نیوز روم میں بیٹھا ہفتے کے آخری شو کی ریکارڈنگ کےلیے مسودے پر کام کررہا تھا، اچانک اسلام آباد بیورو سے خبر موصول ہوئی کہ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اضافہ اس قدر زیادہ تھا کہ خبر پر یقین نہیں ہورہا تھا۔ وزارت پٹرولیم میں موجود ذرائع سے خبر کی تصدیق کی۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ وقت میں پریس ریلیز جاری کردی جائے گی۔ ابھی پروگرام کے پہلے حصے کا مسودہ ریکارڈنگ کےلیے بھجوایا ہی تھا کہ وزارت خزانہ کی جانب سے پریس ریلیز موصول ہوگئی، جس میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے اور روپے کی گرتی ہوئی قدر کو بنیاد بنا کر تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی اطلاع دی گئی تھی۔ اس کے باوجود اتنا بڑا اضافہ میرے لیے ناقابل یقین تھا۔ کیوں نہ ہو میرا وزیراعظم انتہائی غریب پرور ہے۔ جن کی ہر بات میرے لیے حرف آخر ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے ایک دن قبل قومی اسمبلی میں دھواں دار خطاب کیا۔ اپنی بائیس ماہ کی کارکردگی بتائی۔ قوم کو احساس دلایا کہ سب سے زیادہ غریب کا درد انہیں ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ وزیراعظم تو قوم کا باپ ہوتا ہے۔
محترم عمران خان جس وقت یہ الفاظ ادا کر رہے تھے، عین اسی لمحے میں اپنے دفتر میں بیٹھا پروگرام کے مسودے پر کام کر رہا تھا۔ میرے ذہن میں تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے قبل دودھ کی قیمت اور موجودہ نرخ گردش کرنے لگے۔ میں چینی کی مہنگائی پر غور کرنے لگا۔ میں سوچنے لگا کہ جو ملک نئے پاکستان سے قبل گندم کے ذخیرے میں سرپلس تھا، نئے پاکستان میں اسی ملک میں گندم درآمد کی جائے گی۔ گھی، چاول، دالیں، سبزیاں، بجلی اور گیس کے بل الغرض بنیادی ضروریات زندگی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں مجھے کرب میں مبتلا کررہی تھیں۔ ان تمام اشیا کا بالواسطہ اور بالواسطہ تعلق ملک میں تیل کی قیمتوں سے ہوتا ہے۔ کسی بھی جگہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور کمی براہ راست مہنگائی پر اثر انداز ہوتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے سال 2020 کے بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کےلیے کوئی بھی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا۔ دعویٰ کیا کہ حکومت اپنے اخراجات کم کرے گی اور ملک میں نان ٹیکس ریونیو کلیکشن میں اضافہ کرے گی۔ تحریک انصاف کے کارکنان نے تو اس پر خوب شادیانے بجائے مگر میں بھی اس معاملے پر خاموش نہیں رہ سکا، وزیراعظم پاکستان کو خراج تحسین پیش کرنے لگا۔ لیکن آج جب مجھے تیل کی قیمتوں میں اضافے کی خبر موصول ہوئی تو میں نے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں کا جائزہ لیا، جو آخری سطور تحریر کرنے تک کم ہورہی تھیں۔ وزیراعظم پاکستان کے مشیر پاکستان میں تیل کی قیمتوں کا برصغیر میں آئل پرائسز سے تقابلی جائزہ لے رہے تھے۔ میرے لیے تیل کی قیمتوں میں تقریباً 26 روپے اضافہ ہضم کرنا مشکل ہورہا تھا، سو میں نے قیمتوں میں اضافے کا نوٹس پڑھنا شروع کیا۔
نوٹیفکیشن کے مطابق ملک میں پٹرول کی بنیادی قیمت 45.86 روپے فی لیٹر ہے۔ مختلف حصوں میں پٹرول پہنچانے کےلیے اس پر 3.19 روپے فی لیٹر آمدورفت کے اخراجات یا آئی ایف ای ایم لاگت آتی ہے۔ پاکستان میں کئی غیر سرکاری کمپنیاں یا آئل مارکیٹنگ کمپنیاں موجود ہیں، جو ملک بھر میں تیل پہنچاتی ہیں۔ جنہیں وزیراعظم پاکستان آئل مافیا بھی کہتے ہیں۔ حکومت انہیں 2.81 روپے ایک لیٹر پر منافع دیتی ہے اور اس منافعے کو او ایم جی مارجن کہا جاتا ہے۔ کمپنیز ملک بھر میں موجود پٹرول پمپس تک پٹرول پہنچاتی ہیں۔ جنہیں عرف عام میں ڈیلرز کہا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان نے تیل کی بنیادی قیمت میں ڈیلرز کا مارجن 3.71 روپے رکھا ہے۔ اس طرح تیل کی بنیادی قیمت، اخراجات اور مختلف مارجن کے بعد پٹرول کی کل قیمت 55.56 روپے بنتی ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر حکومت 100 روپے سے زیادہ قیمت پر پٹرول فروخت کیوں کر رہی ہے؟ اس کو آسان الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں، لیکن یہاں آپ کو بجٹ اجلاس کے دوران حکومت کا یہ وعدہ یاد دلاتا چلوں کہ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم کوئی بھی نیا ٹیکس نہیں لگائیں گے۔ لیکن تحریک انصاف حکومت نے پٹرول کی کل قیمت میں پٹرولیم لیوی کو 30 روپے تک بڑھا دیا ہے۔
اب پٹرولیم لیوی کی کہانی سناتا چلوں۔ جنوری 2019 میں پٹرولیم لیوی 8 روپے فی لیٹر تھا۔ جبکہ مئی 2020 میں پٹرولیم لیوی 15 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر 19.75 روپے کردیا گیا۔ لیکن اس مرتبہ جون 2020 میں یہی ٹیکس 30 روپے فی لیٹر تک کردیا گیا۔ یعنی صرف ڈیڑھ سال کے اندر پٹرولیم میں چار سو فیصد اضافہ کردیا گیا۔ نیا ٹیکس نہ لگانے کے دعوؤں کے باجود پٹرولیم لیوی کا ٹارگٹ 216 ارب سے بڑھا کر 450 ارب کردینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ صرف پٹرولیم لیوی کی مد میں ہی حکومت ٹیکس وصول نہیں کرتی بلکہ فی لیٹر پٹرول پر 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس بھی وصول کیا جارہا ہے۔
حیرانگی کا عالم یہ ہے کہ حکومت کو جنرل سیلز ٹیکس 55.56 روپے پر لینا چاہیے تھا، یعنی تیل کی کل قیمت پر، لیکن تحریک انصاف کی قیمت یہ ٹیکس 85.56 روپے پر لے رہی ہے، یعنی پٹرولیم لیوی پر جنرل سیلز ٹیکس عوام سے وصول کیا جارہا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق تیل کی قیمت میں عوام 14.55 روپے جنرل سیلز ٹیکس ادا کرے گی۔
تحریک انصاف ماضی کی حکومتوں پر الزامات عائد کرکے خود کو بری الذمہ سمجھتی ہے۔ گزشتہ بلاگ میں تحریک انصاف کے 22 ماہ کے قرضوں اور گزشتہ 10 سال کے قرض پر بلاگ لکھا تھا، اب تیل کی بھی کہانی سن لیں۔ اپریل 2018 میں جس وقت عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 72 ڈالر فی بیرل تھی، تب پاکستان میں پٹرول 88 روپے فی لیٹر فروخت ہورہا تھا۔ اب یعنی جون 2020 میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمت 41 ڈالر فی بیرل ہے، پاکستان میں پٹرول 100 روپے اور ڈیزل 101 روپے فروخت ہورہا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا ہے کہ حکومت نے مافیا کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی تیل کی قیمتوں میں اضافے سے او ڈی سیز کو فائدہ پہنچا ہے؟
آئل کمپنیر کا موقف ہے کہ حکومت نے تیل کی قیمتیں دیر سے کم کیں، اس وقت عالمی منڈی میں تیل کے نرخ بڑھ چکے تھے، بعد ازاں مہنگا تیل انہیں سستے داموں فروخت کرنے کو کہا گیا۔ یہی نہیں حکومت نے کورونا وبا کے باعث تیل کم مقدار میں منگوایا، جس کی وجہ سے تیل کا بحران پیدا ہوا تھا۔ اب سوائے اس کے کہ حکومت نے مہینہ ختم ہونے سے تین روز قبل تیل کی قیمتیں بڑھا کر کمپنیز کو منافع دیا ہے، کوئی بھی دلیل مانی نہیں جاسکتی۔
حکومت نے تیل کی قیمتیں بڑھا کر مافیا کو فائدہ دینے کے بجائے صرف اپنے اخراجات چلانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن سوال پھر وہی ہے کہ عالمی اداروں کی امداد، عالمی دنیا سے قرض اور قوم سے ٹیکس در ٹیکس پیسے وصول کیے جارہے ہیں، مگر یہ پیسے جا کہاں رہے ہیں؟ ان کا فائدہ عوام تک کیوں نہیں پہنچ رہا؟ کیا وزیراعظم عمران خان اپنے ساتھیوں کو راضی کرنے کےلیے عوامی پیسے کا استعمال کررہے ہیں؟ ایسے اَن گنت سوالات ہیں جن کے جواب آنے والا وقت ہی دے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post تیل کی دھار اور سیاسی بخار appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Ze700S
via IFTTT
No comments:
Post a Comment