آپ وہ کام کریں گے۔ سردیوں کے موسم میں یہ بات اور اہم ہو جاتی ہے جب آپ موسم کی وجہ سے کوئی کام کرتے وقت دو مرتبہ سوچتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ہمارے اندر سے ایک تنقیدی آواز مستقل طور پر ہمیں کئی ضروری اور اہم کام کرنے سے روکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کام میں جت جائیں اور یہ سوچ لیں کہ ابتدا میں آپ سے یہ کام ٹھیک طریقے سے نہیں ہو گا۔ جب آپ کوئی کام کرتے ہیں تو نتیجہ اتنا برا نہیں آتا اور یہ ہمیشہ کچھ نہ کرنا سے بہتر ہے۔

ان کا دوسرا مشورہ یہ ہے کہ ایسی تین چیزوں کے بارے میں لکھیں جن پر آپ شکر گزار ہیں تاکہ آپ یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ آپ کی زندگی میں کیا اچھا ہوا ہے اور کیوں ہوا ہے۔ اس سے آپ کے ذہن کا بائیں طرف والا حصہ متحرک ہو گا جس کا تعلق مثبت چیزوں سے ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ احساسات متعدی ہوتے ہیں آپ اپنے آپ کو آہستہ آہستہ ایسے لوگوں سے دور کر لیں جو ہمیشہ شکایات کرتے رہتے ہیں اور کسی نہ کسی بات کا رونا روتے رہتے ہیں، وگرنہ آپ بھی ان جیسے ہو جائیں گے۔    ( بشکریہ بی بی سی )

The post وباء اور موسم سرما appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3n1sGXS
via IFTTT

کرک میں مشتعل افراد نے مندر مسمار کردیا، وزیراعلیٰ کا نوٹس ایکسپریس اردو

لکی مروت /  پشاور: خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع کرک میں مشتعل افراد نے مندر مسمار کردیا۔

تحصیل بانڈہ داد شاہ کے علاقہ ٹیری میں مندر کی توسیع کا کام جاری تھا‘ اس دوران مقامی افراد مشتعل ہوگئے اور مندر پر چڑھائی کرتے ہوئے آگ لگادی اور مندر مسمار کر دیا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے مندر میں توسیع  قبول نہیں۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے مندر کو مسمار کرنے کے واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے کارروائی کرکے رپورٹ پیش کرنیکا حکم دیدیا۔

 

The post کرک میں مشتعل افراد نے مندر مسمار کردیا، وزیراعلیٰ کا نوٹس appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3htS07G
via IFTTT

کورونا سے مزید 58 افراد جاں بحق، 2 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ ایکسپریس اردو

اسلام آباد: ملک بھر میں کورونا وائرس سے ایک دن میں 58 افراد جاں بحق ہوگئے جب کہ اب تک مجموعی طور پر 10 ہزار سے زائد افراد اس جان لیوا وبا کے باعث زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 39 ہزار 695 کورونا ٹیسٹ کئے گئے، جس کے بعد مجموعی کووڈ 19 ٹیسٹس کی تعداد 66 لاکھ 96 ہزار 068 ہوگئی ہے۔

کورونا کی مریضوں کی تعداد کتنی؟

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں مزید 2 ہزار 475 مثبت کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، اس طرح پاکستان میں کورونا کے مصدقہ مریضوں کی تعداد 4 لاکھ 79 ہزار 715 ہوگئی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک سندھ میں 2 لاکھ14 ہزار 425 ، پنجاب میں ایک لاکھ 37 ہزار 949، خیبر پختونخوا میں 58 ہزار 379، اسلام آباد میں 37 ہزار 702، بلوچستان میں 18 ہزار 148، آزاد کشمیر میں 8 ہزار 256 اور گلگت بلتستان میں 4 ہزار 856 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے۔

کورونا کے فعال مریضوں کی تعداد

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک بھر میں کورونا کے فعال مریضوں کی تعداد34ہزار537 ہوگئی ہے۔ جب کہ 2 ہزار 206 مریضوں کی حالت تشویشناک ہے۔

کورونا سے جاں بحق ہونیوالے افراد کی تعداد

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں کورونا سے مزید 58 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں جس کے بعد اب اس وبا سے جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد مجموعی طور پر 10 ہزار 105 ہوگئی ہے۔

