Monday, December 28, 2020

انسداد دہشت گردی کے لیے قومی اتحاد کی ضرورت ایکسپریس اردو

دہشت گردوں نے بلوچستان کے علاقے ہرنائی میں ایف سی کی چیک پوسٹ پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں 7 اہلکار فائرنگ کے تبادلے میں شہید ہوگئے،وزیراعظم عمران خان نے جوانوں کی شہادت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ قوم ہمارے بہادر فوجیوں کے ساتھ کھڑی ہے جو بھارتی حمایت یافتہ دہشت گردوں کے حملوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ مادر وطن پر اپنی جانیں نچھاور کرنے والے ان جوانوں کو قوم سلام پیش کرتی ہے، کیونکہ یہ دفاع وطن کا عظیم ترین فریضہ سرانجام دے رہے ہیں، شہید کی جوموت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔ بلاشبہ شہید جوانوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا، دہشت گرد بزدلانہ کارروائیوں سے ہماری فورسزکے حوصلے پست نہیں کرسکتے۔

ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ بھارت کی طرف سے حالیہ برسوں میں پاکستان میں ریاست مخالف شدت پسند گروہوں کو ہتھیار اور پیسہ فراہم کرنے میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کے پاس ملک کے اندرونی معاملات میں بھارتی مداخلت کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں،بھارت نے ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے خلاف محاذ بنانے کے لیے بھرپور کوشش کی لیکن منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے حوالے سے دنیا کو بھارت کا اصلی چہرہ دکھانا ضروری ہے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان میں معصوم شہریوں کا قتل ریاستی دہشت گردی ہے، جس کا دنیا کو نوٹس لینا چاہیے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دہشت گردی کے مقاصد کیا ہیں؟اور آخر کیوں پاکستان میں امن و استحکام ہضم نہیں ہو پا رہا ہے۔ بدامنی سے سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو اندرونی طور پر پہنچا ہے ۔ خصوصاً آرمی پبلک اسکول سانحہ نے سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا جس پر حکومت، ریاستی اداروں، خصوصاً سیکیورٹی اداروں نے دہشت گردی، تخریب کاری کو اپنے لیے چیلنج سمجھتے ہوئے اس کی جڑیں کاٹنے اور اس جن کو بوتل میں بند کرنے کی کوشش کی، بہت حد تک دہشت گردی پرقابو پا لیا گیا ہے۔

آج کی صورتحال میں ایک مرتبہ پھر دشمن خصوصاً ہمسایہ ممالک کو پاکستان میں امن استحکام اور سی پیک کا عمل ہضم نہیں ہو پا رہا اور وہ پاکستان میں امن سے کھیلنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے دھمکی دی تھی کہ پاکستان اور چین کو سبق سکھانے کے لیے تیار ہیں اور جنگ ان کی سرزمین تک لے جائیں گے ۔

اس بات سے بھارت جیسے ازلی دشمن کے مائنڈ سیٹ اور اس کی حکمت عملی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں، اگر خیبرپختونخوا کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اس کے ڈانڈے ہمیشہ افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے گروہ سے ملتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے سیکیورٹی اور حساس اداروں کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جس کے تحت پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارت اور افغانستان کے خفیہ ادارے ’’را ‘‘ اور ’’این ڈی ایس ‘‘کا گٹھ جوڑ سرگرم رہا۔ بھارت نے ہمیشہ افغان سرزمین کو ہمسایہ ممالک کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کیا۔

ادھر پاکستانی ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں دیرپا امن واستحکام کے لیے پرعزم ہے، اور افغان عمل کے تنازع کے سیاسی حل کی طرف پیشرفت جاری ہے تاہم بعض افغان سرکاری وغیر سرکاری حلقوں کی طرف سے منفی بیانات پر ہمیں تشویش ہے ۔پاکستان کی سنجیدہ کوششوں سے افغان عمل میں اہم بریک تھروز ہوئے ۔ پاکستان کی کوششوں کو افغان معاشرے اور عالمی برادری نے سراہا اور تسلیم کیا ہے۔ ترجمان دفترخارجہ نے مزید کہا کہ نومبر میں وزیراعظم کے دورہ کابل میں بھی سیکیورٹی وامن کے حوالے سے رابطوں کو مضبوط بنانے پر اتفاق ہوا تھا۔ افغان عمل پانچ جنوری سے نازک مرحلے میں داخل ہورہا ہے ،تاہم کھلے عام الزامات امن کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہیں،اس سلسلے میں پاکستانی دفتر خارجہ کا موقف انتہائی صائب اور واضح ہے ۔

دراصل دہشت گردی کی اصل جڑ بھارت میں ہے جس کی شاخیں افغانستان تک پھیلی ہوئی ہیں۔ حالیہ دنوں میں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے لیے افغانستان کی سرزمین کے استعمال ہونے اور اس کے ڈانڈے بھارت تک سے ملنے کے واضح ثبوت موجود ہیں۔بھارت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچارکرنے کے لیے افغانستان کی سرزمین کو بیس کیمپ بنائے ہوئے ہے۔عالمی سطح پر دہشت گردی کے حوالے سے ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں ساڑھے 6 ہزار دہشت گرد اب بھی فعال ہیں جو پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی قیادت افغانستان سے پاکستان میں دہشت گرد کارروائیاں کراتی ہے اور افغانستان میں موجود دہشت گرد قیادت پاکستان میں متعدد حملوں کی ذمے داری بھی قبول کرچکی ہے جب کہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں افغانستان میں داعش کی موجودگی کو خطے کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ عالمی ادارے کی رپورٹ میں بھارت میں موجود دہشت گرد عناصر پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارت میں موجود دہشت گرد عناصر سے پڑوسی ممالک کو خطرہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں بھارتی قونصل خانے دہشت گردی کی تربیت گاہ بنے ہوئے ہیں اور افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہورہی ہے۔ اس صورتحال میں افغان حکومت کودوسروں پر بے بنیاد الزام تراشی کے بجائے اپنے معاملات درست کرنے کی ضرورت ہے جس میں پہلی ترجیح اپنے ملک کو بھارت جیسے دہشت گرد ملک کے دباؤ اور اثر سے آزاد کرانا ہونی چاہیے۔

