Tuesday, June 30, 2020

نسخے کے بغیر کوویڈ 19 کی ادویات فروخت کرنے پر چار میڈیکل سٹور کے خلاف مقدمات درج

آر ٹی اے کا کورونا وائرس کی روک تھام اور مقررہ شرح کرایہ نامہ پر عمل درآمد کیلئے آپریشن جاری

بجٹ میں شعبہ تعلیم کے لئے 391 ارب روپے سے زائد مختص کر کے حکومت پنجاب نے تعلیم دوست اقدام اٹھایا ہے، واثق قیوم عباسی

خیبر پختونخوا ،کورونا وائرس کے 483 نئے کیسز ،16 اموات

یونین کونسل آسیہ اور شینواری ٹائون سے آج لاک ڈائون ختم

فضل حکیم خان سے دارالعلوم سیدو شریف کے علماء کرام کی ملاقات

وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ ان کی ٹیم کسی کو ملک میں کرپشن نہیں کرنے دے گی،رہنما پی ٹی آئی صداقت عباسی

حکومتی کاوشوں سے یورپی یونین نے تین جولائی تک پروازیں چلانے کی اجازت دی ہے،ترجمان پی آئی اے

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کی بین الپارلیمانی یونین کو اس کی 130 ویں سالگرہ پر مبارکباد

محکمہ خزانہ نے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے الحاق شدہ سکولوں کے لیے 3.5 ارب فراہم کر دیئے ... فنڈز ایم ڈی پیف اور سیکرٹری سکولز کی سفارشات پر جاری کیے گئے ہیں،ترجمان پیف

پنجاب میں سمارٹ لاک ڈائون میں 15 جولائی تک توسیع

پنجاب میں کورونا وائرس کی723نئے کیس، تعداد 75,501 ہو گئی ‘مزید46 اموات، کل 1727 جاں بحق ‘ 27,147شفایاب، 493,225ٹیسٹ کیے جا چکے ‘ عوام حفاظتی تدابیر اختیار کرکے خود کو محفوظ بنائیں‘ترجمان ... مزید

پنجاب بھر میں سپورٹس کے جاری ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل سے سپورٹس کو فروغ ملے گا، رائے تیمور خان بھٹی

سیکرٹری یوتھ افیئرز و سپورٹس کی زیر صدارت اجلاس‘ ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیا ... پنجاب بھر میں سپورٹس کے 155 ترقیاتی منصوبے جاری ہیں، احسان بھٹہ

قومی اسکواڈ کی انگلینڈ میں پہلی ٹیسٹنگ رپورٹس پی سی بی کو موصول ہو گئیں

دورہ انگلینڈ ‘کوویڈ19 کا ٹیسٹ دوسری مرتبہ منفی آنے پرقومی ٹیم کے 6 کھلاڑی وورسٹر میں اسکواڈ جوائن کرنے کے اہل قرار

میٹرک کے پرچوں کی مارکنگ شروع

لاہور بورڈ کا نہم جماعت کی رجسٹریشن کیلئے شیڈول جاری

ایل ڈی اے کے 18 افسروں کے تقرر و تبادلے

طارق عزیز جیسے دانشور لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں جنہیں ہمیشہ یاد رکھا جاتاہے ،مقررین کا تعزیتی ریفرنس سے خطاب

حکومت بدعنوان مافیا کے خلاف احتساب میں مصروف، لوٹی رقم برآمد کرکے عوامی فلاح پرخرچ کرنے کا عزم کر رکھا ہے ... پارلیمانی سیکرٹری برائے ریلویز فرخ حبیب کی نجی ٹی وی سے گفتگو

اوگرا کا جولائی کے لیے ایل پی جی کی قیمت میں ردوبدل،نوٹیفکیشن جاری

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بنگلہ دیشی حکومت سے کشتی کے حادثے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر اظہار تعزیت

Monday, June 29, 2020

سعودی عرب کا دی نیشنل کمرشل بینک ، سامبا بینک پاکستان کے حصص خریدنے کے لئے 15.6 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا، بلوم برگ

مائیکرو فنانس اداروں سے قرض حاصل کرنے والے ایکٹو صارفین کی شرح میں 3 فیصد اضافہ ہوا، پاکستان مائیکرو فنانس نیٹ ورک

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اسرائیل اور شام کے درمیان جنگ بندی کو برقرار رکھنے کے لیے گولان ہائٹس پر اپنے امن مشن کی مدت میں 6 ماہ کی توسیع کی منظوری دے دی

جو بھی کرو دل سے کرو، ثناء فخر

کومل عزیز کے انسٹاگرام پر فالوورز کی تعداد 10لاکھ ہو گئی

سرمد قدیر کا نیا گانا’’ شاعر‘‘ 10جولائی کو ریلیز کیا جائے گا

زندگی زندہ دلی کا نام ہے، بشری انصاری

سیمنٹ کی برآمدات میں مئی کے دوران 24.4 فیصد اضافہ ہوا، ادارہ برائے شماریات

کھیلوں کے سامان کی برآمدات میں مئی کے دوران 81.19 فیصد اضافہ ہوا، ادارہ برائے شماریات

لاک ڈاؤن سے متاثر مستحق افغان مہاجرین میں یو این ایچ سی آر پاکستان کے زیر اہتما م امداد کی تقسیم

سجل علی کا قلمکار کے لیے فوٹو شوٹ

حرامانی نے مداحوں کو اپنے دن کے آغازبارے آگاہ کر دیا

کراچی اسٹاک ایکسچینج پر دہشت گردوں کا حملہ ایکسپریس اردو

پیر کی صبح 10بجے کے لگ بھگ کراچی اسٹاک ایکسچینج کی عمارت میں دہشت گردوں کے حملے میں کم از کم 5 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں جب کہ تمام دہشتگردوں کو ہلاک کردیا گیا ہے۔ انتہاپسند قوتوں نے کراچی کو اس وقت ٹارگٹ کیا جب کہ ملک کورونا کے خطرناک وائرس سے نمٹنے کے ساتھ ایک اعصاب شکن سیاسی اور معاشی بحران سے دوچار ہے، اسٹاک ٹریڈنگ میکنزم آن لائن تھا، کاروبار جاری رہا، دہشتگردوں نے شہر قائد کو اپنے گھناؤنے مقاصد کے تحت ٹارگٹ کیا ہے، حملہ کے فوری بعد اسٹاک ایکسچینج کی بلڈنگ کو مکمل طور پر سیل کردیا گیا۔

ابتدائی انٹیلی جنس ذرایع کے مطابق دہشتگرد ساؤتھ زون کو ٹارگٹ کرنا چاہتے تھے، ذرایع کا کہنا تھا کہ دہشتگرد نیٹ ورک ملک بھر میں ابھی تک فعال ہے اور ان کے ہینڈلرز، سہولت کار، ماسٹر مائنڈز اور سلیپنگ سیلز شہر قائد سمیت دیگر مقامات میں ایکٹیو بتائے جاتے ہیں، مبصرین کے مطابق اسٹاک ایکسچینج پر حملے اور کراچی میں قائم چینی قونصلیٹ میں مماثلت ہے جس میں دہشتگردوں کو تباہی پھیلانے سے پہلے ناکام بنا دیا گیا تھا۔ پولیس اور رینجرز حکام نے بتایا کہ دہشتگردوں کی گاڑی بھی تحویل میں لے لی گئی ہے، ذرایع کے مطابق بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) نے حملہ کی ذمے داری قبول کی ہے۔

تفصیلات کے مطابق 4 دہشت گرد سفید رنگ کی ایک کار میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے احاطے میں داخل ہوئے، گاڑی سے نکلتے ہی انھوں نے فائرنگ شروع کردی۔ اس موقع پر عمارت کی سیکیورٹی پر تعینات گارڈز اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے انھیں روکنے کی کوشش کی، جس پر دہشت گردوں نے فائرنگ کے ساتھ ساتھ دستی بم پھینکے، دہشت گرد ٹریڈنگ ہال میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے، جہاں انھوں نے اندھا دھند فائرنگ کردی۔ فائرنگ کے تبادلے میں تمام دہشت گرد ہلاک جب کہ متعدد سیکیورٹی گارڈز جاں بحق اور زخمی ہوئے۔

حملہ آوروں نے ٹی شرٹ، جینز اور ٹراؤزر پہنے ہوئے تھے، دہشتگردوں کی جیبوں سے شناخت کی کوئی چیز نہیں نکلی، حملہ آوروں کی عمریں 22 سال سے 28 برس کے درمیان ہیں۔ دوسری جانب پولیس ذرایع کا کہنا ہے کہ 2 سے 3 مشتبہ افراد کو پولیس نے جائے وقوعہ سے گرفتار کیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے کراچی اسٹاک ایکس چینج پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی اداروں نے بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا اور حملے کو ناکام بنایا، پوری قوم کو اپنے بہادر جوانوں پر فخر ہے، شہدا کے لواحقین سے دلی ہمدردی اور زخمیوں کی صحت یابی کے لیے دعا گو ہوں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ واقعہ ملکی سلامتی اور معیشت پر حملے کے مترادف ہے، وبائی صورتحال کے پیش نظر ملک دشمن عناصر ناجائز فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزید چوکس رہنے کی ہدایت دیتے ہوئے واقعے کی مکمل تفصیلی انکوائری کر کے رپورٹ مانگ لی ہے۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے آئی جی سندھ سے واقعے کی رپورٹ طلب کرلی ہے، انھوں نے کہا کہ اسٹاک ایکسچینج پر حملہ پاکستان کی معیشت پر حملہ ہے، اسٹاک ایکسچینج کو سیکیورٹی فراہم کرنا پولیس کی ذمے داری ہے، وزیر اطلاعات سندھ ناصر حسین شاہ نے کہا کہ حملہ آوروں کے پاس بھاری اسلحہ تھا، شر پسند عناصر کو کراچی کا امن ہضم نہیں ہوتا، وزیراعلیٰ سندھ نے پورے علاقے میں سرچ آپریشن کے احکامات دیے ہیں۔

اسٹاک ایکسچینج کی عمارت کے 2 مرکزی دروازے ہیں، پہلا دروازہ آئی آئی چندریگر روڈ اور اسٹیٹ بینک سے متصل ہے، پہلے دروازے سے بیریئر سے گزرنے کے بعد صرف خصوصی گاڑیوں کو داخلے کی اجازت ہوتی ہے، دوسرا دروازہ پاکستان ریلوے کارگو سے ملا ہوا ہے، عام افراد کو ریلوے کارگو دروازے سے داخل ہونے کی اجازت ہوتی ہے۔

سینٹرل پولیس آفسCPO بھی چند فرلانگ پر موجود ہے۔ دہشتگردی کے اس واقعہ سے ٹاور، بولٹن مارکیٹ سمیت آئی آئی چندریگر روڈ پر بھگدڑ مچ گئی۔ لیکن سیکیورٹی کارروائی کے فوری نتائج سامنے آنے اور حملہ میں ملوث افراد کی ہلاکت کی تصدیق کے بعد حالات پر قابو لیا گیا، نیٹی جیٹی، آئی سی سی اور آئی آئی چندریگر روڈ کو جلد کلیئر کرنے کے بعد ٹریفک بحال کردی گئی۔ دہشتگردوں کے عزائم اور اٹیکنگ اسٹرٹیجی کے بارے میں اطلاعات ابھی تحقیقاتی مراحل میں ہیں، تاہم دہشت گردوں کی آمد کے تین راستے تھے، ایک ٹاور اور نیٹی جیٹی سے، دوسرا بولٹن مارکیٹ یا آئی آئی چندریگر روڈ اور تیسرا امکان ریلوے گودام کے مقابل آنے والی اسٹریٹ سے ہوسکتا تھا جو اولڈ ایریا کے علاقہ کا ایک راستہ ہے۔

پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا اپنا نجی سیکیورٹی نظام ہے، داخلی دروازوں پر واک تھرو گیٹس اور ہر آنے جانے والے فرد کی جامہ تلاشی لی جاتی ہے، عام طور پر بکتر بند گاڑی اسٹاک ایکسچینج کے احاطے میں مسلسل گشت کرتی رہتی ہے، احاطے پر 5 مسلح سیکیورٹی اہلکار تعینات ہوتے ہیں، 2 مرکزی دروازوں سے اسٹاک ایکسچینج کے احاطے میں مجموعی طور پر 20 اہلکار ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں۔ داخلی دروازے سے دائیں جانب انتظامیہ، سی ای او اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے دفاتر جب کہ بائیں جانب ٹریڈنگ ہال، بروکرز اور ڈائریکٹرز کے دفاتر ہیں، گراؤنڈ فلور پر مختلف بینکوں کے دفاتر ہیں، کورونا وبا کے باعث پہلے ہی اسٹاک ایکسچینج اور بینکوں میں محدود اسٹاف آرہا تھا، اکثر دفاتر اور بینک کورونا کیس مثبت آنے پر بند تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ دہشتگردی کے نیٹ ورک نے سیاسی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک اعصابی جنگ شروع کی ہے جس کا مقصد ملک میں عدم استحکام کو ہوا دینا اور اپوزیشن جماعتوں کی باہمی محاذ آرائی کو مزید شے دینا ہے، سیاسی حلقوں کے خیال میں دہشتگرد ایک خاص ٹائمنگ کے تحت شہر قائد کو ہدف پر لینا چاہتے تھے، انھیں بھس میں چنگاری بھڑکانا تھی جس میں وہ ناکام رہے، لیکن وقت کا تقاضہ ہے کہ اس واقعہ کو روایتی انداز میں بھارت اور’’ را ‘‘ کی سازش قرار دے کر داخل دفتر نہ کیا جائے کیونکہ دہشتگرد پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کراچی کو زک پہنچانا چاہتے تھے۔

ان کا حملہ پاکستان کی معیشت و سلامتی پر تھا، دہشتگرد اگر ایکسچینج کی عمارت میں داخل ہوجاتے اور ان کی لڑائی طول پکڑ جاتی تو نقصان کا اندازہ لگانا ہی مشکل ہو جاتا، دشمن چاہے بھارت ہو یا عالمی طاقتیں یا اندر کے مضطرب سیاسی دھڑے، سب نے ایک دوسرے کے ساتھ سینگ اٹکائے ہوئے ہیں، سب غصیلے بھینسےraging bull  بنے ہوئے ہیں جن کے نتھنوں سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں، ایسی صورتحال دہشتگرد نیٹ ورک اور ان کے فعال اور آزمودہ کار سہولت کاروں کے لیے سود مند ثابت ہوتی ہے، حکمرانوں کو بلوچستان کی سیاسی حساسیت کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔

فاٹا میں طالبان پھر سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں تشدد، تخریب کاری اور تصادم کی صورتحال پیدا کرنے کی کوششوں میں ہیں، پاکستان کی سلامتی کے اداروں اور پاک فوج کے افسروں اور جوانوں سے مڈبھیڑ کا کیا مقصد ہے، ارباب اختیار کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ میڈیا ملا منصور کی ریاست دشمن سرگرمیوں کے حوالہ سے ان کی پاکستان کے مختلف علاقوں میں املاک اور جائیدادوں کی تفصیل دے چکا تھا، وہ مارا گیا لیکن اس کے سہولت کار اب بھی اپنا وجود رکھتے ہیں، ان کی فعالیت کی نشاندہی دہشتگردی کے حالیہ واقعہ سے ہوتی ہے۔ دہشتگردی ایک مائنڈ سیٹ، ذہنیت اور کیفیت کا نام ہے۔

ملک میں سیاسی ہلچل ہے، تجزیہ کاروں نے حکومت سے نوشتہ دیوار پڑھنے کی استدعا کی ہے، خدارا سنجیدہ آوازیں سنی جانی چاہئیں، وقت احتساب اور خود احتسابی کا ہے۔ وزیر اعظم خوشامدیوں اور مفاد پرستوں سے دامن چھڑائیں۔ ان مانجھیوں سے دور رہے جو نیّا ڈبونے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔

وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ عوام کے پاس آج کوئی ’’چوائس‘‘ نہیں، جو کچھ کرنا یا جو انقلاب اور تبدیلی لانی ہے وہ حکومت ہی نے لانی ہے، یہ کیا کسی پاکستانی جولیس سیزر کی طرف سے آیا ہوا پیغام ہے؟یا پھر ضیاالحق یا جنرل پرویز مشرف کے انداز فکر کی کارستانی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہوچکی ہیں، اب حکمرانی صرف موجودہ حکومت کا حق ہے۔ لیکن فہمیدہ عناصر خبردار کر رہے ہیں کہ جمہوری عمل کے پیروں تلے زمین کھسک رہی ہے، کسی بیرونی طاقت اور جارح دشمن سے حکمرانوں کو اتنا خطرہ نہیں جتنا اپنوں سے ہوسکتا ہے، مگر حکومت کے لیے اب بھی وقت ہے کہ دہشتگردی کے ڈنگ سے سسٹم کو بچائے، وژن اور تدبر سے کام لے، سیاسی موسم گرما گرم ہوتا جا رہا ہے، حکمراں اپنے پیدا کردہ سیاسی منظر نامہ کے اسیر نہ بنیں، عوام کو ریلیف دیں، کورونا اور مہنگائی کو مار ڈالیں۔

غربت بڑھ گئی ہے، کورونا نے مجبوروں کو تگنی کا ناچ نچا دیا، معیشت کے بارے میں کہا جارہا کہ اسے 20 سالہ روگ لگ چکا ہے، لاکھوں افراد بیروزگار ہیں، بڑی صنعتیں نیم مردہ ہوچکی ہیں، ریونیو شارٹ فال کے تذکرے آسمانوں میں نہیں ایف بی آر کے سامنے ہو رہے ہیں، حکومت چومکھی لڑائی لڑنے پر کیوں مجبور ہے، محاذ آرائی بند ہونی چاہیے، تمام اسٹاک ہولڈرز کو مکالمہ کی دعوت دی جائے تاکہ سیاسی درجہ حرارت کم ہو۔ سیاست میں ٹھہراؤ لانے کی ضرورت ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتی حلقوں میں جاری داخلی چپقلش، مختلف الخیال اتحادیوں کی ناراضی اور مذاکرات کے بے نتیجہ ہونے اور مطالبات اور شکایات کے خاتمہ کی یقین دہانیاں عملی حقیقت کا روپ دھاریں۔ دہشتگرد تو چاہتے ہیں کہ سسٹم ڈی ریل ہو، لیکن اہل سیاست کا کام ہے کہ وہ ملک کی سلامتی کو ہر شے پر مقدم رکھیں۔

The post کراچی اسٹاک ایکسچینج پر دہشت گردوں کا حملہ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/31t0F4v
via IFTTT

بطور سزا ایکسپریس اردو

یہ صبح شام کینگروز کو کھانا کھلاتا ہے‘ گھوڑوں کو نہلاتا اور ٹہلاتا ہے‘ گالف کھیلتا ہے‘ نیشنل کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کرتا ہے ‘ مچھلیاں پکڑتا ہے اور شام کسی ریستوران‘ کسی پب میں گزار کر گھر جا کر سو جاتا ہے‘ ٹیلی ویژن اور اخبارات میں بھی اس کی بہت کم خبریں آتی ہیں‘یہ عوام میں بھی کم دکھائی دیتا ہے اور محفلوں اور پارٹیز میں بھی نظر نہیں آتا‘ یہ ایک خاموش‘ مطمئن اور مسرور زندگی گزار رہا ہے۔

یہ کون ہے؟ یہ رکی پونٹنگ ہے‘ دنیا کا بہترین کپتان اور دنیا کا شان دار بیٹسمین‘ رکی نے آسٹریلیا کو تین ورلڈ کپ دیے‘ یہ 1999ء کے ورلڈ کپ میں کھلاڑی کی حیثیت سے شامل تھا جب کہ آسٹریلیا نے 2003ء اور 2007ء کے ورلڈ کپ اس کی کپتانی میں جیتے تھے‘ کرکٹ کی تاریخ میں متواتر ورلڈ کپ جیتنے والے صرف دو کپتان گزرے ہیں‘ ویسٹ انڈیز کے کلائیو لائیڈ (1975ء اور 1979ء کے ورلڈ کپ جیتے) اور رکی پونٹنگ‘ آسٹریلیا کے اس کپتان نے کرکٹ میں متعددورلڈ ریکارڈ بھی بنائے‘ 18 سال کی عمر میں فرسٹ کلاس کرکٹ شروع کی‘ 21 سال کی عمر میں انٹرنیشنل کرکٹ کا آغاز کیا۔

168 ٹیسٹ میچ کھیلے‘ ساڑھے تیرہ ہزار اسکور بنائے‘ 375 ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں 14 ہزاررنز بنائے‘ آسٹریلیا کو بطور کپتان77 ٹیسٹ میں سے 48 ٹیسٹ جتوائے‘ کپتان کی حیثیت سے 228 ون ڈے میچز کھیلے اور 164 جیتے گویاون ڈے اور ٹیسٹ میچز ملا کر رکی پونٹنگ نے بطور کپتان کرکٹ میں سب سے زیادہ فتوحات حاصل کیں ‘آج تک کوئی کپتان ٹیسٹ اور ون ڈے میں اتنی فتوحات حاصل نہیں کر سکا چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں رکی پونٹنگ کرکٹ کی تاریخ کے شان دار کھلاڑی اور کام یاب ترین کپتان تھے لیکن یہ عظیم کھلاڑی 17 سال کی شان دار کام یابیوں کے بعد یوں چپ چاپ ریٹائر ہو جائے گا اور یہ باقی زندگی کینگروز کی پرورش‘ گھوڑوں کی مالش اور گالف کورسز میں ضایع کر دے گا‘ یہ بات عقل میں نہیں آتی‘آپ ذرا غور کیجیے رکی پونٹنگ نے تین ورلڈکپ جیتے ‘یہ متواتر دو ورلڈ کپس کا فاتح کپتان تھا۔

یہ دنیا کے مضبوط ترین اعصاب کے مالک کھلاڑیوں میں بھی شمار ہوتا ہے اور یہ جارحانہ کھیل کا ایکسپرٹ بھی تھا اور کریز سے باہر نکل کر حریف کو دن میں تارے دکھا دینا رکی پونٹنگ کا کمال تھا چناں چہ دنیا کے اتنے شان دار کھلاڑی کا کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد خاموش زندگی گزارنا ٹیلنٹ کی توہین ہے۔