صحت یاب مریضوں کی تعداد

این سی او سی کے مطابق کورونا سے ایک دن میں 4 ہزار 960 مریض صحت یاب ہوئے جس کے بعد صحت یاب ہونے والے مریضوں کی تعداد 4 لاکھ 35 ہزار 073 ہوگئی ہے۔

کورونا وائرس اوراحتیاطی تدابیر

کورونا وائرس کے خلاف یہ احتیاطی تدابیراختیارکرنے سے اس وبا کے خلاف جنگ جیتنا آسان ہوسکتا ہے۔ صبح کا کچھ وقت دھوپ میں گزارنا چاہیے، کمروں کو بند کرکے نہ بیٹھیں بلکہ دروازے کھڑکیاں کھول دیں اور ہلکی دھوپ کو کمروں میں آنے دیں۔ بند کمروں میں اے سی چلاکربیٹھنے کے بجائے پنکھے کی ہوا میں بیٹھیں۔

سورج کی شعاعوں میں موجود یو وی شعاعیں وائرس کی بیرونی ساخت پر ابھرے ہوئے ہوئے پروٹین کو متاثر کرتی ہیں اور وائرس کو کمزور کردیتی ہیں۔ درجہ حرارت یا گرمی کے زیادہ ہونے سے وائرس پرکوئی اثرنہیں ہوتا لیکن یو وی شعاعوں کے زیادہ پڑنے سے وائرس کمزور ہوجاتا ہے۔

پا نی گرم کرکے تھرماس میں رکھ لیں اورہرایک گھنٹے بعد آدھا کپ نیم گرم پانی نوش کریں۔ وائرس سب سے پہلے گلے میں انفیکشن کرتا ہے اوروہاں سے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتا ہے، گرم پانی کے استعمال سے وائرس گلے سے معدے میں چلا جاتا ہے، جہاں وائرس ناکارہ ہوجاتا ہے۔

The post کورونا سے مزید 58 افراد جاں بحق، 2 ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3aVJduf
via IFTTT

پی ٹی آئی نے ن لیگ اور پی پی کے پیدا کردہ مسائل بڑھائے، سراج الحق ایکسپریس اردو

 لاہور: امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہاہے کہ پی ٹی آئی نے ن لیگ اور پی پی کے پیدا کردہ مسائل بڑھائے ہیں۔

سینیٹ اجلاس میں شرکت کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو اور میڈیکل کالجز میں داخلہ کے لیے ٹیسٹ دینے والے طلبہ و طالبات کے نمائندہ وفد سے ملاقات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت ایڈہاک ازم کی بنیاد پر چل رہی ہے، پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے گزشتہ ادوار میں حکومتوں کے مزے لیے اور ملک کو مسائل سے دوچار کیا، پی ٹی آئی نے ان مسائل میں مزید اضافہ کیا، 2020 پاکستان میں کسان، صحافی، دکاندار، تاجر سمیت سب پر بھاری رہا، جاگیردار اور سرمایہ دار کے چنگل سے آزادی حاصل کرنا ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ میڈیکل کالجز میں داخلہ کے لیے ٹیسٹ دینے والے طلبہ و طالبات کے مطالبات کو فی الفور پورا کیا جائے،پی ڈی ایم مختلف الخیال جماعتوں کا مجموعہ ہے اور سب کا اپنا اپنا ایجنڈا ہے۔

قبل ازیں سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے سراج الحق سے ان کی والدہ کی وفات پر تعزیت کے لیے ملاقات کی۔

The post پی ٹی آئی نے ن لیگ اور پی پی کے پیدا کردہ مسائل بڑھائے، سراج الحق appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3rOV57p
via IFTTT

امریکی بمبار طیارے کی مشرقِ وسطیٰ میں اڑان ... ایران کے ممکنہ حملے کے پیش نظر امریکہ نے اپنی افواج متحرک کردیں

”سیکرٹ پارٹی “میدان میں آ گئی،ٹک ٹاک کے عروج کا توڑ نکال لیا گیا ... کووڈ 19جیسی وبا کے دنوں میں غیر قانونی اجتماع کی پارٹیاں پروموٹ کرنے والی ایپ متنازع بن گئی