یو این او کی نمایندہ تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ افغانستان کے شہر قندھار میں بھارت کے قونصل خانے ہیں جن میں اسرائیلی، بھارتی اور افغان خفیہ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ٹاپ ایجنٹ دہشت گردوں کو ٹریننگ دے کر پاکستان کے دیگر شہروں میں بھیج کر دہشت گردی کے واقعات کرواتے ہیں جس سے اب تک سیکڑوں معصوم لوگ بم دھماکوں، خودکش حملوں میں اپنی زندگی گنوا بیٹھے، جب کہ پولیس فورس اور پاک فوج کے جوان بھی شہید ہوئے۔ تمام نیٹ ورکس کا سربراہ کلبھوشن سدھیر یادیو کی گرفتاری کے بعد بھار ت کی کمر تو ٹوٹ گئی مگر دہشت گردی کا نیٹ ورک تاحال ختم نہ ہوسکا جس کے باعث بھارت اسرائیل، افغانستان کی مدد سے پاکستان میں دہشت گردی کے منصوبوں پر گامزن ہیں۔

بلوچستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کا اصل ہدف سی پیک ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت سی پیک کو تخریب کاری کا نشانہ بنا کر ایک طرف پاکستان کو چین کی مدد سے ترقیاتی عمل کو تیز کرنے سے محروم رکھنا چاہتا ہے اور دوسری طرف پاکستان اور بحیرہ عرب کے خطے میں چین کی موجودگی کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ مگر پاکستان اور چین دونوں بھارت کے ان عزائم سے خوب واقف ہیں۔

پاکستان اور چین کے مشترکہ تعاون اور کوششوں سے سی پیک کا منصوبہ نہ صرف قائم ہے بلکہ پہلا مرحلہ کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد اب دوسرے اور اہم مرحلے پر کام جاری ہے جس کے دوران میں پاکستان اور چین اسپیشل اکنامک زونزمیں مشترکہ سرمایہ کاری کریں گے اور صنعت، زراعت، ٹیکنالوجی، تعلیم، سیاحت اور ماحولیات کے شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو فروغ دیں گے، لیکن سی پیک کے تحت ان کامیابیوں پر بھارت کو سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اسی وجہ سے پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کی کارروائیوں سے اُسے خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔

کچھ عرصہ قبل جریدے فارن پالیسی نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ ہندوستانی دہشت گردی کی کہانی تاریخی طور پر دنیا کی نظروں سے اوجھل رہی، ہندوستان کی انتہا پسندانہ پالیسی ایک تباہ کن خطرہ ہے، اگر اس کا نوٹس نہ لیا گیا تو اس کے دور رس اثرات ہوں گے۔ اسی وجہ سے پاکستان نے بین الاقوامی برادری کو بھی آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، کیونکہ بھارت نے ایک بھرپور اور منظم پروپیگنڈے کے ذریعے اپنا مکروہ چہرہ دنیا سے چھپایا ہوا ہے۔

بلوچستان اور کے پی کے میں تسلسل کے ساتھ ہونے والے دہشت گرد حملوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شدت پسندوں کی شہری علاقوں میں مضبوط جڑیں ہیں۔ ہر پرتشدد واقعے کے بعد شدت پسند آسانی سے اس لیے فرار ہو جاتے ہیں کیونکہ انھوں نے عام لوگوں کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی ادارے شہریوں کی جان ومال کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے سنجیدہ اور دور اندیشی پر مبنی اقدامات اٹھائیں تاکہ لوگ از خود امن مخالف عناصر کی سرکوبی کے لیے ان کے ساتھ تعاون کریں۔

پاکستان میں انتشار پھیلانے کے لیے بھارت افغانستان کو استعمال کررہا ہے، اور یہ خدشہ سچ ہوتا نظر آتا ہے۔ دشمن ایک جانب دہشت گردی کو ہوا دے کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے تو دوسری طرف فرقہ وارانہ رجحانات کو فروغ دے کر یہاں انتشار پیدا کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی میں ہمسایہ ممالک ملوث ہیں،خصوصاً افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کے مثبت کردار اور کوششیں بھارت کو ہضم نہیں ہو پا رہیں۔

بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ افغانستان میں امن ہو اور پاکستان کو اس کا کریڈٹ ملے،دشمن کے عزائم سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے پاکستان کے اندرونی حالات کو بہتر کیا جائے، ایک دوسرے پر دشمن کا آلہ کار ہونے اور غداری کے الزامات لگانے کے بجائے ملکی مفادات کے تحفظ اور دہشت گردی کے سدباب کے لیے اتحاد و یکجہتی پیدا کی جائے تاکہ دہشت گردی کا جڑ سے خاتمہ کیا جاسکے۔

The post انسداد دہشت گردی کے لیے قومی اتحاد کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Jq8qBu
via IFTTT

No comments:

Post a Comment