پونٹنگ کو چاہیے یہ سیاسی جماعت بنائے‘ آسٹریلیا کے 80 فیصد ووٹرز ’’کرکٹ لورز‘‘ ہیں‘ یہ ان سے ووٹ لے‘ دو تہائی اکثریت حاصل کرے اور آسٹریلیا کا وزیراعظم بن جائے‘ پونٹنگ نے کیوں کہ تین ورلڈ کپ جیتے تھے اور یہ عمران خان سے بڑا کپتان تھا(اﷲ میری گستاخی معاف فرما دے) لہٰذا میرا خیال ہے پونٹنگ کو صرف وزارت عظمیٰ تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔

وزیراعظم کے ساتھ ساتھ چیف آف آرمی اسٹاف اور چیف جسٹس آف آسٹریلیا کا عہدہ بھی پونٹنگ کے پاس ہونا چاہیے لیکن افسوس پونٹنگ ایک بزدل کرکٹر ہے‘ یہ خان کی طرح بہادر نہیں ورنہ یہ بھی آج پوری دنیا کو لیڈ کر رہا ہوتا‘ یہ بھی امریکا‘ یورپی یونین اور چین کو کورونا کنٹرول کے طریقے بتا رہا ہوتا‘ اﷲ تعالیٰ ہمارے کپتان کو لمبی عمر عطا کرے‘وہ وقت جلد آئے گا جب ہمارا کپتان پوری دنیا کے کپتانوں کو بتائے گا کرکٹ میں ایک خان آیا تھا اور اس نے ثابت کر دیا تھا ملک بھی کرکٹ میچ کی طرح چلائے جا سکتے ہیں۔

ملک میں پچھلے دو دن سے فضول گفتگو اور لایعنی بحث چل رہی ہے‘ لوگ کہہ رہے ہیں عمران خان کی حکومت ختم ہو رہی ہے‘ وزیراعظم کو جان بوجھ کر ٹینشن دی جا رہی ہے تا کہ یہ خود ہی مستعفی ہو کر لندن چلے جائیں اور شاہ محمود قریشی یا اسد عمر کی سربراہی میں قومی حکومت بن جائے یا پھر پاکستان تحریک انصاف کے ناراض ارکان‘ اتحادی جماعتیں اور فیصلہ ساز قوتیں شاہد خاقان عباسی کو دوبارہ وزارت عظمیٰ کے لیے تیار کر لیں۔

میں ان خبروں کو ڈس انفارمیشن سمجھتا ہوں اور میں دل سے چاہتا ہوں عمران خان کو کم از کم 25 سال ملنے چاہییں تا کہ25 سال بعد کم از کم کوئی شخص کرکٹ کی بال اور بیٹ لے کر باہر نہ نکل سکے‘ محلے میں بھی اگر بچے کرکٹ کھیل رہے ہوں تو پورا محلہ مل کر انھیں پھینٹا لگا رہا ہو‘ دوسرا کم از کم ملک سے انصاف‘ احتساب‘ لیڈر شپ اور نیک نیتی کا بخاربھی ختم ہوجائے اور لوگ انقلاب کا راستہ دیکھنا بھی بند کر دیں‘ میں عمران خان کے دعوے سے بھی اتفاق کرتا ہوں ملک میں خان کے علاوہ کوئی چوائس نہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ اگر جلدی چلے گئے تو احتساب‘ انصاف اور ایمان دار لیڈر شپ کا کیڑا زندہ رہ جائے گا۔

یہ کیڑا اگلی حکومتوں کو بھی حکومت نہیں کرنے دے گا لہٰذا عمران خان اگر دس سال مانگتے ہیں تو آپ انھیں دس سال دے دیں اور یہ اگر 25 سال مانگتے ہیں تو اللہ سے گڑگڑا کر دعا کریں یا باری تعالیٰ آپ ان کی یہ فرمائش بھی پوری کر دیں تاکہ 25سال بعد جو حکومت آئے وہ کم از کم ٹک کر کام کر سکے‘ کوئی نیا پاکستان پرانے پاکستان کے راستے کی رکاوٹ نہ بن سکے۔

مجھے یہ بھی یقین ہے اس وقت تک ان شاء اللہ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی اور علی عظمت بھی گانے کے قابل نہیں ہوں گے لہٰذا’’ہے جذبہ جنون تو ہمت نہ ہار اور جب آئے گا عمران‘ سب کی جان‘ بنے گا نیا پاکستان‘‘ بھی نہیں ہوں گے چناں چہ حکومتیں آرام سے کام کر سکیں گی‘ میں روز دعا کرتا ہوں اﷲ تعالیٰ خان کو لمبی زندگی عنایت کرے اور یہ 25سال پاکستان پر حکمرانی کریں تاکہ یہ جی بھر کر ملک کی سمت درست کر سکیں‘ کوئی کسر نہ رہ سکے۔

ہمارے وزیراعظم کے بارے میں دوسرا پروپیگنڈا بھی غلط ہے‘ عاقبت نااندیش کہہ رہے ہیں اﷲ نے ہمیں کپتان شان دار عنایت کیا لیکن کپتان کو ٹیم اچھی نہیں ملی‘میں اس پروپیگنڈے کو کپتان کے وژن اور ٹیلنٹ کی توہین سمجھتا ہوں کیوں کہ اپنی پوری ٹیم کپتان نے خود سلیکٹ کی تھی‘ آپ پنجاب جیسے صوبے کا وزیراعلیٰ دیکھ لیجیے‘ عثمان بزدار کو کس نے سلیکٹ کیا تھا؟ یہ پاکستان کی تاریخ کے واحد وزیراعلیٰ ہیں جنھوں نے آج تک کراچی نہیں دیکھا‘ یہ وزیراعظم کی اجازت کے بغیر خواب تک نہیں دیکھتے اور آپ پورے ملک میں عمران خان کے علاوہ ان کاکوئی ایک سپورٹر دکھا دیجیے۔

کے پی کے میں محمود خان وزیراعلیٰ ہیں‘ قوم نے آج تک ان کی آواز نہیں سنی‘ یہ اڑھائی سال میں پشاور کی میٹرو مکمل نہیں کر سکے‘ یہ بھی سیدھا سادا عمران خان کا تحفہ ہیں‘ گورنر سندھ عمران اسماعیل کس کی سلیکشن ہیں‘ اسد عمر کو وزیرخزانہ کس نے بنایا تھا‘ کس نے ہٹایا تھا اور حفیظ شیخ کو کس نے ان کی جگہ مشیر خزانہ بنایا تھا؟ شبر زیدی کو ایف بی آر کا چیئرمین کس نے بنایا تھا‘ پنجاب کے تین آئی جی کس نے بنائے اور کس نے ہٹائے تھے‘ اعظم سلیمان خان کو پنجاب کا چیف سیکریٹری کس نے بنایا اور کس نے ہٹایا تھا‘ ندیم بابر کس کی مرضی سے پٹرولیم کے مشیر ہیں‘ عبدالرزاق داؤد کو کس نے تجارت اورسرمایہ کاری کا پورٹ فولیو دیا؟ جہانگیر ترین کس کی خواہش پر زراعت کی ٹاسک فورس کے چیئرمین رہے۔

ظفر مرزا کو کس نے مشیر صحت بنایا اور رضا باقر کو کس نے اسٹیٹ بینک کا گورنر بنایا‘ اعظم خان کو پرنسپل سیکریٹری بھی کس نے بنایا اور شہزاد اکبر کس کی مرضی سے اثاثے ریکوری یونٹ کے سربراہ ہیں اور حکومتی ترجمانوں کی ٹیم کون بناتا اور کون ان کو روز ٹریننگ دیتا ہے؟ کیا یہ ساری تقرریاں تعیناتیاں وزیراعظم صاحب کی نہیں ہیں۔

کیا یہ سلیکشن کوئی اور کر رہا ہے اور اگر ان کا ذمے دار کوئی اور ہے تو پھر وزیراعظم کیا کر رہے ہیں؟ میرا خیال ہے یہ ساری ٹیم وزیراعظم نے خود بنائی اور حکومت کے تمام فیصلے بھی وزیراعظم خود فرمارہے ہیں چناں چہ ہم ان سے ٹیم کا کریڈٹ لے کر گناہ گار ہو رہے ہیں‘ ہمیں اﷲ سے معافی مانگنی چاہیے اور وزیراعظم سے یہ درخواست کرنی چاہیے آپ مہربانی فرما کر علی عظمت اور عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کو بھی کابینہ میں شامل کر لیں‘ کیوں؟ کیوں کہ نئے پاکستان کی تعمیر میں ان کا اتنا ہی ہاتھ تھا جتنا تندور والے نوجوان کا تھا۔

لڑکے کا کہنا تھا ہماری گلی کی ساری لڑکیوں کے رشتے ہمارے تندور کی وجہ سے ہوئے‘ کسی نے پوچھا کیسے؟ وہ بولا محلے کے جس گھر میں بھی رشتہ دیکھنے والے آتے تھے اس گھر روٹیاں ہمارے تندور سے جاتی تھیں چناں چہ علی عظمت اور عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی دونوں وہ تندورچی ہیں جن کے تندور سے نئے پاکستان کی روٹیاں پک کر نکلی تھیں‘یہ اصل ذمے دار ہیں لہٰذا بطور سزا انھیں بھی وزیر بنایا جائے۔

The post بطور سزا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/31t0E0r
via IFTTT

ڈاکٹر مغیث شیخ—–کیا کمال کا فرد تھا ایکسپریس اردو

سوچتاہوں کہ ڈھلیں گے یہ اندھیرے کیسے

لوگ رخصت ہوئے او ر لوگ بھی کیسے کیسے

پاکستانی صحافت کے استادوں کے استاد، ممتاز دانشور، تجزیہ نگار، مصنف ،میڈیا کی تعلیم میں نئی سے نئی جہتوں کو متعارف کرانے والے عظیم راہنما ڈاکٹر مغیث الدین شیخ بھی رب کے حضور پیش ہوگئے۔ کمال کے فرد تھے ، اپنی ذات میں ایک انجمن او رادارہ۔ کوئی پچیس برسوں پر محیط تعلق تھا اور تعلق بھی ایسا جو ایک بھائی ، استاد، دوست ، سہیلی سمیت راہنما کا تھا۔ ہمیشہ آگے بڑھنے کے حوالے سے نہ صرف راہنمائی کرتے بلکہ حوصلہ بھی بڑھاتے اور کچھ نہ کچھ کرنے کے لیے مواقع بھی پیش کرتے تھے ۔

مجھے یہ اعتراف ہے کہ میں نے زندگی میں جو کچھ سیکھا ان میں بڑا کردار ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کا  تھا۔ نئے خیالات ، سوچ، فکر اور دنیا میں میڈیا سمیت سیاسی و سماجی محاذ پر ہونے والی تبدیلیوں پر ان کی گہری نظر تھی۔جو بحثیں عالمی میڈیا کے محاذ پر ہوتی تو وہ ہمیں ان مباحث کا حصہ بناتے ۔ طالب علموں اور صحافیوں کی تربیت کے لیے تواتر کے ساتھ سیمینار، مزاکرے، مجالس، مشاورتی اجلاس، مکالمہ اور کانفرسوں کا خوب اہتمام کرتے۔لاہور کے معروف اہل دانش کو قطع نظر ان کے خیالات او ر فکر کے ان سب کو وہ مہمان مقرر کے طور پر بلاتے تھے ۔

گومل یونیورسٹی ہو یا جامعہ پنجاب جہاں اپنی زندگی کی کئی دہائیاں گزار دی او ر یہ ہی جامعہ پنجاب ان کی محبت کی حیثیت رکھتی تھی او راس کی دردیوار سے ان کو عشق بھی تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سکون نہ آیا تو نئے تجربات کے لیے نجی تعلیمی اداروں میں نئے نئے تجربے کیے۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کو ایک عملی انسٹی ٹیویٹ بنانا ان کا خواب تھا اور یہ خواب اپنے ہی ہاتھوں سے مکمل کیا۔ ڈاکٹر مغیث الدین شیخ ایک روائتی استاد تھے او رنہ ہی محض نصابی کتابوں تک محدود رہ کر تعلیم دیتے تھے بلکہ جدید بنیادوں پر تعلیم دیتے تھے۔ ہزاروں طالب علم جو میڈیا یا دیگر اداروں میں ملکی یا غیر ملکی سطح پر اہم پوسٹوں پر ہیں وہ ڈاکٹر صاحب کے شاگرد ہیں۔

1976سے گومل یونیورسٹی سے اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے والے ڈاکٹر مغیث الدین کبھی ریٹائر نہیں ہوئے، اپنی زندگی کے آخری سانس تک مختلف انتظامی عہدوں کے باوجود درس تدریس سے وابستہ رہے۔ ان کی شخصیت محض پاکستان تک محدود نہ تھی بلکہ وہ عالمی شخصیت تھے اور باہر کی یونیورسٹیوں میں بھی لیکچر دیتے تھے۔ 2006 میں اقوام متحدہ نے ان کی شاندار خدمات پر ایک ایوارڈسے نوازا، جب کہ ہائر ایجوکیشن نے 2003میں ان کو بہترین استاد کا اعزاز دیا۔کئی عالمی او رملکی اداروں میں وہ بورڈ ممبر ز بھی تھے۔اسی طرح جرنلزم فورتھ اسٹیٹ ایوارڈ آف آئیو اسٹیٹ امریکا سے بھی نوازا گیا تھا ۔

ڈاکٹر مغیث شیخ ایک درس گاہ کی حیثیت رکھتے تھے او رجو بھی ان کے پاس آیا کچھ نہ کچھ لے کر ہی گیا۔ دو سال قبل انھوں نے اپنی سوانح عمری’’ ہنستی مسکراتی زندگی ‘‘ کے نام سے لکھی اور اپنے تمام تجربات و مشاہدات کو لوگوں کے سامنے پیش کردیا۔ وہ اپنے اصولوں پر کم ہی سمجھوتہ کرتے تھے۔ایک درویش صفت انسان جس کے دل میں پاکستان سے بے پناہ محبت تھی اور عالمی میڈیا میں پاکستان کے منفی تشخص سے فکر مند بھی رہتے تھے او ران کے بقول میڈیا کی جنگ میں ہم بہت پیچھے ہیں ۔

پاکستان میں میڈیا یونیورسٹی ان کا  خواب تھا ، جو ریاستی ، حکومتی اور میڈیا سے جڑ ے بڑے افراد یا اداروں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے مکمل نہ ہوسکا ۔ عملا ایک نظریاتی فرد تھے جو کسی اصول اور نظریے کو بنیاد بنا کر میڈیا کی سمت درست کرنا چاہتے تھے ، مگر وسائل کی عدم موجودگی ان کا بڑا مسئلہ تھا ۔ اگر ان کو انداز ہ ہوتا کہ کوئی ان کا دوست مالی طور پر پریشان ہے تو اس کو بلاتے اور کچھ نہ کچھ اس کے لیے عملی موقع فراہم کرتے۔

ڈاکٹر مغیث کے ساتھ اپنے تعلق پر ہمیشہ فخر تھا اورہمیشہ رہے گا کہ ان سے تعلق دوستی میں تبدیل ہوا۔ صحافتی تعلیم میں آنے سے پہلے وہ عملی صحافت کا حصہ بنے تھے اورمیرے مرحوم والد عبدالکریم عابد کے ساتھ انھوں نے کا م بھی کیا ۔ ان کو صحافت کی تعلیم کے ماتھے کا جھومر کہا جاسکتا ہے اور ان کی حیثیت صحافتی تعلیم میں ایڈورڈ سعید او ر نوم چومسکی سے کم نہ تھی۔ وہ لوگ بھی جو ڈاکٹر صاحب کے نظریات سے اتفاق نہیں بھی کرتے تھے وہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ان سے بڑا میڈیا کا استاد کوئی اور نہیں ہوسکتا۔

ان کے انتقال پر تنویر شہزاد نے اپنے کالم کی اچھی سرخی دی کہ ’’ خبروںکا گّر سکھانے والے ڈاکٹر مغیث خود خبر بن گئے۔‘‘ اب میرا تنویر شہزاد، سلمان غنی اور تاثیر مصطفے یا احمد شیخ کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ڈاکٹر مغیث کی مجالس کو کیسے بھول سکیں گے اور کون ہمیں اسی انداز میں بلایا کرے گا جیسے وہ ہمیں دعوت دیتے تھے۔کئی دہائیوں تک جامعہ پنجاب میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر مغیث کا یہ حق بنتا ہے کہ ان کو پاکستان کے اعلی سول اعزاز سے نوازا جائے اور جامعہ پنجاب کے سربراہ ڈاکٹر نیاز احمد اختر ان کے لیے میڈیا انسٹی ٹیوٹ میں ان کے نام سے چیئر او رایک بلاک مختص کردیں تو یہ ان کی خدمات کا بڑا اعتراف ہوگا۔

ہماری ایک اچھی استاد دوست منیبہ افتخارجو لاہور کالج میں میڈیا کی درس وتدریس سے وابستہ ہیں،انھوں نے چند اشعار ڈاکٹر مغیث پر کہے ہیں جو آپ کی نذر ہیں ۔

یہ تود کھ ہے کہ نہیں ہو تم

گماں ہے پاس نہیں ہو تم

تم سے اب رشتہ دعا تک سہی

کہ پہنچے جہاں کے مکیں ہو تم

کہاں سے لائیں گوھر زریں

وہ نایاب گوشہ نشیں ہو تم

تمام ہوا اعلی عہد مغیث

نہ ہوئی پّر جووہ کمی ہو تم

The post ڈاکٹر مغیث شیخ—–کیا کمال کا فرد تھا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2CKUb6z
via IFTTT

چین بھارت جھگڑا کیوں جاری رہے گا ( چوتھی قسط ) ایکسپریس اردو

ایک نسل در نسل کہاوت ہے ’’ دل کا راستہ معدے سے گذرتا ہے‘‘۔یعنی مہمان نوازی دل نرم کرتی ہے اور جب دل نرم پڑ جائیں تو بڑے سے بڑا مسئلہ بھی آسانی سے حل ہو جاتا ہے۔

بھارت اور پاکستان میں کئی عشروں سے یہ نسخہ بتایا جا رہا ہے کہ پہلے تجارت کے فروغ ، چھوٹے چھوٹے سرحدی تنازعات کے نمٹاؤ اور ویزے و سفر کی سہولتیں آسان کر کے باہمی اعتماد سازی کی جائے۔ اس کے بعد کشمیر جیسے بڑے مسئلے سلجھانے کی کوشش کی جائے تو  بہتر نتیجہ نکلے گا۔پاکستان نے اس نظریے کو مکمل طور پر کبھی تسلیم نہیں کیا۔

اس کا موقف ہے کہ پہلے اگر سب سے بڑے مسئلے کو سیدھا کر لیا جائے تو چھوٹے مسئلے خود بخود تیزی سے حل ہو جاتے ہیں۔ورنہ چھوٹے مسائل بھی بڑے مسئلے کے گرد گول گول گھومتے رہتے ہیں۔ البتہ بھارت کی تھیوری یہ رہی کہ بڑے پتھر پر ہاتھ ڈالنے سے قبل اگر اردگرد بکھرے پتھر صاف ہو جائیں تو پھر بڑا پتھر اٹھاتے وقت کسی چھوٹے پتھر سے ٹھوکر نہیں لگے گی۔

پہلے اعتماد سازی اور پھر بڑے مسائل کے حل کا یہ فارمولا چین بھارت تعلقات پر بھی لاگو کرنے کی کوشش کی گئی۔اگرچہ تجارت و اعتماد میں مسلسل اضافہ ہوا مگر ساڑھے تین ہزار کلو میٹر طویل لائن آف ایکچوئل کنٹرول کی باضابطہ حد بندی کے آثار آج بھی اتنے ہی دور ہیں جتنی چلتے گدھے کے منہ کے آگے لٹکتی ہوئی گاجر۔

انیس سو اناسی میں دونوں ممالک کے مابین سترہ سال کے وقفے سے سفارتی تعلقات بحال ہوئے۔ راجیو گاندھی نے انیس سو اٹھاسی میں چین کا دورہ کیا۔ راجیو کے بعد نرسیمہا راؤ ، اٹل بہاری واجپائی ، من موہن سنگھ بھی بیجنگ یاترا پر گئے۔ چینی وزرائے اعظم لی پنگ نے انیس سو اکیانوے میں اور وزیرِ اعظم وین جیا باؤ نے دو ہزار پانچ میں چار سو چینی سرمایہ کاروں کے ہمراہ بنگلور کا دورہ کیا۔

موجودہ چینی صدر لی پنگ دو بار بھارت آ چکے ہیں، نریندر مودی پانچ بار چین جا چکے ہیں۔پچھلے چھ برس میں دونوں رہنماؤں کی مختلف بین الاقوامی فورمز سمیت کل ملا کے گیارہ ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔کبھی مودی اور لی پنگ پینگ پر بیٹھے جھول رہے ہیں ، کبھی کشتی میں سفر کر رہے ہیں ، کبھی احمد آباد کے گاندھی آشرم میں ماتھا جوڑے بیٹھے ہیں ، کبھی کیرالہ کے کھنڈرات میں چہل قدمی کر رہے ہیں، کبھی تیسری دنیا کے صنعتی ممالک کی تنظیم برکس کے اجلاس میں لنچ کر رہے ہیں ، کبھی شنگھائی تعاون کونسل میں پہلے آپ پہلے آپ کر رہے ہیں۔چین سارک کی تنظیم میں بطور مبصر بھی شامل ہے۔مگر اس سب کے نتیجے میں کیا بنیادی سرحدی معاملات ایک انچ بھی بہتر ہوئے یا اور ابتر ہو گئے ؟

البتہ باہمی تجارت حیران کن رفتار سے آگے بڑھتی چلی گئی۔دو ہزار چار میں زمینی راستوں سے تجارت شروع ہوئی اور پہلے برس ہی دس ارب ڈالر کا مال بیچا اور خریدا گیا۔آج صورت یہ ہے کہ دو طرفہ تجارت کا حجم نوے ارب ڈالر سے اوپر ہے۔چین بھارت کا دوسرا اور بھارت چین کا دسواں بڑا اقتصادی ساجھے دار ہے۔اگر کورونا نہ ٹوٹ پڑتا اور بھارت چین سرحدی کشیدگی کا بخار اچانک ایک سو پانچ تک نہ پہنچ جاتا تو موجودہ برس کو دونوں ممالک باہمی سفارتی تعلقات کی ستہرویں سالگرہ کے طور پر شاندار طریقے سے مناتے اور باہمی تجارت کا حجم سو ارب ڈالر کے ہدف تک پہچانے کی کوشش کرتے۔