امریکہ کو ڈیپ اسٹیٹ چلا رہی ہے،امریکی الیکشن فیئر اینڈ فری نہیں تھے ... امریکیوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں ووٹ دے دیا،سروے رپورٹ

بچے کو دودھ پلانے کے لیے باپ نے چہرے پر ماں کی تصویر لگا لی ... دودھ پلاتے باپ کی فوٹو سوشل میڈیا پر وائرل ،صارفین کے دلچسپ تبصرے

چین اگر چمگادڑوں کی غار تک جانے کی اجازت دے دے تو مستقبل میں آنے والی وباﺅں سے بچا جا سکتا ہے ... پر اسرار مقامات جہاں ہزاروں سکیورٹی اہلکار تعینات ہیں،چین کے کورونا کا ... مزید

Tuesday, December 29, 2020

رواں مالی سال میں اسلامی بینکاری کی خدمات فراہم کرنے والے بینکوں کی جانب سے نجی شعبہ کو قرض کی فراہمی میں 2 ارب روپے اضافہ

خواجہ آصف کی گرفتاری بتا رہی کوئی انتہائی پریشان اور خوفزدہ ہے ... خواجہ آصف نے مسکراتے ہوئے گرفتاری دی مسکراتے ہوئے واپس آئیں گے۔ سینئر صحافی حامد میر کا خواجہ آصف کی ... مزید

فواد عالم نے ٹیسٹ کرکٹ کی 144 سالہ تاریخ بدل ڈالی ... پہلی سنچری کے بعد 10 سال ٹیسٹ کرکٹ نہ کھیلنے، واپسی پر دوبارہ سنچری سکور کرنیوالے ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے واحد کھلاڑی بن ... مزید

ملکی دفاع مزید مضبوط، جے ایف 17 ڈبل سیٹ کی فضائی بیڑے میں شمولیت ... پاک فضائیہ نے بلاک 3 کی تیاری شروع کردی، پاک فضائیہ کا بلاک 3 بھارت کے حاصل کردہ رافیل طیاروں سے بہتر ہے

ماؤنٹ مانگا نوئی ٹیسٹ: فواد عالم کی سنچری بھی پاکستان کو شکست سے نہ بچا سکی ... فوادعالم کے 102،رضوان کے 60 رنز رائیگاں

چائے کی کھپت میں پانچ ماہ کے دوران 26.72فیصد اضافہ ہوا، ادارہ برائے شماریات

کبری خان نے میگزین ''ہیلوپاکستان '' کے لئے فوٹو شوٹ مکمل کروالیا

اسرائیل ہم جنگ کے لیے تیار ہیں،کبھی بھی اور کہیں بھی منہ توڑ جواب دیں گے،فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کا عزم ... خبردار! اگر ہمارے عوام پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو ہم پیچھے نہیں ... مزید

گمبھیرسیاسی منظرنامہ ایکسپریس اردو

ملکی سیاست میں دوطرفہ مزاحمتی کردارنے عوام کوذہنی دباؤمیں مبتلا کردیا ہے، حکومت اپوزیشن کے جلسوں سے پیدا شدہ صورتحال کوکنٹرول کرنے کی نئی اسٹرٹیجی پرعملدرآمد کررہی ہے، جس کے تحت حکومتی ذمے داروں کو نئے اہداف دیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ ترجمانوں پر اپوزیشن کو ٹف ٹائم دینے کی اسٹرٹیجی کے باعث اس بات کا اندیشہ ہے کہ سیاسی موسم مزیدگرم ہوگا۔

جس بات کی سیاسی فہمیدہ حلقوں کوامید پیدا ہو چلی تھی کہ جمہوری رویے بریک تھروکریںگے، ڈائیلاگ کا امکان پیدا ہوگا، استعفوں کی ترجیح ثانوی ہوگی، سیاسی طرزعمل پر حکومتی اور اپوزیشن ہارڈ لائنرز ایک قدم پیچھے ہٹ کرسسٹم کو رول پلے کرنے کی اسپیس دیں گے اورایسا امکان بھی پیدا ہوسکے گا جو حکومت اوراپوزیشن کو اس ریڈ الرٹ کے خطرہ سے بھی آگاہ کرسکے گا، جس کے بعد ہر سیاست دان اس بات کی خواہش کرے گا کہ اس لکیرکے اس پارجانے کے بعد سیاست کی حکمت ودانش ہی اس بات کا فیصلہ کرسکے گی کہ ملکی سیاست میں جمہوریت، رواداری‘ تدبرو دوراندیشی کتنی سکت باقی ہے۔

