تاریخ کا دھارا بدلنے والی شخصیات کے حالات زندگی میں ایک قدر مشترک پائی جاتی ہے اور وہ ہے اصولوں کی خاطر کٹ جانا۔ یہی وہ ادائے دلبری ہے جس کی جلد یا بدیر پہچان امریکی جیلوں میں بند میلکم ایکس، افریقہ میں نسلی امتیاز کے خلاف لڑنے والے نیلسن منڈیلا، سوشلسٹ چی گویرا اور پاکستان کے واحد صادق اور امین سیاستدان عمران خان کو عوام اور اقوام عالم کی نظروں میں خاص بنا دیتی ہے۔
اگرچہ یہ تمام رہنما حالات کی چکی میں یکساں طور پستے رہے ہیں، لیکن… اول الذکر تمام رہنماؤں اور عمران خان میں بڑا فرق فی البدیہہ فن تقریر کا ہے۔ جو کام بڑے بڑے لیڈر شبانہ روز محنت کے باوجود نہ کرسکے کپتان نے وہ کام محض دو تقریروں سے کر دکھایا۔ پہلی تقریر مینار پاکستان کے مقام پر کی۔ ابھی کپتان اسٹیج سے نیچے نہیں اترے تھے کہ قوم اپنے مسیحا کو پہچان گئی۔ جو جس حال میں تھا، کوئی بیٹھا تھا کھڑا، زمین پر تھا خلا میں، نیند میں یا بیداری کی حالت میں، وہیں فیصلہ کر بیٹھا کہ ’’ڈٹ کے کھڑا ہے اب کپتان، نیا بنے گا پاکستان‘‘۔
دوسرا موقع وہ تھا جب کپتان نے اقوام متحدہ میں عالمی ضمیر پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ اب ایک طرف اصول پسند کھڑے تھے جو کپتان کی چشم کشا تقریر سن کر عالمی جبر کو مسترد کرچکے تھے اور دوسری طرف رواتی ڈھیٹ ٹولہ تھا جو کسی طور بھی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ یعنی تقریر کرنے کے چند گھنٹوں بعد کپتان خلا میں گھور رہا تھا کہ تالیاں بجانے والے کہاں گئے؟
مسندِ اختیار سنبھالنے کے بعد خان نے ایک مرتبہ پھر اپنے عزم کا اعادہ کیا کہ وہ خدا نخواستہ خودکشی کرلے گا لیکن بیرونی قرضے نہیں لے گا۔ وہ تو آئی ایم ایف، اماراتی اور سعودی شہزادے نے ضد کرکے چند ٹکے کپتان کی زنبیل میں ڈال دیے۔ خان صاحب مہمانوں کو ایئرپورٹ چھوڑنے گئے تو پیسے گاڑی کی ڈگی میں رکھ لیے کہ مناسب موقع دیکھ کر واپس کردیں گے۔ لیکن خان صاحب کی بطور ڈرائیور عمدہ کارکردگی پر مہمانوں نے اتنی تعریف کی کہ پیسے لوٹانا بھول گئے۔
اگلے مرحلے میں خان صاحب کرپٹ اپوزیشن پر چڑھ دوڑے۔ جن لوگوں نے منی لانڈرنگ اور بدعنوانیوں سے ملک کو کنگال کر رکھا تھا انہیں ایسی سخت سزائیں دی کہ دنیا لرز اٹھی۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق شریف خاندان اور پیپلز پارٹی کے بڑوں سے ایک ایک ٹکے کا حساب لیا جاچکا ہے۔ ہزاروں ارب ڈالر کی ریکوری سے ملکی خزانے لبا لب بھر چکے ہیں، جبکہ بدعنوان سیاست دان بہادر شاہ ظفر کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ یہ خان صاحب کی اصول پسندی ہی تھی جس نے سسلین مافیا پر ہاتھ ڈالا، وگرنہ ستر سال ہر کوئی ان عناصر کے خلاف کارروائی کرنے سے کتراتا ہی نہیں بلکہ باقاعدہ گھبراتا تھا۔
اس دوران خان صاحب نے غیر تو ایک طرف اپنوں کو بھی نہیں بخشا۔ کئی ایک وزرا کو برطرف کیا گیا۔ اگرچہ وہ وزیر ایک ایک کرکے واپس آ چکے ہیں لیکن جس دن ٹی وی دیکھ کر خان صاحب کو ایسے وزرا کی واپسی کا پتہ چلے گا، ان پر زمین تنگ ہوجائے گی۔
کورونا کی وبا نے سر اٹھایا تو ساتھ ہی منافع خور حرکت میں آگئے۔ پہلے مارکیٹ سے ماسک غائب ہوئے، آہستہ آہستہ کافر وائرس کے علاج میں مفید ادویات ناپید ہوتی گئیں۔ لیکن داد دینا پڑے گی خان صاحب اور حکومتی مشینری کو جو ان کے ماتھے پر ذرا سی شکنیں پڑی ہوں۔ ٹریک ریکارڈ اچھا تھا لہٰذا اس بار بھی ریاستی مال سود سمیت واپس لے لیا گیا اور مفاد پرست ٹولہ اپنے سیاہ کرتوتوں کے باعث کالے پانیوں کی جیلوں میں سڑ رہا ہے۔
آٹا اور چینی بحران پر جس خوش اسلوبی سے قابو پایا گیا وہ تو پوری دنیا کےلیے مثال ہے۔ عمران خان کے دیرینہ ساتھی اور پی ٹی آئی کے بچھڑے ہوئے کنبے کو جہاز کے ذریعے ملانے والے ترین صاحب تو شرم کے مارے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نامعلوم مقام پر منتقل ہوچکے ہیں۔
سب سے آخر میں ذکر ہوجائے اس چھکے کا جو خان صاحب نے پٹرول مافیا کے خلاف لگایا ہے۔ یہ چھکا بھارت کے خلاف جاوید میانداد کے ہاتھوں شارجہ کے گراؤنڈ میں چیتن شرما کو لگنے والے چھکے سے بھی بڑا ہے۔ خان صاحب نے پاکستانی عوام کو ایشیا میں سب سے سستی پٹرولیم مصنوعات کا تحفہ دیا۔ لیکن مافیا نے مارکیٹ میں تیل کی مصنوعی قلت پیدا کردی۔ اب خان صاحب نے اس مافیا کے دانت کھٹے کرنے کی ٹھان لی۔ تمام کمپنیوں کا ریکارڈ منگوایا گیا، سخت آرڈر جاری کیے گئے اور پھر سزا کے طور پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پچیس سے تیس فیصد کا اضافہ کردیا گیا۔ یہ ایسا دور اندیشی پر مبنی فیصلہ تھا جس نے پٹرول پمپ مالکان کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا ہے۔ اصولی فیصلے کی وجہ سے ملک کے کونے کونے میں نایاب ہونے والا پٹرول یکایک وافر مقدار میں موجود ہے۔
مشیروں کا کہنا ہے کہ خان صاحب آئندہ بھی اپنے اصولوں پر کاربند رہیں گے اور ملکی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونے دیں گے۔ اس لیے ہمیں کہنا پڑے گا کہ بے شک پہلے دن کی طرح عمران خان ڈٹ کے کھڑا ہے۔ پرانے پاکستان کی لاقانونیت کی تمام روایات دم توڑتی جارہی ہیں اور نئے پاکستان کی منزل بہت قریب ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post نہ جھکنے والا، نہ بکنے والا، اصول پسند کپتان appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/3dJ5eKn
via IFTTT
No comments:
Post a Comment