مگر آج بھارت میں سب سے بڑا ہیش ٹیگ ہے چینی اشیا کا بائیکاٹ۔تو جو مقصد میدانِ جنگ میں حاصل نہ کیا جا سکے وہ تجارتی بائیکاٹ کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے ؟ ہو بھی سکتا ہے مگر اس کیس میں شائد یہ ممکن نہ ہو۔ بھارت کو دوطرفہ تجارت میں اس وقت لگ بھگ باون ارب ڈالر کا سالانہ خسارہ ہے۔مودی حکومت کو بھی احساس ہے لہذا اس نے سرکاری طور پر تجارت معطل کرنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا البتہ آل انڈیا ٹریڈرز کنفیڈریشن جیسے نجی اداروں کے ذریعے چینی اشیاء کے بائیکاٹ کی مہم آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے تاکہ عوام کا دھیان سرحدی پٹائی کی وجوہات جاننے کے بجائے قسطوں میں خریدے چینی ٹی وی توڑنے اور صدر شی پنگ کے پتلے جلانے میں لگا رہے۔

اس وقت بھارت کی پچھتر ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کمپنیوں اور سروس سیکٹر میں لگ بھگ چھ ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری اگر منسوخ ہوتی ہے تو بھارت کو بھاری جرمانے کا سامنا ہو سکتا ہے۔ریلوے اور ٹیلی کمیونکیشن کے بڑے بڑے ٹھیکے بھی چینی کمپنیوں کے پاس ہیں یا ان ٹھیکوں میں شراکت ہے۔اگر بھارت اس مرحلے پر یہ ٹھیکے منسوخ کرتا ہے تو یہ ترقیاتی منصوبے بہت پیچھے چلے جائیں گے ، ان کی لاگت بھی بڑھتی چلی جائے گی اور شائد منسوخی کا ہرجانہ بھی دینا پڑے۔

بھارت میں دوا سازی کی صنعت میں استعمال ہونے والا ستر فیصد خام مال ، شمسی توانائی کے چوراسی فیصد کل پرزے ، ہیوی انجینرنگ اور آٹوموبیل صنعت  کے آدھے اجزا  چین سے آتے ہیں۔اگر باقی دنیا سے یہ اشیاء خریدی جائیں گی تو لاگت بڑھ جائے گی۔ لاگت بڑھے گی تو دنیا میں کون سستی چینی اشیا کے مقابلے میں مہنگی بھارتی اشیاء خریدے گا ؟

چلیے چینی کمپنیوں کا بائیکاٹ بھی کامیابی سے ہو جاتا ہے اور بھارت متبادل کے طور پر جاپانی، یورپی اور امریکی کمپنیاں ڈھونڈھ لیتا ہے۔مگر تب کیا ہو گا جب معلوم ہوگا کہ یہ کمپنیاں بھی چین میں قائم اپنی فیکٹریوں سے ہی مال تیار کراتی ہیں۔

چین پر دآرو مدار کا یہ عالم ہے کہ دیوالی کے پٹاخے، ہولی کے رنگ اور پچکاریاں اور گنیش جی کی مورتیاں تک سستی پڑنے کے سبب چین سے منگوائی جاتی ہیں۔ گجرات میں سردار ولبھ بھائی پٹیل کا تین ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے بنایا گیا کانسی کا دنیا کا سب سے بڑا مجسمہ ڈونکنگ میٹل ہینڈی کرافٹ کے چینی انجینروں کا کارنامہ ہے۔دو ہزار سترہ میں جب دوکلام کے محاذ پر چین اور بھارت کی فوجیں تہتر روز تک آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی رہیں تب بھی سردار پٹیل کے مجسمے پر کام ایک دن کے لیے بھی نہیں رکا اور دو ہزار اٹھارہ میں مکمل ہوا۔چین بالی وڈ فلموں کی یورپ اور امریکا کے بعد تیسری بڑی منڈی ہے اور اس منڈی سے بالی وڈ کو لگ بھگ پانچ ارب ڈالر کا ریونیو ملتا ہے۔

چونکہ اوپر کی سطح پر کسی کو ادراک نہیں کہ اتنی بڑی تجارت کا پہیہ اچانک سے روکنے کے قومی نقصانات کیا ہو سکتے ہیں۔ لہذا جس کے منہ میں جو آ رہا ہے اگل رہا ہے۔جیسے ایک مرکزی وزیر رام داس اتاولے نے کہا کہ دیش کی جنتا چائنیز کھانا چھوڑ دے اور چائنیز ریسٹورنٹس کا بائیکاٹ کر دے۔

اتاولے جی اس قدر اتاولے ہیں کہ کوئی انھیں سمجھا بھی نہیں سکتا کہ حضور چینی کھانے چین سے بن کے نہیں آتے بلکہ ان کھانوں میں جتنے بھی اجزا شامل ہوتے ہیں وہ سویا ساس وغیرہ کو چھوڑ کر نوے فیصد ہندوستانی ہی ہوتے ہیں، یہ کھانے لاکھوں ہندوستانی سڑک پر بیچتے ہیں اور کروڑوں لوگ سڑک پر ہی کھاتے ہیں۔لہذا چینی کھانوں کے بائیکاٹ سے چین کا توکچھ بھی نہیں بگڑے گا۔اس کی چوٹ براہِ راست عام بھارتیوں کے پیٹ پر ہی پڑے گی۔

رام داس اتاولے جیسے ہی ایک صاحب دلی میں رہتے تھے مگر مسلسل چوبیس گھنٹے ریڈیو پاکستان سنتے تھے۔کسی نے پوچھا ججمان جی کبھی آل انڈیا ریڈیو بھی سن لیا کرو۔ ججمان جی نے کہا میاں ریڈیو پاکستان میں اپنے شوق کے لیے تھوڑی بلکہ دشمن کی بجلی ضایع  کرنے کے لیے سنتا ہوں۔( تمت بالخیر)

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)

The post چین بھارت جھگڑا کیوں جاری رہے گا ( چوتھی قسط ) appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3igWYVh
via IFTTT

عوام اپنے آپ کو بدلیں ایکسپریس اردو

ایک دوسرے پر الزام تراشی ہماری سیاست میں ایک عام روٹین کی بات ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ الزام تراشیاں ہماری سیاست کی پہچان ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ الزام تراشیوں جیسے بے ہودہ کاموں میں اپنا وقت برباد کریں لیکن ہمارے سیاست کاروں کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ الزام تراشیوں کے بجائے ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا، دوسرا یہ کہ آج کل سیاست دانوں کا ایک بڑا حصہ فارغ ہے اور فارغ وقت میں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں بہترین مشغلہ سمجھا جاتا ہے۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ شہباز شریف نے کہاہے کہ ’’جناب وزیر اعظم معیشت آپ کی پالیسیوں کی وجہ تباہ ہو ئی‘‘ ان کی اس بات میں وزن ضرور ہے موصوف صرف اتنا غلط کہہ گئے کہ آپ کی پالیسیوں کی وجہ سے معیشت تباہ ہوگئی۔یہ کہنے کے بجائے یہ کہتے کہ ’’ہماری پالیسیوں کی وجہ معیشت کا بیڑا غرق ہو گیا‘‘ اگر اتنی سی سچ بات کہہ دیتے تو سارا کنفیوژن ختم ہو جاتا، لیکن سچ بولنے سے اہل سیاست کو جو بیر ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہے کہ سیاستدان عموماً سچ کو حرام کہتے ہیں اور جھوٹ سے کام چلاتے ہیں۔ جب سے شریف برادران کے ہاتھوں سے اقتدار نکل گیا ہے۔

وہ دوسروں پر الزام عائد کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کی معیشت کو پہلے ہی سے گھن لگ گیا تھا کیونکہ جو تاجدار آج ہیں انھی کے بزرگ ماضی میں حکمران رہے ہیں اور آج جو ہو رہا ہے وہ ماضی کا کیا دھرا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ شیراں دے پتر شیر کو آج کیسے خیال آگیا کہ ہماری معیشت پی ٹی آئی حکومت کی وجہ سے تباہ ہوئی۔ کاش ہمارے چھوٹے میاں یہ کہتے کہ معیشت کی خرابی کی وجہ وہ 24 ہزار ارب روپیہ ہے جو سابق کے دور میں لیا گیا۔ اس قرض کی آواز بازگشت آج ہمارے جملوں میں سنائی دے رہی ہے۔

نئی حکومت نے قرض ضرور لیا ہے لیکن اس قرض کی ایک ایک پائی ملک و ملت پر خرچ کی گئی، اس میں کسی قسم کی کوئی کرپشن نہیں کی گئی، اگر ایک پائی کی کرپشن کی جاتی تو ہماری مہربان اپوزیشن طوفان اٹھا دیتی۔ کرپشن ایک آرٹ ہے ،ایک مہارت ہے جو خاندانی اور موروثی ہوتی ہے اور خاندانی اور موروثی لوگ ہی اس آرٹ سے واقف ہوتے ہیں۔ اپوزیشن کا ایک آرٹ دنیا دیکھ رہی ہے کہ ان پر بڑے بڑے سیریس الزامات لگتے رہے، وارنٹ نکلتے رہے۔ پولیس آگئی لیکن کیا اسے آرٹ نہیں کہیں گے کہ یہ لیڈران ہر بار ہر وار سے مکھن سے بال کی طرح نکلتے رہے۔

اس وقت ملک کورونا کی بھرپور وبا کی زد میں ہے، بات صرف ہمارے ملک کی نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کی ہے۔ ہر شخص ڈرا ہوا ہے، لوگ نسلوں سے چلنے والی دشمنیاں بھول گئے ہیں اور کورونا کے مشکل خطرے سے خائف ہیں لیکن ہماری اپوزیشن کی پوری فوج نقلی حکومت کے خلاف شدید پروپیگنڈے میں جٹی ہوئی ہے۔

یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ اپوزیشن کو یہ خوف لاحق ہے کہ حکومت کی کارکردگی نیک نامی کے خلاف ابھی سے محاذ بنایا جائے ورنہ حکومت اس مضبوطی سے پیر جما لے گی کہ اس کو ہٹانا مشکل ہو جائے گا۔ یہی وہ ڈر ہے جو چھوٹے میاں کو پریشان کیے ہوئے ہے۔

ہمارے عوام آج جس غربت کے سمندر میں غوطے کھا رہے ہیں، وہ وہی 24 ہزار ارب ڈالر کا وہ قرض ہے جس کا حساب، حساب دوستاں اردل کہلاتا ہے اگر کسی ملک میں قانون اور انصاف فعال اور غیر جانبدار ہو تو اشرافیہ کو دیوار کے پیچھے رہنا پڑتا ہے۔ ترقی یافتہ مغربی ملکوں میں بہت ساری خرابیاں ہو سکتی ہیں لیکن انھوں نے قانون اور انصاف کی حرمت کو برقرار رکھا ہوا ہے غالباً یہی وجہ ہے کہ عام آدمی قانون اور انصاف پر یقین رکھتا ہے اور عوام بڑی حد تک گھر کے اندر اور گھر کے باہر مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔ بات چل رہی تھی اپوزیشن کی اور بیچ میں نکل آئی قانون اور انصاف کی اس اتفاق کو کیا کہیں؟

انصاف کے بغیر ملک ایک قبرستان اور قانون کے بغیر معاشرہ بھیڑوں کی ایک بھیڑ ہے، آج بلاشبہ معاشروں میں انصاف بھی ہے اور قانون بھی لیکن ہمارا اجتماعی المیہ یہ ہے کہ عوام انصاف اور قانون سے نابلد ہیں، نتیجہ یہ کہ استاد لوگ ان پڑھ لوگوں سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں، مظلوم اور انصاف کے درمیان ایک فریق وکیل ہے۔ ہمارے جیسے پسماندہ ملکوں میں وکیل کی حیثیت کا تعین بہت مشکل ہے، اول تو ہمارے وکلا کی فیس اتنی ہوتی ہے کہ عام آدمی صرف وکیل کو دیکھ تو سکتا ہے اس کی خدمات سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتا۔ اسے غریب آدمی کے ساتھ کھلی ناانصافی ہی کہہ سکتے ہیں۔

بہرحال بات چلی تھی اپوزیشن لیڈرکے اس ارشاد سے کہ ’’وزیر اعظم معیشت آپ کی پالیسیوں سے تباہ ہوگئی۔‘‘ یہ ایک بہت ہی دلچسپ معاملہ ہے، حکومت کو آئے مشکل سے دو سال ہو رہے ہیں، اس دوران نہ کوئی قحط آیا نہ کوئی معاشی تباہی۔ ہمیشہ کی طرح اونچ نیچ کے ساتھ معیشت کی گاڑی چلتی رہی، عوام غریب تھے، غریب ہیں اور غریب رہیں گے جب تک کرپٹ لیڈر اقتدار میں آتے رہیں گے۔ سوال یہ ہے کہ انھیں اقتدار میں آنے سے کیسے روکا جائے، اس کا آسان طریقہ ہے کہ عوام اپنے حقوق کو پہچانیں اور اپنے ووٹ کا درست استعمال کریں۔

The post عوام اپنے آپ کو بدلیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3gcGzj6
via IFTTT

اسٹیل ملزکی نجکاری ایکسپریس اردو

پاکستان اسٹیل ملز کو سفید ہاتھی قرار دیکر وزیر اعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس کی نجکاری کی منظوری دے دی گئی ۔اسٹیل ملز کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی مختلف حکومتیں، مختلف ممالک کے تعاون سے پاکستان میں فولادی کارخانہ قائم کرنے کی کوشش کرتی رہیں ، لیکن کوئی ملک اس سلسلہ میں پاکستان کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں تھا، بلا آخر انیس سواڑسٹھ میں روس نے پاکستان میں مکمل فولادی کارخانہ لگانے کا معاہدہ کیا جس نے انیس سو پچانوے میں پیداوار کا آغاز کیا۔

اس ادارے نے سن دو ہزار انیس تک مختلف ٹیکسز کی مد میں ایک سو دس بلین روپے قومی خزانے میں جمع کرائے، پھر اربوں روپے کمانے والا یہ ادارہ خسارے میں جانا شروع ہوا اور بتدریج مکمل طور پر تبا ہی وبربادی تک پہنچ گیا۔

اسٹیل ملز کے قیام سے علاقہ میں صنعتی و تجارتی سر گرمیوں میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا تھا۔ اس انڈسٹریل زون میں تیزی سے صنعتوں کا قیام عمل میں آیا۔ تیس مربع کلو میڑ پر محیط اسٹیل میں قائم کارخانوں کے علاوہ اس میں اس کا اپنا بجلی گھر جس سے اضافی بجلی بھی پیدا ہوتی تھی ، اس کی ہائی پراڈکٹ سے رنگ اور سیمنٹ تیار کیا جاتا تھا۔

اس کاا پنا نہری نظام تھا، پورٹ قاسم پر اپنی جیٹیاں تھیں ۔ پورٹ سے اسٹیل ملز تک سامان کی تر سیل کے لیے ایشیا کی سب سے بری کنوربیلٹ اور ان لوڈر تھے ۔ اسٹیل ٹاؤن اور گلشن حدید کی آبادیاںتھیں جہاں مساجد، امام بارگاہیں، چرچ ، قبرستان ، کرکٹ اور ہاکی اسٹیڈیم ، آسٹروٹرف، مارکیٹیں، کلینکس، اسپتال اور سوبیڈ کا اسپتال، ہیلی پیڈ، اسکولز ، کالجز، کیڈیٹ کالج اور ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجینئرنگ سے لے کر ماسٹر آف سائنس کی ڈگری تک کی تعلیم کا سلسلہ تھا۔ اس کے میٹلرجیکل ٹریننگ سینٹر کو بین الااقوامی اداروں کی جانب سے سینٹر آف ایکسیلنس اور اس ادارے کو دنیا کا صاف ترین کار خانہ قرار دیا گیا تھا۔

ادارے میں جھیلوں، پارکوں سے لے کر ریشم کے کپڑوں اور فروٹ فارم تک موجود تھا ،اس سے سبزیاں اور پھل ملازمین کے علاوہ مارکیٹ میں بھی فراہم کی جاتی تھیں۔ کنٹری ٹاور اور رشین بیچ جیسے تفریحی مقامات تھے۔ گویا یہ دیو ہیکل فولادی کار خانہ ایک صنعتی ’ٹائی ٹینک ‘ تھا جو کسی حادثہ کا نہیں بلکہ سازشوں کا شکار ہوا ہے۔

ادارے سے بلواسطہ طور پر پچیس ہزار خاندانوں جب کہ بلا واسطہ طورپر لاکھوں خاندانوں کا روز گار وابستہ تھا۔ یہ ادارہ اربوں روپوں کا زرمبادلہ بچا تا تھا اور اربوں ٹیکس کی مد میں ادا کر تا تھا۔ فولاد سازی کی صنعت کو ’’ مدر انڈسٹری ‘‘ کے طور پر مانا جا تا ہے جس سے دیگر صنعتیں پھلتی پھولتی ہیں۔ یہ دفاع او ر صنعتی ترقی کی ضامن ہوتی ہے اور ملکی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لیے دنیا کے دیگر ممالک کی حکومتیں اپنے زیر انتظام ہی اسٹیل ملز چلاتی ہیں، انھیں سبسڈی دیتی ہیں۔

ماہرین اسٹیل ملز کی بندش کو معاشی غلامی کا اقدام قرار دے رہے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ حقائق سے نا آشنا ہی اس اقدام کی حمایت کر سکتے ہیں۔ اسی حکومتی اقدام کی مختلف سطحوں پر مذمت اوربیان بازی کا سلسلہ جاری ہے۔ سندھ حکومت کے وزیر سعید غنی نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کی نظر اربوں روپے کی اراضی پر ہے جو سندھ کی ہے۔

یہ زمین ہتھیانے نہیں دینگے۔ نیشنل لیبر فیڈریشن نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسٹیل ملز اس کے ملازمین اور مسائل کے حوالے سے غلط تصویر دکھائی جا رہی ہے۔ ریاست واضح کرے کہ ادارہ کس کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ سامنے کوئی اور ہوگا اور پس پردہ کوئی اور مالک بن جائے گا۔ نجی پارٹنر شپ ہے تو بتایا جائے کس کو دیا جا رہا ہے۔

ملز بند کرنے سے ملازمین ہی نہیں بلکہ سیکڑوںکنٹریکٹرز، ڈیلرز، سپلائیزر اور دیگر شراکت کاروں کو بھی نقصان پہنچے گا۔ ادارے کی بحالی کے سلسلہ میں ملازمین و اسٹیک ہولڈر سے مشاورت کی جائے جسٹس (ر) وجہیہ الدین کا کہنا ہے کہ حکومت ملک کی قسمت اور وسائل سے کھیل رہی ہے ۔ حکومت عدالتی ریمارکس کا غلط استعمال اور اس کے احکامات کی غلط تشریح و تعبیرکر رہی ہے۔

آئین کے آرٹیکل ایک سو ترپن کے تحت ملز کے لیے سی سی آئی میں پالیسی وضع کی جانی چاہیے لیکن حکومت نے اس کے بر عکس اکنامک کو آرڈینیشن کمیٹی میں فیصلہ کرکے کابینہ سے منظوری لے کر ایک ایگزیکیوٹیو آرڈر کے ذریعہ ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا ،لہذا اس غیر قانونی اقدام کے خلاف عدالت عالیہ نے ملازمین کی دائر کردہ آئینی درخواست کو قبول کرتے ہوئے وفاقی حکومت، وزارت پیداوار اور اٹارنی  جنرل و دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تیس جون کو عدالت طلب کر لیا ہے۔

اسٹیل ملز کے معاملہ میں حکومتی ارکان کے بیانا ت میں تضادات ہیں ۔ وزیر صنعت و پیداوار نے اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ملازمین کی گولڈن ہینڈ شیک کے لیے اٹھارہ ارب مختص کیے گئے، انھیں اوسطاً تیس لاکھ روپے ملے گے ، ایسے بھی ہیں جن کو ستر اور اسی لاکھ بھی ملیں گے، وہ ایک ہی نشست میں ملازمین کی تعداد کبھی ساڑھے آٹھ ہزار اور کبھی نو ہزار بتاتے ہیں جب کہ آفیشیلی یہ تعداد نو ہزار تین سو پچاس بتائی گئی ہے۔

اگر اٹھارہ ارب اس تعداد میں تقسیم کر دیا جائے تو فی کس اوسطاً انیس لاکھ پچیس ہزار کے قریب بنتی ہے جو گریڈ ایک سے لے کر گریڈ اکیس کے درمیان تقسیم ہوگی جب کہ گزشتہ پانچ  برسوں میں ریٹائر ہو جانے یا مرجانے والے چھ ہزار سے زائد ملازمین کے اربوں روپے کے واجبات اربوں روپے میں بنتے ہیں لہذا یہ اسکیم ملازمین کی جبری برطرفی کے سوا کچھ ثابت نہ ہوگی۔

اسٹیل ملز کے ریفرنڈم اور دھرنوں کے موقعوں پر خود عمران خان، شاہ محمود قریشی، عارف علوی، جہانگیر ترین اور اسد عمر نے ایک سے زائد مرتبہ اسٹیل ملز کا دورہ کرکے ملازمین کو یقین دلایا تھا کہ اسٹیل ملز کو پھر سے بحال کرینگے اور مزدورو کے حقوق کا تحفظ کریں گے۔ اسدعمر نے تو یہاں تک کہا دیا تھا کہ اگر ہماری حکومت نے ایسا نہ کیا تو وہ اسکو چھوڑ کر مزدوروں کے ساتھ کھڑے ہونگے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انھوں نے حکومت کے اسٹیل ملز بند کرنے کے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا۔ ارباب اقدار کو ملک و قوم اور ادارے کے ملازمین کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے د عوؤں کا پاس کرنا چاہیے۔

The post اسٹیل ملزکی نجکاری appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2CUiYoZ
via IFTTT