اندیشہ ہائے دوردراز بڑھنے لگے ہیں، اقتدارکی غلام گردشوں میں ماضی کی فرسودہ روایتوں کے نئے تجربے پھرسے کیے جانے لگے ہیں۔ مبصرین کا یہ کہنا کیسے غلط ثابت ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن کے حالیہ جلسوں نے عجیب سائیکی پیدا کی ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ حکومت کو ڈر اس بات کا ہے کہ سیاسی اپوزیشن نے کورونا وائرس کو بھی اپنے حکومت مخالف سیاسی کھیل کا ایک پوائنٹ آف نو ریٹرن بنانے کا  فیصلہ کرلیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس ضمن میں سیاسی مبصرین کے پاس اندازوں، خدشات اور بندگلی کا ایک بے صدا بھونپو ہے جسے حکومتی ماہرین پوری شدت سے بجا رہے ہیں اور اس پرخوش بھی ہورہے ہیں، مگر دوسری طرف حکومت اوراپوزیشن کی محاذ آرائی سے بے نیازحقیقت پسند سیاسی حلقوں کا انداز نظریہ ہے کہ اپوزیشن نے گوجرانوالہ،کراچی،کوئٹہ، ملتان ، پشاور اور دیگر اجتماعات وریلیوں سمیت لاہور ’’شو‘‘ کا تجربہ کرکے دیکھ لیا کہ حکومت مزاحمت اور تصادم میں کس حد تک جاسکتی ہے، اورکیا کھو سکتی ہے اورکیا پانے کی طاقت بھی رکھتی ہے۔

ایک گروہ وہ بھی ہے جو بھونپو لے کر مطلع کرتے ہیں کہ حکمراں اوراپوزیشن اس لڑائی میں اپنے ان ووٹرزکو فراموش کررہے ہیں، جن کے ووٹوں کے طفیل وہ سیاسی سومنات کے بڑے بتوں کا روپ دھارکر ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوئے ہیں، وہ دراصل جمہور کے جذبات سے کھیلنے کے مرتکب ہورہے ہیں۔ ملک کے کروڑوں ووٹرز نے حکومت اور اپوزیشن کو اپنے ووٹوں سے سیاسی طاقت عطا کی ہے، جمہوریت کا سارا حسن عوام کا عطاکردہ ہے، سارے منتخب ایوان ، پارلیمنٹ ، اقتدارکا سارا کھیل،رگوں میں دوڑتا جمہوری عمل، وطن عزیزکی ساری رونق عوام کی امنگوں کے دم سے ہیں۔

سیاستدان اس خواب وخیال کے گھوڑے سے نیچے اتریں اور زمینی حقائق پر ایک افلاطونی نگاہ ڈالیں۔ اس یونانی مرد قلندرکے اس قول پر نظرڈالیں جو کسی فلسفی ،کسی خرد مند ،روشن ضمیر، بلند حوصلہ اور انصاف پسند شخص کو عنان اقتدارکا مستحق سمجھتا تھا، جو یہ کہتا تھا کہ shame is the country who is led by orator،جن سیاست دانوں کی عمریں اس کام میں گزر چکیں، وہ اب گڑھی خدا بخش میں سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقعے پر منعقد کردہ جلسے کو ٹیسٹ کیس کے آئینہ میں دیکھ رہے ہیں، ان کی نگاہیں بے یقینی کی دلدل نشین جمہوریت ، منزل سے گریزاںسسٹم پر پڑنے والے غیر مرئی دباؤ، پارلیمان کی بے وقعتی پرمرکوز ہیںجسے بعض سیاسی رہنما آج کل ڈس فنکشنل بھی کہنے لگے ہیں۔

