سپریم کورٹ نے تجاوزات کیس میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی مہلت کی استدعا منظور کرتے ہوئے ایک ماہ میں عملدرآمد رپورٹ طلب کرلی جب کہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو کچھ مردم شماری میں کراچی کے ساتھ کیا گیا، سب نے دیکھا۔
چیف جسٹس نے مردم شماری کے حوالہ سے جو حقائق بیان کیے بلاشبہ انھیں شہر آشوب اور ’’گنجینۂ معنی کا طلسم ‘‘ کہا جاسکتا ہے، عدلیہ کے سامنے شہر قائد کی ڈیموگرافیکل تاریخ، حکومتوں کے سنگدلانہ طرز عمل اور اس کے شہریوں کی زندگی سے روا رکھے جانے والے غیر انسانی رویے پر چیف جسٹس کی معروضات دراصل عروس البلاد کراچی کے دکھوں کی حقیقی ترجمانی تھی، چیف جسٹس نے کئی چشم کشا ریمارکس دیے، انھوں نے قرار دیا کہ سارا شہر گاؤں میں تبدیل ہوگیا ہے، تمام محکمے سمجھوتہ کرلیتے ہیں، کام نہیں کرتے۔
انھوں نے طرز حکمرانی پر سوال اٹھائے اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے استفسار کیا کہ کیا انھوں نے عدالتی آرڈر پڑھا ہے؟ وہ ہمیں بتائیں گے کتنا عمل ہوا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم نے مئی 2019 میں حکم دیا تھا، اس کا کیا ہوا ؟ مراد علی شاہ نے پیش ہوتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد کر رہے ہیں، معذرت چاہتا ہوں اگر درست رپورٹ پیش نہیں کرسکے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آپ کی معذرت کی ضرورت نہیں، سادہ سی بات بتائیں ہمارے حکم پر عمل ہوا یا نہیں؟ مراد علی شاہ نے کہا کہ میں معذرت کے ساتھ اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ کچھ نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کورٹ سے عدم اتفاق نہیں کرسکتے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ میں عدالتی زبان نہیں جانتا، پیشگی معذرت چاہتا ہوں۔ فٹ پاتھ تک کلیئر کرایا، سی ایم ہاؤس کے پاس کنٹینرز ہٹا لیے۔ میئر کے پاس تجاوزات ختم کرنے کا اختیار تھا، انھوں نے نہیں کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میئر تو جا چکا، آپ کے وزرا اور سیکریٹریز کیا کر رہے ہیں؟ کے ڈی اے، کے ایم سی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی آپکے محکمے ہیں، کیا کیا ہے۔ شاہراہ فیصل کی صورتحال اچھی نہیں ہے۔ مٹی، کچرا پڑا ہے، درخت نہیں ہیں۔ چیف جسٹس نے ڈی جی ایس بی سی اے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کیا آپ لوگوں کو معمولی زلزلے کا انتظار ہے، خدانخواستہ ایک زلزلہ آیا توآدھا شہر ختم ہوجائے گا، ایک کروڑ 40 لاکھ لوگ مر جائیں گے، چیف جسٹس کے مطابق بس 3،3 ماہ کے عہدے بانٹ رکھے ہیں، پھر کوئی لندن، کوئی امریکا، کوئی دبئی بھاگ جاتا ہے۔ ایس بی سی اے مال بنانے والا ادارہ بن گیا، ایک ایک آدمی کے ساتھ پورا مافیا چلتا ہے۔
مردم شماری کے تناظر میں عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ شہر کو عمارتوں کا قبرستان بنا کر تباہ کر دیا۔ اس شہر پر فاتحہ پڑھنا شروع کر دیں۔ آپ لوگوں نے غیر قانونی طریقے سے زمینیں بیچ دیں۔ عدالت نے کراچی سرکلر ریلوے کی مکمل بحالی، ریلوے کی تمام زمینیں واگزار کرانے، لیز پر دی گئی اراضی خالی کرانے اور ڈی جی رینجرز، آئی جی سندھ کو ریلوے حکام کی مدد کرنے کا حکم دیتے ہوئے ایک ماہ میں رپورٹ طلب کرلی۔ دوران سماعت وکیل میاں رضا ربانی کی بار بار مداخلت پر چیف جسٹس برہم ہوگئے۔ عدالت نے جون2021 تک گرین لائن بسیں چلانے کا حکم دیدیا۔