مافیا جیت گیا یا عمران خان ! ایکسپریس اردو

کورونا نے نظام زندگی یکسر بدل دیا ہے،  بہت سی حکومتوں اور افراد نے زندگی گزارنے کے اصول ہی بدل ڈالے ہیں۔الغرض کچھ نے سبق سیکھ لیا ہے، کچھ سیکھنے کے مراحل سے گزر رہے ہیں اور کچھ اب بھی اختیارات، منافقت، ناجائز منافع خوری اور ظلم و بربربیت کی دوڑ میں سبقت لے جانے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ یہی طبقہ ’’مافیا‘‘ کہلاتا ہے، اس مافیا کو زیادہ سے زیادہ مال بنانے کی لت لگ گئی ہے، اور یہ لت شاید قبر میں جا کر ہی ختم ہو!بقول شاعر

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب

موت کیا ہے انھیں اجزا کا پریشاں ہونا

پٹرول سستا ہوا، تو شارٹ کر دیاگیا، پھر ہفتے کو یکمشت25روپے مہنگا ہوا تو ٹینکر کے ٹینکر سڑکوں پر دوڑنے لگے۔ حکومت نے ادویات سستی کرنے کے لیے کمپنیوں کو نوٹسز جاری کیے تو ادویات مارکیٹ سے غائب ، پھر جب قیمتیں بڑھا دی گئیں تو انھی میڈیکل اسٹورز پر ادویات کے ڈھیر لگے نظر آئے۔چینی مہنگی ہونے کا نوٹس لیا گیا، مگر زائد قیمت چینی پر ہی اکتفا کرکے چینی مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے، آٹا وگندم مہنگی ہوئی، نتیجے میں مہنگی قیمتوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا، پھر حکومت نے چکن کے ریٹ فکس کرنے کی کوشش کی ، تو 200والا چکن 300میں سیل ہونے لگا۔

یہی حالات پیپر، بجلی، گیس اور دیگر اشیائے ضروریہ کے ساتھ ہوئے۔ سوشل میڈیا کو دیکھ لیجیے،  آپ کو ہر شخص اس حوالے سے ڈسکس کرتا نظر آئے گا کہ کیا پاکستان میں ’’مافیا‘‘ کے پنجے اس قدر مضبوط ہو گئے ہیں کہ کوئی حکومت بھی ان سے نمٹنے سے قاصر ہے۔ جب کہ وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ مافیا کا پیچھا چھوڑ دوں تو آج ہی سب اچھا ہو جائے گا۔

خان صاحب ! یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب آپ نے شوگر مافیا، ادویات مافیا، بلڈر مافیا ، پٹرولیم مافیا ، گندم مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا اور دیگر مافیا ز کو آج تک سزا نہیں دی تو کوئی کیسے سمجھے کہ آپ ان مافیاز کو ’’نتھ ‘‘ ڈالنے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔ بات تو اُس وقت سمجھ آئے کہ چند ایک بڑے لٹیروں سے آپ نے اربوں روپے ریکور کر لیے ہیں جب کہ چند ایک کے خلاف آپ ثبوت اکٹھے کر رہے ہیں۔ لیکن فی الحال تو یہی لگ رہا ہے کہ جیسے مافیا چاہتا ہے اس ملک میں ویسا ہی سب کچھ ہو رہا ہے۔

میں نے ابھی پچھلے دنوں پٹرول بحران پر کالم لکھا تھا، اُس میں میں نے لکھا تھا کہ اگر حکومت پٹرول بحران پر قابو پانے میں ناکام رہی تو اس کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑے گا، خیر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، لہٰذامسئلہ یہ نہیں ہے کہ عوام مہنگا تیل نہیں خریدیں گے، بلکہ مسئلہ یہ ہے اگر حکومت واقعی  دباؤ میں آکر ایسے فیصلے مسلط کرے گی تو عوامی ردعمل آنا فطری بات ہے۔ اور پھر یہ سوال اُٹھنا کہ حکومت کی رٹ کہاں ہے؟ یقینی ہوگا ۔

میرے خیال میں حکومت قائم کرلینا اصل کمال نہیں بلکہ اصل چیز حکومتی رٹ کا قیام ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ پھر ان کے دفاع میں عجیب و غریب تاویلیں پیش بھی کرتی ہے کہ یہ تمام فیصلے عوام کے وسیع تر مفاد میں کیے گئے ہیں۔

سوال اب یہ ہے کہ کیا ان مافیاز اور حکومت میں سے کون جیت رہا ہے اور کون ہا ررہا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہم اگر اپنے ارد گرد نظر دوڑا لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ فی الوقت بجلی کی بے وقت کی لوڈ شیڈنگ ، بجلی کے بڑھتے ہوئے بلز، ڈاکٹروں کی بڑھتی فیسیں، اسپتالوں کے مہنگے بلز، تعلیمی اداروں کی فیسیں، صاف پینے کے پانی کی سپلائی، سڑک کی صفائی اور استرکاری ،امن وامان کے قیام، الغرض تمام سرکاری ادارے جو سرکار کے نام پر عوام سے رشوت لے کر کام کرتے ہیں سبھی سانپ کی طرح پھن پھیلائے عوام کو ڈسنے کے لیے تیار ہیں۔ لگ تو یوں رہا ہے کہ جیسے حکومت توآئی لیکن آتے ہی سب بھول گئی۔ کرپشن کے خلاف اقدامات تواُٹھائے گئے مگر ریکور کچھ نہ ہوا۔اُلٹا اربوں روپے سیکیورٹی اور پیشیوں کی مد میں خرچ کر دیے گئے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت اپنے مقاصد سے ہٹ گئی ۔ شاعر نے کیا خوب ان حالات کی تشریح کی ہے کہ

عجیب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں

لگا کے زخم، نمک سے مساج کرتے ہیں

بہرکیف جب تک حکومت کی رٹ بحال نہیں ہوتی آپ کچھ بھی کرنے سے قاصررہیں گے، حد تو یہ ہے کہ موجودہ حکومت، گیس،آٹا اور دیگر لوازمات میں سبسڈی دے کر بھی نان بائیوں کو کنٹرول کرنے سے قاصر رہی۔ انھوں نے جب چاہا زائد قیمتیں وصول کرنا شروع کردیں۔

اس طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ لیکن کوالٹی کنٹرول اور پرائس کنٹرول کے ادارے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں اور سب کچھ اچھا ہے کی گردان کرتے رہے ہیں۔اب ایسا بھی نہیں ہے کہ اس حوالے سے ادارے موجود نہیں ہیں اس وقت سی سی پی یعنی مسابقتی کمیشن آف پاکستان اس معاملہ میں غیر فعال ہو گیا ۔ یہ وہ سرکاری ادارہ ہے جس کی سربراہی کے لیے آئے دن مختلف نام منظر عام پر آتے رہتے ہیں اور جو اسٹیٹ بینک کے بعد دوسرے نمبر پر معاشی کنٹرول کا ادارہ بنتا ہے۔ افسوس کہ کوئی کچھ نہیں کرتا۔

ہمیں یاد ہے کہ جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو اُن کی جانب سے یہ اکثر سننے میں آتا تھا کہ یہ سب مافیاز ہیں جن کے خلاف میں حکومت میں آنے کے بعد کارروائی کروں گا لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان اپنے ماضی کے بیانیے سے ہٹتے نظر آرہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان پر آٹا، چینی اور پٹرول بحران کے بعد یہ الزام لگنا شروع ہو گیا تھا کہ ان کی اپنی کابینہ میں مافیا بیٹھا ہوا ہے، جس پر انھوں نے مافیا کے لفظ کو تھوڑا فینسی کرتے ہوئے ان کے لیے ’’ایلیٹ کارٹل ‘‘ کا لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے، یعنی اس سے مراد وہ کاروباری حضرات ہیں جو اپنا اکٹھ کر کے ملک میں کسی چیز کی قلت پیدا کر دیتے ہیں۔منافع خور وں کا چہرہ تب عیاں ہوتا ہے جب حکومت کسی بھی چیز کی قیمتوں میں کمی کرتی ہے اور فورا بعد اس چیز کی قلت پیدا کردی جاتی ہے۔

الغرض کہنا تو نہیں چاہیے لیکن آج ایک بار پھر یہی کہوں گا کہ عمران خان صاحب آپ اس عوام کے لیے آخری اُمید ہیں، اگر اس بار اُمید ٹوٹتی ہے تو یقین مانیں کچھ باقی نہیں رہے گا۔ہر بحران کے بعد کہا جاتا ہے کہ مافیا جیت گیا ،کپتان ہار گیا۔یہ بات عمران خان کی نااہلی کو بھی واضح کرتی ہے۔

لہٰذاان تمام بحرانوں سے چھٹکارہ پانے کا صرف یہی حل ہے کہ آپ کسی ایک بحران کو پکڑ لیں، اُسے حل کریں، عوام کے سامنے نمونہ بنا کر پیش کریں، اُس کے بعد دوسرا بحران پکڑیںاُسے حل کریں، پھر حل ہونے والے بحرانوں کے آگے بند باندھ دیں۔ اسی طرح تمام مسائل کو حل کرنے میں عوام بھی آپ کے ساتھ ہوں گے اور اس طرح یقینا آپ جیت بھی جائیں گے!

The post مافیا جیت گیا یا عمران خان ! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3eJBb6A
via IFTTT

ہم کہاں اور کتنا غلط ہیں۔۔۔ ’کورونا‘ ہمیں سب بتا رہا ہے۔۔۔! ایکسپریس اردو

ڈراما ’اندھیرا اجالا‘ پاکستان ٹیلی وژن کے سنہری دور کا کام یاب ترین سیریل تھا، جس میں ہر ایک کردار گویا امر ہوگیا۔ قوی خان اس ڈرامے میں ایک اعلیٰ اور دبنگ پولیس افسر کے کردار میں نظر آتے ہیں، جب کہ ان کے ماتحت کا کردار معروف اداکار جمیل فخری نے ادا کیا۔ سب انسپکٹر کے روپ میں عابد بٹ تھے، جب کہ سب سے مقبول ہونے والا کردار ’’حوالدار‘‘ عرفان کھوسٹ نے اس خوبی سے نبھایا کہ اس کردار پر فلمیں بھی بنیں۔ ڈرامے میں حوالدار عرفان کھوسٹ کے بھی ماتحت دو کانسٹیبل ہوا کرتے تھے۔

’اندھیرا اجالا‘ کے مصنف یونس جاوید نے اس ڈرامے میں پاکستانی معاشرے کے ایک عمومی رویے کی بھرپور عکاسی کی ہے۔ ایک بڑا عہدے دار اور طاقت وَر کس طرح کسی بھی ناکامی کا ملبہ اپنے ماتحت پر ڈال کر ڈانٹ ڈپٹ کرتا ہے اور خود کو بڑے طمطراق سے بری الذمہ قرار دے دیتا ہے، دوسری طرف بے چارہ کمزور آہ بھی نہیں کرپاتا۔

’اندھیرا اجالا‘ کی ہر قسط میں ایک نئی کہانی ہوتی تھی، پولیس کے کردار پوری سیریل میں ایک ہی رہے، البتہ ہر قسط میں کہانی کی مناسبت سے نئے کردار اْس قسط کا حصہ بنتے، لیکن ایک ’منظر‘ بار بار دُہرایا جاتا کہ کسی کیس کو حل کرنے میں ناکامی پر پولیس افسر قوی خان اپنے ماتحت کو سخت سست کہتے اور جھاڑ پلاتے۔

قوی خان کے کمرے سے نکلنے ہی قوی خان سارا غصہ سب انسپکٹر عابد بٹ پر نکالتے اور انہیں نااہلی کا طعنہ دیتے، بٹ یہ دباؤ اور غصہ اپنے ماتحت حوالدار عرفان کھوسٹ پر اتارتے۔ سب انسپکٹر عابد بٹ کے جاتے ہی عرفان کھوسٹ غصیلی آنکھوں اور سخت لہجے میں دونوں کانسٹیبل کی خبر لیتے، یوں ناکامی اور نااہلی کا جو غصہ اعلیٰ سطح افسر سے شروع ہوتا ہوا سب سے نچلے عہدے والے ملازم پر ختم ہوتا۔

’اندھیرا اجالا‘ اور اس کا یہ منظر پنجاب کی وزیر ڈاکٹر یاسمین راشد کے ایک بیان سے یاد آگیا اور کیوں نہ آئے کہ سیاست بھی ایک طرح کا ڈراما ہی ہے، جذبات سے بھرپور، سمع خراش دعوؤں سے رونے دھونے کی اداکاری تک، یہاں سارا مرچ مسالا دست یاب ہے۔ مملکت خداداد پاکستان میں اب تک وفاق، صوبے، مقامی حکومتیں، سیاست دان، اور بیوروکریسی اپنی اپنی ناکامیوں کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالتے ہیں، لیکن پہلی بار ایک صوبائی وزیر نے حکومتی ناقص کارکردگی کا ذمہ دار عوام یعنی کہ دوسرے الفاظ می اپنے ہی ووٹر کو قرار دے دیا۔

ہوا یوں کہ ایک نجی چینل کے ’مذاکرے‘ میں پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے کورونا پر قابو پانے میں حکومتی ناکامی پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں بڑی بے بسی اس کا ذمہ دار عوام کو قرار دے دیا۔ بات یہیں ختم ہو جاتی تو بھی شاید ٹھیک تھا، لیکن اچھی شہرت کی حامل خاتون وزیر نے ’لاہوریوں‘ کو عجیب مخلوق اور جاہل تک قرار دینے میں ذرا دیر نہ لگائی۔

ڈاکٹر یاسمین راشد نے شکوہ کیا کہ لاہور کے باسیوں نے وبا کو سنجیدہ نہیں لیا اور وہ حفاظتی اقدام پر عمل کرنے کو قطعی تیار نہیں، جس کی وجہ سے کورونا وائرس لاہور میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ وفاق ایس اوپیز پر عمل درآمد کرانے کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر ڈالتی ہے اور صوبائی وزیر نے عوام پر ملبہ ڈال کر اپنی جان چھڑالی ہے۔ عوامی اور سماجی حلقوں کی جانب سے یاسمین راشد کے بیان پر شدید تنقید کی گئی ہے۔

کورونا کے آغاز سے ہی صوبہ پنجاب حفاظتی اقدام کا فیصلہ لینے کے حوالے سے وفاق کے زیر اثر نظر آیا، جب کہ ’وفاق حکومت‘ تذبذب کا شکار، چناں چہ پنجاب کی جانب سے اسکولوں کی بندش، بازاروں کو بند کرنا، صحت کے مراکز کے قیام اور لاک ڈاؤن کے اقدام ’صوبۂ سندھ‘ کے بعد کیے گئے، لیکن جب وفاق نے نرمی دکھائی، تو پنجاب نے پابندیاں اْٹھانا شروع کر دیں۔ سپریم کورٹ نے بھی جب حکومت سندھ کو عید پر لاک ڈاؤن ختم کرنے کا کہا، تو کاروبار کھولنے اور پابندیاں ہٹانے کے لیے حکومت پنجاب کی مثال دی۔

صوبائی وزیر یاسمین راشد شاید یہ بھول گئیں کہ پنجاب اور وفاق میں ان ہی کی جماعت کی حکمرانی ہے اور حکومتی رٹ کو برقرار رکھنے کے لیے جس طرح دیگر قوانین پر طوہاً و کرہاً عمل درآمد کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے، اسی طرح حفاظتی اقدام یا ’ایس او پیز‘ پر عمل کروانا بھی ان ہی کا ذمہ ہے۔ اب اگر کوئی غیر لائسنس یافتہ ڈرائیور فٹ پاتھ پر گاڑی چڑھا کر راہ گیروں کو کچل دے تو کیا حکومت ڈرائیور کو ’’جاہل‘‘ کہہ کر چپ ہوجائے گی اور کیا قانونی تقاضے پورے نہیں کرے گی؟

ڈاکٹر یاسمین راشد یہ بات بھی بھول گئیں کہ لاہور سے منتخب ہونے والے اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی کا تعلق انہی کی جماعت سے ہی ہے، یعنی اس شہر میں ایک بڑی تعداد ان کے اپنے ووٹرز کی ہے۔۔۔ انہیں یہ بھی دھیان نہیں رہا کہ کنٹینر سے ’عوام‘ کی جیسی تربیت کی گئی تھی تو پھر صاحب بقول شخصے ’یہ تو ہوگا۔۔۔!‘ جو فصل بوئی ہے اسے خود اپنے ہاتھوں سے کاٹنا ہوگی۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ’جاہل عوام‘ کو علم کے زیور سے آراستہ کرنا حکومت کی ہی ذمہ داری ہے۔ امید تھی کہ یاسمین راشد کو عوام کے جاہل ہونے کے ادراک کے بعد حکومت پنجاب تعلیم کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرے گی اور صحت سے بھی زیادہ بجٹ تعلیم کے لیے ہوگا اور وفاقی وزیر شفقت محمود ضرور اس ’جاہل عوام‘ کو قاعدہ قانون پڑھانے کا کوئی انتظام کریں گے، لیکن ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے۔۔۔

کورونا سے متعلق حفاظتی اقدام پر عمل درآمد کرانا، حکومت کی ذمہ داری ہے، جسے پورا نہ کرنے کا ملبہ عوام پر ڈال دینا فرسٹریشن نکالنے کے ہی مترادف سمجھا جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کورونا اور ’ایس اوپیز‘ پر عمل درآمد کرانے کے لیے قانون سازی کی جائے اور خلاف ورزی کے مرتکب شہریوں کے لیے سخت سے سخت سزائیں رکھی جائیں، اسی طرح ’ایس او پیز‘ پر عمل درآمد نہ کروا پانے پر متعلقہ کمشنر اور ’ایس ایچ او‘ کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔

عالمی ادارۂ صحت اور بین الاقوامی طور جن ممالک کو کورونا وبا پر قابو پالینے کی وجہ سے داد و تحسین مل رہی ہے ان میں نیوزی لینڈ، تائیوان، بھارتی  ریاست کیرالہ، فن لینڈ، ڈنمارک، آئس لینڈ اور جرمنی شامل ہیں۔ ان ممالک نے یا تو وبا پر قابو پالیا ہے یا پھر وائرس کے پھیلاؤ روکنے میں کام یاب ہوگئے ہیں۔ ان کام یاب ممالک کی وبا کے دوران ترجیحات اور پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے، تو دو قدریں مشترک اور نہایت نمایاں نظر آتی ہیں۔ وہ ہے بروقت سخت لاک ڈاؤن اور بلند شرح تعلیم۔

نیوزی لینڈ کی آبادی 50 لاکھ کے لگ بھگ ہے، یہ دو بڑے جزیروں پر مشتمل ہے اور شاید جغرافیے کی وجہ سے بھی اسے کورونا وبا پر قابو پانے میں مدد ملی ہو۔ اس خوب صورت ملک کی بالغوں میں شرح تعلیم 99 فی صد ہے۔ 2 کروڑ سے زائد آبادی والا تائیوان کورونا وائرس کی جائے پیدائش چین کا پڑوسی ملک ہے اور اس کی شرح تعلیم بھی بالغوں میں 98 فی صد ہے۔ اسی طرح ڈنمارک، فن لینڈ وغیرہ کی شرح تعلیم بھی کافی بہتر ہے۔ شرح تعلیم کے ساتھ ساتھ ان ممالک نے کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے بھی بروقت اقدامات اْٹھائے۔

مذکورہ ممالک کو کورونا وبا پر قابو پانے میں آسانی اس لیے بھی رہی کیوں کہ ان ممالک کی آبادی کم ہے اور ان کا جغرافیہ ایسا تھا کہ یہ خود کو دنیا سے الگ کر سکتے تھے، اس کے برعکس امریکا، برطانیہ اور اٹلی وغیرہ میں شرح تعلیم تو اچھی ہے، لیکن گنجان آباد ہونے کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا رہا ہے اور ترقی یافتہ ممالک خود کو دنیا سے آسانی سے ’منقطع‘ بھی نہیں کر سکتے، یہ مشکلات اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ممالک نے کورونا کے خطرے کا ادراک کرنے میں تاخیر کر دی اور سخت لاک ڈاؤن میں تذبذب کا شکار رہے۔

کورونا وبا سے یہ بات آشکار ہوگئی کہ دنیا کا ’’گلوبل ولیج‘‘ ہونا ایک طرح سے نقصان دہ بھی ہے، کس طرح یہ وائرس انسانوں کے ہی بنائے ہوئے ذرایع آمد و رفت میں بغیر ٹکٹ لیے سفر کرتا ہوا ایک سے دوسرے ملک پہنچا اور انسانوں کو اپنا شکار بناتا چلا گیا۔ دنیا کے تمام ہی بڑے تجارتی شہر اس وائرس کی زد میں آگئے ہیں، تاہم دیہی آبادی یا قدرے کم گنجان آبادی والے علاقے محفوظ رہے ہیں۔

تیزی سے آباد ہوتے ہوئے کنکریٹ کے جنگل، بلند عمارتیں اور تمام تر تجارتی سرگرمیاں مخصوص شہروں میں ہونے کے نقصانات کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ بڑے اور گنجان آباد شہر وبا کے پھیلاؤ کا مرکز ہیں اور اسے قابو میں کرنا بھی مشکل ہے اس لیے دنیا کو شہری منصوبہ بندی کے اصولوں کا جائزہ لینا ہوگا، کیوں کہ ایک آباد علاقے سے دوسرے آباد علاقے کے درمیان ’فاصلہ‘ رکھنا ناگزیر ہوگیا ہے۔

تصویر بہت واضح ہوتی جا رہی ہے، کم شرح تعلیم، زیادہ آبادی، گلوبل ویلیج اور بروقت اقدامات کا فقدان کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے میں ناکامی کے بڑے اسباب ہیں۔ کسی بھی وبا پر قابو پانا ہے، تو سب سے پہلے شرح تعلیم میں اضافہ کریں، اپنے ملک کی عوام کو جاہل ہونے کا طعنہ دینے کے بہ جائے آگہی دیں، تاکہ عوام سازش اور حقیقی خطرے میں بہ آّسانی فرق کر سکیں۔ ملک کے بڑے شہروں میں ہی ساری آبادی کو ٹھونسنے کے بہ جائے، نئے شہر بسائے جائیں اور چھوٹے چھوٹے بلاک میں تقسیم کیا جائے، جسے کسی بھی ہنگامی صورت حال میں بہ آسانی کنٹرول کیا جا سکے اور وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں آسانی ہو۔

