اس بار نیا سال پچھلے سالوں کی طرح نہیں آ رہا ہے۔ کورونا وبا کی خون آشامی کے خطرات مزید بڑھ گئے ہیں۔ معیشت کی تاریکی کے اسباب میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ دنیا بھر کی امیر طاقتوں کی معیشتیں لرز رہی ہیں۔ پاکستان میں مہنگائی کا گراف اتنا بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ ہر روز ہزاروں افراد غربت کی گہری کھائی میں گرتے چلے جا رہے ہیں۔
چند ماہ قبل کورونا وبا کو جس طرح کنٹرول کرلیا گیا تھا اب کورونا کے قدم مضبوط ہو رہے ہیں جو معیشت کو روندتا چلا جا رہا ہے۔ ایسے میں شکستہ اور مضمحل معیشت پر ایک اور بجلی گرائی جانے والی ہے۔ بجلی کے نرخ بڑھا دیے گئے ہیں۔ کچھ یوں ہو رہا ہے کہ آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کو دوبارہ شروع کرنا ہے۔ جس کے لیے بجلی کے نرخوں میں اضافہ ناگزیر شرط ہے، یہ پروگرام جوکہ گزشتہ 10ماہ سے تعطل کا شکار تھا یہ اضافہ کتنا ہونا ہے اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی۔
لیکن اس دوران ایک اہم خبر جو پاکستان کی معیشت میں نکھار پیدا کرسکتا ہے، وہ یہ کہ جی 20 ممالک نے پاکستان کو 526 ملین ڈالر قرض ادائیگی میں ریلیف دے دیا ہے۔ اب قرضوں کی وصولی موخر کردی گئی ہے۔ اس طرح پاکستان کا قرضہ ایک بلین ڈالر سے نیچے چلا جائے گا۔ پاکستان ان 76 غریب ممالک میں شامل تھا جنھوں نے کورونا وبا کے باعث جی 20 ممالک کے قرضوں کی ادائیگی کے سلسلے میں ریلیف لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ معاہدے بھی طے پا گئے ہیں۔
البتہ مزید دو برادر اسلامی ملکوں سے قرض کی مہلت ملنے کے بعد پاکستان اس پوزیشن میں آجائے گا کہ وہ آئی ایم ایف کو باور کرا سکے کہ پاکستان پر مالی دباؤ میں کمی آئی ہے۔ پاکستان میں بارہا بجلی، گیس اور پانی کے نرخ بڑھائے جاتے رہے ہیں لیکن ان معیشت میں کسی طور پر اصلاح نہیں ہو سکی۔ آئی ایم ایف کے قرض دینے کا مقصد معیشت کو درست راستے پر گامزن کرنا ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف کا قیام دسمبر کے انھی آخری دنوں میں سے ایک دن ہوا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد بین الاقوامی ادائیگیوں کے پیچیدہ مسائل پیدا ہوتے چلے جا رہے تھے۔
جو دنیا کے بیشتر ممالک کے لیے درد سری کا باعث بن چکے تھے۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ کوئی ایک مضبوط کرنسی موجود نہیں تھی۔ سونے کا ذخیرہ چند ملکوں نے سمیٹ لیا تھا۔ ان میں یورپی اقوام پیش پیش تھے۔ ادھر جنگ کے دنوں میں یہ تجویز پیش کردی گئی تھی کہ نیا بین الاقوامی مالیاتی نظام تشکیل دیا جائے۔ اس تجویز کی خوب پذیرائی ہوئی۔ برطانوی اور امریکی معاشی ماہرین متحرک ہوگئے۔ 1944کی بات ہے جب امریکا، برطانیہ اور دیگر 42 ملکوں کے نمایندوں نے امریکی ریاست نیوہمپشائر کے شہر برٹن ووڈز میں کانفرنس بلائی جس میں نئے عالمی مالیاتی اور زری نظام کے قیام کے لیے فیصلہ کرلیا گیا۔
بالآخر 27 دسمبر 1945کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کا آفس واشنگٹن ڈی سی میں بنایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی عالمی بینک کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ اس بینک نے پاکستان میں بڑے ڈیمز بنائے ہیں لیکن اب جب کہ ملک میں بجلی کی کھپت بڑھ رہی ہے۔
ایسے میں 1994 کے بعد سے ملک میں تیل سے بجلی پیدا کرنا پھر گیس سے بجلی پیدا کرنا اور اب کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کے باعث بجلی کی تیاری کی لاگت بڑھ رہی ہے۔ اگر عالمی بینک سے پہلے کی طرح ہر طرح سے امداد و تعاون حاصل کرکے نئے ڈیمز بنائے جاتے تو آج آئی ایم ایف کو بھی کہنے کی ضرورت نہ ہوتی کہ بجلی کے نرخ بڑھائے جائیں۔ پاکستان پر گردشی قرضوں کا بوجھ نہ ہوتا۔ قیام کے وقت آئی ایم ایف کے جو مقاصد طے ہوئے تھے۔
ان میں ایک اہم ترین مقصد یہ بھی تھا کہ متوازن بیرونی تجارت کو فروغ دینا اور ممبر ممالک میں سطح روزگار کو بلند کرنا۔ ممبر ممالک کو فنڈ کے وسائل فراہم کرکے ان کی ادائیگی کو بہتر بنانا۔ ان کی معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد فراہم کرنا۔ لیکن اب مقاصد کچھ اور ہی نظر آ رہے ہیں۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ترقی پذیر ملکوں کو آئی ایم ایف سے شکایات پیدا ہونا شروع ہوگئیں۔ کئی ممالک آئی ایم ایف کے سخت رویے کے پیش نظر اس کے پروگرام سے الگ ہو کر رہ گئے۔ پاکستان بعض مجبوریوں کے باعث اس کی سخت کڑی شرائط کو قبول کرتے ہوئے آئی ایم ایف سے تعاون کرتا رہا ہے۔
ان دنوں کورونا وبا کے باعث پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی معیشت سخت ترین دباؤ میں ہے۔ گزشتہ 5ماہ کے دوران یعنی رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ جولائی تا نومبر 20 کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری 80فیصد کم ہوگئی ہے۔ ان دنوں ملک میں گندم کی کم پیداوار کے حصول کے باعث پاکستان کو لاکھوں ٹن گندم درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ گندم آٹے کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ ہو چکا ہے۔ تعمیرات کی صنعت کو ملنے والی مراعات کے خاتمے سے سرمایہ کاروں میں بد دلی پھیل رہی ہے۔ عالمی اسٹاک مارکیٹ کے ساتھ ملکی اسٹاک مارکیٹ بھی مندی کا شکار ہے۔
البتہ پاکستان نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پایا ہے۔ ترسیلات زر میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں اگر آئی ایم ایف کی طرف سے خطرے کی گھنٹی نہ بجائی جائے تو معیشت کسی بھی قسم کی افواہوں کی زد میں آنے سے بچ سکتی ہے۔ کیونکہ مہنگائی میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ اب کسی بھی یوٹیلیٹیز کے نرخوں میں اضافہ مہنگائی کو مزید بڑھا کر رہے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت صنعت کو زیادہ مراعات فراہم کرے تاکہ کارخانوں میں کام بڑھے، روزگار بڑھے، آمدن میں اضافہ ہو تاکہ لوگ غریب کا مقابلہ کرسکیں۔
The post جی 20 ممالک آئی ایم ایف اور غربت appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3aUuLCC
via IFTTT
No comments:
Post a Comment