شہر قائد کے اجڑنے پر چیف جسٹس کی اداسی ان کے دل گرفتہ استفسارات اور بعض شخصیات کے طرز عمل پر بھی نمایاں تھی، یہ حقیقت ہے کہ شہر میں تجاوزات ایک ناسور کی صورت پھیلے ہیں، ایشیا کا یہ مثالی شہر واقعی گاؤں بنا ہوا ہے، اسے کنکریٹ کا جنگل بنانے کا عمل 1970 میں شروع ہوا جب پیپلز پارٹی کے سابق وزیر بلدیات جام صادق علی نے رہائشی اور تجارتی اسکیموں میں بلاامتیاز سب کو اس کا موقع دیا کہ وہ اس بہتی گنگ میں ہاتھ دھوئیں، عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ان دنوں جامعہ کراچی شہر سے 12 میل دور تھا، کلفٹن کے کولمبس ہوٹل تک دلدلی ریت، جھاڑیاں اور ویران علاقے تھے۔
قدیم کاروباری خاندانوں، تاجروں اور رؤسا کے قدیم طرز کے بنگلوز قائم تھے، اسی طرح ماری پور، گلشن، ریس کورس، کینٹ اسٹیشن جب کہ صدر ایمپریس مارکیٹ، کراچی کی شناخت کا سب سے مرکزی بازار تھا، یوں منگھوپیر، ٹاور، لیاری، کیماڑی، پی آئی ڈی سی، گزری، بہار کالونی، آگرہ تاج کالونی، کھارادر اور قدیمی علاقے ٹھیکیداروں اور بلڈرز نے گراکر وہاں فلیٹس تعمیر کیے۔
شاپنگ مالز بنے، تاہم شہر کی صورت گری میں اس بات کا خیال نہیں رکھا کہ شہر کی آبادی کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے منصوبے تیار کیے جائیں جو شہریوں کی سفری، تجارتی، تعلیمی، صحت اور تفریحی سہولتوں کی تمدنی اور تہذیبی شناخت کا حوالہ بن سکیں، مگر بعد میں شہر کا بے ہنگم تعمیراتی کلچر نودولتیوں، کرپٹ مافیاؤں اور گینگز کے ہاتھوں خوب لٹا، اقدار زمین بوس ہوئیں جن پر اہل کراچی کو ناز تھا، اس شہر کو بندہ نواز شہر کی حیثیت حاصل تھی، بلدیاتی ادارے ہندو، پارسی اور مسلمان میئرز کے پاس تھے۔
انھوں نے شہر کا نظم ونسق بہتر سے بہتر کیا، لیکن کراچی کی آبادی میں ہوشربا اضافہ پر حکمرانوں نے کوئی توجہ نہ دی، مسئلہ سیاسی معاملات کا تھا، جمہوریت کتابوں، تصورات میں گم ہوگئی، فنون لطیفہ میں ایسی قوتیں دخل در معقولات کرنے لگیں جن کا کبھی ادب و ثقافت سے دور کا بھی رشتہ نہ تھا، سیاسی خلفشار، حکومتوں کی ’’ آنیاں تے جانیاں‘‘ اسی تیز رفتاری کا شکار رہیں کہ ایک مستحکم جمہوری نظام خواب وخیال بن کر رہ گیا۔
مردم شماری بھی ہمارے سیاسی سسٹم کا ایک ورثہ ہے جس کے ساتھ ہونے والے کھلواڑ نے آبادی کے مختلف طبقات، سیاسی جماعتوں اور شہری سٹیک ہولڈرز کو بھی مردم شماری کی اہمیت پر ایک ڈیبیٹنگ سوسائٹی بنا دیا ہے، مردم شماری کے تنازع میں ایم کیو ایم کے تمام دھڑے، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، سندھ حکومت، وفاق اور قوم پرست جماعتیں اپنا الگ انداز نظر رکھتی ہیں، معاملات عدلیہ میں زیر سماعت ہیں۔ شہر کے اقتصادی، ماحولیاتی، تجارتی، سیاسی اور انسانی حوالوں سے مردم شماری کا مسئلہ انتہائی حساس ہے۔
قطع نظر اس کے کہ مردم شماری کے نتائج پر سیاسی اختلاف رائے سیاسی حوالہ سے حل ہونا چاہیے، لیکن ملکی سیاست میں چونکہ ہر چیز تقسیم در تقسیم کی طرف چلی گئی ہے، کوئی سیاسی اتفاق رائے کا امکان بھی پیدا نہیںہوتا، ایم کیو ایم کا مردم شماری پر جو موقف ہے، اس پر بھی بحث کی گنجائش ہے۔
پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، وفاق اور دیگر اربن ماہرین کا کہنا ہے کہ مردم شماری ایک تکنیکی، اقتصادی اور انسانی مسئلہ ہے، اسے سیاسی بنانے کی ضرورت اسے مزید الجھا دے گی، سیاسی جماعتوں اور مسئلہ میں فریق قوتوں کے اہداف بھی مختلف ہیں، ان کے تنازعات اور تضادات کا بھی معاملہ پیچیدہ ہے، ایم کیو ایم کا معاملہ یہ ہے اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا، وہ پی ٹی آئی کی وفاق اور صوبہ میں حلیف ہے مگر آجکل ناراض ہے۔
پاک سر زمین پارٹی بھی چومکھی لڑائی میں مصروف ہے۔ اس حقیقت کو مردم شماری کے وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ میئر کراچی وسیم اختر سمیت ایم کیو ایم کو صوبہ سندھ اور خاص طور پر کراچی پر حکمرانی کا حق حاصل رہا ہے، اس وقت سندھ حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے سے زیادہ اپنے دور اقتدار کا بھی ایم کیو ایم کو جائزہ لینا چاہیے، کچھ خود احتسابی کرنی چاہیے، دوسروں پر تنقید کو مائنڈ سیٹ نہیں بنانا چاہیے۔
کل جو کام نہیں ہوسکے انھیں آج بھی ایجنڈہ پر رکھنے کی ضرورت ہے، ایم کیو ایم کے تین وفاقی وزرا ہیں، میئر وسیم اختر پر تو چیف جسٹس صاحب کتنی بار برہمی کا اظہار کرچکے، آج بھی ان کا کہنا تھا کہ وہ میئر تو چلے گئے، لہٰذا کراچی کی حالت زار کی ذمے داری کسی نہ کسی کو تو لینا پڑیگی، شہر لاقانونیت کی زد میں ہے، گینگز، مافیاؤں کا اس پر حکم چلتا ہے، ادھر پی ٹی آئی کے اراکین قومی وصوبائی اسمبلی ہیں، سینیٹر اور مشیر و معاونین کی فوج ظفر موج ہے، وہ کراچی کے ٹرانسفارمیشن پلان کے خطیر پیکیج پر عمل کرائیں، پلان کو موخر کرانا مناسب حکمت عملی نہیں، ٹرانسفارمیشن پلان سے شہر کی ڈیموگرافی میں تبدیلی ایک اہم پیش رفت ہوگی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سٹیک ہولڈرز مردم شماری پر اتفاق رائے سے کام لیں، سنجیدگی کے ساتھ مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر غور کریں، اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ اسے بھی شہر کی آبادی، اقتصادی، سماجی، رہائشی، تعلیمی، اور صحت سمیت روزگار اور ٹرانسپورٹ سسٹم سے جوڑیں، مردم شماری کے مصدقہ نتائج کے بغیر شہر کی ترقی اور معلومات زندگی کی پیچیدگیاں کبھی ختم نہیں ہوسکتیں، صوبہ سندھ ہی نہیں بلکہ پورے ملک کو آبادی میں بے پناہ اضافہ کے مسائل کا سامنا ہے، غربت، بیروزگاری اور مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔
کورونا وائرس نے عوام کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے، لوگ دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں اور ہما رے منتخب نمائندوں کو سیاسی لڑائی جھگڑوں سے فرصت نہیں، منی پاکستان کے لیے مردم شماری ایک غیر معمولی چیلنج ہے، جس کا اثر سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں پر یکساں پڑتا ہے۔
لہٰذا ایک اقتصادی، طبیعاتی اور انسانی مسئلہ کو سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے الگ رکھنا ہی صائب عمل ہوگا۔ کم از کم مردم شماری کو سیاسی ایشو بنانے سے کہیں بہتر ہے کہ شہر قائد کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سیاسی رہنما اپنے ہر قسم کے اختلافات ترک کرکے ایک دیرپا اتفاق رائے پیدا کریں اور سیاسی دوراندیشی کا تقاضہ ہے کہ افہام وتفہیم اور بات چیت سے معاملات طے کیے جائیں۔
The post مردم شماری پر اتفاق رائے کی ضرورت appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/38PJKew
via IFTTT
No comments:
Post a Comment