عوام کی غیر سنجیدگی اپنی جگہ لیکن عالمی قوتوں نے خوب رنگ میں بھنگ ڈالا ہے۔ ایک مرتبہ پھر صدر بننے کی شدید خواہش میں مبتلا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے الزام لگایا کہ چین نے انہیں صدارتی انتخاب ہروانے کے لیے یہ مہلک وائرس پھیلایا۔ چلیے چین اور امریکا میں تو ہمیشہ سے ہی کھینچا تانی رہی ہے، لیکن یہ کیا کہ پیلے بالوں والے ڈونلڈ ٹرمپ ’عالمی ادارہ صحت‘ پر بھی چڑھ دوڑے اور اس اہم اور کورونا وائرس پر مستند سمجھے جانے والے ادارے پر چین کی پشت پناہی کا الزام عائد کر کے فنڈز ہی روک دیے گئے۔

خود کو ’عالمی سپرمین‘ سمجھنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک سے ایک بچکانہ حرکت کر کے اس پورے معاملے کو مشکوک بنا دیا ہے اور آج کل پوری طرح اس کوشش میں جتے ہوئے ہیں، جو ملک بھی کووڈ 19 کی ویکسین بنانے کام یاب ہو جائے، تو وہ ویکسین کا فارمولا اور اس کی مارکیٹ کے حقوق امریکا کو دے۔ جرمنی کی دوا ساز کمپنی ’کیور ویک‘ ایک ویکسین کی تیاری کے قریب پہنچ چکا ہے، لیکن ویکسین کے آنے سے قبل ہی امریکی صدر نے کمپنی کو دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں۔ امریکی صدر چاہتے ہیں کہ یہ ویکسین صرف امریکا کے لیے ہو۔

اس سے قبل چین نے بھی امریکا پر ویکسین کی تیاری میں رخنے ڈالنے کا الزام عائد کیا تھا۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی نے عالمی قوتوں سے ویکسین کی تیاری میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لیے بیان بازی سے گریز کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انسانی زندگی کے معاملے کو اتنا پیچیدہ اور متنازع نہ بنایا جائے۔ عالمی قوتوں کے اس غیر سنجیدہ رویے نے کورونا کو عوام کی نظر میں مشکوک بنا دیا اور سازشی نظریوں کو تقویت ملی۔

پاکستان میں بھی کورونا وبا کے ابتدا سے ہی وفاق اور صوبے کسی ایک مشترکہ اور جامع پالیسی پر یک جا نہ ہو سکے۔ ساری بحث لاک ڈاؤن، سخت لاک ڈاؤن، نرم لاک ڈاؤن، لاک ڈاؤن نہیں کرفیو، کرفیو نما لاک ڈاؤن، اسمارٹ لاک ڈاؤن اور اب خیر سے سلیکٹڈ لاک ڈاؤن کے درمیان ہی گھومتی رہی۔ عید پر ملک بھر میں ٹرینیں کھولنے اور پورے ہفتے رات گئے تک شاپنگ سینٹرز کھولنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سے وبا بہت تیزی سے پھیلنا شروع ہوئی اور اب پاکستان میں گزشتہ ایک ہفتے سے روزانہ کی بنیاد پر 100 سے افراد اس مہلک وبا کے باعث جان سے گزر رہے ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ وفاق، صوبے، مقامی حکومتیں، بیورو کریسی اور عوام ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھیرانے کے بہ جائے اپنے اپنے حصے کا کام کریں۔ قومیں اجتماعیت سے بنتی ہیں اور اتحاد سے مضبوط ہوتی ہیں اور ان کے درمیان اتحاد اور اتفاق سے برکت ہوتی ہے۔ یہ وبا سارے اختلافات اور الزامات بھلا کر ایک ہو جانے کا موقع ہے اور عقل مند افراد ایسے مواقع ضایع نہیں کرتے۔

The post ہم کہاں اور کتنا غلط ہیں۔۔۔ ’کورونا‘ ہمیں سب بتا رہا ہے۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/31vENWe
via IFTTT

رات بکھر رہی ہے۔۔۔! ایکسپریس اردو

موت و زیست کی کشمکش سے صحت یاب فرد کا اگر چند دنوں بعد انتقال ہو جائے، تو یہ موت  بہت گہرے سوالات چھوڑ کر جا رہی ہے۔ بے تحاشا دوائیں یہاں آزمائی گئیں۔ دوائیں جو  محفوظ نہ تھیں، ان کا بازار میں  چرچا ہوا، وہ وافر مقدار میں اندھا دھند دی گئیں۔ نتائج ناپنے کی اب اخلاقی جرأت ہے، نہ حوصلہ ہے اور نہ ہی اہلیت۔ خوش قسمتی سے  سفاک تاریخ اور جدید دور کسی کا لحاظ نہیں کرتا۔  سب کچھ عیاں کر دے گا۔ کتنے ’کووِیڈ‘ کا شکار ہوئے۔ کتنے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی جہالت سے موت  سے ہم کنار ہوئے اور کتنی بے بس و لاچار ہو کر مارے گئے۔

بس چند دنوں کی بات ہے۔ لاتعداد پیغام ہوں گے۔ سینکڑوں اسباق ہوں گے۔ دوسری طرف قدرت توازن قائم رکھتی ہے۔ وائرس ہو، بیکٹیریا ہو، جانور ہو یا انسان۔۔۔ بد لتے وقت کے ساتھ کائنات کی ہر چیز رونما ہونے والی تبدیلی اور اس کے اثرات کو سموتی ہے اور دوسری طرف تاریخ سے شغف رکھنے والے قارئین کے لیے واضح نشانیاں چھوڑ دیتی ہے۔ ہر عہد گویا اپنے وقت میں قید ہوتا ہے اور گزرتے موسم کے ساتھ ساتھ ساتھ قد نکالتا ہے یا زمین میں دھنستا ہے۔

وائرس کے اندر تبدیلیاں یا تو اسے مہلک سے مہلک تر بناتی ہیں یا مہلک سے بے ضرر۔ ساکت رہنے کی تمنا اس کی بے بسی ہے۔ ویسے بھی جو وائرس زیادہ مہلک ہوں، ان میں پھیلنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے اور جن میں پھیلنے کی صلاحیت زیادہ ہو ان میں نقصان پہنچانے کی کم ہوتی ہے۔ سادہ سا اصول ہے مرض میں مبتلا انسان اگر وائرس کے زیر اثر آ جائے تو بیمار اپنی بیماری کی وجہ سے محدود ہوجاتا ہے چلنے  پھرنے میں صحت مند افراد کے مقابلے میں کمزور پڑ جاتا ہے اور اس کی محدود سرگرمیاں وائرس کو پھیلنے کے مواقع کم کر دیتی ہیں۔

جب کہ صحت مند افراد اگر کھانستے نہ ہوں تو وائرس کے پھیلنے میں مدد نہیں کر سکتے۔ وائرس کو باہر آنے کے لیے  متاثرہ افراد کا چھینکنا، کھانسنا یا بولنا ضروری ہے۔۔۔ تنفسی نظام کے وائرس اس انسانی جلد بال یا ناخن سے نہیں جھڑتے۔ اعدادوشمار واضح طور پر نشاندہی کررہے ہیں کہ کوویڈ 19 کے پھیلنے کی رفتار بہت تیز ہے، جب کہ اس کے زہر کی حدود اپنے محدود دائرے کے خاکے کو تقریبا ابھار چکی ہے۔ طبی دنیا اس بات سے واقف ہے کہ انسان وائرس سے نہیں، بلکہ وائرس کے نتیجے میں انسانی جسم کے دفاعی نظام کے جارحانہ بے قابو اور بے ہنگم پھیلے ہوئے رد عمل کی وجہ سے نقصان دوچار ہوتا ہے۔

کچھ مضبوط اشارے انسانی عقل و دانش کی توجہ تحقیق کی طرف مرکوز کرتے ہیں، تاکہ کسی متوقع جینیاتی عوامل کے کردار کو پڑھا اور سمجھا جا سکے، جو وائرس کے پھیلاؤ، بیماری کی شدت کے ساتھ ساتھ رنگ و نسل اور جغرافیے کی بنیاد پر امتیاز کو آشکار کر سکے۔ یہ تعجب خیز نہیں کہ صحت عامہ کی سہولتیں کم یا پہنچ سے باہر ہوں، تو اپنا گہرا اور بد ترین اثر چھوڑتی ہیں۔

کووِیڈ کے مختلف وائرس انسانوں کے ’مہمان‘ ہوتے ہیں اور میزبان فرد کے اندر اپنے ’خاندان‘ کے مخصوص وائرس کو پہچاننا ابھی تک عملاً  خاطرخواہ بے یقینی رکھتا ہے۔ لیبارٹری نتائج میں سچے اور جھوٹے مثبت اور سچے اور جھوٹے منفی نتائج کی جانچ پڑتال متعدد  بار اس کی حساسیت، انفرادیت، تکرار اور درستگی کے لیے کی جاتی ہے، تب جاکر  ٹیسٹ قابل بھروسا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ایک بہت بڑا حصہ اندازے کی بنیاد پر قائم ہے اور سائنسی اعدادوشمار اس پر یقین دہانی کی وہ چھتری فراہم نہیں کر رہے، جو کسی ٹیسٹنگ کے لیے ضروری ہوتی ہے۔

وائرس میں تغیرات یا جینیاتی تبدیلی پر جاری بحث در اصل ارتقائی نظریات کی پیچیدگیوں  کو درستگی سے بیان کرنے کی اہلیت سے عاری ہے۔ ذرایع اِبلاغ پر سائنسی تبصروں سے امڈتا ہوا سیلاب گمراہ کن اور غیر ضروری خوف پھیلانے کی وجہ بن رہا ہے۔ جس طرح قیامت کبیرہ کا نقشہ کھینچا جارہا ہے، وہ بچوں کی کتاب میں لکھے گئے کھیل سے زیادہ قریب اور انسانی پختہ شعور سے دور نظر آتا ہے۔ سمجھنے کے لیے  یاد دہانی کیجیے۔ تاریخ کے اوراق چند برس پہلے بالکل اسی طرح  ’زیکا وائرس‘ کے تغییرات کو ہول ناک مستقبل سے تشبیہ دے رہے تھے۔

چوہوں اور تجربہ گاہوں کے نتائج پر پھیلائے گئے خوف کو توڑنے میں ایک سال کا عرصہ لگ گیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے تصورات کو نئی شکل دیں۔ وائرس کے اندر جینیاتی تبدیلی نہ اجنبی ہے اور نہ تباہ کن بلکہ ہماری سمجھ اور دانش مندی کی توجہ ابھرتے ہوئے حقائق کی طرف مبذول کر رہی ہے، جو کہ بلا  کسی شک کے انسان کو وائرس پر حاوی ہوتا دیکھ رہی ہے۔ غیر محتاط تبصرے نہ صرف سائنسی اہلیت پر سوال اٹھا رہے ہیں بلکہ عام انسان میں افسردگی پھیلانے کی وجہ بھی بن رہے ہیں۔ سائنس میں ’افسانہ نگاری‘ لطف نہیں، بلکہ کراہیت کا باعث ہوتی ہے۔۔۔!

پوری دنیا میں نئی صبح کا بے تاب سورج دھیرے دھیرے افق پر ابھر رہا ہے۔ خالی سڑکوں پر گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ بازار ہو یا کھیل کا میدان زندگی کی رونق لوٹ رہی ہے۔ دل بوجھل ضرور مگر امنگ بند ہونٹوں کے ساتھ سوال کر رہے ہیں کہ ’سماجی فاصلے‘ کی ’عمر‘ کیا ہوگی۔۔۔؟ میری خوشیوں، میری صحت کے تحفظ پر اس کا ڈاکا کتنا شدید ہوگا۔ آنے والے کل کی آزمائش کیا کیا زخم دے گی۔۔۔؟ جینے کی خاطر میں کتنی بار مروں گا۔۔۔؟ کروٹیں لیتا ہوا یہ انسانی صحت کا بحران پاکستان میں وحشت کی نشانی بن چکا ہے۔۔۔؟ لوگ پیاروں کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔۔۔؟

پیارے اپنے پیاروں کی جمع پونجی پر اپنی صحت خاموش سے قربان کرنا چاہتے ہیں۔ اسپتال سے گزریے تو معذرت کے ساتھ وہ کسی مقتل کا منظر پیش کرتا ہے۔۔۔ اعتماد چکنا چور ہے۔۔۔ انتشار نمو پا رہا ہے۔۔۔ صرف حکومت ہی نہیں احساس بھی منجمد ہے۔۔۔ ’سماجی فاصلے‘ کے نظریے کس کروٹ لینے والے ہیں، وہ تاریخ کا سب سے ہول ناک انجام ہوگا۔ موت کے بیوپار میں یا صحت کے بازار میں کشش کے ساتھ قوت بھی بڑھ رہی ہے۔ سرور ہے کہ کم نہیں ہوتا۔ ادھر خمار ہے ہے کہ بیدار نہیں ہوتا۔ آج اگر درد کی حدود طے کر دی گئی، جینے کی قیمت طے کر دی گئی، تو  کووِیڈ 19 صرف ایک چنگاری ثابت ہوگا۔

عزیزو! عالم گیر وبا  کے خون آلود بحران میں کیا ہم نے سیکھ لیا کہ انتظامی، سیاسی اور سائنسی راہ نما کیسے عوام کے لیے حصارِ تحفظ بناتے ہیں، مختلف موضوعات کی جداگانی اور ان کے مابین عدم یک سانیت آپس میں کیسے بحث و مباحثہ کر کے فیصلے تک پہنچتے ہیں۔ وقت بھی کم ہے، انصاف، برابری، آزادی اظہار رائے، بحث و مباحثہ، بازاری حدود کا تعین، سماجی و معاشرتی ترقی کے لیے تباہی سے فرار کا آخری راستہ ہے۔ اللہ حامی و ناصر ہو۔

The post رات بکھر رہی ہے۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3g7Xxiz
via IFTTT

’آن لائن‘ کلاسیں: طلبا کی بڑی تعداد کی محرومی کا خدشہ ہے ایکسپریس اردو

کورونا نے جہاں دنیا بھر کے معمولات کو روک لگا کے رکھ دیا ہے، وہاں تعلیمی ماحول کوبھی بالکل بدل دیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں روزانہ حاضری، کلاس روم،  اساتذہ کے روبرو لیکچر کے بہ جائے اب معاملہ ’اسکرین‘ کا محتاج ہو گیا ہے۔۔۔ ’کورونا‘ کے سبب چوں کہ فروری سے ہمارے تعلیمی اداروں میں معمول کی تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں، چناں چہ  اب اس خسارے کو ’آن لائن‘ ذریعہ تعلیم سے پاٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔۔۔

ابتداً یہ سلسلہ نجی یونیورسٹیوں سے شروع ہوا، اور اب اسکولوں میں بھی اس حوالے سے عمل درآمد ہونے لگا ہے۔ ’آن لائن‘ اسباق کی مدد سے پاکستان سمیت دنیا بھر کے تعلیمی اداروں نے تعلیمی کیلینڈر کو آگے بڑھانے کے لیے کورونا لاک ڈاؤن کو شکست دی ہے، لیکن اس رجحان نے تعلیمی ماہرین میں بہت سارے خدشات کو جنم دیا ہے۔ ان میں ’یونیسکو‘ اور ’یونیسیف‘ کے افراد بھی شامل ہیں۔ اگرچہ کچھ لوگوں نے چھوٹے بچوں کے لیے انٹرنیٹ کی نمائش کے امکانی خطرات کے بارے میں خطرے کی گھنٹی ظاہر کی ہے۔

ان افراد کا کہنا ہے کہ وہ خوف زدہ ہیں کہ ڈیجیٹل شفٹ معاشی طور پر پس ماندہ طلبا کو الگ کر سکتا ہے۔ جنھیں ڈیجیٹل اسباق کی ضرورت ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔کورونا وائرس کے نتیجے میں دنیا بھر کے اسکول بند ہیں۔ جس کی وجہ سے 120 کروڑ سے زائد بچے کلاس روم سے باہر ہیں۔ اس وجہ سے ای لرننگ (E-LEARNING) کے مخصوص عروج کے ساتھ، تعلیم ڈرامائی طور پر تبدیل ہو گئی ہے۔ جس کے تحت ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر تعلیم دی جا رہی ہے۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ آن لائن سیکھنے میں معلومات کی برقراری کو بڑھاوا دیا گیا ہے۔

15اپریل 2020ء کو اقوامِ متحدہ کے بچوں کے فنڈ یونیسیف (UNICEF) نے کہا ہے کہ کورونامیں لاک ڈاؤن کے دوران ان کی زندگیوں میں تیزی سے آن لائن تعلیم کے اضافے کے باعث لاکھوں بچوں کو نقصان کا خطرہ لاحق ہے ۔کورونا کی وجہ سے بچوں کی زندگی صرف اپنے گھروں اور اسکرینوں تک سکڑ کر رہ گئی ہے۔

یونیسیف کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہینریٹافور (HENREITTA FORE) نے کہا کہ ہمیں بچوں کو اس نئی حقیقت کو تسلیم کرنے میں مدد کرنی چاہیے۔ 21 اپریل 2020ء کو اقوام متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم یونیسکو (UNESCO) نے اپنی جاری کی گئی ایک رپورٹ میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’نصاب سیکھنے والوں کی تعداد میں سے نصف  طلبا کورونا جیسی وبا کی وجہ سے تعلیم سے دور ہیں۔ جنھیں گھروں میں سہولت میسر نہیں اور 43 فی صد طلبا ایسے ہیں، جن کے گھروں میں انٹرنیٹ موجود نہیں ہے، وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب ڈیجیٹل بنیاد فاصلاتی تعلیم کا استعمال بہت سے ممالک میں تعلیمی تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔‘‘

’آن لائن‘ کلاس سے مراد ایسی کلاس ہے، جس میں طلبا کسی بھی ’کمیونیکیشن سافٹ ویئر‘ کے ذریعے اپنے اساتذہ سے منسلک ہوتے ہیں اور درس و تدریس کا عمل سر انجام پاتا ہے۔ ’آن لائن‘ کلاسوں میں سب سے بڑی رکاوٹ ’ای لرننگ‘ سے نا آشنائی ہے۔ تعلیمی اداروں نے ’ای لرننگ‘ ای باکس (یا ٹیسکٹ باکس)،  ای ریڈر،  ای سکولنگ،  اور موبائل لرننگ پر کوئی توجہ نہیں دی، کیوں کہ ہمارا واسطہ اس سے پہلے کبھی کسی وبا سے نہیں پڑا تھا ۔ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس طرح تعلیم کے دروازے اساتذہ اورطلبا کے لیے بند ہو جائیں گے۔

آن لائن کلاسوں میں سب سے بڑا مسئلہ بچوں کا ہے ، جو لگاتار چھے سے سات گھنٹے آن لائن کلاسوں کے لیے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، یا موبائل کا استعمال کرتے رہتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ ساتھ والدین بھی ان ’آن لائن‘ کلاسوں سے بے حد پریشان ہیں۔ اکثروالدین کا کہنا ہے کہ ہمیں بھی ’آن لائن‘ کلاسوں کا طریقہ کار سمجھ میں نہیں آتا، تو ہم اپنے چھوٹے بچوں کو کیسے پڑھائیں گے۔

اس طرح گھنٹوں کے حساب سے ’لیپ ٹاپ‘ کے سامنے بیٹھ کر ہمارے بچوں کی آنکھوں پر بھی برا  اثر پڑ رہا ہے۔ ان میں سر میں درد اور کمر میں درد وغیرہ کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ اور اب حالیہ دنوں میں شروع ہونے والا بجلی کی عدم دست یابی کا مسئلہ سب سے زیادہ پریشان کن ہے۔ حکومت اور اسکولوں کو مل کے ایسی پالیسی بنانی چاہیے، جس سے بچوں کی تعلیم کا ہرج نہ ہو اور بچے احتیاطی تدابیر کے تحت باقاعدہ اسکول جا کے ہی اپنی تعلیم مکملکر سکیں۔

The post ’آن لائن‘ کلاسیں: طلبا کی بڑی تعداد کی محرومی کا خدشہ ہے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2YK8vVJ
via IFTTT

نہ جھکنے والا، نہ بکنے والا، اصول پسند کپتان ایکسپریس اردو

تاریخ کا دھارا بدلنے والی شخصیات کے حالات زندگی میں ایک قدر مشترک پائی جاتی ہے اور وہ ہے اصولوں کی خاطر کٹ جانا۔ یہی وہ ادائے دلبری ہے جس کی جلد یا بدیر پہچان امریکی جیلوں میں بند میلکم ایکس، افریقہ میں نسلی امتیاز کے خلاف لڑنے والے نیلسن منڈیلا، سوشلسٹ چی گویرا اور پاکستان کے واحد صادق اور امین سیاستدان عمران خان کو عوام اور اقوام عالم کی نظروں میں خاص بنا دیتی ہے۔

اگرچہ یہ تمام رہنما حالات کی چکی میں یکساں طور پستے رہے ہیں، لیکن… اول الذکر تمام رہنماؤں اور عمران خان میں بڑا فرق فی البدیہہ فن تقریر کا ہے۔ جو کام بڑے بڑے لیڈر شبانہ روز محنت کے باوجود نہ کرسکے کپتان نے وہ کام محض دو تقریروں سے کر دکھایا۔ پہلی تقریر مینار پاکستان کے مقام پر کی۔ ابھی کپتان اسٹیج سے نیچے نہیں اترے تھے کہ قوم اپنے مسیحا کو پہچان گئی۔ جو جس حال میں تھا، کوئی بیٹھا تھا کھڑا، زمین پر تھا خلا میں، نیند میں یا بیداری کی حالت میں، وہیں فیصلہ کر بیٹھا کہ ’’ڈٹ کے کھڑا ہے اب کپتان، نیا بنے گا پاکستان‘‘۔

دوسرا موقع وہ تھا جب کپتان نے اقوام متحدہ میں عالمی ضمیر پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ اب ایک طرف اصول پسند کھڑے تھے جو کپتان کی چشم کشا تقریر سن کر عالمی جبر کو مسترد کرچکے تھے اور دوسری طرف رواتی ڈھیٹ ٹولہ تھا جو کسی طور بھی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ یعنی تقریر کرنے کے چند گھنٹوں بعد کپتان خلا میں گھور رہا تھا کہ تالیاں بجانے والے کہاں گئے؟