اسی تناظر میں مسلم لیگ فنکشنل کے رہنما محمد علی درانی کی انٹری بھی قیاس آرائیوں کی زد میں ہے، وہ ڈائیلاگ کی بات کرتے ہیں۔کچھ باریک بین، سنجیدہ اور منجھے ہوئے تجزیہ کار اور سیاستدان ڈائیلاگ کی ضرورت کو محسوس توکرتے ہیں مگراس کی سیاسی منطق، جمہوریت کی ساکھ ، اپوزیشن کی زیربحث تحریک کے اتار چڑھاؤ، ملکی سیاسی تاریخ اورآیندہ انتخابات کے سناریوکودلچسپ سیاق وسباق  کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ قومی سیاست تاریخ کے جمہوری تسلسل سے محروم ہے، لوگ 72  سالوں کی سیاسی صحرا نوردی کا ذکر توکرتے ہیں۔ ادیبوں، معاشی مبصرین، دانشوروں اور مورخوں نے بنتی ٹوٹتی اسمبلوں کا ایک درد انگیز بیانیہ بھی مختلف پیرائے اور تجربات کے نچوڑکی صورت بکھرے اوراق میں رقم کیا ہے، سب یہی کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو تاریخ کے ان اوراق سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

وقایع نگاروں اور ٹی وی چینلز پرگفتگوکرنے والے تجزیہ کاروں کو رنج اس بات کا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت، ممتازسیاستدان، پارلیمنٹیرنز اور ریاست وحکومت کے رمز شناس اس جمہوریت کو پورے قافلے کو بندگلی میں جاتے دیکھ رہے ہیں مگر پورا سچ قوم کو بتاتے نہیں کہ روشنی کی کوئی کرن ہے بھی یا نہیں؟ یہ المیہ ہے کہ جمہوریت وآمریت ہمیشہ قوم کو ایک سکے کے دونوں جمہوری رخ دکھائے نہیں جاتے بلکہ ایک عجیب تیسرا بیانیہ سامنے لایا جاتا ہے اوروہ بندگلی کا ہے جب کہ منطق کا ہی یہ سوال ہے کہ بندگلی کا حوالہ دیا جاتا ہے، اس گلی کا ذکر سیاست میں کب نہیں ہوا اور وہ تاریک سرنگ کتنی بار قومی زندگی میں آکر تباہی مچاتی چلی گئی۔ مگر اس گلی میں اہل اقتدارکم وبیش خاطر غزنوی کا ایک مشہورشعرضرورعوام کو سناتے رہے کہ

میں اسے شہرت کہوں یا اپنی رسوائی کہوں

مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے

آج دنیا کورونا وائرس کے عذاب میں مبتلا ہے۔ طاقتورجمہوری ممالک بھی اس جرثومہ کے ہاتھوں بے بس و لاچار نظر آئے، دیوہیکل معیشتیں زمین بوس ہوکر رہ گئیں، سماجی رشتے ٹوٹ گئے، خوبصورت  انسانی چہرے ماسک نے چھپا لیے، سماجی فاصلہ اورہجوم سے دوررہنے کی ہدایات نے قربتوں میں فاصلے بڑھادیے۔ ماہرین طب نے تھک ہارکراب کہنا شروع کیا ہے کہ احتیاط ہی لازم ہے، بس احتیاط کیجیے، بلا ضٖرورت گھر سے باہر نہ نکلیں، ماسک پہنیں۔ دنیا کے ماہرین  ویکسین کی آمد کی نوید دیتے ہیں مگر ویکسین ایک چھلاوا بنی ہوئی ہے۔

دنیا منتظر ہے، لیکن سیاست دان کورونا کو رو بھی رہے ہیں مگر اپنی سیاسی لڑائی ختم کرنے پر تیار نہیں ہوتے، جانتے ہیں کہ کورونا دشمن جاں ہے، قوم کواسی باعث سخت چیلنجز درپیش ہیں،بیروزگاری بڑھ رہی ہے، لوگ نان شبینہ کو محتاج ہیں، نئی نسل جستجو میں ہے کہ حکمراں ان کے لیے روزگارکے وسیلے کھولیں۔ تعلیمی نظام اور ہمارے بچوں کو انتظار تھا کہ انھیں اچھی تعلیم ملے گی،ان کے اورکتابوں کے درمیان فاصلے کم ہونگے لیکن بدقسمی دیکھیے کہ جس قوم کو ایک نصاب کی خوشخبری ملنے والی تھی وہ جہالت کے اندھیروں میں گم ہورہی ہے۔ ایک ایسی مخلوق اسکولوں اورکالجوں میں پل رہی ہے جہاں اعلیٰ تعلیم وتدریس کی قدریں بس اشرافیائی طبقات کا حصہ ہیں۔