مسندِ اختیار سنبھالنے کے بعد خان نے ایک مرتبہ پھر اپنے عزم کا اعادہ کیا کہ وہ خدا نخواستہ خودکشی کرلے گا لیکن بیرونی قرضے نہیں لے گا۔ وہ تو آئی ایم ایف، اماراتی اور سعودی شہزادے نے ضد کرکے چند ٹکے کپتان کی زنبیل میں ڈال دیے۔ خان صاحب مہمانوں کو ایئرپورٹ چھوڑنے گئے تو پیسے گاڑی کی ڈگی میں رکھ لیے کہ مناسب موقع دیکھ کر واپس کردیں گے۔ لیکن خان صاحب کی بطور ڈرائیور عمدہ کارکردگی پر مہمانوں نے اتنی تعریف کی کہ پیسے لوٹانا بھول گئے۔

اگلے مرحلے میں خان صاحب کرپٹ اپوزیشن پر چڑھ دوڑے۔ جن لوگوں نے منی لانڈرنگ اور بدعنوانیوں سے ملک کو کنگال کر رکھا تھا انہیں ایسی سخت سزائیں دی کہ دنیا لرز اٹھی۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق شریف خاندان اور پیپلز پارٹی کے بڑوں سے ایک ایک ٹکے کا حساب لیا جاچکا ہے۔ ہزاروں ارب ڈالر کی ریکوری سے ملکی خزانے لبا لب بھر چکے ہیں، جبکہ بدعنوان سیاست دان بہادر شاہ ظفر کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ یہ خان صاحب کی اصول پسندی ہی تھی جس نے سسلین مافیا پر ہاتھ ڈالا، وگرنہ ستر سال ہر کوئی ان عناصر کے خلاف کارروائی کرنے سے کتراتا ہی نہیں بلکہ باقاعدہ گھبراتا تھا۔

اس دوران خان صاحب نے غیر تو ایک طرف اپنوں کو بھی نہیں بخشا۔ کئی ایک وزرا کو برطرف کیا گیا۔ اگرچہ وہ وزیر ایک ایک کرکے واپس آ چکے ہیں لیکن جس دن ٹی وی دیکھ کر خان صاحب کو ایسے وزرا کی واپسی کا پتہ چلے گا، ان پر زمین تنگ ہوجائے گی۔

کورونا کی وبا نے سر اٹھایا تو ساتھ ہی منافع خور حرکت میں آگئے۔ پہلے مارکیٹ سے ماسک غائب ہوئے، آہستہ آہستہ کافر وائرس کے علاج میں مفید ادویات ناپید ہوتی گئیں۔ لیکن داد دینا پڑے گی خان صاحب اور حکومتی مشینری کو جو ان کے ماتھے پر ذرا سی شکنیں پڑی ہوں۔ ٹریک ریکارڈ اچھا تھا لہٰذا اس بار بھی ریاستی مال سود سمیت واپس لے لیا گیا اور مفاد پرست ٹولہ اپنے سیاہ کرتوتوں کے باعث کالے پانیوں کی جیلوں میں سڑ رہا ہے۔

آٹا اور چینی بحران پر جس خوش اسلوبی سے قابو پایا گیا وہ تو پوری دنیا کےلیے مثال ہے۔ عمران خان کے دیرینہ ساتھی اور پی ٹی آئی کے بچھڑے ہوئے کنبے کو جہاز کے ذریعے ملانے والے ترین صاحب تو شرم کے مارے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نامعلوم مقام پر منتقل ہوچکے ہیں۔

سب سے آخر میں ذکر ہوجائے اس چھکے کا جو خان صاحب نے پٹرول مافیا کے خلاف لگایا ہے۔ یہ چھکا بھارت کے خلاف جاوید میانداد کے ہاتھوں شارجہ کے گراؤنڈ میں چیتن شرما کو لگنے والے چھکے سے بھی بڑا ہے۔ خان صاحب نے پاکستانی عوام کو ایشیا میں سب سے سستی پٹرولیم مصنوعات کا تحفہ دیا۔ لیکن مافیا نے مارکیٹ میں تیل کی مصنوعی قلت پیدا کردی۔ اب خان صاحب نے اس مافیا کے دانت کھٹے کرنے کی ٹھان لی۔ تمام کمپنیوں کا ریکارڈ منگوایا گیا، سخت آرڈر جاری کیے گئے اور پھر سزا کے طور پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پچیس سے تیس فیصد کا اضافہ کردیا گیا۔ یہ ایسا دور اندیشی پر مبنی فیصلہ تھا جس نے پٹرول پمپ مالکان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا ہے۔ اصولی فیصلے کی وجہ سے ملک کے کونے کونے میں نایاب ہونے والا پٹرول یکایک وافر مقدار میں موجود ہے۔

مشیروں کا کہنا ہے کہ خان صاحب آئندہ بھی اپنے اصولوں پر کاربند رہیں گے اور ملکی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونے دیں گے۔ اس لیے ہمیں کہنا پڑے گا کہ بے شک پہلے دن کی طرح عمران خان ڈٹ کے کھڑا ہے۔ پرانے پاکستان کی لاقانونیت کی تمام روایات دم توڑتی جارہی ہیں اور نئے پاکستان کی منزل بہت قریب ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post نہ جھکنے والا، نہ بکنے والا، اصول پسند کپتان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3dJ5eKn
via IFTTT

Sunday, June 28, 2020

ترک ڈرامہ سیریل’’ارطغرل غازی اب ہفتے میں پانچ دن نشر کیا جائے گا

سجل علی کا مریم حسین کی نئی لگژری لان کلیکشن کے لیے فوٹو شوٹ

رابعہ بٹ کی اپنی شاعری مداحوں کے ساتھ شیئر

ٹک ٹاک سٹار اریکا حق اپنے اوپر ہونے والی حالیہ تنقید پر بول پڑیں

ریما خان نے ریمبو کے گھر میں بنائی گئی پرانی تصویر شیئر کر دی

زارا نور عباس کاعاصم جوفا کی نئی شفیون کلیکشن ’’نوبہار‘‘ کے لیے فوٹو شوٹ

پاکستانی فرم " نٹ شیل کانفرنسز" کے محمد اظفر احسن بین الاقوامی کمپنی آر وائی ٹی ایس گلوبل کے بورڈ ممبر تعینات

کٹلری کی برآمدات میں مئی کے دوران 117.11 فیصد اضافہ ہوا، ادارہ برائے شماریات

ْبجلی پیدا کرنے والی مشینری کی درآمدات میں مئی کے دوران 11.95 فیصد کمی ہوئی، ادارہ برائے شماریات

تولیہ کی برآمدات میں مئی کے دوران 42.59 فیصد کمی ہوئی،ادارہ برائے شماریات

جاپان کے بیڈ منٹن سٹار کینٹو موموٹا کار کے حادثے کے بعد مکمل طور پر صحت یاب ہوگئے

اداکارہ مارگوٹ رابی اور کرسٹینا ہڈسن فلم ’’ پائیریٹس آف کیرابین‘‘ سلسلے کی نئی فلم میں کاسٹ

اداکارہ صبا قمر بھی ٹک ٹاکر اور یو ٹیوبر اریکا کے حق میں بول پڑی

نِدا یاسر کی اپنے خاندان کے ساتھ نئی تصاویر انسٹا گرام پر شیئر

زارا نور عباس کی انسٹا گرام ساڑھیاں پہنے اپنی نئی تصاویر انسٹا گرام پر پوسٹ

اقراء عزیز کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا،اداکارہ صحیفہ جبار

ہالی وڈ کی لائیو ایکشن فلم’’مُولًان‘‘کی ریلیز کی تاریخ تیسری مرتبہ تبدیل

پائیداراقتصادی ترقی، معیشت کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ناگزیر ایکسپریس اردو

 اسلام آباد:  مالی سال 2019-20 میں معیشت کی کارکردگی زوال پذیر رہی ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے 9  ماہ میں معاشی شرح نمو منفی 0.4 فیصد رہی۔  قبل ازیں مالی سال 2018-19  میں بھی معاشی شرح نمو محض 1.9  فیصد رہی تھی۔ معاشی شرح نمو میں مسلسل  کمی ملکی معیشت اور حکومت کے لیے کوئی مثبت علامت نہیں ہے۔ بہرحال رواں مالی سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گذشتہ دو سال کی نسبت کم ہوکر جی ڈی پی کے 1.1فیصد پر آگیا ہے۔

مالی سال 2009سے 2013  تک پاکستان پیپلزپارٹی کے دورحکومت میں اوسط  شرح نمو 2.8 فیصد اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ  جی ڈی پی کا 2.2 فیصد رہا۔  پی پی پی کی حکومت نے آئی ایم ایف سے 7.6 بلین ڈالر کا قرضہ پروگرام لیا۔ بعدازاں 2013 میں حکومت سنبھالنے والی پاکستان مسلم لیگ ن نے بھی آئی ایم ایف سے قرض لیا مگر  اس نے مالیاتی پالیسیوں پر توجہ دی اور  مارکیٹ میں ڈالرز کی منتقلی کے ذریعے شرح مبادلہ مستحکم رکھی۔

اس کے نتیجے میں شرح نمو میں اضافہ ہوا تاہم کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی بڑھ گیا اسی طرح موجودہ حکومت نے بھی اقتدار  سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد آئی ایم ایف سے رجوع کرلیا۔ دیگر دونوں سیاسی جماعتوں کی طرح  پی ٹی آئی نے بھی نمو بڑھانے سے پہلے استحکام لانے کا انتخاب کیا چنانچہ مالی سال 2018-19 میں شرح نمو 1.9 فیصد پھر رواں مالی سال میں منفی 0.4 فیصد پر آگئی۔

تاہم کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بھی کمی آئی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ شرح مبادلہ مارکیٹ فورسز پر چھوڑ دی گئی تھی جس کے نتیجے میں دو سال کے دوران روپے کی قدر تیزی سے گراوٹ کا شکار ہوئی۔ تمام اقدامات کے باوجود رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 4فیصد رہا جوسال کے اختتام تک متوقع طور پر  9.1 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے قومی بچتوں کو بڑھانا اور معیشت کی پیداوار صلاحیت میں اضافہ ناگزیر ہے، بصورت دیگر ہر حکومت نمو اور استحکام میں سے کسی ایک کے انتخاب پر مجبور ہوگی اور اس کا نتیجہ گزرے برسوں سے مختلف نہیں ہوگا۔

The post پائیداراقتصادی ترقی، معیشت کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ناگزیر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2AbSxKm
via IFTTT

کشمیریوں پر ظلم کے باوجود بھارت کا انتخاب اقوام متحدہ کی غیرجانبداری پر سوالیہ نشان !! ایکسپریس اردو

 بھارت اپنے ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے ساتھ بدترین سلوک کر رہا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بھی غیر انسانی سلوک کی بدترین داستانیں رقم کی جا رہی ہیں مگر ان تمام مظالم اور سفاکیت کے باوجودبھارت کو حال ہی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا عارضی رکن منتخب کیا گیا جو اقوام متحدہ و عالمی طاقتوں کی انسانیت دوستی اور غیر جانبداری پر سوالیہ نشان ہے۔

بھارت کی اس رکنیت سے خطے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس کا جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میںایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ
(ماہر امور خارجہ)

بھارت کا سلامتی کونسل کا عارضی رکن بننا کوئی بڑی ڈویلپمنٹ نہیں تاہم تشویشناک بات یہ ہے کہ بھارت میں غیر انسانی سلوک، کشمیر میں بدتیرین مظالم و دیگر مسائل کے باوجود بھارت کو اقوام متحدہ کے 192 ممالک میں سے 184 ممالک نے ووٹ دیا۔ بھارتی مظالم پر عالمی رپورٹس کے باوجود عالمی ضمیر پر کوئی اثر نہیں ہوا۔

سوال یہ ہے کہ ہماری سفارتکاری کا ان ممالک پر کیا اثر ہوا؟ دنیا تو آج بھی مسئلہ کشمیر کو بھارت کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔اگر یہ ٹرن آؤٹ کم ہوتا تو تشویش نہ ہوتی مگر 95فیصد سے زائد ووٹ لینا یہ ثابت کرتا ہے کہ ہماری کسی کوشش کا دنیا پر کوئی اثر نہیں ہوا۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 5 مستقل ممبر میں سے 4 بھارت کے ساتھ ہیں جبکہ چین نے بھی کچھ عرصہ قبل بھارت کی حمایت کا اشارہ دیا تھا۔ ہمارے پاس تو صرف چین ہے لہٰذا کسی بھی حال ہیں ہمیں چین کو ناراض نہیں کرنا چاہیے۔ چین ہمارا حساس پوائنٹ اور ہمارے مفادات کا محافظ ہے۔ جب ہم امریکا کی طرف جاتے ہیں تو چین کو تشویش ہوتی ہے، ہمیں امریکا کے ساتھ تعلقات میں چین کو اعتماد میں لینا ہوگا۔

ہم 7 مرتبہ سلامتی کونسل کا عارضی رکن بنے مگر مسئلہ کشمیر کو چیپٹر 6 سے 7 پر نہیں لاسکے۔چیپٹر 6 کے تحت تو سفارشات ہی دی جاتی ہیں جبکہ چیپٹر 7 کے تحت جب کسی مسئلے پر قرارداد منظور ہوتی ہے تو اقوام متحدہ کیلئے لازم ہوجاتا ہے کہ اسے حل کروائے۔ ہمیں تو ہر سال مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے ایجنڈہ پر لانا پڑتا ہے۔ ب

ھارت بھی 7 مرتبہ اقوام متحدہ کی سلامتی کو نسل کا عارضی ممبر رہا اور اب 8 ویں مرتبہ بنا ہے لہٰذا وہ پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا تاہم مستقل رکن بننے کیلئے لابنگ تیز کرے گالہٰذا ہمیں اس کوشش کو ناکام بنانا ہوگا۔ 20 برس قبل پاکستان نے ’’یو ایف سی‘‘ بنا کر،56 ممالک کو ملا کر سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے حوالے سے ریفارمز نہیں ہونے دیے۔ یہ ہماری سفارتکاری کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ اب بھی ہمیں اس گروپ کو متحرک کرکے، اس میں مزید ممالک کو شامل کرکے معاملات کو اپنے حق میں بہتر کرنا ہوگا۔

اقوام متحدہ کا سب سے بڑا مسئلہ ’ ویٹو پاور‘ ہے، جنرل اسمبلی میں تو فیصلے جمہوری طریقے سے ہوتے ہیں مگر سلامتی کونسل میں بڑی طاقتوں کی اجارہ داری ہے، اس کو جمہوری بنانا ہوگا۔ بڑی طاقتیں اقوام متحدہ کو فنڈنگ دیتی ہیں اور فائدہ بھی اٹھاتی ہیں، ممبر ممالک کو فنڈنگ کا طریقہ کار بھی بنانا ہوگا۔

بریگیڈئیر (ر) سید غضنفر علی
(دفاعی تجزیہ نگار)

مختلف ممالک کے مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے دنیا میں نئے الائنس بنے اور پھر جنگ عظم اول ہوگئی۔ جنگ ختم ہوئی تو لیگ آف نیشنز بن گئی جس کا بنیادی مقصد ایسا فورم بناناتھا جہاں مختلف طاقتیں بیٹھ کر اپنے مسائل زیر بحث لائیں اور بات چیت سے انہیں حل کیا جائے۔ بدقسمتی سے لیگ آف نیشنز مسائل کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی، شورش زیادہ ہوگئی اور پھر جنگ عظیم دوئم ہوگئی۔

اس جنگ کے خاتمے کے بعداقوام متحدہ بنا دی گئی۔ اقوام متحدہ کا مقصد جنگ بندی کو ختم کرنے کیلئے ڈائیلاگ کو فروغ دینا تھا مگر وہ جنگ و جدل کو فروغ دے رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑی طاقتیں اسے فنڈ دیتی ہیں اور بدمعاشی کرتی ہیں۔ ان میں سب سے آگے امریکا ہے جس کی خارجہ و دفاعی پالیسی کی بنیاد جبرو زبردستی ہے۔

اس کیلئے وہ جنگ کو بطور ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کی افادیت ختم ہوچکی، وہ اشرافیہ کا کلب ہے جہاں فیصلے میرٹ اور اصول پر نہیں ہوتے۔ اگر اقوام متحدہ میں میرٹ اور اصول پر فیصلے ہوتے تو آج فلسطین ، کشمیر و دیگر مسائل حل ہوچکے ہوتے۔ اقوام متحدہ میں مختلف باڈیز ہیں جن میں ایک سلامتی کونسل ہے اور حال ہی میں بھارت اس کا عارضی ممبر بنا ہے جس کی مدت دو سال ہے۔

پاکستان اور بھارت دونوں 7، 7 مرتبہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے عارضی ممبر رہ چکے ہیں لہٰذا بھارت کا اب رکن بننا کوئی بڑی بات نہیں تاہم بھارت کی خواہش ہے کہ وہ مستقل رکن بنے لہٰذا پاکستان کو سفارتی محاذ پر جارحانہ پالیسی اپنانے اور بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت P5 گروپ کے ممبرز امریکا، چین،برطانیہ، فرانس اور روس ، اقوام متحدہ کے مستقل رکن ہیں۔

بھارت P4 گروپ کا ممبر بھی ہے جس میں جرمنی و برازیل بھی شامل ہیں، یہ گروپ اقوام متحدہ کی ری سٹرکچرنگ کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت کو 194 ممالک میں سے 183 ممالک نے عارضی ممبر بننے کیلئے ووٹ دیا لہٰذا اب ہمیں اسے مستقل ممبر بننے سے روکنا ہے اور اس کیلئے سفارتی محاذ پر بہتر پرفارم کرنا ہوگا۔امریکا اور دنیا کے بڑے ممالک بھارت کو کشمیر کے تناظر میں نہیں بلکہ معیشت ، دفاع ودیگر حوالے سے دیکھ رہے ہیں ۔ بڑے ممالک کی معیشت دفاعی پروڈکشن پر چلتی ہے اور بھارت اربوں ڈالر ڈیفنس پر خرچ کر رہا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ سے تقریر میں اسلامو فوبیا اور مسئلہ کشمیر کو بھرپور طریقے سے اجاگر کیا۔ اسی طرح کشمیر میں بھارتی بربریت کے حوالے سے امریکی ادارے کی رپورٹ بھی آئی مگردنیا نے سب کچھ پس پشت ڈال دیا اور بھارت کو ووٹ دے دیا۔ ہمیں مسئلہ کشمیر، بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک، خطے میں بدمعاشی و دیگر خرابیوں کو اجاگر کرنا ہوگا اور دنیا کو باور کروانا ہوگا کہ بدترین مظالم ڈھانے والا ملک سکیورٹی کونسل کا مستقل ممبر نہیں بن سکتا۔

سلمان عابد
(تجزیہ نگار)

بھارت کے پاکستان، چین، نیپال و دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں اور وہ خطے میں اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے، اس لیے بھارت کی پوزیشن خطے کی سیاست کیلئے درست نہیں ہے۔جب کوئی ملک کسی بڑی طاقت کا حصہ بنتا ہے تو وہ یہ پیغام دیتا ہے کہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ برابری پر تعلقات قائم کرے گا مگر بھارت کے عزائم اس کے برعکس ہیں۔ بھارت سلامتی کونسل کا پہلے بھی 7 مرتبہ غیر مستقل رکن رہا ہے۔ اب بھی وہ اپنی باری پر رکن منتخب ہوا ہے لہٰذا یہ کوئی بڑی کامیابی نہیں ہے تاہم اصل بات یہ ہے کہ وہ مستقل رکن بننا چاہتا ہے جس کیلئے وہ اب لابنگ مزید تیز کرے گا۔ بھارت کو مستقل رکن بننے کے لیے چیلنجز درپیش ہیں۔ ایک تو اسے ممالک کی حمایت چاہیے۔ دوسرا یہ کہ خطے میں بھی اسے مسائل کا سامنا ہے جو اس کی اپنی وجہ سے ہی ہیں۔

’’او آئی سی‘‘ نے حال ہی میں بھارت کے ڈومیسائل کے حوالے سے معاملات تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ اس سے پہلے ہیومین رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، امریکا و دیگر انسانی حقوق کے ادارے بھارت میں انسانیت سوز سلوک اور کشمیر کے حوالے سے تشویش کا اظہار کر چکے ہیں اور انہوں نے بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ امریکا کی ہی ایک رپورٹ سامنے آئی تھی کہ بھارت اقلیتوں کیلئے غیر محفوظ ملک ہے۔ بھارت کے اپنے اندر سے بھی شہریت بل کے خلاف آوازیں اٹھی ہیں۔ ان حالات سے ثابت ہوتا ہے کہ بھارت کی تمام تر سیاست امن کیلئے نہیں بلکہ خطے میں چودھراہٹ کیلئے ہے۔

وہ نیپال، بھوٹان جیسے ممالک کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ اس کی بالادستی قبول کرلیں ورنہ سکون نہیں لینے دے گا۔ بدقسمتی سے وہ عالمی فورمز جو جھگڑے ختم کرنے کیلئے بنائے گئے ہیں موثر نہیں رہے۔ اقوام متحدہ ’’ڈبیٹنگ کلب‘‘ بن گیا ہے اور وہاں ممالک کے مسائل حل نہیں ہورہے بلکہ بڑی طاقتوں کے مفادات کو تحفظ دیا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے اس پردنیا کے صرف بیانات آرہے ہیں جبکہ کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

وزیراعظم عمران خان کی تقریر کے بعد بھارت کا سفاک چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہوا۔ ان کی اس تقریر سے ہمیں فائدہ یہ ہوا کہ تھنک ٹینکس، انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں،سماجی رہنماؤں کی سپورٹ تو حاصل ہوئی لیکن حکمران طبقے کی سپورٹ نہیں مل سکی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ثالثی کردار ادا کریں گے مگر انہوں نے بھی کوئی کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی بھارت پر کوئی دباؤ ڈالا گیا۔ اب تو وہ بھارت کو بالکل بھی ناراض نہیں کریں گے کیونکہ امریکی انتخابات آرہے ہیں اور انہیں امریکا میں موجود بھارتیوں کی سپورٹ چاہیے۔

عالمی اداروں کے حوالے سے سوچنا یہ ہے کہ انہیں کس طرح موثر بنایا جائے اور شفاف نظام کیسے قائم کیا جائے۔ علاقائی سیاست میں نریندر مودی نے ہندووآتہ کا جو بیج بویا ہے یہ پورے خطے کیلئے خطرناک ہے۔ اس سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ ملے گا۔ بھارت سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننا چاہتا ہے، خطے میں کلیدی کردار ادا کرنا چاہتا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا وہ یہ سب اقلیتوں کو دبانے اور خطے میں اپنی بدمعاشی قائم کرنے کیلئے کرنا چاہتا ہے؟بھارت کے برعکس پاکستان شروع سے ہی امن چاہتا ہے۔

موجودہ حکومت ہو یا ماضی کا دور، سب نے بھارت کے ساتھ معاملات بہتر کرنے کیلئے جتنے بھی اقدامات کیے، بھارت کی جانب سے ان پر مثبت ردعمل نہیں آیا اور نہ ہی دنیا نے بھارت پر کوئی دباؤ ڈالا۔ بھارت کے سلامتی کونسل کا عارضی رکن بننے سے پاکستان کیلئے سفارتی محاذ پر چیلنج بڑھ گیا ہے۔ اب ہمیں تین سطح پر کام کرنا ہے۔ پہلا یہ کہ ہمیں اپنے لوگوں کو قائل کرنا ہوگا کہ پاکستان کی خارجہ وعلاقائی پالیسی درست ہے ۔ دوسرا یہ کہ ہمیں دنیا کو یہ باور کروانا ہے کہ بھارتی جارحیت اور کشمیر میں آگ سے خطے اور دنیا کو بڑا خطرہ ہے، ہمیں بھارت کو بے نقاب کرنا ہوگا۔

تیسرا یہ کہ ہمیں بھارت کو بے نقاب کرنے، بھارتی کمزوریوں کو اجاگر کرنے کیلئے عالمی فورمز اور میڈیا کو استعمال کرنا ہوگا، اس حوالے سے جامع حکمت عملی بناکر موثر کام کیا جائے۔ ہمیں P5 اور P4 ممالک کے بڑے ممالک کے ساتھ جارحانہ سفارت کاری کرنا ہوگا ۔ اقوام متحدہ میں وزیراعظم کی تقریر سے بھارت کو جو نقصان ہوا اور دنیا میں ہمارے موقف کی جس طرح پذیرائی ہوئی، ہمیں اس کو تسلسل سے آگے بڑھانا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوسکا اور اس کے بعد سب اندرونی سیاست میں مصروف ہوگئے۔ ہمیں اندرونی خلفشار کا خاتمہ اور خارجہ و معاشی پالیسی کی خامیوں کو دور کرنا ہوگا۔

The post کشمیریوں پر ظلم کے باوجود بھارت کا انتخاب اقوام متحدہ کی غیرجانبداری پر سوالیہ نشان !! appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3dJgTc0
via IFTTT

کورونا وبا ؛ ملک میں ایک دن کے دوران 49 افراد جاں بحق ، 3557 نئے کیسز ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: ملک بھر میں گزشتہ 24  گھنٹوں کے دوران مزید  3357 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے جب کہ اس کا شکار 49 مریض لقمہ اجل بن گئے ہیں۔

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے مطابق ملک بھر میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران موجموعی طور پر 23 ہزار 9 کورونا ٹیسٹس کئے گئے، جس کے بعد اب تک وائرس کے 12 لاکھ 62 ہزار 162 افراد ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں۔ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا کے3 ہزار 557 نئے کیسز سامنے آئے ہیں جس کے بعد ملک میں کورونا وائرس کے متاثرین کی کل تعداد 2 لاکھ چھ ہزار 508 ہوگئی ہے۔ ملک بھر میں کورونا سے متاثرہ 95 ہزار 407 مریض صحت یاب ہو گئے۔

پاکستان میں کورونا متاثرین کی سب سے زیادہ تعداد صوبہ سندھ میں ہے جہاں اب تک 80 ہزار 446 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے، پنجاب میں 74 ہزار 778 ، خیبر پختونخوا میں 25 ہزار 778، بلوچستان میں 10 ہزار 376 ، اسلام آباد میں 12 ہزار 643، گلگت بلتستان میں ایک ہزار 442 اور آزاد کشمیر میں کورونا کے مصدقہ مریضوں کی تعداد ایک ہزار 49 افراد ہے۔

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں کورونا وائرس سے مزید 49 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔ جس کے ساتھ پاکستان میں کورونا سے لقمہ اجل بننے والوں کی مجموعی تعداد 4 ہزار 167 ہوگئی ہے۔ پنجاب میں ایک ہزار 681 ، سندھ میں ایک ہزار 269، خیبر پختونخوا میں 922 ، اسلام آباد میں 127 ، بلوچستان میں 116، گلگت بلتستان میں 24 اور آزاد کشمیر میں 28 افراد کورونا وائرس سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔

کورونا وائرس اور احتیاطی تدابیر:

کورونا وائرس کے خلاف یہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے اس وبا کے خلاف جنگ جیتنا آسان ہوسکتا ہے۔ صبح کا کچھ وقت دھوپ میں گزارنا چاہیے، کمروں کو بند کرکے نہ بیٹھیں بلکہ دروازہ کھڑکیاں کھول دیں اور ہلکی دھوپ کو کمروں میں آنے دیں۔ بند کمروں میں اے سی چلاکر بیٹھنے کے بجائے پنکھے کی ہوا میں بیٹھیں۔

سورج کی شعاعوں میں موجود یو وی شعاعیں وائرس کی بیرونی ساخت پر ابھرے ہوئے ہوئے پروٹین کو متاثر کرتی ہیں اور وائرس کو کمزور کردیتی ہیں۔ درجہ حرارت یا گرمی کے زیادہ ہونے سے وائرس پر کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن یو وی شعاعوں کے زیادہ پڑنے سے وائرس کمزور ہوجاتا ہے۔

پانی گرم کرکے تھرماس میں رکھ لیں اور ہر ایک گھنٹے بعد آدھا کپ نیم گرم پانی نوش کریں۔ وائرس سب سے پہلے گلے میں انفیکشن کرتا ہے اوروہاں سے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتا ہے، گرم پانی کے استعمال سے وائرس گلے سے معدے میں چلا جاتا ہے، جہاں وائرس ناکارہ ہوجاتا ہے۔

The post کورونا وبا ؛ ملک میں ایک دن کے دوران 49 افراد جاں بحق ، 3557 نئے کیسز appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3892pBa
via IFTTT

تیل کی دھار اور سیاسی بخار ایکسپریس اردو

نیوز روم میں بیٹھا ہفتے کے آخری شو کی ریکارڈنگ کےلیے مسودے پر کام کررہا تھا، اچانک اسلام آباد بیورو سے خبر موصول ہوئی کہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اضافہ اس قدر زیادہ تھا کہ خبر پر یقین نہیں ہورہا تھا۔ وزارت پٹرولیم میں موجود ذرائع سے خبر کی تصدیق کی۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ وقت میں پریس ریلیز جاری کردی جائے گی۔ ابھی پروگرام کے پہلے حصے کا مسودہ ریکارڈنگ کےلیے بھجوایا ہی تھا کہ وزارت خزانہ کی جانب سے پریس ریلیز موصول ہوگئی، جس میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے اور روپے کی گرتی ہوئی قدر کو بنیاد بنا کر تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی اطلاع دی گئی تھی۔ اس کے باوجود اتنا بڑا اضافہ میرے لیے ناقابل یقین تھا۔ کیوں نہ ہو میرا وزیراعظم انتہائی غریب پرور ہے۔ جن کی ہر بات میرے لیے حرف آخر ہے۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے ایک دن قبل قومی اسمبلی میں دھواں دار خطاب کیا۔ اپنی بائیس ماہ کی کارکردگی بتائی۔ قوم کو احساس دلایا کہ سب سے زیادہ غریب کا درد انہیں ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ وزیراعظم تو قوم کا باپ ہوتا ہے۔

محترم عمران خان جس وقت یہ الفاظ ادا کر رہے تھے، عین اسی لمحے میں اپنے دفتر میں بیٹھا پروگرام کے مسودے پر کام کر رہا تھا۔ میرے ذہن میں تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے قبل دودھ کی قیمت اور موجودہ نرخ گردش کرنے لگے۔ میں چینی کی مہنگائی پر غور کرنے لگا۔ میں سوچنے لگا کہ جو ملک نئے پاکستان سے قبل گندم کے ذخیرے میں سرپلس تھا، نئے پاکستان میں اسی ملک میں گندم درآمد کی جائے گی۔ گھی، چاول، دالیں، سبزیاں، بجلی اور گیس کے بل الغرض بنیادی ضروریات زندگی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں مجھے کرب میں مبتلا کررہی تھیں۔ ان تمام اشیا کا بالواسطہ اور بالواسطہ تعلق ملک میں تیل کی قیمتوں سے ہوتا ہے۔ کسی بھی جگہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور کمی براہ راست مہنگائی پر اثر انداز ہوتی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے سال 2020 کے بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کےلیے کوئی بھی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا۔ دعویٰ کیا کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرے گی اور ملک میں نان ٹیکس ریونیو کلیکشن میں اضافہ کرے گی۔ تحریک انصاف کے کارکنان نے تو اس پر خوب شادیانے بجائے مگر میں بھی اس معاملے پر خاموش نہیں رہ سکا، وزیراعظم پاکستان کو خراج تحسین پیش کرنے لگا۔ لیکن آج جب مجھے تیل کی قیمتوں میں اضافے کی خبر موصول ہوئی تو میں نے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کا جائزہ لیا، جو آخری سطور تحریر کرنے تک کم ہورہی تھیں۔ وزیراعظم پاکستان کے مشیر پاکستان میں تیل کی قیمتوں کا برصغیر میں آئل پرائسز سے تقابلی جائزہ لے رہے تھے۔ میرے لیے تیل کی قیمتوں میں تقریباً 26 روپے اضافہ ہضم کرنا مشکل ہورہا تھا، سو میں نے قیمتوں میں اضافے کا نوٹس پڑھنا شروع کیا۔

نوٹیفکیشن کے مطابق ملک میں پٹرول کی بنیادی قیمت 45.86 روپے فی لیٹر ہے۔ مختلف حصوں میں پٹرول پہنچانے کےلیے اس پر 3.19 روپے فی لیٹر آمدورفت کے اخراجات یا آئی ایف ای ایم لاگت آتی ہے۔ پاکستان میں کئی غیر سرکاری کمپنیاں یا آئل مارکیٹنگ کمپنیاں موجود ہیں، جو ملک بھر میں تیل پہنچاتی ہیں۔ جنہیں وزیراعظم پاکستان آئل مافیا بھی کہتے ہیں۔ حکومت انہیں 2.81 روپے ایک لیٹر پر منافع دیتی ہے اور اس منافعے کو او ایم جی مارجن کہا جاتا ہے۔ کمپنیز ملک بھر میں موجود پٹرول پمپس تک پٹرول پہنچاتی ہیں۔ جنہیں عرف عام میں ڈیلرز کہا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان نے تیل کی بنیادی قیمت میں ڈیلرز کا مارجن 3.71 روپے رکھا ہے۔ اس طرح تیل کی بنیادی قیمت، اخراجات اور مختلف مارجن کے بعد پٹرول کی کل قیمت 55.56 روپے بنتی ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر حکومت 100 روپے سے زیادہ قیمت پر پٹرول فروخت کیوں کر رہی ہے؟ اس کو آسان الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن یہاں آپ کو بجٹ اجلاس کے دوران حکومت کا یہ وعدہ یاد دلاتا چلوں کہ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم کوئی بھی نیا ٹیکس نہیں لگائیں گے۔ لیکن تحریک انصاف حکومت نے پٹرول کی کل قیمت میں پٹرولیم لیوی کو 30 روپے تک بڑھا دیا ہے۔

اب پٹرولیم لیوی کی کہانی سناتا چلوں۔ جنوری 2019 میں پٹرولیم لیوی 8 روپے فی لیٹر تھا۔ جبکہ مئی 2020 میں پٹرولیم لیوی 15 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر 19.75 روپے کردیا گیا۔ لیکن اس مرتبہ جون 2020 میں یہی ٹیکس 30 روپے فی لیٹر تک کردیا گیا۔ یعنی صرف ڈیڑھ سال کے اندر پٹرولیم میں چار سو فیصد اضافہ کردیا گیا۔ نیا ٹیکس نہ لگانے کے دعوؤں کے باجود پٹرولیم لیوی کا ٹارگٹ 216 ارب سے بڑھا کر 450 ارب کردینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ صرف پٹرولیم لیوی کی مد میں ہی حکومت ٹیکس وصول نہیں کرتی بلکہ فی لیٹر پٹرول پر 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس بھی وصول کیا جارہا ہے۔

حیرانگی کا عالم یہ ہے کہ حکومت کو جنرل سیلز ٹیکس 55.56 روپے پر لینا چاہیے تھا، یعنی تیل کی کل قیمت پر، لیکن تحریک انصاف کی قیمت یہ ٹیکس 85.56 روپے پر لے رہی ہے، یعنی پٹرولیم لیوی پر جنرل سیلز ٹیکس عوام سے وصول کیا جارہا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق تیل کی قیمت میں عوام 14.55 روپے جنرل سیلز ٹیکس ادا کرے گی۔

تحریک انصاف ماضی کی حکومتوں پر الزامات عائد کرکے خود کو بری الذمہ سمجھتی ہے۔ گزشتہ بلاگ میں تحریک انصاف کے 22 ماہ کے قرضوں اور گزشتہ 10 سال کے قرض پر بلاگ لکھا تھا، اب تیل کی بھی کہانی سن لیں۔ اپریل 2018 میں جس وقت عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 72 ڈالر فی بیرل تھی، تب پاکستان میں پٹرول 88 روپے فی لیٹر فروخت ہورہا تھا۔ اب یعنی جون 2020 میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 41 ڈالر فی بیرل ہے، پاکستان میں پٹرول 100 روپے اور ڈیزل 101 روپے فروخت ہورہا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا ہے کہ حکومت نے مافیا کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی تیل کی قیمتوں میں اضافے سے او ڈی سیز کو فائدہ پہنچا ہے؟

آئل کمپنیر کا موقف ہے کہ حکومت نے تیل کی قیمتیں دیر سے کم کیں، اس وقت عالمی منڈی میں تیل کے نرخ بڑھ چکے تھے، بعد ازاں مہنگا تیل انہیں سستے داموں فروخت کرنے کو کہا گیا۔ یہی نہیں حکومت نے کورونا وبا کے باعث تیل کم مقدار میں منگوایا، جس کی وجہ سے تیل کا بحران پیدا ہوا تھا۔ اب سوائے اس کے کہ حکومت نے مہینہ ختم ہونے سے تین روز قبل تیل کی قیمتیں بڑھا کر کمپنیز کو منافع دیا ہے، کوئی بھی دلیل مانی نہیں جاسکتی۔

حکومت نے تیل کی قیمتیں بڑھا کر مافیا کو فائدہ دینے کے بجائے صرف اپنے اخراجات چلانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن سوال پھر وہی ہے کہ عالمی اداروں کی امداد، عالمی دنیا سے قرض اور قوم سے ٹیکس در ٹیکس پیسے وصول کیے جارہے ہیں، مگر یہ پیسے جا کہاں رہے ہیں؟ ان کا فائدہ عوام تک کیوں نہیں پہنچ رہا؟ کیا وزیراعظم عمران خان اپنے ساتھیوں کو راضی کرنے کےلیے عوامی پیسے کا استعمال کررہے ہیں؟ ایسے اَن گنت سوالات ہیں جن کے جواب آنے والا وقت ہی دے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post تیل کی دھار اور سیاسی بخار appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Ze700S
via IFTTT

جاپان میں زخمی شخص کی جان بچانے والی بلّی ہیرو بن گئی ایکسپریس اردو

ٹوکیو: زخمی حالت میں بے ہوش پڑے ایک شخص کی جان بچانے میں مدد کرنے والی پالتو بلی ہیرو بن گئی۔

جاپانی ٹیلی وژن کے  مطابق جاپان کے شہر ٹویوما کے نزدیک ایک عمر رسیدہ شخص نے دیکھا اس کی پالتو بلی مسلسل ایک قریبی نہر کی سمت میں دیکھ رہی ہے اور بے چینی کا اظہار کررہی ہے۔ بلی کے مالک کو اس پر تجسس ہوا اور وہ جب بلی کا تعاقب کرتے ہوئے اس سمت میں کچھ دور گیا تو وہاں ایک شخص کو زخمی حالت میں بے ہوش پایا۔

تشویش ناک حالت میں زخمی کو دیکھ کر بلی کے مالک نے دیگر لوگوں کو بھی مدد کے لیے بلایا جس کے بعد چار مزید افراد مدد کے لیے آن پہنچے۔ بلی کی بروقت نشاندہی سے زخٰمی شخص کی جان بچ گئی اور بلی کو اعترافی سند سے بھی نوازا گیا۔

 

The post جاپان میں زخمی شخص کی جان بچانے والی بلّی ہیرو بن گئی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2BmuzwD
via IFTTT

مائیکروسافٹ پاکستانی طلبہ کو گھر بیٹھے سرٹیفکیشن فراہم کرے گا ایکسپریس اردو

 اسلام آباد: مائیکروسافٹ پاکستان کے اعلی تعلیمی کمیشن (ایچ ای سی) کے اشتراک سے  طلبا کو گھر بیٹھے مائیکرو سافٹ سرٹیفکیشن حاصل کرنے کی سہولت فراہم کرے گا۔

اس سلسلے میں ایچ ای سی اور مائیکرو سافٹ کے مابین معاہدہ طے پاگیا ہے جس کے تحت پہلے مرحلے میں یہ سہولت حاصل کرنے کے لیے رجسٹر ہونے والے 2000 طلبہ کو بلا معاوضہ سرٹیفکیشن فراہم کی جائے گی۔ اس اقدام کو تعلیم و روزگار کے مابین پائی جانے والی خلیج کو کم کرنے سے متعلق انتہائی اہم پش رفت قرار دیا جارہا ہے۔ اس کے نتیجے میں طلبہ وبا کے دوران گھر بیٹھے پیشہ ورانہ تعلیم مہارت حاصل کرنے کے قابل ہوں گے۔

مائیکروسافٹ اور ایچ ای سی گزشتہ ایک دہائی سے اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں آئی ٹی کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔ دونوں کے مابین ہونے والے حالیہ معاہدے کا اطلاق نجی و سرکاری یونیورسٹیوں پر ہوگا اور اس کے تحت نوجوانوں کو عالمی معیارات کے مطابق تکنیکی تربیت کے متعدد مواقع فراہم کیے جائیں گے۔

اس سرٹیفکیشن کے لیے طلبا کوباقاعدہ نصاب کے تحت تکنیکی مہارتیں سکھائی جاتی ہیں جن میں  کمپویٹر سائنس، ڈیٹا سائنس اور آئی ٹی انفرااسٹرکچر کے موضوعات بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس پروگرام میں ہونے والی ایم ٹی اے (مائیکروسافٹ ٹیکنالوجی ایسوسی ایٹ) اور ایم او ایس(مائیکرو سافٹ آفس اسپیشلسٹ) کی سرٹیفکیشن تکنیکی مہارتوں کی توثیق اور کرئیر میں آگے بڑھنے کے حوالے سے مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

مائیکروسافٹ سرٹی پورٹ کی شراکت کے ساتھ ایچ ای سی کے ماتحٹ یونیورسٹیوں کو اس پروگرام میں شریک کرے گی۔ سرٹفیکیشن کے لیے امتحان کے تجربے بہتر سے بہتر بنانے کے لیے  Azure کلاؤڈ پلیٹ فورم کا استعمال کیا جائے گا۔ ہر سال اس پلیٹ فورم کے ذریعے دنیا بھر میں 12 ہزار امتحانات منعقد کیے جاتے ہیں۔

The post مائیکروسافٹ پاکستانی طلبہ کو گھر بیٹھے سرٹیفکیشن فراہم کرے گا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2AfSNbo
via IFTTT

Saturday, June 27, 2020

ہمارے جملے کسی کی ذاتی زندگی پر بہت اثر انداز ہوتے ہیں، صبا قمر

زارا نور عباس کی ساڑھی والی تصاویر کی دھوم

نمرہ خان کا نیا برائیڈل فوٹوشوٹ جاری

سونیا حسین ایک باکمال اداکار ہ ہیں، یاسر حسین

امیتابھ بچن پاکستان آنے کے شدید خواہش مند ہیں، عدیل چودھری کا انکشاف

برازیل میں ایک ہی دن میں کورونا وائرس کے مزید 38 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ملک بھر میں کورونا وائرس سے متاثرین کی کل تعداد 13 لاکھ 13 ہزار 667 ہو گئی، مزید 1ہزار سے زائد افراد ... مزید

کیا بھارت چین کے معاشی بائیکاٹ کا متحمل ہوسکتا ہے؟ ایکسپریس اردو

15 جون کو وادی گالوان میں چین اور بھارت کی فوجوں کے سرحدی دستوں کے درمیان ہونے والی شدید جھڑپ کے بعد بھارت تناؤ میں شدت پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ بھارت کے اندر چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کی ایک مہم چل رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق بھارتی حکام بھی چین کے ساتھ تجارت کم کرنے یا روکنے پر غور کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر بھارت ایسا کرتا ہے تو نقصان کس کو ہوگا؟ چین کو یا خود بھارت کو؟ آئیے اس سوال کا جواب حقائق کی روشنی میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بھارت کی چین سے محاذ آرائی کے پیچھے سیاسی عوامل کارفرما ہیں۔ اس وقت بھارت میں کووڈ۔19 کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔ تصدیق شدہ کیسز کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق کیسز کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اس کے باوجود بھارتی حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی جاری رکھنے کا انتخاب کیا ہے۔ وجہ کیا ہے؟ دراصل بھارتی معیشت میں مزید لاک ڈاؤن برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے۔ ایسے میں ہمسایہ ممالک کے ساتھ محاذ آرائی اختیار کرکے وبا سے متعلق حکومت پر موجود دباؤ کو کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے علاہ بھارتی سیاسی جماعتیں قوم پرستی کے جذبات ابھار کر سیاسی فوائد حاصل کرنے کے حوالے سے بھی خاصی شہرت رکھتی ہیں۔ وجوہات جو بھی ہوں چین کے ساتھ محاذ آرائی میں شدت لانا اور طول دینا بھارتی معیشت کےلیے تباہ کن ہے۔