قارئین! سوچ رہے ہونگے کہ جب منظرنامہ اس قدرگمبھیر ہے اور ملکی جمہوریت پر ہرطرف سے الزامات کی بوچھاڑ ہے تو ہم کدھر جارہے ہیں، سچ کیا ہے، جمہوری سفرکی منزل حکمرانوں اور اپوزیشن کی نگاہوں سے اوجھل کیوں ہیں؟ معیشت اگر مستحکم ہو تو قوم اس استحکام کے جمہوری ثمرات سے محروم نہیں ہونی چاہیے۔ خطے میں ایک طوفان برپا ہے، بھارت نے پاکستان کے خلاف کئی محاذ کھول رکھے ہیں، بلوچستان اس کے نشانہ پر ہے،وہ لائن آف کنٹرول پر خلاف ورزیوں سے باز نہیں آتا، جموں اور کشمیرکے عوام کرفیو، بربریت اورظلم وستم سہہ رہے ہیں۔

عالمی برادری نے اپنے کان ، لب اورآنکھیں بندکر رکھی ہیں، امن و انصاف کے جس آدرش پر اقوام متحدہ کا منشور مرتب ہوا تھا، اسے غالباً بھلا دیا گیا ہے، انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی خطے کی صورتحال اور خطرات سے لاتعلق سی ہوگئی ہیں،کوئی ٹھوس کام نہیں ہورہا، قراردادوں ،اجلاس اور وعدوں پر ٹرخایا جاتا ہے، پاکستان کو سیاسی صحرا میں کب تک دھکیلا جائے گا، اہل سیاست کو خطے میں داخلی اورخارجی صورتحال کا کوئی حل نکالنا ہوگا، افغان امن کا مسئلہ اب کسی کروٹ بیٹھ جانا چاہیے۔

مشرق وسطیٰ میں حالات ناگفتہ بہ ہیں، عالم اسلام کو خطرات نے گھیر لیا ہے، کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کس لمحے دنیا کون سے نئے وائرس کا شکارہوجائے گی۔ ارباب اختیار اورقوم نے کورونا کا ایک وار تو سہہ لیا۔ اب اس دوسری لہرکے بعد کورونا کے اندر سے ایک نئے وائرس سے ہلاکتوں کی خبریں دی جارہی ہیں۔ آخر قوم کو معاشی آسودگی اور سیاسی اطمینان ملے گا بھی یا اس کے مقدر میں، الزامات اور محاذ آرائی کے گرم بگولے رقصاں ملیں گے۔ ان سوالوں کے عوام جواب مانگتے ہیں، اہل  نظر حلقے سخت تشویش میں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ ملک میں تمام ترخرابیوں کے باوجود زندگی رواں دواں ہے۔

سب اچھے دنوں کا انتظارکررہے ہیں لیکن اچھے دن کب آئیں گے، ان کو لانے والے سیاستدان عوامی امنگوں کی ترجمانی کا حق ادا کریں گے تب ہی تو جمہوری ثمرات کا ٹریکل ڈاؤن شروع ہوگا۔ عام آدمی پوچھنے کی جسارت کرتا ہے کہ حکمراں مہنگائی کے خاتمہ، روزگارکی فراہمی  اور ترقی کی حقیقت پر قوم کوکب اعتماد میں لے گی،کب ووٓٹرزکی امیدیں برآئیں گی، ان کے گھر چولھے کب گیس کے بٓحران سے نجات پائیں گے۔ ان کے روزمرہ کے مسائل کے لیے منتخب نمایندے اپنے سارے اختلافات ترک کرکے باہم شیروشکر کب ہونگے، جمہوریت طواف کوئے ملامت سے نکلنے میں مزید کتنی دیر لگائے گی۔ عوام کا دم گھٹنے لگا ہے، اس سیاست کو عوام دوست بن کرکایا پلٹ نظام کی راہ پر چلنا ہوگا۔

The post گمبھیرسیاسی منظرنامہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2L5TJEk
via IFTTT