عالمی مالیاتی سپلائی چین کے تناظر میں، اگر بھارت چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کرتا ہے تو اس کے پاس بہت کم آپشن بچیں گے۔ ایسی صورت میں بھارت اپنی فرموں اور صارفین کےلیے زیادہ قیمتیں لائے گا۔ اس کے علاوہ کچھ بھارتی صنعتی شعبوں کا چین سے سپلائی پر بہت انحصار ہے اور ان کے پاس چین سے تعاون کے علاہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

کئی مہینوں کے لاک ڈاؤن کے نتیجے میں بھارتی معیشت پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار ہے۔ بھارت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اپریل میں پچھلے سال کے مقابلے میں درآمدات میں 48.3 فیصد جبکہ برآمدات میں 33.7 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ عالمی سطح پر معیشت کے حوالے سے ڈیٹا فراہم کرنے والے ٹریڈنگ اکنامکس کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں اپریل میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی شدید دھچکا لگا، جو کم ہوکر 1.37 بلین ڈالر رہ گئی، جس میں گزشتہ ماہ کے مقابلے میں 52.5 فیصد کی کمی ہوئی۔

ان حالات میں بھارت کےلیے تناؤ کو بڑھانا یا چین کے ساتھ معاشی تعلقات کم کرنا غیر معقول ہے۔ کیوںکہ دونوں ملکو ں کی حیثیت میں واضح فرق ہے۔ چین برسوں سے ہندوستان کا ٹاپ تجارتی پارٹنر رہا ہے، جبکہ بھارت کو چین کی برآمدات اس کی کل برآمدات کا تقریباً 2 فیصد ہے۔ عالمی سطح پر ویلیو چینز کے تحت چین سے درآمدات یا سرمایہ کاری پر پابندی لگانا بھارت کےلیے آسان نہیں، کیونکہ مشرقی ایشیائی ممالک انتہائی مربوط صنعتی چین میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اور اس طرح کی پابندیاں لامحالہ دوسرے ممالک کے ساتھ اس کے تعاون میں رکاوٹ بنے گی اور طویل مدتی تناظر میں بھارت کے تجارتی ماحول کو خراب کرے گی۔ اس کے علاہ چین دنیا کے صنعتی چین کی سب سے مضبوط اور اہم کڑی ہے، لہٰذا چین پر پابندی لگا کر بھارت کبھی بھی ٹھوس صنعتی نظام کو فروغ نہیں دے سکے گا۔

بھارت کےلیے ایشیائی علاقائی معیشتوں کے باہمی تعاون کے راستے کو اختیار کرنا معقول انتخاب ہوگا۔ مثال کے طور پر ہندوستان اور چین کے درمیان بنیادی ڈھانچے کے شعبے میں باہمی تعاون کےلیے کافی گنجائش موجود ہے، کیونکہ چین دنیا کو انتہائی مناسب قیمتوں پر مثالی منصوبے پیش کرسکتا ہے۔

اس کے برعکس ہندوستان اور ترقی یافتہ مغربی ممالک کے مابین معاشی ہم آہنگی کمزور ہوچکی ہے، کیونکہ ترقی یافتہ ممالک سے بڑی صنعتوں کی منتقلی کا کام مکمل ہوچکا ہے اور بھارت اپنے ناکافی انفرااسٹرکچر، کم مسابقتی لیبر اور اپنے نظام میں موجود نقائص کی وجہ سے چین یا جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی جگہ لینے کی صلاحیت پیدا نہیں کرسکا۔

امریکا، ٹرمپ انتظامیہ کے تحت بھارت کو مختلف ترغیبات دے رہا ہے۔ کبھی اس سال کے جی 7 سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت دے کر تو کبھی ’’جی 11‘‘ تشکیل دے کر۔ اور کبھی ہند بحرالکاہل کی حکمت عملی میں اضافے کا کہہ کر ۔ دراصل امریکا بھارت کو چین مخالف گروہ میں شامل ہونے کی ترغیب دے رہا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ یہ حکمت عملی کارگرثابت ہوگی یا نہیں، یہ سارے اقدامات چین کی ترقی کو روکنے کےلیے امریکا کی سیاسی یا اسٹرٹیجک چالیں ہیں اور شاید ہی ان سے بھارت کو حقیقت پسندانہ فوائد حاصل ہوں۔

اگرچہ چین اور دیگر ایشیائی ممالک کے ساتھ بھرپور تعاون کے ذریعے بھارت کو فائدہ ہوسکتا ہے، لیکن معاشی تعاون کےلیے لازم ہے کہ تعلقات میں ایک سلیقہ ہو، قرینہ ہو اور ایک دوسرے کےلیے احترام ہو۔ تاہم بھارت اس وقت ان سارے آداب اور پیمانوں کو سبوتاژ کررہا ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ تباہی کے راستے پر چلنے سے بچنے کےلیے اپنی صلاحیت کے جامع جائزہ کی بنیاد پر معقول معاشی حکمت عملی وضع کرے۔ معاشی بائیکاٹ معاشی خودکشی کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post کیا بھارت چین کے معاشی بائیکاٹ کا متحمل ہوسکتا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2B7Qd7R
via IFTTT

موت کا جنگل ایکسپریس اردو

انسان زندگی میں مختلف کیفیات کا شکار رہتا ہے کچھ کیفیات اس کی زندگی کو حسین بنادیتی ہیں جبکہ بعض زندگی کے سارے رنگ چھین لیتی ہیں۔ مایوسی بھی ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے جس میں انسان تمام امیدیں ترک کردیتا ہے۔ معروف ڈرامہ نگار جارج برناڈ شاہ لکھتے ہیں کہ ’’جو کوئی امید نہ رکھے، وہ کبھی مایوس نہیں ہوسکتا‘‘ یعنی امید کے بنا مایوسی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ برطانوی تاریخ نگار و پادری تھامس فیلٹر نے اس حوالے سے ایک مرتبہ کہا کہ ’’مایوسی ایک بزدل کو بھی بہادر بنا دینے کی قوت رکھتی ہے۔‘‘

اگر اس قول کی گہرائی میں جھانکا جائے تو درست انداز میں معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کس قدر صحیح بات کی گئی۔ مایوسی میں گھرا انسان کیسے اتنا بہادر ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کو خود اپنے ہاتھوں گنوا دے۔ انسان کے اندر فطری طور پر زندگی سے محبت اور موت کے ڈر جیسے جذبات پائے جاتے ہیں مگر جب انسان مایوس ہوجاتا ہے تو وہ فطرت کے دائرے سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے یا یوں کہہ لینا چاہیے کہ جب انسان فطرت کے دائرے سے باہر نکلنے کی تگ و دو کرنے لگتا ہے تو وہ مایوسیوں کی دلدل میں دھنس جاتا ہے۔

ایسے میں خودکشی کا رجحان بڑھنے لگتا ہے۔ کوئی بھی شخص جو اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے جارہا ہو تو اندازہ کرلیجئے وہ ذہنی کسمپرسی کی کس سطح پر کھڑا ہوگا۔ عالمی ادارہ برائے صحت (WHO) کے اعدادو شمار کے مطابق ہر سال تقریباً آٹھ سے دس لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں جن میں مردوں کی تعداد عورتوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ خودکشی کرنے والے افراد زندگی سے بیزاری اور مایوسی کی اس نہج پر پہنچ چکے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے پیاروں، عزیزوں، زندگی کی رعنائیوں، لطافتوں اور دلکشیوں سے منہ موڑ لینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔

حیرت اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے کے لیے وہ جن جگہوں مثلاً جنگلوں، پہاڑوں، دریاؤں، پلوں اور اونچائیوں کا انتخاب کرتے ہیں وہ انتہائی خوبصورت ہونے کے باوجود انہیں ایسا کرنے سے روک نہیں پاتی۔ دنیا میں ایسے بہت سے حسین مقامات ہیں جو خودکشی کے لیے چنے جاتے ہیں۔ انہی بدنام زمانہ جان لیواء جگوںمیں سے ایک جاپان میں واقع مونٹ فوجی کے شمال مغربی جانب درختوں کا سمندر اوکی گھارا بھی ہے ،جسے موت کا جنگل بھی کہا جاتا ہے۔

جہاں خودکشی کا رجحان اس قدر زیادہ ہے کہ مقامی پولیس نے ایسے نشانات اور پیغامات لکھ چھوڑے ہیں کہ خودکشی کی کوشش کرنے والے افراد اپنے فیصلے پر نظرثانی کرسکیں۔ گزشتہ 20 برس کے اعدادو شمار کے مطابق یہ جگہ خودکشی کرنے والوں کا مرکز رہی۔ سن 2003ء میں اوکی گھارا گزشتہ سو برس کی نسبت زائد جانیں لے گیا۔ جاپان کے قومی اخبار دا جاپان ٹائمز (The Japan Times) کے مطابق 2010ء میں دوسو سنتالیس 247 افراد نے خودکشی کی کوشش کی جس میں سے چون 54 افراد کامیاب رہے۔

یہ جنگل اس قدر گھنا ہے کہ ایک بار اس میں جانے والا شخص شاید ہی زندہ بچ کر واپس آسکے۔ مردہ وجود اس جنگل کو مزید گھنا بناتے ہیں۔ اس جنگل سے بہت سی کہانیوں کوجوڑا جاتا ہے جن کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔

٭ خودکشی کی روایت

خودکشی جاپان کے اہم سماجی مسائل میں سے ایک ہے۔ اس فعل کے پیچھے جہاں نفسیاتی وجوہات اور پیشہ وارانہ دباؤ کارفرما ہیں ونہی اس کی تاریخی روایات بھی ہیں۔ صدیوں پہلے جاپان میں جاگیرداری نظام سے تنگ آکر باعزت انداز میں مرنے کے لیے خودکشی کا ایک خاص طریقہ استعمال کیا جاتا جسے مقامی زبان میں ’’سی پاکو‘‘ (Seppuku) کہا جاتا۔ اس طریقہ سے خودکشی کرنے والے اپنے پیٹ میں چاقو یا تلوار مارا کرتے جس سے ان کی آنتیں باہر نکل آتیں۔ گوکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ روایت ویسی نہ رہی مگر آج اس کی مختلف اشکال خودکشی کرنے والوں میں دکھائی دیتی ہیں۔ ٹوکیو یونیورسٹی کا وساقی میں شعبہ سائیکاٹری کے ڈائریکٹر، کتاب ”Why do People Commit Suicide کے مصنف مذکورہ بالا خیالات کے حامی ہیں۔ان کے مطابق آج بھی لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے کے لئے ایسے طریقوْں کا استعمال کرتے ہیں جو کہ انتہائی اذیت ناک اور تکلیف دہ ہوتے ہیں۔

٭ قبیح روایت کا امین ناول

کہا جاتا ہے کہ کسی علاقے کا ادبی ذوق وہاں کے باسیوں کی زندگیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ فنون لطیفہ نئے نئے خیالات کو ترویج دینے کا سبب بنتے ہیں۔ جاپان کی تاریخ میں خودکشی کی روایت صدیوں سے موجود تھی۔ سن 1960ء میں ایک المناک ناول اس قبیح روایت کی ترویج کا ذریعہ بنا۔ کورئے جوکاٹے ”Kuroi Jukai” نامی ناول میں مرکزی کردار( لڑکی) محبت میں ناکامی کے بعد درختوں کے سمندر میں جاکر اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتی ہے۔ اس رومان پرور کہانی نے جاپانی ثقافت پر گہرے نقوش چھوڑے اور آوکی گھارا کو خودکشی کے لیے بہترین مقام کا درجہ دیا۔ اس خودکشی کی کتاب کے مسودے مرنے والوں کے سامان میں سے اکثر ملے۔ لوگ اس ناول کو ایک آئیڈیل کہانی تسلیم کرتے ہوئے زندگی کی تلخیوں سے نجات کا اہم ذریعہ خودکشی کوہی سمجھتے ہیں۔

٭ جنگل سے جڑی داستانیں

درختوں کے سمندر پر مشتمل یہ جنگل روز اول سے ہی اپنے ساتھ کئی کہانیاں لیے ہوئے ہے۔ پرانے وقتوں میں اس جنگل سے جڑی ایک دیو مالائی داستان سے یہ روایت منسوب ہے جسے ’’ایبسوٹ‘‘ کہا جاتا تھا۔ پرانے وقتوں میں دوران قحط بوڑھے اور بزرگ افراد کو جنگل میں تنہا چھوڑ دیا جاتا تاکہ وہ بھوک، پیاس یا وہاں کے ماحول میں رہنے کے باعث مرجائیں۔ گوکہ یہ ایک انتہائی سفاکانہ طرز عمل تھا مگر بہرحال اس کے حقیقی ہونے کے بارے میں شواہد موجود نہیں۔ اوکی گھارا کے حوالے سے ایک اور بات بھی مشہور ہے۔ وہ یہ کہ اس جنگل میں بھوتوں کا بسیرا ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں وہاں ایبسوٹ اور بین کرتی بدروحوں کا بسیرا ہے جو جنگل میں بھٹک کر مرگئے۔ لوک داستانوں کے مطابق اوکی گھارا میں بھٹکتی روحیں وحشت ناک ہیں اور وہاں جانے والوں کو بھٹکا دیتی ہیں تاکہ وہ کبھی واپس نہ جاسکیں۔

٭ تلاش اور سدباب

سن 1970ء سے جاپانی لوگوں نے رضاکارانہ طور پر تلاش کاایک سلسلہ شروع کیا جس کا مقصد ایسے افراد کی مدد کرنا تھا جو گھومنے پھرنے کے لیے جنگل میں داخل ہوتے ہیں مگر راستہ بھٹک جانے کے باعث زندہ واپس نہیں لوٹ پاتے۔ گوکہ رضا کار انہیں زندہ نہ بچاسکیں مگر ان کی باقیات کو وہاں سے نکالنا اور مقامی پولیس کے تعاون سے ان کی نعشوں کو سپرد خاک کرنا بھی ان کے مشن کا حصہ رہا۔

جیسے کہ اوکی گھارا میں کیمپنگ کی اجازت ہے مگر یہ کیمپنگ مخصوص دنوں کے لیے کی جاتی ہے اور حفاظتی اقدامات کرنے والا عملہ ان افراد سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں تاکہ کیمپنگ کے لیے آئے افراد باحفاظت گھروں کو لوٹ سکیں۔ خودکشی کے اس رجحان کو کم کرنے کے لیے جاپانی حکومت نے ایک سات سالہ منصوبے کا آغاز کیا جس کا مقصد کم از کم خودکشی کی شرح میں 20 فیصد کمی کرنا تھا۔ اس ضمن میں جو عملی اقدامات اٹھائے گئے ان میں جنگل کے داخلی مقامات پر سکیورٹی کیمرہ نصب کرنا شامل تھا۔ جس سے زیادہ سے زیادہ افراد کو بچانے کے لیے مدد مل سکتی۔ پھر ایسے کونسلرز اور پولیس کا بھی اہتمام کیا گیا جو لوگوں کو مایوسی کی دلدل سے نکلنے میں مدد دیں۔ خصوصاً ایسی پوسٹ اور ایسے بورڈز نصب کیے گئے جو مثبت طرز فکر کی ترویج دیں۔

جنگل میں مختلف جگہوں پر رسیوں کا ایک جال بچھایا گیا ہے جس کی مدد سے اگر کوئی وہاں جاکر خودکشی کا ارادہ بدل لیتا ہے تو واپس آسکے۔ ایسے مثبت جملے وہاں لکھے ملتے ہیں جو زندگی کی طرف لائیں جیسے ’’اپنے بچوں اور خاندان کے بارے میں زیادہ سوچیں ’’آپ کی زندگی آپ کے والدین کا اثاثہ ہے‘‘ اس جنگل کی ایک اور خوفناک بات یہ بھی ہے کہ وہاں جاکر زمین میں میگنیٹک آئرن وہاں کسی بھی قسم کے رابطوں میں خلیج بن جاتی ہے کیونکہ وہاں کوئی جی پی ایس سسٹم، موبائل نیٹ ورک یہاں تک کہ کمپاس بھی کام نہیں کرتا۔ جس کے بارے میں لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ایسا وہاں موجود بدروحوں اور آسیب کی وجہ سے ہوتا ہے۔

خودکشی کا اہم محرک زندگی سے نا اُمیدی ہے: ڈاکٹر طاہر

سینئر ماہر نفسیات ڈاکٹر طاہر پرویز سے جب رابطہ کیا گیا اور ان سے سوال کیا گیا کہ نفسیات کی رو سے خودکشی کیسا عمل ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’’دراصل ہمارے ہاں کچھ ایسی نفسیاتی بیماریاں ہیں جن میں خودکشی کے امکانات زیادہ ملتے ہیں۔ جیسے ڈپریشن‘ شرو فرینیا اور ایسی دیگر نفسیاتی بیماریاں ہیں جن میں خودکشی کے خیالات آتے ہیں اور پھر شدت اختیار کر جاتے ہیں اور انہی خیالات کے زیر ا ثر خودکشی کے واقعات بھی پیش آتے ہیں۔ ایسے لوگ عموما جذباتی ہوتے ہیں جو فوری طور پر اپنی خواہشات کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔

تو رد عمل کے طور پر وہ لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ اس میں دو ہی چیزیں کار فرما ہوتی ہیںجو فوری طور پر اپنی خواہشات کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ تو رد عمل کے طور پر وہ لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی شخصیت کے مسائل ہوتے ہیں یا پھر معاشرتی مسائل۔ ہمارے ہاں نفسیات کی کتابوں میں بھی درج ہے کہ خودکشی کرنے والوںمیں 70 فیصد ڈپریشن ‘ دس سے پندرہ فیصد شزوفرینیا کے مریض پانچ سے دس فیصد منشیات و شراب نوشی کے عادی جبکہ بقیہ سماجی وجوہات کی بنا پر ایسا کرتے ہیں ۔

عام طور پر انسان کی زندگی میں کچھ لمحات آتے ہیں جب وہ ہوپ لیس ہو جاتا ہے تو زندگی میں امید اور ناامیدی کے درمیان کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن جب آدمی ڈپریشن میں چلا جاتا ہے تو اس کی سوچوں کا ایک ہی پیمانہ اور انداز ہو جاتا ہے۔ وہ ناامید ہو جاتا ہے اور کہیں سے کوئی امید کی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ حالات کے سنورنے کی امید کھو دیتا ہے۔

اگر کسی شخص کے بارے میں ہم منفی ہی سوچتے رہیں تو اس سے د وستی تو ناممکن ہے تو ایسا شخص جو زندگی کے بارے میں مسلسل منفی خیالات کا شکار رہے اور سوچے کے مستقبل کے اچھا ہونے کا کوئی امکان نہیں تو زندہ رہنے کا کیا فائدہ ۔ جو مذہبی ذہنیت کے لوگ ہوتے ہیں وہ دعا پر یقین کرتے ہیں لیکن جو ا یسا رجحان نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں ہو گا کوئی فائدہ نہیں زندہ رہنے کا۔ یہ سوچ ان پہ اس قدر حاوی ہو جاتی ہے کہ وہ باقاعدہ پلان کرنا شروع کر دیتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے وہ اس پر عمل کر لیتے ہیں‘ کچھ بچ جاتے ہیں کچھ انہی کوششوں میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر طاہر کا مذہب اور خودکشی کے حوالے سے کہنا تھا کہ ’’اس میں دو چیزیں ہیں اگر کوئی انسان بیماری کا شکار ہے اور اسے ایسی سوچیں آتی ہیں تو یہ سمجھ لیں کہ وہ بیماری کے زیر اثر ہے ۔ ایسے میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔ کیونکہ وہ ذہنی طور پر مفلوج ہے۔

لیکن جو عام جبلت کے رویے ہیں اس میں مذہب کا بڑا کردار ہے کہ ایک آدمی سوچتا ہے یہ عمل مخلوط ہے ‘ حرام ہے‘ مجھے اس کی سزا ملے گی تو وہ خود کو روکنے کی کوشش کرتاہے۔ لیکن بیماری کے زیر اثر شخص بے اختیار ہوتا ہے۔ لیکن جیسے نمبر کم آ جائیں‘ کوئی نقصان ہو جائے تو انسان یہ سوچے کہ اللہ مدد کرے گا‘ کوئی بات نہیں دنیا مختصر ہے تو ایسے میں سوچ کا یہ پیمانہ جو مذہبی ہے اسے روکنے کا باعث بنے گا۔ عموماً نوجوان نسل میں خودکشی کا رجحان پایا جاتا ہے کیونکہ اس عمر میں ڈپریشن زیادہ ہوتا ہے جیسے پندرہ سے 25برس ا مڈل ایج کے دوران بھی ایسے امکانات زیادہ ہوتے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ’’ایسی علامات ہوتی ہیں کہ آدمی اگر دو ہفتوں تک مسلسل ادس رہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ڈپریشن کی طرف جانا شروع ہو رہے ہیں۔ کبھی کبھار ہم میں سے سب لوگ چاہتے کتنے بھی پرامید کیوں نہ ہوں اس فیز سے گزرتے ہیں جو کہ تھوڑی دیر کے لئے اداس ہونا ایک فطری سی بات ہے لیکن مسلسل دو ہفتوں تک اداسی‘ بے چینی‘ مایوسی اور پریشانی رہے‘ کھانا‘ پینا‘ سونا ہر چیز سے بیزاری ہو تو اسے کسی ماہر نفسیات کو دکھانا چاہئے۔ اگر توپرسنالٹی میں مسئلہ ہو تو وہ تھراپی سے ہی ٹھیک ہو سکتا ہے لیکن اگر بیماری ہو تو اس کے لئے دوا بھی ضروری ہوتی ہے۔‘‘

The post موت کا جنگل appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ZfaO1T
via IFTTT